تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 750
مشاہدے: 206048
ڈاؤنلوڈ: 2855


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206048 / ڈاؤنلوڈ: 2855
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 11

مؤلف:
اردو

آیت ۳۵

( كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ )

ہر نفس موت كا مزہ چكھنے والا ہے اور ہم تو اچھائي اور برائي كے ذريعہ تم سب كو آزمائيں گے اور تم سب پلٹا كر ہمارى ہى بارگاہ ميں لائے جاؤگے (۳۵)

۱ _ موت،انسان كى حتمى تقدير ہے_كل نفس ذائقة الموت

''نفس'' كے كئي معانى ميں ان ميں سے ايك ''حقيقت، عين اور ذات'' ہے لہذا ''كل نفس ذائقة الموت'' يعنى ہر شخص موت كا ذائقہ چكھے گا_

۲ _ سب انسان حتى كہ انبياء (ع) بھى آزمائش الہى سے دوچار ہيں _ا فإين متّ و نبلوكم بالشر و الخير فتنة

۳ _ انسان، دنيا ميں موجود شر و خير كے ذريعے آزمائے جاتے ہيں _و نبلوكم بالشرّ و الخير فتنة

۴ _ انسان كى خلقت كا فلسفہ اور حكمت اسكى آزمائش اور امتحان ہے_كل نفس ذائقة الموت و نبلوكم بالشر و الخير فتنة دو جملوں ''كل '' اور ''نبلوكم ...'' كے ارتباط سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرى جملہ مقدر سوال كا جواب ہے كہ اگر موت سب كا مقدر ہے تو انسانوں كو خلق كيوں كيا گيا؟

۵ _ سب ا نسانوں كى بازگشت،خداتعالى كى طرف ہے_و إلينا ترجعون

۶ _ خداتعالى انسانوں كى حركت كا نقطہ آغاز ہے_و إلينا ترجعون

مذكورہ مطلب ''رجوع'' سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ہر رجوع اور پلٹنے كيلئے ايك نقطہ آغاز ہوتا ہے_

۳۴۱

۷ _ موت نابودى نہيں ہے بلكہ موت كے بعد انسان كى زندگى كا تسلسل چلتا رہيگا_كل نفس ذائقة و إلينا ترجعون

موت كے بعد انسان كا خداتعالى كى طرف پلٹ كر جانا (إلينا ترجعون) مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ قيامت، انسانوں كى آزمائش اور امتحان كے نتيجے كے ظاہر ہونے كا دن ہے_و نبلوكم و إلينا ترجعون

ان دو جملوں'' نبلوكم ...'' اور''إلينا ترجعون ...'' كے ارتباط سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرى جملے نے امتحان اور آزمائش كے فلسفہ اور غرض و غايت كو بيان كيا ہے_

۹ _عن ا بى عبد الله (ع) فى قوله تعالى :'' كل نفس ذائقة الموت'' قال : إنه يموت ا هل الأرض حتى لا يبقى ا حد ثم يموت ا هل السما فيقال: من بقي؟ فيقول: يا رب لم يبق إلا ملك الموت فيقال له : مت يا ملك الموت فيموت ; آيت شريفہ ''كل نفس ذائقة الموت'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: اہل زمين مرجائيں گے يہاں تك كہ ايك بھى باقى نہيں رہيگا پھر اہل آسمان مرجائيں گے اس وقت پوچھا جائيگاگا كون باقى ہے؟ تو ملك الموت كہے گا پروردگارا سوائے فرشتہ موت كے كوئي نہيں بچا پھر اس سے كہا جائيگا اے فرشتہ موت مرجا تو وہ مرجائيگا(۱)

۱۰_ ''روى عن ا بى عبدالله (ع) : إ نّ ا مير المؤمنين (ع) مرض فعاده إخوانه فقالوا: كيف تجدك يا ا مير المؤمنين (ع) ؟ قال: بشر قالوا : ما هذا كلام مثلك قال: إن الله تعالى يقول: '' و نبلوكم بالشر و الخير فتنة'' فالخير الصحة و الغنى و الشر المرض والفقر; امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ اميرالمؤمنين(ع) بيمار ہوگئے اور ان كے (ديني) برادران نے انكى عيادت كى اور كہنے لگے (اب) آپ خود كو كيسا پاتے ہيں اے اميرالمؤمنين (ع) تو آپ(ع) نے فرمايا شر ميں (مبتلا ہوچكا ہوں ) تو كہنے لگے يہ آپ جيسے لوگوں كى بات نہيں ہے تو فرمايا خداتعالى فرماتا ہے ''و نبلوكم بالشر و الخير فتنة'' اور صحت اور بے نيازى خير اور بيمارى اور تنگدستى شر ہے(۲)

امتحان:اس كا ذريعہ ۳، ۱۰; يہ خير كے ذريعے ۳، ۱۰; يہ شر كے ذريعے ۳، ۱۰

انبياء (ع) :ان كا امتحان ۲

انسان:اس كا امتحان ۳، ۴; اس كا انجام ۱، ۵; اسكى خلقت كا فلسفہ ۴; اسكى حركت كا سرچشمہ ۶

____________________

۱ ) كافى ج۳، ص ۲۵۶ ح ۲۵_ نورالثقلين ج۱، ص ۴۱۹، ح ۴۷۰_

۲ ) مجمع البيان ج۷، ص ۷۴_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۲۹ ح ۶۸_

۳۴۲

خدا كى طرف بازگشت:۵

قيامت:اس ميں حقائق كا ظہور ۸

خير:اس سے مراد ۱۰

روايت ۹، ۱۰

زندگي:موت كے بعد زندگى ۷

شر:اس سے مراد ۱۰

عزرائيل:اسكى موت ۹

موت:اس كا حتمى ہونا ۱; اسكى حقيقت ۷; اس كا عام ہونا ۹

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

آیت ۳۶

( وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُواً أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ )

اور جب بھى يہ كفار آپ كو ديكھتے ہيں تو اس بات كا مذاق اڑاتے ہيں كہ يہى وہ شخص ہے جو تمھارے خداؤں كا ذكر كيا كرتا ہے اور يہ لوگ خود تو رحمان كے ذكر سے انكار ہى كرنے والے ہيں (۳۶)

۱ _ مكہ كے مشركين اور كفار جب پيغمبراكرم (ص) كے سامنے آتے تو آپ(ص) كا مذاق اڑاتے اور مسخرہ كرتے_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

۲ _ مذاق اڑانا اور مسخرہ كرنا، مكہ كے كفار اور مشركين كا آنحضرت(ص) كے ساتھ پيش آنے كا واحد طريقہ_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

حرف نفى ''إن'' اور اس كے بعد حرف استثنا ''الّا'' كہ جو حصر پر دلالت كرتے ہيں نيز ''ہزواً'' كا مصدر كى صورت ميں آنا يہ سب مذاق اڑانے اور مسخرہ كرنے ميں شدت اور تسلسل كو بيان كررہے ہيں _

۳ _ مكہ كے كفار اور مشركين كا اسلام اور پيغمبر اكرم(ص) كى منطق اور استدلال كے مقابلے ميں ناتواني_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

۳۴۳

چونكہ كفار و مشركين مسلسل آنحضرت(ص) كا مذاق اڑاتے تھے اس سے پتا چلتا ہے كہ وہ منطق، دليل اور برہان كا راستہ اختيار كرنے سے عاجز تھے اور ان كے پاس مذاق كے علاوہ كوئي چارہ نہيں تھا_

۴ _ شرك اور مشركين كے باطل اور خيالى معبودوں كے ساتھ مقابلہ آنحضرت(ص) كے پروگراموں ميں سر فہرست_

ا هذا الذى يذكر ء الهتكم ذكر اور ياد كرنا خير كے ساتھ بھى ہے اور شر كے ساتھ بھى ليكن قرينہ مقام بتاتا ہے كہ يہاں پر مراد شر كے ساتھ ياد كرنا ہے_

۵ _ كفار مكہ كى طرف سے ہميشہ پيغمبر اكرم(ص) كى تحقير كى جاتي_و إذا رء اك أهذا الذى يذكر ء الهتكم

''أہذا ...'' ميں ہمزہ استفہاميہ تعجب كيلئے ہے اور استہزا قرينہ ہے كہ اسم اشارہ، ''ہذا''تحقير ميں استعمال ہوا ہے_

۶ _ لوگوں كے دينى جذبات اور عقائد سے استفادہ كرنا اور انہيں آنحضرت(ص) كے خلاف بھڑ كانا كفر و شرك كے سرغنوں كى آنحضرت(ص) كے ساتھ پيش آنے كى ايك روش _ا هذا الذى يذكر ء الهتكم

چونكہ كفار مكہ نے لوگوں كو مخاطب قرار ديا ہے اور انہوں نے ''آلہتكم'' كہا ہے نہ ''آلہتنا'' تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ پيغمبر(ص) اكرم كے خلاف لوگوں كے جذبات اور عقائد سے استفادہ كرتے تھے_

۷ _ مكہ كے كفار اور مشركين خداتعالى كے نام ''رحمان'' كے سلسلے ميں بڑے حساس اور خداتعالى كى رحمانيت كے منكر ہے_و هم بذكرالرحمن هم منكرون پروردگار كے ناموں ميں سے خاص طور پر ''رحمان'' كا ذكر كرنا نيز ''ہم'' كا تكرار مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ كفار مكہ خدائے رحمان كے منكر تھے_و هم بذكرالرحمن هم كفرون قابل ذكر ہے كہ كفار نام ''رحمان'' كے منكر تھے اس سے بدرجہ اولى استفادہ ہوتا ہے كہ وہ ذات خدائے رحمان كے بھى منكر تھے_

۹ _ قرآن كا آسمانى ہونا كفار اور مشركين مكہ كا مورد انكارو هم بذكرالرحمن هم كفرون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' سے مراد قرآن كريم ہو جيسا كہ قرآن كريم كے متعدد موارد ميں _ جيسا كہ اس سورت كى دوسرى آيت ميں ہے_ قرآن كو ذكر سے ياد كياگيا ہے_

۳۴۴

۱۰ _ رحمان خداتعالى كے اہم اور برجستہ ناموں ميں سے ہے_و هم بذكرالرحمن هم كفرون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خداتعالى نے كفار كو عذاب كا مستحق متعارف كراتے ہوئے انہيں منكرين رحمانيت قرار ديا ہے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۱۱ _ مكہ كے كفار اور مشركين تنگ نظر، متعصب اور مخالفين كى افكار كو برداشت نہ كرنے والے لوگ تھے_

أهذا الذى يذكر ء الهتكم و هم بذكرالرحمن هم كفرون

مذكورہ مطلب اس نكتے كى طرف توجہ كرنے سے حاصل ہوتا ہے كہ كفار مكہ كو حتى كہ ''خدائے رحمان'' كا نام سننا بھى گوارا نہيں تھا اور ہميشہ پيغمبراكرم (ص) كے ساتھ مذاق اور تمسخر كے ساتھ پيش آتے_

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۶; اس كے ساتھ مبارزت ۳

اسما و صفات:رحمان ۱۰

آنحضرت(ص) :آپ (ص) كا مذاق اڑانا۱، ۲; آپ (ص) كے خلاف جذبات كو بھڑكانا ۶; آپ (ص) كى تحقير ۵; آپ (ص) كى شرك دشمنى ۴; آپ (ص) كے ساتھ مقابلہ ۳; آپ (ص) كى طرف سے مقابلہ۴; آپ (ص) كى اہم ترين رسالت ۴

خداتعالى :اسكى رحمانيت كى اہميت ۱۰; اسكى رحمانيت كو جھٹلانے والے ۸۷

باطل معبود:ان كے ساتھ مبارزت ۴

رہبران:رہبران شرك كے پيش آنے كى روش ۶; رہبران كفر كے پيش آنے كى روش ۶

قرآن كريم:اسكے وحى ہونے كو جھٹلانے والے ۹

كفار مكہ:انكى تمسخر بازى ۱، ۲; انكى سوچ ۷، ۸، ۹; انكا تعصب ۱۱; ان كے پيش آنے كى روش ۱، ۲، ۵; انكى تنگ نظرى ۱۱; انكا عاجز ہونا ۳; انكا مقابلہ كرنا ۳

مشركين مكہ:انكا مذاق اڑانا ۱، ۲; انكى سوچ ۷،۹; انكا تعصب ۱۱; ان كے پيش آنے كى روش ۱، ۲; انكى تنگ نظرى ۱۱; انكا عاجز ہونا ۳; انكا مقابلہ ۳

۳۴۵

آیت ۳۷

( خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ )

انسان كے خمير ميں عجلت شامل ہوگئي ہے اور عنقريب ہم تمھيں اپنى نشانياں دكھلائيں گے تو پھر تم لوگ جلدى نہيں كروگے (۳۷)

۱ _ انسانى فطرت، بہت جلدباز اور عجولانہ ہے_خلق الإنسان من عجل

''أنسان عجلت سے پيدا كيا گيا ہے'' كى تعبير اس بات سے كنايہ ہے كہ جلد بازى انسان كى فطرت ميں ہے ورنہ انسان تو نطفے اور سے پيدا ہوا ہے نہ جلد بازى سے_

۲ _ آدمى ، قدرتى انسانى تمايلات سے بھى متأثر ہے اور صرف بيرونى حالات سے متاثر نہيں ہے_خلق الإنسان من عجل

چونكہ انسان كى خلقت كو جلدبازى كے خمير سے قرار ديا گيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان صرف بيرونى حالات اور ماحول (معاشرہ، تربيت اور ) سے ہى متاثر نہيں ہوتا بلكہ انسانى غريز ے بھى اس ميں مؤثر ہيں _

۳ _ خداتعالى كى رحمانيت كا انكار جلدبازى كا فيصلہ ہے اور يہ عاقلانہ سوچ نہيں ہے_هم بذكر الرحمن هم كفرون خلق الانسان من عجل مذكورہ مطلب اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ مشركين خداتعالى كى رحمانيت كا انكار كرتے تھے اور خداتعالى انسان كى فطرت اور جلدبازى سے نہى كو بيان كر كے اس نكتے كو ذكر كرنا چاہتا ہے كہ خداتعالى كى رحمانيت كا انكار جلدبازى كا فيصلہ ہے اور ضرورى ہے كہ آيات الہى كا مطالعہ كر كے عميق علمى فكر اپنائي جائے_

۴ _ كفار مكہ شكست اور دنيوى عذاب كى دہليز پر تھے_سأوريكم ء اى تي

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آيات سے مراد كفار مكہ كى شكست اور ان كا دنيوى عذاب ہو_ قابل ذكر ہے كہ ان آيات كا مكى ہونا اس مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۳۴۶

۵ _ كفار مكہ كو قريب الوقوع عذاب اور نابودى كى دھمكى دى گئي تھي_سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

بعد والى آيات( بل تأتيهم بغتة ...) كے قرينے سے ''آياتي'' سے مراد عذاب اور ہلاكت ہے_

۶ _ دين دشمن كافروں كى نابودى اور مسلمانوں كى كاميابى قاعدے اور قانون كے مطابق ہے اور اس كا مناسب وقت ہے_خلق الانسان من عجل سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

مذكورہ مطلب اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ مؤمنين، پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مشركين كى گستاخانہ روش كو ديكھ كر بے صبرى كے ساتھ خداتعالى كے دشمنوں كى ہلاكت اور مسلمانوں كى كاميابى والے وعدے كے عملى ہونے كے منتظر تھے اور خداتعالى نے انہيں صبر كرنے اور جلد بازى نہ كرنے كى دعوت دى ہے قابل ذكر ہے كہ مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''سأوريكم فلاتستعجلون'' كےمخاطب مسلمان ہوں _

۷ _ كفار اور دين دشمنوں كى ہلاكت و شكست اور مؤمنين كى كاميابى آيات الہى ميں سے ہے_سأوريكم ء اى تي

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ كفار كى ہلاكت اور مسلمانوں كى كاميابى كو ''آيات'' سے تعبير كيا گيا ہے_

۸ _ صدر اسلام كے مؤمنين، كافروں پر جلدى غالب آنے اور كامياب ہونے كے منتظر تھے_سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''آيات'' سے مقصود كافروں كى دنياوى ہلاكت اور دنياوى عذاب ہو اور ''سأوريكم فلا تستعجلون'' كے مخاطب مسلمان ہوں _

۹ _ مناسب وقت سے پہلے اور جلدبازى كا كام اگرچہ كام اچھاہى ہو ايك ناپسنديدہ اور قابل مذمت امر ہے_

خلق إلانسان من عجل فلاتستعجلون

۱۰ _انسانى غريزوں اور طبائع كو كنٹرول كرنا ممكن ہے _خلق إلانسان من عجل ...فلا تستعجلون

خداتعالى نے جلدبازى سے نہى كى ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جلدبازى پر قابو پانے كى قدرت انسان ميں موجود ہے_

آيات خدا:۷/انسان:اس كا متأثر ہونا۲; اسكى صفات ۱، ۲; اسكى جلدبازى ۱

خداتعالى :اسكى رحمانيت كو جھٹلانے كا غير منطقى ہونا۳; اسكے عذابوں كا قاعدے اور قانون كے مطابق ہونا ۶

دين:دين دشمنوں كى شكست ۷; دين دشمنوں كى ہلاكت ۶، ۷

۳۴۷

جلدبازي:اسكى مذمت ۹

عمل:عمل خير ميں جلدبازى كرنا ۹

غرائز:ان كو كنٹرول كرنا ۱۰

كفار:ان كى شكست۷; انكى ہلاكت ۶، ۷

كفار مكہ:انكى شكست ۴; انكا دنيوى عذاب ۴; انكا عذاب۵; انكو تنبيہ۵; انكى ہلاكت ۵

مؤمنين:صدر اسلام كے مؤمنين كى توقعات ۸; انكى كاميابى ۷

مسلمان:انكى كاميابى ۶; انكى كاميابى ميں جلدى ۸

آیت ۳۸

( وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ اگر تم سچّے ہو تو اس وعدہ قيامت كا وقت آخر كب آئے گا (۳۸)

۱ _ كفار كى شكست و ہلاكت اور مؤمنين كى كاميابى ،وعدہ الہى _سأوريكم ء اى تي و يقولون متى هذا الوعد

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''وعد'' سے مراد مؤمنين كى كاميابى اور مشركين كى شكست ہو_

۲ _ قيامت كا برپا ہونا اور دين دشمن كافروں كى سزا، وعدہ الہى ہے _و يقولون متى هذا الوعد

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الوعد'' كا ''ال'' عہد حضورى كا اور اس سے مقصود قيامت كا برپا ہونا اور كافروں كا عذاب ہو كہ جس كا تمام انبيا(ع) ء مسلسل اپنى امتوں كو وعدہ ديتے رہے اور يہ وعدہ امتوں كى يادداشت ميں باقى تھا_

۳ _ كفار مكہ، قيامت اور اخروى عذاب كے منكر تھے_و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

۴ _ مكہ كے دين دشمن كفار، خداتعالى كے وعدوں اور دھمكيوں (عذاب، اخروى سزا و غيرہ) كا مذاق اڑاتے اور انكا تمسخر كرتے_و يقولون متى هذا الوعد

جملہ استفہاميہ''و يقولون متى هذا الوعد'' تہكم اور استہزا كيلئے ہے_

۳۴۸

۵ _ مكہ كے دين دشمن كفار، خداتعالى كے وعدوں كے سلسلے ميں پيغمبر اسلام(ص) اور مؤمنين كو جھوٹا سمجھتے تھے_

و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

۶ _ انسان كى عجولانہ خصلت كفار مكہ كى طرف سے خداتعالى كے وعدوں (عذاب، قيامت برپا كرنا وغيرہ) كے عملى ہونے كى درخواست كا سبب بني_خلق إلانسان من عجل ...و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''يقولون متى ...'' كا جملہ ''سأوريكم ...'' پر عطف ہو اور يہ دو جملے ''خلق الانسان من عجل'' كہ جو انسانوں كى عمومى خصلت كو بيان كررہا ہے كے ساتھ مربوط ہو_

آنحضرت(ص) :آپ(ص) پر جھوٹ كى تہمت ۵

انسان:اسكى جلدبازى كے اثرات ۶; اسكى صفات ۶

خداتعالى :اس كے عذاب كا مذاق اڑانا ۴; اسكے متنبہ كرنے كا مذاق اڑانا۴; اسكے وعدے ۱، ۲; اسكى دھمكياں ۱، ۲

دين:دين دشمنوں كى سزا كا وعدہ ۲

عذاب:اس ميں جلدى كرنے كى درخواست كا پيش خيمہ ۶; اخروى عذاب كو جھٹلانے والے ۳

قيامت:اس ميں جلدى كرنے كى درخواست كا پيش خيمہ ۶; اسے جھٹلانے والے ۳; اس كا وعدہ ۲

كفار:انكى سوچ ۳

كفار مكہ:انكا مذاق اڑانا۴; انكى تہمتيں ۵; انكى جلدبازى كا پيش خيمہ ۶; انكى شكست كا وعدہ ۱; انكى ہلاكت كا وعدہ ۱

سزا:اخروى سزا كا مذاق اڑانا ۴

مؤمنين:ان پر جھوٹے ہونے كى تہمت ۵; انكى كاميابى كا وعدہ ۱

۳۴۹

۳۸۰ تا ۳۸۳

( لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَن ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ) (٣٩)

( بَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ ) (٤٠)

۳۵۰

آیت ۴۱

( وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُون )

اور پيغمبر آپ سے پہلے بھى بہت سے رسولوں كا مذاق اڑايا گيا ہے جس كے بعد ان كفار كو اس عذاب نے گھيرليا جس كا يہ مذاق اڑا رہے تھے (۴۱)

۱ _ بشر، پيغمبر خاتم(ص) سے پہلے صاحبان رسالت انبيا(ع) كے وجود سے بہرہ مند تھا_و لقد استهزي برسل من قبلك

۲ _ طول تاريخ ميں حق دشمن عناصر كا انبياء الہى كے ساتھ تمسخر آميز سلوك _و لقد استهزي برسل من قبلك

۳ _ كفار طول تاريخ ميں انبيا(ع) ء الہى كے ساتھ غير منطقى سلوك كرنے ميں ايك جيسے رہے ہيں _

و لقد استهزي برسل من قبلك

تمسخر آميز سلوك، موقف اپنانے ميں دليل و منطق كے نہ ہونے كو بيان كر رہا ہے اور چونكہ گذشتہ انبيا(ع) ء اور پيغمبر اكرم(ص) اسلام كفار كے مذاق كا نشانہ بن چكے ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ كفار كا سلوك ايك جيسا تھا اور وہ ايك جيسا موقف ركھتے تھے_

۴ _ كفار كے مذاق كے مقابلے ميں خداتعالى كا پيغمبراكرم(ص) كو تسلى دينا _و لقد استهزي برسل من قبلك

خداتعالى نے گذشتہ آيات ميں كافروں كے پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مذاق كرنے كے موضوع كا تذكرہ كيا اور اس آيت ميں گذشتہ انبيا(ع) ء كے تمسخر كى ياد دہانى كرائي ہے_يہ ياد دہانى ممكن ہے آنحضرت(ص) كى تسلى كى غرض سے ہو_

۵ _ انبيا(ع) ء بھى انسانى خصوصيات (دلى رنج و الم اور دلجوئي و تسلى كى ضرورت) كے حامل ہوتے ہيں _

و لقد استهزي برسل من قبلك

كفار كے تمسخر كے مقابلے ميں خداتعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كى دلجوئي كرنا اس حقيقت كا غماز ہے كہ پيغمبر اكرم بھى ديگر انسانوں كى طرح دشمنوں كے حملوں سے متأثر ہوتے ہيں اور انہيں بھى دلى تسلى كى ضرورت ہوتى ہے_

۶ _ طول تاريخ ميں رہبران الہى كى كوشش اور رنج و الم كى طرف توجہ، دين كے راستے ميں كوشش كرنے والوں كى تسلى كا سبب ہے_و لقد استهزي برسل من قبلك

۳۵۱

۷ _ راہ الہى ميں حركت، شديد نفسياتى اور روحى مشكلات اور سختيوں كو ہمراہ لاتى ہے_و لقد استهزي برسل من قبلك

اس سے كہ خداتعالى نے گذشتہ انبيا(ع) ء كى مشكلات اور رنج و الم كى يادآورى كرائي ہے معلوم ہوتا ہے كہ راہ حق كو طے كرنا مشكلات كے ہمراہ ہوتا ہے_

۸ _ انبيا(ع) ء كا مذاق اڑانے والے اس عذاب ميں مبتلا ہوئے كہ جس كا وہ مذاق اڑاتے تھے _

فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزئون

''ما كانوا بہ يستہزء ون'' سے مراد مہلك عذاب ہے كيونكہ طول تاريخ ميں كفار جس كا مذاق اڑاتے تھے اور وہى ان پر نازل ہوا وہ مہلك عذاب تھا_

۹ _ حق كے مقابلے ميں ہٹ دہرمى اور انبيا(ع) ء و رہبران الہى كا مسلسل مذاق اڑانا عذاب خداوندى ميں مبتلا ہونے كے اسباب فراہم كرتا ہے_و لقد استهزى برسل من قبلك فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

۱۰ _ انسانوں كيلئے خداتعالى كى طرف سے عذاب اور سزا،خودان كے اپنے عمل كا رد عمل اور نتيجہ ہے_

ولقد استهزي فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

۱۱ _ پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے والوں كو عذاب الہى كى دھمكي

و لقد استهزي برسل من قبلك فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ گذشتہ آيات ميں كافروں كے پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے كا تذكرہ تھا_ انبيا(ع) ء كا مسخرہ كرنے والوں كے عذاب ميں مبتلا ہونے كى ياد دہانى سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ يہ انجام پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے والوں كا بھى ہے_

انبياء(ع) :ان كا مذاق اڑانے كے اثرات ۹; انكا مذاق اڑانے والے ۲; آنحضرت(ص) سے پہلے كے انبيا(ع) ء ۱; انكا بشر ہونا ۵; انكى تاريخ ۱، ۲; انكو تسلى ۵; انكا مذاق اڑانے والوں كا عذاب۸; انكى معنوى ضروريات ۵

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا مذاق اڑانا ۴; آپ(ص) كا مذاق اڑانے والوں كو دھمكى ۱۱; آپ(ص) كو تسلى ۴; آپ كا مذاق اڑانے والوں كا عذاب ۱۱

حق:حق پرستى كے اثرات۷; حق كو قبول نہ كرنے كے اثرات ۹

ذكر:

۳۵۲

دينى رہنماؤں كے رنج و غم كا ذكر ۶

دينى راہنما:ان كا مذاق اڑانے كے اثرات ۹; انكى تسلى كے عوامل ۶

عذاب:اہل عذاب ۸; اس كا پيش خيمہ ۹; اسكے عوامل ۱۰

عمل:اسكے اثرات ۱۰

كفار:انكا مذاق اڑانا ۴; انكا غير منطقى ہونا۳; ان كے پيش آنے كى روش ۳; يہ اور انبياء ۳; انكى ہم آہنگى ۳

سزا:اسكے عوامل ۱۰

مشكلات:نفسياتى مشكلات كا پيش خيمہ ۷

نعمت:انبياء كى نعمت ۱

آیت ۴۲

( قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِم مُّعْرِضُونَ )

آپ ان سے كہہ ديجئے كہ انھيں رات يا دن ميں رحمان كے عذاب سے بچانے كے لئے كون پہرہ دے سكتا ہے مگر يہ ہيں كہ رحمان كى ياد سے مسلسل منھ موڑے ہوئے ہيں (۴۲)

۱ _ كفار كو شب و روز كے ہر لحظے ميں عذاب الہى كا خطرہ_قل من يكلؤكم من الرحمن

مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ ''من الرحمان'' سے مراد ''من بأس الرحمان و عذابہ'' ہو گذشتہ آيت كہ جو عذاب الہى كے بارے ميں ہے اسى نكتے كى تائيد كرتى ہے_

۲ _ ارادہ الہى كے مقابلے ميں تمام موجودات كى ناتوانى اور عاجز ہونا_قل من يكلؤكم من الرحمن

۳ _ انسان كو زندگى كے تمام لمحوں ميں خداتعالى كى حمايت اور حفاظت كى ضرورت ہے_

قل من يكلؤكم باليّل و النهار من الرحمن

۳۵۳

''يكلائ'' كے مادے ''كلاء ة'' كا معنى ہے شے كى حفاظت كرنا اور'' من الرحمان ''ميں ''من'' بدليہ ہے يعنى خدائے رحمن كى بجائے_

۴ _ كافروں كى اپنے پروردگار سے روگردانى اس كى مسلسل رحمت سے بہرہ مند ہونے كے با وجود

قل من يكلؤكم من الرحمن بل هم عن ذكر ربهم معرضون

آيت كريمہ ميں ''بل'' اضراب انتقالى كيلئے ہے يعنى خداتعالى نے بشر كى خدائے رحمان كى طرف نيازمندى كو بيان كرنے اور اسكے عذاب كے تذكرے كے بعد كافروں كے كفر كى اصلى علت (ياد پروردگار سے روگردانى اور ربوبيت الہى كى طرف توجہ نہ كرنا) كو بيان كيا ہے_

۵ _ كفار كا كلام الہى كے سننے اور مفاہيم و معارف قرآنى كے درك كرنا سے روگردانى كرنا ان كے خداتعالى كى وسيع رحمت كى طرف توجہ نہ كرنے اور پيغمبراكرم(ص) كى نصيحتوں سے متاثر نہ ہونے كى دليل ہے_

قل من يكلؤكم من الرحمن بل هم عن ذكر ربهم معرضون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' سے مراد قرآن ہو كيونكہ قرآن كا ايك نام اور صفت ''ذكر'' ہے_

۶ _ سب انسانوں حتى كہ پروردگار سے روگردانى كرنے والوں كو بھى رحمت الہى شامل ہے _

قل من يكلؤكم ...بل هم عن ذكر ربهم معرضون

۷ _ انسان كيلئے اپنے پروردگار اور تربيت كرنے والے كو ياد كرنا ضرورى ہے_بل هم عن ذكر ربهم معرضون

پروردگار كى ياد سے روگردانى كرنے كى وجہ سے كفار كو ڈانٹ ڈپٹ، اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ عقل كے حكم كے مطابق انسان كيلئے ضرورى ہے كہ اپنے پروردگار اور تربيت كرنے والے سے غفلت نہ كرے_

انسان:اسكى معنوى ضروريات ۳/آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى نصيحت ۵

خداتعالى :اسكى رحمت كا تسلسل ۴; اسكے ارادے كى حكمراني۲; اسكى رحمت عامہ ۶

ذكر :ذكر خدا كى اہميت ۷; ربوبيت خدا كا ذكر ۷; تربيت كرنے و الے كا ذكر ۷

رحمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۴/قرآن كريم:اس سے اعراض كرنے والے ۵

كفار:انكا اعراض ۴; ان پر نصيحت كا اثر نہ كرنا ۵; انكا حق كو قبول نہ كرنا ۵; ان كو عذاب كا خطرہ ۱; ان پر رحمت ۴

خداتعالى سے اعراض كرنے والے ۴:ان پر رحمت ۶

۳۵۴

موجودات:انكے عاجز ہونا ۲

ضروريات:خداتعالى كى حمايت كى ضرورت ۳

آیت ۴۳

( أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُم مِّن دُونِنَا لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنفُسِهِمْ وَلَا هُم مِّنَّا يُصْحَبُونَ )

كياان كے پاس ايسے خدا موجود ہيں جو ہمارے بغير انھيں بچاسكيں گے يہ بيچارے تو خود اپنى بھى مدد نہيں كرسكتے ہيں اور نہ انھيں خود بھى عذاب سے پناہ دى جائے گى (۴۳)

۱ _ جھوٹے خدا اور معبود، مشركين كو عذاب الہى سے بچانے كيلئے توان نہيں ركھتے _ا م لهم ء الهة تمنعهم من دونن

آيت كريمہ ميں ''أم'' منقطعہ كى قسم سے اور ''بل'' كى طرح استفہام انكارى كے معنى پر مشتمل ہے اور (إلہ كى جمع) ألہة كا معنى معبود ہے_

۲ _ مشركين كے جھوٹے معبود اور خدا ،اور خداتعالى كے علاوہ ہر طاقت اپنى حمايت اور حفاظت سے بھى ناتوان ہے_

لايستطيعون نصر أنفسهم جملہ''لا يستطيعون ...'' ،''تمنعہم'' كے فاعل كيلئے حال ہے كہ جو خدا اور معبود ہيں _

۳ _ مشركين كے معبود خود اپنى مدد كرنے سے ناتوان اور خداتعالى كى مدد سے محروم ہيں _لا يستطيعون نصر أنفسهم و لا هم منا يصحبون

''يصحبون'' (صحب كے مادہ سے) ''عاشَر'' كے معنى ميں ہے اور اس معنى كا لازمہ نصرت اور تائيد ہے كيونكہ ايك ہم نشين اپنے دوسرے ہم نشينوں كى حمايت كرتا ہے_

۴ _ احتياج اور نيازمندى مقام الوہيت كے ساتھ سازگار نہيں ہے_لايستطيعون نصر أنفسهم

خداتعالى نے ''آلہة'' كى خود اپنى حفاظت ميں ناتوانى اور ان كے ديگر محافظوں كى طرف محتاج

۳۵۵

ہونے كو ان كے الوہيت كے لائق نہ ہونے كى دليل شمار كيا ہے_ اس حقيقت كى ياد دہانى ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كر رہى ہو_

۵ _ كفار كا عذاب الہى كے مقابلے ميں ہر طرف سے بے پناہ ہونا اور ان كى ہلاكت كا حتمى ہونا _

ا م لهم آلهة تمنعهم من دوننا و لاهم منا يصحبون

۶ _ كافروں كا يہ عقيدہ كہ ان كے جھوٹے خدا، خداتعالى كے نزديك معزز اور معتبر ہيں كھوكھلا اور بے بنياد ہے_

لايستطيعون نصر أنفسهم و لا هم منا يصحبون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ آيت كريمہ كے مخاطبين مشركين ہيں اور وہ اپنے معبود اور خداؤں كو اپنا شفيع سمجھتے تھے معلوم ہوتا ہے كہ اس آيت كريمہ كا مقصد ايسے خيال كے بطلان كو بيان كرتا ہے_

الوہيت:اسكے شرائط ۴

عذاب:اہل عذاب۵; اہل عذاب كا بے يار و مددگار ہونا ۱

عقيدہ:باطل عقيدہ ۶

كفار:ان كا بے پناہ ہونا ۵; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۵; انكا عقيدہ ۶

مشركين:ان كى امداد ۳; انكا بے يار و مددگار ہونا۱،۲باطل معبود۶

ان كى امداد۳; انكا بے يار و مددگار ہونا۳; انكا عاجز ہونا۱، ۲، ۳

سچے معبود:ان كى نيازمندي۴

آیت ۴۴

( بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاء وَآبَاءهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ )

بلكہ ہم نے انھيں اور ان كے باپ دادا كو تھوڑى سى لذّت دنيا ديدى ہے يہاں تك كہ ان كا زمانہ طويل ہوگيا تو كيا يہ نہيں ديكھتے ہيں كہ ہم برابر زمين كى طرف آتے جارہے ہيں اور اس كو چاروں طرف سے كم كرتے جارہے ہيں كيا اس كے بعد بھى يہ ہم پر غالب آجانے والے ہيں (۴۴)

۱ _ مشرك معاشروں كے نعمات الہى سے بہرہ مند ہونے كے ساتھ ان كى لمبى عمر،ان كى معبودوں كے ساتھ دل

۳۵۶

بستگى اور ان كے كارساز ہونے كى خيال كے سبب بني_بل هم عن ذكر ربهم معرضون بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

جملہ ''بل متعنا ...'' ميں ''بل'' سابقہ موضوع (أم لہم آلہة تمنعہم من دوننا) سے اضراب كيلئے ہے يعنى يہ خيال كہ يہ معبود ان كى حمايت كريں گے ان كى مہلت اور لمبى عمر كے ساتھ ساتھ نعمتوں سے مال زندگى كى وجہ سے ہے_

۲ _ دنياوى نعمتوں سے بہرہ مندى اور اس كے ساتھ ساتھ لمبى عمر، اہل مكہ اور ان كے آبا ؤ اجداد كى غفلت اور تكبر كا سبب تھي_بل هم عن ذكر ربهم معرضون بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہولائ'' مخاطبين (مكہ كے لوگ) كے اذہان ميں موجود لوگوں كى طرف اشارہ ہو جيسا كہ مكہ ميں نازل ہونے والى بہت سى آيات كا مشار اليہ اس سرزمين كے لوگ ہيں _

۳ _ معبودوں اور خداؤں كا عمر كى مقدار اور انسان كى مادى بہرہ مندى ميں دخل ركھنا مشركين كا باطل خيال_

ا م لهم ألهة تمنعهم بل متعنا هولائ و أبائهم حتى طال عليهم العمر

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بل ...'' ''أم لہم آلہة ...'' سے اضراب ہو اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ مشركين اپنے خداؤں كيلئے ايسى قدرت كا اعتقاد ركھتے تھے _

۴ _ كفر و شرك والى فكر سرزمين مكہ ميں عرصہ دراز سے موجود تھي_عن ذكر ربهم معرضون_ ا م لهم ألهة بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خداتعالى نے اہل مكہ كے آباؤ اجداد كو خدا سے اعراض كرنے والے اور دنياوى نعمتوں اور لمبى عمر سے بہرہ مند شمار كيا ہے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۵ _ خداتعالى نے بعض گذشتہ اقوام اور ملتوں كو دنياوى نعمتوں سے بہرہ مند كرنے كے ساتھ ساتھ انہيں لمبى عمر بھى عطا كي_بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

۶ _ معاشروں اور تمدنوں كا لمبى عمر اور دنياوى نعمتوں سے بہرہ مند ہونا انكى حقانيت اور كاميابى كى دليل نہيں ہے_

بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر أفهم الغالبون

۷ _ سرزمين مكہ عرصہ دراز سے دنياوى نعمتوں سے مالامال اور ہلاكت خيز حوادث اور عذاب الہى سے محفوظ تھي_بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر يہ چيز كہ خداتعالى نے اہل مكہ اور ان كے آباؤ اجداد كو لمبى مدت تك دنياوى منافع سے بہرہ مند كيا سرزمين مكہ كے عرصہ دراز سے ہلاكت خيز حوادث سے محفوظ رہنے كو بيان كرتى ہے_

۳۵۷

۸ _ انسان كا نعمتوں اور اپنى عمر كى مقدار سے مستفيد ہونا خداتعالى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے تابع ہے_

بل متعنا هولائ أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافها أفهم الغالبون

۹ _ اہل زمين كى آبادى كو كم كرنا اور ملتوں اور اقوام كى موت سنت الہى اور ايك دائمى امر ہے_أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه ''ننقصہا'' ميں ''نقص'' سے مراد اہل زمين كو كم كرنا ہے نہ خود زمين كو كم كرنا اور اس كا فرسودہ ہونا اگر چہ بعض مفسرين نے يہ احتمال ذكر كيا ہے قابل ذكر ہے كہ ''نأتي'' اور ''ننقصہا'' كا صيغہ مضارع كى صورت ميں آنا ان دو فعلوں كے محتوا كے استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۱۰ _ امتوں اور تہذيبوں كى تاريخ سے آگاہ ہونا اور اس سے سبق سيكھنا ايسى چيزيں ہيں جو پسنديدہ اور خداتعالى كى طرف سے مورد تشويق ہيں _أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه مادہ ''رؤيت'' جب دو مفعولوں كى طرف متعدى ہو تو ''علم'' كے معنى ميں ہوتا ہے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اسى معنى ميں استعمال ہوا ہے كيونكہ جملہ ''أنا نأتي ...'' مصدر كى تأويل ميں ہوكر دو مفعولوں كے قائم مقام ہے_

۱۱ _ انسانوں كى موت اور معاشروں اور تہذيبوں كا ختم ہونا انسان كيلئے عبرت كا سامان ہے _

أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

۱۲ _ انسانى معاشروں اور تہذيبون كے زوال كا تدريجى ہونا_أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

كلمہ ''نقص'' يعنى كم كرنا اور فعل مضارع ''نأتي'' اور ''ننقصہا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو استمرار كا فائدہ ديتے ہيں _ مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۱۳ _ كفار كا انسانوں كى قوت اور معاشروں اور تہذيبوں كے زوال كے مشاہدہ سے عبرت حاصل نہ كرنا_

أفلا يرون أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

۱۴ _ خداتعالى كى طرف سے كافر و مشرك معاشروں كى نابودي، اسلام كى كاميابى اور اسلامى سرزمين كے حدود كے وسيع ہونے كى خوشخبرى _أفلا يرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيات كفار اور منكرين قرآن كے بارے ميں ہيں _ زمين اور اہل زمين كو كم كرنے سے مقصود كفار كى تعداد كو كم كرنا اور مسلمانوں كى تعداد كو بڑھانا ہے''أفلا يرون'' كى ضمير غائب اور''أفهم الغالبون'' ميں ہمزہ استفہام انكارى اس مطلب كا مؤيد ہوسكتا ہے_

۱۵ _ ارادہ خدا كے مقابلے ميں كفار اور ان كے خداؤں كا كمزور اور ناتوان ہونا _

۳۵۸

أفهم الغالبون

''أفہم'' ميں ہمزہ استفہام انكارى كيلئے ہے_

۱۶ _ عالم ہستى ميں خداتعالى بے مثال قادر اور مطلق حاكم ہے_بل متعنا هولائ أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافها أفهم الغالبون

۱۷ _ انسانوں كو موت دينا اور معاشروں اور تہذيبوں كو نابود كرنا خداتعالى كى بے مثال اور ناقابل شكست قدرت كى دليل ہے_أنّا ناتى الأرض ننقصها من أطرافهاأفهم الغالبون

خداتعالى كے ذريعے انسان كى موت كے مسئلے كو ذكر كرنے كے بعد قدرت الہى كے مقابلے ميں كفار كى كاميابى او رغلبے كى نفى كرنا اور اس پر سواليہ نشان لگانا (أفهم الغالبون ) ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

انسان:اسكى موت ۱۷

عالم خلقت:اس كا حاكم ۱۶

گذشتہ اقوام:ان كے مادى وسائل ۵; انكى تاريخ ۵; ان سے عبرت حاصل كرنا۱۰; ان كى لمبى عمر ۵

امم:انكى حقانيت كے دلائل ۶

مادى وسائل:ان كا سرچشمہ ۳

خوشخبري:اسلام كى كاميابى كى خوشخبري۱۴; اسلام كى وسعت كى خوشخبري۱۴; شرك كى نابودى كى خوشخبري۱۴; كفر كى نابودى كى خوشخبري۱۴/تاريخ:اسكے مطالعے كى تشويق ۱۰

تہذيبيں :انكا تدريجى زوال ۱۲; انكا زوال ۱۷; ان كے زوال سے عبرت حاصل كرنا ۱۱، ۱۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱۶; اسكے اختيارات ۸; اسكا ارادہ ۸، ۱۵; اسكى بشارتيں ۱۴; اسكى ترغيب ۱۰; اسكى حكمرانى ۱۶; اسكى عزت كے دلائل ۱۷; اسكى قدرت كے دلائل ۱۷; اسكى سنتيں ۹; اسكى قدرت ۱۶

شرك:اسكى تاريخ ۴/عبرت:اسكى ترغيب دلانا ۱۰; اسكے عوامل ۱۱

عقيدہ:باطل عقيدہ ۳; باطل معبودوں كا عقيدہ ۱

عمر:لمبى عمر كے ا ثرات ۱; اس كا سرچشمہ ۸; لمبى عمر كا سرچشمہ ۳; لمبى عمر كا كردار ۶

عمل:

۳۵۹

پسنديدہ عمل ۱۰

كفار:انكى ذلت ۱۵; انكى كمزورى ۱۵; انكا عبرت حاصل نہ كرنا ۱۳

كفر:اسكى تاريخ ۴

موت:اس كا دائمى ہونا ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۱۱، ۱۳

مشركين:انكى آسائش كے اثرات ۱; انكا عقيدہ ۳; انكى لمبى عمر۱; انكى نعمتيں ۱

باطل معبود:انكا عاجز ہونا ۱۵; انكا كردار ۳

مكہ:اس كا امن ۷; اسكى تاريخ ۴، ۷; اہل مكہ كى لمبى عمر ۲; اہل مكہ كے تكبر كے عوامل ۲; اہل مكہ كى غفلت كے عوامل ۲; اسكى فضيلت ۷; اہل مكہ كى دنياوى نعمتيں ۲

نعمت:اس كا سرچشمہ ۸

آیت ۴۵

( قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاء إِذَا مَا يُنذَرُونَ )

آپ كہہ ديجئے كہ ميں تم لوگوں كووحى كے مطابق ڈراتا ہوں اور بہرہ كو جب بھى ڈرايا جاتا ہے وہ آوازہ كو سنتا ہى نہيں ہے (۴۵)

۱ _ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كيلئے اپنے اصلى فريضے اور رسالت كے دائرہ كار كو بيان كرنے پر مأمور _قل إنما أنذركم بالوحي

۲ _ لوگوں كو وحى كے سائے ميں انداز كرنا، پيغمبر اسلام(ص) كا اصلى فريضہ و رسالت _قل إنما أنذركم بالوحى

۳ _ پيغمبر اكرم(ص) كا انذاز صرف و حى الہى كى بنياد پر تھا نہ ذاتى اور نفسانى خواہشات و نظريات كے مطابق_

قل أنما انذركم بالوحي

۴ _ وحي، دينى معرفت اور تعليمات الہى كى شناخت كا

۳۶۰