تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219008 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیت ۳۵

( إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيراً )

يقينا تو ہمارے حالات سے بہتر باخبر ہے (۳۵)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے اور اپنے خاندان كى خصوصيات كے بارے ميں خداتعالى كى گہرى آگاہى كو بيان كر كے اپنے آپ كو خداتعالى كى خواہشات كو قبول كرنے والا اور اسكے انتخاب پر راضى قرار ديا _إنّك كنت بنا بصير

''نا'' سے مراد ہے حضرت موسى (ع) اور انكے اہل و عيال ہيں كہ جن ميں حضرت ہارون بھى شامل ہيں _ حضرت موسى ،(ع) جناب ہارون كيلئے وزارت كى تجويز دينے كے بعد عرض كرتے ہيں _ خداوندا تو مجھے اور ميرے خاندان كو خوب جانتا ہے

اور ميرے بھائي ہارون كى خصوصيات سے بھى آگاہ ہے _ يہ ميرى درخواست ہے ليكن تيرا فيصلہ جو بھى ہو مكمل بصيرت اور آگاہى پر مبنى فيصلہ ہوگا _

۲ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى رسالت كے امور كے بارے ميں خداتعالى كى بارگاہ ميں درخواست كرنے كے ساتھ ساتھ، خداتعالى كى مكمل آگاہى كا اعتراف كيا اور اسكے فيصلے كو دقيق اور صحيح قرار ديا _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا

۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى اور اپنے بھائي ہارون كى خداتعالى كے ذكر اور تسبيح كے ساتھ دائمى محبت كا اظہار كيا اور خداتعالى كو اس پر گواہ بنايا _إنّك كنت بنا بصيرا

ہوسكتا ہے جملہ'' إنّك ...'' ''كى نسبّحك كثيراً '' كى علت كا بيان ہو يعنى خدايا تو خوب جانتا ہے كہ ميرے اور ميرے بھائي ہارون كے كيا جذبات ہيں اور تيرى تسبيح و ذكر كے ساتھ ہميں كتنى محبت ہے پس ہارون كى وزارت كو قبول كركے ہمارے لئے زيادہ تسبيح و ذكر كا راستہ ہموار فرما _

۴ _ خداتعالى اپنے بندوں كے حالات اور انكى خوبيوں اور خاميوں سے آگاہ ہے _إنّك كنت بنابصيرا

۵ _ خداتعالى كے بندوں كے حالات سے آگاہى كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كرنا اور اس سے درخواست كرنا ايك پسنديدہ امر ہے _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا حضرت موسى (ع) نے اپنے اور ہارون كے حالات

۶۱

سے خداتعالى كى آگاہى كو ذكر كرنے كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كى اور اپنى خواہشات كو بيان كيا موسى (ع) كا يہ كام بتاتا ہے كہ خداتعالى كے سب چيزوں سے آگاہ ہونے كے باوجود اسك ى بارگاہ ميں دعا كرنا مطلوب اور كارساز ہے _

اقرار:خدا كى بصيرت كا اقرار ۲

ايمان:خدا كى بصيرت پر ايمان۱

خداتعالى :اسكى بصيرت ۴، ۵; اسكى گواہى ۳

دعا:اسكى فضيلت ۵

محبت:خدا كى تسبيح سے محبت ۳; خدا كے ذكر سے محبت ۳

عمل:پسنديدہ عمل ۵

موسى (ع) :آپكا اقرار ۲; آپكا ايمان ۱; آپكى خواہشات ۲; آپكى معنوى محبت ۳ ; آپ كا مقام رضا ۱

ہارون:انكى معنوى محبت ۳

آیت ۳۶

( قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا موسى نے تمھارى مراد تمھيں ديدى ہے (۳۶)

۱ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى تمام درخواستوں كو قبول كرليا اور انہيں شرح صدر اور روانى سے بولنے كى طاقت عطا فرمائي او رہارون كو انكا وزير قرار ديا _قال ربّ قال قد ا وتيت سؤلك يا موسى

''سؤل'' يعنى ايسى حاجت كہ جسے حاصل كرنے كيلئے انسان كا نفس حريص ہو اور اس كا آرزو سے فرق يہ ہے كہ آرزو انسان كى فكر ميں گزرتى ہے ليكن ''سؤل'' كا پيچھا كيا جاتا ہے گويا'' سؤل'' كا درجہ ہميشہ آرزو كے بعد ہوتا ہے _

۲ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى دعائيں بہت جلدى قبول ہوئيں _قال ربّ اشرح لى قال قد ا وتيت سؤلك ''ا وتيت'' فعل ماضى مجہول ہے اور اس كا

۶۲

مطلب يہ ہے كہ موسى (ع) كى دعاؤں كى قبوليت وعدے كى صورت ميں اور مستقبل سے مربوط نہيں تھى بلكہ اتنى جلدى ہوئي گويا گذشتہ زمانے ميں _

۳ _ خداتعالى نے وادى طوي( كوہ طور) ميں حضرت موسى كو انكى دعاؤں كى قبوليت سے آگاہ كيا _قد ا وتيت سؤلك

۴ _ مطالبات كے پورا ہونے كيلئے خداتعالى سے دعا اور درخواست مؤثر ہے _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) كے مطالبات كا پورا ہونا انكى بارگاہ خداوندى ميں دعا اور التماس كے بعد تھا اور اس سے خواہشات كے پورا ہونے ميں دعا كے كردار كا پتا چلتا ہے

۵ _ كوہ طور ميں وادى طوى وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسى (ع) كو شرح صدر اور روانى سے گفتگو كرنا عطا كيا گيا اور ہارون كو انكا وزير بنايا گيا _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

۶ _ حضرت ہارون (ع) كو وادى طوى ميں مقام نبوت و رسالت پر فائز كيا گيا _هرون ا خي و ا شركه فى ا مري قد ا وتيت سؤلك اگر ''ا شركہ فى أمري'' سے مراد حضرت ہارون (ع) كيلئے نبوت و رسالت كى دعا ہو تو يہ وادى طوى ميں قبول ہوئي _

۷ _ حضرت موسى (ع) ،عنايات خداوندى كا مركز _ياموسى حضرت موسى (ع) كى دعاؤں كا فوراً قبول ہوجانا اور بار بار ان كے نام كى تصريح سے انكے خداتعالى كے مورد توجہ و عنايت ہونے كا پتا چلتا ہے _

۸ _ ذمہ دار افراد كو ذمہ دارى سپرد كرنے كے ہمراہ انكى ضرورت كے وسائل فراہم كرنا بھى ضرورى ہے_

إذهب إلى ...قال ربّ ...قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) نے رسالت اور فرعون كى طرف حركت كرنے پر ما مورہونے كے بعد بارگاہ خداوندى ميں اپنى ضروريات اور خواہشات كا تذكرہ كيا_خداتعالى نے بھى اس كا مثبت جواب ديا يہ سب كيلئے درس ہے كہ اگر كسى كو ذمہ دارى دى جائے تو ضرورى ہے كہ اسكى بات سنى جائے، اس كے مطالبے پر توجہ دى جائے اور اسكى ضروريات پورى كى جائيں _خداتعالى :اسكے عطيے۱

دعا:اسكے اثرات ۴ذمہ دار افراد:انكى ضرورت پورى كرنا ۷

كوہ طور:اس كا كردار ۵، ۶لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۷

۶۳

مطالبے:انكے حاصل كرنے كے عوامل۴

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱، ۳; آپكى دعا كى جلدى قبوليت ۲; آپكا شرح صدر ۱، ۵; آپكا علم ۳; آپكيفصاحت ۱، ۵; آپ كے فضائل ۷; آپكا قصہ ۱، ۳ ; آپ كوہ طور ميں ۳، ۵

ہارون (ع) :انكے منصوب كرنے كى جگہ ۵; انكے انتخاب كى جگہ ۶; انكى نبوت ۶; انكا كردار ادا كرنا ۱; انكى وزارت ۱، ۵

وادى طوى :اس كا كردار ۵،۶

آیت ۳۷

( وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى )

اور ہم نے پر ايك اور احسان كيا ہے (۳۷)

۱ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى در خواستوں كے مطالبات كا پورا ہونا آپ پرخداتعالى كى جانب سے بھارى نعمت تھى _قدا وتيت سؤلك يا موسى و لقد مننا عليك مرة ا خرى

''منّة'' كا معنى ہے بھارى نعمت (مفردات راغب) _

۲ _ وادى طوى ميں قدم ركھنے سے پہلے بھى حضرت موسى (ع) پرخداتعالى كى توجہ و عنايت اور بھارى نعمت كا نزول ہوا تھا _و لقد مننا عليك مرة أخرى

۳ _ حضرت موسى (ع) كا ماضى ميں عظيم نعمت سے بہرہ مندہونا انكے وادى طوى ميں اپنى درخواستوں كي حتمى قبوليت كے اطمينان كا سبب تھا _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

''لقد'' كى تعبير قسم كى علامت ہے_ تاكيد كے ساتھ ماضى كے بارے ميں خبر ، مستقل سے مربوط وعدوں كى نسبت اطمينان پيدا كرنے كيلئے (ا وتيت سؤلك) ہے_

۴ _كوہ طور ميں حضرت موسى (ع) كو جو نعمت عطا كى گئي وہ اس گراں قدر نعمت كے ہم پلہ تھى جو سابقہ زمانے ميں انہيں عطا ہوچكى تھى _و لقد مننا عليك مرةا خرى

۵ _ ماضى و حال كى نعمتوں كو ہميشہ خداتعالى كى منشا سے وابستہ سمجھنا ضرورى ہے _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

۶۴

خداتعالى :اسكى مشيت كے اثرات ۵

لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲ ، ۳

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱; آپكى دعا كى قبوليت كى وجوہات ۳; آپكے فضائل ۲، ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۴; آپ كى نعمتيں ۱، ۳، ۴

نعمت:اسكے درجے ۱، ۳، ۴; يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۲، ۳، ۴

يادكرنا:منعم كو يادكرنا ۵۵

آیت ۳۸

( إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى )

جب ہم نے تمھارى ماں كى طرف ايك خاص وحى كى (۳۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ، خدا كى جانب سے وحى اور پيغام وصول كرتى تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك

ممكن ہے ''وحي'' سے مرادخداتعالى كا حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ بات كرنا ہو اور ممكن ہے اس سے مراد الہام ہو حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ خداتعالى كے بعض وعدے كہ جن كا ذكر سورہ قصص ميں آيا ہے پہلے معنى كے ساتھ زيادہ سازگار ہيں _

۲ _ بچپن سے ہى خداتعالى كى خصوصى عنايات حضرت موسى (ع) كے شامل حال تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو وحى اور پيغام اسكى حضرت موسى (ع) پر عظيم نعمتوں ميں سے تھا _و لقد مننا إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

''اذ'' ظرف ہے ''مننا'' كيلئے يعنى سابقہ آيت ميں ...مذكور نعمت اس وقت تھى _

۴ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ كى ان معلومات تك دسترسى جو ان تك پہنچائي گئيں وحى الہى كے علاوہ كسى اور راستے سے ممكن نہيں تھى _ما يوحى

''مايوحى '' (جو وحى كيا جاتا ہے) سے مراد وہ امور ہيں جنكى قاعدتاً وحى كى جائي ہے ورنہ خود انسان ان تك نہيں پہنچ سكتا_

۶۵

۵ _ بيٹے كى عظمت ماں كے مقام كى بلندى كا سبب ہے_إذ ا وحينا إلى ا مك

حضرت موسى (ع) كى والدہ كو جو كچھ بتايا گيا اسكے محتوا سے پتا چلتا ہے كہ اصلى ہدف حضرت موسى (ع) كى حفاظت تھا اگر چہ فطرى طور پر اس سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو بھى سكون ملا_ پس مادر موسى كى وحى الہى تك دسترسى كا سبب حضرت موسى (ع) كى عظمت ہے _

۶ _ حضرت موسى (ع) كى جان كى حفاظت اور انكى والدہ كى پريشانى كو دور كرنا خداتعالى كى تدبير سے ہوا_

إذ ا وحينا إلى ا مك

خداتعالى :اسكى تدبير ۶

بيٹا:اسكے مقام كا كردار ۵

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

والدہ:اسكے مقام كا سرچشمہ ۵

موسى (ع) :آپكى والدہ كى پريشانى كو دوركرنا ۶; آپكے فضائل ۲، ۳; آپكا بچپن ۲; آپكى حفاظت ۶; آپكى نعمتيں ۳; آپكى والدہ كى طرف وحى ۱، ۳، ۴

نعمت :اسكے درجے ۳; يہ جنكے شامل حال ہے ۳

وحي:اس كا كردار ۴

آیت ۳۹

( أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي )

كہ اپنے بچہ كو صندوق ميں ركھ دو اور پھر صندوق كو دريا كے حوالے كردو مو جيس اسے ساحل پر ڈال ديں گى اور ايك ايسا شخص سے اٹھالے گا جو ميرا بھى دشمن ہے اور موسى كا بھى دشمن ہے اور ہم نے ت پر اپنى محبت كا عكس ڈال ديا تا كہ تمھيں ہمارى نگرانى ميں پالاجائے (۳۹)

۱ _ پيدائش كے وقت اور بچپن سے ہى فرعونيوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى جان كو خطرہ تھا _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليمّ

حضرت موسى (ع) كى والدہ كا اپنے بيٹے كو سمندر ميں پھينكنے كا حكم وصول كرنا اس زمانے كے حالات كے سخت ہونے

۶۶

اور حضرت موسى (ع) كى جان كو لاحق خطرے كى علامت ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو حكم ديا كہ وہ موسى (ع) كو صندوق ميں ڈال كر دريائے نيل ميں پھينك ديں _ا ن اقدفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم ''قذف'' كا معنى ہے پھينكنا (مقاييس اللغة) اور ''اقذفيہ'' جو موسى (ع) كو صندوق ميں ڈالنے ميں بھى استعمال ہوا ہے اور پھر صندوق كو پانى ميں پھينكنےميں بھى بتاتا ہے كہ موسى (ع) كو اس طرح صندوق ميں قرار دينا اور پھر پانى ميں پھينكنا ضرورى ہے كہ ہر ديكھنے والا يہ سمجھے كہ اسے دور پھينك ديا گياہے ''تابوت'' يعنى صندوق (نہايہ ابن اثير) ''يمّ'' يعنى سمندر اور آيت ميں اس سے مراد دريائے نيل ہے (لسان العرب) _

۳ _ فرعون كى حكومت ميں بنى اسرائيل كى زندگى بہت دشوار تھى اور انكے لڑكوں كى جان خطرے سے دوچار تھى _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم

۴ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو اطمينان دلايا كہ دريائے نيل كا جوش مارتا پانى حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پرپھينك ديگا _فليلقه اليمّ بالساحل دريا كو حكم دياگياكہ وہ صندوق كو ساحل پر پھينك دے مجاز اور اس بات ميں مبالغہ كيلئے ہے كہ پانى كى لہروں كے ہمراہ صندوق كا ساحل تك آنا اور پھر اس كا خشكى پرپھينكا جانا يقينى ہے_

۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ گرامي، خداتعالى كے پيغام پر ايمان ركھتى تھيں اور انہيں خدا كى جانب سے حضرت موسى (ع) كى حفاظت كا اطمينان تھا _إذ ا وحينا ا ن اقذفيه ...يا خذه عدو بعد والى آيت (إذتمشى ا ختك فرجعناك إلى ا مك ) كے قرينے سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى والدہ نے وحى الہى كے محتوا پر عمل كيا اور حضرت موسى (ع) كو دريائے نيل كے سپردكرديا_ يہ كام حضرت موسى (ع) كى والدہ كے اس اطمينان كى گواہى ديتا ہے كہ موصولہ پيغام، وحى الہى تھا نيز يہ يہ اس پر انكے مكمل ايمان كى علامت ہے_

۶ _ دريائے نيل،خداتعالى كى جانب سے حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پر پھينكنے پر ما مور تھا _فليلقه اليّم بالساحل جملہ''فليلقه اليّم '' جس طرح مادرموسى (ع) كو سمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كا ساحل پر پھينكا جانا قطعى ہے اس حقيقت كو بھى بيان كررہا ہے كہ پانى امر تكوينى كے ساتھ اس كام كو انجام دينے پرما مور تھا _

۷ _ حقيقى عوامل، خداتعالى كى حكمرانى ميں ہيں اوروہ اسكے فرامين كو عملى كرنے والے ہيں _فليلقه اليم بالساحل

۸ _ جناب موسى (ع) كو پانى ميں پھينكنے سے پہلے آپ كى والدہ كو خداتعالى كى طرف سے يہ اطلاع ہوچكى تھى كہ ايك دشمن كے ذريعے حضرت موسى (ع) كو نجات حاصل ہوگى _ا وحينا يا خذه عدولى و عدوله

۶۷

۹ _ فرعون،خداتعالى اور حضرت موسى (ع) كا دشمن تھا اور موسى (ع) كو پہنچان كرا نہيں نابود كرنے كے درپے تھا _

يا خذه عدولى و عدوله فرعون كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ دشمنى وہ بھى انكى خصوصيات كے حامل بچے كى پيدائش سے پہلے بتاتى ہے كہ فوعون نے حضرت موسى (ع) كو پہچاننے كى صورت ميں انہيں قتل كرنے كا عزم كرركھا تھا_

۱۰ _ خداتعالى نے مادر موسى (ع) كى طرف جو وحى كى اس ميں خدا اور انكے بچے كے دشمن كو اس بچے كا نجات دہندہ اور اسكى كفالت كرنے والا متعارف كرايا _يا خذه عدولى و عدوله

۱۱ _ ممكن ہے دشمنان خدا بھى با دل نخواستہ خدا كے محبوب بندوں كے فائدے كيلئے كام كريں _يا خذه عدولى و عدوله

۱۲ _حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں دريائے نيل پانى سے پر تھا اور فرعون كى رہائش گاہ سے زيادہ دور نہيں تھا _

فليقه اليّم بالساحل يا خذه عدولي ''يَمّ'' كا معنى ہے سمندر اور دريا كو سمندر كہنا اس ميں پانى كى كثرت سے حكايت كرتا ہے _

۱۳ _ خداتعالى نے اپنى جانب سے حضرت موسى (ع) كو خصوص محبوبيت عطا فرما كر انہيں ہر ديكھنے والے كى نظر ميں محبوب بناديا _وا لقيت عليك محبة منّي ''ا لقيت'' كا ''ا وحينا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيت ميں تھا اور پھر ''محبة'' كو نكرہ لانا، جبكہ مقام مدح ہے اسكے خصوصى ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے اور ''مني'' حضرت موسى (ع) كى محبوبيت كے سرچشمے كو بيان كررہا ہے او رسمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كو عطا كردہ محبوبيت كا سرچشمہ ذات بارى تعالى تھى _

۱۴ _ فرعون اور اسكے حاشيہ نشين، موسى (ع) سے بہت محبت كرتے تھے اور انہيں دوست ركھتے تھے _والقيت عليك محبة مني

۱۵ _ خداتعالى مہر و محبت كا سرچشمہ اور اس كا عطا كرنے والا ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۶ _ دلوں ميں محبوب ہونا،خداتعالى كى عنايت اور مہربانى ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۷ _ فرعونيوں كے دلوں ميں حضرت موسى (ع) كى محبوبيت انكے خداتعالى كى مكمل نگرانى كے ساتھ رشد و تكامل كا پيش خيمہ _ولتصنع على عيني ''لتصنع'' اس چيز كى علت كو بيان كررہا ہے جو كلام كے سياق سے حاصل ہو رہى ہے يعنى''ولتصنع على عينى فعلت ذلك'' جو كچھ ميں نے انجام ديا ہے وہ اسلئے تھا كہ تو ميرى

۶۸

مكمل نگرانى كے ساتھ پروان چڑھے ''صنيع''اور'' صنيعہ''(لتصنع كامادہ اشتقاق ) اس شخص كو كہا جاتا ہے جو كسى دوسرے كا تربيت يافتہ ہو اسى طرح يہ عطا، سخاوت اور احسان كے معنى ميں بھى آيا ہے ( لسان العرب)_

۱۸ _ حضرت موسى (ع) كا دلوں اور دربار فرعون ميں محبوب ہونا انكے لئے احترام اور بڑى خدمت كا سبب بنا _و ا لقيت عليك محبة منى و لتصنع على عيني اگر ''صنيعہ'' ( لتصنع كا مادہ اشتقاق) نيكى كرنے اور كرامت كے معنى ميں ہو تو ''لتصنع'' كا مطلب يہ بنے گا ميں نے تيرى محبت دوسرں كے دلوں ميں قرار دى ہے تاكہ تو ميرى مكمل نگرانى كے ساتھ ان كا مورد احترام و اكرام قرار پائے _

۱۹ _ خداتعالى حضرت موسى (ع) كى زندگى كے آغاز سے ہى ان پر دقيق نظارت ركھتا تھا اور اس نے انكى تربيت اور رشد و تكامل كے ذرائع فراہم كرركھے تھے _ولتصنع على عيني

''على عيني'' ميں ''عين'' سے مراد اس كا مجازى معنى يعنى نگرانى ہے اور ''علي'' دلالت كرتا ہے كہ نظارت الہى ايسى بنياد ہے كہ جس پر حضرت موسى (ع) كى تربيت اور احترام استوار تھے_

۲۰ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى خداتعالى كى طرف سے انبياء كى زندگى كے آغاز سے ہى انكى پرورش پر نظارت كا ايك نمونہ _و لتصنع على عيني

۲۱ _ بچپن ہى ميں حضرت موسى (ع) كو پانى ميں پھينك كر انكى جان بچانا، فرعونيوں كے دلوں ميں انكى محبت ڈالنا اور انكى تربيت اور نشو و نماپر نظارت،خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) پر گراں بہا نعمتيں _

مننا عليك مرة ا خرى ا ن اقذفيه و لتصنع على عيني

۲۲ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: ا نزل الله على موسى التابوت و نوديت ا مه ضعيه فى التابوت فاقذفيه فى اليم و هو البحر; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى نے حضرت موسى (ع) پر تابوت نازل كيا

۶۹

اور انكى والدہ كو ندا دى كہ انہيں تابوت ميں ركھ كردريا ميں ڈال ديں _(۱)

۲۳ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: كان موسى لا يراه ا حد إلا ا حبه و هو قول الله : '' و ا لقيت عليك محبّة منّى ...'' ;امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ حضرت موسى (ع) اس طرح تھے كہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا مگر يہ كہ ان سے محبت كرنے لگتا تھا اور خداتعالى كے فرمان ''والقيت عليك محبة مني'' سے مراد يہى ہے_(۲)

انبياء:انكى تربيت ۲۰//بنى اسرائيل:يہ فرعون كے زمانے ميں ۳; انكى تاريخ ۳; انكى معاشرتيمشكلات ۳جھكاؤ:حضرت موسى (ع) كے طرف جھكاؤ ۱۴

خداتعالى :اسكے اوامر ۲; اسكى تعليمات۰ ۱; اسكے دشمن ۹، ۱۰، ۱۱; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷; اسكى نظارت ۱۹، ۲۰; اس كا كردار ادا كرنا ۱۵ظخدا كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۶

خدا كے محبوب لوگ:انكے مفادات۱۱ظدريائے نيل:اس كا مطيع ہونا ۶; اسكى تاريخ ۱۲; يہ موسى كے زمانے ميں ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

روايت :۲۲، ۲۳ظقدرتيعوامل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى دشمنى ۱، ۹; اس كا ظلم ۳; اسكى محبت ۱۴فرعون كے حاشيہ نشين لوگ:انكى محبت ۱۴

محبت:اس كا سرچشمہ ۱۵، ۱۶موسى (ع) :آپكى محبوبيت كے اثرات ۱۷، ۱۸; آپكى والدہ كا اطمينان ۴،۵; آپكا دريائے نيل ميں امن ۴; آپكى والدہ كا ايمان ۵; آپكى تربيت ۲۱; آپكى كفالت ۱۰; آپكى والدہ كى شرعى ذمہ دارى ۲; آپكے دشمن ۱، ۸، ۹، ۱۰; آپكى نشو و نما كا پيش خيمہ ۱۷، ۱۹; آپكا صندوق ۶; آپكى ماں كا علم ۸; آپكے احترام كے عوامل ۱۸; آپكے فضائل ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳; آپكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۸، ۲۰، ۲۲; آپكى نگرانى ۴، ۵، ۱۷، ۱۹، ۲۱; آپكى محبوبيت ۲۱، ۲۳; آپكا تربيت كرنے والا ۱۹; آپكى محبوبيت كا سرچشمہ ۱۳; آپ ساحل نيل پر۴، ۶; آپ نيل ميں ۲; آپكو نجات دينے والا ۱۰; آپكى نجات ۸; آپكے صندوق كا نازل ہونا ۲۲; آپكى نعمتيں ۲۱; آپكى والدہ كو وحى ۱۰، ۲۲

نعمت :اسكے درجے ۲۱

وحي:اس پر ايمان لانے والے ۵

____________________

۱ ) تفسيرقمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷ _ظ ۲ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷_

۷۰

آیت ۴۰

( إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْساً فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُوناً فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى )

اس وقت كو ياد كرو جب تمھارى بہن جارى تھيں كہ فرعون سے كہيں كہ كيا ميں كسى ايسے كاپتہ بتاؤں جو اس كى كفالت كرسكے اور اس طرح ہم نے تم كو تمھارى ماں كى طرف پلٹاديا تا كہ ان كى آنكھيں ٹھنڈى ہوجائيں اور رنجيدہ نہ ہوں اورتم نے ايك شخص كو قتل كرديا تو ہم نے تمھيں غم سے نجات دے دى او رتمھارا باقاعدہ امتحان لے ليا پھر تم اہل مدين ميں كئي برس تك رہے اس كے بعد تم ايك منزل پر آگئے اے موسى (۴۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى پيدائش كے وقت انكى ايك بڑى اور رشيدہ بھى تھيں _إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم

موسى (ع) كا پيچھا كرنا، دربار ميں نفوذ اور دايہ كى پيشكش ان سب سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن اس عمر ميں تھيں كہ ان كاموں اور حيلوں كے سلسلے ميں نہ صرف وہ جسمانى اور فكري

توانمندى سے بہرہ مند تھيں بلكہ انكى بات جاتى سنى اور قبول كى جاتى تھى _

۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن اپنے چھوٹے بھائي كے دريائے نيل ميں پھينكے جانے سے مطلع اور اس كى وجہ سے پريشان تھيں اور قدم بقدم انكے صندوق كا پيچھا كررہى تھيں _

إذ تمشى ا ختك فتقول

حضرت موسى (ع) كى بہن كا انكے پيچھے پيچھے حركت كرنا بتاتا ہے كہ وہ حضرت موسى (ع) كے واقعے ، انكے پانى ميں پھينكے جانے اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات سے اجمالى طور پر مطلع تھيں _

۷۱

۳ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے اس وقت تك انكا پيچھا كيا جب تك انہيں پانى سے نجات نہ ملى اور جب تك اس نے فرعون كے درباريوں كو موسى (ع) كيلئے دايہ تلاش كرنے كيلئے انكى كوشش كا مشاہدہ نہيں كيا_إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم ''هل ا دلكم'' كا ظاہر يہ ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو موسى اخذ كرتے ہوئے ديكھا اور درباريوں كے پاس جاكر بدون واسطہ انہيں اور جو لوگ دايہ كى تلاش ميں تھے اپنى پيشكش سے آگاہ كيا _

۴ _ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى حفاظت اور نگہداشت كاعزم كرليا_هل ا دلكم على من يكفله

دايہ كيلئے تلاش اور كوشش سے پتا چلتا ہے كہ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى نگہدارى كا عزم كرليا _

۵ _ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت ، خوراك اور ديكھ بھال كے سلسلے ميں دربار فرعون مشكل سے دوچار ہوا _

هل ا دلكم على من يكفله ''هل ا دلكم'' سے پتا چلتا ہے كہ دربار فرعون حضرت موسى (ع) كيلئے دايہ اور سرپرست كى تلاش ميں تھا_ حضرت موسى (ع) كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنا بتاتا ہے كہ كسى دربارى كو اس سلسلے ميں كاميابى نہيں ہوئي تھى اور وہ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت اور خوراك كے سلسلے ميں پريشان تھے_

۶ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كے سامنے اظہار كيا كہ وہ مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے آمادہ ہيں _

هل ا دلكم على من يكفله ''كافل'' اسے كہاجاتا ہے جو كسى كے امور كى انجام دہى كو اپنے ذمے لے (مقاييس اللغة) _

۷ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے اپنى آمادگى كا مكرر اظہار كيا _

فتقول هل ا دلكم فعل مضارع ''تقول'' گذشتہ زمانے ميں كام كے استمرار پر دلالت كررہا ہے _

۸ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے جس دايہ كى پيشكش كى تھى درباريوں نے اسے قبول كرليا _

هل ا دلكم على من يكفله فرجعنك إلى ا مك ''فرجعناك'' ميں ''فا'' فصيحہ ہے يعنى ان محذوف جملوں سے حكايت كرتى ہے كہ جو حضرت موسى كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنے پر دلالت كرتے ہيں _

۹ _حضرت موسى كى بہن زيرك اور راز دار تھيں _هل ا دلكم على من يكفله

۱۰ _ فرعونيوں نے حضرت موسى (ع) كو انكى والدہ كے سپرد كيا اور وہ انہيں اپنے گھر لے گئيں _فرجعناك إلى ا مك

موسى (ع) كا اپنى ماں كے پاس واپس آنااس طرح ہے كہ انكى والدہ انہيں اپنے ہمراہ لے گئي ہوں نہ اس طرح كہ انكى نگہداشت كيلئے دربار ميں گئي ہوں _

۷۲

۱۱ _ حضرت موسى (ع) بچين سے ہى اپنى والدہ كے زير كفالت تھے _على من يكفله

۱۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن كا انہيں انكى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر كردار تھا _إذ تمشى ا ختك فرجعنك إلى ا مك حضرت موسى (ع) كى بہن اور انكى كوشش كو ياد كرنا انكے حضرت موسى (ع) كو اپنى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر اور كارساز كردارسے حكايت كرتا ہے_

۱۳ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ اپنے بيٹے كے نامعلوم انجام پر نظريں لگائے ان كى دورى كى وجہ سے پريشان تھيں _

كى تقرعينها ولا تحزن آنكھ كا سكون اس شديد غم كے دور ہونے سے كنايہ ہے كہ جو آنكھ كو ايك طرف خيرہ كرديتا ہے يا اسے مسلسل دائيں بائيں پھيرتا ہے _

۱۴ _ موسى (ع) كے دوبارہ ديدار نے انكى والدہ كى آنكھوں كو نور اور سكون بخشااور انكے غم و اندوہ كو دور كرديا _

فرجعنك إلى ا مك كى تقر عينها و لا تحزن ''قرة العين'' يا تو ''قرار''سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے سكون پكڑنا اور يا ''قرّ'' سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے ٹھنڈاہونا كہ جو گرم آنسوؤں كے ركنے كا نتيجہ ہوتا ہے بہرحال يہ تعبير اس شادمانى سے كنايہ ہے جو آنكھ كو پريشان ہونے اور اسے دائيں بائيں پھرنے سے دور ركھتى ہے اور غم و اندوہ كے جلا دينے والے آنسوؤں كو روكتى ہے _

۱۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ خداتعالى كے ہاں خاص مقام و مرتبہ ركھتى ہيں _فرجعنك إلى ا مك كى تقرعينها و لا تحزن

۱۶ _ ماں كى سرپرستى بچے كى تربيت كيلئے مناسب ترين حالات فراہم كرتى ہے _ولتصنع على عينيإذ تمشى فرجعنك إلى ا مك

۱۷ _ حضرت موسى (ع) كا آغوش مادر ميں پلٹ آنا خداتعالى كى دقيق نظارت ميں انكى پرورش اور نشو ونما كا مناسب ذريعہ _و لتصنع على عينى إذ تمشى ...فرجعنك ''اذ تمشي'' ميں ''اذ'' ممكن ہے ''لتصنع'' كيلئے ظرف ہو اس صورت ميں ''اذ'' كے بعد والے جملے موسى (ع) كے بارے ميں صنع الہى كے وقوع پذير ہونے كے ظرف كو بيان كررہے ہيں _

۱۸ _ حضرت موسى (ع) نے كوہ طور ميں وحى كو دريافت كرنے اور مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے ايك شخص كو قتل كيا تھا _وقتلت نفس يہ آيت كريمہ مصر ميں ايك قبطى شخص كے قتل كو بيان كررہى ہے كہ جو حضرت موسى (ع) كے ہم مذہب شخص كے ساتھ جھگڑ رہا تھا اور حضرت موسى (ع) نے اسے قتل كرديا تھا ليكن اسكے رد عمل كى فكر آپ كو

۷۳

آسودہ خاطر نہيں ہونے دے رہى تھى يہاں تك كہ آپ مصر سے بھاگ نكلے اور مدين پہنچ كر آپ سے خطرہ ٹلا اور غم و اندوہ دور ہوئے _

۱۹ _ قتل كا ارتكاب، حضرت موسى (ع) كى پريشانى اور ان كے غم و اندوہ ميں مبتلا ہونے كا سبب بنا _

و قتلت نفسا فنجينك من الغم حضرت موسى (ع) كا غم واندوہ ان كے واقعہ قتل اور فرعونيوں كى طرف سے خطرہ محسوس كرنے كے بارے ميں پريشانى اور اضطراب كى وجہ سے تھا _

۲۰ _ قتل كى وجہ سے حضرت موسي(ع) كو فرعونيوں كے ہاں امن نہيں تھا _فنجينك من الغم

۲۱ _ فرعونيوں كى نظر ميں قبطيوں پر بنى ا سرائيل ترجيح ركھتے تھے حتى كہ اپنے پرورش يافتہ اور محبوب جوان پر بھى _

فنجينك من الغم

۲۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو قتل كى پريشانى سے نجات بخشي_و قتلت نفسا فنجينك من الغم

۲۳ _ حضرت موسى (ع) كا قتل كے خطرناك نتائج سے رہائي پانا،خداتعالى كى جانب سے آپ پر ايك عظيم نعمت_

و قتلت نفساً فنجينك من الغم ''قتلت'' كا ''لقد مننا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيات ميں تھا اور حضرت موسى (ع) پر ولادت كى مشكلات سے رہائي والى نعمت كو ذكر كرنے كے بعد ايك اور نعمت اور احسان كو بيان كررہا ہے _

۲۴ _ انسان كا غم و اندوہ سے نجات پانا، خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے _فنجينك من الغم

۲۵ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو مدين ميں داخل ہونے سے پہلے ايك سخت آزمائش ميں مبتلا كيا _و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فتنہ''كا معنى ہے امتحان اور آزمائش (مصباح) ''فتون'' مصدر اور مفعول مطلق ہے اور كلام كى تاكيد كيلئے لايا گيا ہے اور جملہ ''فتناك فتوناً '' يعنى ہم نے تجھے خوب آزمايا_

۲۶ _ حضرت موسى (ع) كے مصر ميں ايك قبطى شخص كو قتل كرنے نے انكے خداتعالى كى سخت آزمائش ميں مبتلا ہونے كا راستہ ہموار كيا _و قتلت نفسا فنجينك من الغم و فتّنك فتون اگر ''فتناك'' كا عطف ''نجيناك'' پر ہو تو آزمائش الہى ميں حضرت موسى (ع) كا سختى جھيلنا انكے قتل كا نتيجہ تھا _

۲۷ _ مدين ميں وارد ہونے سے پہلے خداتعالى نے حضرت موسى (ع) سے متعدد آزمائشيں ليں _و فتنك فتون

ہوسكتا ہے كلمہ'' فتون'' فتنہ كى جمع ہو جيسا كہ ''كشاف'' اور ''البحر المحيط'' ميں ہے _

۲۸ _ حضرت موسى (ع) كو اپنى زندگى ميں بہت سارى سختيوں كا سامنا ہوا _وفتنّك فتون جيسا كہ بعض نے كہا ہے

۷۴

''فتون'' فتنہ كى جمع ہے اور ''فتنہ'' كا استعمال زيادہ تر شدائد اور سختيوں ميں ہوتا ہے ( مفردات راغب) _

۲۹ _ حضرت موسى (ع) كى آزمائش اور زندگى كى سختياں ان پر خداتعالى كى نعمتوں ميں سے تھيں _

چونكہ يہ آيات حضرت موسى (ع) پر خداتعالى كى نعمتوں كو شمار كررہى ہيں اور اسى كے ضمن ميں حضرت موسى كا ( آزمائش يا سختي) ميں مبتلا ہونا ذكر ہوا ہے_اس سے لگتا ہے كہ اس قسم كى سختياں اور آزمائشيں بھى خداتعالى كى نعمتوں ميں سے ہيں _

۳۰ _ زندگى كى بعض سختياں ، انسان پر خداتعالى كى نعمت اورلطف كى علامت ہيں _و لقد مننا و فتنّك فتون

۳۱ _ زندگى كے واقعات اور مشكلات خداتعالى سے مربوط اور اسكى طرف منسوب ہيں _و فتنّك

۳۲ _ فرعونيوں كے چنگل سے آزاد ہونے كے بعد حضرت موسى (ع) سختى كے ساتھ مدين پہنچے اور چند سال تك وہيں قيام پذير رہے _وفتنك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين

۳۳ _ حضرت موسى (ع) كا مدين كے لوگوں كے درميان چند سال قيام كرنا انكى آزمائش اور امتحان كا دوسرا مرحلہ تھا _

و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فلبثت'' كى فاء ممكن ہے مفصل كے مجمل پر عطف كيلئے ہو اس صورت ميں حضرت موسى (ع) كا مدين ميں قيام ''فتنة'' (سختى يا آزمائش) كا مصداق ہوگا _

۳۴ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى سختياں اور ان سے خداتعالى كى آزمائش اسلئے تھيں كہ وہ رسالت الہى كا بوجھ اٹھانے كے لئے شائستہ مرتبے پر فائز ہوسكيں _و فتّنك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

''قدر '' يعنى مطلوب حد_ يہ كلمہ اور ''مقدار'' ايك ہى معنى ميں ہيں _(لسان العرب) ''على قدر'' ''جئت'' كے فاعل كيلئے حال ہے يعنى اے موسى جب تو شائستگى اور استوارى كى لازمى حد كو پہنچ گيا تو تونے اس وادى ميں قدم ركھا _

۳۵ _ حضرت موسى (ع) كو اس وقت كوہ طور ميں خداتعالى كے ساتھ مناجات اور حكم رسالت كے د ريافت كى توفيق حاصل ہوئي جب آپ نے آزمائش الہى اور سختيوں كو جھيلنے كے مرحلے سے گزر كر لازمى لياقت كو پاليا _و فتنّك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

۳۶ _حضرت موسى (ع) كى عمر كے كئي سالوں كا مدين ميں بسر ہونا اور رسالت كيلئے لازمى لياقت كو حاصل كرلينا آپ كيلئے نعمات الہى تھيں _ولقد مننا عليك مرة ا خرى إذ تمشى ا ختك

۳۷ _ نبوت اور رسالت الہى ان لوگوں كيلئے مخصوص ہے جو اسكے لائق ہوں _ثم جئت على قدر يا موسى

۷۵

۳۸ _ حضرت موسى (ع) كى مدين سے واپسى اور كو ہ طور ميں وادى طوى ميں آنا خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديئے گئے پروگرام كے مطابق تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''قدر'' كا ايك معنى ،الہى تقدير ہے كہا گيا ہے كہ يہ كلمہ ''قدر'' كا اسم مصدر اور تقدير بنانے كے معنى ميں ہے (لسان العرب) راغب بھى كہتاہے ''قدر'' ہر چيز كا معين وقت اور جگہ ہے_

۳۹ _ انبياء كى بعثت كا وقت معين اور خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديا گيا ہے_ثم جئت على قدر يا موسى

۴۰ _ مدين ميں حضرت موسى (ع) كى لمبى عمر كا انكے رسالت كے لائق بننے كيلئے بڑا كردار تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور يہ دلالت كرتاہے كہ موسى كا كوہ طور پر آنا ان كى مدين ميں رہائش كے آغاز كافى وقت بعد تھا_

۴۱ _ خداتعالى نے كوہ طور ميں نرمى اور مہربانى كے ساتھ حضرت موسى (ع) سے بات كى _يموسى

سخن كے دوران بار بار حضرت موسى (ع) كا نام لينا خداتعالى كى آپ كے ساتھ مہربانى پر دلالت كرتا ہے _

۴۲ _'' عن محمد بن مسلم:قلت لا بى جعفر(ع) : فكم مكث موسى غائباً عن ا مه حتى ردّه الله عليها؟ قال: ثلاثة ا يام; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام باقر (ع) سے عرض كيا حضرت موسى (ع) كتنى مدت اپنى والدہ سے غائب رہے يہاں تك كہ خداتعالى نے ا نہيں انكے پاس لوٹادياتو آپ نے فرمايا تين دن(۱)

۴۳ _'' روى عن النبى (ص) ا نه قال: رحم الله ا خى موسى قتل رجلاًخطاً و كان ابن إثنتى عشرة سنة ; پيغمبر اكرم(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا خداتعالى ميرے بھائي موسي(ع) پر رحم كرے انہوں نے ايك مرد كو اس وقت غلطى سے قتل كيا جب انكى عمر بارہ سال تھى(۲) _

انبياء (ع) :انكى بعثت كا قانون مند ہونا ۳۹ // بيٹا:اسكى تربيت ۱۶

خداتعالى :اسكى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۴۱_ اسكى تقدير ۳۸; اسكى مہربانى ۴۱; اس كا نجات دينا ۲۲; اسكى مہربانى كى نشانياں ۳۰; اسكى نعمتيں ۳۰; اس كا كردار ادا كرنا ۲۴روايت: ۴۲، ۴۳

غم و اندوہ:اسكے دور كرنے كا سرچشمہ ۲۴

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۶ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۶_ /۲ ) مجمع البيان ج ۷ ص ۱۹ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۷_

۷۶

فرعون:فرعون اور موسى ۴; اس كا قصہ ۵

فرعونى لوگ:انكا نسلى امتياز ۲۱; يہ اور موسى (ع) ۱۰، ۲۰; انكى مشكلات ۵

قبطي:انہيں بنى اسرائيل پر ترجيح دينا ۲۱

ماں :اس كا كردار ادا كرنا ۱۶

مشكلات:انكا سرچشمہ ۳۱

موسى (ع) :انكے امتحان كے اثرات ۳۵; انكى واپسى كے اثرات ۱۴، ۱۷; انكے قتل كے اثرات ۱۹، ۲۰، ۲۶; انكى مشكلات كے اثرات ۳۵; انكا احساس نا امنى ۲۰; انكا امتحان ۲۵، ۲۹، ۳۳; انكى ماں كا غم و اندوہ ۱۳; انكا غم و اندوہ ۲۲; انكى واپسى ۱۰، ۳۸; انكے امتحان كا متعدد ہونا ۲۷; انكا پيچھا كرنا ۳; انكى كفالت ۱۰، ۱۱; انكى خطا ۴۳; انكى بہن ۱، ۶; انكى بہن اور فرعون كے دربارى ۷; انكى بہن كى راز دارى ۹; انكے امتحان كا پيش خيمہ ۲۶; انكى تربيت

كا پيش خيمہ ۱۷;ان كے رشد و تكامل كا پيش خيمہ ۱۷;انكى مناجات كا پيش خيمہ ۳۵; انكى نبوت كا پيش خيمہ ۳۴، ۳۵، ۴۰; انكى بہن كى صفات ۹; انكى بہن كا علم ۲; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۱۹; انكى واپسى كے عوامل ۱۲; انكى ماں كے غم و اندوہ كے دور ہونے كے عوامل۱۴; انكى پريشانى كے عوامل ۱۹; انكے فضائل ۳۶; انكے امتحان كا فلسفہ ۳۴; انكى مشكلات كا فلسفہ ۳۴; انكى بہن كى پيشكش كا قبول ہونا ۸; انكا قتل كرنا ۱۸، ۲۲، ۴۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۴، ۱۸، ۲۰، ۲۵، ۲۷، ۲۸، ۳۲، ۳۳، ۴۰، ۴۲، ۴۳; انكا بچپن ۱۱; انكى نگرانى ۴; انكى جدائي كى مدت ۴۲; انكى نگرانى كى مشكلات ۵; انكى مشكلات ۲۸، ۲۹; انكى دايہ كى پہچان كرانا ۶، ۷، ۸; انكى ماں كا مقام ۱۵; آپ كوہ طور ميں ۳۵، ۳۸، ۴۱; آپ مدين ميں ۳۲، ۳۳، ۳۶، ۴۰; آپ نيل ميں ۲; آپكے ساتھ مہربانى ۴۱; آپكى نبوت ۳۶; آپكى نجات ۲۲، ۲۳، ۳۲; آپكى نعمتيں ۲۳، ۲۹; آپكى بہن كا كردار ادا كرنا ۱۲; آپكى ماں كا كردار ادا كرنا ۱۰، ۱۱; آپكى بہن كى پريشانى ۲، ۳; آپكى پريشانى ۲۲; آپكى بہن كى ہوشيارى ۹

نبوت:اسكے شرائط ۳۷

نعمت:اسكے درجے ۲۳; اسكى مشكلات ۳۰

۷۷

آیت ۴۱

( وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي )

اور ہم نے تم كو اپنے لئے منتخب كرليا (۴۱)

۱ _ حضرت موسي،(ع) خداتعالى كے پرورش يافتہ _اصطنعتك

''اصطناع'' يعنى تربيت كرنا اور با ادب بنانا (قاموس) اور لائق بنانے ميں مبالغے پر دلالت كرتا ہے (مفردات راغب) _

۲ _ حضرت موسى (ع) كا وجود راہ خدا كيلئے وقف _لنفسي ''تجھے ميں نے اپنے لئے بنايا'' مخاطب كو اپنے لئے خالص كرنے سے كنايہ ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى سرپرستى اور نگرانى انسانوں كے درميان احكام الہى كو عملى كرنے كيلئے تھا _واصطنعتك لنفسي ''لنفسي'' كى قيد بتائي ہے كہ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى اپنے اہداف كيلئے پرورش كى تھى اور اسے اپنے آسمانى احكام كو عملى كرنے كيلئے طاقتور بنايا تھا بعد والى آيت كريمہ كہ جو فرعون كى طرف جانے كا حكم دے رہى ہے اس معنى كى شاہد ہے _

۴ _ حضرت موسى (ع) ، كو بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام حاصل تھا اور آپ مكمل طور پر خدا تعالى كيلئے مخلص تھے _

و اصطنعتك لنفسي

۵ _ خداتعالى انبياء كى پرورش اور تربيت كرنے والا ہے_واصطنعتك لنفسي

۶ _ رسالت و نبوت كے لائق ہونا،خداتعالى كيلئے مكمل خلوص كے ساتھ مربوط ہے_و اصطنعتك لنفسي

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كے آخرى حصے كى تفسير ہے اور اس قد راور ميزان كو بيان كررہى ہے كہ جس كا انبياء كيلئے حاصل ہونا ضرورى ہے اور حضرت موسى (ع) اس مقام و مرتبے پر فائز ہوكر كوہ طور پر آئے تھے_

۷ _ حضرت موسى (ع) كا كامل اخلاص ان پر خداتعالى كى ايك نعمت _و اصطنعتك لنفسي

۷۸

ہوسكتا ہے اس آيت كريمہ كا عطف '' قتلت نفساً'' جيسے جملوں پر ہو كہ جو خداتعالى كى نعمتوں او راحسانات كو بيان كرر ہے ہيں _

اخلاص:اسكے اثرات ۶

انبياء (ع) :انكا تربيت كرنے والا ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت ۱، ۵

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى اہميت ۳

موسى (ع) ;انكا اخلاص ۴، ۷; انكى شخصيت ۲; انكے فضائل ۲، ۷; انكى تربيت كا فلسفہ ۳; انكى نگرانى كا فلسفہ ۳; انكى تربيت كرنے و الا ۱; انكا مقام ۴; انكى نعمتيں ۷_

نبوت:اسكى شرائط ۶

نعمت:اخلاص والى نعمت ۷

آیت ۴۳

( اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي )

اب تم اپنے بھائي كے ساتھ ميرى نشانياں لے كر جاؤ اور ميرى ياد ميں سستى نہ كرنا (۴۲)

۱ _ ہارون، حضرت موسى (ع) كے بھائي اور رسالت الہى كى انجام دہى ميں انكے شريك _

هرون ا خي إذهب ا نت و ا خوك

۲ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) معجزات و آيات الہى كے ساتھ اپنى رسالت كى انجام دہى كيلئے حركت كرنے پر ما مور _اذهب انت و اخوك بآيا تي

۳ _ حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) كا دين عالمى تھا اور كسى ايك گروہ كے ساتھ مخصوص نہيں تھا_

پہلى اور بعد والى آيات ميں فرعون كى طرف جانے كا تذكرہ ہے ليكن چونكہ اس آيت كريمہ نے رسالت كى تبليغ كيلئے كوئي خاص مورد معين نہيں كيا اس سے احتمال ہوتا ہے كہ حضرت موسى (ع) سب كيلئے ما مور تھے اور فرعون پيغام كے پہچانے كيلئے نقطہ آغاز تھا _

۷۹

۴ _ لوگوں كى طرف حركت كرنا اور ان ميں جانا تبليغ اور رسالت كيلئے لازمى ہے _إذهب إلي إذهب ا نت و ا خوك

ان چند آيات ميں كہ جو مورد بحث ہيں فعل ''اذہب'' كا تين دفعہ تكرار ہوا ہے_ خداتعالى كے اس حكم او رتاكيد سے پتا چلتا ہے كہ تبليغ دين كيلئے بيٹھنا اور لوگوں كے جمع ہونے كا انتظار كرنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ ان كے درميان جاكر دعوت الہى كا پرچم بلند كيا جائے_

۵ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) اپنى دعوت كو انجام دينے كيلئے متعدد معجزات كے حامل تھے _اذهب ...بآيا تي ''آيات''كو جمع كى صورت ميں لانا موسى (ع) و ہارون (ع) كو عطا كئے گئے معجزات و آيات كے متعدد ہونے كى نشانى ہے_ اس تعدد كى توجيہ ميں دو احتمال ہيں _ ۱_ عصا اور يد بيضا والے معجزے اگرچہ بطور كلى دو معجزے تھے ليكن يہ متعدد معجزوں پر مشتمل تھے كيونكہ عصا كا سانپ بننا، اس كا حركت كرنا اور پھر سانپ كا عصا بننا ہر ايك الگ سے معجزہ ہے ۲_ خداتعالى نے اس تعبير كے ساتھ حضرت موسى (ع) كو وعدہ ديا ہے كہ اس كے بعد بھى انہيں معجزات عطا كريگا_

۶ _ عصا اور يد بيضا والے معجزوں كے ہمراہ حضرت موسى (ع) كو ديگر معجزات عطا كرنا خداتعالى كا كوہ طور ميں ان كے ساتھ وعدہ _*بآيا تي باوجود اس كے كہ اس وقت تك حضرت موسى (ع) كو صرف دو معجزے عطا ہوئے تھے ''آيات'' كو جمع لانا ہوسكتا ہے خداتعالى كى طرف حضرت موسى (ع) كے ساتھ ديگر معجزات عطا كرنے كا ضمنى وعدہ ہو _

۷ _ معجزہ انبيا كى نبوت و رسالت كى حقانيت كو ثابت كرنے كاايك طريقہ_إذهب ا نت و ا خوك بآيا تي

۸ _ رسالت انبياء كى نشانياں اور معجزات،خداتعالى كى طرف سے ہيں _بآيا تي

۹ _ خداتعالى كو ياد كرنا اور اسكى بات كرنا موسى (ع) و ہارون (ع) كى دعوت كا محور اور نعرہ_ولاتنيا فى ذكري

۱۰ _ ياد خدا ،رسالت كى انجام د ہى اور پيغام پہنچانے ميں سستى نہ كرنا،خداتعالى كى طرف سے موسى (ع) و ہارون (ع) كو نصيحت _ولاتنيا فى ذكري ''وني'' كا معنى ہے سستى اور كوتاہى كرنا (مصباح) ''لاتينا'' يعنى اے موسى اور ہارون ميرى ياد ميں سستى اور كوتاہى مت كرنا_ اور خداتعالى كى ياد كا لازمہ ان ذمہ داريوں كى طرف توجہ ہے جو خداتعالى كى طرف سے انكے سپردكى گئي ہيں _

۱۱ _ ياد خدا ميں سنجيدگي، اسكى طرف سے سپردكى گئي ذمہ داريوں كى طرف مسلسل توجہ اور اس ميں سستى نہ كرنے كا لازمى ہونا_ولاتنيا فى ذكري

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

آیت ۳۵

( كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ )

ہر نفس موت كا مزہ چكھنے والا ہے اور ہم تو اچھائي اور برائي كے ذريعہ تم سب كو آزمائيں گے اور تم سب پلٹا كر ہمارى ہى بارگاہ ميں لائے جاؤگے (۳۵)

۱ _ موت،انسان كى حتمى تقدير ہے_كل نفس ذائقة الموت

''نفس'' كے كئي معانى ميں ان ميں سے ايك ''حقيقت، عين اور ذات'' ہے لہذا ''كل نفس ذائقة الموت'' يعنى ہر شخص موت كا ذائقہ چكھے گا_

۲ _ سب انسان حتى كہ انبياء (ع) بھى آزمائش الہى سے دوچار ہيں _ا فإين متّ و نبلوكم بالشر و الخير فتنة

۳ _ انسان، دنيا ميں موجود شر و خير كے ذريعے آزمائے جاتے ہيں _و نبلوكم بالشرّ و الخير فتنة

۴ _ انسان كى خلقت كا فلسفہ اور حكمت اسكى آزمائش اور امتحان ہے_كل نفس ذائقة الموت و نبلوكم بالشر و الخير فتنة دو جملوں ''كل '' اور ''نبلوكم ...'' كے ارتباط سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرى جملہ مقدر سوال كا جواب ہے كہ اگر موت سب كا مقدر ہے تو انسانوں كو خلق كيوں كيا گيا؟

۵ _ سب ا نسانوں كى بازگشت،خداتعالى كى طرف ہے_و إلينا ترجعون

۶ _ خداتعالى انسانوں كى حركت كا نقطہ آغاز ہے_و إلينا ترجعون

مذكورہ مطلب ''رجوع'' سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ہر رجوع اور پلٹنے كيلئے ايك نقطہ آغاز ہوتا ہے_

۳۴۱

۷ _ موت نابودى نہيں ہے بلكہ موت كے بعد انسان كى زندگى كا تسلسل چلتا رہيگا_كل نفس ذائقة و إلينا ترجعون

موت كے بعد انسان كا خداتعالى كى طرف پلٹ كر جانا (إلينا ترجعون) مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ قيامت، انسانوں كى آزمائش اور امتحان كے نتيجے كے ظاہر ہونے كا دن ہے_و نبلوكم و إلينا ترجعون

ان دو جملوں'' نبلوكم ...'' اور''إلينا ترجعون ...'' كے ارتباط سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرى جملے نے امتحان اور آزمائش كے فلسفہ اور غرض و غايت كو بيان كيا ہے_

۹ _عن ا بى عبد الله (ع) فى قوله تعالى :'' كل نفس ذائقة الموت'' قال : إنه يموت ا هل الأرض حتى لا يبقى ا حد ثم يموت ا هل السما فيقال: من بقي؟ فيقول: يا رب لم يبق إلا ملك الموت فيقال له : مت يا ملك الموت فيموت ; آيت شريفہ ''كل نفس ذائقة الموت'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: اہل زمين مرجائيں گے يہاں تك كہ ايك بھى باقى نہيں رہيگا پھر اہل آسمان مرجائيں گے اس وقت پوچھا جائيگاگا كون باقى ہے؟ تو ملك الموت كہے گا پروردگارا سوائے فرشتہ موت كے كوئي نہيں بچا پھر اس سے كہا جائيگا اے فرشتہ موت مرجا تو وہ مرجائيگا(۱)

۱۰_ ''روى عن ا بى عبدالله (ع) : إ نّ ا مير المؤمنين (ع) مرض فعاده إخوانه فقالوا: كيف تجدك يا ا مير المؤمنين (ع) ؟ قال: بشر قالوا : ما هذا كلام مثلك قال: إن الله تعالى يقول: '' و نبلوكم بالشر و الخير فتنة'' فالخير الصحة و الغنى و الشر المرض والفقر; امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ اميرالمؤمنين(ع) بيمار ہوگئے اور ان كے (ديني) برادران نے انكى عيادت كى اور كہنے لگے (اب) آپ خود كو كيسا پاتے ہيں اے اميرالمؤمنين (ع) تو آپ(ع) نے فرمايا شر ميں (مبتلا ہوچكا ہوں ) تو كہنے لگے يہ آپ جيسے لوگوں كى بات نہيں ہے تو فرمايا خداتعالى فرماتا ہے ''و نبلوكم بالشر و الخير فتنة'' اور صحت اور بے نيازى خير اور بيمارى اور تنگدستى شر ہے(۲)

امتحان:اس كا ذريعہ ۳، ۱۰; يہ خير كے ذريعے ۳، ۱۰; يہ شر كے ذريعے ۳، ۱۰

انبياء (ع) :ان كا امتحان ۲

انسان:اس كا امتحان ۳، ۴; اس كا انجام ۱، ۵; اسكى خلقت كا فلسفہ ۴; اسكى حركت كا سرچشمہ ۶

____________________

۱ ) كافى ج۳، ص ۲۵۶ ح ۲۵_ نورالثقلين ج۱، ص ۴۱۹، ح ۴۷۰_

۲ ) مجمع البيان ج۷، ص ۷۴_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۲۹ ح ۶۸_

۳۴۲

خدا كى طرف بازگشت:۵

قيامت:اس ميں حقائق كا ظہور ۸

خير:اس سے مراد ۱۰

روايت ۹، ۱۰

زندگي:موت كے بعد زندگى ۷

شر:اس سے مراد ۱۰

عزرائيل:اسكى موت ۹

موت:اس كا حتمى ہونا ۱; اسكى حقيقت ۷; اس كا عام ہونا ۹

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

آیت ۳۶

( وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُواً أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ )

اور جب بھى يہ كفار آپ كو ديكھتے ہيں تو اس بات كا مذاق اڑاتے ہيں كہ يہى وہ شخص ہے جو تمھارے خداؤں كا ذكر كيا كرتا ہے اور يہ لوگ خود تو رحمان كے ذكر سے انكار ہى كرنے والے ہيں (۳۶)

۱ _ مكہ كے مشركين اور كفار جب پيغمبراكرم (ص) كے سامنے آتے تو آپ(ص) كا مذاق اڑاتے اور مسخرہ كرتے_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

۲ _ مذاق اڑانا اور مسخرہ كرنا، مكہ كے كفار اور مشركين كا آنحضرت(ص) كے ساتھ پيش آنے كا واحد طريقہ_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

حرف نفى ''إن'' اور اس كے بعد حرف استثنا ''الّا'' كہ جو حصر پر دلالت كرتے ہيں نيز ''ہزواً'' كا مصدر كى صورت ميں آنا يہ سب مذاق اڑانے اور مسخرہ كرنے ميں شدت اور تسلسل كو بيان كررہے ہيں _

۳ _ مكہ كے كفار اور مشركين كا اسلام اور پيغمبر اكرم(ص) كى منطق اور استدلال كے مقابلے ميں ناتواني_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

۳۴۳

چونكہ كفار و مشركين مسلسل آنحضرت(ص) كا مذاق اڑاتے تھے اس سے پتا چلتا ہے كہ وہ منطق، دليل اور برہان كا راستہ اختيار كرنے سے عاجز تھے اور ان كے پاس مذاق كے علاوہ كوئي چارہ نہيں تھا_

۴ _ شرك اور مشركين كے باطل اور خيالى معبودوں كے ساتھ مقابلہ آنحضرت(ص) كے پروگراموں ميں سر فہرست_

ا هذا الذى يذكر ء الهتكم ذكر اور ياد كرنا خير كے ساتھ بھى ہے اور شر كے ساتھ بھى ليكن قرينہ مقام بتاتا ہے كہ يہاں پر مراد شر كے ساتھ ياد كرنا ہے_

۵ _ كفار مكہ كى طرف سے ہميشہ پيغمبر اكرم(ص) كى تحقير كى جاتي_و إذا رء اك أهذا الذى يذكر ء الهتكم

''أہذا ...'' ميں ہمزہ استفہاميہ تعجب كيلئے ہے اور استہزا قرينہ ہے كہ اسم اشارہ، ''ہذا''تحقير ميں استعمال ہوا ہے_

۶ _ لوگوں كے دينى جذبات اور عقائد سے استفادہ كرنا اور انہيں آنحضرت(ص) كے خلاف بھڑ كانا كفر و شرك كے سرغنوں كى آنحضرت(ص) كے ساتھ پيش آنے كى ايك روش _ا هذا الذى يذكر ء الهتكم

چونكہ كفار مكہ نے لوگوں كو مخاطب قرار ديا ہے اور انہوں نے ''آلہتكم'' كہا ہے نہ ''آلہتنا'' تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ پيغمبر(ص) اكرم كے خلاف لوگوں كے جذبات اور عقائد سے استفادہ كرتے تھے_

۷ _ مكہ كے كفار اور مشركين خداتعالى كے نام ''رحمان'' كے سلسلے ميں بڑے حساس اور خداتعالى كى رحمانيت كے منكر ہے_و هم بذكرالرحمن هم منكرون پروردگار كے ناموں ميں سے خاص طور پر ''رحمان'' كا ذكر كرنا نيز ''ہم'' كا تكرار مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ كفار مكہ خدائے رحمان كے منكر تھے_و هم بذكرالرحمن هم كفرون قابل ذكر ہے كہ كفار نام ''رحمان'' كے منكر تھے اس سے بدرجہ اولى استفادہ ہوتا ہے كہ وہ ذات خدائے رحمان كے بھى منكر تھے_

۹ _ قرآن كا آسمانى ہونا كفار اور مشركين مكہ كا مورد انكارو هم بذكرالرحمن هم كفرون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' سے مراد قرآن كريم ہو جيسا كہ قرآن كريم كے متعدد موارد ميں _ جيسا كہ اس سورت كى دوسرى آيت ميں ہے_ قرآن كو ذكر سے ياد كياگيا ہے_

۳۴۴

۱۰ _ رحمان خداتعالى كے اہم اور برجستہ ناموں ميں سے ہے_و هم بذكرالرحمن هم كفرون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خداتعالى نے كفار كو عذاب كا مستحق متعارف كراتے ہوئے انہيں منكرين رحمانيت قرار ديا ہے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۱۱ _ مكہ كے كفار اور مشركين تنگ نظر، متعصب اور مخالفين كى افكار كو برداشت نہ كرنے والے لوگ تھے_

أهذا الذى يذكر ء الهتكم و هم بذكرالرحمن هم كفرون

مذكورہ مطلب اس نكتے كى طرف توجہ كرنے سے حاصل ہوتا ہے كہ كفار مكہ كو حتى كہ ''خدائے رحمان'' كا نام سننا بھى گوارا نہيں تھا اور ہميشہ پيغمبراكرم (ص) كے ساتھ مذاق اور تمسخر كے ساتھ پيش آتے_

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۶; اس كے ساتھ مبارزت ۳

اسما و صفات:رحمان ۱۰

آنحضرت(ص) :آپ (ص) كا مذاق اڑانا۱، ۲; آپ (ص) كے خلاف جذبات كو بھڑكانا ۶; آپ (ص) كى تحقير ۵; آپ (ص) كى شرك دشمنى ۴; آپ (ص) كے ساتھ مقابلہ ۳; آپ (ص) كى طرف سے مقابلہ۴; آپ (ص) كى اہم ترين رسالت ۴

خداتعالى :اسكى رحمانيت كى اہميت ۱۰; اسكى رحمانيت كو جھٹلانے والے ۸۷

باطل معبود:ان كے ساتھ مبارزت ۴

رہبران:رہبران شرك كے پيش آنے كى روش ۶; رہبران كفر كے پيش آنے كى روش ۶

قرآن كريم:اسكے وحى ہونے كو جھٹلانے والے ۹

كفار مكہ:انكى تمسخر بازى ۱، ۲; انكى سوچ ۷، ۸، ۹; انكا تعصب ۱۱; ان كے پيش آنے كى روش ۱، ۲، ۵; انكى تنگ نظرى ۱۱; انكا عاجز ہونا ۳; انكا مقابلہ كرنا ۳

مشركين مكہ:انكا مذاق اڑانا ۱، ۲; انكى سوچ ۷،۹; انكا تعصب ۱۱; ان كے پيش آنے كى روش ۱، ۲; انكى تنگ نظرى ۱۱; انكا عاجز ہونا ۳; انكا مقابلہ ۳

۳۴۵

آیت ۳۷

( خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ )

انسان كے خمير ميں عجلت شامل ہوگئي ہے اور عنقريب ہم تمھيں اپنى نشانياں دكھلائيں گے تو پھر تم لوگ جلدى نہيں كروگے (۳۷)

۱ _ انسانى فطرت، بہت جلدباز اور عجولانہ ہے_خلق الإنسان من عجل

''أنسان عجلت سے پيدا كيا گيا ہے'' كى تعبير اس بات سے كنايہ ہے كہ جلد بازى انسان كى فطرت ميں ہے ورنہ انسان تو نطفے اور سے پيدا ہوا ہے نہ جلد بازى سے_

۲ _ آدمى ، قدرتى انسانى تمايلات سے بھى متأثر ہے اور صرف بيرونى حالات سے متاثر نہيں ہے_خلق الإنسان من عجل

چونكہ انسان كى خلقت كو جلدبازى كے خمير سے قرار ديا گيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان صرف بيرونى حالات اور ماحول (معاشرہ، تربيت اور ) سے ہى متاثر نہيں ہوتا بلكہ انسانى غريز ے بھى اس ميں مؤثر ہيں _

۳ _ خداتعالى كى رحمانيت كا انكار جلدبازى كا فيصلہ ہے اور يہ عاقلانہ سوچ نہيں ہے_هم بذكر الرحمن هم كفرون خلق الانسان من عجل مذكورہ مطلب اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ مشركين خداتعالى كى رحمانيت كا انكار كرتے تھے اور خداتعالى انسان كى فطرت اور جلدبازى سے نہى كو بيان كر كے اس نكتے كو ذكر كرنا چاہتا ہے كہ خداتعالى كى رحمانيت كا انكار جلدبازى كا فيصلہ ہے اور ضرورى ہے كہ آيات الہى كا مطالعہ كر كے عميق علمى فكر اپنائي جائے_

۴ _ كفار مكہ شكست اور دنيوى عذاب كى دہليز پر تھے_سأوريكم ء اى تي

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آيات سے مراد كفار مكہ كى شكست اور ان كا دنيوى عذاب ہو_ قابل ذكر ہے كہ ان آيات كا مكى ہونا اس مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۳۴۶

۵ _ كفار مكہ كو قريب الوقوع عذاب اور نابودى كى دھمكى دى گئي تھي_سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

بعد والى آيات( بل تأتيهم بغتة ...) كے قرينے سے ''آياتي'' سے مراد عذاب اور ہلاكت ہے_

۶ _ دين دشمن كافروں كى نابودى اور مسلمانوں كى كاميابى قاعدے اور قانون كے مطابق ہے اور اس كا مناسب وقت ہے_خلق الانسان من عجل سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

مذكورہ مطلب اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ مؤمنين، پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مشركين كى گستاخانہ روش كو ديكھ كر بے صبرى كے ساتھ خداتعالى كے دشمنوں كى ہلاكت اور مسلمانوں كى كاميابى والے وعدے كے عملى ہونے كے منتظر تھے اور خداتعالى نے انہيں صبر كرنے اور جلد بازى نہ كرنے كى دعوت دى ہے قابل ذكر ہے كہ مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''سأوريكم فلاتستعجلون'' كےمخاطب مسلمان ہوں _

۷ _ كفار اور دين دشمنوں كى ہلاكت و شكست اور مؤمنين كى كاميابى آيات الہى ميں سے ہے_سأوريكم ء اى تي

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ كفار كى ہلاكت اور مسلمانوں كى كاميابى كو ''آيات'' سے تعبير كيا گيا ہے_

۸ _ صدر اسلام كے مؤمنين، كافروں پر جلدى غالب آنے اور كامياب ہونے كے منتظر تھے_سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''آيات'' سے مقصود كافروں كى دنياوى ہلاكت اور دنياوى عذاب ہو اور ''سأوريكم فلا تستعجلون'' كے مخاطب مسلمان ہوں _

۹ _ مناسب وقت سے پہلے اور جلدبازى كا كام اگرچہ كام اچھاہى ہو ايك ناپسنديدہ اور قابل مذمت امر ہے_

خلق إلانسان من عجل فلاتستعجلون

۱۰ _انسانى غريزوں اور طبائع كو كنٹرول كرنا ممكن ہے _خلق إلانسان من عجل ...فلا تستعجلون

خداتعالى نے جلدبازى سے نہى كى ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جلدبازى پر قابو پانے كى قدرت انسان ميں موجود ہے_

آيات خدا:۷/انسان:اس كا متأثر ہونا۲; اسكى صفات ۱، ۲; اسكى جلدبازى ۱

خداتعالى :اسكى رحمانيت كو جھٹلانے كا غير منطقى ہونا۳; اسكے عذابوں كا قاعدے اور قانون كے مطابق ہونا ۶

دين:دين دشمنوں كى شكست ۷; دين دشمنوں كى ہلاكت ۶، ۷

۳۴۷

جلدبازي:اسكى مذمت ۹

عمل:عمل خير ميں جلدبازى كرنا ۹

غرائز:ان كو كنٹرول كرنا ۱۰

كفار:ان كى شكست۷; انكى ہلاكت ۶، ۷

كفار مكہ:انكى شكست ۴; انكا دنيوى عذاب ۴; انكا عذاب۵; انكو تنبيہ۵; انكى ہلاكت ۵

مؤمنين:صدر اسلام كے مؤمنين كى توقعات ۸; انكى كاميابى ۷

مسلمان:انكى كاميابى ۶; انكى كاميابى ميں جلدى ۸

آیت ۳۸

( وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ اگر تم سچّے ہو تو اس وعدہ قيامت كا وقت آخر كب آئے گا (۳۸)

۱ _ كفار كى شكست و ہلاكت اور مؤمنين كى كاميابى ،وعدہ الہى _سأوريكم ء اى تي و يقولون متى هذا الوعد

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''وعد'' سے مراد مؤمنين كى كاميابى اور مشركين كى شكست ہو_

۲ _ قيامت كا برپا ہونا اور دين دشمن كافروں كى سزا، وعدہ الہى ہے _و يقولون متى هذا الوعد

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الوعد'' كا ''ال'' عہد حضورى كا اور اس سے مقصود قيامت كا برپا ہونا اور كافروں كا عذاب ہو كہ جس كا تمام انبيا(ع) ء مسلسل اپنى امتوں كو وعدہ ديتے رہے اور يہ وعدہ امتوں كى يادداشت ميں باقى تھا_

۳ _ كفار مكہ، قيامت اور اخروى عذاب كے منكر تھے_و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

۴ _ مكہ كے دين دشمن كفار، خداتعالى كے وعدوں اور دھمكيوں (عذاب، اخروى سزا و غيرہ) كا مذاق اڑاتے اور انكا تمسخر كرتے_و يقولون متى هذا الوعد

جملہ استفہاميہ''و يقولون متى هذا الوعد'' تہكم اور استہزا كيلئے ہے_

۳۴۸

۵ _ مكہ كے دين دشمن كفار، خداتعالى كے وعدوں كے سلسلے ميں پيغمبر اسلام(ص) اور مؤمنين كو جھوٹا سمجھتے تھے_

و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

۶ _ انسان كى عجولانہ خصلت كفار مكہ كى طرف سے خداتعالى كے وعدوں (عذاب، قيامت برپا كرنا وغيرہ) كے عملى ہونے كى درخواست كا سبب بني_خلق إلانسان من عجل ...و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''يقولون متى ...'' كا جملہ ''سأوريكم ...'' پر عطف ہو اور يہ دو جملے ''خلق الانسان من عجل'' كہ جو انسانوں كى عمومى خصلت كو بيان كررہا ہے كے ساتھ مربوط ہو_

آنحضرت(ص) :آپ(ص) پر جھوٹ كى تہمت ۵

انسان:اسكى جلدبازى كے اثرات ۶; اسكى صفات ۶

خداتعالى :اس كے عذاب كا مذاق اڑانا ۴; اسكے متنبہ كرنے كا مذاق اڑانا۴; اسكے وعدے ۱، ۲; اسكى دھمكياں ۱، ۲

دين:دين دشمنوں كى سزا كا وعدہ ۲

عذاب:اس ميں جلدى كرنے كى درخواست كا پيش خيمہ ۶; اخروى عذاب كو جھٹلانے والے ۳

قيامت:اس ميں جلدى كرنے كى درخواست كا پيش خيمہ ۶; اسے جھٹلانے والے ۳; اس كا وعدہ ۲

كفار:انكى سوچ ۳

كفار مكہ:انكا مذاق اڑانا۴; انكى تہمتيں ۵; انكى جلدبازى كا پيش خيمہ ۶; انكى شكست كا وعدہ ۱; انكى ہلاكت كا وعدہ ۱

سزا:اخروى سزا كا مذاق اڑانا ۴

مؤمنين:ان پر جھوٹے ہونے كى تہمت ۵; انكى كاميابى كا وعدہ ۱

۳۴۹

۳۸۰ تا ۳۸۳

( لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَن ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ) (٣٩)

( بَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ ) (٤٠)

۳۵۰

آیت ۴۱

( وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُون )

اور پيغمبر آپ سے پہلے بھى بہت سے رسولوں كا مذاق اڑايا گيا ہے جس كے بعد ان كفار كو اس عذاب نے گھيرليا جس كا يہ مذاق اڑا رہے تھے (۴۱)

۱ _ بشر، پيغمبر خاتم(ص) سے پہلے صاحبان رسالت انبيا(ع) كے وجود سے بہرہ مند تھا_و لقد استهزي برسل من قبلك

۲ _ طول تاريخ ميں حق دشمن عناصر كا انبياء الہى كے ساتھ تمسخر آميز سلوك _و لقد استهزي برسل من قبلك

۳ _ كفار طول تاريخ ميں انبيا(ع) ء الہى كے ساتھ غير منطقى سلوك كرنے ميں ايك جيسے رہے ہيں _

و لقد استهزي برسل من قبلك

تمسخر آميز سلوك، موقف اپنانے ميں دليل و منطق كے نہ ہونے كو بيان كر رہا ہے اور چونكہ گذشتہ انبيا(ع) ء اور پيغمبر اكرم(ص) اسلام كفار كے مذاق كا نشانہ بن چكے ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ كفار كا سلوك ايك جيسا تھا اور وہ ايك جيسا موقف ركھتے تھے_

۴ _ كفار كے مذاق كے مقابلے ميں خداتعالى كا پيغمبراكرم(ص) كو تسلى دينا _و لقد استهزي برسل من قبلك

خداتعالى نے گذشتہ آيات ميں كافروں كے پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مذاق كرنے كے موضوع كا تذكرہ كيا اور اس آيت ميں گذشتہ انبيا(ع) ء كے تمسخر كى ياد دہانى كرائي ہے_يہ ياد دہانى ممكن ہے آنحضرت(ص) كى تسلى كى غرض سے ہو_

۵ _ انبيا(ع) ء بھى انسانى خصوصيات (دلى رنج و الم اور دلجوئي و تسلى كى ضرورت) كے حامل ہوتے ہيں _

و لقد استهزي برسل من قبلك

كفار كے تمسخر كے مقابلے ميں خداتعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كى دلجوئي كرنا اس حقيقت كا غماز ہے كہ پيغمبر اكرم بھى ديگر انسانوں كى طرح دشمنوں كے حملوں سے متأثر ہوتے ہيں اور انہيں بھى دلى تسلى كى ضرورت ہوتى ہے_

۶ _ طول تاريخ ميں رہبران الہى كى كوشش اور رنج و الم كى طرف توجہ، دين كے راستے ميں كوشش كرنے والوں كى تسلى كا سبب ہے_و لقد استهزي برسل من قبلك

۳۵۱

۷ _ راہ الہى ميں حركت، شديد نفسياتى اور روحى مشكلات اور سختيوں كو ہمراہ لاتى ہے_و لقد استهزي برسل من قبلك

اس سے كہ خداتعالى نے گذشتہ انبيا(ع) ء كى مشكلات اور رنج و الم كى يادآورى كرائي ہے معلوم ہوتا ہے كہ راہ حق كو طے كرنا مشكلات كے ہمراہ ہوتا ہے_

۸ _ انبيا(ع) ء كا مذاق اڑانے والے اس عذاب ميں مبتلا ہوئے كہ جس كا وہ مذاق اڑاتے تھے _

فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزئون

''ما كانوا بہ يستہزء ون'' سے مراد مہلك عذاب ہے كيونكہ طول تاريخ ميں كفار جس كا مذاق اڑاتے تھے اور وہى ان پر نازل ہوا وہ مہلك عذاب تھا_

۹ _ حق كے مقابلے ميں ہٹ دہرمى اور انبيا(ع) ء و رہبران الہى كا مسلسل مذاق اڑانا عذاب خداوندى ميں مبتلا ہونے كے اسباب فراہم كرتا ہے_و لقد استهزى برسل من قبلك فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

۱۰ _ انسانوں كيلئے خداتعالى كى طرف سے عذاب اور سزا،خودان كے اپنے عمل كا رد عمل اور نتيجہ ہے_

ولقد استهزي فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

۱۱ _ پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے والوں كو عذاب الہى كى دھمكي

و لقد استهزي برسل من قبلك فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ گذشتہ آيات ميں كافروں كے پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے كا تذكرہ تھا_ انبيا(ع) ء كا مسخرہ كرنے والوں كے عذاب ميں مبتلا ہونے كى ياد دہانى سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ يہ انجام پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے والوں كا بھى ہے_

انبياء(ع) :ان كا مذاق اڑانے كے اثرات ۹; انكا مذاق اڑانے والے ۲; آنحضرت(ص) سے پہلے كے انبيا(ع) ء ۱; انكا بشر ہونا ۵; انكى تاريخ ۱، ۲; انكو تسلى ۵; انكا مذاق اڑانے والوں كا عذاب۸; انكى معنوى ضروريات ۵

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا مذاق اڑانا ۴; آپ(ص) كا مذاق اڑانے والوں كو دھمكى ۱۱; آپ(ص) كو تسلى ۴; آپ كا مذاق اڑانے والوں كا عذاب ۱۱

حق:حق پرستى كے اثرات۷; حق كو قبول نہ كرنے كے اثرات ۹

ذكر:

۳۵۲

دينى رہنماؤں كے رنج و غم كا ذكر ۶

دينى راہنما:ان كا مذاق اڑانے كے اثرات ۹; انكى تسلى كے عوامل ۶

عذاب:اہل عذاب ۸; اس كا پيش خيمہ ۹; اسكے عوامل ۱۰

عمل:اسكے اثرات ۱۰

كفار:انكا مذاق اڑانا ۴; انكا غير منطقى ہونا۳; ان كے پيش آنے كى روش ۳; يہ اور انبياء ۳; انكى ہم آہنگى ۳

سزا:اسكے عوامل ۱۰

مشكلات:نفسياتى مشكلات كا پيش خيمہ ۷

نعمت:انبياء كى نعمت ۱

آیت ۴۲

( قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِم مُّعْرِضُونَ )

آپ ان سے كہہ ديجئے كہ انھيں رات يا دن ميں رحمان كے عذاب سے بچانے كے لئے كون پہرہ دے سكتا ہے مگر يہ ہيں كہ رحمان كى ياد سے مسلسل منھ موڑے ہوئے ہيں (۴۲)

۱ _ كفار كو شب و روز كے ہر لحظے ميں عذاب الہى كا خطرہ_قل من يكلؤكم من الرحمن

مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ ''من الرحمان'' سے مراد ''من بأس الرحمان و عذابہ'' ہو گذشتہ آيت كہ جو عذاب الہى كے بارے ميں ہے اسى نكتے كى تائيد كرتى ہے_

۲ _ ارادہ الہى كے مقابلے ميں تمام موجودات كى ناتوانى اور عاجز ہونا_قل من يكلؤكم من الرحمن

۳ _ انسان كو زندگى كے تمام لمحوں ميں خداتعالى كى حمايت اور حفاظت كى ضرورت ہے_

قل من يكلؤكم باليّل و النهار من الرحمن

۳۵۳

''يكلائ'' كے مادے ''كلاء ة'' كا معنى ہے شے كى حفاظت كرنا اور'' من الرحمان ''ميں ''من'' بدليہ ہے يعنى خدائے رحمن كى بجائے_

۴ _ كافروں كى اپنے پروردگار سے روگردانى اس كى مسلسل رحمت سے بہرہ مند ہونے كے با وجود

قل من يكلؤكم من الرحمن بل هم عن ذكر ربهم معرضون

آيت كريمہ ميں ''بل'' اضراب انتقالى كيلئے ہے يعنى خداتعالى نے بشر كى خدائے رحمان كى طرف نيازمندى كو بيان كرنے اور اسكے عذاب كے تذكرے كے بعد كافروں كے كفر كى اصلى علت (ياد پروردگار سے روگردانى اور ربوبيت الہى كى طرف توجہ نہ كرنا) كو بيان كيا ہے_

۵ _ كفار كا كلام الہى كے سننے اور مفاہيم و معارف قرآنى كے درك كرنا سے روگردانى كرنا ان كے خداتعالى كى وسيع رحمت كى طرف توجہ نہ كرنے اور پيغمبراكرم(ص) كى نصيحتوں سے متاثر نہ ہونے كى دليل ہے_

قل من يكلؤكم من الرحمن بل هم عن ذكر ربهم معرضون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' سے مراد قرآن ہو كيونكہ قرآن كا ايك نام اور صفت ''ذكر'' ہے_

۶ _ سب انسانوں حتى كہ پروردگار سے روگردانى كرنے والوں كو بھى رحمت الہى شامل ہے _

قل من يكلؤكم ...بل هم عن ذكر ربهم معرضون

۷ _ انسان كيلئے اپنے پروردگار اور تربيت كرنے والے كو ياد كرنا ضرورى ہے_بل هم عن ذكر ربهم معرضون

پروردگار كى ياد سے روگردانى كرنے كى وجہ سے كفار كو ڈانٹ ڈپٹ، اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ عقل كے حكم كے مطابق انسان كيلئے ضرورى ہے كہ اپنے پروردگار اور تربيت كرنے والے سے غفلت نہ كرے_

انسان:اسكى معنوى ضروريات ۳/آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى نصيحت ۵

خداتعالى :اسكى رحمت كا تسلسل ۴; اسكے ارادے كى حكمراني۲; اسكى رحمت عامہ ۶

ذكر :ذكر خدا كى اہميت ۷; ربوبيت خدا كا ذكر ۷; تربيت كرنے و الے كا ذكر ۷

رحمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۴/قرآن كريم:اس سے اعراض كرنے والے ۵

كفار:انكا اعراض ۴; ان پر نصيحت كا اثر نہ كرنا ۵; انكا حق كو قبول نہ كرنا ۵; ان كو عذاب كا خطرہ ۱; ان پر رحمت ۴

خداتعالى سے اعراض كرنے والے ۴:ان پر رحمت ۶

۳۵۴

موجودات:انكے عاجز ہونا ۲

ضروريات:خداتعالى كى حمايت كى ضرورت ۳

آیت ۴۳

( أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُم مِّن دُونِنَا لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنفُسِهِمْ وَلَا هُم مِّنَّا يُصْحَبُونَ )

كياان كے پاس ايسے خدا موجود ہيں جو ہمارے بغير انھيں بچاسكيں گے يہ بيچارے تو خود اپنى بھى مدد نہيں كرسكتے ہيں اور نہ انھيں خود بھى عذاب سے پناہ دى جائے گى (۴۳)

۱ _ جھوٹے خدا اور معبود، مشركين كو عذاب الہى سے بچانے كيلئے توان نہيں ركھتے _ا م لهم ء الهة تمنعهم من دونن

آيت كريمہ ميں ''أم'' منقطعہ كى قسم سے اور ''بل'' كى طرح استفہام انكارى كے معنى پر مشتمل ہے اور (إلہ كى جمع) ألہة كا معنى معبود ہے_

۲ _ مشركين كے جھوٹے معبود اور خدا ،اور خداتعالى كے علاوہ ہر طاقت اپنى حمايت اور حفاظت سے بھى ناتوان ہے_

لايستطيعون نصر أنفسهم جملہ''لا يستطيعون ...'' ،''تمنعہم'' كے فاعل كيلئے حال ہے كہ جو خدا اور معبود ہيں _

۳ _ مشركين كے معبود خود اپنى مدد كرنے سے ناتوان اور خداتعالى كى مدد سے محروم ہيں _لا يستطيعون نصر أنفسهم و لا هم منا يصحبون

''يصحبون'' (صحب كے مادہ سے) ''عاشَر'' كے معنى ميں ہے اور اس معنى كا لازمہ نصرت اور تائيد ہے كيونكہ ايك ہم نشين اپنے دوسرے ہم نشينوں كى حمايت كرتا ہے_

۴ _ احتياج اور نيازمندى مقام الوہيت كے ساتھ سازگار نہيں ہے_لايستطيعون نصر أنفسهم

خداتعالى نے ''آلہة'' كى خود اپنى حفاظت ميں ناتوانى اور ان كے ديگر محافظوں كى طرف محتاج

۳۵۵

ہونے كو ان كے الوہيت كے لائق نہ ہونے كى دليل شمار كيا ہے_ اس حقيقت كى ياد دہانى ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كر رہى ہو_

۵ _ كفار كا عذاب الہى كے مقابلے ميں ہر طرف سے بے پناہ ہونا اور ان كى ہلاكت كا حتمى ہونا _

ا م لهم آلهة تمنعهم من دوننا و لاهم منا يصحبون

۶ _ كافروں كا يہ عقيدہ كہ ان كے جھوٹے خدا، خداتعالى كے نزديك معزز اور معتبر ہيں كھوكھلا اور بے بنياد ہے_

لايستطيعون نصر أنفسهم و لا هم منا يصحبون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ آيت كريمہ كے مخاطبين مشركين ہيں اور وہ اپنے معبود اور خداؤں كو اپنا شفيع سمجھتے تھے معلوم ہوتا ہے كہ اس آيت كريمہ كا مقصد ايسے خيال كے بطلان كو بيان كرتا ہے_

الوہيت:اسكے شرائط ۴

عذاب:اہل عذاب۵; اہل عذاب كا بے يار و مددگار ہونا ۱

عقيدہ:باطل عقيدہ ۶

كفار:ان كا بے پناہ ہونا ۵; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۵; انكا عقيدہ ۶

مشركين:ان كى امداد ۳; انكا بے يار و مددگار ہونا۱،۲باطل معبود۶

ان كى امداد۳; انكا بے يار و مددگار ہونا۳; انكا عاجز ہونا۱، ۲، ۳

سچے معبود:ان كى نيازمندي۴

آیت ۴۴

( بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاء وَآبَاءهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ )

بلكہ ہم نے انھيں اور ان كے باپ دادا كو تھوڑى سى لذّت دنيا ديدى ہے يہاں تك كہ ان كا زمانہ طويل ہوگيا تو كيا يہ نہيں ديكھتے ہيں كہ ہم برابر زمين كى طرف آتے جارہے ہيں اور اس كو چاروں طرف سے كم كرتے جارہے ہيں كيا اس كے بعد بھى يہ ہم پر غالب آجانے والے ہيں (۴۴)

۱ _ مشرك معاشروں كے نعمات الہى سے بہرہ مند ہونے كے ساتھ ان كى لمبى عمر،ان كى معبودوں كے ساتھ دل

۳۵۶

بستگى اور ان كے كارساز ہونے كى خيال كے سبب بني_بل هم عن ذكر ربهم معرضون بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

جملہ ''بل متعنا ...'' ميں ''بل'' سابقہ موضوع (أم لہم آلہة تمنعہم من دوننا) سے اضراب كيلئے ہے يعنى يہ خيال كہ يہ معبود ان كى حمايت كريں گے ان كى مہلت اور لمبى عمر كے ساتھ ساتھ نعمتوں سے مال زندگى كى وجہ سے ہے_

۲ _ دنياوى نعمتوں سے بہرہ مندى اور اس كے ساتھ ساتھ لمبى عمر، اہل مكہ اور ان كے آبا ؤ اجداد كى غفلت اور تكبر كا سبب تھي_بل هم عن ذكر ربهم معرضون بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہولائ'' مخاطبين (مكہ كے لوگ) كے اذہان ميں موجود لوگوں كى طرف اشارہ ہو جيسا كہ مكہ ميں نازل ہونے والى بہت سى آيات كا مشار اليہ اس سرزمين كے لوگ ہيں _

۳ _ معبودوں اور خداؤں كا عمر كى مقدار اور انسان كى مادى بہرہ مندى ميں دخل ركھنا مشركين كا باطل خيال_

ا م لهم ألهة تمنعهم بل متعنا هولائ و أبائهم حتى طال عليهم العمر

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بل ...'' ''أم لہم آلہة ...'' سے اضراب ہو اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ مشركين اپنے خداؤں كيلئے ايسى قدرت كا اعتقاد ركھتے تھے _

۴ _ كفر و شرك والى فكر سرزمين مكہ ميں عرصہ دراز سے موجود تھي_عن ذكر ربهم معرضون_ ا م لهم ألهة بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خداتعالى نے اہل مكہ كے آباؤ اجداد كو خدا سے اعراض كرنے والے اور دنياوى نعمتوں اور لمبى عمر سے بہرہ مند شمار كيا ہے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۵ _ خداتعالى نے بعض گذشتہ اقوام اور ملتوں كو دنياوى نعمتوں سے بہرہ مند كرنے كے ساتھ ساتھ انہيں لمبى عمر بھى عطا كي_بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

۶ _ معاشروں اور تمدنوں كا لمبى عمر اور دنياوى نعمتوں سے بہرہ مند ہونا انكى حقانيت اور كاميابى كى دليل نہيں ہے_

بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر أفهم الغالبون

۷ _ سرزمين مكہ عرصہ دراز سے دنياوى نعمتوں سے مالامال اور ہلاكت خيز حوادث اور عذاب الہى سے محفوظ تھي_بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر يہ چيز كہ خداتعالى نے اہل مكہ اور ان كے آباؤ اجداد كو لمبى مدت تك دنياوى منافع سے بہرہ مند كيا سرزمين مكہ كے عرصہ دراز سے ہلاكت خيز حوادث سے محفوظ رہنے كو بيان كرتى ہے_

۳۵۷

۸ _ انسان كا نعمتوں اور اپنى عمر كى مقدار سے مستفيد ہونا خداتعالى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے تابع ہے_

بل متعنا هولائ أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافها أفهم الغالبون

۹ _ اہل زمين كى آبادى كو كم كرنا اور ملتوں اور اقوام كى موت سنت الہى اور ايك دائمى امر ہے_أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه ''ننقصہا'' ميں ''نقص'' سے مراد اہل زمين كو كم كرنا ہے نہ خود زمين كو كم كرنا اور اس كا فرسودہ ہونا اگر چہ بعض مفسرين نے يہ احتمال ذكر كيا ہے قابل ذكر ہے كہ ''نأتي'' اور ''ننقصہا'' كا صيغہ مضارع كى صورت ميں آنا ان دو فعلوں كے محتوا كے استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۱۰ _ امتوں اور تہذيبوں كى تاريخ سے آگاہ ہونا اور اس سے سبق سيكھنا ايسى چيزيں ہيں جو پسنديدہ اور خداتعالى كى طرف سے مورد تشويق ہيں _أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه مادہ ''رؤيت'' جب دو مفعولوں كى طرف متعدى ہو تو ''علم'' كے معنى ميں ہوتا ہے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اسى معنى ميں استعمال ہوا ہے كيونكہ جملہ ''أنا نأتي ...'' مصدر كى تأويل ميں ہوكر دو مفعولوں كے قائم مقام ہے_

۱۱ _ انسانوں كى موت اور معاشروں اور تہذيبوں كا ختم ہونا انسان كيلئے عبرت كا سامان ہے _

أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

۱۲ _ انسانى معاشروں اور تہذيبون كے زوال كا تدريجى ہونا_أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

كلمہ ''نقص'' يعنى كم كرنا اور فعل مضارع ''نأتي'' اور ''ننقصہا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو استمرار كا فائدہ ديتے ہيں _ مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۱۳ _ كفار كا انسانوں كى قوت اور معاشروں اور تہذيبوں كے زوال كے مشاہدہ سے عبرت حاصل نہ كرنا_

أفلا يرون أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

۱۴ _ خداتعالى كى طرف سے كافر و مشرك معاشروں كى نابودي، اسلام كى كاميابى اور اسلامى سرزمين كے حدود كے وسيع ہونے كى خوشخبرى _أفلا يرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيات كفار اور منكرين قرآن كے بارے ميں ہيں _ زمين اور اہل زمين كو كم كرنے سے مقصود كفار كى تعداد كو كم كرنا اور مسلمانوں كى تعداد كو بڑھانا ہے''أفلا يرون'' كى ضمير غائب اور''أفهم الغالبون'' ميں ہمزہ استفہام انكارى اس مطلب كا مؤيد ہوسكتا ہے_

۱۵ _ ارادہ خدا كے مقابلے ميں كفار اور ان كے خداؤں كا كمزور اور ناتوان ہونا _

۳۵۸

أفهم الغالبون

''أفہم'' ميں ہمزہ استفہام انكارى كيلئے ہے_

۱۶ _ عالم ہستى ميں خداتعالى بے مثال قادر اور مطلق حاكم ہے_بل متعنا هولائ أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافها أفهم الغالبون

۱۷ _ انسانوں كو موت دينا اور معاشروں اور تہذيبوں كو نابود كرنا خداتعالى كى بے مثال اور ناقابل شكست قدرت كى دليل ہے_أنّا ناتى الأرض ننقصها من أطرافهاأفهم الغالبون

خداتعالى كے ذريعے انسان كى موت كے مسئلے كو ذكر كرنے كے بعد قدرت الہى كے مقابلے ميں كفار كى كاميابى او رغلبے كى نفى كرنا اور اس پر سواليہ نشان لگانا (أفهم الغالبون ) ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

انسان:اسكى موت ۱۷

عالم خلقت:اس كا حاكم ۱۶

گذشتہ اقوام:ان كے مادى وسائل ۵; انكى تاريخ ۵; ان سے عبرت حاصل كرنا۱۰; ان كى لمبى عمر ۵

امم:انكى حقانيت كے دلائل ۶

مادى وسائل:ان كا سرچشمہ ۳

خوشخبري:اسلام كى كاميابى كى خوشخبري۱۴; اسلام كى وسعت كى خوشخبري۱۴; شرك كى نابودى كى خوشخبري۱۴; كفر كى نابودى كى خوشخبري۱۴/تاريخ:اسكے مطالعے كى تشويق ۱۰

تہذيبيں :انكا تدريجى زوال ۱۲; انكا زوال ۱۷; ان كے زوال سے عبرت حاصل كرنا ۱۱، ۱۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱۶; اسكے اختيارات ۸; اسكا ارادہ ۸، ۱۵; اسكى بشارتيں ۱۴; اسكى ترغيب ۱۰; اسكى حكمرانى ۱۶; اسكى عزت كے دلائل ۱۷; اسكى قدرت كے دلائل ۱۷; اسكى سنتيں ۹; اسكى قدرت ۱۶

شرك:اسكى تاريخ ۴/عبرت:اسكى ترغيب دلانا ۱۰; اسكے عوامل ۱۱

عقيدہ:باطل عقيدہ ۳; باطل معبودوں كا عقيدہ ۱

عمر:لمبى عمر كے ا ثرات ۱; اس كا سرچشمہ ۸; لمبى عمر كا سرچشمہ ۳; لمبى عمر كا كردار ۶

عمل:

۳۵۹

پسنديدہ عمل ۱۰

كفار:انكى ذلت ۱۵; انكى كمزورى ۱۵; انكا عبرت حاصل نہ كرنا ۱۳

كفر:اسكى تاريخ ۴

موت:اس كا دائمى ہونا ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۱۱، ۱۳

مشركين:انكى آسائش كے اثرات ۱; انكا عقيدہ ۳; انكى لمبى عمر۱; انكى نعمتيں ۱

باطل معبود:انكا عاجز ہونا ۱۵; انكا كردار ۳

مكہ:اس كا امن ۷; اسكى تاريخ ۴، ۷; اہل مكہ كى لمبى عمر ۲; اہل مكہ كے تكبر كے عوامل ۲; اہل مكہ كى غفلت كے عوامل ۲; اسكى فضيلت ۷; اہل مكہ كى دنياوى نعمتيں ۲

نعمت:اس كا سرچشمہ ۸

آیت ۴۵

( قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاء إِذَا مَا يُنذَرُونَ )

آپ كہہ ديجئے كہ ميں تم لوگوں كووحى كے مطابق ڈراتا ہوں اور بہرہ كو جب بھى ڈرايا جاتا ہے وہ آوازہ كو سنتا ہى نہيں ہے (۴۵)

۱ _ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كيلئے اپنے اصلى فريضے اور رسالت كے دائرہ كار كو بيان كرنے پر مأمور _قل إنما أنذركم بالوحي

۲ _ لوگوں كو وحى كے سائے ميں انداز كرنا، پيغمبر اسلام(ص) كا اصلى فريضہ و رسالت _قل إنما أنذركم بالوحى

۳ _ پيغمبر اكرم(ص) كا انذاز صرف و حى الہى كى بنياد پر تھا نہ ذاتى اور نفسانى خواہشات و نظريات كے مطابق_

قل أنما انذركم بالوحي

۴ _ وحي، دينى معرفت اور تعليمات الہى كى شناخت كا

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750