تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219167 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

اصلى منبع ہے_قل إنما أنذركم بالوحي

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كو صرف وحى كى بنياد پر انذار كرنے پر مأمور تھے_

۵ _ لوگوں كو انذاز كرنے اور تبليغ دين كے سلسلے ميں وحى الہى پر بھروسہ كرنا ضرورى ہے_قل إنما أنذركم بالوحي

۶ _ دين كے اہداف كو آگے بڑھانے ميں انذار كى اہميت اور اس كا اعلى كردار_إنما أنذركم بالوحي

۷ _ انسان، دين الہى كے اس كو تھامے بغير سقوط اور ناقابل علاج آفتوں ميں مبتلا ہونے كے خطرے سے دوچار ہے_

قل إنما أنذركم بالوحي وحى كا انذاز اور اس كا خطرے سے آگاہ كرنا انسان كے راستے ميں بہت سے خطرات اور آفتوں كے وجود كو بيان كر رہا ہے اگر انسان ان خطرات و آفات كو صحيح طريقے سے پہچانتا ہوتا اور ان كا حل نكال ليتا تو خداتعالى كى طرف سے انذار اور خطرے سے آگاہ كرنے كا آنا لغو اور فضول ہوتا لہذا انذار الہى اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ دين كے بغير انسان مہلك خطرات اور آفتوں سے دوچار ہوجائيگا_

۸ _ بعض لوگوں ميں پيغمبراكرم(ص) كے انذار كا اثر نہ كرنا ان كى بات نہ سننے وجہ سے تھا نہ وحى كے استدلال اور پيغمبر اكرم(ص) كے بيان ميں نقص كى وجہ سے_قل إنما أنذركم بالوحى و لا يسمع الصم الدعاء إذا ما ينذرون

۹ _ بعض لوگ بہروں كى طرح ہرگز حق كى بات كو نہيں سنتے اور اسكى طرف توجہ نہيں كرتے_

لايسمع الصم الدعاء اذا ما ينذرون

آنحضرت-(ص) :آپكى رسالت كى حدود كا بيان كرنا ۱; آپ(ص) كے انذار كے اثر نہ كرنے كے عوامل ۸; آپ(ص) كى ذمہ دارى ۱، ۲; آپ(ص) كے انذار كا سرچشمہ۳

انسان:اسے انذار كرنا ۲

تبليغ:اس ميں انذار۵; اس ميں انذار كى اہميت ۶; اسكى روش ۵، ۶

حق:اسے قبول نہ كرنے كے اثرات ۸; اسے قبول نہ كرنے والے ۹

خطرہ:اس كا پيش خيمہ ۷/دين:دين شناسى كے منابع ۴ اس كا كردار ۷

شناخت:اسكے منابع۴

معاشرتى گروہ :۹

۳۶۱

وحي:اس كا كردار ۲، ۳، ۴، ۵، ۸

ہلاكت:اس كا پيش خيمہ ۷

آیت ۴۶

( وَلَئِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

حالانكہ انھيں عذاب الہى كى ہوا بھى چھو جائے تو كہہ اٹھيں گے كہ افسوس ہم واقعى ظالم تھے (۴۶)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے معمولى سے عذاب كو محسوس كرنے كے وقت، كافروں كى اپنے ظلم و ستم سے ندامت اور حسرت_ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

لغت ميں ''نفحة'' كا معنى ہے ہوا كا چلنا يا اس كا ايك جھونكا_ يہ عام طور پر امور خير ميں استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات امور شر ميں بھى استعمال ہوتا ہے_ مفسرين كى نظر كے مطابق آيت كريمہ ميں يہ كلمہ تين وجوہات كى بناپر تقليل پر دلالت كررہا ہے ۱_ مادہ ''نفخة'' تقليل پر دلالت كرتا ہے ۲; يہ ''مرّة'' كے وزن پر ہے۳_ يہ نكرہ كى صورت ميں آيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ لفظ ''ويل'' وہ شخص بولتا ہے جو ہلاكت اور بدبختى ميں مبتلا ہو اور افسوس و حسرت كى بناپر اس لفظ كو ادا كرتا ہے _

۲ _ معمولى سے عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كے بعد كفار كا اپنے ظلم و ستم كا اعتراف و اقرار _

ولئن مسّتہم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

۳ _ مشكلات اور سختياں انسان كے متنبہ ہونے اور اسكے حق كا اعتراف كرنے كا سبب ہيں _

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

۴ _ عذاب الہى بہت سخت ہے اور اسكے مقابلے ميں انسان بہت ناتوان ہےولئن مسّتهم نفخة من عذاب ربك ليقولنياويلنا

ہٹ دھرم كفار كا معمولى سے عذاب الہى كو محسوس كرنے كے ساتھ ہى حق كا اعتراف كر لينا عذاب الہى كى شدت اور اسكے مقابلے ميں انسان كى ناتوانى كو بيان كررہا ہے_

۵ _ كفار كا عذاب ، ربوبيت الہى كى ايك شان ہے

۳۶۲

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك

۶ _ كفر، شرك اور انبيا(ع) ء كا مذاق اڑانا آشكارا ظلم و ستم ہے_ياويلنا إنّا كنّا ظلمين

تمسخر اڑانے والے مشركين و كفار كااپنے ستمگر ہونے كا اعتراف كرنا كفر و شرك اور انبيا(ع) ء كے تمسخر كے ظلم ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۷ _ ليچڑ قسم كے انسان اور كفار خداتعالى كى قدرت اور عذاب سے اثر ليتے ہيں نہ منطق و استدلال سے_

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا انّا كنّا ظلمين

اقرار:ظلم كا اقرار۲: حق كے اقرار كے عوامل ۳

انبياء(ع) :ان كے مذاق اڑانے كا ظلم ہونا ۶

انسان:اسكى صفات ۷; اس كا عاجز ہونا ۴

خداتعالى :اسكے عذاب كے اثرات ۷; اسكى ربوبيت ۵; اسكے عذاب كى شدت ۴

سختي:اسكے اثرات ۳

شرك:اس كا ظلم ہونا ۶

ظلم:اس سے پشيمانى ۱; اسكے موارد ۶

عذاب:اسكے درجے ۴

كفار:انكا اقرار ۲; انكى پشيمانى ۱; انكى حسرت ۱; انكى صفات۷; انكا عذاب ۵; انكے متنبہ ہونے كے عوامل ۷; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

كفر:اس كا ظلم ۶

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

۳۶۳

آیت ۴۷

( وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئاً وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ )

اور ہم قيامت كے دن انصاف كى ترازو قائم كريں گے اور كسى نفس پر ادنى ظلم نہيں كيا جائے گا اور كسى كا عمل رائي كے دانہ كے برابر بھى ہے تو ہم اسے لے آئيں گے اور ہم سب كا حساب كرنے كے لئے كافى ہيں (۴۷)

۱ _ روز قيامت ،انسانوں كا حساب و كتاب عدل و انصاف كے ميزان پر ہوگا_و نضع الموازين القسط ليوم القى مة

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ليوم القيامة'' ميں ''لام'' ظرفيت كيلئے اور ''في'' يا ''عند'' كے معنى ميں ہو_

۲ _ بندوں كے اعمال كا قسط و عدل كى بنياد پر حساب و كتاب كرنا قيامت كے برپا ہونے كا ايك فلسفہ _و نضع الموازين القسط ليوم القيامة مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ليوم القيامة'' كا لام تعليل كيلئے ہو اس بنياد پر آيت كريمہ كا پيغام يہ ہوگا كہ قيامت كے برپا ہونے كى خاطر ہم قسط و عدل كے ترازو ركھيں گے_

۳ _ روز قيامت اعمال كے تولنے كے آلات (ميزان) متعدد ہيں _و نضع الموازين القسط

موازين (ميزان كى جمع) يعنى ترازو اور اس كا جمع آنا تعدد كى دليل ہے اگر چہ مفسرين كے درميان عدل كے ترازوں كے متعدد ہونے كى كيفيت كے بارے ميں اختلاف ہے _

۴ _ خداتعالى كا دقيق اور عادلانہ حساب و كتاب انسان كے تمام چھوٹے بڑے اعمال كو شامل ہوگا_

و نضع الموازين القسط ليوم القيامة من خردل

''حبّة'' كا معنى ہے گندم، جو يا ان جيسى كسى چيز كا ايك دانہ اور ''خردل'' كا معنى ہے بہت باريك بيج ''مثقال حبة من خردل'' ہر دقيق اور چھوٹى چيز كو بيان كرنے كيلئے ضرب المثل ہے اور اس آيت كريمہ ميں اس سے مراد انسان كے تمام چھوٹے بڑے اعمال ہيں _

۳۶۴

۵ _ روز قيامت، خداتعالى كا حساب و كتاب اس طرح ہوگا كہ كسى پر معمولى سا بھى ظلم نہيں ہوگا_و نضع الموازين ...فلا تظلم نفس شيئا

۶ _ خداتعالى انسان كے سب چھوٹے بڑے اور ہلكے اور بھارى اعمال سے پورى طرح آگاہ ہے_و إن كان مثقال حبة من خردل أتينا به سب اعمال حتى كہ ان ميں سے سب سے چھوٹے عمل كو بھى لانا خداتعالى كى ان اعمال سے دقيق آگاہى كى دليل ہے_

۷ _ روز قيامت انسانوں كے اعمال _حتى كہ ان ميں سے سب سے چھوٹا عمل بھي_ حاضر اور ظاہر ہوں گے_و إن كا ن مثقال حبة من خردل أتينا به مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''اتينابہا'' سے اس كا ظاہرى معنى مراد ہو_

۸ _ دنيا ميں انسان كے اعمال دائمى اور زوال و نابودى سے محفوظ ہيں _أتينابه

''اعمال كو لانے'' كى تعبير بتاتى ہے كہ انسان كا كردار موجود رہتا ہے اور نابود نہيں ہوتا_

۹ _ روز قيامت بندوں كے اعمال كے حساب و كتاب كيلئے خداتعالى كافى ہے اور اسے دوسروں كى مدد كى ضرورت نہيں ہے_و كفى بنا حسبين

۱۰ _ انسان كے سب سے چھوٹے اور سب سے ہلكے عمل كا بھى خدا كى طرف سے محاسبہ اور بازپرس ہوگى اور اسكى جزا دى جائيگي_و إن كا ن مثقال حبة من خردل أتينا بها و كفى بنا حسبين

۱۱ _''عن هشام بن سالم قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' و نضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئاً'' قال: هم الا نبياء و الا وصياء (ع) ; ہشام بن سالم سے منقول كہ ہے كہ وہ كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان ''و نضع الموازين القسط ليوم القيامة '' كے بارے ميں پوچھا تو آپ(ع) نے فرمايا موازين قسط انبيا(ع) ء اوراصيا(ع) ء ہيں(۱)

ائمہ (ع) :ان كا نقش و كردار ۱۱

اسما و صفات:صفات جلال ۵

انبياء:

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۳۱ح ۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۳۰ ح ۷۷_

۳۶۵

ان كا نقش و كردار ۱۱

حساب و كتاب:اسكے آلات كا متعدد ہونا ۳; اس ميں عدل و انصاف۱; اخروى حساب و كتاب ميں عدل و انصاف ۲، ۴، ۵; اخروى حساب و كتاب كا معيار۱۱

خداتعالى :اسكى امداد ۹; اسكى بے نيازي۹; يہ اور ظلم ۵; اسكے حساب و كتاب كا دقيق ہونا ۱۰; اس كا عدلظاہر ہونا ۷; اس كا فلسفہ ۲; اس مين ميزان ۱، ۱۱ و انصاف۴; اسكے علم كى وسعت ۶; اسكے حساب و كتاب كى خصوصيات ۴،۵،۹،۱۰

روايت ۱۱

عمل:اس كا باقى رہنا۸; اس كى پاداش ۱۰; اس كا مجسم ہونا ۷; اسكى سزا ۱۰

قيامت:اس ميں ميزان كا متعدد ہونا ۳; اس ميں حقائق ك

آیت ۴۸

( وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاء وَذِكْراً لِّلْمُتَّقِينَ )

اور ہم نے موسى اور ہارون كو حق و باطل ميں فرق كرنے والى وہ كتاب عطا كى ہے جو ہدايت كى روشنى اور ان صاحبان تقوى كے لئے ياد الہى كا ذريعہ ہے (۴۸)

۱ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) مشتركہ رسالت اور آسمانى كتاب ركھنے والے دو پيغمبر _

ولقد أيتنا موسى و هارون الفرقان و ضيائً و ذكر ا

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الفرقان'' سے مراد آسمانى كتاب تورات ہو اس بناپر حضرت موسي(ع) كے ہمراہ حضرت ہارون(ع) كو آسمانى كتاب دينا اس چيز كو بيان كرتا ہے كہ حضرت ہارون(ع) بھي

حضرت موسي(ع) كى طرح نبوت اور آسمانى كتاب كے وصول كرنے ميں برابر كے شريك تھے_

۲ _ تورات، حق و باطل كو جدا كرنے والى ہے_إيتنا موسى و هارون الفرقان و ضيائً و ذكرا

كلمہ ''فرقان'' حق كو باطل سے جدا كرنے والى ہر چيز پر بولا جاتا ہے آسمانى كتاب تورات كى ''فرقان'' كے ساتھ توصيف مذكورہ مطلب كو بيان كر رہى ہے_

۳۶۶

۳ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) ، خداتعالى كے لطف و كرم كے سائے ميں حق و باطل كى تشخيص كى قدرت ركھتے تھے_ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان

''فرقان'' كے لغوى معنى (حق و باطل كو جدا كرنے والى شے) كو ديكھتے ہوئے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے _

۴ _ انسان حق و باطل كى تشخيص كيلئے خداتعالى كى رہنمائي كا محتاج ہے اور اسكے بغير اپنى تشخيص ميں غلطى سے دوچار ہوجائيگا_ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان

چونكہ انبيا(ع) ء اپنى تشخيص كى قدرت خداتعالى سے حاصل كرتے ہيں تو ديگر انسان اسكے بدرجہ ا ولى نيازمند ہيں _

۵ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) خداتعالى كى حجت اور برہان كے حامل دو پيغمبر_

ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان فرقان كا ايك لغوى معنى حجت اور برہان ہے (لسان العرب)

۶ _ تورات، متقين كيلئے زندگى ميں روشنى بخش او رانہيں ہدايت اور دينى ضروريات كے راستے كى ياد دہانى كرانے والى ہے_و ضيائً و ذكراً للمتقين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''فرقان'' سے مراد تورات ہو اور ''ضيائ'' اور ''ذكراً'' اسكى صفتيں بيان كررہے ہوں _ قابل ذكر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى ياد اور ياددہانى كرانا ہے اور اكثر مفسرين كے مطابق اس سے مراد دينى ضروريات اور ہدايت سے متعلق مسائل كى ياددہانى ہے_

۷ _ تقوا، ہدايت الہى اور آسمانى كتابوں سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_ذكراً للمتقين

۸ _ متقى لوگ زندگى ميں خداتعالى كى خصوصى ہدايت، نور اور روشنى سے بہرہ مند ہيں _و ضيائً و ذكراً للمتقين

۹ _ تقوا اعلى اقدار ميں سے ہے اور متقين تمام آسمانى كتابوں اور توحيدى اديان ميں خاص فضيلت اور بزرگى ركھتے ہيں _

و ضيائً و ذكراً للمتقين چونكہ متقين كو موسي(ع) ا ور ہارون (ع) كى آسمانى كتاب كے نزول اور نورو ہدايت الہى كے وصول كا ہدف اور مقصد قرار ديا گيا ہے اور قرآن نے بھى اپنى تعليمات كا ايك محور مسئلہ تقوا كو قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقوا تمام توحيدى اديان ميں خصوصى مقام و مرتبے كا حامل رہا ہے_

انسان:اسكى معنوى ضروريات ۴/آسمانى كتابيں :انكى ہدايت ۷

باطل:اسكى تشخيص ۳; اسكى تشخيص كے شرائط ۴

۳۶۷

تقوا:اسكے اثرات ۷; اسكى قدر و قيمت ۹

تورات:اس كا روشنى بخش ہونا ۳; اس كا كردار ۲; اس كا ہدايت كرنے والا ہونا ۶

حق :اسكى تشخيص ۳; اسكى تشخيص كے شرائط ۴; حق و باطل كو جدا كرنے والا ۲

خداتعالى :اسكى تعليمات كى اہميت ۴; اسكى ہدايات ۷، ۸

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۳

متقين:ان كے فضائل ۸; آسمانى كتابوں ميں ان كے فضائل ۸; انكى ہدايت ۶، ۸

موسي(ع) :انكى بصيرت ۳; انكى حجت ۵; انكى رسالت كا شريك ۱; ان كے فضائل ۳; انكى آسمانى كتاب۱; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۵; انكى نبوت ۱، ۵

ہدايت يافتہ لوگ :۸

ہارون(ع) :ان كى بصيرت ۳; انكى حجت ۵; ان كے فضائل ۳; انكى آسمانى كتاب ۱; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۵; انكى نبوت ۱، ۵

ہدايت:اسكے شرائط ۷

آیت ۴۹

( الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَهُم مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ )

جواز غيب اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ہيں اور قيامت كے خوف سے لرزاں ہيں (۴۹)

۱ _ لوگوں كى نظروں سے دور اور خلوت ميں خوف خدا متقين كى خصوصيات ميں سے ہے_

و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بالغيب''

''يخشون'' كے فاعل كيلئے حال ہو_

۲ _ متقين باوجود اس كے كہ ان كا پروردگار انكى نظروں سے غائب اور پنہان ہے ہميشہ اس كے خوف اور خشيت كى حالت ميں رہتے ہيں _و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب

مذكورہ مطلب اس احتمال پر مبتنى ہے كہ ''بالغيب'' ،''يخشون'' كے مفعول ''ربہم'' كيلئے حال ہو يعنى اس حال ميں كہ پروردگار متقين كى نظروں سے غائب ہے وہ اس سے ڈرتے ہيں _

۳۶۸

۳ _ خلوت ميں پروردگار سے آگاہا نہ اور تعظيم كے ہمراہ خوف و خشيت پسنديدہ اوصاف اور اقدار ميں سے ہے_و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب بعض اہل لغت كہتے ہيں ''خشيت'' كا معنى ہے تعظيم كے ساتھ آميختہ خوف اور يہ خوف عام طور پر اس چيز سے آگاہى كے ساتھ ہوتا ہے كہ جس سے انسان ڈرتا ہے (مفردات راغب ...) قابل ذكر ہے كہ يہ معنى آيت كريمہ كے ساتھ مناسب ہے كيونكہ خداتعالى تعظيم كے لائق ہے اور متقين بھى خداتعالى كے مقام سے آگاہى كے ساتھ اس سے ڈرتے ہيں _

۴ _ قيامت كو اہميت دينا اور اس سے خوف و پريشانى متقين كى خصوصيات ميں سے ہے_و ذكراً للمتقين ...و هم من الساعة مشفقون بہت سارے مفسرين اور اہل لغت كے مطابق لفظ ''اشفاق'' كا معنى ہے اعتنا اور اہتمام كے ہمراہ خوف (مفردات راغب)

۵ _ ساعت، قيامت كے ناموں ميں سے ہے_و هم من الساعة مشفقون

۶ _ قيامت انسانوں كيلئے ايك پر خطر اور خوفناك حقيقت ہے_و هم من الساعة مشفقون

''اشقاق'' كا معنى ہے توجہ جو خوف كے ہمراہ ہو اور جب يہ ''من'' كے ساتھ متعدى ہو تو اس ميں خوف كا معنى زيادہ ہوگا (لسان العرب)_

۷ _خوف خدا اور روز قيامت كى پريشانى انسان كے وحى اور ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كرتے ہيں _و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب و هم من الساعة مشفقون

خداتعالى نے پہلى آيت ميں متقين كو اپنے نور اور ہدايت سے بہرہ مند ہونے كے لائق قرار ديا ہے اور اس آيت ميں ان كے اوصاف بيان كئے ہيں ان دو آيتوں كے باہمى ارتباط سے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

اخلاق:اخلاقى فضائل ۳

خوف:قيامت كے خوف كى اہميت ۴

خداتعالى :

۳۶۹

اس سے خشيت كے اثرات۷; اس سے خشيت ۱، ۲خشيت:پنہانى خشيت كى قدر و قيمت ۳; پنہانى خشيت ۱الساعة :۵

قيامت:اس كے بارے ميں پريشانى كے اثرات ۷; اس كا خوفناك ہونا ۶; اسكى حقيقت۶; اسكے نام ۵

متقين:انكا خشيت ۱، ۲; انكى خصوصيات ۱، ۴

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۷

آیت ۵۰

( وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ )

اور يہ قرآن ايك مبارك ذكر ہے جسے ہم نے نازل كيا ہے تو كيا تم لوگ اس كا بھى انكار كرنے والے ہو (۵۰)

۱ _ قرآن انسان كيلئے كثير خير و بركت اور بہت سارے اور دائمى منافع كا سرچشمہ ہے_و هذا ذكر مبارك أنزلناه

''ہذا'' كا مشار اليہ قرآن ہے كہ جو اذہان ميں موجود ہے اور ''البركة'' كا مطلب ہے خير كثير و ثابت اور فراوان نفع_ قرآن كى مبارك كے ساتھ توصيف اس معنى كو بيان كر رہى ہے كہ قرآن بشركيلئے كثير خير اور منافع كا سرچشمہ ہے_

۲ _ قرآن، انسان كى بيدارى اور اس كى فراموش شدہ معلومات كى ياد دہانى كا عامل اور اسكى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے والا ہے_و هذا ذكر معنى كے لحاظ سے ''ذكر'' حفظ كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كى شے كا حفظ اسكے حاصل كرنے اور جاننے كے اعتبار سے ہوتا ہے اور شے كا ذكر اسكے ياد كرنے اور ذہن ميں حاضر كرنے كے لحاظ سے ہوتا ہے _ (مفردت راغب) پس قرآن كى توصيف ''ذكر'' كے ساتھ اس لحاظ سے ہے كہ قرآن انسان كے فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كراتا ہے اور اس غافل انسان كى فطرت كو بيدار كرتا ہے جو اپنے فطرى امور اور خداداد معلومات سے غافل ہوچكا ہوتا ہے_

۳ _ قرآن ايسى حقيقت ہے جو خداتعالى كى جانب سے نازل ہوئي ہے_هذا ذكر مبارك أنزلناه

۳۷۰

۴ _ قرآن كريم كى تورات كى نسبت برترى اور برجستگي_أيتنا موسي ذكراً و هذا ذكر مبارك

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ خداتعالى نے تورات كے بارے ميں فقط لفظ ''ذكر'' استعمال كيا ہے جبكہ قرآن كے بارے ميں ''مبارك'' كى صفت كا بھى اضافہ كيا ہے_

۵ _ خداتعالى كى طرف سے كفار كے قرآن كا انكار كرنے اور اسكے حق كا پاس نہ كرنے كى وجہ سے انكى مذمت_

أفأنتم له منكرون

۶ _ قرآن كريم اس لحاظ سے كہ يہ ايك ايسى كتاب ہے جو بيدار كرنے و الى اور خير و بركت كا سرچشمہ ہے قابل شك و انكار نہيں ہے _هذا ذكر مبارك أنزلنه أفأنتم له منكرون

خداتعالى نے قرآن كريم كو ايسى كتاب كے طور پر متعارف كرايا ہے جو بيدار كرنے والى (ذكر) اور خير و بركت كا سرچشمہ (مبارك) ہے اور پھر مشركين كى طرف سے اس حقيقت كے انكار كو مورد سرزنش قرار ديا ہے يہ سرزنش ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

بركت:اس كا سرچشمہ ۱، ۶

تورات:اسكى فضيلت ۴

خداتعالى :اسكى طرف سے مذمت ۵

خير:اس كا سرچشمہ ۱، ۶

ذكر:اسكے عوامل ۲

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۲

قرآن كريم:اسكى حقانيت كے دلائل ۶; اسے جھٹلانے والوں كى مذمت ۵; اسكى فضيلت ۱، ۴، ۶ اس كا نزول ۳; اس كا كردار ۲; اس كا وحى ہونا ۳; اس كا ہادى ہونا ۲، ۶

كفار:انكى مذمت ۵

۳۷۱

آیت ۵۱

( وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ )

اور ہم نے ابراہيم كو اس سے پہلے ہى عقل سليم عطا كردى تھى اور ہم ان كى حالت سے باخبر تھے (۵۱)

۱ _ حضرت ابراہيم(ع) ،عنايات الہى كے سائے ميں اعلى رشد و كمال كے حامل تھے_و لقد أتينا إبراهيم رشده

۲ _ انسانوں ميں رشد و ترقى اور تكامل كيلئے مختلف استعداد اور صلاحتيں ہيں _و لقد أتينا إبراهيم رشده

چونكہ خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو انكا مخصوص اور انكے متناسب رشد عطا كيا ہے معلوم ہوتا ہے كہ ہر انسان اپنى مخصوص استعداد اور قابليت ركھتا ہے كہ جو دوسروں سے مختلف ہے_

۳ _ ابراہيم (ع) كے بعد موسي(ع) و ہارون(ع) ايسے دو پيغمبر تھے جو رشد يافتہ اور كمال سے بہرہ مند تھے_

آتينا موسى و هارون الفرقان و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''من قبل'' سے مراد موسي(ع) ا ور ہارون(ع) سے پہلے كا زمانہ ہو اس كا مطلب يہ ہے كہ يہ دو پيغمبر بھى ايسے رشد سے بہرہ مند تھے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) عنايات الہى كے سائے ميں نبوت سے پہلے اور بچپن ہى سے خاص قسم كے رشد و كمالات سے بہرہ مند تھے_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من قبل'' سے مراد بلوغ يا نبوت سے پہلے ہو_

۵ _ سب انسان حتى انبيا(ع) ء بھى رشد و كمال ميں عنايات الہى كے محتاج ہيں _و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

۶ _ خداتعالى پہلے سے ہى حضرت ابراہيم (ع) كى لياقت اور صلاحيت سے آگاہ تھا_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل و كنا به علمين

۳۷۲

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ''و كنا به علمين'' حاليہ ہو اور ''بہ'' كى ضمير ابراہيم(ع) كى طرف پلٹ رہى ہو_

اس بنياد پر آيت كريمہ كا پيغام اس آيت ( الله أعلم حيث يجعل رسالتہ ...)( انعام (۶ ) ۱۲۴) جيسا ہوگا_

۷ _ حضرت ابراہيم(ع) كاعنايات الہى كے سائے ميں خصوصى رشد و كمال سے بہرہ مند ہونا ان كى اپنى لياقت اور صلاحيت كى بناپر تھا_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

''رشد'' كى ضمير كى طرف اضافت، مصدر كى اپنے مفعول كى طرف اضافت ہے نيز يہ اضافت لاميہ اور مفيد اختصاص ہے يعنى ہم نے ابراہيم(ع) كو ايسا رشد عطا كيا كہ جو ان كے لائق اور انكے بلند مقام و مرتبے سے مخصوص تھا_

۸ _ خداتعالى كا انسان پر لطف و كرم اسكى اپنى لياقت اور صلاحيت كى بنياد پر ہے_و لقد أتينا إبراهيم رشده و كنا به علمين مذكورہ مطلب حضرت ابراہيم(ع) سے القاء خصوصيت كر كے حاصل كيا جاسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :ان كى صلاحيت ۶، ۷; ان كے فضائل۱; انكا كمال ۱، ۴; انكا بچپن ۴; ان كے كمال كا سرچشمہ ۶،۷

انبياء(ع) :ابراہيم (ع) كے بعد كے انبيا(ع) ۳

انسان:اسكى استعداد كا مختلف ہونا۲; اسكے كمال كے مختلف درجے ۲; اسكى معنوى ضروريات ۵

صلاحيت :اس كا كردار ۸

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۸; اس كا علم ۶

كمال:اسكے عوامل ۵

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۴

موسي(ع) (ع) :ان كے فضائل ۳; انكا كمال ۳

نيازمندي:خداتعالى كے لطف و كرم كى نيازمندى ۵

ہارون(ع) :ان كے فضائل ۳; ان كا كمال۳

۳۷۳

آیت ۵۲

( إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ )

جب انھوں نے اپنے مربى باپ اور اپنى قوم سے كہا كہ يہ مورتياں كيا ہيں جن كے گرد تم حلقہ باندھے ہوئے ہو (۵۲)

۱ _ حضرت ابراہيم(ع) نے اپنے باپ اور اپنى قوم كى موجودگى ميں بت پرستى پر سواليہ نشان لگا يا اور آشكار اسكى مخالفت كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

''ما ہذہ التماثيل ...'' ميں استفہام بتوں كى حقيقت كے بارے ميں سوال ہے نہ ان كے ناموں كے بارے ميں _ چونكہ حضرت ابراہيم(ع) ان كى حقيقت سے آگاہ تھے اور انہيں اس كے بارے ميں سوال كرنے كى ضرورت نہيں تھى پس ان كا استفہام بت پرستى پر سواليہ نشان لگانے، اسكى مذمت كرنے اور ايك طرح سے اسكى مخالفت كے اظہار كيلئے تھا_

۲ _ حضرت ابراہيم(ع) نے شدت كے ساتھ بتوں اور بت پرستى كى مذمت كى اور اسكى وجہ سے اپنے باپ اور اپنى قوم كى مذمت كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

اس اشارہ قريب (ہذہ) كے ذريعے بتوں كى طرف اشارہ كرنے نيز تماثيل (تصوير يں اور بے جان مجسمے) كى تعبير حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بتوں اور بت پرستى كى تحقير كو بيان كررہے ہيں _قابل ذكر ہے كہ قرينہ مقاميہ كى بناپر ''ماہذہ'' ميں استفہام توبيخى ہے_

۳ _ حضرت ابراہيم(ع) نے اپنے باپ اور اپنى قوم سے بے جان مجسموں كے احترام اور ان كے سامنے عبادت كے متعلق وضاحت طلب كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون

ابراہيم (ع) كى قوم كے جواب سے كہ انہوں نے اپنے كام كو اپنے آباؤ اجداد كى پيروى كے وجہ سے قرار ديا (قالوا وجدنا آبائنا لها عابدين )_ معلوم ہوتا ہے كہ ابراہيم (ع) كا سوال ان كى طرف سے بتوں كى تقديس اور انكے سامنے عبادت كى علت كے بارے ميں تھا_

۴ _ بت پرستى ،قوم ابراہيم(ع) كا دين و مذہب تھا_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

۵ _ شرك آلود اور خرافات پر مبنى افكار كے ساتھ مقابلہ ،ابراہيم (ع) كے رشد و كمال كا عملى مظاہرہ تھا_

و لقد أتينا إبراهيم رشده إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

۳۷۴

''إذ'' ظرف اور ''آتينا'' كے متعلق ہے يعنى ابراہيم كو اس وقت رشد عطا ہوا جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنى قوم سے كہا

۶ _ حضرت ابراہيم(ع) كى قوم كى طرح ان كے والد بھى بے جان مجسموں اور بتوں كى تقديس كرتے اور انكى عبادت كرتے_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل التى انتم لها عكفون

۷ _ باپ كے منحرف عقائد كى مخالفت حضرت ابراہيم(ع) كے مقابلہ كا آغازإذ قال لأبيه و قومه

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''أبيہ'' كا لفظوں ميں ''قومہ'' پر مقدم ہونا تقدم زمانى پر دلالت ركھتا ہو_

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كے والد كا اپنے معاشرے كے عقائد كو جہت دينے ميں ممتاز اور مشخص كردار _أذ قال لأبيه و قومه خاص طور پر لفظ ''أب'' كو ذكر كرنے سے احتمالى طور پر اس نكتے كا استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كے والد كا معاشرے كے اعتقادى تمايلات ميں بنيادى كردار تھا_

۹ _ قريب كے رشتہ داروں كى اصلاح اور انكى ہدايت معاشرے كے ديگر افراد كى نسبت اولويت ركھتى ہے_

إذ قال لأبيه و قومه

۱۰ _ مجسموں اور نقوش كى تقديس اور انكى دائمى عبادت حضرت ابراہيم (ع) كى رسالت كے آغاز ميں لوگوں كا دين _

ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون ''عكوف'' كا معنى ہے از روئے تعظم و احترام كسى چيز كى طرف دائمى توجہ_ اور اس آيت كريمہ ميں اس سے مراد بتوں كى عبادت اور تقديس ہے قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت كا ذيل كہ جو حضرت ابراہيم(ع) كے سوال كا جواب ہے ( آبائنا لہا عابدين ...) اسى معنى كا مويد ہے_

۱۱ _ قوم ابراہيم(ع) كا شرك، بے جان مجسموں اور تصويروں كى پرستش كى صورت ميں تھا_ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون (تماثيل كے مفرد) تمثال كا معنى ہے مصور شے اور نقش كى ہوئي تصويريں (مفردات راغب) اسكے روشن مصاديق ميں سے ايك وہ بے جان مجسمے ہيں جنہيں بت پرست لوگ مختلف شكلوں ميں بناتے تھے_

آزر:

۳۷۵

اسكى بت پرستى ۲، ۶; اس سے سوال ۳; اسكى مذمت ۲; اسكے ساتھ مقابلہ ۷; اسكى اجتماعى حيثيت ۸

ابراہيم(ع) :انكا سوال ۳; انكى تاريخ۷; انكى طرف سے مذمت ۲; انكى شرك دشمنى ۱، ۵،۷; انكا قصہ ۱، ۲، ۳; انكا مقابلہ ۷; ان كے كمال كى نشانياں ۵

بت پرستي:اسكے بارے ميں سوال ۱، ۳; اسكى تحقير ۳

خرافات:ان كے خلاف مقابلہ ۵

رشتہ دار:انكى ہدايت كى اہميت ۹

شرك:اسكے خلاف مقابلہ۷

قوم ابراہيم(ع) :اسكى بت پرستى ۱، ۲، ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; اس سے سوال ۳; اسكى تاريخ ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; اسكى مذمت ۲; اس كا شرك ۱۱

ہدايت:اس ميں اولويت ۹

آیت ۵۳

( قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءنَا لَهَا عَابِدِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم نے اپنے باپ داد كو بھى انھيں كى عبادت كرتے ہوئے ديكھا ہے (۵۳)

۱ _ آباؤ اجداد اور گذشتگان كى بت پرستي، قوم ابراہيم(ع) كى طرف سے اپنے شرك اور بت پرستى كا بہانہ _

قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

۲ _ قوم ابراہيم(ع) كى بت پرستى اور شرك كى كوئي منطقى دليل اور برہان نہيں تھى اور انہيں فقط اپنے آباؤ اجداد كى اندھى تقليد كا سہارا تھا_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

چونكہ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بت پرستى كے سوال كے جواب ميں لوگوں نے صرف آباؤ اجداد كى پيروى كا تذكرہ كيا تو اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۳ _ دينى مبانى اور اعتقادات ميں آباؤ اجداد اور گذشتگان كى اندھى تقليد اور بغير دليل كے پيروى ناپسنديدہ اور قابل مذمت امر ہے_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين بعد والى آيت كہ جس ميں حضرت ابراہيم (ع) نے اپنى

۳۷۶

قوم كو بت پرستى كى وجہ سے گمراہ قرار ديا ہے قرينہ ہے كہ يہ آيت كريمہ آباؤاجداد كى تقليد كو رد كرنے اور اسكى مذمت كرنے كے درپے ہے_

۴ _ اپنے دينى اصولوں اور اعتقادات كو قانع كنندہ دليل و برہان پر استوار كرنا ضرورى ہے_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ ان لوگوں كى مذمت كر رہى ہے كہ جنہوں نے اپنے اعتقادات كى بنياد اپنے گذشتگان كى اندھى تقليد كر ركھى تھى اور شرك كو قبول كرنے كى علت كے بارے ميں سوال كے جواب ميں انہوں نے كوئي دليل ذكر نہ كى _

۵ _ شرك و بت پرستى قوم ابراہيم(ع) كے درميان رائج اور لمبى تاريخ ركھتى تھي_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

۶ _ گذشتگان كے عقائد پر تعصب كرنا اور آباؤاجداد كى ناآگاہانہ طور پر پيروى كرنا انسان كے انحراف اور گمراہى كا عامل ہے_ما هذه التماثيل قالوا وجدنا أباء نا لها عبدين

۷ _ انسان كا اپنے خاندان اورمعاشرے سے اثر قبول كرنا_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

انسان:اس كا اثر قبول كرنا ۷

بت پرستي:اسكى تاريخ ۵

تعصب:اسكے اثرات ۶

تقليد:اندھى تقليد كے اثرات ۶; آباؤ اجداد كى تقليد ۳، ۶; اندھى تقليد ۲; اندھى تقليد كا ناپسنديدہ ہونا ۳

خاندان:اس كا كردار ۷

شرك:اسكى تاريخ ۵

عقيدہ:اس ميں برہان كى اہميت ۴; اس ميں تقليد ۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى بت پرستى كے اثرات ۱; اسكے آباؤ اجداد كى بت پرستى ۲; اسكى بت پرستى ۵; اسكى بت پرستى كا غيرمنطقى ہونا۲; اسكے شرك كا غير منطقى ہونا۲; اسكى تاريخ ۱، ۵; اسكى تقليد ۱، ۲; اس كا شرك ۵; اسكى بت پرستى كے عوامل ۱

گمراہي:اسكے عوامل ۶/معاشرہ:اس كا كردار ۷

۳۷۷

آیت ۵۴

( قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ )

ابراہيم نے كہا كہ يقينا تم اور تمھارے باپ دادا سب كھلى ہوئي گمراہى ميں ہو (۵۴)

۱ _ قوم ابراہيم(ع) اور اسكے آباؤ اجداد واضح گمراہى ميں تھے_قال لقد كنتم انتم و أباء كم فى ضلل مبين

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے اپنے باپ اور اپنى قوم كى اندھى تقليد اور شرك كى واضح اور قاطع مخالفت_

إذ قال لأبيه و قومه لقد كنتم أنتم و آبائكم فى ضلل مبين

۳ _ بت پرستى اور شرك واضح ضلالت اور گمراہى ہے_ما هذه التماثيل أنتم و أباؤكم فى ضلل مبين

۴ _ كسى نظريے كے پيروكاروں كى كثرت اور اسكى لمبى تاريخ اسكى حقانيت كى دليل نہيں ہے _قالوا وجدنا آباء نا انتم وآباؤكم فى ضلل مبين مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم(ع) كے اعتراض كے جواب ميں بت پرستى والے عقيدے كى لمبى تاريخ اور اسكے پيروكاروں كى كثرت كا تذكرہ كيا ليكن حضرت ابراہيم (ع) نے خود انہيں اور ان كے آباؤ اجداد كو گمراہ قرار ديكر ايسے استدلال كو رد كرديا_

آزر:اسكى تقليد ۲

آبادي:اس كا كردار ۴

ابراہيم (ع) :انكى شرك دشمنى ۲; انكا قصہ ۲

بت پرستي:اسكى حقيقت ۳

تاريخ:اس كا كردار ۴

تقليد:

۳۷۸

اسكے ساتھ مقابلہ۲

شرك:اسكى حقيقت ۳

عقيدہ:اسكى حقانيت كے دلائل ۴

قوم ابراہيم(ع) :اسكى تاريخ ۱; اسكى تقليد ۲; اسكے آباؤ اجداد كى گمراہى ۱; اسكى گمراہى ۱

گمراہي:اسكے موارد ۳

آیت ۵۵

( قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ آپ كوئي حق بات لے كر آئے ہيں يا خالى كھيل تماشہ ہى كرنے والے ہيں (۵۵)

۱ _ قوم ابراہيم، (ع) شرك و بت پرستى كى نفى ميں حضرت ابراہيم (ع) كے سنجيدہ ہونے اور انكے كلام كے حق ہونے ميں شك و ترديد كا شكار تھى اور اسے بعيد سمجھتى تھي_قالوا أجئتنا بالحق ا م أنت من اللعّبين

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے توحيد كى دعوت اور شرك و بت پرستى كو رد كرنا بت پرستوں كے اپنے عقيدے ميں شك كا موجب بنا_ما هذه التماثيل أنتم و أباؤكم فى ضلل مبين قالوا أجئتنا بالحق ا م أنت من اللعّبين

۳ _ بت پرستى قوم ابراہيم(ع) كى جان و روح ميں راسخ ہوچكى تھي_قالوا أجئتنا بالحق

بت پرستوں كا حضرت ابراہيم(ع) كى دعوت كو سنجيدہ نہ سمجھنا اور توحيد كى دعوت پر تعجب كرنا مذكورہ مطلب پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ حق كى جستجو اور حقيقت كو قبول كرنا، انسانى فطرت ميں داخل ہے_قالوا أجئتنا بالحق

مشركين اور بت حق كے قبول كرنے كو اصلى فرضيہ سمجھتے تھے اور ان كا شك صرف حضرت ابراہيم(ع) كى دعوت كے حق ہونے ميں تھا اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۵ _ بت پرست حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسا شخص سمجھتے تھے جو ان كے عقيدے كے ساتھ كھيل رہا تھا اور اس نے اس كا مذاق بنا ركھا تھا_أجئتنا بالحق ا م انت من اللعّبين

۳۷۹

ابراہيم (ع) :ان كى دعوت كے اثرات ۲; انكى شرك دشمنى كے اثرات ۲; يہ اور كھيل ۵; ان كى حقانيت ميں شك ۱; انكا قصہ۱

انسان:اسكى فطرت ۴

توحيد:اسكى دعوت۲

حق:حق پرستى كا فطرى ہونا۴

قوم ابراہيم(ع) :اسكے عقيد كے ساتھ كھيلنا ۵; اسكى بت پرستى ۳; اس كى سوچ ۱، ۵; اسكى تاريخ ۱، ۳، ۵; اسكے شك كا پيش خيمہ ۲; اس كا شك ۱

آیت ۵۶

( قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ )

ابراہيم نے كہا كہ تمھارا واقعى رب وہى ہے جو آسمان و زمين كا رب ہے اور اسى نے ان سب كو پيدا كيا ہے اور ميں اسى بات كے گواہوں ميں سے ايك گواہ ہوں (۵۶)

۱ _ عالم ہستى (آسمان، زمين اور انسان) خداتعالى كى ربوبيت كے تحت ہے_بل ربكم رب السموات و الأرض

۲ _ انسان اور كائنات كا رب ايك ہے_بل ربكم رب السموات و الأرض

۳ _ خداتعالى عالم مادى (آسمان، زمين اور انسان) كا خالق ہے_ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۴ _ قوم ابراہيم(ع) كا شرك كائنات كى ربوبيت اور تدبير ميں تھا نہ اسكى خالقيت ميں _

قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بت پرستوں كے ساتھ مقابلہ ، مقابلہ استدلال و برہان پر مبتنى تھا_

قال ما هذه التماثيل قال بل ربكم فطرهن

۶ _ عالم طبيعت ميں متعدد آسمان ہيں _السموات

۷ _ طبيعت ايك نئي اور جديد مخلوق ہے كہ جسے خداتعالى نے كسى نمونے سے لئے بغير خلق كيا ہے_

رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

۲ _ خدائے يكتا كى پرستش ايسا راستہ ہے جو خدا كى طرف جاتا ہے اور لقاء الله پر جاكر ختم ہوتا ہے_و يصدون عن سبيل الله ''سبيل الله '' يعنى راہ خدا_ اور راہ خدا سے مراد ہوسكتا ہے وہ راہ ہو كہ جسے خداتعالى نے اہل ايمان كيلئے تعيين اور ترسيم كيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد وہ راستہ ہو جو خدا كى طرف جاتا ہے اور اس تك پہنچتا ہے_

مذكورہ مطلب دوسرے معنى كى بنياد پر ہے_

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كى طرف سے مسلمانوں كو مسجد الحرام كى زيارت اور عبادت خدا كى رسومات انجام دينے سے ممانعت_إن الذين كفروا و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام (''يصدون'' كے مصدر) ''صدّ'' كا معنى ہے روكنا اور منع كرنا اور ''يصدون'' كا مفعول محذوف ہے اور يہ در اصل يوں ہے ''يصدون الذين آمنوا )

۴ _ بارگاہ خداوندى ميں كعبہ بڑى عزت اور تقدس كا حامل ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام

لوگوں كو مسجد الحرام كى زيارت سے منع كرنے كى وجہ سے كفار كو دوزخ كے عذاب كے دھمكى مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۵ _ حجاج كو مسجد الحرام ميں داخل ہونے سے منع كرنا لوگوں كو راہ خدا سے روكنے كا واضح نمونہ ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام ''سبيل الله '' سے مراد_ جيسا كہ پہلے بتاچكے ہيں _ خدائے يكتا كى عبادت ہے_ اس چيز كى بناپر اور اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ مؤمنين كى طرف سے مسجدالحرام كى زيارت اور اسكے خاص اعمال (طواف، سعى و غيرہ) كو انجام دينا عبادت خدا كے مصداق شمار ہوتے ہيں اسے ''سبيل الله '' كے بعد ذكر كرنا ہوسكتا ہے اس معنى ميں ہوكہ زائرين كو مسجدالحرام ميں داخل ہونے سے روكنا راہ خدا سے روكنے كے واضح مصاديق ميں سے ہے_

۶ _ مسجدالحرام سب خداپرستوں كيلئے ہے اور كسى خاص گروہ كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ لوگوں كو اسكى زيارت سے محروم كرے_الذى جعلنا للناس

۷ _ سب مسلمان (اہل مكہ اور ديگر اطراف اور ممالك كے) مسجدالحرام كے سلسلے ميں مساوى حق ركھتے ہيں _الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد ''سوائ'' بمعنى ''مستوي'' اور ''الناس'' كيلئے حال ہے اور ''عاكف'' كا معنى ہے مقيم (يعنى اہل مكہ) ''بادي'' يعنى اہل باديہ اور اس سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو مكہ سے باہر ديگر سرزمينوں ميں رہتے ہيں يعنى ہم نے مسجدالحرام كو سب لوگوں كيلئے خلق

۵۰۱

كيا ہے _ اور اس سے بہرہ مند ہونے ميں مكى اور ديگر سرزمين كے لوگوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے ا ور كسى كو دوسرے پر برترى حاصل نہيں ہے_

۸ _ حجاج كو مكہ ميں داخل ہونے سے منع كرنا ان كے اس حق كى نسبت تجاوز ہے كہ جو خدانے ان كيلئے قرار ديا ہے_

و يصدون الذى جعلنه للناس

۹ _ اہل مكہ دوسروں كو مسجدالحرام كى زيارت سے روكنے كا حق نہيں ركھتے_الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد

۱۰ _ حج اور مسجدالحرام كى زيارت جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان رائج رسومات_سواء العاكف فيه والباد

۱۱ _ ''مسجدالحرام'' جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان ايك رائج اور جانا پہچانانام_و المسجد الحرام الذى جعلنه للناس

۱۲ _ مسجدالحرام كے احاطے ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كا ممنوع ہونا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم ''الحاد'' كا معنى ہے انحراف اور كج روى ''الحاد'' اور ''ظلم'' كے نكرہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ مسجدالحرام اور اسكى حدود ميں لوگوں كا مكمل طور پر امن اور سكون ميں ہونا ضرورى ہے اور اس سلسلے ميں ذرہ برابر انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز سے چشم پوشى نہيں كى جائيگي_

۱۳ _ ضرورى ہے كہ مكہ (مسجدالحرام اور اس كى حدود) سب لوگوں كيلئے امن كى جگہ ہو_سوا العاكف فيه والباد

۱۴ _ مسجدالحرام كى حدود ميں حق سے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز بہت بڑا گناہ ہے اور كج روى كرنے والے ا ور ستم گر لوگ سخت دنيوى سزا كے منتظر رہيں _و من يردفيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''عذاب اليم'' سے مراد دنيوى سزا بھى ہو_

۱۵ _ دوزخ كا دردناك عذاب، مسجد الحرام كى حدود ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

۱۶ _ حضرت علي(ع) سے روايت ہے كہ رسول خدا(ص) نے اہل مكہ كو اپنے گھر كو كرائے پر دينے اور انہيں دروازے

۵۰۲

لگانے سے منع كرتے ہوئے فرمايا''سوآء العاكف فيه و الباد'' (۱)

۱۷ _ ابوالصباح كنانى كہتے ہيں ميں نے خداتعالى كے فرمان ''و من يرد فيہ إےلحاد بظلم نذقہ من عذاب أليم'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا ہر ظلم جوكوئي شخص مكہ ميں اپنے اوپر كرے چاہے وہ چورى ہو يا كسى دوسرے پر ظلم يا ہر قسم كا ستم ميں اسے الحاد اور انحراف سمجھتا ہوں(۲)

۱۸ _ امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان''و من يرد فيه إيلحاد بظلم'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا جو شخص مكہ ميں غيرخدا كى پرستش كرے يا اولياء خدا كے غير كى ولايت كو قبول كرے تو اس نے''إلحاد بظلم'' كيا ہے(۳)

اسلام:صد راسلام كى تاريخ ۳، ۱۶الحاد :۱۸انحراف:اسكى سزا ،۱۵; اس كا گناہ ۱۴

آنحضرت (ص) :آپ(ص) كے نواہى ۱۶

توحيد:توحيد عبادى كا انجام ۲عرب:انكى رسومات ۱۰

جزيرة العرب:اسكے لوگ اور حج ۱۰; اسكے لوگ اور مسجد الحرام ۱۱

جہنم:اسكے اسباب ۱، ۱۵حجاج:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۸

حج:اسكى تاريخ ۱۰خود:خود پر ظلم ۱۷

روايت ۱۶، ۱۷، ۱۸

سبيل الله :اس سے روكنا ۵

چلنا:

____________________

۱ ) قرب الا سناد ۱۰۸ ح ۳۷۲_ تفسير برہان ج ۳ ص ۸۴ ح ۸_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۲۲۷ ح ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۶۰_

۳ ) كافى ج ۸ ص ۳۳۷ ح ۵۳۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۵۷_

۵۰۳

اسكے راستے ۲

ظلم كرنے والے:انكى دنيوى سزا ، ۱۴

عبادت:عبادت خدا كے ترك كے اثرات ۱; غيرخدا كى عبادت ۱۸; عبادت خدا كے ترك كرنے كا گناہ ۱

عذاب:دردناك عذاب ۱۵; اسكے درجے ۱، ۱۵; اخروى عذاب كے اسباب ۱، ۱۵

كعبہ:اسكى فضيلت ۴; اس كا تقدس ۴

كفر:خدا كے ساتھ كفر كے اثرات ۱; خدا كے ساتھ كفر كا گناہ ۱

گناہ:گناہان كبيرہ ۱۴; ناقابل بخشش گناہ۱

لقاء الله :اس كا پيش خيمہ ۲

لوگ:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۱۲; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا ۱۵; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كا گناہ ۱۴

مسجد الحرام:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكى زيارت كى تاريخ ۱۰; اسكى تاريخ ۱۱; اس ميں حقوق ۱۴; اسكى زيارت ۷، ۱۱; اس كا سب كيلئے ہونا ۶; اس ميں عبادت خدا سے روكنا ۳; اس سے روكنا ۳، ۵; اس ميں حق تلفى كا ممنوع ہونا ۱۲; اس سے روكنے كا ممنوع ہونا ۶، ۹; اسكى خصوصيات ۱۲، ۱۳

مسلمان:ان كے حقوق كا مساوى ہونا ۷; ان كے حقوق ۷

مكہ كے مسلمان:ان كے حقوق ۷

مكہ:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكے گھروں كے دروازے ۱۶; اس ميں ظلم كا گناہ ۱۷; اس سے حاجيوں كو روكنا ۸; اسكے گھروں كو كرائے پر دينے سے نہى ۱۶; اسكى خصوصيات ۱۳

منحرفين:ان كى دنيوى سزا ،۱۴

موحدين:ان كے حقوق ۶

ولايت:اولياء الله كے غير كى ولايت كو قبول كرنا ۱۸

۵۰۴

آیت ۲۶

( وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئاً وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ )

اور اس وقت كو ياد دلاؤ جب ہم نے ابرہمى كے لئے بيت اللہ كى جگہ مہيا كى كہ خبردار ہمارے بارے ميں كسى طرح كا شرك نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر كو طرف كرنے والے، قيام كرنے والے اور ركوع و سجود كرنے والوں كے لئے پاك و پاكيزہ بناؤ(۲۶)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں كعبہ كى بنياد بہت اہم اور ايسا واقعہ ہے جو ياددہانى كرانے كے قابل ہے_

و اذ بوّانا لابراهيم مكان البيت ''اذ'' اسم زمان اور محل نصب ميں ہے اور يہ ''اذكر'' محذوف كا مفعول ہے يعنى ''يادكيجيئے اس وقت كو كہ جب ہم نے ...''

۲ _ كعبہ، حضرت ابراہيم (ع) كى عبادت كى جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

(''بوانا'' كے مصدر) ''تبوئة) كا معنى ہے مرجع اور مركز قرار دينا يعني'' اس زمانے كو ياد كيجيئے جب ہم نے كعبہ كى جگہ كو ابراہيم(ع) كيلئے رجوع كرنے كا مقام قرار ديا'' اور حضرت ابراہيم(ع) كا بار بار كعبہ كى جگہ كى طرف رجوع كرنا يا تو خدا كى عبادت كيلئے تھا اور يا اسے تعمير كرنے كيلئے مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے_

۳ _ كعبہ كى جگہ خداتعالى كى جانب سے عبادت كيلئے معين كردہ جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كعبہ كى بنياد ركھنے والے اور اسكے

۵۰۵

معمار_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۵ _ كعبہ، توحيد اور يكتاپرستى كى جلوہ گاہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت أن لا تشرك بى شيئ

۶ _ خدا كے علاوہ كوئي قابل پرستش نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۷ _ عبادت ميں اخلاص اور اسے ہر قسم كے غير الہى عمل سے آلودہ كرنے سے پرہيز كرنا خداتعالى كى طرف سے حضرت ابراہيم كو نصيحت _أن لا تشرك بى شيئ

۸ _ شرك كے ساتھ آلودہ عبادت كى بارگاہ خداوندى ميں كوئي قدر و قيمت نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۹ _ كعبہ بہت مقدس گھر اور بارگاہ خداوندى ميں بڑى عزت كا حامل ہے_و طهر بيتي

''بيت'' كى باء متكلم كى طرف اضافت، تشريفيہ اور مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۱۰ _ كعبہ كى توليت اور اسے زائرين كيلئے تيار كرنا، حضرت ابراہيم (ع) كے الہى وظائف ميں سے_و طهر بيتى للطائفين

۱۱ _ مسجد الحرام كى توليت اور اسے زائرين بيت الله كيلئے تيار كرنا توحيدى معاشرے كے رہنماؤں كى ذمہ دارى _

أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتى للطائفين

۱۲ _ شرك، طہارت و پاكيزگى سے دورى اور پليديگى و ناپاكى كے ساتھ آلودہ ہونا ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۳ _ مسجد الحرام كى حرمت كى پاسدارى اور اسے ظاہرى آلودگيوں اور باطنى پليدگيوں (شرك كے مظاہر) سے محفوظ ركھنا ضرورى ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۴ _ طواف، قيام، ركوع اور سجود (نماز) مسجد الحرام كى زيارت كے آداب ميں سے_و طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع السجود ظاہر يہ ہے كہ ''القائمين و الركع السجود'' سے مراد نماز پڑھنے والے ہيں يعنى ميرے گھر كو طواف كرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں كيلئے تيار كيجئے_

۱۵ _ مسجد الحرام كى زيارت ميں طواف كو نماز پر مقدم كرنا ضرورى ہے_للطائفين و القائمين و الركع السجود

۱۶ _ قيام، ركوع اور سجود نماز كے اركان ميں سے ہيں _و القائمين و الركع السجود

۱۷ _ طواف اور نماز، حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت كى ذمہ داريوں ميں سے _طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع

۵۰۶

السجود

۱۸ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے جب خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو كعبہ كى تعمير پر مأمور كياتوانہيں معلوم نہيں تھا كہ وہ كعبہ كو كہاں بنائيں تو خداتعالى نے جبرائيل كو بھيجا اور انہوں نے كعبہ كى جگہ پر ان كيلئے لكير كھينچ دي(۱)

ابراہيم (ع) :ان كے دين كى تعليمات ۱۷; انكو نصيحت ۷; انكى عبادت گاہ ۲; انكى ذمہ دارى ۱۰; ان كا نقش و كردار ۱، ۴

توحيد:توحيد عبادى ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۷; اس كا نقش و كردار ۳

ذكر:كعبے كى تعمير كا ذكر، ۱

روايت ۱۸دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۱۱

شرك:شرك عبادى كا بے قدر و قيمت ہونا ۸; اسكى پليدگى ۱۲; اسكى حقيقت ۱۲

طواف:اسكى تاريخ ۱۷; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

عبادت:اس ميں اخلاص ۷; بے قدر و قيمت عبادت ۸

كعبہ:اس كا احترام ۹; اسے تعمير كرنے والے ۱; اس كا موسس ۴; اسكى تاريخ ۱، ۴; اسكى تطہير ۱۰; اس ميں عبادت ۲، ۳; اسكى فضيلت ۵، ۹; اس كا تقدس ۹; اس كے متولى ۱۰; اسكى تعيين كا سرچشمہ ۳، ۱۸; اس ميں توحيد عبادى كى نشانياں ۵

مسجد الحرام:اسكى زيارت كے آداب ۱۴; اسكى تطہير كى اہميت ۱۳; اسكى حفاظت كى اہميت ۱۳; اس ميں ركوع ۱۴; اس ميں سجدہ ۱۴; اس ميں طواف ۱۴، ۱۵; اسكے متولى ۱۱; اس ميں نماز ۱۴، ۱۵

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۶

نماز:اسكے اركان ۱۶; اسكى تاريخ ۱۷; اس ميں ركوع ۱۶; اس ميں سجدہ ۱۶; اس ميں قيام ۱۶; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۱ ص۶۲_ نورالثقلين ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_

۵۰۷

آیت ۲۷

( وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ )

اور لوگوں كے درميان حج كا اعلان كردو كہ لوگ تمہارى طرف پيدل اور لاغر سواريوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہو كر آئيں گے (۲۷)

۱ _ حكم خدا سے حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے لوگوں كو حج كى دعوت_و أذن فى الناس بالحج

(''أذّن'' كے مصدر) ''تأذين'' كا معنى ہے اعلان كرنا اور ندا دينا يعنى اے ابراہيم(ع) لوگوں كے درميان جاؤ اور انہيں حج اور زيارت بيت الله كى دعوت دو_

۲ _ حج، دور و نزديك كے تمام لوگوں پر ايك الہى ذمہ داري_يأتوك رجالًا و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق

''يأتوك'' شرط محذوف كى جزا ہے اور يہ در حقيقت يوں ہے''إن تأذن فيهم به يأتوك'' ،''رجال''، ''راجل'' كى جمع ہے يعنى ''پيدل'' اور ''ضامر'' كمزور اونٹ كو كہاجاتا ہے _

اور ''فج'' در حقيقت پہاڑ كے شكاف كے معنى ميں ہے اور يہاں پر اس سے مراد راستہ ہے ''عميق'' بعيد كا مترادف ہے يعنى دورپس مذكورہ جملے كا معنى يہ بنے گا اگر لوگوں كو حج كى طرف بلاؤ تو وہ تيرى دعوت پر لبيك كہتے ہوئے پيدل، سوار ہوكر اور دور و نزديك كے راستوں سے چل نكليں گے_

۳ _ تبليغ اور لوگوں كو حج و زيارت بيت الله كى دعوت دينا الہى رہنماؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_و أذّن فى الناس بالحج

۴ _ حج، حضرت ابراہيم(ع) (ع) كى شريعت كى ايك يادگار_و أذن فى الناس بالحج

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كى اقامت گاہ ،مسجد الحرام كے جوار

۵۰۸

ميں تھي_يأتوك رجال

جملہ ''يأتوك'' (تيرے پاس پيدل اور سوار ہوكر آئيں گے) سے معلوم ہوتا ہے كہ كعبہ كے مؤسس اسكے جوار ميں رہتے تھے اس طرح، كہ ہر زائر مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت ان پر بھى وارد ہوتا تھا_

۶ _ دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم(ع) پر پختہ ايمان اورحضرت ابراہيم(ع) كى ان كے درميان انتہائي محبوبيت اور نفوذ_و اذن فى الناس بالحج يأتوك رجالا و على كل ضامر

دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم (ع) كى دعوت پر لبيك كہنا اور انكا پيدل اور سوار ہوكر كعبے كى زيارت كيلئے نكل پڑنا اور كى آپ(ع) كى شخصيت سے آشنائي اور ان كے درميان آپ(ع) كى محبوبيت كى علامت ہے_

۷ _ حضرت ابراہيم (ع) كے دين توحيدى كا خود ان كى زندگى ميں دور و نزديك كى سرزمين ميں پھيل جانا_يأتوك من كل فج عميق

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے زمانے ميں ہر سال حج كى رسومات ميں شريك ہونا_يأتوك رجالًا و على كل ضامر

فعل مضارع ''يأتوك'' ہوسكتا ہے مفيد استمرار ہو لہذا ہر سال لوگوں كا حج كى رسومات ميں حضرت ابراہيم(ع) كے پاس آنا ان كے ہر سال حج كى رسومات ميں شركت كو بيان كررہا ہے_

۹ _ مراسم حج كو اسلامى معاشرے كے رہبر كى محوريت كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''لوگ پيدل اور سوار ہوكر تيرے (ابراہيم(ع) ) پاس آئيں گے'' ہوسكتا ہے لوگوں كيلئے اس حكم پر مشتمل ہو كہ وہ پہلے الہى رہبر كى زيارت كيلئے جائيں اور اسكى رہبرى ميں مراسم حج كو انجام ديں _

۱۰ _ مناسك حج ميں اسلامى معاشرے كے رہبر سے ملاقات_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

۱۱ _ بارگاہ خداوندى ميں پيدل حج كى بڑى فضيلت اور قدر و قيمت_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

پيدل لوگوں (رجالًا) كو سواروں (و على كل ضامر) پر مقدم كرنا ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۱۲ _ زمين مكہ كى سطح كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے زيادہ ہے_يأتوك من كل فج عميق

(''عميق'' كا مصدر) ''عمق'' اس طولانى مسافت كو كہا جاتا ہے كہ جو نيچے كى طرف ہو لہذا ''بعيد'' كى بجائے كلمہ ''عميق'' كا استعمال يا تو اس لحاظ سے ہے كہ سرزمين مكہ كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے چونكہ زيادہ ہے لہذا جو لوگ مكہ كى طرف آتے ہيں وہ نيچے سے اوپر كى جانب حركت كرتے ہيں اور يا اسلئے ہے كہ چونكہ

۵۰۹

زمين گيند كى صورت ميں ہے لہذا لوگوں كى دور سے حركت اوپر كى جانب حركت نظر آتى ہے مذكورہ مطلب پہلے فرضيے كى بنياد پر ہے _

۱۳ _ قرآن كا زمين كے گيند كى طرح اور اسكى سطح كے گول ہونے كى طرف اشارہ_يأتين من كل فج عميق

۱۴ _ عبيد الله بن على الحلبى كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) سے سوال كيا كہ (حج ميں ) تلبيہ كيوں مقرر كيا گيا ہے؟ تو آپ(ع) نے فرمايا بيشك خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كى طرف وحى كى''و أذّن فى الناس بالحج يأتوك رجالًا'' پس حضرت ابراہيم نے ندا دى اور دور كے ہر راستے سے ''لبيك'' كے ساتھ حضرت ابراہيم(ع) كو جواب دياگيا(۱)

۱۵ _ امام صادق(ع) نے فرمايا كہ پيغمبراكرم دس سال مدينہ ميں رہے اور حج پر نہ گئے پھرخداتعالى نے آنحضرت پر نازل كيا''و أذن فى الناس بالحج يأتوك رجالاً و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق'' پس پيغمبراكرم(ص) نے مناديوں كو حكم ديا كہ وہ بلند آواز كے سا تھ اعلان كريں كہ اس سال رسول الله (ص) حج پرجائيں گے(۲)

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا حج۱۵

ابراہيم (ع) :آپ مسجد الحرام كے جوار ميں ۵; آپكى اقامت گاہ ۵; آپكے حج كا تسلسل ۸; آپ كے دين كى تعليمات ۴; آپكى شرعى ذمہ دارى ۱; آپكى دعوتيں ۱، ۱۴; آپ(ص) كى معاشرتى شخصيت۶; آپكے دين كا پھيلنا ۷; آپ كى محبوبيت ۶

ايمان:ابراہيم پر ايمان ۶

تلبيہ:اسكى تشريع كا فلسفہ ۱۴

حج:اسكے آداب ۹; اس كے احكام ۲; يہ دين ابراہيم ميں ۱۴ ; اسكى دعوت ۱، ۳، ۱۴; پيدل حج كى فضيلت ۱۱

روايت ۱۴، ۱۵

دينى رہنما:انكى ذمہ دارى ۳; حج ميں ان كے ساتھ ملاقات ۱۰; ان كا نقش و كردار ۹

شرعى ذمہ داري:سب كى شرعى ذمہ دارى ۲

زمين:اس كا گيند كى صورت ميں ہونا ۱۳

مكہ:اسكى بلندى ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۴۱۶ ب ۱۵۷ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۶ ح ۶۸_ ۲ ) كافى ح ۴ ص ۲۴۵ ح ۴; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۷ ح ۷۲_

۵۱۰

آیت ۲۸

( لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ )

تا كہ اپنے منافع كا مشاہدہ كريں اور چند معين دنوں ميں ان چوپايوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا كئے ہيں خدا كا نام ليں اور پھر تم اس ميں سے كھاؤ اور بھو:ے محتاج افراد كو كھلاؤ (۲۸)

۱ _ حج ، لوگوں كيلئے فائدے و منفعت اور خير و بركت سے سرشار_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

''منافع''، ''منفعت'' كى جمع ہے يعنى نفع، خير و بركت_ اور اس كاجمع كى صورت ميں آنا حج كى بركات كى فراوانى كو بيان كررہا ہے اور اس كا نكرہ آنا ان بركات ميں سے ہر ايك كى عظمت كو بيان كررہا ہے _

۲ _ حج كى بركات سے بہرہ مند ہونا اسكى رسومات ميں شركت اور اسكے اعمال كى انجام دہى ميں منحصر ہے_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم (''يشہدون'' كے مصدر) ''شہادة'' كا معنى ہے حاضر ہونا پس''ليشهدوا منافع لهم'' كا معنى يہ ہے كہ حج سب لوگوں كيلئے خير و بركت سے سرشار ہے اور جو انہيں حاصل كرنا چاہتا ہے اور ان سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے اس كيلئے ضرورى ہے كہ سفر كى مشقتوں كو برداشت كرے، اسكے مراسم ميں شركت كرے اور اسكے اعمال كو بجالائے_

۳ _ شريعت الہى ميں انسان كے دنيوي، اخروي، مادى اور معنوى پہلوؤں كى طرف توجہ _و أذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

چونكہ ''منافع'' كو دنيوي، اخروي، معنوى يا مادى كى قيد نہيں لگائي گئي پس كہا جاسكتا ہے كہ اس سے مراد،دينوي، اخروي، مادى اور معنوى سب بركات ہيں _

۵۱۱

۴ _ عرفات اور مشعر ميں وقوف كرنا (احرام كے بعد) مراسم حج ميں حاجيوں كى پہلى ذمہ دارى _يشهدوا منافع لهم

جملہ ''و يذكروا اسم الله ...'' قربانى كى رسومات سے مربوط ہے اور بعد والى آيت حلق، تقصير اور طواف كے بارے ميں ہے پس اس چيز كے پيش نظر كہ احرام باندہنے كے بعد مراسم حج بالترتيب يوں ہيں عرفات اور مشعر ميں و قوف، قربانى كرنا، حلق، تقصير اور طواف _ كہنا ہوگا كہ حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت ميں حج، قربانى سے شروع اور طواف كے ساتھ ختم ہوتا تھا اور عرفات و مشعر كا وقوف مراسم حج ميں شا مل نہيں تھا يا يہ كہ جملہ ''ليشہدوا منافع لہم'' تشريع حج كے فلسفے كو بيان كرنے كے علاوہ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے والے مسئلے كى طرف بھى ناظر ہے مذكورہ مطلب دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے_

۵ _ عرفات و مشعر، حج كرنے والوں كيلئے كثير خيرو بركت كا مركز_ليشهدوا منافع لهم

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''ليشهدوا '' عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے سے مربوط ہو_

۶ _ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے كے بعد قربانى كرنا حج كے واجب اعمال ميں سے ہے _و يذكروا اسم الله على مارزقهم من بهيمة الأنعام

۷ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت الله كا نام لينا ضرورى ہے_و يذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۸ _ لوگوں كو ذبح كرنے كى طريقے كى تعليم دينا (جانور كو نحر يا ذبح كرتے وقت خدا كا نام لينا)حج كے فلسفوں ميں سے ايك ہے_ليشهدوا منافع لهم و يذكروا اسم الله فى ايام معلومات ''يذكروا'' كا عطف ''ليشہدوا'' پر ہے اور اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اس كا لام تعليل كيلئے ہے اور يہ حج كى تشريع كے فلسفے كو بيان كررہا ہے ''يذكروا'' كا ''يشہدوا'' پر عطف تشريع حج كے ايك اور فلسفہ كا بيان ہے_

۹ _ قربانى والے حكم كا انجام دينا خاص اور معين وقت پر موقوف ہے (دس سے تيرہ ذى الحج تك)_و يذكورا اسم الله فى ايام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الانعام اہل بيت (ع) سے وارد ہونے والى روايات كى بنياد پر ''ايام معلومات'' سے مراد ذى الحج كے ايام تشريق (دس سے تيرہ تك) ہيں _

۱۰ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت خداتعالى كے اسما (الله ، رحمان و غيرہ) ميں سے ہر ايك كے ذكر كا جواز_و يذكروا اسم الله ہوسكتا ہے ''اسم'' كى ''الله '' كى طرف اضافہ بيانيہ ہو اس صورت ميں ''اسم اللہ'' يعنى وہ نام كہ جو اللہ سے عبادت ہے اسى طرح اضافہ لاميہ

۵۱۲

بھى ہوسكتاہے اس صورت ميں '' اسم اللّہ'' يعنى ہر وہ نام كہ جو خدا كے لئے ہو پہلے احتمال كى بناپر قربانى كے وقت ''اللّہ'' كے لفظ كے علاوہ كسى اور لفظ كا لينا جائز نہيں ہے برخلاف احتمال دوم گذشتہ مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۱۱ _ دس ذى الحج كے بجائے گيارہ، بارہ اور تيرہ ذى الحج كو قربانى كرنے كا جواز _و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات من بهيمة الأنعام

۱۲ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ميں سے ہر ايك كى قربانى كرنا جائز ہے_على ما رزقهم من بهيمة الانعام

(''نعم'' كى جمع) ''انعام ''كا اصلى معنى ''اونٹ'' ہے ليكن بعض اوقات اونٹ گائے اور بھيڑ بكرى كے مجمموعے پر بھى اس كا اطلاق ہوتا ہے تمام مفسرين كے نظريے كے مطابق يہاں پر اس سے مراد دوسرا معنى (اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى كا مجموعہ) ہے قابل ذكر ہے كہ ''بہيمہ'' كا معنى ہے ''چوپايہ'' اور اس كى ''أنعام'' كى طرف اضافت بيانيہ ہے يعنى وہ چوپايہ جو اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ہے_

۱۳ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى انسانوں كى روزى اور ان كيلئے خدا كى عطا ہے_على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۱۴ _ قربانى كے گوشت سے استفادے كا حرام ہونا جاہليت كے عربوں كا باطل خيال _فكلوا منه قربانى كے گوشت كے استعمال كو جائز كرنا جاہليت كے عربوں كے باطل خيال كى طرف ناظر ہے كہ جو اسے حرام سمجھتے تھے_

۱۵ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت چوپائے ہيں _على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منه

۱۶ _ حجاج كيلئے قربانى كے گوشت كے استعمال كا جواز_فكلوا منه

۱۷ _ حج كے موقع پر قربانى كے گوشت سے تنگدست لوگوں كو اطعام كرنے كا ضرورى ہونا_و ا طعموا البائس الفقير

۱۸ _ قربانى كے پورے گوشت كو استعمال كرنا جائز نہيں ہے_فكلوا منها و ا طعموا البائس الفقير

''منہا'' ميں ''من'' تبعيضيہ ہے پس ''كلوا منہا'' يعنى اس كا ايك حصہ كھاؤ (نہ پورا)

۱۹ _ لوگوں كى مدد اور تنگدستوں اور ضرورتمندوں كى دستگيرى كرنا حج كے فلسفوں ميں سے اور اس كا ايك سبق ہے_

و أطعموا البائس الفقير

۲۰ _ ربيع بن خيثم كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) كو ديكھا كہ آپ(ع) نے فرمايا ميں نے خداتعالى كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے''ليشهدوا منافع لهم'' تو ميں نے امام (ع) سے عرض كيا ''منافع'' سے مراد دنياوى فوائدہيں يا اخروي؟ تو آپ(ع) نے فرمايا سب

۵۱۳

منافع(۱)

۲۱ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى كے كلام ''ويذكروا اسم الله '' ميں ذكر سے مراد وہ تكبيريں ہيں جو پندرہ نمازوں ميں _ كہ جن ميں سے پہلى عيدوالے دن ظہر كى نماز ہے_ كہى جاتى ہيں(۲)

۲۲ _ امام صادق(ع) سے الله تعالى كے فرمان ''و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے فرمايا اس سے مراد ايام تشريق ہيں(۳)

۲۳ _ صفوان بن يحيى كہتے ہيں ميں نے امام كاظم(ع) سے عرض كيا شخص كسى كو كھال اتارنے كيلئے قربانى ديتا ہے اسكى كھال كے مقابلے ميں يعنى كھال كو اپنى مزدورى كے طور پر لے لے_ (تو اس كا حكم كيا ہے) _

فرمايا اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے كيونكہ خداتعالى نے فرمايا ہے ''فكلوا منہا و أطمعوا'' اور كھال نہ كھائي جاتى ہے اور نہ (اسكے ذريعے) اطعام كيا جاتا ہے(۴)

احكام ۴، ۶، ۷، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸/جاہليت:اسكے مشركين كى سوچ ۱۴; اسكى رسومات ۱۴

چوپائے:ان كے گوشت كى حليت ۱۵/حجاج:ان كا حج كى قربانى سے استفادہ كرنا ۱۶

حج:اسكے اثرات ۲; اسكے احكام ۴، ۶، ۹، ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے گوشت سے استفادہ كرنا ۱۸; اسكى بركات۱; اسكى قربانى كى كھال ۲۳; اسكى قربانى كو مؤخر كرنا ۱۱; اسكى تعليمات ۱۹; اس ميں تكبير ۲۱; اس كا خير ہونا ۱; اس ميں گائے كو ذبح كرنا ۱۲; اس ميں بھيڑ بكرى كو ذبح كرنا ۱۲; اسكى بركات كا پيش خيمہ ۲; اس كا فلسفہ ۸، ۱۹; اسكى قربانى ۶، ۱۲; اسكى قربانى كا گوشت ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے مصارف ۱۷; اسكے مناسك ۴، ۶، ۹، ۱۱، ۱۲;اسكے اخروى منافع ۲۰; اسكے منافع۱; اسكے دنيوى منافع ۲۰; اس ميں اونٹ كو نحر ركنا ۱۲; اسكے واجبات ۶; اسكى قربانى كا وقت ۹

حلال جانور :۱۵/خداتعالى :اسكى روزى ۱۳; اسكے عطيے ۱۳/كھانے كى چيزيں :ان كے احكام ۱۵; كھانے كى حلال چيزيں ۱۵

دين:

____________________

۱ ) كافى ج۴ ص ۴۲۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۸ ح ۷۷_/ ۲ ) عوالى اللئامى ج ۲ ص ۸۸ ح ۲۳۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ص ۸۲_

۳ ) معانى الاخبار ص ۲۹۷ ح ۱، ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ح ۸۴_

۴ ) علل الشرائع ص ۴۳۹ب ۱۸۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۹ ح ۱۳۹_

۵۱۴

اسكے اخروى پہلو ۳; اسكے مادى پہلو ۳; اسكے معنوى پہلو۳; يہ اور عينيت ۳

ذبح:اسكے احكام ۷، ۱۰; اس ميں بسم الله ۷،۸، ۱۰; اسكى تعليم ۸

ذكر:ذكر خدا ايام تشريق ميں ۲۲; ذكر خدا حج ميں ۲۱

روايت : ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

اونٹ:اسكے گوشت كا حلال ہونا ۱۵

عرفات:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵; اس ميں وقوف ۴

فقرا:انہيں اطعام كرنا ۱۷; انكى حاجت روائي كى اہميت ۱۹

قرباني:جاہليت ميں اسكے گوشت كى تحريم ۱۴

گائے:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

بھيڑ بكري:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

مسجدالحرام:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵

مشعرالحرام:اس ميں وقوف كرنا ۴

نعمت:اونٹ كى نعمت ۱۳; گائے كى نعمت ۱۳; بھيڑ بكرى كى نعمت ۱۳

آیت ۲۹

( ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ )

پھر لوگوں كو چاہئے كہ اپنے بدن كى كثافت كو دور كريں اور اپنى نذروں كو پورا كريں اور اس قديم ترين مكان كا طواف كريں (۲۹)

۱ _ مراسم حج كى انجام دہى كے بعد تقصير اور احرام سے خارج ہونے كا وجوب _و يذكروا اسم الله ثم ليقضوا تفثهم

(''يقضون'' كے مصدر قضا) كا معنى ہے كاٹنا اور جدا كرنا ''تفث'' يعنى وہ غبار اور ميل جو بدن پر ہوتى ہے پس''ثم ليقضوا تفثهم'' يعنى حاجى

قربانى كى رسومات ادا كرنے كے بعد اپنے سر اور ناخن تراش كر كے كہ جسے احرام كى وجہ سے انجام نہيں دے سكے تھے_ اپنے آپ كو صاف كريں اور يہ احرام سے خارج ہونے سے كنايہ ہے_

۵۱۵

۲ _ طواف بجالانے كيلئے آلودہ اور بے ہنگم سر اور بدن كے ساتھ مسجدالحرام ميں داخل ہونا ممنوع ہے_ثم ليقضوا تفثهم

۳ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد نذر كى ادائيگى كا ضرورى ہونا_و ليوفوا نذورهم

۴ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد طواف كا لازم ہونا_ثم ليقضوا تفثهم و ليطّوفّو

۵ _ تقصير اور طواف كى ادائيگى كو قربانى كرنے كے بعد تك مؤخر كرنا جائز ہے_ثم ليقضوا تفثهم و ليطوفو

''ثم '' كہ جو تراخى زمان كيلئے ہے _ كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے _

۶ _ كعبہ كا اپنا ماضى اور تاريخ ہے_بالبيت العتيق ''عتيق'' ہر اس چيز كو كہا جاتا ہے كہ جو وقت، جگہ يا مرتبے كے لحاظ سے تقدم ركھتى ہو اسى وجہ سے قديم كو بھى عتيق كہتے ہيں ''بيت عتيق'' يعنى وہ گھر جو اپنا ماضى اور تاريخ ركھتا ہے_

۷ _ عبدالله بن سنان كہتے ہيں ميں امام صادق (ع) كے پاس آيا اور ان سے عرض كى آپ(ع) پر قربان جاؤں خداتعالى كے فرمان ''ثم ليقضوا تفثهم '' (سے مقصود) كيا ہے تو آپ(ع) نے فرمايا: (اس سے مقصود) مونچھيں كاٹنا، ناخن اتارنا و غيرہ ہے(۱)

۸ _ اميرالمؤمنين (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے خداتعالى كے فرمان''ثم ليقضوا تفثهم و ليوفوا نذورهم و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا ''تفث'' سے مراد رمى جمرات اور سر منڈہوانا ہے اور ''نذور'' سے مراد وہ ہے كہ جس نے پيدل جانے كى نذر كى ہو اور طواف سے مراد طواف زيارت ہے(۲)

شايد مقصود يہ ہو كہ كسى نے منا سے مكہ پيدل جانے كى نذر كى ہو نہ اپنے وطن سے پيدل مكہ جانے كى كيونكہ اس صورت ميں يہ آيت كے ظاہر كے ساتھ متناسب نہيں ہے_

۹ _ امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے آپ(ع) نے خداتعالى كے فرمان''و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا (اس سے مراد) طواف النساء ہے(۳)

____________________

۱ ) كافى ج ۴ ص ۵۴۹ ح ۴_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۲ ح ۹۷_

۲ ) دعائم الاسلام ج ۱ ص ۳۳۰_ بحارالانوار ج ۹۶ ص ۳۱۲ ح ۳۹_

۳ ) كافى ج ۴ ص ۵۱۳ ح ۲_ تہذيب شيخ طوسى ج۵ ص ۲۵۳ ح ۱۵_

۵۱۶

۱۰ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ طوفان نوح كے روز خداتعالى نے پورى زمين كو غرق كرديا سوائے بيت (الله ) كے پس اس دن اسے ''عتيق'' كا نام ديا گيا كيونكہ اس دن يہ غرق ہونے سے آزاد ہوا(۱)

۱۱ _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں ميں نے مسجدالحرام ميں امام صادق (ع) سے عرض كيا كيوں خداتعالى نے (بيت الله ) كو عتيق كا نام ديا ہے،؟ تو آپ(ع) نے فرمايا خداتعالى نے زمين پر كوئي گھرنہيں بنايا مگر يہ كہ اس كے مالك ہيں اور اس ميں لوگ رہتے ہيں سوائے اس گھر كے كہ جس كا خدائے عزوجل كے علاوہ كوئي مالك نہيں ہے اور يہ (افراد كى ملكيت سے) آزاد ہے(۲)

احكام: ۲، ۳، ۴، ۵

حج:اسكے احكام ۳، ۵; اس ميں تقصير كو مؤخر كرنا ۵; اس ميں طواف كو موخر كرنا ۵; اس ميں تقصير ۱، ۳، ۴، ۷; اس ميں رمى جمرات ۸; اس ميں منڈہوانا ۸; اس ميں طواف ۸، ۹; اس ميں قربانى ۱; اسكے اعمال ۱، ۴، ۷، ۸، ۹; اس ميں نذر ۸; اسكے واجبات ۱، ۴ ; روايت ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

طواف:اسكے آداب ۲; اسكے احكام ۴; طواف النساء ۹

كعبہ:اسكى تاريخ ۶، ۱۰; اس كا نام ركھنے كا فلسفہ ۱۰، ۱۱; اس كا قديمى ہونا ۶; يہ طوفان نوح كے وقت ۱۰; اسكى مالكيت ۱۱

مسجدالحرام:اسكے آداب ۲; اس ميں پاكيزگى ۲

نذر:اسكے احكام ۳; اسكى وفا ۳

____________________

۱ ) علل الشرائع ج ۲ ص ۳۹۹ ح ۵_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۹۴ ح ۱۱۴_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۱۸۹ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۴ ح ۱۰۹_

۵۱۷

آیت ۳۰

( ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ )

يہ ايك حكم خدا ہے اور جو شخص بھى خدا كى محترم چيزوں كى تعظيم كرے گا وہ اس كے حق ميں پيش پروردگار بہترى كا سبب ہوگى اور تمہارے لئے تمام جانور حلال كردئے گئے ہيں علاوہ ان كے جن كے بارے ميں تم سے بيان جائے گا لہذا تم نا پاك بتوں سے پرہيز كرتے رہو اور لغو اور مہمل باتوں سے اجتناب كرتے رہو (۳۰)

۱ _ حج اور اسكے اعمال، خداتعالى كے نزديك بلند مقام و مرتبے كے حامل ہيں _و أذن فى الناس بالحج و ليطوفوا بالبيت العتيق ذلك ''ذلك'' ان تمام مطالب كى طرف اشارہ ہے كہ جو يہاں تك حج اور اسكے اعمال كے بارے ميں بيان ہوئے ہيں اور يہاں پر ''ذلك'' كے ا ستعمال سے غرض سابقہ اور بعد والے كلام كے درميان فاصلہ كرنا اور ايك اہم مطلب سے دوسرے اہم مطلب كى طرف منتقل ہونا ہے ايسے موارد ميں كلمہ ''ہذا'' كو استعمال كرتے ہيں جيسے ''ہذا و إن للطاغين لشرمآب'' (ص ۵۵۳۸) اس بناپر ''ذلك'' كہ جو بعيد كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے_ كا استعمال ممكن ہے بارگاہ خداوندى ميں حج اور اسكے اعمال كى اعلى قدر و منزلت كو بيان كرنے كيلئے ہو_

۲ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم كرنے، انہيں معمولى نہ سمجھنے اور ان كے حريم سے تجاوز نہ كرنے كا ضرورى ہونا_

و من يعظم حرمت الله

('' يعظم'' كے مصدر) تعظيم كامعنى ہے بڑا سمجھنا ''حرمات''، ''حرمت'' كى جمع ہے يعنى وہ چيز كہ جسكى ہتك كرنا ممنوع اور اسكى حفاظت كرنا واجب ہے ''حرمات الله '' يعنى وہ حدود و احكام كہ جو خدا كى طرف سے مشخص كئے گئے ہيں اور لوگوں كا فريضہ ہے كہ انكى رعايت كريں _ يہ مذكورہ جملہ خداتعالى كى طرف سے اہل ايمان كو نصيحت ہے كہ وہ حتماً حدود و احكام الہى كو بڑا سمجھيں اور ان كے حريم ميں تجاوز كرنے سے سخت پرہيز كريں _

۵۱۸

۳ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم ، انہيں بڑا سمجھنا اور ان كے حريم كى رعايت كرنا اہل ايمان كيلئے خير و سعادت اور خوشبختى كا سبب ہے_و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''فهو خيرله'' كى ''ہو'' خير كا مرجع (''يعظم'' كا مصدر ) تعظيم ہے يعنى''فالتعظيم خير له عند ربه''

۴ _ خداتعالى كے احكام اور حدود، انسان كى سعادت اور بھلائي كيلئے ہيں _ومن يعظم حرمت الله فهوخير له عند ربه

۵ _ قوانين اور احكام الہى كو معمولى سمجھنا اور ان كى حرمت شكنى انسان كى بدبختى اور شقاوت كا سبب ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''تعظيم'' ''تحقير'' كى ضد ہے پس جملے كا مفہوم يوں ہوگا''و من يحقر حرمات الله فهو شر له عند ربه''

۶ _ خداتعالى ، انسانوں كا پروردگار ہے_عند ربه

۷ _ خداتعالى كى طرف سے سعادت بخش احكام و قوانين كا وضع كرنا اسكى ربوبيت اور پروردگار ہونے كا مقتضا ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه

۸ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت جانور ہيں _و أحلت لكم الأنعام ''أنعام'' (''نعم'' كى جمع) در اصل اونٹ كے معنى ميں ہے پس انعام يعنى اونٹ ليكن بعض اوقات ''انعام'' بول كر اس سے مجموعى طور پر اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى مراد ليتے ہيں مذكورہ جملے ميں ''انعام'' دوسرے طريقے سے استعمال كيا گيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ جملہ''أحلت لكم الأنعام'' ،''أحلت لكم أكل لحوم الأنعام'' كى تقدير ميں ہے يعنى تمہارے لئے اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كا گوشت كھانا حلال ہے_

۹ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كے گوشت سے استفادہ كرنا حلال اور جائز ہے سوائے ان موارد كے كہ جن ميں الله تعالى نے انہيں حرام كيا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى جانب سے كھانے كى حرام چيزوں كے بارے ميں متعدد آيات كا نازل ہونا اور لوگوں كيلئے انہيں مكرر وطور پر بيان كرنا_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ ''يتلى '' زمان مستقبل كيلئے ہے يعنى اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى جيسے چوپاؤں كا گوشت تمہارے لئے حلال ہے مگر وہ جسے مستقبل ميں تمہارے لئے بيان كي جائيگا_لہذا كلمہ ''يتلي'' سورہ مائدہ كى آيت نمبر ۳ ''حرمت عليكم الميتة و الدم و لحم الخنزير و ...'' كى طرف اشارہ ہے كہ جو مورد بحث آيت كے بعد نازل ہوئي ہے_

۵۱۹

اور بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ كلمہ ''يتلي'' مضارع استمرارى ہے اور يہ ان آيات كى طرف اشارہ ہے كہ جو اس سے پہلے مكہ ميں (آيت ۱۴۵ سورہ انعام اور آيت ۱۱۵ سورہ نحل) اور ہجرت كے چھ ماہ بعد مدينہ ميں (آيت ۱۷۳ سورہ بقرہ) نازل ہوئي ہيں مذكورہ مطلب دوسرے نظريئےے مطابق ہے _

۱۱ _ اس جانور كے گوشت سے استفادہ كرنا حرام ہے كہ جسے غيرخدا كے نام كے ساتھ ذبح كيا گيا ہو_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم ''إلا ما يتلى عليكم'' ميں كلمہ ''ما'' اگرچہ عام ہے اور ان تمام موارد كو شامل ہے كہ جو ''محرمات اكل''كى آيات ميں بيان ہوئے ہيں ليكن گذشتہ دو آيتوں ميں جملہ ''ويذكروا اسم الله على ما رزقہم من بہيمة الأنعام'' نيز جملہ ''فاجتنبوا الرجس من الأوثان ...'' (آيت كا ذيل) كى جملہ''أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم'' پر تفريع كے قرينے سے كہا جاسكتا ہے كہ ''ما'' سے مرادفقط وہ موارد ہيں كہ جہاں جانور كو غيرخدا (بتوں ) كے نام سے ذبح كيا گيا ہو_

۱۲ _ زمانہ جاہليت ميں مراسم حج و قربانى كا شرك و بت پرستى كے مظاہر كے ساتھ آميختہ ہونا_

و احلت لكم الانعام الا ما يتلى عليكم فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۳ _ بت، رجس اور پليدگى كا مظہر ہے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۴ _ بتوں سے اجتناب كا ضرورى ہونا_فاجتنبوا الرجس من الاوثان ''رجس'' ہر برى اور پليد چيز كو كہاجاتا ہے ''اوثان''، ''وثن'' كى جمع اور بتوں كے معنى ميں ہے اور ''من الاوثان'' ميں ''من'' بيانيہ ہے پس''فاجتنبوا الرجس من الاوثان'' يعنى بتوں سے كہ جو برے اور پليد ہيں اجتناب كرو_

۱۵ _ بت پرست، پليد لوگ ہيں _فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۶ _ عصر بعثت كے مشركين، متعدد بت ركھتے تھے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۷ _ عصر جاہليت كے مراسم حج ميں مشركانہ اورمخالف توحيد نعروں كا وجود_واجتنبوا قول الزور

''زور'' كا معنى ہے''قول باطل'' اور''قول الزور'' ميں اضافت بيانيہ ہے يعنى باطل سخن اور ياوہ گوئي سے دورى اختيار كرو اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيت حج سے مربوط آيات ميں سے ہے كہا جاسكتا ہے كہ ''ياوہ گوئي'' سے مراد وہ مشركانہ نعرے ہيں كہ جو مشركين مراسم حج ميں اور شايد اپنے ان بتوں كے پاؤں ميں _ كہ جنہيں انہوں نے منى ميں نصب كرركھا تھا قربانى كو ذبح كرتے وقت لگاتے تھے_

۱۸ _ جھوٹ بولنے اور سخن باطل سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750