تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219084 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۱۰ ۔ دسواں عمل:۔

اپنی استظاعت کے مطابق امام ؑ کی نیابت میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو کچھ عطاء کرنا۔

اس حوالے سے بھی النجم الثاقب میں تفصیل مذکور ہے۔(۱)

۱۱ ۔ گیارہوں عمل:۔

ان کا نام مبارک نہ لیا جائے۔

اور یہ وہی نام ہے جو رسول خدا ﷺکا نام ہےلہذا امام ؑ کو ان القاب سے پکارا جائے مثلا القائم ، المنتظر،الحجۃ ،المھدی ،الامام ، الغائب وغیرہ

۱۲ ۔ بارہوں عمل:۔

ان کا نام سن کر احتراما کھڑے ہوجانا خصوصا جب لقب القائم ذکر کیا جائے تو کھڑے ہوجانا۔(۲)

۱۳ ۔ تیرہواں عمل:۔

امام ؑکے ساتھ جہاد میں شامل ہونے کے لیے سامان تیار رکھنا۔

____________________

۱:- النجم الثاقب ص۴۴۴

۲:- النجم الثاقب ۴۴۴

۴۱

جیسا کہ بحارالانوار میں غیبت نعمانی سے نقل کیا گیا ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا:

لِيُعِدَّنَّ أَحَدُكُمْ لِخُرُوجِ اَلْقَائِمِ وَ لَوْ سَهْماً فَإِنَّ اَللَّهَ إِذَا عَلِمَ ذَلِكَ مِنْ نِيَّتِهِ رَجَوْتُ لِأَنْ يُنْسِئَ فِي عُمُرِهِ حَتَّى يُدْرِكَهُ (۱)

"اگر تم میں سے کوئی ظہور قائم کے لیے کچھ (سامان ) تیار کر رکھے چاہے ایک تیر ہی کیوں نہ ہو تو جب اللہ اس کی یہ نیت دیکھے گا تو مجھے امید ہے کہ اسے اتنی زندگی دے دے حتی کہ وہ امام ؑ کو پا لے۔"

۱۴ ۔ چودہواں عمل:۔

اپنی مشکلات میں امام ؑ سے توسل کرنا

توسل کرنا اور استغاثہ کے خطوط و عریضے امام ؑ کے حضور بھیجنا۔جیسا کہ بحارالانوار میں وارد ہوا ہے۔

۱۵ ۔ پندرہواں عمل:۔

امام کو اپنی دعاؤں میں اپنا شفیع قرار دینا:

____________________

۱:- بحارالانوار ۵۲/۳۶۶ ح۱۴۷، غیبۃ النعمانی ص۳۲۰ ح۱۰

۴۲

اپنی دعاؤں میں اللہ تعالی کو امام ؑ کی قسم اور ان کا واسطہ دینا اور اپنی حاجات کی برآوری کے لیے انھیں اللہ کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دینا۔جیساکہ کمال الدین میں مذکور ہے۔(۱)

۱۶ ۔ سولہواں عمل:۔

اپنے دین پر ثابت قدم رہنا اور دیگر ادیان کی پیروی سے اجتناب کرنا۔

یہ اس لیے کیونکہ امام ؑ کا ظہور اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک سفیانی کا خروج اور آسمانی چیخ بلند نہ ہو اور یہ بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے کہ:

اُسْكُنُوا مَا سَكَنَتِ اَلسَّمَاءُ مِنَ اَلنِّدَاءِ وَ اَلْأَرْضُ مِنَ اَلْخَسْفِ بِالْجَيْشِ (۲)

"اس وقت تک انتظار کرو جب تک آسمان سے ندا بلند نہ ہو اور خسف بیداء کا واقعہ رونما نہ ہو جائے۔"

اوربحارالانوار میں غیبۃ الطوسی سے نقل کیا گیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

يُنَادُونَ فِي رَجَبٍ ثَلاَثَةَ أَصْوَاتٍ مِنَ اَلسَّمَاءِ صَوْتاً مِنْهَا أَلاٰ لَعْنَةُ اَللّٰهِ عَلَى اَلظّٰالِمِينَ وَ اَلصَّوْتُ اَلثَّانِي أَزِفَتِ اَلْآزِفَةُ يَا مَعْشَرَ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلصَّوْتُ

____________________

۱:- کمال الدین ص۴۹۳ ح۱۸

۲:- امالی الطوسی و معانی الاخبار ۲۶۶،بحوالہ بحارالانوار ۵۲/۱۸۹ ح۱۶,۱۷

۴۳

اَلثَّالِثُ يَرَوْنَ بَدَناً بَارِزاً نَحْوَ عَيْنِ اَلشَّمْسِ هَذَا أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ قَدْ كَرَّ فِي هَلاَكِ اَلظَّالِمِينَ (۱)

ماہ رجب میں آسمان سے تین آوازیں آئیں گی جن میں سے

پہلی آواز یوں آئے گی:

"آگاہ رہو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔"

اور دوسری آواز آئے گی:

"آنے والی گھڑی قریب آہی گئی ہے اے گروہ مومنین"

اور تیسری آواز یوں آئے گی:

")جب لوگ سورج کی طرح چمکتا ایک نورانی جسم دیکھیں گے تب آواز آئے گی کہ) یہ امیرالمومنین ہیں اور ظالموں کو ہلاک کرنے کے لیے لوٹ آئے ہیں۔"

ایک اور حدیث میں ہے کہ:

ان جبرائیل ینادی فی لیلة الثالث والعشرین من شهررمضان نداء یسمعه جمیع الخلائق :

ان الحق مع علی وشیعته ۔(۲)

____________________

۱:- غیبۃ الطوسی ۲۶۸ اور ان سے بحارالانوار ۵۲/۲۸۹ ح۲۸

۲:- الارشاد ۲/ ۳۷۱

۴۴

"تیئیس رمضان کی شب جبرائیل ایک ایسی ندا دے گا جسے تمام مخلوقات سنیں گی کہ "بے شک حق علیؑ اور ان کے شیعوں کے ساتھ ہے "۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ آسمانی منادی ندا دے گا جسے تمام مخلوقات سنیں گی کہ :

"الا ان حجة الله قد ظهر عند بیت الله فاتبعوه" (۱)

"آگاہ ہوجاؤ کہ حجت خدا کا خانہ کعبہ میں ظہور ہوگیا ہے پس ان کی اتباع کرو۔"

اور کتاب کمال الدین میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :

"أَوَّلُ مَنْ يُبَايِعُ اَلْقَائِمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ جَبْرَئِيلُ يَنْزِلُ فِي صُورَةِ طَيْرٍ أَبْيَضَ فَيُبَايِعُهُ ثُمَّ يَضَعُ رِجْلاً عَلَى بَيْتِ اَللَّهِ اَلْحَرَامِ وَ رِجْلاً عَلَى بَيْتِ اَلْمَقْدِسِ ثُمَّ يُنَادِي بِصَوْتٍ طَلِقٍ تَسْمَعُهُ اَلْخَلاَئِقُ أَتىٰ أَمْرُ اَللّٰهِ فَلاٰ تَسْتَعْجِلُوهُ " (۲)

" سب سے پہلے جو قائم کی بیعت کریں گے وہ جبرائیل ہوں گے جو ایک سفید پرندے کی شکل میں نازل ہوں گے اور امام کی بیعت کریں گے پھر اپنا ایک قدم بیت اللہ اور دوسرا بیت المقدس پر رکھ کر ایسی واضح اور بلند آواز سے ندا

____________________

۱:- کمال الدین ۳۷۲ ح۵

۲:- کمال الدین ۲/۶۷۱ ح۱۹

۴۵

دینگے کہ جسے تمام مخلوقات سنیں گی کہ: خدا کا امرآگیا ہے پس اب جلدی نہ کرو۔"

اور ایک اور حدیث میں ہے کہ:

"فَيَبْعَثُ اَللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى رِيحاً فَتُنَادِي بِكُلِّ وَادٍ هَذَا اَلْمَهْدِيُّ يَقْضِي بِقَضَاءِ دَاوُدَ وَ سُلَيْمَانَ عَلَيْهِمَا اَلسَّلاَمُ وَ لاَ يُرِيدُ عَلَيْهِ بَيِّنَةً" (۱)

پس اللہ تعالی ایک ایسی ہوا بھیجے گا کہ جو ہروادی میں یوں نداء دے گی:

"یہ مہدی ؑ ہیں ،یہ داؤد اور سلیمان کی طرح فیصلے کریں گے کہ انہیں گواہوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔"

۱۷ ۔ سترہواں عمل:۔

کتاب کمال الدین میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

يَأْتِي عَلَى اَلنَّاسِ زَمَانٌ يَغِيبُ عَنْهُمْ إِمَامُهُمْ فَيَا طُوبَى لِلثَّابِتِينَ عَلَى أَمْرِنَا فِي ذَلِكَ اَلزَّمَانِ إِنَّ أَدْنَى مَا يَكُونُ لَهُمْ مِنَ اَلثَّوَابِ أَنْ يُنَادِيَهُمُ اَلْبَارِئُ جَلَّ جَلاَلُهُ فَيَقُولَ عِبَادِي وَ إِمَائِي آمَنْتُمْ بِسِرِّي وَ صَدَّقْتُمْ بِغَيْبِي فَأَبْشِرُوا بِحُسْنِ اَلثَّوَابِ مِنِّي فَأَنْتُمْ عِبَادِي وَ إِمَائِي حَقّاً مِنْكُمْ أَتَقَبَّلُ وَ

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۶۷۱ ح۱۹

۴۶

عَنْكُمْ أَعْفُو وَ لَكُمْ أَغْفِرُ وَ بِكُمْ أَسْقِي عِبَادِيَ اَلْغَيْثَ وَ أَدْفَعُ عَنْهُمُ اَلْبَلاَءَ وَ لَوْلاَكُمْ لَأَنْزَلْتُ عَلَيْهِمْ عَذَابِي قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ يَا اِبْنَ رَسُولِ اَللَّهِ فَمَا أَفْضَلُ مَا يَسْتَعْمِلُهُ اَلْمُؤْمِنُ فِي ذَلِكَ اَلزَّمَانِ قَالَ حِفْظُ اَللِّسَانِ وَ لُزُومُ اَلْبَيْتِ (۱)

"لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں ان کا امامؑ ان سے غائب ہو گا۔پس پاکیزگی ہے ان لوگوں کے لیے جو اس زمانے میں ہمارے امر پر ثابت قدم رہیں۔ان کے لیے کم ازکم اجر یہ ہے کہ اللہ جل شانہ انہیں فرمائے گا کہ اے میرے بندو! تم میرے راز پر ایمان لائے اور میرے غیب کی تصدیق کی پس میری طرف سے بہترین ثواب پہ خوش ہوجاؤ۔تم میرے حقیقی بندے ہو۔میں تمہارے اعمال قبول کرتا ہوں ، تم سے عفو درگزر کرتا ہوں اور تمہیں بخش دیتا ہوں اورتمہاری وجہ سے اپنے بندوں کو بارش سے سیراب کرتا ہوں اور ان سے بلاؤں کو دور کرتا ہوں اور اگر تم نہ ہوتے تومیں ان پر عذاب نازل کرتا۔"

جابر کہتے ہیں میں نے پوچھا:

اے فرزند رسول ؐ! اس زمانے میں مومن کے لیے بہترین عمل کیاہے؟

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۳۰ ح۱۵

۴۷

فرمایا:

"اپنی زبان کی حفاظت کرنا اور گھر میں رہنا۔"

یعنی سوائے ضرورت کے عام معاشرے سے دور رہے کیونکہ معاشرے کی ضروریات اسے امام ؑ کی یاد سے غافل کر دیں گی۔

۱۸ ۔ اٹھارواں عمل:۔

امام ؑ کی ذات مبارک پہ صلوات بھیجنا۔

آگے چل کر ہم امام ؑ کی ذات پر ہدیہ کے لیے صلوات کے کچھ مروی طریقے ذکر کریں گے۔انشاء اللہ تعالی

۱۹ ۔ انیسواں عمل:۔

اما م علیہ السلام کے فضائل و مناقب بیان کرنا۔

یہ عمل اس لیے انجام دینا ہے کیونکہ امام علیہ السلام ہم تک پہنچنے والی اللہ تعالی کی نعمتوں کا سبب ہیں ۔جیسا کہ مصنف نے اپنی کتاب مکیال المکارم میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔پس وہ ذات جو خدائی نعمتوں کے وصول کا ذریعہ ہے اس لائق ہے کہ اس کے فضائل و کمالات کا ذکر کیا جائے۔

جیسا کہ کتاب مکارم الاخلاق میں امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول رسالۃ الحقوق میں صاحب معروف کا حق بیان کیا گیا ہے۔

۴۸

۲۰ ۔ بیسواں عمل:۔

امام ؑ کے جمال مبارک کو حقیقت میں دیکھنے کا اشتیاق رکھنا:

جیسا کہ امیرالمومنین ؑ کے بارے میں ہے کہ آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے اور ان سے ملاقات کے اشتیاق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

"وهو لَمْ يُولَدْ بَعْدُ "

"وہ ابھی تک پیدا نہیں ہوئے۔"(۱)

۲۱ ۔ اکیسواں عمل:۔

لوگوں کو امامؑ اور ان کے آباء طاہرین کی معرفت اورخدمت کی دعوت دینا۔

الکافی میں سلمان بن خالد سے مروی ہے کہ میں نے امامؑ سے عرض کیا کہ میرے گھر والے میری بات مانتے ہیں کیا میں انہیں اس امر کی دعوت دوں ؟

فرمایا: ہاں بے شک اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ" (۲)

____________________

۱:- غیبۃ النعمانی ۲۱۴، بحارالانوار۵۱/۱۱۵ ح۱۴

۲:- سورۃ تحریم ۶،الکافی ۲/۲۱۱ ح۱

۴۹

"اے ایمان والو! خود کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔"

۲۲ ۔ بائیسواں عمل:۔

اذیت پر صبر کرنا:

سختیوں،امام ؑ کے دشمن کی جانب سے جھٹلائے جانے ، اذیت پہنچائے جانے اور ان کی طرف سے ملامت پر صبر کرنا۔

کتاب کمال الدین میں سیدالشہداء سے مروی ہے کہ فرمایا:

"آگاہ ہو جاؤ کہ زمانہ غیبت میں اذیتوں اور جھٹلائے جانے پر صبر کرنے والا رسول خدا ﷺکے ساتھ مل کر تلوار سے جہاد کرنے والے کے برابر ہے۔"(۱)

۲۳ ۔ تیئیسواں عمل:۔

اعمال صالحہ کا ہدیہ:

امام علیہ السلام کی خدمت میں اعمال صالحہ کا ثواب ہدیہ کرنا جیسے تلاوت قرآن وغیرہ۔

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۱۷ ح۳

۵۰

۲۴ ۔ چوبیسواں عمل:۔

امامؑ کی زیارت بجا لانا:

یہ آخری دو عمل فقط امام زمانہ ؑ کے ساتھ ہی مختص نہیں بلکہ یہ تمام آئمہؑ کی شان میں وارد ہوئے ہیں۔

۲۵ ۔ پچیسواں عمل:۔

امام ؑ کے جلد از جلد ظہور کی دعا کرنا اور امام ؑ کے لیے اللہ سے فتح و نصرت طلب کرنا۔

اس عمل کے بہت زیادہ فوائد ہیں۔یہ سب اعمال میں نے آئمہ کی روایات سے اپنی فارسی کتاب "ابواب الجنات آداب الجمعات" میں جمع کیے ہیں اور عربی کتاب مکیال المکارم کے باب فوائد الدعاء للقائم میں ذکرکیے ہیں۔

الاحتجاج میں حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف سے مروی ایک توقیع مبارک میں نقل ہے کہ فرمایا:

وَ أَكْثِرُوا اَلدُّعَاءَ بِتَعْجِيلِ اَلْفَرَجِ فَإِنَّ ذَلِكَ فَرَجُكُمْ (۱)

“ظہور میں تعجیل کے لیے کثرت سے دعا کیا کرو کیونکہ اس میں تمہارے لیے کشائش ہے۔”

____________________

۱:- الاحتجاج ۲/۲۸۴

۵۱

اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا:

وَ اَللَّهِ لَيَغِيبَنَّ غَيْبَةً لاَ يَنْجُو فِيهَا مِنَ اَلْهَلَكَةِ إِلاَّ مَنْ ثَبَّتَهُ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَى اَلْقَوْلِ بِإِمَامَتِهِ وَ وَفَّقَهُ فِيهَا لِلدُّعَاءِ بِتَعْجِيلِ فَرَجِهِ (۱)

"خدا کی قسم وہ اتنا عرصہ غائب رہیں گے کہ جس میں ہلاکت سے صرف وہی بچے گا جسے اللہ تعالی ان کی امامت پر ثابت قدم رکھے گا۔اور اسے تعجیل فرج کی دعا کی توفیق عطا فرمائے گا۔"

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۴۸ ضمن حدیث ۱

۵۲

فصل اول

بعض دعائیں اور زیارات

آئمہ معصومین ؑ سے امام مہدی ؑ سے مختص بہت سی دعائیں واردہوئی ہیں ۔اس مختصر کتاب میں ان میں سے پانچ دعائیں ذکر کرنےکی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

پہلی دعا:۔

الفقیہ میں امام محمد تقی علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا:

فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد یوں کہو:

"رَضَيْتُ باللهَ رَبّاً وَبالإسلام دِيناً وَبِالقُرآنِ كِتاباً وَبعَليّ عَلَيه السلام وَليّاً والحَسَنِ وَالحُسينِ وعَليّ بن الحُسين وَمُحمّدِ بنِ عليّ وَجَعفَرِ بنِ مُحمّدٍ وَمُوسى بنِ جعفر وعَليّ بنِ موسى وَمُحمّدِ بن عَليّ، وَعليّ بنِ مُحمّدٍ وَالحَسنِ بن عليّ وَالحُجّةِ بنِ الحَسَنِ بنِ عَلِيّ عَلَيهِم السلامُ أئمَةً. اَللهمّ وَليَّكَ الحُجّةَ فاحفَظهُ مِنْ بَينِ يَديهِ وَمِن خَلفِهِ وَعَن يَمينِه وَعَنْ شِمالِهِ وَمِن فَوقهِ وَمِن تَحتِهِ وامدُد لهُ في عُمره وَاجْعَلهُ القائِمَ بِاَمرِكَ المُنْتصِرَ لِدينِكَ وأرِه ما يُحِبُّ وَتقِرُّ بهِ عَيْنُهُ في نَفْسِهِ وَذُرّيتِهِ وَفي أهلِهِ وَمالِه وَفي شيعَتِه

۵۳

وَفي عَدوِه وَأرِهم منهُ ما يَحذَرونَ وأَرهِ فيهِم ما يُحِبَ وَتقرُّ بهِ عينُهُ واشفِ بِهِ صُدورَنا وَصدُورَ قَومٍ مُؤمنين " (۱)

دوسری دعا:۔

مکارم الاخلاق میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ یہ دعا ہر فریضہ نماز کے بعد پڑھی جائے:

اللّهمَّ صَلّ عَلَى مُحمّدٍ وآلِ مُحَمّدٍ، اللّهُمّ إنَّ رَسولَكَ الصادِقَ المُصدَّقَ الأمينَ صَلَواتُكَ عَليهِ وَآلِه قالَ: إنَّك قُلتَ تَباركْتَ وَتَعالَيْتَ ما تَردّدَتُ في شَيءٍ أنا فاعِلُه كتَردّدي في قَبضِ روحِ عَبديَ المُؤمِن يكرهُ المَوتَ واَنا أكْرهُ مَساءَتَهُ.

اللّهمّ فَصَلِّ على مُحمّدٍ وَآلِ مُحمّدٍ وَعَجّل لِوَليِّكَ الفَرجَ وَالراحَةَ وَالنصرَ والكَرامةَ والعافيةَ ولا تَسُؤني في نَفْسي وَلا في أَحدٍ مِن أَحِبَّتي(۲)

تیسری دعا:۔

جمال الاسبوع میں امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ حضر ت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کے لیے یہ دعا فرماتے تھے۔ اور اس دعا کا کوئی وقت

____________________

۱:- من لا یحضرہ الفقیہ :۱؛/۳۸۱

۲:- مکارم الاخلاق: ۲۸۴

۵۴

مقرر نہیں ہے بلکہ کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے۔اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ یہ دعا پڑھتے وقت مجھے فراموش نہیں کریں گے۔

اَللّهمَّ صَلِ عَلى مُحمّدٍ وَآل مُحمّد وادفَع عَنْ وَليِّكَ وَخَليفَتِكَ وَحُجَّتِكَ على خَلْقِكَ وَلِسانِكَ المُعَبِّرِ عَنْكَ بإذْنِكَ الناطِقِ بِحكمَتِكَ وَعَينِكَ الناظِرةِ في بَريّتِكَ وَشاهِدكَ على عبادك الجَحجاح المجاهد المُجتَهد عَبْدِكَ العائِذِ بِكَ.

اللّهمّ وَاَعِذْهُ مِنُ شَرِّ ما خَلَقْتَ وَذَرأت وَبرأتَ وَأنشأتَ وَصَوَّرتَ، وَاحفظهُ مِنْ بَينِ يَديهِ وَمِن خَلفِهِ وَعَن يَمينِهِ وَعَنْ شِمالِهِ وَمِنْ فَوْقِهِ وَمِنْ تَحتِهِ بِحِفْظِكَ الّذي لا يضيع مَنْ حَفِظْتَهُ بِهِ وَاحفَظْ فِيهِ رِسولَكَ وَوَصيّ رَسولَكَ وَآباءَه ائِمّتَكَ وَدَعائِمَ دِينِكَ صَلَواتُكَ عَلَيْهِم اَجْمَعِينَ، وَاجْعَلْهُ في وَديعَتكَ الَّتي لا تَضيعُ وَفي جِوارِكَ الّذي لا يُخْفَرُ وفي مَنْعِكَ وَعِزِّكَ الّذي لا يُقْهَرُ.

اللّهمَّ وَآمِنْهُ بِأِمانِكَ الوَثيقِ الَّذي لا يُخْذَلُ مَن اَمِنْتَهُ بِهِ وَاجْعَلْهُ في كَنَفِكَ الّذي لا يُضامُ مَن كانَ فيهِ، وَانْصُرهُ بِنَصرِكَ العَزيزِ وَاَيِّدْهُ بِجُنْدِكَ الغالِبِ وَقَوِّهِ بِقُوَّتِكَ وَأَرْدِفْهُ بِمَلائِكَتِكَ.

اللّهُمَّ والِ مَنْ والاهُ وَعادِ مَنْ عاداهُ وألْبِسْهُ دِرعَكَ الحَصِينَةَ وحُفَّهُ بِالمَلائكَةِ حَفّاً.

۵۵

اللّهُمَّ وبَلِغْهُ اَفْضَلَ ما بَلَّغْتَ القائِمينَ بِقِسْطِكَ مِنْ أتباعِ النَّبيِيّنَ.

اللّهُمَّ اشْعَبْ بِهِ الصَّدْعَ وَارْتُقْ بِهِ الفَتْقَ وَأَمِتْ بِهِ الجَوْرَ وَأَظهِرْ بِهِ العَدْلَ وَزَيِّنْ بِطُولِ بَقائِهِ الأرْضَ، وَاَيِّدْهُ بِالنصْرِ وَانصُرْهُ بِالرُعْبِ وَافْتَحْ لَهُ فَتَحاً يَسيْراً، وَاجْعَلْ لَهُ مِن لَدُنْكَ عَلى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِ سُلطاناً نَصِيُراً.

اللّهمَّ اجْعَلْهُ القائِمَ المنتظر وَالإِمامَ الَّذي بِهِ تُنْتَصَرُ وَأيِّدْهُ بِنَصرٍ عَزيزٍ وَفتحٍ قَريبٍ وَوَرِّثْهُ مَشارِقَ الأرْضِ وَمغارِبَها اللآتِي بارَكْتَ فيها وَأحْيِ بِهِ سُنَّةَ نَبيِّكَ صَلَواتُكَ عَلَيهِ وَآلِهِ حَتّى لا يَسْتَخْفِيَ بِشَيءٍ مِنَ الحَقِّ مَخافَةَ أحدٍ مِنَ الخَلْق، وَقَوِّ ناصَرَهُ وَاخْذُلْ خاذِلَهُ وَدَمْدِمْ عَلى مَن نَصَبَ لَهُ وَدَمِّرْ على مَنْ غَشَّهُ.

اللّهُمَّ وَاقْتُل بِهِ جَبابِرَةَ الكُفْرِ وَعُمَدَهُ وَدَعائِمَهُ وَالقُوّامَ بِهِ وَاقصِمْ بِهِ رُؤُوسَ الضَّلالَةِ وَشارِعَةَ البِدْعَةِ وَمُمِيتَةَ السُّنَّةِ وَمُقوِّيةَ الباطل وَأذلِلْ بِهِ الجَبّارِينَ وَأَبِرْ بِه الكافِرينَ وَالمُنافِقينَ وَجَمِيعَ المُلحِدِينَ حَيْثُ كانُوا وَأينَ كانوا مِنْ مَشارِقِ الأرْضِ وَمَغارِبِها وَبرِّها وَبَحْرِها وَسَهْلِها وَجَبلِها حَتّى لا تَدَعَ مِنْهُمْ دَيّاراً أوَلا تُبقيَ لَهُمْ آثاراً.

اَللّهُمَّ وَطَهِّرْ مِنْهُمْ بِلَادَكَ وَاشْفِ مِنهُمْ عِبادَكَ وَاَعِزَّ بِهِ المُؤمنينَ وَاَحْي بِهِ سُنَنَ المُرسَلينَ وَدارِسَ حِكَمِ النَّبِيّن وَجَدِّد بِهِ ما مُحِيَ

۵۶

مِن دِينِكَ وَبُدِّلَ مِن حُكْمِكَ حَتَى تُعِيدَ دِينَكَ بِهِ وَعَلى يَدَيهِ غَضّاً جَديداً صَحِيحاً مَحْضاً لا عِوَجَ فيهِ وَلا بِدْعَةَ مَعَهُ حَتّى تُنِيرَ بعَدْلِهِ ظُلَمَ الجَورِ وَتُطفيءَ بِهِ نِيرانَ الكُفرِ وَتُظهِرَ بِهِ مَعاقِدَ الحَقِ وَمجَهُولَ العَدْلِ وَتوضِحَ بِهِ مُشكِلاتِ الحُكْمِ.

اَللّهمَّ وَإِنّهُ عَبدُكَ الّذِي اسْتَخلَصْتَهُ لِنَفسِكَ وَاصْطفَيتَهُ مِنْ خَلْقِكَ واصْطَفَيتَهُ على عِبادِك وَائْتَمَنْتَهُ عَلَى غيبِكَ وَعَصَمتَهُ مِنَ الذّنوبِ وبرّأْتَهُ مِنَ العُيُوبِ وَطَهَّرتَهُ مِنَ الرِّجْسِ وَصَرَفتَهُ عَنِ الدّنَس وَسَلَّمْتَهُ مِنَ الرّيْبِ.

اَللّهُمَ فَاِنّا نَشْهَدُ لَهُ يَوْمَ القِيامَةِ وَيَومَ حُلُولِ الطَّامّةِ اَنَّهُ لَمْ يُذْنِبْ ذَنْباً وَلَمْ يَأتِ حُوباً وَلَمْ يَرتَكِبْ لَكَ مَعصِيةً وَلَمْ يُضيِّعْ لَكَ طاعَةً وَلَم يَهْتِكْ لَكَ حُرْمَةً وَلَمْ يُبدِّلْ لَكَ فَرِيضَةً ولَمْ يُغيَرْ لَكَ شَرِيعةً وَإنّهُ الإمامُ التَقِيُ الهادِيُ المَهْديُ الطاهِرُ التَّقي الوَفِيُ الرَضِيُ الزكِيُ.

اللَّهمَ فَصَلِّ عَلَيْهِ وَعَلى آبائِهِ وَاَعطِهِ فِي نَفسِهِ وَوَلدِهِ وَاَهْلِهِ وَذُرِّيَّتِهِ وَاُمَّتِهِ وَجَميعِ رَعِيَّتِه ما تُقِرُّ بِهِ عَينَهُ وَتُسِرُّ بِهِ نَفسَهُ وَتُجْمِعُ لَهُ مُلْكَ المَمْلَكاتِ كُلِّها قَرِيبها وَبَعِيدهَا وَعَزِيزِها وَذَلِيلِها حَتّى يَجْرِيَ حُكْمُهُ عَلى كُلِّ حُكْمٍ وَيَغْلِبَ بِحَقِّهِ عَلَى كُلِّ باطِلِ.

۵۷

اللّهُمَ وَاسْلُكْ بِنا عَلى يَدَيْهِ مِنْهاجَ الْهدَى وَالْمَحَجَّةَ العُظْمى وَالطَريقَةَ الوُسْطى الَّتي يَرجِعُ اِلَيها الغالِي وَيَلحَقُ بها التّالِي.

اللّهُمّ وَقَوِّنا عَلَى طاعَتِهِ وَثَبِّتْنا عَلَى مُشايَعَتِهِ وَامْنُنْ عَلَينا بِمُتابَعَتِهِ وَاجْعَلْنا فِي حِزْبِهِ القَوّامِينَ بأَمرِه الصَّابِرِينَ مَعَهُ الطَّالِبِينَ رِضَاكَ بِمُناصَحَتِهِ حَتّى تَحْشُرَنا يَوْمَ القِيامَةِ فِي اَنْصَارِه وَاَعْوانِهِ وَمُقَوِّيّة سُلْطَانِهِ.

اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحِمّدٍ وَآلِ مُحَمّد وَاجْعَلْ ذلِكَ كُلَّهُ مِنَّا لَكَ خالِصاً مِنْ كُلِ شَكٍ وَشُبْهَةٍ وَرِياءٍ وَسُمْعَةٍ حَتّى لانعْتَمِدَ بِهِ غَيْرَكَ وَلا نَطْلُبَ بِهِ اِلاّ وَجْهَكَ وَحتّى تُحِلَّناَ مَحِلَّهُ وَتَجْعَلنا فِي الجَنّةِ مَعَهُ وَلَا تَبْتَلِنا فِي أمْرِه بِالسَّأمَةِ وَالكَسَلِ وَالفَتَرةِ وَالفَشَلِ، وَاجْعَلْنا ممَّن تَنْتَصِرُ بِهِ لِدينكَ وَتُعِزُّ بِهِ نَصرَ وَليِّكَ وَلا تَسْتَبْدِلْ بِنا غيْرَنا فَإنَّ اسْتِبْدالَكَ بنا غَيْرَنا عَلَيْكَ يَسير وَهُوَ عَلَيْنا كَبِيرْ اِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيء قَدِيرٌ.

اللّهُمَّ وَصَلِّ على وُلاةِ عُهودهِ وبَلِّغْهُم آمالَهُمْ وَزِدْ في آجالِهِمْ وَانْصُرْهُمْ وَتَمِّمْ لَهُ ما اَسْنَدْتَ اِلَيهِمْ مِنْ اَمْرِ دينِكَ وَاجعَلْنا لَهُم اَعْواناً وَعَلى دِينِكَ أنصاراً وَصلِّ عَلى آبائِهِ الطّاهِرِينَ الأئِمَّةِ الرَّاشدِيْنَ.

اللّهُمَّ فَاِنَّهُمْ مَعادِنُ كَلِماتِكَ وَخزّانُ عِلْمِكَ وَوُلاةُ اَمْرِكَ وَخالِصَتُكَ مِنْ عِبادِكَ وَخِيَرتِكَ مِنْ خَلْقِكَ واَوْلِيائِكَ وَسَلائِلِ أوْليائِكَ وَصَفوَتِكَ وَاَولاَدِ اصْفِيَائِكَ صَلَواتُكَ وَرَحمتُكَ وبَركاتُكَ عَلَيْهِمْ اَجْمَعينَ.

۵۸

اللّهُمّ وَشُركاؤُهُ في أَمْرِهِ وَمُعاوِنُوهُ عَلى طاعتِكَ الذينَ جَعَلتَهُمْ حِصْنَهُ وسِلاحَهُ وَمفزَعَهُ واُنسَهُ الذّينَ سَلَوْا عَنِ الأَهْلِ وَالاَوْلاد وتَجافَوا الوَطنَ وَعَطَّلُوا الوَثيرَ مِنَ الْمِهادِ قَدْ رَفَضُوا تِجاراتِهِم وَاَضَرُّوا بِمعايِشِهِمْ وفُقِدُوا في اَندِيَتِهِمْ بغيْرِ غَيبةٍ عَن مِصرِهم وحالَفُوا البَعيدَ مِمَّنْ عاضَدَهُم عَلى اَمْرِهِمْ وَخالَفُوا القَريبَ مِمَنْ صَدَّ عَن وِجْهَتِهِمْ وَائتَلَفْوا بَعْدَ التَّدابُر وَالتقاطُعِ في دَهْرِهِمْ وَقطَعُوا الأسبابَ المُتَّصِلَةِ بِعاجِلِ حُطامٍ مِنَ الدّنيا، فَاجعَلْهُم اللَهُمَّ في حِرْزِكَ وَفي ظِلّ كَنَفِكَ وَرُدَّ عَنْهُمْ بَأسَ مَن قَصَدَ اِلَيْهِمْ بِالْعَداوَةِ مِنْ خَلْفِكَ وَاَجْزِلْ لَهُمْ مِنْ دَعْوَتِكَ مِن كِفايَتِكَ وَمعُونَتِكَ لَهُمْ وَتُايِيدِكَ وَنَصْرِك ايّاهُمْ ما تُعينُهُمْ بِهِ عَلى طاعَتِكَ وَاَزْهِقْ بِحَقّهِمْ باطِلَ مَن أرادَ اِطْفاءَ نوُرِكَ وصلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَاملَأْ بِهِمْ كُلَّ أفُقٍ مِنَ الآفاقِ وَقُطرٍ منَ الأقْطارِ قِسْطاً وَعَدْلاً وَرَحْمَةً وَفَضْلاً وَاشْكُرْ لَهُمْ على حَسَبِ كَرَمِكَ وَجُودِكَ وما مَنَنْتَ بِهِ على القائِمينَ بالْقِسْطِ مِنْ عِبادِكَ وادَّخِرْ

لَهُمْ مِنْ ثَوابِكَ ماتَرفَعُ لَهُمْ بِهِ الدَّرَجاتِ اِنَّكَ تَفْعَلُ ما تَشاءُ وتَحْكُمُ ما تُرِيدْ آمِينَ رَبَّ العالَمِين(۱)

____________________

۱:- جمال الاسبوع: ص۵۱۳

۵۹

چوتھی دعا:۔

وہ صلوات پڑھنا کہ جو جمال الاسبوع میں اور بحار الانوار میں وارد ہوئی ہے

اور یہ دعا اور صلوات دونوں پر مشتمل ہے:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‏الْمُنْتَجَبِ فِي الْمِيثَاقِ الْمُصْطَفَى فِي الظِّلاَلِ الْمُطَهَّرِ مِنْ كُلِّ آفَةٍ الْبَرِي‏ءِ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ‏ الْمُؤَمَّلِ لِلنَّجَاةِ الْمُرْتَجَى لِلشَّفَاعَةِ الْمُفَوَّضِ إِلَيْهِ دِينُ اللَّهِ.

‏اللَّهُمَّ شَرِّفْ بُنْيَانَهُ وَعَظِّمْ بُرْهَانَهُ وَأَفْلِجْ حُجَّتَهُ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ‏ وَأَضِئْ نُورَهُ وَبَيِّضْ وَجْهَهُ وَأَعْطِهِ الْفَضْلَ وَالْفَضِيلَةَ وَالْمَنْزِلَةَ وَالْوَسِيلَةَ وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَثْهُ مَقَاماً مَحْمُوداً يَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ‏.

وَصَلِّ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَقَائِدِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ وَسَيِّدِ الْوَصِيِّينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

وَصَلِّ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

‏وَصَلِّ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

اصلى منبع ہے_قل إنما أنذركم بالوحي

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كو صرف وحى كى بنياد پر انذار كرنے پر مأمور تھے_

۵ _ لوگوں كو انذاز كرنے اور تبليغ دين كے سلسلے ميں وحى الہى پر بھروسہ كرنا ضرورى ہے_قل إنما أنذركم بالوحي

۶ _ دين كے اہداف كو آگے بڑھانے ميں انذار كى اہميت اور اس كا اعلى كردار_إنما أنذركم بالوحي

۷ _ انسان، دين الہى كے اس كو تھامے بغير سقوط اور ناقابل علاج آفتوں ميں مبتلا ہونے كے خطرے سے دوچار ہے_

قل إنما أنذركم بالوحي وحى كا انذاز اور اس كا خطرے سے آگاہ كرنا انسان كے راستے ميں بہت سے خطرات اور آفتوں كے وجود كو بيان كر رہا ہے اگر انسان ان خطرات و آفات كو صحيح طريقے سے پہچانتا ہوتا اور ان كا حل نكال ليتا تو خداتعالى كى طرف سے انذار اور خطرے سے آگاہ كرنے كا آنا لغو اور فضول ہوتا لہذا انذار الہى اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ دين كے بغير انسان مہلك خطرات اور آفتوں سے دوچار ہوجائيگا_

۸ _ بعض لوگوں ميں پيغمبراكرم(ص) كے انذار كا اثر نہ كرنا ان كى بات نہ سننے وجہ سے تھا نہ وحى كے استدلال اور پيغمبر اكرم(ص) كے بيان ميں نقص كى وجہ سے_قل إنما أنذركم بالوحى و لا يسمع الصم الدعاء إذا ما ينذرون

۹ _ بعض لوگ بہروں كى طرح ہرگز حق كى بات كو نہيں سنتے اور اسكى طرف توجہ نہيں كرتے_

لايسمع الصم الدعاء اذا ما ينذرون

آنحضرت-(ص) :آپكى رسالت كى حدود كا بيان كرنا ۱; آپ(ص) كے انذار كے اثر نہ كرنے كے عوامل ۸; آپ(ص) كى ذمہ دارى ۱، ۲; آپ(ص) كے انذار كا سرچشمہ۳

انسان:اسے انذار كرنا ۲

تبليغ:اس ميں انذار۵; اس ميں انذار كى اہميت ۶; اسكى روش ۵، ۶

حق:اسے قبول نہ كرنے كے اثرات ۸; اسے قبول نہ كرنے والے ۹

خطرہ:اس كا پيش خيمہ ۷/دين:دين شناسى كے منابع ۴ اس كا كردار ۷

شناخت:اسكے منابع۴

معاشرتى گروہ :۹

۳۶۱

وحي:اس كا كردار ۲، ۳، ۴، ۵، ۸

ہلاكت:اس كا پيش خيمہ ۷

آیت ۴۶

( وَلَئِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

حالانكہ انھيں عذاب الہى كى ہوا بھى چھو جائے تو كہہ اٹھيں گے كہ افسوس ہم واقعى ظالم تھے (۴۶)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے معمولى سے عذاب كو محسوس كرنے كے وقت، كافروں كى اپنے ظلم و ستم سے ندامت اور حسرت_ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

لغت ميں ''نفحة'' كا معنى ہے ہوا كا چلنا يا اس كا ايك جھونكا_ يہ عام طور پر امور خير ميں استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات امور شر ميں بھى استعمال ہوتا ہے_ مفسرين كى نظر كے مطابق آيت كريمہ ميں يہ كلمہ تين وجوہات كى بناپر تقليل پر دلالت كررہا ہے ۱_ مادہ ''نفخة'' تقليل پر دلالت كرتا ہے ۲; يہ ''مرّة'' كے وزن پر ہے۳_ يہ نكرہ كى صورت ميں آيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ لفظ ''ويل'' وہ شخص بولتا ہے جو ہلاكت اور بدبختى ميں مبتلا ہو اور افسوس و حسرت كى بناپر اس لفظ كو ادا كرتا ہے _

۲ _ معمولى سے عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كے بعد كفار كا اپنے ظلم و ستم كا اعتراف و اقرار _

ولئن مسّتہم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

۳ _ مشكلات اور سختياں انسان كے متنبہ ہونے اور اسكے حق كا اعتراف كرنے كا سبب ہيں _

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

۴ _ عذاب الہى بہت سخت ہے اور اسكے مقابلے ميں انسان بہت ناتوان ہےولئن مسّتهم نفخة من عذاب ربك ليقولنياويلنا

ہٹ دھرم كفار كا معمولى سے عذاب الہى كو محسوس كرنے كے ساتھ ہى حق كا اعتراف كر لينا عذاب الہى كى شدت اور اسكے مقابلے ميں انسان كى ناتوانى كو بيان كررہا ہے_

۵ _ كفار كا عذاب ، ربوبيت الہى كى ايك شان ہے

۳۶۲

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك

۶ _ كفر، شرك اور انبيا(ع) ء كا مذاق اڑانا آشكارا ظلم و ستم ہے_ياويلنا إنّا كنّا ظلمين

تمسخر اڑانے والے مشركين و كفار كااپنے ستمگر ہونے كا اعتراف كرنا كفر و شرك اور انبيا(ع) ء كے تمسخر كے ظلم ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۷ _ ليچڑ قسم كے انسان اور كفار خداتعالى كى قدرت اور عذاب سے اثر ليتے ہيں نہ منطق و استدلال سے_

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا انّا كنّا ظلمين

اقرار:ظلم كا اقرار۲: حق كے اقرار كے عوامل ۳

انبياء(ع) :ان كے مذاق اڑانے كا ظلم ہونا ۶

انسان:اسكى صفات ۷; اس كا عاجز ہونا ۴

خداتعالى :اسكے عذاب كے اثرات ۷; اسكى ربوبيت ۵; اسكے عذاب كى شدت ۴

سختي:اسكے اثرات ۳

شرك:اس كا ظلم ہونا ۶

ظلم:اس سے پشيمانى ۱; اسكے موارد ۶

عذاب:اسكے درجے ۴

كفار:انكا اقرار ۲; انكى پشيمانى ۱; انكى حسرت ۱; انكى صفات۷; انكا عذاب ۵; انكے متنبہ ہونے كے عوامل ۷; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

كفر:اس كا ظلم ۶

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

۳۶۳

آیت ۴۷

( وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئاً وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ )

اور ہم قيامت كے دن انصاف كى ترازو قائم كريں گے اور كسى نفس پر ادنى ظلم نہيں كيا جائے گا اور كسى كا عمل رائي كے دانہ كے برابر بھى ہے تو ہم اسے لے آئيں گے اور ہم سب كا حساب كرنے كے لئے كافى ہيں (۴۷)

۱ _ روز قيامت ،انسانوں كا حساب و كتاب عدل و انصاف كے ميزان پر ہوگا_و نضع الموازين القسط ليوم القى مة

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ليوم القيامة'' ميں ''لام'' ظرفيت كيلئے اور ''في'' يا ''عند'' كے معنى ميں ہو_

۲ _ بندوں كے اعمال كا قسط و عدل كى بنياد پر حساب و كتاب كرنا قيامت كے برپا ہونے كا ايك فلسفہ _و نضع الموازين القسط ليوم القيامة مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ليوم القيامة'' كا لام تعليل كيلئے ہو اس بنياد پر آيت كريمہ كا پيغام يہ ہوگا كہ قيامت كے برپا ہونے كى خاطر ہم قسط و عدل كے ترازو ركھيں گے_

۳ _ روز قيامت اعمال كے تولنے كے آلات (ميزان) متعدد ہيں _و نضع الموازين القسط

موازين (ميزان كى جمع) يعنى ترازو اور اس كا جمع آنا تعدد كى دليل ہے اگر چہ مفسرين كے درميان عدل كے ترازوں كے متعدد ہونے كى كيفيت كے بارے ميں اختلاف ہے _

۴ _ خداتعالى كا دقيق اور عادلانہ حساب و كتاب انسان كے تمام چھوٹے بڑے اعمال كو شامل ہوگا_

و نضع الموازين القسط ليوم القيامة من خردل

''حبّة'' كا معنى ہے گندم، جو يا ان جيسى كسى چيز كا ايك دانہ اور ''خردل'' كا معنى ہے بہت باريك بيج ''مثقال حبة من خردل'' ہر دقيق اور چھوٹى چيز كو بيان كرنے كيلئے ضرب المثل ہے اور اس آيت كريمہ ميں اس سے مراد انسان كے تمام چھوٹے بڑے اعمال ہيں _

۳۶۴

۵ _ روز قيامت، خداتعالى كا حساب و كتاب اس طرح ہوگا كہ كسى پر معمولى سا بھى ظلم نہيں ہوگا_و نضع الموازين ...فلا تظلم نفس شيئا

۶ _ خداتعالى انسان كے سب چھوٹے بڑے اور ہلكے اور بھارى اعمال سے پورى طرح آگاہ ہے_و إن كان مثقال حبة من خردل أتينا به سب اعمال حتى كہ ان ميں سے سب سے چھوٹے عمل كو بھى لانا خداتعالى كى ان اعمال سے دقيق آگاہى كى دليل ہے_

۷ _ روز قيامت انسانوں كے اعمال _حتى كہ ان ميں سے سب سے چھوٹا عمل بھي_ حاضر اور ظاہر ہوں گے_و إن كا ن مثقال حبة من خردل أتينا به مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''اتينابہا'' سے اس كا ظاہرى معنى مراد ہو_

۸ _ دنيا ميں انسان كے اعمال دائمى اور زوال و نابودى سے محفوظ ہيں _أتينابه

''اعمال كو لانے'' كى تعبير بتاتى ہے كہ انسان كا كردار موجود رہتا ہے اور نابود نہيں ہوتا_

۹ _ روز قيامت بندوں كے اعمال كے حساب و كتاب كيلئے خداتعالى كافى ہے اور اسے دوسروں كى مدد كى ضرورت نہيں ہے_و كفى بنا حسبين

۱۰ _ انسان كے سب سے چھوٹے اور سب سے ہلكے عمل كا بھى خدا كى طرف سے محاسبہ اور بازپرس ہوگى اور اسكى جزا دى جائيگي_و إن كا ن مثقال حبة من خردل أتينا بها و كفى بنا حسبين

۱۱ _''عن هشام بن سالم قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' و نضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئاً'' قال: هم الا نبياء و الا وصياء (ع) ; ہشام بن سالم سے منقول كہ ہے كہ وہ كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان ''و نضع الموازين القسط ليوم القيامة '' كے بارے ميں پوچھا تو آپ(ع) نے فرمايا موازين قسط انبيا(ع) ء اوراصيا(ع) ء ہيں(۱)

ائمہ (ع) :ان كا نقش و كردار ۱۱

اسما و صفات:صفات جلال ۵

انبياء:

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۳۱ح ۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۳۰ ح ۷۷_

۳۶۵

ان كا نقش و كردار ۱۱

حساب و كتاب:اسكے آلات كا متعدد ہونا ۳; اس ميں عدل و انصاف۱; اخروى حساب و كتاب ميں عدل و انصاف ۲، ۴، ۵; اخروى حساب و كتاب كا معيار۱۱

خداتعالى :اسكى امداد ۹; اسكى بے نيازي۹; يہ اور ظلم ۵; اسكے حساب و كتاب كا دقيق ہونا ۱۰; اس كا عدلظاہر ہونا ۷; اس كا فلسفہ ۲; اس مين ميزان ۱، ۱۱ و انصاف۴; اسكے علم كى وسعت ۶; اسكے حساب و كتاب كى خصوصيات ۴،۵،۹،۱۰

روايت ۱۱

عمل:اس كا باقى رہنا۸; اس كى پاداش ۱۰; اس كا مجسم ہونا ۷; اسكى سزا ۱۰

قيامت:اس ميں ميزان كا متعدد ہونا ۳; اس ميں حقائق ك

آیت ۴۸

( وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاء وَذِكْراً لِّلْمُتَّقِينَ )

اور ہم نے موسى اور ہارون كو حق و باطل ميں فرق كرنے والى وہ كتاب عطا كى ہے جو ہدايت كى روشنى اور ان صاحبان تقوى كے لئے ياد الہى كا ذريعہ ہے (۴۸)

۱ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) مشتركہ رسالت اور آسمانى كتاب ركھنے والے دو پيغمبر _

ولقد أيتنا موسى و هارون الفرقان و ضيائً و ذكر ا

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الفرقان'' سے مراد آسمانى كتاب تورات ہو اس بناپر حضرت موسي(ع) كے ہمراہ حضرت ہارون(ع) كو آسمانى كتاب دينا اس چيز كو بيان كرتا ہے كہ حضرت ہارون(ع) بھي

حضرت موسي(ع) كى طرح نبوت اور آسمانى كتاب كے وصول كرنے ميں برابر كے شريك تھے_

۲ _ تورات، حق و باطل كو جدا كرنے والى ہے_إيتنا موسى و هارون الفرقان و ضيائً و ذكرا

كلمہ ''فرقان'' حق كو باطل سے جدا كرنے والى ہر چيز پر بولا جاتا ہے آسمانى كتاب تورات كى ''فرقان'' كے ساتھ توصيف مذكورہ مطلب كو بيان كر رہى ہے_

۳۶۶

۳ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) ، خداتعالى كے لطف و كرم كے سائے ميں حق و باطل كى تشخيص كى قدرت ركھتے تھے_ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان

''فرقان'' كے لغوى معنى (حق و باطل كو جدا كرنے والى شے) كو ديكھتے ہوئے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے _

۴ _ انسان حق و باطل كى تشخيص كيلئے خداتعالى كى رہنمائي كا محتاج ہے اور اسكے بغير اپنى تشخيص ميں غلطى سے دوچار ہوجائيگا_ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان

چونكہ انبيا(ع) ء اپنى تشخيص كى قدرت خداتعالى سے حاصل كرتے ہيں تو ديگر انسان اسكے بدرجہ ا ولى نيازمند ہيں _

۵ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) خداتعالى كى حجت اور برہان كے حامل دو پيغمبر_

ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان فرقان كا ايك لغوى معنى حجت اور برہان ہے (لسان العرب)

۶ _ تورات، متقين كيلئے زندگى ميں روشنى بخش او رانہيں ہدايت اور دينى ضروريات كے راستے كى ياد دہانى كرانے والى ہے_و ضيائً و ذكراً للمتقين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''فرقان'' سے مراد تورات ہو اور ''ضيائ'' اور ''ذكراً'' اسكى صفتيں بيان كررہے ہوں _ قابل ذكر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى ياد اور ياددہانى كرانا ہے اور اكثر مفسرين كے مطابق اس سے مراد دينى ضروريات اور ہدايت سے متعلق مسائل كى ياددہانى ہے_

۷ _ تقوا، ہدايت الہى اور آسمانى كتابوں سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_ذكراً للمتقين

۸ _ متقى لوگ زندگى ميں خداتعالى كى خصوصى ہدايت، نور اور روشنى سے بہرہ مند ہيں _و ضيائً و ذكراً للمتقين

۹ _ تقوا اعلى اقدار ميں سے ہے اور متقين تمام آسمانى كتابوں اور توحيدى اديان ميں خاص فضيلت اور بزرگى ركھتے ہيں _

و ضيائً و ذكراً للمتقين چونكہ متقين كو موسي(ع) ا ور ہارون (ع) كى آسمانى كتاب كے نزول اور نورو ہدايت الہى كے وصول كا ہدف اور مقصد قرار ديا گيا ہے اور قرآن نے بھى اپنى تعليمات كا ايك محور مسئلہ تقوا كو قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقوا تمام توحيدى اديان ميں خصوصى مقام و مرتبے كا حامل رہا ہے_

انسان:اسكى معنوى ضروريات ۴/آسمانى كتابيں :انكى ہدايت ۷

باطل:اسكى تشخيص ۳; اسكى تشخيص كے شرائط ۴

۳۶۷

تقوا:اسكے اثرات ۷; اسكى قدر و قيمت ۹

تورات:اس كا روشنى بخش ہونا ۳; اس كا كردار ۲; اس كا ہدايت كرنے والا ہونا ۶

حق :اسكى تشخيص ۳; اسكى تشخيص كے شرائط ۴; حق و باطل كو جدا كرنے والا ۲

خداتعالى :اسكى تعليمات كى اہميت ۴; اسكى ہدايات ۷، ۸

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۳

متقين:ان كے فضائل ۸; آسمانى كتابوں ميں ان كے فضائل ۸; انكى ہدايت ۶، ۸

موسي(ع) :انكى بصيرت ۳; انكى حجت ۵; انكى رسالت كا شريك ۱; ان كے فضائل ۳; انكى آسمانى كتاب۱; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۵; انكى نبوت ۱، ۵

ہدايت يافتہ لوگ :۸

ہارون(ع) :ان كى بصيرت ۳; انكى حجت ۵; ان كے فضائل ۳; انكى آسمانى كتاب ۱; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۵; انكى نبوت ۱، ۵

ہدايت:اسكے شرائط ۷

آیت ۴۹

( الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَهُم مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ )

جواز غيب اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ہيں اور قيامت كے خوف سے لرزاں ہيں (۴۹)

۱ _ لوگوں كى نظروں سے دور اور خلوت ميں خوف خدا متقين كى خصوصيات ميں سے ہے_

و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بالغيب''

''يخشون'' كے فاعل كيلئے حال ہو_

۲ _ متقين باوجود اس كے كہ ان كا پروردگار انكى نظروں سے غائب اور پنہان ہے ہميشہ اس كے خوف اور خشيت كى حالت ميں رہتے ہيں _و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب

مذكورہ مطلب اس احتمال پر مبتنى ہے كہ ''بالغيب'' ،''يخشون'' كے مفعول ''ربہم'' كيلئے حال ہو يعنى اس حال ميں كہ پروردگار متقين كى نظروں سے غائب ہے وہ اس سے ڈرتے ہيں _

۳۶۸

۳ _ خلوت ميں پروردگار سے آگاہا نہ اور تعظيم كے ہمراہ خوف و خشيت پسنديدہ اوصاف اور اقدار ميں سے ہے_و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب بعض اہل لغت كہتے ہيں ''خشيت'' كا معنى ہے تعظيم كے ساتھ آميختہ خوف اور يہ خوف عام طور پر اس چيز سے آگاہى كے ساتھ ہوتا ہے كہ جس سے انسان ڈرتا ہے (مفردات راغب ...) قابل ذكر ہے كہ يہ معنى آيت كريمہ كے ساتھ مناسب ہے كيونكہ خداتعالى تعظيم كے لائق ہے اور متقين بھى خداتعالى كے مقام سے آگاہى كے ساتھ اس سے ڈرتے ہيں _

۴ _ قيامت كو اہميت دينا اور اس سے خوف و پريشانى متقين كى خصوصيات ميں سے ہے_و ذكراً للمتقين ...و هم من الساعة مشفقون بہت سارے مفسرين اور اہل لغت كے مطابق لفظ ''اشفاق'' كا معنى ہے اعتنا اور اہتمام كے ہمراہ خوف (مفردات راغب)

۵ _ ساعت، قيامت كے ناموں ميں سے ہے_و هم من الساعة مشفقون

۶ _ قيامت انسانوں كيلئے ايك پر خطر اور خوفناك حقيقت ہے_و هم من الساعة مشفقون

''اشقاق'' كا معنى ہے توجہ جو خوف كے ہمراہ ہو اور جب يہ ''من'' كے ساتھ متعدى ہو تو اس ميں خوف كا معنى زيادہ ہوگا (لسان العرب)_

۷ _خوف خدا اور روز قيامت كى پريشانى انسان كے وحى اور ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كرتے ہيں _و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب و هم من الساعة مشفقون

خداتعالى نے پہلى آيت ميں متقين كو اپنے نور اور ہدايت سے بہرہ مند ہونے كے لائق قرار ديا ہے اور اس آيت ميں ان كے اوصاف بيان كئے ہيں ان دو آيتوں كے باہمى ارتباط سے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

اخلاق:اخلاقى فضائل ۳

خوف:قيامت كے خوف كى اہميت ۴

خداتعالى :

۳۶۹

اس سے خشيت كے اثرات۷; اس سے خشيت ۱، ۲خشيت:پنہانى خشيت كى قدر و قيمت ۳; پنہانى خشيت ۱الساعة :۵

قيامت:اس كے بارے ميں پريشانى كے اثرات ۷; اس كا خوفناك ہونا ۶; اسكى حقيقت۶; اسكے نام ۵

متقين:انكا خشيت ۱، ۲; انكى خصوصيات ۱، ۴

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۷

آیت ۵۰

( وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ )

اور يہ قرآن ايك مبارك ذكر ہے جسے ہم نے نازل كيا ہے تو كيا تم لوگ اس كا بھى انكار كرنے والے ہو (۵۰)

۱ _ قرآن انسان كيلئے كثير خير و بركت اور بہت سارے اور دائمى منافع كا سرچشمہ ہے_و هذا ذكر مبارك أنزلناه

''ہذا'' كا مشار اليہ قرآن ہے كہ جو اذہان ميں موجود ہے اور ''البركة'' كا مطلب ہے خير كثير و ثابت اور فراوان نفع_ قرآن كى مبارك كے ساتھ توصيف اس معنى كو بيان كر رہى ہے كہ قرآن بشركيلئے كثير خير اور منافع كا سرچشمہ ہے_

۲ _ قرآن، انسان كى بيدارى اور اس كى فراموش شدہ معلومات كى ياد دہانى كا عامل اور اسكى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے والا ہے_و هذا ذكر معنى كے لحاظ سے ''ذكر'' حفظ كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كى شے كا حفظ اسكے حاصل كرنے اور جاننے كے اعتبار سے ہوتا ہے اور شے كا ذكر اسكے ياد كرنے اور ذہن ميں حاضر كرنے كے لحاظ سے ہوتا ہے _ (مفردت راغب) پس قرآن كى توصيف ''ذكر'' كے ساتھ اس لحاظ سے ہے كہ قرآن انسان كے فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كراتا ہے اور اس غافل انسان كى فطرت كو بيدار كرتا ہے جو اپنے فطرى امور اور خداداد معلومات سے غافل ہوچكا ہوتا ہے_

۳ _ قرآن ايسى حقيقت ہے جو خداتعالى كى جانب سے نازل ہوئي ہے_هذا ذكر مبارك أنزلناه

۳۷۰

۴ _ قرآن كريم كى تورات كى نسبت برترى اور برجستگي_أيتنا موسي ذكراً و هذا ذكر مبارك

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ خداتعالى نے تورات كے بارے ميں فقط لفظ ''ذكر'' استعمال كيا ہے جبكہ قرآن كے بارے ميں ''مبارك'' كى صفت كا بھى اضافہ كيا ہے_

۵ _ خداتعالى كى طرف سے كفار كے قرآن كا انكار كرنے اور اسكے حق كا پاس نہ كرنے كى وجہ سے انكى مذمت_

أفأنتم له منكرون

۶ _ قرآن كريم اس لحاظ سے كہ يہ ايك ايسى كتاب ہے جو بيدار كرنے و الى اور خير و بركت كا سرچشمہ ہے قابل شك و انكار نہيں ہے _هذا ذكر مبارك أنزلنه أفأنتم له منكرون

خداتعالى نے قرآن كريم كو ايسى كتاب كے طور پر متعارف كرايا ہے جو بيدار كرنے والى (ذكر) اور خير و بركت كا سرچشمہ (مبارك) ہے اور پھر مشركين كى طرف سے اس حقيقت كے انكار كو مورد سرزنش قرار ديا ہے يہ سرزنش ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

بركت:اس كا سرچشمہ ۱، ۶

تورات:اسكى فضيلت ۴

خداتعالى :اسكى طرف سے مذمت ۵

خير:اس كا سرچشمہ ۱، ۶

ذكر:اسكے عوامل ۲

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۲

قرآن كريم:اسكى حقانيت كے دلائل ۶; اسے جھٹلانے والوں كى مذمت ۵; اسكى فضيلت ۱، ۴، ۶ اس كا نزول ۳; اس كا كردار ۲; اس كا وحى ہونا ۳; اس كا ہادى ہونا ۲، ۶

كفار:انكى مذمت ۵

۳۷۱

آیت ۵۱

( وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ )

اور ہم نے ابراہيم كو اس سے پہلے ہى عقل سليم عطا كردى تھى اور ہم ان كى حالت سے باخبر تھے (۵۱)

۱ _ حضرت ابراہيم(ع) ،عنايات الہى كے سائے ميں اعلى رشد و كمال كے حامل تھے_و لقد أتينا إبراهيم رشده

۲ _ انسانوں ميں رشد و ترقى اور تكامل كيلئے مختلف استعداد اور صلاحتيں ہيں _و لقد أتينا إبراهيم رشده

چونكہ خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو انكا مخصوص اور انكے متناسب رشد عطا كيا ہے معلوم ہوتا ہے كہ ہر انسان اپنى مخصوص استعداد اور قابليت ركھتا ہے كہ جو دوسروں سے مختلف ہے_

۳ _ ابراہيم (ع) كے بعد موسي(ع) و ہارون(ع) ايسے دو پيغمبر تھے جو رشد يافتہ اور كمال سے بہرہ مند تھے_

آتينا موسى و هارون الفرقان و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''من قبل'' سے مراد موسي(ع) ا ور ہارون(ع) سے پہلے كا زمانہ ہو اس كا مطلب يہ ہے كہ يہ دو پيغمبر بھى ايسے رشد سے بہرہ مند تھے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) عنايات الہى كے سائے ميں نبوت سے پہلے اور بچپن ہى سے خاص قسم كے رشد و كمالات سے بہرہ مند تھے_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من قبل'' سے مراد بلوغ يا نبوت سے پہلے ہو_

۵ _ سب انسان حتى انبيا(ع) ء بھى رشد و كمال ميں عنايات الہى كے محتاج ہيں _و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

۶ _ خداتعالى پہلے سے ہى حضرت ابراہيم (ع) كى لياقت اور صلاحيت سے آگاہ تھا_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل و كنا به علمين

۳۷۲

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ''و كنا به علمين'' حاليہ ہو اور ''بہ'' كى ضمير ابراہيم(ع) كى طرف پلٹ رہى ہو_

اس بنياد پر آيت كريمہ كا پيغام اس آيت ( الله أعلم حيث يجعل رسالتہ ...)( انعام (۶ ) ۱۲۴) جيسا ہوگا_

۷ _ حضرت ابراہيم(ع) كاعنايات الہى كے سائے ميں خصوصى رشد و كمال سے بہرہ مند ہونا ان كى اپنى لياقت اور صلاحيت كى بناپر تھا_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

''رشد'' كى ضمير كى طرف اضافت، مصدر كى اپنے مفعول كى طرف اضافت ہے نيز يہ اضافت لاميہ اور مفيد اختصاص ہے يعنى ہم نے ابراہيم(ع) كو ايسا رشد عطا كيا كہ جو ان كے لائق اور انكے بلند مقام و مرتبے سے مخصوص تھا_

۸ _ خداتعالى كا انسان پر لطف و كرم اسكى اپنى لياقت اور صلاحيت كى بنياد پر ہے_و لقد أتينا إبراهيم رشده و كنا به علمين مذكورہ مطلب حضرت ابراہيم(ع) سے القاء خصوصيت كر كے حاصل كيا جاسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :ان كى صلاحيت ۶، ۷; ان كے فضائل۱; انكا كمال ۱، ۴; انكا بچپن ۴; ان كے كمال كا سرچشمہ ۶،۷

انبياء(ع) :ابراہيم (ع) كے بعد كے انبيا(ع) ۳

انسان:اسكى استعداد كا مختلف ہونا۲; اسكے كمال كے مختلف درجے ۲; اسكى معنوى ضروريات ۵

صلاحيت :اس كا كردار ۸

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۸; اس كا علم ۶

كمال:اسكے عوامل ۵

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۴

موسي(ع) (ع) :ان كے فضائل ۳; انكا كمال ۳

نيازمندي:خداتعالى كے لطف و كرم كى نيازمندى ۵

ہارون(ع) :ان كے فضائل ۳; ان كا كمال۳

۳۷۳

آیت ۵۲

( إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ )

جب انھوں نے اپنے مربى باپ اور اپنى قوم سے كہا كہ يہ مورتياں كيا ہيں جن كے گرد تم حلقہ باندھے ہوئے ہو (۵۲)

۱ _ حضرت ابراہيم(ع) نے اپنے باپ اور اپنى قوم كى موجودگى ميں بت پرستى پر سواليہ نشان لگا يا اور آشكار اسكى مخالفت كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

''ما ہذہ التماثيل ...'' ميں استفہام بتوں كى حقيقت كے بارے ميں سوال ہے نہ ان كے ناموں كے بارے ميں _ چونكہ حضرت ابراہيم(ع) ان كى حقيقت سے آگاہ تھے اور انہيں اس كے بارے ميں سوال كرنے كى ضرورت نہيں تھى پس ان كا استفہام بت پرستى پر سواليہ نشان لگانے، اسكى مذمت كرنے اور ايك طرح سے اسكى مخالفت كے اظہار كيلئے تھا_

۲ _ حضرت ابراہيم(ع) نے شدت كے ساتھ بتوں اور بت پرستى كى مذمت كى اور اسكى وجہ سے اپنے باپ اور اپنى قوم كى مذمت كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

اس اشارہ قريب (ہذہ) كے ذريعے بتوں كى طرف اشارہ كرنے نيز تماثيل (تصوير يں اور بے جان مجسمے) كى تعبير حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بتوں اور بت پرستى كى تحقير كو بيان كررہے ہيں _قابل ذكر ہے كہ قرينہ مقاميہ كى بناپر ''ماہذہ'' ميں استفہام توبيخى ہے_

۳ _ حضرت ابراہيم(ع) نے اپنے باپ اور اپنى قوم سے بے جان مجسموں كے احترام اور ان كے سامنے عبادت كے متعلق وضاحت طلب كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون

ابراہيم (ع) كى قوم كے جواب سے كہ انہوں نے اپنے كام كو اپنے آباؤ اجداد كى پيروى كے وجہ سے قرار ديا (قالوا وجدنا آبائنا لها عابدين )_ معلوم ہوتا ہے كہ ابراہيم (ع) كا سوال ان كى طرف سے بتوں كى تقديس اور انكے سامنے عبادت كى علت كے بارے ميں تھا_

۴ _ بت پرستى ،قوم ابراہيم(ع) كا دين و مذہب تھا_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

۵ _ شرك آلود اور خرافات پر مبنى افكار كے ساتھ مقابلہ ،ابراہيم (ع) كے رشد و كمال كا عملى مظاہرہ تھا_

و لقد أتينا إبراهيم رشده إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

۳۷۴

''إذ'' ظرف اور ''آتينا'' كے متعلق ہے يعنى ابراہيم كو اس وقت رشد عطا ہوا جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنى قوم سے كہا

۶ _ حضرت ابراہيم(ع) كى قوم كى طرح ان كے والد بھى بے جان مجسموں اور بتوں كى تقديس كرتے اور انكى عبادت كرتے_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل التى انتم لها عكفون

۷ _ باپ كے منحرف عقائد كى مخالفت حضرت ابراہيم(ع) كے مقابلہ كا آغازإذ قال لأبيه و قومه

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''أبيہ'' كا لفظوں ميں ''قومہ'' پر مقدم ہونا تقدم زمانى پر دلالت ركھتا ہو_

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كے والد كا اپنے معاشرے كے عقائد كو جہت دينے ميں ممتاز اور مشخص كردار _أذ قال لأبيه و قومه خاص طور پر لفظ ''أب'' كو ذكر كرنے سے احتمالى طور پر اس نكتے كا استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كے والد كا معاشرے كے اعتقادى تمايلات ميں بنيادى كردار تھا_

۹ _ قريب كے رشتہ داروں كى اصلاح اور انكى ہدايت معاشرے كے ديگر افراد كى نسبت اولويت ركھتى ہے_

إذ قال لأبيه و قومه

۱۰ _ مجسموں اور نقوش كى تقديس اور انكى دائمى عبادت حضرت ابراہيم (ع) كى رسالت كے آغاز ميں لوگوں كا دين _

ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون ''عكوف'' كا معنى ہے از روئے تعظم و احترام كسى چيز كى طرف دائمى توجہ_ اور اس آيت كريمہ ميں اس سے مراد بتوں كى عبادت اور تقديس ہے قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت كا ذيل كہ جو حضرت ابراہيم(ع) كے سوال كا جواب ہے ( آبائنا لہا عابدين ...) اسى معنى كا مويد ہے_

۱۱ _ قوم ابراہيم(ع) كا شرك، بے جان مجسموں اور تصويروں كى پرستش كى صورت ميں تھا_ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون (تماثيل كے مفرد) تمثال كا معنى ہے مصور شے اور نقش كى ہوئي تصويريں (مفردات راغب) اسكے روشن مصاديق ميں سے ايك وہ بے جان مجسمے ہيں جنہيں بت پرست لوگ مختلف شكلوں ميں بناتے تھے_

آزر:

۳۷۵

اسكى بت پرستى ۲، ۶; اس سے سوال ۳; اسكى مذمت ۲; اسكے ساتھ مقابلہ ۷; اسكى اجتماعى حيثيت ۸

ابراہيم(ع) :انكا سوال ۳; انكى تاريخ۷; انكى طرف سے مذمت ۲; انكى شرك دشمنى ۱، ۵،۷; انكا قصہ ۱، ۲، ۳; انكا مقابلہ ۷; ان كے كمال كى نشانياں ۵

بت پرستي:اسكے بارے ميں سوال ۱، ۳; اسكى تحقير ۳

خرافات:ان كے خلاف مقابلہ ۵

رشتہ دار:انكى ہدايت كى اہميت ۹

شرك:اسكے خلاف مقابلہ۷

قوم ابراہيم(ع) :اسكى بت پرستى ۱، ۲، ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; اس سے سوال ۳; اسكى تاريخ ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; اسكى مذمت ۲; اس كا شرك ۱۱

ہدايت:اس ميں اولويت ۹

آیت ۵۳

( قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءنَا لَهَا عَابِدِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم نے اپنے باپ داد كو بھى انھيں كى عبادت كرتے ہوئے ديكھا ہے (۵۳)

۱ _ آباؤ اجداد اور گذشتگان كى بت پرستي، قوم ابراہيم(ع) كى طرف سے اپنے شرك اور بت پرستى كا بہانہ _

قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

۲ _ قوم ابراہيم(ع) كى بت پرستى اور شرك كى كوئي منطقى دليل اور برہان نہيں تھى اور انہيں فقط اپنے آباؤ اجداد كى اندھى تقليد كا سہارا تھا_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

چونكہ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بت پرستى كے سوال كے جواب ميں لوگوں نے صرف آباؤ اجداد كى پيروى كا تذكرہ كيا تو اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۳ _ دينى مبانى اور اعتقادات ميں آباؤ اجداد اور گذشتگان كى اندھى تقليد اور بغير دليل كے پيروى ناپسنديدہ اور قابل مذمت امر ہے_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين بعد والى آيت كہ جس ميں حضرت ابراہيم (ع) نے اپنى

۳۷۶

قوم كو بت پرستى كى وجہ سے گمراہ قرار ديا ہے قرينہ ہے كہ يہ آيت كريمہ آباؤاجداد كى تقليد كو رد كرنے اور اسكى مذمت كرنے كے درپے ہے_

۴ _ اپنے دينى اصولوں اور اعتقادات كو قانع كنندہ دليل و برہان پر استوار كرنا ضرورى ہے_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ ان لوگوں كى مذمت كر رہى ہے كہ جنہوں نے اپنے اعتقادات كى بنياد اپنے گذشتگان كى اندھى تقليد كر ركھى تھى اور شرك كو قبول كرنے كى علت كے بارے ميں سوال كے جواب ميں انہوں نے كوئي دليل ذكر نہ كى _

۵ _ شرك و بت پرستى قوم ابراہيم(ع) كے درميان رائج اور لمبى تاريخ ركھتى تھي_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

۶ _ گذشتگان كے عقائد پر تعصب كرنا اور آباؤاجداد كى ناآگاہانہ طور پر پيروى كرنا انسان كے انحراف اور گمراہى كا عامل ہے_ما هذه التماثيل قالوا وجدنا أباء نا لها عبدين

۷ _ انسان كا اپنے خاندان اورمعاشرے سے اثر قبول كرنا_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

انسان:اس كا اثر قبول كرنا ۷

بت پرستي:اسكى تاريخ ۵

تعصب:اسكے اثرات ۶

تقليد:اندھى تقليد كے اثرات ۶; آباؤ اجداد كى تقليد ۳، ۶; اندھى تقليد ۲; اندھى تقليد كا ناپسنديدہ ہونا ۳

خاندان:اس كا كردار ۷

شرك:اسكى تاريخ ۵

عقيدہ:اس ميں برہان كى اہميت ۴; اس ميں تقليد ۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى بت پرستى كے اثرات ۱; اسكے آباؤ اجداد كى بت پرستى ۲; اسكى بت پرستى ۵; اسكى بت پرستى كا غيرمنطقى ہونا۲; اسكے شرك كا غير منطقى ہونا۲; اسكى تاريخ ۱، ۵; اسكى تقليد ۱، ۲; اس كا شرك ۵; اسكى بت پرستى كے عوامل ۱

گمراہي:اسكے عوامل ۶/معاشرہ:اس كا كردار ۷

۳۷۷

آیت ۵۴

( قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ )

ابراہيم نے كہا كہ يقينا تم اور تمھارے باپ دادا سب كھلى ہوئي گمراہى ميں ہو (۵۴)

۱ _ قوم ابراہيم(ع) اور اسكے آباؤ اجداد واضح گمراہى ميں تھے_قال لقد كنتم انتم و أباء كم فى ضلل مبين

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے اپنے باپ اور اپنى قوم كى اندھى تقليد اور شرك كى واضح اور قاطع مخالفت_

إذ قال لأبيه و قومه لقد كنتم أنتم و آبائكم فى ضلل مبين

۳ _ بت پرستى اور شرك واضح ضلالت اور گمراہى ہے_ما هذه التماثيل أنتم و أباؤكم فى ضلل مبين

۴ _ كسى نظريے كے پيروكاروں كى كثرت اور اسكى لمبى تاريخ اسكى حقانيت كى دليل نہيں ہے _قالوا وجدنا آباء نا انتم وآباؤكم فى ضلل مبين مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم(ع) كے اعتراض كے جواب ميں بت پرستى والے عقيدے كى لمبى تاريخ اور اسكے پيروكاروں كى كثرت كا تذكرہ كيا ليكن حضرت ابراہيم (ع) نے خود انہيں اور ان كے آباؤ اجداد كو گمراہ قرار ديكر ايسے استدلال كو رد كرديا_

آزر:اسكى تقليد ۲

آبادي:اس كا كردار ۴

ابراہيم (ع) :انكى شرك دشمنى ۲; انكا قصہ ۲

بت پرستي:اسكى حقيقت ۳

تاريخ:اس كا كردار ۴

تقليد:

۳۷۸

اسكے ساتھ مقابلہ۲

شرك:اسكى حقيقت ۳

عقيدہ:اسكى حقانيت كے دلائل ۴

قوم ابراہيم(ع) :اسكى تاريخ ۱; اسكى تقليد ۲; اسكے آباؤ اجداد كى گمراہى ۱; اسكى گمراہى ۱

گمراہي:اسكے موارد ۳

آیت ۵۵

( قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ آپ كوئي حق بات لے كر آئے ہيں يا خالى كھيل تماشہ ہى كرنے والے ہيں (۵۵)

۱ _ قوم ابراہيم، (ع) شرك و بت پرستى كى نفى ميں حضرت ابراہيم (ع) كے سنجيدہ ہونے اور انكے كلام كے حق ہونے ميں شك و ترديد كا شكار تھى اور اسے بعيد سمجھتى تھي_قالوا أجئتنا بالحق ا م أنت من اللعّبين

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے توحيد كى دعوت اور شرك و بت پرستى كو رد كرنا بت پرستوں كے اپنے عقيدے ميں شك كا موجب بنا_ما هذه التماثيل أنتم و أباؤكم فى ضلل مبين قالوا أجئتنا بالحق ا م أنت من اللعّبين

۳ _ بت پرستى قوم ابراہيم(ع) كى جان و روح ميں راسخ ہوچكى تھي_قالوا أجئتنا بالحق

بت پرستوں كا حضرت ابراہيم(ع) كى دعوت كو سنجيدہ نہ سمجھنا اور توحيد كى دعوت پر تعجب كرنا مذكورہ مطلب پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ حق كى جستجو اور حقيقت كو قبول كرنا، انسانى فطرت ميں داخل ہے_قالوا أجئتنا بالحق

مشركين اور بت حق كے قبول كرنے كو اصلى فرضيہ سمجھتے تھے اور ان كا شك صرف حضرت ابراہيم(ع) كى دعوت كے حق ہونے ميں تھا اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۵ _ بت پرست حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسا شخص سمجھتے تھے جو ان كے عقيدے كے ساتھ كھيل رہا تھا اور اس نے اس كا مذاق بنا ركھا تھا_أجئتنا بالحق ا م انت من اللعّبين

۳۷۹

ابراہيم (ع) :ان كى دعوت كے اثرات ۲; انكى شرك دشمنى كے اثرات ۲; يہ اور كھيل ۵; ان كى حقانيت ميں شك ۱; انكا قصہ۱

انسان:اسكى فطرت ۴

توحيد:اسكى دعوت۲

حق:حق پرستى كا فطرى ہونا۴

قوم ابراہيم(ع) :اسكے عقيد كے ساتھ كھيلنا ۵; اسكى بت پرستى ۳; اس كى سوچ ۱، ۵; اسكى تاريخ ۱، ۳، ۵; اسكے شك كا پيش خيمہ ۲; اس كا شك ۱

آیت ۵۶

( قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ )

ابراہيم نے كہا كہ تمھارا واقعى رب وہى ہے جو آسمان و زمين كا رب ہے اور اسى نے ان سب كو پيدا كيا ہے اور ميں اسى بات كے گواہوں ميں سے ايك گواہ ہوں (۵۶)

۱ _ عالم ہستى (آسمان، زمين اور انسان) خداتعالى كى ربوبيت كے تحت ہے_بل ربكم رب السموات و الأرض

۲ _ انسان اور كائنات كا رب ايك ہے_بل ربكم رب السموات و الأرض

۳ _ خداتعالى عالم مادى (آسمان، زمين اور انسان) كا خالق ہے_ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۴ _ قوم ابراہيم(ع) كا شرك كائنات كى ربوبيت اور تدبير ميں تھا نہ اسكى خالقيت ميں _

قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بت پرستوں كے ساتھ مقابلہ ، مقابلہ استدلال و برہان پر مبتنى تھا_

قال ما هذه التماثيل قال بل ربكم فطرهن

۶ _ عالم طبيعت ميں متعدد آسمان ہيں _السموات

۷ _ طبيعت ايك نئي اور جديد مخلوق ہے كہ جسے خداتعالى نے كسى نمونے سے لئے بغير خلق كيا ہے_

رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750