تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219025 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

آیت ۳۵

( كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ )

ہر نفس موت كا مزہ چكھنے والا ہے اور ہم تو اچھائي اور برائي كے ذريعہ تم سب كو آزمائيں گے اور تم سب پلٹا كر ہمارى ہى بارگاہ ميں لائے جاؤگے (۳۵)

۱ _ موت،انسان كى حتمى تقدير ہے_كل نفس ذائقة الموت

''نفس'' كے كئي معانى ميں ان ميں سے ايك ''حقيقت، عين اور ذات'' ہے لہذا ''كل نفس ذائقة الموت'' يعنى ہر شخص موت كا ذائقہ چكھے گا_

۲ _ سب انسان حتى كہ انبياء (ع) بھى آزمائش الہى سے دوچار ہيں _ا فإين متّ و نبلوكم بالشر و الخير فتنة

۳ _ انسان، دنيا ميں موجود شر و خير كے ذريعے آزمائے جاتے ہيں _و نبلوكم بالشرّ و الخير فتنة

۴ _ انسان كى خلقت كا فلسفہ اور حكمت اسكى آزمائش اور امتحان ہے_كل نفس ذائقة الموت و نبلوكم بالشر و الخير فتنة دو جملوں ''كل '' اور ''نبلوكم ...'' كے ارتباط سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرى جملہ مقدر سوال كا جواب ہے كہ اگر موت سب كا مقدر ہے تو انسانوں كو خلق كيوں كيا گيا؟

۵ _ سب ا نسانوں كى بازگشت،خداتعالى كى طرف ہے_و إلينا ترجعون

۶ _ خداتعالى انسانوں كى حركت كا نقطہ آغاز ہے_و إلينا ترجعون

مذكورہ مطلب ''رجوع'' سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ہر رجوع اور پلٹنے كيلئے ايك نقطہ آغاز ہوتا ہے_

۳۴۱

۷ _ موت نابودى نہيں ہے بلكہ موت كے بعد انسان كى زندگى كا تسلسل چلتا رہيگا_كل نفس ذائقة و إلينا ترجعون

موت كے بعد انسان كا خداتعالى كى طرف پلٹ كر جانا (إلينا ترجعون) مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ قيامت، انسانوں كى آزمائش اور امتحان كے نتيجے كے ظاہر ہونے كا دن ہے_و نبلوكم و إلينا ترجعون

ان دو جملوں'' نبلوكم ...'' اور''إلينا ترجعون ...'' كے ارتباط سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرى جملے نے امتحان اور آزمائش كے فلسفہ اور غرض و غايت كو بيان كيا ہے_

۹ _عن ا بى عبد الله (ع) فى قوله تعالى :'' كل نفس ذائقة الموت'' قال : إنه يموت ا هل الأرض حتى لا يبقى ا حد ثم يموت ا هل السما فيقال: من بقي؟ فيقول: يا رب لم يبق إلا ملك الموت فيقال له : مت يا ملك الموت فيموت ; آيت شريفہ ''كل نفس ذائقة الموت'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: اہل زمين مرجائيں گے يہاں تك كہ ايك بھى باقى نہيں رہيگا پھر اہل آسمان مرجائيں گے اس وقت پوچھا جائيگاگا كون باقى ہے؟ تو ملك الموت كہے گا پروردگارا سوائے فرشتہ موت كے كوئي نہيں بچا پھر اس سے كہا جائيگا اے فرشتہ موت مرجا تو وہ مرجائيگا(۱)

۱۰_ ''روى عن ا بى عبدالله (ع) : إ نّ ا مير المؤمنين (ع) مرض فعاده إخوانه فقالوا: كيف تجدك يا ا مير المؤمنين (ع) ؟ قال: بشر قالوا : ما هذا كلام مثلك قال: إن الله تعالى يقول: '' و نبلوكم بالشر و الخير فتنة'' فالخير الصحة و الغنى و الشر المرض والفقر; امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ اميرالمؤمنين(ع) بيمار ہوگئے اور ان كے (ديني) برادران نے انكى عيادت كى اور كہنے لگے (اب) آپ خود كو كيسا پاتے ہيں اے اميرالمؤمنين (ع) تو آپ(ع) نے فرمايا شر ميں (مبتلا ہوچكا ہوں ) تو كہنے لگے يہ آپ جيسے لوگوں كى بات نہيں ہے تو فرمايا خداتعالى فرماتا ہے ''و نبلوكم بالشر و الخير فتنة'' اور صحت اور بے نيازى خير اور بيمارى اور تنگدستى شر ہے(۲)

امتحان:اس كا ذريعہ ۳، ۱۰; يہ خير كے ذريعے ۳، ۱۰; يہ شر كے ذريعے ۳، ۱۰

انبياء (ع) :ان كا امتحان ۲

انسان:اس كا امتحان ۳، ۴; اس كا انجام ۱، ۵; اسكى خلقت كا فلسفہ ۴; اسكى حركت كا سرچشمہ ۶

____________________

۱ ) كافى ج۳، ص ۲۵۶ ح ۲۵_ نورالثقلين ج۱، ص ۴۱۹، ح ۴۷۰_

۲ ) مجمع البيان ج۷، ص ۷۴_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۲۹ ح ۶۸_

۳۴۲

خدا كى طرف بازگشت:۵

قيامت:اس ميں حقائق كا ظہور ۸

خير:اس سے مراد ۱۰

روايت ۹، ۱۰

زندگي:موت كے بعد زندگى ۷

شر:اس سے مراد ۱۰

عزرائيل:اسكى موت ۹

موت:اس كا حتمى ہونا ۱; اسكى حقيقت ۷; اس كا عام ہونا ۹

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

آیت ۳۶

( وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُواً أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ )

اور جب بھى يہ كفار آپ كو ديكھتے ہيں تو اس بات كا مذاق اڑاتے ہيں كہ يہى وہ شخص ہے جو تمھارے خداؤں كا ذكر كيا كرتا ہے اور يہ لوگ خود تو رحمان كے ذكر سے انكار ہى كرنے والے ہيں (۳۶)

۱ _ مكہ كے مشركين اور كفار جب پيغمبراكرم (ص) كے سامنے آتے تو آپ(ص) كا مذاق اڑاتے اور مسخرہ كرتے_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

۲ _ مذاق اڑانا اور مسخرہ كرنا، مكہ كے كفار اور مشركين كا آنحضرت(ص) كے ساتھ پيش آنے كا واحد طريقہ_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

حرف نفى ''إن'' اور اس كے بعد حرف استثنا ''الّا'' كہ جو حصر پر دلالت كرتے ہيں نيز ''ہزواً'' كا مصدر كى صورت ميں آنا يہ سب مذاق اڑانے اور مسخرہ كرنے ميں شدت اور تسلسل كو بيان كررہے ہيں _

۳ _ مكہ كے كفار اور مشركين كا اسلام اور پيغمبر اكرم(ص) كى منطق اور استدلال كے مقابلے ميں ناتواني_

و إذا رء اك الذين كفروا إن يتخذونك إلا هزو

۳۴۳

چونكہ كفار و مشركين مسلسل آنحضرت(ص) كا مذاق اڑاتے تھے اس سے پتا چلتا ہے كہ وہ منطق، دليل اور برہان كا راستہ اختيار كرنے سے عاجز تھے اور ان كے پاس مذاق كے علاوہ كوئي چارہ نہيں تھا_

۴ _ شرك اور مشركين كے باطل اور خيالى معبودوں كے ساتھ مقابلہ آنحضرت(ص) كے پروگراموں ميں سر فہرست_

ا هذا الذى يذكر ء الهتكم ذكر اور ياد كرنا خير كے ساتھ بھى ہے اور شر كے ساتھ بھى ليكن قرينہ مقام بتاتا ہے كہ يہاں پر مراد شر كے ساتھ ياد كرنا ہے_

۵ _ كفار مكہ كى طرف سے ہميشہ پيغمبر اكرم(ص) كى تحقير كى جاتي_و إذا رء اك أهذا الذى يذكر ء الهتكم

''أہذا ...'' ميں ہمزہ استفہاميہ تعجب كيلئے ہے اور استہزا قرينہ ہے كہ اسم اشارہ، ''ہذا''تحقير ميں استعمال ہوا ہے_

۶ _ لوگوں كے دينى جذبات اور عقائد سے استفادہ كرنا اور انہيں آنحضرت(ص) كے خلاف بھڑ كانا كفر و شرك كے سرغنوں كى آنحضرت(ص) كے ساتھ پيش آنے كى ايك روش _ا هذا الذى يذكر ء الهتكم

چونكہ كفار مكہ نے لوگوں كو مخاطب قرار ديا ہے اور انہوں نے ''آلہتكم'' كہا ہے نہ ''آلہتنا'' تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ پيغمبر(ص) اكرم كے خلاف لوگوں كے جذبات اور عقائد سے استفادہ كرتے تھے_

۷ _ مكہ كے كفار اور مشركين خداتعالى كے نام ''رحمان'' كے سلسلے ميں بڑے حساس اور خداتعالى كى رحمانيت كے منكر ہے_و هم بذكرالرحمن هم منكرون پروردگار كے ناموں ميں سے خاص طور پر ''رحمان'' كا ذكر كرنا نيز ''ہم'' كا تكرار مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ كفار مكہ خدائے رحمان كے منكر تھے_و هم بذكرالرحمن هم كفرون قابل ذكر ہے كہ كفار نام ''رحمان'' كے منكر تھے اس سے بدرجہ اولى استفادہ ہوتا ہے كہ وہ ذات خدائے رحمان كے بھى منكر تھے_

۹ _ قرآن كا آسمانى ہونا كفار اور مشركين مكہ كا مورد انكارو هم بذكرالرحمن هم كفرون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' سے مراد قرآن كريم ہو جيسا كہ قرآن كريم كے متعدد موارد ميں _ جيسا كہ اس سورت كى دوسرى آيت ميں ہے_ قرآن كو ذكر سے ياد كياگيا ہے_

۳۴۴

۱۰ _ رحمان خداتعالى كے اہم اور برجستہ ناموں ميں سے ہے_و هم بذكرالرحمن هم كفرون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خداتعالى نے كفار كو عذاب كا مستحق متعارف كراتے ہوئے انہيں منكرين رحمانيت قرار ديا ہے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۱۱ _ مكہ كے كفار اور مشركين تنگ نظر، متعصب اور مخالفين كى افكار كو برداشت نہ كرنے والے لوگ تھے_

أهذا الذى يذكر ء الهتكم و هم بذكرالرحمن هم كفرون

مذكورہ مطلب اس نكتے كى طرف توجہ كرنے سے حاصل ہوتا ہے كہ كفار مكہ كو حتى كہ ''خدائے رحمان'' كا نام سننا بھى گوارا نہيں تھا اور ہميشہ پيغمبراكرم (ص) كے ساتھ مذاق اور تمسخر كے ساتھ پيش آتے_

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۶; اس كے ساتھ مبارزت ۳

اسما و صفات:رحمان ۱۰

آنحضرت(ص) :آپ (ص) كا مذاق اڑانا۱، ۲; آپ (ص) كے خلاف جذبات كو بھڑكانا ۶; آپ (ص) كى تحقير ۵; آپ (ص) كى شرك دشمنى ۴; آپ (ص) كے ساتھ مقابلہ ۳; آپ (ص) كى طرف سے مقابلہ۴; آپ (ص) كى اہم ترين رسالت ۴

خداتعالى :اسكى رحمانيت كى اہميت ۱۰; اسكى رحمانيت كو جھٹلانے والے ۸۷

باطل معبود:ان كے ساتھ مبارزت ۴

رہبران:رہبران شرك كے پيش آنے كى روش ۶; رہبران كفر كے پيش آنے كى روش ۶

قرآن كريم:اسكے وحى ہونے كو جھٹلانے والے ۹

كفار مكہ:انكى تمسخر بازى ۱، ۲; انكى سوچ ۷، ۸، ۹; انكا تعصب ۱۱; ان كے پيش آنے كى روش ۱، ۲، ۵; انكى تنگ نظرى ۱۱; انكا عاجز ہونا ۳; انكا مقابلہ كرنا ۳

مشركين مكہ:انكا مذاق اڑانا ۱، ۲; انكى سوچ ۷،۹; انكا تعصب ۱۱; ان كے پيش آنے كى روش ۱، ۲; انكى تنگ نظرى ۱۱; انكا عاجز ہونا ۳; انكا مقابلہ ۳

۳۴۵

آیت ۳۷

( خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ )

انسان كے خمير ميں عجلت شامل ہوگئي ہے اور عنقريب ہم تمھيں اپنى نشانياں دكھلائيں گے تو پھر تم لوگ جلدى نہيں كروگے (۳۷)

۱ _ انسانى فطرت، بہت جلدباز اور عجولانہ ہے_خلق الإنسان من عجل

''أنسان عجلت سے پيدا كيا گيا ہے'' كى تعبير اس بات سے كنايہ ہے كہ جلد بازى انسان كى فطرت ميں ہے ورنہ انسان تو نطفے اور سے پيدا ہوا ہے نہ جلد بازى سے_

۲ _ آدمى ، قدرتى انسانى تمايلات سے بھى متأثر ہے اور صرف بيرونى حالات سے متاثر نہيں ہے_خلق الإنسان من عجل

چونكہ انسان كى خلقت كو جلدبازى كے خمير سے قرار ديا گيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان صرف بيرونى حالات اور ماحول (معاشرہ، تربيت اور ) سے ہى متاثر نہيں ہوتا بلكہ انسانى غريز ے بھى اس ميں مؤثر ہيں _

۳ _ خداتعالى كى رحمانيت كا انكار جلدبازى كا فيصلہ ہے اور يہ عاقلانہ سوچ نہيں ہے_هم بذكر الرحمن هم كفرون خلق الانسان من عجل مذكورہ مطلب اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ مشركين خداتعالى كى رحمانيت كا انكار كرتے تھے اور خداتعالى انسان كى فطرت اور جلدبازى سے نہى كو بيان كر كے اس نكتے كو ذكر كرنا چاہتا ہے كہ خداتعالى كى رحمانيت كا انكار جلدبازى كا فيصلہ ہے اور ضرورى ہے كہ آيات الہى كا مطالعہ كر كے عميق علمى فكر اپنائي جائے_

۴ _ كفار مكہ شكست اور دنيوى عذاب كى دہليز پر تھے_سأوريكم ء اى تي

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آيات سے مراد كفار مكہ كى شكست اور ان كا دنيوى عذاب ہو_ قابل ذكر ہے كہ ان آيات كا مكى ہونا اس مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۳۴۶

۵ _ كفار مكہ كو قريب الوقوع عذاب اور نابودى كى دھمكى دى گئي تھي_سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

بعد والى آيات( بل تأتيهم بغتة ...) كے قرينے سے ''آياتي'' سے مراد عذاب اور ہلاكت ہے_

۶ _ دين دشمن كافروں كى نابودى اور مسلمانوں كى كاميابى قاعدے اور قانون كے مطابق ہے اور اس كا مناسب وقت ہے_خلق الانسان من عجل سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

مذكورہ مطلب اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ مؤمنين، پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مشركين كى گستاخانہ روش كو ديكھ كر بے صبرى كے ساتھ خداتعالى كے دشمنوں كى ہلاكت اور مسلمانوں كى كاميابى والے وعدے كے عملى ہونے كے منتظر تھے اور خداتعالى نے انہيں صبر كرنے اور جلد بازى نہ كرنے كى دعوت دى ہے قابل ذكر ہے كہ مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''سأوريكم فلاتستعجلون'' كےمخاطب مسلمان ہوں _

۷ _ كفار اور دين دشمنوں كى ہلاكت و شكست اور مؤمنين كى كاميابى آيات الہى ميں سے ہے_سأوريكم ء اى تي

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ كفار كى ہلاكت اور مسلمانوں كى كاميابى كو ''آيات'' سے تعبير كيا گيا ہے_

۸ _ صدر اسلام كے مؤمنين، كافروں پر جلدى غالب آنے اور كامياب ہونے كے منتظر تھے_سأوريكم ء اى تى فلاتستعجلون

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''آيات'' سے مقصود كافروں كى دنياوى ہلاكت اور دنياوى عذاب ہو اور ''سأوريكم فلا تستعجلون'' كے مخاطب مسلمان ہوں _

۹ _ مناسب وقت سے پہلے اور جلدبازى كا كام اگرچہ كام اچھاہى ہو ايك ناپسنديدہ اور قابل مذمت امر ہے_

خلق إلانسان من عجل فلاتستعجلون

۱۰ _انسانى غريزوں اور طبائع كو كنٹرول كرنا ممكن ہے _خلق إلانسان من عجل ...فلا تستعجلون

خداتعالى نے جلدبازى سے نہى كى ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جلدبازى پر قابو پانے كى قدرت انسان ميں موجود ہے_

آيات خدا:۷/انسان:اس كا متأثر ہونا۲; اسكى صفات ۱، ۲; اسكى جلدبازى ۱

خداتعالى :اسكى رحمانيت كو جھٹلانے كا غير منطقى ہونا۳; اسكے عذابوں كا قاعدے اور قانون كے مطابق ہونا ۶

دين:دين دشمنوں كى شكست ۷; دين دشمنوں كى ہلاكت ۶، ۷

۳۴۷

جلدبازي:اسكى مذمت ۹

عمل:عمل خير ميں جلدبازى كرنا ۹

غرائز:ان كو كنٹرول كرنا ۱۰

كفار:ان كى شكست۷; انكى ہلاكت ۶، ۷

كفار مكہ:انكى شكست ۴; انكا دنيوى عذاب ۴; انكا عذاب۵; انكو تنبيہ۵; انكى ہلاكت ۵

مؤمنين:صدر اسلام كے مؤمنين كى توقعات ۸; انكى كاميابى ۷

مسلمان:انكى كاميابى ۶; انكى كاميابى ميں جلدى ۸

آیت ۳۸

( وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ اگر تم سچّے ہو تو اس وعدہ قيامت كا وقت آخر كب آئے گا (۳۸)

۱ _ كفار كى شكست و ہلاكت اور مؤمنين كى كاميابى ،وعدہ الہى _سأوريكم ء اى تي و يقولون متى هذا الوعد

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''وعد'' سے مراد مؤمنين كى كاميابى اور مشركين كى شكست ہو_

۲ _ قيامت كا برپا ہونا اور دين دشمن كافروں كى سزا، وعدہ الہى ہے _و يقولون متى هذا الوعد

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الوعد'' كا ''ال'' عہد حضورى كا اور اس سے مقصود قيامت كا برپا ہونا اور كافروں كا عذاب ہو كہ جس كا تمام انبيا(ع) ء مسلسل اپنى امتوں كو وعدہ ديتے رہے اور يہ وعدہ امتوں كى يادداشت ميں باقى تھا_

۳ _ كفار مكہ، قيامت اور اخروى عذاب كے منكر تھے_و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

۴ _ مكہ كے دين دشمن كفار، خداتعالى كے وعدوں اور دھمكيوں (عذاب، اخروى سزا و غيرہ) كا مذاق اڑاتے اور انكا تمسخر كرتے_و يقولون متى هذا الوعد

جملہ استفہاميہ''و يقولون متى هذا الوعد'' تہكم اور استہزا كيلئے ہے_

۳۴۸

۵ _ مكہ كے دين دشمن كفار، خداتعالى كے وعدوں كے سلسلے ميں پيغمبر اسلام(ص) اور مؤمنين كو جھوٹا سمجھتے تھے_

و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

۶ _ انسان كى عجولانہ خصلت كفار مكہ كى طرف سے خداتعالى كے وعدوں (عذاب، قيامت برپا كرنا وغيرہ) كے عملى ہونے كى درخواست كا سبب بني_خلق إلانسان من عجل ...و يقولون متى هذا الوعد إن كنتم صدقين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''يقولون متى ...'' كا جملہ ''سأوريكم ...'' پر عطف ہو اور يہ دو جملے ''خلق الانسان من عجل'' كہ جو انسانوں كى عمومى خصلت كو بيان كررہا ہے كے ساتھ مربوط ہو_

آنحضرت(ص) :آپ(ص) پر جھوٹ كى تہمت ۵

انسان:اسكى جلدبازى كے اثرات ۶; اسكى صفات ۶

خداتعالى :اس كے عذاب كا مذاق اڑانا ۴; اسكے متنبہ كرنے كا مذاق اڑانا۴; اسكے وعدے ۱، ۲; اسكى دھمكياں ۱، ۲

دين:دين دشمنوں كى سزا كا وعدہ ۲

عذاب:اس ميں جلدى كرنے كى درخواست كا پيش خيمہ ۶; اخروى عذاب كو جھٹلانے والے ۳

قيامت:اس ميں جلدى كرنے كى درخواست كا پيش خيمہ ۶; اسے جھٹلانے والے ۳; اس كا وعدہ ۲

كفار:انكى سوچ ۳

كفار مكہ:انكا مذاق اڑانا۴; انكى تہمتيں ۵; انكى جلدبازى كا پيش خيمہ ۶; انكى شكست كا وعدہ ۱; انكى ہلاكت كا وعدہ ۱

سزا:اخروى سزا كا مذاق اڑانا ۴

مؤمنين:ان پر جھوٹے ہونے كى تہمت ۵; انكى كاميابى كا وعدہ ۱

۳۴۹

۳۸۰ تا ۳۸۳

( لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَن ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ) (٣٩)

( بَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ ) (٤٠)

۳۵۰

آیت ۴۱

( وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُون )

اور پيغمبر آپ سے پہلے بھى بہت سے رسولوں كا مذاق اڑايا گيا ہے جس كے بعد ان كفار كو اس عذاب نے گھيرليا جس كا يہ مذاق اڑا رہے تھے (۴۱)

۱ _ بشر، پيغمبر خاتم(ص) سے پہلے صاحبان رسالت انبيا(ع) كے وجود سے بہرہ مند تھا_و لقد استهزي برسل من قبلك

۲ _ طول تاريخ ميں حق دشمن عناصر كا انبياء الہى كے ساتھ تمسخر آميز سلوك _و لقد استهزي برسل من قبلك

۳ _ كفار طول تاريخ ميں انبيا(ع) ء الہى كے ساتھ غير منطقى سلوك كرنے ميں ايك جيسے رہے ہيں _

و لقد استهزي برسل من قبلك

تمسخر آميز سلوك، موقف اپنانے ميں دليل و منطق كے نہ ہونے كو بيان كر رہا ہے اور چونكہ گذشتہ انبيا(ع) ء اور پيغمبر اكرم(ص) اسلام كفار كے مذاق كا نشانہ بن چكے ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ كفار كا سلوك ايك جيسا تھا اور وہ ايك جيسا موقف ركھتے تھے_

۴ _ كفار كے مذاق كے مقابلے ميں خداتعالى كا پيغمبراكرم(ص) كو تسلى دينا _و لقد استهزي برسل من قبلك

خداتعالى نے گذشتہ آيات ميں كافروں كے پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مذاق كرنے كے موضوع كا تذكرہ كيا اور اس آيت ميں گذشتہ انبيا(ع) ء كے تمسخر كى ياد دہانى كرائي ہے_يہ ياد دہانى ممكن ہے آنحضرت(ص) كى تسلى كى غرض سے ہو_

۵ _ انبيا(ع) ء بھى انسانى خصوصيات (دلى رنج و الم اور دلجوئي و تسلى كى ضرورت) كے حامل ہوتے ہيں _

و لقد استهزي برسل من قبلك

كفار كے تمسخر كے مقابلے ميں خداتعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كى دلجوئي كرنا اس حقيقت كا غماز ہے كہ پيغمبر اكرم بھى ديگر انسانوں كى طرح دشمنوں كے حملوں سے متأثر ہوتے ہيں اور انہيں بھى دلى تسلى كى ضرورت ہوتى ہے_

۶ _ طول تاريخ ميں رہبران الہى كى كوشش اور رنج و الم كى طرف توجہ، دين كے راستے ميں كوشش كرنے والوں كى تسلى كا سبب ہے_و لقد استهزي برسل من قبلك

۳۵۱

۷ _ راہ الہى ميں حركت، شديد نفسياتى اور روحى مشكلات اور سختيوں كو ہمراہ لاتى ہے_و لقد استهزي برسل من قبلك

اس سے كہ خداتعالى نے گذشتہ انبيا(ع) ء كى مشكلات اور رنج و الم كى يادآورى كرائي ہے معلوم ہوتا ہے كہ راہ حق كو طے كرنا مشكلات كے ہمراہ ہوتا ہے_

۸ _ انبيا(ع) ء كا مذاق اڑانے والے اس عذاب ميں مبتلا ہوئے كہ جس كا وہ مذاق اڑاتے تھے _

فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزئون

''ما كانوا بہ يستہزء ون'' سے مراد مہلك عذاب ہے كيونكہ طول تاريخ ميں كفار جس كا مذاق اڑاتے تھے اور وہى ان پر نازل ہوا وہ مہلك عذاب تھا_

۹ _ حق كے مقابلے ميں ہٹ دہرمى اور انبيا(ع) ء و رہبران الہى كا مسلسل مذاق اڑانا عذاب خداوندى ميں مبتلا ہونے كے اسباب فراہم كرتا ہے_و لقد استهزى برسل من قبلك فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

۱۰ _ انسانوں كيلئے خداتعالى كى طرف سے عذاب اور سزا،خودان كے اپنے عمل كا رد عمل اور نتيجہ ہے_

ولقد استهزي فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

۱۱ _ پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے والوں كو عذاب الہى كى دھمكي

و لقد استهزي برسل من قبلك فحاق بالذين سخروا منهم ما كانوا به يستهزء ون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ گذشتہ آيات ميں كافروں كے پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے كا تذكرہ تھا_ انبيا(ع) ء كا مسخرہ كرنے والوں كے عذاب ميں مبتلا ہونے كى ياد دہانى سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ يہ انجام پيغمبر اكرم(ص) كا مذاق اڑانے والوں كا بھى ہے_

انبياء(ع) :ان كا مذاق اڑانے كے اثرات ۹; انكا مذاق اڑانے والے ۲; آنحضرت(ص) سے پہلے كے انبيا(ع) ء ۱; انكا بشر ہونا ۵; انكى تاريخ ۱، ۲; انكو تسلى ۵; انكا مذاق اڑانے والوں كا عذاب۸; انكى معنوى ضروريات ۵

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا مذاق اڑانا ۴; آپ(ص) كا مذاق اڑانے والوں كو دھمكى ۱۱; آپ(ص) كو تسلى ۴; آپ كا مذاق اڑانے والوں كا عذاب ۱۱

حق:حق پرستى كے اثرات۷; حق كو قبول نہ كرنے كے اثرات ۹

ذكر:

۳۵۲

دينى رہنماؤں كے رنج و غم كا ذكر ۶

دينى راہنما:ان كا مذاق اڑانے كے اثرات ۹; انكى تسلى كے عوامل ۶

عذاب:اہل عذاب ۸; اس كا پيش خيمہ ۹; اسكے عوامل ۱۰

عمل:اسكے اثرات ۱۰

كفار:انكا مذاق اڑانا ۴; انكا غير منطقى ہونا۳; ان كے پيش آنے كى روش ۳; يہ اور انبياء ۳; انكى ہم آہنگى ۳

سزا:اسكے عوامل ۱۰

مشكلات:نفسياتى مشكلات كا پيش خيمہ ۷

نعمت:انبياء كى نعمت ۱

آیت ۴۲

( قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِم مُّعْرِضُونَ )

آپ ان سے كہہ ديجئے كہ انھيں رات يا دن ميں رحمان كے عذاب سے بچانے كے لئے كون پہرہ دے سكتا ہے مگر يہ ہيں كہ رحمان كى ياد سے مسلسل منھ موڑے ہوئے ہيں (۴۲)

۱ _ كفار كو شب و روز كے ہر لحظے ميں عذاب الہى كا خطرہ_قل من يكلؤكم من الرحمن

مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ ''من الرحمان'' سے مراد ''من بأس الرحمان و عذابہ'' ہو گذشتہ آيت كہ جو عذاب الہى كے بارے ميں ہے اسى نكتے كى تائيد كرتى ہے_

۲ _ ارادہ الہى كے مقابلے ميں تمام موجودات كى ناتوانى اور عاجز ہونا_قل من يكلؤكم من الرحمن

۳ _ انسان كو زندگى كے تمام لمحوں ميں خداتعالى كى حمايت اور حفاظت كى ضرورت ہے_

قل من يكلؤكم باليّل و النهار من الرحمن

۳۵۳

''يكلائ'' كے مادے ''كلاء ة'' كا معنى ہے شے كى حفاظت كرنا اور'' من الرحمان ''ميں ''من'' بدليہ ہے يعنى خدائے رحمن كى بجائے_

۴ _ كافروں كى اپنے پروردگار سے روگردانى اس كى مسلسل رحمت سے بہرہ مند ہونے كے با وجود

قل من يكلؤكم من الرحمن بل هم عن ذكر ربهم معرضون

آيت كريمہ ميں ''بل'' اضراب انتقالى كيلئے ہے يعنى خداتعالى نے بشر كى خدائے رحمان كى طرف نيازمندى كو بيان كرنے اور اسكے عذاب كے تذكرے كے بعد كافروں كے كفر كى اصلى علت (ياد پروردگار سے روگردانى اور ربوبيت الہى كى طرف توجہ نہ كرنا) كو بيان كيا ہے_

۵ _ كفار كا كلام الہى كے سننے اور مفاہيم و معارف قرآنى كے درك كرنا سے روگردانى كرنا ان كے خداتعالى كى وسيع رحمت كى طرف توجہ نہ كرنے اور پيغمبراكرم(ص) كى نصيحتوں سے متاثر نہ ہونے كى دليل ہے_

قل من يكلؤكم من الرحمن بل هم عن ذكر ربهم معرضون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' سے مراد قرآن ہو كيونكہ قرآن كا ايك نام اور صفت ''ذكر'' ہے_

۶ _ سب انسانوں حتى كہ پروردگار سے روگردانى كرنے والوں كو بھى رحمت الہى شامل ہے _

قل من يكلؤكم ...بل هم عن ذكر ربهم معرضون

۷ _ انسان كيلئے اپنے پروردگار اور تربيت كرنے والے كو ياد كرنا ضرورى ہے_بل هم عن ذكر ربهم معرضون

پروردگار كى ياد سے روگردانى كرنے كى وجہ سے كفار كو ڈانٹ ڈپٹ، اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ عقل كے حكم كے مطابق انسان كيلئے ضرورى ہے كہ اپنے پروردگار اور تربيت كرنے والے سے غفلت نہ كرے_

انسان:اسكى معنوى ضروريات ۳/آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى نصيحت ۵

خداتعالى :اسكى رحمت كا تسلسل ۴; اسكے ارادے كى حكمراني۲; اسكى رحمت عامہ ۶

ذكر :ذكر خدا كى اہميت ۷; ربوبيت خدا كا ذكر ۷; تربيت كرنے و الے كا ذكر ۷

رحمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۴/قرآن كريم:اس سے اعراض كرنے والے ۵

كفار:انكا اعراض ۴; ان پر نصيحت كا اثر نہ كرنا ۵; انكا حق كو قبول نہ كرنا ۵; ان كو عذاب كا خطرہ ۱; ان پر رحمت ۴

خداتعالى سے اعراض كرنے والے ۴:ان پر رحمت ۶

۳۵۴

موجودات:انكے عاجز ہونا ۲

ضروريات:خداتعالى كى حمايت كى ضرورت ۳

آیت ۴۳

( أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُم مِّن دُونِنَا لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنفُسِهِمْ وَلَا هُم مِّنَّا يُصْحَبُونَ )

كياان كے پاس ايسے خدا موجود ہيں جو ہمارے بغير انھيں بچاسكيں گے يہ بيچارے تو خود اپنى بھى مدد نہيں كرسكتے ہيں اور نہ انھيں خود بھى عذاب سے پناہ دى جائے گى (۴۳)

۱ _ جھوٹے خدا اور معبود، مشركين كو عذاب الہى سے بچانے كيلئے توان نہيں ركھتے _ا م لهم ء الهة تمنعهم من دونن

آيت كريمہ ميں ''أم'' منقطعہ كى قسم سے اور ''بل'' كى طرح استفہام انكارى كے معنى پر مشتمل ہے اور (إلہ كى جمع) ألہة كا معنى معبود ہے_

۲ _ مشركين كے جھوٹے معبود اور خدا ،اور خداتعالى كے علاوہ ہر طاقت اپنى حمايت اور حفاظت سے بھى ناتوان ہے_

لايستطيعون نصر أنفسهم جملہ''لا يستطيعون ...'' ،''تمنعہم'' كے فاعل كيلئے حال ہے كہ جو خدا اور معبود ہيں _

۳ _ مشركين كے معبود خود اپنى مدد كرنے سے ناتوان اور خداتعالى كى مدد سے محروم ہيں _لا يستطيعون نصر أنفسهم و لا هم منا يصحبون

''يصحبون'' (صحب كے مادہ سے) ''عاشَر'' كے معنى ميں ہے اور اس معنى كا لازمہ نصرت اور تائيد ہے كيونكہ ايك ہم نشين اپنے دوسرے ہم نشينوں كى حمايت كرتا ہے_

۴ _ احتياج اور نيازمندى مقام الوہيت كے ساتھ سازگار نہيں ہے_لايستطيعون نصر أنفسهم

خداتعالى نے ''آلہة'' كى خود اپنى حفاظت ميں ناتوانى اور ان كے ديگر محافظوں كى طرف محتاج

۳۵۵

ہونے كو ان كے الوہيت كے لائق نہ ہونے كى دليل شمار كيا ہے_ اس حقيقت كى ياد دہانى ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كر رہى ہو_

۵ _ كفار كا عذاب الہى كے مقابلے ميں ہر طرف سے بے پناہ ہونا اور ان كى ہلاكت كا حتمى ہونا _

ا م لهم آلهة تمنعهم من دوننا و لاهم منا يصحبون

۶ _ كافروں كا يہ عقيدہ كہ ان كے جھوٹے خدا، خداتعالى كے نزديك معزز اور معتبر ہيں كھوكھلا اور بے بنياد ہے_

لايستطيعون نصر أنفسهم و لا هم منا يصحبون

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ آيت كريمہ كے مخاطبين مشركين ہيں اور وہ اپنے معبود اور خداؤں كو اپنا شفيع سمجھتے تھے معلوم ہوتا ہے كہ اس آيت كريمہ كا مقصد ايسے خيال كے بطلان كو بيان كرتا ہے_

الوہيت:اسكے شرائط ۴

عذاب:اہل عذاب۵; اہل عذاب كا بے يار و مددگار ہونا ۱

عقيدہ:باطل عقيدہ ۶

كفار:ان كا بے پناہ ہونا ۵; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۵; انكا عقيدہ ۶

مشركين:ان كى امداد ۳; انكا بے يار و مددگار ہونا۱،۲باطل معبود۶

ان كى امداد۳; انكا بے يار و مددگار ہونا۳; انكا عاجز ہونا۱، ۲، ۳

سچے معبود:ان كى نيازمندي۴

آیت ۴۴

( بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاء وَآبَاءهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ )

بلكہ ہم نے انھيں اور ان كے باپ دادا كو تھوڑى سى لذّت دنيا ديدى ہے يہاں تك كہ ان كا زمانہ طويل ہوگيا تو كيا يہ نہيں ديكھتے ہيں كہ ہم برابر زمين كى طرف آتے جارہے ہيں اور اس كو چاروں طرف سے كم كرتے جارہے ہيں كيا اس كے بعد بھى يہ ہم پر غالب آجانے والے ہيں (۴۴)

۱ _ مشرك معاشروں كے نعمات الہى سے بہرہ مند ہونے كے ساتھ ان كى لمبى عمر،ان كى معبودوں كے ساتھ دل

۳۵۶

بستگى اور ان كے كارساز ہونے كى خيال كے سبب بني_بل هم عن ذكر ربهم معرضون بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

جملہ ''بل متعنا ...'' ميں ''بل'' سابقہ موضوع (أم لہم آلہة تمنعہم من دوننا) سے اضراب كيلئے ہے يعنى يہ خيال كہ يہ معبود ان كى حمايت كريں گے ان كى مہلت اور لمبى عمر كے ساتھ ساتھ نعمتوں سے مال زندگى كى وجہ سے ہے_

۲ _ دنياوى نعمتوں سے بہرہ مندى اور اس كے ساتھ ساتھ لمبى عمر، اہل مكہ اور ان كے آبا ؤ اجداد كى غفلت اور تكبر كا سبب تھي_بل هم عن ذكر ربهم معرضون بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہولائ'' مخاطبين (مكہ كے لوگ) كے اذہان ميں موجود لوگوں كى طرف اشارہ ہو جيسا كہ مكہ ميں نازل ہونے والى بہت سى آيات كا مشار اليہ اس سرزمين كے لوگ ہيں _

۳ _ معبودوں اور خداؤں كا عمر كى مقدار اور انسان كى مادى بہرہ مندى ميں دخل ركھنا مشركين كا باطل خيال_

ا م لهم ألهة تمنعهم بل متعنا هولائ و أبائهم حتى طال عليهم العمر

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بل ...'' ''أم لہم آلہة ...'' سے اضراب ہو اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ مشركين اپنے خداؤں كيلئے ايسى قدرت كا اعتقاد ركھتے تھے _

۴ _ كفر و شرك والى فكر سرزمين مكہ ميں عرصہ دراز سے موجود تھي_عن ذكر ربهم معرضون_ ا م لهم ألهة بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خداتعالى نے اہل مكہ كے آباؤ اجداد كو خدا سے اعراض كرنے والے اور دنياوى نعمتوں اور لمبى عمر سے بہرہ مند شمار كيا ہے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۵ _ خداتعالى نے بعض گذشتہ اقوام اور ملتوں كو دنياوى نعمتوں سے بہرہ مند كرنے كے ساتھ ساتھ انہيں لمبى عمر بھى عطا كي_بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر

۶ _ معاشروں اور تمدنوں كا لمبى عمر اور دنياوى نعمتوں سے بہرہ مند ہونا انكى حقانيت اور كاميابى كى دليل نہيں ہے_

بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر أفهم الغالبون

۷ _ سرزمين مكہ عرصہ دراز سے دنياوى نعمتوں سے مالامال اور ہلاكت خيز حوادث اور عذاب الہى سے محفوظ تھي_بل متعنا هولاء و أباء هم حتى طال عليهم العمر يہ چيز كہ خداتعالى نے اہل مكہ اور ان كے آباؤ اجداد كو لمبى مدت تك دنياوى منافع سے بہرہ مند كيا سرزمين مكہ كے عرصہ دراز سے ہلاكت خيز حوادث سے محفوظ رہنے كو بيان كرتى ہے_

۳۵۷

۸ _ انسان كا نعمتوں اور اپنى عمر كى مقدار سے مستفيد ہونا خداتعالى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے تابع ہے_

بل متعنا هولائ أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافها أفهم الغالبون

۹ _ اہل زمين كى آبادى كو كم كرنا اور ملتوں اور اقوام كى موت سنت الہى اور ايك دائمى امر ہے_أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه ''ننقصہا'' ميں ''نقص'' سے مراد اہل زمين كو كم كرنا ہے نہ خود زمين كو كم كرنا اور اس كا فرسودہ ہونا اگر چہ بعض مفسرين نے يہ احتمال ذكر كيا ہے قابل ذكر ہے كہ ''نأتي'' اور ''ننقصہا'' كا صيغہ مضارع كى صورت ميں آنا ان دو فعلوں كے محتوا كے استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۱۰ _ امتوں اور تہذيبوں كى تاريخ سے آگاہ ہونا اور اس سے سبق سيكھنا ايسى چيزيں ہيں جو پسنديدہ اور خداتعالى كى طرف سے مورد تشويق ہيں _أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه مادہ ''رؤيت'' جب دو مفعولوں كى طرف متعدى ہو تو ''علم'' كے معنى ميں ہوتا ہے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اسى معنى ميں استعمال ہوا ہے كيونكہ جملہ ''أنا نأتي ...'' مصدر كى تأويل ميں ہوكر دو مفعولوں كے قائم مقام ہے_

۱۱ _ انسانوں كى موت اور معاشروں اور تہذيبوں كا ختم ہونا انسان كيلئے عبرت كا سامان ہے _

أفلايرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

۱۲ _ انسانى معاشروں اور تہذيبون كے زوال كا تدريجى ہونا_أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

كلمہ ''نقص'' يعنى كم كرنا اور فعل مضارع ''نأتي'' اور ''ننقصہا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو استمرار كا فائدہ ديتے ہيں _ مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۱۳ _ كفار كا انسانوں كى قوت اور معاشروں اور تہذيبوں كے زوال كے مشاہدہ سے عبرت حاصل نہ كرنا_

أفلا يرون أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه

۱۴ _ خداتعالى كى طرف سے كافر و مشرك معاشروں كى نابودي، اسلام كى كاميابى اور اسلامى سرزمين كے حدود كے وسيع ہونے كى خوشخبرى _أفلا يرون أنّا نأتى الأرض ننقصها من أطرافه بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيات كفار اور منكرين قرآن كے بارے ميں ہيں _ زمين اور اہل زمين كو كم كرنے سے مقصود كفار كى تعداد كو كم كرنا اور مسلمانوں كى تعداد كو بڑھانا ہے''أفلا يرون'' كى ضمير غائب اور''أفهم الغالبون'' ميں ہمزہ استفہام انكارى اس مطلب كا مؤيد ہوسكتا ہے_

۱۵ _ ارادہ خدا كے مقابلے ميں كفار اور ان كے خداؤں كا كمزور اور ناتوان ہونا _

۳۵۸

أفهم الغالبون

''أفہم'' ميں ہمزہ استفہام انكارى كيلئے ہے_

۱۶ _ عالم ہستى ميں خداتعالى بے مثال قادر اور مطلق حاكم ہے_بل متعنا هولائ أنا نأتى الأرض ننقصها من أطرافها أفهم الغالبون

۱۷ _ انسانوں كو موت دينا اور معاشروں اور تہذيبوں كو نابود كرنا خداتعالى كى بے مثال اور ناقابل شكست قدرت كى دليل ہے_أنّا ناتى الأرض ننقصها من أطرافهاأفهم الغالبون

خداتعالى كے ذريعے انسان كى موت كے مسئلے كو ذكر كرنے كے بعد قدرت الہى كے مقابلے ميں كفار كى كاميابى او رغلبے كى نفى كرنا اور اس پر سواليہ نشان لگانا (أفهم الغالبون ) ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

انسان:اسكى موت ۱۷

عالم خلقت:اس كا حاكم ۱۶

گذشتہ اقوام:ان كے مادى وسائل ۵; انكى تاريخ ۵; ان سے عبرت حاصل كرنا۱۰; ان كى لمبى عمر ۵

امم:انكى حقانيت كے دلائل ۶

مادى وسائل:ان كا سرچشمہ ۳

خوشخبري:اسلام كى كاميابى كى خوشخبري۱۴; اسلام كى وسعت كى خوشخبري۱۴; شرك كى نابودى كى خوشخبري۱۴; كفر كى نابودى كى خوشخبري۱۴/تاريخ:اسكے مطالعے كى تشويق ۱۰

تہذيبيں :انكا تدريجى زوال ۱۲; انكا زوال ۱۷; ان كے زوال سے عبرت حاصل كرنا ۱۱، ۱۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱۶; اسكے اختيارات ۸; اسكا ارادہ ۸، ۱۵; اسكى بشارتيں ۱۴; اسكى ترغيب ۱۰; اسكى حكمرانى ۱۶; اسكى عزت كے دلائل ۱۷; اسكى قدرت كے دلائل ۱۷; اسكى سنتيں ۹; اسكى قدرت ۱۶

شرك:اسكى تاريخ ۴/عبرت:اسكى ترغيب دلانا ۱۰; اسكے عوامل ۱۱

عقيدہ:باطل عقيدہ ۳; باطل معبودوں كا عقيدہ ۱

عمر:لمبى عمر كے ا ثرات ۱; اس كا سرچشمہ ۸; لمبى عمر كا سرچشمہ ۳; لمبى عمر كا كردار ۶

عمل:

۳۵۹

پسنديدہ عمل ۱۰

كفار:انكى ذلت ۱۵; انكى كمزورى ۱۵; انكا عبرت حاصل نہ كرنا ۱۳

كفر:اسكى تاريخ ۴

موت:اس كا دائمى ہونا ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۱۱، ۱۳

مشركين:انكى آسائش كے اثرات ۱; انكا عقيدہ ۳; انكى لمبى عمر۱; انكى نعمتيں ۱

باطل معبود:انكا عاجز ہونا ۱۵; انكا كردار ۳

مكہ:اس كا امن ۷; اسكى تاريخ ۴، ۷; اہل مكہ كى لمبى عمر ۲; اہل مكہ كے تكبر كے عوامل ۲; اہل مكہ كى غفلت كے عوامل ۲; اسكى فضيلت ۷; اہل مكہ كى دنياوى نعمتيں ۲

نعمت:اس كا سرچشمہ ۸

آیت ۴۵

( قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاء إِذَا مَا يُنذَرُونَ )

آپ كہہ ديجئے كہ ميں تم لوگوں كووحى كے مطابق ڈراتا ہوں اور بہرہ كو جب بھى ڈرايا جاتا ہے وہ آوازہ كو سنتا ہى نہيں ہے (۴۵)

۱ _ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كيلئے اپنے اصلى فريضے اور رسالت كے دائرہ كار كو بيان كرنے پر مأمور _قل إنما أنذركم بالوحي

۲ _ لوگوں كو وحى كے سائے ميں انداز كرنا، پيغمبر اسلام(ص) كا اصلى فريضہ و رسالت _قل إنما أنذركم بالوحى

۳ _ پيغمبر اكرم(ص) كا انذاز صرف و حى الہى كى بنياد پر تھا نہ ذاتى اور نفسانى خواہشات و نظريات كے مطابق_

قل أنما انذركم بالوحي

۴ _ وحي، دينى معرفت اور تعليمات الہى كى شناخت كا

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

آیت ۸۸

( فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ )

تو ہم نے ان كى دعا كو قبول كرليا اور انھيں غم سے نجات دلادى كہ ہم اسى طرح صاحبان ايمان كو نجات دلاتے رہتے ہيں (۸۸)

۱ _ مچھلى كے پيٹ كى تاريكى ميں گرفتار ہونے كے وقت حضرت يونس(ع) نے جو دعا كى وہ خداتعالى نے قبول كرلى _

فنادى فى الظلمت فاستجبناله

۲ _ خداتعالى نے حضرت يونس(ع) كو غم و اندوہ سے نجات دي_و نجينه من الغم

۳ _ دعا كى قبوليت اور غموں سے نجات ميں خداتعالى كى تسبيح و تہليل اور اپنے نفس پر ظلم كے اقرار كا كردار_

فنادى فى الظلمت أن لا إله إلا أنت سبحانك إنى كنت من الظالمين فاستجبناله و نجيناه من الغم

۴ _ دعا، غم و اندوہ اور مشكلات سے نجات حاصل كرنے كا موثر ذريعہ ہے_فنادى و نجينه من الغم

۵ _ اپنے نفس پر ظلم غمناك نتائج كا حامل ہے اور ان سے نجات كيلئے خداتعالى كى مددكى ضرورت ہے_

إنى كنت من الظلمين فاستجبناله و نجينه من الغم

۶ _ مؤمنين كو غم و اندوہ سے نجات دينا خداتعالى كى سنت ہے_فاستجبناله و نجينه من الغم و كذلك ننجى المؤمنين

حضرت يونس(ع) كى نجات كو ذكر كرنے كے بعد جملہ''كذلك ننجى المؤمنين'' ہوسكتا ہے سنت الہى اور ايك قانون كو بيان كررہا ہو_

۷ _ مؤمنين كى مخلصانہ دعا كى صورت ميں خداتعالى كا انہيں غم و اندوہ اور مشكلات سے نجات دينے ك

۴۴۱

وعدہ _فنادى و كذلك ننجى المؤمنين

۸ _ حضرت يونس(ع) كى غم و اندوہ سے نجات، مؤمنين كى نجات كے بارے ميں خداتعالى كى سنت كا ايك جلوہ تھا_و نجينه من الغم و كذلك ننجى المؤمنين اسم اشارہ ''كذلك'' حضرت يونس(ع) كى غم و اندوہ سے نجات كى طرف اشارہ ہے_

۹ _ اپنے نفس پر ظلم انسان كے غم و اندوہ ميں مبتلاء ہونے كا سبب ہے_فظن ان لن نقدر عليه إنى كنت من الظالمين و نجيناه من الغم

اخلاص:اسكے اثرات ۷

اقرار:ظلم كے اقرار كے اثرات ۳

غم و اندوہ:اسكے عوامل ۵، ۹; اسكے دور كرنے كے عوامل ۴، ۵

تسبيح:اسكے فوائد ۳

تہليل:اسكے فوائد ۳

خداتعالى :اسكى امداد كى اہميت ۵; اسكى سنت ۶، ۸; اس كا نجات دينا ۲; اس كے وعدے ۷

خود:خود پر ظلم كے اثرات ۵، ۹; خود پر ظلم ۳

دعا:اسكے اثرات ۴; اسكے آداب ۳; اس ميں اخلاص ۷; اسكى قبوليت كے عوامل ۳

سنن الہي:نجات دينے والى سنت ۶، ۸

مؤمنين:ان كے غم كو دور كرنا ۶، ۷; انكى نجات ۸; ان كے ساتھ وعدہ ۷

يونس (ع) :انكى دعا كى قبوليت ۱; ان كے غم كا دور كرنا ۲، ۸; انكى تكليف ۱; انكى نجات۲; يہ مچھلى كے پيٹ ميں ۱

۴۴۲

آیت ۸۹

( وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْداً وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ )

اور زكريا كو ياد كرو كہ جب انھوں نے اپنے رب كو پكارا كہ پروردگار مجھے اكيلا نہ چھوڑ دينا كہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے (۸۹)

۱ _ حضرت زكريا(ع) اور ان كے بيٹا چاہنے كى داستان سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد دہانى كرانے كے قابل ہے_و زكريا إذ نادى مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''زكريا'' كى نصب ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے ہو_

۲ _ حضرت زكريا(ع) نے بلند اور واضح آواز كے ساتھ خداتعالى سے بيٹا طلب كيا_و زكريا إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً بعدوالى آيت (فاستجبناله و وهبنا له يحيى ) قرينہ ہے كہ جملہ''لاتذرنى فرداً'' سے مراد بيٹے كى درخواست ہے قابل ذكر ہے كہ ''ندا'' كا معنى ہے بلند اور واضح آواز (لسان العرب)

۳ _ تنہائي سے نجات اور موت كے بعد اپنى وراثت كى حفاظت حضرت زكريا(ع) كے خدا سے بيٹا طلب كرنے كا محرك_

و زكريا إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين حضرت زكريا(ع) نے صراحت كے ساتھ بيٹا طلب كرنے كے بجائے اپنى تنہائي كا تذكرہ كيا اور اپنى درخواست كے آخر ميں خدا كے بہترين وارث ہونے كو ياد كيا ان دو مطلبوں كو ذكر كرنا در حقيقت دعا ميں حضرت زكريا(ع) كے محرك اور حالات كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ حضرت زكريا(ع) تنہائي كى وجہ سے رنج ميں مبتلاء تھے اور بيٹے كى آرزو ركھتے تھے_إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً

بلاشك انسان اپنى دعا ميں جو كچھ خدا سے چاہتا ہے وہ اسے دوست ركھتا ہوتا ہے اور اسكى آرزو ركھتا ہے اور اس كا نہ ہونا اسكے رنج كا سبب ہوتا ہے بالخصوص اگر دعا كرنے والا عظيم شخصيت كا مالك ہو جيسے پيغمبر الہى اس بناپر حضرت زكريا(ع) كى صاحب فرزند ہونے كيلئے دعا مذكورہ مطلب كى غماز ہوسكتى ہے_

۴۴۳

۵ _ صاحب اولاد ہونے كى آرزو انسان كيلئے ايك فطرى آرزو اور پسنديدہ اميد ہے_رب لاتذرنى فرداً

۶ _ موت كے بعد اولاد كے سائے ميں زندگى كے ماحصل كو محفوظ كرنا انسان كافطرى مطالبہ ہے_و زكريا إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين چونكہ حضرت زكريا(ع) جيسے پيغمبر خدا نے صاحب اولاد ہونے كے ذريعے اپنى ميراث كى حفاظت كو طلب كيا ہے اس سے اس بات كا استفادہ كيا جاسكتا ہے كہ سب انسان ايسا مطالبہ ركھتے ہيں _

۷ _ زندگى ميں بيٹا اور وارث نہ ہونے كى صورت ميں حضرت زكريا(ع) كو اپنى رسالت كے مستقبل كى پريشاني_رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين ممكن ہے حضرت زكريا(ع) كى خداتعالى سے صاحب فرزند ہونے كى درخواست معاشرتى مسائل كى خاطر ہو يعنى آپ چاہتے تھے كہ رسالت اور اسكے ثمرات محفوظ اور ہميشہ رہيں _

۸ _ مسئلہ وراثت كى ماضى ميں لمبى تاريخ ہے اور وراثت چھوڑنے اور وراثت حاصل كرنے كى خواہش ايك فطرى اور انسانوں حتى كہ انبيا(ع) ء كے درميان ايك رائج امر ہے_رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين

۹ _ خداوند، بہترين وارث ہے_أنت خير الوارثين

۱۰ _ تمام زندہ موجودات مرنے والے اور فانى ہيں اور صرف خداتعالى كى ذات زندہ و جاويد ہے_أنت خير الوارثين

خداتعالى كا بہترين وارث ہونا ممكن ہے اس لحاظ سے ہو كہ سب وارث كسى نہ كسى دن موت كا شكار ہوجائيں گے اور انہوں نے جو كچھ وراثت حاصل كى ہے اسے دوسروں كے سپرد كريں گے ليكن خداتعالى ايسا وارث ہے جو ناقابل فنا اور زندہ و جاويد ہے_

۱۱ _ دعا كے وقت خداتعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ اور اس كا تذكرہ كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے_إذ نادى ربه رب لاتذرني

۱۲ _ ربوبيت خدا كا تقاضا ہے كہ انسان نياز كے وقت اسكى بارگاہ كى طرف متوجہ ہو_إذ نادى ربه رب لاتذرني

۱۳ _ دعا كے وقت خداتعالى كى تعريف اور ضرورت كے ساتھ مناسب طريقے سے اس كے اسما و صفات كو ياد كرنے كا اچھا ہونا_و أنت خير الوارثين

مذكورہ مطلب كے حاصل ہونے كى وجہ يہ ہے كہ حضرت زكريا(ع) نے اپنى نياز اور مطالبے (صاحب

۴۴۴

اولاد ہونے كے ذريعے اپنى ميراث كى حفاظت) كے ساتھ متناسب،خداتعالى كو بہترين وارث ہونے كے ساتھ ياد كيا_

آرزو:بيٹے كى آرزو۵; پسنديدہ آرزو۵

وراثت:بہترين وراثت ۹; اسكى تاريخ۸

اسما ء و صفات:خيرالوارثين۹

انبياء(ع) :ان كے تمايلات۸

انسان:اسكے مطالبے ۶; اسكے تمايلات ۸، اسكى ضروريات ۵

تنہائي:اس سے نجات ۳

حمد:حمد خدا، ۱۳

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۲; اس كا زندہ و جاويد ہونا ۱۰

دعا:اسكے آد اب ۱۱، ۱۳; اس ميں اسما ء و صفات ۱۳; اس كا ضرورت كے مطابق ہونا ۱۳; اس ميں حمد ۱۳

ذكر:ربوبيت خدا كا ذكر ۱۱; حضرت زكريا كے قصے كا ذكر ۱

زكريا (ع) :انكى آرزو۴; انكى رسالت كا مستقبل۷; انكا بے اولاد ہونا ۴، ۷; انكى تنہائي ۳; انكى دعا۲; ان كے قصے سے عبرت۱; ان كے رنج كے عوامل۴; انكى پريشانى كے عوامل ۷; ان كا بيٹا طلب كرنا ۱، ۲، ۴; ان كے بيٹا طلب كرنے كا فلسفہ۳، ۷; انكا قصہ ۲، ۴، ۷; انكى وراثت كى حفاظت ۳; انكى وراثت كى حفاظت ۳، ۶

عبرت:اسكے عوامل ۱

محبت:وراثت سے محبت ۸

بيٹا:اسكى درخواست ۲; اس كا كردار ۶

تمايلات:خدا كى طرف تمايل كا پيش خيمہ ۱۲

موجودات:ان كا فانى ہونا ۱۰

۴۴۵

آیت ۹۰

( فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَى وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَباً وَرَهَباً وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ )

تو ہم نے ان كى دعا كو بھى قبول كرليا اور انھيں يحيى جيسا فرزند عطا كرديا اور ان كى زوجہ كو صالحہ بناديا كہ يہ تمام وہ لوگ تھے جو نيكيوں كى طرف سبقت كرنے والے اور رغبت اور خوف كے ہر عالم ميں ہميں كو پكارنے والے تھے اور ہمارى بارگاہ ميں گڑگڑا كر التجا كرنے والے بندے تھے (۹۰)

۱ _ حضرت زكريا(ع) كى صاحب فرزند ہونے كى دعا كو خداتعالى نے قبول فرمايا_رب لا تذرنى فرداً فاستجبناله

۲ _ حضرت زكريا(ع) كى دعا اور ان كے بارگاہ الہى ميں آنے كے بعد خداتعالى كى طرف سے ان كيلئے يحيى (ع) كا بلاعوض اور كسى قسم كى غرض سے خالى عطيہإذ نادى ربه فاستجبنا له و و هبنا له يحيى ''ہبہ'' كا معنى كسى قسم كى غرض اور عوض كے بغير ''عطيہ''_

۳ _ حضرت زكريا(ع) كى صاحب فرزند ہونے كى دعا كے بعد حضرت يحيى (ع) ان كى پہلى اولاد_رب لاتذرنى فرداً فاستجبناله و وهبنا له يحيى

۴ _ حضرت زكريا كى اپنى بيوى كے بانجھ پن كے درست كرنے كى دعا كوخداتعالى نے قبول فرماليا اور خداتعالى نے اسے حمل كے قابل بناديا_فاستجبناله و وهبناله يحيى و اْصلحنا له زوجه

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ

''أصلحنا له زوجه'' كا عطف جملہ''وهبنا له يحيى '' پر ہو اس صورت ميں بيوى كا ٹھيك ہونا حضرت زكريا(ع) كى دعا كا حصہ شمار ہوگا_

۵ _ حضرت زكريا(ع) كى دعا سے پہلے انكى بيوى بانجھ تھي_رب لاتذرنى فرداً فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

۴۴۶

۶ _ حضرت زكريا(ع) كے قدرتى عوامل كے مطابق اور خداتعالى كے لطف و كرم كے بغير صاحب فرزند ہونے كا ممكن نہ ہونا_و زكريا إذ نادى ربه فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

حضرت زكريا(ع) نے كہا ''خدايا مجھے تنہائي سے نجات دے مجھے بيٹا عطا فرما'' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر خداتعالى ان كى دعا كو قبول نہ فرماتا تو وہ صاحب اولاد ہونے سے محروم رہتے اور عمر كے آخر تك تنہا رہتے_

۷ _ عورت كا بانجھ پن اس كيلئے ايك نقص ہے كہ جسكى اصلاح كى ضرورت ہے_و أصلحنا له زوجه

كلمہ ''أصلحنا'' كا استعمال بانجھ پن كے نقص كى طرف اشارہ ہے كيونكہ صلاح، فساد و نقص كے مقابلے ميں ہے_

۸ _ خداتعالى نے حضرت زكريا(ع) كى بيوى كے اخلاق و اطوار كى اصلاح فرمائي اور اسے حضرت زكريا كيلئے ايك شائستہ بيوى قرار ديا_ *فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''أصلحنا لہ زوجہ'' كا عطف جملہ ''فاستجبنالہ'' پر ہو اس صورت ميں بيوى كى اصلاح حضرت زكريا(ع) كى دعا كا حصہ نہيں تھابلكہ خداتعالى نے اپنے فضل و كرم سے اور انكى دعا سے بڑھ كر انہيں يہ عطا فرمايا نيز ''اصلاح'' اپنے عام اور وسيع معنى ميں استعمال ہوا ہے نہ بانجھ پن كى اصلاح قابل ذكر ہے كہ بيٹا عطا كرنے كے بعد بيوى كى اصلاح كا تذكرہ اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۹ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت زكريا(ع) كو بيٹا عطا كرنا اور انكى بيوى كى اصلاح صرف حضرت زكريا(ع) كى دعا كى قبوليت اور ان كے فائدے كيلئے تھا_فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

''لہ'' (اس كيلئے) كا تكرار خاص طور پر بيوى كى اصلاح كے مورد ميں ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۱۰ _ حضرت زكريا(ع) خداتعالى كے خاص لطف و كرم اور عنايات سے بہرہ مند تھے_فاستجبناله و وهبنا له يحيى و اصلحنا له زوجه ''لہ'' (اس كيلئے) كا تكرار ہوسكتاہے خداتعالى كى حضرت زكريا(ع) كيلئے خاص عنايات سے حاكى ہو_

۱۱ _ دعا و مناجات، صاحب اولاد ہونے اور بانجھ پن كے درست ہونے كا سبب ہے_

رب لاتذرنى فرداً فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

۱۲ _ حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور ان كا بيٹا (يحيى (ع) ) نيكى كے كاموں كو بھاگ بھاگ كے انجام ديتے اور اس ميں پيش قدم رہتے_إنهم كانوا يسرعون فى الخيرات مذكورہ مطب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''إنہم كانوا يسارعون ...'' كى جمع كى ضميروں كا مرجع زكريا(ع) ، انكى بيوى اور بيٹا (يحيي) ہو_

۴۴۷

۱۳ _ كار خير كو انجام دينا حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور بيٹے (يحيى (ع) ) كى دائمى سيرت اور محبوب مشغلہ تھا_و زكريا و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه إنهم كانوا يسرعون فى الخيرات فعل مضارع ''يسارعون'' اور اس سے پہلے فعل ''كانوا'' كا آنا استمرار اور دوام كو بيان كرتا ہے اور فعل ''يسارعون'' كا ''في'' كے ساتھ متعدى ہونا كام سے محبت اور اس كے سلسلے ميں سنجيدگى پر دلالت كرتا ہے_

۱۴ _ انبيا(ع) ء الہى موسي(ع) ، ہارون، ابراہيم، لوط، اسحاق، يعقوب، نوح، داؤد(ع) ، سليمان(ع) ، ايوب، اسماعيل، ادريس، ذاالكفل، يونس، زكريا اور يحيي(ع) (عليہم السلام) كار خير ميں آگے آگے_و لقد أتينا موسى و هارون يحيى إنهم كانوا يسارعون فى الخيرات مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''إنہم كانوا يسرعون ...'' كى جمع كى ضميريں ان انبيا(ع) ء كى طرف راجع ہوں كہ جن كا ذكر گذشتہ آيات (۸۴ _ ۹۰) ميں ہوچكا ہے_

۱۵ _ كار خير كو انجام دينا، انبياء الہى موسي(ع) ، ہارون، ابراہيم، لوط، اسحاق، يعقوب، نوح، داؤد(ع) ، سليمان(ع) ، ايوب، اسماعيل، ادريس، ذاالكفل، يونس، زكريا اور يحيي(ع) (عليہم السلام) كى دائمى سيرت اور محبوب مشغلہ تھا_

و لقد أتينا موسى و هارون يحيى إنهم كانوا يسارعون فى الخيرات

۱۶ _ حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور انكا بيٹا (يحيى (ع) ) رغبت اور اميد كے ساتھ خداتعالى كو پكار رہے تھے_

و يدعوننا رغباً و رهب

۱۷ _ حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور بيٹا (يحيي(ع) ) بارگاہ الہى كے خاشعين ميں سے تھے_و كانوا لنا خشعين

۱۸ _ انبيا(ع) ء كا كارخير ميں آگے بڑھنا، رغبت و خوف كے ہمراہ دعا كرنا نيز ان كا خشوع ان كے الہى عطيات سے بہرہ مند ہونے كا عامل تھا_و لقد أتينا موسى و هارون انهم كانوا يسارعون فى الخيرات و كانوا لنا خشعين مذكورہ مطلب دو نكتوں كو مد نظر ركھتے ہوئے حاصل ہو رہا ہے_

۱ _ جملہ''إنهم كانوا يسارعون '' كى جمع كى ضميروں كا مرجع انبيا(ع) ء ہوں كيونكہ گذشتہ آيات انہيں كے بارے ميں تھيں _

۲ _ جملہ ''إنہم كانوا يسارعون ...'' اور اسكے بعد كے جملے تعليل كے مقام ميں ہوں

۱۹ _ كار خير ميں سبقت لينے، رغبت و اميد كے ہمراہ دعا كرنے اور بارگاہ الہى ميں خشوع كا دعا كى قبوليت ميں مؤثر كردار_فاستجبناله إنهم يسارعون فى الخيرات و كانوا لنا خشعين

۴۴۸

۲۰ _ كارخير ميں سبقت اور جلدى كرنا، رغبت و اميد كے ہمراہ دعا كرنا اور بارگاہ الہى ميں خشوع كرنا اعلى اقدار اور الہى لوگوں كى برجستہ صفات ميں سے ہيںإنهم كانوا يسرعون فى الخيرات و يدعوننا رغباً و رهباً و كانوا لنا خشعين

مذكورہ مطلب اس وجہ سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ انبياء الہى كى توصيف كررہى ہے اور ان كى دسيوں صفات اور خصوصيات ميں سے صرف ان تين كى طرف اشارہ كيا ہے_

۲۱ _ امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ (دعا ميں ) ''رغبت'' يہ ہے كہ تو اپنى ہتھيليوں كو آسمان كى طرف كرے اور ''رہبت'' يہ ہے كہ تو اپنے ہاتھوں كى پشت كو آسمان كى طرف قرار دے(۱)

ابراہيم(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

ادريس(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

اسحاق(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

اسماعيل (ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

انبياء(ع) :ان كے خشوع كے اثرات ۱۸; انكى سيرت ۱۵; انكا عمل خير ۱۵، ۱۸

اولياء الله :انكى اميدوارى ۲۰; انكا خشوع ۲۰; انكى صفات ۲۰; انكا عمل خير ۲۰

ايوب(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

خاشعين ۱۷

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كے اثرات ۶; اسكے عطيات ۲

خشوع:اسكے اثرات ۱۹

داؤد(ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; انكا عمل خير ۱۵

دعا:اس ميں اميد كے اثرات ۱۹; اسكے اثرات ۱۱; اسكے آداب ۲۱; اس ميں اميد ۱۶، ۱۸، ۲۰; اس ميں ہاتھ بلند كرنا ۲۱; اس ميں خشوع ۱۸; اسكى قبوليت كا پيش خيمہ ۱۹

ذوالكفل(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

____________________

۱ ) كافى ج۲ ص ۴۷۹ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۵۷ ح ۱۶۰_

۴۴۹

روايت ۲۱

زكريا(ع) :انكى دعا كى قبوليت ۱، ۲، ۳، ۴، ۹; انكى بيوى كا اخلاق ۸; انكى بيوى كى اصلاح ۸، ۹; انكى اميد ۱۶; انكى بيوى كى اميد ۱۶; انكا پہلابيٹا ۳; انكا سبقت لينا۱۲، ۱۴;ان كى بيوى كا سبقت لينا ۱۲; انكا خشوع ۱۷; انكى بيوى كا خشوع ۱۷; انكى بيوى كے بانجھ پن كا علاج ۴; انكى سيرت ۱۳; انكى بيوى كا بانجھ پن۵; انكا عمل خير ۱۲، ۱۳، ۱۵; انكى بيوى كا عمل خير ۱۲، ۱۳; ان كے صاحب فرزند ہونے كے عوامل ۶; ان كا بيٹا طلب كرنا ۱، ۲، ۳; انكا صاحب فرزند ہونا۹; ان كے فضائل ۱۰; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۸، ۹; ان كے مفادات ۹; انكى نعمتيں ۲; انكى دعا كى خصوصيات ۱۶; انكى بيوى كى دعا كى خصوصيات ۱۶

سليمان(ع) :انكا سبقت لينا ۱۴: انكا عمل خير ۱۵

بانجھ پن:اسكى شفا كا پيش خيمہ ۱۱

عمل:عمل خير ميں اگے بڑھنے كے اثرات ۱۸، ۱۹; عمل خير ميں آگے بڑھنے كى قدر و قيمت ۲۰

صاحب فرزند ہونا:اس كا پيش خيمہ ۱۱

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۰

لوط(ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; انكا عمل خير ۱۵

موسى (ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; ان كا عمل خير ۱۵

نعمت:اس كا پيش خيمہ ۱۸; يہ جنكے شامل حال ہے ۱۸

نوح(ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; انكا عمل خير ۱۵

ہارون(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

بيوي:ان كے بانجھ پن كا علاج ۷; ان كے عيوب ۷

يحيى (ع) :ان كى اميد ۱۶; ان كا سبقت لينا ۱۲، ۱۴; انكا خشوع ۱۷; انكا عمل خير ۱۲، ۱۳، ۱۵; ان كا نقش و كردار ۲، ۳; ان كى دعا كى خصوصيات ۱۶

يعقوب(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

يونس(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

۴۵۰

آیت ۹۱

( وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ )

اور اس خاتون كو ياد كرو جس نے اپنى شرم كى حفاظت كى تو ہم نے اس ميں اپنى طرف سے روح پھونك دى اور اسے اور اس كے فرزند كو تمام عالمين كے لئے اپنى نشانى قرار دے ديا (۹۱)

۱ _ حضرت مريم(ع) ، ان كى پاكدامنى اور صاحب فرزند ہونے كى داستان سبق آموز اور ياد ركھنے و ياد كرانے كے قابل ہے_والتى أحصنت فرجها فنفخنا فيه مذكورہ بالا مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''التي'' ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے منصوب ہو_

۲ _ حضرت مريم(ع) با عفت و پاك دامن خاتون تھيں اور بارگاہ الہى ميں بلند مقام ركھتى تھيں _و التى أحصنت فرجه

(''أحصنت'' كے مصدر) احصان كا معنى ہے منع كرنا اور روكنا اور ''فرج'' كا اصلى معنى دو چيزوں كے درميان شگاف (شرم گاہ و غيرہ) ہے فرج كو روكنا عفت اور پاكدامنى سے كنايہ ہے_

۳ _ عفت اور پاكدامنى عورتوں كے برجستہ ترين اور صاف اور بہترين كمالات ميں سے ہے_و التى أحصنت فرجه

مذكورہ مطلب اس وجہ سے ہے كہ خداتعالى نے حضرت مريم(ع) كى توصيف و تمجيد كرتے ہوئے_ كيونكہ ان آيات ميں ان كا نام انبيا(ع) ء كے ساتھ ذكر كيا گياہے_ ان كى عفت اور پاكدامنى كا تذكرہ كيا ہے_

۴ _ حضرت مريم(ع) كا حاملہ ہونا اور حضرت مسيح(ع) كى پيدائش حضرت مريم(ع) ميں روح الہى كے پھونكنے كے ذريعے تھا_فنفحنا فيها من روحن

۵ _ روح لطيف مخلوق ہے_فنفخنا فيها من روحن جسم ميں روح ڈالنے كو نفخ كے ساتھ تعبير كرنا كہ جس كا معنى ہے ہوا كو اجسام كے اندر داخل كرنا مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۶ _ حضرت مريم(ع) كى عفت اور پاكدامنى نے ان كے خداتعالى كى خصوصى عنايات سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كئے_التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحن

عبارت''التى أحصنت فرجها'' كا''فنفخنا فيها من روحنا'' پر مقدم ہونا ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۴۵۱

۷ _ خداتعالى كى عنايات و الطاف سے بہرہ مند ہونے كيلئے مناسب اور صلاحيت ركھنے والے ظرف كى ضرورت ہے_

التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحن

۸ _ عفت اور پاكدامنى عورت كى ترقى اور تكامل كا ذريعہ ہے اور اسكے خداتعالى كے الطالف و عنايات سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كرتى ہے_التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحن

مذكورہ مطلب اس وجہ سے حاصل ہوتا ہے كہ حضرت مريم(ع) كى عفت اور پاكدامنى سبب بنى كہ حضرت مريم(ع) ترقى كريں اور اس مرتبے تك پہنچ جائيں كہ خداتعالى كى خصوصى عنايات سے بہرہ مند ہوجائيں اور پروردگار كى عنايت كے ساتھ ان ميں حضرت مسيح(ع) كى عظيم روح پھونكى جائے_

۹ _ حضرت مريم (ع) كے بيٹے عيسى (ع) روح الہى كے جلوہ اور بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام كے حامل تھے_فنفخنا فيها من روحن ''روح''كى ''نا'' كى طرف اضافت تشريفى اور اس روح كى شرافت اور بزرگى كو بيان كرنے كيلئے ہے_

۱۰ _ مريم (ع) اور ان كا بيٹا عيسى (ع) آيت الہى اور اہل جہان كيلئے خلقت خداوندى كے راز كى نشانى ہيں ہے_

و جعلنها و ابنها أية للعالمين

۱۱ _ حضرت مريم(ع) كے حاملہ ہونے اور حضرت عيسى كى معجزانہ پيدائش ميں خداتعالى كى قدرت اور عظمت كا متجلى ہونا_و جعلنها و ابنها أية للعالمين

۱۲ _ حضرت مريم(ع) بارگاہ خداوندى ميں بلند و بالا مقام و مرتبے اور عالمى شخصيت كى مالك تھيں _

و التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحنا و جعلنها و ابنها أية للعالمين

مذكورہ مطلب تين نكات كو مدنظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے ۱_ ''التي''،''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے منصوب ہے كہ اس صورت ميں حضرت مريم(ع) كى داستان كى ياد دہانى كا حكم سب انسانوں كيلئے ہے ۲_ حضرت مريم كا نام انبيا(ع) ء الہى كے ناموں كے ہمراہ آيا ہے ۳_ خداتعالى نے حضرت مريم(ع) كو اہل جہان كيلئے اپنى آيت اور نشانى قرار ديا ہے (و جعلنها و ابنها آية للعالمين )

خلقت:

۴۵۲

اسكے اسرار ۱۰

استعداد:اس كا كردار ۷

خداتعالى :اسكى روح ۴; اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۷، ۸; اسكى روح كى نشانياں ۹; اسكى قدرت كى نشانياں ۹، ۱۱

تذكر:حضرت مريم(ع) كے قصے كا تذكرہ ۱

روح:اسكى حقيقت ۵; اس كا لطيف ہونا۵

عورت:اسكى عفت كى اہميت ۳; اسكے تكامل كے عوامل ۸; اس كا كمال ۳

عبرت:اسكے عوامل ۱

عفت:اسكے اثرات ۸

عيسى (ع) :انكى ولادت كا اعجاز، ۱۱; يہ آيات الہى ميں سے ۱۰; ان كے فضائل ۱۰; انكا مقام و مرتبہ ۹

خداتعالى كا لطف وكرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۶

مريم (ع) :انكى عفت كے اثرات ۶; ان كے حمل كا اعجاز، ۱۱; انكا تقرب ۱۲; انكى شخصيت ۱۲; ان كے قصے سے عبرت ۱; انكى عبرت ۱، ۲; ان كے فضائل ۲، ۶، ۱۰; ۱۲; انكا قصہ ۴; يہ آيات الہى ميں سے ۱۰; انكے حاملہ ہونے كا سرچشمہ ۴; ان ميں روح پھونكنا ۴

آیت ۹۲

( إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ )

بيشك يہ تمھارا دين ايك ہى دين اسلام ہے اور ميں تم سب كا پروردگار ہوں لہذا ميرى ہى عبادت كيا كرو (۹۲)

۱ _ امت اسلام امت واحدہ اور ايك دين ركھنے والى ہے_إن هذه أمتكم أمة واحدة

''ہذہ'' مبتدا اور اس كا مشاراليہ وہ چيز ہے كہ جو مخاطبين كے اذہان ميں مستحضر ہے اور ''أمتكم امة واحدة''، ''ہذہ'' كى خبر اور حال ہے يہ جملہ ''ہذا بعلى شيخا'' كى طرح اس امر كو بيان كررہا ہے كہ جو ذہن ميں ہے_ قابل ذكر ہے بعض اہل لغت كے نزديك ''أمة'' كا معنى ان لوگوں كا مجموعہ ہے كہ جو ايك دين، وقت اور جگہ و غيرہ ميں اكٹھے اور مشترك ہوں (مفردات راغب) اور بعض دوسروں كى نظر ميں يہ دين اور ملت كے معنى ميں ہے (لسان العرب)

۴۵۳

۲ _ انبيا(ع) ء اور ان كے پيرو كار سب كے سب ايك امت اور ايك دين ركھنے والے تھے_إن هذه أمتكم أمة واحدة

مذكورہ بالا مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آيت كريمہ كے مخاطب وہ انبيا(ع) ء ہوں كہ جن كا گذشتہ آيات ميں تذكرہ ہوچكا ہے كيونكہ يہ آيت ان كى داستان كے آخر ميں آئي ہے يہ جملہ ''و تقطعوا امرہم بينہم'' (انہوں نے اپنے دين كواپنے درميان ٹكڑے ٹكڑے كرديا) اس مطلب كا شاہد ہے_ قابل ذكر ہے كہ سورہ مؤمنون (۲۳) كى آيات ۵۱، ۵۲ ميں بھى صراحت كے ساتھ انبيا(ع) ء كو مخاطب قرار ديا گيا ہے (يا اْيها الرسل كلوا من الطيبات و ان هذه أمتكم أمة واحدة و أنا ربكم فاتقون )

۳ _ توحيد، اديان الہى كى وحدت كى بنياد ہے_إن هذه أمتكم امة واحده و أنا ربكم فاعبدون

۴ _ صرف خداتعالى ہى لائق پرستش پروردگار ہے_أنا ربكم فاعبدون

۵ _ خداتعالى كے لوگوں كے ''رب'' ہونے كا لازمہ اسكى پرستش ہے_أنا ربكم فاعبدون

مذكورہ مطلب ''اعبدون'' كے ''انا ربكم'' پر تفريع سے حاصل ہوتاہے_

۶ _ بشر، خدائے يكتا كى پرستش پر مأمور ہے_أنا ربكم فاعبدون

۷ _ پروردگار يكتا كا عقيدہ انسانوں كى وحدت اور امت واحدہ كى تشكيل كا محور ہے_أن هذه أمتكم أمة واحده و أنا ربكم فاعبدون

اتحاد:دينى اتحاد ۱; اس كا معيار ۷/آسمانى اديان:ان كى ہم آہنگى ۳

امت:امت واحدہ ۱، ۲، ۷

انسان:اسكى شرعى ذمہ دارى ۶; اسكى عبوديت ۶

توحيد:يہ آسمانى اديان ميں ۳; توحيد ربوبى ۴; توحيد عبادى ۴، ۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۴

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۵

دين:اسكے اصول ۳/عبادت:عبادت خدا ۵

عقيدہ:توحيد ربوبى كا عقيدہ ۷/مسلمان:ان كا اتحاد، ۱; انكا دين

۴۵۴

آیت ۹۳

( وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ )

اور ان لوگوں نے تو اپنے دين كو بھى آپس ميں ٹكڑے ٹكڑے كرليا ہے حالانكہ يہ سب پلٹ كر ہمارى ہى بارگاہ ميں آنے والے ہيں (۹۳)

۱ _ گذشتہ انبيا(ع) ء كى امتيں ايك عرصے تك دينى وحدت كے بعد خدائے يكتا كى پرستش كے بارے ميں اختلاف و انتشار كا شكار ہوگئيں _أمة واحده وأنا ربكم فاعبدون و تقطعوا أمرهم بينهم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''تقطعوا أمرہم بينہم ...''كى جمع كى ضميروں كا مرجع گذشتہ انبيا(ع) ء كى امتيں ہوں اور در حقيقت انبيا(ع) ء كے فوت ہونے كے بعد لوگوں كے رد عمل كى كيفيت اور ان كے پيروكاروں كے درميان دين توحيدى كى حالت كو بيان كررہى ہو_ قابل ذكر ہے كہ ''امر'' ،''شان'' كے معنى ميں ہے اور يہ ہر قسم كى رفتار و سخن پر بولا جاتا ہے ليكن مقام كے تناسب سے اس آيت ميں اس سے مراد دين ہے_

۲ _ لوگ خود دين ميں اختلاف كا سبب بنے نہ انبيا(ع) ء الہيأمة واحدة و تقطعوا أمرهم بينهم

خداتعالى نے اختلاف و انتشار كو خود لوگوں كى طرف نسبت دى ہے (و تقطعوا أمرہم بينہم) يہ نسبت ہوسكتا ہے اس دہم كو دور كرنے كيلئے ہو كہ انبيا(ع) ء كا متعدد ہونا لوگوں كے درميان اختلاف كا سبب بنا_

۳ _ سب انسانوں كى بازگشت خداتعالى كى طرف ہے_كل إلينا راجعون

۴ _ قيامت اور تمام انسانوں كا خدائے يكتا كى طرف پلٹ كر جانے كا تقاضا يہ ہے كہ دين ميں اختلاف و انتشارسے پرہيز كيا جائے_اُمة واحده و أنا ربكم فاعبدون_ و تقطعوا أمرهم بينهم كل إلينا راجعون

جملہ ''كل إلينا راجعون'' مستانفہ بيانى ہے يعنى اس مقدر سوال كا جواب ہے كہ اس اختلاف كا انجام كيا ہے؟ اس نكتہ كى ياد دہانى ممكن ہے قيامت سے غافل ان لوگوں كو تعريض اور متنبہ كرنے كيلئے ہو كہ جنہوں نے دين ميں اختلاف ڈال ركھا ہے_

۴۵۵

۵ _ دين توحيدى ميں اختلاف كرنے والوں سے روز قيامت خدا كى جانب سے باز پرس ہوگي_

و تقطعوا أمرهم بينهم كل إلينا راجعون

اختلاف:دينى اختلاف سے اجتناب كا پيش خيمہ ۴; دينى اختلاف كے عوامل ۲

اختلاف ڈالنے والے:ان كا اخروى مواخذہ ۵

امتيں :ان كا دينى اختلاف ۱; انكى تاريخ ۱

انبياء(ع) :ان كا نقش و كردار ۲

انسان:اس كا انجام ۳خدا كى طرف بازگشت :۳، ۴

قيامت:اس كا كردار ۴

لوگ:لوگوں كا نقش و كردار ۲

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۳

آیت ۹۴

( فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ )

پھر جو شخص صاحب ايمان رہ كر نيك عمل كرے گا اس كى كوشش برباد نہ ہوگى اور ہم اس كى كوشش كو برابر لكھ رہے ہيں (۹۴)

۱ _ نيك كردار مؤمنين كى كوششوں كے اجر كى خداتعالى كى طرف سے ضمانت اٹھائي گئي ہے_ اور وہ بغير كسى قسم كى كمى كے انہيں ديا جائيگا_فمن يعمل من الصالحات و هو مؤمن فلا كفران لسعيه

۲ _ عمل صالح ايمان كے ہمراہ ہونے كى صورت ميں ثمربخش ہے_فمن يعمل من الصالحات و هو مؤمن

جملہ''و هو مؤمن'' ، ''يعمل'' كے فاعل كيلئے حال ہے اور يہ جملہ در حقيقت نيك كاموں كى

۴۵۶

انجام دہى كيلئے شرط ہے_

۳ _ دوسروں كى نيكيوں اور پسنديدہ كاموں كو ناچيز سمجھنے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _فمن يعمل فلا كفران لسعيه

مذكورہ مطلب خداتعالى كے نيك كردار مؤمنوں كے ساتھ سلوك سے حاصل ہوتا ہے_

۴ _ عمل صالح كو انجام دينے كيلئے سعى و كوشش كى ضرورت ہے_فمن يعمل فلا كفران لسعيه

''لعملہ'' كى بجائے ''لسعيہ'' كى تعبير ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ عمل صالح ہميشہ كوشش كے ساتھ ہے اور ان كے درميان جدائي ممكن نہيں ہے اور ہر عمل صالح كو انجام دينا سعى و كوشش كا مرہون منت ہے_

۵ _ اجر الہى كو حاصل كرنے اور اپنى تقدير ميں انسان كى اپنى سعى و كوشش كا كردارفمن يعمل فلا كفران لسعيه

۶ _ مؤمنين كا ہر عمل صالح خداتعالى كى جانب سے لكھا اور ثبت كيا جائيگا_فمن يعمل من الصلحت إنا له كتبون

۷ _ خداتعالى كى جانب سے ہر انسان كے نامہ اعمال كا مرتب كيا جانا اسكے مكمل اجر كى ضمانت ہے_فمن يعمل ...إنا له كتبون جملہ''إنا له كاتبون'' كا عطف جملہ''فلا كفران لسعيه'' پر ہے اور يہ اسكے محتوا كى تأكيد كر رہا ہے اور د رحقيقت يہ اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ چونكہ ہم سب انسانوں كے اعمال كو لكھتے ہيں اسلئے بغير كسى كمى كے ان كا اجر بھى ديں گے_

۸ _ افراد كے حقوق كے ضائع نہ ہونے ميں ان كى كاركردگى كے ثبت اور محفوظ كرنے كا بنيادى كردار_فمن يعمل ...إنّا له كتبون خداتعالى كا نيكو كار مؤمنين كے تمام اعمال كو ثبت كرنا اور لكھنے كے ذريعے ان كے اجر كى ضمانت دينے كى تاكيد كرنا مذكورہ بالا مطلب كو بيان كر رہا ہے_

انسان:اسكے اجر كى ضمانت دينا ۷/ايمان:اسكے اثرات ۲; يہ اور عمل صالح۲

كوشش:اسكے اثرات ۴، ۵/حقوق:انہيں ضائع كرنے كے موانع ۸

خداتعالى :اسكے افعال ۶; اسكے اجر كا پيش خيمہ ۵

تقدير:اس ميں مؤثر عوامل ۵

صالحين:ان كے اجر كى ضمانت ۱

عمل:

۴۵۷

اسے ثبت كرنے كى اثرات ۸; اسے ثبت كرنا ۶

عمل صالح:اسكے اثرات ۲; دوسروں كے عمل صالح كو اہميت دينا ۳; اس كا پيش خيمہ ۴

مؤمنين :ان كے اجر كى ضمانت ۱; ان كا عمل صالح ۶

نامہ اعمال:اس كا كردار ۷

آیت ۹۵

( وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ )

اور جس بستى كو ہم نے تباہ كرديا ہے اس كے لئے بھى ناممكن ہے كہ قيامت كے دن ہمارے پاس پلٹ كرنہ آئے (۹۵)

۱ _ ہلاك شدہ امتوں كے دنيا ميں واپس آنے اور اعمال كے تدارك كرنے كا ممكن نہ ہونا_و حرام على قرينة أهلكنها أنهم لايرجعون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''حرام'' خبر مقدم اور ''أنہم لايرجعون'' ميں مصدر مؤول ''رجوع'' مبتدا مؤخر ہو نيز ''لايرجعون'' ميں ''لا'' زائدہ اور رجوع سے مقصود دنيا كى طرف بازگشت ہو_

۲ _ ہلاكت كا شكار ہونے والے معاشرے دنيا ميں واپس آنے اور اپنے اعمال كا تدارك كرنے كے آرزومند ہيں _

حرام على قرية أهلكنها أنهم لايرجعون اگر بازگشت سے مراد دنيا كى طرف بازگشت ہو تو خداتعالى كى اس تاكيد (حرام أنہم لايرجعون) سے يوں لگتا ہے كہ امتيں واپس پلٹنے كى خواہان رہى ہيں _

۳ _ ہلاكت كا شكار ہونے والى امتوں كا روز قيامت سزا پانے كيلئے خداتعالى كى طرف پلٹنا حتمى ہے_كل إلينا راجعون و حرام على قرية أهلكنها أنهم لايرجعون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''حرام'' خبر مقدم اور (أنہم يرجعون) ميں مصدر موؤل ''رجوع'' مبتدا مؤخر ہو نيز ''لايرجعون '' ميں ''لا'' نفى كيلئے ہو اور ''كل إلينا راجعون'' كے قرينے سے رجوع سے مراد آخرت كى طرف پلٹنا ہو يعنى ہلاكت كا شكار ہونے والى امتوں كا واپس

۴۵۸

نہ پلٹنا ممكن نہيں ہے بلكہ وہ حتما واپس پلٹيں گي_

۴ _ ان كفار اور مشركين كيلئے كفر و شرك سے واپس پلٹنا (توبہ) ممكن نہيں ہے كہ ہلاكت جنكى تقدير بن چكى ہے_

و حرام على قرية أهلكنها أنهم لايرجعون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لايرجعون'' ميں ''لا'' زائدہ ہو اور رجوع سے مقصود كفر و شرك سے پلٹنا ہو_

آرزو:دنيا كى طرف واپس پلٹنے كى آرزو ۲

امتيں :ہلاك ہونے والى امتوں كى آرزوئيں ۲; ہلاك ہونے والى امتوں كا واپس پلٹنا ۱; ہلاك ہونے والى امتوں كى توبہ ۴; ہلاك ہونے والى امتوں كى اخروى سزا، ۳

خدا كى طرف بازگشت:اس كا حتمى ہونا ۳

دنيا كى طرف بازگشت:اس كا محال ہونا ۱

توبہ:شرك سے توبہ ۴; كفر سے توبہ ۴

عمل:اس كا تدارك ۱، ۲

آیت ۹۶

( حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ )

يہانتك كہ جب ياجوج و ماجوج آزاد كردئے جائيں گے اور زمين كى ہر بلندى سے دوڑتے ہوئے نكل پڑيں گے (۹۶)

۱ _ خداتعالى كى مؤمنين كو اجر دينے كيلئے ان كے اعمال كو ثبت كرنے اور ہلاك ہونے والوں كى دنيا كى طرف واپس آنے سے محروميت والى سنت يأجوج و مأجوج كے خروج تك (دنيا كا ختم ہونا) جارى رہے گي_

فمن يعمل و حرام على حتى اذا فتحت يأجوج و مأجوج

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ '' حتى '' غايت كا معنى دے رہا ہو البتہ ''حتى '' كے غايت كا معنى دينے كے بارے ميں اہل ادب كے درميان اختلاف ہے ليكن آيت كريمہ كے سياق اور لحن سے غايت كا استفادہ ہوسكتا ہے اس بناپر ''حتى إذا افتحت ...'' ''فمن يعمل من الصالحات و حرام على قرية '' كى غايت ہوگى قابل ذكر ہے كہ عام طور پر مفسرين كا نظريہ يہ ہے كہ يأجوج و مأجوج لوگوں كے دو گروہ ہيں كہ جو آخرى زمانہ ميں ظاہر ہوں گے اور تاخت و تاراج كرتے ہوئے فتوحات حاصل كريں گے اور ان كى موت كے بعد دنيا كى عمر ختم ہوجائيگي_

۴۵۹

۲ _ اديان الہى كے پيروكاروں كے مسئلہ توحيد كے بارے ميں دينى اختلافات يأجوج و مأجوج كے خروج (دنيا كے ختم ہونے) تك جارى رہيں گے_و تقطعوا أمرهم بينهم حتى إذا فتحت يأجوج و مأجوج

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''حتى ''، اور تقطعوا امرہم بينہم'' كيلئے غايت ہو _

۳ _ مستقبل ميں فتوحات كے تمام راستے يأجوج و مأجوج كيلئے كھول ديئے جائيں گے اور وہ زمين كى بلنديوں اور ہرچوٹى سے سرعت كے ساتھ عبور كرجائيں گے_حتى إذا فتحت يأجوج و مأجوج و هم من كل حدب ينسلون

''حدب'' كا معنى ہے زمين كى بلند اور اونچى جگہيں اور (ينسلون كے مادہ) نسل كا اصلى معنى كسى شيء سے جدا ہونا ہے اور جب بھى يہ مادہ چلنے والے كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے تو يہ تيز رفتارى كے معنى ميں ہوتا ہے پس ''ينسلون'' يعنى تيزى سے چليں گے اور سرعت كے ساتھ گزر جائيں گے_

۴ _ قرآن كريم كى پيشين گوئي كہ يأجوج و مأجوج مستقبل ميں تيزى سے حملے كريں گے اور انہيں پورى دنيا ميں فتوحات حاصل ہوں گي_حتى إذا فتحت يأجوج و مأجوج و هم من كل حدب ينسلون لفظ عموم ''كل'' كا اسم نكرہ ''حدب'' پر داخل ہونا اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ يأجوج و مأجوج كا ماجرا كسى خاص سرزمين سے مختص نہيں ہے بلكہ يہ عالمى ہوگا اور پورى دنيا كو شامل ہوگا_

امتيں :ہلاك ہونے والى امتوں كى بازگشت ۱; انكے دينى اختلاف كا دائمى ہونا ۲دنيا ميں بازگشت:۱اس كا محال ہونا ۱

توحيد:اس ميں اختلاف ۲خداتعالى :اسكى سنن۱

قرآن كريم:اسكى پيشين گوئي ۴مأجوج:اسكى كاميابى ۳، ۴; اس كا خروج ۱، ۲; اس كا قصد ۳; اسكے حملے كى وسعت ۴; اس كا حملہ ۳

مؤمنين:ان كا اجر،ا ۱; انكے اعمال كا ثبت ہونا ۱يأجوج:اسكى كاميابى ۳، ۴; اس كا خروج ۱، ۲; اس كا قصد ۳; اسكے حملے كى وسعت ۴; اس كا حملہ ۳

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750