تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219171 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لا جبرولا تفو یض ولکن أمر بین أمر ین، قال قُلتُ: و ما أمر بین أمر ین؟ قال مثل ذلک رجل رأ یته علیٰ معصية ٍ فنهیتهُ فلم ینته فتر کته ففعل تلک المعصية، فلیس حیثُ لم یقبل منک فتر کته کنت أنت الذّی أمر ته بالمعصية'' ( ۱ )

نہ جبرہے اور نہ تفو یض ، بلکہ ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز ہے، راوی کہتا ہے : میں نے کہا : ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز کیا ہے؟ فر مایا: اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو گنا ہ کی حا لت میں ہو اور تم اسے منع کرو اور وہ قبول نہ کر ے اس کے بعد تم اسے اس کی حالت پر چھو ڑ دو اور وہ اس گناہ کو انجام دے ، پس چونکہ اس نے تمہا ری بات نہیں مانی اور تم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ تم ہی نے اسے گناہ کی دعوت دی ہے۔

۲'' ما استطعت أن تلو م العبد علیه فهو منه و ما لم تستطع أن تلو م العبد علیه فهو من فعل ﷲ، یقول ﷲ للعبد: لم عصیت؟ لم فسقت؟لم شربت الخمر؟ لم ز نیت؟ فهذا فعل العبد ولا یقول له لم مر ضت؟ لم قصرت؟ لم ابیضضتَ؟ لم اسو ددت؟ لأنه من فعل ﷲ تعا لیٰ'' ( ۲ )

جس کام پر بندہ کو ملا مت و سر زنش کر سکو وہ اس کی طرف سے ہے اور جس کام پرملا مت وسر زنش نہ کرسکو وہ خدا کی طرف سے ہے، خدا اپنے بندوں سے فرما تا ہے : تم نے کیوں سر کشی کی ؟ کیوں نافرمانی کی ؟کیوں شراب پی؟ کیوں زنا کیا؟ کیو نکہ یہ بندے کا کام ہے ، خدا اپنے بندوں سے یہ نہیں پو چھتا : کیو ں مر یض ہوگئے ؟ کیوں تمہا را قد چھوٹاہے؟ کیوں سفید رنگ ہو؟ کیوں سیا ہ رو ہو؟ کیو نکہ یہ سارے امور خدا کے ہیں ۔

روایات کی تشریح

جبر وتفویض کے دوپہلو ہیں :

۱۔ ایک پہلو وہ ہے جو خدا اوراس کے صفا ت سے متعلق ہے۔

۲۔ دوسرا پہلووہ ہے جس کی انسان اوراس کے صفا ت کی طر ف بازگشت ہو تی ہے۔

'' جبر و تفویض'' میں سے جو کچھ خدا اوراس کے صفات سے مر بوط اور متعلق ہے ، اس بات کا سزا وار

____________________

(۱) کافی،ج، ۱، ص ۱۶۰ اور توحید صدو ق، ص ۳۶۲.(۲)بحار ج۵،ص۵۹ح۱۰۹

۱۸۱

ہے کہ اس کو خدا،اس کے انبیا ء اور ان کے اوصیا ء سے اخذ کر یں اور جو چیز انسا ن اوراس کے صفات اور افعال سے متعلق ہو تی ہے ، اسی حد کافی ہے کہ ہم کہیں : میں یہ کام کر وں گا ، میں وہ کام نہیں کرو ں گا تا کہ جانیں جو کچھ ہم انجام دیتے ہیں اپنے اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ، گزشتہ بحثو ں میں بھی ہم نے یہ بھی جانا کہ انسا ن کی زندگی کی رفتا ر ذ رہ ، ایٹم، سیارات اور کہکشا نو ں نیز خدا کے حکم سے دیگر مسخرات کی رفتار سے حرکات اور نتا ئج میں یکساں نہیں ہے ،یہ ایک طرف ، دو سری طرف خدا وند سبحا ن نے انسا ن کوا س کے حال پر نہیں چھو ڑا اوراسے خود اس کے حوالے نہیں کیا تا کہ جو چا ہے ، جس طرح چاہے اور نفسیا نی خو اہشا ت جس کاحکم دیںاسی کو انجام دے ، بلکہ خدا وند عالم نے اپنے انبیا ء کے ذریعہ اس کی راہنما ئی کی ہے : اسے قلبی ایمان کی راہ بھی حق کے ساتھ دکھا ئی نیزاعمال شائستہ جو اس کے لئے جسمانی اعتبار سے مفید ہیں ان کی طرف بھی راہنمائی کی اور نقصا ن دہ اعمال سے بھی آگا ہ کیا ہے، اگر وہ خدا کی ہدا یت کا اتبا ع کرے اور ﷲ کی سیدھی را ہ پر ایک قد م آگے بڑھ جا ئے تو خدا وند عا لم اسے اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے دس قد م آگے بڑھا دیتا ہے پھر دنیا و آخرت میں آثار عمل کی بناء پر اس کوسات سو گنازیادہ جزا دیتا ہے اور خدا وند عالم اپنی حکمت کے اقتضاء اور اپنی سنت کے مطابق جس کے لئے چا ہتا ہے اضا فہ کرتاہے۔

ہم نے اس سے قبل مثا ل دی اور کہا: خدا وند عا لم نے اس دنیا کو'' سلف سروس''والے ہوٹل کے مانندمو من اور کا فر دو نوں کے لئے آما دہ کیا ہے، جیسا کہ سورۂ اسرا ء کی بیسویں آیت میں فرماتا ہے:

( کلاًّ نمدّ هٰؤلا ء و هٰؤٰلآء من عطا ئِ ربّک و ما کان عطائُ ربِّک محظورا )

ہم دو نو ں گروہوںکوخواہ یہ خواہ وہ تمہا رے رب کی عطا سے امداد کر تے ہیں ، کیو نکہ تمہا رے ربّ کی عطاکسی پربند نہیں ہے۔

یقینا اگر خدا کی امداد نہ ہو تی اور خدا کے بند ے جسمی اور فکر ی توا نائی اور اس عا لم کے آمادہ و مسخر اسباب و وسا ئل خدا کی طرف سے نہ رکھتے تو نہ راہ یا فتہ مو من عمل صا لح اور نیک و شا ئستہ عمل انجام دے سکتا تھا اور نہ ہی گمرا ہ کا فر نقصا ن دہ اور فا سد اقدامات کی صلا حیت رکھتا، سچ یہ ہے کہ اگر خدا ایک آن کے لئے اپنی عطا انسا ن سے سلب کر لے چا ہے اس عطا کا ایک معمو لی اور ادنیٰ جز ہی کیوں نہ ہوجیسے بینائی، سلا متی، عقل اور خرد وغیرہ... تویہ انسان کیا کر سکتا ہے ؟ اس لحا ظ سے انسا ن جو بھی کر تا ہے اپنے اختیا رسے اور ان وسا ئل و اسباب کے ذریعہ کرتاہے جو خدا نے اسے بخشے ہیں لہٰذا انسا ن انتخاب اور اکتسا ب میں مختار ہے۔

۱۸۲

جی ہاں ،انسا ن اس عالم میں مختارکل بھی نہیں ہے جس طرح سے وہ صرف مجبور بھی نہیں ہے، نہ اس عالم کے تمام اموراس کے حوالے اور سپرد کر دئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے انتخا ب کر دہ امور میں مجبور ہے، بلکہ ان دو نوں کے درمیا ن ایک امر ہے اور وہ ہے( امر بین امرین) اوریہ وہی خدا کی مشیت اور بند وں کے افعال کے سلسلے میں اس کا قا نو ن اور سنت ہے، '' ولن تجد لسنة ﷲ تبد یلا ً'' ہر گز سنت الٰہی میں تغیر و تبد یلی نہیں پا ؤ گے!

چند سوال ا و ر جو اب

اس حصّہ میں د ر ج ذیل چا ر سوا ل پیش کئے جا رہے ہیں:

۱۔ انسا ن جو کچھ کر تا ہے ا س میں مختار کیسے ہے، با وجو د یکہ شیطا ن اس پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے جب کہ وہ دکھا ئی بھی نہیں دیتا آد می کو اغوا( گمراہ) کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے اوراس کے دل میں و سو سہ ڈالتا رہتاہے اور اپنے شر آمیز کاموں کی دعوت دیتا ہے؟

۲۔انسان فا سد ماحول اور برے کلچرمیں بھی ایسا ہی ہے، وہ فسا د اور شر کے علا وہ کو ئی چیز نہیں دیکھتا پھر کس طرح وہ اپنے اختیا ر سے عمل کر تاہے ؟

۳۔ایسا انسا ن جس تک پیغمبروں کی دعو ت نہیں پہنچی ہے اوردور درازافتادہ علا قہ میں زند گی گزا رتا ہے وہ کیا کرے ؟

۴۔'' زنا زا دہ'' کا گنا ہ کیا ہے ؟( یعنی نا جا ئز بچہ کاکیا گنا ہ ہے) کیوں وہ دو سر وں کی رفتا ر کی بنا ء پر شر پسند ہوتا ہے اور شرار ت و برائی کر تا ہے؟

پہلے اور دوسرے سوال کا جو اب:

ان دو سو الوں کا جواب ابتدا ئے کتاب میں جو ہم نے میثا ق کی بحث کی ہے ا س میں تلا ش کیجئے۔( ۱ )

وہاں پر ہم نے کہا کہ خدا نے انسا ن پر اپنی حجت تمام کردی ہے ا ور تمام موجودات کے سبب سب کے متعلق جستجواور تلاش کے غریزہ کو ودیعت کرکے اس کی بہانہ بازی کا دروازہ بند کردیا ہے، لہٰذااسے چاہیئے کہ اس غریزہ کی مدد سے اس اصلی سبب سازتک پہنچے ، اسی لئے سورۂ اعرا ف کی ۱۷۲ ویں آ یت میں میثا ق خدا وند ی سے متعلق ارشاد فرما یا:

____________________

(۱)اسی کتاب کی پہلی جلد، بحث میثاق .ملاحظہ ہو.

۱۸۳

( أن تقولوا یو م القیامة اِنّا کُناعن هذا غا فلین )

تا کہ قیا مت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس (پیمان ) سے غا فل تھے ہمیں ۔

انسا ن جس طر ح ہر حا لت میں بھو ک کے غر یزہ سے غا فل نہیں ہو تا ہے جب تک کہ اپنی شکم کو غذا سے سیر نہ کرلے ، اسی طرح معر فت طلبی کے غر یزہ سے بھی غا فل نہیں ہو تا یہاں تک کہ حقیقی مسب الاسباب کی شناخت حا صل کرلے۔

تیسر ے سوال کا جو اب:

ہم اس سوال کے جواب میں کہیںگے : خداو ند سبحا ن نے سورہ بقرہ کی ۲۸۶ ویں آیت میں ارشا د فرما یا:

( لایکلف ﷲ نفساًاِلاّوسعها )

خدا کسی کو بھی اس کی طا قت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا۔

چو تھے سوا ل کا جو اب:

نا جا ئز اولا د بھی بُرے کا م انجام دینے پر مجبو ر نہیں ہے ، جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ بد کار مرد اور عو رت کی روحی حالت اور کیفیت ارتکاب گناہ کے وقت اس طرح ہوتی ہے کہ خو د کو سما جی قوا نین کا مجرم اور خا ئن تصور کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ معا شرہ ان کے کام کو برااور گناجا نتا ہے اور اگر ان کی رفتا ر سے آگا ہ ہو جائے اورایسی گند گی اور پستی کے ارتکاب کے وقت دیکھ لے تو ان سے دشمنی کر تے ہو ئے انھیں اپنے سے دور کر دیگا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام نیکو کار ، پا کیز ہ کر دار اور اخلاق کر یمہ کے ما لک ایسے کا م سے بیزاری کرتے ہیں یہ رو حی حا لت اور اندرونی کیفیت نطفہ پر اثر اندا ز ہو تی ہے اور میرا ث کے ذریعہ اس نو مو لو د تک منتقل ہو تی ہے اورنوزاد پر اثر انداز ہوتی ہے جواسے شر دوست اور نیکیوں کا دشمن بنا تی ہے اور سما ج کے نیک افراد اور مشہو ر و معروف لو گوں سے جنگ پر آمادہ کرتی ہے اس سیرت کا بارز نمو نہ'' زیا د ابن ابیہ'' اور اس کا بیٹا ابن زیاد ہے کہ انھوں نے عرا ق میں اپنی حکومت کے دوران جو نہیں کر نا چا ہئے تھا وہ کیا ،با لخصوص'' ابن زیاد'' کہ اسکے حکم سے امام حسین کی شہا دت کے بعد آپ اور آپ کے پا کیزہ اصحاب کے جسم اطہر کو مثلہ کیاگیا اور سروں کو شہروں میں پھرایا گیا اور رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حرم کو اسیر کر کے کو فہ و شام پہنچا یا گیا اور دیگر امور جو اس کے حکم سے انجام پا ئے اور یہ ایسے حا ل میں ہو اکہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد کو ئی فرد ایسی نہیں بچی تھی جو ان لوگوںکی حکو مت کا مقا بلہ کر ے

۱۸۴

اور کسی قسم کی تو جیہ اس کے ان افعا ل کیلئے نہیں تھی، بجز اس کے کہ وہ شر و برا ئی کا خو گر تھا اس کی خو اہش یہ تھی کہ عرب اور اسلام کے شریف ترین گھرا نے کی شا ن و شو کت، عظمت و سطو ت ختم کرکے انھیں بے اعتبار بنا دے، ہاں وہ ذا تی طور پر برا ئی کا دوست اور نیکیوں کا دشمن تھا اور سماج و معا شرہ کے کریم و شر یف افراد سے بر سر پیکا ر تھا۔( ۱ )

اس بنا پر ( صحیح ہے اور ہم قبو ل کر تے ہیں کہ) شر سے دوستی، نیکی سے دشمنی، نیکو کاروں کو آزار و اذیت دنیا اور سماج کے پا کیز ہ لو گوں کو تکلیف پہنچا نا زنا زادہ میں حلال زادہ کے بر خلاف تقریباًاس کی ذات اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن ان تمام باتوں کے با وجو د ان دو میں سے کو ئی بھی خواہ امور خیر ہوں یا شر جو وہ انجام دیتے ہیں یا نہیں دیتے مجبو ر ،ان پر نہیں ہیں، ان دو نوں کی مثال ایک تندرست و صحت مند ، با لغ و قوی جوان اور کمر خمیدہ بوڑھے مر د کی سی ہے: پہلا جسما نی شہو ت میں غرق اور نفسانی خوا ہشا ت تک پہنچنے کا خواہاں ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے یہا ں جو انی کی قوت ختم ہو چکی ہے اور جسمانی شہو ت کا تارک ہے! ایسے حال میں واضح ہے کہ کمر خمیدہ مرد '' زنا ''نہیں کر سکتا اور وہ جوان جس کی جنسی تو انا ٰئی اوج پر ہے وہ زنا کرنے پر مجبو ر بھی نہیں کہ مجبوری کی حالت میں وہ ایسے نا پسندیدہ فعل کا مر تکب ہو تومعذور کہلا ئے، بلکہ اگر زنا کا مو قع اور ما حو ل فر اہم ہو اور وہ ''خا ف مقا م ربہ'' اپنے رب کے حضور سے خو فز دہ ہو، ( ونھیٰ النفس عن الھوی) اور اپنے نفس کو بیجا خو اہشوں سے رو ک رکھے تو( فاِنّ الجنة ھی المأویٰ) یقینا اس کا ٹھکا نہ بہشت ہے۔( ۲ )

اس طرح ہم اگر انسان کی زندگی کے پہلؤوں کی تحقیق کر یں اور ان کے بارے میں غور و فکر کر یں، تو اسے اپنے امور میں صا حب اختیا ر پا ئیں گے، جز ان امور کے جو غفلت اور عدم آگا ہی کی بنیا د پر صا در ہوتے ہیں اور اخروی آثا ر نہیںرکھتے ہیں ۔

یہاں تک مباحث کی بنیاد قرآن کر یم کی آیات کی روشنی میں '' عقائد اسلام '' کے بیان پر تھی آئندہ بحثوں میں انشاء ﷲ خدا کے اذ ن سے مبلغین الٰہی کی سیرت کی قرآ ن کریم کی رو سے تحقیق و بررسی کر یں گے اور جس قدر توریت ،انجیل اور سیرت کی کتابوں سے قرآن کریم کی آیات کی تشریح و تبیین میں مفید پا ئیں گے ذکر کر یں گے۔

''الحمد لله ربّ العا لمین''

____________________

(۱)زیادکے الحاق ( معاویہ کا اسے اپنا پدری بھائی بنانے ) کی بحث آپ کتاب عبدﷲ بن سبا کی جلد اول میں ، اور شہادت امام حسین کی بحث معالم المدر ستین کی جلد ۳ میں ملاحظہ کریں. (۲)سورۂ ناز عا ت کی چا لیسویں آیت ''و امّا من خاف...'' سے اقتبا س ہے.

۱۸۵

(۹)

ملحقات

اسلا می عقا ئد میں بحث و تحقیق کے راستے اور راہ اہل بیت کی فوقیت و بر تری( ۱ )

اسلا می عقا ئد ہمیشہ مسلما نوں اور اسلامی محققین کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں اور تمام مسلما نو ں کا نظر یہ یہ ہے کہ اسلا می عقا ئد کا مر جع قرآ ن اور حدیث ہی ہے ، وہ اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود گز شتہ زمانے میں صدیو ں سے، مختلف وجوہ اور متعدد اسباب( ۲ ) کی بنا پر مختلف خیا لات اور نظریات اسلا می عقائد کے سلسلہ میں پیدا ہوئے کہ ان میں بعض اسباب کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ بحث وتحقیق اور استنبا ط کے طریقے اور روش میں اختلا ف.

۲۔ علما ئے یہو د و نصا ریٰ (احبار و رہبا ن)کا مسلما نو ں کی صفو ں میں نفو ذ اور رخنہ انداز ی اور اسلا می رو ایا ت کا ''اسرا ئیلیا ت''اور جعلی داستانوں سے مخلوط ہونا۔

۳۔ بد عتیں اور اسلا می نصو ص کی غلط اور نا درست تا ویلیں اور تفسیر یں۔

۴۔سیا سی رجحا نا ت اور قبا ئلی جھگڑے۔

۵۔ اسلا می نصوص سے ناواقفیت اور بے اعتنا ئی ۔

ہم اس مقا لہ میں سب سے پہلے سبب '' راہ اور روش میں اختلا ف ''کی تحقیق وبر رسی کر یں گے اور اسلامی عقائد کی تحقیق و بر رسی میں جو مو جو دہ طریقے اور را ہیں ہیں ان کا اہل بیت کی راہ و روش سے موازنہ کر کے قا رئین کے حو الے کر یں گے ، نیز آخری روش کی فو قیت وضا حت کے ساتھ بیان کر یں گے ۔

____________________

(۱) مجمع جہانی اہل البیت ، تہران کے نشریہ رسالة الثقلین نامی مجلہ میں آقا شیخ عباس علی براتی کے مقالہ کا ترجمہ ملاحظہ ہونمبر ۱۰، سال سوم ۱۴۱۵ ھ، ق.(۲) مقدمہ کتاب '' فی علم الکتاب '' : ڈاکٹر احمد محمود صبحی ج۱، ص ۴۶پانچواں ایڈیشن، بیروت، ۱۴۰۵ھ، ۱۹۸۵ ئ.

۱۸۶

عقید تی اختلا فا ت اور اس کی بنیاد اور تا ریخ

مسلما نوں کے درمیا ن فکر ی اور عقید تی اختلا ف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی ظا ہر ہو چکا تھا ،لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ، کلامی اور فکر ی مکا تب و مذاہب کے وجو د کا سبب قرار پائے، کیو نکہ رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنفس نفیس اس کا تدارک کرتے تھے اور اس کے پھیلنے کی گنجا ئش با قی نہیں ر کھتے تھے ، بالخصوص روح صدا قت وبرا دری، اخوت و محبت اس طرح سے اسلامی معاشرہ پر حا کم تھی کہ تا ریخ میں بے مثا ل یا کم نظیر ہے۔

نمو نہ کے طور پر اورانسا نو ں کی سر نو شت '' قدر'' کا مو ضو ع تھا جس نے پیغمبر کے اصحا ب اور انصا ر کے ذہن و فکر کو مکمل طور پر اپنے میں حصار میں لے لیا تھا اور انھیں اس کے متعلق بحث کر نے پر مجبور کردیا تھا ، یہاں تک کہ آخر میں بات جنگ و جدا ل اور جھگڑے تک پہنچ گئی جھگڑے کی آ واز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کان سے ٹکر ائی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (جیسا کہ حدیث کی کتا بو ں میں ذ کر ہوا ہے) اس طرح سے ان لو گو ں کو اس مو ضو ع کے آگے بڑھانے کے عواقب و انجام سے ڈرایا:

احمد ابن حنبل نے عمر و بن شعیب سے اس نے اپنے با پ سے اور اس نے اپنے جد سے رو ایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : ایک دن رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھر سے باہر نکلے تو لو گو ں کو قدر کے مو ضو ع پر گفتگو کرتے دیکھا،راو ی کہتا ہے : پیغمبر اکر م کے چہر ہ کا رنگ غیظ و غضب کی شدت سے اس طرح سر خ ہو گیا تھا، گو یا انار کے دانے ان کے رخسا ر مبارک پربکھرے ہوئے ہو ں! فر مایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کتاب خدا کی جر ح وتعدیل اور تجزیہ و تحلیل کر رہے ہو اسکے بعض حصّہ کا بعض سے مو از نہ کر رہے ہو( اس کی نفی و اثبات کرر ہے ہو )؟ تم سے پہلے وا لے افراد انہی کا موں کی و جہ سے نا بو د ہو گئے ہیں۔( ۱ )

قرآن کر یم اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں اسلامی عقا ئد کے اصو ل اور اس کے بنیادی مبا نی بطو ر کلی امت اسلام کے لئے بیا ن کیے گئے ہیںبعد میں بعض سو الات اس لئے پیش آئے کہ ( ظا ہر اً)قرآن و سنت میں ان کا صریح اور واضح جو اب ان لوگوںکے پاس نہیں تھا اورمسلمان اجتہا د و استنبا ط کے محتا ج ہو ئے تو یہ ذ مہ داری عقا ئد و احکام میں فقہا ء و مجتہد ین کے کا ند ھوں پر آئی، اس لئے اصحا ب پیغمبر بھی کبھی کبھی اعتقا دی مسا ئل میں ایک دوسرے سے اختلا ف رائے ر کھتے تھے ، اگر چہ پیغمبر کی حیات میں ان کے اختلاف کے آثا ر و نتائج، بعد کے

____________________

(۱)مسند احمد ج۳،ص۱۷۸تا ۱۹۶.

۱۸۷

زمانوں میں ان کے اختلاف کے آثار و نتائج سے مختلف تھے ،کیو نکہ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی حیات میں خو د ہی ان کے درمیا ن قضا وت کر تے تھے اور اپنی را ہنما ئی سے اختلا ف کی بنیا د کواکھاڑ دیتے تھے !( ۱ )

لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد لو گ مجبو ر ہو ئے کہ کسی صحا بی یا ان کے ایک گروہ سے( جوکہ خلفا ء و حکا م کے بر گز یدہ تھے) اجتہا د کا سہا را لیں اور ان سے قضا وت طلب کر یں جب کہ دو سرے اصحا ب اپنے آرا ء ونظریات کو محفو ظ ر کھتے تھے ( اور یہ خو د ہی اختلا ف میں اضا فہ کا سبب بنا ) اس اختلا ف کے واضح نمونے مند ر جہ ذ یل باتیں ہیں۔

۱۔ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفا ت کے بعد امت کا خلا فت اور اما مت کے بارے میں اختلاف۔( ۲ )

۲۔ زکو ة نہ دینے وا لو ں کا قتل اور یہ کہ آیا زکو ة نہ دینا ارتد اد اور دین سے خا رج ہو نے کا با عث ہے یا نہیں؟اس طرح سے ہر اختلا ف،خاص آراء و خیا لا ت ، گروہ اور کلا می اور اعتقا دی مکا تب کی پید ائش کا سر چشمہ بن گیاجس کے نتیجہ میں ہر ایک اس رو ش کے ساتھ جو اس نے استد لا ل و استنبا ط میں اختیا ر کی تھی اپنے آ را ء و عقا ئد کی تر ویج و تد وین میں مشغول ہوگیا ، ہما ری تحقیق کے مطا بق ان مکا تب میں اہم تر ین مکاتب مند ر جہ ذیل ہیں :

۱۔خالص نقلی مکتب۔

۲۔ خالص عقلی مکتب

۳۔ ذو قی و اشراقی مکتب

۴۔ حسّی و تجر بی مکتب

۵۔ فطر ی مکتب

الف ۔ خالص نقلی مکتب:

'' احمد ابن حنبل'' حبنلی مذ ہب کے امام ( متو فی ۲۴۱ ھ) اپنے زمانے میں اس مکتب کے پیشوا اور پیشر و شما ر کئے جاتے تھے، یہ مکتب ،اہل حد یث ( اخبار یین عا مہ) کے مکتب کے مانند ہے: ان لو گو ں کارو ایات

____________________

(۱)سیرہ ٔ ابن ہشام ، ص ۳۴۱،۳۴۲ ،اورڈاکٹرمحمد حمیدﷲ مجموعة الوثائق السیاسةج۱،ص۷.(۲)اشعری '' مقا لات الاسلامیین و اختلاف المصلین '' ج ۱، ص ۳۴، ۳۹ اور ابن حزم '' الفصل فی الملل والاہواء والنحل '' ج ۲، ص ۱۱۱ اور احمد امین '' فجر الاسلام ''.

۱۸۸

کی حفا ظت وپا سدا ری نیز ان کے نقل کر نے کے علا وہ کوئی کام نہ تھااوران کے مطا لب میں تد بر اور غور خوض کرنے نیزصحیح کو غلط سے جدا کرنے سے انھیںکوئی تعلق نہ تھا ،اس طرح کی جہت گیر ی کو آخری زمانوں میں ''سلفیہ'' کہتے ہیں، اور فقہ میں اہل سنت کے حنبلی مذہب والے میں اس روش کی پیر وی کرتے ہیں، وہ لوگ دینی مسا ئل میں رائے و نظر کو حرام( سبب و علت کے بارے میں ) سوال کو بدعت اور تحقیق اور استد لال کو بدعت پرستی اورہوا پر ستوں کے مقا بلے میں عقب نشینی جانتے ہیں، اس گروہ نے اپنی سا ری طاقت سنت کے تعقل وتفکرسے خالی درس و بحث پر وقف کر دی اوراس کو سنت کی پیر وی کرنااوراس کے علاوہ کو ''بد عت پرستی'' کہتے ہیں۔

ان کی سب سے زیادہ اور عظیم تر ین کو شش و تلا ش یہ ہے کہ اعتقا دی مسا ئل سے مر بو ط احا دیث کی تدوین اور جمع بندی کرکے اس کے الفا ظ و کلما ت اور اسنا د کی شر ح کریں جیسا کہ بخا ر ی ، احمد ابن حنبل ، ابن خز یمہ، بیہقی اور ابن بطّہ نے کیا ہے، وہ یہاںتک آگے بڑھ گئے کہ عقید تی مسا ئل میں علم کلا م اور عقلی نظر یا ت کو حرا م قراردے دیا،ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں مخصوص رسا لہ بھی تد وین کیا ، جیسے ابن قدامہ نے''تحریم النظر فی علم الکلا م''نا می رسا لہ تحریر کیا ہے۔

احمد ابن حنبل نے کہا ہے: اہل کلام کبھی کا میاب نہیں ہو ں گے ، ممکن نہیں کہ کوئی کلام یا کلامی نظر یہ کا حامل ہو اور اس کے دل میں مکر و حیلہ نہ ہو،اس نے متکلمین کی اس درجہ بد گو ئی کی کہ حا رث محا سبی جیسے (زا ہد و پرہیز گا ر) انسا ن سے بھی دور ہو گیا اور اس سے کنا رہ کشی اختیا ر کر لی، کیو نکہ اس نے بد عت پرست افراد کی رد میں کتا ب تصنیف کی تھی احمد نے اس سے کہا : تم پر وا ئے ہو! کیا تم پہلے ان کی بد عتوں کا ذکر نہیں کروگے تاکہ بعد میں اس کی رد کر و؟ کیا تم اس نوشتہ سے لوگوں کو بد عتوں کا مطا لعہ اور شبہو ں میں غو ر و فکر کرنے پر مجبور نہیں کروگے یہ بذات خود ان لو گو ں کو تلا ش و جستجو اورفکرونظر کی دعوت دینا ہے۔

احمد بن حنبل نے یہ بھی کہا ہے: علما ئے کلا م ز ند یق اور تخریب کا ر ہیں۔

زعفرا نی کہتا ہے :شا فعی نے کہا : اہل کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انھیں کھجور کی شاخ سے زدو کوب کرکے عشا ئر اور قبا ئل کے درمیا ن گھما ئیں اور کہیں: یہ سزا اس شخص کی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام سے وابستہ ہوگیا ہے!

تمام اہل حدیث سلفیو ں(اخبار یین عا مہ) کا اس سلسلہ میں متفقہ فیصلہ ہے اور متکلمین کے مقا بل ان کے عمل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا لوگوں نے نقل کیا ہے، یہ لو گ کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب باوجو د یکہ حقائق کے سب سے زیا دہ عا لم اور گفتا ر میں دوسرو ں سے زیا دہ محکم تھے، انہوں نے عقائد سے متعلق با ت کر نے میں اجتنا ب نہیں کیا مگر صرف اس لئے کہ وہ جا نتے تھے کہ کلام سے شر و فسا د پیدا ہوگا۔ یہی و جہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ہی جملے کی تین با ر تکرا ر کی اور فر مایا :

۱۸۹

(هلک المتعمقون، هلک المتعمقون ،هلک المتعمقون )

غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے والے ہلا ک ہو گئے، یعنی (دینی) مسا ئل گہرائی کے ساتھ غور و فکر کر نے والے ہلا ک ہوگئے!

یہ گروہ(اخبا ریین عا مہ) عقیدہ میں تجسیم اور تشبیہ(یعنی خدا کے جسم اور شبا ہت) کا قائل ہے ، '' ْقدر'' اور سر نوشت کے ناقابل تغییر ہونے اور انسا ن کے مسلو ب الا را دہ ہونے کا معتقدہے۔( ۱ )

یہ لو گ عقا ئد میں تقلید کو جا ئز جا نتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں را ئے و نظر کو جیسا کہ گز ر چکا ہے حرام سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد محمود صبحی فر ماتے ہیں:

'' با وجو د یکہ عقا ئد میں تقلید- عبد ﷲ بن حسن عنبری، حشویہ اور تعلیمیہ( ۲ ) کے نظریہ کے بر خلا ف نہ ممکن ہے اور نہ جائز ہے،یہی نظریہ ''محصل '' میں فخر رازی کا ہے( ۳ )

اورجمہو ر کا نظریہ یہ ہے کہ عقائد میں تقلیدجائز نہیں ہے اور استاد ابو اسحا ق نے ''شرح التر تیب'' میں اس کی نسبت اجماع اہل حق اور اس کے علاوہ کی طرف دی ہے اور امام الحرمین نے کتاب''الشامل'' میں کہا ہے کہ حنبلیوں کے علا وہ کو ئی بھی عقائد میں تقلید کا قائل نہیں ہے ، اس کے با وجود ، امام شو کا نی نے لو گو ں پر عقائد میں غور و فکر کو واجب جاننے کو''تکلیف مالایطاق'' (ایسی تکلیف جو قدرت و توانائی سے باہر ہو) سے تعبیر کیا ہے، وہ بزرگان دین کے نظریات اور اقوال پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی پناہ !یہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں یقیناً یہ ، لوگوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے کہ امت مرحومہ کو ایسی چیز کا مکلف بنایا جائے جس کی ان میں قدرت نہیں ہے،(کیا ا یسا نہیں ہے ) وہی صحا بہ کا حملی اور تقلیدی ایمان جو اجتہا د و نظر کی منزل تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس سے نزدیک بھی نہیں ہوئے تھے ، ان کے لئے کافی ہو ؟۔

____________________

(۱)صابونی ؛ ابو عثمان اسماعیل ؛رسالة عقیدةالسلف و اصحاب الحدیث(فی الرسائل المنیرة).

(۲)آمری؛ ''الاحکام فی اصول الاحکام'' ،ج۴ ، ص ۳۰۰.

(۳)شوکانی: '' ارشاد الفحول '' ص۲۶۶-۲۶۷.

۱۹۰

انھوں نے اس سلسلے میں نظر دینے کو بہت سارے لو گو ں پر حرا م اور اس کو گمرا ہی اور نا دانی میں شما ر کیا ہے ۔( ۱ )

اس لحا ظ سے ان کے نز دیک علم منطق بھی حرا م ہے اور ان کے نزدیک منطق انسانی شنا خت اور معرفت تک رسا ئی کی رو ش بھی شما ر نہیں ہو تی ہے، با وجودیکہ علم منطق ایک مشہو ر ترین اور قدیم تر ین مقیاس و معیا ر ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کو ارسطو نے'' ار غنو ن'' نامی کتاب میں تد وین کیا ہے اور اس کا نام علم سنجش و میز ان رکھا ہے۔

اس روش کو اپنا نے والوں کی نظر میں تنہا علم منطق ذہن کو خطا و غلط فہمی سے محفو ظ رکھنے کے لئے کا فی نہیں ہے ،یہ لوگ کہتے ہیں بہت سارے اسلامی مفکرین جیسے کندی .فا رابی، ابن سینا ، امام غزالی ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد علم منطق میں ممتا ز حیثیت کے مالک ہیں، لیکن آرا ء وافکا ر اور نظریاتمیں آپس میں شد ید اور بنیا دی اختلا فات کا شکا ر ہو گئے ہیں،لہٰذا منطق حق و با طل کی میزان نہیں ہے ۔

البتہ آخری دورمیں اس گروہ کا موقف علم منطق اور علم کلا م کے مقابلہ میں بہت نرم ہو گیا تھا جیسے ابن تیمیہ کے موقف کو علم کلام کے مقا بل مضطرب دیکھتے ہیں ،وہ علم کلام کو کلی طور پر حرا م نہیں کرتا بلکہ اگر ضرو رت اقتضا ء کرے اور کلا م عقلی اور شرعی دلائل پر مستند ہو اور تخریب کا روں، زند یقوں اور ملحدوں کے شبہو ں کو جدا کرنے کا سبب ہو توا سے جائز سمجھتا ہے۔( ۲ )

اس کے با وجود اس نے منطق کو حرا م کیا اور اس کی ردّ میں '' رسا لة الر د علیٰ المنطقین'' نا می رسا لہ لکھا ہے: اور اس کے پیرو کہتے ہیں:'' ڈیکا رٹ فر انسیسی''(۱۵۹۶۔۱۶۵۰ئ) نے خطا وصوا ب کی تشخیص کے لئے ارسطا طا لیس کی منطق کے بجا ئے ایک نئی میزا ن اور معیا ر اخترا ع کیا اور تا کید کی کہ اگر انسا ن اپنے تفکر میں قدم بہ قدم اس کے اختر اعی مقیا س کو اپنا ئے تو صواب کے علا وہ کو ئی اور راہ نہیں پا ئے گا'' ڈکا رٹ'' کی رو ش کا استعمال کر نا یقین آور نتیجہ دیتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دورمعاصرمیں ڈکا رٹ کی روش سے جو امیدیں جاگیں تھیں ان کا حال بھی منطق ارسطو سے پائی جانے والی امیدوںکی طرح رہا اور میلاد مسیح سے لے کر اب تک کے موضوع بحث مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہ گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) امام جوینی: '' الار شاد الی قواطع الادلة '' ص۲۵، غزالی '' الجام العوام عن العلم الکلام '' ص ۶۶، ۶۷.ڈاکٹر احمد محمود صبحی : '' فی علم الکلام'' مقدمہ ٔ جلد اول

(۲)ابن تیمیہ :''مجموع الفتاوی ''ج۳ ،ص ۳۰۶ ، ۳۰۷.(۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود : '' التوحید الخالص'' ، ص ۵تا ۲۰.

۱۹۱

یہ و ہی چیز ہے جس کے باعث بہت سارے پہلے کے مسلما ن مفکر ین منجملہ امام غزا لی(۴۵۰۔۵۰۵ھ) روش عقلی کے ترک کر نے اور اسے مطر ود قرار دینے کے قا ئل ہوئے ، غز الی اپنی کتا ب ( تھا فة الفلاسفہ) میں عقلی دلا ئل سے فلسفیوں کے آراء و خیا لا ت کو باطل اور رد کرتا ہے ، غزالی کی اس کتاب میں دقت ا س بات کی گواہ ہے کہ وہ عقل جو کہ دلا ئل کا مبنیٰ ہے، وہی عقل ہے جو ان سب کو برباد کر دیتی ہے۔

غزالی ثابت کرتاہے کہ عالم الٰہیات اور اخلا ق میں انسا نی عقل سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حا صل ہونے والا نہیں ہے۔

اسلامی فلسفی ابن رشد اند لسی(متوفی ۔۵۹۵ھ) نے اپنی کتاب ( تھا فةالتہافت) میں غزا لی کے آراء و خیا لات کی رد کی ہے ، ابن رشد وہ شخص ہے جو اثبا ت کرتا ہے کہ عقل صریح اور نقل صحیح کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی تعا رض نہیں ہے ، اوریہ بات ا س کی کتاب (فصل المقال بین الحکمة و الشر یعة من الا تصا ل) سے واضح ہو تی ہے ، حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اس موقف میں '' ابن تیمیہ'' کے ساتھ اپنی کتاب ( عقل صریح کی نقل صحیح سے مو افقت) میں ایک نتیجہ پر پہنچے ہیں۔

پھر ابن تیمیہ کے دو نوں موقف: '' عقلی روش سے مخالفت اور عقل صریح کے حکم سے موافقت''کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ نہیں معلوم ۔

مکتب خلفا ء کے اہل حدیث اور مکتب اہل بیت کے اخباریوں کی روش ؛ نصوص شر عی،آیات وروا یات کے ظواہر کی پیروی کرنا اوررائے و قیا س سے حتی الامکان اجتناب کرنا ہے۔( ۱ ) ( سلفی مکتب) یا اہل حدیث کا مر کز اس وقت جز یرة العر ب (نجد کا علا قہ) ہے نیز ان کے کچھ گروہ عرا ق، شام اور مصر میں بھی پا ئے جاتے ہیں۔( ۲ )

ب: خالص عقلی مکتب

اس مکتب کے ماننے وا لے عقل انسا نی کی عظمت و شان پر تکیہ کر تے ہو ئے، شنا خت و معر فت کے اسباب و وسا ئل کے مانند، دوسروں سے ممتاز اور الگ ہیں ، یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے ''مکتب رائے''کے ماننے والے اور عقیدہ میں ''معتز لہ '' کہلاتے ہیں ۔

____________________

(۱) شیخ مفید ، '' اوائل المقالات ''؛سیوطی'' صون المنطق والکلام عن علمی المنطق والکلام'' ص ۲۵۲.شوکانی : ارشاد الفحول ؛ ص ۲۰۲ ؛ علی سامی النشار : ''مناھج البحث عند مفکری الاسلام''ص ۱۹۴ تا ۱۹۵،علی حسین الجابری ،الفکرالسلفی عند الاثنی عشر یہ ،ص ۱۵۴، ۱۶۷، ۲۰۴ ، ۲۴۰ ، ۴۲۴، ۴۳۹ .(۲)قاسمی '' تاریخ الجہمیہ والمعتزلة ''ص ۵۶۔ ۵۷.

۱۹۲

اس مکتب کی پیدائش تاریخ اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہوئی ہے ، سب سے پہلے مکتب اعتزال کی بنیاد'' واصل ابن عطا( ۸۰ھ، ۱۳۱ ھ) اور اس کے ہم کلا س '' عمر و بن عبید''( ۸۰ ھ۔ ۱۴۴ھ) منصور دوا نقی کے معاصر نے ڈالی ، اس کے بعد مامون عباسی کے وزیر'' ابی داؤد''اور قاضی عبد الجبا ر بن احمدہمدا نی،متوفی ۴۱۵''جیسے کچھ پیشوا اس مکتب نے پیدا کئے اس گروہ کے بزرگوں میں '' نظّا م''''ابو ہذ یل علاّف''''جا حظ'' اور جبا ئیان کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اس نظر یہ نے انسا نی عقل کو بہت اہمیت دی ،خدا وند سبحا ن اور اس کے صفات کی شناخت اور معرفت میں اسے اہم ترین اور قوی ترین شما ر کرتا ہے، شریعت اسلامی کا ادراک اور اس کی تطبیق و موا زنہ اس گروہ کی نگاہ میں ، عقل انسا نی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔

یہ مکتب ( معتز لہ) ہمارے زمانے میں اس نام سے اپنے پیرو اور یار ویاور نہیں رکھتا صرف ا ن کے بعض افکار'' زید یہ'' اور ابا ضیہ فرقے میں دا خل ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ'' معتزلہ'' کے ساتھ بعض افکار ونظریات میں شر یک ہیں اسی طرح '' معتز لہ'' شیعہ اثنا عشری اور اسما علیہ کے ساتھ بعض جو انب کے لحاظ سے ایک ہیں ،اہل حدیث( اخباریین عا مہ) نے'' معتزلہ'' کواس لحا ظ سے کہ ارادہ اور انتخاب میں انسان کی آزا دی کے قا ئل ہیں'' قدر یہ'' کالقب دیا ہے۔

عقائد میں ان کی سب سے اہم کتاب'' شر ح الاصول الخمسة'' قا ضی عبد الجبا ر معتزلی کی تا لیف اور ''رسائل العدل والتو حید'' ہے جو کہ معتز لہ کے رہبروں کے ایک گروہ جیسے حسن بصری ، قاسم رسی اور عبد الجبا ر بن احمد کی تالیف کردہ کتاب ہے۔

معتزلہ ایسے تھے کہ جب بھی ایسی قرا نی آیات نیز مروی سنت سے رو برو ہو تے تھے جو ان کے عقائد کے بر خلا ف ہو تی تھی اس کی تا ویل کرتے تھے اسی لئے انھیں '' مکتب تاویل'' کے ماننے والوں میں شما ر کیا جاتاہے، اس کے با وجود ان لوگوں نے اسلام کیلئے عظیم خد متیں انجام دی ہیں اور عباسی دور کے آغا ز میں جب کہ اسلام کے خلاف زبردست فکری اور ثقا فتی یلغا ر تھی اس کے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ، بعض خلفاء جیسے'' مامون'' اور'' معتصم ''ان سے منسلک ہو گئے ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی'' متو کل'' کے زمانے میں قضیہ برعکس ہو گیا اور ان کے نقصا ن پر تمام ہو ا اور کفر و گمرا ہی اور فسق کے احکا م یکے بعد دیگرے ان کے خلا ف صادر ہوئے، بالکل اسی طرح جس طرح خود یہ لوگ درباروں پر اپنے غلبہ و اقتدار کے زمانے میں اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے تھے اور جو ان کے آراء و نظریات کوقبول نہیں کرتے تھے انھیں اذیت و آزار دیتے تھے۔

۱۹۳

اس کی مزید وضاحت معتزلہ کے متعلق جد ید اور قدیم تا لیفا ت میں ملا حظہ کیجئے ۔( ۱ )

فرقۂ معتز لہ حسب ذیل پانچ اصول سے معروف و مشہور ہے :

۱۔توحید، اس معنی میں کہ خدا وند عالم مخلو قین کے صفات سے منزہ ہے اور نگا ہوں سے خدا کو دیکھنا بطور مطلق ممکن نہیں ہے ۔

۲۔ عدل، یعنی خدا وند سبحا ن نے اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا ہے اور اپنی مخلو قات کو گناہ کر نے پر مجبور نہیں کرتا ہے

۳۔ ''المنز لة بین المنز لتین''

یعنی جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے نہ مو من ہے نہ کافر بلکہ فا سق ہے۔

۴۔ وعدو وعید، یعنی خدا پر واجب ہے کہ جو وعدہ ( بہشت کی خو شخبری) اور وعید ( جہنم سے ڈرا نا) مومنین اور کا فرین سے کیا ہے اسے وفا کرے۔

۵۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ظالم حکام جو اپنے ظلم سے باز نہیں آ تے ،ان کی مخا لفت وا جب ہے۔( ۲ )

مکتب اشعر ی :ما تر یدی یا اہل سنت میں متوسط راہ

'' مکتب اشعر ی'' کہ آج زیا دہ تر اہل سنت اسی مکتب کے ہم خیال ہیں،'' معتزلہ مکتب'' اور اہل حدیث کے درمیان کا راستہ ہے ، اس کے بانی شیخ ابو الحسن اشعر ی(متوفی ۳۲۴ ھ ) خودابتدا میں ( چا لیس سال تک) معتز لی مذ ہب رکھتے تھے ،لیکن تقریبا ۳۰۰ ھ کے آس پاس جا مع بصرہ کے منبر پر جا کر مذ ہب اعتزا ل سے بیزا ری اور مذہب سنت وجما عت کی طر ف لوٹنے کا اعلان کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ایک میا نہ اور معتدل روش جو کہ معتزلہ کی عقلی روش اور اہل حد یث کی نقلی روش سے مرکب ہو ، لوگوں کے درمیان عام

____________________

(۱)زھدی حسن جار ﷲ:( المعتز لة) طبع بیروت، دار الا ھلےة للنشر و التو زیع، ۱۹۷۴ ئ.

(۲) قاسم رسی،'' رسا ئل العدل و التو حید و نفی التشبیہ عن ﷲ الوا حد الصمد'' ج،۱،ص ۱۰۵۔

۱۹۴

کریں، وہ اسی تگ ودو میں لگ گئے، تا کہ مکتب اہل حدیث کو تقو یت پہنچائیں اور اس کی تائید و نصرت کریں، لیکن یہ کام معتزلہ کی اسی بروش یعنی : عقلی اور بر ہا نی استد لا ل سے انجام دیاکرتے تھے اس وجہ سے معتز لہ اور اہل حدیث کے نز دیک مردود و مطرود ہو گئے اور دونو ں گر وہوں میں سے ہر ایک اب تک اہم اور اساسی اعترا ضا ت وارد کر کے ا ن کی روش کو انحرا فی اور گمراہ کن جانتا ہے، یہا ں تک کہ ان کے بعض شد ت پسند وں نے ان کے کفر کا فتویٰ د ے دیا ۔

ایک دوسرا عالم جو کہ اشعری کا معاصر تھا ، بغیر اس کے کہ اس سے کو ئی را بطہ اورتعلق ہو،اس بات کی کوشش کی کہ اسی راہ وروش کو انتخاب کر کے اسے با قی رکھے اور آگے بڑھائے ، وہ ابو منصور ما تر ید ی سمرقندی(متوفی ۳۳۳ھ) ہے وہ بھی اہل سنت کے ایک گروہ کا عقید تی پیشوا ہے، یہ دو نو ں رہبرمجمو عی طور پر آپس میں آراء و نظریات میں اختلا ف بھی رکھتے ہیں بعض لوگو ں نے ان میں سے اہم ترین اختلاف کو گیا رہ تک ذکرکیا ہے ۔( ۱ )

اشعر ی مکتب کی سب سے اہم خصو صیت یہ ہے کہ ایک طرف آیات و روایات کے ظا ہری معنی کی تاویل سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتا ہے، دوسری طرف کوشش کرتا ہے کہ''بلا کیف'' کے قول کے ذریعہ یعنی یہ کہ با ری تعا لیٰ کے صفا ت میں کیفیت کا گزر نہیں ہے '' تشبیہ و تجسیم'' کے ہلا کت بار گڈ ھے میں سے فرار کرتا ہے اور'' با لکسب'' کے قول سے یعنی یہ کہ انسان اپنے کردار میں جو کچھ انجام دیتا ہے کسب کے ذریعہ ہے نہ اقدا م کے ذریعہ ''جبر'' کی دلدل میں پھنسنے سے دوری اختیار کر تا ہے، اگر چہ علماء کے ایک گروہ کی نظر میں یہ روش بھی فکری واعتقا دی مسا ئل کے حل کے لئے نا کافی اور ضعیف و ناتواں شمار کی گئی ہے ،'' اشعری مکتب'' نے تدریجا ً اپنے استقلا ل اور ثبات قدم میں اضا فہ کیا ہے اور اہل حدیث ( اخبا ریین عا مہ) کے بالمقابل استقا مت کا مظا ہر ہ کیا اور عا لم اسلام میں پھیل گیا۔( ۲ )

____________________

(۱)دیکھئے: محمد ابو زہر ہ؛ '' تاریخ المذ اھب الاسلا مےة'' قسم الا شا عرہ و الما تر یدےة، آےة ﷲ شیخ جعفر سبحانی ، ا لملل والنحل، ج، ۱،۲، ۴، الفر د بل : ( الفرق الا سلا مےة فی الشما ل الا فر یقی) ص ۱۱۸۔ ۱۳۰، احمد محمود صبحی: ( فی علم الکلا م)

(۲)سبکی : ''الطبقات الشافعیة ج ۳، ص ۳۹۱ الیافعی '' مرآة الجنان '' ج ۳، ص۳۴۳. ابن کثیر ؛ '' البدایة والنہایة '' ج ۱۴، ص ۷۶.

۱۹۵

ج:۔ ذو قی و اشر اقی مکتب

بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں اور ایک علیحدہ اور جدا گانہ روش کہ جس میں کلامی مسائل جن کا اپنے

محور بحث اور منا قشہ ہے ان سے آزاد ہو کر صو فیوں کے رمزی اور عشقی مسلک کی پیروی کرتے ہیں، یہ مسلک تمام پہلؤوں میں فلسفیو ں اور متکلمین کی روش کا جوکہ عقل و نقل پر استوار ہے، مخا لف رہا ہے.'' منصور حلاج'' (متوفی ۳۰۹ھ) کوبغدا د میں اس مذ ہب کا با نی اور '' امام غزا لی'' کو اس کا عظیم رہبر شمار کیا ہے، غزالی اپنی کتاب''الجام العوا م عن علم الکلا م'' میں کہتا ہے ! یہ راہ '' خواص'' اوربر گز یدہ افراد کی راہ ہے اور اس راہ کے علاوہ( کلام و فلسفہ وغیرہ)''عوام'' اور کمتر در جے وا لوں نیزان لوگو ں کی راہ ہے جن کے اور عوام کے درمیان فرق صرف ادلہ کے جاننے میں ہے اور صرف ادلہّ سے آگا ہی استد لال نہیں ہے۔( ۱ )

بعض محققین نے عقائد اسلامی کے دریا فت کرنے میں امام غزالی اور صو فیوں کی روش کے بارے میں مخصوص کتا ب تا لیف کی ہے ۔( ۲ ) ڈاکٹر صبحی، غزا لی کی راہ و روش کو صحیح درک کر نے کے بعد کہتے ہیں:

اگر چہ غزالی ذا ت خدا وندی کی حقیقت کے بارے میں غو ر و خوض کرنے کو عوام پر حرا م جانتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ان کے متعلق کوئی انکار نہیں کرتا ، لیکن انھوں نے اد بائ، نحو یوں، محد ثین ،فقہاء اور متکلمین کو عوام کی صف میں قرار دیا ہے اور تاویل کو راسخون فی العلم میں محدود و منحصر جا نا ہے اور وہ لوگ ان کی نظر میں اولیا ء ہیں جو معرفت کے دریا میں غر ق اور نفسانی خواہشات سے منزہ ہیں اور یہ عبارت بعض محققین کے اس دعویٰ کی صحت پر خود ہی قر ینہ ہے کہ'' غزا لی'' حکمت اشرا قی و ذوقی وغیرہ... میں ایک مخصوص اور مرموز عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ان کے عام اور آشکار اعتقاد کے مغائر ہے کہ جس کی بنا ء پروہ لوگو ں کے نز دیک حجةالاسلام کی منزل پر فا ئز ہوئے ۔

ڈ اکٹر صبحی سوال کرتے ہیں:

کیا حقیقت میں را سخون فی العلم صرف صو فی حضرا ت ہیں اور فقہا ئ، مفسر ین اور متکلمین حضرات ان سے خارج ہیں؟!

اگر ایسا ہے کہ فن کلام کی پیدا ئش اور اس کے ظاہر ہو نے سے برائیوں میں اضافہ ہوا ہے توکیا یہ استثنائ(صرف صو فیوںکو را سخون فی العلم جاننا ) ان کے لئے ایک خاص مو قع فراہم نہیں کرتا ہے کہ وہ اس خاص موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نا روا دعوے اور نازیباگستا خیا ں کریں؟

____________________

(۱)''الجام العوام عن علم الکلام '' ص ۶۶تا ۶۷.

(۲) ڈاکٹر سلیمان دنیا ؛ '' الحقیقة فی نظر الغزالی ''

۱۹۶

تصوف فلسفی کے نظر یات جیسے فیض، اشرا ق اوراس کے ( شرع سے) بیگا نہ اصول بہت زیا دہ واضح ہیں،اور ان کا اسلا می عقائد کے سلسلے میں شر و نقصا ن متکلمین کے شرور سے کسی صورت میں کم نہیں ہے۔( ۱ )

لیکن بہر صورت ، اس گروہ نے اسلامی عقائد میں صو فیا نہ طر ز کے کثرت سے آثا ر چھو ڑے ہیں کہ ان کے نمو نوں میں سے ایک نمو نہ'' فتو حات مکیہ'' نامی کتاب ہے۔( ۲ )

د: حسی و تجر بی مکتب( آج کی اصطلا ح میں علمی مکتب)

یہ روش اسلامی فکر میں ایک نئی روش ہے کہ بعض مسلما ن دا نشو روں نے آخری صدی میں ، یو رپ کے معا صرفکر ی رہبر وںکی پیر وی میں اس کو بنایاہے ، اس روش کا اتباع کر نے والے جد ید مصر، ہند، عرا ق اور ان دیگر اسلا می مما لک میں نظر آتے ہیںجو غرب کے استعما ری تمد ن اور عا لم اسلا م پر وارد ہو نے والی فکری امواج سے متاثر ہوگئے ہیں۔

وہ لوگ انسا نی معرفت و شنا خت کے وسا ئل کے بارے میں مخصوص نظر یات رکھتے ہیں، حسی اور تجر بی رو شوں پر مکمل اعتماد کر نا اور پر انی عقلی راہ وروش اور ارسطو ئی منطق کو با لکل چھو ڑ دینا ان کے اہم خصو صیات میں سے ہے. یہ لوگ کو شش کرتے ہیں کہ'' معا رف الٰہی'' کی بحث اور ما وراء الطبیعت مسا ئل کو'' علوم تجربی''کی رو شوں سے اور میدان حس وعمل میں پیشکریں۔( ۳ )

اس جدید کلامی مکتب کے منجملہ آثار میں سے معجز ات کی تفسیر اس دنیا کی ما دی علتوں کے ذریعہ کرنا ہے ، اور نبو ت کی تفسیر انسا نی نبوغ اورخصو صیا ت سے کرنا ہے، بعض محققین نے ان نظر یات کی تحقیق و بر رسی کے لئے مستقل کتا ب تا لیف کی ہے۔( ۴ )

اس نظریہ کے کچھ نمو نے ہمیں '' سرسید احمد خان ہندی'' کے نو شتوں میں ملتے ہیں اگرانھیں اس مکتب کا پیرو نہ ما نیں ، تب بھی وہ ان لو گوں میں سے ضرور ہیں جو اس نظر یہ سے ہمسوئی اور نزدیکی رکھتے ہیں، اس نزدیکی کا

____________________

(۱) ڈاکٹر احمد محمود صبحی ؛ '' فی علم الکلام '' ج ۲، ص۰۴ ۶تا۶۰۶. (۲) شعرانی عبد الوہاب بن احمد ؛ '' الیواقیت والجواہر فی بیان عقاید الاکابر '' سمیع عاطف الزین ؛ '' الصوفیة فی نظر الاسلام '' تیسرا ایڈیشن ، دار الکتاب اللبنانی ، ۱۴۰۵ ھ ، ۱۹۸۵ ئ. (۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود: '' التو حید الخا لص اوا لا سلا م و العقل'' ، مقدمہ.

(۴)ڈا کٹر عبد الر زّ اق نو فل؛ '' المسلمو ن و العلم الحدیث''. فر ید وجدی؛'' الا سلام فی عصر العلم''.

۱۹۷

سبب بھی یہ ہے کہ انھوں نے غرب کے جد ید دا نشو روں کے آراء و نظریات کو قرآن کی تفسیر میں پیش کرکے اوراپنی تفسیر کو ان نظر یات سے پُر کر کے یہ کو شش کی ہے کہ یہ ثا بت کر یں کہ قرآ ن تمام جد ید انکشا فات سے مو ا فق اور ہماہنگ ہے،سر سیداحمد خا ن ہندی بغیر اس کے کہ اپنے نظریئے کے لئے کوئی حد ومر ز مشخص کریں، اوردینی مسا ئل اور جد ید علمی مبا حث میں اپنا ہد ف، روش اور مو ضو ع واضح کریں، ایک جملہ میں کہتے ہیں:'' پو را قرآ ن علوم تجر بی انکشافات سے مو افق اور ہم آہنگ ہے''۔( ۱)

ھ:اہل بیت کا مکتب راہ فطرت

اس مکتب یعنی راہ فطرت کاخمیر، اہل بیت کی تعلیمات میں مو جو د ہے، ان حضرات نے لوگو ں کے لئے بیا ن کیا ہے :'' اسلامی عقائد کا صحیح طریقہ سے سمجھنا انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطا بقت کے بغیر ممکن نہیں ہے'' اس بیان کی اصل قرآن و سنت میں مو جود ہے ، کیو نکہ قرآ ن کریم جہا ں با طل کا کسی صورت سے گزر نہیں ہے اس میں ذکر ہوا ہے:

(( فطرة ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لایعلمون ) سورہ روم :۳۰.

ﷲ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسا نوں کو خلق کیا ہے ، ﷲ کی آفر ینش میں کوئی تغیر اور تبد یلی نہیں ہے ، یہ ہے محکم آئین لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!

پروردگا ر عا لم نے اس آیت میں اشارہ فرمایا: دینی معارف تک پہنچنے کی سب سے اچھی راہ انسان کی فطر ت سلیم ہے، ایسی فطرت کہ جسے غلط اور فا سد معاشرہ نیز بری تربیت کاما حول بھی بد ل نہیں سکتا اوراسے خواہشات ، جنگ و جدا ل محوا ورنابود نہیں کر سکتے اور اس بات کی علت کہ اکثر لوگ حق و حقیقت کو صحیح طر یقے سے درک نہیں کر سکتے یہ ہے کہ خود خواہی ( خود پسند ی) اور بے جا تعصب نے ان کے نور فطرت کو خا موش کر دیا ہے، اور ان کے اور ﷲ کے واقعی علوم و حقائق کے اور ان کی فطری درک و ہدایت کے درمیا ن طغیا نی اور سرکشی حا ئل ہو گئی ہے اور دونو ں کے درمیا ن فا صلہ ہو گیا ہے۔

____________________

(۱)۔محمود شلو ت '' تفسیر القرآن الکریم'' الا جزاء العشر ة الا ولی'' ص ۱۱ ۔ ۱۴، اقبال لاہو ری: ( احیا ئے تفکر دینی در اسلا م) احمد آرام کا تر جمہ ص ۱۴۷۔۱۵۱ ، سید جمال الدین اسد آبادی: ( العر وة الو ثقیٰ) شمار ہ ۷ ،ص ۳۸۳ ، روم، اٹلی ملا حظہ ہو.

۱۹۸

اس معنی کی سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی تا کید ہو ئی ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت میں مذ کور ہے :

''کل مولودٍ یو لد علی الفطر ةِ فا بوٰ اه یهو دٰ ا نه او ینصرٰا نه او يُمجسانه' '( ۱ )

ہر بچہ ﷲ کی پا کیزہ فطرت پرپیداہوتاہے یہ تو اس کے ماں باپ ہیں جواسے ( اپنی تربیت سے) یہودی، نصرا نی یا مجو سی بنا دیتے ہیں۔

راہ فطرت کسی صورت عقل و نقل، شہود و اشرا ق ، علمی وتجر بی روش سے استفادہ کے مخا لف نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ راہ شنا خت کے اسباب و وسا ئل میں سے کسی ایک سبب اور وسیلہ میں محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنی جگہ پر خداوند عا لم کی ہدایت کے مطابق میں استعمال کرتی ہے ، وہ ہدا یت جس کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یمنو ن علیک أن أسلموا قل لاتمنوا علیّ اِسلا مکم بل ﷲ یمن علیکم أن هدا کم للاِیمان اِن کنتم صا دقینَ ) ( ۲ )

(اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )وہ لوگ تم پر اسلا م لانے کا احسان جتا تے ہیں ، تو ان سے کہہ دو! اپنے اسلام لا نے کا مجھ پر احسان نہ جتا ؤ ، بلکہ خدا تم پر احسان جتا تا ہے کہ اس نے تمھیں ایما ن کی طر ف ہدا یت کی ہے، اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو !

دوسری جگہ فرماتا ہے :( و لولا فضل ﷲ علیکم و رحمته ما زکیٰ منکم من أحدٍ أبدا ) () ( ۳ )

اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو تم میں سے کو ئی بھی کبھی پاک نہ ہو تا ۔

اس راہ کا ایک امتیاز اور خصو صیت یہ ہے کہ اس کے ما ننے وا لے کلا می منا ظر ے اور پیچیدہ شکو ک و شبہات میں نہیں الجھتے اور اس سے دور ی اختیا ر کرتے ہیںاور اس سلسلے میں اہل بیت کی ان احا دیث سے استنا د کرتے ہیں جو دشمنی اور جنگ و جدا ل سے رو کتی ہیں، ان کی نظر میں وہ متکلمین جنھیں اس راہ کی تو فیق نہیں ہو ئی ہے ان کے اختلا ف کی تعداد ایک مذ ہب کے اعتقادی مسا ئل میں کبھی کبھی ( تقریبا)سینکڑوں مسائل تک پہنچ جاتی ہے۔( ۴ )

____________________

(۱) صحیح بخاری: کتاب جنائز و کتاب تفسیر ؛ صحیح مسلم : کتاب قدر ، حدیث ۲۲تا ۲۴.مسند احمد : ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۷۵، ۲۹۳، ۴۱۰، ۴۸۱، ج۳،ص ۳۵۳؛ صراط الحق: آصف محسنی (۲)سورہ حجرات ۱۷

(۳)سورہ ٔ نور ۲۱.

(۴) علی ابن طاؤوس ، ''کشف المحجة لثمرة الحجة '' ص ۱۱اور ص ۲۰، پریس داروی قم

۱۹۹

یہ پا کیزہ '' فطرت'' جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اہل بیت کی روایات میں کبھی ''طینت اور سرشت'' اور کبھی'' عقل طبیعی'' سے تعبیر ہو تی ہے، اس مو ضو ع کی مز ید معلو مات کے لئے اہل بیت کی گرانبہا میرا ث کے محا فظ اور ان کے شیعوں کی حد یث کی کتا بوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہیں۔( ۱ )

اسلامی عقا ئد کے بیان میں مکتب اہل بیت کے اصول و مبا نی

عقائد میں ایک مہم ترین بحث اس کے ماخذ و مدارک کی بحث ہے ، اسلامی عقائد کے مدا رک جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے،صرف کتاب خدا وندی اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور دیگرمکاتب میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ مکتب اہل بیت پوری طرح سے اپنے آپ کو ان مدا رک کا تا بع جانتا ہے اور کسی قسم بھی کی خو اہشات ، ہوائے نفس اوردلی جذ با ت اور تعصب کو ان پر مقدم نہیںکرتا اور ان دونوں مر جع سے عقائد حاصل کرنے میں صرف قرآ ن کریم اور روایات رسول اسلام میں اجتہاد کے اصول عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے ، ا ن میں سے بعض اصول یہ ہیں:

۱۔ان نصوص و تصر یحا ت کے مقا بلے میں ، جو معا رض سے خالی ہوں یا معارض ہو لیکن نص کے مقا بل استقا مت کی صلا حیت نہ رکھتا ہو، کبھی اجتہا د کو نص پر مقد م نہیں رکھتے اس حال میں کہ بعض ہوا پر ستوں اور نت نئے مکتب بنا نے وا لوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لغو اور بیہودہ تا ویلا ت کے ذریعہ اپنے آپ کو نصوص کی قید سے آزا د کر لیں ،عنقریب اس کے ہم چند نمو نوںکی نشان دہی کریں گے۔

حضرت امام امیر المو منین ـ ''حارث بن حوط'' کے جو اب میں فرما تے ہیں :

''انک لم تعرف الحقّ فتعرف من اتاه و لم تعرف البا طل فتعرف مَن أتا ه ''( ۲ )

تم نے حق ہی کو نہیں پہچا ناکہ اس پر عمل کرنے والوں کو پہچا نو اور تم نے باطل ہی کو نہیں پہچا نا کہ اس پر عمل کر نے والوں کو پہچا نو۔

۲۔ دوسرے لفظوںمیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں: مکتب اہل بیت کے ما ننے وا لے کسی چیز کو نص اوراس روایت پر جو قطعی اور متو اتر ہو مقدم نہیں کرتے اور یہ اسلام کے عقیدہ میں نہایت اہم اصلی ہے ، کیو نکہ عقائد میں ظن و گما ن اور اوہام کا گزر نہیں ہے ، اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے جو کہ ''سلفی'' نقطۂ نظر رکھتے ہیں ، نیز

____________________

(۱)کافی کلینی: ترجمہ ، ج۳، ص ۲، باب طینة المؤمن والکافر ، چوتھا ایڈیشن ، اسلامیہ تہران ، ۱۳۹۲ ھ.(۲)نہج البلا غہ، حکمت:۲۶۲:

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

مالكيت:غير خدا كى مالكيت ۲

مقربين:انكا خضوع ۶; انكى عبادات ۶، ۸; ان كے فضائل ۸; يہ اور تكبر كرنا ۷; انكا نشاط

فرشتے:ان كا خضوع ۶; انكى عبادات ۶

موجودات:ان كا مالك۱; با شعور موجودات ۳

آیت ۲۰

( يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ )

دن رات اسى كى تسبيح كرتے ہيں اور سستى كا بھى شكار نہيں ہوتے ہيں (۲۰)

۱ _ بارگاہ الہى كے مقربين كى مسلسل اور دن رات تسبيح _و من عنده يسبحون الّيل و النهار

۲ _ خداتعالى كى مسلسل تسبيح ميں مقربين الہى (فرشتوں ) كا سستى كا شكار نہ ہونا_و من عنده يسبحون الّيل و النهار لايفترون (يفترون كى مصدر) ''فتر'' كا معنى ہے كمزورى اور سستى _

۳ _'' عن أبى عبدالله (ع) : والملائكة ينامون، فقلت: يقول الله عزوجل: ''يسبحون الليل والنهار لا يفترون'' قال: ا نفاسهم تسبيح; امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ فرشتے بھى سوتے ہيں (راوى كہتاہے) ميں نے عرض كيا (كيسے جبكہ) خداتعالى فرماتا ہے :

''يسبحون الليل والنهار لا يفترون'' توآپ(ع) نے فرمايا ان كے سانس تسبيح ہيں(۱)

تسبيح:يہ دن ميں ۱; يہ رات ميں ۱

فرشتے:انكى تسبيح كا تسلسل۲; انكى تسبيح ۳

روايت :۳

مقربين:انكى تسبيح كا تسلسل۱، ۲

____________________

۱ ) كمال الدين صدوق ۶۶۶، ب ۵۸، ح۸_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۷، ح ۲۲_

۳۲۱

آیت ۲۱

( أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِّنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنشِرُونَ )

كيا ان لوگوں نے زمين ميں ايسے خدا بنا لئے ہيں جو ان كو زندہ كرنے والے ہيں (۲۱)

۱ _ مشركين كا زمينى عناصر اور مواد سے بنائے گئے خداؤں پر اعتقاد ركھنا _ا م اتّخذوا ألهة من الأرض

''أم اتخذوا'' ميں ''ام'' منقطعہ اور ''بل'' كے معنى پر مشتمل ہے كہ جو اضراب كيلئے ہے _

۲ _ عصر بعثت كے مشركين كئي خداؤں كى پرستش كرتے تھے اور كئي معبودوں كا اعتقاد ركھتے تھے _ا م اتخذوا آلهة من الارض ''آلہة''، ''الہ'' كى جمع ہے يعنى خدا اور معبود _

۳ _ مرُدوں كو زندہ كرنے كى قدرت، مقام الوہيت كا قطعى لازمہ ہے_ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون

مذكورہ مطلب دو نكتوں كو پيش نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے_ پچھلى اور بعد كى آيات خداتعالى كى الوہيت اور توحيد كے بارے ميں ہيں ۲_ آيت شريفہ نے خدا كہے جانے والوں كى مرُدوں كو زندہ كرنے پر ہر قسم كى قدرت كى نفى كى ہے ان آيات كے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے كہ مرُدوں كوزندہ كرنا صرف حقيقى الوہيت كا لازمہ ہے اور يہ اسى ميں منحصر ہے _

۴ _ مشركين كے خداؤں كا مرُدوں كو زندہ كرنے سے عاجز ہونا_ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون

مذكورہ مطلب اس چيز كوپيش نظر ركھتے ہوئے ہے كہ جملہ '' ہم ينشرون'' مستأنفہ ہے اور يا محل نصب ميں اور ''آلہة'' كى صفت ہے_

دونوں صورتوں ميں اس سے پہلے استفہام انكارى كا ہمزہ مقدر ہے اور انكار بھى انكار وقوعى ہے يعنى مشركين كے معبودوں كے ذريعے مرُدوں كا زندہ ہونا محال ہے_

۵ _ مرُدوں كو زندہ كرنا اور قيامت برپا كرنا، صرف خداتعالى كى قدرت ميں ہے _له من فى السموات و الأرض ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون خداتعالى جہان ہستى پر اپنى ملكيت اور قدرت

۳۲۲

مطلقہ كو ثابت كر كے (لہ من فى السموات ...) اور خدا پكارے جانے والوں كى مرُدوں كو زندہ كرنے پر قدرت كى نفى كر كے اس نكتے كو بيان فرمانا چاہتا ہے كہ انہيں زندہ كرنا صرف خداتعالى كى قدرت ميں ہے_

۶ _ باطل عقيدے اور سوچ كے بارے ميں تحقيق اور سوال كرنا صحيح عقيدے اور سوچ كے بيان كرنے اور اسكى طرف ہدايت كرنے كى ايك روش ہے_ا م اتخذوا ألهة من الأرض هم ينشرون

مذكورہ مطلب جملہ استفہاميہ ''ہم ينشرون'' سے حاصل ہوتا ہے_

الوہيت:اسكے شرائط ۳

باطل معبود:ان كا متعدد ہونا۲; انكا عجز۴; ان كے عناصر، ۱

توحيد:توحيد افعالى ۵

سوال:اسكے فوائد ۶

سچے معبود:انكا زندہ كرنا ۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۵

عقيدہ:باطل عقيدہ كے بارے ميں سوال ۶; اسے صحيح كرنے كى روش ۶

قيامت:اسكے برپا ہونے كا سرچشمہ ۵

مردے:انہيں زندہ كرنے سے عاجز ہونا۴; انہيں زندہ كرنے كا سرچشمہ ۵

مشركين:انكا باطل عقيدہ۱; صدر اسلام كے مشركين كا باطل عقيدہ ۲; صدر اسلام كے مشركين كے معبود۲; ان كے باطل معبود،۱

ہدايت:اسكى روش۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

۳۲۳

آیت ۲۲

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ )

ياد ركھو اگر زمين و آسمان ميں اللہ كے علاوہ اور خدا بھى ہوتے تو زمين و آسمان دونوں برباد ہوجاتے عرش ہے اور وہ ہر ايك كا حساب لينے والا ہے (۲۲)

۱ _ عالم خلقت ميں خداؤں كا متعدد ہونا ناممكن اور محال ہے_لو كان فيهما ألهة إلّا الله لفسدت

مذكورہ مطلب ''لوكان'' ميں ''لو'' امتناعيہ سے حاصل ہوتا ہے_

۲ _ عالم ہستى ميں خداؤں كا متعدد ہونا اسكے نظام كے فاسد ہونے اور اسكے ٹكڑے ٹكڑے ہوجانے كا سبب ہے_

لو كان فيهما ألهة إلّا الله لفسدت ''فساد'' ،''صلاح'' كى ضد ہے اور اس كا معنى ہے حد اعتدال سے خارج ہونا (مفردات راغب) قابل ذكر ہے كہ ہر شے كى درستگى اور فاسد و خراب ہونا اسكے اپنے تناسب سے ہے اور آسمانوں اور زمين كا فاسد و خراب ہونا يعنى اسكے موجودہ نظام كا ختم ہوجانا اور اسكے انسجام اور پيوستگى كا ٹوٹ جانا_

۳ _ عالم خلقت كا منظم اور ہم آہنگ ہونا، خداتعالى كى وحدانيت كى دليل ہے_لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''إلاّ''، ''غير'' كے معنى ميں ہو يعنى اگر كائنات ميں خدا كے علاوہ ديگر خدا ہوتے تو اس كا موجودہ نظام ختم ہوجاتا اس كا مفہوم اور پيغام يہ ہے كہ كائنات كا موجودہ نظام صرف خدا كے ارادے سے ہے اور اسكى وحدانيت كى دليل ہے_

۴ _ خداتعالى كے علاوہ كوئي بھى طاقت كائنات كو منظم اور منسجم طور پر چلانے پر قادر نہيں ہے_لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

خداتعالى نے امور كائنات ميں دخل ركھنے والے چند خداؤں كے وجود كى نفى كى ہے اور اسے نظام كائنات كے بگڑ جانے اور فاسد ہونے كا سبب قرار ديا ہے يہ فاسد اور خراب ہونا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ ديگر خدا كائنات كو چلانے اور اسے سر و سامان دينے پر قادر نہيں ہيں _

۵ _ تعليمات اسلامى كے اصول اور مبانى برہان اور استدلال پر مبنى ہيں _لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

آيت شريفہ كہ جو وحدانيت خدا اور اسكى انحصارى ربوبيت كو بيان كر رہى ہے ميں بہترين اور اہم ترين عقلى استدلال اور برہان سے استفادہ كيا گيا ہے بعض علماء علم كلام نے اسے ''برہان تمانع'' كے نام سے ياد كيا ہے_

۳۲۴

۶ _ ہر كلام ميں ہم آہنگى اور نظم كيلئے ايك رہبرى اور مينجمنٹ كى ضرورت ہے_لو كان فيهما ألهة إلا الله لفسدت

مذكورہ مطلب آيت كے موردسے منتزع ہوتا ہے كيونكہ الوہيت و ربوبيت كے متعدد ہونے كى وجہ سے كائنات كے نظام كا خراب اور ختم ہوجانا ہر منسجم اور ہم آہنگ كام كى نسبت قابل تصور ہے اور آسمانوں اور زمين كى كوئي خصوصيت نہيں ہے_

۷ _ خدائے يكتا مشركين كے خيالوں اور وصفوں سے منزہ و مبرا ہے _لو كان فيهما ألهة فسبحان الله رب العرش عما يصفون

۸ _ عرش (نظام ہستى كا مركز) صرف خداتعالى كى ربوبيت اور تدبير كے تحت ہے_رب العرش

''عرش'' كا معنى ہے بادشاہى اور حكمرانى كا تخت اور خداتعالى كى نسبت يہ نظام ہستى كے مركز كى طرف اشارہ ہے_ قابل ذكر ہے كہ آيت كے شروع ميں كسى بھى دوسرے معبود اور مشركين كے وجود كى نفى كى گئي ہے اس سے عرش كى تدبير كا صرف خداتعالى كے ہاتھ ميں منحصر ہونا حاصل ہوتا ہے_

۹ _ زمينى اور آسمانى موجودات كے درميان عرش الہى كى عظمت اور اہميت _فسبحان الله رب العرش

۱۰ _ خداتعالى عرش (نظام ہستى كا مركز) كا مالك و مختار ہے _فسبحان الله رب العرش

مذكورہ مطلب ''رب'' كے معنى ميں سے ايك (مالك اور صاحب اختيار) پر مبتنى ہے_

۱۱ _ عرش پر خداتعالى كى ربوبيت اور تدبير اسكے يكتا ہونے اور عالم ہستى ميں كسى دوسرے معبود اور شريك كے نہ ہونے كى دليل ہے_لوكان فيهما ألهة فسبحان الله رب العرش عما يصفون

''رب العرش'' اسم جلالہ (الله ) كيلئے صفت ہے اور كائنات ميں ديگر خداؤں اور معبودوں كى نفى كے بعد خداتعالى كى يہ صفت ذكر كرنا ممكن ہے اس نكتے كو بيان كر رہا ہو كہ صفت ''رب'' اور امور كى تدبير صرف خداتعالى ميں منحصر ہے اور اس كا كوئي شريك نہيں ہے_

اسلام:اس كا منطقى ہونا ۵

اللہ تعالى :اس كا منزہ ہونا ۷; س كا مالك ہونا ۱۰; اسكى تدبير كا مركز ۸; اسكى ربوبيت كا مركز ۱۱

۳۲۵

انتظام و انصرام:اس ميں وحدت كے اثرات ۶برہان نظم ۳

توحيد:توحيدى نظريہ كائنات ۳، ۴

راہبري:اسكى وحدت كے اثرات ۶

شرك:اسے رد كرنے كے دلائل ۱۱

عرش:اسكى تدبير كے اثرت ۱۱; اسكى اہميت ۹; اسكى عظمت۹; اس كامالك ۱۰; اس كا مدبر ۸; اس كا كردار ۸

نظام خلقت:اسكے انہدام كے عوامل ۲; اسكے فاسد ہونے كے عوامل ۲;ا سكى تدبير كا مركز ۱۰; اس كے منظم ہونے كا سرچشمہ ۴; اس ميں ہم آہنگى ۳

عقيدہ:اس ميں برہان ۵

مشركين:انكى غلط سوچ۷

معبود:ان كے متعدد ہونے كے اثرات۲; ان كے تعدد كا محال ہونا ۱

نظم و نسق:اسكے عوامل ۶

آیت ۲۳

( لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ )

اس سے بازپرس كرنے والا كوئي نہيں ہے اور وہ ہر ايك كا حساب لينے والا ہے_(۲۳)

۱ _ خداتعالى اپنے كاموں كے سلسلے ميں كسى كے سامنے جوابدہ نہيں ہے اور كسى كا اس پر كوئي حق نہيں ہے_

لايسئل عما يفعل جملہ''و هم يسئلون'' قرينہ ہے كہ جملہ''لا يسئل ...'' ميں سوال سے مراد اعمال و رفتار كى كيفيت اور فلسفہ كے بارے ميں سوال ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ خداتعالى كسى كے سامنے جوابدہ نہيں ہے تا كہ كوئي اسكے كاموں كى كيفيت كے بارے ميں سوال كرے اور اس سے باز پرس كرے نيز كسى كا خداتعالى پر حق نہيں ہے تا كہ اسكے ساتھ اپنے حق كے بارے ميں بات كرے_

۳۲۶

۲ _ خداتعالى كے تمام افعال حكيمانہ، شائستہ اور حق كے مطابق ہيں _لايسئل عما يفعل

خداتعالى كا جوابدہ نہ ہونا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ اسكے تمام كام حكيمانہ، شائستہ اور حق كے مطابق ہيں لہذا سوال اور بازپرس كى گنجائش ہى نہيں ہے كيونكہ اس ہستى كے كاموں كى كيفيت كى بارے ميں سوال كيا جاسكتا ہے كہ جو خطاكار ہو يا اس ميں خطا كا احتمال ہو اور خداتعالى ايسا نہيں ہے_

۳ _ خداتعالى كے كاموں كے بارے ميں چون و چرا اور اعتراض كرنا ناشائستہ فعل ہے_لايسئل عما يفعل

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ خبريہ ''لايسئل عما يفعل'' مقام انشاء ميں ہو يعنى خداتعالى كے افعال كى كيفيت كے بارے ميں سوال نہ كريں اور ان اعتراض نہ كريں _

۴ _ مقام الوہيت بازپرسى اور محاسبہ ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_فسبحان الله لايسئل عما يفعل و هم يسئلون

۵ _ مشركين كے خيالى خداؤں (فرشتوں اور مقربين) سے بھى بازپرس ہوگى اور ان كا اپنا بھى محاسبہ ہوگا_

لايسئل عما يفعل و هم يسئلون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ضمير ''ہم'' كا مرجع ''من عندہ'' ہو كہ جس سے مراد بارگاہ الہى كے مقربين ہيں اور انكے بارز مصداق فرشتے ہيں _

۶ _ كائنات كى تمام باشعور مخلوقات خداتعالى كے سامنے جوابدہ ہيں اور خداتعالى ان سے بازپرس كريگا_و هم يسئلون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ضمير ''ہم'' كا مرجع ''من'' ہو كہ جو (من فى السماوات) ميں ہے_

الوہيت:اسكے اثرات ۴

باطل معبود:ان كا محاسبہ ۵

سوال:اسكے موانع ۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱; اسكے افعال كى حقانيت ۲; اس پر حق ۱; اس پر ذمہ دارى كا نہ ہونا ۱; اسكے افعال كا قانون كے تحت ہونا۲; اس سے سوال كا ناپسنديدہ ہونا ۳; اس پر اعتراض كا ناپسنديدہ ہونا ۳

مقربين:ان كا محاسبہ ۵/فرشتے:ان كا محاسبہ ۵

موجودات:باشعور موجودات كا محاسبہ ۶; باشعور موجودات ۶

۳۲۷

آیت ۲۴

( أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ )

كيا ان لوگوں نے اس كے علاوہ او رخدا بنا لئے ہيں تو آپ كہہ ديجئے كہ ذرا اپنى دليل تو لاؤ_ يہ ميرے ساتھ والوں كا ذكر اور مجھ سے پہلے والوں كا ذكر سب موجود ہے ليكن ان كى اكثريت حق سے ناواقف ہے اور اسى لئے كنارہ كشى كر رہى ہے (۲۴)

۱ _ عصر بعثت ميں مشركين متعدد خداؤں اور معبودوں كا عقيدہ ركھتے تھے_ا م اتخذوا من دونه ألهة

''آلہة''، ''الہ'' كى جمع ہے يعنى خدا اور معبود_

۲ _ ''الله '' كے علاوہ كائنات ميں كوئي معبود اور خدا نہيں ہے_ا م اتخذوا من دونه ألهة

۳ _ باطل عقيدے اور خيال كے بارے ميں باز پرس كرنا اور اس پر سواليہ نشان لگانا صحيح عقيدے كے بيان كرنے اور اسكى طرف ہدايت كرنے كى ايك روش ہے_ا م اتخذوا من دونه ألهة

مذكورہ مطلب اس چيز كے پيش نظر حاصل ہوتا ہے كہ ا م منقطعہ استفہام توبيخى پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ پيغمبراكرم(ص) ، مشركين سے ان كے شرك كے بارے ميں واضح دليل و برہان كا مطالبہ كرنے پر مأمور_

قل هاتوا برهانكم ''برہان'' كا معنى ہے واضح اور حق و باطل كے درميان فيصلہ كرنے و الى دليل اور حجت_

۵ _ پيغمبر اكرم(ص) اور الہى مبلغين كا فريضہ ہے كہ وہ مخالفين كے ساتھ منطقى اور استدلالى طرز اپنائيں _قل هاتوا برهانكم

۶ _ دليل و برہان، فكر و اعتقاد كى صحت كا معيار ہے_قل هاتوا برهانكم

۷ _ شرك ايك بے دليل، كھوكھلى اور ناقابل اثبات سوچ اور عقيدہ ہے_قل هاتوا برهانكم

''ہاتوا'' كا امر تعجيز كيلئے ہے يعنى يہ بتاتا ہے كہ مشركين دليل اور برہان لانے سے ناتوان ہيں _

۸ _ اعتقادات و نظريات كا قطعى ادلہ و براہين پر مبتنى ہونا ضرورى ہے_قل هاتوا برهانكم

۳۲۸

۹ _ توحيد اور شرك كى نفي، تمام انبيا(ع) ئ، موحدين اور آسمانى كتابوں كا پيغام_هذا ذكر من معى و ذكر من قبلي

سابقہ آيات كے قرينے سے ''ہذا'' كا مشار اليہ توحيد اور نفى شرك ہے_

۱۰ _قرآن اور آسمانى كتابيں (تورات، زبور، انجيل) انسان كى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے والى اور اس كى فراموش كردہ معلومات كى ياددہانى كرانے والى ہيں _هذا ذكر من معى و ذكر من قبلي

معنى كے لحاظ سے ''ذكر''، ''حفظ'' كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كہ حفظ شے جاننے اور حاصل كرنے كے لحاظ سے ہوتا ہے اور ذكر شے ياد كرنے اور حاضر كرنے كے اعتبار سے ہوتا ہے (مفردات راغب) اس بناپر قرآن اور آسمانى كتابوں كى ''ذكر'' كے ساتھ توصيف ممكن ہے اس اعتبار سے ہو كہ يہ انسان كى فراموش شدہ معلومات كى يادآورى كراتى ہيں اور غافل انسان كى فطرت كو بيدار كرتى ہيں _

۱۱ _ صدر اسلام كے اكثر مشركين حق سے جاہل اور ناآگاہ تھے _بل أكثر هم لا يعلمون الحق

۱۲ _ جہل و ناآگاہى اكثر مشركين كے حق سے روگردانى اور شرك كى طرف مائل ہونے كا عامل ہے_

بل أكثرهم لا يعلمون الحق فهم معرضون

''فہم معرضون'' ميں ''فائ'' عاطفہ اور سبب و مسبب كے درميان ربط پيدا كرنے كيلئے ہے يعنى چونكہ وہ جاہل ہيں اس لئے حق سے روگردانى كرتے ہيں _

۱۳ _ جہل و ناآگاہى بہت سے انسانوں كے حق و حقيقت سے گريز كرنے كا سبب ہے_بل أكثرهم لا يعلمون الحق فهم معرضون

۱۴ _ صدر اسلام ميں مشركين كا ايك بڑا گروہ حق كى شناخت كے باوجود حق سے گريزاں تھا_بل أكثر هم لايعلمون الحق

كلمہ ''اكثر'' افعل التفضيل ہے اور اس كا مقابل كثير ہے نہ قليل اس وجہ سے ''بڑا گروہ'' مستفاد ہوتا ہے يعنى اگر چہ دانا اور حق سے گريز كرنے والے مشركين نادانوں كے مقابلے ميں كم تھے ليكن وہ خود زيادہ تھے_

۱۵ _ حق كى شناخت اور حقائق دينى كو صحيح طور پر سمجھنے كيلئے جستجو كرنا ضرورى ہے_بل أكثرهم لايعلمون الحق فهم معرضون مذكورہ بالا آيت فقط مشركين كى حالت زار كو بيان نہيں كرر ہى بلكہ انكى مذمت كرنے كے بھى درپے ہے_ اس كا مطلب يہ ہے كہ حق كى شناخت ايك لازمى امر ہے كيونكہ غيرلازمى امر پر مذمت كرنا معقول نہيں ہے_

۳۲۹

انبياء(ع) :انكى شرك دشمني۹; انكى ہم آہنگى ۹

انجيل:اسكى ياددہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

توحيد:توحيد عبادى ۲; اسكى دعوت ۹

تورات:اسكى ياددہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

سوال:اسكے فوائد۳

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۲

جہالت:اسكے اثرات ۱۲، ۱۳

حق:اسكى تشخيص كى اہميت ۱۵; اس سے روگردانى كے عوامل ۱۲; اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۱۳

دين:دين شناسى كى اہميت ۱۵

زبور:اسكى ياد دہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

شرك:اس كا كھوكھلاپن ۷; اسكے عوامل ۱۲

عقيدہ:اس ميں برہان كى اہميت ۸; اس ميں برہان ۶; باطل عقيدے كے بارے ميں سوال ۳; باطل عقيدہ ۷; اسكى درستگى كا معيار ۶

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۱۰/قرآن كريم:اسكى ياددہانياں ۱۰; اس كا كردار ۱۰

كتب آسماني:انكى ياددہانياں ۱۰; انكى شرك دشمنى ۹; ان كا كردار ۱۰; انكى ہم آہنگى ۹

مبلغين:انكى ذمہ داري۵/آنحضرت(ص) :آپكى ذمہ دارى ۴،۵

مخالفين:ان كے ساتھ پيش آنے كى روش۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى اكثريت كى جہالت ۱۱; صدر اسلام كے مشركين كى اكثريت كا حق كو قبول نہ كرنا ۱۱، ۱۴; ان سے برہان كى درخواست۴; صدر اسلام كے مشركين كا باطل عقيدہ۱; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑپن ۱۴;صدر اسلام كے مشركين كے معبود ۱/موحدين:انكى شرك دشمنى ۹; انكى تعليمات كى ہم آہنگى ۹

ہدايت:اسكى روش ۳

۳۳۰

۳۵۴ تا ۳۶۱

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ) (٢٥)

( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ) (٢٦)

( لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) (٢٧)

( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ) (٢٨)

۳۳۱

آیت ۲۹

( وَمَن يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِّن دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ )

اور اگر ان ميں سے بھى كوئي يہ كہہ دے كہ خدا كے علاوہ ميں بھى خدا ہوں تو ہم اس كو بھى جہنم كى سزا ديں گے كہ ہم اسى طرح ظالموں كو سزا ديا كرتے ہيں (۲۹)

۱ _ اگر فرشتے الوہيت كا دعوى كريں تو دوزخ كے عذاب ميں گرفتار ہوں گے_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك نجزيه جهنم

۲ _ گناہ اور لغزش كى صورت ميں فرشتے عذاب الہى سے امان ميں نہيں ہوں گے_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك نجزيه جهنم

۳ _ الوہيت كا دعوى ناقابل بخشش گناہ ہے اگرچہ مقربين الہى كى طرف سے ہو_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك بخزيه جهنم

۴ _ جہنم، جھوٹى الوہيت كا دعوى كرنے والوں كى سزا ہے_و من يقل منهم إنى إله من دونه فذلك نجزيه جهنم

۵ _ جن كو خدا بنايا گيا ہے ليكن وہ خود اس كے مدعى نہيں ہيں تو وہ گناہ گار نہيں ہيں اور ان كو سزا نہيں ملے گي_

و من يقل منهم إنى إله ...نجزيه جهنم

مذكورہ بالا مطلب مفہوم شرط سے حاصل ہوتا ہے يعنى خدا صرف خدائي كا دعوى كرنے والوں كو عذاب ديگا نہ انہيں جو خدا ہونے كا كوئي دعوى نہيں كرتے _

۶ _ الوہيت كا دعوى كرنا ظلم ہے اور خدائي كا دعوى كرنے و الے ظالم ہيں _و من يقل منهم انى اله ...نجزيه جهنم

۷ _ جہنم، سب ستمگروں كى سزا ہے_

۳۳۲

نجزيه جهنم كذلك نجزى الظالمين

الوہيت:اسكے دعوے كا ظلم ہونا ۶; اسكے دعوے كى سزا ۱; اسكا دعوى كرنے والوں كى سزا ۴; اسكے دعوے كا گناہ ۳

باطل معبود: ۵

جہنم:اسكے اسباب ۱، ۴، ۷

خداتعالى :اسكے عذاب كا عام ہونا ۲

ظالم لوگ:۶يہ جہنم ميں ۷; ان كى سزا ۷

ظلم:اسكے موارد ۶

گناہ:اسكے اثرات ۲; ناقابل بخشش گناہ ۳

معبود:اسكى سزا كے شرائط ۵

فرشتے:يہ اور الوہيت ۱; يہ اور عذاب ۲; يہ اور گناہ ۲

آیت ۳۰

( أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ )

كيا ان كافروں نے يہ نہيں ديكھا كہ يہ زمين و آسمان آپس ميں جڑے ہوئے تھے اور ہم نے ان كو الگ كيا ہے اور ہر جاندار كو پانى سے قرار ديا ہے پھر كيا يہ لوگ ايمان نہ لائيں گے (۳۰)

۱ _ ابتدائے خلقت ميں عالم طبيعت (آسمان و زمين) متراكم اور آپس ميں جڑا ہوا تھا_

أن السموت و الأرض كانتا رتق

''رتق'' كا معنى ہے ملا ہوا اور جڑا ہوا ہونا اور ''فتق'' كا معنى ہے الگ اور جدا ہونا اور ''رتق'' سے مراد ابتدائے خلقت ميں آسمان و زمين كا آپس ميں ملا ہوا اور اكٹھا ہونا ہے اور ''فتق'' سے مراد بعد ميں ان دو كا ايك دوسرے سے الگ اور جدا ہونا ہے_ قابل ذكر ہے كہ ''أوَلم ير'' ميں رؤيت سے مراد قلبى اور علمى رؤيت ہے_

۲ _ عالم طبيعت ميں متعدد آسمان ہيں _السموات

۳ _ پاني، عالم طبيعت ميں سرچشمہ حيات_و جعلنا من الماء كل شيء حي

''من المائ'' ميں ''من'' ابتدائيہ ہے يعنى ہر زندہ چيز نے پانى سے نشأت پكڑى ہے اور اس كا سرچشمہ پانى ہے_

۳۳۳

۴ _ زندہ موجودات كى پيدائش آسمانوں اور زمين كے تراكم اور ايك دوسرے كے ساتھ پيوستگى كے زمانے كے گزرجانے كے بعد تھي_أن السموات والأرض كانتا رتقاً ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شى حي

۵ _ عالم طبيعت اپنى پيدائش كے مختلف ادوار اور مراحل ركھتا_أن السموات والأرض كانتاً رتقا ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شى حي

۶ _ توحيد تك دسترسى حاصل كرنے كيلئے عالم خلقت كے موجودات كے تحولات ميں غور كرنا ضرورى ہے_

أولم يرالذين كفروا أن السموات ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شى حيّ ا فلا يؤمنون

۷ _ آسمانوں و زمين كى خلقت، ان كے سير تحولات، نيز حيات كا پانى سے پيدا ہونا يہ سب ربوبى اور خداتعالى كى يكتائي كى نشانياں ہيں _أولم ير السموات و جعلنا من الماء كل شى حيّ ا فلا يؤمنون

مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ آيات كريمہ خداتعالى كى توحيد ربوبى كو ثابت كرنے اور اس پر ايمان لانے كى ترغيب دلانے كے درپے ہيں ورنہ مشركين كہ جو ان آيات كے مخاطب ہيں خداتعالى كى خالقيت كے منكر نہيں تھے_

۸ _ عالم خلقت كے موجودات ميں غور و فكر انسان كے توحيد تك دسترسى حاصل كرنے كا ايك راستہ ہے_

أولم يرالذين كفروا أن السموات ا فلا يؤمنون

۹ _ كفار، عالم خلقت كے موجودات كے تغير و تبديل كى طرف توجہ نہ كرنے اور خدائے يكتا پر ايمان نہ لانے كى وجہ سے مذمت كے مستحق ہيں _أولم يرالذين كفروا ان السموات والأرض أفلا يؤمنون

''أولم ...'' كا ہمزہ استفہام انكارى كيلئے ہے اور توبيخ كا فائدہ دے رہا ہے_

۱۰ _ '' قال ابوجعفر (ع) : ان قول الله عزوجل: ''كانتا رتقاً'' يقول: كانت السماء رتقاً لا تنزل المطر و كانت الأرض رتقاً لا تنبت الحب فتق السماء بالمطر و الأرض بنبات الحب ...;امام باقر (ع) سے روايت كى گئي كہ آپ(ع) نے فرمايا خداتعالى كا فرمان ''كانتارتقاً'' بيان كر رہا ہے كہ آسمان بندتھا اور بارش نہيں برساتا تھا اور زمين بند تھى اور نباتات نہيں اگاتى تھي پس خداتعالى نے آسمان كو بارش برسانے اور زمين كو نباتات اگانے كے ساتھ شگافتہ كيا (۱)

____________________

۱ ) كافى ج۸، ص ۹۵، ح ۶۷_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۲۵ ، ح ۵۴_

۳۳۴

پاني:اسكے فوائد ۳، ۷

آسمان:اس كا شگافتہ ہونا۱۰; آسمان اور زمين كى پيوستگى ۱; ان كا متعدد ہونا۳; ان كى خلقت۳۷

كائنات:اسكى خلقت كا آغاز۱; اسكے مطالعے كى اہميت ۶; اسكى پيوستگى ۱; اسكى خلقت كے مراحل۵

آيات خدا:آفاقى آيات ۸

بارش:اسكے فوائد ۱۰/تفكر:خلقت ميں تفكر كے اثرات ۷

توحيد:توحيد ربوبى كے دلائل ۷; اس كا پيش خيمہ ۹

زندگي:اس كا سرچشمہ ۳، ۷

روايت: ۱۰/زمين:اس كا شگافتہ ہونا ۱۰; اسكى خلقت ۷

كفار:انكى مذمت ۹; انكا عدم تفكر۹

نباتات:ان كى پيدائش كا سرچشمہ۴

موجودات:زندہ موجودات كى پيدائش كى تاريخ۴

آیت ۳۱

( وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجاً سُبُلاً لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ )

اور ہم نے زمين پر پہاڑ قرار دئے ہيں كہ وہ ان لوگوں كو لے كر كسى طرف جھك نہ جائے اور پھر اس ميں وسيع تر راستے قرار دئے ہيں كہ اس طرح يہ منزل مقصود تك پہنچ سكيں (۳۱)

۱ _ زمين كو انسانوں كو لرزانے اور انہيں جنبش دينے سے روكنے كيلئے مضبوط پہاڑوں كى خلقت_

و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم

''رسا'' كا معنى ہے ''ثبت'' اور ''رسخ'' اور پہاڑوں كو اسلئے ''رواسي'' كہاجاتا ہے كيونكہ يہ راسخ اور مضبوط ہوتے ہيں اور زمين كى لرزش اور اضطراب سے مانع ہوتے ہيں _

(''تميد'' كے مصدر) ''ميد'' كا معنى ہے اضطراب اور مختلف سمتوں كى طرف حركت كرنا_

۳۳۵

۲ _ پہاڑوں كى پيدائش، زمين كى خلقت كے بعد تھي_و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم

ظاہر يہ ہے كہ كسى شے كو ايك ظرف ميں قرار دينا اس ظرف كے وجود پر متفرغ ہے لہذا پہاڑوں كو زمين ميں قرار دينا خود زمين كے وجود سے پہاڑوں كى پيدائش كے متأخر ہونے كو بيان كر رہا ہے_

۳ _ دروّں ، اور وسيع و عريض راستوں كى خلقت اس لئے ہوئي تا كہ انسان راہ پا اسكے _و جعلنا فيها فجاجاً سبلًا لعلهم يهتدون ''فجّ'' كا معنى ہے دو پہاڑوں كے درميان وسيع راستہ كہ جو دروں ور پہاڑى راستوں كو شامل ہے اور''سبل'' كا معنى ہے ''راستے''_

۴ _ انسان كى زندگى كيلئے قدرتى راستوں اور پہاڑوں كا حيات بخش كردار اور اہميت _

و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم سبلاً لعلهم يهتدون

۵ _ پہاڑوں ، راستوں اور دروّں كى خلقت كى طرف توجہ، توحيد تك پہنچنے كا ايك راستہ ہے_و جعلنا فى الا رض رواسي لعلهم يهتدون آيت ميں ''يہتدون'' كا متعلق مذكور نہيں ہے ليكن اس بات كے قرينے سے كہ ان آيات كريمہ كے مخاطب مشركين اور يہ آيات توحيد كو ثابت كرنے كے درپے ہيں مذكورہ مطلب كا استفادہ ہونا ہے_

۶ _ خداتعالى كے افعال حكمت آميز ہيں _و جعلنا فى الأرض رواسى أن تميد بهم سبلًا لعلهم يهتدون

خداتعالى كے اس فرمان كے پيش نظر كہ ہم نے پہاڑوں كو زمين كو لرزش اور اضطراب سے بچانے كيلئے اور راستوں كو انسان كے راہ پانے كيلئے خلق كيا معلوم ہوتا ہے كہ خداتعالى كے كام با ہدف اور حكمت آميز ہوتے ہيں _

توحيد:اس كا پيش خيمہ ۵

خداتعالى :اسكے افعال ميں حكمت ۶

درےّ:ان كے فوائد ۳

ذكر:دروّں كى خلقت كے ذكر كے اثرات ۵; راستوں كى خلقت كے ذكر كے اثرات ۵; پہاڑوں كى خلقت كے ذكر كے اثرات ۵

راستے:ان كى اہميت ۴; ان كے فوائد ۴; ان كا كردار ۴

راستہ پانا:

۳۳۶

اسكى نشانياں ۳

زمين:اسكى تاريخ ۲; اسكے لرزنے كے موانع ۱

پہاڑ:انكى اہميت ۴; انكى خلقت كى تاريخ ۲; ان كے فوائد ۱; انكا كردار ۴

آیت ۳۲

( وَجَعَلْنَا السَّمَاء سَقْفاً مَّحْفُوظاً وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ )

اور ہم نے آسمان كو ايك محفوظ چھت كى طرح بنايا ہے اور يہ لوگ اس كى نشانيوں سے برابر اعراض كر رہے ہيں (۳۲)

۱ _ خداتعالى نے آسمان كو ايسى چھت بنايا ہے جو گرنے سے محفوظ ہے_و جعلنا السماء سقفاً محفوظ

۲ _ خداتعالى نے فضا اور آسمان كے موجودات كو اہل زمين پر گرنے سے محفوظ ركھا ہے_و جعلنا السماء سقفاً محفوظ

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آسمان سے مراد فضا ہو كہ جو زمين كى نسبت چھت كى مانند ہے اور اس كا محفوظ ہونا يا تو آسمانى اور فضائي موجودات كے لحاظ سے ہے اور يا نظام شمسى كے سياروں كى قاتل شعاعوں كے فضا سے زمين كى طرف نفوذ كرنے كے لحاظ سے ہے_

۳ _ آسمان كى خلقت اور اہل زمين كيلئے اسكے كردار كى طرف توجہ توحيد تك پہنچنے كا ايك راستہ ہے_

أن السموات و الأرض و جعلنا السماء سقفاً محفوظ

۴ _ آسمان ميں خداشناسى اور توحيد تك پہنچے كيلئے مختلف آيات پائي جاتى ہيں _و هم عن أى تها معرضون

۵ _ كفار، خداتعالى كى آسمانى آيات سے ا عراض كرنے والے اور روگردان ہيں _و هم عن أى تها معرضون

آسمان:اسكى حقيقت ۱; اس كا گرنا ۱

آيات الہي:

۳۳۷

آفاقى آيات۴; آفاقى آيات سے اعراض كرنے والے۵; ان سے اعراض كرنے والے ۵

اجرام فلكي:ان كا گرنا۲; انكى حفاظت ۲

توحيد:اسكے دلائل ۴; اس كا پيش خيمہ ۳

خداتعالى :اسكے افعال۱

ذكر:خلقت آسمان كے ذكر كے اثرات ۳; آسمان كے فوائد كے ذكر كے اثرات۳

فضا:اسكے موجودات كا گرنا۲; اسكے موجودات كى حفاظت ۲

كفار:يہ اور آفاقى آيات ۵

آیت ۳۳

( وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ )

وہ وہى خدا ہے جس نے رات دن اور آفتاب و ماہتاب سب كو پيدا كيا ہے اور سب اپنے اپنے فلك ميں تير رہے ہيں (۳۳)

۱ _ صرف خداتعالى شب و روز اور سورج و چاند كا خالق ہے_و هوالذى خلق الّيل و النهار و الشمس و القمر

۲ _ سورج اور چاند ميں سے ہر ايك، ايك مخصوص مدار ميں محو حركت ہے_كل فى فلك يسبحون

''فلك'' يعنى ستاروں كا مدار اور ''سبح'' يا ''سباحت'' يعنى تيرنا (لسان العرب) و (قاموس)

۳ _ ہر سيارہ اور ستارہ اپنے مخصوص مدار ميں محو حركت ہے_أن السموات و الأرض الشمس و القمر كل فى فلك يسبحون لفظ ''كل'' مضاف اليہ محذوف (جيسے ''ہا'' و غيرہ) كى طرف مضاف ہے اور ضمير كا مرجع آسمانوں اور زمين كا مجموعہ ہے كہ جن كا گذشتہ تين آيات ميں تذكرہ ہوچكا ہے_

۴ _ شب و روز اور سورج و چاند كى خلقت توحيد ربوبى كى

۳۳۸

ايك نشانى ہے_و هوالذى خلق الّيل كل فى فلك يسبحون

۵ _ خداتعالى كى طرف سے كائنات كى خلقت اور اسكى تدبير، توحيدى نظريہ كائنات ميں ايسے دو قانون اور اصل ہيں كہ جو ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوسكتے_و ما خلقنا السماء و جعلنا و هوالذى خلق كل فى فلك يسبحون

آيات كا سياق بتاتا ہے كہ يہ مشركين كے اس نظريئےو رد كرنے كے درپے ہيں كہ خدا كيلئے مقام خالقيت ہے اور ان كے خداؤں كيلئے تدبير كا مقام ہے اور خداتعالى نے گذشتہ آيات ميں مقام تدبير كو اور اس آيت ميں مقام خلقت كو اپنى طرف نسبت دى ہے اور ان دو كى جدائي كو رد فرمايا ہے_

عالم خلقت:اس كا خالق ۵; اس كا مدبر ۵

توحيد:خالقيت ميں توحيد۱، ۵; توحيد ربوبى ۵; توحيد ربوبى كى نشانياں ۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱; اسكى خالقيت ۱; اسكى ربوبيت ۵

چاند:اس كا خالق ۱; اسكى خلقت۴; اسكى گردش۲

سورج:اس كا خالق ۱; اسكى خلقت ۴; اس كى گردش۲

دن:اس كا خالق۱; اسكى خلقت ۴

ستارے:ان كى حركت ۳

سيارے:انكى حركت ۳

رات:اس كا خالق۱; اسكى خلقت ۴

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنا ت ۱،۵

آیت ۳۴

( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ )

اور ہم نے آپ سے پہلے بھى كسى بشر كے لئے ہميشگى نہيں قرار دى ہے تو كيا اگر آپ مرجائيں گے تو يہ لوگ ہميشہ رہنے والے ہيں (۳۴)

۱ _ خداتعالى نے دنيا ميں كسى انسان كيلئے حيات جاويد قرار نہيں دي_

۳۳۹

و ما جعلنا لبشر من قبلك الخلد

۲ _ مشركين كا يہ خيال تھا كہ انبيا(ع) ء كيلئے دنيا ميں حيات جاويد ہونا ضرورى ہے_و ما جعلنا لبشر من قبلك الخلد

۳ _ مشركين، پيغمبراكرم(ص) كى موت سے آپ(ع) كى شريعت كى نابودى كے منتظر تھے _أفإين متّ فهم الخلدون

آيت كے لحن سے معلوم ہوتا ہے كہ پيغمبر اسلام(ص) كے مخالفين اور مشركين آپ(ص) كى موت كے منتظر تھے يا آپ(ص) كو قتل كرنے كے درپے تھے جيسا كہ بعض مكى سوروں ميں اسكى تصريح كى گئي ہے_ (ا م يقولون شاعر نتربص بہ ريب المنون)

۴ _ مشركين پيغمبر اسلام(ص) كى دعوت كا مقابلہ كرنے سے ناتوان تھے_و ما جعلنا أفإن متّ فهم الخالدون

چونكہ مشركين پيغمبراكرم(ص) كى موت اور آپ(ص) كى شريعت كى نابودى كے درپے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ آپ- كى دعوت كے مقابلے ميں عاجز تھے_

۵ _ پيغمبر كى وفات سے پہلے اسلام كى كاميابى اور كفر و شرك كے سرغنوں كى موت كے بارے ميں قرآن كى پيشين گوئي_

أفإن متّ فهم الخالدون

''أفإن'' ميں ہمراہ استفہام انكارى كيلئے اور نفى كے معنى پر مشتمل ہے لہذا آيت كريمہ كا اصلي پيغام يوں ہوگا_ اس طرح نہيں ہے كہ وہ (پيغمبر اكرم(ص) ) فوت ہوجائيں اور تم زندہ رہو اور لمبى مدت تك جيتے رہو بلكہ حقيقت اسكے برعكس ہے وہ رہے گااور تم اے كفر كے سرغنوں ان سے پہلے مرجاؤگے_

آنحضرت(ص) :آپ (ص) كى موت كا انتظار۳; آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ ۴

اسلام:اسكى نابودى كا انتظار ۳; اسكى كاميابى ۵

انبياء(ع) :انكا زندہ وجاويد ہونا ۲

سوچ:غلط سوچ ۲

رہبر:رہبران شرك كى موت ۵; رہبران كفر كى موت ۵

زندگي:دنياوى زندگى كى ناپائيدارى ۱

قرآن كريم:اسكى پيشين گوئي ۵

مشركين:انكى توقعات ۳; انكى سوچ۲; ان كا عاجز ہونا ۴

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750