تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219006 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیت ۳۵

( إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيراً )

يقينا تو ہمارے حالات سے بہتر باخبر ہے (۳۵)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے اور اپنے خاندان كى خصوصيات كے بارے ميں خداتعالى كى گہرى آگاہى كو بيان كر كے اپنے آپ كو خداتعالى كى خواہشات كو قبول كرنے والا اور اسكے انتخاب پر راضى قرار ديا _إنّك كنت بنا بصير

''نا'' سے مراد ہے حضرت موسى (ع) اور انكے اہل و عيال ہيں كہ جن ميں حضرت ہارون بھى شامل ہيں _ حضرت موسى ،(ع) جناب ہارون كيلئے وزارت كى تجويز دينے كے بعد عرض كرتے ہيں _ خداوندا تو مجھے اور ميرے خاندان كو خوب جانتا ہے

اور ميرے بھائي ہارون كى خصوصيات سے بھى آگاہ ہے _ يہ ميرى درخواست ہے ليكن تيرا فيصلہ جو بھى ہو مكمل بصيرت اور آگاہى پر مبنى فيصلہ ہوگا _

۲ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى رسالت كے امور كے بارے ميں خداتعالى كى بارگاہ ميں درخواست كرنے كے ساتھ ساتھ، خداتعالى كى مكمل آگاہى كا اعتراف كيا اور اسكے فيصلے كو دقيق اور صحيح قرار ديا _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا

۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى اور اپنے بھائي ہارون كى خداتعالى كے ذكر اور تسبيح كے ساتھ دائمى محبت كا اظہار كيا اور خداتعالى كو اس پر گواہ بنايا _إنّك كنت بنا بصيرا

ہوسكتا ہے جملہ'' إنّك ...'' ''كى نسبّحك كثيراً '' كى علت كا بيان ہو يعنى خدايا تو خوب جانتا ہے كہ ميرے اور ميرے بھائي ہارون كے كيا جذبات ہيں اور تيرى تسبيح و ذكر كے ساتھ ہميں كتنى محبت ہے پس ہارون كى وزارت كو قبول كركے ہمارے لئے زيادہ تسبيح و ذكر كا راستہ ہموار فرما _

۴ _ خداتعالى اپنے بندوں كے حالات اور انكى خوبيوں اور خاميوں سے آگاہ ہے _إنّك كنت بنابصيرا

۵ _ خداتعالى كے بندوں كے حالات سے آگاہى كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كرنا اور اس سے درخواست كرنا ايك پسنديدہ امر ہے _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا حضرت موسى (ع) نے اپنے اور ہارون كے حالات

۶۱

سے خداتعالى كى آگاہى كو ذكر كرنے كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كى اور اپنى خواہشات كو بيان كيا موسى (ع) كا يہ كام بتاتا ہے كہ خداتعالى كے سب چيزوں سے آگاہ ہونے كے باوجود اسك ى بارگاہ ميں دعا كرنا مطلوب اور كارساز ہے _

اقرار:خدا كى بصيرت كا اقرار ۲

ايمان:خدا كى بصيرت پر ايمان۱

خداتعالى :اسكى بصيرت ۴، ۵; اسكى گواہى ۳

دعا:اسكى فضيلت ۵

محبت:خدا كى تسبيح سے محبت ۳; خدا كے ذكر سے محبت ۳

عمل:پسنديدہ عمل ۵

موسى (ع) :آپكا اقرار ۲; آپكا ايمان ۱; آپكى خواہشات ۲; آپكى معنوى محبت ۳ ; آپ كا مقام رضا ۱

ہارون:انكى معنوى محبت ۳

آیت ۳۶

( قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا موسى نے تمھارى مراد تمھيں ديدى ہے (۳۶)

۱ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى تمام درخواستوں كو قبول كرليا اور انہيں شرح صدر اور روانى سے بولنے كى طاقت عطا فرمائي او رہارون كو انكا وزير قرار ديا _قال ربّ قال قد ا وتيت سؤلك يا موسى

''سؤل'' يعنى ايسى حاجت كہ جسے حاصل كرنے كيلئے انسان كا نفس حريص ہو اور اس كا آرزو سے فرق يہ ہے كہ آرزو انسان كى فكر ميں گزرتى ہے ليكن ''سؤل'' كا پيچھا كيا جاتا ہے گويا'' سؤل'' كا درجہ ہميشہ آرزو كے بعد ہوتا ہے _

۲ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى دعائيں بہت جلدى قبول ہوئيں _قال ربّ اشرح لى قال قد ا وتيت سؤلك ''ا وتيت'' فعل ماضى مجہول ہے اور اس كا

۶۲

مطلب يہ ہے كہ موسى (ع) كى دعاؤں كى قبوليت وعدے كى صورت ميں اور مستقبل سے مربوط نہيں تھى بلكہ اتنى جلدى ہوئي گويا گذشتہ زمانے ميں _

۳ _ خداتعالى نے وادى طوي( كوہ طور) ميں حضرت موسى كو انكى دعاؤں كى قبوليت سے آگاہ كيا _قد ا وتيت سؤلك

۴ _ مطالبات كے پورا ہونے كيلئے خداتعالى سے دعا اور درخواست مؤثر ہے _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) كے مطالبات كا پورا ہونا انكى بارگاہ خداوندى ميں دعا اور التماس كے بعد تھا اور اس سے خواہشات كے پورا ہونے ميں دعا كے كردار كا پتا چلتا ہے

۵ _ كوہ طور ميں وادى طوى وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسى (ع) كو شرح صدر اور روانى سے گفتگو كرنا عطا كيا گيا اور ہارون كو انكا وزير بنايا گيا _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

۶ _ حضرت ہارون (ع) كو وادى طوى ميں مقام نبوت و رسالت پر فائز كيا گيا _هرون ا خي و ا شركه فى ا مري قد ا وتيت سؤلك اگر ''ا شركہ فى أمري'' سے مراد حضرت ہارون (ع) كيلئے نبوت و رسالت كى دعا ہو تو يہ وادى طوى ميں قبول ہوئي _

۷ _ حضرت موسى (ع) ،عنايات خداوندى كا مركز _ياموسى حضرت موسى (ع) كى دعاؤں كا فوراً قبول ہوجانا اور بار بار ان كے نام كى تصريح سے انكے خداتعالى كے مورد توجہ و عنايت ہونے كا پتا چلتا ہے _

۸ _ ذمہ دار افراد كو ذمہ دارى سپرد كرنے كے ہمراہ انكى ضرورت كے وسائل فراہم كرنا بھى ضرورى ہے_

إذهب إلى ...قال ربّ ...قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) نے رسالت اور فرعون كى طرف حركت كرنے پر ما مورہونے كے بعد بارگاہ خداوندى ميں اپنى ضروريات اور خواہشات كا تذكرہ كيا_خداتعالى نے بھى اس كا مثبت جواب ديا يہ سب كيلئے درس ہے كہ اگر كسى كو ذمہ دارى دى جائے تو ضرورى ہے كہ اسكى بات سنى جائے، اس كے مطالبے پر توجہ دى جائے اور اسكى ضروريات پورى كى جائيں _خداتعالى :اسكے عطيے۱

دعا:اسكے اثرات ۴ذمہ دار افراد:انكى ضرورت پورى كرنا ۷

كوہ طور:اس كا كردار ۵، ۶لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۷

۶۳

مطالبے:انكے حاصل كرنے كے عوامل۴

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱، ۳; آپكى دعا كى جلدى قبوليت ۲; آپكا شرح صدر ۱، ۵; آپكا علم ۳; آپكيفصاحت ۱، ۵; آپ كے فضائل ۷; آپكا قصہ ۱، ۳ ; آپ كوہ طور ميں ۳، ۵

ہارون (ع) :انكے منصوب كرنے كى جگہ ۵; انكے انتخاب كى جگہ ۶; انكى نبوت ۶; انكا كردار ادا كرنا ۱; انكى وزارت ۱، ۵

وادى طوى :اس كا كردار ۵،۶

آیت ۳۷

( وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى )

اور ہم نے پر ايك اور احسان كيا ہے (۳۷)

۱ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى در خواستوں كے مطالبات كا پورا ہونا آپ پرخداتعالى كى جانب سے بھارى نعمت تھى _قدا وتيت سؤلك يا موسى و لقد مننا عليك مرة ا خرى

''منّة'' كا معنى ہے بھارى نعمت (مفردات راغب) _

۲ _ وادى طوى ميں قدم ركھنے سے پہلے بھى حضرت موسى (ع) پرخداتعالى كى توجہ و عنايت اور بھارى نعمت كا نزول ہوا تھا _و لقد مننا عليك مرة أخرى

۳ _ حضرت موسى (ع) كا ماضى ميں عظيم نعمت سے بہرہ مندہونا انكے وادى طوى ميں اپنى درخواستوں كي حتمى قبوليت كے اطمينان كا سبب تھا _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

''لقد'' كى تعبير قسم كى علامت ہے_ تاكيد كے ساتھ ماضى كے بارے ميں خبر ، مستقل سے مربوط وعدوں كى نسبت اطمينان پيدا كرنے كيلئے (ا وتيت سؤلك) ہے_

۴ _كوہ طور ميں حضرت موسى (ع) كو جو نعمت عطا كى گئي وہ اس گراں قدر نعمت كے ہم پلہ تھى جو سابقہ زمانے ميں انہيں عطا ہوچكى تھى _و لقد مننا عليك مرةا خرى

۵ _ ماضى و حال كى نعمتوں كو ہميشہ خداتعالى كى منشا سے وابستہ سمجھنا ضرورى ہے _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

۶۴

خداتعالى :اسكى مشيت كے اثرات ۵

لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲ ، ۳

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱; آپكى دعا كى قبوليت كى وجوہات ۳; آپكے فضائل ۲، ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۴; آپ كى نعمتيں ۱، ۳، ۴

نعمت:اسكے درجے ۱، ۳، ۴; يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۲، ۳، ۴

يادكرنا:منعم كو يادكرنا ۵۵

آیت ۳۸

( إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى )

جب ہم نے تمھارى ماں كى طرف ايك خاص وحى كى (۳۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ، خدا كى جانب سے وحى اور پيغام وصول كرتى تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك

ممكن ہے ''وحي'' سے مرادخداتعالى كا حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ بات كرنا ہو اور ممكن ہے اس سے مراد الہام ہو حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ خداتعالى كے بعض وعدے كہ جن كا ذكر سورہ قصص ميں آيا ہے پہلے معنى كے ساتھ زيادہ سازگار ہيں _

۲ _ بچپن سے ہى خداتعالى كى خصوصى عنايات حضرت موسى (ع) كے شامل حال تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو وحى اور پيغام اسكى حضرت موسى (ع) پر عظيم نعمتوں ميں سے تھا _و لقد مننا إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

''اذ'' ظرف ہے ''مننا'' كيلئے يعنى سابقہ آيت ميں ...مذكور نعمت اس وقت تھى _

۴ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ كى ان معلومات تك دسترسى جو ان تك پہنچائي گئيں وحى الہى كے علاوہ كسى اور راستے سے ممكن نہيں تھى _ما يوحى

''مايوحى '' (جو وحى كيا جاتا ہے) سے مراد وہ امور ہيں جنكى قاعدتاً وحى كى جائي ہے ورنہ خود انسان ان تك نہيں پہنچ سكتا_

۶۵

۵ _ بيٹے كى عظمت ماں كے مقام كى بلندى كا سبب ہے_إذ ا وحينا إلى ا مك

حضرت موسى (ع) كى والدہ كو جو كچھ بتايا گيا اسكے محتوا سے پتا چلتا ہے كہ اصلى ہدف حضرت موسى (ع) كى حفاظت تھا اگر چہ فطرى طور پر اس سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو بھى سكون ملا_ پس مادر موسى كى وحى الہى تك دسترسى كا سبب حضرت موسى (ع) كى عظمت ہے _

۶ _ حضرت موسى (ع) كى جان كى حفاظت اور انكى والدہ كى پريشانى كو دور كرنا خداتعالى كى تدبير سے ہوا_

إذ ا وحينا إلى ا مك

خداتعالى :اسكى تدبير ۶

بيٹا:اسكے مقام كا كردار ۵

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

والدہ:اسكے مقام كا سرچشمہ ۵

موسى (ع) :آپكى والدہ كى پريشانى كو دوركرنا ۶; آپكے فضائل ۲، ۳; آپكا بچپن ۲; آپكى حفاظت ۶; آپكى نعمتيں ۳; آپكى والدہ كى طرف وحى ۱، ۳، ۴

نعمت :اسكے درجے ۳; يہ جنكے شامل حال ہے ۳

وحي:اس كا كردار ۴

آیت ۳۹

( أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي )

كہ اپنے بچہ كو صندوق ميں ركھ دو اور پھر صندوق كو دريا كے حوالے كردو مو جيس اسے ساحل پر ڈال ديں گى اور ايك ايسا شخص سے اٹھالے گا جو ميرا بھى دشمن ہے اور موسى كا بھى دشمن ہے اور ہم نے ت پر اپنى محبت كا عكس ڈال ديا تا كہ تمھيں ہمارى نگرانى ميں پالاجائے (۳۹)

۱ _ پيدائش كے وقت اور بچپن سے ہى فرعونيوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى جان كو خطرہ تھا _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليمّ

حضرت موسى (ع) كى والدہ كا اپنے بيٹے كو سمندر ميں پھينكنے كا حكم وصول كرنا اس زمانے كے حالات كے سخت ہونے

۶۶

اور حضرت موسى (ع) كى جان كو لاحق خطرے كى علامت ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو حكم ديا كہ وہ موسى (ع) كو صندوق ميں ڈال كر دريائے نيل ميں پھينك ديں _ا ن اقدفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم ''قذف'' كا معنى ہے پھينكنا (مقاييس اللغة) اور ''اقذفيہ'' جو موسى (ع) كو صندوق ميں ڈالنے ميں بھى استعمال ہوا ہے اور پھر صندوق كو پانى ميں پھينكنےميں بھى بتاتا ہے كہ موسى (ع) كو اس طرح صندوق ميں قرار دينا اور پھر پانى ميں پھينكنا ضرورى ہے كہ ہر ديكھنے والا يہ سمجھے كہ اسے دور پھينك ديا گياہے ''تابوت'' يعنى صندوق (نہايہ ابن اثير) ''يمّ'' يعنى سمندر اور آيت ميں اس سے مراد دريائے نيل ہے (لسان العرب) _

۳ _ فرعون كى حكومت ميں بنى اسرائيل كى زندگى بہت دشوار تھى اور انكے لڑكوں كى جان خطرے سے دوچار تھى _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم

۴ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو اطمينان دلايا كہ دريائے نيل كا جوش مارتا پانى حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پرپھينك ديگا _فليلقه اليمّ بالساحل دريا كو حكم دياگياكہ وہ صندوق كو ساحل پر پھينك دے مجاز اور اس بات ميں مبالغہ كيلئے ہے كہ پانى كى لہروں كے ہمراہ صندوق كا ساحل تك آنا اور پھر اس كا خشكى پرپھينكا جانا يقينى ہے_

۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ گرامي، خداتعالى كے پيغام پر ايمان ركھتى تھيں اور انہيں خدا كى جانب سے حضرت موسى (ع) كى حفاظت كا اطمينان تھا _إذ ا وحينا ا ن اقذفيه ...يا خذه عدو بعد والى آيت (إذتمشى ا ختك فرجعناك إلى ا مك ) كے قرينے سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى والدہ نے وحى الہى كے محتوا پر عمل كيا اور حضرت موسى (ع) كو دريائے نيل كے سپردكرديا_ يہ كام حضرت موسى (ع) كى والدہ كے اس اطمينان كى گواہى ديتا ہے كہ موصولہ پيغام، وحى الہى تھا نيز يہ يہ اس پر انكے مكمل ايمان كى علامت ہے_

۶ _ دريائے نيل،خداتعالى كى جانب سے حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پر پھينكنے پر ما مور تھا _فليلقه اليّم بالساحل جملہ''فليلقه اليّم '' جس طرح مادرموسى (ع) كو سمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كا ساحل پر پھينكا جانا قطعى ہے اس حقيقت كو بھى بيان كررہا ہے كہ پانى امر تكوينى كے ساتھ اس كام كو انجام دينے پرما مور تھا _

۷ _ حقيقى عوامل، خداتعالى كى حكمرانى ميں ہيں اوروہ اسكے فرامين كو عملى كرنے والے ہيں _فليلقه اليم بالساحل

۸ _ جناب موسى (ع) كو پانى ميں پھينكنے سے پہلے آپ كى والدہ كو خداتعالى كى طرف سے يہ اطلاع ہوچكى تھى كہ ايك دشمن كے ذريعے حضرت موسى (ع) كو نجات حاصل ہوگى _ا وحينا يا خذه عدولى و عدوله

۶۷

۹ _ فرعون،خداتعالى اور حضرت موسى (ع) كا دشمن تھا اور موسى (ع) كو پہنچان كرا نہيں نابود كرنے كے درپے تھا _

يا خذه عدولى و عدوله فرعون كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ دشمنى وہ بھى انكى خصوصيات كے حامل بچے كى پيدائش سے پہلے بتاتى ہے كہ فوعون نے حضرت موسى (ع) كو پہچاننے كى صورت ميں انہيں قتل كرنے كا عزم كرركھا تھا_

۱۰ _ خداتعالى نے مادر موسى (ع) كى طرف جو وحى كى اس ميں خدا اور انكے بچے كے دشمن كو اس بچے كا نجات دہندہ اور اسكى كفالت كرنے والا متعارف كرايا _يا خذه عدولى و عدوله

۱۱ _ ممكن ہے دشمنان خدا بھى با دل نخواستہ خدا كے محبوب بندوں كے فائدے كيلئے كام كريں _يا خذه عدولى و عدوله

۱۲ _حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں دريائے نيل پانى سے پر تھا اور فرعون كى رہائش گاہ سے زيادہ دور نہيں تھا _

فليقه اليّم بالساحل يا خذه عدولي ''يَمّ'' كا معنى ہے سمندر اور دريا كو سمندر كہنا اس ميں پانى كى كثرت سے حكايت كرتا ہے _

۱۳ _ خداتعالى نے اپنى جانب سے حضرت موسى (ع) كو خصوص محبوبيت عطا فرما كر انہيں ہر ديكھنے والے كى نظر ميں محبوب بناديا _وا لقيت عليك محبة منّي ''ا لقيت'' كا ''ا وحينا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيت ميں تھا اور پھر ''محبة'' كو نكرہ لانا، جبكہ مقام مدح ہے اسكے خصوصى ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے اور ''مني'' حضرت موسى (ع) كى محبوبيت كے سرچشمے كو بيان كررہا ہے او رسمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كو عطا كردہ محبوبيت كا سرچشمہ ذات بارى تعالى تھى _

۱۴ _ فرعون اور اسكے حاشيہ نشين، موسى (ع) سے بہت محبت كرتے تھے اور انہيں دوست ركھتے تھے _والقيت عليك محبة مني

۱۵ _ خداتعالى مہر و محبت كا سرچشمہ اور اس كا عطا كرنے والا ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۶ _ دلوں ميں محبوب ہونا،خداتعالى كى عنايت اور مہربانى ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۷ _ فرعونيوں كے دلوں ميں حضرت موسى (ع) كى محبوبيت انكے خداتعالى كى مكمل نگرانى كے ساتھ رشد و تكامل كا پيش خيمہ _ولتصنع على عيني ''لتصنع'' اس چيز كى علت كو بيان كررہا ہے جو كلام كے سياق سے حاصل ہو رہى ہے يعنى''ولتصنع على عينى فعلت ذلك'' جو كچھ ميں نے انجام ديا ہے وہ اسلئے تھا كہ تو ميرى

۶۸

مكمل نگرانى كے ساتھ پروان چڑھے ''صنيع''اور'' صنيعہ''(لتصنع كامادہ اشتقاق ) اس شخص كو كہا جاتا ہے جو كسى دوسرے كا تربيت يافتہ ہو اسى طرح يہ عطا، سخاوت اور احسان كے معنى ميں بھى آيا ہے ( لسان العرب)_

۱۸ _ حضرت موسى (ع) كا دلوں اور دربار فرعون ميں محبوب ہونا انكے لئے احترام اور بڑى خدمت كا سبب بنا _و ا لقيت عليك محبة منى و لتصنع على عيني اگر ''صنيعہ'' ( لتصنع كا مادہ اشتقاق) نيكى كرنے اور كرامت كے معنى ميں ہو تو ''لتصنع'' كا مطلب يہ بنے گا ميں نے تيرى محبت دوسرں كے دلوں ميں قرار دى ہے تاكہ تو ميرى مكمل نگرانى كے ساتھ ان كا مورد احترام و اكرام قرار پائے _

۱۹ _ خداتعالى حضرت موسى (ع) كى زندگى كے آغاز سے ہى ان پر دقيق نظارت ركھتا تھا اور اس نے انكى تربيت اور رشد و تكامل كے ذرائع فراہم كرركھے تھے _ولتصنع على عيني

''على عيني'' ميں ''عين'' سے مراد اس كا مجازى معنى يعنى نگرانى ہے اور ''علي'' دلالت كرتا ہے كہ نظارت الہى ايسى بنياد ہے كہ جس پر حضرت موسى (ع) كى تربيت اور احترام استوار تھے_

۲۰ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى خداتعالى كى طرف سے انبياء كى زندگى كے آغاز سے ہى انكى پرورش پر نظارت كا ايك نمونہ _و لتصنع على عيني

۲۱ _ بچپن ہى ميں حضرت موسى (ع) كو پانى ميں پھينك كر انكى جان بچانا، فرعونيوں كے دلوں ميں انكى محبت ڈالنا اور انكى تربيت اور نشو و نماپر نظارت،خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) پر گراں بہا نعمتيں _

مننا عليك مرة ا خرى ا ن اقذفيه و لتصنع على عيني

۲۲ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: ا نزل الله على موسى التابوت و نوديت ا مه ضعيه فى التابوت فاقذفيه فى اليم و هو البحر; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى نے حضرت موسى (ع) پر تابوت نازل كيا

۶۹

اور انكى والدہ كو ندا دى كہ انہيں تابوت ميں ركھ كردريا ميں ڈال ديں _(۱)

۲۳ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: كان موسى لا يراه ا حد إلا ا حبه و هو قول الله : '' و ا لقيت عليك محبّة منّى ...'' ;امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ حضرت موسى (ع) اس طرح تھے كہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا مگر يہ كہ ان سے محبت كرنے لگتا تھا اور خداتعالى كے فرمان ''والقيت عليك محبة مني'' سے مراد يہى ہے_(۲)

انبياء:انكى تربيت ۲۰//بنى اسرائيل:يہ فرعون كے زمانے ميں ۳; انكى تاريخ ۳; انكى معاشرتيمشكلات ۳جھكاؤ:حضرت موسى (ع) كے طرف جھكاؤ ۱۴

خداتعالى :اسكے اوامر ۲; اسكى تعليمات۰ ۱; اسكے دشمن ۹، ۱۰، ۱۱; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷; اسكى نظارت ۱۹، ۲۰; اس كا كردار ادا كرنا ۱۵ظخدا كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۶

خدا كے محبوب لوگ:انكے مفادات۱۱ظدريائے نيل:اس كا مطيع ہونا ۶; اسكى تاريخ ۱۲; يہ موسى كے زمانے ميں ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

روايت :۲۲، ۲۳ظقدرتيعوامل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى دشمنى ۱، ۹; اس كا ظلم ۳; اسكى محبت ۱۴فرعون كے حاشيہ نشين لوگ:انكى محبت ۱۴

محبت:اس كا سرچشمہ ۱۵، ۱۶موسى (ع) :آپكى محبوبيت كے اثرات ۱۷، ۱۸; آپكى والدہ كا اطمينان ۴،۵; آپكا دريائے نيل ميں امن ۴; آپكى والدہ كا ايمان ۵; آپكى تربيت ۲۱; آپكى كفالت ۱۰; آپكى والدہ كى شرعى ذمہ دارى ۲; آپكے دشمن ۱، ۸، ۹، ۱۰; آپكى نشو و نما كا پيش خيمہ ۱۷، ۱۹; آپكا صندوق ۶; آپكى ماں كا علم ۸; آپكے احترام كے عوامل ۱۸; آپكے فضائل ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳; آپكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۸، ۲۰، ۲۲; آپكى نگرانى ۴، ۵، ۱۷، ۱۹، ۲۱; آپكى محبوبيت ۲۱، ۲۳; آپكا تربيت كرنے والا ۱۹; آپكى محبوبيت كا سرچشمہ ۱۳; آپ ساحل نيل پر۴، ۶; آپ نيل ميں ۲; آپكو نجات دينے والا ۱۰; آپكى نجات ۸; آپكے صندوق كا نازل ہونا ۲۲; آپكى نعمتيں ۲۱; آپكى والدہ كو وحى ۱۰، ۲۲

نعمت :اسكے درجے ۲۱

وحي:اس پر ايمان لانے والے ۵

____________________

۱ ) تفسيرقمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷ _ظ ۲ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷_

۷۰

آیت ۴۰

( إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْساً فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُوناً فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى )

اس وقت كو ياد كرو جب تمھارى بہن جارى تھيں كہ فرعون سے كہيں كہ كيا ميں كسى ايسے كاپتہ بتاؤں جو اس كى كفالت كرسكے اور اس طرح ہم نے تم كو تمھارى ماں كى طرف پلٹاديا تا كہ ان كى آنكھيں ٹھنڈى ہوجائيں اور رنجيدہ نہ ہوں اورتم نے ايك شخص كو قتل كرديا تو ہم نے تمھيں غم سے نجات دے دى او رتمھارا باقاعدہ امتحان لے ليا پھر تم اہل مدين ميں كئي برس تك رہے اس كے بعد تم ايك منزل پر آگئے اے موسى (۴۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى پيدائش كے وقت انكى ايك بڑى اور رشيدہ بھى تھيں _إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم

موسى (ع) كا پيچھا كرنا، دربار ميں نفوذ اور دايہ كى پيشكش ان سب سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن اس عمر ميں تھيں كہ ان كاموں اور حيلوں كے سلسلے ميں نہ صرف وہ جسمانى اور فكري

توانمندى سے بہرہ مند تھيں بلكہ انكى بات جاتى سنى اور قبول كى جاتى تھى _

۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن اپنے چھوٹے بھائي كے دريائے نيل ميں پھينكے جانے سے مطلع اور اس كى وجہ سے پريشان تھيں اور قدم بقدم انكے صندوق كا پيچھا كررہى تھيں _

إذ تمشى ا ختك فتقول

حضرت موسى (ع) كى بہن كا انكے پيچھے پيچھے حركت كرنا بتاتا ہے كہ وہ حضرت موسى (ع) كے واقعے ، انكے پانى ميں پھينكے جانے اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات سے اجمالى طور پر مطلع تھيں _

۷۱

۳ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے اس وقت تك انكا پيچھا كيا جب تك انہيں پانى سے نجات نہ ملى اور جب تك اس نے فرعون كے درباريوں كو موسى (ع) كيلئے دايہ تلاش كرنے كيلئے انكى كوشش كا مشاہدہ نہيں كيا_إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم ''هل ا دلكم'' كا ظاہر يہ ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو موسى اخذ كرتے ہوئے ديكھا اور درباريوں كے پاس جاكر بدون واسطہ انہيں اور جو لوگ دايہ كى تلاش ميں تھے اپنى پيشكش سے آگاہ كيا _

۴ _ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى حفاظت اور نگہداشت كاعزم كرليا_هل ا دلكم على من يكفله

دايہ كيلئے تلاش اور كوشش سے پتا چلتا ہے كہ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى نگہدارى كا عزم كرليا _

۵ _ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت ، خوراك اور ديكھ بھال كے سلسلے ميں دربار فرعون مشكل سے دوچار ہوا _

هل ا دلكم على من يكفله ''هل ا دلكم'' سے پتا چلتا ہے كہ دربار فرعون حضرت موسى (ع) كيلئے دايہ اور سرپرست كى تلاش ميں تھا_ حضرت موسى (ع) كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنا بتاتا ہے كہ كسى دربارى كو اس سلسلے ميں كاميابى نہيں ہوئي تھى اور وہ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت اور خوراك كے سلسلے ميں پريشان تھے_

۶ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كے سامنے اظہار كيا كہ وہ مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے آمادہ ہيں _

هل ا دلكم على من يكفله ''كافل'' اسے كہاجاتا ہے جو كسى كے امور كى انجام دہى كو اپنے ذمے لے (مقاييس اللغة) _

۷ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے اپنى آمادگى كا مكرر اظہار كيا _

فتقول هل ا دلكم فعل مضارع ''تقول'' گذشتہ زمانے ميں كام كے استمرار پر دلالت كررہا ہے _

۸ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے جس دايہ كى پيشكش كى تھى درباريوں نے اسے قبول كرليا _

هل ا دلكم على من يكفله فرجعنك إلى ا مك ''فرجعناك'' ميں ''فا'' فصيحہ ہے يعنى ان محذوف جملوں سے حكايت كرتى ہے كہ جو حضرت موسى كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنے پر دلالت كرتے ہيں _

۹ _حضرت موسى كى بہن زيرك اور راز دار تھيں _هل ا دلكم على من يكفله

۱۰ _ فرعونيوں نے حضرت موسى (ع) كو انكى والدہ كے سپرد كيا اور وہ انہيں اپنے گھر لے گئيں _فرجعناك إلى ا مك

موسى (ع) كا اپنى ماں كے پاس واپس آنااس طرح ہے كہ انكى والدہ انہيں اپنے ہمراہ لے گئي ہوں نہ اس طرح كہ انكى نگہداشت كيلئے دربار ميں گئي ہوں _

۷۲

۱۱ _ حضرت موسى (ع) بچين سے ہى اپنى والدہ كے زير كفالت تھے _على من يكفله

۱۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن كا انہيں انكى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر كردار تھا _إذ تمشى ا ختك فرجعنك إلى ا مك حضرت موسى (ع) كى بہن اور انكى كوشش كو ياد كرنا انكے حضرت موسى (ع) كو اپنى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر اور كارساز كردارسے حكايت كرتا ہے_

۱۳ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ اپنے بيٹے كے نامعلوم انجام پر نظريں لگائے ان كى دورى كى وجہ سے پريشان تھيں _

كى تقرعينها ولا تحزن آنكھ كا سكون اس شديد غم كے دور ہونے سے كنايہ ہے كہ جو آنكھ كو ايك طرف خيرہ كرديتا ہے يا اسے مسلسل دائيں بائيں پھيرتا ہے _

۱۴ _ موسى (ع) كے دوبارہ ديدار نے انكى والدہ كى آنكھوں كو نور اور سكون بخشااور انكے غم و اندوہ كو دور كرديا _

فرجعنك إلى ا مك كى تقر عينها و لا تحزن ''قرة العين'' يا تو ''قرار''سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے سكون پكڑنا اور يا ''قرّ'' سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے ٹھنڈاہونا كہ جو گرم آنسوؤں كے ركنے كا نتيجہ ہوتا ہے بہرحال يہ تعبير اس شادمانى سے كنايہ ہے جو آنكھ كو پريشان ہونے اور اسے دائيں بائيں پھرنے سے دور ركھتى ہے اور غم و اندوہ كے جلا دينے والے آنسوؤں كو روكتى ہے _

۱۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ خداتعالى كے ہاں خاص مقام و مرتبہ ركھتى ہيں _فرجعنك إلى ا مك كى تقرعينها و لا تحزن

۱۶ _ ماں كى سرپرستى بچے كى تربيت كيلئے مناسب ترين حالات فراہم كرتى ہے _ولتصنع على عينيإذ تمشى فرجعنك إلى ا مك

۱۷ _ حضرت موسى (ع) كا آغوش مادر ميں پلٹ آنا خداتعالى كى دقيق نظارت ميں انكى پرورش اور نشو ونما كا مناسب ذريعہ _و لتصنع على عينى إذ تمشى ...فرجعنك ''اذ تمشي'' ميں ''اذ'' ممكن ہے ''لتصنع'' كيلئے ظرف ہو اس صورت ميں ''اذ'' كے بعد والے جملے موسى (ع) كے بارے ميں صنع الہى كے وقوع پذير ہونے كے ظرف كو بيان كررہے ہيں _

۱۸ _ حضرت موسى (ع) نے كوہ طور ميں وحى كو دريافت كرنے اور مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے ايك شخص كو قتل كيا تھا _وقتلت نفس يہ آيت كريمہ مصر ميں ايك قبطى شخص كے قتل كو بيان كررہى ہے كہ جو حضرت موسى (ع) كے ہم مذہب شخص كے ساتھ جھگڑ رہا تھا اور حضرت موسى (ع) نے اسے قتل كرديا تھا ليكن اسكے رد عمل كى فكر آپ كو

۷۳

آسودہ خاطر نہيں ہونے دے رہى تھى يہاں تك كہ آپ مصر سے بھاگ نكلے اور مدين پہنچ كر آپ سے خطرہ ٹلا اور غم و اندوہ دور ہوئے _

۱۹ _ قتل كا ارتكاب، حضرت موسى (ع) كى پريشانى اور ان كے غم و اندوہ ميں مبتلا ہونے كا سبب بنا _

و قتلت نفسا فنجينك من الغم حضرت موسى (ع) كا غم واندوہ ان كے واقعہ قتل اور فرعونيوں كى طرف سے خطرہ محسوس كرنے كے بارے ميں پريشانى اور اضطراب كى وجہ سے تھا _

۲۰ _ قتل كى وجہ سے حضرت موسي(ع) كو فرعونيوں كے ہاں امن نہيں تھا _فنجينك من الغم

۲۱ _ فرعونيوں كى نظر ميں قبطيوں پر بنى ا سرائيل ترجيح ركھتے تھے حتى كہ اپنے پرورش يافتہ اور محبوب جوان پر بھى _

فنجينك من الغم

۲۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو قتل كى پريشانى سے نجات بخشي_و قتلت نفسا فنجينك من الغم

۲۳ _ حضرت موسى (ع) كا قتل كے خطرناك نتائج سے رہائي پانا،خداتعالى كى جانب سے آپ پر ايك عظيم نعمت_

و قتلت نفساً فنجينك من الغم ''قتلت'' كا ''لقد مننا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيات ميں تھا اور حضرت موسى (ع) پر ولادت كى مشكلات سے رہائي والى نعمت كو ذكر كرنے كے بعد ايك اور نعمت اور احسان كو بيان كررہا ہے _

۲۴ _ انسان كا غم و اندوہ سے نجات پانا، خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے _فنجينك من الغم

۲۵ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو مدين ميں داخل ہونے سے پہلے ايك سخت آزمائش ميں مبتلا كيا _و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فتنہ''كا معنى ہے امتحان اور آزمائش (مصباح) ''فتون'' مصدر اور مفعول مطلق ہے اور كلام كى تاكيد كيلئے لايا گيا ہے اور جملہ ''فتناك فتوناً '' يعنى ہم نے تجھے خوب آزمايا_

۲۶ _ حضرت موسى (ع) كے مصر ميں ايك قبطى شخص كو قتل كرنے نے انكے خداتعالى كى سخت آزمائش ميں مبتلا ہونے كا راستہ ہموار كيا _و قتلت نفسا فنجينك من الغم و فتّنك فتون اگر ''فتناك'' كا عطف ''نجيناك'' پر ہو تو آزمائش الہى ميں حضرت موسى (ع) كا سختى جھيلنا انكے قتل كا نتيجہ تھا _

۲۷ _ مدين ميں وارد ہونے سے پہلے خداتعالى نے حضرت موسى (ع) سے متعدد آزمائشيں ليں _و فتنك فتون

ہوسكتا ہے كلمہ'' فتون'' فتنہ كى جمع ہو جيسا كہ ''كشاف'' اور ''البحر المحيط'' ميں ہے _

۲۸ _ حضرت موسى (ع) كو اپنى زندگى ميں بہت سارى سختيوں كا سامنا ہوا _وفتنّك فتون جيسا كہ بعض نے كہا ہے

۷۴

''فتون'' فتنہ كى جمع ہے اور ''فتنہ'' كا استعمال زيادہ تر شدائد اور سختيوں ميں ہوتا ہے ( مفردات راغب) _

۲۹ _ حضرت موسى (ع) كى آزمائش اور زندگى كى سختياں ان پر خداتعالى كى نعمتوں ميں سے تھيں _

چونكہ يہ آيات حضرت موسى (ع) پر خداتعالى كى نعمتوں كو شمار كررہى ہيں اور اسى كے ضمن ميں حضرت موسى كا ( آزمائش يا سختي) ميں مبتلا ہونا ذكر ہوا ہے_اس سے لگتا ہے كہ اس قسم كى سختياں اور آزمائشيں بھى خداتعالى كى نعمتوں ميں سے ہيں _

۳۰ _ زندگى كى بعض سختياں ، انسان پر خداتعالى كى نعمت اورلطف كى علامت ہيں _و لقد مننا و فتنّك فتون

۳۱ _ زندگى كے واقعات اور مشكلات خداتعالى سے مربوط اور اسكى طرف منسوب ہيں _و فتنّك

۳۲ _ فرعونيوں كے چنگل سے آزاد ہونے كے بعد حضرت موسى (ع) سختى كے ساتھ مدين پہنچے اور چند سال تك وہيں قيام پذير رہے _وفتنك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين

۳۳ _ حضرت موسى (ع) كا مدين كے لوگوں كے درميان چند سال قيام كرنا انكى آزمائش اور امتحان كا دوسرا مرحلہ تھا _

و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فلبثت'' كى فاء ممكن ہے مفصل كے مجمل پر عطف كيلئے ہو اس صورت ميں حضرت موسى (ع) كا مدين ميں قيام ''فتنة'' (سختى يا آزمائش) كا مصداق ہوگا _

۳۴ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى سختياں اور ان سے خداتعالى كى آزمائش اسلئے تھيں كہ وہ رسالت الہى كا بوجھ اٹھانے كے لئے شائستہ مرتبے پر فائز ہوسكيں _و فتّنك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

''قدر '' يعنى مطلوب حد_ يہ كلمہ اور ''مقدار'' ايك ہى معنى ميں ہيں _(لسان العرب) ''على قدر'' ''جئت'' كے فاعل كيلئے حال ہے يعنى اے موسى جب تو شائستگى اور استوارى كى لازمى حد كو پہنچ گيا تو تونے اس وادى ميں قدم ركھا _

۳۵ _ حضرت موسى (ع) كو اس وقت كوہ طور ميں خداتعالى كے ساتھ مناجات اور حكم رسالت كے د ريافت كى توفيق حاصل ہوئي جب آپ نے آزمائش الہى اور سختيوں كو جھيلنے كے مرحلے سے گزر كر لازمى لياقت كو پاليا _و فتنّك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

۳۶ _حضرت موسى (ع) كى عمر كے كئي سالوں كا مدين ميں بسر ہونا اور رسالت كيلئے لازمى لياقت كو حاصل كرلينا آپ كيلئے نعمات الہى تھيں _ولقد مننا عليك مرة ا خرى إذ تمشى ا ختك

۳۷ _ نبوت اور رسالت الہى ان لوگوں كيلئے مخصوص ہے جو اسكے لائق ہوں _ثم جئت على قدر يا موسى

۷۵

۳۸ _ حضرت موسى (ع) كى مدين سے واپسى اور كو ہ طور ميں وادى طوى ميں آنا خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديئے گئے پروگرام كے مطابق تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''قدر'' كا ايك معنى ،الہى تقدير ہے كہا گيا ہے كہ يہ كلمہ ''قدر'' كا اسم مصدر اور تقدير بنانے كے معنى ميں ہے (لسان العرب) راغب بھى كہتاہے ''قدر'' ہر چيز كا معين وقت اور جگہ ہے_

۳۹ _ انبياء كى بعثت كا وقت معين اور خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديا گيا ہے_ثم جئت على قدر يا موسى

۴۰ _ مدين ميں حضرت موسى (ع) كى لمبى عمر كا انكے رسالت كے لائق بننے كيلئے بڑا كردار تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور يہ دلالت كرتاہے كہ موسى كا كوہ طور پر آنا ان كى مدين ميں رہائش كے آغاز كافى وقت بعد تھا_

۴۱ _ خداتعالى نے كوہ طور ميں نرمى اور مہربانى كے ساتھ حضرت موسى (ع) سے بات كى _يموسى

سخن كے دوران بار بار حضرت موسى (ع) كا نام لينا خداتعالى كى آپ كے ساتھ مہربانى پر دلالت كرتا ہے _

۴۲ _'' عن محمد بن مسلم:قلت لا بى جعفر(ع) : فكم مكث موسى غائباً عن ا مه حتى ردّه الله عليها؟ قال: ثلاثة ا يام; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام باقر (ع) سے عرض كيا حضرت موسى (ع) كتنى مدت اپنى والدہ سے غائب رہے يہاں تك كہ خداتعالى نے ا نہيں انكے پاس لوٹادياتو آپ نے فرمايا تين دن(۱)

۴۳ _'' روى عن النبى (ص) ا نه قال: رحم الله ا خى موسى قتل رجلاًخطاً و كان ابن إثنتى عشرة سنة ; پيغمبر اكرم(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا خداتعالى ميرے بھائي موسي(ع) پر رحم كرے انہوں نے ايك مرد كو اس وقت غلطى سے قتل كيا جب انكى عمر بارہ سال تھى(۲) _

انبياء (ع) :انكى بعثت كا قانون مند ہونا ۳۹ // بيٹا:اسكى تربيت ۱۶

خداتعالى :اسكى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۴۱_ اسكى تقدير ۳۸; اسكى مہربانى ۴۱; اس كا نجات دينا ۲۲; اسكى مہربانى كى نشانياں ۳۰; اسكى نعمتيں ۳۰; اس كا كردار ادا كرنا ۲۴روايت: ۴۲، ۴۳

غم و اندوہ:اسكے دور كرنے كا سرچشمہ ۲۴

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۶ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۶_ /۲ ) مجمع البيان ج ۷ ص ۱۹ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۷_

۷۶

فرعون:فرعون اور موسى ۴; اس كا قصہ ۵

فرعونى لوگ:انكا نسلى امتياز ۲۱; يہ اور موسى (ع) ۱۰، ۲۰; انكى مشكلات ۵

قبطي:انہيں بنى اسرائيل پر ترجيح دينا ۲۱

ماں :اس كا كردار ادا كرنا ۱۶

مشكلات:انكا سرچشمہ ۳۱

موسى (ع) :انكے امتحان كے اثرات ۳۵; انكى واپسى كے اثرات ۱۴، ۱۷; انكے قتل كے اثرات ۱۹، ۲۰، ۲۶; انكى مشكلات كے اثرات ۳۵; انكا احساس نا امنى ۲۰; انكا امتحان ۲۵، ۲۹، ۳۳; انكى ماں كا غم و اندوہ ۱۳; انكا غم و اندوہ ۲۲; انكى واپسى ۱۰، ۳۸; انكے امتحان كا متعدد ہونا ۲۷; انكا پيچھا كرنا ۳; انكى كفالت ۱۰، ۱۱; انكى خطا ۴۳; انكى بہن ۱، ۶; انكى بہن اور فرعون كے دربارى ۷; انكى بہن كى راز دارى ۹; انكے امتحان كا پيش خيمہ ۲۶; انكى تربيت

كا پيش خيمہ ۱۷;ان كے رشد و تكامل كا پيش خيمہ ۱۷;انكى مناجات كا پيش خيمہ ۳۵; انكى نبوت كا پيش خيمہ ۳۴، ۳۵، ۴۰; انكى بہن كى صفات ۹; انكى بہن كا علم ۲; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۱۹; انكى واپسى كے عوامل ۱۲; انكى ماں كے غم و اندوہ كے دور ہونے كے عوامل۱۴; انكى پريشانى كے عوامل ۱۹; انكے فضائل ۳۶; انكے امتحان كا فلسفہ ۳۴; انكى مشكلات كا فلسفہ ۳۴; انكى بہن كى پيشكش كا قبول ہونا ۸; انكا قتل كرنا ۱۸، ۲۲، ۴۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۴، ۱۸، ۲۰، ۲۵، ۲۷، ۲۸، ۳۲، ۳۳، ۴۰، ۴۲، ۴۳; انكا بچپن ۱۱; انكى نگرانى ۴; انكى جدائي كى مدت ۴۲; انكى نگرانى كى مشكلات ۵; انكى مشكلات ۲۸، ۲۹; انكى دايہ كى پہچان كرانا ۶، ۷، ۸; انكى ماں كا مقام ۱۵; آپ كوہ طور ميں ۳۵، ۳۸، ۴۱; آپ مدين ميں ۳۲، ۳۳، ۳۶، ۴۰; آپ نيل ميں ۲; آپكے ساتھ مہربانى ۴۱; آپكى نبوت ۳۶; آپكى نجات ۲۲، ۲۳، ۳۲; آپكى نعمتيں ۲۳، ۲۹; آپكى بہن كا كردار ادا كرنا ۱۲; آپكى ماں كا كردار ادا كرنا ۱۰، ۱۱; آپكى بہن كى پريشانى ۲، ۳; آپكى پريشانى ۲۲; آپكى بہن كى ہوشيارى ۹

نبوت:اسكے شرائط ۳۷

نعمت:اسكے درجے ۲۳; اسكى مشكلات ۳۰

۷۷

آیت ۴۱

( وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي )

اور ہم نے تم كو اپنے لئے منتخب كرليا (۴۱)

۱ _ حضرت موسي،(ع) خداتعالى كے پرورش يافتہ _اصطنعتك

''اصطناع'' يعنى تربيت كرنا اور با ادب بنانا (قاموس) اور لائق بنانے ميں مبالغے پر دلالت كرتا ہے (مفردات راغب) _

۲ _ حضرت موسى (ع) كا وجود راہ خدا كيلئے وقف _لنفسي ''تجھے ميں نے اپنے لئے بنايا'' مخاطب كو اپنے لئے خالص كرنے سے كنايہ ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى سرپرستى اور نگرانى انسانوں كے درميان احكام الہى كو عملى كرنے كيلئے تھا _واصطنعتك لنفسي ''لنفسي'' كى قيد بتائي ہے كہ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى اپنے اہداف كيلئے پرورش كى تھى اور اسے اپنے آسمانى احكام كو عملى كرنے كيلئے طاقتور بنايا تھا بعد والى آيت كريمہ كہ جو فرعون كى طرف جانے كا حكم دے رہى ہے اس معنى كى شاہد ہے _

۴ _ حضرت موسى (ع) ، كو بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام حاصل تھا اور آپ مكمل طور پر خدا تعالى كيلئے مخلص تھے _

و اصطنعتك لنفسي

۵ _ خداتعالى انبياء كى پرورش اور تربيت كرنے والا ہے_واصطنعتك لنفسي

۶ _ رسالت و نبوت كے لائق ہونا،خداتعالى كيلئے مكمل خلوص كے ساتھ مربوط ہے_و اصطنعتك لنفسي

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كے آخرى حصے كى تفسير ہے اور اس قد راور ميزان كو بيان كررہى ہے كہ جس كا انبياء كيلئے حاصل ہونا ضرورى ہے اور حضرت موسى (ع) اس مقام و مرتبے پر فائز ہوكر كوہ طور پر آئے تھے_

۷ _ حضرت موسى (ع) كا كامل اخلاص ان پر خداتعالى كى ايك نعمت _و اصطنعتك لنفسي

۷۸

ہوسكتا ہے اس آيت كريمہ كا عطف '' قتلت نفساً'' جيسے جملوں پر ہو كہ جو خداتعالى كى نعمتوں او راحسانات كو بيان كرر ہے ہيں _

اخلاص:اسكے اثرات ۶

انبياء (ع) :انكا تربيت كرنے والا ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت ۱، ۵

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى اہميت ۳

موسى (ع) ;انكا اخلاص ۴، ۷; انكى شخصيت ۲; انكے فضائل ۲، ۷; انكى تربيت كا فلسفہ ۳; انكى نگرانى كا فلسفہ ۳; انكى تربيت كرنے و الا ۱; انكا مقام ۴; انكى نعمتيں ۷_

نبوت:اسكى شرائط ۶

نعمت:اخلاص والى نعمت ۷

آیت ۴۳

( اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي )

اب تم اپنے بھائي كے ساتھ ميرى نشانياں لے كر جاؤ اور ميرى ياد ميں سستى نہ كرنا (۴۲)

۱ _ ہارون، حضرت موسى (ع) كے بھائي اور رسالت الہى كى انجام دہى ميں انكے شريك _

هرون ا خي إذهب ا نت و ا خوك

۲ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) معجزات و آيات الہى كے ساتھ اپنى رسالت كى انجام دہى كيلئے حركت كرنے پر ما مور _اذهب انت و اخوك بآيا تي

۳ _ حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) كا دين عالمى تھا اور كسى ايك گروہ كے ساتھ مخصوص نہيں تھا_

پہلى اور بعد والى آيات ميں فرعون كى طرف جانے كا تذكرہ ہے ليكن چونكہ اس آيت كريمہ نے رسالت كى تبليغ كيلئے كوئي خاص مورد معين نہيں كيا اس سے احتمال ہوتا ہے كہ حضرت موسى (ع) سب كيلئے ما مور تھے اور فرعون پيغام كے پہچانے كيلئے نقطہ آغاز تھا _

۷۹

۴ _ لوگوں كى طرف حركت كرنا اور ان ميں جانا تبليغ اور رسالت كيلئے لازمى ہے _إذهب إلي إذهب ا نت و ا خوك

ان چند آيات ميں كہ جو مورد بحث ہيں فعل ''اذہب'' كا تين دفعہ تكرار ہوا ہے_ خداتعالى كے اس حكم او رتاكيد سے پتا چلتا ہے كہ تبليغ دين كيلئے بيٹھنا اور لوگوں كے جمع ہونے كا انتظار كرنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ ان كے درميان جاكر دعوت الہى كا پرچم بلند كيا جائے_

۵ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) اپنى دعوت كو انجام دينے كيلئے متعدد معجزات كے حامل تھے _اذهب ...بآيا تي ''آيات''كو جمع كى صورت ميں لانا موسى (ع) و ہارون (ع) كو عطا كئے گئے معجزات و آيات كے متعدد ہونے كى نشانى ہے_ اس تعدد كى توجيہ ميں دو احتمال ہيں _ ۱_ عصا اور يد بيضا والے معجزے اگرچہ بطور كلى دو معجزے تھے ليكن يہ متعدد معجزوں پر مشتمل تھے كيونكہ عصا كا سانپ بننا، اس كا حركت كرنا اور پھر سانپ كا عصا بننا ہر ايك الگ سے معجزہ ہے ۲_ خداتعالى نے اس تعبير كے ساتھ حضرت موسى (ع) كو وعدہ ديا ہے كہ اس كے بعد بھى انہيں معجزات عطا كريگا_

۶ _ عصا اور يد بيضا والے معجزوں كے ہمراہ حضرت موسى (ع) كو ديگر معجزات عطا كرنا خداتعالى كا كوہ طور ميں ان كے ساتھ وعدہ _*بآيا تي باوجود اس كے كہ اس وقت تك حضرت موسى (ع) كو صرف دو معجزے عطا ہوئے تھے ''آيات'' كو جمع لانا ہوسكتا ہے خداتعالى كى طرف حضرت موسى (ع) كے ساتھ ديگر معجزات عطا كرنے كا ضمنى وعدہ ہو _

۷ _ معجزہ انبيا كى نبوت و رسالت كى حقانيت كو ثابت كرنے كاايك طريقہ_إذهب ا نت و ا خوك بآيا تي

۸ _ رسالت انبياء كى نشانياں اور معجزات،خداتعالى كى طرف سے ہيں _بآيا تي

۹ _ خداتعالى كو ياد كرنا اور اسكى بات كرنا موسى (ع) و ہارون (ع) كى دعوت كا محور اور نعرہ_ولاتنيا فى ذكري

۱۰ _ ياد خدا ،رسالت كى انجام د ہى اور پيغام پہنچانے ميں سستى نہ كرنا،خداتعالى كى طرف سے موسى (ع) و ہارون (ع) كو نصيحت _ولاتنيا فى ذكري ''وني'' كا معنى ہے سستى اور كوتاہى كرنا (مصباح) ''لاتينا'' يعنى اے موسى اور ہارون ميرى ياد ميں سستى اور كوتاہى مت كرنا_ اور خداتعالى كى ياد كا لازمہ ان ذمہ داريوں كى طرف توجہ ہے جو خداتعالى كى طرف سے انكے سپردكى گئي ہيں _

۱۱ _ ياد خدا ميں سنجيدگي، اسكى طرف سے سپردكى گئي ذمہ داريوں كى طرف مسلسل توجہ اور اس ميں سستى نہ كرنے كا لازمى ہونا_ولاتنيا فى ذكري

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

مالكيت:غير خدا كى مالكيت ۲

مقربين:انكا خضوع ۶; انكى عبادات ۶، ۸; ان كے فضائل ۸; يہ اور تكبر كرنا ۷; انكا نشاط

فرشتے:ان كا خضوع ۶; انكى عبادات ۶

موجودات:ان كا مالك۱; با شعور موجودات ۳

آیت ۲۰

( يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ )

دن رات اسى كى تسبيح كرتے ہيں اور سستى كا بھى شكار نہيں ہوتے ہيں (۲۰)

۱ _ بارگاہ الہى كے مقربين كى مسلسل اور دن رات تسبيح _و من عنده يسبحون الّيل و النهار

۲ _ خداتعالى كى مسلسل تسبيح ميں مقربين الہى (فرشتوں ) كا سستى كا شكار نہ ہونا_و من عنده يسبحون الّيل و النهار لايفترون (يفترون كى مصدر) ''فتر'' كا معنى ہے كمزورى اور سستى _

۳ _'' عن أبى عبدالله (ع) : والملائكة ينامون، فقلت: يقول الله عزوجل: ''يسبحون الليل والنهار لا يفترون'' قال: ا نفاسهم تسبيح; امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ فرشتے بھى سوتے ہيں (راوى كہتاہے) ميں نے عرض كيا (كيسے جبكہ) خداتعالى فرماتا ہے :

''يسبحون الليل والنهار لا يفترون'' توآپ(ع) نے فرمايا ان كے سانس تسبيح ہيں(۱)

تسبيح:يہ دن ميں ۱; يہ رات ميں ۱

فرشتے:انكى تسبيح كا تسلسل۲; انكى تسبيح ۳

روايت :۳

مقربين:انكى تسبيح كا تسلسل۱، ۲

____________________

۱ ) كمال الدين صدوق ۶۶۶، ب ۵۸، ح۸_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۷، ح ۲۲_

۳۲۱

آیت ۲۱

( أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِّنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنشِرُونَ )

كيا ان لوگوں نے زمين ميں ايسے خدا بنا لئے ہيں جو ان كو زندہ كرنے والے ہيں (۲۱)

۱ _ مشركين كا زمينى عناصر اور مواد سے بنائے گئے خداؤں پر اعتقاد ركھنا _ا م اتّخذوا ألهة من الأرض

''أم اتخذوا'' ميں ''ام'' منقطعہ اور ''بل'' كے معنى پر مشتمل ہے كہ جو اضراب كيلئے ہے _

۲ _ عصر بعثت كے مشركين كئي خداؤں كى پرستش كرتے تھے اور كئي معبودوں كا اعتقاد ركھتے تھے _ا م اتخذوا آلهة من الارض ''آلہة''، ''الہ'' كى جمع ہے يعنى خدا اور معبود _

۳ _ مرُدوں كو زندہ كرنے كى قدرت، مقام الوہيت كا قطعى لازمہ ہے_ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون

مذكورہ مطلب دو نكتوں كو پيش نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے_ پچھلى اور بعد كى آيات خداتعالى كى الوہيت اور توحيد كے بارے ميں ہيں ۲_ آيت شريفہ نے خدا كہے جانے والوں كى مرُدوں كو زندہ كرنے پر ہر قسم كى قدرت كى نفى كى ہے ان آيات كے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے كہ مرُدوں كوزندہ كرنا صرف حقيقى الوہيت كا لازمہ ہے اور يہ اسى ميں منحصر ہے _

۴ _ مشركين كے خداؤں كا مرُدوں كو زندہ كرنے سے عاجز ہونا_ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون

مذكورہ مطلب اس چيز كوپيش نظر ركھتے ہوئے ہے كہ جملہ '' ہم ينشرون'' مستأنفہ ہے اور يا محل نصب ميں اور ''آلہة'' كى صفت ہے_

دونوں صورتوں ميں اس سے پہلے استفہام انكارى كا ہمزہ مقدر ہے اور انكار بھى انكار وقوعى ہے يعنى مشركين كے معبودوں كے ذريعے مرُدوں كا زندہ ہونا محال ہے_

۵ _ مرُدوں كو زندہ كرنا اور قيامت برپا كرنا، صرف خداتعالى كى قدرت ميں ہے _له من فى السموات و الأرض ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون خداتعالى جہان ہستى پر اپنى ملكيت اور قدرت

۳۲۲

مطلقہ كو ثابت كر كے (لہ من فى السموات ...) اور خدا پكارے جانے والوں كى مرُدوں كو زندہ كرنے پر قدرت كى نفى كر كے اس نكتے كو بيان فرمانا چاہتا ہے كہ انہيں زندہ كرنا صرف خداتعالى كى قدرت ميں ہے_

۶ _ باطل عقيدے اور سوچ كے بارے ميں تحقيق اور سوال كرنا صحيح عقيدے اور سوچ كے بيان كرنے اور اسكى طرف ہدايت كرنے كى ايك روش ہے_ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون

مذكورہ مطلب جملہ استفہاميہ ''ہم ينشرون'' سے حاصل ہوتا ہے_

الوہيت:اسكے شرائط ۳

باطل معبود:ان كا متعدد ہونا۲; انكا عجز۴; ان كے عناصر، ۱

توحيد:توحيد افعالى ۵

سوال:اسكے فوائد ۶

سچے معبود:انكا زندہ كرنا ۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۵

عقيدہ:باطل عقيدہ كے بارے ميں سوال ۶; اسے صحيح كرنے كى روش ۶

قيامت:اسكے برپا ہونے كا سرچشمہ ۵

مردے:انہيں زندہ كرنے سے عاجز ہونا۴; انہيں زندہ كرنے كا سرچشمہ ۵

مشركين:انكا باطل عقيدہ۱; صدر اسلام كے مشركين كا باطل عقيدہ ۲; صدر اسلام كے مشركين كے معبود۲; ان كے باطل معبود،۱

ہدايت:اسكى روش۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

۳۲۳

آیت ۲۲

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ )

ياد ركھو اگر زمين و آسمان ميں اللہ كے علاوہ اور خدا بھى ہوتے تو زمين و آسمان دونوں برباد ہوجاتے عرش ہے اور وہ ہر ايك كا حساب لينے والا ہے (۲۲)

۱ _ عالم خلقت ميں خداؤں كا متعدد ہونا ناممكن اور محال ہے_لو كان فيهما ألهة إلّا الله لفسدت

مذكورہ مطلب ''لوكان'' ميں ''لو'' امتناعيہ سے حاصل ہوتا ہے_

۲ _ عالم ہستى ميں خداؤں كا متعدد ہونا اسكے نظام كے فاسد ہونے اور اسكے ٹكڑے ٹكڑے ہوجانے كا سبب ہے_

لو كان فيهما ألهة إلّا الله لفسدت ''فساد'' ،''صلاح'' كى ضد ہے اور اس كا معنى ہے حد اعتدال سے خارج ہونا (مفردات راغب) قابل ذكر ہے كہ ہر شے كى درستگى اور فاسد و خراب ہونا اسكے اپنے تناسب سے ہے اور آسمانوں اور زمين كا فاسد و خراب ہونا يعنى اسكے موجودہ نظام كا ختم ہوجانا اور اسكے انسجام اور پيوستگى كا ٹوٹ جانا_

۳ _ عالم خلقت كا منظم اور ہم آہنگ ہونا، خداتعالى كى وحدانيت كى دليل ہے_لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''إلاّ''، ''غير'' كے معنى ميں ہو يعنى اگر كائنات ميں خدا كے علاوہ ديگر خدا ہوتے تو اس كا موجودہ نظام ختم ہوجاتا اس كا مفہوم اور پيغام يہ ہے كہ كائنات كا موجودہ نظام صرف خدا كے ارادے سے ہے اور اسكى وحدانيت كى دليل ہے_

۴ _ خداتعالى كے علاوہ كوئي بھى طاقت كائنات كو منظم اور منسجم طور پر چلانے پر قادر نہيں ہے_لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

خداتعالى نے امور كائنات ميں دخل ركھنے والے چند خداؤں كے وجود كى نفى كى ہے اور اسے نظام كائنات كے بگڑ جانے اور فاسد ہونے كا سبب قرار ديا ہے يہ فاسد اور خراب ہونا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ ديگر خدا كائنات كو چلانے اور اسے سر و سامان دينے پر قادر نہيں ہيں _

۵ _ تعليمات اسلامى كے اصول اور مبانى برہان اور استدلال پر مبنى ہيں _لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

آيت شريفہ كہ جو وحدانيت خدا اور اسكى انحصارى ربوبيت كو بيان كر رہى ہے ميں بہترين اور اہم ترين عقلى استدلال اور برہان سے استفادہ كيا گيا ہے بعض علماء علم كلام نے اسے ''برہان تمانع'' كے نام سے ياد كيا ہے_

۳۲۴

۶ _ ہر كلام ميں ہم آہنگى اور نظم كيلئے ايك رہبرى اور مينجمنٹ كى ضرورت ہے_لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

مذكورہ مطلب آيت كے موردسے منتزع ہوتا ہے كيونكہ الوہيت و ربوبيت كے متعدد ہونے كى وجہ سے كائنات كے نظام كا خراب اور ختم ہوجانا ہر منسجم اور ہم آہنگ كام كى نسبت قابل تصور ہے اور آسمانوں اور زمين كى كوئي خصوصيت نہيں ہے_

۷ _ خدائے يكتا مشركين كے خيالوں اور وصفوں سے منزہ و مبرا ہے _لو كان فيهما ألهة فسبحان الله رب العرش عما يصفون

۸ _ عرش (نظام ہستى كا مركز) صرف خداتعالى كى ربوبيت اور تدبير كے تحت ہے_رب العرش

''عرش'' كا معنى ہے بادشاہى اور حكمرانى كا تخت اور خداتعالى كى نسبت يہ نظام ہستى كے مركز كى طرف اشارہ ہے_ قابل ذكر ہے كہ آيت كے شروع ميں كسى بھى دوسرے معبود اور مشركين كے وجود كى نفى كى گئي ہے اس سے عرش كى تدبير كا صرف خداتعالى كے ہاتھ ميں منحصر ہونا حاصل ہوتا ہے_

۹ _ زمينى اور آسمانى موجودات كے درميان عرش الہى كى عظمت اور اہميت _فسبحان الله رب العرش

۱۰ _ خداتعالى عرش (نظام ہستى كا مركز) كا مالك و مختار ہے _فسبحان الله رب العرش

مذكورہ مطلب ''رب'' كے معنى ميں سے ايك (مالك اور صاحب اختيار) پر مبتنى ہے_

۱۱ _ عرش پر خداتعالى كى ربوبيت اور تدبير اسكے يكتا ہونے اور عالم ہستى ميں كسى دوسرے معبود اور شريك كے نہ ہونے كى دليل ہے_لوكان فيهما ألهة فسبحان الله رب العرش عما يصفون

''رب العرش'' اسم جلالہ (الله ) كيلئے صفت ہے اور كائنات ميں ديگر خداؤں اور معبودوں كى نفى كے بعد خداتعالى كى يہ صفت ذكر كرنا ممكن ہے اس نكتے كو بيان كر رہا ہو كہ صفت ''رب'' اور امور كى تدبير صرف خداتعالى ميں منحصر ہے اور اس كا كوئي شريك نہيں ہے_

اسلام:اس كا منطقى ہونا ۵

اللہ تعالى :اس كا منزہ ہونا ۷; س كا مالك ہونا ۱۰; اسكى تدبير كا مركز ۸; اسكى ربوبيت كا مركز ۱۱

۳۲۵

انتظام و انصرام:اس ميں وحدت كے اثرات ۶برہان نظم ۳

توحيد:توحيدى نظريہ كائنات ۳، ۴

راہبري:اسكى وحدت كے اثرات ۶

شرك:اسے رد كرنے كے دلائل ۱۱

عرش:اسكى تدبير كے اثرت ۱۱; اسكى اہميت ۹; اسكى عظمت۹; اس كامالك ۱۰; اس كا مدبر ۸; اس كا كردار ۸

نظام خلقت:اسكے انہدام كے عوامل ۲; اسكے فاسد ہونے كے عوامل ۲;ا سكى تدبير كا مركز ۱۰; اس كے منظم ہونے كا سرچشمہ ۴; اس ميں ہم آہنگى ۳

عقيدہ:اس ميں برہان ۵

مشركين:انكى غلط سوچ۷

معبود:ان كے متعدد ہونے كے اثرات۲; ان كے تعدد كا محال ہونا ۱

نظم و نسق:اسكے عوامل ۶

آیت ۲۳

( لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ )

اس سے بازپرس كرنے والا كوئي نہيں ہے اور وہ ہر ايك كا حساب لينے والا ہے_(۲۳)

۱ _ خداتعالى اپنے كاموں كے سلسلے ميں كسى كے سامنے جوابدہ نہيں ہے اور كسى كا اس پر كوئي حق نہيں ہے_

لايسئل عما يفعل جملہ''و هم يسئلون'' قرينہ ہے كہ جملہ''لا يسئل ...'' ميں سوال سے مراد اعمال و رفتار كى كيفيت اور فلسفہ كے بارے ميں سوال ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ خداتعالى كسى كے سامنے جوابدہ نہيں ہے تا كہ كوئي اسكے كاموں كى كيفيت كے بارے ميں سوال كرے اور اس سے باز پرس كرے نيز كسى كا خداتعالى پر حق نہيں ہے تا كہ اسكے ساتھ اپنے حق كے بارے ميں بات كرے_

۳۲۶

۲ _ خداتعالى كے تمام افعال حكيمانہ، شائستہ اور حق كے مطابق ہيں _لايسئل عما يفعل

خداتعالى كا جوابدہ نہ ہونا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ اسكے تمام كام حكيمانہ، شائستہ اور حق كے مطابق ہيں لہذا سوال اور بازپرس كى گنجائش ہى نہيں ہے كيونكہ اس ہستى كے كاموں كى كيفيت كى بارے ميں سوال كيا جاسكتا ہے كہ جو خطاكار ہو يا اس ميں خطا كا احتمال ہو اور خداتعالى ايسا نہيں ہے_

۳ _ خداتعالى كے كاموں كے بارے ميں چون و چرا اور اعتراض كرنا ناشائستہ فعل ہے_لايسئل عما يفعل

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ خبريہ ''لايسئل عما يفعل'' مقام انشاء ميں ہو يعنى خداتعالى كے افعال كى كيفيت كے بارے ميں سوال نہ كريں اور ان اعتراض نہ كريں _

۴ _ مقام الوہيت بازپرسى اور محاسبہ ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_فسبحان الله لايسئل عما يفعل و هم يسئلون

۵ _ مشركين كے خيالى خداؤں (فرشتوں اور مقربين) سے بھى بازپرس ہوگى اور ان كا اپنا بھى محاسبہ ہوگا_

لايسئل عما يفعل و هم يسئلون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ضمير ''ہم'' كا مرجع ''من عندہ'' ہو كہ جس سے مراد بارگاہ الہى كے مقربين ہيں اور انكے بارز مصداق فرشتے ہيں _

۶ _ كائنات كى تمام باشعور مخلوقات خداتعالى كے سامنے جوابدہ ہيں اور خداتعالى ان سے بازپرس كريگا_و هم يسئلون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ضمير ''ہم'' كا مرجع ''من'' ہو كہ جو (من فى السماوات) ميں ہے_

الوہيت:اسكے اثرات ۴

باطل معبود:ان كا محاسبہ ۵

سوال:اسكے موانع ۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱; اسكے افعال كى حقانيت ۲; اس پر حق ۱; اس پر ذمہ دارى كا نہ ہونا ۱; اسكے افعال كا قانون كے تحت ہونا۲; اس سے سوال كا ناپسنديدہ ہونا ۳; اس پر اعتراض كا ناپسنديدہ ہونا ۳

مقربين:ان كا محاسبہ ۵/فرشتے:ان كا محاسبہ ۵

موجودات:باشعور موجودات كا محاسبہ ۶; باشعور موجودات ۶

۳۲۷

آیت ۲۴

( أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ )

كيا ان لوگوں نے اس كے علاوہ او رخدا بنا لئے ہيں تو آپ كہہ ديجئے كہ ذرا اپنى دليل تو لاؤ_ يہ ميرے ساتھ والوں كا ذكر اور مجھ سے پہلے والوں كا ذكر سب موجود ہے ليكن ان كى اكثريت حق سے ناواقف ہے اور اسى لئے كنارہ كشى كر رہى ہے (۲۴)

۱ _ عصر بعثت ميں مشركين متعدد خداؤں اور معبودوں كا عقيدہ ركھتے تھے_ا م اتخذوا من دونه ألهة

''آلہة''، ''الہ'' كى جمع ہے يعنى خدا اور معبود_

۲ _ ''الله '' كے علاوہ كائنات ميں كوئي معبود اور خدا نہيں ہے_ا م اتخذوا من دونه ألهة

۳ _ باطل عقيدے اور خيال كے بارے ميں باز پرس كرنا اور اس پر سواليہ نشان لگانا صحيح عقيدے كے بيان كرنے اور اسكى طرف ہدايت كرنے كى ايك روش ہے_ا م اتخذوا من دونه ألهة

مذكورہ مطلب اس چيز كے پيش نظر حاصل ہوتا ہے كہ ا م منقطعہ استفہام توبيخى پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ پيغمبراكرم(ص) ، مشركين سے ان كے شرك كے بارے ميں واضح دليل و برہان كا مطالبہ كرنے پر مأمور_

قل هاتوا برهانكم ''برہان'' كا معنى ہے واضح اور حق و باطل كے درميان فيصلہ كرنے و الى دليل اور حجت_

۵ _ پيغمبر اكرم(ص) اور الہى مبلغين كا فريضہ ہے كہ وہ مخالفين كے ساتھ منطقى اور استدلالى طرز اپنائيں _قل هاتوا برهانكم

۶ _ دليل و برہان، فكر و اعتقاد كى صحت كا معيار ہے_قل هاتوا برهانكم

۷ _ شرك ايك بے دليل، كھوكھلى اور ناقابل اثبات سوچ اور عقيدہ ہے_قل هاتوا برهانكم

''ہاتوا'' كا امر تعجيز كيلئے ہے يعنى يہ بتاتا ہے كہ مشركين دليل اور برہان لانے سے ناتوان ہيں _

۸ _ اعتقادات و نظريات كا قطعى ادلہ و براہين پر مبتنى ہونا ضرورى ہے_قل هاتوا برهانكم

۳۲۸

۹ _ توحيد اور شرك كى نفي، تمام انبيا(ع) ئ، موحدين اور آسمانى كتابوں كا پيغام_هذا ذكر من معى و ذكر من قبلي

سابقہ آيات كے قرينے سے ''ہذا'' كا مشار اليہ توحيد اور نفى شرك ہے_

۱۰ _قرآن اور آسمانى كتابيں (تورات، زبور، انجيل) انسان كى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے والى اور اس كى فراموش كردہ معلومات كى ياددہانى كرانے والى ہيں _هذا ذكر من معى و ذكر من قبلي

معنى كے لحاظ سے ''ذكر''، ''حفظ'' كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كہ حفظ شے جاننے اور حاصل كرنے كے لحاظ سے ہوتا ہے اور ذكر شے ياد كرنے اور حاضر كرنے كے اعتبار سے ہوتا ہے (مفردات راغب) اس بناپر قرآن اور آسمانى كتابوں كى ''ذكر'' كے ساتھ توصيف ممكن ہے اس اعتبار سے ہو كہ يہ انسان كى فراموش شدہ معلومات كى يادآورى كراتى ہيں اور غافل انسان كى فطرت كو بيدار كرتى ہيں _

۱۱ _ صدر اسلام كے اكثر مشركين حق سے جاہل اور ناآگاہ تھے _بل أكثر هم لا يعلمون الحق

۱۲ _ جہل و ناآگاہى اكثر مشركين كے حق سے روگردانى اور شرك كى طرف مائل ہونے كا عامل ہے_

بل أكثرهم لا يعلمون الحق فهم معرضون

''فہم معرضون'' ميں ''فائ'' عاطفہ اور سبب و مسبب كے درميان ربط پيدا كرنے كيلئے ہے يعنى چونكہ وہ جاہل ہيں اس لئے حق سے روگردانى كرتے ہيں _

۱۳ _ جہل و ناآگاہى بہت سے انسانوں كے حق و حقيقت سے گريز كرنے كا سبب ہے_بل أكثرهم لا يعلمون الحق فهم معرضون

۱۴ _ صدر اسلام ميں مشركين كا ايك بڑا گروہ حق كى شناخت كے باوجود حق سے گريزاں تھا_بل أكثر هم لايعلمون الحق

كلمہ ''اكثر'' افعل التفضيل ہے اور اس كا مقابل كثير ہے نہ قليل اس وجہ سے ''بڑا گروہ'' مستفاد ہوتا ہے يعنى اگر چہ دانا اور حق سے گريز كرنے والے مشركين نادانوں كے مقابلے ميں كم تھے ليكن وہ خود زيادہ تھے_

۱۵ _ حق كى شناخت اور حقائق دينى كو صحيح طور پر سمجھنے كيلئے جستجو كرنا ضرورى ہے_بل أكثرهم لايعلمون الحق فهم معرضون مذكورہ بالا آيت فقط مشركين كى حالت زار كو بيان نہيں كرر ہى بلكہ انكى مذمت كرنے كے بھى درپے ہے_ اس كا مطلب يہ ہے كہ حق كى شناخت ايك لازمى امر ہے كيونكہ غيرلازمى امر پر مذمت كرنا معقول نہيں ہے_

۳۲۹

انبياء(ع) :انكى شرك دشمني۹; انكى ہم آہنگى ۹

انجيل:اسكى ياددہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

توحيد:توحيد عبادى ۲; اسكى دعوت ۹

تورات:اسكى ياددہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

سوال:اسكے فوائد۳

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۲

جہالت:اسكے اثرات ۱۲، ۱۳

حق:اسكى تشخيص كى اہميت ۱۵; اس سے روگردانى كے عوامل ۱۲; اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۱۳

دين:دين شناسى كى اہميت ۱۵

زبور:اسكى ياد دہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

شرك:اس كا كھوكھلاپن ۷; اسكے عوامل ۱۲

عقيدہ:اس ميں برہان كى اہميت ۸; اس ميں برہان ۶; باطل عقيدے كے بارے ميں سوال ۳; باطل عقيدہ ۷; اسكى درستگى كا معيار ۶

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۱۰/قرآن كريم:اسكى ياددہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

كتب آسماني:انكى ياددہانياں ۱۰; انكى شرك دشمنى ۹; ان كا كردار ۱۰; انكى ہم آہنگى ۹

مبلغين:انكى ذمہ داري۵/آنحضرت(ص) :آپكى ذمہ دارى ۴،۵

مخالفين:ان كے ساتھ پيش آنے كى روش۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى اكثريت كى جہالت ۱۱; صدر اسلام كے مشركين كى اكثريت كا حق كو قبول نہ كرنا ۱۱، ۱۴; ان سے برہان كى درخواست۴; صدر اسلام كے مشركين كا باطل عقيدہ۱; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑپن ۱۴;صدر اسلام كے مشركين كے معبود ۱/موحدين:انكى شرك دشمنى ۹; انكى تعليمات كى ہم آہنگى ۹

ہدايت:اسكى روش ۳

۳۳۰

۳۵۴ تا ۳۶۱

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ) (٢٥)

( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ) (٢٦)

( لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) (٢٧)

( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ) (٢٨)

۳۳۱

آیت ۲۹

( وَمَن يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِّن دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ )

اور اگر ان ميں سے بھى كوئي يہ كہہ دے كہ خدا كے علاوہ ميں بھى خدا ہوں تو ہم اس كو بھى جہنم كى سزا ديں گے كہ ہم اسى طرح ظالموں كو سزا ديا كرتے ہيں (۲۹)

۱ _ اگر فرشتے الوہيت كا دعوى كريں تو دوزخ كے عذاب ميں گرفتار ہوں گے_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك نجزيه جهنم

۲ _ گناہ اور لغزش كى صورت ميں فرشتے عذاب الہى سے امان ميں نہيں ہوں گے_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك نجزيه جهنم

۳ _ الوہيت كا دعوى ناقابل بخشش گناہ ہے اگرچہ مقربين الہى كى طرف سے ہو_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك بخزيه جهنم

۴ _ جہنم، جھوٹى الوہيت كا دعوى كرنے والوں كى سزا ہے_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك نجزيه جهنم

۵ _ جن كو خدا بنايا گيا ہے ليكن وہ خود اس كے مدعى نہيں ہيں تو وہ گناہ گار نہيں ہيں اور ان كو سزا نہيں ملے گي_

و من يقل منهم إنى إله ...نجزيه جهنم

مذكورہ بالا مطلب مفہوم شرط سے حاصل ہوتا ہے يعنى خدا صرف خدائي كا دعوى كرنے والوں كو عذاب ديگا نہ انہيں جو خدا ہونے كا كوئي دعوى نہيں كرتے _

۶ _ الوہيت كا دعوى كرنا ظلم ہے اور خدائي كا دعوى كرنے و الے ظالم ہيں _و من يقل منهم انى اله ...نجزيه جهنم

۷ _ جہنم، سب ستمگروں كى سزا ہے_

۳۳۲

نجزيه جهنم كذلك نجزى الظالمين

الوہيت:اسكے دعوے كا ظلم ہونا ۶; اسكے دعوے كى سزا ۱; اسكا دعوى كرنے والوں كى سزا ۴; اسكے دعوے كا گناہ ۳

باطل معبود: ۵

جہنم:اسكے اسباب ۱، ۴، ۷

خداتعالى :اسكے عذاب كا عام ہونا ۲

ظالم لوگ:۶يہ جہنم ميں ۷; ان كى سزا ۷

ظلم:اسكے موارد ۶

گناہ:اسكے اثرات ۲; ناقابل بخشش گناہ ۳

معبود:اسكى سزا كے شرائط ۵

فرشتے:يہ اور الوہيت ۱; يہ اور عذاب ۲; يہ اور گناہ ۲

آیت ۳۰

( أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ )

كيا ان كافروں نے يہ نہيں ديكھا كہ يہ زمين و آسمان آپس ميں جڑے ہوئے تھے اور ہم نے ان كو الگ كيا ہے اور ہر جاندار كو پانى سے قرار ديا ہے پھر كيا يہ لوگ ايمان نہ لائيں گے (۳۰)

۱ _ ابتدائے خلقت ميں عالم طبيعت (آسمان و زمين) متراكم اور آپس ميں جڑا ہوا تھا_

أن السموت و الأرض كانتا رتق

''رتق'' كا معنى ہے ملا ہوا اور جڑا ہوا ہونا اور ''فتق'' كا معنى ہے الگ اور جدا ہونا اور ''رتق'' سے مراد ابتدائے خلقت ميں آسمان و زمين كا آپس ميں ملا ہوا اور اكٹھا ہونا ہے اور ''فتق'' سے مراد بعد ميں ان دو كا ايك دوسرے سے الگ اور جدا ہونا ہے_ قابل ذكر ہے كہ ''أوَلم ير'' ميں رؤيت سے مراد قلبى اور علمى رؤيت ہے_

۲ _ عالم طبيعت ميں متعدد آسمان ہيں _السموات

۳ _ پاني، عالم طبيعت ميں سرچشمہ حيات_و جعلنا من الماء كل شيء حي

''من المائ'' ميں ''من'' ابتدائيہ ہے يعنى ہر زندہ چيز نے پانى سے نشأت پكڑى ہے اور اس كا سرچشمہ پانى ہے_

۳۳۳

۴ _ زندہ موجودات كى پيدائش آسمانوں اور زمين كے تراكم اور ايك دوسرے كے ساتھ پيوستگى كے زمانے كے گزرجانے كے بعد تھي_أن السموات والأرض كانتا رتقاً ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شى حي

۵ _ عالم طبيعت اپنى پيدائش كے مختلف ادوار اور مراحل ركھتا_أن السموات والأرض كانتاً رتقا ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شى حي

۶ _ توحيد تك دسترسى حاصل كرنے كيلئے عالم خلقت كے موجودات كے تحولات ميں غور كرنا ضرورى ہے_

أولم يرالذين كفروا أن السموات ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شى حيّ ا فلا يؤمنون

۷ _ آسمانوں و زمين كى خلقت، ان كے سير تحولات، نيز حيات كا پانى سے پيدا ہونا يہ سب ربوبى اور خداتعالى كى يكتائي كى نشانياں ہيں _أولم ير السموات و جعلنا من الماء كل شى حيّ ا فلا يؤمنون

مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ آيات كريمہ خداتعالى كى توحيد ربوبى كو ثابت كرنے اور اس پر ايمان لانے كى ترغيب دلانے كے درپے ہيں ورنہ مشركين كہ جو ان آيات كے مخاطب ہيں خداتعالى كى خالقيت كے منكر نہيں تھے_

۸ _ عالم خلقت كے موجودات ميں غور و فكر انسان كے توحيد تك دسترسى حاصل كرنے كا ايك راستہ ہے_

أولم يرالذين كفروا أن السموات ا فلا يؤمنون

۹ _ كفار، عالم خلقت كے موجودات كے تغير و تبديل كى طرف توجہ نہ كرنے اور خدائے يكتا پر ايمان نہ لانے كى وجہ سے مذمت كے مستحق ہيں _أولم يرالذين كفروا ان السموات والأرض أفلا يؤمنون

''أولم ...'' كا ہمزہ استفہام انكارى كيلئے ہے اور توبيخ كا فائدہ دے رہا ہے_

۱۰ _ '' قال ابوجعفر (ع) : ان قول الله عزوجل: ''كانتا رتقاً'' يقول: كانت السماء رتقاً لا تنزل المطر و كانت الأرض رتقاً لا تنبت الحب فتق السماء بالمطر و الأرض بنبات الحب ...;امام باقر (ع) سے روايت كى گئي كہ آپ(ع) نے فرمايا خداتعالى كا فرمان ''كانتارتقاً'' بيان كر رہا ہے كہ آسمان بندتھا اور بارش نہيں برساتا تھا اور زمين بند تھى اور نباتات نہيں اگاتى تھي پس خداتعالى نے آسمان كو بارش برسانے اور زمين كو نباتات اگانے كے ساتھ شگافتہ كيا (۱)

____________________

۱ ) كافى ج۸، ص ۹۵، ح ۶۷_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۲۵ ، ح ۵۴_

۳۳۴

پاني:اسكے فوائد ۳، ۷

آسمان:اس كا شگافتہ ہونا۱۰; آسمان اور زمين كى پيوستگى ۱; ان كا متعدد ہونا۳; ان كى خلقت۳۷

كائنات:اسكى خلقت كا آغاز۱; اسكے مطالعے كى اہميت ۶; اسكى پيوستگى ۱; اسكى خلقت كے مراحل۵

آيات خدا:آفاقى آيات ۸

بارش:اسكے فوائد ۱۰/تفكر:خلقت ميں تفكر كے اثرات ۷

توحيد:توحيد ربوبى كے دلائل ۷; اس كا پيش خيمہ ۹

زندگي:اس كا سرچشمہ ۳، ۷

روايت: ۱۰/زمين:اس كا شگافتہ ہونا ۱۰; اسكى خلقت ۷

كفار:انكى مذمت ۹; انكا عدم تفكر۹

نباتات:ان كى پيدائش كا سرچشمہ۴

موجودات:زندہ موجودات كى پيدائش كى تاريخ۴

آیت ۳۱

( وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجاً سُبُلاً لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ )

اور ہم نے زمين پر پہاڑ قرار دئے ہيں كہ وہ ان لوگوں كو لے كر كسى طرف جھك نہ جائے اور پھر اس ميں وسيع تر راستے قرار دئے ہيں كہ اس طرح يہ منزل مقصود تك پہنچ سكيں (۳۱)

۱ _ زمين كو انسانوں كو لرزانے اور انہيں جنبش دينے سے روكنے كيلئے مضبوط پہاڑوں كى خلقت_

و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم

''رسا'' كا معنى ہے ''ثبت'' اور ''رسخ'' اور پہاڑوں كو اسلئے ''رواسي'' كہاجاتا ہے كيونكہ يہ راسخ اور مضبوط ہوتے ہيں اور زمين كى لرزش اور اضطراب سے مانع ہوتے ہيں _

(''تميد'' كے مصدر) ''ميد'' كا معنى ہے اضطراب اور مختلف سمتوں كى طرف حركت كرنا_

۳۳۵

۲ _ پہاڑوں كى پيدائش، زمين كى خلقت كے بعد تھي_و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم

ظاہر يہ ہے كہ كسى شے كو ايك ظرف ميں قرار دينا اس ظرف كے وجود پر متفرغ ہے لہذا پہاڑوں كو زمين ميں قرار دينا خود زمين كے وجود سے پہاڑوں كى پيدائش كے متأخر ہونے كو بيان كر رہا ہے_

۳ _ دروّں ، اور وسيع و عريض راستوں كى خلقت اس لئے ہوئي تا كہ انسان راہ پا اسكے _و جعلنا فيها فجاجاً سبلًا لعلهم يهتدون ''فجّ'' كا معنى ہے دو پہاڑوں كے درميان وسيع راستہ كہ جو دروں ور پہاڑى راستوں كو شامل ہے اور''سبل'' كا معنى ہے ''راستے''_

۴ _ انسان كى زندگى كيلئے قدرتى راستوں اور پہاڑوں كا حيات بخش كردار اور اہميت _

و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم سبلاً لعلهم يهتدون

۵ _ پہاڑوں ، راستوں اور دروّں كى خلقت كى طرف توجہ، توحيد تك پہنچنے كا ايك راستہ ہے_و جعلنا فى الا رض رواسي لعلهم يهتدون آيت ميں ''يہتدون'' كا متعلق مذكور نہيں ہے ليكن اس بات كے قرينے سے كہ ان آيات كريمہ كے مخاطب مشركين اور يہ آيات توحيد كو ثابت كرنے كے درپے ہيں مذكورہ مطلب كا استفادہ ہونا ہے_

۶ _ خداتعالى كے افعال حكمت آميز ہيں _و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم سبلًا لعلهم يهتدون

خداتعالى كے اس فرمان كے پيش نظر كہ ہم نے پہاڑوں كو زمين كو لرزش اور اضطراب سے بچانے كيلئے اور راستوں كو انسان كے راہ پانے كيلئے خلق كيا معلوم ہوتا ہے كہ خداتعالى كے كام با ہدف اور حكمت آميز ہوتے ہيں _

توحيد:اس كا پيش خيمہ ۵

خداتعالى :اسكے افعال ميں حكمت ۶

درےّ:ان كے فوائد ۳

ذكر:دروّں كى خلقت كے ذكر كے اثرات ۵; راستوں كى خلقت كے ذكر كے اثرات ۵; پہاڑوں كى خلقت كے ذكر كے اثرات ۵

راستے:ان كى اہميت ۴; ان كے فوائد ۴; ان كا كردار ۴

راستہ پانا:

۳۳۶

اسكى نشانياں ۳

زمين:اسكى تاريخ ۲; اسكے لرزنے كے موانع ۱

پہاڑ:انكى اہميت ۴; انكى خلقت كى تاريخ ۲; ان كے فوائد ۱; انكا كردار ۴

آیت ۳۲

( وَجَعَلْنَا السَّمَاء سَقْفاً مَّحْفُوظاً وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ )

اور ہم نے آسمان كو ايك محفوظ چھت كى طرح بنايا ہے اور يہ لوگ اس كى نشانيوں سے برابر اعراض كر رہے ہيں (۳۲)

۱ _ خداتعالى نے آسمان كو ايسى چھت بنايا ہے جو گرنے سے محفوظ ہے_و جعلنا السماء سقفاً محفوظ

۲ _ خداتعالى نے فضا اور آسمان كے موجودات كو اہل زمين پر گرنے سے محفوظ ركھا ہے_و جعلنا السماء سقفاً محفوظ

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آسمان سے مراد فضا ہو كہ جو زمين كى نسبت چھت كى مانند ہے اور اس كا محفوظ ہونا يا تو آسمانى اور فضائي موجودات كے لحاظ سے ہے اور يا نظام شمسى كے سياروں كى قاتل شعاعوں كے فضا سے زمين كى طرف نفوذ كرنے كے لحاظ سے ہے_

۳ _ آسمان كى خلقت اور اہل زمين كيلئے اسكے كردار كى طرف توجہ توحيد تك پہنچنے كا ايك راستہ ہے_

أن السموات و الأرض و جعلنا السماء سقفاً محفوظ

۴ _ آسمان ميں خداشناسى اور توحيد تك پہنچے كيلئے مختلف آيات پائي جاتى ہيں _و هم عن أى تها معرضون

۵ _ كفار، خداتعالى كى آسمانى آيات سے ا عراض كرنے والے اور روگردان ہيں _و هم عن أى تها معرضون

آسمان:اسكى حقيقت ۱; اس كا گرنا ۱

آيات الہي:

۳۳۷

آفاقى آيات۴; آفاقى آيات سے اعراض كرنے والے۵; ان سے اعراض كرنے والے ۵

اجرام فلكي:ان كا گرنا۲; انكى حفاظت ۲

توحيد:اسكے دلائل ۴; اس كا پيش خيمہ ۳

خداتعالى :اسكے افعال۱

ذكر:خلقت آسمان كے ذكر كے اثرات ۳; آسمان كے فوائد كے ذكر كے اثرات۳

فضا:اسكے موجودات كا گرنا۲; اسكے موجودات كى حفاظت ۲

كفار:يہ اور آفاقى آيات ۵

آیت ۳۳

( وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ )

وہ وہى خدا ہے جس نے رات دن اور آفتاب و ماہتاب سب كو پيدا كيا ہے اور سب اپنے اپنے فلك ميں تير رہے ہيں (۳۳)

۱ _ صرف خداتعالى شب و روز اور سورج و چاند كا خالق ہے_و هوالذى خلق الّيل و النهار و الشمس و القمر

۲ _ سورج اور چاند ميں سے ہر ايك، ايك مخصوص مدار ميں محو حركت ہے_كل فى فلك يسبحون

''فلك'' يعنى ستاروں كا مدار اور ''سبح'' يا ''سباحت'' يعنى تيرنا (لسان العرب) و (قاموس)

۳ _ ہر سيارہ اور ستارہ اپنے مخصوص مدار ميں محو حركت ہے_أن السموات و الأرض الشمس و القمر كل فى فلك يسبحون لفظ ''كل'' مضاف اليہ محذوف (جيسے ''ہا'' و غيرہ) كى طرف مضاف ہے اور ضمير كا مرجع آسمانوں اور زمين كا مجموعہ ہے كہ جن كا گذشتہ تين آيات ميں تذكرہ ہوچكا ہے_

۴ _ شب و روز اور سورج و چاند كى خلقت توحيد ربوبى كى

۳۳۸

ايك نشانى ہے_و هوالذى خلق الّيل كل فى فلك يسبحون

۵ _ خداتعالى كى طرف سے كائنات كى خلقت اور اسكى تدبير، توحيدى نظريہ كائنات ميں ايسے دو قانون اور اصل ہيں كہ جو ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوسكتے_و ما خلقنا السماء و جعلنا و هوالذى خلق كل فى فلك يسبحون

آيات كا سياق بتاتا ہے كہ يہ مشركين كے اس نظريئےو رد كرنے كے درپے ہيں كہ خدا كيلئے مقام خالقيت ہے اور ان كے خداؤں كيلئے تدبير كا مقام ہے اور خداتعالى نے گذشتہ آيات ميں مقام تدبير كو اور اس آيت ميں مقام خلقت كو اپنى طرف نسبت دى ہے اور ان دو كى جدائي كو رد فرمايا ہے_

عالم خلقت:اس كا خالق ۵; اس كا مدبر ۵

توحيد:خالقيت ميں توحيد۱، ۵; توحيد ربوبى ۵; توحيد ربوبى كى نشانياں ۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱; اسكى خالقيت ۱; اسكى ربوبيت ۵

چاند:اس كا خالق ۱; اسكى خلقت۴; اسكى گردش۲

سورج:اس كا خالق ۱; اسكى خلقت ۴; اس كى گردش۲

دن:اس كا خالق۱; اسكى خلقت ۴

ستارے:ان كى حركت ۳

سيارے:انكى حركت ۳

رات:اس كا خالق۱; اسكى خلقت ۴

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنا ت ۱،۵

آیت ۳۴

( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ )

اور ہم نے آپ سے پہلے بھى كسى بشر كے لئے ہميشگى نہيں قرار دى ہے تو كيا اگر آپ مرجائيں گے تو يہ لوگ ہميشہ رہنے والے ہيں (۳۴)

۱ _ خداتعالى نے دنيا ميں كسى انسان كيلئے حيات جاويد قرار نہيں دي_

۳۳۹

و ما جعلنا لبشر من قبلك الخلد

۲ _ مشركين كا يہ خيال تھا كہ انبيا(ع) ء كيلئے دنيا ميں حيات جاويد ہونا ضرورى ہے_و ما جعلنا لبشر من قبلك الخلد

۳ _ مشركين، پيغمبراكرم(ص) كى موت سے آپ(ع) كى شريعت كى نابودى كے منتظر تھے _أفإين متّ فهم الخلدون

آيت كے لحن سے معلوم ہوتا ہے كہ پيغمبر اسلام(ص) كے مخالفين اور مشركين آپ(ص) كى موت كے منتظر تھے يا آپ(ص) كو قتل كرنے كے درپے تھے جيسا كہ بعض مكى سوروں ميں اسكى تصريح كى گئي ہے_ (ا م يقولون شاعر نتربص بہ ريب المنون)

۴ _ مشركين پيغمبر اسلام(ص) كى دعوت كا مقابلہ كرنے سے ناتوان تھے_و ما جعلنا أفإن متّ فهم الخالدون

چونكہ مشركين پيغمبراكرم(ص) كى موت اور آپ(ص) كى شريعت كى نابودى كے درپے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ آپ- كى دعوت كے مقابلے ميں عاجز تھے_

۵ _ پيغمبر كى وفات سے پہلے اسلام كى كاميابى اور كفر و شرك كے سرغنوں كى موت كے بارے ميں قرآن كى پيشين گوئي_

أفإن متّ فهم الخالدون

''أفإن'' ميں ہمراہ استفہام انكارى كيلئے اور نفى كے معنى پر مشتمل ہے لہذا آيت كريمہ كا اصلي پيغام يوں ہوگا_ اس طرح نہيں ہے كہ وہ (پيغمبر اكرم(ص) ) فوت ہوجائيں اور تم زندہ رہو اور لمبى مدت تك جيتے رہو بلكہ حقيقت اسكے برعكس ہے وہ رہے گااور تم اے كفر كے سرغنوں ان سے پہلے مرجاؤگے_

آنحضرت(ص) :آپ (ص) كى موت كا انتظار۳; آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ ۴

اسلام:اسكى نابودى كا انتظار ۳; اسكى كاميابى ۵

انبياء(ع) :انكا زندہ وجاويد ہونا ۲

سوچ:غلط سوچ ۲

رہبر:رہبران شرك كى موت ۵; رہبران كفر كى موت ۵

زندگي:دنياوى زندگى كى ناپائيدارى ۱

قرآن كريم:اسكى پيشين گوئي ۵

مشركين:انكى توقعات ۳; انكى سوچ۲; ان كا عاجز ہونا ۴

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750