تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219136 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

پھراحمد بن اسحاق نے کہا : اے ہمارے مولا کوئی علامت ہے کہ جس سے میرا دل مطمئن ہو جائے۔

اس وقت وہ بچہ فصیح عربی میں یوں گویا ہوا:

"میں اللہ کی زمین میں اس کا ذخیرہ (بقیۃ اللہ) ہوں اور اس کے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہوں۔اے احمد بن اسحاق آنکھوں سے دیکھنے کے بعد کوئی نشانی طلب نہ کرو۔"(۱)

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۴۸

۸۱

غیبت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں بارہ احادیث

توفیق پروردگار کے ساتھ اور وہی میرے لیے کافی ہے۔

اس مقام پر مؤلف کتاب ھذا بندہ گناہگار و خطاکار محمد تقی بن عبدالرزاق مناسب بلکہ لازم سمجھتا ہے کہ امام ؑ کی غیبت سے متعلقہ آئمہ اہل بیتؑ کی بارہ احادیث نقل کرے تاکہ یہ ہر خاص و عام کے لیے مکمل نفع بخش ہوں اور اس حقیر کے لیے ذخیرہ آخرت قرار پائیں۔یہ احادیث شیخ صدوق ؒ(۱) کی کتاب کمال الدین وتمام النعمۃ سے نقل کر رہا ہوں۔اور پر امید ہوں کہ یہ عمل حضرت حجت ؑ کی خدمت اقدس میں پیش ہو۔ان شاء اللہ تعالی۔

____________________

۱:- ان کا نام محمد بن علی بن الحسین بن موسیٰ بن بابویہ قمی تھا۔ان کی ولادت کی بشارت خود حضرت حجت نے دی تھی۔وفات ۳۸۱ ھجری میں ہوئی۔ان کی قبر اطراف تہران میں ہے۔ان کی عظمت بیان کی محتاج نہیں۔انہوں نے تقریبا تین سو کتابیں لکھیں۔

۸۲

پہلی حدیث:۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"مہدیؑ میری اولاد میں سے ہیں۔ان کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہے۔وہ لوگوں میں سےسب سے زیادہ خلق و خلق میں میرے مشابہ ہیں۔ان کے لیے ایک ایسی غیبت ہوگی کہ جس پر حیرانی و سرگردانی میں امتیں گمراہ ہوجائیں گی۔پھر وہ شہاب ثاقب کی طرح ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جس طرح پہلے وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی۔"(۱)

دوسری حدیث:۔

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام نےفرمایا:

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ میں امیرالمومنین ؑ کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو دیکھا کہ آپؑ کسی فکر میں ڈوبے ہوئے زمین کرید رہے تھے۔میں نے عرض کیا:

"اے ا میرالمومنین ؑ میں نے آج تک آپ کو اس قدر فکر مند نہیں پایا کیا دنیا کی کوئی فکر لاحق ہے؟"

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۲۸۶ ح۱ اور ۴

۸۳

فرمایا:

"نہیں خدا کی قسم میں نے اس دنیا سے ایک دن بھی لگاؤ نہیں رکھا۔میں تو اس مولودؑ کے بارے سوچ رہا ہوں جو میری نسل سے ہوں گے اور میرے بعد گیارہویں فرد ہوں گے۔وہ مہدیؑ ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی۔ان کے لیے ایک ایسی غیبت ہوگی کہ جس میں کچھ اقوام گمراہ ہوجائیں گی اور کچھ ہدایت پائیں گی۔"

میں نے عرض کیا : "یا امیرالمومنین ؑ کیا ایسا ہوگا؟"

فرمایا :

"ہاں یہ ہو کر رہے گا۔"(۱)

تیسری حدیث:۔

حضرت امام حسن مجتبی ٰعلیہ السلام نےفرمایا:

"ہم اہل بیت ؑ میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے گلے میں طاغوت کے ساتھ مصلحت کا طوق نہ ہو سوائے ہمارے قائم ؑ کے جو روح اللہ عیسی ابن مریم کو نماز پڑھائیں گے۔اللہ تعالی ان کی ولادت کو مخفی رکھے گا۔اور ان پہ غیبت کا پردہ

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۲۸۹ ح۱

۸۴

ڈال دے گا۔تاکہ جب وہ ظہور کریں تو ان کی گردن پہ کسی کی بیعت کا طوق نہ ہو۔وہ میرے بھائی حسینؑ ابن سیدۃ النساء ؑ کی اولاد میں سے نویں ہونگے۔اللہ ان کی غیبت میں ان کی عمر کو طول دے گا۔پھر اپنی قدرت سے انہیں ایک چالیس سالہ جوان کی مانند ظاہر فرمائے گا۔"(۱)

چوتھی حدیث:۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

"ا س امت کا قائم میری اولاد میں سے میرےنویں فرزند ہو ں گے۔اور وہ صاحب ٖغیبت ہوں گے۔ان کی میراث تقسیم کی جائے گی جبکہ وہ زندہ ہوں گے۔"(۲)

پانچویں حدیث:۔

حضرت امام ذین العابدین علیہ السلام نے فرمایا :

آپ ؑ نے ابو خالد کابلی سے فرمایا:

"۔۔۔پھر اس کے ولئ خدا اور رسول خداؐ کے اوصیاء میں سے بارہویں کے لیے ایک طویل غیبت کا زمانہ ہوگا۔اے ابو خالد! ان کی ٖغیبت کے زمانہ میں

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۱۶ ح۲

۲:- کمال الدین ۱/۳۱۷ ح۲

۸۵

وہ لوگ جو ان کی امامت کے قائل اور ان کے ظہور کے منتظر ہوں گے وہ تمام زمانے کے لوگوں سے افضل ہوں گے۔کیونکہ اللہ انہیں علم و معرفت سے نوازے گا اور ان کے نزدیک غیبت بھی مشاہدہ کی طرح ہوگی۔ان کا مقام ان مجاہدین کے برابر ہوگا جنہوں نے رسول خداؐ کی اقتداء میں تلوار سے جہاد کیا۔یہی لوگ حقیقتا ہمارے مخلص اور سچے شیعہ ہوں گے۔وہ لوگوں کو دین خدا کی طرف ظاہرا اور پوشیدہ طور پر دعوت دیں گے۔"(۱)

چھٹی حدیث:۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

"وہ مہدی ؑ عترت میں سے ہوں گے،ان کے لیے ایسی غیبت اور حیرت و سرگردانی ہو گی کہ جس میں کچھ اقوام گمراہ ہو جائیں گی اور کچھ ہدایت پائیں گی۔"(۲)

ساتویں حدیث:۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

عبد اللہ ابن ابی یعفور روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:

"جس نے میرے آباء و اولاد میں سے تمام آئمہ کا اقرار کیا اور مہدی ؑ کا انکار کیا تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام انبیاء ؑکا اقرار کیا اور محمد ؐ کا انکار کیا۔"

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۲۰ ح۲

۲:- کمال الدین ۱/۳۳۰ ح۱۴

۸۶

میں نے عرض کیا اے میرے آقا!آپ کی اولاد میں سے مہدیؑ کون ہوں گے؟

فرمایا:

" ہماری نسل سے ساتویں پشت سے پانچویں ہوں گے۔وہ تمہاری نظروں سے غائب رہیں گے اور تمہارے لیے ان کا نام لینا جائز نہ ہوگا۔"(۱)

آٹھویں حدیث:۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

"جب ساتویں کی اولاد سے پانچویں غائب ہو جائیں تو خدا کے لیے تم اپنے دین کی حفاظت کرنا کوئی تمہیں دین سے برگشتہ نہ کرے۔اے میرے فرزند! اس صاحب امر کے لیے غیبت ضروری ہے۔یہاں تک کہ وہ لوگ بھی اس سے پلٹ جائیں جو کہا کرتے تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے مخلوق کے لیے آزمائش ہے۔"(۲)

نویں حدیث:۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۳۷ ح۱۲

۲:- کمال الدین ۱/۳۳۸ ح۱

۸۷

حضرت امام علی رضاؑ ؑ سے پوچھا گیا کہ اے فرزند رسول ؐ آپ اہل بیت ؑ میں سے قائمؑ کون ہے؟

فرمایا:

"میری اولاد میں سے چوتھا ، سیدۃ النساء کا فرزند ہوگا۔اللہ ان کے ذریعے زمین کو ہر ظلم و ستم سے پاک و پاکیزہ کر دے گا۔لوگ ان کی ولادت میں شک کریں گے۔وہ اپنے ظہور سے پہلے غیبت میں رہیں گے۔پس جب وہ ظہور کریں گے تو زمین ان کے نور سے چمک اٹھے گی۔اور وہ لوگوں کے درمیان میزان عدل قائم کریں گے پھر کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ان کے لیے فاصلے سمٹ جائیں گے اور ان کا کوئی سایہ نہ ہوگا۔اور ان کے لیے آسمان سے ایک منادی ندا دے گا کہ جسے تمام اہل زمین سنیں گے کہ:

"آگاہ ہوجاؤکہ حجت خداؑ بیت اللہ میں ظہور فرما چکے ہیں پس ان کی اتباع کرو۔حق ان کے ساتھ ہے اور ان میں ہے۔"(۱)

دسویں حدیث:۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا :

____________________

۱:- کمال الدین ۳۷۱ ح۵

۸۸

آپؑ سےحضرت عبدالعظیم حسنی نے عرض کیا: میں سمجھتا ہوں اہل بیتؑ محمد ؐ ؐمیں سے آپ ہی وہ قائم ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی۔

امام ؑ نے فرمایا:

"اے ابوالقاسم! ہم میں سے ہرایک امام اللہ کی طرف سے قائم ہے اور دین خدا کی طرف ہدایت کرنے والا ہے۔لیکن وہ قائم ؑ جو زمین کو کافروں اور منکروں سے پاک کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا وہ امام ہوگا کہ جس کی ولادت لوگوں سے مخفی ہوگی۔ وہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہوں گے اور ان پر ان کا نام لینا حرام ہوگا۔ان کا نام و کنیت وہی رسول اللہ ؐ والی ہو گی۔ ان کے لیے فاصلے سمٹ جائیں گے ،ہر سختی اور مشکل ان کے لیے آسان ہوجائےگی۔ اور اہل بدر کی تعداد کے برابر ۳۱۳ اصحاب زمین کے کونے کونے سے ان کے لیے جمع ہوجائیں گے۔ اور یہ اللہ کا ارشاد ہے کہ :

اَيْنَ مَا تَكُـوْنُـوْا يَاْتِ بِكُمُ اللّـٰهُ جَـمِيْعًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (۱)

____________________

۱:- سورۃ بقرۃ :۱۴۸

۸۹

پس جب یہ اہل اخلاص ان کے لیے جمع ہوجائیں گے تو اللہ اپنے امر کوظاہرکردے گا۔اور جب دس ہزار کا لشکر جمع ہو جائے گا تو اللہ کے حکم سے خروج کریں گے۔اور وہ اس وقت تک دشمنان خدا کو قتل کریں گے جب تک اللہ راضی نہ ہو جائے۔

عبد العظیم کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :مولا یہ کیسے پتا چلے گا کہ اللہ راضی ہوگیا ہے؟

فرمایا:

اللہ ان کے دل میں رحم ڈال دے گا اور جب وہ مدینہ میں داخل ہوں گے تو لات و عزی کو نکال کر جلا دیں گے۔"

مصنف : میرے نزدیک لات سے مراد پہلا ظالم اور عزی سے مراد دوسرا ظالم ہے۔

گیارہویں حدیث:۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا:

"میرے بعد میرا بیٹا حسن(عسکری) امام ہوگا۔اور ان کے بعد کیا ہی امامت ہوگی ۔ میں نے پوچھا میں آپ پر قربان جاؤں وہ کیوں؟

فرمایا :

۹۰

کیونکہ تم انہیں نہیں دیکھ پاؤ گے۔اور تمہارے لیے ان کانام لینا جائز نہ ہوگا۔میں نے عرض کیا ہم کیسے ان کا تذکرہ کریں۔ فرمایا: یوں کہو حجت آلؑ محمدؐ۔"(۱)

بارہویں حدیث:۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:

حضرت امام حسن عسکری ؑ سے احمد بن اسحاق نے پوچھا: ان میں خضر و ذوالقرنین کی کون سی سنت ہوگی؟

فرمایا: "اے احمد ! لمبی غیبت۔ عرض کیا : فرزند رسول ؐ !کیا ان کی غیبت بہت طولانی ہوگی؟ فرمایا:ہاں قسم بخدا،یہاں تک کہ اس امر پرایمان رکھنے والوں میں سے اکثر اپنی بات سے پھر جائیں گے۔اور فقط وہی بچے گا جس سے اللہ نے ان کی ولایت کا عہد لے رکھا ہےاور اس کےدل میں ایمان جاگزیں کیا ہےاور اپنی روح سے اس کی تائید کی ہے۔"(۲)

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۸۱ ح۵

۲:- یہ حدیث فوائد دعا میں چودہویں فائدہ میں ذکر کی گئی حدیث کا ابتدائی حصہ ہے۔

۹۱

فصل سوم

پانچ علامات ظہور

حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا ظہور کسی وقت کے ساتھ معین اور خاص نہیں ہے۔غیبت نعمانی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے ابو بصیر سے فرمایا:

إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ لاَ نُوَقِّتُ وَ قَدْ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ كَذَبَ اَلْوَقَّاتُونَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ قُدَّامَ هَذَا اَلْأَمْرِ خَمْسَ عَلاَمَاتٍ أُولاَهُنَّ اَلنِّدَاءُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ خُرُوجُ اَلسُّفْيَانِيِّ وَ خُرُوجُ اَلْخُرَاسَانِيِّ وَ قَتْلُ اَلنَّفْسِ اَلزَّكِيَّةِ وَ خَسْفٌ بِالْبَيْدَاءِ

"ہم اہل بیت ؑ وقت مقرر نہیں کر رہے۔ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: کذب الوقاتون۔ ظہور کا وقت مقرر کرنے والے جھوٹے ہیں۔اے ابو محمد اس امر (ظہور) کی پانچ علامتیں ہیں:

۹۲

ان میں سے پہلی ماہ رمضان میں آسمانی نداء کا آنا ،دوسری سفیانی کا خروج، تیسری خراسانی کا خروج، چوتھی نفس زکیہ کا قتل اور پانچویں خسف بیداء یعنی وادی بیداء کا دھنسنا۔"(۱)

عریضہ بحضور حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف:۔

یہاں پر ہم بحار الانوار سے وہ عریضۃ نقل کر رہے ہیں کہ جسے حضرت حجت کی بارگاہ میں بھیجا جاتا ہے۔

یہ عریضہ لکھ کر کسی پاک مٹی میں ڈال کر کسی نہر یا پانی کے چشمہ میں ڈالا جائے اور ڈالتے وقت یہ کہیں

يَا سَيّدي يا أبا القاسم يا حُسين بن رُوْح سَلام عَلَيكَ اَشهدُ أَنَّ وفاتَكَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَاَنَكَ حيٌّ عِندَ اللهِ مرزوقٌ وقَد خاطَبتُكَ في حَياتِكَ الّتي لَكَ عَندَ اللهِ عَزَّ وجَلّ وهَذهِ رُقعَتي وحاجَتي إلى مَولاَنا عَليهِ السَلام فَسَلّمها اِليهِ فأنْتَ الثِقة الاَمينِ .

____________________

۱:- غیبۃ النعمانی ص۲۸۹ ح۶

۹۳

عریضہ بحضور حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف

بسم الله الرحمن الرحيم كَتَبْتُ إلَيْكَ يا مَولاَيَ صَلَواتُ الله عَلَيكَ مُسْتَغِيثاً وشَكَوتُ ما نَزلَ بِي مُستَجِيراً باللهِ عَزَّ وجَلّ ثمَّ بِكَ من أمرٍ قَد دَهَمَني واَشغَلَ قَلبَي وأطالَ فِكْري وسَلَبَني بَعضَ لُبّي وَغَيّر خَطِيرَ نِعمَةِ اللهِ عِنْدِي أسلَمَني عِندَ تَخيّلِ وُرُودِه الخَليلُ وَتَبرَّأَ مِنّي عِنَدَ تَرائي إقْبالِهِ اِليَّ الحِمِيمُ وعَجَزَتْ عَن دِفَاعِهِ حِيلَتي وَخَانَني في تَحَمُّلِهِ صَبْرِي وَقوَّتي فَلَجَأتُ فِيهِ إلَيكَ وَتَوَكَّلْتُ في المسْألةِ لِلّهِ جَلَّ ثَنَاؤهُ عَلَيهِ وعَلَيكَ وفي دِفَاعِهِ عَنّي عِلماً بِمَكَانِكَ مِنَ اللهِ رَبِّ العَالَمِينَ وَلِيّ التَّدْبِيرِ وَمَالِكِ الأُمورِ وَاثِقاً بِكَ في المسارَعَةِ فِي الشّفَاعَةِ إِلَيهِ جَلَّ ثناؤهُ في اَمْري مُتَيقِّناً لاِجَابَتِهِ تَبَاركَ وَتَعالى إيّاكَ بِاِعْطَاءِ سُؤْلي واَنتَ يا مَولايَ جَدِيرٌ بِتَحْقِيقِ ظَنّي وَتَصْدِيقِ اَمَلِي فِيكَ في أَمْرِ (یہاں اپنی حاجت لکھیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مِمّا لاَ طَاقةَ لِي بِحَمْلِهِ ولا صَبْرَ لِي عَلَيهِ وَاِن كُنتُ مُستَحِقّاً لَهُ وَلأضعَافِهِ بقَبيحِ أَفعَالِي وَتَفريطي فِي الواجِباتِ الّتي لِلّهِ عَزَّ وجَلَّ عَلَيّ فأغِثْني يا مَولاَيَ صَلَواتُ اللهِ عَلَيكَ عِندَ اللَهفِ وَقَدِّمِ المسْألةَ للهِ عَزَّ وجَلَّ في اَمْرِي قَبلَ حُلولِ التَلَفِ وشِماتَةِ الأعداءِ فَبِكَ بُسِطَتِ النِعْمَةُ عَلَيَّ وَاسْأَلِ اللهَ جَلَ جَلاَلُهُ لِي نَصْراً عَزيزاً وفَتْحاً قَريباً فِيهِ بلُوغُ الآمالِ وَخَيرُ المبَادِي وَخَواتِيمُ الاعمَالِ وَالأمنُ مِنَ المخَاوفِ كُلِّها فِي كُلِّ حَالٍ إنّهُ جَلَّ ثناؤهُ لِما يَشَاءُ فعّالٌ وَهُو حَسبي وَنِعمَ الوكِيلُ في المبدءِ وَالمآل

۹۴

۹۵

دوسراحصہ

۹۶

الحمدلله رب العالمین والصلاة والسلام علی خاتم المرسلین خیرالخلق اجمعین محمد وآله المعصومین ولا سیما امام زماننا خاتم الوصیین ولعنة الله علی اعدائهم و ظالمیهم الی یوم الدین اما بعد

گناہوں اور آرزؤں کے سمندر میں ڈوبا ہوا (محمد تقی بن عبدالرزاق الموسوی الاصفہانی) عفی اللہ عنھما انے مومن بھائیوں سے مخاطب ہے کہ:

یہ میری کتاب (زمانہ غیبت امام میں ہماری ذمہ داریاں ) کا دوسرا حصہ ہے کہ جس میں وہ اعمال جمع کیے ہیں کہ جنہیں امام عصر ؑ کے زمانہ غیبت میں مومنین کو پابندی سے بجا لانا چاہیے۔

یہ اعمال جوکہ چون (۵۴) کی تعداد تک پہنچتے ہیں ، مکتب امامیہ کی معتبر کتب سے جمع کیے گئے ہیں۔کتاب کے پہلے حصہ میں پچیس اعمال ذکر کیے گئے تھے ۔

اب یہاں باقی اعمال ذکر کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔

۹۷

۲۶ ۔ چھبیسواں عمل:۔

علماء کو چاہیے کہ وہ اپنا علم ظاہر کریں اور مخالفین کی طرف سے کیے گئے شبہات کے جواب میں لاعلم لوگوں کی رہنمائی کریں تاکہ وہ گمراہ نہ ہوجائیں۔اور اگر وہ حیرت و پریشانی میں مبتلا ہوں تو انہیں اس سے نجات دیں۔یہ کام بطور خاص اس زمانہ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور علماء پر واجب ہے ۔

تفسیر امام حسن عسکریؑ میں وارد ہوا ہے کہ امام محمد تقی ؑ نے فرمایا:

وہ یتیمان آل محمد کہ جو اپنے امام ؑ سے جدا کر دیئےگئے اور اپنی جہالت کی وجہ سے حیرت و سرگرانی میں پڑے ہوئےہوں،شیاطین کے ہاتھوں میں جکڑے ہوئے اور ہمارے دشمن ناصبیوں کے ہاتھوں قید ہوں تو جن لوگوں نے ان کی کفالت کی اور انہیں ان مشکلات سے نکالا،انہیں اس حیرت و سرگردانی سے باہر لایا،خدا کی حجتوں اور آئمہؑ کی دلیل کے ذریعہ شیاطین اور ناصبیوں کے وسوسے رد کرتےہوئے ان کے قہر سے نجات دلائی تو انہیں اللہ کے ہاں باقی بندوں سے بلند مقام دیا جائے گا۔ان کی فضیلت آسمان کی زمین پر اور اس کی وسعت،کرسی اور حجابات پر فضیلت سے بھی زیادہ ہوگی۔انہیں ایک عابد پر ایسے

۹۸

ہی فضیلت حاصل ہوگی جس طرح چودہویں کے چاند کو باقی تمام ستاروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے۔"(۱)

امام علی نقی ؑ سے روایات ہے کہ فرمایا:

"اگر تمہارے قائم کی غیبت کے بعد ایسے علماء باقی نہ رہتے جو ان کی طرف بلانے والے، رہنمائی کرنے والے،اللہ کی حجتوں کے ذریعے ان کے دین کا دفاع کرنے والے،خدا کے کمزور بندوں کو ابلیس کی چالوں اور ناصبیوں کے شکار سے بچانے والےہیں تو پھر ہر شخص خدا کے دین سے مرتد ہوجاتا۔لیکن یہ ایسے لوگ ہیں کہ جو کمزور شیعوں کے دلوں کو ایسے سنبھالے رکھتے ہیں کہ جیسے کشتی والا سواروں کو سنبھالے رکھتا ہے۔یہی لوگ اللہ کےہاں افضل ہیں۔"(۲)

اصول کافی میں معاویہ بن عمار روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق ؑ سے عرض کیا:

"ایک شخص آپ کی حدیث روایت کرتا ہے اور اسے لوگوں میں پھیلاتا ہے اور اسے لوگوں کے دلوں میں اور آپ کے شیعوں کے دلوں میں

____________________

۱:- تفسیرالامام حسن عسکری ؑ:۱۱۶

۲:- تفسیرالامام حسن عسکری ؑ:۱۱۶

۹۹

پیوست کرتا ہے ،جبکہ آپ کے شیعوں میں ایک عبادت گزار ہے کہ جس کے پاس یہ روایت نہیں ہے ۔تو ان دونو ں میں سے کون افضل ہے؟

امام نے فرمایا:

ہماری حدیث روایت کرنا کہ جس سے ہمارے شیعوں کے دل (ا یمان ) کو مضبوط کیا جائے ہزار عابد (کی عبادت)سے افضل ہے۔"(۱)

پس ان احادیث اور ان جیسی دوسری احادیث کی روشنی میں عالم پر واجب ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنا علم ظاہر کرے۔باالخصوص اس زمانے میں کہ جس میں بدعتیں پھوٹ رہی ہیں۔

اصول کافی میں رسول خداؐ سے مروی ہے:

"جب میری امت میں بدعتیں پھوٹنے لگیں تو عالم کو چاہیے کہ اپنا علم ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔"(۲)

کتاب الفتن میں بحارالانوار سے نقل کرتے ہوئے رسول خدا ؐ سے مروی ہے کہ آپ نے امیرالمومنین ؑ سے فرمایا:

____________________

۱:- الکافی ۱/۳۳

۲:- الکافی ۱/۵۴

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

آیت ۳۵

( كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ )

ہر نفس موت كا مزہ چكھنے والا ہے اور ہم تو اچھائي اور برائي كے ذريعہ تم سب كو آزمائيں گے اور تم سب پلٹا كر ہمارى ہى بارگاہ ميں لائے جاؤگے (۳۵)

۱ _ موت،انسان كى حتمى تقدير ہے_كل نفس ذائقة الموت

''نفس'' كے كئي معانى ميں ان ميں سے ايك ''حقيقت، عين اور ذات'' ہے لہذا ''كل نفس ذائقة الموت'' يعنى ہر شخص موت كا ذائقہ چكھے گا_

۲ _ سب انسان حتى كہ انبياء (ع) بھى آزمائش الہى سے دوچار ہيں _ا فإين متّ و نبلوكم بالشر و الخير فتنة

۳ _ انسان، دنيا ميں موجود شر و خير كے ذريعے آزمائے جاتے ہيں _و نبلوكم بالشرّ و الخير فتنة

۴ _ انسان كى خلقت كا فلسفہ اور حكمت اسكى آزمائش اور امتحان ہے_كل نفس ذائقة الموت و نبلوكم بالشر و الخير فتنة دو جملوں ''كل '' اور ''نبلوكم ...'' كے ارتباط سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرى جملہ مقدر سوال كا جواب ہے كہ اگر موت سب كا مقدر ہے تو انسانوں كو خلق كيوں كيا گيا؟

۵ _ سب ا نسانوں كى بازگشت،خداتعالى كى طرف ہے_و إلينا ترجعون

۶ _ خداتعالى انسانوں كى حركت كا نقطہ آغاز ہے_و إلينا ترجعون

مذكورہ مطلب ''رجوع'' سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ہر رجوع اور پلٹنے كيلئے ايك نقطہ آغاز ہوتا ہے_

۳۴۱

۷ _ موت نابودى نہيں ہے بلكہ موت كے بعد انسان كى زندگى كا تسلسل چلتا رہيگا_كل نفس ذائقة و إلينا ترجعون

موت كے بعد انسان كا خداتعالى كى طرف پلٹ كر جانا (إلينا ترجعون) مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ قيامت، انسانوں كى آزمائش اور امتحان كے نتيجے كے ظاہر ہونے كا دن ہے_و نبلوكم و إلينا ترجعون

ان دو جملوں'' نبلوكم ...'' اور''إلينا ترجعون ...'' كے ارتباط سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرى جملے نے امتحان اور آزمائش كے فلسفہ اور غرض و غايت كو بيان كيا ہے_

۹ _عن ا بى عبد الله (ع) فى قوله تعالى :'' كل نفس ذائقة الموت'' قال : إنه يموت ا هل الأرض حتى لا يبقى ا حد ثم يموت ا هل السما فيقال: من بقي؟ فيقول: يا رب لم يبق إلا ملك الموت فيقال له : مت يا ملك الموت فيموت ; آيت شريفہ ''كل نفس ذائقة الموت'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: اہل زمين مرجائيں گے يہاں تك كہ ايك بھى باقى نہيں رہيگا پھر اہل آسمان مرجائيں گے اس وقت پوچھا جائيگاگا كون باقى ہے؟ تو ملك الموت كہے گا پروردگارا سوائے فرشتہ موت كے كوئي نہيں بچا پھر اس سے كہا جائيگا اے فرشتہ موت مرجا تو وہ مرجائيگا(۱)

۱۰_ ''روى عن ا بى عبدالله (ع) : إ نّ ا مير المؤمنين (ع) مرض فعاده إخوانه فقالوا: كيف تجدك يا ا مير المؤمنين (ع) ؟ قال: بشر قالوا : ما هذا كلام مثلك قال: إن الله تعالى يقول: '' و نبلوكم بالشر و الخير فتنة'' فالخير الصحة و الغنى و الشر المرض والفقر; امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ اميرالمؤمنين(ع) بيمار ہوگئے اور ان كے (ديني) برادران نے انكى عيادت كى اور كہنے لگے (اب) آپ خود كو كيسا پاتے ہيں اے اميرالمؤمنين (ع) تو آپ(ع) نے فرمايا شر ميں (مبتلا ہوچكا ہوں ) تو كہنے لگے يہ آپ جيسے لوگوں كى بات نہيں ہے تو فرمايا خداتعالى فرماتا ہے ''و نبلوكم بالشر و الخير فتنة'' اور صحت اور بے نيازى خير اور بيمارى اور تنگدستى شر ہے(۲)

امتحان:اس كا ذريعہ ۳، ۱۰; يہ خير كے ذريعے ۳، ۱۰; يہ شر كے ذريعے ۳، ۱۰

انبياء (ع) :ان كا امتحان ۲

انسان:اس كا امتحان ۳، ۴; اس كا انجام ۱، ۵; اسكى خلقت كا فلسفہ ۴; اسكى حركت كا سرچشمہ ۶

____________________

۱ ) كافى ج۳، ص ۲۵۶ ح ۲۵_ نورالثقلين ج۱، ص ۴۱۹، ح ۴۷۰_

۲ ) مجمع البيان ج۷، ص ۷۴_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۲۹ ح ۶۸_

۳۴۲

خدا كى طرف بازگشت:۵

قيامت:اس ميں حقائق كا ظہور ۸

خير:اس سے مراد ۱۰

روايت ۹، ۱۰

زندگي:موت كے بعد زندگى ۷

شر:اس سے مراد ۱۰

عزرائيل:اسكى موت ۹

موت:اس كا حتمى ہونا ۱; اسكى حقيقت ۷; اس كا عام ہونا ۹

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

آیت ۳۶

( وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُواً أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ )

اور جب بھى يہ كفار آپ كو ديكھتے ہيں تو اس بات كا مذاق اڑاتے ہيں كہ يہى وہ شخص ہے جو تمھارے خداؤں كا ذكر كيا كرتا ہے اور يہ لوگ خود تو رحمان كے ذكر سے انكار ہى كرنے والے ہيں (۳۶)

۱ _ مكہ كے مشركين اور كفار جب پيغمبراكرم (ص) كے سامنے آتے تو آپ(ص) كا مذاق اڑاتے اور مسخرہ كرتے_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

۲ _ مذاق اڑانا اور مسخرہ كرنا، مكہ كے كفار اور مشركين كا آنحضرت(ص) كے ساتھ پيش آنے كا واحد طريقہ_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

حرف نفى ''إن'' اور اس كے بعد حرف استثنا ''الّا'' كہ جو حصر پر دلالت كرتے ہيں نيز ''ہزواً'' كا مصدر كى صورت ميں آنا يہ سب مذاق اڑانے اور مسخرہ كرنے ميں شدت اور تسلسل كو بيان كررہے ہيں _

۳ _ مكہ كے كفار اور مشركين كا اسلام اور پيغمبر اكرم(ص) كى منطق اور استدلال كے مقابلے ميں ناتواني_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

۳۴۳

چونكہ كفار و مشركين مسلسل آنحضرت(ص) كا مذاق اڑاتے تھے اس سے پتا چلتا ہے كہ وہ منطق، دليل اور برہان كا راستہ اختيار كرنے سے عاجز تھے اور ان كے پاس مذاق كے علاوہ كوئي چارہ نہيں تھا_

۴ _ شرك اور مشركين كے باطل اور خيالى معبودوں كے ساتھ مقابلہ آنحضرت(ص) كے پروگراموں ميں سر فہرست_

ا هذا الذى يذكر ء الهتكم ذكر اور ياد كرنا خير كے ساتھ بھى ہے اور شر كے ساتھ بھى ليكن قرينہ مقام بتاتا ہے كہ يہاں پر مراد شر كے ساتھ ياد كرنا ہے_

۵ _ كفار مكہ كى طرف سے ہميشہ پيغمبر اكرم(ص) كى تحقير كى جاتي_و إذا رء اك أهذا الذى يذكر ء الهتكم

''أہذا ...'' ميں ہمزہ استفہاميہ تعجب كيلئے ہے اور استہزا قرينہ ہے كہ اسم اشارہ، ''ہذا''تحقير ميں استعمال ہوا ہے_

۶ _ لوگوں كے دينى جذبات اور عقائد سے استفادہ كرنا اور انہيں آنحضرت(ص) كے خلاف بھڑ كانا كفر و شرك كے سرغنوں كى آنحضرت(ص) كے ساتھ پيش آنے كى ايك روش _ا هذا الذى يذكر ء الهتكم

چونكہ كفار مكہ نے لوگوں كو مخاطب قرار ديا ہے اور انہوں نے ''آلہتكم'' كہا ہے نہ ''آلہتنا'' تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ پيغمبر(ص) اكرم كے خلاف لوگوں كے جذبات اور عقائد سے استفادہ كرتے تھے_

۷ _ مكہ كے كفار اور مشركين خداتعالى كے نام ''رحمان'' كے سلسلے ميں بڑے حساس اور خداتعالى كى رحمانيت كے منكر ہے_و هم بذكرالرحمن هم منكرون پروردگار كے ناموں ميں سے خاص طور پر ''رحمان'' كا ذكر كرنا نيز ''ہم'' كا تكرار مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ كفار مكہ خدائے رحمان كے منكر تھے_و هم بذكرالرحمن هم كفرون قابل ذكر ہے كہ كفار نام ''رحمان'' كے منكر تھے اس سے بدرجہ اولى استفادہ ہوتا ہے كہ وہ ذات خدائے رحمان كے بھى منكر تھے_

۹ _ قرآن كا آسمانى ہونا كفار اور مشركين مكہ كا مورد انكارو هم بذكرالرحمن هم كفرون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' سے مراد قرآن كريم ہو جيسا كہ قرآن كريم كے متعدد موارد ميں _ جيسا كہ اس سورت كى دوسرى آيت ميں ہے_ قرآن كو ذكر سے ياد كياگيا ہے_

۳۴۴

۱۰ _ رحمان خداتعالى كے اہم اور برجستہ ناموں ميں سے ہے_و هم بذكرالرحمن هم كفرون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خداتعالى نے كفار كو عذاب كا مستحق متعارف كراتے ہوئے انہيں منكرين رحمانيت قرار ديا ہے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۱۱ _ مكہ كے كفار اور مشركين تنگ نظر، متعصب اور مخالفين كى افكار كو برداشت نہ كرنے والے لوگ تھے_

أهذا الذى يذكر ء الهتكم و هم بذكرالرحمن هم كفرون

مذكورہ مطلب اس نكتے كى طرف توجہ كرنے سے حاصل ہوتا ہے كہ كفار مكہ كو حتى كہ ''خدائے رحمان'' كا نام سننا بھى گوارا نہيں تھا اور ہميشہ پيغمبراكرم (ص) كے ساتھ مذاق اور تمسخر كے ساتھ پيش آتے_

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۶; اس كے ساتھ مبارزت ۳

اسما و صفات:رحمان ۱۰

آنحضرت(ص) :آپ (ص) كا مذاق اڑانا۱، ۲; آپ (ص) كے خلاف جذبات كو بھڑكانا ۶; آپ (ص) كى تحقير ۵; آپ (ص) كى شرك دشمنى ۴; آپ (ص) كے ساتھ مقابلہ ۳; آپ (ص) كى طرف سے مقابلہ۴; آپ (ص) كى اہم ترين رسالت ۴

خداتعالى :اسكى رحمانيت كى اہميت ۱۰; اسكى رحمانيت كو جھٹلانے والے ۸۷

باطل معبود:ان كے ساتھ مبارزت ۴

رہبران:رہبران شرك كے پيش آنے كى روش ۶; رہبران كفر كے پيش آنے كى روش ۶

قرآن كريم:اسكے وحى ہونے كو جھٹلانے والے ۹

كفار مكہ:انكى تمسخر بازى ۱، ۲; انكى سوچ ۷، ۸، ۹; انكا تعصب ۱۱; ان كے پيش آنے كى روش ۱، ۲، ۵; انكى تنگ نظرى ۱۱; انكا عاجز ہونا ۳; انكا مقابلہ كرنا ۳

مشركين مكہ:انكا مذاق اڑانا ۱، ۲; انكى سوچ ۷،۹; انكا تعصب ۱۱; ان كے پيش آنے كى روش ۱، ۲; انكى تنگ نظرى ۱۱; انكا عاجز ہونا ۳; انكا مقابلہ ۳

۳۴۵

آیت ۳۷

( خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ )

انسان كے خمير ميں عجلت شامل ہوگئي ہے اور عنقريب ہم تمھيں اپنى نشانياں دكھلائيں گے تو پھر تم لوگ جلدى نہيں كروگے (۳۷)

۱ _ انسانى فطرت، بہت جلدباز اور عجولانہ ہے_خلق الإنسان من عجل

''أنسان عجلت سے پيدا كيا گيا ہے'' كى تعبير اس بات سے كنايہ ہے كہ جلد بازى انسان كى فطرت ميں ہے ورنہ انسان تو نطفے اور سے پيدا ہوا ہے نہ جلد بازى سے_

۲ _ آدمى ، قدرتى انسانى تمايلات سے بھى متأثر ہے اور صرف بيرونى حالات سے متاثر نہيں ہے_خلق الإنسان من عجل

چونكہ انسان كى خلقت كو جلدبازى كے خمير سے قرار ديا گيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان صرف بيرونى حالات اور ماحول (معاشرہ، تربيت اور ) سے ہى متاثر نہيں ہوتا بلكہ انسانى غريز ے بھى اس ميں مؤثر ہيں _

۳ _ خداتعالى كى رحمانيت كا انكار جلدبازى كا فيصلہ ہے اور يہ عاقلانہ سوچ نہيں ہے_هم بذكر الرحمن هم كفرون خلق الانسان من عجل مذكورہ مطلب اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ مشركين خداتعالى كى رحمانيت كا انكار كرتے تھے اور خداتعالى انسان كى فطرت اور جلدبازى سے نہى كو بيان كر كے اس نكتے كو ذكر كرنا چاہتا ہے كہ خداتعالى كى رحمانيت كا انكار جلدبازى كا فيصلہ ہے اور ضرورى ہے كہ آيات الہى كا مطالعہ كر كے عميق علمى فكر اپنائي جائے_

۴ _ كفار مكہ شكست اور دنيوى عذاب كى دہليز پر تھے_سأوريكم ء اى تي

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آيات سے مراد كفار مكہ كى شكست اور ان كا دنيوى عذاب ہو_ قابل ذكر ہے كہ ان آيات كا مكى ہونا اس مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۳۴۶

۵ _ كفار مكہ كو قريب الوقوع عذاب اور نابودى كى دھمكى دى گئي تھي_سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

بعد والى آيات( بل تأتيهم بغتة ...) كے قرينے سے ''آياتي'' سے مراد عذاب اور ہلاكت ہے_

۶ _ دين دشمن كافروں كى نابودى اور مسلمانوں كى كاميابى قاعدے اور قانون كے مطابق ہے اور اس كا مناسب وقت ہے_خلق الانسان من عجل سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

مذكورہ مطلب اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ مؤمنين، پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مشركين كى گستاخانہ روش كو ديكھ كر بے صبرى كے ساتھ خداتعالى كے دشمنوں كى ہلاكت اور مسلمانوں كى كاميابى والے وعدے كے عملى ہونے كے منتظر تھے اور خداتعالى نے انہيں صبر كرنے اور جلد بازى نہ كرنے كى دعوت دى ہے قابل ذكر ہے كہ مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''سأوريكم فلاتستعجلون'' كےمخاطب مسلمان ہوں _

۷ _ كفار اور دين دشمنوں كى ہلاكت و شكست اور مؤمنين كى كاميابى آيات الہى ميں سے ہے_سأوريكم ء اى تي

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ كفار كى ہلاكت اور مسلمانوں كى كاميابى كو ''آيات'' سے تعبير كيا گيا ہے_

۸ _ صدر اسلام كے مؤمنين، كافروں پر جلدى غالب آنے اور كامياب ہونے كے منتظر تھے_سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''آيات'' سے مقصود كافروں كى دنياوى ہلاكت اور دنياوى عذاب ہو اور ''سأوريكم فلا تستعجلون'' كے مخاطب مسلمان ہوں _

۹ _ مناسب وقت سے پہلے اور جلدبازى كا كام اگرچہ كام اچھاہى ہو ايك ناپسنديدہ اور قابل مذمت امر ہے_

خلق إلانسان من عجل فلاتستعجلون

۱۰ _انسانى غريزوں اور طبائع كو كنٹرول كرنا ممكن ہے _خلق إلانسان من عجل ...فلا تستعجلون

خداتعالى نے جلدبازى سے نہى كى ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جلدبازى پر قابو پانے كى قدرت انسان ميں موجود ہے_

آيات خدا:۷/انسان:اس كا متأثر ہونا۲; اسكى صفات ۱، ۲; اسكى جلدبازى ۱

خداتعالى :اسكى رحمانيت كو جھٹلانے كا غير منطقى ہونا۳; اسكے عذابوں كا قاعدے اور قانون كے مطابق ہونا ۶

دين:دين دشمنوں كى شكست ۷; دين دشمنوں كى ہلاكت ۶، ۷

۳۴۷

جلدبازي:اسكى مذمت ۹

عمل:عمل خير ميں جلدبازى كرنا ۹

غرائز:ان كو كنٹرول كرنا ۱۰

كفار:ان كى شكست۷; انكى ہلاكت ۶، ۷

كفار مكہ:انكى شكست ۴; انكا دنيوى عذاب ۴; انكا عذاب۵; انكو تنبيہ۵; انكى ہلاكت ۵

مؤمنين:صدر اسلام كے مؤمنين كى توقعات ۸; انكى كاميابى ۷

مسلمان:انكى كاميابى ۶; انكى كاميابى ميں جلدى ۸

آیت ۳۸

( وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ اگر تم سچّے ہو تو اس وعدہ قيامت كا وقت آخر كب آئے گا (۳۸)

۱ _ كفار كى شكست و ہلاكت اور مؤمنين كى كاميابى ،وعدہ الہى _سأوريكم ء اى تي و يقولون متى هذا الوعد

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''وعد'' سے مراد مؤمنين كى كاميابى اور مشركين كى شكست ہو_

۲ _ قيامت كا برپا ہونا اور دين دشمن كافروں كى سزا، وعدہ الہى ہے _و يقولون متى هذا الوعد

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الوعد'' كا ''ال'' عہد حضورى كا اور اس سے مقصود قيامت كا برپا ہونا اور كافروں كا عذاب ہو كہ جس كا تمام انبيا(ع) ء مسلسل اپنى امتوں كو وعدہ ديتے رہے اور يہ وعدہ امتوں كى يادداشت ميں باقى تھا_

۳ _ كفار مكہ، قيامت اور اخروى عذاب كے منكر تھے_و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

۴ _ مكہ كے دين دشمن كفار، خداتعالى كے وعدوں اور دھمكيوں (عذاب، اخروى سزا و غيرہ) كا مذاق اڑاتے اور انكا تمسخر كرتے_و يقولون متى هذا الوعد

جملہ استفہاميہ''و يقولون متى هذا الوعد'' تہكم اور استہزا كيلئے ہے_

۳۴۸

۵ _ مكہ كے دين دشمن كفار، خداتعالى كے وعدوں كے سلسلے ميں پيغمبر اسلام(ص) اور مؤمنين كو جھوٹا سمجھتے تھے_

و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

۶ _ انسان كى عجولانہ خصلت كفار مكہ كى طرف سے خداتعالى كے وعدوں (عذاب، قيامت برپا كرنا وغيرہ) كے عملى ہونے كى درخواست كا سبب بني_خلق إلانسان من عجل ...و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''يقولون متى ...'' كا جملہ ''سأوريكم ...'' پر عطف ہو اور يہ دو جملے ''خلق الانسان من عجل'' كہ جو انسانوں كى عمومى خصلت كو بيان كررہا ہے كے ساتھ مربوط ہو_

آنحضرت(ص) :آپ(ص) پر جھوٹ كى تہمت ۵

انسان:اسكى جلدبازى كے اثرات ۶; اسكى صفات ۶

خداتعالى :اس كے عذاب كا مذاق اڑانا ۴; اسكے متنبہ كرنے كا مذاق اڑانا۴; اسكے وعدے ۱، ۲; اسكى دھمكياں ۱، ۲

دين:دين دشمنوں كى سزا كا وعدہ ۲

عذاب:اس ميں جلدى كرنے كى درخواست كا پيش خيمہ ۶; اخروى عذاب كو جھٹلانے والے ۳

قيامت:اس ميں جلدى كرنے كى درخواست كا پيش خيمہ ۶; اسے جھٹلانے والے ۳; اس كا وعدہ ۲

كفار:انكى سوچ ۳

كفار مكہ:انكا مذاق اڑانا۴; انكى تہمتيں ۵; انكى جلدبازى كا پيش خيمہ ۶; انكى شكست كا وعدہ ۱; انكى ہلاكت كا وعدہ ۱

سزا:اخروى سزا كا مذاق اڑانا ۴

مؤمنين:ان پر جھوٹے ہونے كى تہمت ۵; انكى كاميابى كا وعدہ ۱

۳۴۹

۳۸۰ تا ۳۸۳

( لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَن ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ) (٣٩)

( بَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ ) (٤٠)

۳۵۰

آیت ۴۱

( وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُون )

اور پيغمبر آپ سے پہلے بھى بہت سے رسولوں كا مذاق اڑايا گيا ہے جس كے بعد ان كفار كو اس عذاب نے گھيرليا جس كا يہ مذاق اڑا رہے تھے (۴۱)

۱ _ بشر، پيغمبر خاتم(ص) سے پہلے صاحبان رسالت انبيا(ع) كے وجود سے بہرہ مند تھا_و لقد استهزي برسل من قبلك

۲ _ طول تاريخ ميں حق دشمن عناصر كا انبياء الہى كے ساتھ تمسخر آميز سلوك _و لقد استهزي برسل من قبلك

۳ _ كفار طول تاريخ ميں انبيا(ع) ء الہى كے ساتھ غير منطقى سلوك كرنے ميں ايك جيسے رہے ہيں _

و لقد استهزي برسل من قبلك

تمسخر آميز سلوك، موقف اپنانے ميں دليل و منطق كے نہ ہونے كو بيان كر رہا ہے اور چونكہ گذشتہ انبيا(ع) ء اور پيغمبر اكرم(ص) اسلام كفار كے مذاق كا نشانہ بن چكے ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ كفار كا سلوك ايك جيسا تھا اور وہ ايك جيسا موقف ركھتے تھے_

۴ _ كفار كے مذاق كے مقابلے ميں خداتعالى كا پيغمبراكرم(ص) كو تسلى دينا _و لقد استهزي برسل من قبلك

خداتعالى نے گذشتہ آيات ميں كافروں كے پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مذاق كرنے كے موضوع كا تذكرہ كيا اور اس آيت ميں گذشتہ انبيا(ع) ء كے تمسخر كى ياد دہانى كرائي ہے_يہ ياد دہانى ممكن ہے آنحضرت(ص) كى تسلى كى غرض سے ہو_

۵ _ انبيا(ع) ء بھى انسانى خصوصيات (دلى رنج و الم اور دلجوئي و تسلى كى ضرورت) كے حامل ہوتے ہيں _

و لقد استهزي برسل من قبلك

كفار كے تمسخر كے مقابلے ميں خداتعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كى دلجوئي كرنا اس حقيقت كا غماز ہے كہ پيغمبر اكرم بھى ديگر انسانوں كى طرح دشمنوں كے حملوں سے متأثر ہوتے ہيں اور انہيں بھى دلى تسلى كى ضرورت ہوتى ہے_

۶ _ طول تاريخ ميں رہبران الہى كى كوشش اور رنج و الم كى طرف توجہ، دين كے راستے ميں كوشش كرنے والوں كى تسلى كا سبب ہے_و لقد استهزي برسل من قبلك

۳۵۱

۷ _ راہ الہى ميں حركت، شديد نفسياتى اور روحى مشكلات اور سختيوں كو ہمراہ لاتى ہے_و لقد استهزي برسل من قبلك

اس سے كہ خداتعالى نے گذشتہ انبيا(ع) ء كى مشكلات اور رنج و الم كى يادآورى كرائي ہے معلوم ہوتا ہے كہ راہ حق كو طے كرنا مشكلات كے ہمراہ ہوتا ہے_

۸ _ انبيا(ع) ء كا مذاق اڑانے والے اس عذاب ميں مبتلا ہوئے كہ جس كا وہ مذاق اڑاتے تھے _

فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزئون

''ما كانوا بہ يستہزء ون'' سے مراد مہلك عذاب ہے كيونكہ طول تاريخ ميں كفار جس كا مذاق اڑاتے تھے اور وہى ان پر نازل ہوا وہ مہلك عذاب تھا_

۹ _ حق كے مقابلے ميں ہٹ دہرمى اور انبيا(ع) ء و رہبران الہى كا مسلسل مذاق اڑانا عذاب خداوندى ميں مبتلا ہونے كے اسباب فراہم كرتا ہے_و لقد استهزى برسل من قبلك فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

۱۰ _ انسانوں كيلئے خداتعالى كى طرف سے عذاب اور سزا،خودان كے اپنے عمل كا رد عمل اور نتيجہ ہے_

ولقد استهزي فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

۱۱ _ پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے والوں كو عذاب الہى كى دھمكي

و لقد استهزي برسل من قبلك فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ گذشتہ آيات ميں كافروں كے پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے كا تذكرہ تھا_ انبيا(ع) ء كا مسخرہ كرنے والوں كے عذاب ميں مبتلا ہونے كى ياد دہانى سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ يہ انجام پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے والوں كا بھى ہے_

انبياء(ع) :ان كا مذاق اڑانے كے اثرات ۹; انكا مذاق اڑانے والے ۲; آنحضرت(ص) سے پہلے كے انبيا(ع) ء ۱; انكا بشر ہونا ۵; انكى تاريخ ۱، ۲; انكو تسلى ۵; انكا مذاق اڑانے والوں كا عذاب۸; انكى معنوى ضروريات ۵

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا مذاق اڑانا ۴; آپ(ص) كا مذاق اڑانے والوں كو دھمكى ۱۱; آپ(ص) كو تسلى ۴; آپ كا مذاق اڑانے والوں كا عذاب ۱۱

حق:حق پرستى كے اثرات۷; حق كو قبول نہ كرنے كے اثرات ۹

ذكر:

۳۵۲

دينى رہنماؤں كے رنج و غم كا ذكر ۶

دينى راہنما:ان كا مذاق اڑانے كے اثرات ۹; انكى تسلى كے عوامل ۶

عذاب:اہل عذاب ۸; اس كا پيش خيمہ ۹; اسكے عوامل ۱۰

عمل:اسكے اثرات ۱۰

كفار:انكا مذاق اڑانا ۴; انكا غير منطقى ہونا۳; ان كے پيش آنے كى روش ۳; يہ اور انبياء ۳; انكى ہم آہنگى ۳

سزا:اسكے عوامل ۱۰

مشكلات:نفسياتى مشكلات كا پيش خيمہ ۷

نعمت:انبياء كى نعمت ۱

آیت ۴۲

( قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِم مُّعْرِضُونَ )

آپ ان سے كہہ ديجئے كہ انھيں رات يا دن ميں رحمان كے عذاب سے بچانے كے لئے كون پہرہ دے سكتا ہے مگر يہ ہيں كہ رحمان كى ياد سے مسلسل منھ موڑے ہوئے ہيں (۴۲)

۱ _ كفار كو شب و روز كے ہر لحظے ميں عذاب الہى كا خطرہ_قل من يكلؤكم من الرحمن

مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ ''من الرحمان'' سے مراد ''من بأس الرحمان و عذابہ'' ہو گذشتہ آيت كہ جو عذاب الہى كے بارے ميں ہے اسى نكتے كى تائيد كرتى ہے_

۲ _ ارادہ الہى كے مقابلے ميں تمام موجودات كى ناتوانى اور عاجز ہونا_قل من يكلؤكم من الرحمن

۳ _ انسان كو زندگى كے تمام لمحوں ميں خداتعالى كى حمايت اور حفاظت كى ضرورت ہے_

قل من يكلؤكم باليّل و النهار من الرحمن

۳۵۳

''يكلائ'' كے مادے ''كلاء ة'' كا معنى ہے شے كى حفاظت كرنا اور'' من الرحمان ''ميں ''من'' بدليہ ہے يعنى خدائے رحمن كى بجائے_

۴ _ كافروں كى اپنے پروردگار سے روگردانى اس كى مسلسل رحمت سے بہرہ مند ہونے كے با وجود

قل من يكلؤكم من الرحمن بل هم عن ذكر ربهم معرضون

آيت كريمہ ميں ''بل'' اضراب انتقالى كيلئے ہے يعنى خداتعالى نے بشر كى خدائے رحمان كى طرف نيازمندى كو بيان كرنے اور اسكے عذاب كے تذكرے كے بعد كافروں كے كفر كى اصلى علت (ياد پروردگار سے روگردانى اور ربوبيت الہى كى طرف توجہ نہ كرنا) كو بيان كيا ہے_

۵ _ كفار كا كلام الہى كے سننے اور مفاہيم و معارف قرآنى كے درك كرنا سے روگردانى كرنا ان كے خداتعالى كى وسيع رحمت كى طرف توجہ نہ كرنے اور پيغمبراكرم(ص) كى نصيحتوں سے متاثر نہ ہونے كى دليل ہے_

قل من يكلؤكم من الرحمن بل هم عن ذكر ربهم معرضون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' سے مراد قرآن ہو كيونكہ قرآن كا ايك نام اور صفت ''ذكر'' ہے_

۶ _ سب انسانوں حتى كہ پروردگار سے روگردانى كرنے والوں كو بھى رحمت الہى شامل ہے _

قل من يكلؤكم ...بل هم عن ذكر ربهم معرضون

۷ _ انسان كيلئے اپنے پروردگار اور تربيت كرنے والے كو ياد كرنا ضرورى ہے_بل هم عن ذكر ربهم معرضون

پروردگار كى ياد سے روگردانى كرنے كى وجہ سے كفار كو ڈانٹ ڈپٹ، اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ عقل كے حكم كے مطابق انسان كيلئے ضرورى ہے كہ اپنے پروردگار اور تربيت كرنے والے سے غفلت نہ كرے_

انسان:اسكى معنوى ضروريات ۳/آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى نصيحت ۵

خداتعالى :اسكى رحمت كا تسلسل ۴; اسكے ارادے كى حكمراني۲; اسكى رحمت عامہ ۶

ذكر :ذكر خدا كى اہميت ۷; ربوبيت خدا كا ذكر ۷; تربيت كرنے و الے كا ذكر ۷

رحمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۴/قرآن كريم:اس سے اعراض كرنے والے ۵

كفار:انكا اعراض ۴; ان پر نصيحت كا اثر نہ كرنا ۵; انكا حق كو قبول نہ كرنا ۵; ان كو عذاب كا خطرہ ۱; ان پر رحمت ۴

خداتعالى سے اعراض كرنے والے ۴:ان پر رحمت ۶

۳۵۴

موجودات:انكے عاجز ہونا ۲

ضروريات:خداتعالى كى حمايت كى ضرورت ۳

آیت ۴۳

( أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُم مِّن دُونِنَا لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنفُسِهِمْ وَلَا هُم مِّنَّا يُصْحَبُونَ )

كياان كے پاس ايسے خدا موجود ہيں جو ہمارے بغير انھيں بچاسكيں گے يہ بيچارے تو خود اپنى بھى مدد نہيں كرسكتے ہيں اور نہ انھيں خود بھى عذاب سے پناہ دى جائے گى (۴۳)

۱ _ جھوٹے خدا اور معبود، مشركين كو عذاب الہى سے بچانے كيلئے توان نہيں ركھتے _ا م لهم ء الهة تمنعهم من دونن

آيت كريمہ ميں ''أم'' منقطعہ كى قسم سے اور ''بل'' كى طرح استفہام انكارى كے معنى پر مشتمل ہے اور (إلہ كى جمع) ألہة كا معنى معبود ہے_

۲ _ مشركين كے جھوٹے معبود اور خدا ،اور خداتعالى كے علاوہ ہر طاقت اپنى حمايت اور حفاظت سے بھى ناتوان ہے_

لايستطيعون نصر أنفسهم جملہ''لا يستطيعون ...'' ،''تمنعہم'' كے فاعل كيلئے حال ہے كہ جو خدا اور معبود ہيں _

۳ _ مشركين كے معبود خود اپنى مدد كرنے سے ناتوان اور خداتعالى كى مدد سے محروم ہيں _لا يستطيعون نصر أنفسهم و لا هم منا يصحبون

''يصحبون'' (صحب كے مادہ سے) ''عاشَر'' كے معنى ميں ہے اور اس معنى كا لازمہ نصرت اور تائيد ہے كيونكہ ايك ہم نشين اپنے دوسرے ہم نشينوں كى حمايت كرتا ہے_

۴ _ احتياج اور نيازمندى مقام الوہيت كے ساتھ سازگار نہيں ہے_لايستطيعون نصر أنفسهم

خداتعالى نے ''آلہة'' كى خود اپنى حفاظت ميں ناتوانى اور ان كے ديگر محافظوں كى طرف محتاج

۳۵۵

ہونے كو ان كے الوہيت كے لائق نہ ہونے كى دليل شمار كيا ہے_ اس حقيقت كى ياد دہانى ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كر رہى ہو_

۵ _ كفار كا عذاب الہى كے مقابلے ميں ہر طرف سے بے پناہ ہونا اور ان كى ہلاكت كا حتمى ہونا _

ا م لهم آلهة تمنعهم من دوننا و لاهم منا يصحبون

۶ _ كافروں كا يہ عقيدہ كہ ان كے جھوٹے خدا، خداتعالى كے نزديك معزز اور معتبر ہيں كھوكھلا اور بے بنياد ہے_

لايستطيعون نصر أنفسهم و لا هم منا يصحبون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ آيت كريمہ كے مخاطبين مشركين ہيں اور وہ اپنے معبود اور خداؤں كو اپنا شفيع سمجھتے تھے معلوم ہوتا ہے كہ اس آيت كريمہ كا مقصد ايسے خيال كے بطلان كو بيان كرتا ہے_

الوہيت:اسكے شرائط ۴

عذاب:اہل عذاب۵; اہل عذاب كا بے يار و مددگار ہونا ۱

عقيدہ:باطل عقيدہ ۶

كفار:ان كا بے پناہ ہونا ۵; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۵; انكا عقيدہ ۶

مشركين:ان كى امداد ۳; انكا بے يار و مددگار ہونا۱،۲باطل معبود۶

ان كى امداد۳; انكا بے يار و مددگار ہونا۳; انكا عاجز ہونا۱، ۲، ۳

سچے معبود:ان كى نيازمندي۴

آیت ۴۴

( بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاء وَآبَاءهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ )

بلكہ ہم نے انھيں اور ان كے باپ دادا كو تھوڑى سى لذّت دنيا ديدى ہے يہاں تك كہ ان كا زمانہ طويل ہوگيا تو كيا يہ نہيں ديكھتے ہيں كہ ہم برابر زمين كى طرف آتے جارہے ہيں اور اس كو چاروں طرف سے كم كرتے جارہے ہيں كيا اس كے بعد بھى يہ ہم پر غالب آجانے والے ہيں (۴۴)

۱ _ مشرك معاشروں كے نعمات الہى سے بہرہ مند ہونے كے ساتھ ان كى لمبى عمر،ان كى معبودوں كے ساتھ دل

۳۵۶

بستگى اور ان كے كارساز ہونے كى خيال كے سبب بني_بل هم عن ذكر ربهم معرضون بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

جملہ ''بل متعنا ...'' ميں ''بل'' سابقہ موضوع (أم لہم آلہة تمنعہم من دوننا) سے اضراب كيلئے ہے يعنى يہ خيال كہ يہ معبود ان كى حمايت كريں گے ان كى مہلت اور لمبى عمر كے ساتھ ساتھ نعمتوں سے مال زندگى كى وجہ سے ہے_

۲ _ دنياوى نعمتوں سے بہرہ مندى اور اس كے ساتھ ساتھ لمبى عمر، اہل مكہ اور ان كے آبا ؤ اجداد كى غفلت اور تكبر كا سبب تھي_بل هم عن ذكر ربهم معرضون بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہولائ'' مخاطبين (مكہ كے لوگ) كے اذہان ميں موجود لوگوں كى طرف اشارہ ہو جيسا كہ مكہ ميں نازل ہونے والى بہت سى آيات كا مشار اليہ اس سرزمين كے لوگ ہيں _

۳ _ معبودوں اور خداؤں كا عمر كى مقدار اور انسان كى مادى بہرہ مندى ميں دخل ركھنا مشركين كا باطل خيال_

ا م لهم ألهة تمنعهم بل متعنا هولائ و أبائهم حتى طال عليهم العمر

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بل ...'' ''أم لہم آلہة ...'' سے اضراب ہو اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ مشركين اپنے خداؤں كيلئے ايسى قدرت كا اعتقاد ركھتے تھے _

۴ _ كفر و شرك والى فكر سرزمين مكہ ميں عرصہ دراز سے موجود تھي_عن ذكر ربهم معرضون_ ا م لهم ألهة بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خداتعالى نے اہل مكہ كے آباؤ اجداد كو خدا سے اعراض كرنے والے اور دنياوى نعمتوں اور لمبى عمر سے بہرہ مند شمار كيا ہے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۵ _ خداتعالى نے بعض گذشتہ اقوام اور ملتوں كو دنياوى نعمتوں سے بہرہ مند كرنے كے ساتھ ساتھ انہيں لمبى عمر بھى عطا كي_بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

۶ _ معاشروں اور تمدنوں كا لمبى عمر اور دنياوى نعمتوں سے بہرہ مند ہونا انكى حقانيت اور كاميابى كى دليل نہيں ہے_

بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر أفهم الغالبون

۷ _ سرزمين مكہ عرصہ دراز سے دنياوى نعمتوں سے مالامال اور ہلاكت خيز حوادث اور عذاب الہى سے محفوظ تھي_بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر يہ چيز كہ خداتعالى نے اہل مكہ اور ان كے آباؤ اجداد كو لمبى مدت تك دنياوى منافع سے بہرہ مند كيا سرزمين مكہ كے عرصہ دراز سے ہلاكت خيز حوادث سے محفوظ رہنے كو بيان كرتى ہے_

۳۵۷

۸ _ انسان كا نعمتوں اور اپنى عمر كى مقدار سے مستفيد ہونا خداتعالى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے تابع ہے_

بل متعنا هولائ أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافها أفهم الغالبون

۹ _ اہل زمين كى آبادى كو كم كرنا اور ملتوں اور اقوام كى موت سنت الہى اور ايك دائمى امر ہے_أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه ''ننقصہا'' ميں ''نقص'' سے مراد اہل زمين كو كم كرنا ہے نہ خود زمين كو كم كرنا اور اس كا فرسودہ ہونا اگر چہ بعض مفسرين نے يہ احتمال ذكر كيا ہے قابل ذكر ہے كہ ''نأتي'' اور ''ننقصہا'' كا صيغہ مضارع كى صورت ميں آنا ان دو فعلوں كے محتوا كے استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۱۰ _ امتوں اور تہذيبوں كى تاريخ سے آگاہ ہونا اور اس سے سبق سيكھنا ايسى چيزيں ہيں جو پسنديدہ اور خداتعالى كى طرف سے مورد تشويق ہيں _أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه مادہ ''رؤيت'' جب دو مفعولوں كى طرف متعدى ہو تو ''علم'' كے معنى ميں ہوتا ہے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اسى معنى ميں استعمال ہوا ہے كيونكہ جملہ ''أنا نأتي ...'' مصدر كى تأويل ميں ہوكر دو مفعولوں كے قائم مقام ہے_

۱۱ _ انسانوں كى موت اور معاشروں اور تہذيبوں كا ختم ہونا انسان كيلئے عبرت كا سامان ہے _

أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

۱۲ _ انسانى معاشروں اور تہذيبون كے زوال كا تدريجى ہونا_أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

كلمہ ''نقص'' يعنى كم كرنا اور فعل مضارع ''نأتي'' اور ''ننقصہا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو استمرار كا فائدہ ديتے ہيں _ مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۱۳ _ كفار كا انسانوں كى قوت اور معاشروں اور تہذيبوں كے زوال كے مشاہدہ سے عبرت حاصل نہ كرنا_

أفلا يرون أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

۱۴ _ خداتعالى كى طرف سے كافر و مشرك معاشروں كى نابودي، اسلام كى كاميابى اور اسلامى سرزمين كے حدود كے وسيع ہونے كى خوشخبرى _أفلا يرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيات كفار اور منكرين قرآن كے بارے ميں ہيں _ زمين اور اہل زمين كو كم كرنے سے مقصود كفار كى تعداد كو كم كرنا اور مسلمانوں كى تعداد كو بڑھانا ہے''أفلا يرون'' كى ضمير غائب اور''أفهم الغالبون'' ميں ہمزہ استفہام انكارى اس مطلب كا مؤيد ہوسكتا ہے_

۱۵ _ ارادہ خدا كے مقابلے ميں كفار اور ان كے خداؤں كا كمزور اور ناتوان ہونا _

۳۵۸

أفهم الغالبون

''أفہم'' ميں ہمزہ استفہام انكارى كيلئے ہے_

۱۶ _ عالم ہستى ميں خداتعالى بے مثال قادر اور مطلق حاكم ہے_بل متعنا هولائ أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافها أفهم الغالبون

۱۷ _ انسانوں كو موت دينا اور معاشروں اور تہذيبوں كو نابود كرنا خداتعالى كى بے مثال اور ناقابل شكست قدرت كى دليل ہے_أنّا ناتى الأرض ننقصها من أطرافهاأفهم الغالبون

خداتعالى كے ذريعے انسان كى موت كے مسئلے كو ذكر كرنے كے بعد قدرت الہى كے مقابلے ميں كفار كى كاميابى او رغلبے كى نفى كرنا اور اس پر سواليہ نشان لگانا (أفهم الغالبون ) ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

انسان:اسكى موت ۱۷

عالم خلقت:اس كا حاكم ۱۶

گذشتہ اقوام:ان كے مادى وسائل ۵; انكى تاريخ ۵; ان سے عبرت حاصل كرنا۱۰; ان كى لمبى عمر ۵

امم:انكى حقانيت كے دلائل ۶

مادى وسائل:ان كا سرچشمہ ۳

خوشخبري:اسلام كى كاميابى كى خوشخبري۱۴; اسلام كى وسعت كى خوشخبري۱۴; شرك كى نابودى كى خوشخبري۱۴; كفر كى نابودى كى خوشخبري۱۴/تاريخ:اسكے مطالعے كى تشويق ۱۰

تہذيبيں :انكا تدريجى زوال ۱۲; انكا زوال ۱۷; ان كے زوال سے عبرت حاصل كرنا ۱۱، ۱۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱۶; اسكے اختيارات ۸; اسكا ارادہ ۸، ۱۵; اسكى بشارتيں ۱۴; اسكى ترغيب ۱۰; اسكى حكمرانى ۱۶; اسكى عزت كے دلائل ۱۷; اسكى قدرت كے دلائل ۱۷; اسكى سنتيں ۹; اسكى قدرت ۱۶

شرك:اسكى تاريخ ۴/عبرت:اسكى ترغيب دلانا ۱۰; اسكے عوامل ۱۱

عقيدہ:باطل عقيدہ ۳; باطل معبودوں كا عقيدہ ۱

عمر:لمبى عمر كے ا ثرات ۱; اس كا سرچشمہ ۸; لمبى عمر كا سرچشمہ ۳; لمبى عمر كا كردار ۶

عمل:

۳۵۹

پسنديدہ عمل ۱۰

كفار:انكى ذلت ۱۵; انكى كمزورى ۱۵; انكا عبرت حاصل نہ كرنا ۱۳

كفر:اسكى تاريخ ۴

موت:اس كا دائمى ہونا ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۱۱، ۱۳

مشركين:انكى آسائش كے اثرات ۱; انكا عقيدہ ۳; انكى لمبى عمر۱; انكى نعمتيں ۱

باطل معبود:انكا عاجز ہونا ۱۵; انكا كردار ۳

مكہ:اس كا امن ۷; اسكى تاريخ ۴، ۷; اہل مكہ كى لمبى عمر ۲; اہل مكہ كے تكبر كے عوامل ۲; اہل مكہ كى غفلت كے عوامل ۲; اسكى فضيلت ۷; اہل مكہ كى دنياوى نعمتيں ۲

نعمت:اس كا سرچشمہ ۸

آیت ۴۵

( قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاء إِذَا مَا يُنذَرُونَ )

آپ كہہ ديجئے كہ ميں تم لوگوں كووحى كے مطابق ڈراتا ہوں اور بہرہ كو جب بھى ڈرايا جاتا ہے وہ آوازہ كو سنتا ہى نہيں ہے (۴۵)

۱ _ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كيلئے اپنے اصلى فريضے اور رسالت كے دائرہ كار كو بيان كرنے پر مأمور _قل إنما أنذركم بالوحي

۲ _ لوگوں كو وحى كے سائے ميں انداز كرنا، پيغمبر اسلام(ص) كا اصلى فريضہ و رسالت _قل إنما أنذركم بالوحى

۳ _ پيغمبر اكرم(ص) كا انذاز صرف و حى الہى كى بنياد پر تھا نہ ذاتى اور نفسانى خواہشات و نظريات كے مطابق_

قل أنما انذركم بالوحي

۴ _ وحي، دينى معرفت اور تعليمات الہى كى شناخت كا

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750