تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219056 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

سے كسى نے بھى حقيقت كا اظہار نہيں كيا _

۶ _ روز قيامت ميں لوگوں كى درك اور فہم مختلف ہوگى _عشراً إذ يقول ا مثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما

ان لوگوں كا موجود ہونا كہ جو نسبتاً صحيح سوچتے ہيں اور دوسروں كى نسبت واقعيت سے قريب تر فيصلہ كرتے ہيں اس تفاوت كو بيان كررہا ہے كہ جو قيامت كے دن لوگوں كے درميان اس لحاظ سے ہوگا_

۷ _ انسانوں كى مہارتيں اور فرق،قيامت كے دن بھى ظہور كريں گے _إذ يقول أمثلهم طريقةً

''أمثلہم طريقةً'' اس شخص كى حالت كو بيان كررہا ہے كہ جس نے ايك دن والا نظريہ پيش كيا اور اس شخص كيلئے آخرت ميں اس حالت كا پيدا ہونا بعيد نظر آتا ہے پس يہ كہنا ضرورى ہے كہ يہ خصوصيت ان مہارتوں كا ظہور ہے كہ جو دنيا ميں انسان كو حاصل ہوئي ہيں _

۸ _ نظريات كا واقعيت سے فاصلہ ان كى قدر و قيمت لگانے اور جاننے كا معيار ہے _إذ يقول أمثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما

۹ _ قيامت كى سختيوں اور عظمت كے مقابلے ميں برزخ كا زمانہ بہت ہى كم اور معمولى ہے _إذ يقول أمثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما

موت سے قيامت تك كى مدت كا كم ظاہر ہونا ظاہراً قيامت اور برزخ كے درميان ايك قسم كے موازنے كا نتيجہ ہے اور اس فيصلے كا سرچشمہ ممكن ہے قيامت كى سختيوں كا مشاہدہ اور اسكے خلود اور دائمى ہونے كو مد نظر ركھنا ہو''إن لبثتم إلا يوماً'' كہنے والے كو حق كے نزديك تر كہنا گويا قرآن كى طرف سے برزخ كے زمانے كے كم ہونے كى تاكيد ہے كيونكہ اس نے ايك روز اور دس روز ميں سے پہلے كو حقيقت سے نزديك تر قرار ديا ہے_

قدر و قيمت لگانا:اس كا معيار ۸

انسان:ان كا اخروى تفاوت ۶، ۷; انكى اخروى فہم ۶

سوچ:اسكى قدر و قيمت كا معيار ۸/خداتعالى :اس كا علم ۳، اس كا علم غيب ۱، ۲

عالم برزخ :اسكى مدت كى كمي۹; اسكى مدت ۳، ۴، ۵

قيامت:اس كے ہول۹; اس ميں حقائق كا ظہور ۷; اسكى خصوصيات ۷

گناہ گار لوگ:انكى اخروى گفتگو ۱

۲۰۱

آیت ۱۰۵

( وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفاً )

اور يہ لوگ آپ سے پہاڑوں كے بارے ميں پوچھتے ہيں كہ قيامت ميں ان كا كيا ہوگا تو كہہ ديجئے كہ ميرا پروردگار انھيں ريزہ ريزہ كر كے اڑادے گا (۱۰۵)

۱ _ قيامت كے دن،دنيا كا نظام اور اس كا جغرافيہ گہرے تغير و تبدل سے دوچار ہوجائيگا _و يسئلونك عن الجبال فقل ينسفها ربي لوگوں كا پيغمبر اكرم(ص) سے قيامت كے دن پہاڑوں كے انجام كے بارے ميں سؤال اس بات كا گواہ ہے كہ موجودہ جہان كا درہم بر ہم ہوجانا ارتكاز كى صورت ميں يا ديگر آيات سے استفادہ كرنے كى وجہ سے لوگوں كے اذہان ميں ايك مسلم چيز تھى ليكن پہاڑوں كى عظمت نے ان كيلئے يہ سؤال پيدا كيا كہ ان كا انجام كيا ہوگا_

۲ _ پہاڑوں كى عظمت اور ان كے محكم و مضبوط ہونے كى وجہ سے كائنات كے انجام كى تحليل كرنے والے ان كے ٹكڑے ٹكڑے ہوكر بكھر جانے كو بعيد سمجھتے ہيں _و يسئلونك عن الجبال فقل ينسفها ربي

۳ _ صدر اسلام كے كچھ لوگ، پيغمبراكرم(ص) سے قيامت كے وقت پہاڑوں كے انجام كے بارے ميں وضاحت طلب كرتے تھے _و يسئلونك عن الجبال

۴ _ قيامت كے وقت زمين كے سب پہاڑ جڑ سے اكھڑ كر اور ٹكڑے ٹكڑے ہوكر بكھر جائيں گے_و يسئلونك عن الجبال فقل ينسفها ربى نسفا ''نسف'' كا معنى ہے جڑ سے اكھاڑنا اور ٹكڑے ٹكڑے ہو كر بكھر جانا (مصباح)

۵ _ قيامت كے وقت پہاڑوں كا ٹكڑے ٹكڑے ہوكر منتشر ہوجانا،خداتعالى كى ربوبيت كا جلوہ اور اسكے حكم سے ہوگا _

فقل ينسفها ربى نسفا

۶ _ لوگوں كا پيغمبر اكرم(ص) سے سوال بعض آيات كے نزول اور ان كيلئے مطالب كے بيان كا سبب بنتا تھا _

و يسئلونك عن الجبال فقل

۷ _پيغمبر اكرم(ص) لوگوں تك معارف الہى كے پہنچانے كا ذريعہ تھے_

۲۰۲

و يسئلونك ...فقل ينسفها ربي

۸ _اللّہ تعالى نے پيغمبر(ص) اكرم كو لوگوں كے سوالوں كا جواب دينے كا طريقہ سكھايا _و يسئلونك فقل ينسفها ربي

۹ _ قيامت اور اس سے پہلے رونما ہونے والے واقعات كے بارے ميں پيغمبر(ص) اكرم كى آگاہي،وحى كى مرہون منت اور علم الہى كے سرچشمہ سے منسلك تھى _و يسئلونك فقل

۱۰ _ صدر اسلام كے مسلمانوں ميں تحقيق اور تفحص كے جذبے كا وجود _و يسئلونك

۱۱ _ معارف الہى اور حقائق دينى كو آہستہ آہستہ بيان كيا گيا _و يسئلونك فقل

خلقت:اس كا انجام ۲

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

خداتعالى :اسكے اوامر ۵; اسكى تعليمات ۸; اسكى ربوبيت كي

نشانياں ۵; اسكے علم كا كردار ۹

دين:اس كا تدريجى نزول ۱۱

قرآن مجيد:اسكى آيات كے نزول كا پيش خيمہ ۶

قيامت:اسكے وقت زمين۱; اسكے وقت پہاڑ ۳، ۴، ۵; اسكى نشانياں ۱، ۴

پہاڑ:ان كے محكم ہونے كے اثرات ۲; انكى عظمت كے اثرات ۲; انكے انہدام كا بعيد ہونا۲; انكا منہدم ہونا ۴، ۵; انكے انجام كے بارے ميں سوال ۳; انكا انجام ۲

آنحضرت(ص) :آپ سے سوال ۳، ۶; آپكى تبليغ ۷; آپكا معلم ۸; آپكے علم كے سرچشمہ ۹; آپ كا نقش و كردار ۷

لوگ:صد راسلام كے لوگوں كى پرستش كے اثرات ۶; صدر اسلام كے لوگوں كى پرستش ۳

مسلمان:صدر اسلام كے مسلمانوں كا سوال پوچھنا ۱۰; صدر اسلام كے مسلمانوں كى صفات ۱۰

وحي:اس كا كردار ۹

۲۰۳

آیت ۱۰۶

( فَيَذَرُهَا قَاعاً صَفْصَفاً )

پھر زمين كو چٹيل ميدان بنادے گا (۱۰۶)

۱ _ قيامت والے دن پہاڑ ہموار زمين ميں تبديل ہوجائيں گے_عن الجبال فيذ رها قاعاً صفصفا

''قاع'' كا معنى ايسى ہموار اور صاف زمين ہے كہ جس ميں درخت نہ اگيں اور ''صفصف'' كا معنى ايسى ہموار زمين ہے كہ جس ميں كسى قسم كے نباتات كے اگنے، امكان نہ ہو (لسان العرب)

۲ _ قيامت كے وقت زمين كا جغرافيہ بڑے تغير و تبدل سے دوچار ہوجائيگا _الجبال ينسفها قاعاً صفصفا

۳ _ قيامت كے وقوع پذير ہونے كے وقت سطح زمين ہر قسم كے نباتات سے خالى ہوجائي_فيذرها قاعاً صفصفا

۴ _ قيامت كے وقت،پہاڑوں كو ہموار اور مسطح زمين ميں تبديل كرنا خداتعالى كا كام اور اس كے حكم سے ہوگ

ينسفها ربي فيذ رها قاعا

پہاڑ:ان كو ہموار كرنا ۱

خداتعالي:اسكے افعال ۴; اسكے اوامر ۴

زمين:اسے ہموار كرنے كا سرچشمہ ۴

قيامت:اسكے وقت زمين ۲، ۳، ۴; اسكے وقت پہاڑ ۱; اسكى نشانياں ۱، ۲، ۳

۲۰۴

آیت ۱۰۷

( لَا تَرَى فِيهَا عِوَجاً وَلَا أَمْتاً )

جس ميں تم كسى طرح كى كجى يا ناہموارى نہ ديكھو گے(۱۰۷)

۱ _ قيامت كے دن، سطح زمين كے اوپر معمولى سا نشيب و فراز بھى نظر نہيں آئيگا_لا ترى فيها عوجاً ولا ا مت

''عوج'' اعتدال كى ضد ہے (مصباح) اور ''امت'' كا معنى ہے بلند جگہ اور نشيب و فراز كو بھى كہا جاتا ہے (قاموس) ''لاترى ...'' كا معنى يہ ہے كہ قيامت كے وقت زمين ميں كسى قسم كى ناہموارى اور كجى نظر نہيں آئيگى _

۲ _ زمين،قيامت كے وقوع پذير ہونے اور انسانوں كے محشور ہونے كى جگہ _فيذرها قاعاً صفصفاً لا ترى فيها عوجاً و لا ا مت زمين كا ہموار ہونا ممكن ہے لوگوں كو اٹھنے كيلئے آمادہ كرنے كيلئے ہو بنابراين قيامت اور اس كا خوفناك منظر اسى زمين پر وقوع پذير ہوگا _

حشر:اسكى جگہ ۲

زمين:اسے ہموار كرنا۱; اس كا كردار ۲

قيامت :اس ميں زمين ۱; اسكى جگہ ۲; اسكى خصوصيات ۱

آیت ۱۰۸

( يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ وَخَشَعَت الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً )

اس دن سب داعى پروردگار كے پيچھے دوڑ پڑيں گے اور كسى طرح كى كجى نہ ہوگى اور سارى آوازيں رحمان كے سامنے دب جائيں گى كہ تم گھنگھنا ہٹ كے علاوہ كچھ نہ سنوگے (۱۰۸)

۱ _ روز قيامت پہاڑوں كے ٹكڑے ٹكڑے ہوكر بكھرنے كے وقت ايك دعوت دينے والا انسانوں كو قبروں سے باہر آنے كى دعوت ديگا _يومئذ يتبعون الداعى لا عوج له

ظاہراً داعى ،كہ تمام لوگ جسكى اتباع كريں گے اور اسكى ندا پر لبيك كہيں گے سے مراد وہ ہے كہ جو انسانوں كو قبروں سے محشور ہونے كى دعوت ديگا_

۲ _ روز قيامت سب لوگ بغير كسى مخالفت كے اور مكمل نظم كے ساتھ داعى كى ندا كا جواب ديں گے اور اسكى پيروى كريں گے _يومئذ يتبعون الداعى لا عوج له

۲۰۵

ممكن ہے ''لہ'' كى ضمير كامرجع اتباع ہو (جو ''يتبعون'' سے مستفاد ہے) اس صورت ميں ''لاعوج لہ'' كا معنى يہ ہوگا كہ روز قيامت كے داعى كى پيروى ميں كسى قسم كى مخالفت اور انحراف نہيں ہوگا _

۳ _ قيامت ميں انسانوں كو حاضر كرنے كا حكم سب كيلئے اور ہر قسم كى بد نظمى اور كجى سے دور ہوگا _يومئذ يتبعون الداعى لاعوج له ممكن ہے ''لہ'' كى ضمير داعى كى طرف پلٹ رہى ہو اور دعوت ميں ''عوج'' اور كجى كے نہ ہونے سے حاكى ہو _

۴ _ روزقيامت ميں خداتعالى كى حاكميت مطلق كا ظہور_يومئذ يتبعون الداعي

۵ _ ميدان قيامت ميں حاضر لوگ اپنى گفتگو آہستہ آواز كے ساتھ زبان پر لائيں گے _يومئذ خشعت الا صوات للرحمن ''خشوع صوت'' كا معنى آواز كو نيچے لاناہے (تاج العروس)

۶ _ واقعہ قيامت كى عظمت اور اس دن رحمت خدا پر نظريں لگانا آوازوں كو سينوں ميں روك ديگا _يومئذ و خشعت الاصوات للرحمن روز قيامت آواز كو نيچے ركھنے كا سرچشمہ خشوع قلب ہے كہ جو انسان كے اس دن كے مناظر كے مشاہدہ كا نتيجہ ہے _

۷ _ قيامت،خداتعالى كى رحمانيت كے ظہور كا دن _و خشعت الا صوات للرحمن ''رحمن'' يعنى وسيع اور سب كے شامل حال رحمت كا مالك _

۸ _ خدا كى رحمانيت قيامت كے دہشت ناك اور خوفناك منظر ميں سب لوگوں كى اميد اور پناہ گاہ _و خشعت الا صوات للرحمن

۹ _ قيامت كے دن مخفى اور زير لب آواز يا قدموں كى آہستہ آہٹ كے علاوہ انسانوں كى كسى قسم كى آواز سنائي نہيں دے گى _و خشعت الا صوات للرحمن فلا تسمع إلاهمس

''ہمس'' يعنى مخفى آواز اور''همس الا قدام'' مخفى ترين قدم اٹھانے كو كہا جاتا ہے (معجم مقاييس اللغة) اس آيت ميں دونوں معنوں كا احتمال ہے_

اميد:خدا كى رحمانيت كى اميد ۸

انسان:اسكى ا خروى اميد ۸; يہ قيامت ميں ۵; اس ك

۲۰۶

آخرت ميں محشور ہونا ۳; اس كا محشور ہونا ۱، ۲

محشور ہونا:اس كا سب كو شامل ہونا ۳

خداتعالى :اسكى رحمت كى توقع ۶; اسكى اخروى حاكميت ۴; اسكى اخروى رحمانيت ۷، ۸

زمين:اسے ہموار كرنا ۱

قيامت:اس ميں آہستہ بولنا۵، ۹; اسكے منادى كو جواب دينا ۲; اسكى ہولناكياں ۹; اس ميں زمين۱; اس ميں حقائق كا ظہور ۴، ۷; اسكى عظمت ۶; اس ميں آہستہ بولنے كے عوامل ۶; اس كا منادى ۱; اسكى خصوصيات ۶، ۷، ۹

پہاڑ:پہاڑوں كا انہدام ۱

آیت ۱۰۹

( يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً )

اس دن كسى كى سفارش كام نہ آئے گى سوائے ان كے جنھيں خدا نے اجازت ديدى ہو اور وہ ان كى بات سے راضى ہو (۱۰۹)

۱ _ روز قيامت،شفاعت كارساز ہوگى _يومئذ لا تنفع الشفعة إلا

شفاعت كے سودمند نہ ہونے كى بات سوائے ان لوگوں كيلئے كہ جن كو اذن ہوگا اصل شفاعت كے مسلم ہونے كو بيان كررہا ہے _

۲ _ شفاعت ايك با ضابطہ اور محدود و معين چيز ہے _يومئذ لا تنفع الشفاعة إلا من أذن

۳ _ شفاعت كا سودمند ہونا ان لوگوں كيلئے ہے كہ جنہيں خداتعالى نے شفاعت كے لائق ہونے كى اجازت دى ہے _لا تنفع الشفعة الا من أذن له الرحمن ممكن ہے ''من أذن لہ الرحمن'' ميں ''مَن'' ''لاتنفع'' كا مفعول ہو اس صورت ميں جملے كا معنى يہ ہوگا كہ قيامت كے دن شفاعت كسى كو فائدہ نہيں پہنچائے گى مگر جنہيں اذن ہوگا _

۲۰۷

۴ _ قيامت كے دن شفاعت كرنے والوں كى شفاعت ان لوگوں كيلئے قبول كى جائيگى كہ جنكى گفتگو سے خداتعالى راضى ہوگا _لا تنفع الشفعة إلا و رضى له قول

۵ _ خداتعالى روز قيامت كا مطلق اور بے چون و چرا حاكم ہوگا _إلا من أذن له الرحمن

۶ _ شفاعت، قيامت كے دن خداتعالى كى مطلق حاكميت كے ساتھ تضاد نہيں ركھتى _يومئذ لا تنفع الشفعة إلا من أذن له الرحمن

۷ _ قيامت كے دن،شفاعت كے وجود اور محدود دائرے ميں اس كے مؤثر ہونے كا سرچشمہ خداتعالى كى رحمانيت ہے _

لا تنفع الشفاعة إلا من أذن له الرحمن

۸ _ قيامت كے دن صرف وہ لوگ شفاعت كريں گے جنہيں خدا كى طرف سے اذن ہوگا _لا تنفع الشفاعة إلا من أذن له الرحمن ممكن ہے جملہ ''لا تنفع ...'' شفاعت كرنے والوں كى طرف ناظر ہو اس احتمال كى بناپر آيت كى تركيب كے سلسلے ميں متعدد وجوہ ذكر كى گئي ہيں ان ميں ايك يہ ہے كہ ''الشفاعہ'' شافع كى طرف اشارہ ہے اور آيت كا حقيقى مفاد يہ ہے كہ ''لا ينفع شافع إلّا ...''

۹ _ قيامت كے دن ان لوگوں كو شفاعت كرنے كى اجازت ہوگى كہ جنكى گفتگو سے خداتعالى راضى ہوگا_لا تنفع الشفاعة إلا من رضى له قول ''ا ذن'' قرينہ ہے كہ جملہ '' رضى لہ قولاً'' قيامت سے مربوط ہے اور اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ شفاعت كرنے والے اس صورت ميں شفاعت كر سكتے ہيں كہ نادرست بات زبان پر نہ لائيں اور شفاعت كے وقت جو كچھ زبان پر لائيں وہ حق اور خداكو پسند ہو_ يہ بھى بعيد نہيں ہے كہ يہ جملہ شفاعت كرنے والوں كى دنياوى گفتگو كى طرف نظر ركھتا ہو _

۱۰ _ خداتعالى كا راضى ہونا قيامت كے دن انسانوں كى گفتگو كے ثمربخش ہونے كى شرط ہے _و رضى له قول

۱۱ _ انسان كيلئے ضرورى ہے كہ اپنى گفتگو كى دقيق نگرانى كرے اور ايسى گفتگو سے پرہيز كرے جو خداتعالى كى ناراضگى كا موجب ہو _و رضى له قول

۱۲ _ گفتگو كا انسان كى تقدير اور خداتعالى كى خوشنودى اورناراضگى كے حاصل كرنے ميں بڑا كردار ہے _لا تنفع الشفاعة و رضى له قول انسان:اسكى تقدير ميں موثر عوامل ۱۲

خداتعالى :اسكى رحمانيت كے اثرات ۷; اسكى خوشنودى كے اثرات

۲۰۸

۹ ، ۱۰; اسكے غضب سے اجتناب كرنا ۱۱; اس كا اذن ۳، ۸; اسكى اخروى حاكميت ۵; اسكى خوشنودى كا پيش خيمہ ۱۱; اسكے غضب كا پيش خيمہ ۱۲

خداتعالى كى خوشنودي:يہ جنكے شامل حال ہے انكى شفاعت ۴

گفتگو:اسكے اثرات ۱۲; اس كى نگرانى كے اہميت ۱۱

شفاعت:اسكے اثرات ۱; اس كا قطعى ہونا ۱;اسكے شرائط ۳، ۴، ۸; يہ اور خدا كى حاكميت ۶; اس كا تحت قانون ہونا ۲; اس كا دائرہ كار ۲; يہ جنكے شامل حال ہے ۳; اس كا سرچشمہ ۷

شفاعت كرنے والے :ان سے راضى ہونا ۹; انكى شرائط ۹

قيامت:اس كا حاكم۵; اس ميں گفتگو كى تاثير كے شرائط ۱۰; اس ميں شفاعت ۱، ۲، ۷

آیت ۱۱۰

( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً )

وہ سب كے سامنے اور پيچھے كے حالات سے باخبر ہے اور كسى كا علم اس كى ذات كو محيط نہيں ہے (۱۱۰)

۱ _ خداتعالى سب انسانوں كے ماضى و حال سے مكمل اور دقيق آگاہى ركھتا ہے _يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''ما بين ا يديہم'' كى تعبير اس چيز پر بولى جاتى ہے كہ جس كا زيادہ وقت نہ گزرا ہو اور (آيت جيسے) موارد ميں ''ما بين ا يديہم و ما خلفہم''سے مراد سب زمانوں ميں انسان كے سب حالات ہيں قابل ذكر ہے كہ جو چيز افراد كے سامنے ہو اسے بھى ''ما بين ا يديہم'' كہتے ہيں _

۲ _ خداتعالى مخفى اور آشكار كا مطلق جاننے والا ہےيعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''آگے اور پيچھے'' ممكن ہے ظاہر اور مخفى سے كنايہ ہو كيونكہ عام طور پر جو چيز انسان كى آنكھوں كے سامنے نہ ہو وہ اس سے مخفى ہوتى ہے_

۳ _ خداتعالى قيامت كے دن شفاعت كرنے والوں كے (ماضي، استقبال اور ظاہراور مخفي) حالات سے مكمل آگاہ ہے _

لا تنفع الشفاعة إلا

۲۰۹

من أذن له يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''ا يديہم'' اور ''خلفہم'' كى ضمير كا مرجع سابقہ آيت ميں مذكور ''من'' ہے كہ جو جمع كے معنى ميں ہے اور لفظ كے اعتبار سے ضمير مفرد اور معنى كے اعتبار سے جمع كى ضمير كا مرجع بن سكتا ہے_

۴ _ بندوں كے اعمال اور حالات سے خداتعالى كى وسيع آگاہي، قيامت كے دن شفاعت والے قانون اور اسكى اجازت كے صادر ہونے يا نہ ہونے كا سرچشمہ ہے _لاتنفع الشفاعة إلا من أذن يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

۵ _ مكمل اور دقيق آگاہي، قانون بنانے اور اسے اجراء كرنے والوں كى لازمى شرط ہے_

لاتنفع الشفاعة إلا من أذن له يعلم ما بين ائيديهم و ما خلفهم

۶ _ كوئي بھى شخص،خداتعالى كے علم او رمعلومات پر محيط ہونے كى طاقت نہيں ركھتا _يعلم ما ولا يحيطون به علم

صدر آيت كے قرينے سے خداتعالى كے علمى احاطے سے مراد اسكے معلومات اور اسكے كاموں ميں مخفى اسرار كا احاطہ ہے _

۷ _ انسان، خداتعالى كے كاموں كے سب اسرار اور معياروں سے مطلع ہونے كى طاقت نہيں ركھتا _ولا يحيطون به علم

۸ _ روز قيامت ميں دھوكہ بازى اور شفاعت سے سوء استفادہ كا كوئي راستہ نہيں ہے _

لاتنفع الشفاعة إلا من أذن له يعلم و لا يحيطون به علم

انسان:اس كا عاجز ہونا ۶،۷

خداتعالى :اسكے علم غيب كے اثرات ۴; اسكى خصوصيات ۶; اسكے افعال كار از ۷; اس كا علم غيب ۱، ۲،۳; اسكے اذن كے عوامل ۴; اسكے علم كى وسعت ۱، ۶

شفاعت :اس كا تحت ضابطہ ہونا ۴

شفاعت كرنے والے:يہ قيامت ميں ۲

قانون:اسے اجرا كرنے والوں كے شرائط ۵

قانون بنانے والے:انكے شرائط ۵; انكا علم ۵

قيامت:اس ميں شفاعت ۴، ۸; اس ميں مكر ۸; اسكى خصوصيات ۸

۲۱۰

آیت ۱۱۱

( وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْماً )

اس دن سارے چہرے خدائے حى و قيوم كے سامنے جھكے ہوں گے اور ظلم كا بوجھ اٹھانے والا ناكام اور رسوا ہوگا (۱۱۱)

۱ _ قيامت كے دن خداتعالى كے مقابلے ميں خضوع و خشوع كى علامات سب انسانوں كے چہروں پر منقوش ہوں گى _

و عنت الوجوه للحى القيوم ''عنا'' كا معنى ہے خاضع اور مطيع ہونا (لسان العرب) اور ''وجہ'' كا معنى ہے چہرہ اور چونكہ خضوع و ذلت كے آثار سب سے زيادہ چہرے پر ظاہر ہوتے ہيں اس لئے يہ كلمہ استعمال ہوا ہے ''الوجوہ'' كے ''ال'' كے بارے ميں احتمال ہے كہ يہ استغراق كيلئے ہو يا مضاف اليہ كے عوض ہو اور اس سے مراد ''وجوہ مجرمين'' ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۲ _ مجرمين اور متكبرين روز قيامت ذلت آميز اور خاضع چہروں كے ساتھ خداتعالى كے سامنے حاضر ہوں گے_

و عنت الوجوه للحى القيوم ''عنائ'' كے معانى ميں سے ہے ذليل ہونا (مصباح) اور ''الوجوہ'' ميں ''ال'' مضاف اليہ كى جگہ پر ہے يعنى ''وجوہہم'' اور اس سے مراد ان مجرمين كے چہرے ہيں كہ جنكے بارے ميں گذشتہ آيات ميں بات ہوچكى ہے_ فعل ''عنت'' بتاتا ہے كہ ان كا خضوع تازہ ہے اور اس سے پہلے دنيا ميں خداتعالى كے مقابلے ميں خضوع نہيں كرتے تھے_

۳ _ خداتعالى حى و قيوم (زندہ اور ہستى كو قائم ركھنے والا) ہےو عنت الوجوه للحى القيوم

''قيوم'' اسے كہا جاتا ہے كہ جو خودبخود قائم ہو اور سب چيزوں كا محافظ اور ہر چيز كو اس كا ذريعہ قوام عطا كرنے والا ہو (مفردات راغب)

۲۱۱

۴ _ خداتعالى جہان ہستى كا چلانے والا اور اسكى تدبير كرنے والا ہے اور جہان ہستى كا قوام اور دوام اسكے ذريعے سے ہے _للحى القيوم

بعض اہل لغت كے قول مطابق ''قيوم'' وہ ذات ہے كہ جو مخلوق كے امور كو قائم كرے اور اس نے تمام حالات ميں كائنات كى تدبير اپنى ذمے لے ركھى ہو (لسان العرب) _

۵ _ خداتعالى كى اپنے غير سے مطلق بى نيازى _القيوم

''قيوم'' اسے كہا جاتا ہے كہ جو قائم بالذات ہو اور اپنے وجود ميں غير كا محتاج نہ ہو _(لسان العرب)

۶ _ قيامت كے دن خداتعالى كے دائمى ہونے اور عالم ہستى پر اسكى قيوميت كا ظہور اسكے مقابلے ميں لوگوں كے گہرے خضوع اور ذلت كا سبب ہوگا _و عنت الوجوه للحى القيوم

۷ _ دنيا ميں ہر قسم كا ظلم و ستم قيامت كے دن ظالموں كے كندھوں پر بھارى بوجھ ہوگا _من حمل ظلم

۸ _ ظلم، قيامت كے دن انسان كے نقصان اور محروميت كا سبب ہوگا _و قد خاب من حمل ظلم

''خيبة'' يعنى مطلوب كو ہاتھ سے دے بيٹھنا (مفردات راغب)

۹ _ قرآن سے روگردانى ظلم ہے _و قد خاب من حمل ظلم

گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ ظلم سے مراد قرآن مجيد سے منہ موڑنا ہے كہ جسے ''وزر'' كہا گيا تھا_

۱۰ _ اپنے اور دوسروں كے حق ميں ہر قسم كے ظلم و ستم سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_و قد خاب من حمل ظلم

۱۱ _ ستم كرنے والے (قيامت كے دن) شفاعت كرنے اور شفاعت كے لائق ہونے كے اذن سے محروم ہوں گے_

يومئذ لاتنفع الشفاعة و قدخاب من حمل ظلم

۱۲ _ قيامت كے دن صرف وہ مجرمين ناكام اور محروم ہوں گے كہ جنكے پاس كچھ ايمان اور عمل صالح نہيں ہوگا_من حمل ظلم بعد والى آيت ميں جملہ''ومن يعمل من الصالحات ...'' اس بات كا قرينہ ہو سكتا ہے كہ''من حمل ظلماً'' مطلق نہيں ہے بلكہ صرف وہ لوگ مراد ہيں كہ جو نہ مؤمن ہيں اورنہ نيكوكار _

خلقت:اسكى تدبير ۴; اسكى بقا كا سرچشمہ ۴

اسما و صفات:حي۳; صفات جلال۵; قيوم ۳

۲۱۲

انسان:يہ قيامت ميں ۱; اس كا اخروى خضوع ۱، ۶; اسكى اخروى ذلت ۶; اس كا اخروى حليہ ۱

خداتعالى :اسكے دائمى ہونے كا اثرات ۶; اسكى قيوميت كے اثرات ۶; اسكى بے نيازى ۵; اسكى تدبير۴; اسكے مقابلے ميں خضوع ۶; اسكے مقابلے ميں خضوع كى نشانياں ۱

نقصان:اخروى نقصان كے عوامل ۸

شفاعت:اس سے محروم لوگ ۱۱

سركشى كرنے والے:انكا اخروى خضوع۲; انكى اخروى ذلت۲; انكا اخروى حليہ ۲

ظلم:اسكے اثرات ۸_اس سے اجتناب كى اہميت ۱۰ اس كا آخرت ميں بھارى ھونا۷

قرآن كريم:اس سے روگردانى كرنے كا ظلم ۹

قيامت:اس ميں خضوع۶; اس ميں شفاعت ۱۱

كفار:انكى اخروى محروميت ۱۲

گناہ گار لوگ:انكا اخروى خضوع۲; انكى اخروى ذلت۲; انكا اخروى حليہ ۲; انكى اخروى محروميت ۱۲

آیت ۱۱۲

( وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْماً وَلَا هَضْماً )

اور جو نيك اعمال كرے گا اور صاحب ايمان ہوگا وہ نہ ظلم سے ڈرے گا اور نہ نقصان سے (۱۱۲)

۱ _ مؤمنين جو اعمال صالح ركھتے ہيں قيامت كے دن اپنے كام كے ثمرات ميں ہر قسم كى كمى اور تباہى سے محفوظ ہوں گے _و من يعمل من الصلحت و هو مؤمن فلا يخاف ظلماً و لا هضم

''ہضم'' يعنى ناقص كرنا اور كم كرنا (مصباح) پس''لايخاف ظلماً و لا هضماً'' يعنى نہ اس پر كوئي ستم كو روا ركھے گا تا كہ اس كا ناحق مؤاخذہ كرے اور نہ اسكے عمل كى جزا ميں نقصان اور كمى آئيگي_

۲۱۳

۲ _ قيامت كے دن مؤمنين كے امن اور قلبى سكون كا انحصار دنيا ميں ان كے اعمال صالح پر ہے_و من يعمل من الصلحت فلايخاف ظلماً و لا هضم ''من الصلحت'' ميں ''من'' تبعيض كيلئے ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ قيامت كے دن مؤمنين كى نجات كيلئے بعض اعمال صالح كا صدور كافى ہے_

۳ _ بے ايمانى اور اعمال صالح سے دورى ايسے ظلم ہيں كہ جو روز قيامت انسان كے دامنگير ہوں گي_و قدخاب من حمل ظلماً و من يعمل من الصلحت و هو مؤمن اس آيت اور اس سے پہلے والى آيت كے درميان مقابلے سے يہ ظاہر ہے كہ اس آيت كا موضوع ظالموں كے مقابل والا گروہ ہے_

۴ _ خداتعالى بندوں كا مو اخذہ كرنے ميں ہرگز حق سے تجاوز نہيں كرتا_فلايخاف ظلماً و لا هضم

ظلم اور ہضم كے درميان فرق كے سلسلے ميں كئي احتمالات ديئے گئے ہيں ان ميں سے ايك يہ ہے كہ ظلم يعنى حق سے زيادہ كا مطالبہ كرنا اور ہضم يعنى حق سے كم كرنا_

۵ _ قيامت كے دن اعمال كى پاداش عادلانہ اور ہر قسم كے نقص و كمى سے دور ہوگي_و من يعمل فلايخاف ظلماً و لاهضم

۶ _ ايمان، قيامت كے دن اعمال صالح كے ثمربخش ہونے اور انكى مكمل جزا سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_

و من يعمل و هو مؤمن فلايخاف ظلماً و لا هضم

آخرت ميں مؤمن كے عمل كى جزا ميں كمى كى نفى اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ايمان نہ ہونے كى صورت ميں انجام ديا گيا عمل صالح نقص اور كمى سے دوچار ہوجائيگا_

۷ _''عن ا بى جعفر (ع) فى قوله'' لا يخاف ظلماً و لا هضماً'' يقول: لا ينقص من عمله شيء و ا ما ''ظلماً'' يقول: لن يذهب به ; امام محمد باقر(ع) سے خداتعالى كے اس فرمان''لايخاف ظلماً و لاهضماً'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى فرماتا ہے كہ اس كے اعمال سے كمى نہيں كى جائيگى اور (كلمہ) ''ظلما'' (تو خداتعالى اس كلمے كے ساتھ) فرما رہا ہے كہ اسكے اعمال ختم نہيں ہوں گے_(۱)

اسما و صفات:صفات جلال ۴

ايمان:اس سے روگردانى كرنے كے اخروى آثار ۳; اسكے اخروى آثار ۶; اس سے روگردانى كرنے كا ظلم ۳

____________________

۱ ) تفسير قمى ج۲ ص ۶۷_ نورالثقلين ج۳، ص ۳۹۵ج ۱۲۳_

۲۱۴

پاداش:اس ميں عدل۵

خداتعالى :خداتعالى اور ظلم ۴; خداتعالى كا عدل ۴

روايت: ۷

ظلم:اسكے اخروى آثار ۳

عمل:اسكى بقا ۷; اسكى اخروى جزا ۵; اسكى اخروى سزا ۵

عمل صالح:اس سے اعراض كے اخروى اثرات ۳; اسكے اخروى اثرات ۱; اسكى پاداش ۶; اس سے اعراض كا ظلم ۳

قيامت:اس ميں عدل ۵

سزا:اس ميں عدل ۵

مؤمنين:ان كے اخروى سكون كے عوامل ۱; ان كے اخروى امن كے عوامل۱

آیت ۱۱۳

( وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ قُرْآناً عَرَبِيّاً وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْراً )

اور اسى طرح ہم نے قرآن كى عربى زبان ميں نازل كيا ہے اور اس ميں طرح طرح سے عذاب كا تذكرہ كيا ہے كہ شايد يہ لوگ پرہيزگار بن جائيں يا قرآن ان كے اندر كسى طرح كى عبرت پيدا كردے (۱۱۳)

۱ _ قرآن ايسى كتاب ہے جو فصيح اور واضح بيان كے ساتھ خداتعالى كى جانب سے نازل ہوئي ہے_

و كذلك ا نزلناه قرء انا عربي

''عربياً''كا معنى يا تو فصيح اور واضح ہے (مفردات راغب) اور يا يہ اسكے عرب زبانوں كى طرف منسوب ہونے كو بيان كررہا ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب پہلے معنى كى طرف ناظر ہے _

۲ _ حقائق و معارف كو بيان كرنے ميں بيان كا واضح ہونا تبليغ كيلئے لازمى خصوصيات ميں سے ہے_

قرآنا عربياً و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۳ _ قرآن عربى زبان ميں نازل ہوا ہے اور يہ اسكے قواعد و ضوابط كے مطابق ہے _و كذلك ا نزلناه قرء انا عربي

مذكورہ مطلب اس احتمال كى طرف ناظر ہے كہ ''عربياً'' عربوں كى مخصوص زبان كے معنى ميں ہو_

۴ _ قرآن، پيغمبر(ص) اكرم پر نازل شدہ كتاب كا نام ہے_ا نزلنه قرء انا عربي

۲۱۵

۵ _ قرآن مختلف اور گوناگون دھمكيوں اور تہديدات پر مشتمل ہے_و صرفنا فيه من الوعيد

''صرف'' يا ''تصريف'' كا معنى ہے ايك چيز كو ايك حالت سے دوسرى حالت ميں پھيرنا يا اسے تبديل كرنا_ قابل ذكر ہے كہ تصريف ميں زيادہ مبالغہ ہے (مفردات راغب) بنابراين ''صرفنا ...'' سے مقصود يہ ہے كہ ہم نے دھمكيوں كو مختلف صورتوں ميں پيش كيا ہے _

۶ _ بيان كا متنوع ہونا اور اسكى مختلف صورتوں كو پيش كرنا تبليغ و تربيت ميں قرآن كى ايك روش ہے_و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۷ _ انسان ميں روح تقوى كا پيدا ہونا نزول قرآن كے اہداف ميں سے ہے_ا نزلنه لعلهم يتقون

۸ _ قرآن كے واضح بيانات كى مخالفت سے لوگوں كو باز ركھنا قرآن كى دھمكيوں كا فلسفہ _و صرّفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

قرآن سے روگردانى كرنے والوں كو گذشتہ آيات ميں دھمكياں ملنا نيز جملہ ''ا نزلناہ قرآنا عربياً'' اس بات كا قرينہ ہے كہ ''يتقون'' كا متعلق قرآن سے روگردانى كرنا ہے_

۹ _ انسان ميں روح تقوى كا پيدا كرنا دھمكيوں اور تہديدات كے استعمال كا محتاج ہے_و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۱۰ _ انسان كو متنبہ كرنا ا ور اسے ياد دہانى كرانا قرآن كے اہداف اور اس كے واضح بيانات ميں سے ہے_

و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم ا و يحدث لهم ذكرا

''ذكر'' نسيان اور بھولنے كى ضد ہے( مقابيس اللغة) پس ''ذكر'' يعنى فراموش نہ كرنا اور دل ميں محفوظ ركھنا _

۱۱ _ خداتعالى قرآن كے الفاظ اور كلمات كو نظم دينے والا اور متنوع آيات كے قالب ميں انسان كو متنبہ كرنے والا ہے_

ا نزلناه قرء انا عربياً و صرفنا فيه من الوعيد

(نزول كى حالت ميں ) قرآن كے عربى ہونے كا وصف بيان كرنا اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ قرآن كے محتوا كے علاوہ اسكے الفاظ بھى خداتعالى كى طرف سے ہيں _

۱۲ _ قرآن كے معارف لوگوں كيلئے قابل درك ہيں _

۲۱۶

و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۱۳ _ قرآن كى مكرر اور متنوع تنبيہات كو سنجيدہ لينا اور اسكے معارف اور تعليمات كو خاطر ميں ركھنا ضرورى ہے_

ا نزلناه لعلهم يتقون ا و يحدث لهم ذكرا

''لعل'' اميد كے اظہار كيلئے ہے اور خداتعالى كے كلام ميں اس سے مقصود مخاطبين كى اميد ہے يعنى يہ مخاطبين كو فراہم شدہ حالات سے فائدہ اٹھانے كى دعوت ديتا ہے اور بيان كرتا ہے كہ اسكے نتيجے سے اميدوار ہونا چاييے_

۱۴ _ قيامت اور مجرمين كے مستقبل كے حالات كى تشريح تقوا كے پيدا ہونے اور انسان سے غفلت كو دور كرنے كا سبب ہے_و كذلك ا نزلناه لعلهم يتقون ا و يحدث لهم ذكرا

''كذلك'' ميں حرف كاف تشبيہ كيلئے ہے اور يہ گذشتہ آيات كو تقوا اور ياد دہانى پيدا كرنے كيلئے آيات الہى كے نمونے كے طور پر متعارف كر رہاہے _/انسان:اس كا خبردار ہونا ۱۰

تبليغ:اس ميں بيان كا متنوع ہونا ۶; اسكى روش ۶; اسكے شرائط ۲; اس ميں فصاحت ۲

ياد دہانى كرانا:انسان كو ياد دہانى كرانا ۱۰

تقوا:اس كا پيش خيمہ ۷، ۹، ۱۴

خداتعالى :خداتعالى كا نقش اور كردار ۱۱

ذكر:قرآن كى دھمكيوں كا ذكر ۱۳

غفلت:اسے دور كرنے كا پيش خيمہ۱۴

قرآن كريم:اسكى تعليمات ۵; اسكے بيان كا متنوع ہونا ۵، ۱۱; اسكے فہم كا آسان ہونا ۱۲; اس كا عربى ہونا ۳; اسكى فصاحت ۱; اسكے نزول كا فلسفہ ۷، ۱۰; اسكى دھمكيوں كا فلسفہ ۸; اسكى مخالفت سے ممانعت ۸; اسكى تدوين كا سرچشمہ ۱۱; اس كا وحى ہونا ۱; اس كا واضح ہونا ۱، ۱۲; اسكى دھمكياں ۵، ۱۱; اسكى خصوصيات ۱، ۳

قيامت :اسكے واقعات كا بيان كرنا ۱۴

گناہ گار لوگ:نكے انجام كا بيان كرنا ۴

محمد-(ص) :آپ كى آسمانى كتاب ۱۴

دھمكي:اسكے اثرات ۹

۲۱۷

آیت ۱۱۴

( فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْماً )

پس بلند و برتر ہے وہ خدا جو بادشاہ برحق ہے اور آپ وحى كے تمام ہونے سے پہلے قرآن كے بارے ميں عجلت سے كام نہ ليا كريں اور يہ كہتے رہيں كہ پروردگار ميرے علم اضافہ فرما (۱۱۴)

۱ _ خداتعالى ،بلند مرتبہ حقيقت، بے نظير اور كمال كے عروج پر ہے_فتعلى الله

''تعالى '' كا معنى ہے بلند مرتبہ اور اس سے مراد خداتعالى كى صفات كا مخلوقات كى صفات سے برتر ہونا ہے _

۲ _ خداتعالى كائنات كا حقيقى مالك اور اس كا مطلق فرمان روا ہے_فتعلى الله الملك

۳ _ خداتعالى حق محض ہے اور اس ميں كسى قسم كا باطل روا نہيں ہے_فتعلى الله الملك الحق

۳ _ خداتعالى كے افعال اور موجودات كى آفرينش حكيمانہ اور خردمندانہ ہے _الحق

حق اسے كہا جاتا ہے كہ جو كسى چيز كو حكمت كى بنياد پر خلق كرے (مفردات راغب)

۵ _ خداتعالى كى عالم ہستى پر فرمانروائي اور اسكى مالكيت ايسى ثابت حقيقت ہے كہ جس كا فنا ہونا ممكن نہيں ہے _

الملك الحق

''حق'' يعنى واجب و ثابت (مصباح) اور آيت ميں ''الحق'' ممكن ہے ''الملك'' كى صفت ہو نيز ممكن ہے يہ '' الله '' كى دوسرى صفت ہو اور اسكے صفت ''الملك'' كے بعد مذكور ہونے كو مد نظر ركھتے ہوئے مذكورہ نكتہ حاصل ہوتا ہے _

۶ _ حق كى حكومت خداتعالى سے مخصوص ہے_

الملك الحق

۶ _ قرآن كا نزول خداتعالى كى مطلق فرمانروائي اس كى حقانيت اور اسكے بلند مرتبہ ہونے كا ايك جلوہ ہے_

و كذلك انزلنه فتعلى الله الملك الحق ''فتعلي'' ميں ''فائ'' تفريع كيلئے ہے اور اس بات پر دلالت كررہى ہے كہ اسكے بعد كے مطالب تك پہنچنا اسكے ماقبل كى طرف توجہ كا نتيجہ ہے_

۸ _ قيامت كا عظيم واقعہ، كائنات ميں بڑى تبديلياں اور اس كا دقيق اور عادلانہ نظام خداتعالى كے بلند مرتبہ اسكى مطلق فرمانروائي اور ہر قسم كے باطل سے منزہ ہونے كے جلوے ہيں _فتعلى الله الملك الحق

۲۱۸

اس آيت كا سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط كہ جو قيامت كے قريب كے اور روز قيامت كے واقعات كے بارے ميں تھيں _ مذكورہ نكتے كو بيان كررہا ہے_

۹ _ پورے قرآن كا نسبتاًجلدى نزول اور اسكى آيات كے مجموعے كى جلدى تكميل پيغمبر اكرم(ص) كا قلبى تقاضا _و لاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه اس آيت كريمہ كے نزول كى علت كے بارے ميں مختلف آراء ہيں ۱_ پيغمبر(ص) اكرم جبرائيل كى قرائت كے ہمراہ آيات كى قرائت كرتے تا كہ مكمل طور پر اسكے حصول سے مطمئن ہوجائيں _

۲ _ پيغمبر(ص) اكرم آيات كا معنى واضح ہونے سے پہلے اسے اصحاب كو لكھوا ديتے تھے_

۳ _ پيغمبر(ص) اكرم كم وقت ميں پورے قرآن كا نزول چاہتے تھے اور چونكہ ''القرء ان'' كى تعبير پورے قرآن كے مراد ہونے كے ساتھ زيادہ سازگار ہے اسلئے تيسرے احتمال كو ترجيح دے جاسكتى ہے_

۱۰ _ پيغمبر(ص) اكرم وحى كے ختم ہونے سے پہلے قرآن كى آيات كو زبان پر جارى كرتے اور انكى تلاوت ميں عجلت سے كام ليتے _*و لاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه

۱۱ _ پيغمبر(ص) اكرم آيات قرآن كو حفظ كرنے اور انہيں سپرد خاطر كرنے كيلئے بہت اشتياق ركھتے تھے _

و لاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه كہا جاچكا ہے كہ جبرائيل كى قرائت كے ہمراہ پيغمبر اكرم(ص) كے قرائت كا محرك وحى كے كامل حصول كا اطمينان تھا_

۱۲ _ خداتعالى نے پيغمبراكرم (ص) كو وحى كے ختم ہونے سے پہلے آيات كى تلاوت ميں عجلت نہ كرنے كى نصيحت كي_

و لا تعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه

۱۳ _ قرآن پورے كا پورا وحى الہى ہے_من قبل ا ن يقضى إليك و حيه

۱۴ _ پيغمبراكرم(ص) پر قرآن كى آيات اور كلمات كا نزول

۲۱۹

تدريجى تھا_و لا تعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه

۱۵ _ پيغمبراكرم(ص) قرآن كى آيات كے تدريجى نزول سے پہلے اس سے آگاہ تھے_*ولاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه آيت كے بارے ميں مذكور احتمالات ميں سے ايك يہ ہے كہ جب بھى جبرائيل پيغمبراكرم(ص) كے سامنے كوئي نئي آيت پڑھتے تو آپ(ص) چونكہ پہلے سے ہى پورے قرآن سے آشنا تھے_ كيونكہ شب قدر ميں اسے حاصل كرچكے تھے_ اسلئے آيت كا بعدوالا حصہ خودہى آگے آگے تلاوت كرتے جاتے اور اس آيت ميں آپ (ص) كو ہر آيت كى وحى كے مكمل ہونے تك پورى طرح خاموش رہنے كا حكم ديا گيا ہے_

۱۶ _ قرآن كا مكرر نزول _ولاتعجل بالقرء ان

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بنيادپر ہے كہ پورا قرآن شب قدر ميں نازل ہوا تھا كہ جسكے نتيجے ميں پيغمبر(ص) اكرم آيات كے تدريجى نزول سے پہلے ہى ان سے آگاہ تھے_

۱۷ _ علم كے زيادہ ہونے كى دعا، خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كو نصيحت_و قل رب زدنى علما

۱۸ _ علم انسان كيلئے ايك لامتناہى چيز ہے اور ہميشہ قابل اضافہ ہے _و قل رب زدنى علما

۱۹ _ علم، خداتعالى كا عطيہ ہے اوريہ اسكى ربوبيت سے نشأت پكڑتا ہے _و قل رب زدنى علما

۲۰ _ قرآن ، علم ميں اضافہ كرتا ہے_ولاتعجل بالقرء ان و قل رب زدنى علما

۲۱ _ خداتعالى انبياء كو تعليم دينے والا اور انكى تربيت كرنے والا ہے_و قل رب زدنى علما

۲۲ _ خداتعالى كے علم كے مقابلے ميں پيغمبر(ص) اكرم كا علم محدود اور قابل اضافہ تھا _و قل رب زدنى علما

۲۳ _ پورے قرآن كے نزول ميں جلدى نہ كرنا اور ہر آيت كے نزول كے ختم ہونے تك مكمل خاموشى خداتعالى كى جانب سے علوم پيغمبر(ص) ميں اضافے كا سبب _و لاتعجل بالقرء ان و قل رب زدنى علما

۲۴ _ پيغمبر(ص) اكرم كا علم و آگاہى آپ (ص) كيلئے خدا كا عطيہ_و قل رب زدنى علما

۲۵ _ جلد بازى اور عجلت،تحصيل علم كى آفات ميں سے ہيں _ولا تعجل بالقرء ان و قل رب زدنى علما

۲۶ _ علم ميں اضافہ كيلئے بارگاہ الہى ميں دعا كرنا ضرورى

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

مالكيت:غير خدا كى مالكيت ۲

مقربين:انكا خضوع ۶; انكى عبادات ۶، ۸; ان كے فضائل ۸; يہ اور تكبر كرنا ۷; انكا نشاط

فرشتے:ان كا خضوع ۶; انكى عبادات ۶

موجودات:ان كا مالك۱; با شعور موجودات ۳

آیت ۲۰

( يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ )

دن رات اسى كى تسبيح كرتے ہيں اور سستى كا بھى شكار نہيں ہوتے ہيں (۲۰)

۱ _ بارگاہ الہى كے مقربين كى مسلسل اور دن رات تسبيح _و من عنده يسبحون الّيل و النهار

۲ _ خداتعالى كى مسلسل تسبيح ميں مقربين الہى (فرشتوں ) كا سستى كا شكار نہ ہونا_و من عنده يسبحون الّيل و النهار لايفترون (يفترون كى مصدر) ''فتر'' كا معنى ہے كمزورى اور سستى _

۳ _'' عن أبى عبدالله (ع) : والملائكة ينامون، فقلت: يقول الله عزوجل: ''يسبحون الليل والنهار لا يفترون'' قال: ا نفاسهم تسبيح; امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ فرشتے بھى سوتے ہيں (راوى كہتاہے) ميں نے عرض كيا (كيسے جبكہ) خداتعالى فرماتا ہے :

''يسبحون الليل والنهار لا يفترون'' توآپ(ع) نے فرمايا ان كے سانس تسبيح ہيں(۱)

تسبيح:يہ دن ميں ۱; يہ رات ميں ۱

فرشتے:انكى تسبيح كا تسلسل۲; انكى تسبيح ۳

روايت :۳

مقربين:انكى تسبيح كا تسلسل۱، ۲

____________________

۱ ) كمال الدين صدوق ۶۶۶، ب ۵۸، ح۸_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۷، ح ۲۲_

۳۲۱

آیت ۲۱

( أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِّنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنشِرُونَ )

كيا ان لوگوں نے زمين ميں ايسے خدا بنا لئے ہيں جو ان كو زندہ كرنے والے ہيں (۲۱)

۱ _ مشركين كا زمينى عناصر اور مواد سے بنائے گئے خداؤں پر اعتقاد ركھنا _ا م اتّخذوا ألهة من الأرض

''أم اتخذوا'' ميں ''ام'' منقطعہ اور ''بل'' كے معنى پر مشتمل ہے كہ جو اضراب كيلئے ہے _

۲ _ عصر بعثت كے مشركين كئي خداؤں كى پرستش كرتے تھے اور كئي معبودوں كا اعتقاد ركھتے تھے _ا م اتخذوا آلهة من الارض ''آلہة''، ''الہ'' كى جمع ہے يعنى خدا اور معبود _

۳ _ مرُدوں كو زندہ كرنے كى قدرت، مقام الوہيت كا قطعى لازمہ ہے_ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون

مذكورہ مطلب دو نكتوں كو پيش نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے_ پچھلى اور بعد كى آيات خداتعالى كى الوہيت اور توحيد كے بارے ميں ہيں ۲_ آيت شريفہ نے خدا كہے جانے والوں كى مرُدوں كو زندہ كرنے پر ہر قسم كى قدرت كى نفى كى ہے ان آيات كے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے كہ مرُدوں كوزندہ كرنا صرف حقيقى الوہيت كا لازمہ ہے اور يہ اسى ميں منحصر ہے _

۴ _ مشركين كے خداؤں كا مرُدوں كو زندہ كرنے سے عاجز ہونا_ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون

مذكورہ مطلب اس چيز كوپيش نظر ركھتے ہوئے ہے كہ جملہ '' ہم ينشرون'' مستأنفہ ہے اور يا محل نصب ميں اور ''آلہة'' كى صفت ہے_

دونوں صورتوں ميں اس سے پہلے استفہام انكارى كا ہمزہ مقدر ہے اور انكار بھى انكار وقوعى ہے يعنى مشركين كے معبودوں كے ذريعے مرُدوں كا زندہ ہونا محال ہے_

۵ _ مرُدوں كو زندہ كرنا اور قيامت برپا كرنا، صرف خداتعالى كى قدرت ميں ہے _له من فى السموات و الأرض ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون خداتعالى جہان ہستى پر اپنى ملكيت اور قدرت

۳۲۲

مطلقہ كو ثابت كر كے (لہ من فى السموات ...) اور خدا پكارے جانے والوں كى مرُدوں كو زندہ كرنے پر قدرت كى نفى كر كے اس نكتے كو بيان فرمانا چاہتا ہے كہ انہيں زندہ كرنا صرف خداتعالى كى قدرت ميں ہے_

۶ _ باطل عقيدے اور سوچ كے بارے ميں تحقيق اور سوال كرنا صحيح عقيدے اور سوچ كے بيان كرنے اور اسكى طرف ہدايت كرنے كى ايك روش ہے_ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون

مذكورہ مطلب جملہ استفہاميہ ''ہم ينشرون'' سے حاصل ہوتا ہے_

الوہيت:اسكے شرائط ۳

باطل معبود:ان كا متعدد ہونا۲; انكا عجز۴; ان كے عناصر، ۱

توحيد:توحيد افعالى ۵

سوال:اسكے فوائد ۶

سچے معبود:انكا زندہ كرنا ۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۵

عقيدہ:باطل عقيدہ كے بارے ميں سوال ۶; اسے صحيح كرنے كى روش ۶

قيامت:اسكے برپا ہونے كا سرچشمہ ۵

مردے:انہيں زندہ كرنے سے عاجز ہونا۴; انہيں زندہ كرنے كا سرچشمہ ۵

مشركين:انكا باطل عقيدہ۱; صدر اسلام كے مشركين كا باطل عقيدہ ۲; صدر اسلام كے مشركين كے معبود۲; ان كے باطل معبود،۱

ہدايت:اسكى روش۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

۳۲۳

آیت ۲۲

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ )

ياد ركھو اگر زمين و آسمان ميں اللہ كے علاوہ اور خدا بھى ہوتے تو زمين و آسمان دونوں برباد ہوجاتے عرش ہے اور وہ ہر ايك كا حساب لينے والا ہے (۲۲)

۱ _ عالم خلقت ميں خداؤں كا متعدد ہونا ناممكن اور محال ہے_لو كان فيهما ألهة إلّا الله لفسدت

مذكورہ مطلب ''لوكان'' ميں ''لو'' امتناعيہ سے حاصل ہوتا ہے_

۲ _ عالم ہستى ميں خداؤں كا متعدد ہونا اسكے نظام كے فاسد ہونے اور اسكے ٹكڑے ٹكڑے ہوجانے كا سبب ہے_

لو كان فيهما ألهة إلّا الله لفسدت ''فساد'' ،''صلاح'' كى ضد ہے اور اس كا معنى ہے حد اعتدال سے خارج ہونا (مفردات راغب) قابل ذكر ہے كہ ہر شے كى درستگى اور فاسد و خراب ہونا اسكے اپنے تناسب سے ہے اور آسمانوں اور زمين كا فاسد و خراب ہونا يعنى اسكے موجودہ نظام كا ختم ہوجانا اور اسكے انسجام اور پيوستگى كا ٹوٹ جانا_

۳ _ عالم خلقت كا منظم اور ہم آہنگ ہونا، خداتعالى كى وحدانيت كى دليل ہے_لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''إلاّ''، ''غير'' كے معنى ميں ہو يعنى اگر كائنات ميں خدا كے علاوہ ديگر خدا ہوتے تو اس كا موجودہ نظام ختم ہوجاتا اس كا مفہوم اور پيغام يہ ہے كہ كائنات كا موجودہ نظام صرف خدا كے ارادے سے ہے اور اسكى وحدانيت كى دليل ہے_

۴ _ خداتعالى كے علاوہ كوئي بھى طاقت كائنات كو منظم اور منسجم طور پر چلانے پر قادر نہيں ہے_لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

خداتعالى نے امور كائنات ميں دخل ركھنے والے چند خداؤں كے وجود كى نفى كى ہے اور اسے نظام كائنات كے بگڑ جانے اور فاسد ہونے كا سبب قرار ديا ہے يہ فاسد اور خراب ہونا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ ديگر خدا كائنات كو چلانے اور اسے سر و سامان دينے پر قادر نہيں ہيں _

۵ _ تعليمات اسلامى كے اصول اور مبانى برہان اور استدلال پر مبنى ہيں _لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

آيت شريفہ كہ جو وحدانيت خدا اور اسكى انحصارى ربوبيت كو بيان كر رہى ہے ميں بہترين اور اہم ترين عقلى استدلال اور برہان سے استفادہ كيا گيا ہے بعض علماء علم كلام نے اسے ''برہان تمانع'' كے نام سے ياد كيا ہے_

۳۲۴

۶ _ ہر كلام ميں ہم آہنگى اور نظم كيلئے ايك رہبرى اور مينجمنٹ كى ضرورت ہے_لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

مذكورہ مطلب آيت كے موردسے منتزع ہوتا ہے كيونكہ الوہيت و ربوبيت كے متعدد ہونے كى وجہ سے كائنات كے نظام كا خراب اور ختم ہوجانا ہر منسجم اور ہم آہنگ كام كى نسبت قابل تصور ہے اور آسمانوں اور زمين كى كوئي خصوصيت نہيں ہے_

۷ _ خدائے يكتا مشركين كے خيالوں اور وصفوں سے منزہ و مبرا ہے _لو كان فيهما ألهة فسبحان الله رب العرش عما يصفون

۸ _ عرش (نظام ہستى كا مركز) صرف خداتعالى كى ربوبيت اور تدبير كے تحت ہے_رب العرش

''عرش'' كا معنى ہے بادشاہى اور حكمرانى كا تخت اور خداتعالى كى نسبت يہ نظام ہستى كے مركز كى طرف اشارہ ہے_ قابل ذكر ہے كہ آيت كے شروع ميں كسى بھى دوسرے معبود اور مشركين كے وجود كى نفى كى گئي ہے اس سے عرش كى تدبير كا صرف خداتعالى كے ہاتھ ميں منحصر ہونا حاصل ہوتا ہے_

۹ _ زمينى اور آسمانى موجودات كے درميان عرش الہى كى عظمت اور اہميت _فسبحان الله رب العرش

۱۰ _ خداتعالى عرش (نظام ہستى كا مركز) كا مالك و مختار ہے _فسبحان الله رب العرش

مذكورہ مطلب ''رب'' كے معنى ميں سے ايك (مالك اور صاحب اختيار) پر مبتنى ہے_

۱۱ _ عرش پر خداتعالى كى ربوبيت اور تدبير اسكے يكتا ہونے اور عالم ہستى ميں كسى دوسرے معبود اور شريك كے نہ ہونے كى دليل ہے_لوكان فيهما ألهة فسبحان الله رب العرش عما يصفون

''رب العرش'' اسم جلالہ (الله ) كيلئے صفت ہے اور كائنات ميں ديگر خداؤں اور معبودوں كى نفى كے بعد خداتعالى كى يہ صفت ذكر كرنا ممكن ہے اس نكتے كو بيان كر رہا ہو كہ صفت ''رب'' اور امور كى تدبير صرف خداتعالى ميں منحصر ہے اور اس كا كوئي شريك نہيں ہے_

اسلام:اس كا منطقى ہونا ۵

اللہ تعالى :اس كا منزہ ہونا ۷; س كا مالك ہونا ۱۰; اسكى تدبير كا مركز ۸; اسكى ربوبيت كا مركز ۱۱

۳۲۵

انتظام و انصرام:اس ميں وحدت كے اثرات ۶برہان نظم ۳

توحيد:توحيدى نظريہ كائنات ۳، ۴

راہبري:اسكى وحدت كے اثرات ۶

شرك:اسے رد كرنے كے دلائل ۱۱

عرش:اسكى تدبير كے اثرت ۱۱; اسكى اہميت ۹; اسكى عظمت۹; اس كامالك ۱۰; اس كا مدبر ۸; اس كا كردار ۸

نظام خلقت:اسكے انہدام كے عوامل ۲; اسكے فاسد ہونے كے عوامل ۲;ا سكى تدبير كا مركز ۱۰; اس كے منظم ہونے كا سرچشمہ ۴; اس ميں ہم آہنگى ۳

عقيدہ:اس ميں برہان ۵

مشركين:انكى غلط سوچ۷

معبود:ان كے متعدد ہونے كے اثرات۲; ان كے تعدد كا محال ہونا ۱

نظم و نسق:اسكے عوامل ۶

آیت ۲۳

( لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ )

اس سے بازپرس كرنے والا كوئي نہيں ہے اور وہ ہر ايك كا حساب لينے والا ہے_(۲۳)

۱ _ خداتعالى اپنے كاموں كے سلسلے ميں كسى كے سامنے جوابدہ نہيں ہے اور كسى كا اس پر كوئي حق نہيں ہے_

لايسئل عما يفعل جملہ''و هم يسئلون'' قرينہ ہے كہ جملہ''لا يسئل ...'' ميں سوال سے مراد اعمال و رفتار كى كيفيت اور فلسفہ كے بارے ميں سوال ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ خداتعالى كسى كے سامنے جوابدہ نہيں ہے تا كہ كوئي اسكے كاموں كى كيفيت كے بارے ميں سوال كرے اور اس سے باز پرس كرے نيز كسى كا خداتعالى پر حق نہيں ہے تا كہ اسكے ساتھ اپنے حق كے بارے ميں بات كرے_

۳۲۶

۲ _ خداتعالى كے تمام افعال حكيمانہ، شائستہ اور حق كے مطابق ہيں _لايسئل عما يفعل

خداتعالى كا جوابدہ نہ ہونا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ اسكے تمام كام حكيمانہ، شائستہ اور حق كے مطابق ہيں لہذا سوال اور بازپرس كى گنجائش ہى نہيں ہے كيونكہ اس ہستى كے كاموں كى كيفيت كى بارے ميں سوال كيا جاسكتا ہے كہ جو خطاكار ہو يا اس ميں خطا كا احتمال ہو اور خداتعالى ايسا نہيں ہے_

۳ _ خداتعالى كے كاموں كے بارے ميں چون و چرا اور اعتراض كرنا ناشائستہ فعل ہے_لايسئل عما يفعل

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ خبريہ ''لايسئل عما يفعل'' مقام انشاء ميں ہو يعنى خداتعالى كے افعال كى كيفيت كے بارے ميں سوال نہ كريں اور ان اعتراض نہ كريں _

۴ _ مقام الوہيت بازپرسى اور محاسبہ ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_فسبحان الله لايسئل عما يفعل و هم يسئلون

۵ _ مشركين كے خيالى خداؤں (فرشتوں اور مقربين) سے بھى بازپرس ہوگى اور ان كا اپنا بھى محاسبہ ہوگا_

لايسئل عما يفعل و هم يسئلون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ضمير ''ہم'' كا مرجع ''من عندہ'' ہو كہ جس سے مراد بارگاہ الہى كے مقربين ہيں اور انكے بارز مصداق فرشتے ہيں _

۶ _ كائنات كى تمام باشعور مخلوقات خداتعالى كے سامنے جوابدہ ہيں اور خداتعالى ان سے بازپرس كريگا_و هم يسئلون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ضمير ''ہم'' كا مرجع ''من'' ہو كہ جو (من فى السماوات) ميں ہے_

الوہيت:اسكے اثرات ۴

باطل معبود:ان كا محاسبہ ۵

سوال:اسكے موانع ۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱; اسكے افعال كى حقانيت ۲; اس پر حق ۱; اس پر ذمہ دارى كا نہ ہونا ۱; اسكے افعال كا قانون كے تحت ہونا۲; اس سے سوال كا ناپسنديدہ ہونا ۳; اس پر اعتراض كا ناپسنديدہ ہونا ۳

مقربين:ان كا محاسبہ ۵/فرشتے:ان كا محاسبہ ۵

موجودات:باشعور موجودات كا محاسبہ ۶; باشعور موجودات ۶

۳۲۷

آیت ۲۴

( أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ )

كيا ان لوگوں نے اس كے علاوہ او رخدا بنا لئے ہيں تو آپ كہہ ديجئے كہ ذرا اپنى دليل تو لاؤ_ يہ ميرے ساتھ والوں كا ذكر اور مجھ سے پہلے والوں كا ذكر سب موجود ہے ليكن ان كى اكثريت حق سے ناواقف ہے اور اسى لئے كنارہ كشى كر رہى ہے (۲۴)

۱ _ عصر بعثت ميں مشركين متعدد خداؤں اور معبودوں كا عقيدہ ركھتے تھے_ا م اتخذوا من دونه ألهة

''آلہة''، ''الہ'' كى جمع ہے يعنى خدا اور معبود_

۲ _ ''الله '' كے علاوہ كائنات ميں كوئي معبود اور خدا نہيں ہے_ا م اتخذوا من دونه ألهة

۳ _ باطل عقيدے اور خيال كے بارے ميں باز پرس كرنا اور اس پر سواليہ نشان لگانا صحيح عقيدے كے بيان كرنے اور اسكى طرف ہدايت كرنے كى ايك روش ہے_ا م اتخذوا من دونه ألهة

مذكورہ مطلب اس چيز كے پيش نظر حاصل ہوتا ہے كہ ا م منقطعہ استفہام توبيخى پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ پيغمبراكرم(ص) ، مشركين سے ان كے شرك كے بارے ميں واضح دليل و برہان كا مطالبہ كرنے پر مأمور_

قل هاتوا برهانكم ''برہان'' كا معنى ہے واضح اور حق و باطل كے درميان فيصلہ كرنے و الى دليل اور حجت_

۵ _ پيغمبر اكرم(ص) اور الہى مبلغين كا فريضہ ہے كہ وہ مخالفين كے ساتھ منطقى اور استدلالى طرز اپنائيں _قل هاتوا برهانكم

۶ _ دليل و برہان، فكر و اعتقاد كى صحت كا معيار ہے_قل هاتوا برهانكم

۷ _ شرك ايك بے دليل، كھوكھلى اور ناقابل اثبات سوچ اور عقيدہ ہے_قل هاتوا برهانكم

''ہاتوا'' كا امر تعجيز كيلئے ہے يعنى يہ بتاتا ہے كہ مشركين دليل اور برہان لانے سے ناتوان ہيں _

۸ _ اعتقادات و نظريات كا قطعى ادلہ و براہين پر مبتنى ہونا ضرورى ہے_قل هاتوا برهانكم

۳۲۸

۹ _ توحيد اور شرك كى نفي، تمام انبيا(ع) ئ، موحدين اور آسمانى كتابوں كا پيغام_هذا ذكر من معى و ذكر من قبلي

سابقہ آيات كے قرينے سے ''ہذا'' كا مشار اليہ توحيد اور نفى شرك ہے_

۱۰ _قرآن اور آسمانى كتابيں (تورات، زبور، انجيل) انسان كى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے والى اور اس كى فراموش كردہ معلومات كى ياددہانى كرانے والى ہيں _هذا ذكر من معى و ذكر من قبلي

معنى كے لحاظ سے ''ذكر''، ''حفظ'' كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كہ حفظ شے جاننے اور حاصل كرنے كے لحاظ سے ہوتا ہے اور ذكر شے ياد كرنے اور حاضر كرنے كے اعتبار سے ہوتا ہے (مفردات راغب) اس بناپر قرآن اور آسمانى كتابوں كى ''ذكر'' كے ساتھ توصيف ممكن ہے اس اعتبار سے ہو كہ يہ انسان كى فراموش شدہ معلومات كى يادآورى كراتى ہيں اور غافل انسان كى فطرت كو بيدار كرتى ہيں _

۱۱ _ صدر اسلام كے اكثر مشركين حق سے جاہل اور ناآگاہ تھے _بل أكثر هم لا يعلمون الحق

۱۲ _ جہل و ناآگاہى اكثر مشركين كے حق سے روگردانى اور شرك كى طرف مائل ہونے كا عامل ہے_

بل أكثرهم لا يعلمون الحق فهم معرضون

''فہم معرضون'' ميں ''فائ'' عاطفہ اور سبب و مسبب كے درميان ربط پيدا كرنے كيلئے ہے يعنى چونكہ وہ جاہل ہيں اس لئے حق سے روگردانى كرتے ہيں _

۱۳ _ جہل و ناآگاہى بہت سے انسانوں كے حق و حقيقت سے گريز كرنے كا سبب ہے_بل أكثرهم لا يعلمون الحق فهم معرضون

۱۴ _ صدر اسلام ميں مشركين كا ايك بڑا گروہ حق كى شناخت كے باوجود حق سے گريزاں تھا_بل أكثر هم لايعلمون الحق

كلمہ ''اكثر'' افعل التفضيل ہے اور اس كا مقابل كثير ہے نہ قليل اس وجہ سے ''بڑا گروہ'' مستفاد ہوتا ہے يعنى اگر چہ دانا اور حق سے گريز كرنے والے مشركين نادانوں كے مقابلے ميں كم تھے ليكن وہ خود زيادہ تھے_

۱۵ _ حق كى شناخت اور حقائق دينى كو صحيح طور پر سمجھنے كيلئے جستجو كرنا ضرورى ہے_بل أكثرهم لايعلمون الحق فهم معرضون مذكورہ بالا آيت فقط مشركين كى حالت زار كو بيان نہيں كرر ہى بلكہ انكى مذمت كرنے كے بھى درپے ہے_ اس كا مطلب يہ ہے كہ حق كى شناخت ايك لازمى امر ہے كيونكہ غيرلازمى امر پر مذمت كرنا معقول نہيں ہے_

۳۲۹

انبياء(ع) :انكى شرك دشمني۹; انكى ہم آہنگى ۹

انجيل:اسكى ياددہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

توحيد:توحيد عبادى ۲; اسكى دعوت ۹

تورات:اسكى ياددہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

سوال:اسكے فوائد۳

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۲

جہالت:اسكے اثرات ۱۲، ۱۳

حق:اسكى تشخيص كى اہميت ۱۵; اس سے روگردانى كے عوامل ۱۲; اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۱۳

دين:دين شناسى كى اہميت ۱۵

زبور:اسكى ياد دہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

شرك:اس كا كھوكھلاپن ۷; اسكے عوامل ۱۲

عقيدہ:اس ميں برہان كى اہميت ۸; اس ميں برہان ۶; باطل عقيدے كے بارے ميں سوال ۳; باطل عقيدہ ۷; اسكى درستگى كا معيار ۶

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۱۰/قرآن كريم:اسكى ياددہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

كتب آسماني:انكى ياددہانياں ۱۰; انكى شرك دشمنى ۹; ان كا كردار ۱۰; انكى ہم آہنگى ۹

مبلغين:انكى ذمہ داري۵/آنحضرت(ص) :آپكى ذمہ دارى ۴،۵

مخالفين:ان كے ساتھ پيش آنے كى روش۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى اكثريت كى جہالت ۱۱; صدر اسلام كے مشركين كى اكثريت كا حق كو قبول نہ كرنا ۱۱، ۱۴; ان سے برہان كى درخواست۴; صدر اسلام كے مشركين كا باطل عقيدہ۱; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑپن ۱۴;صدر اسلام كے مشركين كے معبود ۱/موحدين:انكى شرك دشمنى ۹; انكى تعليمات كى ہم آہنگى ۹

ہدايت:اسكى روش ۳

۳۳۰

۳۵۴ تا ۳۶۱

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ) (٢٥)

( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ) (٢٦)

( لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) (٢٧)

( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ) (٢٨)

۳۳۱

آیت ۲۹

( وَمَن يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِّن دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ )

اور اگر ان ميں سے بھى كوئي يہ كہہ دے كہ خدا كے علاوہ ميں بھى خدا ہوں تو ہم اس كو بھى جہنم كى سزا ديں گے كہ ہم اسى طرح ظالموں كو سزا ديا كرتے ہيں (۲۹)

۱ _ اگر فرشتے الوہيت كا دعوى كريں تو دوزخ كے عذاب ميں گرفتار ہوں گے_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك نجزيه جهنم

۲ _ گناہ اور لغزش كى صورت ميں فرشتے عذاب الہى سے امان ميں نہيں ہوں گے_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك نجزيه جهنم

۳ _ الوہيت كا دعوى ناقابل بخشش گناہ ہے اگرچہ مقربين الہى كى طرف سے ہو_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك بخزيه جهنم

۴ _ جہنم، جھوٹى الوہيت كا دعوى كرنے والوں كى سزا ہے_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك نجزيه جهنم

۵ _ جن كو خدا بنايا گيا ہے ليكن وہ خود اس كے مدعى نہيں ہيں تو وہ گناہ گار نہيں ہيں اور ان كو سزا نہيں ملے گي_

و من يقل منهم إنى إله ...نجزيه جهنم

مذكورہ بالا مطلب مفہوم شرط سے حاصل ہوتا ہے يعنى خدا صرف خدائي كا دعوى كرنے والوں كو عذاب ديگا نہ انہيں جو خدا ہونے كا كوئي دعوى نہيں كرتے _

۶ _ الوہيت كا دعوى كرنا ظلم ہے اور خدائي كا دعوى كرنے و الے ظالم ہيں _و من يقل منهم انى اله ...نجزيه جهنم

۷ _ جہنم، سب ستمگروں كى سزا ہے_

۳۳۲

نجزيه جهنم كذلك نجزى الظالمين

الوہيت:اسكے دعوے كا ظلم ہونا ۶; اسكے دعوے كى سزا ۱; اسكا دعوى كرنے والوں كى سزا ۴; اسكے دعوے كا گناہ ۳

باطل معبود: ۵

جہنم:اسكے اسباب ۱، ۴، ۷

خداتعالى :اسكے عذاب كا عام ہونا ۲

ظالم لوگ:۶يہ جہنم ميں ۷; ان كى سزا ۷

ظلم:اسكے موارد ۶

گناہ:اسكے اثرات ۲; ناقابل بخشش گناہ ۳

معبود:اسكى سزا كے شرائط ۵

فرشتے:يہ اور الوہيت ۱; يہ اور عذاب ۲; يہ اور گناہ ۲

آیت ۳۰

( أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ )

كيا ان كافروں نے يہ نہيں ديكھا كہ يہ زمين و آسمان آپس ميں جڑے ہوئے تھے اور ہم نے ان كو الگ كيا ہے اور ہر جاندار كو پانى سے قرار ديا ہے پھر كيا يہ لوگ ايمان نہ لائيں گے (۳۰)

۱ _ ابتدائے خلقت ميں عالم طبيعت (آسمان و زمين) متراكم اور آپس ميں جڑا ہوا تھا_

أن السموت و الأرض كانتا رتق

''رتق'' كا معنى ہے ملا ہوا اور جڑا ہوا ہونا اور ''فتق'' كا معنى ہے الگ اور جدا ہونا اور ''رتق'' سے مراد ابتدائے خلقت ميں آسمان و زمين كا آپس ميں ملا ہوا اور اكٹھا ہونا ہے اور ''فتق'' سے مراد بعد ميں ان دو كا ايك دوسرے سے الگ اور جدا ہونا ہے_ قابل ذكر ہے كہ ''أوَلم ير'' ميں رؤيت سے مراد قلبى اور علمى رؤيت ہے_

۲ _ عالم طبيعت ميں متعدد آسمان ہيں _السموات

۳ _ پاني، عالم طبيعت ميں سرچشمہ حيات_و جعلنا من الماء كل شيء حي

''من المائ'' ميں ''من'' ابتدائيہ ہے يعنى ہر زندہ چيز نے پانى سے نشأت پكڑى ہے اور اس كا سرچشمہ پانى ہے_

۳۳۳

۴ _ زندہ موجودات كى پيدائش آسمانوں اور زمين كے تراكم اور ايك دوسرے كے ساتھ پيوستگى كے زمانے كے گزرجانے كے بعد تھي_أن السموات والأرض كانتا رتقاً ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شى حي

۵ _ عالم طبيعت اپنى پيدائش كے مختلف ادوار اور مراحل ركھتا_أن السموات والأرض كانتاً رتقا ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شى حي

۶ _ توحيد تك دسترسى حاصل كرنے كيلئے عالم خلقت كے موجودات كے تحولات ميں غور كرنا ضرورى ہے_

أولم يرالذين كفروا أن السموات ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شى حيّ ا فلا يؤمنون

۷ _ آسمانوں و زمين كى خلقت، ان كے سير تحولات، نيز حيات كا پانى سے پيدا ہونا يہ سب ربوبى اور خداتعالى كى يكتائي كى نشانياں ہيں _أولم ير السموات و جعلنا من الماء كل شى حيّ ا فلا يؤمنون

مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ آيات كريمہ خداتعالى كى توحيد ربوبى كو ثابت كرنے اور اس پر ايمان لانے كى ترغيب دلانے كے درپے ہيں ورنہ مشركين كہ جو ان آيات كے مخاطب ہيں خداتعالى كى خالقيت كے منكر نہيں تھے_

۸ _ عالم خلقت كے موجودات ميں غور و فكر انسان كے توحيد تك دسترسى حاصل كرنے كا ايك راستہ ہے_

أولم يرالذين كفروا أن السموات ا فلا يؤمنون

۹ _ كفار، عالم خلقت كے موجودات كے تغير و تبديل كى طرف توجہ نہ كرنے اور خدائے يكتا پر ايمان نہ لانے كى وجہ سے مذمت كے مستحق ہيں _أولم يرالذين كفروا ان السموات والأرض أفلا يؤمنون

''أولم ...'' كا ہمزہ استفہام انكارى كيلئے ہے اور توبيخ كا فائدہ دے رہا ہے_

۱۰ _ '' قال ابوجعفر (ع) : ان قول الله عزوجل: ''كانتا رتقاً'' يقول: كانت السماء رتقاً لا تنزل المطر و كانت الأرض رتقاً لا تنبت الحب فتق السماء بالمطر و الأرض بنبات الحب ...;امام باقر (ع) سے روايت كى گئي كہ آپ(ع) نے فرمايا خداتعالى كا فرمان ''كانتارتقاً'' بيان كر رہا ہے كہ آسمان بندتھا اور بارش نہيں برساتا تھا اور زمين بند تھى اور نباتات نہيں اگاتى تھي پس خداتعالى نے آسمان كو بارش برسانے اور زمين كو نباتات اگانے كے ساتھ شگافتہ كيا (۱)

____________________

۱ ) كافى ج۸، ص ۹۵، ح ۶۷_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۲۵ ، ح ۵۴_

۳۳۴

پاني:اسكے فوائد ۳، ۷

آسمان:اس كا شگافتہ ہونا۱۰; آسمان اور زمين كى پيوستگى ۱; ان كا متعدد ہونا۳; ان كى خلقت۳۷

كائنات:اسكى خلقت كا آغاز۱; اسكے مطالعے كى اہميت ۶; اسكى پيوستگى ۱; اسكى خلقت كے مراحل۵

آيات خدا:آفاقى آيات ۸

بارش:اسكے فوائد ۱۰/تفكر:خلقت ميں تفكر كے اثرات ۷

توحيد:توحيد ربوبى كے دلائل ۷; اس كا پيش خيمہ ۹

زندگي:اس كا سرچشمہ ۳، ۷

روايت: ۱۰/زمين:اس كا شگافتہ ہونا ۱۰; اسكى خلقت ۷

كفار:انكى مذمت ۹; انكا عدم تفكر۹

نباتات:ان كى پيدائش كا سرچشمہ۴

موجودات:زندہ موجودات كى پيدائش كى تاريخ۴

آیت ۳۱

( وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجاً سُبُلاً لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ )

اور ہم نے زمين پر پہاڑ قرار دئے ہيں كہ وہ ان لوگوں كو لے كر كسى طرف جھك نہ جائے اور پھر اس ميں وسيع تر راستے قرار دئے ہيں كہ اس طرح يہ منزل مقصود تك پہنچ سكيں (۳۱)

۱ _ زمين كو انسانوں كو لرزانے اور انہيں جنبش دينے سے روكنے كيلئے مضبوط پہاڑوں كى خلقت_

و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم

''رسا'' كا معنى ہے ''ثبت'' اور ''رسخ'' اور پہاڑوں كو اسلئے ''رواسي'' كہاجاتا ہے كيونكہ يہ راسخ اور مضبوط ہوتے ہيں اور زمين كى لرزش اور اضطراب سے مانع ہوتے ہيں _

(''تميد'' كے مصدر) ''ميد'' كا معنى ہے اضطراب اور مختلف سمتوں كى طرف حركت كرنا_

۳۳۵

۲ _ پہاڑوں كى پيدائش، زمين كى خلقت كے بعد تھي_و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم

ظاہر يہ ہے كہ كسى شے كو ايك ظرف ميں قرار دينا اس ظرف كے وجود پر متفرغ ہے لہذا پہاڑوں كو زمين ميں قرار دينا خود زمين كے وجود سے پہاڑوں كى پيدائش كے متأخر ہونے كو بيان كر رہا ہے_

۳ _ دروّں ، اور وسيع و عريض راستوں كى خلقت اس لئے ہوئي تا كہ انسان راہ پا اسكے _و جعلنا فيها فجاجاً سبلًا لعلهم يهتدون ''فجّ'' كا معنى ہے دو پہاڑوں كے درميان وسيع راستہ كہ جو دروں ور پہاڑى راستوں كو شامل ہے اور''سبل'' كا معنى ہے ''راستے''_

۴ _ انسان كى زندگى كيلئے قدرتى راستوں اور پہاڑوں كا حيات بخش كردار اور اہميت _

و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم سبلاً لعلهم يهتدون

۵ _ پہاڑوں ، راستوں اور دروّں كى خلقت كى طرف توجہ، توحيد تك پہنچنے كا ايك راستہ ہے_و جعلنا فى الا رض رواسي لعلهم يهتدون آيت ميں ''يہتدون'' كا متعلق مذكور نہيں ہے ليكن اس بات كے قرينے سے كہ ان آيات كريمہ كے مخاطب مشركين اور يہ آيات توحيد كو ثابت كرنے كے درپے ہيں مذكورہ مطلب كا استفادہ ہونا ہے_

۶ _ خداتعالى كے افعال حكمت آميز ہيں _و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم سبلًا لعلهم يهتدون

خداتعالى كے اس فرمان كے پيش نظر كہ ہم نے پہاڑوں كو زمين كو لرزش اور اضطراب سے بچانے كيلئے اور راستوں كو انسان كے راہ پانے كيلئے خلق كيا معلوم ہوتا ہے كہ خداتعالى كے كام با ہدف اور حكمت آميز ہوتے ہيں _

توحيد:اس كا پيش خيمہ ۵

خداتعالى :اسكے افعال ميں حكمت ۶

درےّ:ان كے فوائد ۳

ذكر:دروّں كى خلقت كے ذكر كے اثرات ۵; راستوں كى خلقت كے ذكر كے اثرات ۵; پہاڑوں كى خلقت كے ذكر كے اثرات ۵

راستے:ان كى اہميت ۴; ان كے فوائد ۴; ان كا كردار ۴

راستہ پانا:

۳۳۶

اسكى نشانياں ۳

زمين:اسكى تاريخ ۲; اسكے لرزنے كے موانع ۱

پہاڑ:انكى اہميت ۴; انكى خلقت كى تاريخ ۲; ان كے فوائد ۱; انكا كردار ۴

آیت ۳۲

( وَجَعَلْنَا السَّمَاء سَقْفاً مَّحْفُوظاً وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ )

اور ہم نے آسمان كو ايك محفوظ چھت كى طرح بنايا ہے اور يہ لوگ اس كى نشانيوں سے برابر اعراض كر رہے ہيں (۳۲)

۱ _ خداتعالى نے آسمان كو ايسى چھت بنايا ہے جو گرنے سے محفوظ ہے_و جعلنا السماء سقفاً محفوظ

۲ _ خداتعالى نے فضا اور آسمان كے موجودات كو اہل زمين پر گرنے سے محفوظ ركھا ہے_و جعلنا السماء سقفاً محفوظ

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آسمان سے مراد فضا ہو كہ جو زمين كى نسبت چھت كى مانند ہے اور اس كا محفوظ ہونا يا تو آسمانى اور فضائي موجودات كے لحاظ سے ہے اور يا نظام شمسى كے سياروں كى قاتل شعاعوں كے فضا سے زمين كى طرف نفوذ كرنے كے لحاظ سے ہے_

۳ _ آسمان كى خلقت اور اہل زمين كيلئے اسكے كردار كى طرف توجہ توحيد تك پہنچنے كا ايك راستہ ہے_

أن السموات و الأرض و جعلنا السماء سقفاً محفوظ

۴ _ آسمان ميں خداشناسى اور توحيد تك پہنچے كيلئے مختلف آيات پائي جاتى ہيں _و هم عن أى تها معرضون

۵ _ كفار، خداتعالى كى آسمانى آيات سے ا عراض كرنے والے اور روگردان ہيں _و هم عن أى تها معرضون

آسمان:اسكى حقيقت ۱; اس كا گرنا ۱

آيات الہي:

۳۳۷

آفاقى آيات۴; آفاقى آيات سے اعراض كرنے والے۵; ان سے اعراض كرنے والے ۵

اجرام فلكي:ان كا گرنا۲; انكى حفاظت ۲

توحيد:اسكے دلائل ۴; اس كا پيش خيمہ ۳

خداتعالى :اسكے افعال۱

ذكر:خلقت آسمان كے ذكر كے اثرات ۳; آسمان كے فوائد كے ذكر كے اثرات۳

فضا:اسكے موجودات كا گرنا۲; اسكے موجودات كى حفاظت ۲

كفار:يہ اور آفاقى آيات ۵

آیت ۳۳

( وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ )

وہ وہى خدا ہے جس نے رات دن اور آفتاب و ماہتاب سب كو پيدا كيا ہے اور سب اپنے اپنے فلك ميں تير رہے ہيں (۳۳)

۱ _ صرف خداتعالى شب و روز اور سورج و چاند كا خالق ہے_و هوالذى خلق الّيل و النهار و الشمس و القمر

۲ _ سورج اور چاند ميں سے ہر ايك، ايك مخصوص مدار ميں محو حركت ہے_كل فى فلك يسبحون

''فلك'' يعنى ستاروں كا مدار اور ''سبح'' يا ''سباحت'' يعنى تيرنا (لسان العرب) و (قاموس)

۳ _ ہر سيارہ اور ستارہ اپنے مخصوص مدار ميں محو حركت ہے_أن السموات و الأرض الشمس و القمر كل فى فلك يسبحون لفظ ''كل'' مضاف اليہ محذوف (جيسے ''ہا'' و غيرہ) كى طرف مضاف ہے اور ضمير كا مرجع آسمانوں اور زمين كا مجموعہ ہے كہ جن كا گذشتہ تين آيات ميں تذكرہ ہوچكا ہے_

۴ _ شب و روز اور سورج و چاند كى خلقت توحيد ربوبى كى

۳۳۸

ايك نشانى ہے_و هوالذى خلق الّيل كل فى فلك يسبحون

۵ _ خداتعالى كى طرف سے كائنات كى خلقت اور اسكى تدبير، توحيدى نظريہ كائنات ميں ايسے دو قانون اور اصل ہيں كہ جو ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوسكتے_و ما خلقنا السماء و جعلنا و هوالذى خلق كل فى فلك يسبحون

آيات كا سياق بتاتا ہے كہ يہ مشركين كے اس نظريئےو رد كرنے كے درپے ہيں كہ خدا كيلئے مقام خالقيت ہے اور ان كے خداؤں كيلئے تدبير كا مقام ہے اور خداتعالى نے گذشتہ آيات ميں مقام تدبير كو اور اس آيت ميں مقام خلقت كو اپنى طرف نسبت دى ہے اور ان دو كى جدائي كو رد فرمايا ہے_

عالم خلقت:اس كا خالق ۵; اس كا مدبر ۵

توحيد:خالقيت ميں توحيد۱، ۵; توحيد ربوبى ۵; توحيد ربوبى كى نشانياں ۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱; اسكى خالقيت ۱; اسكى ربوبيت ۵

چاند:اس كا خالق ۱; اسكى خلقت۴; اسكى گردش۲

سورج:اس كا خالق ۱; اسكى خلقت ۴; اس كى گردش۲

دن:اس كا خالق۱; اسكى خلقت ۴

ستارے:ان كى حركت ۳

سيارے:انكى حركت ۳

رات:اس كا خالق۱; اسكى خلقت ۴

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنا ت ۱،۵

آیت ۳۴

( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ )

اور ہم نے آپ سے پہلے بھى كسى بشر كے لئے ہميشگى نہيں قرار دى ہے تو كيا اگر آپ مرجائيں گے تو يہ لوگ ہميشہ رہنے والے ہيں (۳۴)

۱ _ خداتعالى نے دنيا ميں كسى انسان كيلئے حيات جاويد قرار نہيں دي_

۳۳۹

و ما جعلنا لبشر من قبلك الخلد

۲ _ مشركين كا يہ خيال تھا كہ انبيا(ع) ء كيلئے دنيا ميں حيات جاويد ہونا ضرورى ہے_و ما جعلنا لبشر من قبلك الخلد

۳ _ مشركين، پيغمبراكرم(ص) كى موت سے آپ(ع) كى شريعت كى نابودى كے منتظر تھے _أفإين متّ فهم الخلدون

آيت كے لحن سے معلوم ہوتا ہے كہ پيغمبر اسلام(ص) كے مخالفين اور مشركين آپ(ص) كى موت كے منتظر تھے يا آپ(ص) كو قتل كرنے كے درپے تھے جيسا كہ بعض مكى سوروں ميں اسكى تصريح كى گئي ہے_ (ا م يقولون شاعر نتربص بہ ريب المنون)

۴ _ مشركين پيغمبر اسلام(ص) كى دعوت كا مقابلہ كرنے سے ناتوان تھے_و ما جعلنا أفإن متّ فهم الخالدون

چونكہ مشركين پيغمبراكرم(ص) كى موت اور آپ(ص) كى شريعت كى نابودى كے درپے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ آپ- كى دعوت كے مقابلے ميں عاجز تھے_

۵ _ پيغمبر كى وفات سے پہلے اسلام كى كاميابى اور كفر و شرك كے سرغنوں كى موت كے بارے ميں قرآن كى پيشين گوئي_

أفإن متّ فهم الخالدون

''أفإن'' ميں ہمراہ استفہام انكارى كيلئے اور نفى كے معنى پر مشتمل ہے لہذا آيت كريمہ كا اصلي پيغام يوں ہوگا_ اس طرح نہيں ہے كہ وہ (پيغمبر اكرم(ص) ) فوت ہوجائيں اور تم زندہ رہو اور لمبى مدت تك جيتے رہو بلكہ حقيقت اسكے برعكس ہے وہ رہے گااور تم اے كفر كے سرغنوں ان سے پہلے مرجاؤگے_

آنحضرت(ص) :آپ (ص) كى موت كا انتظار۳; آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ ۴

اسلام:اسكى نابودى كا انتظار ۳; اسكى كاميابى ۵

انبياء(ع) :انكا زندہ وجاويد ہونا ۲

سوچ:غلط سوچ ۲

رہبر:رہبران شرك كى موت ۵; رہبران كفر كى موت ۵

زندگي:دنياوى زندگى كى ناپائيدارى ۱

قرآن كريم:اسكى پيشين گوئي ۵

مشركين:انكى توقعات ۳; انكى سوچ۲; ان كا عاجز ہونا ۴

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750