تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219169 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 اور فرقہ واریت سے نجات کی راہ نکلے اور ہم لوگوں کے متحد ہوجانے ی سبیل پیدا ہو۔

                                                             س

جواب مکتوب

شرعی دلیلیں مجبور کرتی ہیں کہ مذہب اہلبیت(ع) کو اختیار کیا جائے

مکرمی تسلیم !

گرامی نامہ ملا۔ عرض یہ ہےکہ ہم جو اصولِ دین میں اشاعرہ کے ہم خیال نہیں اور فروع دین میں اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے تو یہ کسی تعصب یا فرقہ پرستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ شرعی دلیلیں ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم مذہب اہلبیت(ع) ہی کو اختیار کریں۔ یہی وجہ ہے جو ہم جمہور سے الگ ہو کر اصول و فروع دین میں بس ارشاداتِ ائمہ طاہرین(ع) ہی کے پابند ہیں۔ کیونکہ ادلہِ و براہین کا یہی فیصلہ ہے اور سنتِ نبوی کی پابندی بھی بس اسی صورت سے ہوسکتی ہے اگر دلیلیں ہمیں ذرا بھی مخالفت اہل بیت(ع) کی اجازت دیں یا ان کے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی پابندی میں تقربِ الہی ممکن ہوتا تو ہم ضرور جہمور ہی کی روش پر چلتے تاکہ باہمی رشتہء اخوت اچھی طرح استوار رہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ قطعی اور محکم دلیلیں سنگِ راہ بنی ہوئی ہیں اور کسی طرح مذہب اہلبیت(ع) چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔

۲۱

جمہور اہلسنت کا مسلک اختیار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی

اس کے علاوہ چاروں مذاہب کو کسی قسم کی ترجیح بھی تو نہیں۔ ان مذاہب کی پابندی کا واجب ولازم ہونا تو اور چیز ہے، ان کے بہتر اور قابل ترجیح ہونے پر جمہور کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکتے۔ ہم نے تو جمہور مسلمین کے ادلا کو پوری تحقیق سے دیکھا۔ ہمیں تو ایک دلیل بھی ایسی نہ ملی جو ان ائمہ اربعہ کی تقلید و پیروی کو واجب بتاتی ہو۔ بس لے دے کے یہی ایک چیز ملی ہے جسے آپ نے بھی ذکر کیا ہے یعنی یہ کہ وہ مجتہد و عادل اور بڑے جلیل القدر علماء تھے لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اجتہاد ، امانت، عدالت، جلالتِ علمی، یہ ان ہی چاروں پزرگوں کے ساتھ مختص تو نہیں، انھیں میں منحصر تو نہیں لہذا معین طور پر فقط ان ہی کی پیروی اور ان ہی کے مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب ہوجائے گا؟ اور میرا یہ دعوی ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے گا جو یہ کہہ سکے یہ چاروں ائمہ اہلسنت ائمہ علیہم السلام سے علم یا عمل کسی ایک چیز میں بڑھ کر تھے۔ ہمارے ائمہ تو اہل بیت طاہرین(ع) ہیں۔ جو سفینہ نجات ہیں۔ امتِ اسلام کے لیے بابِ حطہ ہیں۔ ستارہ ہدایت ہیں اور ثقل پیغمبر(ص) ہیں۔ امت میں رسول(ص) کی چھوڑی ہوئی نشانی ہیں۔ جن کے متعلق رسول(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ

                     “ دیکھو ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور نہ انھیں پیچھے کردینا

 ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انھیں سکھانا

۲۲

 پڑھانا نہیں ، یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

لیکن کیا کہا جائے کہ رسول (ص) کے مرنے کے بعد سیاست نےکیا کیا کرشمے دکھائے اور کیا سلوک کیا گیا اہلبیت(ع) کے ساتھ؟

آپ کے اس جملہ نے کہ سلفِ صالحین بھی اسی مسلک پرگامزن رہے اور انھوں نے اسیی کو معتدل و معتبر مذہب سمجھا، مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں میں تقریبا آدھی تعداد شیعوں کی ہے اور شیعیان آل محمد(ص) کے سلف و خلف اس زمانے کے شیعہ ہوں یا اس زمانے کے پہلی صدی ہجری سے لے کر اس چودھویں صدی تک مذہب اہلبیت(ع) کے پابند ہیں۔ شیعہ مسلک اہلبیت(ع) کی اتباع عہدِ امیرالمومنین(ع) اور جناب سیدہ(س) سے کررہے ہیں جب کہ نہ اشعری کا وجود تھا اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی عالم وجود میں آیا تھا۔

پہلے زمانہ کے لوگ جہمور کے مذہب کو جانتے ہی نہ تھے

اس کے علاوہ زمانہ پیغمبر(ص) سے قریب زمانہ کے مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا  سنی انھوں نے ان مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کو اختیار ہی نہیں کیا۔ ان میں سے کسی ایک کے پابند ہی نہیں ہوئے اور ان مذاہب کو وہ اختیار بھی کرتے تو کیسے جب کہ ان مذاہب کا اس زمانے میں وجود بھی نہ تھا۔ اشعری( اصول دین میں آپ لوگ جن کے پیرو ہیں) سنہ270ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ320ھ میں انتقال کیا۔ ظاہر ہے کہ سنہ270ھ کے قبل کے مسلمان عقائد میں اشعری کیسے کہے جاسکتے ہیں۔ احمد بن حنبل سنہ164ھ

۲۳

میں پیدا ہوئے اور سنہ241ھ میں انتقال کیا۔ شافعی سنہ150ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ204ھ میں انتقال کیا۔ امام مالک سنہ95ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ 169ھ میں انتقال کیا۔ امام ابو حنیفہ سنہ 80 ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ150ھ میں انتقال کیا۔

خدا کے لیے انصاف تو فرمائیے کہ  جب اصول دین میں آپ کے پیشوا اشعری سنہ270ھ میں پیدا ہوں اور فروع دین میں آپ کے ائمہ اربعہ ابتداء زمانہ اسلام سے اتنے زمانہ کے بعد عالمِ وجود میں آئیں ، پھر اس سے پہلے کے مسلمانوں کے متعلق ، یہ کہنا کیونکر روا ہے کہ وہ بھی ان ہی مذاہب اربعہ کے پابند تھے اور ان کا مذہب بھی وہی تھا جو آج کل جمہور مسلمین کا ہے۔

ہم شیعیان اہلبیت(ع) تو ائمہ اہلبیت(ع) کے پیرو ہیں اور آپ لوگ یعنی جمہور مسلمین ، اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر صحابہ اور تابعین صحابہ کے پیرو ہیں۔ تو دورِ اول کے بعد کے تمام مسلمانوں پر ان مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کو اختیار کرلینا۔ کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب کیونکر ہوگیا اور ان چاروں مذاہب سے پیشتر جو مذاہب رائج تھے ان میں کیا خامی تھی کہ ان سے کنارہ کشی کر لی گئی اور آپ کے ان مذاہب میں جو بہت بعد میں عالمِ وجود میں آئے ایسی کیا خوبی تھی کہ اہلبیت(ع) سے روگردانی کی گئی جو ہم پایہ کتابِ الہی کشتی نجات اور معدن رسالت ہیں۔

اجتہاد کا  دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے

یہ بھی غور طلب امر ہے کہ اجتہاد کا دروازہ اب کیوں بند ہوگیا جب کہ ابتدائے زمانہء اسلام میں پاٹوں پاٹ کھلا ہوا تھا۔ ہاں اب اگر اپنے کو

۲۴

 بالکل عاجز قرار دے لیا جائے یہ طے کر لیا جائے کہ ہم اجتہاد کرنا بھی چاہیں تو اب ہم سے نہیں ہوسکتا۔ ہم اس شرف سے محروم ہی رہیں گے تو یہ دوسری بات ہے ورنہ کون شخص اس کا قائل ہونا پسند کرسکتا ہے کہ خداواند عالم نے حضرت خاتم المرسلین(ص) کو بہترین شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا اور تمام کتب سماویہ سے افضل و اشرف کتاب قرآن مجید نازل کی۔ دین کو مکمل اور اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور آںحضرت(ص) کو آئیند و گزشتہ باتیں بتا کر بھیجا تو وہ صرف اس لیے کہ یہی ائمہ اربعہ شریعت کے مالک و مختار ہو رہیں۔ انھیں سے پوچھے ، انھیں سے معلوم کرے ، ان کو چھوڑ کر دوسرے ذریعے سے حاصل کرنا چاہے خود جدوجہد کرکے معلوم کرنا چاہے تو نہ معلوم کرسکے۔ مختصر یہ کہ پوری شریعتِ اسلامیہ قرآنِ مجید، سنتِ رسول(ص) تمام دلائل و بینات سمیت ان کی جاگیر ہوجائے، ملکیتِ خاص بن جائے، ان کے حکم و رائے کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی رائے پر عمل کرنے کی کسی کو اجازت ہی نہ ہو۔

کیا یہی ائمہ اربعہ وارثِ نبوت تھے یا انھیں پر خداوند عالم نے ائمہ و اوصیاء کا سلسلہ ختم کیا، کیا انھیں کو آیندہ و گزشتہ کے علوم ودیعت کیے اور کیا بس انھیں کو وہ صلاحیتیں ملیں جو دینا بھر میں کسی اور کو نہیں ملیں، میرے خیال میں کوئی مسلمان بھی اس کا قائل نہ ملے گا۔

اتحاد کی آسان صورت یہ ہے کہ مذہب اہلبیت(ع) کو معتبر سمجھا جائے

 آپ نے جس اہم امر کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے یعنی یہ کہ فرقہ واریت ختم کی جائے اور تمام مسلمان شیعہ سنی ایک ہوجائیں تو بسم اﷲ یہ بہت مستحسن

۲۵

 اقدام ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا ہونا بس اسی پر موقوف و منحصر نہیں کہ شیعہ اپنا مذہب چھوڑ دیں یا اہلسنت اپنے مذہب سے الگ ہوجائیں اور خاص کر شیعوں سے یہ کہنا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دیں ترجیح بلا مرجح ہے بلکہ در حقیقت مرجح کو ترجیح دینا ہے۔ ہاں یہ پراگندگی تب ہی دور ہوسکتی ہے اور اتحاد و اتفاق جب ہی پیدا ہوسکتا ہے جب آپ مذہب اہلبیت(ع) کو بھی مذہب سمجھیں اور اس کو بھی ان چاروں مذہبوں میں سے کسی ایک جیسا قرار دیں تاکہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، شیعہ کو بھی ان ہی نظروں سے دیکھیں جن نظروں سے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔اگر آپ جائزہ لیں تو خود مذاہب اہلسنت میں جتنے اختلاف موجود ہیں وہ شیعہ سنی اختلافات سے  کم نہیں ۔ لہذا صرف غریب شیعوں پر عتاب کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ اہلسنت کے برخلاف ہیں۔ حضرات اہلسنت کو بھ شیعوں کی مخالفت پر سرزنش کیوں نہیں کی جاتی۔ بلکہ خود اہلسنت میں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں کوئی حنفی ہے کوئی شافعی، کوئی مالکی ہے کوئی حنبلی تو انھیں اختلاف سے منع کیوں نہیں کیا جاتا لہذا جب ملتِ اسلامیہ میں چار مذہب ہوسکتے ہیں۔ چار مذہب ہونے پر کوئی لب کشائی نہیں کرتا تو پانچ ہونے میں کیا قیامت ہے؟ کس عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ چار مذاہب تک ہونے  میں کوئی خرابی نہیں، چار مذہبوں میں بٹ کر مسلمان متحد رہ سکتے ہیں اتحاد و اتفاق باقی رہ سکتا ہے لیکن اگر چار سے برھ کر پانچ ہوجائیں تو اتحاد رخصت ہوجائے گا۔ جمعیت اسلام پراگندہ و منتشر ہوجائے گی۔

آپ نے ہم شیعوں کو مذہبی وحدت کی طرف جو دعوت دی ہے کاش کہ آپ یہی دعوت مذاہب اربعہ کے دیتے یہ دعوت آپ کے لیے بھی آسان تھی اور ان کے لیے بھی یہ ہمیں کو مخصوص کر کے دعوت کیوں دی گئی ؟

۲۶

کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اہلبیت(ع) کی اتباع و پیروی میں اتحاد رخصت ، رشتہء اخوت منقطع ، اہلبیت(ع) کی پیروی کرنے والوں کا دیگر مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں، کوئی رابطہ نہیں اور اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر جس کی بھی پیروی کی جائے جسے بھی امام بنا لیا جائے دل ملے رہیں گے۔ عزائم ایک رہیں گے چاہے مذاہب مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ رائیں ایک دوسرے کے برخلاف ہی کیوں نہ ہوں، خواہشیں ایک دوسرے سے متضاد ہی کیوں نہ ہوں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کا بھی یہ خیال نہ ہوگا اور نہ آپ کو رسول(ص) کے اہلبیت(ع) سے اتنی پرخاش ہوگی آپ تو دوستدار قرابت داران پیغمبر(ص) ہیں۔

                                                     ش

۲۷

مکتوب نمبر 3

مولانائے محترم تسلیم !

آپ کا مفصل گرامی نامہ ملا۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے وصول و فروعِ دین دونوں میں جمہور کے مذہب کی پیروی واجب نہ ہونے کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ اجتہاد کا دروازہ ہنوز کھلے رہنے کو بھی تشفی بخش طور پر ثابت کیا۔ آپ نے گرامی نامہ میں ان دونوں مسئلوں پر ایسے ناقابل رد دلائل و براہین اکھٹا کردیئے ہیں کہ انکار یا تامل کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اب تو میں بھی آپ کا ہم خیال ہوں کہ یقینا جہمور کے مسالک کا اتباع کوئی ضروری نہیں نیز یہ کہ اجتہاد کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔

میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ لوگ بھی وہی مذہب کیوں اختیار نہیں کر لیتے جو جمہور مسلمین کا مسلک ہے۔ تو آپ نے یہ فرمایا کہ اس کے سبب ادلہ

۲۸

شرعیہ ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ اس چیز کو ذرا تفصیل سے بیان کرتے بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ کلام مجید یا احادیث نبوی(ص) سے ایسی قطعی دلیلیں پیش کریں جن سے یہ معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب و لازم ہے نہ کہ ان کے غیر کی۔

                                                             س

جواب مکتوب

مکرمی تسلیم !

آپ بحمدہ زیرک و دانا ہیں اسی لیے میں نے بجائے شرح و بسط کے اشارتا کچھ باتیں ذکر کر دی تھیں۔ توضیح کی ایسی کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی تھی میرا خیال ہے کہ آپ کو ائمہ اہل بیت(ع) کے متعلق کسی قسم کا تردد نہ ہوگا۔ نہ ان کو ان کے غیروں پر ترجیح دینے میں کسی قسم کا پس و پیش ہونا چاہیے ۔ اہلبیت(ع) کی ذوات مقدسہ گمنام ہستیاں نہیں۔ ان کی عظمت و جلالت اظہر من الشمس ہے۔

اتباعِ اہلبیت(ع) کے وجوب پر ایک ہلکی سی روشنی

ان کا کوئی ہمسر ہوا نہ نظیر، انھوں نے پیغمبر(ص) سے تمام علوم سیکھے، اور دین و دنیا دونوں کے احکام حاصل کیے، اسی وجہ سے پیغمبر(ص) نے انھیں قرآن کا مثل ، صاحبانِ عقل و بصیرت کے لیے ہادی و پیشوا اور نفاق کے کی بخشش یقینی ہوگئی۔ عروہ وثقی ( مضبوط رسی) فرمایا جو کبھی ٹوٹے گی نہیں۔

۲۹

امیرالمومنین(ع) کا دعوت دینا مذہب اہلبیت(ع) کی طرف

اور حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں۔

     “ تم کہاں جارہے ہو؟ کدھر بھٹک رہے ہو ؟ حالانکہ علم ہدایت نصب ہیں، نشانیاں واضح ہیں، منارے کھڑے ہیں۔ تمہاری یہ سرگردانی کہاں پہنچائے گی تمہیں، بلکہ میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم بھٹک کیسے رہے ہو حالانکہ تمہارے درمیان اہلِ بیت(ع) پیغمبر(ص) موجود ہیں جو حق کی زمام ہیں، دین کے جھنڈے ہیں، سچائی کی زبان ہیں لہذا انھیں بھی قرآن کی طرح اچھی منزل پر رکھو اور تحصیل علم کے لیے ان کی خدمت میں پہنچو، جس طرح پیاسے اور تھکے ہارے چوپائے نہر کے کنارے پہنچتے ہیں، اے لوگو ! یہ یاد رکھو یہ ارشادِ پیغمبر(ص) ہے کہ ہم میں(1) سے کسی شخص کو اگر موت آجائے تو ظاہری حیثیت سے وہ مرجائے گا لیکن در حقیقت زندہ ہوگا اور یوں اس کا جسم خاک میں مل جائے گا لیکن واقعا خاک میں نہ ملے گا لہذا تم جو باتیں جانتے نہیں ہو اس کے متعلق لب کشائی نہ کرو کیونکہ زیادہ تر وہی باتین حق ہیں جن کا تم انکار کرتے ہو۔ معانی مانگو اس سے جس پر تم غلبہ نہیں پاسکتے اور وہ میں ہوں ۔ کیا میں نے تمھارے درمیان

--------------

1:-کیونکہ ان کی روح عالم ظہور میں کارفرما ہے۔ دنیا کو منور بنائے ہوئے ہے جیسا کہ شیخ محمد عبدہ مفتی دیار مصر وغیرہ نے کہا ہے۔

۳۰

 ثقل اکبر( یعنی قرآن) پر عمل نہیں کیا ؟ اور تم میں ثقلِ اصغر ( یعنی اپنے دونوں جگر گوشے حسن(ع) و حسین(ع) ) چھوڑنے والا نہیں ہوں؟ کیا میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا نہیں گاڑا؟”

نیز حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :

“ اپنے نبی(ص) کے اہل بیت(ع)(1) پر نظر رکھو، ان کی پہچان کا پورا دھیان رہے، ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہو، یہ تمہیں راہِ راست سے الگ نہ کریں گے اور نہ ہلاکت میں دالیں گے، اگر وہ ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر چل کھڑے ہوں تو تم بھی چل پڑو۔ ان سے آگے نہ  بڑھ جانا کہ گمراہ ہوجاؤ اور نہ پیچھے رہ جانا کہ ہلاکت میں پڑ جاؤ۔”

ایک مرتبہ آپ(ع) نے اہلبیت(ع) کا ذکر فرماتے ہوئے کہا:

“ وہ علم کی زندگی ہیں(2) ( ان کے دم سے علم زندہ ہے) جہالت کے لیے (پیام) موت ہیں۔ ان کے عمل کو دیکھ کر تم ان کے علم کا اندازہ کر سکو گے ، ان کے ظاہر کو دیکھ کر ان کے باطن کا اندازہ تمہاری سمجھ میں آجائے گا۔ ان کے سکوت سے تم سمجھو گے کہ ان کا کلام کس قدر جچاتلا ہوگا۔ نہ تو وہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ان کے مابین حق میں اختلاف ہوتا ہے۔ وہ اسلام

--------------

1:-نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ 179 خطبہ93

2:-نہج البلاغہ، جلد2، صفحہ259، خطبہ234

۳۱

کے ستون ہیں، مضبوط سہارا ہیں۔ ان ہی کے ذریعے حق اپنی منزل پر ہنچا۔ باطل کو زوال ہوا اور باطل کی زبان جڑ سے کٹ گئی انھوں نے دین کو حاصل کیا۔ اس پر عمل کرنے اور ذہن نشین کرنے کے لیے صرف سننے سنانے کے لیے نہیں کیونکہ علم کے راوی تو بہت ہیں لیکن علم پر عمل کرنے والے، علم کا حق ادا کرنے والے بہت کم ہیں۔”

ایک دوسرے خطبہ میں آپ(ع) فرماتے ہیں :

“ پیغمبر(ص) کی عترت(1) عترتوں میں بہترین عترت ہے۔ آپ کا گھرانا تمام گھرانوں سے بہتر گھرانا ہے، آپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔ حرم کی چار دیواری میں وہ روئیدہ ہوا۔ اوج بزرگی تک بلند ہوا۔ اس درخت کی شاخین دراز اور پھل اس کے ناممکن الحصول ہیں۔”

نیز حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:

“ ہم(2) ہی پیغمبر(ص) کی نشانیاں ہیں، ہم ہی اصحاب ہیں، ہم ہی خزینہ دار ہیں، ہم ہی دروازے ہیں، گھروں میں دروازے ہی سے آیا جاتا ہے۔جو شخص دروازے سے نہ آئے اسے چور کہا جاتا ہے۔ ”

آگے چل کر آپ اہل بیت(ع) کی توصیف فرماتے ہیں :

“ انھیں کی شان میں کلامِ مجید  کی بہترین آیتیں نازل ہوئیں یہی

--------------

1:-نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ 175، خطبہ 190

2:-نہج البلاغہ، جلد 1، صفحہ 58، خطبہ 150

۳۲

 اہل بیت(ع) خدا کے خزانے ہیں۔ اگر بولیں گے تو سچ بولیں گے، اور اگر خاموش رہیں گے تو ان پر سبقت نہ کی جا سکے گی۔”

ایک اور خطبہ میں آپ فرماتے ہیں :

“ سمجھ(1) رکھو تم ہدایت کو اس وقت تک جان نہیں سکتے جب تک تم یہ نہ جان لو کہ کون راہِ ہدایت سے منحرف ہے۔ کتابِ خدا کے عہد و پیمان پر عمل نہیں کرسکتے جب تک تم یہ نہ معلوم کر لو کہ کس کس نے عہد شکنی کی۔ قرآن سے اس وقت تک متسک نہیں ہوسکتے جب تک قرآن چھوڑ دینے والوں کو پہچان نہ لو۔ لہذا اس کو قرآن والوں سے پوچھو ، اہل بیت(ع) سے دریافت کرو وہ علم کی زندگی ہیں جہالت کے لیے موت ہیں۔ اہل بیت(ع) ہی ایسے ہیں کہ ان کے حکم سے تمہیں پتہ چلے گا کہ کتنا علم رکھتے ہیں۔ ان کی خاموشی سے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر متین اور جچی تلی گفتگو کرنے والے ہیں۔ ان کے ظاہر کو دیکھ کر تمہیں ان کے باطن کا اندازہ ہوگا۔ نہ تو وہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ دین میں ان کے مابین کوئی اختلاف ہوتا ہے۔ پس گویا دین ان کے درمیان شاہد بھی ہے، صادق بھی، خاموش بھی ہے گویا بھی۔”

اس موضوع پر بکثرت ارشادات آپ کے موجود ہیں چنانچہ ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

      “ ہم ہی سے تم نے تاریکیوں میں ہدایت پائی۔ ہمارے ہی ذریعہ

--------------

1:-نہج البلاغہ، جلد2، صفحہ73، خطبہ 14

۳۳

 بلندیوں پر فائز ہوئے۔ ہماری ہی وجہ سے تاریکیوں سے نکلے بہرے ہوجائیں وہ کان جو سنیں اور سن کر یاد نہ رکھیں(1) ۔” 

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

             “ اے(2) لوگو! روشنی حاصل کرو اس شخص کے چراغ کی لو سے جو تمہیں نصیحت کرنے والا بھی ہے اور خود بھی مطابق نصیحت عمل کرنے والا ہے اور پانی بھر لو اس پاک و صاف چشمہ سے جس کا پانی نتھرا ہوا ہے۔”

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

             “ ہم شجرہ نبوت(3) (ص) ہیں۔ ہم منزل رسالت ہیں، ہم ملائکہ کی جائے آمدو رفت ہیں، علم کے خازن ہیں، حکمتوں کے سرچشمہ ہیں، ہمارے مددگار اور دوست منتظرِ رحمت اور ہمارے دشمن ہم سے کینہ رکھنے والے خدا کے قہر و غضب کے منتظر ہیں۔”

ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

                     “ کہاں(4) گئے وہ جو ہم سے سرکشی کر کے ہم پر کذب و افترا کر کے ہمارے

--------------

1 ـ  نہج البلاغہ، جلد 1، صفحہ33، خطبہ3

2 ـ  نہج البلاغہ، جلداول، خطبہ301

3 ـ  نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ214 خطبہ 105 ابن عباس کا قول ہے کہ ہم اہل بیت(ع) شجرہ نبوت ہیں، ملائکہ کی جائے آمدو رفت ہیں۔ رسالت کے گھرانے والے ہیں، رحمت کے گھر والے ہیں، علم کے معدن ہیں، ان کے اس فقرہ کو محققین علماء اہلسنت نے نقل کیا ہے۔ چنانچہ صواعق محرقہ صفحہ 143 پر بھی منقول ہے۔

4 ـ  نہج البلاغہ، جلد 2، صفحہ36

۳۴

 مقابلے میں اپنے کو راسخون فی العلم بتاتے تھے آئیں اور دیکھیں کہ ہم کو خدا نے رفعت بخشی انھیں پست کیا، ہمیں مالا مال کردیا انھیں محروم رکھا، ہمیں اپنی رحمت میں رکھا انھیں نکال باہر کیا ہم سے ہدایت چاہی جاتی ہے، ہم سے آنکھوں میں نور لیا جاتا ہے ، یقینا ائمہ قریش ہی سے جو ہاشم کی نسل سے ہوں گے امامت بنی ہاشم کے سوا کسی کے لیے لائق و سزاوار ہی نہیں اور نہ بنی ہاشم کے علاوہ کسی کو  حکومت زیب دے سکتی ہے ۔۔۔۔”

اسی سلسلہ میں آپ نے اپنے مخالفین سے فرمایا :

     “ ۔۔۔۔ انھوں نے دنیا کو اختیار کیا اور آخرت کو پیچھے کردیا۔ پاک و صاف چشمے کو چھوڑ کر گدلے پانی سے سیراب ہوئے۔ ”اسی طرح آخرِ خطبہ تک عنوان کلام ہے۔

آپ ہی کا یہ قول بھی ہے کہ :

“ تم میں(1) سے جو شخص اپنے بستر پر مرے اور وہ اپنے پروردگار اپنے رسول(ص) اور اہلبیت(ع) رسول(ص) کے حقوق کو پہچانتا ہوا مرے تو شہید مرے گا۔ اس کا اجر خدا کے ذمہ ہوگا اور جس نیک کام( جہاد فی سبیل اﷲ) کی نیت رکھتا تھا اس کی بھی جزا پائے گا۔ اور اس کی نیت اس کی تلوار کشی کی قائم مقام ہوجائے گی۔”

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:

             “ ہم(2) ہی شرفاء ہیں ہمارے بزرگ بزرگانِ انبیاء ہیں ہماری

--------------

1 ـ  نہج البلاغہ، جلد2، صفحہ156، خطبہ85

2 ـ  صواعق محرقہ، صفحہ142

۳۵

 جماعت خدا کی جماعت ہے اور باغی گروہ شیطان کی جماعت ہے۔ جو شخص ہمیں اور ہمارے دشمن کو برابر رکھے وہ ہم سے نہیں۔”

امام حسن(ع) نے ایک موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا :

             “ ہمارے بارے میں خدا سے ڈرو کیونکہ ہم تمھارے امیر و حاکم ہیں(1) ۔”

امام زین العابدین(ع) کا ارشادِ گرامی

امام زین العابدین علیہ السلام جب اس آیت کی تلاوت فرماتے :

             “ اے لوگو ! خدا سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔”

تو آپ دیر تک خدا سے دعا فرماتے جس میں صادقین کے درجے سے ملحق ہونے اور اندراج عالیہ کی خواستگاری فرماتے، مصائب و شدائد کا ذکر کرتے اور ائمہ دین خانوادہ رسالت(ص) کو چھوڑ دینے والے بدعتی لوگوں نے جن چیزوں کی دین کی طرف نسبت دے رکھی ہے اس کا تذکرہ کرتے پھر فرماتے :

             “  اور کچھ لوگ ہمیں ہمارے درجے سے گھٹانے پر اتر آئے۔ کلام مجید کی متشابہ آیتوں سے کام نکالنے لگے۔ انھوں نے ان آیتوں کی من مانی تاویلیں کیں اور ہمارے متعلق جو کچھ ارشاداتِ پیغمبر(ص) ہیں ان کو متہم قرار دے دیا۔”

اسی سلسلہ میں آپ فرماتے :   “ اے پالنے والے ! اس امت کی نافرمانی کی کس سے فریاد کی جائے حالت یہ ہے کہ اس ملت کی نشانیاں خاک  میں مل گئیں اور امت

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ، صفحہ134

۳۶

نے فرقہ پرستی اور اختلاف کو اپنا دین بنالیا۔ایک دوسرے کو کافر بتانے لگے۔ حالانکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو فرقہ فرقہ ہوگئے اور اختلافات میں پڑگئے۔ بعد اس کے کہ ان کے پاس روشن نشانیاں آچکی تھیں لہذا حجت پہنچانے اور حکم کی تاویل میں  سوا ان کے جو ہم پلہ کتاب الہی ہیں ابنائے ائمہ ہدایت ہیں، تاریکیوں کے روشن چراغ ہیں، جن کے ذریعہ خدا نے بندوں پر اپنی حجت قائم کی اور اپنی مخلوق کو بغیر اپنی حجت  کے نہیں چھوڑا کون بھروسہ کے قابل ہوسکتا ہے۔ تم انھیں پہچاننا اور پانا چاہو تو شجرہ مبارکہ کی شاخ اور ان پاک و پاکیزہ ذوات کے بقیہ افراد پاؤ گے جن سے خدا نے ہر گندگی کو دور رکھا اور ان کی طہارت کی تکمیل کی۔ انھیں تمام آفتوں سے بری رکھا اور کلام مجید میں ان کی محبت واجب کی۔(1)

یہ امام(ع) کی اصل عبارت کا ترجمہ ہے ۔ غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ یہ عبارت اور امیرالمومنین(ع) کے جتنے فقرے ہم نے ذکر کیے یہ نمایاں طور پر مذہب شیعہ کو پیش کرتے ہیں۔ ایسے ہی متواتر اقوال دیگر ائمہ کرام کے ہمارے صحاح میں موجود ہیں۔

                                                             ش

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ، تفسیر آیتواعتصموا ----الخ فصل اول، باب 11، صفحہ90

۳۷

مکتوب نمبر4

کلام مجید یا احادیثِ پیغمبر(ص) سے دلیل کی خواہش

مولانا ئے محترم !

کلام مجید یا حدیثِ نبوی(ص) سے کوئی ایسی دلیل پیش کیجیے جسے سے معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے۔ قرآن و حدیث کے ماسوا چیزوں کو رہنے دیجیے۔ کیونکہ آپ کے ائمہ کا کلام مخالفین کے لیے حجت نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کے کلام سے استدالال اس مسئلہ پر دور کا مستلزم ہے۔ آپ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے اور آپ دلیل میں انھیں ائمہ اہلبیت(ع) کا قول پیش کرتے ہیں جن کی پیروی سی محل بحث ہے۔

                                                             س

۳۸

جواب مکتوب

ہماری تحریر پر غور نہیں کیا گیا

آپ نے غور نہیں کیا ۔ ہم نے حدیث سے ابتدا ہی میں ثبوت پیش کردیا تھا۔ اپنے مکتوب میں یہ لکھتے ہوئے کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی ہم پر واجب ہے نہ کسی غیر کی۔ ہم نے حدیث اشارتا ذکر کردی تھی۔ ہم نے یہ لکھا تھا کہ پیغمبر(ص) نے انھیں کتاب خدا کے مقارن صاحبانِ عقل کے لیے مقتدی، نجات کا سفینہ، امت کے لیے امان قرار دیا ہے، باب حطہ فرمایا۔ تو میری یہ عبارت انھیں مضامین کی احادیث کی طرف اشارہ تھی جو کہ اکثر و بیشتر کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ ہم نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ آپ ماشاء اﷲ ان لوگوں میں ہیں جن کے لیے اشارہ ہی کافی ہے، تصریح کی ضرورت نہیں۔ لہذا جب ہمارے ائمہ کی اطاعت و پیروی کے متعلق اتنی کثرت سے احادیث موجود ہیں تو اب ان کے اقوال مخالفین کے مقابلہ میں بطور استدالال پیش کیے جاسکتے ہیں اور کسی طرح دور لازم نہیں آتا ۔ ہم نے اقوال پیغمبر(ص) کی طرف ابتداء میں اشارہ جو کیا تھا ان کی تفصیل بھی کیے دیتے ہیں۔ پیغمبر(ص) نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا :

حدیثِ ثقلین

ببانگ دہل اعلان فرمایا :

“يا ايها الناس انی تارک --------الخ ”

۳۹

             “ اے لوگو! میں تم  میں ایسی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم انھیں اختیار کیے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتابِ خدا دوسرے میرے اہل بیت(ع)(1) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا :

             “ میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑیں کہ اگر تم ان سے محبت کرو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ ایک کتابِ خدا جو ایک رسی ہے آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی، دوسرے میرے عترت و اہلبیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچیں۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیونکر پیش آتے ہو(2) ۔”

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ:

             “ میں تم میں اپنے دو جانشین چھوڑے جاتا ہوں، ایک کتابِ خدا جو ایک دراز رسی ہے آسمان سے لے کر زمین تک۔ دوسرے میری عترت و اہل بیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(3) ۔”

--------------

1 ـ  ترمذی و نسائی نے جناب جابر سے روایت کی ہے اور ان دونوں سے ملا متقی نے کنزالعمال جلد اول صفحہ44۔ باب اعتصام الکتاب والسنہ کے شروع میں نقل کیا ہے۔

2 ـ  ترمذی نے زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ 44 پر بھی موجود ہے۔

3 ـ  امام احمد نے زید ابن ثابت سے دو صحیح طریقوں سے اس کی روایت کی ہے پہلے مسند صفحہ 183۔184 جلد 5، کے بالکل آخر میں طبرانی نے بھی معجم کبیر میں زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ 44 پر بھی موجود ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

۸ _ ربوبيت ميں توحيد، خالقيت ميں توحيد كا لازمہ ہے_بل ربكم الذى فطرهن آيت كريمہ نے ربوبيت ميں خداتعالى كى توحيد كو ثابت كرنے كيلئے اسے كائنات كے خالق ہونے كى صفت كے ساتھ متصف كيا ہے اس توصيف كا مطلب يہ ہے كہ ربوبيت ميں توحيد اور خالقيت ميں توحيد كے درميان كبھى نہ ٹوٹنے والا تعلق موجود ہے_

۹ _ خداتعالى كا خالق كائنات ہونا اسكے انسان اور كائنات كا واحد رب ہونے كى دليل ہے_

قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۱۰ _ مشركين كے بتوں اور معبودوں كا خالق نہ ہونا ان كے انسان كى عبادت اور تقديس كے لائق نہ ہونے كى دليل ہے_ما هذه التماثيل ...قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

حضرت ابراہيم (ع) نے مشركين اور بت پرستوں كے عقيدے كو باطل كرنے اور خداتعالى كيلئے توحيد ربوبى كو ثابت كرنے كيلئے اسكى خالقيت كے ساتھ تمسك كيا_ يہ بات اس حقيقت كى غماز ہے كہ صرف خالق كائنات تقديس و عبادت كے لائق ہے نہ كوئي اور چيز_

۱۱ _ دين كى طرف دعوت دينے ميں دليل و برہان سے استفادہ كرنا ضرورى ہے_ما هذه التماثيل ...قال بل ربكم ...الذى فطرهن

۱۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے اپنے توحيدى عقائد كى صحت پر گواہى دى اور اپنے آپ كو اس عقيدے كے نتايئج اور اثرات كا پابند اور متعہد قرار ديا_و انا على ذلكم من الشهدين

۱۳ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنے عقيدہ توحيد كو ثابت كرنے كيلئے واضح برہان اور قاطع حجت ركھتے تھے_و أنا على ذلكم من الشهدين بعض مفسرين كے بقول ممكن ہے حضرت ابراہيم(ع) كى شہادت اور گواہى سے مراديہ ہو كہ آپ واضح او رقانع كنندہ حجت و برہان كے حامل تھے_ اسى وجہ سے انہوں نے قاطعيت كے ساتھ اپنے آپ كو گواہ كے طور پر متعارف كرايا _

۱۴ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنے اعتقادى موقف ميں محكم ايمان اور انتہائي قاطعيت سے بہرہ مند تھے_

ربكم رب السموات و أنا على ذلكم من الشهدين

۳۸۱

حضرت ابراہيم(ع) كى طرف سے اپنى دعوت كے صدق كے گواہ ہونے اور عقيدہ توحيد كى صحت پر دليل و حجت پيش كرنے كيلئے آمادہ ہونے كا اعلان مذكورہ حقيقت پر دال ہے_

آسمان:اس كا متعدد ہونا ۳; اس كا خالق ۳; اس كا رب۱

ابراہيم(ع) :ان كا ايمان ۱۴; ان كے زمانے كے بت پرستوں كے خلاف مقابلہ ۵; انكى برہان ۱۳; ان كے مقابلہ ميں برہان ۵; ان كے فضائل ۱۴; انكى قاطعيت ۱۴; انكا قصہ ۵; انكى گواہى ۱۲; ان كے زمانے كے مشركين كے خلاف مقابلہ۵

انسان :اس كا خالق ۳; اس كا رب ۱

باطل معبود:ان كے تقدس كا رد كرنا ۱۰; انكى خالقيت كا رد كرنا ۱۰

بت:ان كے عاجز ہونے كے اثرات ۱۰

تبليغ:اس ميں برہان ۱۱

توحيد:خالقيت ميں توحيد كے اثرات ۸; توحيد ربوبى ۲; توحيد ربوبى كے دلائل ۹; توحيد ربوبى كا پيش خيمہ ۸; اسكى حقانيت كے گواہ ۱۲

خداتعالى :اس كا بغير نمونے كے خلق كرنا ۷; اسكى خالقيت ۳، ۹; اسكى ربوبيت ۱

زمين:اس كا خالق ۳; اس كا رب ۱

شرك:اسكے بطلان كے دلائل ۱۰

عالم خلقت:اس كا خالق ۳، ۹; اس كا رب۱

طبيعت:اسے بغير نمونے كے خلق كرنا ۷

عقيدہ:اس ميں برہان ۱۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى تاريخ ۴; اس كا شرك ربوبي۴; اس كا عقيدہ ۴

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۸

۳۸۲

آیت ۵۷

( وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ )

اور خدا كى قسم ميں تمھارے بتوں كے بارے ميں تمھارے چلے جانے كے بعد كوئي تدبير ضرور كروں گا (۵۷)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كى تأكيد كے ساتھ قسم كہ بت پرستوں كى عدم موجودگى ميں بتوں پر ضرب لگانے كيلئے حتما حيلہ اور تدبير كريں گے_وتالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولوا مدبرين

''كيد'' كا معنى ہے كسى پر ضرب لگانے كيلئے حيلہ اور تدبير كرنا_

۲ _ حق كے احيا، اور دوسروں كو ہدايت كرنے كے لئے مقدس نام ''الله '' كى قسم اٹھانا جائز ہے_و تالله لأكيدن

۳ _حضرت ابراہيم (ع) نے لوگوں كے عقيدے كى اصلاح و ہدايت كيلئے فكرى و علمى كام انجام دينے كے بعد بتوں اور بت پرستى كو نابود كرنے كا عزم كيا_لقد كنتم فى ضلل مبين ربكم رب السموات و تالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا مدبرين مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) نے بت پرستى كى مخالفت كے آغاز ميں اپنے باپ اور اپنى قوم كو مخاطب قرار ديا اور ان كے سامنے توحيد كے اثبات اور شرك كى نفى پر واضح دلائل پيش كئے پھر انہوں نے دوسرے مرحلے ميں بتوں كو نابود كرنے كى دھمكى دى اور آخر كار انہوں نے اپنى دھمكى كو عملى جامہ پہنايا اور تمام بتوں كو نابود كرديا_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) ، بت پرستى كے خلاف مقابلہ كرنے ميں عزم راسخ اور بڑى شجاعت كے مالك تھے_

تالله لأكيدن أصنامكم حضرت ابراہيم (ع) كے كلام كا ''تأ'' اور ''لام قسم'' كے ذريعے مؤكد ہونا ''تالله لأكيدن ...'' آپ كے عزم راسخ كى دليل ہے_ بت پرستوں كى موجودگى ميں _ كہ جس پر ''اصنامكم'' كا حرف خطاب ''كم'' اور فعل ''تولّوا'' كا مخاطب آنا دلالت كرتا ہے_ ايسے مؤكد كلام كا اظہار آپكى بڑى شجاعت كو بيان كر رہا ہے_

۵ _ بت پرستوں كے خلاف حضرت ابراہيم(ع) كے موقف اور مقابلہ كى روش اور كيفيت موجودہ حالات اور ان كى اپنى توانائيوں كے ساتھ متناسب تھي_

۳۸۳

تالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا مدبرين

حضرت ابراہيم (ع) كا بطور مخفى اور لوگوں كى عدم موجودگى ميں بتوں كو نابود كرنے كا عزم اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ وہ لوگوں كى موجودگى ميں اور آشكارا طور پر اس كام كو انجام دينے كى توانائي نہيں ركھتے تھے پس انكا مقابلہ اور مبارزہ ان كے حالات اور توانائيوں كے ساتھ متناسب تھا_

۶ _ قوم ابراہيم (ع) كے پاس بتوں كى پرستش كيلئے مخصوص جگہ اور عبادت گاہ تھي_لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا مدبرين قوم ابراہيم(ع) كے پشت كرنے اور چلے جانے سے مراد ممكن ہے بت خانے اور بتوں كے مركز اجتماع سے چلاجانا ہو يعنى جب تم بت خانے كى طرف پشت كروگے اور گھروں كو يا كہيں اور چلے جاؤگے تو ميں بتوں كے پاس آكر كوئي چارہ انديشى كروں گا اس كلام سے معلوم ہوتا ہے كہ قوم ابراہيم (ع) بتوں كى پرستش كيلئے خاص جگہ اور عبادت گاہ ركھتى تھي_

۷ _ امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ جب نمرودى لوگ ابراہيم (ع) سے دور اپنے مخصوص جشن كے مقام كى طرف چلے گئے تو آپ(ع) تيشہ ليكر بت خانہ ميں داخل ہوئے اور بڑے بت كے علاوہ سب بتوں كو توڑديا(۱)

ابراہيم (ع) :انكى بت شكنى ۱، ۳،۷; انكى تدبير، ۱; انكى قسم ۱; انكى شجاعت ۴; انكى شرك دشمنى ۳، ۴، ۷; ان كے فضائل ۴; انكى قاطعيت ۴; انكى قدرت ۵; انكا قصہ ۱، ۳، ۷; انكى شرك دشمنى كى خصوصيات ۵

احكام :۲روايت: ۷

قسم:اسكے احكام ۲; احيائے حق كيلئے قسم ۲; شرك دشمنى پر قسم ۱; الله كى قسم ۲;جائز قسم ۲

قوم ابراہيم(ع) :اس كا معبد ۶; اسكى ہدايت ۳

ہدايت:اسكى روش ۳

____________________

۱ ) كافى ح ۸ص ۳۶۹ ح ۵۵۹_ تفسير برہان ج۳ ص ۶۳ ح ۲_

۳۸۴

آیت ۵۸

( فَجَعَلَهُمْ جُذَاذاً إِلَّا كَبِيراً لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ )

پھر ابراہيم نے ان كے بڑے كے علاوہ سب كو چو رچور كرديا كہ شايد يہ لوگ پلٹ كر اس كے پاس آئيں (۵۸)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) نے لوگوں كى عدم موجودگى ميں اور جب وہ بتوں سے دور جاچكے تھے بتوں كو توڑديا_بعد أن تولّوا مدبرين_ فجعلهم جذاذ ''جذاذ'' فعال بہ معنى مفعول ہے اور يہ مادہ ''جذّ'' (توڑنا) سے ہے اور ''فجلعہم'' ميں فاء اہل لغت كے بقول فصيحہ ہے اور ايك جملے كے مقدر ہونے سے حاكى ہے اور يہ در حقيقت يوں تھا ''فولّوا فاتى إبراہيم الأصنام فجعلہم جذاذاً'' لوگوں نے بتوں كى طرف پشت كى پس ابراہيم (ع) ،بتوں كے پاس آئے اور انہيں توڑ ڈالا_

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے تمام بتوں كو توڑديا اور صرف بڑے بت كو صحيح و سالم چھوڑ ديا_فجعلهم جذاًذا إلا كبير

۳ _ قوم ابراہيم (ع) كے بت پرستوں كے نزديك بتوں كے مختلف درجے، مختلف مقام و مرتبے اور مختلف سائز تھے_

إلا كبيراً لهم بتوں كا بڑا ہونا بت پرستوں كے نزديك ان كے درجے اور مقام و مرتبے كے اعتبار سے بھى ہوسكتا ہے اور چھوٹے بڑے سائز كے لحاظ سے بھى ہوسكتا ہے_

۴ _ بت اور گناہ كے ديگر وسائل و آلات حرمت اور مالكيت سے ساقط ہيں اور انہيں توڑنا اور نابود كرنا جائز ہے_فجعلهم جذاذ مذكورہ مطلب حضرت ابراہيم (ع) كے بتوں كو توڑنے ، ان كے اس كام كى قسم اٹھانے اور نيز آيت شريفہ كے ايك طرح سے تائيد و تمجيد والے لحن سے حاصل ہوتا ہے_

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بڑے بت كو باقى ركھنا بت پرستوں كے اسكى طرف رجوع كرنے اور بتوں كے عجز كو درك كرنے كيلئے تھا_فجعلهم جذاذاً إلا كبيراً لهم لعلهم إليه يرجعون

۳۸۵

۶ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بتوں كو توڑنا اور بڑے بت كو صحيح و سالم رہنے دينا لوگوں كى توجہ كو جذب كرنے اور انہيں بت پرستى كے بطلان كى طرف متوجہ كرنے كيلئے، آپ كى طرف سے ايك تدبير تھي_و تالله لأكيدن أصنامكم فجعلهم جذاذاً إلا كبيراً لهم لعلهم إليه يرجعون ''فجعلہم'' ميں ''فائ'' يا ترتيب كيلئے اور يا تعقيب كيلئے ہے دونوں صورتوں ميں يہ اس بات كو بيان ذكررہى ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كا عمل اسى حيلے اور تدبير كا مصداق تھا كہ جس پر انہوں نے قسم كھائي تھي_

ابراہيم (ع) :انكى بت شكنى ۱، ۲; انكى تبليغ كى روش۶; انكى شرك دشمنى كى روش ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۵، ۶

احكام :۴

بت :ان كے احكام ۴; انكى بے احترامى ۴; انكا عاجز ہونا ۵; انكى مالكيت ۴

بت پرستي:اسكے خلاف مقابلہ ۶

بت شكني:اس كا جواز ۴

قوم ابراہيم (ع) :اس كا بڑا بت ۲; اسكى تاريخ ۳; اسكے بڑے بت كو باقى ركھتے كا فلسفہ ۵، ۶; اسكے بتوں كے درجے ۳

مالك ہونا:اسكے احكام ۴

آیت ۵۹

( قَالُوا مَن فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہمارے خداؤں كے ساتھ برتاؤ كس نے كيا ہے وہ يقينا ظالمين ميں سے ہے (۵۹)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں بتوں كے ٹوٹنے كے بعد بت پرست ايك دوسرے سے ان كے توڑنے والے كے بارے ميں تحقيق كرنے لگے_فجعلهم جذاذا قالوا من فعل هذا بألهتن

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من'' اسم استفہام ہو_

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے لوگوں كى عدم موجودگى ميں بتوں كو توڑديا اور كسى كو خبر تك نہ ہوئي_

قالوا من فعل هذا بألهتن بت پرستوں كا بتوں كو توڑنے والے كے بارے ميں ايك دوسرے سے سوال اور تحقيق كرنا نيز ان ميں سے بعض كا يہ جواب دينا كہ ابراہيم (ع) بتوں كو بڑابھلا كہتے تھے (فتيً يذكر ہم) بجائے اسكے كہ كہيں ہم نے ديكھا ہے انہيں كس نے توڑا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۳۸۶

۳ _ بتوں كو ٹوٹا ہوا ديكھنے كے بعد قوم ابراہيم(ع) نے انكى عاجزى اور ناتوانى كو درك كرليا _إلا كبيراً إليه يرجعون قالوا من فعل هذا بألهتن چونكہ قوم ابراہيم(ع) نے بتوں كو مورد سوال قرار نہيں ديا اور ان كے علاوہ كسى اور عامل كى تلاش ميں تھے اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے بالخصوص اگر ''إليہ'' كى ضمير كا مرجع ''كبيراً'' (بڑا بت) ہے_

۴ _ قوم ابراہيم(ع) بتوں كو اپنے معبود سمجھتى تھى اور انكى عبادت كرتى تھي_لأكيدن أصنامكم قالوا من فعل هذا بألهتن ''الہ'' كا معنى ہے معبود اور سكى جمع ''آلہة'' كا معنى ہے كئي معبود _

۵ _ قوم ابراہيم(ع) ،متعدد معبودوں كا عقيدہ ركھتى تھى اور اس كے پاس كئي بت تھے_

ما هذه التماثيل لأكيدن أصنامكم من فعل هذا بألهتن

۶ _ قوم ابراہيم كا بتكدہ اور معبد نگہبان نہيں ركھتا تھا_فجعلهم جذاذاً قالوا من فعل هذا بألهتن

چونكہ حضرت ابراہيم(ع) كے مقابلے ميں كوئي دفاع سامنے نہيں آيا اور مشركين كو بتوں كو توڑنے والے كى اطلاع نہيں ہوئي اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۷ _ حضرت ابراہيم (ع) ، بتوں كو توڑنے كى وجہ سے اپنى قوم كى نظر ميں ظالم اور ستمگر تھے_قالوا من فعل هذا بألهتنا إنه لمن الظالمين

۸ _ قوم ابراہيم(ع) اپنے ٹوٹے ہوئے بتوں كو ديكھ كر سيخ پاہوگئي_قالوا من فعل هذا بألهتنا إنه لمن الظالمين

۹ _ بتوں كو نقصان پہنچانا، حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كى نظر ميں بڑا ظلم اور ناقابل بخشش گناہ تھا_قالوا من فعل هذا بألهتنا إنه لمن الظالمين ظالم اور ستمگر اسے كہتے ہيں جو بار بار ظلم كرے بنابر اين بت پرستوں كا حضرت ابراہيم (ع) كو ستمگر كہنا جبكہ وہ صرف ايك بار بتوں كے درپے ہوئے تھے اس نكتے كو بيان كرتا ہے كہ بتوں كے درپے ہونا بت پرستوں كى نظر ميں بڑا ظلم شمار ہوتا تھا_

ابراہيم (ع) :يہ اور ظلم ۷; انكى بت شكنى ۲، ۸; ابراہيم (ع) بت شكن كا قصہ ۱; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۷

بت :انكى اہانت ۹; انكا عاجز ہونا ۳

قوم ابراہيم(ع) :

۳۸۷

اس كا اقرار ۳; اسكى بت پرستى ۴، ۵; اس ميں بت شكنى ۹; اسكى سوچ ۷، ۹; اس كا سوال ۱; اسكى تاريخ ۴، ۵، ۸، ۹; اسكے بتوں كا متعدد ہونا ۵; اس كا شرك ۵; اس ميں ظلم ۹; اس كا عقيدہ ۴; اس كا غضب ۸; اس ميں گناہ ۹; اسكے معبد كى خصوصيات ۶

آیت ۶۰

( قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ )

لوگوں نے بتايا كہ ايك جوان ہے جو ان كا ذكر كيا كرتا ہے اور اسے ابراہيم كہا جاتا ہے (۶۰)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنى قوم كى نظر ميں بتوں كو ٹوڑنے كے سلسلے ميں مشكوك تھے_قالوا سمعنا فتيً يذكر هم يقال له إبراهيم

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے جوانى ميں بتوں كو توڑا اور بت پرستى كے خلاف جنگ كا آغاز كيا_قالوا سمعنا فتيً يذكر هم

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كے خلاف چارہ انديشى اور حيلہ كرنے كا اپنا عزم بعض بت پرستوں كے سامنے ظاہر كياتھا_ما هذه التماثيل قالوا سمعنا فتيً يذكرهم

بت پرستوں نے جو يہ كہا ''ہم نے سنا ہے كہ ابراہيم(ع) بتوں كو برا بھلا كہتے ہيں '' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انہوں نے يہ باتيں بلا واسطہ طور پر ان سے نہيں سنى تھيں دوسرى طرف ايك گروہ ايسا تھا كہ جس نے بلاواسطہ طور پر ابراہيم (ع) كى دھمكى آميز باتيں سنى تھيں اور انہيں دوسروں تك نقل كيا تھا_ پچھلى دو آيتيں (تالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا ...) كہ جس ميں ''أصنامكم'' كا خطاب مخاطب حاضر كيلئے ہے اسى مطلب كى مؤيد ہيں _

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنى قوم كى نظر ميں معاشرے ميں كوئي ممتاز حيثيت نہيں ركھتے تھے اور اپنى قوم كى طرف سے مورد تحقير قرار پاتے_سمعنا فتيً يذكرهم يقال له إبراهيم

بت پرستوں كا حضرت ابراہيم (ع) كو جو ان كہنا ممكن ہے ان كى ناپختگى اور كم تجربہ ہونے كى طرف تعريض ہونہ كہ واقعا وہ عمر كے لحاظ سے جوان تھے اور ''يقال لہ إبراہيم'' كى تعبير كو بھى ايك طرح سے انكى تحقير اور جانا پہچانا نہ ہونا شمار كيا جاسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :

۳۸۸

انكى بت شكنى ۱، ۲; انكى تحقير۴; انكى تدبير ۳; انكى جوانى ۲; انكا قصہ ۱، ۲، ۳; انكى معاشرتى حيثيت ۴

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۴

بت پرست لوگ:يہ اور ابراہيم (ع) كى بت شكنى ۳

قوم ابراہيم (ع) :انكى سوچ۴; انكا گمان ۱

آیت ۶۱

( قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اسے لوگوں كے سامنے لے آؤ شايد لوگ گواہى دے سكيں (۶۱)

۱ _ بت پرست بتوں كو توڑنے والے كو كشف كرنے كى خاطر حضرت ا براہيم (ع) كو حاضر كرنے اور ان سے كھلم كھلا بازپرسى كے خواہاں _قالوا فأتوا به على أعين الناس

۲ _ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم (ع) كو لوگوں كى طرف سے ان كے مجرم ہونے كى گواہى دينے كيلئے حاضر كيا_

فأتوا به لعلهم يشهدون

۳ _ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم (ع) كو اسلئے حاضر كيا تا كہ ان كى بت شكنى كى سزا عام لوگوں كو دكھائي جاسكے_

فأتوا به لعلهم يشهدون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''يشہدون'' ،''يحضرون'' (حاضر ہوں ) كے معنى ميں ہو اس احتمال كى بنياد پر آيت كے مورد كى مناسبت سے لوگوں كے حاضر ہونے سے مقصود ان كا حضرت ابراہيم (ع) كى سزا كو ديكھنے كيلئے حاضر ہونا ہوگا_

۴ _ گواہى دينا، قوم ابراہيم (ع) ميں جرم كے ثابت كرنے كا ذريعہ تھا_فأتوا به لعلهم يشهدون

ابراہيم (ع) :ان سے آشكارا تفتيش۱; انكى تفتيش كى درخواست۱; ان كے حاضر كرنے كا فلسفہ ۲، ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳;

۳۸۹

انكى بت شكنى كى سزا ۳; انكے خلاف گواہى ۲

جرائم:اثبات جرم كى ادلہ ۴

قوم ابراہيم (ع) :مشار اليہ حضرت ابراہيم (ع) كا عمل (بتوں كو توڑنا)

اسكے مطالبے ۱; اس ميں گواہى ۴

گواہي:اسكے اثرات ۴

آیت ۶۲

( قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ )

پھر ان لوگوں نے ابراہيم سے كہا كہ كيا تم نے ہمارے خداؤں كے ساتھ يہ برتاؤ كيا ہے (۶۲)

۱ _ بت پرست، حضرت ابراہيم (ع) كو بتوں كا توڑنے والا سمجھتے تھے_قالواء ا نت فعلت هذا بألهتنا يا إبراهيم

۲ _ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم(ع) سے بتوں كو توڑنے كا اعتراف لينے كيلئے ان سے تفتيش كى _

قالوا ء ا نت فعلت هذا بألهتنا يا إبراهيم ''انت'' ميں استفہام تقريرى او رمخاطب سے اعتراف لينے كيلئے ہے يعنى بت پرست جانتے تھے كہ حضرت ابراہيم(ع) بتوں كو توڑنے والے ہيں ليكن ان سے اعتراف لينے كيلئے انہوں نے كہا''أنت فعلت'' _

۳ _ قوم ابراہيم (ع) كا بتكدہ حضرت ابراہيم (ع) سے تفتيش اور ان كے خلاف عدالتى كا روائي كا مركز _*

قالوا ء ا نت فعلت هذابألهتنا يا إبراهيم ''ہذا'' قريب كى طرف اشارہ ہے اور اس كا ہے اس سے استفادہ كيا جاسكتا ہے كہ آپ كے خلاف كاروائي كا مركز خود بتكدہ يا اسكے قريب تھا_

۴ _ سب لوگوں كے سامنے ملزمين اور مجرمين سے اعتراف لينا حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كے درميان كاروائي كرنے اور سزا دينے كى ايك روش_قالوا فأتوا بها على أعين الناس قالوا ء ا نت فعلت هذابألهتنا إبراهيم

ابراہيم (ع) :ان كا اقرار ۲; ان كى بت شكنى ۱; ان كى تفتيش كا فلسفہ ۲; انكا قصہ ۱، ۲; انكى تفتيش كا امكان ۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى سوچ ۱; اس كا معبد ۳

۳۹۰

ملزم:اس سے اقرار لينا۴

عدالتى نظام:يہ حضرت ابراہيم (ع) كے زمانے ميں ۴

آیت ۶۳

( قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ )

ابراہيم نے كہا كہ يہ ان كے بڑے نے كيا ہے تم ان سے دريافت كر كے ديكھو اگر يہ بول سكيں (۶۳)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كو توڑنے والے كے بارے ميں كئے گئے سوال كے جواب ميں پہلے بتوں كو توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت دي_قال بل فعله كبيرهم

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بتوں كے توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت دينا بت پرستوں كے بت پرستى والے عقيدے كے بطلان كى طرف متوجہ ہونے كا پيش خيمہ تھا نہ آپ كى طرف سے جھوٹى نسبت_قال بل فعله كبيرهم

حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كے توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت ديكر نہ فقط جھوٹ نہيں بولا بلكہ ايك بليغ اشارے كے ساتھ ماجرا كى حقيقت بھى بيان كردى كيونكہ حضرت ابراہيم (ع) نے جملہ ''فسئلوہم ...'' كے ذريعے بت پرستوں كو يہ سمجھانا چاہا كہ بت تو بات كرنے سے عاجز ہيں چہ جائيكہ بتوں كو توڑنا پس مان لينا چاہے كہ عاجز معبود پرستش كے لائق نہيں ہے_ قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت (يہ كہ بت پرست حضرت ابراہيم (ع) كا جواب سمجھ كر متوجہ اور خبردار ہوگئے) مذكورہ مطلب كى مؤيد ہے_

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) نے ايك عالمانہ طريقے سے بت پرستوں سے چاہا كہ وہ بتوں كے توڑنے والے كے بارے ميں خود بتوں سے باز پرس كريں _فسئلوهم إن كانوا ينطقون

حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كے توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت ديكر اور بت پرستوں سے يہ درخواست كر كے كہ بت شكن كو پہچاننے كيلئے وہ خود بتوں سے باز پرس كريں _ بت پرستى كے خلاف مقابلہ ميں عالمانہ روش اختيار كى كيونكہ اس طريقے سے بت پرستوں نے اپنے راستے كے باطل ہونے كو آسانى سے پاليا جيسا كہ بعد والى آيت (فرجعوا إلى انفسہم ...) اسى

۳۹۱

حقيقت كو بيان كررہى ہے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بت پرستوں سے خود بتوں سے تفتيش كرنے كى درخواست كركے بتوں كے عجز و ناتوانى كو ان كيلئے ظاہر كرديا_فسئلوهم إن كانوا ينطقون

۵ _ بت حتى بت پرستوں كى نظر ميں بھى بولنے اور گفتگو كرنے سے عاجز ہيں _فسئلوهم إن كانوا ينطقون

۶ _''عن الصادق(ع) : والله ما فعله كبيرهم و ما كذب إبراهيم فقيل: و كيف ذلك؟ قال: إنما قال: فعله كبيرهم هذاأن نطق و ان لم ينطق فلم يفعل كبير هم هذا شيئاً ; امام صادق (ع) سے روايت ہے: قسم بخدا بڑے بت نے وہ كام نہيں كيا تھا اور ابراہيم (ع) نے بھى جھوٹ نہيں بولا تھا_ امام صادق (ع) سے كہا گيا يہ كيسے ممكن ہے(جبكہ خود ابراہيم (ع) نے كہا تھا كہ يہ كام بڑے بت نے كيا ہے) تو آپ(ع) نے فرمايا ابراہيم (ع) نے كہا تھا اگر بڑا بت بات كرے تو اس نے يہ كام كيا ہے اور اگر بات نہ كرے تو بڑے بت نے كوئي كام نہيں كيا_

۷ _'' عن عبدالله (ع) : إن الله ا حب الكذب فى الإصلاح انّ ابراهيم (ع) إنّما قال:''بل فعله كبيرهم هذا'' ارادة الإصلاح و دلالة على ا نهم لا يفعلون .; امام صادق (ع) سے روايت ہے خداتعالي اصلاح كى خاطر جھوٹ بولنے كو دوست ركھتا ہے جب ابراہيم(ع) نے كہا''بل فعله كبيرهم هذا'' تو انكى غرض (لوگوں كي) اصلاح اور راہنمائي تھى تا كہ وہ (سمجھ جائيں ) كہ بت كوئي كام انجام نہيں دے سكتے(۲)

ابراہيم (ع) :ان كے جواب كے اثرات ۲; يہ اور جھوٹ ۶، ۷; انكے قصے كا بت شكن ۳; ان كا جواب ۱; ان كے پيش آنے كى روش ۳; انكى تبليغ كى روش ۴; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴

بت:يہ اور بات كرنا ۵; ان سے سوال ۳; انكا عاجز ہونا ۵/بت پرست لوگ:ان كى سوچ ۵

جھوٹ:جائز جھوٹ ۷; مصلحت والا جھوٹ ۷

روايت ۶، ۷قوم ابراہيم (ع) :ان كے بڑے بت سے تفتيش ۴; اسكے متنبہ ہونے كا پيش خيمہ ۲; اس كے بتوں كا عاجز ہونا۴; اسكے بتوں كا كردار ۱، ۶

____________________

۱ ) تفسير قمى ج۲ ص ۷۲; نورالثقلين ج۳ ص ۴۳۱ ح ۷۹_/ ۲ ) كافى ج ۲ ص ۳۴۲ ح ۱۷; نورالثقلين ج۳ ص ۴۳۴ ح ۸۵ و ۸۶_

۳۹۲

آیت ۶۴

( فَرَجَعُوا إِلَى أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ )

اس پر ان لوگوں نے اپنے دلوں كى طرف رجوع كيا اور آپس ميں كہنے لگے كہ يقينا تم ہى لوگ ظالم ہو (۶۴)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم اس بات سے آگاہ ہونے كے بعد كہ بت بات كرنے سے عاجز ہيں كچھ متوجہ ہوئے اور اپنے عقيدے كے بارے ميں سوچ و بيچار كرنے لگے_فرجعوا إلى أنفسهم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''فرجعوا إلى أنفسهم'' سے مراد بت پرستوں ميں سے ہر ايك كا اپنے ضمير كى طرف رجوع كرنا اور غور و فكر كرنا ہو_

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم اس بات سے آگاہ ہونے كے بعد كہ بت بات كرنے سے عاجز ہيں ايك دوسرے كے پاس آكر آپس ميں ايك دوسرے كى مذمت كرنے لگي_فرجعوا إلى أنفسهم فقالوا إنكم أنتم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''أنفسہم'' سے مقصود بت پرستوں كا آپس ميں ايك دوسرے كى طرف رجوع كرنا ہو اس طرح وہ ايك دوسرے كو مخاطب كر كے(فقالوا إنكم أنتم ...) آپس ميں ايك دوسرے كى مذمت كرنے لگے_

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كا شرك كے بطلان پر استدلال اور بت پرستى كے ساتھ مقابلہ ميں انكى روش نے انكى پورى قوم پر مكمل اثر كيا_قال بل فعله كبيرهم فرجعوا إلى ا نفسهم فقالوا إنكم أنتم الظالمون

اس بات كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پورى قوم نے فورى طور پر اپنى گمراہى كا اعتراف كرليا حضرت ابراہيم (ع) كے استدلال كے قوى ہونے اور ان كى دعوت كى روش كے مكمل طور پر اثر كرنے كا اندازہ ہوتا ہے_

۴ _ قوم ابراہيم(ع) كے بت پرستوں نے اپنے ظلم اور حضرت ابراہيم(ع) كے اس سے برى ہونے كا اعتراف كيا_

فقالو إنكم أنتم الظالمون ضمير منفصل ''أنتم'' ،''كم'' كيلئے تأكيد ہے اور جملہ ''إنكم أنتم ...'' حصر پر دلالت كرتا ہے يہ

۳۹۳

حصر حصر اضافى ہے يعنى فقط تم ظالم ہو نہ ابراہيم(ع) _

۵ _ بت پرستى اور شرك، فطرت انسانى كى نظر ميں ظلم و ستم ہے_فرجعوا إلى أنفسهم فقالوا إنكم أنتم الظالمون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''انفسہم'' سے مراد اپنى طرف رجوع كرنا اور ضمير و وجدان ہو_

۶ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بت پرستى كے خلاف مبارزت اور توحيد كے اثبات كيلئے فن نمائش (اداكاري) سے استفادہ كيا_فجعلهم جذاذاً إلا كبيراً لهم قال بل فعله كبيرهم هذا فسئلوهم فقالوا إنكم أنتم الظالمون

۷ _ تبليغ دين ميں فن نمائش سے استفادہ كرنا شائستہ اور كامياب طريقہ ہے_فجعلهم جذاذاً الا كبيراً لهم قال بل فعله كبيرهم هذا فسئلوهم فقالوا إنكم ا نتم الظالمون حضرت ابراہيم (ع) نے اپنى تبليغ ميں فن نمائش سے استفادہ كيا اور اپنے ہدف كو پاليا اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۸ _ شرك اور بت پرستى انسان كے اپنے آپ سے بيگانہ ہونے كا واضح مصداق ہے_ا نت فعلت هذا بألهتنا فرجعوا إلى ا نفسهم فقالو إنكم ا نتم الظالمون چونكہ بت پرستوں نے اپنى طرف واپس پلٹنے اور متنبہ ہونے كے بعد شرك كے بطلان كو درك كرليا اس كا مطلب يہ ہے كہ بت پرست لوگ اپنے آپ سے بيگانہ ہيں _

۹ _ اپنے كو پالينا اور ضمير كى طرف رجوع كرنا حقائق كے اعتراف كيلئے اسباب فراہم كرتا ہے _فرجعوا إلى ا نفسهم فقالوا إنكم ا نتم الظالمون چونكہ بت پرستوں نے اپنے كو پالينے اور اپنے ضمير كى طرف رجوع كرنے كے بعد شرك كے بطلان اور توحيد كى سچائي كو درك كرليا اس سے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۱۰ _ ظلم كا برا اور ناپسنديدہ ہونا سب انسانوں كيلئے قابل درك اور قابل قبول ہے_فقالوا إنكم ا نتم الظالمون

مذكورہ مطلب اس نكتے كى طرف توجہ كرنے سے حاصل ہوتا ہے كہ قوم ابراہيم (ع) باوجود اسكے كہ الہى شريعتوں ميں سے كسى خاص شريعت كا اعتقاد نہيں ركھتى تھى ليكن پھر بھى اس نے ظلم كے قبيح ہونے كو مسلم ليا_

ابراہيم (ع) :ان كے استدلال كے اثرات ۳; يہ اور ظلم ۴; انہيں برى الزمہ كرنا ۴; انكى تبليغ كى روش ۳، ۴; انكے مقابلے كى روش ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴; انكا فن ۶

اقرار:ظلم كا اقرار ۴; حق كے اقرار كا پيش خيمہ ۹

۳۹۴

انسان :اسكے فطرى امور ۵

بت:يہ اور بات كرنا ۱; انكا عاجز ہونا ۱، ۲

بت پرستي:اسكے اثرات ۷; اس كا ظلم ہونا ۵

تبليغ:اسكى روش ۷; اس ميں ہنر ۷

خود:خود كو باور ى اثرات ۹; خود كى سرزنش ۲; خود سے بيگانہ ہونے كے عوامل ۸

شرك:اسكے اثرات ۸; اس كا ظلم ہونا ۵

ظلم:اسكے موارد ۵; اسكے ناپسنديدہ ہونے كا واضح ہونا ۱۰

قوم ابراہيم:اسكے افراد ۴; اسكى تاريخ ۱; اس كا متنبہ ہونا ۱، ۲، ۳; اسكى سرزنش ۲; اسكے تفكر كے عوامل ۱

ضمير:اسكا كردار ۹

فن:فن نمائش كا كردار ۶، ۷

آیت ۶۵

( ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُؤُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاء يَنطِقُونَ )

اس كے بعد ان كے سر شرم سے جھكا ديئے گئے اور كہنے لگے ابراہيم تمھيں تو معلوم ہے كہ يہ بولنے والے نہيں ہيں (۶۵)

۱ _شرك كے بطلان پر حضرت ابراہيم (ع) كے مستحكم استدلال كے مقابلے ميں بت پرستوں نے شرمندہ ہوكر سر جھكالئے_ثم نكسوا على رؤسهم

''نكس'' كا معنى ہے كسى شے كے اوپر والے حصے كو نيچے كى طرف پلٹانا اور اسے برعكس كرنا جملہ ''نكسوا على رؤسہم'' تمثيل (معقول كي محسوس كے ساتھ تشبيہ) اور ان لوگوں سے كنايہ ہے كہ جن كے سر زيادہ شرمندگى كى وجہ سے ان كے بدن كى نچلى جانب كى طرف ہوں _

۲ _ بت پرست،شرك كے بطلان پر حضرت ابراہيم (ع) كے محكم استدلال سے قانع ہونے كے باوجود دوبارہ اپنے شرك آميز عقيدے كا دفاع كرنے لگے_مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ اوپر اور نيچے ہونا كہ جو كنايہ والے جملے (ثم نكسوا على رؤسهم ) ميں موجود ہے

۳۹۵

اس سے مراد بت پرستوں كے اعتقادى موقف اور عقائد كا اوپر اور نيچے ہونا ہو يعنى ابتداء ميں تو انہوں نے حضرت ابراہيم (ع) كے استدلال كے نتيجے ميں شرك كے بطلان كو درك كرليا ليكن پھر وہ اپنے سابقہ عقيدے پر پلٹ گئے اور دوبارہ اس كا دفاع كرنے لگے_

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كا شرك وبت پرستى كو دوبارہ اپناكر اپنى شخصيت كو تبديل كرنا_

فقالوا إنكم ا نتم الظالمون_ ثم نكسوا على رؤسهم مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ (ثم نكسوا على رؤسہم ) ميں اوپر نيچے ہونے سے مراد بت پرستوں كے عقيدہ كا تبديل ہونا ہو اس بناپر ايسى تبديلى كو انسان كے برعكس ہونے سے تشبيہ دينا ہوسكتا ہے بت پرستوں كى شخصيت كى بنيادى تبديلى سے كنايہ ہو كہ جسكے نتيجے ميں ان كے عقائد بھى تبديل ہوگئے_

۴ _ توحيد سے منہ موڑ كر شرك كى طرف مائل ہونا انسان كى حقيقت اور شخصيت كى تبديلى اور پچھلے قدموں لوٹنا ہے_

فقالوا إنكم ا نتم الظالمون_ ثم نكسوا على رؤسهم

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كا يہ اعتراف كہ بت نطق، كلام اور علم و عقل سے بے بہرہ ہيں _

لقد علمت ما هؤلا ينطقون

۶ _ بت پرستوں نے شرك كے بطلان پر حضرت ابراہيم (ع) كے استدلال كو نادرست قرار ديا اور انہيں بتوں كو توڑنے كى وجہ سے مجرم ٹھہرايا_فسئلوهم إن كانوا ينطقون ...ثم نكسوا على رؤسهم لقد علمت ما هؤلاء ينطقون

حضرت ابراہيم (ع) كے كلام'' فسئلوهم ان كانوا ينطقون'' كا جواب جملہ (لقد علمت ما هؤلاء ينطقون )ہے يعنى تجھے پتا ہے كہ بت بات كرنے سے عاجز ہيں پس كيوں ہميں بتوں سے سوال كرنے كا كہہ رہے ہے لامحالہ تيرا يہ سوال بت شكنى كى تہمت سے فرار كيلئے ہے_

ابراہيم (ع) :ان كے استدلال كے اثرات ۱، ۲; انكا استدلال ۶; انكى بت شكنى ۶; ان كى شرك دشمنى ۶; انكا قصہ ۱، ۶

واپس پلٹنا:اسكے موارد ۴

بت:يہ اور بات كرنا۵; انكا عاجز ہونا ۵

توحيد:اس سے منہ موڑنا ۴

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۴; اسكى تغيير كے عوامل ۴

قوم ابراہيم (ع) :

۳۹۶

اس كا مرتد ہونا۴; اس كا اقرار ۵; اسكى سوچ۶; اسكى تاريخ ۲، ۳; اسكى شخصيت كى تبديلى ۳; اس كا خبردار ہونا۱; اسكى شرمندگى ۱، اس كا شرك ۲، ۳; اس كا ليچڑين ۲

آیت ۶۶

( قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئاً وَلَا يَضُرُّكُمْ )

ابراہيم نے كہا كہ پھر خدا كو چھوڑ كر ايسے خداؤں كى عبادت كيوں كرتے ہو جو نہ كوئي فائدہ پہنچاسكتے ہيں اور نہ نقصان (۶۶)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) نے خدائے يكتا كے غير كى عبادت كى وجہ سے اپنى قوم كى مذمت كي_قال ا فتعبدون من دون الله ''ا فتعبدون'' كا ہمزہ استفہام انكارى توبيخى كيلئے ہے_

۲ _ قوم ابراہيم (ع) ان چيزوں كى عبادت كرتى تھى جو اسے نہ كوئي نفع پہنچاسكتى تھيں اور نہ نقصان_

قال ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئاً و لا يضركم

۳ _ نفع و نقصان صرف خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے_ا فتعبدون من دو ن الله ما لا ينفعكم شيئاً و لا يضركم

اس حقيقت كا بيان كرنا كہ معبود انسانوں كو كوئي نفع و نقصان نہيں پہنچاسكتے ہوسكتا ہے اس نكتے كى طرف اشارہ اور تعريض ہو كہ نفع و نقصان صرف خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) نے توحيد كے اثبات اور شرك كے بطلان كيلئے بت پرستوں كو بتوں كى ناتوانى سے آگاہ كرنے اور ان سے اس حقيقت كا اعتراف لينے كى روش سے استفادہ كيا_فسئلوهم إن كانوا ينطقون ...لقد علمت ما هؤلاء ينطقون قال ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئاًو لا يضركم

۵ _لوگوں كو دين دارى كے سودمند ہونے اور بے دينى كے نقصان دہ ہو نے سے آ گاہ كرنا دين كى تبليغ اور انسانوں كى ہدايت ميں ايك پسنديدہ اور مفيد روش

۳۹۷

ہے _قال ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئًا و لا يضركم

۶ _عبادت خدا كے منافع كو حاصل كرنے اور ترك عبادت كے نقصانات سے بچنے كيلئے عبادت كرنے كاجواز_

ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئاً ولا يضركم

حضرت ابراہيم (ع) نے شرك كے بطلان كو ثابت كرنے كيلئے غيرخدا كى عبادت كے لا حاصل ہونے كو دليل بنايا اس حقيقت كے بيان سے اس بات كا استفادہ كيا جا سكتا ہے كہ ہر معبود كى عبادت كا انسان كيلئے كوئي فائدہ ہونا ضرورى ہے اور انسان اس فائدے كے پيش نظر خداتعالى كى عبادت كرسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :انكى تبليغ كى روش۴; انكى شرك دشمنى كى روش ۴; انكى طرف سے مذمت ۱; انكا قصہ ۱، ۴

احكام ۶

بت:انكا عاجز ہونا ۴

تبليغ:اسكى روش ۵

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۳

دين:بے د ينى كے نقصان كا اعلان ۵

دينداري:اسكے منافع كا اعلان ۵

نقصان:اس كا سرچشمہ ۳

نفع:اس كا سرچشمہ ۳

عبادت:عبادت خدا كے احكام ۶; مادى مفادات كيلئے عبادت ۶

قوم ابراہيم:اسكے بت پرستوں كا متنبہ ہونا ۴; اسكى سرزنش ۱; اس كا شرك ۱; اسكے بتوں كا عاجز ہونا ۲

ہدايت:اسكى روش ۵

۳۹۸

۴۳۲ تا ۴۳۶

( أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) (٦٧)

( قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ) (٦٨)

( قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْداً وَسَلَاماً عَلَى إِبْرَاهِيمَ ) (٦٩)

۳۹۹

آیت ۷۰

( وَأَرَادُوا بِهِ كَيْداً فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ )

اور ان لوگوں نے ايك مكر كا ارادہ كيا تھا تو ہم نے بھى انھيں خسارہ والا اور ناكام قرار ديديا (۷۰)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے خلاف بت پرستوں كى سازش اور فريب كارى نا كام رہي_و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كے خلاف بت پرستوں كى سازش اور نيرنگ خود ان كے مكمل نقصان اور خسارت كا عامل بنا_

و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كو آگ ميں پھينكے جانے كے علاوہ بت پرستوں كى ايك اور سازش اور نيرنگ كا بھى سامنا كرنا پڑا _و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''كيداً'' سے مراد آگ ميں پھينكنے كے علاوہ كوئي نيا نيرنگ ہو كيونكہ ''كيد'' كے معنى ميں خفيہ ہونا بھى ہے جبكہ آگ ميں پھينكنا تو ايك آشكارا عمل تھا نہ مخفى اسكے علاوہ ''أرادو'' يعنى انہوں نے ارادہ كيا اور چاہا (نہ اسے عملى كيا) كى تعبير اسى دعوت كى تائيد كرتى ہے قابل ذكر ہے كہ ''كيدًا'' كى تنوين تعظيم و تفخيم كيلئے ہے_ اس صورت ميں يہ نيرنگ كے بڑے ہونے كو بيان كررہى ہے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم، كائنات كى سب سے زيادہ خسارة والى قوم تھي_فجعلنهم الأخسرين

۵ _ اہل باطل كى نيرنگ بازياں اور فريب كارياں ، ارادہ الہى كے مقابلے ميں ناتوان اور بے نتيجہ ہيں _

و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

۶ _ بت پرستى اور حق اور رہبرن الہى كے مقابلے ميں كھڑا ہونا سب سے زيادہ نقصان والے كاموں ميں سے ہے_

و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

ابراہيم (ع) :ان كے خلاف سازش كے اثرات ۲; ان كے خلاف سازش ۱، ۳; انہيں جلانا ۳; ان كا قصہ ۱، ۲، ۳

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750