تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218988 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اور جب یہود سے کہا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ہے اس پرایمان لاؤ،تو انھوں نے کہا : جو کچھ ہم لوگوں پر نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر نازل نہیں ہوا ہے ہم اس کے منکر ہیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ہے اور انبیاء کی کتابوں میں موجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ہے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ہیں اوران کے پاس ہیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ہو تو پھر کیوں اس سے پہلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ہو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ہم ایمان لائے ہیں جب کہ حضرت موسیٰ روشن علامتوںاور آیات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ہوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی نازل کی ہیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نہیں ہوگا۔

اگر یہود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اہل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم مسلمانوںپر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ہو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ہے خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔بہت سارے اہل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰہی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ہوئی ہے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ہے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ہو چکاہے!یہ تم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبہشت سے محروم رہو گے؛کہو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یہاں محفوظ ہے اور یہود ونصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یہود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ہے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یہود اور پیغمبر کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ہم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمہاری انتظار آمیز نگاہوں سے باخبر ہیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ہوجاؤگے۔

۴۱

(اے رسول! )تم جہاں کہیں بھی ہو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اہل کتاب،یہود جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ہیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ہے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کہیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ہے؟کہوحکم ،حکم خدا ہے مشرق و مغرب سب اسکا ہے جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یہود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ آیایہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ہے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ہیں یا نہیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں یا نہیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ہوا تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ہوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں خدا کے نزدیک برباد نہیں ہوں گی۔

اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورۂ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ہے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ہوناہے، اس نزاع کی تفصیل سورۂ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ہے۔

اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ (یہود مدینہ کی داستان میں ) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ہونا ہے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ہے)

راغب اصفہانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میں صحیح راستہ اختیار کیاہے وہ فرماتے ہیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ہے آیت ہے، چاہے وہ ایک کامل سورہ ہو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ہوں ۔

لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یہی ہے کہ جس کا تذ کرہ ہم نے کیا ہے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۴۲

۴

حضرت موسیٰ ـ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص ہے

حضرت موسیٰ کی شریعت جس کا تذکرہ توریت میں آیا ہے بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،جیسا کہ سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں آیا ہے:

''موسیٰ نے ہم کو ایک ایسی سنت کا حکم دیا ہے جو کہ جما عت یعقوب کی میراث ہے''

یعنی موسیٰ نے ہمیں ایک ایسی شریعت کا حکم دیا ہے جو کہ جماعت یعقوب یعنی بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،گزشتہ آیات میں بھی اس خصوصیت کا ذکر ہوا ہے ،آئندہ بحث میں انشاء ﷲ امر نسخ کی بسط وتفصیل کے ساتھ تحقیق و بررسی کریں گے۔

حضرت موسیٰ ـکی شریعت میں نسخ کی حقیقت

اس بحث میں ہم سب سے پہلے قرآن سے( زمانے کے تسلسل کا لحاظ کر تے ہو ئے )بنی اسرائیل کی داستان کا آغا ز کر یں گے، پھر ان کی شریعت میں نسخ کے مسئلہ کو بیان کریں گے ۔

۴۳

اوّل:بنی اسرائیل کو نعمت خدا وندی کی یاد دہانی

۱۔خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:( یا بنی اسرائیل أذکر وانعمتی التی أنعمت علیکم و أنی فضّلتکم علی العالمین..و اِذ نجّینا کم من آل فرعون یسومو نکم سوء العذاب یذ بحون أبناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذلکم بلاء من ربکم عظیم) (و أذفرقنا بکم البحر فانجیناکم وأغرقنا آل فرعون و ٔنتم تنظرون و أذ واعدناموسیٰ أربعین لیلة ثم ٔاتخذتم العجل من بعده و أنتم ظالمون ) ( ۱ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیںہم نے تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو اور یہ کہ ہم نے تم کو عالمین پر برتری اور فضیلت دی ہے...اورجب ہم نے تم کو فرعونیوں کے خونخوارچنگل سے آزادی دلائی وہ لوگ تمہیں بری طرح شکنجہ میں ڈالے ہوئے تھے تمہارے فرزندوں کے سر اڑا دیتے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے عظیم امتحان تھا اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگاف کیا اور تمھیں نجات دی اور فرعونیوں کوغرق کر ڈالا ،درانحالیکہ یہ سب کچھ تم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے اور جب موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعدہ کیا پھر تم لوگوں نے اس کے بعد گو سالہ کا انتخاب کیا جب کہ تم لوگ ظالم وستم گر تھے۔

۲۔سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:( وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علیٰ أصنام لهم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا اِلٰهاً کما لهم آلهة قال انکم قوم تجهلون ) ( ۲ )

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا راستے میں ایسے گروہ سے ملاقات ہوئی جو خضوع خشوع کے ساتھ اپنے بتوں کے ارد گرد اکٹھا تھے، تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ان کے خداؤں کے مانند کوئی خدا بنا دو ،انہوں نے فرمایا:سچ ہے تم لوگ ایک نادان اور جاہل قوم ہو۔

۳۔ سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے:( و اضلّهم السامری فکذٰلک القی السّامریفاخرج لهم عجلًا جسداً له خوار فقالو هذا اِلهکم واِلٰه موسیٰ و لقد قال لهم هارو ن من قبل یا قوم اِنّما فتنتم به و اِنَّ ربّکم الرحمن فا تبعونی وأَطیعوا أَمریقالو لن نبرح علیه عاکفین حتّیٰ یرجع اِلینا موسیٰ )

اورسامری نے انھیں گمراہ کر دیا ...اور سامری نے اس طرح ان کے اندر القاء کیا اور ان کے لئے گوسالہ کا ایسا مجسمہ جس میں سے گو سالہ کی آواز آتی تھی بنادیا تو ان سب نے کہا :یہ تمہارا اورموسیٰ کا خداہے... اور اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا : اے میری قوم والو! تم لوگ اس کی وجہ سے امتحان میں مبتلا ہو گئے ہو ، تمہارا رب خدا وند رحمان ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم و فرمان کی اطاعت کرو ، کہنے لگے :

____________________

(۱)بقرہ۴۷،۴۹،۵۰،۵۱(۲) اعراف۱۳۸

۴۴

ہم اسی طرح اس کے پابند ہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ کر آ جائیں۔( ۱ )

۴۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا :

( واِذْ قال موسیٰ لقومه یا قوم أنّکم ظلمتم انفسکم باتّخاذکم العجل فتو بوا ألی بارئکم فاقتلوا أنفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم أنّه هو التوّاب الرّحیم ) ( ۲ )

اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم !تم نے گوسا لہ کا انتخاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذا تو بہ کرو اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کیونکہ یہ کام تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر ہے پھر خدا وند عالم نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

دوم : توریت اور اس کے بعض احکام :

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ بقرہ میں فرماتا ہے :

( واِذ أخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطّور خذوا ما آتینا کم بقوّة و اذ کروا ما فیه لعلّکم تتقون ) ( ۳ )

اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے او پر قرار دیا ( اور تم سے کہا) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ا سے محکم طریقے سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔ سورۂ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے:

( وآتینا موسیٰ الکتاب وجعلناه هُدیً لبنی اسرائیل.. ) .)( ۴ )

اورہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ۔

۳۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

( کلّ الطعام کان حلًا لبنی اسرائیل اِلّا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل أن تنزّل التوراة... ) ( ۵ )

کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جزان اشیاء کے جنہیںخوداسرائیل (یعقوب)

____________________

(۱)طہ ۸۵ ،۹۱ .(۲)بقرہ ۵۴ (۳)بقرہ ۶۳،اس مضمون سے ملتی جلتی آیتیں سورہ بقرہ کی ۹۳ ویں آیت اور سورئہ اعراف کی ۱۷۱ویں آیت میں بھی آئی ہیں )

(۴)اسرائ۲ (۵)آل عمران ۹۳

۴۵

نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔

۴۔ سورۂ انعام میں فرمایا :

( و ماعلی الذین هادوا حرّمنا کلّ ذی ظفر من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما الا ماحملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و انّا لصاد قون ) ( ۱ )

یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن دار حیو ا نوں کو حرام کیا ، گائے اورگوسفند سے ا ن کی چربی ان پر حرام کی جزاس چربی کے جو ان کی پشت پر ہو یا جو پہلو میں ہو یا جو ہڈیوں سے متصل اورمخلوط ہو یہ ان کی بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے انھیں اور سزا کا مستحق قرار دیا اور ہم سچ کہتے ہیں۔

۵۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و علٰی الذین هادوا حرّمنا ما قصصنا علیک من قبل و ما ظلمنا هم و لکن کانوا أنفسهم یظلمون ) ( ۲ )

اورہم نے جن چیزوں کی اس سے پہلے تمہارئے لئے تفصیل بیان کی ہے ،ان چیزوں کویہود پر حرام کیا؛ ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا ،بلکہ ان لوگوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے۔

۶۔سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَسَْلُکَ َهْلُ الْکِتَابِ َنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَائِ فَقَدْ سََلُوا مُوسَی َکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا َرِنَا ﷲ جَهْرَةً فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ... (۱۵۳) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِم.... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وََخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (۱۵۴) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمْ الَْنْبِیَائَ (۱۵۵) وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا (۱۵۶) فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ ﷲ کَثِیرًا (۱۶۰) وََخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وََکْلِهِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.... ) ( ۳ )

اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو ؛ انھوں نے توحضرت موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کی خواہش کی تھی اور کہا تھا : خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھا ؤ لیکن ہم نے انھیں در گزر کر دیا ...اور ہم نے ان کے عہد کی خلاف ورزی کی بنا پر ان کے سروں پر کوہ طور کو بلند کردیا

____________________

(۱)انعام ۱۴۶(۲)نحل ۱۱۸

(۳)نسائ۱۵۴۱۵۳ ۱۵۶۱۵۵ ۱۶۱۱۶۰.

۴۶

اوران سے کہا :سنیچر کے دن تجاوز اور تعدی نہ کرو اوران سے محکم عہد و پیمان لیا ،ان کی پیمان شکنی ،آیات خداوندی کا انکار ،پیغمبروں کے قتل اور ان کے کفر کی وجہ سے نیزاس عظیم تہمت کی وجہ سے جو حضرت مریم پر لگائی، نیزاس ظلم کی وجہ سے جو یہود سے صادر ہوا اور بہت سارے لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی وجہ سے بعض پاکیزہ چیزوں کو جو ان پرحلال تھیںان کے لئے ہم نے حرام کر دیا اور ربا اور سود خوری کی وجہ سے جب کہ اس سے ممانعت کی گئی تھی اور لوگوں کے اموال کو باطل انداز سے خرد برد کرنے کی بنا پر ۔

۷۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( و سئلهم عن القرية التی کانت حاضرة البحراذ یعدون فی السبت اِذ تأ تیهم حیتانهم یوم سبتهم شُرّعاً ویوما لایسبتون لاتاتیهم کذٰلک نبلوهم بما کانوایفسقون ) ( ۱ )

دریا کے ساحل پر واقع ایک شہر کے بارے میں ان سے سوال کرو ؛ جب کہ سنیچر کے دن تجاوزکرتے تھے،اس وقت سنیچر کو دریا کی مچھلیاں ان پر ظاہر ہو جاتی تھیں اوراس کے علاوہ دوسرے دنوںمیں اس طرح ظاہر نہیں ہو تی تھیں ، اس طرح سے ہم نے ان کا اس چیز سے امتحان لیا جس کے نتیجہ میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔

۸۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:

( انّما جعل السبت علی الذین اختلفو فیه ) ( ۲ )

سنیچر کا دن صرف اور صرف ان کے مجازات اور سزا کے عنوان سے تھاان لوگوں کے لئے جو اس میں اختلاف کرتے تھے۔

سوم:خدا وند عالم کی بنی اسرائیل پر نعمتیں اور ان کی سرکشی و نا فرمانی

۱۔خدا وند عالم سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذْ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ (۱۶۰) وَِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة

____________________

(۱)اعراف ۱۶۳۔بقرہ ۶۵۔ نساء ۴۸، ۱۵۴.(۲)نحل ۱۲۴

۴۷

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ (۱۶۱) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ( ۱ )

اورہم نے بنی اسرائیل کو ایک نسل کے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ان کو ہم نے وحی کی : اپنے عصا کو پتھر پر مارو! اچا نک اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اس طرح سے کہ ہر گروہ اپنے گھاٹ کو پہچانتا تھا اور بادل کوان پر سائبان۔قرار دیا اوران کے لئے من وسلویٰ بھیجا( اور ہم نے کہا) جو تمھیں پاکیزہ رزق دیا ہے اسے کھاؤ انھوں نے ہم پر ستم نہیں کیا ہے بلکہ خود پر ستم کیاہے اور جس وقت ان سے کہا گیا : اس شہر (بیت المقدس ) میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے چاہو وہاں سے کھاؤ اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے! اوراس در سے تواضع و انکساری کے ساتھ داخل ہو جاؤتا کہ تمہارے گناہوں کو ہم بخش دیں اور نیکو کاروں کو اس سے بڑھ کر جزا دیں،لیکن ان ستمگروں نے جوان سے کہا گیا تھا اس کے علاوہ بات کہی یعنی اس میں تبدیلی کردی اور ہم نے اس وجہ سے کہ وہ مسلسل ظالم و ستمگر رہے ہیںان کے لئے آسمان سے بلا نازل کردی ہے۔

۱۔سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

( وَاِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ (۲۰) یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَْرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ (۲۱) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنَّا دَاخِلُونَ (۲۲) قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۲۳) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۴) قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ (۲۵) قَالَ فَِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ )

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اپنے اوپرﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو، جبکہ اس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو بھیجا اور تمھیں حاکم بنایا اور تمہیں ایسی چیزیں عطا کیں کہ دنیا والوں میں کسی کو

____________________

(۱)اعراف ۱۶۰، ۱۶۲

۴۸

ویسی نہیں دی ہیں، اے میری قوم! مقدس سر زمین میں جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے مقر ر کیا ہے داخل ہو جاؤ اور الٹے پاؤں واپس نہ ہونا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے ،ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ستمگر لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے ، خدا ترس دومردوں نے جن پر خدا نے نعمت نازل کی تھی کہا:تم لوگ ان کے پاس شہر کے دروازہ سے داخل ہو جاؤ اگر تم دروازہ میں داخل ہوگئے تو یقیناً ان پر کامیاب ہو جاؤ گے اورا گرایمان رکھتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو ، ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہ لوگ جب تک وہاں ہیں ہم لوگ ہرگز داخل نہیں ہوں گے ! تم اور تمہارا رب جائے اوران سے جنگ کرے ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کہا: پروردگارا! میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، میرے اور اس گنا ہ گار جماعت کے درمیان جدائی کر دے،فرمایا :یہ سرزمین ان کے لئے چالیس سال تک کے لئے ممنوع ہے وہ لوگ ہمیشہ سرگرداںاور پریشان رہیں گے اور تم اس گناہ گار قوم پر غمگین مت ہو۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔''اسرائیل'': یعقوب،آپ ابراہیم خلیل ﷲ کے فرزند حضرت اسحق کے بیٹے ہیں،ان کا لقب اسرائیل ہے بنی اسرائیل ان ہی کی نسل ہے جوان کے بارہ بیٹوں سے ہے۔

۲۔'' یسومونکم'': تمکو عذاب دیتے تھے، رسوا کن عذاب ۔

۳۔''یستحیون'': زندہ رکھتے تھے۔

۴۔''یعکفون'': خاضعانہ طور پر عبادت کرتے تھے، پابندتھے ۔

۵۔''خوار'' : گائے اور بھیڑ کی آواز ۔

۶ ۔''لن نبرح'': ہم ہرگز جدا نہیں ہوں گے، آگے نہ بڑھیں گے ۔

۷۔''فتنتم'':تمھارا امتحان لیا گیا، آزمائش خدا وندی ، بندوں کے امتحان کے لئے ہے اور ابلیس اور لوگوں کا فتنہ ، گمراہی اور زحمت میں ڈالنے کے معنی میں ہے، خدا وند عالم نے لوگوں کو فتنہ ابلیس سے خبردار کیا ہے اور فرمایا ہے:

____________________

(۱) مائدہ۲۰، ۲۶

۴۹

( یا بنی آدم لا یفتنّنکم الشیطان )

اے آدم کے بیٹو!کہیں شیطان تمھیں فتنہ اور فریب میں مبتلا نہ کرے: اور لوگوں کے فتنہ کے بارے میں فرمایا:

( اِنّ الذّین فتنوا المومنین و المومنات ثّم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

بیشک جن لوگوں نے با ایمان مردوں اور عورتوں کو زحمتوں میں مبتلا کیا ہے پھر انھوں نے توبہ نہیں کی ان کیلئے جہنم کا عذاب اور جھلسا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔

۸۔'' باری'': خالق اور ہستی عطا کرنے والا

۹۔ ''أسباطاً'' : اسباط یہاں پر قبیلہ اور خاندان کے معنی میں ہے۔

۱۰۔''فا نبجست'': ابلنے لگا ، پھوٹ پڑا ۔

۱۱۔''المن والسلوی''ٰ:المن؛جامد شہد کے مانند چپکنے والی اور شیریں ایک چیز ہے اور السلوی ؛ بٹیر،ایساپرندہ جس کا شمار بحر ابیض کے پرندوں میں ہوتا ہے ، جو موسم سرما میں مصر اور سوڈان کی طرف ہجرت اختیار کرتا ہے۔

۱۲۔''حِطّة'': ہمارے گناہ کو جھاڑ دے،دھو دے، ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے۔

۱۳۔''رفعنا'': ہم نے بلند کیا ، رفعت عطا کی۔

۱۴۔''میثاقکم'': تمہارا عہد و پیمان ، میثاق : ایسا عہد وپیمان جس کی تاکید کی گئی ہو، عہد وپیمان کا پابند ہونا۔

۱۵۔''رجز'': عذاب ، رجز الشیطان... اس کا وسوسہ۔

۱۶۔''یتیھون'': حیران و پریشان ہوتے ہیں ،راستہ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔''لا تأس'': غمز دہ نہ ہو، افسوس نہ کرو۔

۱۸۔''لا تعدوا'': تجاوز نہ کرو ،ظلم وستم نہ کرو۔

۱۹۔''میثاقاً غلیظاً'': محکم و مظبوط عہد و پیمان ۔

۲۰۔''الحوایا'': آنتیں

۲۱۔''شرعًّا'': آشکار اور نزدیک۔

۲۲۔جعل لھم: ان کے لئیقانون گزاری کی، قانون مقرر و معین کیا۔

۵۰

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل سے فرما یا :اُن نعمتوںکو یاد کرو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور تمہارے درمیان پیغمبروں اور حکّام کو قرار دیا نیز من وسلویٰ جیسی نعمت جو کہ دنیا میں کسی کو نہیں د ی ہے تمہیںدی ، خدا وند سبحان نے انھیں فرعون کی غلامی، اولاد کے قتل اور عورتوں کو کنیزی میں زندہ رکھنے کی ذلت سے نجات دی،فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا اور انہیں دریا سے عبور کرا دیا، اس کے باوجود جب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی عبادت اورپوجا میں مشغول ہیں ، تو موسیٰ سے کہا : ہمارے لئے بھی انہی کے مشابہ اور مانند خدا بنادو تاکہ ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں ! اور جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر توریت لینے گئے تو یہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے اور جب موسیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائیںجو خدا نے ان کے لئے مقرر کی ہے تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ ! وہاں ظالم اور قدرت مند گروہ (عمالقہ )ہے جب تک وہ لوگ وہاں سے خارج نہیں ہوں گے ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے''یشوع'' یا ''یسع'' اور ان کی دوسری فرد نے ان سے کہا : شہر میں داخل ہو جاؤ بہت جلدی کا میاب ہو جاؤ گے،تو انھوں نے سر کشی اور نا فرمانی کی اور بولے:اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جائے اور عمالقہ سے جنگ کرے ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں! موسیٰ نے کہا : پروردگارا ! میں صرف اپنے اور اپنے بھا ئی کا مالک و مختار ہوں میرے اور اس گناہ گار قوم کے درمیان جدائی کردے! خداوند سبحان نے فرمایا : یہ مقدس اور پاکیزہ سر زمین ان لوگوں پرچالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے اتنی مدت یہ لوگ سینا نامی صحرا میں حیران و سرگرداں پھر تے رہیں گے تم ان گناہ گاروں کی خاطر غمگین نہ ہو۔

خدا وندعالم ان لوگوں کے بارے میں سورۂ اعراف میں فرماتا ہے : بنی اسرائیل کو بارہ خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا اورانہوں نے جب موسیٰ سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسی پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، اُس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑ ے ہر قبیلہ کے لئے ایک چشمہ، نیزبادل کو ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا تاکہ خورشید کی حرارت وگرمی سے محفوظ رہیں ،شہد کے مانند شرینی اور پرندہ کا گوشت ان کے کھانے کے لئے فراہم کیا، پھر کچھ مسافت طے کرنے کے بعدان سے کہا گیا : اس شہر میں جو کہ تمہارے رو برو ہے سکونت اختیار کرو اور اس کے محصولات سے کھاؤ

۵۱

اور شہر کے دروازے سے داخل ہوتے وقت خدا کا شکر ادا کرو اور اس کا سجدہ ادا کرتے ہوئے کہو !''حطة'' یعنی خدا وندا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ستمگروں نے اس لفظ کو بدل ڈا لا اور ''حطة''کے بجائے''حنطة''کہنے لگے ،( ۱ ) یعنی ہم گندم ( گیہوں ) کے سراغ میں ہیں! خداوندعالم نے ان کے اس اعمال کے سبب آسمان سے عذاب نازل فرمایا۔

خدا وند عالم نے سورۂ نساء میں فرمایا: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم سے اہل کتاب کی خوا ہش ہے کہ تم کوئی کتاب ان کے لئے آسمان سے نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھلادو تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گناہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کو ان کے اوپر جگہ دی۔

اسرائیل(یعقوب) کی پسندیدہ اور مرغو ب ترین غذا دودھ ا وراونٹ کا گوشت تھی ، یعقوب ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورخدا نے انھیں شفا بخشی ،تو انھوں نے بھی خدا وند عالم کے شکرانے کے طور پر محبوب ترین کھانے اور پینے کی چیزوں کو جیسے دودھ اور اونٹ کا گوشت وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اسی طرح انھوں نے جگر اور گردے کی مخصوص چربی نیز دیگر چربی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا کیونکہ اس چربی کو ماضی میں قر بانی کے لئے لے جاتے تھے اور آگ اسے کھا جاتی تھی ۔( ۲ )

قوم یہود کا خدا سے جو عہد وپیمان تھا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جن کے مبعوث ہونے کی موسیٰ ابن عمران نے بشارت دی ہے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت خاتم الا نبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت،ان پر ایمان لائیں، اس بشارت کو اس سے پہلے ہم نے توریت کے سفر تثنیہ سے نقل کیا ہے۔

احکام کے بارے میں بھی انھوں نے عہد وپیمان کیا کہ شنبہ یعنی سنیچر کے دن تجاوز نہیں کریںگے ( کام کاج چھوڑ دیں گے ) خدا نے اس سلسلے میں محکم اور مضبوط عہد وپیمان لیا تھا،ان لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا اورآیات خدا وندی کا انکار کر گئے اور پاک وپاکیزہ خاتون مریم پر عظیم بہتان

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں بحارالا نوار اور مجمع البیان میں اسی طرح مذکور ہے

(۲ ) سیرئہ ابن ہشام ،طبع حجازی قاہرہ ، ج۲ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹ جو کچھ ہم نے متن میں ذکر کیا ہے تفسیر طبری اور سیوطی سے ماخوذ ہے میرے خیال میں جو کچھ سیرئہ ہشام میں ہے وہ متن میں مذکور عبارت سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے

۵۲

باندھا اور زبر دست الزام لگایا اسی لئے تو خدا وند عالم نے تادیب کے عنوان سے بہت سی پاکیزہ چیزوں کو جو ان پر حلال تھیں حرام کردیا اورجب وہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے تو انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یعنی جس نے بھی گوسالہ پر ایمان نہیں رکھا گوسالہ پرستوں قتل کرے اسی طرح جب یہ لوگ خدا پر ایمان لانے سے مانع ہوئے اور سود کا معاملہ کرنے لگے اور سود کھانے لگے ، باوجود یکہ سود (ربا ) سے انھیں منع کیا گیا تھا تواُن پر حلال اورپاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔

ان کی دوسری مخالفت اس پیمان کا توڑنا تھا جو انھوں نے خدا سے کیا تھا کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار نہیں کریںگے اوراس کے لئے انھیں سخت تاکید کی گئی تھی ،سنیچر کے دن مچھلیاںساحل کے کنارے سطح آب پر آجاتی تھیں لیکن دیگر ایام میں ایسا نہیں کرتی تھیں اور یہ ان کا مخصوص امتحان تھا سنیچر کے دن چھٹی کرنا صرف اور صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھا ،وہی لوگ کہ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، اس امتحان میں گرفتار ہوئے۔

خدا وندعالم سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

اہل کتاب یہودی تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کر چکے ہیںکہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھاؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گنا ہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کوان کے سروں پر لٹکادیا اوران سے سخت اور محکم عہد و پیمان لیا کہ جو کچھ موسیٰ ابن عمران ان کے لئے لائے ہیںاس پر ایمان لاکر عمل کریں گے ، ہمارے پیمان کا بعض حصّہ خدا کے پیغمبر بالخصوص حضرت عیسیٰ ابن مریم اورمحمد ابن عبد ﷲ پر ایمان لانا تھا ، لیکن ان لوگوں نے مریم عذرا پر نا روا تہمت لگائی اور توریت کے احکام کو کذب پر محمول کیا ، خدا کے نبیوں کا انکار کیا اور بہت سوں کو قتل کر ڈالا اور راہ خدا سے روکا ، سود لیا، لوگوں کے اموال کو ناجائز طور پر خورد و برد کیا تو ہم نے بھی ان تمام ظلم و ستم کے باعث ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال تھیں حرام کردیا، ان پر حرام ہونے والی اشیاء میں سنیچر کے دن ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا بھی تھا جہاں اس دن مچھلیاں آشکار طور پران سے نزدیک ہو جاتی تھیں اور خود نمائی کرتی تھیں۔

۵۳

بحث کا نتیجہ

خدا وندعالم نے بنی اسرائیل کو مصر کے ''فرعونیوں '' اور شام کے''عمالقہ'' اور اس عصر کی تمام ملتوں پر فضیلت اور برتری دی تھی بہت سے انبیاء جیسے موسیٰ ، ہارون ،عیسیٰ اور ان کے اوصیاء کوان کے درمیان مبعوث کیا اوراس سے بھی اہم یہ کہ توریت ان پر نازل کی ، ان سے سخت اور محکم پیمان لیا تا کہ جو کچھ ان کی کتابوں میں مذکور ہے اس پر عمل کریں ،''من وسلویٰ'' جیسی نعمت کا نزول ، پتھر سے ان کے لئے پانی کا چشمہ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ نعمتوںسے سرفرازفرمایا، لیکن ان لوگوں نے تمام نعمتوں کے باوجودآیات الٰہی کا انکار کیا اور گوسالہ کے پجاری ہو گئے، سود لیا ،لوگوں کے اموال ناجائز طورپر کھائے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی نافرمانی اور طغیانی کی، ایسے لوگوں کے اپنے آلودہ نفوس کی تربیت کی سخت ضرورت تھی اس لئے خدا وند عالم نے ان پر خود کو قتل کرنا واجب قرار دیا نیز سنیچر کے دن دنیاوی امور کی انجام دہی ان پر حرام کردی ،لیکن ان لوگوں نے سنیچر کے دن ترک عمل پر اختلاف کیا ، جیسا کہ اس ساحلی شہر کے لوگوں نے بھی اس سلسلے میں حیلے( ۱ ) اور بہانے سے کام لیا !خدا وندسبحان نے ان چیزوں کو جو کچھ اسرائیل نے اپنے او پر حرام کیا تھا(چربی ،اونٹ کا گوشت اور اس جیسی چیزوں کا کھا نا) ان کی جان کی حفاظت کی غرض سے ان پر بھی حرام کردیا، اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرئیل ہمیشہ قبائلی اتحاد و یکجہتی اور اٹوٹ رشتہ کے محتاج تھے تا کہ ا ن سرکش وطاغی عمالقہ اور قبطیوں کا مقابلہ کر سکیں جو ان کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لئے ہوئے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے بھی قبل اس کے کہ ہیکلِ سلیمان نامی معروف مسجد کی تعمیر کریں،ان پر واجب قرار دیا کہ سب ایک ساتھ عبادت کے لئے '' خیمہ اجتماع'' کے پاس جمع ہوں اور اپنی دینی رسومات کو ہارون کے فرزند وں کی سر پرستی میں بجا لائیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم کواور ان کی مادر گرامی مریم کو جو کہ حضرت داؤد کی نسل (جوبنی اسرائیل کے یہودا کی نسل )سے تھیںان کی طرف روانہ کیااور بعض وہ چیزیں جوان پر حرام تھیں حلال کر دیا ،جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زبانی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱) مادہ''سبت '' کے سلسلے میں کتاب قاموس کتاب مقدس ، تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو ۔

۵۴

( اِنّی قد جئتکم بآية من ربّکم... و مصدقاً لما بین یدیّ من التوراة و لأحلّ لکم بعض الذی حرّم علیکم... ) ( ۱ )

میں تمہارے پر وردگار کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشانی لایا ہوں اور جو کچھ مجھ سے پہلے توریت میں موجود تھااس کی تصدیق اور اثبات کرتا ہوں اورآیا ہوں تاکہ بعض وہ چیزیں جو تم پرحرا م کی گئی تھیں حلال کر دوں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیااس سے واضح ہو گیاکہ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ ابن عمران سے لے کر عیسیٰ ابن مریم تک بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، نیز توریت میں بعض شرعی احکام بھی صرف بنی اسرائیل کی مصلحت کے لئے نازل ہوئے ہیں اس بنا پر ایسے احکام موقت یعنی وقتی ہوتے ہیںاور یہ ان چیزوں کے مانند ہیںجنہیں اسرائیل( یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرا م کرلیا تھا لہٰذاان میں بعض کی مدت عیسیٰ ابن مریم کی بعثت سے تمام ہوگئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا ُن محرمات میں سے کچھ کوان کے لئے حلال کر دیا اور کچھ باقی بچے ہوئے تھے جن کی مدت حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت تک تھی وہ بھی تمام ہو گئی لہٰذاایسے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے اور ان سب کی مدت تمام ہونے کو بیان فرمایا۔

خدا وند عالم اس موضوع کو سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کرتا ہے :

( الذین یتبعون الرسول النّبی الأمیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوارة و الأنجیل یا مرهم با لمعروف و ینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم و الأغلال التی کانت علیهم ) ( ۲ )

جو لوگ اس رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیںجس کے صفات توریت اور انجیل میں جو خود ان کے پاس موجود ہے ،لکھا ہوا ہے وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی اور منکر سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اوران کے سنگین بار کو ان پر سے اٹھا دیا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انھیں اس سے آزاد کردیتا ہے۔

'' اِصرھم'' :ان کے سنگین بوجھ یعنی وہ سخت تکالیف و احکام جوان کے ذمّہ تھے۔

نسخ کی یہ شان حضرت موسیٰ کی شریعت میں ان سے پہلے شرائع کی بنسبت تھی ، اسی طرح بعض وہ چیزیں

جو موسیٰ کی شریعت میں تھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ ہو گئیں۔

''نسخ''کی دوسری قسم یہ ہے کہ یہ نسخ صرف ایک پیغمبر کی شریعت میں واقع ہو تاہے ،جیسا کہ آگے آئے گا۔

____________________

(۱)آل عمران ۴۹۔ ۵۰

(۲)اعراف ۱۵۷

۵۵

ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ کے معنی

ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:

یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْهَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۲) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ ﷲ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ وَﷲ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۳ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! جب رسول ﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔

اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:

بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔

____________________

(۱)مجادلہ ۱۲، ۱۳،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )

۵۶

اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔

اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

۱۔( شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ به نوحاً ) ...)(۱ )

تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔

۲۔( و ِأن من شیعة لأِبراهیم )

ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔( ۲ )

۳۔ خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:

الف۔( اتبع ملّة ابراهیم حنیفاً )

ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔

ب ۔( فاتّبعوا ملّة أِبراهیم حنیفاً )

____________________

(۱)شوری ۱۳(۲)،صافات ۸۳

۵۷

پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔( ۱ )

اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میں آیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

۱۔( کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسه ) ( ۲ )

کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

۲۔( و علیٰ الذین هادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل ) ( ۳ )

اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔

۳۔( اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیه ) ( ۴ )

سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

توریت کے سفر تثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''

اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔

____________________

(۱)آل عمران۹۵(۲)آل عمران ۹۳ (۳)نحل ۱۱۸ (۴)نحل ۱۲۴

۵۸

دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میں الواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔( ۱ ) نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔

حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔

حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :

( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الأنجیل یأمرهم بالمعروف وینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبا ت و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم والأغلال الّتی کا نت علیهم ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورئہ بقرہ ۲۸۴

(۲)اعراف۱۵۷

۵۹

وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔

خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّا انزلناالتوراة فیها هدیً و نور یحکم بها النبيّون الذین أسلموا للذین هادوا...) (و کتبنا علیهم فیها أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق به فهو کفّارة له و من لم یحکم بما انزل ﷲ فأولائک هم الظالمون ) ( ۱ )

ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔

جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔

____________________

(۱)مائدہ ۴۴ ،۴۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

۸ _ ربوبيت ميں توحيد، خالقيت ميں توحيد كا لازمہ ہے_بل ربكم الذى فطرهن آيت كريمہ نے ربوبيت ميں خداتعالى كى توحيد كو ثابت كرنے كيلئے اسے كائنات كے خالق ہونے كى صفت كے ساتھ متصف كيا ہے اس توصيف كا مطلب يہ ہے كہ ربوبيت ميں توحيد اور خالقيت ميں توحيد كے درميان كبھى نہ ٹوٹنے والا تعلق موجود ہے_

۹ _ خداتعالى كا خالق كائنات ہونا اسكے انسان اور كائنات كا واحد رب ہونے كى دليل ہے_

قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۱۰ _ مشركين كے بتوں اور معبودوں كا خالق نہ ہونا ان كے انسان كى عبادت اور تقديس كے لائق نہ ہونے كى دليل ہے_ما هذه التماثيل ...قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

حضرت ابراہيم (ع) نے مشركين اور بت پرستوں كے عقيدے كو باطل كرنے اور خداتعالى كيلئے توحيد ربوبى كو ثابت كرنے كيلئے اسكى خالقيت كے ساتھ تمسك كيا_ يہ بات اس حقيقت كى غماز ہے كہ صرف خالق كائنات تقديس و عبادت كے لائق ہے نہ كوئي اور چيز_

۱۱ _ دين كى طرف دعوت دينے ميں دليل و برہان سے استفادہ كرنا ضرورى ہے_ما هذه التماثيل ...قال بل ربكم ...الذى فطرهن

۱۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے اپنے توحيدى عقائد كى صحت پر گواہى دى اور اپنے آپ كو اس عقيدے كے نتايئج اور اثرات كا پابند اور متعہد قرار ديا_و انا على ذلكم من الشهدين

۱۳ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنے عقيدہ توحيد كو ثابت كرنے كيلئے واضح برہان اور قاطع حجت ركھتے تھے_و أنا على ذلكم من الشهدين بعض مفسرين كے بقول ممكن ہے حضرت ابراہيم(ع) كى شہادت اور گواہى سے مراديہ ہو كہ آپ واضح او رقانع كنندہ حجت و برہان كے حامل تھے_ اسى وجہ سے انہوں نے قاطعيت كے ساتھ اپنے آپ كو گواہ كے طور پر متعارف كرايا _

۱۴ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنے اعتقادى موقف ميں محكم ايمان اور انتہائي قاطعيت سے بہرہ مند تھے_

ربكم رب السموات و أنا على ذلكم من الشهدين

۳۸۱

حضرت ابراہيم(ع) كى طرف سے اپنى دعوت كے صدق كے گواہ ہونے اور عقيدہ توحيد كى صحت پر دليل و حجت پيش كرنے كيلئے آمادہ ہونے كا اعلان مذكورہ حقيقت پر دال ہے_

آسمان:اس كا متعدد ہونا ۳; اس كا خالق ۳; اس كا رب۱

ابراہيم(ع) :ان كا ايمان ۱۴; ان كے زمانے كے بت پرستوں كے خلاف مقابلہ ۵; انكى برہان ۱۳; ان كے مقابلہ ميں برہان ۵; ان كے فضائل ۱۴; انكى قاطعيت ۱۴; انكا قصہ ۵; انكى گواہى ۱۲; ان كے زمانے كے مشركين كے خلاف مقابلہ۵

انسان :اس كا خالق ۳; اس كا رب ۱

باطل معبود:ان كے تقدس كا رد كرنا ۱۰; انكى خالقيت كا رد كرنا ۱۰

بت:ان كے عاجز ہونے كے اثرات ۱۰

تبليغ:اس ميں برہان ۱۱

توحيد:خالقيت ميں توحيد كے اثرات ۸; توحيد ربوبى ۲; توحيد ربوبى كے دلائل ۹; توحيد ربوبى كا پيش خيمہ ۸; اسكى حقانيت كے گواہ ۱۲

خداتعالى :اس كا بغير نمونے كے خلق كرنا ۷; اسكى خالقيت ۳، ۹; اسكى ربوبيت ۱

زمين:اس كا خالق ۳; اس كا رب ۱

شرك:اسكے بطلان كے دلائل ۱۰

عالم خلقت:اس كا خالق ۳، ۹; اس كا رب۱

طبيعت:اسے بغير نمونے كے خلق كرنا ۷

عقيدہ:اس ميں برہان ۱۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى تاريخ ۴; اس كا شرك ربوبي۴; اس كا عقيدہ ۴

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۸

۳۸۲

آیت ۵۷

( وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ )

اور خدا كى قسم ميں تمھارے بتوں كے بارے ميں تمھارے چلے جانے كے بعد كوئي تدبير ضرور كروں گا (۵۷)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كى تأكيد كے ساتھ قسم كہ بت پرستوں كى عدم موجودگى ميں بتوں پر ضرب لگانے كيلئے حتما حيلہ اور تدبير كريں گے_وتالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولوا مدبرين

''كيد'' كا معنى ہے كسى پر ضرب لگانے كيلئے حيلہ اور تدبير كرنا_

۲ _ حق كے احيا، اور دوسروں كو ہدايت كرنے كے لئے مقدس نام ''الله '' كى قسم اٹھانا جائز ہے_و تالله لأكيدن

۳ _حضرت ابراہيم (ع) نے لوگوں كے عقيدے كى اصلاح و ہدايت كيلئے فكرى و علمى كام انجام دينے كے بعد بتوں اور بت پرستى كو نابود كرنے كا عزم كيا_لقد كنتم فى ضلل مبين ربكم رب السموات و تالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا مدبرين مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) نے بت پرستى كى مخالفت كے آغاز ميں اپنے باپ اور اپنى قوم كو مخاطب قرار ديا اور ان كے سامنے توحيد كے اثبات اور شرك كى نفى پر واضح دلائل پيش كئے پھر انہوں نے دوسرے مرحلے ميں بتوں كو نابود كرنے كى دھمكى دى اور آخر كار انہوں نے اپنى دھمكى كو عملى جامہ پہنايا اور تمام بتوں كو نابود كرديا_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) ، بت پرستى كے خلاف مقابلہ كرنے ميں عزم راسخ اور بڑى شجاعت كے مالك تھے_

تالله لأكيدن أصنامكم حضرت ابراہيم (ع) كے كلام كا ''تأ'' اور ''لام قسم'' كے ذريعے مؤكد ہونا ''تالله لأكيدن ...'' آپ كے عزم راسخ كى دليل ہے_ بت پرستوں كى موجودگى ميں _ كہ جس پر ''اصنامكم'' كا حرف خطاب ''كم'' اور فعل ''تولّوا'' كا مخاطب آنا دلالت كرتا ہے_ ايسے مؤكد كلام كا اظہار آپكى بڑى شجاعت كو بيان كر رہا ہے_

۵ _ بت پرستوں كے خلاف حضرت ابراہيم(ع) كے موقف اور مقابلہ كى روش اور كيفيت موجودہ حالات اور ان كى اپنى توانائيوں كے ساتھ متناسب تھي_

۳۸۳

تالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا مدبرين

حضرت ابراہيم (ع) كا بطور مخفى اور لوگوں كى عدم موجودگى ميں بتوں كو نابود كرنے كا عزم اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ وہ لوگوں كى موجودگى ميں اور آشكارا طور پر اس كام كو انجام دينے كى توانائي نہيں ركھتے تھے پس انكا مقابلہ اور مبارزہ ان كے حالات اور توانائيوں كے ساتھ متناسب تھا_

۶ _ قوم ابراہيم (ع) كے پاس بتوں كى پرستش كيلئے مخصوص جگہ اور عبادت گاہ تھي_لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا مدبرين قوم ابراہيم(ع) كے پشت كرنے اور چلے جانے سے مراد ممكن ہے بت خانے اور بتوں كے مركز اجتماع سے چلاجانا ہو يعنى جب تم بت خانے كى طرف پشت كروگے اور گھروں كو يا كہيں اور چلے جاؤگے تو ميں بتوں كے پاس آكر كوئي چارہ انديشى كروں گا اس كلام سے معلوم ہوتا ہے كہ قوم ابراہيم (ع) بتوں كى پرستش كيلئے خاص جگہ اور عبادت گاہ ركھتى تھي_

۷ _ امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ جب نمرودى لوگ ابراہيم (ع) سے دور اپنے مخصوص جشن كے مقام كى طرف چلے گئے تو آپ(ع) تيشہ ليكر بت خانہ ميں داخل ہوئے اور بڑے بت كے علاوہ سب بتوں كو توڑديا(۱)

ابراہيم (ع) :انكى بت شكنى ۱، ۳،۷; انكى تدبير، ۱; انكى قسم ۱; انكى شجاعت ۴; انكى شرك دشمنى ۳، ۴، ۷; ان كے فضائل ۴; انكى قاطعيت ۴; انكى قدرت ۵; انكا قصہ ۱، ۳، ۷; انكى شرك دشمنى كى خصوصيات ۵

احكام :۲روايت: ۷

قسم:اسكے احكام ۲; احيائے حق كيلئے قسم ۲; شرك دشمنى پر قسم ۱; الله كى قسم ۲;جائز قسم ۲

قوم ابراہيم(ع) :اس كا معبد ۶; اسكى ہدايت ۳

ہدايت:اسكى روش ۳

____________________

۱ ) كافى ح ۸ص ۳۶۹ ح ۵۵۹_ تفسير برہان ج۳ ص ۶۳ ح ۲_

۳۸۴

آیت ۵۸

( فَجَعَلَهُمْ جُذَاذاً إِلَّا كَبِيراً لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ )

پھر ابراہيم نے ان كے بڑے كے علاوہ سب كو چو رچور كرديا كہ شايد يہ لوگ پلٹ كر اس كے پاس آئيں (۵۸)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) نے لوگوں كى عدم موجودگى ميں اور جب وہ بتوں سے دور جاچكے تھے بتوں كو توڑديا_بعد أن تولّوا مدبرين_ فجعلهم جذاذ ''جذاذ'' فعال بہ معنى مفعول ہے اور يہ مادہ ''جذّ'' (توڑنا) سے ہے اور ''فجلعہم'' ميں فاء اہل لغت كے بقول فصيحہ ہے اور ايك جملے كے مقدر ہونے سے حاكى ہے اور يہ در حقيقت يوں تھا ''فولّوا فاتى إبراہيم الأصنام فجعلہم جذاذاً'' لوگوں نے بتوں كى طرف پشت كى پس ابراہيم (ع) ،بتوں كے پاس آئے اور انہيں توڑ ڈالا_

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے تمام بتوں كو توڑديا اور صرف بڑے بت كو صحيح و سالم چھوڑ ديا_فجعلهم جذاًذا إلا كبير

۳ _ قوم ابراہيم (ع) كے بت پرستوں كے نزديك بتوں كے مختلف درجے، مختلف مقام و مرتبے اور مختلف سائز تھے_

إلا كبيراً لهم بتوں كا بڑا ہونا بت پرستوں كے نزديك ان كے درجے اور مقام و مرتبے كے اعتبار سے بھى ہوسكتا ہے اور چھوٹے بڑے سائز كے لحاظ سے بھى ہوسكتا ہے_

۴ _ بت اور گناہ كے ديگر وسائل و آلات حرمت اور مالكيت سے ساقط ہيں اور انہيں توڑنا اور نابود كرنا جائز ہے_فجعلهم جذاذ مذكورہ مطلب حضرت ابراہيم (ع) كے بتوں كو توڑنے ، ان كے اس كام كى قسم اٹھانے اور نيز آيت شريفہ كے ايك طرح سے تائيد و تمجيد والے لحن سے حاصل ہوتا ہے_

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بڑے بت كو باقى ركھنا بت پرستوں كے اسكى طرف رجوع كرنے اور بتوں كے عجز كو درك كرنے كيلئے تھا_فجعلهم جذاذاً إلا كبيراً لهم لعلهم إليه يرجعون

۳۸۵

۶ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بتوں كو توڑنا اور بڑے بت كو صحيح و سالم رہنے دينا لوگوں كى توجہ كو جذب كرنے اور انہيں بت پرستى كے بطلان كى طرف متوجہ كرنے كيلئے، آپ كى طرف سے ايك تدبير تھي_و تالله لأكيدن أصنامكم فجعلهم جذاذاً إلا كبيراً لهم لعلهم إليه يرجعون ''فجعلہم'' ميں ''فائ'' يا ترتيب كيلئے اور يا تعقيب كيلئے ہے دونوں صورتوں ميں يہ اس بات كو بيان ذكررہى ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كا عمل اسى حيلے اور تدبير كا مصداق تھا كہ جس پر انہوں نے قسم كھائي تھي_

ابراہيم (ع) :انكى بت شكنى ۱، ۲; انكى تبليغ كى روش۶; انكى شرك دشمنى كى روش ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۵، ۶

احكام :۴

بت :ان كے احكام ۴; انكى بے احترامى ۴; انكا عاجز ہونا ۵; انكى مالكيت ۴

بت پرستي:اسكے خلاف مقابلہ ۶

بت شكني:اس كا جواز ۴

قوم ابراہيم (ع) :اس كا بڑا بت ۲; اسكى تاريخ ۳; اسكے بڑے بت كو باقى ركھتے كا فلسفہ ۵، ۶; اسكے بتوں كے درجے ۳

مالك ہونا:اسكے احكام ۴

آیت ۵۹

( قَالُوا مَن فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہمارے خداؤں كے ساتھ برتاؤ كس نے كيا ہے وہ يقينا ظالمين ميں سے ہے (۵۹)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں بتوں كے ٹوٹنے كے بعد بت پرست ايك دوسرے سے ان كے توڑنے والے كے بارے ميں تحقيق كرنے لگے_فجعلهم جذاذا قالوا من فعل هذا بألهتن

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من'' اسم استفہام ہو_

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے لوگوں كى عدم موجودگى ميں بتوں كو توڑديا اور كسى كو خبر تك نہ ہوئي_

قالوا من فعل هذا بألهتن بت پرستوں كا بتوں كو توڑنے والے كے بارے ميں ايك دوسرے سے سوال اور تحقيق كرنا نيز ان ميں سے بعض كا يہ جواب دينا كہ ابراہيم (ع) بتوں كو بڑابھلا كہتے تھے (فتيً يذكر ہم) بجائے اسكے كہ كہيں ہم نے ديكھا ہے انہيں كس نے توڑا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۳۸۶

۳ _ بتوں كو ٹوٹا ہوا ديكھنے كے بعد قوم ابراہيم(ع) نے انكى عاجزى اور ناتوانى كو درك كرليا _إلا كبيراً إليه يرجعون قالوا من فعل هذا بألهتن چونكہ قوم ابراہيم(ع) نے بتوں كو مورد سوال قرار نہيں ديا اور ان كے علاوہ كسى اور عامل كى تلاش ميں تھے اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے بالخصوص اگر ''إليہ'' كى ضمير كا مرجع ''كبيراً'' (بڑا بت) ہے_

۴ _ قوم ابراہيم(ع) بتوں كو اپنے معبود سمجھتى تھى اور انكى عبادت كرتى تھي_لأكيدن أصنامكم قالوا من فعل هذا بألهتن ''الہ'' كا معنى ہے معبود اور سكى جمع ''آلہة'' كا معنى ہے كئي معبود _

۵ _ قوم ابراہيم(ع) ،متعدد معبودوں كا عقيدہ ركھتى تھى اور اس كے پاس كئي بت تھے_

ما هذه التماثيل لأكيدن أصنامكم من فعل هذا بألهتن

۶ _ قوم ابراہيم كا بتكدہ اور معبد نگہبان نہيں ركھتا تھا_فجعلهم جذاذاً قالوا من فعل هذا بألهتن

چونكہ حضرت ابراہيم(ع) كے مقابلے ميں كوئي دفاع سامنے نہيں آيا اور مشركين كو بتوں كو توڑنے والے كى اطلاع نہيں ہوئي اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۷ _ حضرت ابراہيم (ع) ، بتوں كو توڑنے كى وجہ سے اپنى قوم كى نظر ميں ظالم اور ستمگر تھے_قالوا من فعل هذا بألهتنا إنه لمن الظالمين

۸ _ قوم ابراہيم(ع) اپنے ٹوٹے ہوئے بتوں كو ديكھ كر سيخ پاہوگئي_قالوا من فعل هذا بألهتنا إنه لمن الظالمين

۹ _ بتوں كو نقصان پہنچانا، حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كى نظر ميں بڑا ظلم اور ناقابل بخشش گناہ تھا_قالوا من فعل هذا بألهتنا إنه لمن الظالمين ظالم اور ستمگر اسے كہتے ہيں جو بار بار ظلم كرے بنابر اين بت پرستوں كا حضرت ابراہيم (ع) كو ستمگر كہنا جبكہ وہ صرف ايك بار بتوں كے درپے ہوئے تھے اس نكتے كو بيان كرتا ہے كہ بتوں كے درپے ہونا بت پرستوں كى نظر ميں بڑا ظلم شمار ہوتا تھا_

ابراہيم (ع) :يہ اور ظلم ۷; انكى بت شكنى ۲، ۸; ابراہيم (ع) بت شكن كا قصہ ۱; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۷

بت :انكى اہانت ۹; انكا عاجز ہونا ۳

قوم ابراہيم(ع) :

۳۸۷

اس كا اقرار ۳; اسكى بت پرستى ۴، ۵; اس ميں بت شكنى ۹; اسكى سوچ ۷، ۹; اس كا سوال ۱; اسكى تاريخ ۴، ۵، ۸، ۹; اسكے بتوں كا متعدد ہونا ۵; اس كا شرك ۵; اس ميں ظلم ۹; اس كا عقيدہ ۴; اس كا غضب ۸; اس ميں گناہ ۹; اسكے معبد كى خصوصيات ۶

آیت ۶۰

( قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ )

لوگوں نے بتايا كہ ايك جوان ہے جو ان كا ذكر كيا كرتا ہے اور اسے ابراہيم كہا جاتا ہے (۶۰)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنى قوم كى نظر ميں بتوں كو ٹوڑنے كے سلسلے ميں مشكوك تھے_قالوا سمعنا فتيً يذكر هم يقال له إبراهيم

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے جوانى ميں بتوں كو توڑا اور بت پرستى كے خلاف جنگ كا آغاز كيا_قالوا سمعنا فتيً يذكر هم

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كے خلاف چارہ انديشى اور حيلہ كرنے كا اپنا عزم بعض بت پرستوں كے سامنے ظاہر كياتھا_ما هذه التماثيل قالوا سمعنا فتيً يذكرهم

بت پرستوں نے جو يہ كہا ''ہم نے سنا ہے كہ ابراہيم(ع) بتوں كو برا بھلا كہتے ہيں '' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انہوں نے يہ باتيں بلا واسطہ طور پر ان سے نہيں سنى تھيں دوسرى طرف ايك گروہ ايسا تھا كہ جس نے بلاواسطہ طور پر ابراہيم (ع) كى دھمكى آميز باتيں سنى تھيں اور انہيں دوسروں تك نقل كيا تھا_ پچھلى دو آيتيں (تالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا ...) كہ جس ميں ''أصنامكم'' كا خطاب مخاطب حاضر كيلئے ہے اسى مطلب كى مؤيد ہيں _

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنى قوم كى نظر ميں معاشرے ميں كوئي ممتاز حيثيت نہيں ركھتے تھے اور اپنى قوم كى طرف سے مورد تحقير قرار پاتے_سمعنا فتيً يذكرهم يقال له إبراهيم

بت پرستوں كا حضرت ابراہيم (ع) كو جو ان كہنا ممكن ہے ان كى ناپختگى اور كم تجربہ ہونے كى طرف تعريض ہونہ كہ واقعا وہ عمر كے لحاظ سے جوان تھے اور ''يقال لہ إبراہيم'' كى تعبير كو بھى ايك طرح سے انكى تحقير اور جانا پہچانا نہ ہونا شمار كيا جاسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :

۳۸۸

انكى بت شكنى ۱، ۲; انكى تحقير۴; انكى تدبير ۳; انكى جوانى ۲; انكا قصہ ۱، ۲، ۳; انكى معاشرتى حيثيت ۴

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۴

بت پرست لوگ:يہ اور ابراہيم (ع) كى بت شكنى ۳

قوم ابراہيم (ع) :انكى سوچ۴; انكا گمان ۱

آیت ۶۱

( قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اسے لوگوں كے سامنے لے آؤ شايد لوگ گواہى دے سكيں (۶۱)

۱ _ بت پرست بتوں كو توڑنے والے كو كشف كرنے كى خاطر حضرت ا براہيم (ع) كو حاضر كرنے اور ان سے كھلم كھلا بازپرسى كے خواہاں _قالوا فأتوا به على أعين الناس

۲ _ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم (ع) كو لوگوں كى طرف سے ان كے مجرم ہونے كى گواہى دينے كيلئے حاضر كيا_

فأتوا به لعلهم يشهدون

۳ _ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم (ع) كو اسلئے حاضر كيا تا كہ ان كى بت شكنى كى سزا عام لوگوں كو دكھائي جاسكے_

فأتوا به لعلهم يشهدون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''يشہدون'' ،''يحضرون'' (حاضر ہوں ) كے معنى ميں ہو اس احتمال كى بنياد پر آيت كے مورد كى مناسبت سے لوگوں كے حاضر ہونے سے مقصود ان كا حضرت ابراہيم (ع) كى سزا كو ديكھنے كيلئے حاضر ہونا ہوگا_

۴ _ گواہى دينا، قوم ابراہيم (ع) ميں جرم كے ثابت كرنے كا ذريعہ تھا_فأتوا به لعلهم يشهدون

ابراہيم (ع) :ان سے آشكارا تفتيش۱; انكى تفتيش كى درخواست۱; ان كے حاضر كرنے كا فلسفہ ۲، ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳;

۳۸۹

انكى بت شكنى كى سزا ۳; انكے خلاف گواہى ۲

جرائم:اثبات جرم كى ادلہ ۴

قوم ابراہيم (ع) :مشار اليہ حضرت ابراہيم (ع) كا عمل (بتوں كو توڑنا)

اسكے مطالبے ۱; اس ميں گواہى ۴

گواہي:اسكے اثرات ۴

آیت ۶۲

( قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ )

پھر ان لوگوں نے ابراہيم سے كہا كہ كيا تم نے ہمارے خداؤں كے ساتھ يہ برتاؤ كيا ہے (۶۲)

۱ _ بت پرست، حضرت ابراہيم (ع) كو بتوں كا توڑنے والا سمجھتے تھے_قالواء ا نت فعلت هذا بألهتنا يا إبراهيم

۲ _ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم(ع) سے بتوں كو توڑنے كا اعتراف لينے كيلئے ان سے تفتيش كى _

قالوا ء ا نت فعلت هذا بألهتنا يا إبراهيم ''انت'' ميں استفہام تقريرى او رمخاطب سے اعتراف لينے كيلئے ہے يعنى بت پرست جانتے تھے كہ حضرت ابراہيم(ع) بتوں كو توڑنے والے ہيں ليكن ان سے اعتراف لينے كيلئے انہوں نے كہا''أنت فعلت'' _

۳ _ قوم ابراہيم (ع) كا بتكدہ حضرت ابراہيم (ع) سے تفتيش اور ان كے خلاف عدالتى كا روائي كا مركز _*

قالوا ء ا نت فعلت هذابألهتنا يا إبراهيم ''ہذا'' قريب كى طرف اشارہ ہے اور اس كا ہے اس سے استفادہ كيا جاسكتا ہے كہ آپ كے خلاف كاروائي كا مركز خود بتكدہ يا اسكے قريب تھا_

۴ _ سب لوگوں كے سامنے ملزمين اور مجرمين سے اعتراف لينا حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كے درميان كاروائي كرنے اور سزا دينے كى ايك روش_قالوا فأتوا بها على أعين الناس قالوا ء ا نت فعلت هذابألهتنا إبراهيم

ابراہيم (ع) :ان كا اقرار ۲; ان كى بت شكنى ۱; ان كى تفتيش كا فلسفہ ۲; انكا قصہ ۱، ۲; انكى تفتيش كا امكان ۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى سوچ ۱; اس كا معبد ۳

۳۹۰

ملزم:اس سے اقرار لينا۴

عدالتى نظام:يہ حضرت ابراہيم (ع) كے زمانے ميں ۴

آیت ۶۳

( قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ )

ابراہيم نے كہا كہ يہ ان كے بڑے نے كيا ہے تم ان سے دريافت كر كے ديكھو اگر يہ بول سكيں (۶۳)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كو توڑنے والے كے بارے ميں كئے گئے سوال كے جواب ميں پہلے بتوں كو توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت دي_قال بل فعله كبيرهم

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بتوں كے توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت دينا بت پرستوں كے بت پرستى والے عقيدے كے بطلان كى طرف متوجہ ہونے كا پيش خيمہ تھا نہ آپ كى طرف سے جھوٹى نسبت_قال بل فعله كبيرهم

حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كے توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت ديكر نہ فقط جھوٹ نہيں بولا بلكہ ايك بليغ اشارے كے ساتھ ماجرا كى حقيقت بھى بيان كردى كيونكہ حضرت ابراہيم (ع) نے جملہ ''فسئلوہم ...'' كے ذريعے بت پرستوں كو يہ سمجھانا چاہا كہ بت تو بات كرنے سے عاجز ہيں چہ جائيكہ بتوں كو توڑنا پس مان لينا چاہے كہ عاجز معبود پرستش كے لائق نہيں ہے_ قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت (يہ كہ بت پرست حضرت ابراہيم (ع) كا جواب سمجھ كر متوجہ اور خبردار ہوگئے) مذكورہ مطلب كى مؤيد ہے_

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) نے ايك عالمانہ طريقے سے بت پرستوں سے چاہا كہ وہ بتوں كے توڑنے والے كے بارے ميں خود بتوں سے باز پرس كريں _فسئلوهم إن كانوا ينطقون

حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كے توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت ديكر اور بت پرستوں سے يہ درخواست كر كے كہ بت شكن كو پہچاننے كيلئے وہ خود بتوں سے باز پرس كريں _ بت پرستى كے خلاف مقابلہ ميں عالمانہ روش اختيار كى كيونكہ اس طريقے سے بت پرستوں نے اپنے راستے كے باطل ہونے كو آسانى سے پاليا جيسا كہ بعد والى آيت (فرجعوا إلى انفسہم ...) اسى

۳۹۱

حقيقت كو بيان كررہى ہے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بت پرستوں سے خود بتوں سے تفتيش كرنے كى درخواست كركے بتوں كے عجز و ناتوانى كو ان كيلئے ظاہر كرديا_فسئلوهم إن كانوا ينطقون

۵ _ بت حتى بت پرستوں كى نظر ميں بھى بولنے اور گفتگو كرنے سے عاجز ہيں _فسئلوهم إن كانوا ينطقون

۶ _''عن الصادق(ع) : والله ما فعله كبيرهم و ما كذب إبراهيم فقيل: و كيف ذلك؟ قال: إنما قال: فعله كبيرهم هذاأن نطق و ان لم ينطق فلم يفعل كبير هم هذا شيئاً ; امام صادق (ع) سے روايت ہے: قسم بخدا بڑے بت نے وہ كام نہيں كيا تھا اور ابراہيم (ع) نے بھى جھوٹ نہيں بولا تھا_ امام صادق (ع) سے كہا گيا يہ كيسے ممكن ہے(جبكہ خود ابراہيم (ع) نے كہا تھا كہ يہ كام بڑے بت نے كيا ہے) تو آپ(ع) نے فرمايا ابراہيم (ع) نے كہا تھا اگر بڑا بت بات كرے تو اس نے يہ كام كيا ہے اور اگر بات نہ كرے تو بڑے بت نے كوئي كام نہيں كيا_

۷ _'' عن عبدالله (ع) : إن الله ا حب الكذب فى الإصلاح انّ ابراهيم (ع) إنّما قال:''بل فعله كبيرهم هذا'' ارادة الإصلاح و دلالة على ا نهم لا يفعلون .; امام صادق (ع) سے روايت ہے خداتعالي اصلاح كى خاطر جھوٹ بولنے كو دوست ركھتا ہے جب ابراہيم(ع) نے كہا''بل فعله كبيرهم هذا'' تو انكى غرض (لوگوں كي) اصلاح اور راہنمائي تھى تا كہ وہ (سمجھ جائيں ) كہ بت كوئي كام انجام نہيں دے سكتے(۲)

ابراہيم (ع) :ان كے جواب كے اثرات ۲; يہ اور جھوٹ ۶، ۷; انكے قصے كا بت شكن ۳; ان كا جواب ۱; ان كے پيش آنے كى روش ۳; انكى تبليغ كى روش ۴; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴

بت:يہ اور بات كرنا ۵; ان سے سوال ۳; انكا عاجز ہونا ۵/بت پرست لوگ:ان كى سوچ ۵

جھوٹ:جائز جھوٹ ۷; مصلحت والا جھوٹ ۷

روايت ۶، ۷قوم ابراہيم (ع) :ان كے بڑے بت سے تفتيش ۴; اسكے متنبہ ہونے كا پيش خيمہ ۲; اس كے بتوں كا عاجز ہونا۴; اسكے بتوں كا كردار ۱، ۶

____________________

۱ ) تفسير قمى ج۲ ص ۷۲; نورالثقلين ج۳ ص ۴۳۱ ح ۷۹_/ ۲ ) كافى ج ۲ ص ۳۴۲ ح ۱۷; نورالثقلين ج۳ ص ۴۳۴ ح ۸۵ و ۸۶_

۳۹۲

آیت ۶۴

( فَرَجَعُوا إِلَى أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ )

اس پر ان لوگوں نے اپنے دلوں كى طرف رجوع كيا اور آپس ميں كہنے لگے كہ يقينا تم ہى لوگ ظالم ہو (۶۴)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم اس بات سے آگاہ ہونے كے بعد كہ بت بات كرنے سے عاجز ہيں كچھ متوجہ ہوئے اور اپنے عقيدے كے بارے ميں سوچ و بيچار كرنے لگے_فرجعوا إلى أنفسهم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''فرجعوا إلى أنفسهم'' سے مراد بت پرستوں ميں سے ہر ايك كا اپنے ضمير كى طرف رجوع كرنا اور غور و فكر كرنا ہو_

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم اس بات سے آگاہ ہونے كے بعد كہ بت بات كرنے سے عاجز ہيں ايك دوسرے كے پاس آكر آپس ميں ايك دوسرے كى مذمت كرنے لگي_فرجعوا إلى أنفسهم فقالوا إنكم أنتم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''أنفسہم'' سے مقصود بت پرستوں كا آپس ميں ايك دوسرے كى طرف رجوع كرنا ہو اس طرح وہ ايك دوسرے كو مخاطب كر كے(فقالوا إنكم أنتم ...) آپس ميں ايك دوسرے كى مذمت كرنے لگے_

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كا شرك كے بطلان پر استدلال اور بت پرستى كے ساتھ مقابلہ ميں انكى روش نے انكى پورى قوم پر مكمل اثر كيا_قال بل فعله كبيرهم فرجعوا إلى ا نفسهم فقالوا إنكم أنتم الظالمون

اس بات كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پورى قوم نے فورى طور پر اپنى گمراہى كا اعتراف كرليا حضرت ابراہيم (ع) كے استدلال كے قوى ہونے اور ان كى دعوت كى روش كے مكمل طور پر اثر كرنے كا اندازہ ہوتا ہے_

۴ _ قوم ابراہيم(ع) كے بت پرستوں نے اپنے ظلم اور حضرت ابراہيم(ع) كے اس سے برى ہونے كا اعتراف كيا_

فقالو إنكم أنتم الظالمون ضمير منفصل ''أنتم'' ،''كم'' كيلئے تأكيد ہے اور جملہ ''إنكم أنتم ...'' حصر پر دلالت كرتا ہے يہ

۳۹۳

حصر حصر اضافى ہے يعنى فقط تم ظالم ہو نہ ابراہيم(ع) _

۵ _ بت پرستى اور شرك، فطرت انسانى كى نظر ميں ظلم و ستم ہے_فرجعوا إلى أنفسهم فقالوا إنكم أنتم الظالمون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''انفسہم'' سے مراد اپنى طرف رجوع كرنا اور ضمير و وجدان ہو_

۶ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بت پرستى كے خلاف مبارزت اور توحيد كے اثبات كيلئے فن نمائش (اداكاري) سے استفادہ كيا_فجعلهم جذاذاً إلا كبيراً لهم قال بل فعله كبيرهم هذا فسئلوهم فقالوا إنكم أنتم الظالمون

۷ _ تبليغ دين ميں فن نمائش سے استفادہ كرنا شائستہ اور كامياب طريقہ ہے_فجعلهم جذاذاً الا كبيراً لهم قال بل فعله كبيرهم هذا فسئلوهم فقالوا إنكم ا نتم الظالمون حضرت ابراہيم (ع) نے اپنى تبليغ ميں فن نمائش سے استفادہ كيا اور اپنے ہدف كو پاليا اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۸ _ شرك اور بت پرستى انسان كے اپنے آپ سے بيگانہ ہونے كا واضح مصداق ہے_ا نت فعلت هذا بألهتنا فرجعوا إلى ا نفسهم فقالو إنكم ا نتم الظالمون چونكہ بت پرستوں نے اپنى طرف واپس پلٹنے اور متنبہ ہونے كے بعد شرك كے بطلان كو درك كرليا اس كا مطلب يہ ہے كہ بت پرست لوگ اپنے آپ سے بيگانہ ہيں _

۹ _ اپنے كو پالينا اور ضمير كى طرف رجوع كرنا حقائق كے اعتراف كيلئے اسباب فراہم كرتا ہے _فرجعوا إلى ا نفسهم فقالوا إنكم ا نتم الظالمون چونكہ بت پرستوں نے اپنے كو پالينے اور اپنے ضمير كى طرف رجوع كرنے كے بعد شرك كے بطلان اور توحيد كى سچائي كو درك كرليا اس سے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۱۰ _ ظلم كا برا اور ناپسنديدہ ہونا سب انسانوں كيلئے قابل درك اور قابل قبول ہے_فقالوا إنكم ا نتم الظالمون

مذكورہ مطلب اس نكتے كى طرف توجہ كرنے سے حاصل ہوتا ہے كہ قوم ابراہيم (ع) باوجود اسكے كہ الہى شريعتوں ميں سے كسى خاص شريعت كا اعتقاد نہيں ركھتى تھى ليكن پھر بھى اس نے ظلم كے قبيح ہونے كو مسلم ليا_

ابراہيم (ع) :ان كے استدلال كے اثرات ۳; يہ اور ظلم ۴; انہيں برى الزمہ كرنا ۴; انكى تبليغ كى روش ۳، ۴; انكے مقابلے كى روش ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴; انكا فن ۶

اقرار:ظلم كا اقرار ۴; حق كے اقرار كا پيش خيمہ ۹

۳۹۴

انسان :اسكے فطرى امور ۵

بت:يہ اور بات كرنا ۱; انكا عاجز ہونا ۱، ۲

بت پرستي:اسكے اثرات ۷; اس كا ظلم ہونا ۵

تبليغ:اسكى روش ۷; اس ميں ہنر ۷

خود:خود كو باور ى اثرات ۹; خود كى سرزنش ۲; خود سے بيگانہ ہونے كے عوامل ۸

شرك:اسكے اثرات ۸; اس كا ظلم ہونا ۵

ظلم:اسكے موارد ۵; اسكے ناپسنديدہ ہونے كا واضح ہونا ۱۰

قوم ابراہيم:اسكے افراد ۴; اسكى تاريخ ۱; اس كا متنبہ ہونا ۱، ۲، ۳; اسكى سرزنش ۲; اسكے تفكر كے عوامل ۱

ضمير:اسكا كردار ۹

فن:فن نمائش كا كردار ۶، ۷

آیت ۶۵

( ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُؤُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاء يَنطِقُونَ )

اس كے بعد ان كے سر شرم سے جھكا ديئے گئے اور كہنے لگے ابراہيم تمھيں تو معلوم ہے كہ يہ بولنے والے نہيں ہيں (۶۵)

۱ _شرك كے بطلان پر حضرت ابراہيم (ع) كے مستحكم استدلال كے مقابلے ميں بت پرستوں نے شرمندہ ہوكر سر جھكالئے_ثم نكسوا على رؤسهم

''نكس'' كا معنى ہے كسى شے كے اوپر والے حصے كو نيچے كى طرف پلٹانا اور اسے برعكس كرنا جملہ ''نكسوا على رؤسہم'' تمثيل (معقول كي محسوس كے ساتھ تشبيہ) اور ان لوگوں سے كنايہ ہے كہ جن كے سر زيادہ شرمندگى كى وجہ سے ان كے بدن كى نچلى جانب كى طرف ہوں _

۲ _ بت پرست،شرك كے بطلان پر حضرت ابراہيم (ع) كے محكم استدلال سے قانع ہونے كے باوجود دوبارہ اپنے شرك آميز عقيدے كا دفاع كرنے لگے_مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ اوپر اور نيچے ہونا كہ جو كنايہ والے جملے (ثم نكسوا على رؤسهم ) ميں موجود ہے

۳۹۵

اس سے مراد بت پرستوں كے اعتقادى موقف اور عقائد كا اوپر اور نيچے ہونا ہو يعنى ابتداء ميں تو انہوں نے حضرت ابراہيم (ع) كے استدلال كے نتيجے ميں شرك كے بطلان كو درك كرليا ليكن پھر وہ اپنے سابقہ عقيدے پر پلٹ گئے اور دوبارہ اس كا دفاع كرنے لگے_

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كا شرك وبت پرستى كو دوبارہ اپناكر اپنى شخصيت كو تبديل كرنا_

فقالوا إنكم ا نتم الظالمون_ ثم نكسوا على رؤسهم مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ (ثم نكسوا على رؤسہم ) ميں اوپر نيچے ہونے سے مراد بت پرستوں كے عقيدہ كا تبديل ہونا ہو اس بناپر ايسى تبديلى كو انسان كے برعكس ہونے سے تشبيہ دينا ہوسكتا ہے بت پرستوں كى شخصيت كى بنيادى تبديلى سے كنايہ ہو كہ جسكے نتيجے ميں ان كے عقائد بھى تبديل ہوگئے_

۴ _ توحيد سے منہ موڑ كر شرك كى طرف مائل ہونا انسان كى حقيقت اور شخصيت كى تبديلى اور پچھلے قدموں لوٹنا ہے_

فقالوا إنكم ا نتم الظالمون_ ثم نكسوا على رؤسهم

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كا يہ اعتراف كہ بت نطق، كلام اور علم و عقل سے بے بہرہ ہيں _

لقد علمت ما هؤلا ينطقون

۶ _ بت پرستوں نے شرك كے بطلان پر حضرت ابراہيم (ع) كے استدلال كو نادرست قرار ديا اور انہيں بتوں كو توڑنے كى وجہ سے مجرم ٹھہرايا_فسئلوهم إن كانوا ينطقون ...ثم نكسوا على رؤسهم لقد علمت ما هؤلاء ينطقون

حضرت ابراہيم (ع) كے كلام'' فسئلوهم ان كانوا ينطقون'' كا جواب جملہ (لقد علمت ما هؤلاء ينطقون )ہے يعنى تجھے پتا ہے كہ بت بات كرنے سے عاجز ہيں پس كيوں ہميں بتوں سے سوال كرنے كا كہہ رہے ہے لامحالہ تيرا يہ سوال بت شكنى كى تہمت سے فرار كيلئے ہے_

ابراہيم (ع) :ان كے استدلال كے اثرات ۱، ۲; انكا استدلال ۶; انكى بت شكنى ۶; ان كى شرك دشمنى ۶; انكا قصہ ۱، ۶

واپس پلٹنا:اسكے موارد ۴

بت:يہ اور بات كرنا۵; انكا عاجز ہونا ۵

توحيد:اس سے منہ موڑنا ۴

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۴; اسكى تغيير كے عوامل ۴

قوم ابراہيم (ع) :

۳۹۶

اس كا مرتد ہونا۴; اس كا اقرار ۵; اسكى سوچ۶; اسكى تاريخ ۲، ۳; اسكى شخصيت كى تبديلى ۳; اس كا خبردار ہونا۱; اسكى شرمندگى ۱، اس كا شرك ۲، ۳; اس كا ليچڑين ۲

آیت ۶۶

( قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئاً وَلَا يَضُرُّكُمْ )

ابراہيم نے كہا كہ پھر خدا كو چھوڑ كر ايسے خداؤں كى عبادت كيوں كرتے ہو جو نہ كوئي فائدہ پہنچاسكتے ہيں اور نہ نقصان (۶۶)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) نے خدائے يكتا كے غير كى عبادت كى وجہ سے اپنى قوم كى مذمت كي_قال ا فتعبدون من دون الله ''ا فتعبدون'' كا ہمزہ استفہام انكارى توبيخى كيلئے ہے_

۲ _ قوم ابراہيم (ع) ان چيزوں كى عبادت كرتى تھى جو اسے نہ كوئي نفع پہنچاسكتى تھيں اور نہ نقصان_

قال ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئاً و لا يضركم

۳ _ نفع و نقصان صرف خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے_ا فتعبدون من دو ن الله ما لا ينفعكم شيئاً و لا يضركم

اس حقيقت كا بيان كرنا كہ معبود انسانوں كو كوئي نفع و نقصان نہيں پہنچاسكتے ہوسكتا ہے اس نكتے كى طرف اشارہ اور تعريض ہو كہ نفع و نقصان صرف خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) نے توحيد كے اثبات اور شرك كے بطلان كيلئے بت پرستوں كو بتوں كى ناتوانى سے آگاہ كرنے اور ان سے اس حقيقت كا اعتراف لينے كى روش سے استفادہ كيا_فسئلوهم إن كانوا ينطقون ...لقد علمت ما هؤلاء ينطقون قال ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئاًو لا يضركم

۵ _لوگوں كو دين دارى كے سودمند ہونے اور بے دينى كے نقصان دہ ہو نے سے آ گاہ كرنا دين كى تبليغ اور انسانوں كى ہدايت ميں ايك پسنديدہ اور مفيد روش

۳۹۷

ہے _قال ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئًا و لا يضركم

۶ _عبادت خدا كے منافع كو حاصل كرنے اور ترك عبادت كے نقصانات سے بچنے كيلئے عبادت كرنے كاجواز_

ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئاً ولا يضركم

حضرت ابراہيم (ع) نے شرك كے بطلان كو ثابت كرنے كيلئے غيرخدا كى عبادت كے لا حاصل ہونے كو دليل بنايا اس حقيقت كے بيان سے اس بات كا استفادہ كيا جا سكتا ہے كہ ہر معبود كى عبادت كا انسان كيلئے كوئي فائدہ ہونا ضرورى ہے اور انسان اس فائدے كے پيش نظر خداتعالى كى عبادت كرسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :انكى تبليغ كى روش۴; انكى شرك دشمنى كى روش ۴; انكى طرف سے مذمت ۱; انكا قصہ ۱، ۴

احكام ۶

بت:انكا عاجز ہونا ۴

تبليغ:اسكى روش ۵

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۳

دين:بے د ينى كے نقصان كا اعلان ۵

دينداري:اسكے منافع كا اعلان ۵

نقصان:اس كا سرچشمہ ۳

نفع:اس كا سرچشمہ ۳

عبادت:عبادت خدا كے احكام ۶; مادى مفادات كيلئے عبادت ۶

قوم ابراہيم:اسكے بت پرستوں كا متنبہ ہونا ۴; اسكى سرزنش ۱; اس كا شرك ۱; اسكے بتوں كا عاجز ہونا ۲

ہدايت:اسكى روش ۵

۳۹۸

۴۳۲ تا ۴۳۶

( أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) (٦٧)

( قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ) (٦٨)

( قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْداً وَسَلَاماً عَلَى إِبْرَاهِيمَ ) (٦٩)

۳۹۹

آیت ۷۰

( وَأَرَادُوا بِهِ كَيْداً فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ )

اور ان لوگوں نے ايك مكر كا ارادہ كيا تھا تو ہم نے بھى انھيں خسارہ والا اور ناكام قرار ديديا (۷۰)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے خلاف بت پرستوں كى سازش اور فريب كارى نا كام رہي_و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كے خلاف بت پرستوں كى سازش اور نيرنگ خود ان كے مكمل نقصان اور خسارت كا عامل بنا_

و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كو آگ ميں پھينكے جانے كے علاوہ بت پرستوں كى ايك اور سازش اور نيرنگ كا بھى سامنا كرنا پڑا _و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''كيداً'' سے مراد آگ ميں پھينكنے كے علاوہ كوئي نيا نيرنگ ہو كيونكہ ''كيد'' كے معنى ميں خفيہ ہونا بھى ہے جبكہ آگ ميں پھينكنا تو ايك آشكارا عمل تھا نہ مخفى اسكے علاوہ ''أرادو'' يعنى انہوں نے ارادہ كيا اور چاہا (نہ اسے عملى كيا) كى تعبير اسى دعوت كى تائيد كرتى ہے قابل ذكر ہے كہ ''كيدًا'' كى تنوين تعظيم و تفخيم كيلئے ہے_ اس صورت ميں يہ نيرنگ كے بڑے ہونے كو بيان كررہى ہے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم، كائنات كى سب سے زيادہ خسارة والى قوم تھي_فجعلنهم الأخسرين

۵ _ اہل باطل كى نيرنگ بازياں اور فريب كارياں ، ارادہ الہى كے مقابلے ميں ناتوان اور بے نتيجہ ہيں _

و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

۶ _ بت پرستى اور حق اور رہبرن الہى كے مقابلے ميں كھڑا ہونا سب سے زيادہ نقصان والے كاموں ميں سے ہے_

و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

ابراہيم (ع) :ان كے خلاف سازش كے اثرات ۲; ان كے خلاف سازش ۱، ۳; انہيں جلانا ۳; ان كا قصہ ۱، ۲، ۳

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750