تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219001 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیت ۳۵

( إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيراً )

يقينا تو ہمارے حالات سے بہتر باخبر ہے (۳۵)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے اور اپنے خاندان كى خصوصيات كے بارے ميں خداتعالى كى گہرى آگاہى كو بيان كر كے اپنے آپ كو خداتعالى كى خواہشات كو قبول كرنے والا اور اسكے انتخاب پر راضى قرار ديا _إنّك كنت بنا بصير

''نا'' سے مراد ہے حضرت موسى (ع) اور انكے اہل و عيال ہيں كہ جن ميں حضرت ہارون بھى شامل ہيں _ حضرت موسى ،(ع) جناب ہارون كيلئے وزارت كى تجويز دينے كے بعد عرض كرتے ہيں _ خداوندا تو مجھے اور ميرے خاندان كو خوب جانتا ہے

اور ميرے بھائي ہارون كى خصوصيات سے بھى آگاہ ہے _ يہ ميرى درخواست ہے ليكن تيرا فيصلہ جو بھى ہو مكمل بصيرت اور آگاہى پر مبنى فيصلہ ہوگا _

۲ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى رسالت كے امور كے بارے ميں خداتعالى كى بارگاہ ميں درخواست كرنے كے ساتھ ساتھ، خداتعالى كى مكمل آگاہى كا اعتراف كيا اور اسكے فيصلے كو دقيق اور صحيح قرار ديا _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا

۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى اور اپنے بھائي ہارون كى خداتعالى كے ذكر اور تسبيح كے ساتھ دائمى محبت كا اظہار كيا اور خداتعالى كو اس پر گواہ بنايا _إنّك كنت بنا بصيرا

ہوسكتا ہے جملہ'' إنّك ...'' ''كى نسبّحك كثيراً '' كى علت كا بيان ہو يعنى خدايا تو خوب جانتا ہے كہ ميرے اور ميرے بھائي ہارون كے كيا جذبات ہيں اور تيرى تسبيح و ذكر كے ساتھ ہميں كتنى محبت ہے پس ہارون كى وزارت كو قبول كركے ہمارے لئے زيادہ تسبيح و ذكر كا راستہ ہموار فرما _

۴ _ خداتعالى اپنے بندوں كے حالات اور انكى خوبيوں اور خاميوں سے آگاہ ہے _إنّك كنت بنابصيرا

۵ _ خداتعالى كے بندوں كے حالات سے آگاہى كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كرنا اور اس سے درخواست كرنا ايك پسنديدہ امر ہے _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا حضرت موسى (ع) نے اپنے اور ہارون كے حالات

۶۱

سے خداتعالى كى آگاہى كو ذكر كرنے كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كى اور اپنى خواہشات كو بيان كيا موسى (ع) كا يہ كام بتاتا ہے كہ خداتعالى كے سب چيزوں سے آگاہ ہونے كے باوجود اسك ى بارگاہ ميں دعا كرنا مطلوب اور كارساز ہے _

اقرار:خدا كى بصيرت كا اقرار ۲

ايمان:خدا كى بصيرت پر ايمان۱

خداتعالى :اسكى بصيرت ۴، ۵; اسكى گواہى ۳

دعا:اسكى فضيلت ۵

محبت:خدا كى تسبيح سے محبت ۳; خدا كے ذكر سے محبت ۳

عمل:پسنديدہ عمل ۵

موسى (ع) :آپكا اقرار ۲; آپكا ايمان ۱; آپكى خواہشات ۲; آپكى معنوى محبت ۳ ; آپ كا مقام رضا ۱

ہارون:انكى معنوى محبت ۳

آیت ۳۶

( قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا موسى نے تمھارى مراد تمھيں ديدى ہے (۳۶)

۱ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى تمام درخواستوں كو قبول كرليا اور انہيں شرح صدر اور روانى سے بولنے كى طاقت عطا فرمائي او رہارون كو انكا وزير قرار ديا _قال ربّ قال قد ا وتيت سؤلك يا موسى

''سؤل'' يعنى ايسى حاجت كہ جسے حاصل كرنے كيلئے انسان كا نفس حريص ہو اور اس كا آرزو سے فرق يہ ہے كہ آرزو انسان كى فكر ميں گزرتى ہے ليكن ''سؤل'' كا پيچھا كيا جاتا ہے گويا'' سؤل'' كا درجہ ہميشہ آرزو كے بعد ہوتا ہے _

۲ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى دعائيں بہت جلدى قبول ہوئيں _قال ربّ اشرح لى قال قد ا وتيت سؤلك ''ا وتيت'' فعل ماضى مجہول ہے اور اس كا

۶۲

مطلب يہ ہے كہ موسى (ع) كى دعاؤں كى قبوليت وعدے كى صورت ميں اور مستقبل سے مربوط نہيں تھى بلكہ اتنى جلدى ہوئي گويا گذشتہ زمانے ميں _

۳ _ خداتعالى نے وادى طوي( كوہ طور) ميں حضرت موسى كو انكى دعاؤں كى قبوليت سے آگاہ كيا _قد ا وتيت سؤلك

۴ _ مطالبات كے پورا ہونے كيلئے خداتعالى سے دعا اور درخواست مؤثر ہے _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) كے مطالبات كا پورا ہونا انكى بارگاہ خداوندى ميں دعا اور التماس كے بعد تھا اور اس سے خواہشات كے پورا ہونے ميں دعا كے كردار كا پتا چلتا ہے

۵ _ كوہ طور ميں وادى طوى وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسى (ع) كو شرح صدر اور روانى سے گفتگو كرنا عطا كيا گيا اور ہارون كو انكا وزير بنايا گيا _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

۶ _ حضرت ہارون (ع) كو وادى طوى ميں مقام نبوت و رسالت پر فائز كيا گيا _هرون ا خي و ا شركه فى ا مري قد ا وتيت سؤلك اگر ''ا شركہ فى أمري'' سے مراد حضرت ہارون (ع) كيلئے نبوت و رسالت كى دعا ہو تو يہ وادى طوى ميں قبول ہوئي _

۷ _ حضرت موسى (ع) ،عنايات خداوندى كا مركز _ياموسى حضرت موسى (ع) كى دعاؤں كا فوراً قبول ہوجانا اور بار بار ان كے نام كى تصريح سے انكے خداتعالى كے مورد توجہ و عنايت ہونے كا پتا چلتا ہے _

۸ _ ذمہ دار افراد كو ذمہ دارى سپرد كرنے كے ہمراہ انكى ضرورت كے وسائل فراہم كرنا بھى ضرورى ہے_

إذهب إلى ...قال ربّ ...قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) نے رسالت اور فرعون كى طرف حركت كرنے پر ما مورہونے كے بعد بارگاہ خداوندى ميں اپنى ضروريات اور خواہشات كا تذكرہ كيا_خداتعالى نے بھى اس كا مثبت جواب ديا يہ سب كيلئے درس ہے كہ اگر كسى كو ذمہ دارى دى جائے تو ضرورى ہے كہ اسكى بات سنى جائے، اس كے مطالبے پر توجہ دى جائے اور اسكى ضروريات پورى كى جائيں _خداتعالى :اسكے عطيے۱

دعا:اسكے اثرات ۴ذمہ دار افراد:انكى ضرورت پورى كرنا ۷

كوہ طور:اس كا كردار ۵، ۶لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۷

۶۳

مطالبے:انكے حاصل كرنے كے عوامل۴

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱، ۳; آپكى دعا كى جلدى قبوليت ۲; آپكا شرح صدر ۱، ۵; آپكا علم ۳; آپكيفصاحت ۱، ۵; آپ كے فضائل ۷; آپكا قصہ ۱، ۳ ; آپ كوہ طور ميں ۳، ۵

ہارون (ع) :انكے منصوب كرنے كى جگہ ۵; انكے انتخاب كى جگہ ۶; انكى نبوت ۶; انكا كردار ادا كرنا ۱; انكى وزارت ۱، ۵

وادى طوى :اس كا كردار ۵،۶

آیت ۳۷

( وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى )

اور ہم نے پر ايك اور احسان كيا ہے (۳۷)

۱ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى در خواستوں كے مطالبات كا پورا ہونا آپ پرخداتعالى كى جانب سے بھارى نعمت تھى _قدا وتيت سؤلك يا موسى و لقد مننا عليك مرة ا خرى

''منّة'' كا معنى ہے بھارى نعمت (مفردات راغب) _

۲ _ وادى طوى ميں قدم ركھنے سے پہلے بھى حضرت موسى (ع) پرخداتعالى كى توجہ و عنايت اور بھارى نعمت كا نزول ہوا تھا _و لقد مننا عليك مرة أخرى

۳ _ حضرت موسى (ع) كا ماضى ميں عظيم نعمت سے بہرہ مندہونا انكے وادى طوى ميں اپنى درخواستوں كي حتمى قبوليت كے اطمينان كا سبب تھا _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

''لقد'' كى تعبير قسم كى علامت ہے_ تاكيد كے ساتھ ماضى كے بارے ميں خبر ، مستقل سے مربوط وعدوں كى نسبت اطمينان پيدا كرنے كيلئے (ا وتيت سؤلك) ہے_

۴ _كوہ طور ميں حضرت موسى (ع) كو جو نعمت عطا كى گئي وہ اس گراں قدر نعمت كے ہم پلہ تھى جو سابقہ زمانے ميں انہيں عطا ہوچكى تھى _و لقد مننا عليك مرةا خرى

۵ _ ماضى و حال كى نعمتوں كو ہميشہ خداتعالى كى منشا سے وابستہ سمجھنا ضرورى ہے _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

۶۴

خداتعالى :اسكى مشيت كے اثرات ۵

لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲ ، ۳

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱; آپكى دعا كى قبوليت كى وجوہات ۳; آپكے فضائل ۲، ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۴; آپ كى نعمتيں ۱، ۳، ۴

نعمت:اسكے درجے ۱، ۳، ۴; يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۲، ۳، ۴

يادكرنا:منعم كو يادكرنا ۵۵

آیت ۳۸

( إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى )

جب ہم نے تمھارى ماں كى طرف ايك خاص وحى كى (۳۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ، خدا كى جانب سے وحى اور پيغام وصول كرتى تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك

ممكن ہے ''وحي'' سے مرادخداتعالى كا حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ بات كرنا ہو اور ممكن ہے اس سے مراد الہام ہو حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ خداتعالى كے بعض وعدے كہ جن كا ذكر سورہ قصص ميں آيا ہے پہلے معنى كے ساتھ زيادہ سازگار ہيں _

۲ _ بچپن سے ہى خداتعالى كى خصوصى عنايات حضرت موسى (ع) كے شامل حال تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو وحى اور پيغام اسكى حضرت موسى (ع) پر عظيم نعمتوں ميں سے تھا _و لقد مننا إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

''اذ'' ظرف ہے ''مننا'' كيلئے يعنى سابقہ آيت ميں ...مذكور نعمت اس وقت تھى _

۴ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ كى ان معلومات تك دسترسى جو ان تك پہنچائي گئيں وحى الہى كے علاوہ كسى اور راستے سے ممكن نہيں تھى _ما يوحى

''مايوحى '' (جو وحى كيا جاتا ہے) سے مراد وہ امور ہيں جنكى قاعدتاً وحى كى جائي ہے ورنہ خود انسان ان تك نہيں پہنچ سكتا_

۶۵

۵ _ بيٹے كى عظمت ماں كے مقام كى بلندى كا سبب ہے_إذ ا وحينا إلى ا مك

حضرت موسى (ع) كى والدہ كو جو كچھ بتايا گيا اسكے محتوا سے پتا چلتا ہے كہ اصلى ہدف حضرت موسى (ع) كى حفاظت تھا اگر چہ فطرى طور پر اس سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو بھى سكون ملا_ پس مادر موسى كى وحى الہى تك دسترسى كا سبب حضرت موسى (ع) كى عظمت ہے _

۶ _ حضرت موسى (ع) كى جان كى حفاظت اور انكى والدہ كى پريشانى كو دور كرنا خداتعالى كى تدبير سے ہوا_

إذ ا وحينا إلى ا مك

خداتعالى :اسكى تدبير ۶

بيٹا:اسكے مقام كا كردار ۵

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

والدہ:اسكے مقام كا سرچشمہ ۵

موسى (ع) :آپكى والدہ كى پريشانى كو دوركرنا ۶; آپكے فضائل ۲، ۳; آپكا بچپن ۲; آپكى حفاظت ۶; آپكى نعمتيں ۳; آپكى والدہ كى طرف وحى ۱، ۳، ۴

نعمت :اسكے درجے ۳; يہ جنكے شامل حال ہے ۳

وحي:اس كا كردار ۴

آیت ۳۹

( أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي )

كہ اپنے بچہ كو صندوق ميں ركھ دو اور پھر صندوق كو دريا كے حوالے كردو مو جيس اسے ساحل پر ڈال ديں گى اور ايك ايسا شخص سے اٹھالے گا جو ميرا بھى دشمن ہے اور موسى كا بھى دشمن ہے اور ہم نے ت پر اپنى محبت كا عكس ڈال ديا تا كہ تمھيں ہمارى نگرانى ميں پالاجائے (۳۹)

۱ _ پيدائش كے وقت اور بچپن سے ہى فرعونيوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى جان كو خطرہ تھا _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليمّ

حضرت موسى (ع) كى والدہ كا اپنے بيٹے كو سمندر ميں پھينكنے كا حكم وصول كرنا اس زمانے كے حالات كے سخت ہونے

۶۶

اور حضرت موسى (ع) كى جان كو لاحق خطرے كى علامت ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو حكم ديا كہ وہ موسى (ع) كو صندوق ميں ڈال كر دريائے نيل ميں پھينك ديں _ا ن اقدفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم ''قذف'' كا معنى ہے پھينكنا (مقاييس اللغة) اور ''اقذفيہ'' جو موسى (ع) كو صندوق ميں ڈالنے ميں بھى استعمال ہوا ہے اور پھر صندوق كو پانى ميں پھينكنےميں بھى بتاتا ہے كہ موسى (ع) كو اس طرح صندوق ميں قرار دينا اور پھر پانى ميں پھينكنا ضرورى ہے كہ ہر ديكھنے والا يہ سمجھے كہ اسے دور پھينك ديا گياہے ''تابوت'' يعنى صندوق (نہايہ ابن اثير) ''يمّ'' يعنى سمندر اور آيت ميں اس سے مراد دريائے نيل ہے (لسان العرب) _

۳ _ فرعون كى حكومت ميں بنى اسرائيل كى زندگى بہت دشوار تھى اور انكے لڑكوں كى جان خطرے سے دوچار تھى _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم

۴ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو اطمينان دلايا كہ دريائے نيل كا جوش مارتا پانى حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پرپھينك ديگا _فليلقه اليمّ بالساحل دريا كو حكم دياگياكہ وہ صندوق كو ساحل پر پھينك دے مجاز اور اس بات ميں مبالغہ كيلئے ہے كہ پانى كى لہروں كے ہمراہ صندوق كا ساحل تك آنا اور پھر اس كا خشكى پرپھينكا جانا يقينى ہے_

۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ گرامي، خداتعالى كے پيغام پر ايمان ركھتى تھيں اور انہيں خدا كى جانب سے حضرت موسى (ع) كى حفاظت كا اطمينان تھا _إذ ا وحينا ا ن اقذفيه ...يا خذه عدو بعد والى آيت (إذتمشى ا ختك فرجعناك إلى ا مك ) كے قرينے سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى والدہ نے وحى الہى كے محتوا پر عمل كيا اور حضرت موسى (ع) كو دريائے نيل كے سپردكرديا_ يہ كام حضرت موسى (ع) كى والدہ كے اس اطمينان كى گواہى ديتا ہے كہ موصولہ پيغام، وحى الہى تھا نيز يہ يہ اس پر انكے مكمل ايمان كى علامت ہے_

۶ _ دريائے نيل،خداتعالى كى جانب سے حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پر پھينكنے پر ما مور تھا _فليلقه اليّم بالساحل جملہ''فليلقه اليّم '' جس طرح مادرموسى (ع) كو سمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كا ساحل پر پھينكا جانا قطعى ہے اس حقيقت كو بھى بيان كررہا ہے كہ پانى امر تكوينى كے ساتھ اس كام كو انجام دينے پرما مور تھا _

۷ _ حقيقى عوامل، خداتعالى كى حكمرانى ميں ہيں اوروہ اسكے فرامين كو عملى كرنے والے ہيں _فليلقه اليم بالساحل

۸ _ جناب موسى (ع) كو پانى ميں پھينكنے سے پہلے آپ كى والدہ كو خداتعالى كى طرف سے يہ اطلاع ہوچكى تھى كہ ايك دشمن كے ذريعے حضرت موسى (ع) كو نجات حاصل ہوگى _ا وحينا يا خذه عدولى و عدوله

۶۷

۹ _ فرعون،خداتعالى اور حضرت موسى (ع) كا دشمن تھا اور موسى (ع) كو پہنچان كرا نہيں نابود كرنے كے درپے تھا _

يا خذه عدولى و عدوله فرعون كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ دشمنى وہ بھى انكى خصوصيات كے حامل بچے كى پيدائش سے پہلے بتاتى ہے كہ فوعون نے حضرت موسى (ع) كو پہچاننے كى صورت ميں انہيں قتل كرنے كا عزم كرركھا تھا_

۱۰ _ خداتعالى نے مادر موسى (ع) كى طرف جو وحى كى اس ميں خدا اور انكے بچے كے دشمن كو اس بچے كا نجات دہندہ اور اسكى كفالت كرنے والا متعارف كرايا _يا خذه عدولى و عدوله

۱۱ _ ممكن ہے دشمنان خدا بھى با دل نخواستہ خدا كے محبوب بندوں كے فائدے كيلئے كام كريں _يا خذه عدولى و عدوله

۱۲ _حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں دريائے نيل پانى سے پر تھا اور فرعون كى رہائش گاہ سے زيادہ دور نہيں تھا _

فليقه اليّم بالساحل يا خذه عدولي ''يَمّ'' كا معنى ہے سمندر اور دريا كو سمندر كہنا اس ميں پانى كى كثرت سے حكايت كرتا ہے _

۱۳ _ خداتعالى نے اپنى جانب سے حضرت موسى (ع) كو خصوص محبوبيت عطا فرما كر انہيں ہر ديكھنے والے كى نظر ميں محبوب بناديا _وا لقيت عليك محبة منّي ''ا لقيت'' كا ''ا وحينا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيت ميں تھا اور پھر ''محبة'' كو نكرہ لانا، جبكہ مقام مدح ہے اسكے خصوصى ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے اور ''مني'' حضرت موسى (ع) كى محبوبيت كے سرچشمے كو بيان كررہا ہے او رسمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كو عطا كردہ محبوبيت كا سرچشمہ ذات بارى تعالى تھى _

۱۴ _ فرعون اور اسكے حاشيہ نشين، موسى (ع) سے بہت محبت كرتے تھے اور انہيں دوست ركھتے تھے _والقيت عليك محبة مني

۱۵ _ خداتعالى مہر و محبت كا سرچشمہ اور اس كا عطا كرنے والا ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۶ _ دلوں ميں محبوب ہونا،خداتعالى كى عنايت اور مہربانى ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۷ _ فرعونيوں كے دلوں ميں حضرت موسى (ع) كى محبوبيت انكے خداتعالى كى مكمل نگرانى كے ساتھ رشد و تكامل كا پيش خيمہ _ولتصنع على عيني ''لتصنع'' اس چيز كى علت كو بيان كررہا ہے جو كلام كے سياق سے حاصل ہو رہى ہے يعنى''ولتصنع على عينى فعلت ذلك'' جو كچھ ميں نے انجام ديا ہے وہ اسلئے تھا كہ تو ميرى

۶۸

مكمل نگرانى كے ساتھ پروان چڑھے ''صنيع''اور'' صنيعہ''(لتصنع كامادہ اشتقاق ) اس شخص كو كہا جاتا ہے جو كسى دوسرے كا تربيت يافتہ ہو اسى طرح يہ عطا، سخاوت اور احسان كے معنى ميں بھى آيا ہے ( لسان العرب)_

۱۸ _ حضرت موسى (ع) كا دلوں اور دربار فرعون ميں محبوب ہونا انكے لئے احترام اور بڑى خدمت كا سبب بنا _و ا لقيت عليك محبة منى و لتصنع على عيني اگر ''صنيعہ'' ( لتصنع كا مادہ اشتقاق) نيكى كرنے اور كرامت كے معنى ميں ہو تو ''لتصنع'' كا مطلب يہ بنے گا ميں نے تيرى محبت دوسرں كے دلوں ميں قرار دى ہے تاكہ تو ميرى مكمل نگرانى كے ساتھ ان كا مورد احترام و اكرام قرار پائے _

۱۹ _ خداتعالى حضرت موسى (ع) كى زندگى كے آغاز سے ہى ان پر دقيق نظارت ركھتا تھا اور اس نے انكى تربيت اور رشد و تكامل كے ذرائع فراہم كرركھے تھے _ولتصنع على عيني

''على عيني'' ميں ''عين'' سے مراد اس كا مجازى معنى يعنى نگرانى ہے اور ''علي'' دلالت كرتا ہے كہ نظارت الہى ايسى بنياد ہے كہ جس پر حضرت موسى (ع) كى تربيت اور احترام استوار تھے_

۲۰ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى خداتعالى كى طرف سے انبياء كى زندگى كے آغاز سے ہى انكى پرورش پر نظارت كا ايك نمونہ _و لتصنع على عيني

۲۱ _ بچپن ہى ميں حضرت موسى (ع) كو پانى ميں پھينك كر انكى جان بچانا، فرعونيوں كے دلوں ميں انكى محبت ڈالنا اور انكى تربيت اور نشو و نماپر نظارت،خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) پر گراں بہا نعمتيں _

مننا عليك مرة ا خرى ا ن اقذفيه و لتصنع على عيني

۲۲ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: ا نزل الله على موسى التابوت و نوديت ا مه ضعيه فى التابوت فاقذفيه فى اليم و هو البحر; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى نے حضرت موسى (ع) پر تابوت نازل كيا

۶۹

اور انكى والدہ كو ندا دى كہ انہيں تابوت ميں ركھ كردريا ميں ڈال ديں _(۱)

۲۳ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: كان موسى لا يراه ا حد إلا ا حبه و هو قول الله : '' و ا لقيت عليك محبّة منّى ...'' ;امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ حضرت موسى (ع) اس طرح تھے كہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا مگر يہ كہ ان سے محبت كرنے لگتا تھا اور خداتعالى كے فرمان ''والقيت عليك محبة مني'' سے مراد يہى ہے_(۲)

انبياء:انكى تربيت ۲۰//بنى اسرائيل:يہ فرعون كے زمانے ميں ۳; انكى تاريخ ۳; انكى معاشرتيمشكلات ۳جھكاؤ:حضرت موسى (ع) كے طرف جھكاؤ ۱۴

خداتعالى :اسكے اوامر ۲; اسكى تعليمات۰ ۱; اسكے دشمن ۹، ۱۰، ۱۱; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷; اسكى نظارت ۱۹، ۲۰; اس كا كردار ادا كرنا ۱۵ظخدا كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۶

خدا كے محبوب لوگ:انكے مفادات۱۱ظدريائے نيل:اس كا مطيع ہونا ۶; اسكى تاريخ ۱۲; يہ موسى كے زمانے ميں ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

روايت :۲۲، ۲۳ظقدرتيعوامل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى دشمنى ۱، ۹; اس كا ظلم ۳; اسكى محبت ۱۴فرعون كے حاشيہ نشين لوگ:انكى محبت ۱۴

محبت:اس كا سرچشمہ ۱۵، ۱۶موسى (ع) :آپكى محبوبيت كے اثرات ۱۷، ۱۸; آپكى والدہ كا اطمينان ۴،۵; آپكا دريائے نيل ميں امن ۴; آپكى والدہ كا ايمان ۵; آپكى تربيت ۲۱; آپكى كفالت ۱۰; آپكى والدہ كى شرعى ذمہ دارى ۲; آپكے دشمن ۱، ۸، ۹، ۱۰; آپكى نشو و نما كا پيش خيمہ ۱۷، ۱۹; آپكا صندوق ۶; آپكى ماں كا علم ۸; آپكے احترام كے عوامل ۱۸; آپكے فضائل ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳; آپكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۸، ۲۰، ۲۲; آپكى نگرانى ۴، ۵، ۱۷، ۱۹، ۲۱; آپكى محبوبيت ۲۱، ۲۳; آپكا تربيت كرنے والا ۱۹; آپكى محبوبيت كا سرچشمہ ۱۳; آپ ساحل نيل پر۴، ۶; آپ نيل ميں ۲; آپكو نجات دينے والا ۱۰; آپكى نجات ۸; آپكے صندوق كا نازل ہونا ۲۲; آپكى نعمتيں ۲۱; آپكى والدہ كو وحى ۱۰، ۲۲

نعمت :اسكے درجے ۲۱

وحي:اس پر ايمان لانے والے ۵

____________________

۱ ) تفسيرقمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷ _ظ ۲ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷_

۷۰

آیت ۴۰

( إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْساً فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُوناً فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى )

اس وقت كو ياد كرو جب تمھارى بہن جارى تھيں كہ فرعون سے كہيں كہ كيا ميں كسى ايسے كاپتہ بتاؤں جو اس كى كفالت كرسكے اور اس طرح ہم نے تم كو تمھارى ماں كى طرف پلٹاديا تا كہ ان كى آنكھيں ٹھنڈى ہوجائيں اور رنجيدہ نہ ہوں اورتم نے ايك شخص كو قتل كرديا تو ہم نے تمھيں غم سے نجات دے دى او رتمھارا باقاعدہ امتحان لے ليا پھر تم اہل مدين ميں كئي برس تك رہے اس كے بعد تم ايك منزل پر آگئے اے موسى (۴۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى پيدائش كے وقت انكى ايك بڑى اور رشيدہ بھى تھيں _إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم

موسى (ع) كا پيچھا كرنا، دربار ميں نفوذ اور دايہ كى پيشكش ان سب سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن اس عمر ميں تھيں كہ ان كاموں اور حيلوں كے سلسلے ميں نہ صرف وہ جسمانى اور فكري

توانمندى سے بہرہ مند تھيں بلكہ انكى بات جاتى سنى اور قبول كى جاتى تھى _

۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن اپنے چھوٹے بھائي كے دريائے نيل ميں پھينكے جانے سے مطلع اور اس كى وجہ سے پريشان تھيں اور قدم بقدم انكے صندوق كا پيچھا كررہى تھيں _

إذ تمشى ا ختك فتقول

حضرت موسى (ع) كى بہن كا انكے پيچھے پيچھے حركت كرنا بتاتا ہے كہ وہ حضرت موسى (ع) كے واقعے ، انكے پانى ميں پھينكے جانے اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات سے اجمالى طور پر مطلع تھيں _

۷۱

۳ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے اس وقت تك انكا پيچھا كيا جب تك انہيں پانى سے نجات نہ ملى اور جب تك اس نے فرعون كے درباريوں كو موسى (ع) كيلئے دايہ تلاش كرنے كيلئے انكى كوشش كا مشاہدہ نہيں كيا_إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم ''هل ا دلكم'' كا ظاہر يہ ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو موسى اخذ كرتے ہوئے ديكھا اور درباريوں كے پاس جاكر بدون واسطہ انہيں اور جو لوگ دايہ كى تلاش ميں تھے اپنى پيشكش سے آگاہ كيا _

۴ _ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى حفاظت اور نگہداشت كاعزم كرليا_هل ا دلكم على من يكفله

دايہ كيلئے تلاش اور كوشش سے پتا چلتا ہے كہ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى نگہدارى كا عزم كرليا _

۵ _ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت ، خوراك اور ديكھ بھال كے سلسلے ميں دربار فرعون مشكل سے دوچار ہوا _

هل ا دلكم على من يكفله ''هل ا دلكم'' سے پتا چلتا ہے كہ دربار فرعون حضرت موسى (ع) كيلئے دايہ اور سرپرست كى تلاش ميں تھا_ حضرت موسى (ع) كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنا بتاتا ہے كہ كسى دربارى كو اس سلسلے ميں كاميابى نہيں ہوئي تھى اور وہ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت اور خوراك كے سلسلے ميں پريشان تھے_

۶ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كے سامنے اظہار كيا كہ وہ مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے آمادہ ہيں _

هل ا دلكم على من يكفله ''كافل'' اسے كہاجاتا ہے جو كسى كے امور كى انجام دہى كو اپنے ذمے لے (مقاييس اللغة) _

۷ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے اپنى آمادگى كا مكرر اظہار كيا _

فتقول هل ا دلكم فعل مضارع ''تقول'' گذشتہ زمانے ميں كام كے استمرار پر دلالت كررہا ہے _

۸ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے جس دايہ كى پيشكش كى تھى درباريوں نے اسے قبول كرليا _

هل ا دلكم على من يكفله فرجعنك إلى ا مك ''فرجعناك'' ميں ''فا'' فصيحہ ہے يعنى ان محذوف جملوں سے حكايت كرتى ہے كہ جو حضرت موسى كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنے پر دلالت كرتے ہيں _

۹ _حضرت موسى كى بہن زيرك اور راز دار تھيں _هل ا دلكم على من يكفله

۱۰ _ فرعونيوں نے حضرت موسى (ع) كو انكى والدہ كے سپرد كيا اور وہ انہيں اپنے گھر لے گئيں _فرجعناك إلى ا مك

موسى (ع) كا اپنى ماں كے پاس واپس آنااس طرح ہے كہ انكى والدہ انہيں اپنے ہمراہ لے گئي ہوں نہ اس طرح كہ انكى نگہداشت كيلئے دربار ميں گئي ہوں _

۷۲

۱۱ _ حضرت موسى (ع) بچين سے ہى اپنى والدہ كے زير كفالت تھے _على من يكفله

۱۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن كا انہيں انكى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر كردار تھا _إذ تمشى ا ختك فرجعنك إلى ا مك حضرت موسى (ع) كى بہن اور انكى كوشش كو ياد كرنا انكے حضرت موسى (ع) كو اپنى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر اور كارساز كردارسے حكايت كرتا ہے_

۱۳ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ اپنے بيٹے كے نامعلوم انجام پر نظريں لگائے ان كى دورى كى وجہ سے پريشان تھيں _

كى تقرعينها ولا تحزن آنكھ كا سكون اس شديد غم كے دور ہونے سے كنايہ ہے كہ جو آنكھ كو ايك طرف خيرہ كرديتا ہے يا اسے مسلسل دائيں بائيں پھيرتا ہے _

۱۴ _ موسى (ع) كے دوبارہ ديدار نے انكى والدہ كى آنكھوں كو نور اور سكون بخشااور انكے غم و اندوہ كو دور كرديا _

فرجعنك إلى ا مك كى تقر عينها و لا تحزن ''قرة العين'' يا تو ''قرار''سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے سكون پكڑنا اور يا ''قرّ'' سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے ٹھنڈاہونا كہ جو گرم آنسوؤں كے ركنے كا نتيجہ ہوتا ہے بہرحال يہ تعبير اس شادمانى سے كنايہ ہے جو آنكھ كو پريشان ہونے اور اسے دائيں بائيں پھرنے سے دور ركھتى ہے اور غم و اندوہ كے جلا دينے والے آنسوؤں كو روكتى ہے _

۱۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ خداتعالى كے ہاں خاص مقام و مرتبہ ركھتى ہيں _فرجعنك إلى ا مك كى تقرعينها و لا تحزن

۱۶ _ ماں كى سرپرستى بچے كى تربيت كيلئے مناسب ترين حالات فراہم كرتى ہے _ولتصنع على عينيإذ تمشى فرجعنك إلى ا مك

۱۷ _ حضرت موسى (ع) كا آغوش مادر ميں پلٹ آنا خداتعالى كى دقيق نظارت ميں انكى پرورش اور نشو ونما كا مناسب ذريعہ _و لتصنع على عينى إذ تمشى ...فرجعنك ''اذ تمشي'' ميں ''اذ'' ممكن ہے ''لتصنع'' كيلئے ظرف ہو اس صورت ميں ''اذ'' كے بعد والے جملے موسى (ع) كے بارے ميں صنع الہى كے وقوع پذير ہونے كے ظرف كو بيان كررہے ہيں _

۱۸ _ حضرت موسى (ع) نے كوہ طور ميں وحى كو دريافت كرنے اور مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے ايك شخص كو قتل كيا تھا _وقتلت نفس يہ آيت كريمہ مصر ميں ايك قبطى شخص كے قتل كو بيان كررہى ہے كہ جو حضرت موسى (ع) كے ہم مذہب شخص كے ساتھ جھگڑ رہا تھا اور حضرت موسى (ع) نے اسے قتل كرديا تھا ليكن اسكے رد عمل كى فكر آپ كو

۷۳

آسودہ خاطر نہيں ہونے دے رہى تھى يہاں تك كہ آپ مصر سے بھاگ نكلے اور مدين پہنچ كر آپ سے خطرہ ٹلا اور غم و اندوہ دور ہوئے _

۱۹ _ قتل كا ارتكاب، حضرت موسى (ع) كى پريشانى اور ان كے غم و اندوہ ميں مبتلا ہونے كا سبب بنا _

و قتلت نفسا فنجينك من الغم حضرت موسى (ع) كا غم واندوہ ان كے واقعہ قتل اور فرعونيوں كى طرف سے خطرہ محسوس كرنے كے بارے ميں پريشانى اور اضطراب كى وجہ سے تھا _

۲۰ _ قتل كى وجہ سے حضرت موسي(ع) كو فرعونيوں كے ہاں امن نہيں تھا _فنجينك من الغم

۲۱ _ فرعونيوں كى نظر ميں قبطيوں پر بنى ا سرائيل ترجيح ركھتے تھے حتى كہ اپنے پرورش يافتہ اور محبوب جوان پر بھى _

فنجينك من الغم

۲۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو قتل كى پريشانى سے نجات بخشي_و قتلت نفسا فنجينك من الغم

۲۳ _ حضرت موسى (ع) كا قتل كے خطرناك نتائج سے رہائي پانا،خداتعالى كى جانب سے آپ پر ايك عظيم نعمت_

و قتلت نفساً فنجينك من الغم ''قتلت'' كا ''لقد مننا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيات ميں تھا اور حضرت موسى (ع) پر ولادت كى مشكلات سے رہائي والى نعمت كو ذكر كرنے كے بعد ايك اور نعمت اور احسان كو بيان كررہا ہے _

۲۴ _ انسان كا غم و اندوہ سے نجات پانا، خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے _فنجينك من الغم

۲۵ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو مدين ميں داخل ہونے سے پہلے ايك سخت آزمائش ميں مبتلا كيا _و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فتنہ''كا معنى ہے امتحان اور آزمائش (مصباح) ''فتون'' مصدر اور مفعول مطلق ہے اور كلام كى تاكيد كيلئے لايا گيا ہے اور جملہ ''فتناك فتوناً '' يعنى ہم نے تجھے خوب آزمايا_

۲۶ _ حضرت موسى (ع) كے مصر ميں ايك قبطى شخص كو قتل كرنے نے انكے خداتعالى كى سخت آزمائش ميں مبتلا ہونے كا راستہ ہموار كيا _و قتلت نفسا فنجينك من الغم و فتّنك فتون اگر ''فتناك'' كا عطف ''نجيناك'' پر ہو تو آزمائش الہى ميں حضرت موسى (ع) كا سختى جھيلنا انكے قتل كا نتيجہ تھا _

۲۷ _ مدين ميں وارد ہونے سے پہلے خداتعالى نے حضرت موسى (ع) سے متعدد آزمائشيں ليں _و فتنك فتون

ہوسكتا ہے كلمہ'' فتون'' فتنہ كى جمع ہو جيسا كہ ''كشاف'' اور ''البحر المحيط'' ميں ہے _

۲۸ _ حضرت موسى (ع) كو اپنى زندگى ميں بہت سارى سختيوں كا سامنا ہوا _وفتنّك فتون جيسا كہ بعض نے كہا ہے

۷۴

''فتون'' فتنہ كى جمع ہے اور ''فتنہ'' كا استعمال زيادہ تر شدائد اور سختيوں ميں ہوتا ہے ( مفردات راغب) _

۲۹ _ حضرت موسى (ع) كى آزمائش اور زندگى كى سختياں ان پر خداتعالى كى نعمتوں ميں سے تھيں _

چونكہ يہ آيات حضرت موسى (ع) پر خداتعالى كى نعمتوں كو شمار كررہى ہيں اور اسى كے ضمن ميں حضرت موسى كا ( آزمائش يا سختي) ميں مبتلا ہونا ذكر ہوا ہے_اس سے لگتا ہے كہ اس قسم كى سختياں اور آزمائشيں بھى خداتعالى كى نعمتوں ميں سے ہيں _

۳۰ _ زندگى كى بعض سختياں ، انسان پر خداتعالى كى نعمت اورلطف كى علامت ہيں _و لقد مننا و فتنّك فتون

۳۱ _ زندگى كے واقعات اور مشكلات خداتعالى سے مربوط اور اسكى طرف منسوب ہيں _و فتنّك

۳۲ _ فرعونيوں كے چنگل سے آزاد ہونے كے بعد حضرت موسى (ع) سختى كے ساتھ مدين پہنچے اور چند سال تك وہيں قيام پذير رہے _وفتنك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين

۳۳ _ حضرت موسى (ع) كا مدين كے لوگوں كے درميان چند سال قيام كرنا انكى آزمائش اور امتحان كا دوسرا مرحلہ تھا _

و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فلبثت'' كى فاء ممكن ہے مفصل كے مجمل پر عطف كيلئے ہو اس صورت ميں حضرت موسى (ع) كا مدين ميں قيام ''فتنة'' (سختى يا آزمائش) كا مصداق ہوگا _

۳۴ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى سختياں اور ان سے خداتعالى كى آزمائش اسلئے تھيں كہ وہ رسالت الہى كا بوجھ اٹھانے كے لئے شائستہ مرتبے پر فائز ہوسكيں _و فتّنك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

''قدر '' يعنى مطلوب حد_ يہ كلمہ اور ''مقدار'' ايك ہى معنى ميں ہيں _(لسان العرب) ''على قدر'' ''جئت'' كے فاعل كيلئے حال ہے يعنى اے موسى جب تو شائستگى اور استوارى كى لازمى حد كو پہنچ گيا تو تونے اس وادى ميں قدم ركھا _

۳۵ _ حضرت موسى (ع) كو اس وقت كوہ طور ميں خداتعالى كے ساتھ مناجات اور حكم رسالت كے د ريافت كى توفيق حاصل ہوئي جب آپ نے آزمائش الہى اور سختيوں كو جھيلنے كے مرحلے سے گزر كر لازمى لياقت كو پاليا _و فتنّك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

۳۶ _حضرت موسى (ع) كى عمر كے كئي سالوں كا مدين ميں بسر ہونا اور رسالت كيلئے لازمى لياقت كو حاصل كرلينا آپ كيلئے نعمات الہى تھيں _ولقد مننا عليك مرة ا خرى إذ تمشى ا ختك

۳۷ _ نبوت اور رسالت الہى ان لوگوں كيلئے مخصوص ہے جو اسكے لائق ہوں _ثم جئت على قدر يا موسى

۷۵

۳۸ _ حضرت موسى (ع) كى مدين سے واپسى اور كو ہ طور ميں وادى طوى ميں آنا خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديئے گئے پروگرام كے مطابق تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''قدر'' كا ايك معنى ،الہى تقدير ہے كہا گيا ہے كہ يہ كلمہ ''قدر'' كا اسم مصدر اور تقدير بنانے كے معنى ميں ہے (لسان العرب) راغب بھى كہتاہے ''قدر'' ہر چيز كا معين وقت اور جگہ ہے_

۳۹ _ انبياء كى بعثت كا وقت معين اور خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديا گيا ہے_ثم جئت على قدر يا موسى

۴۰ _ مدين ميں حضرت موسى (ع) كى لمبى عمر كا انكے رسالت كے لائق بننے كيلئے بڑا كردار تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور يہ دلالت كرتاہے كہ موسى كا كوہ طور پر آنا ان كى مدين ميں رہائش كے آغاز كافى وقت بعد تھا_

۴۱ _ خداتعالى نے كوہ طور ميں نرمى اور مہربانى كے ساتھ حضرت موسى (ع) سے بات كى _يموسى

سخن كے دوران بار بار حضرت موسى (ع) كا نام لينا خداتعالى كى آپ كے ساتھ مہربانى پر دلالت كرتا ہے _

۴۲ _'' عن محمد بن مسلم:قلت لا بى جعفر(ع) : فكم مكث موسى غائباً عن ا مه حتى ردّه الله عليها؟ قال: ثلاثة ا يام; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام باقر (ع) سے عرض كيا حضرت موسى (ع) كتنى مدت اپنى والدہ سے غائب رہے يہاں تك كہ خداتعالى نے ا نہيں انكے پاس لوٹادياتو آپ نے فرمايا تين دن(۱)

۴۳ _'' روى عن النبى (ص) ا نه قال: رحم الله ا خى موسى قتل رجلاًخطاً و كان ابن إثنتى عشرة سنة ; پيغمبر اكرم(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا خداتعالى ميرے بھائي موسي(ع) پر رحم كرے انہوں نے ايك مرد كو اس وقت غلطى سے قتل كيا جب انكى عمر بارہ سال تھى(۲) _

انبياء (ع) :انكى بعثت كا قانون مند ہونا ۳۹ // بيٹا:اسكى تربيت ۱۶

خداتعالى :اسكى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۴۱_ اسكى تقدير ۳۸; اسكى مہربانى ۴۱; اس كا نجات دينا ۲۲; اسكى مہربانى كى نشانياں ۳۰; اسكى نعمتيں ۳۰; اس كا كردار ادا كرنا ۲۴روايت: ۴۲، ۴۳

غم و اندوہ:اسكے دور كرنے كا سرچشمہ ۲۴

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۶ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۶_ /۲ ) مجمع البيان ج ۷ ص ۱۹ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۷_

۷۶

فرعون:فرعون اور موسى ۴; اس كا قصہ ۵

فرعونى لوگ:انكا نسلى امتياز ۲۱; يہ اور موسى (ع) ۱۰، ۲۰; انكى مشكلات ۵

قبطي:انہيں بنى اسرائيل پر ترجيح دينا ۲۱

ماں :اس كا كردار ادا كرنا ۱۶

مشكلات:انكا سرچشمہ ۳۱

موسى (ع) :انكے امتحان كے اثرات ۳۵; انكى واپسى كے اثرات ۱۴، ۱۷; انكے قتل كے اثرات ۱۹، ۲۰، ۲۶; انكى مشكلات كے اثرات ۳۵; انكا احساس نا امنى ۲۰; انكا امتحان ۲۵، ۲۹، ۳۳; انكى ماں كا غم و اندوہ ۱۳; انكا غم و اندوہ ۲۲; انكى واپسى ۱۰، ۳۸; انكے امتحان كا متعدد ہونا ۲۷; انكا پيچھا كرنا ۳; انكى كفالت ۱۰، ۱۱; انكى خطا ۴۳; انكى بہن ۱، ۶; انكى بہن اور فرعون كے دربارى ۷; انكى بہن كى راز دارى ۹; انكے امتحان كا پيش خيمہ ۲۶; انكى تربيت

كا پيش خيمہ ۱۷;ان كے رشد و تكامل كا پيش خيمہ ۱۷;انكى مناجات كا پيش خيمہ ۳۵; انكى نبوت كا پيش خيمہ ۳۴، ۳۵، ۴۰; انكى بہن كى صفات ۹; انكى بہن كا علم ۲; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۱۹; انكى واپسى كے عوامل ۱۲; انكى ماں كے غم و اندوہ كے دور ہونے كے عوامل۱۴; انكى پريشانى كے عوامل ۱۹; انكے فضائل ۳۶; انكے امتحان كا فلسفہ ۳۴; انكى مشكلات كا فلسفہ ۳۴; انكى بہن كى پيشكش كا قبول ہونا ۸; انكا قتل كرنا ۱۸، ۲۲، ۴۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۴، ۱۸، ۲۰، ۲۵، ۲۷، ۲۸، ۳۲، ۳۳، ۴۰، ۴۲، ۴۳; انكا بچپن ۱۱; انكى نگرانى ۴; انكى جدائي كى مدت ۴۲; انكى نگرانى كى مشكلات ۵; انكى مشكلات ۲۸، ۲۹; انكى دايہ كى پہچان كرانا ۶، ۷، ۸; انكى ماں كا مقام ۱۵; آپ كوہ طور ميں ۳۵، ۳۸، ۴۱; آپ مدين ميں ۳۲، ۳۳، ۳۶، ۴۰; آپ نيل ميں ۲; آپكے ساتھ مہربانى ۴۱; آپكى نبوت ۳۶; آپكى نجات ۲۲، ۲۳، ۳۲; آپكى نعمتيں ۲۳، ۲۹; آپكى بہن كا كردار ادا كرنا ۱۲; آپكى ماں كا كردار ادا كرنا ۱۰، ۱۱; آپكى بہن كى پريشانى ۲، ۳; آپكى پريشانى ۲۲; آپكى بہن كى ہوشيارى ۹

نبوت:اسكے شرائط ۳۷

نعمت:اسكے درجے ۲۳; اسكى مشكلات ۳۰

۷۷

آیت ۴۱

( وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي )

اور ہم نے تم كو اپنے لئے منتخب كرليا (۴۱)

۱ _ حضرت موسي،(ع) خداتعالى كے پرورش يافتہ _اصطنعتك

''اصطناع'' يعنى تربيت كرنا اور با ادب بنانا (قاموس) اور لائق بنانے ميں مبالغے پر دلالت كرتا ہے (مفردات راغب) _

۲ _ حضرت موسى (ع) كا وجود راہ خدا كيلئے وقف _لنفسي ''تجھے ميں نے اپنے لئے بنايا'' مخاطب كو اپنے لئے خالص كرنے سے كنايہ ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى سرپرستى اور نگرانى انسانوں كے درميان احكام الہى كو عملى كرنے كيلئے تھا _واصطنعتك لنفسي ''لنفسي'' كى قيد بتائي ہے كہ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى اپنے اہداف كيلئے پرورش كى تھى اور اسے اپنے آسمانى احكام كو عملى كرنے كيلئے طاقتور بنايا تھا بعد والى آيت كريمہ كہ جو فرعون كى طرف جانے كا حكم دے رہى ہے اس معنى كى شاہد ہے _

۴ _ حضرت موسى (ع) ، كو بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام حاصل تھا اور آپ مكمل طور پر خدا تعالى كيلئے مخلص تھے _

و اصطنعتك لنفسي

۵ _ خداتعالى انبياء كى پرورش اور تربيت كرنے والا ہے_واصطنعتك لنفسي

۶ _ رسالت و نبوت كے لائق ہونا،خداتعالى كيلئے مكمل خلوص كے ساتھ مربوط ہے_و اصطنعتك لنفسي

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كے آخرى حصے كى تفسير ہے اور اس قد راور ميزان كو بيان كررہى ہے كہ جس كا انبياء كيلئے حاصل ہونا ضرورى ہے اور حضرت موسى (ع) اس مقام و مرتبے پر فائز ہوكر كوہ طور پر آئے تھے_

۷ _ حضرت موسى (ع) كا كامل اخلاص ان پر خداتعالى كى ايك نعمت _و اصطنعتك لنفسي

۷۸

ہوسكتا ہے اس آيت كريمہ كا عطف '' قتلت نفساً'' جيسے جملوں پر ہو كہ جو خداتعالى كى نعمتوں او راحسانات كو بيان كرر ہے ہيں _

اخلاص:اسكے اثرات ۶

انبياء (ع) :انكا تربيت كرنے والا ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت ۱، ۵

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى اہميت ۳

موسى (ع) ;انكا اخلاص ۴، ۷; انكى شخصيت ۲; انكے فضائل ۲، ۷; انكى تربيت كا فلسفہ ۳; انكى نگرانى كا فلسفہ ۳; انكى تربيت كرنے و الا ۱; انكا مقام ۴; انكى نعمتيں ۷_

نبوت:اسكى شرائط ۶

نعمت:اخلاص والى نعمت ۷

آیت ۴۳

( اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي )

اب تم اپنے بھائي كے ساتھ ميرى نشانياں لے كر جاؤ اور ميرى ياد ميں سستى نہ كرنا (۴۲)

۱ _ ہارون، حضرت موسى (ع) كے بھائي اور رسالت الہى كى انجام دہى ميں انكے شريك _

هرون ا خي إذهب ا نت و ا خوك

۲ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) معجزات و آيات الہى كے ساتھ اپنى رسالت كى انجام دہى كيلئے حركت كرنے پر ما مور _اذهب انت و اخوك بآيا تي

۳ _ حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) كا دين عالمى تھا اور كسى ايك گروہ كے ساتھ مخصوص نہيں تھا_

پہلى اور بعد والى آيات ميں فرعون كى طرف جانے كا تذكرہ ہے ليكن چونكہ اس آيت كريمہ نے رسالت كى تبليغ كيلئے كوئي خاص مورد معين نہيں كيا اس سے احتمال ہوتا ہے كہ حضرت موسى (ع) سب كيلئے ما مور تھے اور فرعون پيغام كے پہچانے كيلئے نقطہ آغاز تھا _

۷۹

۴ _ لوگوں كى طرف حركت كرنا اور ان ميں جانا تبليغ اور رسالت كيلئے لازمى ہے _إذهب إلي إذهب ا نت و ا خوك

ان چند آيات ميں كہ جو مورد بحث ہيں فعل ''اذہب'' كا تين دفعہ تكرار ہوا ہے_ خداتعالى كے اس حكم او رتاكيد سے پتا چلتا ہے كہ تبليغ دين كيلئے بيٹھنا اور لوگوں كے جمع ہونے كا انتظار كرنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ ان كے درميان جاكر دعوت الہى كا پرچم بلند كيا جائے_

۵ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) اپنى دعوت كو انجام دينے كيلئے متعدد معجزات كے حامل تھے _اذهب ...بآيا تي ''آيات''كو جمع كى صورت ميں لانا موسى (ع) و ہارون (ع) كو عطا كئے گئے معجزات و آيات كے متعدد ہونے كى نشانى ہے_ اس تعدد كى توجيہ ميں دو احتمال ہيں _ ۱_ عصا اور يد بيضا والے معجزے اگرچہ بطور كلى دو معجزے تھے ليكن يہ متعدد معجزوں پر مشتمل تھے كيونكہ عصا كا سانپ بننا، اس كا حركت كرنا اور پھر سانپ كا عصا بننا ہر ايك الگ سے معجزہ ہے ۲_ خداتعالى نے اس تعبير كے ساتھ حضرت موسى (ع) كو وعدہ ديا ہے كہ اس كے بعد بھى انہيں معجزات عطا كريگا_

۶ _ عصا اور يد بيضا والے معجزوں كے ہمراہ حضرت موسى (ع) كو ديگر معجزات عطا كرنا خداتعالى كا كوہ طور ميں ان كے ساتھ وعدہ _*بآيا تي باوجود اس كے كہ اس وقت تك حضرت موسى (ع) كو صرف دو معجزے عطا ہوئے تھے ''آيات'' كو جمع لانا ہوسكتا ہے خداتعالى كى طرف حضرت موسى (ع) كے ساتھ ديگر معجزات عطا كرنے كا ضمنى وعدہ ہو _

۷ _ معجزہ انبيا كى نبوت و رسالت كى حقانيت كو ثابت كرنے كاايك طريقہ_إذهب ا نت و ا خوك بآيا تي

۸ _ رسالت انبياء كى نشانياں اور معجزات،خداتعالى كى طرف سے ہيں _بآيا تي

۹ _ خداتعالى كو ياد كرنا اور اسكى بات كرنا موسى (ع) و ہارون (ع) كى دعوت كا محور اور نعرہ_ولاتنيا فى ذكري

۱۰ _ ياد خدا ،رسالت كى انجام د ہى اور پيغام پہنچانے ميں سستى نہ كرنا،خداتعالى كى طرف سے موسى (ع) و ہارون (ع) كو نصيحت _ولاتنيا فى ذكري ''وني'' كا معنى ہے سستى اور كوتاہى كرنا (مصباح) ''لاتينا'' يعنى اے موسى اور ہارون ميرى ياد ميں سستى اور كوتاہى مت كرنا_ اور خداتعالى كى ياد كا لازمہ ان ذمہ داريوں كى طرف توجہ ہے جو خداتعالى كى طرف سے انكے سپردكى گئي ہيں _

۱۱ _ ياد خدا ميں سنجيدگي، اسكى طرف سے سپردكى گئي ذمہ داريوں كى طرف مسلسل توجہ اور اس ميں سستى نہ كرنے كا لازمى ہونا_ولاتنيا فى ذكري

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

۶ _ سخت دشمنى او ر شديدمخالفت، انبيا(ع) ء كے ہلاك شدہ مخالفين كى خصوصيات ميں سے تھيں _ثم صدقنا هم الوعد و أهلكنا المسرفين مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ اسراف سے مراد_ حكم و موضوع اور آيت كے مورد كے تناسب سے _ انبيا(ع) ء كى مخالفت اور دشمنى ميں حد سے تجاوز كرنا ہے نہ كہ امور مالى و غيرہ ميں اسراف

۷ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كى حوصلہ افزائي اور انہيں تسلى دينا اور مشركين كو دھمكى دينا _

ثم صدقنهم الوعد و أهلكنا المسرفين

خداتعالى كے انبيا(ع) ء اور مؤمنين كے ساتھ كاميابى اور ان كے دشمنوں كى نابودى كے وعدے كا تذكرہ ہوسكتا ہے مذكورہ نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو _

۸ _ انبيا(ع) ء كے دشمن اور مخالفين ،اسراف كرنے والے ہيں _ثم صدقناهم الوعد أهلكنا المسرفين

۹ _ اسراف كرنا، حق كو قبول نہ كرنے اور انبيا(ع) ء كى مخالفت كے اسباب فراہم كرتا ہے اور ہلاكت اور نابودى كا سبب ہے _و أهلكنا المسرفين ہلاك ہونے والوں كى ''مسرفين'' كے ساتھ توصيف ان كى ہلاكت ميں اس وصف كى تا ثير اور علت ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۱۰ _ مشركين كے خلاف كاميابي، خداتعالى كا پيغمبر(ص) اسلام كے ساتھ وعدہ _ثم صدقناهم الوعد

آيت كريمہ پيغمبر(ص) اسلام كو تسلى دينے كے مقام ميں ہے اور خداتعالى عمومى روش كو بيان كر كے (سب انبيا(ع) ء كى كاميابى كا وعدہ) در حقيقت پيغمبراكرم(ص) كو بھى كاميابى كا وعدہ دے رہا ہے _

اسراف:اسكے اثرات ۹

انبياء(ع) :ان كے دشمنوں كا اسراف ۸; ان كے دشمن۵; ان كے دشمنوں كى دشمنى ۶; ان كے ساتھ دشمنى كے عوامل ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى خصوصيات ۶; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

حق:اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۹

خداتعالى :

۳۰۱

اسكى مشيتّ كے اثرات ۴; اسكى دھمكياں ۷; اسكے وعدے ۳

دشمن:ان سے نجات كا سرچشمہ ۴; ان سے نجات ۱

مؤمنين:انكى حوصلہ افزائي ۷; انكو تسلى ۷; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى حوصلہ افزائي ۷; آپكو تسلى ۷; آپ كو كاميابى كا وعدہ ۱۰

مسرفين: ۸

انكى دشمنى ۵

مشركين:ان پر كاميابى ۱۰; انكى دھمكي۷

ہلاكت:اسكے عوامل

وعدہ:اسكى وفا، ۳

آیت ۱۰

( لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ )

بيشك ہم نے تمھارى طرف وہ كتاب نازل كى ہے جس ميں خود تمھارا بھى ذكر ہے تو كيا تم اتنى بھى عقل نہيں ركھتے ہو (۱۰)

۱ _ قرآن، آسمانى كتاب اور خداتعالى كى طرف سے نازل كى گئي ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب

۲ _ قرآن، با عظمت اور بلند مرتبہ كتاب ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب ''كتاباً '' كى تنوين تفخيم اور تعظيم پر دال ہے_

۳ _ قرآن، پيغمبراكرم(ص) كے زمانے ميں (بعثت كے پہلے نصف حصے ميں ) كتاب كے طور پر جانى پہچانى جاتى تھي_

لقد أنزلنا إليكم كتب اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كے سورہ ''انبيائ'' مكہ ميں نازل ہوئي معلوم ہوتا ہے كہ بعثت كے پہلے نصف حصے ميں قرآن كتاب كے طور پر پہچانا جاتا تھا _

۳۰۲

۴ _ قرآن، انسان كو ياد دہانى كرانے والا اور انسان كے ساتھ مربوط مسائل پر مشتمل ہے_كتاباً فيه ذكر كم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' كسى چيز كو زبان پر لانے اور ياد كرنے كے معنى ميں ہو_ قابل ذكر ہے كہ يہ معنى اسكے مشہور اور غالب معانى ميں سے ہے _

۵ _ قرآن، انسان كيلئے سبق آموز او رپند و نصيحت كا سبب ہے_كتبا فيه ذكركم

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى نصيحت اور نصيحت حاصل كرنا ہو _

۶ _ قرآن، انسان اور امت اسلامى كى شرافت و بزرگى كا سبب اور اس كا نعرہ ہے_كتبا فيه ذكركم

اہل لغت نے كلمہ ''ذكر'' كيلئے جو معانى ذكر كئے ہيں ان ميں سے شرافت ، بزرگى اور شہرت ہے (قاموس) اس بناپر ''فيہ ذكركم'' سے مراد يہ ہے كہ شرافت و بزرگى اور شہرت، قرآن كے سائے ميں اور اس پر عمل كرنے ميں ہے_

قابل ذكر ہے كہ ''ذكركم'' كى ضمير مخاطب سے مراد ہوسكتا ہے سب انسان ہوں اور ہوسكتا ہے صرف امت اسلامى ہو_ مذكورہ مطلب ميں دونوں احتمال ملحوظ ہيں _

۷ _ انسان كے فطرى اور غريزى محركات و تمايلات سے استفادہ كرنا قرآن كى تربيتى اور ہدايت كرنے كى ايك روش _

فيه ذكركم مذكورہ مطلب مندرجہ ذيل دو نكتوں پر مبتنى ہے ۱_ ذكر ثناء اور نغمے كے معنى ميں ہو _۲_ نام كے ہميشہ رہنے اور بلند شہرت كا شوق ،سب انسانوں كى طبع اور غريزے ميں ہے_

۸ _ خداتعالى ،انسان كو معارف قرآن ميں غور و فكر كرنے كى دعوت ديتا ہے اور اسكى ترغيب دلاتا ہے_أفلا تعقلون

۹ _ مشركين كا قرآن كا جھٹلانا ان كے عقل و خرد سے كام نہ لينے كا نتيجہ ہے _هم فى غفلة معرضوں لاهية قلوبهم لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۰ _ پيغمبر اكرم(ص) اور قرآن كى حقانيت تك پہنچنے ميں خردمندى اور غور و فكر كا مؤثر اور تعميرى كردار ہے_

لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۱ _ قرآن كے معارف اور تعليمات عقل و خرد كے موافق او راسكے ساتھ سازگار ہيں _لقد أنزلنا إليكم كتاباً أفلا تعقلون قرآن ميں غور وفكر كرنے كى تشويق دلانا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ يہ آسمانى كتاب محتوا كے لحاظ سے عقل و خرد كے ساتھ سازگار ہے_

۱۲ _ قرآن اپنى اور پيغمبر(ص) اسلام كى حقانيت كو ثابت كرنے كى بہترين اور سب سے زيادہ قوى دليل اور معجزہ

۳۰۳

ہے_لقد أنزلنا إليكم كتباً فيه ذكركم أفلا تعقلون

ممكن ہے يہ آيت كريمہ مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) سے اپنى حقانيت كو ثابت كرنے كيلئے معجزہ لانے كے بہانے والى درخواست كا جواب ہو يعنى اگر يہ لوگ غور كريں تو سمجھ جائيں گے كے قرآن، پيغمبر(ص) اسلام كا معجزہ ہے _ قابل ذكر ہے كہ اس حقيقت كى لام قسم اور حرف تحقيق (لقد) كے ساتھ تاكيد اسى مطلب كى تائيد كرتى ہے_

آسمانى كتب :۱

آنحضرت(ص) :آپكى حقانيت ۱۰; آپكي(ص) حقانيت كے دلائل ۱۲

تربيت:اسكى روش ۷

غور و فكر كرنا:اسكے اثرات ۱۰; اسكى تشويق ۸; يہ قرآن ميں ۸

خداتعالى :اسكى تشويق ۸

ذكر:انسان كا ذكر ۴

عبرت:اسكے عوامل ۵

عزت:اسكے عوامل ۶

غريزہ:اس كا كردار ۷

فطريات:ان كا كردار ۷

قرآن كريم:اس كا معجزہ ہونا ۱۲; اسكى تاريخ ۳; اس كى تعليمات ۴; اس كا جمع كرنا ۳; اسكى حقانيت ۱۰; اسكى حقانيت كے دلائل ۱۲; اسے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۵; اسكى عظمت ۲; اسكى تعليمات كا عقلى ہونا ۱۱; اسكى فضيلت ۴; اس كا نزول ۱; اس كا كردار ۵_ ۶، ۱۲; اس كا وحى ہونا ۱

كتاب :۳

مسلمان:انكى عزت كے عوامل ۶

مشركين:ان كے غور نہ كرنے كے اثرات ۹

ہدايت:اسكى روش ۷

۳۰۴

آیت ۱۱

( وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْماً آخَرِينَ )

اور ہم نے كتنى ہى ظالم بستيوں كو تباہ كرديا اور ان كے بعد ان كى جگہ پر دوسرى قوموں كو ايجاد كرديا (۱۱)

۱ _ خداتعالى نے بہت سے شہروں اور آباديوں كو ان كے لوگوں كے ظلم و ستم كى وجہ سے سختى كے ساتھ كچل ديا اور نابود كردياو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''قصمنا'' كے مصدر ''قصم'' كا معنى ہے سختى كے ساتھ كسى چيز كو توڑنا اس طرح كہ وہ پراكندہ اجزاء اور ٹكڑوں ميں تبديل ہوجائے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اس سے مراد نابودى اور ہلاكت ہے

۲ _ ظلم و ستم، معاشروں اور تہذيبوں كے مكمل انحطاط اورانہدام كا سبب ہے _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

''قرية'' (شہروں كے لوگ) كى ''ظالمہ'' (ستمگر) كے ساتھ توصيف نابودى اور انہدام ميں ظلم كے كردار كو بيان كررہى ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے مشركين اور ستمگر معاشروں اور مشركين كو ہلاكت اور نابودى كى دھمكى _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

۴ _ قرآن اور پيغمبر(ص) اسلام كى مخالفت اور ان كے ساتھ مقابلہ ظلم و ستم كا واضح مصداق ہے _لقد أنزلنا إليكم و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة خداتعالى نے نزول قرآن كو بيان كرنے اور لوگوں كو اس ميں غور و فكر كى دعوت دينے نيز بہت سى اقوام كو ان كے ظلم كى وجہ سے نابود كرنے كا تذكرہ كرنے كے بعد اسلام اور قرآن كے مخالفين كو عذاب اور نابودى كى دھمكى دى ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اسلام اور قرآن كى مخالفت ظلم كا واضح مصداق اور نابودى كا موجب ہے _

۵ _ ظلم، اسراف ہے اور ستمگر معاشرے مسرفين كى تاريخ كے واضح مصداق ہيں _

و أهلكنا المسرفين و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

خداتعالى نے سابقہ دو آيتوں ميں انبيا(ع) ء كے دشمنوں كو مسرفين كہا ہے (و أهلكن المسرفين ) اور اس آيت ميں بہت سارى اقوام كو كہ جو دين الہى كے ساتھ دشمنى كى وجہ سے نابود ہوئي ہيں ظالم كہا ہے ان دو آيتوں كے ارتباط سے يہ سمجھا جاسكتا ہے كہ ظالمين وہى مسرفين ہيں _

۳۰۵

۶ _ بہت سارے معاشروں كا انحطاط اور انكى نابودى ان كے لوگوں كے كردار كى وجہ سے ہوئي _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''كم قصمنا'' ميں كلمہ ''كم'' خبريہ اور كثير كے معنى ميں ہے اور قريوں اور امتوں كو ظالم كہنا ان كى ہلاكت اور نابودى كے سبب كا بيان ہے_

۷ _ خداتعالى نے ستمگر اقوام كو نابود كرنے كے بعد دوسرے لوگوں كو پيدا كيا اور ان كى جگہ پر قرار ديا_

و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين ''انشأنا'' كے مصدر ''انشائ'' كا معنى ہے كسى جاندار شے كو خلق كرنا اور اسے وجود ميں لانا اور اسكى تربيت كرنا (مفردات راغب)_

۸ _ معاشروں اور تہذيبوں كا تغير و تبدل اور دگرگونى خداتعالى كى مشيت اور ارادے كے تابع ہے _

و كم قصمنا و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ دشمنى ۴; آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ ۴

اسراف:اسكے موارد۵

اقوام:انكے متبادل لانے كا سرچشمہ ۷، ۸

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۲، ۶; ان كے ختم ہونے كا سرچشمہ ۸

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸; اسكى مشيت كے اثرات ۸; اسكے افعال ۷ ; اسكى دھمكياں ۳

شہر:انكى نابودى كے عوامل ۱

ظالم لوگ: ۵انہيں دھمكى دينا ۳; انكى ہلاكت ۷

ظلم:اسكے اثرات ۱، ۲، ۵; اسكے موارد ۴

عمل:اسكے اثرات ۶

قرآن كريم:اسكے ساتھ د شمنى ۴; اسكے ساتھ مبارزت ۴

مسرفين: ۵مشركين:ان كو دھمكى دينا ۳

ہلاكت:اسكى دھمكى ۳

۳۰۶

آیت ۱۲

( فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَرْكُضُونَ )

پھر جب ان لوگوں نے عذاب كى آہٹ محسوس كى تو اسے ديكھ كر بھاگنا شروع كرديا (۱۲)

۱ _ ستمگر اقوام اور معاشرے جب عذاب الہى كے نزول كا احساس كرتے ہيں تو بھاگ كھڑے ہوتے ہيں _

فلما أحسّوا بأسنا إذا هم منها يركضون

(يركضون كے مصدر) ''ركض'' كا اصلى معنى زمين پر پاؤں مارنا ہے اور جب اسے شخص كى طرف نسبت دى جائے تو اس سے مراد بھاگنا اور تيز چلنا ہوتا ہے_

۲ _ ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى سے پہلے عذاب كى نشانيوں او رعلامات كا ظاہر ہونا_فلما أحسّوا بأسن

مذكورہ مطلب اس نكتے پر مبتنى ہے كہ عذاب كے احساس سے مراد اسكى نشانيوں اور علامات كا مشاہدہ ہو اور اس وقت عذاب كے شكار لوگوں كا فرار كرنا اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے كيونكہ اگر وہ خود عذاب كا احساس كرتے تو بھاگنے كى فرصت اور راستہ ہى نہ ہوتا _

۳ _ عذاب ا لہى كى علامات اور نشانيوں كے ظہور كے وقت ،ستمگر معاشروں كا شديد اور ناگہانى اضطراب اور وحشت _

فلما أحسّوا إذا هم منها يركضون مذكورہ مطلب ''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع امر پر دلالت كرتا ہے_ سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ناگہانى فرار ايك قسم كے وحشت اور اضطراب كى دليل ہے_

۴ _ ستمگر معاشروں پر نازل ہونے والا عذاب تدريجى ہوتا تھا _فلما أحسّوا يركضون

اس چيز كے پيش نظر كے آيت كريمہ ميں عذاب كے شكار لوگوں كے فرار كو بيان كيا گيا ہے لگتاہے كہ عذاب كے احساس كے آغاز اور انكى نابودي_ كہ جس كا تذكرہ بعد كى تين آيتوں ميں ہے_ كے درميان فاصلہ موجود تھا _

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۱; انكا تدريجى عذاب ۴; انكى ہلاكت ۲

ظالم لوگ:

۳۰۷

انكا اضطراب ۳; انكا خوف ۳; يہ عذاب كے وقت ۱، ۳; انكا تدريجى عذاب ۴; انكا فرار ۱; انكى ہلاكت ۲

عذاب:اس سے فرار ۱; اسكى نشانياں ۲

آیت ۱۳

( لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ )

ہم نے كہا كہ اب بھاگو نہيں اور اپنے گھروں كى طرف اور اپنے سامان عيش و عشرت كى طرف پلٹ كر جاؤ كہ تم سے اس كے بارے ميں پوچھ كچھ كى جائے گى (۱۳)

۱ _ ''فرار نہ كرو اور پر آسائش زندگى كى طرف پلٹ آو'' مہلك عذاب كے نزول كے وقت خداتعالى كى ستمگر اور پر آسائش كى زندگى گزارنے والوں كے ساتھ استہزا ء والى گفتگو_لاتركضوا و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

''الترف'' كا معنى ہے صاحب نعمت ہونا اور ''الترفہ'' كا معنى ہے خود نعمت اور ''مترف'' اسے كہتے ہيں حو فراوان نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ مند ہو اس طرح كہ غرور كرنے لگے (لسان العرب) يا اس طرح ناز و نعمت ميں ہو كہ اسے كوئي روك نہ سكے اور جو اس كا دل چاہے كرے قابل ذكر ہے كہ ''لاتركضوا'' اور ''ارجعوا ...'' ميں نہى اور امرطلب حقيقى كيلئے نہيں ہيں بلكہ مجاز اور تہكم و استہزا ء كيلئے ہيں _

۲ _ ستمگر اور پرُ آسائش زندگى گزارنے والے معاشروں كا عذاب اور سزا حتمى ہے اور اس سے فرار كا كوئي فائدہ نہيں ہے _لاتركضوا و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه

۳ _ پر آسائش زندگى گزارنے والے ستمگر نزول عذاب كے وقت اپنا مال و متاع اور گھر چھوڑ كر اپنے شہر و ديار سے فرار كر جاتے ہيں _و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم

۴ _ مادى اور خوشگوار زندگى ميں غوطہ زن ہونا ستمگر معاشروں ميں زندگى گزارنے كا طريقہ ہے _قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

۵ _ خوش گذرانى اور ناز و نعمت اور آسائشوں ميں غرق رہنا دنيوى عذاب اور ہلاكت كاپيش خيمہ ہے _و كم قصمنا من قرية و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه مذكورہ مطلب ''فيہ'' سے كہ جو ظرفيت كل ے ہے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ نعمت اور آسائش كو ظرف اور انسان جو صاحب نعمت ہے اس كومظروف قرار ديا گيا ہے اور يہ چيز پرُ آسائش زندگى گزارنے والے ستمگروں كے ناز و نعمت ميں غرق ہونے كو بيان كرتى ہے_

۳۰۸

۶ _ معاشرے كے ستمگر اور پر آسائش زندگى گزارنے والے لوگ، تہذيبوں كى نابودى اور معاشرے كے افراد كى ہلاكت كا سبب ہيںو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

ان آيات كے مخاطب كچھ خاص لوگ ہيں كيونكہ خداتعالى نے انكى دو صفتيں بيان كى ہيں ستمگر ہونا اور پر نعمت ہونا اور يہ دو صفتيں عام طور پر معاشرے كے خاص طبقے ميں ہوتى ہيں اور اكثر لوگ نہ ظالم ہيں اور نہ پر آسائش _

۷ _ گذشتہ ظالم معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے لوگ خوبصورت اور مجلل عمارتيں اور گھر ركھتے تھے_و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم پرُ آسائش زندگى والوں كے مال و متاع ميں سے ''گھروں '' كا تذكرہ انكى خصوصيت كا گواہ ہے نيز يہ انكے باسيوں كى دلى وابستگى كى بھى دليل ہے_

۸ _ ستمگر معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے افراد كى ممتاز معاشرتى اور اقتصادى حيثيت_ارجعوا لعلكم تسئلون

اس سلسلے ميں كہ ''تسئلون'' ميں سوال كيا ہے اور سوال كرنے والے كون ہيں مفسرين كى مختلف آراء ہيں _ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ سوال كرنے والے لوگ ہيں اور سوال سے مراد، معاشرتى مسائل ميں مشورہ اور اقتصادى مسائل ميں مدد اور درخواست ہے_

۹ _ ماضى كے ستمگر اور پرُ آسائش معاشروں ميں فقير اور نادار طبقے كا وجود _ارجعوا لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''لعلكم تسئلون'' سے مراد فقراء كى ان سے درخواست اور سوال ہو_

۱۰ _ گذشتہ معاشروں كے ستمگر اور پرُ آسائش زندگى والے لوگ انبيا(ع) ء الہى كى مخالفت اور ان كے خلاف مقابلہ ميں پيش ہوتے _و كم قصمنامن قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس نكتے كو پيش نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے ہے كہ يہ آيت كريمہ اور اس سے پہلے كى دو آيتيں ان لوگوں كے بارے ميں ہيں كہ جو انبياء كى مخالفت كى وجہ سے عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے_

۱۱ _ پرُآسائش زندگى والے ستمگر لوگوں كا نعمات الہى اور آسائش سے بہرہ مند ہونے كى وجہ سے مؤاخذہ ہوگا اور ان سے سؤال كيا جائيگا_ارجعوا إلى ما أترفتم فيه ومسكنكم لعلكم تسئلون

امتيں :ان كى ہلاكت كے عوامل ۶/انبياء (ع) :

۳۰۹

ان كے دشمن ۱۰

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۶

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۶

خداتعالى :اس كا مذاق اڑانا ۱

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے ظالموں كى دشمنى ۱۰; ان كے معاشرتى طبقات ۹; ان كے پر آسائش لوگوں كے گھر ۷; ان كے ظالموں كى معاشرتى حيثيت ۸; ان كے پر آسائش زندگى والے افراد كى معاشرتى حيثيت۸; ان كے ظالموں كى اقتصادى حيثيت ۸; ان كے عيش و عشرت والوں كى اقتصادى حيثيت۸

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۵

ظالم لوگ:ان كا مذاق اڑانا ۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; انكى خوش گذرانى ۴; ان كى دنيا پرستى ۴; ان كى روش زندگى ۴; يہ عذاب كے وقت ۳; انكافرار ۳; انكا مؤاخذہ ۱۱; ان كا نقش و كردار ۶

عذاب:اس كا پيش خيمہ ۵; جڑ سے اكھاڑ پھينكنے والا عذاب ۱; ا س سے فرار ۱

پرآسائش زندگى والے لوگ:ان كا مذاق اڑانا۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; ماضى كے پر آسائش زندگى والوں كى دشمنى ۱۰; ان كا فرار ۱، ۳; ان كا مواخذہ ۱۱; يہ عذاب كى وقت ۳; انكا نقش و كردار ۶

نعمت:صاحبان نعمت كا مواخذہ ۱۱

ہلاكت:س كا پيش خيمہ ۵

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۵

آیت ۱۴

( قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہائے افسوس ہم واقعاً ظالم تھے (۱۴)

۱ _ ظالم معاشروں كے عيش و عشرت پسند لوگ، عذاب الہى كے احساس كے بعد اپنے ظلم و ستم كا اعتراف كرليتے ہيں _فلما أحسوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

۲ _ عيش و عشرت پسند ظالم لوگ، عذاب الہى كو ديكھ كر

۳۱۰

حسرت اور ندامت ميں ڈوب جاتے ہيں _فلما أحسّوا بأسنا قالوا يا ويلنا إنّا كنا ظالمين

۳ _ ہلاك كردينے والى مشكلات اور عذاب الہى كے مشاہدہ كے وقت انسان كا حقائق كى طرف توجہ كرنا اور اپنے كردار سے پشيمان ہونا_فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''قالواياويلناا ...'' مستأنفہ اور جملہ ''فلما أحسّوا بأسنا ...'' كيلئے بيان ہو يعنى جب ہمارے عذاب كو محسوس كرتے ہيں تو اپنے گناہ كا اقرار اور حقيقت حال كا اعتراف كرليتے ہيں پس عذاب كو محسوس كرنا اور تباہ و برباد كردينے والى مشكلات كا مشاہدہ انسان كے حقائق كى طرف توجہ كرنے اور ان كے اعتراف كا سبب ہے_

۴ _معاشروں كے عيش و عشرت پسند اور خوش گذران لوگ ظالم اور ستمگر ہيں _

قرية كانت ظالمة ما أترفتم فيه إنا كنا ظالمين

۵ _ مسلسل ظلم، نابودى اور عذاب الہى كے نزول كا سبب ہے _فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنا كنا ظلمين

مبتلا ہونا:عذاب ميں مبتلا ہونے كے اثرات ۳

اقرار:ظلم كا اقرار ۱

پشيماني:اسكے عوامل ۳

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

خوش گذراں لوگ:ان كا ظلم ۴

ظالم لوگ:ان كا اقرار ۱; انكى حسرت۲; يہ عذاب كے وقت۱، ۲

ظلم:اسكے اثرات ۵

عذاب:اسكے ديكھنے كے اثرات ۳; اسكے وقت پشيمانى ۱; اسكے عوامل ۵

عيش و عشرت پر ست لوگ:ان كا اقرار۱; ان كى پشيمانى ۲; انكى حسرت۲; انكا ظلم ۴; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

۳۱۱

آیت ۱۵

( فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيداً خَامِدِينَ )

اور يہ كہہ كر فرياد كرتے رہے يہاں تك كہ ہم نے انھيں كٹى ہوئي كھيتى كى طرح بنا كر ان كے سارے جوش كو ٹھنڈا كرديا (۱۵)

۱ _ عيش و عشرت پرست ستمگر لوگ ،عذاب كے احساس سے ليكر ہلاكت و نابودى تك افسوس اور پشيمانى ميں رہيں گے_فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلناهم حصيداً خمدين

۲ _ عذاب الہى كى نشانياں اور علامات ديكھنے كے بعد ايمان لانا اور ظلم و گناہ كا اعتراف كرنا بے ثمر ہے_

إنا كنا ظالمين فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلنهم حصيد

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''گناہ گار لوگ عذاب كے مشاہدے كے وقت سے ليكر ہلاكت كے وقت تك مسلسل اپنے ظلم كا اعتراف كرتے ہيں '' تو اس كا مطلب يہ ہے كہ عذاب كے مشاہدے كے وقت گناہ كا اعتراف كرنا اثر نہيں ركھتا اور ضرورى ہے كہ توبہ عذاب كو ديكھنے سے پہلے انجام پائے_

۳ _ بہت سارے ستمگر اور پر آسائش زندگى والے معاشرے، خداتعالى كے شديد عذاب كے نتيجے ميں بالكل نابود ہوگئے_

و كم قصمنا حتى جعلنهم حصيداً خمدين

''حصيد'' كا معنى ہے محصود يعنى كاٹا ہوا اور ''خامد'' ''خمدت النار خموداً'' كا اسم فاعل ہے يعنى آگ كا بجھا ہوا شعلہ اور يہ اس آيت ميں موت سے كنايہ ہے (مفردات راغب) _

اقرار:ظلم كا اقرار ۲; گناہ كا اقرار۲

ايمان:بے ثمر ايمان ۲

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۳; انكا عذاب ۳; ان كے ختم ہونے كے عوامل ۳

۳۱۲

ظالم لوگ:انكى پشيماني۱; يہ عذاب كے وقت ۱

عذاب:اسے ديكھنے كے اثرات۲; اسكے وقت پشيماني۱

عيش و عشرت پسندلوگ:انكى پشيمانى ۱; يہ عذاب كے وقت ۱

آیت ۱۶

( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ )

اور ہم نے آسمان و زمين اور ان كے درميان كى تمام چيزوں كو كھيل تماشے كے ئے نہيں بنايا ہے (۱۶)

۱ _ آسمان و زمين اور فضا كے موجودات (عالم وجود) كى خلقت، فضول اور كھيل تماشا نہيں ہے بلكہ بامقصد اور با ہدف ہے_و ما خلقنا السماء والأرض و ما بينهما لعبين

''لعب'' كا معنى ہے ايسا بے فائدہ كام كہ جس كا كوئي صحيح مقصد اور سود نہ ہو ''لاعبين''، ''خلقنا'' كى ضمير كيلئے حال ہے يعنى ہم نے عالم ہستى كو كھيل تماشے كے قصد سے خلق نہيں كيا_

۲ _ آسمان و زمين كے درميان كى فضا ميں مخلوقات اور موجودات ہيں _و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۳ _ انبيا(ع) ء كى بعثت اور ستمگر اور دين دشمن معاشروں كى ہلاكت، نظام ہستى كے باہدف ہونے كى بنياد پر ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگر اقوام كى ہلاكت كے بعد كائنات كے باہدف ہونے كى ياددہانى ہوسكتا ہے اس نكتے كو بيان كررہى ہو كہ جب كائنات با مقصد اور باہدف ہے تو ستمگر اقوام كى ہلاكت بھى كائنات كے اسى باہدف ہونے اور كھيل تماشا نہ ہونے كا حصہ ہوگي

۴ _ ظلم اور انبيا(ع) ء كى مخالفت ،عالم ہستى كے قانون كے تابع ہونے والے نظام كے خلاف ہے _

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگروں كى نابودى كے بعد، خداتعالى كى طرف سے خلقت كائنات كے فضول نہ ہونے كى ياد دہانى ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كررہى ہو كہ انسان ظلم نہ كرے اور ستم كرنا كائنات كى بامقصد حركت كے خلاف ہے_

۵ _ عيش و عشرت پسند ستمگر لوگ ،كائنات كو كھيل تماشااور بے مقصد سمجھتے ہيں _

قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۶ _ كائنات كو بے مقصد سمجھنا، عالم خلقت كو فضول اور كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے _

۳۱۳

و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

''مبطلين'' كے بجائے ''لعبين'' كى تعبير بتاتى ہے كہ كائنات كو باطل اور بے مقصد سمجھنا عالم خلقت كو كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے_

آسمان:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا ۲

خلقت:اسكے ساتھ كھيلنا ۶; اسكو كھوكھلا سمجھنا۵، ۶; اس كا قانون كے مطابق ہونا ۱، ۳، ۴

انبياء(ع) :انكے ساتھ مخالفت كى حقيقت ۴; انكى بعثت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

سوچ:غلط سوچ ۶

دين:اسكے دشمنوں كى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

زمين:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱

ظالم لوگ:انكى سوچ۵; انكا كھوكھلے يں كا طرف تمايل۵; انكى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

ظلم:اسكى حقيقت ۴

فضا:اسكے موجودات كى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱; اسكے موجودات ۲

عيش و عشرت پسند لوگ :ان كى سوچ۵; انكا كھوكھلے پن كى طرف تمايل ۵

آیت ۱۷

( لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ )

ہم كھيل ہى بنانا چاہتے تو اپنى طرف ہى سے بناليتے اگر ہميں ايسا كرنا ہوتا (۱۷)

۱ _ خداتعالى كا ارادہ ، كھيل اور سرگرمى كى خاطر كسي كام كے انجام دينے كے ساتھ تعلق نہيں پكڑتا _

و ما خلقنا لعبين_ لو أردنا أن نتخذ لهو

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لو'' امتنا عيہ ہو_ اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''اگر ہم كسى چيز كو _ برفرض محال اور اسكے ممكن يا غير ممكن ہونے يا ہمارى شان سے كم ہونے سے صرف نظر كرتے ہوئے_ كھيل اور اپنى سرگرمى كيلئے انجام ديتے ...'' قابل ذكر ہے كہ بعض مفسرين كے مطابق' ' إن كنّا فاعلين'' ميں ''إن'' نافيہ ہے_ يہ بھى مذكورہ مطلب كا مؤيد ہوگا

۳۱۴

۲ _ مخلوقات كبھى بھى اپنے خالق كے لہو و لعب اور سرگرمى كا ذريعہ نہيں ہيں _

لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فاعلين

۳ _ موجودہ كائنات كو اپنے كھيل تماشے كيلئے خلق كرنے كى قدرت، صرف خداتعالى كے پاس ہے اور كوئي بھى موجود اس پر قادر نہيں ہے_لو أردنا نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنّ

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ''من جہة قدرتنا'' ہو (جيسا كہ بعض بزرگ مفسرين كى يہى رائے ہے) اور يا كہ يہ ''من لدنا'' (ظرف مختص) ''من لدن غيرنا'' كے مقابلے ميں ہو_ اس بناپر آيت كا پيغام يوں ہوگا اگر بنايہ ہوتى كہ كائنات كو اپنے لئے سرگرمى قرار ديں تو بھى يہ كام صرف ہمارى قدرت ميں ہے نہ ان خداؤں كى قدرت ميں جنكا مشركين دعوى كرتے ہيں اور نہ كوئي اور قدرت اسے انجام دے سكتى ہے پس مطلق قدرت اور ربوبيت صرف خداتعالى كے پاس ہے قابل ذكر ہے كہ ''عندنا'' كى جگہ كہ جو صرف حضور كيلئے ہے ''لدنا'' جو ابتدائے غايت كيلئے ہے كا آنا مذكورہ مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۴ _ بر فرض محال اگر خداتعالى اپنى سرگرمى كيلئے كائنات كو خلق كرتا تو يہ مادى كائنات اسكى غرض كے لائق نہيں تھى بلكہ اس سے برتر جہان كا انتخاب كرتا _لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتخذنه من لدنا إن كنا فعلين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ہو ''مما عندنا'' يا ''مما يليق بحضرتنا ...'' يعنى اگر ہم سرگرمى چاہتے تو ان جہانوں اور موجودات ميں سے كہ جو ہمارے پاس ہيں اور ہمارے زيادہ قريب ہيں اور اس مادى كائنات سے برتر ہيں (جيسے عالم مجردات ...) ان سے انتخاب كرتے_

۵ _ خداتعالى ، كائنات كے خلق كرنے والے كام ميں حق اور صحيح ہدف ركھتا تھا _و ما خلقنا السمائ لعبين لو أردنا أن نتّخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فعلين خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كو با ہدف قرار ديا ہے اور اس آيت ميں مزيد تاكيد كيلئے فرمايا ہے ''ہم نے كائنات كو اپنى سرگرمى اور كھيل كيلئے خلق نہيں كيا'' ان دو آيتوں كے مجموعے سے استفادہ ہوتا ہے كہ كائنات كى خلقت ميں ايك ہدف ملحوظ تھا اور وہ ہدف صحيح اور حق ہے كيونكہ كلمہ'' لہو و لعب'' كا معنى وہى باطل ہے اور جو باطل نہ ہو وہ صحيح اور حق ہوگا_

خلقت:

۳۱۵

اس كے ساتھ سرگرمى ۳، ۴; اس كا قانون كے مطابق ہونا۵; اس كا باہدف ہونا۵

توحيد:توحيد افعالى ۳

خداتعالى :اسكى خالقيت ۳; يہ اور كھيل ۱، ۲، ۳، ۴; يہ اور لہو ،۱، ۲، ۳، ۴; اسكى قدرت ۳; اسكے ارادے كا متعلق ۱

موجودات:انكى حقيقت۲; ان كے ساتھ سرگرمى ۲

آیت ۱۸

( بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ )

بلكہ ہم تو ق كو باطل كے سر پردے مارتے ہيں اور اس كے دماغ كو كچل ديتے ہيں اور وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور تمھارے لئے ويل ہے كہ تم ايسى بے ربط باتيں بيان كر رہے ہو (۱۸)

۱ _ حق و باطل كى جنگ ميں آخرى كاميابى اہل حق كى ہے_بل نقذف بالحق على الباطل

۲ _ حق كے عقيدے اور نظريہ كائنات كے حق ہونے كى باطل عقيدے اور باطل نظريہ كائنات پر كاميابى سنت الہى ہے_و ما خلقنا السمائ لعبين بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كے باہدف ہونے اور اسكى خلقت كے فضول اور بيہودہ ہونے والے عقيدہ كے باطل ہونے كى بات كى ہے يہ بات قرينہ ہے كہ آيت كريمہ ميں حق و باطل سے مراد حق و باطل عقيدہ اور ان كا نظريہ كائنات ہے قابل ذكر ہے كہ اسى آيت كا ذيل (ولكم الويل مما تصفون) كہ جو خداتعالى كى طرف ناروا نسبت اور اسكى نادرست امور كے ساتھ توصيف كے بارے ميں ہے مذكورہ مطلب كا مؤيد ہے_

۳ _ حق كى باطل پر كاميابي، نظام خلقت كے بامقصد ہونے كا ايك جلوہ ہے_

و ما خلقنا السماء بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے حق كى بنياد پر كائنات كى خلقت كى بات كى تھى اور اس آيت ميں حق كى باطل پر كاميابى كى ياد دہانى كرائي ہے ان دو باتوں كے درميان ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كرتا ہے_

۴ _ طول تاريخ ميں حق و باطل كے درميان مسلسل جنگ اور كشمكش_و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيد مغه

۳۱۶

۵ _ باطل اور نادرست عقيدوں كى نابودى اہل حق كے باطل كے خلاف ميدان مبارزت ميں حاضر ہونے كا مرہون منت ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه

''بالحق'' ميں ''بائ'' استعانت كيلئے ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''ہم حق كى مدد سے باطل كو نابود اور تہس نہس كرديں گے'' اس كا مطلب يہ ہے كہ حق كا باطل كے مقابلے ميں ميدان كارزار ميں حاضر رہنا ضرورى ہے تا كہ اسكے ذريعے باطل اور نادرست عقيدوں كو نابود كيا جاسكے_ قابل ذكر ہے كہ خداتعالى نے باطل كو نابود كرنے كو اپنى طرف نسبت نہيں دى بلكہ حق كو باطل كا نابود كرنے والا قرار ديا ہے (فيد مغہ) يہ نكتہ بھى اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۶ _ غير متوقع حالات ميں باطل كى ناگہانى نابودى _بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق

''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع ہونے پر دلالت كرتا ہے ،سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۷ _ حق ،استحكام و صلابت ركھتا ہے اور باطل كھوكھلا اورقابل شكست ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق چونكہ خداتعالى نے حق كو باطل كو ختم كردينے والا اور اسے تہس نہس كردينے والا قرار ديا ہے اس سے حق كا مستحكم ہونا ظاہر ہوتا ہے اور اس سے كہ باطل ناگہانى طور پر اور فوراً ختم ہوگيا اس كا كھوكھلا ہونا معلوم ہوتا ہے_ قابل ذكر ہے كہ تعبير ''قذف'' _ يعنى زور سے پھينكنا_ مذكورہ مطلب كى تائيد كرتى ہے_

۸ _ ماضى كے ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى حق كى باطل كے خلاف كاميابى كا ايك نمونہ ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق

۹ _ عصر پيغمبراكرم(ص) كے مشركين كا نظام خلقت اور انبياء (ع) كى بعثت كو كھيل تماشا قرار دينا_و ما خلقنا السمائ لعبين و لكم الويل مما تصفون ''لكم'' اور ''تصفون'' كے مخاطب مشركين ہيں اور گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ توصيف سے مراد مشركين كا خلقت كائنات كے بارے ميں غير صحيح عقيدہ اور خداتعالى كى طرف نظام خلقت كو سرگرمى كے طور پر لينے كى ناروا نسبت ہے _

۱۰ _ خداتعالى كى طرف ناروا نسبت ہلاكت اور عذاب الہى كے مستحق ہونے كا سبب ہے_

لكم الويل مما تصفون ''الويل'' كا اصلى معنى عذاب اور ہلاكت ہے اور يہ اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں كسى شخص يا اشخاص كو ايسى ہلاكت كا خطرہ ہو جسكے وہ مستحق ہيں (لسان العرب) _

۳۱۷

۱۱ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى اور مشركين كو شكست اور نابودى كى دھمكيبل نقذف بالحق و لكم الويل مما تصفون

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبراكرم(ص) اور اہل حق، حق دشمن مشركين كے ساتھ مقابلے ميں مشغول تھے_ آيت شريفہ كے لحن سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى دے رہى ہے اور اسى طرح مشركين كو شكست اورنابودى كى دھمكى دے رہى ہے_

۱۲ _''عن ا يّوب بن الحر قال: قال لى ا بو عبدالله (ع) : يا ا يوب ما من ا حد إلا و قد برز عليه الحق حتى يصدع، قبله ا م تركه و ذلك ا ن الله يقول فى كتابه:'' بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق ...'' ; امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ كوئي شخص نہيں ہے مگر يہ كہ حق مكمل طور پر اس كيلئے ظاہر ہوچكا ہے چاہے اسے قبول كرے يا رد كرے خداتعالى يہى اپنى كتاب ميں فرما رہا ہے''بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق'' _

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو بشارت ۱۱

انبياء (ع) :انكى بعثت كو فضول سمجھنا۹

باطل:اس كا كھوكھلاپن ۷; اسكى شكست كا پيش خيمہ ۵; اسكى شكست ۱، ۲، ۳; اسكى ناگہانى شكست ۶; اس كا انجام ۱; اسكى شكست كے موارد ۸

بشارت:مؤمنين كو كاميابى كى بشارت ۱۱; آنحضرت(ص) كو كاميابى كى بشارت ۱۱

حق:اس كا مستحكم ہونا۷; اسكى كاميابى ۱، ۲، ۳، ۱۲; اس كا انجام۱; اسكى كاميابى كے موارد۸; حق و باطل كے درميان كشمكش ۱، ۴، ۵

حق پرست لوگ:ان كا كردار اور نقش۵

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى دھمكياں ۱۱; اسكى سنت۲

روايت: ۱۲

گذشتہ اقوام:انكى ہلاكت ۸/ظالم لوگ:انكى ہلاكت ۸

____________________

۱ ) محاسن برقى ج۱، ص ۲۷۶، ب ۳۸، ح ۳۹۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۶، ح ۱۸_

۳۱۸

عذاب:اسكے اسباب ۱۰

عقيدہ:باطل عقيدہ۲، ۵; حق عقيدہ ۲

مؤمنين:انہيں بشارت ۱۱

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۹; انكو دھمكى ۱۱

آیت ۱۹

( وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ )

اور اسى خدا كے لئے زمين و آسمان كى كل كائنات ہے اور جو افراد اس كى بارگاہ ميں ہيں وہ نہ اس كى عبادت سے ا كڑ كر انكار كرتے ہيں اور نہ تھكتے ہيں (۱۹)

۱ _ خداتعالى ان سب كا مالك ہے جو آسمانوں اور زمين ميں ہيں _و له من فى السموات و الأرض

۲ _غير خدا كى مالكيت (حتى كہ اپنے اوپر) مجازى ہے _و له من فى السموات و الأرض

۳ _ آسمانوں اور زمين ميں صاحب شعور و عقل مخلوق كا وجود_و له من السموات والأرض

''من'' ان موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے جو صاحب عقل و شعور ہوں _

۴ _ جہان خلقت ميں متعددآسمان ہيں _السموات

۵ _ خداتعالى كا جہان ہستى كا بطور مطلق مالك ہونا حق كى باطل پر كاميابى كى ضمانت اور پشت پناہ ہے_بل نقذف بالحق و له من فى السموات و الأرض جملہ''و له من فى السموات '' كا جمله '' لو أردنا بل نقذف بالحق '' پر عطف ہے اور يہ خلقت كائنات كے حق ہونے اور حق كى باطل كے خلاف كاميابى كو بيان كررہا ہے كيونكہ جب پورى كائنات خداتعالى كى ملكيت ہے تو اس كيلئے حق كو باطل پر كامياب كرنا ممكن اور آسان ہوگا_

۶ _ مقربين خدا (فرشتے) اسكى عبادت سے تكبر نہيں كرتے_و من عنده لايستكبرون عن عبادته

۳۱۹

مفسرين كے بقول ''من عندہ'' سے مراد فرشتے ہيں _

۷ _ تقرب الہى ايسا مقام و مرتبہ ہے كہ جو عبادت ميں تكبر كرنے اور اسكے مقابلے ميں اكڑنے كے ساتھ سازگا نہيں ہے_

و من عنده لايستكبرون عن عبادته ''لايستكبرون عنه'' كے بجائے''لايستكبرون عن عبادته'' كى تعبير سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۸ _ بارگاہ خداوندى كے مقربين كبھى بھى اسكى عبادت سے ملول اور تھكاوٹ كا شكار نہيں ہوتے_من عنده لايستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون (''يستحسرون'' كے مصدر) ''استحسار'' كا معنى ہے تھكاوٹ اور ملالت_

۹ _ تقرب الہى كے مقام تك دسترسى كا خداتعالى كى عبادت سے نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں مؤثر ہونا_و من عنده لا يستكبرون عن عبادته و لايستحسرون يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ جو ہمارے پاس اور مقرب ہيں وہ خدا كى عبادت سے نہيں تھكتے اور تكبر نہيں كرتے'' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقرب الہى كو حاصل كرنا نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں اثر ركھتا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى عبادت ميں تسلسل اور نہ تھكنا پسنديدہ اور قابل قدر چيز يں ہيں _و من عنده لار يستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون مذكور مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ مقربين خدا كى تعريف و تمجيد كر رہى ہے اور بندوں كو پروردگار كى عبادت كى تشويق دلا رہى ہے_

آسمان:ان كا متعدد ہونا۴; ان كے با شعور موجودات ۳

باطل:اس پر كاميابى كا سرچشمہ ۵

تقرب:اسكے اثرات ۹/تكبر:اسكے موانع ۹

حق:اسكى كاميابى كا سرچشمہ ۵

خاضعين: ۶

خداتعالى :اسكى مالكيت كے اثرات ۵; اسكى مالكيت ۱

عبادت:اسكے تسلسل كى قدر و قيمت ۱۰; اس ميں خضوع ۶، ۹; اس ميں سستى كے موانع ۹; اس ميں نشاط ۸،۹

عمل:پسنديدہ عمل ۱۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750