تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218982 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اور جب یہود سے کہا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ہے اس پرایمان لاؤ،تو انھوں نے کہا : جو کچھ ہم لوگوں پر نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر نازل نہیں ہوا ہے ہم اس کے منکر ہیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ہے اور انبیاء کی کتابوں میں موجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ہے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ہیں اوران کے پاس ہیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ہو تو پھر کیوں اس سے پہلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ہو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ہم ایمان لائے ہیں جب کہ حضرت موسیٰ روشن علامتوںاور آیات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ہوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی نازل کی ہیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نہیں ہوگا۔

اگر یہود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اہل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم مسلمانوںپر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ہو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ہے خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔بہت سارے اہل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰہی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ہوئی ہے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ہے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ہو چکاہے!یہ تم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبہشت سے محروم رہو گے؛کہو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یہاں محفوظ ہے اور یہود ونصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یہود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ہے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یہود اور پیغمبر کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ہم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمہاری انتظار آمیز نگاہوں سے باخبر ہیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ہوجاؤگے۔

۴۱

(اے رسول! )تم جہاں کہیں بھی ہو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اہل کتاب،یہود جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ہیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ہے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کہیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ہے؟کہوحکم ،حکم خدا ہے مشرق و مغرب سب اسکا ہے جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یہود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ آیایہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ہے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ہیں یا نہیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں یا نہیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ہوا تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ہوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں خدا کے نزدیک برباد نہیں ہوں گی۔

اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورۂ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ہے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ہوناہے، اس نزاع کی تفصیل سورۂ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ہے۔

اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ (یہود مدینہ کی داستان میں ) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ہونا ہے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ہے)

راغب اصفہانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میں صحیح راستہ اختیار کیاہے وہ فرماتے ہیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ہے آیت ہے، چاہے وہ ایک کامل سورہ ہو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ہوں ۔

لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یہی ہے کہ جس کا تذ کرہ ہم نے کیا ہے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۴۲

۴

حضرت موسیٰ ـ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص ہے

حضرت موسیٰ کی شریعت جس کا تذکرہ توریت میں آیا ہے بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،جیسا کہ سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں آیا ہے:

''موسیٰ نے ہم کو ایک ایسی سنت کا حکم دیا ہے جو کہ جما عت یعقوب کی میراث ہے''

یعنی موسیٰ نے ہمیں ایک ایسی شریعت کا حکم دیا ہے جو کہ جماعت یعقوب یعنی بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،گزشتہ آیات میں بھی اس خصوصیت کا ذکر ہوا ہے ،آئندہ بحث میں انشاء ﷲ امر نسخ کی بسط وتفصیل کے ساتھ تحقیق و بررسی کریں گے۔

حضرت موسیٰ ـکی شریعت میں نسخ کی حقیقت

اس بحث میں ہم سب سے پہلے قرآن سے( زمانے کے تسلسل کا لحاظ کر تے ہو ئے )بنی اسرائیل کی داستان کا آغا ز کر یں گے، پھر ان کی شریعت میں نسخ کے مسئلہ کو بیان کریں گے ۔

۴۳

اوّل:بنی اسرائیل کو نعمت خدا وندی کی یاد دہانی

۱۔خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:( یا بنی اسرائیل أذکر وانعمتی التی أنعمت علیکم و أنی فضّلتکم علی العالمین..و اِذ نجّینا کم من آل فرعون یسومو نکم سوء العذاب یذ بحون أبناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذلکم بلاء من ربکم عظیم) (و أذفرقنا بکم البحر فانجیناکم وأغرقنا آل فرعون و ٔنتم تنظرون و أذ واعدناموسیٰ أربعین لیلة ثم ٔاتخذتم العجل من بعده و أنتم ظالمون ) ( ۱ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیںہم نے تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو اور یہ کہ ہم نے تم کو عالمین پر برتری اور فضیلت دی ہے...اورجب ہم نے تم کو فرعونیوں کے خونخوارچنگل سے آزادی دلائی وہ لوگ تمہیں بری طرح شکنجہ میں ڈالے ہوئے تھے تمہارے فرزندوں کے سر اڑا دیتے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے عظیم امتحان تھا اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگاف کیا اور تمھیں نجات دی اور فرعونیوں کوغرق کر ڈالا ،درانحالیکہ یہ سب کچھ تم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے اور جب موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعدہ کیا پھر تم لوگوں نے اس کے بعد گو سالہ کا انتخاب کیا جب کہ تم لوگ ظالم وستم گر تھے۔

۲۔سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:( وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علیٰ أصنام لهم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا اِلٰهاً کما لهم آلهة قال انکم قوم تجهلون ) ( ۲ )

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا راستے میں ایسے گروہ سے ملاقات ہوئی جو خضوع خشوع کے ساتھ اپنے بتوں کے ارد گرد اکٹھا تھے، تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ان کے خداؤں کے مانند کوئی خدا بنا دو ،انہوں نے فرمایا:سچ ہے تم لوگ ایک نادان اور جاہل قوم ہو۔

۳۔ سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے:( و اضلّهم السامری فکذٰلک القی السّامریفاخرج لهم عجلًا جسداً له خوار فقالو هذا اِلهکم واِلٰه موسیٰ و لقد قال لهم هارو ن من قبل یا قوم اِنّما فتنتم به و اِنَّ ربّکم الرحمن فا تبعونی وأَطیعوا أَمریقالو لن نبرح علیه عاکفین حتّیٰ یرجع اِلینا موسیٰ )

اورسامری نے انھیں گمراہ کر دیا ...اور سامری نے اس طرح ان کے اندر القاء کیا اور ان کے لئے گوسالہ کا ایسا مجسمہ جس میں سے گو سالہ کی آواز آتی تھی بنادیا تو ان سب نے کہا :یہ تمہارا اورموسیٰ کا خداہے... اور اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا : اے میری قوم والو! تم لوگ اس کی وجہ سے امتحان میں مبتلا ہو گئے ہو ، تمہارا رب خدا وند رحمان ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم و فرمان کی اطاعت کرو ، کہنے لگے :

____________________

(۱)بقرہ۴۷،۴۹،۵۰،۵۱(۲) اعراف۱۳۸

۴۴

ہم اسی طرح اس کے پابند ہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ کر آ جائیں۔( ۱ )

۴۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا :

( واِذْ قال موسیٰ لقومه یا قوم أنّکم ظلمتم انفسکم باتّخاذکم العجل فتو بوا ألی بارئکم فاقتلوا أنفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم أنّه هو التوّاب الرّحیم ) ( ۲ )

اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم !تم نے گوسا لہ کا انتخاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذا تو بہ کرو اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کیونکہ یہ کام تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر ہے پھر خدا وند عالم نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

دوم : توریت اور اس کے بعض احکام :

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ بقرہ میں فرماتا ہے :

( واِذ أخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطّور خذوا ما آتینا کم بقوّة و اذ کروا ما فیه لعلّکم تتقون ) ( ۳ )

اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے او پر قرار دیا ( اور تم سے کہا) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ا سے محکم طریقے سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔ سورۂ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے:

( وآتینا موسیٰ الکتاب وجعلناه هُدیً لبنی اسرائیل.. ) .)( ۴ )

اورہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ۔

۳۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

( کلّ الطعام کان حلًا لبنی اسرائیل اِلّا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل أن تنزّل التوراة... ) ( ۵ )

کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جزان اشیاء کے جنہیںخوداسرائیل (یعقوب)

____________________

(۱)طہ ۸۵ ،۹۱ .(۲)بقرہ ۵۴ (۳)بقرہ ۶۳،اس مضمون سے ملتی جلتی آیتیں سورہ بقرہ کی ۹۳ ویں آیت اور سورئہ اعراف کی ۱۷۱ویں آیت میں بھی آئی ہیں )

(۴)اسرائ۲ (۵)آل عمران ۹۳

۴۵

نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔

۴۔ سورۂ انعام میں فرمایا :

( و ماعلی الذین هادوا حرّمنا کلّ ذی ظفر من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما الا ماحملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و انّا لصاد قون ) ( ۱ )

یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن دار حیو ا نوں کو حرام کیا ، گائے اورگوسفند سے ا ن کی چربی ان پر حرام کی جزاس چربی کے جو ان کی پشت پر ہو یا جو پہلو میں ہو یا جو ہڈیوں سے متصل اورمخلوط ہو یہ ان کی بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے انھیں اور سزا کا مستحق قرار دیا اور ہم سچ کہتے ہیں۔

۵۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و علٰی الذین هادوا حرّمنا ما قصصنا علیک من قبل و ما ظلمنا هم و لکن کانوا أنفسهم یظلمون ) ( ۲ )

اورہم نے جن چیزوں کی اس سے پہلے تمہارئے لئے تفصیل بیان کی ہے ،ان چیزوں کویہود پر حرام کیا؛ ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا ،بلکہ ان لوگوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے۔

۶۔سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَسَْلُکَ َهْلُ الْکِتَابِ َنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَائِ فَقَدْ سََلُوا مُوسَی َکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا َرِنَا ﷲ جَهْرَةً فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ... (۱۵۳) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِم.... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وََخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (۱۵۴) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمْ الَْنْبِیَائَ (۱۵۵) وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا (۱۵۶) فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ ﷲ کَثِیرًا (۱۶۰) وََخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وََکْلِهِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.... ) ( ۳ )

اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو ؛ انھوں نے توحضرت موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کی خواہش کی تھی اور کہا تھا : خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھا ؤ لیکن ہم نے انھیں در گزر کر دیا ...اور ہم نے ان کے عہد کی خلاف ورزی کی بنا پر ان کے سروں پر کوہ طور کو بلند کردیا

____________________

(۱)انعام ۱۴۶(۲)نحل ۱۱۸

(۳)نسائ۱۵۴۱۵۳ ۱۵۶۱۵۵ ۱۶۱۱۶۰.

۴۶

اوران سے کہا :سنیچر کے دن تجاوز اور تعدی نہ کرو اوران سے محکم عہد و پیمان لیا ،ان کی پیمان شکنی ،آیات خداوندی کا انکار ،پیغمبروں کے قتل اور ان کے کفر کی وجہ سے نیزاس عظیم تہمت کی وجہ سے جو حضرت مریم پر لگائی، نیزاس ظلم کی وجہ سے جو یہود سے صادر ہوا اور بہت سارے لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی وجہ سے بعض پاکیزہ چیزوں کو جو ان پرحلال تھیںان کے لئے ہم نے حرام کر دیا اور ربا اور سود خوری کی وجہ سے جب کہ اس سے ممانعت کی گئی تھی اور لوگوں کے اموال کو باطل انداز سے خرد برد کرنے کی بنا پر ۔

۷۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( و سئلهم عن القرية التی کانت حاضرة البحراذ یعدون فی السبت اِذ تأ تیهم حیتانهم یوم سبتهم شُرّعاً ویوما لایسبتون لاتاتیهم کذٰلک نبلوهم بما کانوایفسقون ) ( ۱ )

دریا کے ساحل پر واقع ایک شہر کے بارے میں ان سے سوال کرو ؛ جب کہ سنیچر کے دن تجاوزکرتے تھے،اس وقت سنیچر کو دریا کی مچھلیاں ان پر ظاہر ہو جاتی تھیں اوراس کے علاوہ دوسرے دنوںمیں اس طرح ظاہر نہیں ہو تی تھیں ، اس طرح سے ہم نے ان کا اس چیز سے امتحان لیا جس کے نتیجہ میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔

۸۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:

( انّما جعل السبت علی الذین اختلفو فیه ) ( ۲ )

سنیچر کا دن صرف اور صرف ان کے مجازات اور سزا کے عنوان سے تھاان لوگوں کے لئے جو اس میں اختلاف کرتے تھے۔

سوم:خدا وند عالم کی بنی اسرائیل پر نعمتیں اور ان کی سرکشی و نا فرمانی

۱۔خدا وند عالم سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذْ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ (۱۶۰) وَِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة

____________________

(۱)اعراف ۱۶۳۔بقرہ ۶۵۔ نساء ۴۸، ۱۵۴.(۲)نحل ۱۲۴

۴۷

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ (۱۶۱) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ( ۱ )

اورہم نے بنی اسرائیل کو ایک نسل کے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ان کو ہم نے وحی کی : اپنے عصا کو پتھر پر مارو! اچا نک اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اس طرح سے کہ ہر گروہ اپنے گھاٹ کو پہچانتا تھا اور بادل کوان پر سائبان۔قرار دیا اوران کے لئے من وسلویٰ بھیجا( اور ہم نے کہا) جو تمھیں پاکیزہ رزق دیا ہے اسے کھاؤ انھوں نے ہم پر ستم نہیں کیا ہے بلکہ خود پر ستم کیاہے اور جس وقت ان سے کہا گیا : اس شہر (بیت المقدس ) میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے چاہو وہاں سے کھاؤ اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے! اوراس در سے تواضع و انکساری کے ساتھ داخل ہو جاؤتا کہ تمہارے گناہوں کو ہم بخش دیں اور نیکو کاروں کو اس سے بڑھ کر جزا دیں،لیکن ان ستمگروں نے جوان سے کہا گیا تھا اس کے علاوہ بات کہی یعنی اس میں تبدیلی کردی اور ہم نے اس وجہ سے کہ وہ مسلسل ظالم و ستمگر رہے ہیںان کے لئے آسمان سے بلا نازل کردی ہے۔

۱۔سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

( وَاِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ (۲۰) یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَْرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ (۲۱) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنَّا دَاخِلُونَ (۲۲) قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۲۳) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۴) قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ (۲۵) قَالَ فَِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ )

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اپنے اوپرﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو، جبکہ اس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو بھیجا اور تمھیں حاکم بنایا اور تمہیں ایسی چیزیں عطا کیں کہ دنیا والوں میں کسی کو

____________________

(۱)اعراف ۱۶۰، ۱۶۲

۴۸

ویسی نہیں دی ہیں، اے میری قوم! مقدس سر زمین میں جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے مقر ر کیا ہے داخل ہو جاؤ اور الٹے پاؤں واپس نہ ہونا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے ،ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ستمگر لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے ، خدا ترس دومردوں نے جن پر خدا نے نعمت نازل کی تھی کہا:تم لوگ ان کے پاس شہر کے دروازہ سے داخل ہو جاؤ اگر تم دروازہ میں داخل ہوگئے تو یقیناً ان پر کامیاب ہو جاؤ گے اورا گرایمان رکھتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو ، ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہ لوگ جب تک وہاں ہیں ہم لوگ ہرگز داخل نہیں ہوں گے ! تم اور تمہارا رب جائے اوران سے جنگ کرے ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کہا: پروردگارا! میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، میرے اور اس گنا ہ گار جماعت کے درمیان جدائی کر دے،فرمایا :یہ سرزمین ان کے لئے چالیس سال تک کے لئے ممنوع ہے وہ لوگ ہمیشہ سرگرداںاور پریشان رہیں گے اور تم اس گناہ گار قوم پر غمگین مت ہو۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔''اسرائیل'': یعقوب،آپ ابراہیم خلیل ﷲ کے فرزند حضرت اسحق کے بیٹے ہیں،ان کا لقب اسرائیل ہے بنی اسرائیل ان ہی کی نسل ہے جوان کے بارہ بیٹوں سے ہے۔

۲۔'' یسومونکم'': تمکو عذاب دیتے تھے، رسوا کن عذاب ۔

۳۔''یستحیون'': زندہ رکھتے تھے۔

۴۔''یعکفون'': خاضعانہ طور پر عبادت کرتے تھے، پابندتھے ۔

۵۔''خوار'' : گائے اور بھیڑ کی آواز ۔

۶ ۔''لن نبرح'': ہم ہرگز جدا نہیں ہوں گے، آگے نہ بڑھیں گے ۔

۷۔''فتنتم'':تمھارا امتحان لیا گیا، آزمائش خدا وندی ، بندوں کے امتحان کے لئے ہے اور ابلیس اور لوگوں کا فتنہ ، گمراہی اور زحمت میں ڈالنے کے معنی میں ہے، خدا وند عالم نے لوگوں کو فتنہ ابلیس سے خبردار کیا ہے اور فرمایا ہے:

____________________

(۱) مائدہ۲۰، ۲۶

۴۹

( یا بنی آدم لا یفتنّنکم الشیطان )

اے آدم کے بیٹو!کہیں شیطان تمھیں فتنہ اور فریب میں مبتلا نہ کرے: اور لوگوں کے فتنہ کے بارے میں فرمایا:

( اِنّ الذّین فتنوا المومنین و المومنات ثّم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

بیشک جن لوگوں نے با ایمان مردوں اور عورتوں کو زحمتوں میں مبتلا کیا ہے پھر انھوں نے توبہ نہیں کی ان کیلئے جہنم کا عذاب اور جھلسا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔

۸۔'' باری'': خالق اور ہستی عطا کرنے والا

۹۔ ''أسباطاً'' : اسباط یہاں پر قبیلہ اور خاندان کے معنی میں ہے۔

۱۰۔''فا نبجست'': ابلنے لگا ، پھوٹ پڑا ۔

۱۱۔''المن والسلوی''ٰ:المن؛جامد شہد کے مانند چپکنے والی اور شیریں ایک چیز ہے اور السلوی ؛ بٹیر،ایساپرندہ جس کا شمار بحر ابیض کے پرندوں میں ہوتا ہے ، جو موسم سرما میں مصر اور سوڈان کی طرف ہجرت اختیار کرتا ہے۔

۱۲۔''حِطّة'': ہمارے گناہ کو جھاڑ دے،دھو دے، ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے۔

۱۳۔''رفعنا'': ہم نے بلند کیا ، رفعت عطا کی۔

۱۴۔''میثاقکم'': تمہارا عہد و پیمان ، میثاق : ایسا عہد وپیمان جس کی تاکید کی گئی ہو، عہد وپیمان کا پابند ہونا۔

۱۵۔''رجز'': عذاب ، رجز الشیطان... اس کا وسوسہ۔

۱۶۔''یتیھون'': حیران و پریشان ہوتے ہیں ،راستہ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔''لا تأس'': غمز دہ نہ ہو، افسوس نہ کرو۔

۱۸۔''لا تعدوا'': تجاوز نہ کرو ،ظلم وستم نہ کرو۔

۱۹۔''میثاقاً غلیظاً'': محکم و مظبوط عہد و پیمان ۔

۲۰۔''الحوایا'': آنتیں

۲۱۔''شرعًّا'': آشکار اور نزدیک۔

۲۲۔جعل لھم: ان کے لئیقانون گزاری کی، قانون مقرر و معین کیا۔

۵۰

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل سے فرما یا :اُن نعمتوںکو یاد کرو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور تمہارے درمیان پیغمبروں اور حکّام کو قرار دیا نیز من وسلویٰ جیسی نعمت جو کہ دنیا میں کسی کو نہیں د ی ہے تمہیںدی ، خدا وند سبحان نے انھیں فرعون کی غلامی، اولاد کے قتل اور عورتوں کو کنیزی میں زندہ رکھنے کی ذلت سے نجات دی،فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا اور انہیں دریا سے عبور کرا دیا، اس کے باوجود جب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی عبادت اورپوجا میں مشغول ہیں ، تو موسیٰ سے کہا : ہمارے لئے بھی انہی کے مشابہ اور مانند خدا بنادو تاکہ ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں ! اور جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر توریت لینے گئے تو یہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے اور جب موسیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائیںجو خدا نے ان کے لئے مقرر کی ہے تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ ! وہاں ظالم اور قدرت مند گروہ (عمالقہ )ہے جب تک وہ لوگ وہاں سے خارج نہیں ہوں گے ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے''یشوع'' یا ''یسع'' اور ان کی دوسری فرد نے ان سے کہا : شہر میں داخل ہو جاؤ بہت جلدی کا میاب ہو جاؤ گے،تو انھوں نے سر کشی اور نا فرمانی کی اور بولے:اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جائے اور عمالقہ سے جنگ کرے ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں! موسیٰ نے کہا : پروردگارا ! میں صرف اپنے اور اپنے بھا ئی کا مالک و مختار ہوں میرے اور اس گناہ گار قوم کے درمیان جدائی کردے! خداوند سبحان نے فرمایا : یہ مقدس اور پاکیزہ سر زمین ان لوگوں پرچالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے اتنی مدت یہ لوگ سینا نامی صحرا میں حیران و سرگرداں پھر تے رہیں گے تم ان گناہ گاروں کی خاطر غمگین نہ ہو۔

خدا وندعالم ان لوگوں کے بارے میں سورۂ اعراف میں فرماتا ہے : بنی اسرائیل کو بارہ خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا اورانہوں نے جب موسیٰ سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسی پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، اُس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑ ے ہر قبیلہ کے لئے ایک چشمہ، نیزبادل کو ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا تاکہ خورشید کی حرارت وگرمی سے محفوظ رہیں ،شہد کے مانند شرینی اور پرندہ کا گوشت ان کے کھانے کے لئے فراہم کیا، پھر کچھ مسافت طے کرنے کے بعدان سے کہا گیا : اس شہر میں جو کہ تمہارے رو برو ہے سکونت اختیار کرو اور اس کے محصولات سے کھاؤ

۵۱

اور شہر کے دروازے سے داخل ہوتے وقت خدا کا شکر ادا کرو اور اس کا سجدہ ادا کرتے ہوئے کہو !''حطة'' یعنی خدا وندا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ستمگروں نے اس لفظ کو بدل ڈا لا اور ''حطة''کے بجائے''حنطة''کہنے لگے ،( ۱ ) یعنی ہم گندم ( گیہوں ) کے سراغ میں ہیں! خداوندعالم نے ان کے اس اعمال کے سبب آسمان سے عذاب نازل فرمایا۔

خدا وند عالم نے سورۂ نساء میں فرمایا: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم سے اہل کتاب کی خوا ہش ہے کہ تم کوئی کتاب ان کے لئے آسمان سے نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھلادو تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گناہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کو ان کے اوپر جگہ دی۔

اسرائیل(یعقوب) کی پسندیدہ اور مرغو ب ترین غذا دودھ ا وراونٹ کا گوشت تھی ، یعقوب ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورخدا نے انھیں شفا بخشی ،تو انھوں نے بھی خدا وند عالم کے شکرانے کے طور پر محبوب ترین کھانے اور پینے کی چیزوں کو جیسے دودھ اور اونٹ کا گوشت وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اسی طرح انھوں نے جگر اور گردے کی مخصوص چربی نیز دیگر چربی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا کیونکہ اس چربی کو ماضی میں قر بانی کے لئے لے جاتے تھے اور آگ اسے کھا جاتی تھی ۔( ۲ )

قوم یہود کا خدا سے جو عہد وپیمان تھا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جن کے مبعوث ہونے کی موسیٰ ابن عمران نے بشارت دی ہے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت خاتم الا نبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت،ان پر ایمان لائیں، اس بشارت کو اس سے پہلے ہم نے توریت کے سفر تثنیہ سے نقل کیا ہے۔

احکام کے بارے میں بھی انھوں نے عہد وپیمان کیا کہ شنبہ یعنی سنیچر کے دن تجاوز نہیں کریںگے ( کام کاج چھوڑ دیں گے ) خدا نے اس سلسلے میں محکم اور مضبوط عہد وپیمان لیا تھا،ان لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا اورآیات خدا وندی کا انکار کر گئے اور پاک وپاکیزہ خاتون مریم پر عظیم بہتان

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں بحارالا نوار اور مجمع البیان میں اسی طرح مذکور ہے

(۲ ) سیرئہ ابن ہشام ،طبع حجازی قاہرہ ، ج۲ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹ جو کچھ ہم نے متن میں ذکر کیا ہے تفسیر طبری اور سیوطی سے ماخوذ ہے میرے خیال میں جو کچھ سیرئہ ہشام میں ہے وہ متن میں مذکور عبارت سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے

۵۲

باندھا اور زبر دست الزام لگایا اسی لئے تو خدا وند عالم نے تادیب کے عنوان سے بہت سی پاکیزہ چیزوں کو جو ان پر حلال تھیں حرام کردیا اورجب وہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے تو انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یعنی جس نے بھی گوسالہ پر ایمان نہیں رکھا گوسالہ پرستوں قتل کرے اسی طرح جب یہ لوگ خدا پر ایمان لانے سے مانع ہوئے اور سود کا معاملہ کرنے لگے اور سود کھانے لگے ، باوجود یکہ سود (ربا ) سے انھیں منع کیا گیا تھا تواُن پر حلال اورپاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔

ان کی دوسری مخالفت اس پیمان کا توڑنا تھا جو انھوں نے خدا سے کیا تھا کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار نہیں کریںگے اوراس کے لئے انھیں سخت تاکید کی گئی تھی ،سنیچر کے دن مچھلیاںساحل کے کنارے سطح آب پر آجاتی تھیں لیکن دیگر ایام میں ایسا نہیں کرتی تھیں اور یہ ان کا مخصوص امتحان تھا سنیچر کے دن چھٹی کرنا صرف اور صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھا ،وہی لوگ کہ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، اس امتحان میں گرفتار ہوئے۔

خدا وندعالم سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

اہل کتاب یہودی تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کر چکے ہیںکہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھاؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گنا ہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کوان کے سروں پر لٹکادیا اوران سے سخت اور محکم عہد و پیمان لیا کہ جو کچھ موسیٰ ابن عمران ان کے لئے لائے ہیںاس پر ایمان لاکر عمل کریں گے ، ہمارے پیمان کا بعض حصّہ خدا کے پیغمبر بالخصوص حضرت عیسیٰ ابن مریم اورمحمد ابن عبد ﷲ پر ایمان لانا تھا ، لیکن ان لوگوں نے مریم عذرا پر نا روا تہمت لگائی اور توریت کے احکام کو کذب پر محمول کیا ، خدا کے نبیوں کا انکار کیا اور بہت سوں کو قتل کر ڈالا اور راہ خدا سے روکا ، سود لیا، لوگوں کے اموال کو ناجائز طور پر خورد و برد کیا تو ہم نے بھی ان تمام ظلم و ستم کے باعث ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال تھیں حرام کردیا، ان پر حرام ہونے والی اشیاء میں سنیچر کے دن ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا بھی تھا جہاں اس دن مچھلیاں آشکار طور پران سے نزدیک ہو جاتی تھیں اور خود نمائی کرتی تھیں۔

۵۳

بحث کا نتیجہ

خدا وندعالم نے بنی اسرائیل کو مصر کے ''فرعونیوں '' اور شام کے''عمالقہ'' اور اس عصر کی تمام ملتوں پر فضیلت اور برتری دی تھی بہت سے انبیاء جیسے موسیٰ ، ہارون ،عیسیٰ اور ان کے اوصیاء کوان کے درمیان مبعوث کیا اوراس سے بھی اہم یہ کہ توریت ان پر نازل کی ، ان سے سخت اور محکم پیمان لیا تا کہ جو کچھ ان کی کتابوں میں مذکور ہے اس پر عمل کریں ،''من وسلویٰ'' جیسی نعمت کا نزول ، پتھر سے ان کے لئے پانی کا چشمہ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ نعمتوںسے سرفرازفرمایا، لیکن ان لوگوں نے تمام نعمتوں کے باوجودآیات الٰہی کا انکار کیا اور گوسالہ کے پجاری ہو گئے، سود لیا ،لوگوں کے اموال ناجائز طورپر کھائے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی نافرمانی اور طغیانی کی، ایسے لوگوں کے اپنے آلودہ نفوس کی تربیت کی سخت ضرورت تھی اس لئے خدا وند عالم نے ان پر خود کو قتل کرنا واجب قرار دیا نیز سنیچر کے دن دنیاوی امور کی انجام دہی ان پر حرام کردی ،لیکن ان لوگوں نے سنیچر کے دن ترک عمل پر اختلاف کیا ، جیسا کہ اس ساحلی شہر کے لوگوں نے بھی اس سلسلے میں حیلے( ۱ ) اور بہانے سے کام لیا !خدا وندسبحان نے ان چیزوں کو جو کچھ اسرائیل نے اپنے او پر حرام کیا تھا(چربی ،اونٹ کا گوشت اور اس جیسی چیزوں کا کھا نا) ان کی جان کی حفاظت کی غرض سے ان پر بھی حرام کردیا، اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرئیل ہمیشہ قبائلی اتحاد و یکجہتی اور اٹوٹ رشتہ کے محتاج تھے تا کہ ا ن سرکش وطاغی عمالقہ اور قبطیوں کا مقابلہ کر سکیں جو ان کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لئے ہوئے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے بھی قبل اس کے کہ ہیکلِ سلیمان نامی معروف مسجد کی تعمیر کریں،ان پر واجب قرار دیا کہ سب ایک ساتھ عبادت کے لئے '' خیمہ اجتماع'' کے پاس جمع ہوں اور اپنی دینی رسومات کو ہارون کے فرزند وں کی سر پرستی میں بجا لائیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم کواور ان کی مادر گرامی مریم کو جو کہ حضرت داؤد کی نسل (جوبنی اسرائیل کے یہودا کی نسل )سے تھیںان کی طرف روانہ کیااور بعض وہ چیزیں جوان پر حرام تھیں حلال کر دیا ،جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زبانی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱) مادہ''سبت '' کے سلسلے میں کتاب قاموس کتاب مقدس ، تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو ۔

۵۴

( اِنّی قد جئتکم بآية من ربّکم... و مصدقاً لما بین یدیّ من التوراة و لأحلّ لکم بعض الذی حرّم علیکم... ) ( ۱ )

میں تمہارے پر وردگار کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشانی لایا ہوں اور جو کچھ مجھ سے پہلے توریت میں موجود تھااس کی تصدیق اور اثبات کرتا ہوں اورآیا ہوں تاکہ بعض وہ چیزیں جو تم پرحرا م کی گئی تھیں حلال کر دوں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیااس سے واضح ہو گیاکہ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ ابن عمران سے لے کر عیسیٰ ابن مریم تک بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، نیز توریت میں بعض شرعی احکام بھی صرف بنی اسرائیل کی مصلحت کے لئے نازل ہوئے ہیں اس بنا پر ایسے احکام موقت یعنی وقتی ہوتے ہیںاور یہ ان چیزوں کے مانند ہیںجنہیں اسرائیل( یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرا م کرلیا تھا لہٰذاان میں بعض کی مدت عیسیٰ ابن مریم کی بعثت سے تمام ہوگئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا ُن محرمات میں سے کچھ کوان کے لئے حلال کر دیا اور کچھ باقی بچے ہوئے تھے جن کی مدت حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت تک تھی وہ بھی تمام ہو گئی لہٰذاایسے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے اور ان سب کی مدت تمام ہونے کو بیان فرمایا۔

خدا وند عالم اس موضوع کو سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کرتا ہے :

( الذین یتبعون الرسول النّبی الأمیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوارة و الأنجیل یا مرهم با لمعروف و ینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم و الأغلال التی کانت علیهم ) ( ۲ )

جو لوگ اس رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیںجس کے صفات توریت اور انجیل میں جو خود ان کے پاس موجود ہے ،لکھا ہوا ہے وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی اور منکر سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اوران کے سنگین بار کو ان پر سے اٹھا دیا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انھیں اس سے آزاد کردیتا ہے۔

'' اِصرھم'' :ان کے سنگین بوجھ یعنی وہ سخت تکالیف و احکام جوان کے ذمّہ تھے۔

نسخ کی یہ شان حضرت موسیٰ کی شریعت میں ان سے پہلے شرائع کی بنسبت تھی ، اسی طرح بعض وہ چیزیں

جو موسیٰ کی شریعت میں تھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ ہو گئیں۔

''نسخ''کی دوسری قسم یہ ہے کہ یہ نسخ صرف ایک پیغمبر کی شریعت میں واقع ہو تاہے ،جیسا کہ آگے آئے گا۔

____________________

(۱)آل عمران ۴۹۔ ۵۰

(۲)اعراف ۱۵۷

۵۵

ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ کے معنی

ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:

یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْهَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۲) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ ﷲ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ وَﷲ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۳ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! جب رسول ﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔

اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:

بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔

____________________

(۱)مجادلہ ۱۲، ۱۳،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )

۵۶

اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔

اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

۱۔( شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ به نوحاً ) ...)(۱ )

تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔

۲۔( و ِأن من شیعة لأِبراهیم )

ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔( ۲ )

۳۔ خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:

الف۔( اتبع ملّة ابراهیم حنیفاً )

ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔

ب ۔( فاتّبعوا ملّة أِبراهیم حنیفاً )

____________________

(۱)شوری ۱۳(۲)،صافات ۸۳

۵۷

پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔( ۱ )

اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میں آیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

۱۔( کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسه ) ( ۲ )

کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

۲۔( و علیٰ الذین هادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل ) ( ۳ )

اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔

۳۔( اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیه ) ( ۴ )

سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

توریت کے سفر تثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''

اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔

____________________

(۱)آل عمران۹۵(۲)آل عمران ۹۳ (۳)نحل ۱۱۸ (۴)نحل ۱۲۴

۵۸

دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میں الواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔( ۱ ) نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔

حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔

حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :

( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الأنجیل یأمرهم بالمعروف وینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبا ت و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم والأغلال الّتی کا نت علیهم ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورئہ بقرہ ۲۸۴

(۲)اعراف۱۵۷

۵۹

وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔

خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّا انزلناالتوراة فیها هدیً و نور یحکم بها النبيّون الذین أسلموا للذین هادوا...) (و کتبنا علیهم فیها أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق به فهو کفّارة له و من لم یحکم بما انزل ﷲ فأولائک هم الظالمون ) ( ۱ )

ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔

جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔

____________________

(۱)مائدہ ۴۴ ،۴۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

۶ _ سخت دشمنى او ر شديدمخالفت، انبيا(ع) ء كے ہلاك شدہ مخالفين كى خصوصيات ميں سے تھيں _ثم صدقنا هم الوعد و أهلكنا المسرفين مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ اسراف سے مراد_ حكم و موضوع اور آيت كے مورد كے تناسب سے _ انبيا(ع) ء كى مخالفت اور دشمنى ميں حد سے تجاوز كرنا ہے نہ كہ امور مالى و غيرہ ميں اسراف

۷ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كى حوصلہ افزائي اور انہيں تسلى دينا اور مشركين كو دھمكى دينا _

ثم صدقنهم الوعد و أهلكنا المسرفين

خداتعالى كے انبيا(ع) ء اور مؤمنين كے ساتھ كاميابى اور ان كے دشمنوں كى نابودى كے وعدے كا تذكرہ ہوسكتا ہے مذكورہ نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو _

۸ _ انبيا(ع) ء كے دشمن اور مخالفين ،اسراف كرنے والے ہيں _ثم صدقناهم الوعد أهلكنا المسرفين

۹ _ اسراف كرنا، حق كو قبول نہ كرنے اور انبيا(ع) ء كى مخالفت كے اسباب فراہم كرتا ہے اور ہلاكت اور نابودى كا سبب ہے _و أهلكنا المسرفين ہلاك ہونے والوں كى ''مسرفين'' كے ساتھ توصيف ان كى ہلاكت ميں اس وصف كى تا ثير اور علت ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۱۰ _ مشركين كے خلاف كاميابي، خداتعالى كا پيغمبر(ص) اسلام كے ساتھ وعدہ _ثم صدقناهم الوعد

آيت كريمہ پيغمبر(ص) اسلام كو تسلى دينے كے مقام ميں ہے اور خداتعالى عمومى روش كو بيان كر كے (سب انبيا(ع) ء كى كاميابى كا وعدہ) در حقيقت پيغمبراكرم(ص) كو بھى كاميابى كا وعدہ دے رہا ہے _

اسراف:اسكے اثرات ۹

انبياء(ع) :ان كے دشمنوں كا اسراف ۸; ان كے دشمن۵; ان كے دشمنوں كى دشمنى ۶; ان كے ساتھ دشمنى كے عوامل ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى خصوصيات ۶; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

حق:اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۹

خداتعالى :

۳۰۱

اسكى مشيتّ كے اثرات ۴; اسكى دھمكياں ۷; اسكے وعدے ۳

دشمن:ان سے نجات كا سرچشمہ ۴; ان سے نجات ۱

مؤمنين:انكى حوصلہ افزائي ۷; انكو تسلى ۷; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى حوصلہ افزائي ۷; آپكو تسلى ۷; آپ كو كاميابى كا وعدہ ۱۰

مسرفين: ۸

انكى دشمنى ۵

مشركين:ان پر كاميابى ۱۰; انكى دھمكي۷

ہلاكت:اسكے عوامل

وعدہ:اسكى وفا، ۳

آیت ۱۰

( لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ )

بيشك ہم نے تمھارى طرف وہ كتاب نازل كى ہے جس ميں خود تمھارا بھى ذكر ہے تو كيا تم اتنى بھى عقل نہيں ركھتے ہو (۱۰)

۱ _ قرآن، آسمانى كتاب اور خداتعالى كى طرف سے نازل كى گئي ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب

۲ _ قرآن، با عظمت اور بلند مرتبہ كتاب ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب ''كتاباً '' كى تنوين تفخيم اور تعظيم پر دال ہے_

۳ _ قرآن، پيغمبراكرم(ص) كے زمانے ميں (بعثت كے پہلے نصف حصے ميں ) كتاب كے طور پر جانى پہچانى جاتى تھي_

لقد أنزلنا إليكم كتب اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كے سورہ ''انبيائ'' مكہ ميں نازل ہوئي معلوم ہوتا ہے كہ بعثت كے پہلے نصف حصے ميں قرآن كتاب كے طور پر پہچانا جاتا تھا _

۳۰۲

۴ _ قرآن، انسان كو ياد دہانى كرانے والا اور انسان كے ساتھ مربوط مسائل پر مشتمل ہے_كتاباً فيه ذكر كم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' كسى چيز كو زبان پر لانے اور ياد كرنے كے معنى ميں ہو_ قابل ذكر ہے كہ يہ معنى اسكے مشہور اور غالب معانى ميں سے ہے _

۵ _ قرآن، انسان كيلئے سبق آموز او رپند و نصيحت كا سبب ہے_كتبا فيه ذكركم

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى نصيحت اور نصيحت حاصل كرنا ہو _

۶ _ قرآن، انسان اور امت اسلامى كى شرافت و بزرگى كا سبب اور اس كا نعرہ ہے_كتبا فيه ذكركم

اہل لغت نے كلمہ ''ذكر'' كيلئے جو معانى ذكر كئے ہيں ان ميں سے شرافت ، بزرگى اور شہرت ہے (قاموس) اس بناپر ''فيہ ذكركم'' سے مراد يہ ہے كہ شرافت و بزرگى اور شہرت، قرآن كے سائے ميں اور اس پر عمل كرنے ميں ہے_

قابل ذكر ہے كہ ''ذكركم'' كى ضمير مخاطب سے مراد ہوسكتا ہے سب انسان ہوں اور ہوسكتا ہے صرف امت اسلامى ہو_ مذكورہ مطلب ميں دونوں احتمال ملحوظ ہيں _

۷ _ انسان كے فطرى اور غريزى محركات و تمايلات سے استفادہ كرنا قرآن كى تربيتى اور ہدايت كرنے كى ايك روش _

فيه ذكركم مذكورہ مطلب مندرجہ ذيل دو نكتوں پر مبتنى ہے ۱_ ذكر ثناء اور نغمے كے معنى ميں ہو _۲_ نام كے ہميشہ رہنے اور بلند شہرت كا شوق ،سب انسانوں كى طبع اور غريزے ميں ہے_

۸ _ خداتعالى ،انسان كو معارف قرآن ميں غور و فكر كرنے كى دعوت ديتا ہے اور اسكى ترغيب دلاتا ہے_أفلا تعقلون

۹ _ مشركين كا قرآن كا جھٹلانا ان كے عقل و خرد سے كام نہ لينے كا نتيجہ ہے _هم فى غفلة معرضوں لاهية قلوبهم لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۰ _ پيغمبر اكرم(ص) اور قرآن كى حقانيت تك پہنچنے ميں خردمندى اور غور و فكر كا مؤثر اور تعميرى كردار ہے_

لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۱ _ قرآن كے معارف اور تعليمات عقل و خرد كے موافق او راسكے ساتھ سازگار ہيں _لقد أنزلنا إليكم كتاباً أفلا تعقلون قرآن ميں غور وفكر كرنے كى تشويق دلانا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ يہ آسمانى كتاب محتوا كے لحاظ سے عقل و خرد كے ساتھ سازگار ہے_

۱۲ _ قرآن اپنى اور پيغمبر(ص) اسلام كى حقانيت كو ثابت كرنے كى بہترين اور سب سے زيادہ قوى دليل اور معجزہ

۳۰۳

ہے_لقد أنزلنا إليكم كتباً فيه ذكركم أفلا تعقلون

ممكن ہے يہ آيت كريمہ مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) سے اپنى حقانيت كو ثابت كرنے كيلئے معجزہ لانے كے بہانے والى درخواست كا جواب ہو يعنى اگر يہ لوگ غور كريں تو سمجھ جائيں گے كے قرآن، پيغمبر(ص) اسلام كا معجزہ ہے _ قابل ذكر ہے كہ اس حقيقت كى لام قسم اور حرف تحقيق (لقد) كے ساتھ تاكيد اسى مطلب كى تائيد كرتى ہے_

آسمانى كتب :۱

آنحضرت(ص) :آپكى حقانيت ۱۰; آپكي(ص) حقانيت كے دلائل ۱۲

تربيت:اسكى روش ۷

غور و فكر كرنا:اسكے اثرات ۱۰; اسكى تشويق ۸; يہ قرآن ميں ۸

خداتعالى :اسكى تشويق ۸

ذكر:انسان كا ذكر ۴

عبرت:اسكے عوامل ۵

عزت:اسكے عوامل ۶

غريزہ:اس كا كردار ۷

فطريات:ان كا كردار ۷

قرآن كريم:اس كا معجزہ ہونا ۱۲; اسكى تاريخ ۳; اس كى تعليمات ۴; اس كا جمع كرنا ۳; اسكى حقانيت ۱۰; اسكى حقانيت كے دلائل ۱۲; اسے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۵; اسكى عظمت ۲; اسكى تعليمات كا عقلى ہونا ۱۱; اسكى فضيلت ۴; اس كا نزول ۱; اس كا كردار ۵_ ۶، ۱۲; اس كا وحى ہونا ۱

كتاب :۳

مسلمان:انكى عزت كے عوامل ۶

مشركين:ان كے غور نہ كرنے كے اثرات ۹

ہدايت:اسكى روش ۷

۳۰۴

آیت ۱۱

( وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْماً آخَرِينَ )

اور ہم نے كتنى ہى ظالم بستيوں كو تباہ كرديا اور ان كے بعد ان كى جگہ پر دوسرى قوموں كو ايجاد كرديا (۱۱)

۱ _ خداتعالى نے بہت سے شہروں اور آباديوں كو ان كے لوگوں كے ظلم و ستم كى وجہ سے سختى كے ساتھ كچل ديا اور نابود كردياو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''قصمنا'' كے مصدر ''قصم'' كا معنى ہے سختى كے ساتھ كسى چيز كو توڑنا اس طرح كہ وہ پراكندہ اجزاء اور ٹكڑوں ميں تبديل ہوجائے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اس سے مراد نابودى اور ہلاكت ہے

۲ _ ظلم و ستم، معاشروں اور تہذيبوں كے مكمل انحطاط اورانہدام كا سبب ہے _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

''قرية'' (شہروں كے لوگ) كى ''ظالمہ'' (ستمگر) كے ساتھ توصيف نابودى اور انہدام ميں ظلم كے كردار كو بيان كررہى ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے مشركين اور ستمگر معاشروں اور مشركين كو ہلاكت اور نابودى كى دھمكى _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

۴ _ قرآن اور پيغمبر(ص) اسلام كى مخالفت اور ان كے ساتھ مقابلہ ظلم و ستم كا واضح مصداق ہے _لقد أنزلنا إليكم و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة خداتعالى نے نزول قرآن كو بيان كرنے اور لوگوں كو اس ميں غور و فكر كى دعوت دينے نيز بہت سى اقوام كو ان كے ظلم كى وجہ سے نابود كرنے كا تذكرہ كرنے كے بعد اسلام اور قرآن كے مخالفين كو عذاب اور نابودى كى دھمكى دى ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اسلام اور قرآن كى مخالفت ظلم كا واضح مصداق اور نابودى كا موجب ہے _

۵ _ ظلم، اسراف ہے اور ستمگر معاشرے مسرفين كى تاريخ كے واضح مصداق ہيں _

و أهلكنا المسرفين و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

خداتعالى نے سابقہ دو آيتوں ميں انبيا(ع) ء كے دشمنوں كو مسرفين كہا ہے (و أهلكن المسرفين ) اور اس آيت ميں بہت سارى اقوام كو كہ جو دين الہى كے ساتھ دشمنى كى وجہ سے نابود ہوئي ہيں ظالم كہا ہے ان دو آيتوں كے ارتباط سے يہ سمجھا جاسكتا ہے كہ ظالمين وہى مسرفين ہيں _

۳۰۵

۶ _ بہت سارے معاشروں كا انحطاط اور انكى نابودى ان كے لوگوں كے كردار كى وجہ سے ہوئي _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''كم قصمنا'' ميں كلمہ ''كم'' خبريہ اور كثير كے معنى ميں ہے اور قريوں اور امتوں كو ظالم كہنا ان كى ہلاكت اور نابودى كے سبب كا بيان ہے_

۷ _ خداتعالى نے ستمگر اقوام كو نابود كرنے كے بعد دوسرے لوگوں كو پيدا كيا اور ان كى جگہ پر قرار ديا_

و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين ''انشأنا'' كے مصدر ''انشائ'' كا معنى ہے كسى جاندار شے كو خلق كرنا اور اسے وجود ميں لانا اور اسكى تربيت كرنا (مفردات راغب)_

۸ _ معاشروں اور تہذيبوں كا تغير و تبدل اور دگرگونى خداتعالى كى مشيت اور ارادے كے تابع ہے _

و كم قصمنا و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ دشمنى ۴; آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ ۴

اسراف:اسكے موارد۵

اقوام:انكے متبادل لانے كا سرچشمہ ۷، ۸

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۲، ۶; ان كے ختم ہونے كا سرچشمہ ۸

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸; اسكى مشيت كے اثرات ۸; اسكے افعال ۷ ; اسكى دھمكياں ۳

شہر:انكى نابودى كے عوامل ۱

ظالم لوگ: ۵انہيں دھمكى دينا ۳; انكى ہلاكت ۷

ظلم:اسكے اثرات ۱، ۲، ۵; اسكے موارد ۴

عمل:اسكے اثرات ۶

قرآن كريم:اسكے ساتھ د شمنى ۴; اسكے ساتھ مبارزت ۴

مسرفين: ۵مشركين:ان كو دھمكى دينا ۳

ہلاكت:اسكى دھمكى ۳

۳۰۶

آیت ۱۲

( فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَرْكُضُونَ )

پھر جب ان لوگوں نے عذاب كى آہٹ محسوس كى تو اسے ديكھ كر بھاگنا شروع كرديا (۱۲)

۱ _ ستمگر اقوام اور معاشرے جب عذاب الہى كے نزول كا احساس كرتے ہيں تو بھاگ كھڑے ہوتے ہيں _

فلما أحسّوا بأسنا إذا هم منها يركضون

(يركضون كے مصدر) ''ركض'' كا اصلى معنى زمين پر پاؤں مارنا ہے اور جب اسے شخص كى طرف نسبت دى جائے تو اس سے مراد بھاگنا اور تيز چلنا ہوتا ہے_

۲ _ ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى سے پہلے عذاب كى نشانيوں او رعلامات كا ظاہر ہونا_فلما أحسّوا بأسن

مذكورہ مطلب اس نكتے پر مبتنى ہے كہ عذاب كے احساس سے مراد اسكى نشانيوں اور علامات كا مشاہدہ ہو اور اس وقت عذاب كے شكار لوگوں كا فرار كرنا اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے كيونكہ اگر وہ خود عذاب كا احساس كرتے تو بھاگنے كى فرصت اور راستہ ہى نہ ہوتا _

۳ _ عذاب ا لہى كى علامات اور نشانيوں كے ظہور كے وقت ،ستمگر معاشروں كا شديد اور ناگہانى اضطراب اور وحشت _

فلما أحسّوا إذا هم منها يركضون مذكورہ مطلب ''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع امر پر دلالت كرتا ہے_ سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ناگہانى فرار ايك قسم كے وحشت اور اضطراب كى دليل ہے_

۴ _ ستمگر معاشروں پر نازل ہونے والا عذاب تدريجى ہوتا تھا _فلما أحسّوا يركضون

اس چيز كے پيش نظر كے آيت كريمہ ميں عذاب كے شكار لوگوں كے فرار كو بيان كيا گيا ہے لگتاہے كہ عذاب كے احساس كے آغاز اور انكى نابودي_ كہ جس كا تذكرہ بعد كى تين آيتوں ميں ہے_ كے درميان فاصلہ موجود تھا _

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۱; انكا تدريجى عذاب ۴; انكى ہلاكت ۲

ظالم لوگ:

۳۰۷

انكا اضطراب ۳; انكا خوف ۳; يہ عذاب كے وقت ۱، ۳; انكا تدريجى عذاب ۴; انكا فرار ۱; انكى ہلاكت ۲

عذاب:اس سے فرار ۱; اسكى نشانياں ۲

آیت ۱۳

( لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ )

ہم نے كہا كہ اب بھاگو نہيں اور اپنے گھروں كى طرف اور اپنے سامان عيش و عشرت كى طرف پلٹ كر جاؤ كہ تم سے اس كے بارے ميں پوچھ كچھ كى جائے گى (۱۳)

۱ _ ''فرار نہ كرو اور پر آسائش زندگى كى طرف پلٹ آو'' مہلك عذاب كے نزول كے وقت خداتعالى كى ستمگر اور پر آسائش كى زندگى گزارنے والوں كے ساتھ استہزا ء والى گفتگو_لاتركضوا و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

''الترف'' كا معنى ہے صاحب نعمت ہونا اور ''الترفہ'' كا معنى ہے خود نعمت اور ''مترف'' اسے كہتے ہيں حو فراوان نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ مند ہو اس طرح كہ غرور كرنے لگے (لسان العرب) يا اس طرح ناز و نعمت ميں ہو كہ اسے كوئي روك نہ سكے اور جو اس كا دل چاہے كرے قابل ذكر ہے كہ ''لاتركضوا'' اور ''ارجعوا ...'' ميں نہى اور امرطلب حقيقى كيلئے نہيں ہيں بلكہ مجاز اور تہكم و استہزا ء كيلئے ہيں _

۲ _ ستمگر اور پرُ آسائش زندگى گزارنے والے معاشروں كا عذاب اور سزا حتمى ہے اور اس سے فرار كا كوئي فائدہ نہيں ہے _لاتركضوا و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه

۳ _ پر آسائش زندگى گزارنے والے ستمگر نزول عذاب كے وقت اپنا مال و متاع اور گھر چھوڑ كر اپنے شہر و ديار سے فرار كر جاتے ہيں _و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم

۴ _ مادى اور خوشگوار زندگى ميں غوطہ زن ہونا ستمگر معاشروں ميں زندگى گزارنے كا طريقہ ہے _قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

۵ _ خوش گذرانى اور ناز و نعمت اور آسائشوں ميں غرق رہنا دنيوى عذاب اور ہلاكت كاپيش خيمہ ہے _و كم قصمنا من قرية و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه مذكورہ مطلب ''فيہ'' سے كہ جو ظرفيت كل ے ہے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ نعمت اور آسائش كو ظرف اور انسان جو صاحب نعمت ہے اس كومظروف قرار ديا گيا ہے اور يہ چيز پرُ آسائش زندگى گزارنے والے ستمگروں كے ناز و نعمت ميں غرق ہونے كو بيان كرتى ہے_

۳۰۸

۶ _ معاشرے كے ستمگر اور پر آسائش زندگى گزارنے والے لوگ، تہذيبوں كى نابودى اور معاشرے كے افراد كى ہلاكت كا سبب ہيںو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

ان آيات كے مخاطب كچھ خاص لوگ ہيں كيونكہ خداتعالى نے انكى دو صفتيں بيان كى ہيں ستمگر ہونا اور پر نعمت ہونا اور يہ دو صفتيں عام طور پر معاشرے كے خاص طبقے ميں ہوتى ہيں اور اكثر لوگ نہ ظالم ہيں اور نہ پر آسائش _

۷ _ گذشتہ ظالم معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے لوگ خوبصورت اور مجلل عمارتيں اور گھر ركھتے تھے_و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم پرُ آسائش زندگى والوں كے مال و متاع ميں سے ''گھروں '' كا تذكرہ انكى خصوصيت كا گواہ ہے نيز يہ انكے باسيوں كى دلى وابستگى كى بھى دليل ہے_

۸ _ ستمگر معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے افراد كى ممتاز معاشرتى اور اقتصادى حيثيت_ارجعوا لعلكم تسئلون

اس سلسلے ميں كہ ''تسئلون'' ميں سوال كيا ہے اور سوال كرنے والے كون ہيں مفسرين كى مختلف آراء ہيں _ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ سوال كرنے والے لوگ ہيں اور سوال سے مراد، معاشرتى مسائل ميں مشورہ اور اقتصادى مسائل ميں مدد اور درخواست ہے_

۹ _ ماضى كے ستمگر اور پرُ آسائش معاشروں ميں فقير اور نادار طبقے كا وجود _ارجعوا لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''لعلكم تسئلون'' سے مراد فقراء كى ان سے درخواست اور سوال ہو_

۱۰ _ گذشتہ معاشروں كے ستمگر اور پرُ آسائش زندگى والے لوگ انبيا(ع) ء الہى كى مخالفت اور ان كے خلاف مقابلہ ميں پيش ہوتے _و كم قصمنامن قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس نكتے كو پيش نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے ہے كہ يہ آيت كريمہ اور اس سے پہلے كى دو آيتيں ان لوگوں كے بارے ميں ہيں كہ جو انبياء كى مخالفت كى وجہ سے عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے_

۱۱ _ پرُآسائش زندگى والے ستمگر لوگوں كا نعمات الہى اور آسائش سے بہرہ مند ہونے كى وجہ سے مؤاخذہ ہوگا اور ان سے سؤال كيا جائيگا_ارجعوا إلى ما أترفتم فيه ومسكنكم لعلكم تسئلون

امتيں :ان كى ہلاكت كے عوامل ۶/انبياء (ع) :

۳۰۹

ان كے دشمن ۱۰

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۶

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۶

خداتعالى :اس كا مذاق اڑانا ۱

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے ظالموں كى دشمنى ۱۰; ان كے معاشرتى طبقات ۹; ان كے پر آسائش لوگوں كے گھر ۷; ان كے ظالموں كى معاشرتى حيثيت ۸; ان كے پر آسائش زندگى والے افراد كى معاشرتى حيثيت۸; ان كے ظالموں كى اقتصادى حيثيت ۸; ان كے عيش و عشرت والوں كى اقتصادى حيثيت۸

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۵

ظالم لوگ:ان كا مذاق اڑانا ۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; انكى خوش گذرانى ۴; ان كى دنيا پرستى ۴; ان كى روش زندگى ۴; يہ عذاب كے وقت ۳; انكافرار ۳; انكا مؤاخذہ ۱۱; ان كا نقش و كردار ۶

عذاب:اس كا پيش خيمہ ۵; جڑ سے اكھاڑ پھينكنے والا عذاب ۱; ا س سے فرار ۱

پرآسائش زندگى والے لوگ:ان كا مذاق اڑانا۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; ماضى كے پر آسائش زندگى والوں كى دشمنى ۱۰; ان كا فرار ۱، ۳; ان كا مواخذہ ۱۱; يہ عذاب كى وقت ۳; انكا نقش و كردار ۶

نعمت:صاحبان نعمت كا مواخذہ ۱۱

ہلاكت:س كا پيش خيمہ ۵

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۵

آیت ۱۴

( قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہائے افسوس ہم واقعاً ظالم تھے (۱۴)

۱ _ ظالم معاشروں كے عيش و عشرت پسند لوگ، عذاب الہى كے احساس كے بعد اپنے ظلم و ستم كا اعتراف كرليتے ہيں _فلما أحسوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

۲ _ عيش و عشرت پسند ظالم لوگ، عذاب الہى كو ديكھ كر

۳۱۰

حسرت اور ندامت ميں ڈوب جاتے ہيں _فلما أحسّوا بأسنا قالوا يا ويلنا إنّا كنا ظالمين

۳ _ ہلاك كردينے والى مشكلات اور عذاب الہى كے مشاہدہ كے وقت انسان كا حقائق كى طرف توجہ كرنا اور اپنے كردار سے پشيمان ہونا_فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''قالواياويلناا ...'' مستأنفہ اور جملہ ''فلما أحسّوا بأسنا ...'' كيلئے بيان ہو يعنى جب ہمارے عذاب كو محسوس كرتے ہيں تو اپنے گناہ كا اقرار اور حقيقت حال كا اعتراف كرليتے ہيں پس عذاب كو محسوس كرنا اور تباہ و برباد كردينے والى مشكلات كا مشاہدہ انسان كے حقائق كى طرف توجہ كرنے اور ان كے اعتراف كا سبب ہے_

۴ _معاشروں كے عيش و عشرت پسند اور خوش گذران لوگ ظالم اور ستمگر ہيں _

قرية كانت ظالمة ما أترفتم فيه إنا كنا ظالمين

۵ _ مسلسل ظلم، نابودى اور عذاب الہى كے نزول كا سبب ہے _فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنا كنا ظلمين

مبتلا ہونا:عذاب ميں مبتلا ہونے كے اثرات ۳

اقرار:ظلم كا اقرار ۱

پشيماني:اسكے عوامل ۳

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

خوش گذراں لوگ:ان كا ظلم ۴

ظالم لوگ:ان كا اقرار ۱; انكى حسرت۲; يہ عذاب كے وقت۱، ۲

ظلم:اسكے اثرات ۵

عذاب:اسكے ديكھنے كے اثرات ۳; اسكے وقت پشيمانى ۱; اسكے عوامل ۵

عيش و عشرت پر ست لوگ:ان كا اقرار۱; ان كى پشيمانى ۲; انكى حسرت۲; انكا ظلم ۴; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

۳۱۱

آیت ۱۵

( فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيداً خَامِدِينَ )

اور يہ كہہ كر فرياد كرتے رہے يہاں تك كہ ہم نے انھيں كٹى ہوئي كھيتى كى طرح بنا كر ان كے سارے جوش كو ٹھنڈا كرديا (۱۵)

۱ _ عيش و عشرت پرست ستمگر لوگ ،عذاب كے احساس سے ليكر ہلاكت و نابودى تك افسوس اور پشيمانى ميں رہيں گے_فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلناهم حصيداً خمدين

۲ _ عذاب الہى كى نشانياں اور علامات ديكھنے كے بعد ايمان لانا اور ظلم و گناہ كا اعتراف كرنا بے ثمر ہے_

إنا كنا ظالمين فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلنهم حصيد

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''گناہ گار لوگ عذاب كے مشاہدے كے وقت سے ليكر ہلاكت كے وقت تك مسلسل اپنے ظلم كا اعتراف كرتے ہيں '' تو اس كا مطلب يہ ہے كہ عذاب كے مشاہدے كے وقت گناہ كا اعتراف كرنا اثر نہيں ركھتا اور ضرورى ہے كہ توبہ عذاب كو ديكھنے سے پہلے انجام پائے_

۳ _ بہت سارے ستمگر اور پر آسائش زندگى والے معاشرے، خداتعالى كے شديد عذاب كے نتيجے ميں بالكل نابود ہوگئے_

و كم قصمنا حتى جعلنهم حصيداً خمدين

''حصيد'' كا معنى ہے محصود يعنى كاٹا ہوا اور ''خامد'' ''خمدت النار خموداً'' كا اسم فاعل ہے يعنى آگ كا بجھا ہوا شعلہ اور يہ اس آيت ميں موت سے كنايہ ہے (مفردات راغب) _

اقرار:ظلم كا اقرار ۲; گناہ كا اقرار۲

ايمان:بے ثمر ايمان ۲

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۳; انكا عذاب ۳; ان كے ختم ہونے كے عوامل ۳

۳۱۲

ظالم لوگ:انكى پشيماني۱; يہ عذاب كے وقت ۱

عذاب:اسے ديكھنے كے اثرات۲; اسكے وقت پشيماني۱

عيش و عشرت پسندلوگ:انكى پشيمانى ۱; يہ عذاب كے وقت ۱

آیت ۱۶

( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ )

اور ہم نے آسمان و زمين اور ان كے درميان كى تمام چيزوں كو كھيل تماشے كے ئے نہيں بنايا ہے (۱۶)

۱ _ آسمان و زمين اور فضا كے موجودات (عالم وجود) كى خلقت، فضول اور كھيل تماشا نہيں ہے بلكہ بامقصد اور با ہدف ہے_و ما خلقنا السماء والأرض و ما بينهما لعبين

''لعب'' كا معنى ہے ايسا بے فائدہ كام كہ جس كا كوئي صحيح مقصد اور سود نہ ہو ''لاعبين''، ''خلقنا'' كى ضمير كيلئے حال ہے يعنى ہم نے عالم ہستى كو كھيل تماشے كے قصد سے خلق نہيں كيا_

۲ _ آسمان و زمين كے درميان كى فضا ميں مخلوقات اور موجودات ہيں _و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۳ _ انبيا(ع) ء كى بعثت اور ستمگر اور دين دشمن معاشروں كى ہلاكت، نظام ہستى كے باہدف ہونے كى بنياد پر ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگر اقوام كى ہلاكت كے بعد كائنات كے باہدف ہونے كى ياددہانى ہوسكتا ہے اس نكتے كو بيان كررہى ہو كہ جب كائنات با مقصد اور باہدف ہے تو ستمگر اقوام كى ہلاكت بھى كائنات كے اسى باہدف ہونے اور كھيل تماشا نہ ہونے كا حصہ ہوگي

۴ _ ظلم اور انبيا(ع) ء كى مخالفت ،عالم ہستى كے قانون كے تابع ہونے والے نظام كے خلاف ہے _

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگروں كى نابودى كے بعد، خداتعالى كى طرف سے خلقت كائنات كے فضول نہ ہونے كى ياد دہانى ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كررہى ہو كہ انسان ظلم نہ كرے اور ستم كرنا كائنات كى بامقصد حركت كے خلاف ہے_

۵ _ عيش و عشرت پسند ستمگر لوگ ،كائنات كو كھيل تماشااور بے مقصد سمجھتے ہيں _

قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۶ _ كائنات كو بے مقصد سمجھنا، عالم خلقت كو فضول اور كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے _

۳۱۳

و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

''مبطلين'' كے بجائے ''لعبين'' كى تعبير بتاتى ہے كہ كائنات كو باطل اور بے مقصد سمجھنا عالم خلقت كو كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے_

آسمان:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا ۲

خلقت:اسكے ساتھ كھيلنا ۶; اسكو كھوكھلا سمجھنا۵، ۶; اس كا قانون كے مطابق ہونا ۱، ۳، ۴

انبياء(ع) :انكے ساتھ مخالفت كى حقيقت ۴; انكى بعثت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

سوچ:غلط سوچ ۶

دين:اسكے دشمنوں كى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

زمين:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱

ظالم لوگ:انكى سوچ۵; انكا كھوكھلے يں كا طرف تمايل۵; انكى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

ظلم:اسكى حقيقت ۴

فضا:اسكے موجودات كى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱; اسكے موجودات ۲

عيش و عشرت پسند لوگ :ان كى سوچ۵; انكا كھوكھلے پن كى طرف تمايل ۵

آیت ۱۷

( لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ )

ہم كھيل ہى بنانا چاہتے تو اپنى طرف ہى سے بناليتے اگر ہميں ايسا كرنا ہوتا (۱۷)

۱ _ خداتعالى كا ارادہ ، كھيل اور سرگرمى كى خاطر كسي كام كے انجام دينے كے ساتھ تعلق نہيں پكڑتا _

و ما خلقنا لعبين_ لو أردنا أن نتخذ لهو

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لو'' امتنا عيہ ہو_ اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''اگر ہم كسى چيز كو _ برفرض محال اور اسكے ممكن يا غير ممكن ہونے يا ہمارى شان سے كم ہونے سے صرف نظر كرتے ہوئے_ كھيل اور اپنى سرگرمى كيلئے انجام ديتے ...'' قابل ذكر ہے كہ بعض مفسرين كے مطابق' ' إن كنّا فاعلين'' ميں ''إن'' نافيہ ہے_ يہ بھى مذكورہ مطلب كا مؤيد ہوگا

۳۱۴

۲ _ مخلوقات كبھى بھى اپنے خالق كے لہو و لعب اور سرگرمى كا ذريعہ نہيں ہيں _

لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فاعلين

۳ _ موجودہ كائنات كو اپنے كھيل تماشے كيلئے خلق كرنے كى قدرت، صرف خداتعالى كے پاس ہے اور كوئي بھى موجود اس پر قادر نہيں ہے_لو أردنا نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنّ

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ''من جہة قدرتنا'' ہو (جيسا كہ بعض بزرگ مفسرين كى يہى رائے ہے) اور يا كہ يہ ''من لدنا'' (ظرف مختص) ''من لدن غيرنا'' كے مقابلے ميں ہو_ اس بناپر آيت كا پيغام يوں ہوگا اگر بنايہ ہوتى كہ كائنات كو اپنے لئے سرگرمى قرار ديں تو بھى يہ كام صرف ہمارى قدرت ميں ہے نہ ان خداؤں كى قدرت ميں جنكا مشركين دعوى كرتے ہيں اور نہ كوئي اور قدرت اسے انجام دے سكتى ہے پس مطلق قدرت اور ربوبيت صرف خداتعالى كے پاس ہے قابل ذكر ہے كہ ''عندنا'' كى جگہ كہ جو صرف حضور كيلئے ہے ''لدنا'' جو ابتدائے غايت كيلئے ہے كا آنا مذكورہ مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۴ _ بر فرض محال اگر خداتعالى اپنى سرگرمى كيلئے كائنات كو خلق كرتا تو يہ مادى كائنات اسكى غرض كے لائق نہيں تھى بلكہ اس سے برتر جہان كا انتخاب كرتا _لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتخذنه من لدنا إن كنا فعلين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ہو ''مما عندنا'' يا ''مما يليق بحضرتنا ...'' يعنى اگر ہم سرگرمى چاہتے تو ان جہانوں اور موجودات ميں سے كہ جو ہمارے پاس ہيں اور ہمارے زيادہ قريب ہيں اور اس مادى كائنات سے برتر ہيں (جيسے عالم مجردات ...) ان سے انتخاب كرتے_

۵ _ خداتعالى ، كائنات كے خلق كرنے والے كام ميں حق اور صحيح ہدف ركھتا تھا _و ما خلقنا السمائ لعبين لو أردنا أن نتّخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فعلين خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كو با ہدف قرار ديا ہے اور اس آيت ميں مزيد تاكيد كيلئے فرمايا ہے ''ہم نے كائنات كو اپنى سرگرمى اور كھيل كيلئے خلق نہيں كيا'' ان دو آيتوں كے مجموعے سے استفادہ ہوتا ہے كہ كائنات كى خلقت ميں ايك ہدف ملحوظ تھا اور وہ ہدف صحيح اور حق ہے كيونكہ كلمہ'' لہو و لعب'' كا معنى وہى باطل ہے اور جو باطل نہ ہو وہ صحيح اور حق ہوگا_

خلقت:

۳۱۵

اس كے ساتھ سرگرمى ۳، ۴; اس كا قانون كے مطابق ہونا۵; اس كا باہدف ہونا۵

توحيد:توحيد افعالى ۳

خداتعالى :اسكى خالقيت ۳; يہ اور كھيل ۱، ۲، ۳، ۴; يہ اور لہو ،۱، ۲، ۳، ۴; اسكى قدرت ۳; اسكے ارادے كا متعلق ۱

موجودات:انكى حقيقت۲; ان كے ساتھ سرگرمى ۲

آیت ۱۸

( بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ )

بلكہ ہم تو ق كو باطل كے سر پردے مارتے ہيں اور اس كے دماغ كو كچل ديتے ہيں اور وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور تمھارے لئے ويل ہے كہ تم ايسى بے ربط باتيں بيان كر رہے ہو (۱۸)

۱ _ حق و باطل كى جنگ ميں آخرى كاميابى اہل حق كى ہے_بل نقذف بالحق على الباطل

۲ _ حق كے عقيدے اور نظريہ كائنات كے حق ہونے كى باطل عقيدے اور باطل نظريہ كائنات پر كاميابى سنت الہى ہے_و ما خلقنا السمائ لعبين بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كے باہدف ہونے اور اسكى خلقت كے فضول اور بيہودہ ہونے والے عقيدہ كے باطل ہونے كى بات كى ہے يہ بات قرينہ ہے كہ آيت كريمہ ميں حق و باطل سے مراد حق و باطل عقيدہ اور ان كا نظريہ كائنات ہے قابل ذكر ہے كہ اسى آيت كا ذيل (ولكم الويل مما تصفون) كہ جو خداتعالى كى طرف ناروا نسبت اور اسكى نادرست امور كے ساتھ توصيف كے بارے ميں ہے مذكورہ مطلب كا مؤيد ہے_

۳ _ حق كى باطل پر كاميابي، نظام خلقت كے بامقصد ہونے كا ايك جلوہ ہے_

و ما خلقنا السماء بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے حق كى بنياد پر كائنات كى خلقت كى بات كى تھى اور اس آيت ميں حق كى باطل پر كاميابى كى ياد دہانى كرائي ہے ان دو باتوں كے درميان ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كرتا ہے_

۴ _ طول تاريخ ميں حق و باطل كے درميان مسلسل جنگ اور كشمكش_و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيد مغه

۳۱۶

۵ _ باطل اور نادرست عقيدوں كى نابودى اہل حق كے باطل كے خلاف ميدان مبارزت ميں حاضر ہونے كا مرہون منت ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه

''بالحق'' ميں ''بائ'' استعانت كيلئے ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''ہم حق كى مدد سے باطل كو نابود اور تہس نہس كرديں گے'' اس كا مطلب يہ ہے كہ حق كا باطل كے مقابلے ميں ميدان كارزار ميں حاضر رہنا ضرورى ہے تا كہ اسكے ذريعے باطل اور نادرست عقيدوں كو نابود كيا جاسكے_ قابل ذكر ہے كہ خداتعالى نے باطل كو نابود كرنے كو اپنى طرف نسبت نہيں دى بلكہ حق كو باطل كا نابود كرنے والا قرار ديا ہے (فيد مغہ) يہ نكتہ بھى اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۶ _ غير متوقع حالات ميں باطل كى ناگہانى نابودى _بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق

''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع ہونے پر دلالت كرتا ہے ،سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۷ _ حق ،استحكام و صلابت ركھتا ہے اور باطل كھوكھلا اورقابل شكست ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق چونكہ خداتعالى نے حق كو باطل كو ختم كردينے والا اور اسے تہس نہس كردينے والا قرار ديا ہے اس سے حق كا مستحكم ہونا ظاہر ہوتا ہے اور اس سے كہ باطل ناگہانى طور پر اور فوراً ختم ہوگيا اس كا كھوكھلا ہونا معلوم ہوتا ہے_ قابل ذكر ہے كہ تعبير ''قذف'' _ يعنى زور سے پھينكنا_ مذكورہ مطلب كى تائيد كرتى ہے_

۸ _ ماضى كے ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى حق كى باطل كے خلاف كاميابى كا ايك نمونہ ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق

۹ _ عصر پيغمبراكرم(ص) كے مشركين كا نظام خلقت اور انبياء (ع) كى بعثت كو كھيل تماشا قرار دينا_و ما خلقنا السمائ لعبين و لكم الويل مما تصفون ''لكم'' اور ''تصفون'' كے مخاطب مشركين ہيں اور گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ توصيف سے مراد مشركين كا خلقت كائنات كے بارے ميں غير صحيح عقيدہ اور خداتعالى كى طرف نظام خلقت كو سرگرمى كے طور پر لينے كى ناروا نسبت ہے _

۱۰ _ خداتعالى كى طرف ناروا نسبت ہلاكت اور عذاب الہى كے مستحق ہونے كا سبب ہے_

لكم الويل مما تصفون ''الويل'' كا اصلى معنى عذاب اور ہلاكت ہے اور يہ اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں كسى شخص يا اشخاص كو ايسى ہلاكت كا خطرہ ہو جسكے وہ مستحق ہيں (لسان العرب) _

۳۱۷

۱۱ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى اور مشركين كو شكست اور نابودى كى دھمكيبل نقذف بالحق و لكم الويل مما تصفون

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبراكرم(ص) اور اہل حق، حق دشمن مشركين كے ساتھ مقابلے ميں مشغول تھے_ آيت شريفہ كے لحن سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى دے رہى ہے اور اسى طرح مشركين كو شكست اورنابودى كى دھمكى دے رہى ہے_

۱۲ _''عن ا يّوب بن الحر قال: قال لى ا بو عبدالله (ع) : يا ا يوب ما من ا حد إلا و قد برز عليه الحق حتى يصدع، قبله ا م تركه و ذلك ا ن الله يقول فى كتابه:'' بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق ...'' ; امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ كوئي شخص نہيں ہے مگر يہ كہ حق مكمل طور پر اس كيلئے ظاہر ہوچكا ہے چاہے اسے قبول كرے يا رد كرے خداتعالى يہى اپنى كتاب ميں فرما رہا ہے''بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق'' _

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو بشارت ۱۱

انبياء (ع) :انكى بعثت كو فضول سمجھنا۹

باطل:اس كا كھوكھلاپن ۷; اسكى شكست كا پيش خيمہ ۵; اسكى شكست ۱، ۲، ۳; اسكى ناگہانى شكست ۶; اس كا انجام ۱; اسكى شكست كے موارد ۸

بشارت:مؤمنين كو كاميابى كى بشارت ۱۱; آنحضرت(ص) كو كاميابى كى بشارت ۱۱

حق:اس كا مستحكم ہونا۷; اسكى كاميابى ۱، ۲، ۳، ۱۲; اس كا انجام۱; اسكى كاميابى كے موارد۸; حق و باطل كے درميان كشمكش ۱، ۴، ۵

حق پرست لوگ:ان كا كردار اور نقش۵

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى دھمكياں ۱۱; اسكى سنت۲

روايت: ۱۲

گذشتہ اقوام:انكى ہلاكت ۸/ظالم لوگ:انكى ہلاكت ۸

____________________

۱ ) محاسن برقى ج۱، ص ۲۷۶، ب ۳۸، ح ۳۹۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۶، ح ۱۸_

۳۱۸

عذاب:اسكے اسباب ۱۰

عقيدہ:باطل عقيدہ۲، ۵; حق عقيدہ ۲

مؤمنين:انہيں بشارت ۱۱

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۹; انكو دھمكى ۱۱

آیت ۱۹

( وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ )

اور اسى خدا كے لئے زمين و آسمان كى كل كائنات ہے اور جو افراد اس كى بارگاہ ميں ہيں وہ نہ اس كى عبادت سے ا كڑ كر انكار كرتے ہيں اور نہ تھكتے ہيں (۱۹)

۱ _ خداتعالى ان سب كا مالك ہے جو آسمانوں اور زمين ميں ہيں _و له من فى السموات و الأرض

۲ _غير خدا كى مالكيت (حتى كہ اپنے اوپر) مجازى ہے _و له من فى السموات و الأرض

۳ _ آسمانوں اور زمين ميں صاحب شعور و عقل مخلوق كا وجود_و له من السموات والأرض

''من'' ان موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے جو صاحب عقل و شعور ہوں _

۴ _ جہان خلقت ميں متعددآسمان ہيں _السموات

۵ _ خداتعالى كا جہان ہستى كا بطور مطلق مالك ہونا حق كى باطل پر كاميابى كى ضمانت اور پشت پناہ ہے_بل نقذف بالحق و له من فى السموات و الأرض جملہ''و له من فى السموات '' كا جمله '' لو أردنا بل نقذف بالحق '' پر عطف ہے اور يہ خلقت كائنات كے حق ہونے اور حق كى باطل كے خلاف كاميابى كو بيان كررہا ہے كيونكہ جب پورى كائنات خداتعالى كى ملكيت ہے تو اس كيلئے حق كو باطل پر كامياب كرنا ممكن اور آسان ہوگا_

۶ _ مقربين خدا (فرشتے) اسكى عبادت سے تكبر نہيں كرتے_و من عنده لايستكبرون عن عبادته

۳۱۹

مفسرين كے بقول ''من عندہ'' سے مراد فرشتے ہيں _

۷ _ تقرب الہى ايسا مقام و مرتبہ ہے كہ جو عبادت ميں تكبر كرنے اور اسكے مقابلے ميں اكڑنے كے ساتھ سازگا نہيں ہے_

و من عنده لايستكبرون عن عبادته ''لايستكبرون عنه'' كے بجائے''لايستكبرون عن عبادته'' كى تعبير سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۸ _ بارگاہ خداوندى كے مقربين كبھى بھى اسكى عبادت سے ملول اور تھكاوٹ كا شكار نہيں ہوتے_من عنده لايستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون (''يستحسرون'' كے مصدر) ''استحسار'' كا معنى ہے تھكاوٹ اور ملالت_

۹ _ تقرب الہى كے مقام تك دسترسى كا خداتعالى كى عبادت سے نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں مؤثر ہونا_و من عنده لا يستكبرون عن عبادته و لايستحسرون يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ جو ہمارے پاس اور مقرب ہيں وہ خدا كى عبادت سے نہيں تھكتے اور تكبر نہيں كرتے'' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقرب الہى كو حاصل كرنا نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں اثر ركھتا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى عبادت ميں تسلسل اور نہ تھكنا پسنديدہ اور قابل قدر چيز يں ہيں _و من عنده لار يستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون مذكور مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ مقربين خدا كى تعريف و تمجيد كر رہى ہے اور بندوں كو پروردگار كى عبادت كى تشويق دلا رہى ہے_

آسمان:ان كا متعدد ہونا۴; ان كے با شعور موجودات ۳

باطل:اس پر كاميابى كا سرچشمہ ۵

تقرب:اسكے اثرات ۹/تكبر:اسكے موانع ۹

حق:اسكى كاميابى كا سرچشمہ ۵

خاضعين: ۶

خداتعالى :اسكى مالكيت كے اثرات ۵; اسكى مالكيت ۱

عبادت:اسكے تسلسل كى قدر و قيمت ۱۰; اس ميں خضوع ۶، ۹; اس ميں سستى كے موانع ۹; اس ميں نشاط ۸،۹

عمل:پسنديدہ عمل ۱۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750