تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219195 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

رہے ہیں کہ آپ اپنے بیٹے کی بات سنین اور ان کی اطاعت کریں۔”

پیغمبر(ص) کی اس نص کا تذکرہ کن کن کتابوں میں موجود ہے

پیغمبر(ص) کے اس خطبہ کو بعینہ انہی الفاظ میں اکثر علمائے کبار و اجلہ محدثین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ جیسے ان اسحاق ، ابن جریر، ابنِ ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم  اور امام بیہقی نے اپنے سنن اور دلائل دونوں مٰیں ثعلبی اور طبری نے اپنی اپنی عظیم الشان تفسیروں میں سورہ شعراء کی تفسیر کے ذیل میں نیز علامہ طبری نے اپنی تاریخ طبری کی دوسری جلد صفحہ217 میں بھی مختلف طریقوں سے اس کو لکھا ہے اور علامہ ابن اثیر جزری نے تاریخ کامل کی دوسری جلد صفحہ22 میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔

مورخ ابو الفداء نے اپنی تاریخ کی پہلی جلد صفحہ116 میں سب سے پہلے اسلام لانے والے کے ذکر میں درج کیا ہے۔ امام ابوجعفر اسکافی معتزلی نے اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں اس حدیث کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے( شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ263) علامہ حلبی نے آںحضرت(ص) اور اصحاب کے دار ارقم میں روپوش ہونے کے واقعہ کے ضمن میں بیان کیا ہے(1)   (سیرت حلبیہ ج، صفحہ381) ان کے علاوہ تھوڑے بہت لفظی تغیر کےساتھ مگر مفہوم و معنی

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 381 جلد اول سیرة حلبیہ۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو جھٹلانے اور غلط ثابت کرنے کی جو کوششیں کی ہیں۔ اپنی مشہور عصبیت کی وجہ سے وہ در خور اعتنا نہیں اس حدیث کو مصر کے سوشلسٹ ادیب محمد حسین ہیکل نے بھی لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ان کے رسالہ سیاست شمارہ نمبر2751 صفحہ 5 جپر عمود ثانی جو 12 ذیقعد سنہ1350ھ میں شائع ہوا۔ انھوں نے کافی تفصیل سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور شمارہ نمبر2685 صفحہ 6 پر عمود رابع میں انھوں نے اس حدیث کو صحیح مسلم، مسند امام احمد اور عبداﷲ بن احمد کی زیارات مسند اور ابن حجر ہیثمی کی جمع الفوائد، ابن قتیبہ کی عیون الاخبار، احمد بن عبدربہ قرطبی کی عقد الفرید، علامہ جاحظ کے رسالہ بنی ہاشم، امام ثعلبی کی تفسیر ، مذکورہ بالا تمام کتب سے نقل کیا ہے۔ مزید برآں جرجس انکلیزی سے اپنی کتاب مقالہ فی الاسلام مٰیں بھی اس حدیث کو درج کیا ہے جس کا بروتستانت کے ملحد نےعربی میں ترجمہ کیا ہے جس نے اپنا نام ہاشم عربی رکھا ہے۔ اس حدیث کی ہمہ گیر شہرت کی وجہ سے متعدد مورخین فرنگ نے فرانسیسی ، جرمنی، انگریزی تاریخوں میں اس کو ذکر کیا ہے اور ٹامنس کارلائل نے اپنی کتاب ابطال میں مختصر کر کے لکھا ہے۔

۱۶۱

کے لحاظ سے بالکل ایک ہی مضمون ۔ بہتیرے اعیان اہل سنت اور ائمہ احادیث نے اپنی اپنی کتابوں میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے جیسے علامہ طحاوی اور ضیاء مقدسی نے مختارہ ،سعید بن منصور نے سنن میں تحریر کیا ہے۔

سب سے قطع نظر امام احمد نے اپنی مسند جلد اول صفحہ 159 پر حضرت علی (ع) سے روایت کی ہے ۔ پھر اسی جلد کے صفحہ331 پر ابن عباس سے بڑی عظیم الشان حدیث اس مضمون کی روایت کی ہے، جس میں حضرت علی(ع) کی دس ایسی خصوصیتیں مذکور ہیں جن کی وجہ سے حضرت علی(ع) اپنے تمام ماسوا سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ اسی جلیل الشان حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب خصائص صفحہ 60پر ابن عباس سے روایت کر کے لکھا ہے اور امام حاکم نے صحیح مستدرک

۱۶۲

 جلد3 صفحہ 132 پر اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

کنزالعمال جلد6 ملاحظہ فرمائیے(1) ۔ اس میں بھی یہ واقعہ بہت تفصیل سے موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال کو دیکھیے جو مسند احمد بن حنبل کے حاشیہ پر طبع ہوا ہے۔ حاشیہ مسند جلد5 صفحہ 41 تا صفحہ42 پر اس واقعہ کا ذکر موجود ہے اور پوری تفصیل کے ساتھ۔

میرے خیال میں یہی ایک واقعہ جسے تمام علماء محدثین ومورخین بالاتفاق اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کا بین ثبوت اور صریحی دلیل ہے۔ کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔

                                                                     ش

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال صفحہ 392 حدیث نمبر6008 جو ابن جریر سے منقول ہے صفحہ 396 پر حدیث 6045 جو امام احمد کی مسند نیز ضیاء مقدسی کی مختارہ ، طحاوی و ابن جریر کی صحیح سے منقول ہے صفحہ 397 پر حدیث 6056 جو ابن اسحق ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور ابو نعیم نیز بیہقی کی شعب الایمان اور دلائل سے منقول ہے صفحہ 401 پر حدیث 6102 جو ابن مردویہ سے منقول ہے صفحہ 408 پر حدیث 6155 جو امام احمد کی مسند اور ابن جریر اور صیاء مقدسی کی مختارہ سے منقول ہے۔ کنزالعمال میں یہ حدیث اور بھی مقامات پر مذکور ہے۔ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 255 پر یہ طولانی حدیث بہت تفصیل سے مذکور ہے۔

۱۶۳

مکتوب نمبر11

حدیث مذکورہ بالا کی سند میں تردد

تسلیم زاکیات!

آپ کا مخالف اس حدیث کی سند کو معتبر نہیں سمجھتا نہ کسی طرح اس حدیث کو صحیح سمجھنے پر تیار ہے کیونکہ شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس حدیث کو نہیں لکھا۔ نیز شیخین کے علاوہ دیگر اصحاب صحاح نے بھی نہیں لکھا ۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ حدیث معتبر و معتمد راویاں اہلسنت سے مروی ہی نہیں ہوئی اور غالبا آپ بھی بطریق اہل سنت اسے صحیح نہ سمجھتے ہوں گے۔

                                                             س

۱۶۴

جواب مکتوب

نص کا ثبوت

اگر میرے نزدیک اس حدیث کی صحت خود بطریق اہلسنت ثابت نہ ہوتی تو میں اس محل پر اس کا ذکر ہی نہیں  کرتا۔ مزید برآں اس حدیث کی صحت تو ایسی اظہر من الشمس ہے کہ ابن جریر اور امام ابو جعفر اسکافی نے اس حدیث کو بطور مسلمات ذکر کیا ہے(1) ۔ اور کبار محققین اہل سنت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی صحت کا مختصرا آپ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ اصحاب صحاح جن ثقہ اور معتبر راویوں کی روایتوں سے استدلال کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے بڑی خوشی سے جن کی روایتوں کو لے لیتے ہیں انھیں معتبر و ثقہ راویوں کے طریقوں سے اس حدیث کی صحت ثابت ہے۔ اس حدیث کی روایت انھیں معتبر و موثق اشخاص نے کی ہے جن کی روایت کردہ حدیثیں صحاح میں موجود ہیں۔

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر حدیث 6045 جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ حاشیہ مسند احمد حنبل جلد5 صفحہ73 پر منتخب کنزالعمال میں بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابو جعفر اسکافی نے تو اس حدیث کو بڑی پختگی کے ساتھ صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ان کی کتاب نقض عثمانیہ شرح نہج البلاغہ جلد3، صفحہ363

۱۶۵

مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحہ 111 ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے اس حدیث کو(1) اسود بن عامر سے انھوں نے شریک(2) سے انھوں نے اعمش(3) سے انھوں نے منہال(4) سے انھوں نے عباد(5) بن عبداﷲ اسدی سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے مرفوعا روایت کرکے لکھا ہے۔ اس سلسلہ اسناد کے کل کے کل راوی مخالف

--------------

1 ـ امام بخاری و مسلم دونوں نے اس کی حدیث سے احتجاج کیا ہے ۔ شعبہ نے امام بخاری و امام مسلم دونوں کی صحت میں اسود سے روایت کر کے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا اور عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے امام بخاری کو ان سے روایت کرتے ہوئے اور زہیر بن معاویہ اور حماد بن سلمہ نے امام مسلم کو ان سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ صحیح بخاری میں محمد بن حاتم بزیع کی ان سے روایت کی ہوئی حدیث موجود ہے اور صحیح مسلم میں ہارون بن عبداﷲ اور ناقد اور ابن ابی شیبہ اور ابو زہیر کی ان سے روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

2 ـ امام مسلم نے ان حدیثوں سے اپنے صحیح مسلم میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 رپ ان کا تذکرہ کے ضمن میں وضاحت کی ہے۔

3 ـ ان سے امام بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 پر وضاحت کی ہے۔

4ـ امام بخاری نے ان سے احتجاج کیا ہے ملاحظہ ہو صفحہ166۔

5 ـ ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عباد بن عبداﷲ بن زہیر بن عوام قرشی اسدی۔ ان سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے ابوبکر کی دونوں صاحبزادیوں عائشہ اور اسماء سے حدیثیں سنیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے ابی ملیکہ اور محمد بن جعفر بن زہیر اور ہشام و عروہ کی روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

۱۶۶

کے نزدیک حجہ ہیں اور یہ تمام کے تمام رجال صحابہ ہیں۔ چنانچہ علامہ قیسرانی نے اپنی کتاب الجمع بین رجال الصحیحین  میں ان کا ذکر کیا ہے۔ لہذا اس حدیث کو صحیح ماننے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صرف اسی طریقہ وسلسلہ اسناد سے نہیں بلکہ اور بھی ب شمار طریقوں سے مروی ہے اور ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موید ہے۔

نص سے کیوں اعراض کیا؟

اور شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس لیے اس روایت کو اپنی کتاب میں  جگہ نہیں دی کہ یہ روایت مسئلہ خلافت میں ان کی ہمنوائی نہیں کرتی تھی ان ک منشاء کے خلاف تھی اسی وجہ سے انھوں نے اس حدیث نیز دیگر بہتیری ایسی حدیثوں سے جو امیر المومنین(ع) کی خلافت پر صریحی ںص تھیں گریز کیا اور اپنی کتاب میں درج نہ کیا۔ وہ ڈرتے تھے کہ یہ شیعوں کے لیے اسلحہ کا کام دیں گی لہذا انھوں نے جان بوجھ کر اس کو پوشیدہ رکھا۔

بخاری و مسلم ہی نہیں بلکہ بہتیرے شیوخ اہل سنت کا وتیرہ یہی تھا۔ اس قسم کی ہر چیز کو وہ چھپانا ہی بہتر سمجھتے تھے۔ ان کا یہ کتمان کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ان کی یہ پرانی اور مشہور عادت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں علماء سے نقل بھی کیا ہے، امام بخاری نے بھی اس مطلب میں ایک خاص باب قرار دیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری(1) حصہ اول کے کتاب العلم میں انھوں نے یہ عنوان قائم کیا ہے :

             “باب من خص بالعلم قوما دون قوم ۔”

--------------

1 ـ صفحہ51۔

۱۶۷

             “ باب بیان میں اس کےجو ایک قوم کو مخصوص کر کے علم تعلیم کرے اور دوسرے کو نہیں۔”

امیرالمومنین(ع) کےمتعلق امام بخاری کو روش اور آپ کے ساتھ نیز جملہ اہل بیت(ع) کے ساتھ ان کے سلوک سے جو واقف ہے اور یہ جانتا ہے کہ ان کا قلم امیرالمومنین (ع) واہل بیت(ع) کی شان میں ارشادات و نصوص پیغمبر(ص) کے بیان سے گریزاں رہتا ہے اور ان کے خصائص و فضائل بیان کرتے وقت ان کے دوات کی روشنائی خشک ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام بخاری کی اس حدیث یا اس جیسی دیگر حدیثوں کے ذکر نہ کرنے پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔

                                                                     ش

۱۶۸

مکتوب نمبر12

حدیث کی صحت کا اقرار

چونکہ دعوت عشیرہ والی حدیث حدِ تواتر کو نہیں پہنچتی اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مخصوص قسم کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔

آپ کے ارشاد کے بموجب میں نے مسند احمد بن حنبل جلد اول کے صفحہ 111 پر اس حدیث کو دیکھا جن رجال سے یہ حدیث مروی ہے ان کی چھان بین کی۔ آپ کے کہنے کےمطابق وہ سب کے سب ثقات اہل سنت نکلے ۔ پھر میں نے اس حدیث کے دوسرے تمام طریق کو بغائر نظر مطالعہ کیا۔ بے شمار و بے اندازہ طریقے نظر آئے۔ ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موئد ہے۔ مجھے ماننا پڑا کہ یقینا یہ

۱۶۹

 حدیث پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس کے ثابت و مسلم ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ ایک بات ہے آپ لوگ اثبات امامت میں اس حدیث صحیح سے استدلال کرتے ہیں جو متواتر بھی ہو کیونکہ امامت آپ کے نزدیک اصول دین سے ہے اور یہ حدیث جو آپ نے پیش فرمائی ہے اس کے متعلق یہ کہنا غیر ممکن ہے کہ یہ تواتر تک پہنچی ہوئی اور جب حد تواتر تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ تو اس سے آپ لوگ استدلال بھی نہیں کرسکتے ۔

یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث صرف یہ بتاتی ہے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کے جانشین تو تھے مگر خاص کر اہلبیت (ع) پیغمبر(ص) میں جانشین تھے۔ لہذا تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے ؟ اس حدیث سے خلافت عامہ کہاں ثابت ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی اس لیے کہ آںحضرت(ص) نے اس حدیث کے مفاد کی طرف کبھی توجہ نہ کی اسی وجہ سے صحابہ کو خلفاء ثلاثہ کی بیعت میں کوئی مانع نہ نظر آیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

اس حدیث سے استدلال کرنے کی وجہ

حضرات اہلسنت امامت کے اثبات میں ہر حدیث صحیح سے استدلال

۱۷۰

 کرتے ہیں خواہ کرتے ہیں خواہ وہ متواتر ہو یا غیر متواتر ۔ لہذا خود حضرات اہلسنت جس چیز کو حجہ سمجھتے ہیں ہم اسی چیز کو ان پر بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ جس چیز کو وہ خود مانتے ہیں ہم اسی سے انھیں قائل کرتے ہیں۔

رہ گیا یہ کہ ہم جو اس حدیث سے امامت پر استدلال کرتے ہیں تو اسکی وجہ ظاہر ہے کیونکہ یہ حدیث ہم لوگوں کے طریق سے صرف صحیح ہی نہیں بلکہ حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہے۔

مخصوص خلافت کو کوئی بھی قائل نہیں

یہ دعوی کرنا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی(ع) خاص کر اہلبیت(ع) میں جانشین پیغمبر(ص) تھے مہمل ہے کیونکہ جو شخص اہل بیت(ع) رسول(ص) میں حضرت علی(ع) کو جانشین رسول(ص) سمجھتا ہے وہ عامہ مسلمین میں بھی جانشین سمجھتا ہے اور جو عامہ مسلمین میں جانشین رسول(ص) نہیں مانتا وہ اہل بیت(ع) میں بھی نہیں مانتا۔ آج تک بس یہ دو ہی قسم کے لوگ نظر آئے۔ آپ نے یہ فرق کہاں سے پیدا کیا جس کا آج تک کوئی قائل نہیں ۔ یہ تو عجیب قسم کا فیصلہ ہے جو اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔

حدیث کا منسوخ ہونا ناممکن ہے

یہ کہنا کہ یہ حدیث منسوخ ہوچکی تھی یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا منسوخ ہونا عقلا و شرعا دونوں جہتوں سے محال ہے کیونکہ وقت آنے کے پہلے ہی کسی حکم کا منسوخ ہونا۔ بداہتا باطل ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کو منسوخ کرنے والی آپ کے خیال کی بنا پر زیادہ سے زیادہ ایک چیز نکلتی ہے اور

۱۷۱

 وہ یہ کہ رسول اﷲ(ص) نے مفادِ حدیث کی طرف پھر توجہ نہ کی، پھر اعادہ نہ کیا۔ مگر یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ رسول(ص) نے مفاد حدیث سے کبھی بے توجہی نہیں کی۔ بلکہ اس حدیث کے ارشاد فرمانے کے بعد بھی وضاحت کرتے رہے۔ کھلے لفظوں میں، بھرے مجمع میں، سفر میں، حضر میں، ہر موقع ہر محل ہر صراحتہ اعلان فرماتے رہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ صرف دعوت عشیرہ ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین فرما کے رہ گئے پھر کبھی اس کی وضاحت نہیں کی تب بھی یہ کیسے معلوم کہ رسول(ص) نے بعد میں مفاد حدیث ؟؟؟؟؟ کیا آگے چل کر آپ کا خیال بدل گیا اپنے قول سے پلٹ گیا۔

“ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَ ما تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَ لَقَدْ جاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدى‏”(نجم، 23)

             “ وہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پروردگار کا جانب سے ہدایت آچکی ہے۔”

                                                                     ش

۱۷۲

مکتوب نمبر13

میں نے ان ںصوص کے آستانے پر اپنی پیشانی جھکا دی۔ کچھ اور مزید ثبوت۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

حضرت علی(ع) کی دس(10) ایسی فضیلتیں جس میں کی کوئی ایک بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں اور جس سے آپ(ع) کی خلافت کی صراحت ہورہی ہے۔

دعوت ذوالعشیرہ والی حدیث کے علاوہ یہ دوسری حدیث ملاحظہ ملاحظہ کیجیے جسے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند کی پہلی جلد صفحہ 330 پر ، امام نسائی نے

۱۷۳

 اپنی کتاب خصائص علویہ کے صفحہ 6 پر ، امام حاکم نے اپنے صحیح مستدرک کی تیسری جلد کے صفحہ 123 پر ، علامہ ذہبی نے اپنی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نیز دیگر ارباب حدیث نے ایسے طریقوں سے جن کی صحت پر اہل سنت کا اجماع و اتفاق ہے نقل کیا ہے۔

عمروہ بن میمون سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ان کے پاس 9 سرداران قابل آئے۔ انھوں نے ابن عباس سے کہا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ اٹھ چلیے یا اپنے پاس کے بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہٹا کر ہم سے تخلیہ میں گفتگو کیجیے۔

ابن عباس نے کہا ۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ خود ہی چلا چلتا ہوں۔ ابن عباس کی بینائی چشم اس وقت باقی تھی۔ ابن عباس نے ان سے کہا:

                     “ کہیے کیا کہنا ہے؟”

گفتگو ہونے لگی ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا گفتگو ہوئی۔ ابن عباس وہاں سے دامن جھٹکتے ہوئے آئے ۔ کہنے لگے:

             “ وائے ہو۔ یہ لوگ ایسےشخص کے متعلق بدکلامی کرتے ہیں جس کی دس سے زیادہ ایسی فضیلتیں ہیں جو کسی دوسرے  کو نصیب نہیں۔ یہ لوگ بدکلامی کرتے ہیں ایسے شخص کے متعلق جس کے بارے میں رسول(ص) نے فرمایا :

لأبعثنّ رجلا لا يخزيه اللّه أبدا، يحبّ اللّه و رسوله، و يحبّه اللّه و رسوله»، فاستشرف لها من استشرف فقال: «أين عليّ؟»، فجاء و هو أرمد لا يكاد أن يبصر، فنفث في عينيه،

۱۷۴

ثمّ هزّ الراية ثلاثة، فأعطاها إيّاه، فجاء عليّ بصفيّة بنت حيي. قال ابن عباس: ثمّ بعث رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) فلانا بسورة التوبة، فبعث عليّا خلفه، فأخذها منه، و قال: «لا يذهب بها إلّا رجل منّي و أنا منه»، قال ابن عباس: و قال النبيّ لبني عمّه: «أيّكم يواليني في الدنيا و الآخرة»، قال:- و عليّ جالس معه- فأبوا، فقال عليّ: أنا أوالئك في الدنيا و الآخرة، فقال لعليّ: «أنت وليّي في الدنيا و الآخرة». قال ابن عباس: و كان عليّ أوّل من آمن من الناس بعد خديجة. قال: و أخذ رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) ثوبه فوضعه على عليّ و فاطمة و حسن و حسين، و قال:إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً . قال: و شرى عليّ نفسه فلبس ثوب النبيّ، ثمّ نام مكانه، و كان المشركون يرمونه [إلى أن قال:] و خرج رسول اللّه في غزوة تبوك، و خرج الناس معه،

۱۷۵

فقال له عليّ: أخرج معك؟ فقال (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «لا»، فبكى عليّ، فقال له رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبي بعدي، إنّه لا ينبغي أن أذهب إلّا و أنت خليفتي». و قال له رسول اللّه: «أنت وليّ كلّ مؤمن بعدي و مؤمنة». قال ابن عباس: و سدّ رسول اللّه أبواب المسجد غير باب عليّ، فكان‌يدخل المسجد جنبا و هو طريقه ليس له طريق غيره، و قال رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «من كنت مولاه فإنّ مولاه عليّ.» الحديث.

“ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی ناکام نہ کرے گا۔ وہ شخص خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں۔کس کس کے دل میں اس فضیلت کی تمنا پیدا نہ ہوئی مگر رسول(ص) نے ایک کی تمنا خاک میں ملا دی اور صبح ہوئی تو دریافت فرمایا کہ علی(ع) کہاں ہیں؟ حضرت علی(ع) تشریف لائے حالانکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ دیکھ نہیں پاتے تھے۔ رسول(ص) نے ان کی آنکھیں پھونکیں ، پھر تین مرتبہ علم کو حرکت دی اور حضرت علی(ع) کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ حضرت علی(ع) جنگ فتح کر کے مرحب کو مار کر اور اس کی بہن صفیہ کو لے کر خدمت رسول(ص) میں پہنچے ۔ پھر

۱۷۶

 رسول اﷲ(ص) نے ایک بزرگ کو سورہ توبہ دے کر روانہ کیا۔ ان کے بعد پیچھے فورا ہی حضرت علی(ع) کو روانہ کیا اور حضرت علی(ع) نے راستہ ہی میں ان سے سورہ لے لیا کیونکہ رسول(ص) کا حکم تھا کہ یہ سورہ بس وہی شخص پہنچا سکتا ہے جو مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں۔ اور رسول(ص) نے اپنے رشتہ داروں، قرابت مندوں سےکہا کہ تم میں کون ایسا ہے جو دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے۔ میرے کام آئے۔ حضرت علی(ع) نے کہا میں اس خدمت کو انجام دوں گا۔ میں دین و دنیا میں آپ کی خدمت کروں گا۔ آپ(ص) نے فرمایا ۔ اے علی(ع) ! دین و دنیا دونوں میں تم ہی میرے ولی ہو۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو بٹھا کے پھر لوگوں سے اپنی بات دہرائی اور پوچھا کہ تم میں کون شخص ہے جو میرا مددگار ہو دنیا میں اور آخرت میں۔ سب نے انکار کیا صرف ایک حضرت علی(ع) ہی تھے جنھوں نے کہا کہ میں آپ کی مدد و نصرت کروں گا دین و دنیا دونوں میں یا رسول اﷲ(ص) رسول اﷲ(ص) نے فرمایا کہ علی(ع) تم ہی میرے ولی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ علی(ع) پہلے وہ شخص ہیں جو جناب خدیجہ کے بعد رسول(ص) پر ایمان لائے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے اپنی ردا لی اور اسے علی(ع) وفاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کو اوڑھایا اور اس آیت کی تلاوت کی :

۱۷۷

 “ إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً.”

“ اے اہل بیت(ع) ! خدا بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر برائی اور گندگی کو اس طرح دور رکھے جیسا کہ دور رکھنا چاہیئے۔”

ابن عباس کہتے ہیں : اور علی(ع) ہی نے اپنی جان راہ خدا میں فروخت کی اور رسول اﷲ(ص) کی چادر اوڑھ کر رسول(ص) کی جگہ پر سورہے۔ در آںحالیکہ مشرکین پتھر برسارہے تھے۔

اسی سلسلہ کلام میں ابن عباس کہتے ہیں: کہ پیغمبر جنگ تبوک کے ارادے سے نکلے۔ لوگ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت علی(ع) نے پوچھا: یا رسول اﷲ(ص) ! میں بمرکاب رہوں گا؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، تم نہیں رہوگے۔ اس پر حضرت علی(ع) آبدیدہ ہوگئے تو آپ نے فرمایا : کہ یا علی (ع) ! تم اسے پسند نہیں کرتے کہ تم میرے لیے وسیے ہی یو جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔ البتہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے۔ جنگ میں میرا جانا بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ میں تمھیں اپنا قائم مقام چھوڑ کے جاؤں۔

نیز حضرت سرورِ کائنات(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:  کہ اے علی(ع) ! میرے بعد تم ہر مومن و مومنہ کے ولی ہو۔ ابن عباس کہتے ہیں:  کہ رسول اﷲ(ص) نے مسجد کی طرف سب کے دروازے بند کرادیے بس صرف علی(ع) کا دروازہ کھلا رکھا اور حضرت علی(ع) جنب کی حالت میں بھی مسجد

۱۷۸

 سے گزر جاتے تھے۔ وہی ایک راستہ تھا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: میں جس کا مولا ہوں علی(ع) اس کے مولا ہیں۔”

اس حدیث میں من کنت مولاہ کو امام حاکم نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگر چہ شیخین بخاری و مسلم نے اس نہج سے ذکر نہیں کیا۔

علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث سے ثبوت خلافت امیرالمومنین(ع)

اس عظیم الشان حدیث میں امیرالمومنین(ع) کے ولی عہد رسول(ص) اور بعد رحلت سرورِ کائنات خلیفہ و جانشین ہونے کے بعد جو قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں وہ آپ کی نگاہوں سے مخفی نہ ہوں گے۔ ملاحظہ فرماتے ہیں آپ اندازہ پیغمبر(ص) کا کہ حضرت علی(ع) کو دینا و آخرت میں اپنا ولی قرار دیتے ہیں۔ اپنے تمام رشتے داروں، قرابت داروں میں بس علی(ع) ہی کو اس اہم منصب کے لیے منتخب فرماتے ہیں۔ دوسرے موقع پر حضرت علی(ع) کو وہ منزلت و خصوصیت عطا فرماتے ہیں جو جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے تھی۔ جتنے مراتب و خصوصیات جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے حاصل تھے۔ وہ سب کے سب حضرت علی(ع) کو مرحمت فرمائے جاتے ہیں سوائے درجہ نبوت کے ۔ نبوت کو مستثنی کرنا دلیل ہے کہ نبوت کو چھوڑ کر جتنے خصوصیات

۱۷۹

جناب ہارون کو حاصل تھے وہ ایک ایک کر کے حضرت علی(ع) کی ذات میں مجتمع تھے۔

آپ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ جناب ہارون کو منجملہ  دیگر خصوصیات کے سب سے بڑی خصوصیت جو جناب موسی(ع) سے تھی وہ یہ کہ جناب ہارون جناب موسی(ع) کے وزیر تھے۔ آپ کے قوت بازو تھے۔ آپ کے شریک معاملہ تھے اور آپ کی غیبت میں آپ کے قائم مقام ، جانشین و خلیفہ ہوا کرتے اور جس طرح جناب موسی(ع) کی اطاعت تمام امتِ پر فرض تھی اسی طرح جناب ہارون کی اطاعت بھی تمام امت پر واجب و لازم تھی اس کے ثبوت میں یہ آیات ملاحظہ فرمایئے:

             خداوند عالم نے جناب موسی(ع) کی دعا کلام مجید میں نقل فرمائی ۔ جناب موسی نے دعا کی تھی۔

“وَ اجْعَل لىّ‏ِ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلىِ هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى‏ وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى‏”

“ معبود میرے گھر والوں میں سے ہارون کو میرا وزیر بنا ان سے میری کمر مضبوط کر اور انھیں میرے کارِ نبوت میں شریک بنا۔”

دوسرے موقع پر جناب موسی (ع) کا قول خداوند عالم نے قرآن میں نقل کیا ہے:

“اخْلُفْني‏ في‏ قَوْمي‏ وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبيلَ الْمُفْسِدينَ” ( اعراف، 142)

“ اے ہارون تم میری امت میں میرے جانشین رہو،

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

اصلى منبع ہے_قل إنما أنذركم بالوحي

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كو صرف وحى كى بنياد پر انذار كرنے پر مأمور تھے_

۵ _ لوگوں كو انذاز كرنے اور تبليغ دين كے سلسلے ميں وحى الہى پر بھروسہ كرنا ضرورى ہے_قل إنما أنذركم بالوحي

۶ _ دين كے اہداف كو آگے بڑھانے ميں انذار كى اہميت اور اس كا اعلى كردار_إنما أنذركم بالوحي

۷ _ انسان، دين الہى كے اس كو تھامے بغير سقوط اور ناقابل علاج آفتوں ميں مبتلا ہونے كے خطرے سے دوچار ہے_

قل إنما أنذركم بالوحي وحى كا انذاز اور اس كا خطرے سے آگاہ كرنا انسان كے راستے ميں بہت سے خطرات اور آفتوں كے وجود كو بيان كر رہا ہے اگر انسان ان خطرات و آفات كو صحيح طريقے سے پہچانتا ہوتا اور ان كا حل نكال ليتا تو خداتعالى كى طرف سے انذار اور خطرے سے آگاہ كرنے كا آنا لغو اور فضول ہوتا لہذا انذار الہى اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ دين كے بغير انسان مہلك خطرات اور آفتوں سے دوچار ہوجائيگا_

۸ _ بعض لوگوں ميں پيغمبراكرم(ص) كے انذار كا اثر نہ كرنا ان كى بات نہ سننے وجہ سے تھا نہ وحى كے استدلال اور پيغمبر اكرم(ص) كے بيان ميں نقص كى وجہ سے_قل إنما أنذركم بالوحى و لا يسمع الصم الدعاء إذا ما ينذرون

۹ _ بعض لوگ بہروں كى طرح ہرگز حق كى بات كو نہيں سنتے اور اسكى طرف توجہ نہيں كرتے_

لايسمع الصم الدعاء اذا ما ينذرون

آنحضرت-(ص) :آپكى رسالت كى حدود كا بيان كرنا ۱; آپ(ص) كے انذار كے اثر نہ كرنے كے عوامل ۸; آپ(ص) كى ذمہ دارى ۱، ۲; آپ(ص) كے انذار كا سرچشمہ۳

انسان:اسے انذار كرنا ۲

تبليغ:اس ميں انذار۵; اس ميں انذار كى اہميت ۶; اسكى روش ۵، ۶

حق:اسے قبول نہ كرنے كے اثرات ۸; اسے قبول نہ كرنے والے ۹

خطرہ:اس كا پيش خيمہ ۷/دين:دين شناسى كے منابع ۴ اس كا كردار ۷

شناخت:اسكے منابع۴

معاشرتى گروہ :۹

۳۶۱

وحي:اس كا كردار ۲، ۳، ۴، ۵، ۸

ہلاكت:اس كا پيش خيمہ ۷

آیت ۴۶

( وَلَئِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

حالانكہ انھيں عذاب الہى كى ہوا بھى چھو جائے تو كہہ اٹھيں گے كہ افسوس ہم واقعى ظالم تھے (۴۶)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے معمولى سے عذاب كو محسوس كرنے كے وقت، كافروں كى اپنے ظلم و ستم سے ندامت اور حسرت_ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

لغت ميں ''نفحة'' كا معنى ہے ہوا كا چلنا يا اس كا ايك جھونكا_ يہ عام طور پر امور خير ميں استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات امور شر ميں بھى استعمال ہوتا ہے_ مفسرين كى نظر كے مطابق آيت كريمہ ميں يہ كلمہ تين وجوہات كى بناپر تقليل پر دلالت كررہا ہے ۱_ مادہ ''نفخة'' تقليل پر دلالت كرتا ہے ۲; يہ ''مرّة'' كے وزن پر ہے۳_ يہ نكرہ كى صورت ميں آيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ لفظ ''ويل'' وہ شخص بولتا ہے جو ہلاكت اور بدبختى ميں مبتلا ہو اور افسوس و حسرت كى بناپر اس لفظ كو ادا كرتا ہے _

۲ _ معمولى سے عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كے بعد كفار كا اپنے ظلم و ستم كا اعتراف و اقرار _

ولئن مسّتہم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

۳ _ مشكلات اور سختياں انسان كے متنبہ ہونے اور اسكے حق كا اعتراف كرنے كا سبب ہيں _

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

۴ _ عذاب الہى بہت سخت ہے اور اسكے مقابلے ميں انسان بہت ناتوان ہےولئن مسّتهم نفخة من عذاب ربك ليقولنياويلنا

ہٹ دھرم كفار كا معمولى سے عذاب الہى كو محسوس كرنے كے ساتھ ہى حق كا اعتراف كر لينا عذاب الہى كى شدت اور اسكے مقابلے ميں انسان كى ناتوانى كو بيان كررہا ہے_

۵ _ كفار كا عذاب ، ربوبيت الہى كى ايك شان ہے

۳۶۲

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك

۶ _ كفر، شرك اور انبيا(ع) ء كا مذاق اڑانا آشكارا ظلم و ستم ہے_ياويلنا إنّا كنّا ظلمين

تمسخر اڑانے والے مشركين و كفار كااپنے ستمگر ہونے كا اعتراف كرنا كفر و شرك اور انبيا(ع) ء كے تمسخر كے ظلم ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۷ _ ليچڑ قسم كے انسان اور كفار خداتعالى كى قدرت اور عذاب سے اثر ليتے ہيں نہ منطق و استدلال سے_

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا انّا كنّا ظلمين

اقرار:ظلم كا اقرار۲: حق كے اقرار كے عوامل ۳

انبياء(ع) :ان كے مذاق اڑانے كا ظلم ہونا ۶

انسان:اسكى صفات ۷; اس كا عاجز ہونا ۴

خداتعالى :اسكے عذاب كے اثرات ۷; اسكى ربوبيت ۵; اسكے عذاب كى شدت ۴

سختي:اسكے اثرات ۳

شرك:اس كا ظلم ہونا ۶

ظلم:اس سے پشيمانى ۱; اسكے موارد ۶

عذاب:اسكے درجے ۴

كفار:انكا اقرار ۲; انكى پشيمانى ۱; انكى حسرت ۱; انكى صفات۷; انكا عذاب ۵; انكے متنبہ ہونے كے عوامل ۷; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

كفر:اس كا ظلم ۶

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

۳۶۳

آیت ۴۷

( وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئاً وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ )

اور ہم قيامت كے دن انصاف كى ترازو قائم كريں گے اور كسى نفس پر ادنى ظلم نہيں كيا جائے گا اور كسى كا عمل رائي كے دانہ كے برابر بھى ہے تو ہم اسے لے آئيں گے اور ہم سب كا حساب كرنے كے لئے كافى ہيں (۴۷)

۱ _ روز قيامت ،انسانوں كا حساب و كتاب عدل و انصاف كے ميزان پر ہوگا_و نضع الموازين القسط ليوم القى مة

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ليوم القيامة'' ميں ''لام'' ظرفيت كيلئے اور ''في'' يا ''عند'' كے معنى ميں ہو_

۲ _ بندوں كے اعمال كا قسط و عدل كى بنياد پر حساب و كتاب كرنا قيامت كے برپا ہونے كا ايك فلسفہ _و نضع الموازين القسط ليوم القيامة مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ليوم القيامة'' كا لام تعليل كيلئے ہو اس بنياد پر آيت كريمہ كا پيغام يہ ہوگا كہ قيامت كے برپا ہونے كى خاطر ہم قسط و عدل كے ترازو ركھيں گے_

۳ _ روز قيامت اعمال كے تولنے كے آلات (ميزان) متعدد ہيں _و نضع الموازين القسط

موازين (ميزان كى جمع) يعنى ترازو اور اس كا جمع آنا تعدد كى دليل ہے اگر چہ مفسرين كے درميان عدل كے ترازوں كے متعدد ہونے كى كيفيت كے بارے ميں اختلاف ہے _

۴ _ خداتعالى كا دقيق اور عادلانہ حساب و كتاب انسان كے تمام چھوٹے بڑے اعمال كو شامل ہوگا_

و نضع الموازين القسط ليوم القيامة من خردل

''حبّة'' كا معنى ہے گندم، جو يا ان جيسى كسى چيز كا ايك دانہ اور ''خردل'' كا معنى ہے بہت باريك بيج ''مثقال حبة من خردل'' ہر دقيق اور چھوٹى چيز كو بيان كرنے كيلئے ضرب المثل ہے اور اس آيت كريمہ ميں اس سے مراد انسان كے تمام چھوٹے بڑے اعمال ہيں _

۳۶۴

۵ _ روز قيامت، خداتعالى كا حساب و كتاب اس طرح ہوگا كہ كسى پر معمولى سا بھى ظلم نہيں ہوگا_و نضع الموازين ...فلا تظلم نفس شيئا

۶ _ خداتعالى انسان كے سب چھوٹے بڑے اور ہلكے اور بھارى اعمال سے پورى طرح آگاہ ہے_و إن كان مثقال حبة من خردل أتينا به سب اعمال حتى كہ ان ميں سے سب سے چھوٹے عمل كو بھى لانا خداتعالى كى ان اعمال سے دقيق آگاہى كى دليل ہے_

۷ _ روز قيامت انسانوں كے اعمال _حتى كہ ان ميں سے سب سے چھوٹا عمل بھي_ حاضر اور ظاہر ہوں گے_و إن كا ن مثقال حبة من خردل أتينا به مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''اتينابہا'' سے اس كا ظاہرى معنى مراد ہو_

۸ _ دنيا ميں انسان كے اعمال دائمى اور زوال و نابودى سے محفوظ ہيں _أتينابه

''اعمال كو لانے'' كى تعبير بتاتى ہے كہ انسان كا كردار موجود رہتا ہے اور نابود نہيں ہوتا_

۹ _ روز قيامت بندوں كے اعمال كے حساب و كتاب كيلئے خداتعالى كافى ہے اور اسے دوسروں كى مدد كى ضرورت نہيں ہے_و كفى بنا حسبين

۱۰ _ انسان كے سب سے چھوٹے اور سب سے ہلكے عمل كا بھى خدا كى طرف سے محاسبہ اور بازپرس ہوگى اور اسكى جزا دى جائيگي_و إن كا ن مثقال حبة من خردل أتينا بها و كفى بنا حسبين

۱۱ _''عن هشام بن سالم قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' و نضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئاً'' قال: هم الا نبياء و الا وصياء (ع) ; ہشام بن سالم سے منقول كہ ہے كہ وہ كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان ''و نضع الموازين القسط ليوم القيامة '' كے بارے ميں پوچھا تو آپ(ع) نے فرمايا موازين قسط انبيا(ع) ء اوراصيا(ع) ء ہيں(۱)

ائمہ (ع) :ان كا نقش و كردار ۱۱

اسما و صفات:صفات جلال ۵

انبياء:

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۳۱ح ۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۳۰ ح ۷۷_

۳۶۵

ان كا نقش و كردار ۱۱

حساب و كتاب:اسكے آلات كا متعدد ہونا ۳; اس ميں عدل و انصاف۱; اخروى حساب و كتاب ميں عدل و انصاف ۲، ۴، ۵; اخروى حساب و كتاب كا معيار۱۱

خداتعالى :اسكى امداد ۹; اسكى بے نيازي۹; يہ اور ظلم ۵; اسكے حساب و كتاب كا دقيق ہونا ۱۰; اس كا عدلظاہر ہونا ۷; اس كا فلسفہ ۲; اس مين ميزان ۱، ۱۱ و انصاف۴; اسكے علم كى وسعت ۶; اسكے حساب و كتاب كى خصوصيات ۴،۵،۹،۱۰

روايت ۱۱

عمل:اس كا باقى رہنا۸; اس كى پاداش ۱۰; اس كا مجسم ہونا ۷; اسكى سزا ۱۰

قيامت:اس ميں ميزان كا متعدد ہونا ۳; اس ميں حقائق ك

آیت ۴۸

( وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاء وَذِكْراً لِّلْمُتَّقِينَ )

اور ہم نے موسى اور ہارون كو حق و باطل ميں فرق كرنے والى وہ كتاب عطا كى ہے جو ہدايت كى روشنى اور ان صاحبان تقوى كے لئے ياد الہى كا ذريعہ ہے (۴۸)

۱ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) مشتركہ رسالت اور آسمانى كتاب ركھنے والے دو پيغمبر _

ولقد أيتنا موسى و هارون الفرقان و ضيائً و ذكر ا

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الفرقان'' سے مراد آسمانى كتاب تورات ہو اس بناپر حضرت موسي(ع) كے ہمراہ حضرت ہارون(ع) كو آسمانى كتاب دينا اس چيز كو بيان كرتا ہے كہ حضرت ہارون(ع) بھي

حضرت موسي(ع) كى طرح نبوت اور آسمانى كتاب كے وصول كرنے ميں برابر كے شريك تھے_

۲ _ تورات، حق و باطل كو جدا كرنے والى ہے_إيتنا موسى و هارون الفرقان و ضيائً و ذكرا

كلمہ ''فرقان'' حق كو باطل سے جدا كرنے والى ہر چيز پر بولا جاتا ہے آسمانى كتاب تورات كى ''فرقان'' كے ساتھ توصيف مذكورہ مطلب كو بيان كر رہى ہے_

۳۶۶

۳ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) ، خداتعالى كے لطف و كرم كے سائے ميں حق و باطل كى تشخيص كى قدرت ركھتے تھے_ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان

''فرقان'' كے لغوى معنى (حق و باطل كو جدا كرنے والى شے) كو ديكھتے ہوئے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے _

۴ _ انسان حق و باطل كى تشخيص كيلئے خداتعالى كى رہنمائي كا محتاج ہے اور اسكے بغير اپنى تشخيص ميں غلطى سے دوچار ہوجائيگا_ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان

چونكہ انبيا(ع) ء اپنى تشخيص كى قدرت خداتعالى سے حاصل كرتے ہيں تو ديگر انسان اسكے بدرجہ ا ولى نيازمند ہيں _

۵ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) خداتعالى كى حجت اور برہان كے حامل دو پيغمبر_

ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان فرقان كا ايك لغوى معنى حجت اور برہان ہے (لسان العرب)

۶ _ تورات، متقين كيلئے زندگى ميں روشنى بخش او رانہيں ہدايت اور دينى ضروريات كے راستے كى ياد دہانى كرانے والى ہے_و ضيائً و ذكراً للمتقين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''فرقان'' سے مراد تورات ہو اور ''ضيائ'' اور ''ذكراً'' اسكى صفتيں بيان كررہے ہوں _ قابل ذكر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى ياد اور ياددہانى كرانا ہے اور اكثر مفسرين كے مطابق اس سے مراد دينى ضروريات اور ہدايت سے متعلق مسائل كى ياددہانى ہے_

۷ _ تقوا، ہدايت الہى اور آسمانى كتابوں سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_ذكراً للمتقين

۸ _ متقى لوگ زندگى ميں خداتعالى كى خصوصى ہدايت، نور اور روشنى سے بہرہ مند ہيں _و ضيائً و ذكراً للمتقين

۹ _ تقوا اعلى اقدار ميں سے ہے اور متقين تمام آسمانى كتابوں اور توحيدى اديان ميں خاص فضيلت اور بزرگى ركھتے ہيں _

و ضيائً و ذكراً للمتقين چونكہ متقين كو موسي(ع) ا ور ہارون (ع) كى آسمانى كتاب كے نزول اور نورو ہدايت الہى كے وصول كا ہدف اور مقصد قرار ديا گيا ہے اور قرآن نے بھى اپنى تعليمات كا ايك محور مسئلہ تقوا كو قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقوا تمام توحيدى اديان ميں خصوصى مقام و مرتبے كا حامل رہا ہے_

انسان:اسكى معنوى ضروريات ۴/آسمانى كتابيں :انكى ہدايت ۷

باطل:اسكى تشخيص ۳; اسكى تشخيص كے شرائط ۴

۳۶۷

تقوا:اسكے اثرات ۷; اسكى قدر و قيمت ۹

تورات:اس كا روشنى بخش ہونا ۳; اس كا كردار ۲; اس كا ہدايت كرنے والا ہونا ۶

حق :اسكى تشخيص ۳; اسكى تشخيص كے شرائط ۴; حق و باطل كو جدا كرنے والا ۲

خداتعالى :اسكى تعليمات كى اہميت ۴; اسكى ہدايات ۷، ۸

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۳

متقين:ان كے فضائل ۸; آسمانى كتابوں ميں ان كے فضائل ۸; انكى ہدايت ۶، ۸

موسي(ع) :انكى بصيرت ۳; انكى حجت ۵; انكى رسالت كا شريك ۱; ان كے فضائل ۳; انكى آسمانى كتاب۱; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۵; انكى نبوت ۱، ۵

ہدايت يافتہ لوگ :۸

ہارون(ع) :ان كى بصيرت ۳; انكى حجت ۵; ان كے فضائل ۳; انكى آسمانى كتاب ۱; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۵; انكى نبوت ۱، ۵

ہدايت:اسكے شرائط ۷

آیت ۴۹

( الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَهُم مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ )

جواز غيب اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ہيں اور قيامت كے خوف سے لرزاں ہيں (۴۹)

۱ _ لوگوں كى نظروں سے دور اور خلوت ميں خوف خدا متقين كى خصوصيات ميں سے ہے_

و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بالغيب''

''يخشون'' كے فاعل كيلئے حال ہو_

۲ _ متقين باوجود اس كے كہ ان كا پروردگار انكى نظروں سے غائب اور پنہان ہے ہميشہ اس كے خوف اور خشيت كى حالت ميں رہتے ہيں _و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب

مذكورہ مطلب اس احتمال پر مبتنى ہے كہ ''بالغيب'' ،''يخشون'' كے مفعول ''ربہم'' كيلئے حال ہو يعنى اس حال ميں كہ پروردگار متقين كى نظروں سے غائب ہے وہ اس سے ڈرتے ہيں _

۳۶۸

۳ _ خلوت ميں پروردگار سے آگاہا نہ اور تعظيم كے ہمراہ خوف و خشيت پسنديدہ اوصاف اور اقدار ميں سے ہے_و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب بعض اہل لغت كہتے ہيں ''خشيت'' كا معنى ہے تعظيم كے ساتھ آميختہ خوف اور يہ خوف عام طور پر اس چيز سے آگاہى كے ساتھ ہوتا ہے كہ جس سے انسان ڈرتا ہے (مفردات راغب ...) قابل ذكر ہے كہ يہ معنى آيت كريمہ كے ساتھ مناسب ہے كيونكہ خداتعالى تعظيم كے لائق ہے اور متقين بھى خداتعالى كے مقام سے آگاہى كے ساتھ اس سے ڈرتے ہيں _

۴ _ قيامت كو اہميت دينا اور اس سے خوف و پريشانى متقين كى خصوصيات ميں سے ہے_و ذكراً للمتقين ...و هم من الساعة مشفقون بہت سارے مفسرين اور اہل لغت كے مطابق لفظ ''اشفاق'' كا معنى ہے اعتنا اور اہتمام كے ہمراہ خوف (مفردات راغب)

۵ _ ساعت، قيامت كے ناموں ميں سے ہے_و هم من الساعة مشفقون

۶ _ قيامت انسانوں كيلئے ايك پر خطر اور خوفناك حقيقت ہے_و هم من الساعة مشفقون

''اشقاق'' كا معنى ہے توجہ جو خوف كے ہمراہ ہو اور جب يہ ''من'' كے ساتھ متعدى ہو تو اس ميں خوف كا معنى زيادہ ہوگا (لسان العرب)_

۷ _خوف خدا اور روز قيامت كى پريشانى انسان كے وحى اور ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كرتے ہيں _و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب و هم من الساعة مشفقون

خداتعالى نے پہلى آيت ميں متقين كو اپنے نور اور ہدايت سے بہرہ مند ہونے كے لائق قرار ديا ہے اور اس آيت ميں ان كے اوصاف بيان كئے ہيں ان دو آيتوں كے باہمى ارتباط سے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

اخلاق:اخلاقى فضائل ۳

خوف:قيامت كے خوف كى اہميت ۴

خداتعالى :

۳۶۹

اس سے خشيت كے اثرات۷; اس سے خشيت ۱، ۲خشيت:پنہانى خشيت كى قدر و قيمت ۳; پنہانى خشيت ۱الساعة :۵

قيامت:اس كے بارے ميں پريشانى كے اثرات ۷; اس كا خوفناك ہونا ۶; اسكى حقيقت۶; اسكے نام ۵

متقين:انكا خشيت ۱، ۲; انكى خصوصيات ۱، ۴

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۷

آیت ۵۰

( وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ )

اور يہ قرآن ايك مبارك ذكر ہے جسے ہم نے نازل كيا ہے تو كيا تم لوگ اس كا بھى انكار كرنے والے ہو (۵۰)

۱ _ قرآن انسان كيلئے كثير خير و بركت اور بہت سارے اور دائمى منافع كا سرچشمہ ہے_و هذا ذكر مبارك أنزلناه

''ہذا'' كا مشار اليہ قرآن ہے كہ جو اذہان ميں موجود ہے اور ''البركة'' كا مطلب ہے خير كثير و ثابت اور فراوان نفع_ قرآن كى مبارك كے ساتھ توصيف اس معنى كو بيان كر رہى ہے كہ قرآن بشركيلئے كثير خير اور منافع كا سرچشمہ ہے_

۲ _ قرآن، انسان كى بيدارى اور اس كى فراموش شدہ معلومات كى ياد دہانى كا عامل اور اسكى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے والا ہے_و هذا ذكر معنى كے لحاظ سے ''ذكر'' حفظ كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كى شے كا حفظ اسكے حاصل كرنے اور جاننے كے اعتبار سے ہوتا ہے اور شے كا ذكر اسكے ياد كرنے اور ذہن ميں حاضر كرنے كے لحاظ سے ہوتا ہے _ (مفردت راغب) پس قرآن كى توصيف ''ذكر'' كے ساتھ اس لحاظ سے ہے كہ قرآن انسان كے فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كراتا ہے اور اس غافل انسان كى فطرت كو بيدار كرتا ہے جو اپنے فطرى امور اور خداداد معلومات سے غافل ہوچكا ہوتا ہے_

۳ _ قرآن ايسى حقيقت ہے جو خداتعالى كى جانب سے نازل ہوئي ہے_هذا ذكر مبارك أنزلناه

۳۷۰

۴ _ قرآن كريم كى تورات كى نسبت برترى اور برجستگي_أيتنا موسي ذكراً و هذا ذكر مبارك

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ خداتعالى نے تورات كے بارے ميں فقط لفظ ''ذكر'' استعمال كيا ہے جبكہ قرآن كے بارے ميں ''مبارك'' كى صفت كا بھى اضافہ كيا ہے_

۵ _ خداتعالى كى طرف سے كفار كے قرآن كا انكار كرنے اور اسكے حق كا پاس نہ كرنے كى وجہ سے انكى مذمت_

أفأنتم له منكرون

۶ _ قرآن كريم اس لحاظ سے كہ يہ ايك ايسى كتاب ہے جو بيدار كرنے و الى اور خير و بركت كا سرچشمہ ہے قابل شك و انكار نہيں ہے _هذا ذكر مبارك أنزلنه أفأنتم له منكرون

خداتعالى نے قرآن كريم كو ايسى كتاب كے طور پر متعارف كرايا ہے جو بيدار كرنے والى (ذكر) اور خير و بركت كا سرچشمہ (مبارك) ہے اور پھر مشركين كى طرف سے اس حقيقت كے انكار كو مورد سرزنش قرار ديا ہے يہ سرزنش ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

بركت:اس كا سرچشمہ ۱، ۶

تورات:اسكى فضيلت ۴

خداتعالى :اسكى طرف سے مذمت ۵

خير:اس كا سرچشمہ ۱، ۶

ذكر:اسكے عوامل ۲

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۲

قرآن كريم:اسكى حقانيت كے دلائل ۶; اسے جھٹلانے والوں كى مذمت ۵; اسكى فضيلت ۱، ۴، ۶ اس كا نزول ۳; اس كا كردار ۲; اس كا وحى ہونا ۳; اس كا ہادى ہونا ۲، ۶

كفار:انكى مذمت ۵

۳۷۱

آیت ۵۱

( وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ )

اور ہم نے ابراہيم كو اس سے پہلے ہى عقل سليم عطا كردى تھى اور ہم ان كى حالت سے باخبر تھے (۵۱)

۱ _ حضرت ابراہيم(ع) ،عنايات الہى كے سائے ميں اعلى رشد و كمال كے حامل تھے_و لقد أتينا إبراهيم رشده

۲ _ انسانوں ميں رشد و ترقى اور تكامل كيلئے مختلف استعداد اور صلاحتيں ہيں _و لقد أتينا إبراهيم رشده

چونكہ خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو انكا مخصوص اور انكے متناسب رشد عطا كيا ہے معلوم ہوتا ہے كہ ہر انسان اپنى مخصوص استعداد اور قابليت ركھتا ہے كہ جو دوسروں سے مختلف ہے_

۳ _ ابراہيم (ع) كے بعد موسي(ع) و ہارون(ع) ايسے دو پيغمبر تھے جو رشد يافتہ اور كمال سے بہرہ مند تھے_

آتينا موسى و هارون الفرقان و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''من قبل'' سے مراد موسي(ع) ا ور ہارون(ع) سے پہلے كا زمانہ ہو اس كا مطلب يہ ہے كہ يہ دو پيغمبر بھى ايسے رشد سے بہرہ مند تھے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) عنايات الہى كے سائے ميں نبوت سے پہلے اور بچپن ہى سے خاص قسم كے رشد و كمالات سے بہرہ مند تھے_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من قبل'' سے مراد بلوغ يا نبوت سے پہلے ہو_

۵ _ سب انسان حتى انبيا(ع) ء بھى رشد و كمال ميں عنايات الہى كے محتاج ہيں _و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

۶ _ خداتعالى پہلے سے ہى حضرت ابراہيم (ع) كى لياقت اور صلاحيت سے آگاہ تھا_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل و كنا به علمين

۳۷۲

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ''و كنا به علمين'' حاليہ ہو اور ''بہ'' كى ضمير ابراہيم(ع) كى طرف پلٹ رہى ہو_

اس بنياد پر آيت كريمہ كا پيغام اس آيت ( الله أعلم حيث يجعل رسالتہ ...)( انعام (۶ ) ۱۲۴) جيسا ہوگا_

۷ _ حضرت ابراہيم(ع) كاعنايات الہى كے سائے ميں خصوصى رشد و كمال سے بہرہ مند ہونا ان كى اپنى لياقت اور صلاحيت كى بناپر تھا_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

''رشد'' كى ضمير كى طرف اضافت، مصدر كى اپنے مفعول كى طرف اضافت ہے نيز يہ اضافت لاميہ اور مفيد اختصاص ہے يعنى ہم نے ابراہيم(ع) كو ايسا رشد عطا كيا كہ جو ان كے لائق اور انكے بلند مقام و مرتبے سے مخصوص تھا_

۸ _ خداتعالى كا انسان پر لطف و كرم اسكى اپنى لياقت اور صلاحيت كى بنياد پر ہے_و لقد أتينا إبراهيم رشده و كنا به علمين مذكورہ مطلب حضرت ابراہيم(ع) سے القاء خصوصيت كر كے حاصل كيا جاسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :ان كى صلاحيت ۶، ۷; ان كے فضائل۱; انكا كمال ۱، ۴; انكا بچپن ۴; ان كے كمال كا سرچشمہ ۶،۷

انبياء(ع) :ابراہيم (ع) كے بعد كے انبيا(ع) ۳

انسان:اسكى استعداد كا مختلف ہونا۲; اسكے كمال كے مختلف درجے ۲; اسكى معنوى ضروريات ۵

صلاحيت :اس كا كردار ۸

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۸; اس كا علم ۶

كمال:اسكے عوامل ۵

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۴

موسي(ع) (ع) :ان كے فضائل ۳; انكا كمال ۳

نيازمندي:خداتعالى كے لطف و كرم كى نيازمندى ۵

ہارون(ع) :ان كے فضائل ۳; ان كا كمال۳

۳۷۳

آیت ۵۲

( إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ )

جب انھوں نے اپنے مربى باپ اور اپنى قوم سے كہا كہ يہ مورتياں كيا ہيں جن كے گرد تم حلقہ باندھے ہوئے ہو (۵۲)

۱ _ حضرت ابراہيم(ع) نے اپنے باپ اور اپنى قوم كى موجودگى ميں بت پرستى پر سواليہ نشان لگا يا اور آشكار اسكى مخالفت كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

''ما ہذہ التماثيل ...'' ميں استفہام بتوں كى حقيقت كے بارے ميں سوال ہے نہ ان كے ناموں كے بارے ميں _ چونكہ حضرت ابراہيم(ع) ان كى حقيقت سے آگاہ تھے اور انہيں اس كے بارے ميں سوال كرنے كى ضرورت نہيں تھى پس ان كا استفہام بت پرستى پر سواليہ نشان لگانے، اسكى مذمت كرنے اور ايك طرح سے اسكى مخالفت كے اظہار كيلئے تھا_

۲ _ حضرت ابراہيم(ع) نے شدت كے ساتھ بتوں اور بت پرستى كى مذمت كى اور اسكى وجہ سے اپنے باپ اور اپنى قوم كى مذمت كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

اس اشارہ قريب (ہذہ) كے ذريعے بتوں كى طرف اشارہ كرنے نيز تماثيل (تصوير يں اور بے جان مجسمے) كى تعبير حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بتوں اور بت پرستى كى تحقير كو بيان كررہے ہيں _قابل ذكر ہے كہ قرينہ مقاميہ كى بناپر ''ماہذہ'' ميں استفہام توبيخى ہے_

۳ _ حضرت ابراہيم(ع) نے اپنے باپ اور اپنى قوم سے بے جان مجسموں كے احترام اور ان كے سامنے عبادت كے متعلق وضاحت طلب كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون

ابراہيم (ع) كى قوم كے جواب سے كہ انہوں نے اپنے كام كو اپنے آباؤ اجداد كى پيروى كے وجہ سے قرار ديا (قالوا وجدنا آبائنا لها عابدين )_ معلوم ہوتا ہے كہ ابراہيم (ع) كا سوال ان كى طرف سے بتوں كى تقديس اور انكے سامنے عبادت كى علت كے بارے ميں تھا_

۴ _ بت پرستى ،قوم ابراہيم(ع) كا دين و مذہب تھا_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

۵ _ شرك آلود اور خرافات پر مبنى افكار كے ساتھ مقابلہ ،ابراہيم (ع) كے رشد و كمال كا عملى مظاہرہ تھا_

و لقد أتينا إبراهيم رشده إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

۳۷۴

''إذ'' ظرف اور ''آتينا'' كے متعلق ہے يعنى ابراہيم كو اس وقت رشد عطا ہوا جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنى قوم سے كہا

۶ _ حضرت ابراہيم(ع) كى قوم كى طرح ان كے والد بھى بے جان مجسموں اور بتوں كى تقديس كرتے اور انكى عبادت كرتے_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل التى انتم لها عكفون

۷ _ باپ كے منحرف عقائد كى مخالفت حضرت ابراہيم(ع) كے مقابلہ كا آغازإذ قال لأبيه و قومه

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''أبيہ'' كا لفظوں ميں ''قومہ'' پر مقدم ہونا تقدم زمانى پر دلالت ركھتا ہو_

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كے والد كا اپنے معاشرے كے عقائد كو جہت دينے ميں ممتاز اور مشخص كردار _أذ قال لأبيه و قومه خاص طور پر لفظ ''أب'' كو ذكر كرنے سے احتمالى طور پر اس نكتے كا استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كے والد كا معاشرے كے اعتقادى تمايلات ميں بنيادى كردار تھا_

۹ _ قريب كے رشتہ داروں كى اصلاح اور انكى ہدايت معاشرے كے ديگر افراد كى نسبت اولويت ركھتى ہے_

إذ قال لأبيه و قومه

۱۰ _ مجسموں اور نقوش كى تقديس اور انكى دائمى عبادت حضرت ابراہيم (ع) كى رسالت كے آغاز ميں لوگوں كا دين _

ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون ''عكوف'' كا معنى ہے از روئے تعظم و احترام كسى چيز كى طرف دائمى توجہ_ اور اس آيت كريمہ ميں اس سے مراد بتوں كى عبادت اور تقديس ہے قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت كا ذيل كہ جو حضرت ابراہيم(ع) كے سوال كا جواب ہے ( آبائنا لہا عابدين ...) اسى معنى كا مويد ہے_

۱۱ _ قوم ابراہيم(ع) كا شرك، بے جان مجسموں اور تصويروں كى پرستش كى صورت ميں تھا_ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون (تماثيل كے مفرد) تمثال كا معنى ہے مصور شے اور نقش كى ہوئي تصويريں (مفردات راغب) اسكے روشن مصاديق ميں سے ايك وہ بے جان مجسمے ہيں جنہيں بت پرست لوگ مختلف شكلوں ميں بناتے تھے_

آزر:

۳۷۵

اسكى بت پرستى ۲، ۶; اس سے سوال ۳; اسكى مذمت ۲; اسكے ساتھ مقابلہ ۷; اسكى اجتماعى حيثيت ۸

ابراہيم(ع) :انكا سوال ۳; انكى تاريخ۷; انكى طرف سے مذمت ۲; انكى شرك دشمنى ۱، ۵،۷; انكا قصہ ۱، ۲، ۳; انكا مقابلہ ۷; ان كے كمال كى نشانياں ۵

بت پرستي:اسكے بارے ميں سوال ۱، ۳; اسكى تحقير ۳

خرافات:ان كے خلاف مقابلہ ۵

رشتہ دار:انكى ہدايت كى اہميت ۹

شرك:اسكے خلاف مقابلہ۷

قوم ابراہيم(ع) :اسكى بت پرستى ۱، ۲، ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; اس سے سوال ۳; اسكى تاريخ ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; اسكى مذمت ۲; اس كا شرك ۱۱

ہدايت:اس ميں اولويت ۹

آیت ۵۳

( قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءنَا لَهَا عَابِدِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم نے اپنے باپ داد كو بھى انھيں كى عبادت كرتے ہوئے ديكھا ہے (۵۳)

۱ _ آباؤ اجداد اور گذشتگان كى بت پرستي، قوم ابراہيم(ع) كى طرف سے اپنے شرك اور بت پرستى كا بہانہ _

قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

۲ _ قوم ابراہيم(ع) كى بت پرستى اور شرك كى كوئي منطقى دليل اور برہان نہيں تھى اور انہيں فقط اپنے آباؤ اجداد كى اندھى تقليد كا سہارا تھا_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

چونكہ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بت پرستى كے سوال كے جواب ميں لوگوں نے صرف آباؤ اجداد كى پيروى كا تذكرہ كيا تو اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۳ _ دينى مبانى اور اعتقادات ميں آباؤ اجداد اور گذشتگان كى اندھى تقليد اور بغير دليل كے پيروى ناپسنديدہ اور قابل مذمت امر ہے_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين بعد والى آيت كہ جس ميں حضرت ابراہيم (ع) نے اپنى

۳۷۶

قوم كو بت پرستى كى وجہ سے گمراہ قرار ديا ہے قرينہ ہے كہ يہ آيت كريمہ آباؤاجداد كى تقليد كو رد كرنے اور اسكى مذمت كرنے كے درپے ہے_

۴ _ اپنے دينى اصولوں اور اعتقادات كو قانع كنندہ دليل و برہان پر استوار كرنا ضرورى ہے_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ ان لوگوں كى مذمت كر رہى ہے كہ جنہوں نے اپنے اعتقادات كى بنياد اپنے گذشتگان كى اندھى تقليد كر ركھى تھى اور شرك كو قبول كرنے كى علت كے بارے ميں سوال كے جواب ميں انہوں نے كوئي دليل ذكر نہ كى _

۵ _ شرك و بت پرستى قوم ابراہيم(ع) كے درميان رائج اور لمبى تاريخ ركھتى تھي_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

۶ _ گذشتگان كے عقائد پر تعصب كرنا اور آباؤاجداد كى ناآگاہانہ طور پر پيروى كرنا انسان كے انحراف اور گمراہى كا عامل ہے_ما هذه التماثيل قالوا وجدنا أباء نا لها عبدين

۷ _ انسان كا اپنے خاندان اورمعاشرے سے اثر قبول كرنا_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

انسان:اس كا اثر قبول كرنا ۷

بت پرستي:اسكى تاريخ ۵

تعصب:اسكے اثرات ۶

تقليد:اندھى تقليد كے اثرات ۶; آباؤ اجداد كى تقليد ۳، ۶; اندھى تقليد ۲; اندھى تقليد كا ناپسنديدہ ہونا ۳

خاندان:اس كا كردار ۷

شرك:اسكى تاريخ ۵

عقيدہ:اس ميں برہان كى اہميت ۴; اس ميں تقليد ۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى بت پرستى كے اثرات ۱; اسكے آباؤ اجداد كى بت پرستى ۲; اسكى بت پرستى ۵; اسكى بت پرستى كا غيرمنطقى ہونا۲; اسكے شرك كا غير منطقى ہونا۲; اسكى تاريخ ۱، ۵; اسكى تقليد ۱، ۲; اس كا شرك ۵; اسكى بت پرستى كے عوامل ۱

گمراہي:اسكے عوامل ۶/معاشرہ:اس كا كردار ۷

۳۷۷

آیت ۵۴

( قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ )

ابراہيم نے كہا كہ يقينا تم اور تمھارے باپ دادا سب كھلى ہوئي گمراہى ميں ہو (۵۴)

۱ _ قوم ابراہيم(ع) اور اسكے آباؤ اجداد واضح گمراہى ميں تھے_قال لقد كنتم انتم و أباء كم فى ضلل مبين

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے اپنے باپ اور اپنى قوم كى اندھى تقليد اور شرك كى واضح اور قاطع مخالفت_

إذ قال لأبيه و قومه لقد كنتم أنتم و آبائكم فى ضلل مبين

۳ _ بت پرستى اور شرك واضح ضلالت اور گمراہى ہے_ما هذه التماثيل أنتم و أباؤكم فى ضلل مبين

۴ _ كسى نظريے كے پيروكاروں كى كثرت اور اسكى لمبى تاريخ اسكى حقانيت كى دليل نہيں ہے _قالوا وجدنا آباء نا انتم وآباؤكم فى ضلل مبين مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم(ع) كے اعتراض كے جواب ميں بت پرستى والے عقيدے كى لمبى تاريخ اور اسكے پيروكاروں كى كثرت كا تذكرہ كيا ليكن حضرت ابراہيم (ع) نے خود انہيں اور ان كے آباؤ اجداد كو گمراہ قرار ديكر ايسے استدلال كو رد كرديا_

آزر:اسكى تقليد ۲

آبادي:اس كا كردار ۴

ابراہيم (ع) :انكى شرك دشمنى ۲; انكا قصہ ۲

بت پرستي:اسكى حقيقت ۳

تاريخ:اس كا كردار ۴

تقليد:

۳۷۸

اسكے ساتھ مقابلہ۲

شرك:اسكى حقيقت ۳

عقيدہ:اسكى حقانيت كے دلائل ۴

قوم ابراہيم(ع) :اسكى تاريخ ۱; اسكى تقليد ۲; اسكے آباؤ اجداد كى گمراہى ۱; اسكى گمراہى ۱

گمراہي:اسكے موارد ۳

آیت ۵۵

( قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ آپ كوئي حق بات لے كر آئے ہيں يا خالى كھيل تماشہ ہى كرنے والے ہيں (۵۵)

۱ _ قوم ابراہيم، (ع) شرك و بت پرستى كى نفى ميں حضرت ابراہيم (ع) كے سنجيدہ ہونے اور انكے كلام كے حق ہونے ميں شك و ترديد كا شكار تھى اور اسے بعيد سمجھتى تھي_قالوا أجئتنا بالحق ا م أنت من اللعّبين

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے توحيد كى دعوت اور شرك و بت پرستى كو رد كرنا بت پرستوں كے اپنے عقيدے ميں شك كا موجب بنا_ما هذه التماثيل أنتم و أباؤكم فى ضلل مبين قالوا أجئتنا بالحق ا م أنت من اللعّبين

۳ _ بت پرستى قوم ابراہيم(ع) كى جان و روح ميں راسخ ہوچكى تھي_قالوا أجئتنا بالحق

بت پرستوں كا حضرت ابراہيم(ع) كى دعوت كو سنجيدہ نہ سمجھنا اور توحيد كى دعوت پر تعجب كرنا مذكورہ مطلب پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ حق كى جستجو اور حقيقت كو قبول كرنا، انسانى فطرت ميں داخل ہے_قالوا أجئتنا بالحق

مشركين اور بت حق كے قبول كرنے كو اصلى فرضيہ سمجھتے تھے اور ان كا شك صرف حضرت ابراہيم(ع) كى دعوت كے حق ہونے ميں تھا اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۵ _ بت پرست حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسا شخص سمجھتے تھے جو ان كے عقيدے كے ساتھ كھيل رہا تھا اور اس نے اس كا مذاق بنا ركھا تھا_أجئتنا بالحق ا م انت من اللعّبين

۳۷۹

ابراہيم (ع) :ان كى دعوت كے اثرات ۲; انكى شرك دشمنى كے اثرات ۲; يہ اور كھيل ۵; ان كى حقانيت ميں شك ۱; انكا قصہ۱

انسان:اسكى فطرت ۴

توحيد:اسكى دعوت۲

حق:حق پرستى كا فطرى ہونا۴

قوم ابراہيم(ع) :اسكے عقيد كے ساتھ كھيلنا ۵; اسكى بت پرستى ۳; اس كى سوچ ۱، ۵; اسكى تاريخ ۱، ۳، ۵; اسكے شك كا پيش خيمہ ۲; اس كا شك ۱

آیت ۵۶

( قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ )

ابراہيم نے كہا كہ تمھارا واقعى رب وہى ہے جو آسمان و زمين كا رب ہے اور اسى نے ان سب كو پيدا كيا ہے اور ميں اسى بات كے گواہوں ميں سے ايك گواہ ہوں (۵۶)

۱ _ عالم ہستى (آسمان، زمين اور انسان) خداتعالى كى ربوبيت كے تحت ہے_بل ربكم رب السموات و الأرض

۲ _ انسان اور كائنات كا رب ايك ہے_بل ربكم رب السموات و الأرض

۳ _ خداتعالى عالم مادى (آسمان، زمين اور انسان) كا خالق ہے_ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۴ _ قوم ابراہيم(ع) كا شرك كائنات كى ربوبيت اور تدبير ميں تھا نہ اسكى خالقيت ميں _

قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بت پرستوں كے ساتھ مقابلہ ، مقابلہ استدلال و برہان پر مبتنى تھا_

قال ما هذه التماثيل قال بل ربكم فطرهن

۶ _ عالم طبيعت ميں متعدد آسمان ہيں _السموات

۷ _ طبيعت ايك نئي اور جديد مخلوق ہے كہ جسے خداتعالى نے كسى نمونے سے لئے بغير خلق كيا ہے_

رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750