تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219027 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

اصلى منبع ہے_قل إنما أنذركم بالوحي

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كو صرف وحى كى بنياد پر انذار كرنے پر مأمور تھے_

۵ _ لوگوں كو انذاز كرنے اور تبليغ دين كے سلسلے ميں وحى الہى پر بھروسہ كرنا ضرورى ہے_قل إنما أنذركم بالوحي

۶ _ دين كے اہداف كو آگے بڑھانے ميں انذار كى اہميت اور اس كا اعلى كردار_إنما أنذركم بالوحي

۷ _ انسان، دين الہى كے اس كو تھامے بغير سقوط اور ناقابل علاج آفتوں ميں مبتلا ہونے كے خطرے سے دوچار ہے_

قل إنما أنذركم بالوحي وحى كا انذاز اور اس كا خطرے سے آگاہ كرنا انسان كے راستے ميں بہت سے خطرات اور آفتوں كے وجود كو بيان كر رہا ہے اگر انسان ان خطرات و آفات كو صحيح طريقے سے پہچانتا ہوتا اور ان كا حل نكال ليتا تو خداتعالى كى طرف سے انذار اور خطرے سے آگاہ كرنے كا آنا لغو اور فضول ہوتا لہذا انذار الہى اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ دين كے بغير انسان مہلك خطرات اور آفتوں سے دوچار ہوجائيگا_

۸ _ بعض لوگوں ميں پيغمبراكرم(ص) كے انذار كا اثر نہ كرنا ان كى بات نہ سننے وجہ سے تھا نہ وحى كے استدلال اور پيغمبر اكرم(ص) كے بيان ميں نقص كى وجہ سے_قل إنما أنذركم بالوحى و لا يسمع الصم الدعاء إذا ما ينذرون

۹ _ بعض لوگ بہروں كى طرح ہرگز حق كى بات كو نہيں سنتے اور اسكى طرف توجہ نہيں كرتے_

لايسمع الصم الدعاء اذا ما ينذرون

آنحضرت-(ص) :آپكى رسالت كى حدود كا بيان كرنا ۱; آپ(ص) كے انذار كے اثر نہ كرنے كے عوامل ۸; آپ(ص) كى ذمہ دارى ۱، ۲; آپ(ص) كے انذار كا سرچشمہ۳

انسان:اسے انذار كرنا ۲

تبليغ:اس ميں انذار۵; اس ميں انذار كى اہميت ۶; اسكى روش ۵، ۶

حق:اسے قبول نہ كرنے كے اثرات ۸; اسے قبول نہ كرنے والے ۹

خطرہ:اس كا پيش خيمہ ۷/دين:دين شناسى كے منابع ۴ اس كا كردار ۷

شناخت:اسكے منابع۴

معاشرتى گروہ :۹

۳۶۱

وحي:اس كا كردار ۲، ۳، ۴، ۵، ۸

ہلاكت:اس كا پيش خيمہ ۷

آیت ۴۶

( وَلَئِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

حالانكہ انھيں عذاب الہى كى ہوا بھى چھو جائے تو كہہ اٹھيں گے كہ افسوس ہم واقعى ظالم تھے (۴۶)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے معمولى سے عذاب كو محسوس كرنے كے وقت، كافروں كى اپنے ظلم و ستم سے ندامت اور حسرت_ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

لغت ميں ''نفحة'' كا معنى ہے ہوا كا چلنا يا اس كا ايك جھونكا_ يہ عام طور پر امور خير ميں استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات امور شر ميں بھى استعمال ہوتا ہے_ مفسرين كى نظر كے مطابق آيت كريمہ ميں يہ كلمہ تين وجوہات كى بناپر تقليل پر دلالت كررہا ہے ۱_ مادہ ''نفخة'' تقليل پر دلالت كرتا ہے ۲; يہ ''مرّة'' كے وزن پر ہے۳_ يہ نكرہ كى صورت ميں آيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ لفظ ''ويل'' وہ شخص بولتا ہے جو ہلاكت اور بدبختى ميں مبتلا ہو اور افسوس و حسرت كى بناپر اس لفظ كو ادا كرتا ہے _

۲ _ معمولى سے عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كے بعد كفار كا اپنے ظلم و ستم كا اعتراف و اقرار _

ولئن مسّتہم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

۳ _ مشكلات اور سختياں انسان كے متنبہ ہونے اور اسكے حق كا اعتراف كرنے كا سبب ہيں _

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا إنّا كنّا ظلمين

۴ _ عذاب الہى بہت سخت ہے اور اسكے مقابلے ميں انسان بہت ناتوان ہےولئن مسّتهم نفخة من عذاب ربك ليقولنياويلنا

ہٹ دھرم كفار كا معمولى سے عذاب الہى كو محسوس كرنے كے ساتھ ہى حق كا اعتراف كر لينا عذاب الہى كى شدت اور اسكے مقابلے ميں انسان كى ناتوانى كو بيان كررہا ہے_

۵ _ كفار كا عذاب ، ربوبيت الہى كى ايك شان ہے

۳۶۲

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك

۶ _ كفر، شرك اور انبيا(ع) ء كا مذاق اڑانا آشكارا ظلم و ستم ہے_ياويلنا إنّا كنّا ظلمين

تمسخر اڑانے والے مشركين و كفار كااپنے ستمگر ہونے كا اعتراف كرنا كفر و شرك اور انبيا(ع) ء كے تمسخر كے ظلم ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۷ _ ليچڑ قسم كے انسان اور كفار خداتعالى كى قدرت اور عذاب سے اثر ليتے ہيں نہ منطق و استدلال سے_

ولئن مسّتهم نفحة من عذاب ربك ليقولنّياويلناا انّا كنّا ظلمين

اقرار:ظلم كا اقرار۲: حق كے اقرار كے عوامل ۳

انبياء(ع) :ان كے مذاق اڑانے كا ظلم ہونا ۶

انسان:اسكى صفات ۷; اس كا عاجز ہونا ۴

خداتعالى :اسكے عذاب كے اثرات ۷; اسكى ربوبيت ۵; اسكے عذاب كى شدت ۴

سختي:اسكے اثرات ۳

شرك:اس كا ظلم ہونا ۶

ظلم:اس سے پشيمانى ۱; اسكے موارد ۶

عذاب:اسكے درجے ۴

كفار:انكا اقرار ۲; انكى پشيمانى ۱; انكى حسرت ۱; انكى صفات۷; انكا عذاب ۵; انكے متنبہ ہونے كے عوامل ۷; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

كفر:اس كا ظلم ۶

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

۳۶۳

آیت ۴۷

( وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئاً وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ )

اور ہم قيامت كے دن انصاف كى ترازو قائم كريں گے اور كسى نفس پر ادنى ظلم نہيں كيا جائے گا اور كسى كا عمل رائي كے دانہ كے برابر بھى ہے تو ہم اسے لے آئيں گے اور ہم سب كا حساب كرنے كے لئے كافى ہيں (۴۷)

۱ _ روز قيامت ،انسانوں كا حساب و كتاب عدل و انصاف كے ميزان پر ہوگا_و نضع الموازين القسط ليوم القى مة

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ليوم القيامة'' ميں ''لام'' ظرفيت كيلئے اور ''في'' يا ''عند'' كے معنى ميں ہو_

۲ _ بندوں كے اعمال كا قسط و عدل كى بنياد پر حساب و كتاب كرنا قيامت كے برپا ہونے كا ايك فلسفہ _و نضع الموازين القسط ليوم القيامة مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ليوم القيامة'' كا لام تعليل كيلئے ہو اس بنياد پر آيت كريمہ كا پيغام يہ ہوگا كہ قيامت كے برپا ہونے كى خاطر ہم قسط و عدل كے ترازو ركھيں گے_

۳ _ روز قيامت اعمال كے تولنے كے آلات (ميزان) متعدد ہيں _و نضع الموازين القسط

موازين (ميزان كى جمع) يعنى ترازو اور اس كا جمع آنا تعدد كى دليل ہے اگر چہ مفسرين كے درميان عدل كے ترازوں كے متعدد ہونے كى كيفيت كے بارے ميں اختلاف ہے _

۴ _ خداتعالى كا دقيق اور عادلانہ حساب و كتاب انسان كے تمام چھوٹے بڑے اعمال كو شامل ہوگا_

و نضع الموازين القسط ليوم القيامة من خردل

''حبّة'' كا معنى ہے گندم، جو يا ان جيسى كسى چيز كا ايك دانہ اور ''خردل'' كا معنى ہے بہت باريك بيج ''مثقال حبة من خردل'' ہر دقيق اور چھوٹى چيز كو بيان كرنے كيلئے ضرب المثل ہے اور اس آيت كريمہ ميں اس سے مراد انسان كے تمام چھوٹے بڑے اعمال ہيں _

۳۶۴

۵ _ روز قيامت، خداتعالى كا حساب و كتاب اس طرح ہوگا كہ كسى پر معمولى سا بھى ظلم نہيں ہوگا_و نضع الموازين ...فلا تظلم نفس شيئا

۶ _ خداتعالى انسان كے سب چھوٹے بڑے اور ہلكے اور بھارى اعمال سے پورى طرح آگاہ ہے_و إن كان مثقال حبة من خردل أتينا به سب اعمال حتى كہ ان ميں سے سب سے چھوٹے عمل كو بھى لانا خداتعالى كى ان اعمال سے دقيق آگاہى كى دليل ہے_

۷ _ روز قيامت انسانوں كے اعمال _حتى كہ ان ميں سے سب سے چھوٹا عمل بھي_ حاضر اور ظاہر ہوں گے_و إن كا ن مثقال حبة من خردل أتينا به مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''اتينابہا'' سے اس كا ظاہرى معنى مراد ہو_

۸ _ دنيا ميں انسان كے اعمال دائمى اور زوال و نابودى سے محفوظ ہيں _أتينابه

''اعمال كو لانے'' كى تعبير بتاتى ہے كہ انسان كا كردار موجود رہتا ہے اور نابود نہيں ہوتا_

۹ _ روز قيامت بندوں كے اعمال كے حساب و كتاب كيلئے خداتعالى كافى ہے اور اسے دوسروں كى مدد كى ضرورت نہيں ہے_و كفى بنا حسبين

۱۰ _ انسان كے سب سے چھوٹے اور سب سے ہلكے عمل كا بھى خدا كى طرف سے محاسبہ اور بازپرس ہوگى اور اسكى جزا دى جائيگي_و إن كا ن مثقال حبة من خردل أتينا بها و كفى بنا حسبين

۱۱ _''عن هشام بن سالم قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' و نضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئاً'' قال: هم الا نبياء و الا وصياء (ع) ; ہشام بن سالم سے منقول كہ ہے كہ وہ كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان ''و نضع الموازين القسط ليوم القيامة '' كے بارے ميں پوچھا تو آپ(ع) نے فرمايا موازين قسط انبيا(ع) ء اوراصيا(ع) ء ہيں(۱)

ائمہ (ع) :ان كا نقش و كردار ۱۱

اسما و صفات:صفات جلال ۵

انبياء:

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۳۱ح ۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۳۰ ح ۷۷_

۳۶۵

ان كا نقش و كردار ۱۱

حساب و كتاب:اسكے آلات كا متعدد ہونا ۳; اس ميں عدل و انصاف۱; اخروى حساب و كتاب ميں عدل و انصاف ۲، ۴، ۵; اخروى حساب و كتاب كا معيار۱۱

خداتعالى :اسكى امداد ۹; اسكى بے نيازي۹; يہ اور ظلم ۵; اسكے حساب و كتاب كا دقيق ہونا ۱۰; اس كا عدلظاہر ہونا ۷; اس كا فلسفہ ۲; اس مين ميزان ۱، ۱۱ و انصاف۴; اسكے علم كى وسعت ۶; اسكے حساب و كتاب كى خصوصيات ۴،۵،۹،۱۰

روايت ۱۱

عمل:اس كا باقى رہنا۸; اس كى پاداش ۱۰; اس كا مجسم ہونا ۷; اسكى سزا ۱۰

قيامت:اس ميں ميزان كا متعدد ہونا ۳; اس ميں حقائق ك

آیت ۴۸

( وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاء وَذِكْراً لِّلْمُتَّقِينَ )

اور ہم نے موسى اور ہارون كو حق و باطل ميں فرق كرنے والى وہ كتاب عطا كى ہے جو ہدايت كى روشنى اور ان صاحبان تقوى كے لئے ياد الہى كا ذريعہ ہے (۴۸)

۱ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) مشتركہ رسالت اور آسمانى كتاب ركھنے والے دو پيغمبر _

ولقد أيتنا موسى و هارون الفرقان و ضيائً و ذكر ا

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الفرقان'' سے مراد آسمانى كتاب تورات ہو اس بناپر حضرت موسي(ع) كے ہمراہ حضرت ہارون(ع) كو آسمانى كتاب دينا اس چيز كو بيان كرتا ہے كہ حضرت ہارون(ع) بھي

حضرت موسي(ع) كى طرح نبوت اور آسمانى كتاب كے وصول كرنے ميں برابر كے شريك تھے_

۲ _ تورات، حق و باطل كو جدا كرنے والى ہے_إيتنا موسى و هارون الفرقان و ضيائً و ذكرا

كلمہ ''فرقان'' حق كو باطل سے جدا كرنے والى ہر چيز پر بولا جاتا ہے آسمانى كتاب تورات كى ''فرقان'' كے ساتھ توصيف مذكورہ مطلب كو بيان كر رہى ہے_

۳۶۶

۳ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) ، خداتعالى كے لطف و كرم كے سائے ميں حق و باطل كى تشخيص كى قدرت ركھتے تھے_ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان

''فرقان'' كے لغوى معنى (حق و باطل كو جدا كرنے والى شے) كو ديكھتے ہوئے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے _

۴ _ انسان حق و باطل كى تشخيص كيلئے خداتعالى كى رہنمائي كا محتاج ہے اور اسكے بغير اپنى تشخيص ميں غلطى سے دوچار ہوجائيگا_ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان

چونكہ انبيا(ع) ء اپنى تشخيص كى قدرت خداتعالى سے حاصل كرتے ہيں تو ديگر انسان اسكے بدرجہ ا ولى نيازمند ہيں _

۵ _ حضرت موسي(ع) اور ہارون(ع) خداتعالى كى حجت اور برہان كے حامل دو پيغمبر_

ولقدء ايتنا موسى و هارون الفرقان فرقان كا ايك لغوى معنى حجت اور برہان ہے (لسان العرب)

۶ _ تورات، متقين كيلئے زندگى ميں روشنى بخش او رانہيں ہدايت اور دينى ضروريات كے راستے كى ياد دہانى كرانے والى ہے_و ضيائً و ذكراً للمتقين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''فرقان'' سے مراد تورات ہو اور ''ضيائ'' اور ''ذكراً'' اسكى صفتيں بيان كررہے ہوں _ قابل ذكر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى ياد اور ياددہانى كرانا ہے اور اكثر مفسرين كے مطابق اس سے مراد دينى ضروريات اور ہدايت سے متعلق مسائل كى ياددہانى ہے_

۷ _ تقوا، ہدايت الہى اور آسمانى كتابوں سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_ذكراً للمتقين

۸ _ متقى لوگ زندگى ميں خداتعالى كى خصوصى ہدايت، نور اور روشنى سے بہرہ مند ہيں _و ضيائً و ذكراً للمتقين

۹ _ تقوا اعلى اقدار ميں سے ہے اور متقين تمام آسمانى كتابوں اور توحيدى اديان ميں خاص فضيلت اور بزرگى ركھتے ہيں _

و ضيائً و ذكراً للمتقين چونكہ متقين كو موسي(ع) ا ور ہارون (ع) كى آسمانى كتاب كے نزول اور نورو ہدايت الہى كے وصول كا ہدف اور مقصد قرار ديا گيا ہے اور قرآن نے بھى اپنى تعليمات كا ايك محور مسئلہ تقوا كو قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقوا تمام توحيدى اديان ميں خصوصى مقام و مرتبے كا حامل رہا ہے_

انسان:اسكى معنوى ضروريات ۴/آسمانى كتابيں :انكى ہدايت ۷

باطل:اسكى تشخيص ۳; اسكى تشخيص كے شرائط ۴

۳۶۷

تقوا:اسكے اثرات ۷; اسكى قدر و قيمت ۹

تورات:اس كا روشنى بخش ہونا ۳; اس كا كردار ۲; اس كا ہدايت كرنے والا ہونا ۶

حق :اسكى تشخيص ۳; اسكى تشخيص كے شرائط ۴; حق و باطل كو جدا كرنے والا ۲

خداتعالى :اسكى تعليمات كى اہميت ۴; اسكى ہدايات ۷، ۸

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۳

متقين:ان كے فضائل ۸; آسمانى كتابوں ميں ان كے فضائل ۸; انكى ہدايت ۶، ۸

موسي(ع) :انكى بصيرت ۳; انكى حجت ۵; انكى رسالت كا شريك ۱; ان كے فضائل ۳; انكى آسمانى كتاب۱; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۵; انكى نبوت ۱، ۵

ہدايت يافتہ لوگ :۸

ہارون(ع) :ان كى بصيرت ۳; انكى حجت ۵; ان كے فضائل ۳; انكى آسمانى كتاب ۱; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۵; انكى نبوت ۱، ۵

ہدايت:اسكے شرائط ۷

آیت ۴۹

( الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَهُم مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ )

جواز غيب اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ہيں اور قيامت كے خوف سے لرزاں ہيں (۴۹)

۱ _ لوگوں كى نظروں سے دور اور خلوت ميں خوف خدا متقين كى خصوصيات ميں سے ہے_

و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بالغيب''

''يخشون'' كے فاعل كيلئے حال ہو_

۲ _ متقين باوجود اس كے كہ ان كا پروردگار انكى نظروں سے غائب اور پنہان ہے ہميشہ اس كے خوف اور خشيت كى حالت ميں رہتے ہيں _و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب

مذكورہ مطلب اس احتمال پر مبتنى ہے كہ ''بالغيب'' ،''يخشون'' كے مفعول ''ربہم'' كيلئے حال ہو يعنى اس حال ميں كہ پروردگار متقين كى نظروں سے غائب ہے وہ اس سے ڈرتے ہيں _

۳۶۸

۳ _ خلوت ميں پروردگار سے آگاہا نہ اور تعظيم كے ہمراہ خوف و خشيت پسنديدہ اوصاف اور اقدار ميں سے ہے_و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب بعض اہل لغت كہتے ہيں ''خشيت'' كا معنى ہے تعظيم كے ساتھ آميختہ خوف اور يہ خوف عام طور پر اس چيز سے آگاہى كے ساتھ ہوتا ہے كہ جس سے انسان ڈرتا ہے (مفردات راغب ...) قابل ذكر ہے كہ يہ معنى آيت كريمہ كے ساتھ مناسب ہے كيونكہ خداتعالى تعظيم كے لائق ہے اور متقين بھى خداتعالى كے مقام سے آگاہى كے ساتھ اس سے ڈرتے ہيں _

۴ _ قيامت كو اہميت دينا اور اس سے خوف و پريشانى متقين كى خصوصيات ميں سے ہے_و ذكراً للمتقين ...و هم من الساعة مشفقون بہت سارے مفسرين اور اہل لغت كے مطابق لفظ ''اشفاق'' كا معنى ہے اعتنا اور اہتمام كے ہمراہ خوف (مفردات راغب)

۵ _ ساعت، قيامت كے ناموں ميں سے ہے_و هم من الساعة مشفقون

۶ _ قيامت انسانوں كيلئے ايك پر خطر اور خوفناك حقيقت ہے_و هم من الساعة مشفقون

''اشقاق'' كا معنى ہے توجہ جو خوف كے ہمراہ ہو اور جب يہ ''من'' كے ساتھ متعدى ہو تو اس ميں خوف كا معنى زيادہ ہوگا (لسان العرب)_

۷ _خوف خدا اور روز قيامت كى پريشانى انسان كے وحى اور ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كرتے ہيں _و ذكراً للمتقين الذين يخشون ربهم بالغيب و هم من الساعة مشفقون

خداتعالى نے پہلى آيت ميں متقين كو اپنے نور اور ہدايت سے بہرہ مند ہونے كے لائق قرار ديا ہے اور اس آيت ميں ان كے اوصاف بيان كئے ہيں ان دو آيتوں كے باہمى ارتباط سے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

اخلاق:اخلاقى فضائل ۳

خوف:قيامت كے خوف كى اہميت ۴

خداتعالى :

۳۶۹

اس سے خشيت كے اثرات۷; اس سے خشيت ۱، ۲خشيت:پنہانى خشيت كى قدر و قيمت ۳; پنہانى خشيت ۱الساعة :۵

قيامت:اس كے بارے ميں پريشانى كے اثرات ۷; اس كا خوفناك ہونا ۶; اسكى حقيقت۶; اسكے نام ۵

متقين:انكا خشيت ۱، ۲; انكى خصوصيات ۱، ۴

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۷

آیت ۵۰

( وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ )

اور يہ قرآن ايك مبارك ذكر ہے جسے ہم نے نازل كيا ہے تو كيا تم لوگ اس كا بھى انكار كرنے والے ہو (۵۰)

۱ _ قرآن انسان كيلئے كثير خير و بركت اور بہت سارے اور دائمى منافع كا سرچشمہ ہے_و هذا ذكر مبارك أنزلناه

''ہذا'' كا مشار اليہ قرآن ہے كہ جو اذہان ميں موجود ہے اور ''البركة'' كا مطلب ہے خير كثير و ثابت اور فراوان نفع_ قرآن كى مبارك كے ساتھ توصيف اس معنى كو بيان كر رہى ہے كہ قرآن بشركيلئے كثير خير اور منافع كا سرچشمہ ہے_

۲ _ قرآن، انسان كى بيدارى اور اس كى فراموش شدہ معلومات كى ياد دہانى كا عامل اور اسكى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے والا ہے_و هذا ذكر معنى كے لحاظ سے ''ذكر'' حفظ كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كى شے كا حفظ اسكے حاصل كرنے اور جاننے كے اعتبار سے ہوتا ہے اور شے كا ذكر اسكے ياد كرنے اور ذہن ميں حاضر كرنے كے لحاظ سے ہوتا ہے _ (مفردت راغب) پس قرآن كى توصيف ''ذكر'' كے ساتھ اس لحاظ سے ہے كہ قرآن انسان كے فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كراتا ہے اور اس غافل انسان كى فطرت كو بيدار كرتا ہے جو اپنے فطرى امور اور خداداد معلومات سے غافل ہوچكا ہوتا ہے_

۳ _ قرآن ايسى حقيقت ہے جو خداتعالى كى جانب سے نازل ہوئي ہے_هذا ذكر مبارك أنزلناه

۳۷۰

۴ _ قرآن كريم كى تورات كى نسبت برترى اور برجستگي_أيتنا موسي ذكراً و هذا ذكر مبارك

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ خداتعالى نے تورات كے بارے ميں فقط لفظ ''ذكر'' استعمال كيا ہے جبكہ قرآن كے بارے ميں ''مبارك'' كى صفت كا بھى اضافہ كيا ہے_

۵ _ خداتعالى كى طرف سے كفار كے قرآن كا انكار كرنے اور اسكے حق كا پاس نہ كرنے كى وجہ سے انكى مذمت_

أفأنتم له منكرون

۶ _ قرآن كريم اس لحاظ سے كہ يہ ايك ايسى كتاب ہے جو بيدار كرنے و الى اور خير و بركت كا سرچشمہ ہے قابل شك و انكار نہيں ہے _هذا ذكر مبارك أنزلنه أفأنتم له منكرون

خداتعالى نے قرآن كريم كو ايسى كتاب كے طور پر متعارف كرايا ہے جو بيدار كرنے والى (ذكر) اور خير و بركت كا سرچشمہ (مبارك) ہے اور پھر مشركين كى طرف سے اس حقيقت كے انكار كو مورد سرزنش قرار ديا ہے يہ سرزنش ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

بركت:اس كا سرچشمہ ۱، ۶

تورات:اسكى فضيلت ۴

خداتعالى :اسكى طرف سے مذمت ۵

خير:اس كا سرچشمہ ۱، ۶

ذكر:اسكے عوامل ۲

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۲

قرآن كريم:اسكى حقانيت كے دلائل ۶; اسے جھٹلانے والوں كى مذمت ۵; اسكى فضيلت ۱، ۴، ۶ اس كا نزول ۳; اس كا كردار ۲; اس كا وحى ہونا ۳; اس كا ہادى ہونا ۲، ۶

كفار:انكى مذمت ۵

۳۷۱

آیت ۵۱

( وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ )

اور ہم نے ابراہيم كو اس سے پہلے ہى عقل سليم عطا كردى تھى اور ہم ان كى حالت سے باخبر تھے (۵۱)

۱ _ حضرت ابراہيم(ع) ،عنايات الہى كے سائے ميں اعلى رشد و كمال كے حامل تھے_و لقد أتينا إبراهيم رشده

۲ _ انسانوں ميں رشد و ترقى اور تكامل كيلئے مختلف استعداد اور صلاحتيں ہيں _و لقد أتينا إبراهيم رشده

چونكہ خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو انكا مخصوص اور انكے متناسب رشد عطا كيا ہے معلوم ہوتا ہے كہ ہر انسان اپنى مخصوص استعداد اور قابليت ركھتا ہے كہ جو دوسروں سے مختلف ہے_

۳ _ ابراہيم (ع) كے بعد موسي(ع) و ہارون(ع) ايسے دو پيغمبر تھے جو رشد يافتہ اور كمال سے بہرہ مند تھے_

آتينا موسى و هارون الفرقان و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''من قبل'' سے مراد موسي(ع) ا ور ہارون(ع) سے پہلے كا زمانہ ہو اس كا مطلب يہ ہے كہ يہ دو پيغمبر بھى ايسے رشد سے بہرہ مند تھے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) عنايات الہى كے سائے ميں نبوت سے پہلے اور بچپن ہى سے خاص قسم كے رشد و كمالات سے بہرہ مند تھے_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من قبل'' سے مراد بلوغ يا نبوت سے پہلے ہو_

۵ _ سب انسان حتى انبيا(ع) ء بھى رشد و كمال ميں عنايات الہى كے محتاج ہيں _و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

۶ _ خداتعالى پہلے سے ہى حضرت ابراہيم (ع) كى لياقت اور صلاحيت سے آگاہ تھا_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل و كنا به علمين

۳۷۲

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ''و كنا به علمين'' حاليہ ہو اور ''بہ'' كى ضمير ابراہيم(ع) كى طرف پلٹ رہى ہو_

اس بنياد پر آيت كريمہ كا پيغام اس آيت ( الله أعلم حيث يجعل رسالتہ ...)( انعام (۶ ) ۱۲۴) جيسا ہوگا_

۷ _ حضرت ابراہيم(ع) كاعنايات الہى كے سائے ميں خصوصى رشد و كمال سے بہرہ مند ہونا ان كى اپنى لياقت اور صلاحيت كى بناپر تھا_و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل

''رشد'' كى ضمير كى طرف اضافت، مصدر كى اپنے مفعول كى طرف اضافت ہے نيز يہ اضافت لاميہ اور مفيد اختصاص ہے يعنى ہم نے ابراہيم(ع) كو ايسا رشد عطا كيا كہ جو ان كے لائق اور انكے بلند مقام و مرتبے سے مخصوص تھا_

۸ _ خداتعالى كا انسان پر لطف و كرم اسكى اپنى لياقت اور صلاحيت كى بنياد پر ہے_و لقد أتينا إبراهيم رشده و كنا به علمين مذكورہ مطلب حضرت ابراہيم(ع) سے القاء خصوصيت كر كے حاصل كيا جاسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :ان كى صلاحيت ۶، ۷; ان كے فضائل۱; انكا كمال ۱، ۴; انكا بچپن ۴; ان كے كمال كا سرچشمہ ۶،۷

انبياء(ع) :ابراہيم (ع) كے بعد كے انبيا(ع) ۳

انسان:اسكى استعداد كا مختلف ہونا۲; اسكے كمال كے مختلف درجے ۲; اسكى معنوى ضروريات ۵

صلاحيت :اس كا كردار ۸

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۸; اس كا علم ۶

كمال:اسكے عوامل ۵

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۴

موسي(ع) (ع) :ان كے فضائل ۳; انكا كمال ۳

نيازمندي:خداتعالى كے لطف و كرم كى نيازمندى ۵

ہارون(ع) :ان كے فضائل ۳; ان كا كمال۳

۳۷۳

آیت ۵۲

( إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ )

جب انھوں نے اپنے مربى باپ اور اپنى قوم سے كہا كہ يہ مورتياں كيا ہيں جن كے گرد تم حلقہ باندھے ہوئے ہو (۵۲)

۱ _ حضرت ابراہيم(ع) نے اپنے باپ اور اپنى قوم كى موجودگى ميں بت پرستى پر سواليہ نشان لگا يا اور آشكار اسكى مخالفت كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

''ما ہذہ التماثيل ...'' ميں استفہام بتوں كى حقيقت كے بارے ميں سوال ہے نہ ان كے ناموں كے بارے ميں _ چونكہ حضرت ابراہيم(ع) ان كى حقيقت سے آگاہ تھے اور انہيں اس كے بارے ميں سوال كرنے كى ضرورت نہيں تھى پس ان كا استفہام بت پرستى پر سواليہ نشان لگانے، اسكى مذمت كرنے اور ايك طرح سے اسكى مخالفت كے اظہار كيلئے تھا_

۲ _ حضرت ابراہيم(ع) نے شدت كے ساتھ بتوں اور بت پرستى كى مذمت كى اور اسكى وجہ سے اپنے باپ اور اپنى قوم كى مذمت كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

اس اشارہ قريب (ہذہ) كے ذريعے بتوں كى طرف اشارہ كرنے نيز تماثيل (تصوير يں اور بے جان مجسمے) كى تعبير حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بتوں اور بت پرستى كى تحقير كو بيان كررہے ہيں _قابل ذكر ہے كہ قرينہ مقاميہ كى بناپر ''ماہذہ'' ميں استفہام توبيخى ہے_

۳ _ حضرت ابراہيم(ع) نے اپنے باپ اور اپنى قوم سے بے جان مجسموں كے احترام اور ان كے سامنے عبادت كے متعلق وضاحت طلب كي_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون

ابراہيم (ع) كى قوم كے جواب سے كہ انہوں نے اپنے كام كو اپنے آباؤ اجداد كى پيروى كے وجہ سے قرار ديا (قالوا وجدنا آبائنا لها عابدين )_ معلوم ہوتا ہے كہ ابراہيم (ع) كا سوال ان كى طرف سے بتوں كى تقديس اور انكے سامنے عبادت كى علت كے بارے ميں تھا_

۴ _ بت پرستى ،قوم ابراہيم(ع) كا دين و مذہب تھا_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

۵ _ شرك آلود اور خرافات پر مبنى افكار كے ساتھ مقابلہ ،ابراہيم (ع) كے رشد و كمال كا عملى مظاہرہ تھا_

و لقد أتينا إبراهيم رشده إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل

۳۷۴

''إذ'' ظرف اور ''آتينا'' كے متعلق ہے يعنى ابراہيم كو اس وقت رشد عطا ہوا جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنى قوم سے كہا

۶ _ حضرت ابراہيم(ع) كى قوم كى طرح ان كے والد بھى بے جان مجسموں اور بتوں كى تقديس كرتے اور انكى عبادت كرتے_إذ قال لأبيه و قومه ما هذه التماثيل التى انتم لها عكفون

۷ _ باپ كے منحرف عقائد كى مخالفت حضرت ابراہيم(ع) كے مقابلہ كا آغازإذ قال لأبيه و قومه

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''أبيہ'' كا لفظوں ميں ''قومہ'' پر مقدم ہونا تقدم زمانى پر دلالت ركھتا ہو_

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كے والد كا اپنے معاشرے كے عقائد كو جہت دينے ميں ممتاز اور مشخص كردار _أذ قال لأبيه و قومه خاص طور پر لفظ ''أب'' كو ذكر كرنے سے احتمالى طور پر اس نكتے كا استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كے والد كا معاشرے كے اعتقادى تمايلات ميں بنيادى كردار تھا_

۹ _ قريب كے رشتہ داروں كى اصلاح اور انكى ہدايت معاشرے كے ديگر افراد كى نسبت اولويت ركھتى ہے_

إذ قال لأبيه و قومه

۱۰ _ مجسموں اور نقوش كى تقديس اور انكى دائمى عبادت حضرت ابراہيم (ع) كى رسالت كے آغاز ميں لوگوں كا دين _

ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون ''عكوف'' كا معنى ہے از روئے تعظم و احترام كسى چيز كى طرف دائمى توجہ_ اور اس آيت كريمہ ميں اس سے مراد بتوں كى عبادت اور تقديس ہے قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت كا ذيل كہ جو حضرت ابراہيم(ع) كے سوال كا جواب ہے ( آبائنا لہا عابدين ...) اسى معنى كا مويد ہے_

۱۱ _ قوم ابراہيم(ع) كا شرك، بے جان مجسموں اور تصويروں كى پرستش كى صورت ميں تھا_ما هذه التماثيل التى أنتم لها عكفون (تماثيل كے مفرد) تمثال كا معنى ہے مصور شے اور نقش كى ہوئي تصويريں (مفردات راغب) اسكے روشن مصاديق ميں سے ايك وہ بے جان مجسمے ہيں جنہيں بت پرست لوگ مختلف شكلوں ميں بناتے تھے_

آزر:

۳۷۵

اسكى بت پرستى ۲، ۶; اس سے سوال ۳; اسكى مذمت ۲; اسكے ساتھ مقابلہ ۷; اسكى اجتماعى حيثيت ۸

ابراہيم(ع) :انكا سوال ۳; انكى تاريخ۷; انكى طرف سے مذمت ۲; انكى شرك دشمنى ۱، ۵،۷; انكا قصہ ۱، ۲، ۳; انكا مقابلہ ۷; ان كے كمال كى نشانياں ۵

بت پرستي:اسكے بارے ميں سوال ۱، ۳; اسكى تحقير ۳

خرافات:ان كے خلاف مقابلہ ۵

رشتہ دار:انكى ہدايت كى اہميت ۹

شرك:اسكے خلاف مقابلہ۷

قوم ابراہيم(ع) :اسكى بت پرستى ۱، ۲، ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; اس سے سوال ۳; اسكى تاريخ ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; اسكى مذمت ۲; اس كا شرك ۱۱

ہدايت:اس ميں اولويت ۹

آیت ۵۳

( قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءنَا لَهَا عَابِدِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم نے اپنے باپ داد كو بھى انھيں كى عبادت كرتے ہوئے ديكھا ہے (۵۳)

۱ _ آباؤ اجداد اور گذشتگان كى بت پرستي، قوم ابراہيم(ع) كى طرف سے اپنے شرك اور بت پرستى كا بہانہ _

قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

۲ _ قوم ابراہيم(ع) كى بت پرستى اور شرك كى كوئي منطقى دليل اور برہان نہيں تھى اور انہيں فقط اپنے آباؤ اجداد كى اندھى تقليد كا سہارا تھا_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

چونكہ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بت پرستى كے سوال كے جواب ميں لوگوں نے صرف آباؤ اجداد كى پيروى كا تذكرہ كيا تو اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۳ _ دينى مبانى اور اعتقادات ميں آباؤ اجداد اور گذشتگان كى اندھى تقليد اور بغير دليل كے پيروى ناپسنديدہ اور قابل مذمت امر ہے_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين بعد والى آيت كہ جس ميں حضرت ابراہيم (ع) نے اپنى

۳۷۶

قوم كو بت پرستى كى وجہ سے گمراہ قرار ديا ہے قرينہ ہے كہ يہ آيت كريمہ آباؤاجداد كى تقليد كو رد كرنے اور اسكى مذمت كرنے كے درپے ہے_

۴ _ اپنے دينى اصولوں اور اعتقادات كو قانع كنندہ دليل و برہان پر استوار كرنا ضرورى ہے_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ ان لوگوں كى مذمت كر رہى ہے كہ جنہوں نے اپنے اعتقادات كى بنياد اپنے گذشتگان كى اندھى تقليد كر ركھى تھى اور شرك كو قبول كرنے كى علت كے بارے ميں سوال كے جواب ميں انہوں نے كوئي دليل ذكر نہ كى _

۵ _ شرك و بت پرستى قوم ابراہيم(ع) كے درميان رائج اور لمبى تاريخ ركھتى تھي_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

۶ _ گذشتگان كے عقائد پر تعصب كرنا اور آباؤاجداد كى ناآگاہانہ طور پر پيروى كرنا انسان كے انحراف اور گمراہى كا عامل ہے_ما هذه التماثيل قالوا وجدنا أباء نا لها عبدين

۷ _ انسان كا اپنے خاندان اورمعاشرے سے اثر قبول كرنا_قالوا وجدنا أبائنا لها عبدين

انسان:اس كا اثر قبول كرنا ۷

بت پرستي:اسكى تاريخ ۵

تعصب:اسكے اثرات ۶

تقليد:اندھى تقليد كے اثرات ۶; آباؤ اجداد كى تقليد ۳، ۶; اندھى تقليد ۲; اندھى تقليد كا ناپسنديدہ ہونا ۳

خاندان:اس كا كردار ۷

شرك:اسكى تاريخ ۵

عقيدہ:اس ميں برہان كى اہميت ۴; اس ميں تقليد ۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى بت پرستى كے اثرات ۱; اسكے آباؤ اجداد كى بت پرستى ۲; اسكى بت پرستى ۵; اسكى بت پرستى كا غيرمنطقى ہونا۲; اسكے شرك كا غير منطقى ہونا۲; اسكى تاريخ ۱، ۵; اسكى تقليد ۱، ۲; اس كا شرك ۵; اسكى بت پرستى كے عوامل ۱

گمراہي:اسكے عوامل ۶/معاشرہ:اس كا كردار ۷

۳۷۷

آیت ۵۴

( قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ )

ابراہيم نے كہا كہ يقينا تم اور تمھارے باپ دادا سب كھلى ہوئي گمراہى ميں ہو (۵۴)

۱ _ قوم ابراہيم(ع) اور اسكے آباؤ اجداد واضح گمراہى ميں تھے_قال لقد كنتم انتم و أباء كم فى ضلل مبين

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے اپنے باپ اور اپنى قوم كى اندھى تقليد اور شرك كى واضح اور قاطع مخالفت_

إذ قال لأبيه و قومه لقد كنتم أنتم و آبائكم فى ضلل مبين

۳ _ بت پرستى اور شرك واضح ضلالت اور گمراہى ہے_ما هذه التماثيل أنتم و أباؤكم فى ضلل مبين

۴ _ كسى نظريے كے پيروكاروں كى كثرت اور اسكى لمبى تاريخ اسكى حقانيت كى دليل نہيں ہے _قالوا وجدنا آباء نا انتم وآباؤكم فى ضلل مبين مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم(ع) كے اعتراض كے جواب ميں بت پرستى والے عقيدے كى لمبى تاريخ اور اسكے پيروكاروں كى كثرت كا تذكرہ كيا ليكن حضرت ابراہيم (ع) نے خود انہيں اور ان كے آباؤ اجداد كو گمراہ قرار ديكر ايسے استدلال كو رد كرديا_

آزر:اسكى تقليد ۲

آبادي:اس كا كردار ۴

ابراہيم (ع) :انكى شرك دشمنى ۲; انكا قصہ ۲

بت پرستي:اسكى حقيقت ۳

تاريخ:اس كا كردار ۴

تقليد:

۳۷۸

اسكے ساتھ مقابلہ۲

شرك:اسكى حقيقت ۳

عقيدہ:اسكى حقانيت كے دلائل ۴

قوم ابراہيم(ع) :اسكى تاريخ ۱; اسكى تقليد ۲; اسكے آباؤ اجداد كى گمراہى ۱; اسكى گمراہى ۱

گمراہي:اسكے موارد ۳

آیت ۵۵

( قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ آپ كوئي حق بات لے كر آئے ہيں يا خالى كھيل تماشہ ہى كرنے والے ہيں (۵۵)

۱ _ قوم ابراہيم، (ع) شرك و بت پرستى كى نفى ميں حضرت ابراہيم (ع) كے سنجيدہ ہونے اور انكے كلام كے حق ہونے ميں شك و ترديد كا شكار تھى اور اسے بعيد سمجھتى تھي_قالوا أجئتنا بالحق ا م أنت من اللعّبين

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے توحيد كى دعوت اور شرك و بت پرستى كو رد كرنا بت پرستوں كے اپنے عقيدے ميں شك كا موجب بنا_ما هذه التماثيل أنتم و أباؤكم فى ضلل مبين قالوا أجئتنا بالحق ا م أنت من اللعّبين

۳ _ بت پرستى قوم ابراہيم(ع) كى جان و روح ميں راسخ ہوچكى تھي_قالوا أجئتنا بالحق

بت پرستوں كا حضرت ابراہيم(ع) كى دعوت كو سنجيدہ نہ سمجھنا اور توحيد كى دعوت پر تعجب كرنا مذكورہ مطلب پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ حق كى جستجو اور حقيقت كو قبول كرنا، انسانى فطرت ميں داخل ہے_قالوا أجئتنا بالحق

مشركين اور بت حق كے قبول كرنے كو اصلى فرضيہ سمجھتے تھے اور ان كا شك صرف حضرت ابراہيم(ع) كى دعوت كے حق ہونے ميں تھا اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۵ _ بت پرست حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسا شخص سمجھتے تھے جو ان كے عقيدے كے ساتھ كھيل رہا تھا اور اس نے اس كا مذاق بنا ركھا تھا_أجئتنا بالحق ا م انت من اللعّبين

۳۷۹

ابراہيم (ع) :ان كى دعوت كے اثرات ۲; انكى شرك دشمنى كے اثرات ۲; يہ اور كھيل ۵; ان كى حقانيت ميں شك ۱; انكا قصہ۱

انسان:اسكى فطرت ۴

توحيد:اسكى دعوت۲

حق:حق پرستى كا فطرى ہونا۴

قوم ابراہيم(ع) :اسكے عقيد كے ساتھ كھيلنا ۵; اسكى بت پرستى ۳; اس كى سوچ ۱، ۵; اسكى تاريخ ۱، ۳، ۵; اسكے شك كا پيش خيمہ ۲; اس كا شك ۱

آیت ۵۶

( قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ )

ابراہيم نے كہا كہ تمھارا واقعى رب وہى ہے جو آسمان و زمين كا رب ہے اور اسى نے ان سب كو پيدا كيا ہے اور ميں اسى بات كے گواہوں ميں سے ايك گواہ ہوں (۵۶)

۱ _ عالم ہستى (آسمان، زمين اور انسان) خداتعالى كى ربوبيت كے تحت ہے_بل ربكم رب السموات و الأرض

۲ _ انسان اور كائنات كا رب ايك ہے_بل ربكم رب السموات و الأرض

۳ _ خداتعالى عالم مادى (آسمان، زمين اور انسان) كا خالق ہے_ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۴ _ قوم ابراہيم(ع) كا شرك كائنات كى ربوبيت اور تدبير ميں تھا نہ اسكى خالقيت ميں _

قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بت پرستوں كے ساتھ مقابلہ ، مقابلہ استدلال و برہان پر مبتنى تھا_

قال ما هذه التماثيل قال بل ربكم فطرهن

۶ _ عالم طبيعت ميں متعدد آسمان ہيں _السموات

۷ _ طبيعت ايك نئي اور جديد مخلوق ہے كہ جسے خداتعالى نے كسى نمونے سے لئے بغير خلق كيا ہے_

رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

آیت ۸۸

( فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ )

تو ہم نے ان كى دعا كو قبول كرليا اور انھيں غم سے نجات دلادى كہ ہم اسى طرح صاحبان ايمان كو نجات دلاتے رہتے ہيں (۸۸)

۱ _ مچھلى كے پيٹ كى تاريكى ميں گرفتار ہونے كے وقت حضرت يونس(ع) نے جو دعا كى وہ خداتعالى نے قبول كرلى _

فنادى فى الظلمت فاستجبناله

۲ _ خداتعالى نے حضرت يونس(ع) كو غم و اندوہ سے نجات دي_و نجينه من الغم

۳ _ دعا كى قبوليت اور غموں سے نجات ميں خداتعالى كى تسبيح و تہليل اور اپنے نفس پر ظلم كے اقرار كا كردار_

فنادى فى الظلمت أن لا إله إلا أنت سبحانك إنى كنت من الظالمين فاستجبناله و نجيناه من الغم

۴ _ دعا، غم و اندوہ اور مشكلات سے نجات حاصل كرنے كا موثر ذريعہ ہے_فنادى و نجينه من الغم

۵ _ اپنے نفس پر ظلم غمناك نتائج كا حامل ہے اور ان سے نجات كيلئے خداتعالى كى مددكى ضرورت ہے_

إنى كنت من الظلمين فاستجبناله و نجينه من الغم

۶ _ مؤمنين كو غم و اندوہ سے نجات دينا خداتعالى كى سنت ہے_فاستجبناله و نجينه من الغم و كذلك ننجى المؤمنين

حضرت يونس(ع) كى نجات كو ذكر كرنے كے بعد جملہ''كذلك ننجى المؤمنين'' ہوسكتا ہے سنت الہى اور ايك قانون كو بيان كررہا ہو_

۷ _ مؤمنين كى مخلصانہ دعا كى صورت ميں خداتعالى كا انہيں غم و اندوہ اور مشكلات سے نجات دينے ك

۴۴۱

وعدہ _فنادى و كذلك ننجى المؤمنين

۸ _ حضرت يونس(ع) كى غم و اندوہ سے نجات، مؤمنين كى نجات كے بارے ميں خداتعالى كى سنت كا ايك جلوہ تھا_و نجينه من الغم و كذلك ننجى المؤمنين اسم اشارہ ''كذلك'' حضرت يونس(ع) كى غم و اندوہ سے نجات كى طرف اشارہ ہے_

۹ _ اپنے نفس پر ظلم انسان كے غم و اندوہ ميں مبتلاء ہونے كا سبب ہے_فظن ان لن نقدر عليه إنى كنت من الظالمين و نجيناه من الغم

اخلاص:اسكے اثرات ۷

اقرار:ظلم كے اقرار كے اثرات ۳

غم و اندوہ:اسكے عوامل ۵، ۹; اسكے دور كرنے كے عوامل ۴، ۵

تسبيح:اسكے فوائد ۳

تہليل:اسكے فوائد ۳

خداتعالى :اسكى امداد كى اہميت ۵; اسكى سنت ۶، ۸; اس كا نجات دينا ۲; اس كے وعدے ۷

خود:خود پر ظلم كے اثرات ۵، ۹; خود پر ظلم ۳

دعا:اسكے اثرات ۴; اسكے آداب ۳; اس ميں اخلاص ۷; اسكى قبوليت كے عوامل ۳

سنن الہي:نجات دينے والى سنت ۶، ۸

مؤمنين:ان كے غم كو دور كرنا ۶، ۷; انكى نجات ۸; ان كے ساتھ وعدہ ۷

يونس (ع) :انكى دعا كى قبوليت ۱; ان كے غم كا دور كرنا ۲، ۸; انكى تكليف ۱; انكى نجات۲; يہ مچھلى كے پيٹ ميں ۱

۴۴۲

آیت ۸۹

( وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْداً وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ )

اور زكريا كو ياد كرو كہ جب انھوں نے اپنے رب كو پكارا كہ پروردگار مجھے اكيلا نہ چھوڑ دينا كہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے (۸۹)

۱ _ حضرت زكريا(ع) اور ان كے بيٹا چاہنے كى داستان سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد دہانى كرانے كے قابل ہے_و زكريا إذ نادى مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''زكريا'' كى نصب ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے ہو_

۲ _ حضرت زكريا(ع) نے بلند اور واضح آواز كے ساتھ خداتعالى سے بيٹا طلب كيا_و زكريا إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً بعدوالى آيت (فاستجبناله و وهبنا له يحيى ) قرينہ ہے كہ جملہ''لاتذرنى فرداً'' سے مراد بيٹے كى درخواست ہے قابل ذكر ہے كہ ''ندا'' كا معنى ہے بلند اور واضح آواز (لسان العرب)

۳ _ تنہائي سے نجات اور موت كے بعد اپنى وراثت كى حفاظت حضرت زكريا(ع) كے خدا سے بيٹا طلب كرنے كا محرك_

و زكريا إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين حضرت زكريا(ع) نے صراحت كے ساتھ بيٹا طلب كرنے كے بجائے اپنى تنہائي كا تذكرہ كيا اور اپنى درخواست كے آخر ميں خدا كے بہترين وارث ہونے كو ياد كيا ان دو مطلبوں كو ذكر كرنا در حقيقت دعا ميں حضرت زكريا(ع) كے محرك اور حالات كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ حضرت زكريا(ع) تنہائي كى وجہ سے رنج ميں مبتلاء تھے اور بيٹے كى آرزو ركھتے تھے_إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً

بلاشك انسان اپنى دعا ميں جو كچھ خدا سے چاہتا ہے وہ اسے دوست ركھتا ہوتا ہے اور اسكى آرزو ركھتا ہے اور اس كا نہ ہونا اسكے رنج كا سبب ہوتا ہے بالخصوص اگر دعا كرنے والا عظيم شخصيت كا مالك ہو جيسے پيغمبر الہى اس بناپر حضرت زكريا(ع) كى صاحب فرزند ہونے كيلئے دعا مذكورہ مطلب كى غماز ہوسكتى ہے_

۴۴۳

۵ _ صاحب اولاد ہونے كى آرزو انسان كيلئے ايك فطرى آرزو اور پسنديدہ اميد ہے_رب لاتذرنى فرداً

۶ _ موت كے بعد اولاد كے سائے ميں زندگى كے ماحصل كو محفوظ كرنا انسان كافطرى مطالبہ ہے_و زكريا إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين چونكہ حضرت زكريا(ع) جيسے پيغمبر خدا نے صاحب اولاد ہونے كے ذريعے اپنى ميراث كى حفاظت كو طلب كيا ہے اس سے اس بات كا استفادہ كيا جاسكتا ہے كہ سب انسان ايسا مطالبہ ركھتے ہيں _

۷ _ زندگى ميں بيٹا اور وارث نہ ہونے كى صورت ميں حضرت زكريا(ع) كو اپنى رسالت كے مستقبل كى پريشاني_رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين ممكن ہے حضرت زكريا(ع) كى خداتعالى سے صاحب فرزند ہونے كى درخواست معاشرتى مسائل كى خاطر ہو يعنى آپ چاہتے تھے كہ رسالت اور اسكے ثمرات محفوظ اور ہميشہ رہيں _

۸ _ مسئلہ وراثت كى ماضى ميں لمبى تاريخ ہے اور وراثت چھوڑنے اور وراثت حاصل كرنے كى خواہش ايك فطرى اور انسانوں حتى كہ انبيا(ع) ء كے درميان ايك رائج امر ہے_رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين

۹ _ خداوند، بہترين وارث ہے_أنت خير الوارثين

۱۰ _ تمام زندہ موجودات مرنے والے اور فانى ہيں اور صرف خداتعالى كى ذات زندہ و جاويد ہے_أنت خير الوارثين

خداتعالى كا بہترين وارث ہونا ممكن ہے اس لحاظ سے ہو كہ سب وارث كسى نہ كسى دن موت كا شكار ہوجائيں گے اور انہوں نے جو كچھ وراثت حاصل كى ہے اسے دوسروں كے سپرد كريں گے ليكن خداتعالى ايسا وارث ہے جو ناقابل فنا اور زندہ و جاويد ہے_

۱۱ _ دعا كے وقت خداتعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ اور اس كا تذكرہ كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے_إذ نادى ربه رب لاتذرني

۱۲ _ ربوبيت خدا كا تقاضا ہے كہ انسان نياز كے وقت اسكى بارگاہ كى طرف متوجہ ہو_إذ نادى ربه رب لاتذرني

۱۳ _ دعا كے وقت خداتعالى كى تعريف اور ضرورت كے ساتھ مناسب طريقے سے اس كے اسما و صفات كو ياد كرنے كا اچھا ہونا_و أنت خير الوارثين

مذكورہ مطلب كے حاصل ہونے كى وجہ يہ ہے كہ حضرت زكريا(ع) نے اپنى نياز اور مطالبے (صاحب

۴۴۴

اولاد ہونے كے ذريعے اپنى ميراث كى حفاظت) كے ساتھ متناسب،خداتعالى كو بہترين وارث ہونے كے ساتھ ياد كيا_

آرزو:بيٹے كى آرزو۵; پسنديدہ آرزو۵

وراثت:بہترين وراثت ۹; اسكى تاريخ۸

اسما ء و صفات:خيرالوارثين۹

انبياء(ع) :ان كے تمايلات۸

انسان:اسكے مطالبے ۶; اسكے تمايلات ۸، اسكى ضروريات ۵

تنہائي:اس سے نجات ۳

حمد:حمد خدا، ۱۳

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۲; اس كا زندہ و جاويد ہونا ۱۰

دعا:اسكے آد اب ۱۱، ۱۳; اس ميں اسما ء و صفات ۱۳; اس كا ضرورت كے مطابق ہونا ۱۳; اس ميں حمد ۱۳

ذكر:ربوبيت خدا كا ذكر ۱۱; حضرت زكريا كے قصے كا ذكر ۱

زكريا (ع) :انكى آرزو۴; انكى رسالت كا مستقبل۷; انكا بے اولاد ہونا ۴، ۷; انكى تنہائي ۳; انكى دعا۲; ان كے قصے سے عبرت۱; ان كے رنج كے عوامل۴; انكى پريشانى كے عوامل ۷; ان كا بيٹا طلب كرنا ۱، ۲، ۴; ان كے بيٹا طلب كرنے كا فلسفہ۳، ۷; انكا قصہ ۲، ۴، ۷; انكى وراثت كى حفاظت ۳; انكى وراثت كى حفاظت ۳، ۶

عبرت:اسكے عوامل ۱

محبت:وراثت سے محبت ۸

بيٹا:اسكى درخواست ۲; اس كا كردار ۶

تمايلات:خدا كى طرف تمايل كا پيش خيمہ ۱۲

موجودات:ان كا فانى ہونا ۱۰

۴۴۵

آیت ۹۰

( فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَى وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَباً وَرَهَباً وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ )

تو ہم نے ان كى دعا كو بھى قبول كرليا اور انھيں يحيى جيسا فرزند عطا كرديا اور ان كى زوجہ كو صالحہ بناديا كہ يہ تمام وہ لوگ تھے جو نيكيوں كى طرف سبقت كرنے والے اور رغبت اور خوف كے ہر عالم ميں ہميں كو پكارنے والے تھے اور ہمارى بارگاہ ميں گڑگڑا كر التجا كرنے والے بندے تھے (۹۰)

۱ _ حضرت زكريا(ع) كى صاحب فرزند ہونے كى دعا كو خداتعالى نے قبول فرمايا_رب لا تذرنى فرداً فاستجبناله

۲ _ حضرت زكريا(ع) كى دعا اور ان كے بارگاہ الہى ميں آنے كے بعد خداتعالى كى طرف سے ان كيلئے يحيى (ع) كا بلاعوض اور كسى قسم كى غرض سے خالى عطيہإذ نادى ربه فاستجبنا له و و هبنا له يحيى ''ہبہ'' كا معنى كسى قسم كى غرض اور عوض كے بغير ''عطيہ''_

۳ _ حضرت زكريا(ع) كى صاحب فرزند ہونے كى دعا كے بعد حضرت يحيى (ع) ان كى پہلى اولاد_رب لاتذرنى فرداً فاستجبناله و وهبنا له يحيى

۴ _ حضرت زكريا كى اپنى بيوى كے بانجھ پن كے درست كرنے كى دعا كوخداتعالى نے قبول فرماليا اور خداتعالى نے اسے حمل كے قابل بناديا_فاستجبناله و وهبناله يحيى و اْصلحنا له زوجه

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ

''أصلحنا له زوجه'' كا عطف جملہ''وهبنا له يحيى '' پر ہو اس صورت ميں بيوى كا ٹھيك ہونا حضرت زكريا(ع) كى دعا كا حصہ شمار ہوگا_

۵ _ حضرت زكريا(ع) كى دعا سے پہلے انكى بيوى بانجھ تھي_رب لاتذرنى فرداً فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

۴۴۶

۶ _ حضرت زكريا(ع) كے قدرتى عوامل كے مطابق اور خداتعالى كے لطف و كرم كے بغير صاحب فرزند ہونے كا ممكن نہ ہونا_و زكريا إذ نادى ربه فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

حضرت زكريا(ع) نے كہا ''خدايا مجھے تنہائي سے نجات دے مجھے بيٹا عطا فرما'' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر خداتعالى ان كى دعا كو قبول نہ فرماتا تو وہ صاحب اولاد ہونے سے محروم رہتے اور عمر كے آخر تك تنہا رہتے_

۷ _ عورت كا بانجھ پن اس كيلئے ايك نقص ہے كہ جسكى اصلاح كى ضرورت ہے_و أصلحنا له زوجه

كلمہ ''أصلحنا'' كا استعمال بانجھ پن كے نقص كى طرف اشارہ ہے كيونكہ صلاح، فساد و نقص كے مقابلے ميں ہے_

۸ _ خداتعالى نے حضرت زكريا(ع) كى بيوى كے اخلاق و اطوار كى اصلاح فرمائي اور اسے حضرت زكريا كيلئے ايك شائستہ بيوى قرار ديا_ *فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''أصلحنا لہ زوجہ'' كا عطف جملہ ''فاستجبنالہ'' پر ہو اس صورت ميں بيوى كى اصلاح حضرت زكريا(ع) كى دعا كا حصہ نہيں تھابلكہ خداتعالى نے اپنے فضل و كرم سے اور انكى دعا سے بڑھ كر انہيں يہ عطا فرمايا نيز ''اصلاح'' اپنے عام اور وسيع معنى ميں استعمال ہوا ہے نہ بانجھ پن كى اصلاح قابل ذكر ہے كہ بيٹا عطا كرنے كے بعد بيوى كى اصلاح كا تذكرہ اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۹ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت زكريا(ع) كو بيٹا عطا كرنا اور انكى بيوى كى اصلاح صرف حضرت زكريا(ع) كى دعا كى قبوليت اور ان كے فائدے كيلئے تھا_فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

''لہ'' (اس كيلئے) كا تكرار خاص طور پر بيوى كى اصلاح كے مورد ميں ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۱۰ _ حضرت زكريا(ع) خداتعالى كے خاص لطف و كرم اور عنايات سے بہرہ مند تھے_فاستجبناله و وهبنا له يحيى و اصلحنا له زوجه ''لہ'' (اس كيلئے) كا تكرار ہوسكتاہے خداتعالى كى حضرت زكريا(ع) كيلئے خاص عنايات سے حاكى ہو_

۱۱ _ دعا و مناجات، صاحب اولاد ہونے اور بانجھ پن كے درست ہونے كا سبب ہے_

رب لاتذرنى فرداً فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

۱۲ _ حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور ان كا بيٹا (يحيى (ع) ) نيكى كے كاموں كو بھاگ بھاگ كے انجام ديتے اور اس ميں پيش قدم رہتے_إنهم كانوا يسرعون فى الخيرات مذكورہ مطب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''إنہم كانوا يسارعون ...'' كى جمع كى ضميروں كا مرجع زكريا(ع) ، انكى بيوى اور بيٹا (يحيي) ہو_

۴۴۷

۱۳ _ كار خير كو انجام دينا حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور بيٹے (يحيى (ع) ) كى دائمى سيرت اور محبوب مشغلہ تھا_و زكريا و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه إنهم كانوا يسرعون فى الخيرات فعل مضارع ''يسارعون'' اور اس سے پہلے فعل ''كانوا'' كا آنا استمرار اور دوام كو بيان كرتا ہے اور فعل ''يسارعون'' كا ''في'' كے ساتھ متعدى ہونا كام سے محبت اور اس كے سلسلے ميں سنجيدگى پر دلالت كرتا ہے_

۱۴ _ انبيا(ع) ء الہى موسي(ع) ، ہارون، ابراہيم، لوط، اسحاق، يعقوب، نوح، داؤد(ع) ، سليمان(ع) ، ايوب، اسماعيل، ادريس، ذاالكفل، يونس، زكريا اور يحيي(ع) (عليہم السلام) كار خير ميں آگے آگے_و لقد أتينا موسى و هارون يحيى إنهم كانوا يسارعون فى الخيرات مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''إنہم كانوا يسرعون ...'' كى جمع كى ضميريں ان انبيا(ع) ء كى طرف راجع ہوں كہ جن كا ذكر گذشتہ آيات (۸۴ _ ۹۰) ميں ہوچكا ہے_

۱۵ _ كار خير كو انجام دينا، انبياء الہى موسي(ع) ، ہارون، ابراہيم، لوط، اسحاق، يعقوب، نوح، داؤد(ع) ، سليمان(ع) ، ايوب، اسماعيل، ادريس، ذاالكفل، يونس، زكريا اور يحيي(ع) (عليہم السلام) كى دائمى سيرت اور محبوب مشغلہ تھا_

و لقد أتينا موسى و هارون يحيى إنهم كانوا يسارعون فى الخيرات

۱۶ _ حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور انكا بيٹا (يحيى (ع) ) رغبت اور اميد كے ساتھ خداتعالى كو پكار رہے تھے_

و يدعوننا رغباً و رهب

۱۷ _ حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور بيٹا (يحيي(ع) ) بارگاہ الہى كے خاشعين ميں سے تھے_و كانوا لنا خشعين

۱۸ _ انبيا(ع) ء كا كارخير ميں آگے بڑھنا، رغبت و خوف كے ہمراہ دعا كرنا نيز ان كا خشوع ان كے الہى عطيات سے بہرہ مند ہونے كا عامل تھا_و لقد أتينا موسى و هارون انهم كانوا يسارعون فى الخيرات و كانوا لنا خشعين مذكورہ مطلب دو نكتوں كو مد نظر ركھتے ہوئے حاصل ہو رہا ہے_

۱ _ جملہ''إنهم كانوا يسارعون '' كى جمع كى ضميروں كا مرجع انبيا(ع) ء ہوں كيونكہ گذشتہ آيات انہيں كے بارے ميں تھيں _

۲ _ جملہ ''إنہم كانوا يسارعون ...'' اور اسكے بعد كے جملے تعليل كے مقام ميں ہوں

۱۹ _ كار خير ميں سبقت لينے، رغبت و اميد كے ہمراہ دعا كرنے اور بارگاہ الہى ميں خشوع كا دعا كى قبوليت ميں مؤثر كردار_فاستجبناله إنهم يسارعون فى الخيرات و كانوا لنا خشعين

۴۴۸

۲۰ _ كارخير ميں سبقت اور جلدى كرنا، رغبت و اميد كے ہمراہ دعا كرنا اور بارگاہ الہى ميں خشوع كرنا اعلى اقدار اور الہى لوگوں كى برجستہ صفات ميں سے ہيںإنهم كانوا يسرعون فى الخيرات و يدعوننا رغباً و رهباً و كانوا لنا خشعين

مذكورہ مطلب اس وجہ سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ انبياء الہى كى توصيف كررہى ہے اور ان كى دسيوں صفات اور خصوصيات ميں سے صرف ان تين كى طرف اشارہ كيا ہے_

۲۱ _ امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ (دعا ميں ) ''رغبت'' يہ ہے كہ تو اپنى ہتھيليوں كو آسمان كى طرف كرے اور ''رہبت'' يہ ہے كہ تو اپنے ہاتھوں كى پشت كو آسمان كى طرف قرار دے(۱)

ابراہيم(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

ادريس(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

اسحاق(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

اسماعيل (ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

انبياء(ع) :ان كے خشوع كے اثرات ۱۸; انكى سيرت ۱۵; انكا عمل خير ۱۵، ۱۸

اولياء الله :انكى اميدوارى ۲۰; انكا خشوع ۲۰; انكى صفات ۲۰; انكا عمل خير ۲۰

ايوب(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

خاشعين ۱۷

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كے اثرات ۶; اسكے عطيات ۲

خشوع:اسكے اثرات ۱۹

داؤد(ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; انكا عمل خير ۱۵

دعا:اس ميں اميد كے اثرات ۱۹; اسكے اثرات ۱۱; اسكے آداب ۲۱; اس ميں اميد ۱۶، ۱۸، ۲۰; اس ميں ہاتھ بلند كرنا ۲۱; اس ميں خشوع ۱۸; اسكى قبوليت كا پيش خيمہ ۱۹

ذوالكفل(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

____________________

۱ ) كافى ج۲ ص ۴۷۹ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۵۷ ح ۱۶۰_

۴۴۹

روايت ۲۱

زكريا(ع) :انكى دعا كى قبوليت ۱، ۲، ۳، ۴، ۹; انكى بيوى كا اخلاق ۸; انكى بيوى كى اصلاح ۸، ۹; انكى اميد ۱۶; انكى بيوى كى اميد ۱۶; انكا پہلابيٹا ۳; انكا سبقت لينا۱۲، ۱۴;ان كى بيوى كا سبقت لينا ۱۲; انكا خشوع ۱۷; انكى بيوى كا خشوع ۱۷; انكى بيوى كے بانجھ پن كا علاج ۴; انكى سيرت ۱۳; انكى بيوى كا بانجھ پن۵; انكا عمل خير ۱۲، ۱۳، ۱۵; انكى بيوى كا عمل خير ۱۲، ۱۳; ان كے صاحب فرزند ہونے كے عوامل ۶; ان كا بيٹا طلب كرنا ۱، ۲، ۳; انكا صاحب فرزند ہونا۹; ان كے فضائل ۱۰; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۸، ۹; ان كے مفادات ۹; انكى نعمتيں ۲; انكى دعا كى خصوصيات ۱۶; انكى بيوى كى دعا كى خصوصيات ۱۶

سليمان(ع) :انكا سبقت لينا ۱۴: انكا عمل خير ۱۵

بانجھ پن:اسكى شفا كا پيش خيمہ ۱۱

عمل:عمل خير ميں اگے بڑھنے كے اثرات ۱۸، ۱۹; عمل خير ميں آگے بڑھنے كى قدر و قيمت ۲۰

صاحب فرزند ہونا:اس كا پيش خيمہ ۱۱

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۰

لوط(ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; انكا عمل خير ۱۵

موسى (ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; ان كا عمل خير ۱۵

نعمت:اس كا پيش خيمہ ۱۸; يہ جنكے شامل حال ہے ۱۸

نوح(ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; انكا عمل خير ۱۵

ہارون(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

بيوي:ان كے بانجھ پن كا علاج ۷; ان كے عيوب ۷

يحيى (ع) :ان كى اميد ۱۶; ان كا سبقت لينا ۱۲، ۱۴; انكا خشوع ۱۷; انكا عمل خير ۱۲، ۱۳، ۱۵; ان كا نقش و كردار ۲، ۳; ان كى دعا كى خصوصيات ۱۶

يعقوب(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

يونس(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

۴۵۰

آیت ۹۱

( وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ )

اور اس خاتون كو ياد كرو جس نے اپنى شرم كى حفاظت كى تو ہم نے اس ميں اپنى طرف سے روح پھونك دى اور اسے اور اس كے فرزند كو تمام عالمين كے لئے اپنى نشانى قرار دے ديا (۹۱)

۱ _ حضرت مريم(ع) ، ان كى پاكدامنى اور صاحب فرزند ہونے كى داستان سبق آموز اور ياد ركھنے و ياد كرانے كے قابل ہے_والتى أحصنت فرجها فنفخنا فيه مذكورہ بالا مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''التي'' ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے منصوب ہو_

۲ _ حضرت مريم(ع) با عفت و پاك دامن خاتون تھيں اور بارگاہ الہى ميں بلند مقام ركھتى تھيں _و التى أحصنت فرجه

(''أحصنت'' كے مصدر) احصان كا معنى ہے منع كرنا اور روكنا اور ''فرج'' كا اصلى معنى دو چيزوں كے درميان شگاف (شرم گاہ و غيرہ) ہے فرج كو روكنا عفت اور پاكدامنى سے كنايہ ہے_

۳ _ عفت اور پاكدامنى عورتوں كے برجستہ ترين اور صاف اور بہترين كمالات ميں سے ہے_و التى أحصنت فرجه

مذكورہ مطلب اس وجہ سے ہے كہ خداتعالى نے حضرت مريم(ع) كى توصيف و تمجيد كرتے ہوئے_ كيونكہ ان آيات ميں ان كا نام انبيا(ع) ء كے ساتھ ذكر كيا گياہے_ ان كى عفت اور پاكدامنى كا تذكرہ كيا ہے_

۴ _ حضرت مريم(ع) كا حاملہ ہونا اور حضرت مسيح(ع) كى پيدائش حضرت مريم(ع) ميں روح الہى كے پھونكنے كے ذريعے تھا_فنفحنا فيها من روحن

۵ _ روح لطيف مخلوق ہے_فنفخنا فيها من روحن جسم ميں روح ڈالنے كو نفخ كے ساتھ تعبير كرنا كہ جس كا معنى ہے ہوا كو اجسام كے اندر داخل كرنا مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۶ _ حضرت مريم(ع) كى عفت اور پاكدامنى نے ان كے خداتعالى كى خصوصى عنايات سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كئے_التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحن

عبارت''التى أحصنت فرجها'' كا''فنفخنا فيها من روحنا'' پر مقدم ہونا ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۴۵۱

۷ _ خداتعالى كى عنايات و الطاف سے بہرہ مند ہونے كيلئے مناسب اور صلاحيت ركھنے والے ظرف كى ضرورت ہے_

التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحن

۸ _ عفت اور پاكدامنى عورت كى ترقى اور تكامل كا ذريعہ ہے اور اسكے خداتعالى كے الطالف و عنايات سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كرتى ہے_التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحن

مذكورہ مطلب اس وجہ سے حاصل ہوتا ہے كہ حضرت مريم(ع) كى عفت اور پاكدامنى سبب بنى كہ حضرت مريم(ع) ترقى كريں اور اس مرتبے تك پہنچ جائيں كہ خداتعالى كى خصوصى عنايات سے بہرہ مند ہوجائيں اور پروردگار كى عنايت كے ساتھ ان ميں حضرت مسيح(ع) كى عظيم روح پھونكى جائے_

۹ _ حضرت مريم (ع) كے بيٹے عيسى (ع) روح الہى كے جلوہ اور بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام كے حامل تھے_فنفخنا فيها من روحن ''روح''كى ''نا'' كى طرف اضافت تشريفى اور اس روح كى شرافت اور بزرگى كو بيان كرنے كيلئے ہے_

۱۰ _ مريم (ع) اور ان كا بيٹا عيسى (ع) آيت الہى اور اہل جہان كيلئے خلقت خداوندى كے راز كى نشانى ہيں ہے_

و جعلنها و ابنها أية للعالمين

۱۱ _ حضرت مريم(ع) كے حاملہ ہونے اور حضرت عيسى كى معجزانہ پيدائش ميں خداتعالى كى قدرت اور عظمت كا متجلى ہونا_و جعلنها و ابنها أية للعالمين

۱۲ _ حضرت مريم(ع) بارگاہ خداوندى ميں بلند و بالا مقام و مرتبے اور عالمى شخصيت كى مالك تھيں _

و التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحنا و جعلنها و ابنها أية للعالمين

مذكورہ مطلب تين نكات كو مدنظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے ۱_ ''التي''،''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے منصوب ہے كہ اس صورت ميں حضرت مريم(ع) كى داستان كى ياد دہانى كا حكم سب انسانوں كيلئے ہے ۲_ حضرت مريم كا نام انبيا(ع) ء الہى كے ناموں كے ہمراہ آيا ہے ۳_ خداتعالى نے حضرت مريم(ع) كو اہل جہان كيلئے اپنى آيت اور نشانى قرار ديا ہے (و جعلنها و ابنها آية للعالمين )

خلقت:

۴۵۲

اسكے اسرار ۱۰

استعداد:اس كا كردار ۷

خداتعالى :اسكى روح ۴; اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۷، ۸; اسكى روح كى نشانياں ۹; اسكى قدرت كى نشانياں ۹، ۱۱

تذكر:حضرت مريم(ع) كے قصے كا تذكرہ ۱

روح:اسكى حقيقت ۵; اس كا لطيف ہونا۵

عورت:اسكى عفت كى اہميت ۳; اسكے تكامل كے عوامل ۸; اس كا كمال ۳

عبرت:اسكے عوامل ۱

عفت:اسكے اثرات ۸

عيسى (ع) :انكى ولادت كا اعجاز، ۱۱; يہ آيات الہى ميں سے ۱۰; ان كے فضائل ۱۰; انكا مقام و مرتبہ ۹

خداتعالى كا لطف وكرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۶

مريم (ع) :انكى عفت كے اثرات ۶; ان كے حمل كا اعجاز، ۱۱; انكا تقرب ۱۲; انكى شخصيت ۱۲; ان كے قصے سے عبرت ۱; انكى عبرت ۱، ۲; ان كے فضائل ۲، ۶، ۱۰; ۱۲; انكا قصہ ۴; يہ آيات الہى ميں سے ۱۰; انكے حاملہ ہونے كا سرچشمہ ۴; ان ميں روح پھونكنا ۴

آیت ۹۲

( إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ )

بيشك يہ تمھارا دين ايك ہى دين اسلام ہے اور ميں تم سب كا پروردگار ہوں لہذا ميرى ہى عبادت كيا كرو (۹۲)

۱ _ امت اسلام امت واحدہ اور ايك دين ركھنے والى ہے_إن هذه أمتكم أمة واحدة

''ہذہ'' مبتدا اور اس كا مشاراليہ وہ چيز ہے كہ جو مخاطبين كے اذہان ميں مستحضر ہے اور ''أمتكم امة واحدة''، ''ہذہ'' كى خبر اور حال ہے يہ جملہ ''ہذا بعلى شيخا'' كى طرح اس امر كو بيان كررہا ہے كہ جو ذہن ميں ہے_ قابل ذكر ہے بعض اہل لغت كے نزديك ''أمة'' كا معنى ان لوگوں كا مجموعہ ہے كہ جو ايك دين، وقت اور جگہ و غيرہ ميں اكٹھے اور مشترك ہوں (مفردات راغب) اور بعض دوسروں كى نظر ميں يہ دين اور ملت كے معنى ميں ہے (لسان العرب)

۴۵۳

۲ _ انبيا(ع) ء اور ان كے پيرو كار سب كے سب ايك امت اور ايك دين ركھنے والے تھے_إن هذه أمتكم أمة واحدة

مذكورہ بالا مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آيت كريمہ كے مخاطب وہ انبيا(ع) ء ہوں كہ جن كا گذشتہ آيات ميں تذكرہ ہوچكا ہے كيونكہ يہ آيت ان كى داستان كے آخر ميں آئي ہے يہ جملہ ''و تقطعوا امرہم بينہم'' (انہوں نے اپنے دين كواپنے درميان ٹكڑے ٹكڑے كرديا) اس مطلب كا شاہد ہے_ قابل ذكر ہے كہ سورہ مؤمنون (۲۳) كى آيات ۵۱، ۵۲ ميں بھى صراحت كے ساتھ انبيا(ع) ء كو مخاطب قرار ديا گيا ہے (يا اْيها الرسل كلوا من الطيبات و ان هذه أمتكم أمة واحدة و أنا ربكم فاتقون )

۳ _ توحيد، اديان الہى كى وحدت كى بنياد ہے_إن هذه أمتكم امة واحده و أنا ربكم فاعبدون

۴ _ صرف خداتعالى ہى لائق پرستش پروردگار ہے_أنا ربكم فاعبدون

۵ _ خداتعالى كے لوگوں كے ''رب'' ہونے كا لازمہ اسكى پرستش ہے_أنا ربكم فاعبدون

مذكورہ مطلب ''اعبدون'' كے ''انا ربكم'' پر تفريع سے حاصل ہوتاہے_

۶ _ بشر، خدائے يكتا كى پرستش پر مأمور ہے_أنا ربكم فاعبدون

۷ _ پروردگار يكتا كا عقيدہ انسانوں كى وحدت اور امت واحدہ كى تشكيل كا محور ہے_أن هذه أمتكم أمة واحده و أنا ربكم فاعبدون

اتحاد:دينى اتحاد ۱; اس كا معيار ۷/آسمانى اديان:ان كى ہم آہنگى ۳

امت:امت واحدہ ۱، ۲، ۷

انسان:اسكى شرعى ذمہ دارى ۶; اسكى عبوديت ۶

توحيد:يہ آسمانى اديان ميں ۳; توحيد ربوبى ۴; توحيد عبادى ۴، ۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۴

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۵

دين:اسكے اصول ۳/عبادت:عبادت خدا ۵

عقيدہ:توحيد ربوبى كا عقيدہ ۷/مسلمان:ان كا اتحاد، ۱; انكا دين

۴۵۴

آیت ۹۳

( وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ )

اور ان لوگوں نے تو اپنے دين كو بھى آپس ميں ٹكڑے ٹكڑے كرليا ہے حالانكہ يہ سب پلٹ كر ہمارى ہى بارگاہ ميں آنے والے ہيں (۹۳)

۱ _ گذشتہ انبيا(ع) ء كى امتيں ايك عرصے تك دينى وحدت كے بعد خدائے يكتا كى پرستش كے بارے ميں اختلاف و انتشار كا شكار ہوگئيں _أمة واحده وأنا ربكم فاعبدون و تقطعوا أمرهم بينهم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''تقطعوا أمرہم بينہم ...''كى جمع كى ضميروں كا مرجع گذشتہ انبيا(ع) ء كى امتيں ہوں اور در حقيقت انبيا(ع) ء كے فوت ہونے كے بعد لوگوں كے رد عمل كى كيفيت اور ان كے پيروكاروں كے درميان دين توحيدى كى حالت كو بيان كررہى ہو_ قابل ذكر ہے كہ ''امر'' ،''شان'' كے معنى ميں ہے اور يہ ہر قسم كى رفتار و سخن پر بولا جاتا ہے ليكن مقام كے تناسب سے اس آيت ميں اس سے مراد دين ہے_

۲ _ لوگ خود دين ميں اختلاف كا سبب بنے نہ انبيا(ع) ء الہيأمة واحدة و تقطعوا أمرهم بينهم

خداتعالى نے اختلاف و انتشار كو خود لوگوں كى طرف نسبت دى ہے (و تقطعوا أمرہم بينہم) يہ نسبت ہوسكتا ہے اس دہم كو دور كرنے كيلئے ہو كہ انبيا(ع) ء كا متعدد ہونا لوگوں كے درميان اختلاف كا سبب بنا_

۳ _ سب انسانوں كى بازگشت خداتعالى كى طرف ہے_كل إلينا راجعون

۴ _ قيامت اور تمام انسانوں كا خدائے يكتا كى طرف پلٹ كر جانے كا تقاضا يہ ہے كہ دين ميں اختلاف و انتشارسے پرہيز كيا جائے_اُمة واحده و أنا ربكم فاعبدون_ و تقطعوا أمرهم بينهم كل إلينا راجعون

جملہ ''كل إلينا راجعون'' مستانفہ بيانى ہے يعنى اس مقدر سوال كا جواب ہے كہ اس اختلاف كا انجام كيا ہے؟ اس نكتہ كى ياد دہانى ممكن ہے قيامت سے غافل ان لوگوں كو تعريض اور متنبہ كرنے كيلئے ہو كہ جنہوں نے دين ميں اختلاف ڈال ركھا ہے_

۴۵۵

۵ _ دين توحيدى ميں اختلاف كرنے والوں سے روز قيامت خدا كى جانب سے باز پرس ہوگي_

و تقطعوا أمرهم بينهم كل إلينا راجعون

اختلاف:دينى اختلاف سے اجتناب كا پيش خيمہ ۴; دينى اختلاف كے عوامل ۲

اختلاف ڈالنے والے:ان كا اخروى مواخذہ ۵

امتيں :ان كا دينى اختلاف ۱; انكى تاريخ ۱

انبياء(ع) :ان كا نقش و كردار ۲

انسان:اس كا انجام ۳خدا كى طرف بازگشت :۳، ۴

قيامت:اس كا كردار ۴

لوگ:لوگوں كا نقش و كردار ۲

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۳

آیت ۹۴

( فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ )

پھر جو شخص صاحب ايمان رہ كر نيك عمل كرے گا اس كى كوشش برباد نہ ہوگى اور ہم اس كى كوشش كو برابر لكھ رہے ہيں (۹۴)

۱ _ نيك كردار مؤمنين كى كوششوں كے اجر كى خداتعالى كى طرف سے ضمانت اٹھائي گئي ہے_ اور وہ بغير كسى قسم كى كمى كے انہيں ديا جائيگا_فمن يعمل من الصالحات و هو مؤمن فلا كفران لسعيه

۲ _ عمل صالح ايمان كے ہمراہ ہونے كى صورت ميں ثمربخش ہے_فمن يعمل من الصالحات و هو مؤمن

جملہ''و هو مؤمن'' ، ''يعمل'' كے فاعل كيلئے حال ہے اور يہ جملہ در حقيقت نيك كاموں كى

۴۵۶

انجام دہى كيلئے شرط ہے_

۳ _ دوسروں كى نيكيوں اور پسنديدہ كاموں كو ناچيز سمجھنے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _فمن يعمل فلا كفران لسعيه

مذكورہ مطلب خداتعالى كے نيك كردار مؤمنوں كے ساتھ سلوك سے حاصل ہوتا ہے_

۴ _ عمل صالح كو انجام دينے كيلئے سعى و كوشش كى ضرورت ہے_فمن يعمل فلا كفران لسعيه

''لعملہ'' كى بجائے ''لسعيہ'' كى تعبير ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ عمل صالح ہميشہ كوشش كے ساتھ ہے اور ان كے درميان جدائي ممكن نہيں ہے اور ہر عمل صالح كو انجام دينا سعى و كوشش كا مرہون منت ہے_

۵ _ اجر الہى كو حاصل كرنے اور اپنى تقدير ميں انسان كى اپنى سعى و كوشش كا كردارفمن يعمل فلا كفران لسعيه

۶ _ مؤمنين كا ہر عمل صالح خداتعالى كى جانب سے لكھا اور ثبت كيا جائيگا_فمن يعمل من الصلحت إنا له كتبون

۷ _ خداتعالى كى جانب سے ہر انسان كے نامہ اعمال كا مرتب كيا جانا اسكے مكمل اجر كى ضمانت ہے_فمن يعمل ...إنا له كتبون جملہ''إنا له كاتبون'' كا عطف جملہ''فلا كفران لسعيه'' پر ہے اور يہ اسكے محتوا كى تأكيد كر رہا ہے اور د رحقيقت يہ اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ چونكہ ہم سب انسانوں كے اعمال كو لكھتے ہيں اسلئے بغير كسى كمى كے ان كا اجر بھى ديں گے_

۸ _ افراد كے حقوق كے ضائع نہ ہونے ميں ان كى كاركردگى كے ثبت اور محفوظ كرنے كا بنيادى كردار_فمن يعمل ...إنّا له كتبون خداتعالى كا نيكو كار مؤمنين كے تمام اعمال كو ثبت كرنا اور لكھنے كے ذريعے ان كے اجر كى ضمانت دينے كى تاكيد كرنا مذكورہ بالا مطلب كو بيان كر رہا ہے_

انسان:اسكے اجر كى ضمانت دينا ۷/ايمان:اسكے اثرات ۲; يہ اور عمل صالح۲

كوشش:اسكے اثرات ۴، ۵/حقوق:انہيں ضائع كرنے كے موانع ۸

خداتعالى :اسكے افعال ۶; اسكے اجر كا پيش خيمہ ۵

تقدير:اس ميں مؤثر عوامل ۵

صالحين:ان كے اجر كى ضمانت ۱

عمل:

۴۵۷

اسے ثبت كرنے كى اثرات ۸; اسے ثبت كرنا ۶

عمل صالح:اسكے اثرات ۲; دوسروں كے عمل صالح كو اہميت دينا ۳; اس كا پيش خيمہ ۴

مؤمنين :ان كے اجر كى ضمانت ۱; ان كا عمل صالح ۶

نامہ اعمال:اس كا كردار ۷

آیت ۹۵

( وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ )

اور جس بستى كو ہم نے تباہ كرديا ہے اس كے لئے بھى ناممكن ہے كہ قيامت كے دن ہمارے پاس پلٹ كرنہ آئے (۹۵)

۱ _ ہلاك شدہ امتوں كے دنيا ميں واپس آنے اور اعمال كے تدارك كرنے كا ممكن نہ ہونا_و حرام على قرينة أهلكنها أنهم لايرجعون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''حرام'' خبر مقدم اور ''أنہم لايرجعون'' ميں مصدر مؤول ''رجوع'' مبتدا مؤخر ہو نيز ''لايرجعون'' ميں ''لا'' زائدہ اور رجوع سے مقصود دنيا كى طرف بازگشت ہو_

۲ _ ہلاكت كا شكار ہونے والے معاشرے دنيا ميں واپس آنے اور اپنے اعمال كا تدارك كرنے كے آرزومند ہيں _

حرام على قرية أهلكنها أنهم لايرجعون اگر بازگشت سے مراد دنيا كى طرف بازگشت ہو تو خداتعالى كى اس تاكيد (حرام أنہم لايرجعون) سے يوں لگتا ہے كہ امتيں واپس پلٹنے كى خواہان رہى ہيں _

۳ _ ہلاكت كا شكار ہونے والى امتوں كا روز قيامت سزا پانے كيلئے خداتعالى كى طرف پلٹنا حتمى ہے_كل إلينا راجعون و حرام على قرية أهلكنها أنهم لايرجعون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''حرام'' خبر مقدم اور (أنہم يرجعون) ميں مصدر موؤل ''رجوع'' مبتدا مؤخر ہو نيز ''لايرجعون '' ميں ''لا'' نفى كيلئے ہو اور ''كل إلينا راجعون'' كے قرينے سے رجوع سے مراد آخرت كى طرف پلٹنا ہو يعنى ہلاكت كا شكار ہونے والى امتوں كا واپس

۴۵۸

نہ پلٹنا ممكن نہيں ہے بلكہ وہ حتما واپس پلٹيں گي_

۴ _ ان كفار اور مشركين كيلئے كفر و شرك سے واپس پلٹنا (توبہ) ممكن نہيں ہے كہ ہلاكت جنكى تقدير بن چكى ہے_

و حرام على قرية أهلكنها أنهم لايرجعون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لايرجعون'' ميں ''لا'' زائدہ ہو اور رجوع سے مقصود كفر و شرك سے پلٹنا ہو_

آرزو:دنيا كى طرف واپس پلٹنے كى آرزو ۲

امتيں :ہلاك ہونے والى امتوں كى آرزوئيں ۲; ہلاك ہونے والى امتوں كا واپس پلٹنا ۱; ہلاك ہونے والى امتوں كى توبہ ۴; ہلاك ہونے والى امتوں كى اخروى سزا، ۳

خدا كى طرف بازگشت:اس كا حتمى ہونا ۳

دنيا كى طرف بازگشت:اس كا محال ہونا ۱

توبہ:شرك سے توبہ ۴; كفر سے توبہ ۴

عمل:اس كا تدارك ۱، ۲

آیت ۹۶

( حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ )

يہانتك كہ جب ياجوج و ماجوج آزاد كردئے جائيں گے اور زمين كى ہر بلندى سے دوڑتے ہوئے نكل پڑيں گے (۹۶)

۱ _ خداتعالى كى مؤمنين كو اجر دينے كيلئے ان كے اعمال كو ثبت كرنے اور ہلاك ہونے والوں كى دنيا كى طرف واپس آنے سے محروميت والى سنت يأجوج و مأجوج كے خروج تك (دنيا كا ختم ہونا) جارى رہے گي_

فمن يعمل و حرام على حتى اذا فتحت يأجوج و مأجوج

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ '' حتى '' غايت كا معنى دے رہا ہو البتہ ''حتى '' كے غايت كا معنى دينے كے بارے ميں اہل ادب كے درميان اختلاف ہے ليكن آيت كريمہ كے سياق اور لحن سے غايت كا استفادہ ہوسكتا ہے اس بناپر ''حتى إذا افتحت ...'' ''فمن يعمل من الصالحات و حرام على قرية '' كى غايت ہوگى قابل ذكر ہے كہ عام طور پر مفسرين كا نظريہ يہ ہے كہ يأجوج و مأجوج لوگوں كے دو گروہ ہيں كہ جو آخرى زمانہ ميں ظاہر ہوں گے اور تاخت و تاراج كرتے ہوئے فتوحات حاصل كريں گے اور ان كى موت كے بعد دنيا كى عمر ختم ہوجائيگي_

۴۵۹

۲ _ اديان الہى كے پيروكاروں كے مسئلہ توحيد كے بارے ميں دينى اختلافات يأجوج و مأجوج كے خروج (دنيا كے ختم ہونے) تك جارى رہيں گے_و تقطعوا أمرهم بينهم حتى إذا فتحت يأجوج و مأجوج

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''حتى ''، اور تقطعوا امرہم بينہم'' كيلئے غايت ہو _

۳ _ مستقبل ميں فتوحات كے تمام راستے يأجوج و مأجوج كيلئے كھول ديئے جائيں گے اور وہ زمين كى بلنديوں اور ہرچوٹى سے سرعت كے ساتھ عبور كرجائيں گے_حتى إذا فتحت يأجوج و مأجوج و هم من كل حدب ينسلون

''حدب'' كا معنى ہے زمين كى بلند اور اونچى جگہيں اور (ينسلون كے مادہ) نسل كا اصلى معنى كسى شيء سے جدا ہونا ہے اور جب بھى يہ مادہ چلنے والے كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے تو يہ تيز رفتارى كے معنى ميں ہوتا ہے پس ''ينسلون'' يعنى تيزى سے چليں گے اور سرعت كے ساتھ گزر جائيں گے_

۴ _ قرآن كريم كى پيشين گوئي كہ يأجوج و مأجوج مستقبل ميں تيزى سے حملے كريں گے اور انہيں پورى دنيا ميں فتوحات حاصل ہوں گي_حتى إذا فتحت يأجوج و مأجوج و هم من كل حدب ينسلون لفظ عموم ''كل'' كا اسم نكرہ ''حدب'' پر داخل ہونا اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ يأجوج و مأجوج كا ماجرا كسى خاص سرزمين سے مختص نہيں ہے بلكہ يہ عالمى ہوگا اور پورى دنيا كو شامل ہوگا_

امتيں :ہلاك ہونے والى امتوں كى بازگشت ۱; انكے دينى اختلاف كا دائمى ہونا ۲دنيا ميں بازگشت:۱اس كا محال ہونا ۱

توحيد:اس ميں اختلاف ۲خداتعالى :اسكى سنن۱

قرآن كريم:اسكى پيشين گوئي ۴مأجوج:اسكى كاميابى ۳، ۴; اس كا خروج ۱، ۲; اس كا قصد ۳; اسكے حملے كى وسعت ۴; اس كا حملہ ۳

مؤمنين:ان كا اجر،ا ۱; انكے اعمال كا ثبت ہونا ۱يأجوج:اسكى كاميابى ۳، ۴; اس كا خروج ۱، ۲; اس كا قصد ۳; اسكے حملے كى وسعت ۴; اس كا حملہ ۳

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750