تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219007 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیت ۳۵

( إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيراً )

يقينا تو ہمارے حالات سے بہتر باخبر ہے (۳۵)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے اور اپنے خاندان كى خصوصيات كے بارے ميں خداتعالى كى گہرى آگاہى كو بيان كر كے اپنے آپ كو خداتعالى كى خواہشات كو قبول كرنے والا اور اسكے انتخاب پر راضى قرار ديا _إنّك كنت بنا بصير

''نا'' سے مراد ہے حضرت موسى (ع) اور انكے اہل و عيال ہيں كہ جن ميں حضرت ہارون بھى شامل ہيں _ حضرت موسى ،(ع) جناب ہارون كيلئے وزارت كى تجويز دينے كے بعد عرض كرتے ہيں _ خداوندا تو مجھے اور ميرے خاندان كو خوب جانتا ہے

اور ميرے بھائي ہارون كى خصوصيات سے بھى آگاہ ہے _ يہ ميرى درخواست ہے ليكن تيرا فيصلہ جو بھى ہو مكمل بصيرت اور آگاہى پر مبنى فيصلہ ہوگا _

۲ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى رسالت كے امور كے بارے ميں خداتعالى كى بارگاہ ميں درخواست كرنے كے ساتھ ساتھ، خداتعالى كى مكمل آگاہى كا اعتراف كيا اور اسكے فيصلے كو دقيق اور صحيح قرار ديا _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا

۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى اور اپنے بھائي ہارون كى خداتعالى كے ذكر اور تسبيح كے ساتھ دائمى محبت كا اظہار كيا اور خداتعالى كو اس پر گواہ بنايا _إنّك كنت بنا بصيرا

ہوسكتا ہے جملہ'' إنّك ...'' ''كى نسبّحك كثيراً '' كى علت كا بيان ہو يعنى خدايا تو خوب جانتا ہے كہ ميرے اور ميرے بھائي ہارون كے كيا جذبات ہيں اور تيرى تسبيح و ذكر كے ساتھ ہميں كتنى محبت ہے پس ہارون كى وزارت كو قبول كركے ہمارے لئے زيادہ تسبيح و ذكر كا راستہ ہموار فرما _

۴ _ خداتعالى اپنے بندوں كے حالات اور انكى خوبيوں اور خاميوں سے آگاہ ہے _إنّك كنت بنابصيرا

۵ _ خداتعالى كے بندوں كے حالات سے آگاہى كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كرنا اور اس سے درخواست كرنا ايك پسنديدہ امر ہے _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا حضرت موسى (ع) نے اپنے اور ہارون كے حالات

۶۱

سے خداتعالى كى آگاہى كو ذكر كرنے كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كى اور اپنى خواہشات كو بيان كيا موسى (ع) كا يہ كام بتاتا ہے كہ خداتعالى كے سب چيزوں سے آگاہ ہونے كے باوجود اسك ى بارگاہ ميں دعا كرنا مطلوب اور كارساز ہے _

اقرار:خدا كى بصيرت كا اقرار ۲

ايمان:خدا كى بصيرت پر ايمان۱

خداتعالى :اسكى بصيرت ۴، ۵; اسكى گواہى ۳

دعا:اسكى فضيلت ۵

محبت:خدا كى تسبيح سے محبت ۳; خدا كے ذكر سے محبت ۳

عمل:پسنديدہ عمل ۵

موسى (ع) :آپكا اقرار ۲; آپكا ايمان ۱; آپكى خواہشات ۲; آپكى معنوى محبت ۳ ; آپ كا مقام رضا ۱

ہارون:انكى معنوى محبت ۳

آیت ۳۶

( قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا موسى نے تمھارى مراد تمھيں ديدى ہے (۳۶)

۱ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى تمام درخواستوں كو قبول كرليا اور انہيں شرح صدر اور روانى سے بولنے كى طاقت عطا فرمائي او رہارون كو انكا وزير قرار ديا _قال ربّ قال قد ا وتيت سؤلك يا موسى

''سؤل'' يعنى ايسى حاجت كہ جسے حاصل كرنے كيلئے انسان كا نفس حريص ہو اور اس كا آرزو سے فرق يہ ہے كہ آرزو انسان كى فكر ميں گزرتى ہے ليكن ''سؤل'' كا پيچھا كيا جاتا ہے گويا'' سؤل'' كا درجہ ہميشہ آرزو كے بعد ہوتا ہے _

۲ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى دعائيں بہت جلدى قبول ہوئيں _قال ربّ اشرح لى قال قد ا وتيت سؤلك ''ا وتيت'' فعل ماضى مجہول ہے اور اس كا

۶۲

مطلب يہ ہے كہ موسى (ع) كى دعاؤں كى قبوليت وعدے كى صورت ميں اور مستقبل سے مربوط نہيں تھى بلكہ اتنى جلدى ہوئي گويا گذشتہ زمانے ميں _

۳ _ خداتعالى نے وادى طوي( كوہ طور) ميں حضرت موسى كو انكى دعاؤں كى قبوليت سے آگاہ كيا _قد ا وتيت سؤلك

۴ _ مطالبات كے پورا ہونے كيلئے خداتعالى سے دعا اور درخواست مؤثر ہے _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) كے مطالبات كا پورا ہونا انكى بارگاہ خداوندى ميں دعا اور التماس كے بعد تھا اور اس سے خواہشات كے پورا ہونے ميں دعا كے كردار كا پتا چلتا ہے

۵ _ كوہ طور ميں وادى طوى وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسى (ع) كو شرح صدر اور روانى سے گفتگو كرنا عطا كيا گيا اور ہارون كو انكا وزير بنايا گيا _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

۶ _ حضرت ہارون (ع) كو وادى طوى ميں مقام نبوت و رسالت پر فائز كيا گيا _هرون ا خي و ا شركه فى ا مري قد ا وتيت سؤلك اگر ''ا شركہ فى أمري'' سے مراد حضرت ہارون (ع) كيلئے نبوت و رسالت كى دعا ہو تو يہ وادى طوى ميں قبول ہوئي _

۷ _ حضرت موسى (ع) ،عنايات خداوندى كا مركز _ياموسى حضرت موسى (ع) كى دعاؤں كا فوراً قبول ہوجانا اور بار بار ان كے نام كى تصريح سے انكے خداتعالى كے مورد توجہ و عنايت ہونے كا پتا چلتا ہے _

۸ _ ذمہ دار افراد كو ذمہ دارى سپرد كرنے كے ہمراہ انكى ضرورت كے وسائل فراہم كرنا بھى ضرورى ہے_

إذهب إلى ...قال ربّ ...قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) نے رسالت اور فرعون كى طرف حركت كرنے پر ما مورہونے كے بعد بارگاہ خداوندى ميں اپنى ضروريات اور خواہشات كا تذكرہ كيا_خداتعالى نے بھى اس كا مثبت جواب ديا يہ سب كيلئے درس ہے كہ اگر كسى كو ذمہ دارى دى جائے تو ضرورى ہے كہ اسكى بات سنى جائے، اس كے مطالبے پر توجہ دى جائے اور اسكى ضروريات پورى كى جائيں _خداتعالى :اسكے عطيے۱

دعا:اسكے اثرات ۴ذمہ دار افراد:انكى ضرورت پورى كرنا ۷

كوہ طور:اس كا كردار ۵، ۶لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۷

۶۳

مطالبے:انكے حاصل كرنے كے عوامل۴

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱، ۳; آپكى دعا كى جلدى قبوليت ۲; آپكا شرح صدر ۱، ۵; آپكا علم ۳; آپكيفصاحت ۱، ۵; آپ كے فضائل ۷; آپكا قصہ ۱، ۳ ; آپ كوہ طور ميں ۳، ۵

ہارون (ع) :انكے منصوب كرنے كى جگہ ۵; انكے انتخاب كى جگہ ۶; انكى نبوت ۶; انكا كردار ادا كرنا ۱; انكى وزارت ۱، ۵

وادى طوى :اس كا كردار ۵،۶

آیت ۳۷

( وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى )

اور ہم نے پر ايك اور احسان كيا ہے (۳۷)

۱ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى در خواستوں كے مطالبات كا پورا ہونا آپ پرخداتعالى كى جانب سے بھارى نعمت تھى _قدا وتيت سؤلك يا موسى و لقد مننا عليك مرة ا خرى

''منّة'' كا معنى ہے بھارى نعمت (مفردات راغب) _

۲ _ وادى طوى ميں قدم ركھنے سے پہلے بھى حضرت موسى (ع) پرخداتعالى كى توجہ و عنايت اور بھارى نعمت كا نزول ہوا تھا _و لقد مننا عليك مرة أخرى

۳ _ حضرت موسى (ع) كا ماضى ميں عظيم نعمت سے بہرہ مندہونا انكے وادى طوى ميں اپنى درخواستوں كي حتمى قبوليت كے اطمينان كا سبب تھا _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

''لقد'' كى تعبير قسم كى علامت ہے_ تاكيد كے ساتھ ماضى كے بارے ميں خبر ، مستقل سے مربوط وعدوں كى نسبت اطمينان پيدا كرنے كيلئے (ا وتيت سؤلك) ہے_

۴ _كوہ طور ميں حضرت موسى (ع) كو جو نعمت عطا كى گئي وہ اس گراں قدر نعمت كے ہم پلہ تھى جو سابقہ زمانے ميں انہيں عطا ہوچكى تھى _و لقد مننا عليك مرةا خرى

۵ _ ماضى و حال كى نعمتوں كو ہميشہ خداتعالى كى منشا سے وابستہ سمجھنا ضرورى ہے _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

۶۴

خداتعالى :اسكى مشيت كے اثرات ۵

لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲ ، ۳

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱; آپكى دعا كى قبوليت كى وجوہات ۳; آپكے فضائل ۲، ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۴; آپ كى نعمتيں ۱، ۳، ۴

نعمت:اسكے درجے ۱، ۳، ۴; يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۲، ۳، ۴

يادكرنا:منعم كو يادكرنا ۵۵

آیت ۳۸

( إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى )

جب ہم نے تمھارى ماں كى طرف ايك خاص وحى كى (۳۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ، خدا كى جانب سے وحى اور پيغام وصول كرتى تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك

ممكن ہے ''وحي'' سے مرادخداتعالى كا حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ بات كرنا ہو اور ممكن ہے اس سے مراد الہام ہو حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ خداتعالى كے بعض وعدے كہ جن كا ذكر سورہ قصص ميں آيا ہے پہلے معنى كے ساتھ زيادہ سازگار ہيں _

۲ _ بچپن سے ہى خداتعالى كى خصوصى عنايات حضرت موسى (ع) كے شامل حال تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو وحى اور پيغام اسكى حضرت موسى (ع) پر عظيم نعمتوں ميں سے تھا _و لقد مننا إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

''اذ'' ظرف ہے ''مننا'' كيلئے يعنى سابقہ آيت ميں ...مذكور نعمت اس وقت تھى _

۴ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ كى ان معلومات تك دسترسى جو ان تك پہنچائي گئيں وحى الہى كے علاوہ كسى اور راستے سے ممكن نہيں تھى _ما يوحى

''مايوحى '' (جو وحى كيا جاتا ہے) سے مراد وہ امور ہيں جنكى قاعدتاً وحى كى جائي ہے ورنہ خود انسان ان تك نہيں پہنچ سكتا_

۶۵

۵ _ بيٹے كى عظمت ماں كے مقام كى بلندى كا سبب ہے_إذ ا وحينا إلى ا مك

حضرت موسى (ع) كى والدہ كو جو كچھ بتايا گيا اسكے محتوا سے پتا چلتا ہے كہ اصلى ہدف حضرت موسى (ع) كى حفاظت تھا اگر چہ فطرى طور پر اس سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو بھى سكون ملا_ پس مادر موسى كى وحى الہى تك دسترسى كا سبب حضرت موسى (ع) كى عظمت ہے _

۶ _ حضرت موسى (ع) كى جان كى حفاظت اور انكى والدہ كى پريشانى كو دور كرنا خداتعالى كى تدبير سے ہوا_

إذ ا وحينا إلى ا مك

خداتعالى :اسكى تدبير ۶

بيٹا:اسكے مقام كا كردار ۵

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

والدہ:اسكے مقام كا سرچشمہ ۵

موسى (ع) :آپكى والدہ كى پريشانى كو دوركرنا ۶; آپكے فضائل ۲، ۳; آپكا بچپن ۲; آپكى حفاظت ۶; آپكى نعمتيں ۳; آپكى والدہ كى طرف وحى ۱، ۳، ۴

نعمت :اسكے درجے ۳; يہ جنكے شامل حال ہے ۳

وحي:اس كا كردار ۴

آیت ۳۹

( أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي )

كہ اپنے بچہ كو صندوق ميں ركھ دو اور پھر صندوق كو دريا كے حوالے كردو مو جيس اسے ساحل پر ڈال ديں گى اور ايك ايسا شخص سے اٹھالے گا جو ميرا بھى دشمن ہے اور موسى كا بھى دشمن ہے اور ہم نے ت پر اپنى محبت كا عكس ڈال ديا تا كہ تمھيں ہمارى نگرانى ميں پالاجائے (۳۹)

۱ _ پيدائش كے وقت اور بچپن سے ہى فرعونيوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى جان كو خطرہ تھا _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليمّ

حضرت موسى (ع) كى والدہ كا اپنے بيٹے كو سمندر ميں پھينكنے كا حكم وصول كرنا اس زمانے كے حالات كے سخت ہونے

۶۶

اور حضرت موسى (ع) كى جان كو لاحق خطرے كى علامت ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو حكم ديا كہ وہ موسى (ع) كو صندوق ميں ڈال كر دريائے نيل ميں پھينك ديں _ا ن اقدفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم ''قذف'' كا معنى ہے پھينكنا (مقاييس اللغة) اور ''اقذفيہ'' جو موسى (ع) كو صندوق ميں ڈالنے ميں بھى استعمال ہوا ہے اور پھر صندوق كو پانى ميں پھينكنےميں بھى بتاتا ہے كہ موسى (ع) كو اس طرح صندوق ميں قرار دينا اور پھر پانى ميں پھينكنا ضرورى ہے كہ ہر ديكھنے والا يہ سمجھے كہ اسے دور پھينك ديا گياہے ''تابوت'' يعنى صندوق (نہايہ ابن اثير) ''يمّ'' يعنى سمندر اور آيت ميں اس سے مراد دريائے نيل ہے (لسان العرب) _

۳ _ فرعون كى حكومت ميں بنى اسرائيل كى زندگى بہت دشوار تھى اور انكے لڑكوں كى جان خطرے سے دوچار تھى _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم

۴ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو اطمينان دلايا كہ دريائے نيل كا جوش مارتا پانى حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پرپھينك ديگا _فليلقه اليمّ بالساحل دريا كو حكم دياگياكہ وہ صندوق كو ساحل پر پھينك دے مجاز اور اس بات ميں مبالغہ كيلئے ہے كہ پانى كى لہروں كے ہمراہ صندوق كا ساحل تك آنا اور پھر اس كا خشكى پرپھينكا جانا يقينى ہے_

۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ گرامي، خداتعالى كے پيغام پر ايمان ركھتى تھيں اور انہيں خدا كى جانب سے حضرت موسى (ع) كى حفاظت كا اطمينان تھا _إذ ا وحينا ا ن اقذفيه ...يا خذه عدو بعد والى آيت (إذتمشى ا ختك فرجعناك إلى ا مك ) كے قرينے سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى والدہ نے وحى الہى كے محتوا پر عمل كيا اور حضرت موسى (ع) كو دريائے نيل كے سپردكرديا_ يہ كام حضرت موسى (ع) كى والدہ كے اس اطمينان كى گواہى ديتا ہے كہ موصولہ پيغام، وحى الہى تھا نيز يہ يہ اس پر انكے مكمل ايمان كى علامت ہے_

۶ _ دريائے نيل،خداتعالى كى جانب سے حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پر پھينكنے پر ما مور تھا _فليلقه اليّم بالساحل جملہ''فليلقه اليّم '' جس طرح مادرموسى (ع) كو سمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كا ساحل پر پھينكا جانا قطعى ہے اس حقيقت كو بھى بيان كررہا ہے كہ پانى امر تكوينى كے ساتھ اس كام كو انجام دينے پرما مور تھا _

۷ _ حقيقى عوامل، خداتعالى كى حكمرانى ميں ہيں اوروہ اسكے فرامين كو عملى كرنے والے ہيں _فليلقه اليم بالساحل

۸ _ جناب موسى (ع) كو پانى ميں پھينكنے سے پہلے آپ كى والدہ كو خداتعالى كى طرف سے يہ اطلاع ہوچكى تھى كہ ايك دشمن كے ذريعے حضرت موسى (ع) كو نجات حاصل ہوگى _ا وحينا يا خذه عدولى و عدوله

۶۷

۹ _ فرعون،خداتعالى اور حضرت موسى (ع) كا دشمن تھا اور موسى (ع) كو پہنچان كرا نہيں نابود كرنے كے درپے تھا _

يا خذه عدولى و عدوله فرعون كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ دشمنى وہ بھى انكى خصوصيات كے حامل بچے كى پيدائش سے پہلے بتاتى ہے كہ فوعون نے حضرت موسى (ع) كو پہچاننے كى صورت ميں انہيں قتل كرنے كا عزم كرركھا تھا_

۱۰ _ خداتعالى نے مادر موسى (ع) كى طرف جو وحى كى اس ميں خدا اور انكے بچے كے دشمن كو اس بچے كا نجات دہندہ اور اسكى كفالت كرنے والا متعارف كرايا _يا خذه عدولى و عدوله

۱۱ _ ممكن ہے دشمنان خدا بھى با دل نخواستہ خدا كے محبوب بندوں كے فائدے كيلئے كام كريں _يا خذه عدولى و عدوله

۱۲ _حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں دريائے نيل پانى سے پر تھا اور فرعون كى رہائش گاہ سے زيادہ دور نہيں تھا _

فليقه اليّم بالساحل يا خذه عدولي ''يَمّ'' كا معنى ہے سمندر اور دريا كو سمندر كہنا اس ميں پانى كى كثرت سے حكايت كرتا ہے _

۱۳ _ خداتعالى نے اپنى جانب سے حضرت موسى (ع) كو خصوص محبوبيت عطا فرما كر انہيں ہر ديكھنے والے كى نظر ميں محبوب بناديا _وا لقيت عليك محبة منّي ''ا لقيت'' كا ''ا وحينا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيت ميں تھا اور پھر ''محبة'' كو نكرہ لانا، جبكہ مقام مدح ہے اسكے خصوصى ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے اور ''مني'' حضرت موسى (ع) كى محبوبيت كے سرچشمے كو بيان كررہا ہے او رسمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كو عطا كردہ محبوبيت كا سرچشمہ ذات بارى تعالى تھى _

۱۴ _ فرعون اور اسكے حاشيہ نشين، موسى (ع) سے بہت محبت كرتے تھے اور انہيں دوست ركھتے تھے _والقيت عليك محبة مني

۱۵ _ خداتعالى مہر و محبت كا سرچشمہ اور اس كا عطا كرنے والا ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۶ _ دلوں ميں محبوب ہونا،خداتعالى كى عنايت اور مہربانى ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۷ _ فرعونيوں كے دلوں ميں حضرت موسى (ع) كى محبوبيت انكے خداتعالى كى مكمل نگرانى كے ساتھ رشد و تكامل كا پيش خيمہ _ولتصنع على عيني ''لتصنع'' اس چيز كى علت كو بيان كررہا ہے جو كلام كے سياق سے حاصل ہو رہى ہے يعنى''ولتصنع على عينى فعلت ذلك'' جو كچھ ميں نے انجام ديا ہے وہ اسلئے تھا كہ تو ميرى

۶۸

مكمل نگرانى كے ساتھ پروان چڑھے ''صنيع''اور'' صنيعہ''(لتصنع كامادہ اشتقاق ) اس شخص كو كہا جاتا ہے جو كسى دوسرے كا تربيت يافتہ ہو اسى طرح يہ عطا، سخاوت اور احسان كے معنى ميں بھى آيا ہے ( لسان العرب)_

۱۸ _ حضرت موسى (ع) كا دلوں اور دربار فرعون ميں محبوب ہونا انكے لئے احترام اور بڑى خدمت كا سبب بنا _و ا لقيت عليك محبة منى و لتصنع على عيني اگر ''صنيعہ'' ( لتصنع كا مادہ اشتقاق) نيكى كرنے اور كرامت كے معنى ميں ہو تو ''لتصنع'' كا مطلب يہ بنے گا ميں نے تيرى محبت دوسرں كے دلوں ميں قرار دى ہے تاكہ تو ميرى مكمل نگرانى كے ساتھ ان كا مورد احترام و اكرام قرار پائے _

۱۹ _ خداتعالى حضرت موسى (ع) كى زندگى كے آغاز سے ہى ان پر دقيق نظارت ركھتا تھا اور اس نے انكى تربيت اور رشد و تكامل كے ذرائع فراہم كرركھے تھے _ولتصنع على عيني

''على عيني'' ميں ''عين'' سے مراد اس كا مجازى معنى يعنى نگرانى ہے اور ''علي'' دلالت كرتا ہے كہ نظارت الہى ايسى بنياد ہے كہ جس پر حضرت موسى (ع) كى تربيت اور احترام استوار تھے_

۲۰ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى خداتعالى كى طرف سے انبياء كى زندگى كے آغاز سے ہى انكى پرورش پر نظارت كا ايك نمونہ _و لتصنع على عيني

۲۱ _ بچپن ہى ميں حضرت موسى (ع) كو پانى ميں پھينك كر انكى جان بچانا، فرعونيوں كے دلوں ميں انكى محبت ڈالنا اور انكى تربيت اور نشو و نماپر نظارت،خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) پر گراں بہا نعمتيں _

مننا عليك مرة ا خرى ا ن اقذفيه و لتصنع على عيني

۲۲ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: ا نزل الله على موسى التابوت و نوديت ا مه ضعيه فى التابوت فاقذفيه فى اليم و هو البحر; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى نے حضرت موسى (ع) پر تابوت نازل كيا

۶۹

اور انكى والدہ كو ندا دى كہ انہيں تابوت ميں ركھ كردريا ميں ڈال ديں _(۱)

۲۳ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: كان موسى لا يراه ا حد إلا ا حبه و هو قول الله : '' و ا لقيت عليك محبّة منّى ...'' ;امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ حضرت موسى (ع) اس طرح تھے كہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا مگر يہ كہ ان سے محبت كرنے لگتا تھا اور خداتعالى كے فرمان ''والقيت عليك محبة مني'' سے مراد يہى ہے_(۲)

انبياء:انكى تربيت ۲۰//بنى اسرائيل:يہ فرعون كے زمانے ميں ۳; انكى تاريخ ۳; انكى معاشرتيمشكلات ۳جھكاؤ:حضرت موسى (ع) كے طرف جھكاؤ ۱۴

خداتعالى :اسكے اوامر ۲; اسكى تعليمات۰ ۱; اسكے دشمن ۹، ۱۰، ۱۱; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷; اسكى نظارت ۱۹، ۲۰; اس كا كردار ادا كرنا ۱۵ظخدا كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۶

خدا كے محبوب لوگ:انكے مفادات۱۱ظدريائے نيل:اس كا مطيع ہونا ۶; اسكى تاريخ ۱۲; يہ موسى كے زمانے ميں ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

روايت :۲۲، ۲۳ظقدرتيعوامل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى دشمنى ۱، ۹; اس كا ظلم ۳; اسكى محبت ۱۴فرعون كے حاشيہ نشين لوگ:انكى محبت ۱۴

محبت:اس كا سرچشمہ ۱۵، ۱۶موسى (ع) :آپكى محبوبيت كے اثرات ۱۷، ۱۸; آپكى والدہ كا اطمينان ۴،۵; آپكا دريائے نيل ميں امن ۴; آپكى والدہ كا ايمان ۵; آپكى تربيت ۲۱; آپكى كفالت ۱۰; آپكى والدہ كى شرعى ذمہ دارى ۲; آپكے دشمن ۱، ۸، ۹، ۱۰; آپكى نشو و نما كا پيش خيمہ ۱۷، ۱۹; آپكا صندوق ۶; آپكى ماں كا علم ۸; آپكے احترام كے عوامل ۱۸; آپكے فضائل ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳; آپكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۸، ۲۰، ۲۲; آپكى نگرانى ۴، ۵، ۱۷، ۱۹، ۲۱; آپكى محبوبيت ۲۱، ۲۳; آپكا تربيت كرنے والا ۱۹; آپكى محبوبيت كا سرچشمہ ۱۳; آپ ساحل نيل پر۴، ۶; آپ نيل ميں ۲; آپكو نجات دينے والا ۱۰; آپكى نجات ۸; آپكے صندوق كا نازل ہونا ۲۲; آپكى نعمتيں ۲۱; آپكى والدہ كو وحى ۱۰، ۲۲

نعمت :اسكے درجے ۲۱

وحي:اس پر ايمان لانے والے ۵

____________________

۱ ) تفسيرقمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷ _ظ ۲ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷_

۷۰

آیت ۴۰

( إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْساً فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُوناً فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى )

اس وقت كو ياد كرو جب تمھارى بہن جارى تھيں كہ فرعون سے كہيں كہ كيا ميں كسى ايسے كاپتہ بتاؤں جو اس كى كفالت كرسكے اور اس طرح ہم نے تم كو تمھارى ماں كى طرف پلٹاديا تا كہ ان كى آنكھيں ٹھنڈى ہوجائيں اور رنجيدہ نہ ہوں اورتم نے ايك شخص كو قتل كرديا تو ہم نے تمھيں غم سے نجات دے دى او رتمھارا باقاعدہ امتحان لے ليا پھر تم اہل مدين ميں كئي برس تك رہے اس كے بعد تم ايك منزل پر آگئے اے موسى (۴۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى پيدائش كے وقت انكى ايك بڑى اور رشيدہ بھى تھيں _إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم

موسى (ع) كا پيچھا كرنا، دربار ميں نفوذ اور دايہ كى پيشكش ان سب سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن اس عمر ميں تھيں كہ ان كاموں اور حيلوں كے سلسلے ميں نہ صرف وہ جسمانى اور فكري

توانمندى سے بہرہ مند تھيں بلكہ انكى بات جاتى سنى اور قبول كى جاتى تھى _

۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن اپنے چھوٹے بھائي كے دريائے نيل ميں پھينكے جانے سے مطلع اور اس كى وجہ سے پريشان تھيں اور قدم بقدم انكے صندوق كا پيچھا كررہى تھيں _

إذ تمشى ا ختك فتقول

حضرت موسى (ع) كى بہن كا انكے پيچھے پيچھے حركت كرنا بتاتا ہے كہ وہ حضرت موسى (ع) كے واقعے ، انكے پانى ميں پھينكے جانے اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات سے اجمالى طور پر مطلع تھيں _

۷۱

۳ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے اس وقت تك انكا پيچھا كيا جب تك انہيں پانى سے نجات نہ ملى اور جب تك اس نے فرعون كے درباريوں كو موسى (ع) كيلئے دايہ تلاش كرنے كيلئے انكى كوشش كا مشاہدہ نہيں كيا_إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم ''هل ا دلكم'' كا ظاہر يہ ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو موسى اخذ كرتے ہوئے ديكھا اور درباريوں كے پاس جاكر بدون واسطہ انہيں اور جو لوگ دايہ كى تلاش ميں تھے اپنى پيشكش سے آگاہ كيا _

۴ _ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى حفاظت اور نگہداشت كاعزم كرليا_هل ا دلكم على من يكفله

دايہ كيلئے تلاش اور كوشش سے پتا چلتا ہے كہ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى نگہدارى كا عزم كرليا _

۵ _ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت ، خوراك اور ديكھ بھال كے سلسلے ميں دربار فرعون مشكل سے دوچار ہوا _

هل ا دلكم على من يكفله ''هل ا دلكم'' سے پتا چلتا ہے كہ دربار فرعون حضرت موسى (ع) كيلئے دايہ اور سرپرست كى تلاش ميں تھا_ حضرت موسى (ع) كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنا بتاتا ہے كہ كسى دربارى كو اس سلسلے ميں كاميابى نہيں ہوئي تھى اور وہ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت اور خوراك كے سلسلے ميں پريشان تھے_

۶ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كے سامنے اظہار كيا كہ وہ مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے آمادہ ہيں _

هل ا دلكم على من يكفله ''كافل'' اسے كہاجاتا ہے جو كسى كے امور كى انجام دہى كو اپنے ذمے لے (مقاييس اللغة) _

۷ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے اپنى آمادگى كا مكرر اظہار كيا _

فتقول هل ا دلكم فعل مضارع ''تقول'' گذشتہ زمانے ميں كام كے استمرار پر دلالت كررہا ہے _

۸ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے جس دايہ كى پيشكش كى تھى درباريوں نے اسے قبول كرليا _

هل ا دلكم على من يكفله فرجعنك إلى ا مك ''فرجعناك'' ميں ''فا'' فصيحہ ہے يعنى ان محذوف جملوں سے حكايت كرتى ہے كہ جو حضرت موسى كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنے پر دلالت كرتے ہيں _

۹ _حضرت موسى كى بہن زيرك اور راز دار تھيں _هل ا دلكم على من يكفله

۱۰ _ فرعونيوں نے حضرت موسى (ع) كو انكى والدہ كے سپرد كيا اور وہ انہيں اپنے گھر لے گئيں _فرجعناك إلى ا مك

موسى (ع) كا اپنى ماں كے پاس واپس آنااس طرح ہے كہ انكى والدہ انہيں اپنے ہمراہ لے گئي ہوں نہ اس طرح كہ انكى نگہداشت كيلئے دربار ميں گئي ہوں _

۷۲

۱۱ _ حضرت موسى (ع) بچين سے ہى اپنى والدہ كے زير كفالت تھے _على من يكفله

۱۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن كا انہيں انكى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر كردار تھا _إذ تمشى ا ختك فرجعنك إلى ا مك حضرت موسى (ع) كى بہن اور انكى كوشش كو ياد كرنا انكے حضرت موسى (ع) كو اپنى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر اور كارساز كردارسے حكايت كرتا ہے_

۱۳ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ اپنے بيٹے كے نامعلوم انجام پر نظريں لگائے ان كى دورى كى وجہ سے پريشان تھيں _

كى تقرعينها ولا تحزن آنكھ كا سكون اس شديد غم كے دور ہونے سے كنايہ ہے كہ جو آنكھ كو ايك طرف خيرہ كرديتا ہے يا اسے مسلسل دائيں بائيں پھيرتا ہے _

۱۴ _ موسى (ع) كے دوبارہ ديدار نے انكى والدہ كى آنكھوں كو نور اور سكون بخشااور انكے غم و اندوہ كو دور كرديا _

فرجعنك إلى ا مك كى تقر عينها و لا تحزن ''قرة العين'' يا تو ''قرار''سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے سكون پكڑنا اور يا ''قرّ'' سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے ٹھنڈاہونا كہ جو گرم آنسوؤں كے ركنے كا نتيجہ ہوتا ہے بہرحال يہ تعبير اس شادمانى سے كنايہ ہے جو آنكھ كو پريشان ہونے اور اسے دائيں بائيں پھرنے سے دور ركھتى ہے اور غم و اندوہ كے جلا دينے والے آنسوؤں كو روكتى ہے _

۱۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ خداتعالى كے ہاں خاص مقام و مرتبہ ركھتى ہيں _فرجعنك إلى ا مك كى تقرعينها و لا تحزن

۱۶ _ ماں كى سرپرستى بچے كى تربيت كيلئے مناسب ترين حالات فراہم كرتى ہے _ولتصنع على عينيإذ تمشى فرجعنك إلى ا مك

۱۷ _ حضرت موسى (ع) كا آغوش مادر ميں پلٹ آنا خداتعالى كى دقيق نظارت ميں انكى پرورش اور نشو ونما كا مناسب ذريعہ _و لتصنع على عينى إذ تمشى ...فرجعنك ''اذ تمشي'' ميں ''اذ'' ممكن ہے ''لتصنع'' كيلئے ظرف ہو اس صورت ميں ''اذ'' كے بعد والے جملے موسى (ع) كے بارے ميں صنع الہى كے وقوع پذير ہونے كے ظرف كو بيان كررہے ہيں _

۱۸ _ حضرت موسى (ع) نے كوہ طور ميں وحى كو دريافت كرنے اور مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے ايك شخص كو قتل كيا تھا _وقتلت نفس يہ آيت كريمہ مصر ميں ايك قبطى شخص كے قتل كو بيان كررہى ہے كہ جو حضرت موسى (ع) كے ہم مذہب شخص كے ساتھ جھگڑ رہا تھا اور حضرت موسى (ع) نے اسے قتل كرديا تھا ليكن اسكے رد عمل كى فكر آپ كو

۷۳

آسودہ خاطر نہيں ہونے دے رہى تھى يہاں تك كہ آپ مصر سے بھاگ نكلے اور مدين پہنچ كر آپ سے خطرہ ٹلا اور غم و اندوہ دور ہوئے _

۱۹ _ قتل كا ارتكاب، حضرت موسى (ع) كى پريشانى اور ان كے غم و اندوہ ميں مبتلا ہونے كا سبب بنا _

و قتلت نفسا فنجينك من الغم حضرت موسى (ع) كا غم واندوہ ان كے واقعہ قتل اور فرعونيوں كى طرف سے خطرہ محسوس كرنے كے بارے ميں پريشانى اور اضطراب كى وجہ سے تھا _

۲۰ _ قتل كى وجہ سے حضرت موسي(ع) كو فرعونيوں كے ہاں امن نہيں تھا _فنجينك من الغم

۲۱ _ فرعونيوں كى نظر ميں قبطيوں پر بنى ا سرائيل ترجيح ركھتے تھے حتى كہ اپنے پرورش يافتہ اور محبوب جوان پر بھى _

فنجينك من الغم

۲۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو قتل كى پريشانى سے نجات بخشي_و قتلت نفسا فنجينك من الغم

۲۳ _ حضرت موسى (ع) كا قتل كے خطرناك نتائج سے رہائي پانا،خداتعالى كى جانب سے آپ پر ايك عظيم نعمت_

و قتلت نفساً فنجينك من الغم ''قتلت'' كا ''لقد مننا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيات ميں تھا اور حضرت موسى (ع) پر ولادت كى مشكلات سے رہائي والى نعمت كو ذكر كرنے كے بعد ايك اور نعمت اور احسان كو بيان كررہا ہے _

۲۴ _ انسان كا غم و اندوہ سے نجات پانا، خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے _فنجينك من الغم

۲۵ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو مدين ميں داخل ہونے سے پہلے ايك سخت آزمائش ميں مبتلا كيا _و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فتنہ''كا معنى ہے امتحان اور آزمائش (مصباح) ''فتون'' مصدر اور مفعول مطلق ہے اور كلام كى تاكيد كيلئے لايا گيا ہے اور جملہ ''فتناك فتوناً '' يعنى ہم نے تجھے خوب آزمايا_

۲۶ _ حضرت موسى (ع) كے مصر ميں ايك قبطى شخص كو قتل كرنے نے انكے خداتعالى كى سخت آزمائش ميں مبتلا ہونے كا راستہ ہموار كيا _و قتلت نفسا فنجينك من الغم و فتّنك فتون اگر ''فتناك'' كا عطف ''نجيناك'' پر ہو تو آزمائش الہى ميں حضرت موسى (ع) كا سختى جھيلنا انكے قتل كا نتيجہ تھا _

۲۷ _ مدين ميں وارد ہونے سے پہلے خداتعالى نے حضرت موسى (ع) سے متعدد آزمائشيں ليں _و فتنك فتون

ہوسكتا ہے كلمہ'' فتون'' فتنہ كى جمع ہو جيسا كہ ''كشاف'' اور ''البحر المحيط'' ميں ہے _

۲۸ _ حضرت موسى (ع) كو اپنى زندگى ميں بہت سارى سختيوں كا سامنا ہوا _وفتنّك فتون جيسا كہ بعض نے كہا ہے

۷۴

''فتون'' فتنہ كى جمع ہے اور ''فتنہ'' كا استعمال زيادہ تر شدائد اور سختيوں ميں ہوتا ہے ( مفردات راغب) _

۲۹ _ حضرت موسى (ع) كى آزمائش اور زندگى كى سختياں ان پر خداتعالى كى نعمتوں ميں سے تھيں _

چونكہ يہ آيات حضرت موسى (ع) پر خداتعالى كى نعمتوں كو شمار كررہى ہيں اور اسى كے ضمن ميں حضرت موسى كا ( آزمائش يا سختي) ميں مبتلا ہونا ذكر ہوا ہے_اس سے لگتا ہے كہ اس قسم كى سختياں اور آزمائشيں بھى خداتعالى كى نعمتوں ميں سے ہيں _

۳۰ _ زندگى كى بعض سختياں ، انسان پر خداتعالى كى نعمت اورلطف كى علامت ہيں _و لقد مننا و فتنّك فتون

۳۱ _ زندگى كے واقعات اور مشكلات خداتعالى سے مربوط اور اسكى طرف منسوب ہيں _و فتنّك

۳۲ _ فرعونيوں كے چنگل سے آزاد ہونے كے بعد حضرت موسى (ع) سختى كے ساتھ مدين پہنچے اور چند سال تك وہيں قيام پذير رہے _وفتنك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين

۳۳ _ حضرت موسى (ع) كا مدين كے لوگوں كے درميان چند سال قيام كرنا انكى آزمائش اور امتحان كا دوسرا مرحلہ تھا _

و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فلبثت'' كى فاء ممكن ہے مفصل كے مجمل پر عطف كيلئے ہو اس صورت ميں حضرت موسى (ع) كا مدين ميں قيام ''فتنة'' (سختى يا آزمائش) كا مصداق ہوگا _

۳۴ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى سختياں اور ان سے خداتعالى كى آزمائش اسلئے تھيں كہ وہ رسالت الہى كا بوجھ اٹھانے كے لئے شائستہ مرتبے پر فائز ہوسكيں _و فتّنك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

''قدر '' يعنى مطلوب حد_ يہ كلمہ اور ''مقدار'' ايك ہى معنى ميں ہيں _(لسان العرب) ''على قدر'' ''جئت'' كے فاعل كيلئے حال ہے يعنى اے موسى جب تو شائستگى اور استوارى كى لازمى حد كو پہنچ گيا تو تونے اس وادى ميں قدم ركھا _

۳۵ _ حضرت موسى (ع) كو اس وقت كوہ طور ميں خداتعالى كے ساتھ مناجات اور حكم رسالت كے د ريافت كى توفيق حاصل ہوئي جب آپ نے آزمائش الہى اور سختيوں كو جھيلنے كے مرحلے سے گزر كر لازمى لياقت كو پاليا _و فتنّك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

۳۶ _حضرت موسى (ع) كى عمر كے كئي سالوں كا مدين ميں بسر ہونا اور رسالت كيلئے لازمى لياقت كو حاصل كرلينا آپ كيلئے نعمات الہى تھيں _ولقد مننا عليك مرة ا خرى إذ تمشى ا ختك

۳۷ _ نبوت اور رسالت الہى ان لوگوں كيلئے مخصوص ہے جو اسكے لائق ہوں _ثم جئت على قدر يا موسى

۷۵

۳۸ _ حضرت موسى (ع) كى مدين سے واپسى اور كو ہ طور ميں وادى طوى ميں آنا خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديئے گئے پروگرام كے مطابق تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''قدر'' كا ايك معنى ،الہى تقدير ہے كہا گيا ہے كہ يہ كلمہ ''قدر'' كا اسم مصدر اور تقدير بنانے كے معنى ميں ہے (لسان العرب) راغب بھى كہتاہے ''قدر'' ہر چيز كا معين وقت اور جگہ ہے_

۳۹ _ انبياء كى بعثت كا وقت معين اور خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديا گيا ہے_ثم جئت على قدر يا موسى

۴۰ _ مدين ميں حضرت موسى (ع) كى لمبى عمر كا انكے رسالت كے لائق بننے كيلئے بڑا كردار تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور يہ دلالت كرتاہے كہ موسى كا كوہ طور پر آنا ان كى مدين ميں رہائش كے آغاز كافى وقت بعد تھا_

۴۱ _ خداتعالى نے كوہ طور ميں نرمى اور مہربانى كے ساتھ حضرت موسى (ع) سے بات كى _يموسى

سخن كے دوران بار بار حضرت موسى (ع) كا نام لينا خداتعالى كى آپ كے ساتھ مہربانى پر دلالت كرتا ہے _

۴۲ _'' عن محمد بن مسلم:قلت لا بى جعفر(ع) : فكم مكث موسى غائباً عن ا مه حتى ردّه الله عليها؟ قال: ثلاثة ا يام; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام باقر (ع) سے عرض كيا حضرت موسى (ع) كتنى مدت اپنى والدہ سے غائب رہے يہاں تك كہ خداتعالى نے ا نہيں انكے پاس لوٹادياتو آپ نے فرمايا تين دن(۱)

۴۳ _'' روى عن النبى (ص) ا نه قال: رحم الله ا خى موسى قتل رجلاًخطاً و كان ابن إثنتى عشرة سنة ; پيغمبر اكرم(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا خداتعالى ميرے بھائي موسي(ع) پر رحم كرے انہوں نے ايك مرد كو اس وقت غلطى سے قتل كيا جب انكى عمر بارہ سال تھى(۲) _

انبياء (ع) :انكى بعثت كا قانون مند ہونا ۳۹ // بيٹا:اسكى تربيت ۱۶

خداتعالى :اسكى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۴۱_ اسكى تقدير ۳۸; اسكى مہربانى ۴۱; اس كا نجات دينا ۲۲; اسكى مہربانى كى نشانياں ۳۰; اسكى نعمتيں ۳۰; اس كا كردار ادا كرنا ۲۴روايت: ۴۲، ۴۳

غم و اندوہ:اسكے دور كرنے كا سرچشمہ ۲۴

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۶ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۶_ /۲ ) مجمع البيان ج ۷ ص ۱۹ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۷_

۷۶

فرعون:فرعون اور موسى ۴; اس كا قصہ ۵

فرعونى لوگ:انكا نسلى امتياز ۲۱; يہ اور موسى (ع) ۱۰، ۲۰; انكى مشكلات ۵

قبطي:انہيں بنى اسرائيل پر ترجيح دينا ۲۱

ماں :اس كا كردار ادا كرنا ۱۶

مشكلات:انكا سرچشمہ ۳۱

موسى (ع) :انكے امتحان كے اثرات ۳۵; انكى واپسى كے اثرات ۱۴، ۱۷; انكے قتل كے اثرات ۱۹، ۲۰، ۲۶; انكى مشكلات كے اثرات ۳۵; انكا احساس نا امنى ۲۰; انكا امتحان ۲۵، ۲۹، ۳۳; انكى ماں كا غم و اندوہ ۱۳; انكا غم و اندوہ ۲۲; انكى واپسى ۱۰، ۳۸; انكے امتحان كا متعدد ہونا ۲۷; انكا پيچھا كرنا ۳; انكى كفالت ۱۰، ۱۱; انكى خطا ۴۳; انكى بہن ۱، ۶; انكى بہن اور فرعون كے دربارى ۷; انكى بہن كى راز دارى ۹; انكے امتحان كا پيش خيمہ ۲۶; انكى تربيت

كا پيش خيمہ ۱۷;ان كے رشد و تكامل كا پيش خيمہ ۱۷;انكى مناجات كا پيش خيمہ ۳۵; انكى نبوت كا پيش خيمہ ۳۴، ۳۵، ۴۰; انكى بہن كى صفات ۹; انكى بہن كا علم ۲; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۱۹; انكى واپسى كے عوامل ۱۲; انكى ماں كے غم و اندوہ كے دور ہونے كے عوامل۱۴; انكى پريشانى كے عوامل ۱۹; انكے فضائل ۳۶; انكے امتحان كا فلسفہ ۳۴; انكى مشكلات كا فلسفہ ۳۴; انكى بہن كى پيشكش كا قبول ہونا ۸; انكا قتل كرنا ۱۸، ۲۲، ۴۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۴، ۱۸، ۲۰، ۲۵، ۲۷، ۲۸، ۳۲، ۳۳، ۴۰، ۴۲، ۴۳; انكا بچپن ۱۱; انكى نگرانى ۴; انكى جدائي كى مدت ۴۲; انكى نگرانى كى مشكلات ۵; انكى مشكلات ۲۸، ۲۹; انكى دايہ كى پہچان كرانا ۶، ۷، ۸; انكى ماں كا مقام ۱۵; آپ كوہ طور ميں ۳۵، ۳۸، ۴۱; آپ مدين ميں ۳۲، ۳۳، ۳۶، ۴۰; آپ نيل ميں ۲; آپكے ساتھ مہربانى ۴۱; آپكى نبوت ۳۶; آپكى نجات ۲۲، ۲۳، ۳۲; آپكى نعمتيں ۲۳، ۲۹; آپكى بہن كا كردار ادا كرنا ۱۲; آپكى ماں كا كردار ادا كرنا ۱۰، ۱۱; آپكى بہن كى پريشانى ۲، ۳; آپكى پريشانى ۲۲; آپكى بہن كى ہوشيارى ۹

نبوت:اسكے شرائط ۳۷

نعمت:اسكے درجے ۲۳; اسكى مشكلات ۳۰

۷۷

آیت ۴۱

( وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي )

اور ہم نے تم كو اپنے لئے منتخب كرليا (۴۱)

۱ _ حضرت موسي،(ع) خداتعالى كے پرورش يافتہ _اصطنعتك

''اصطناع'' يعنى تربيت كرنا اور با ادب بنانا (قاموس) اور لائق بنانے ميں مبالغے پر دلالت كرتا ہے (مفردات راغب) _

۲ _ حضرت موسى (ع) كا وجود راہ خدا كيلئے وقف _لنفسي ''تجھے ميں نے اپنے لئے بنايا'' مخاطب كو اپنے لئے خالص كرنے سے كنايہ ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى سرپرستى اور نگرانى انسانوں كے درميان احكام الہى كو عملى كرنے كيلئے تھا _واصطنعتك لنفسي ''لنفسي'' كى قيد بتائي ہے كہ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى اپنے اہداف كيلئے پرورش كى تھى اور اسے اپنے آسمانى احكام كو عملى كرنے كيلئے طاقتور بنايا تھا بعد والى آيت كريمہ كہ جو فرعون كى طرف جانے كا حكم دے رہى ہے اس معنى كى شاہد ہے _

۴ _ حضرت موسى (ع) ، كو بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام حاصل تھا اور آپ مكمل طور پر خدا تعالى كيلئے مخلص تھے _

و اصطنعتك لنفسي

۵ _ خداتعالى انبياء كى پرورش اور تربيت كرنے والا ہے_واصطنعتك لنفسي

۶ _ رسالت و نبوت كے لائق ہونا،خداتعالى كيلئے مكمل خلوص كے ساتھ مربوط ہے_و اصطنعتك لنفسي

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كے آخرى حصے كى تفسير ہے اور اس قد راور ميزان كو بيان كررہى ہے كہ جس كا انبياء كيلئے حاصل ہونا ضرورى ہے اور حضرت موسى (ع) اس مقام و مرتبے پر فائز ہوكر كوہ طور پر آئے تھے_

۷ _ حضرت موسى (ع) كا كامل اخلاص ان پر خداتعالى كى ايك نعمت _و اصطنعتك لنفسي

۷۸

ہوسكتا ہے اس آيت كريمہ كا عطف '' قتلت نفساً'' جيسے جملوں پر ہو كہ جو خداتعالى كى نعمتوں او راحسانات كو بيان كرر ہے ہيں _

اخلاص:اسكے اثرات ۶

انبياء (ع) :انكا تربيت كرنے والا ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت ۱، ۵

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى اہميت ۳

موسى (ع) ;انكا اخلاص ۴، ۷; انكى شخصيت ۲; انكے فضائل ۲، ۷; انكى تربيت كا فلسفہ ۳; انكى نگرانى كا فلسفہ ۳; انكى تربيت كرنے و الا ۱; انكا مقام ۴; انكى نعمتيں ۷_

نبوت:اسكى شرائط ۶

نعمت:اخلاص والى نعمت ۷

آیت ۴۳

( اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي )

اب تم اپنے بھائي كے ساتھ ميرى نشانياں لے كر جاؤ اور ميرى ياد ميں سستى نہ كرنا (۴۲)

۱ _ ہارون، حضرت موسى (ع) كے بھائي اور رسالت الہى كى انجام دہى ميں انكے شريك _

هرون ا خي إذهب ا نت و ا خوك

۲ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) معجزات و آيات الہى كے ساتھ اپنى رسالت كى انجام دہى كيلئے حركت كرنے پر ما مور _اذهب انت و اخوك بآيا تي

۳ _ حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) كا دين عالمى تھا اور كسى ايك گروہ كے ساتھ مخصوص نہيں تھا_

پہلى اور بعد والى آيات ميں فرعون كى طرف جانے كا تذكرہ ہے ليكن چونكہ اس آيت كريمہ نے رسالت كى تبليغ كيلئے كوئي خاص مورد معين نہيں كيا اس سے احتمال ہوتا ہے كہ حضرت موسى (ع) سب كيلئے ما مور تھے اور فرعون پيغام كے پہچانے كيلئے نقطہ آغاز تھا _

۷۹

۴ _ لوگوں كى طرف حركت كرنا اور ان ميں جانا تبليغ اور رسالت كيلئے لازمى ہے _إذهب إلي إذهب ا نت و ا خوك

ان چند آيات ميں كہ جو مورد بحث ہيں فعل ''اذہب'' كا تين دفعہ تكرار ہوا ہے_ خداتعالى كے اس حكم او رتاكيد سے پتا چلتا ہے كہ تبليغ دين كيلئے بيٹھنا اور لوگوں كے جمع ہونے كا انتظار كرنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ ان كے درميان جاكر دعوت الہى كا پرچم بلند كيا جائے_

۵ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) اپنى دعوت كو انجام دينے كيلئے متعدد معجزات كے حامل تھے _اذهب ...بآيا تي ''آيات''كو جمع كى صورت ميں لانا موسى (ع) و ہارون (ع) كو عطا كئے گئے معجزات و آيات كے متعدد ہونے كى نشانى ہے_ اس تعدد كى توجيہ ميں دو احتمال ہيں _ ۱_ عصا اور يد بيضا والے معجزے اگرچہ بطور كلى دو معجزے تھے ليكن يہ متعدد معجزوں پر مشتمل تھے كيونكہ عصا كا سانپ بننا، اس كا حركت كرنا اور پھر سانپ كا عصا بننا ہر ايك الگ سے معجزہ ہے ۲_ خداتعالى نے اس تعبير كے ساتھ حضرت موسى (ع) كو وعدہ ديا ہے كہ اس كے بعد بھى انہيں معجزات عطا كريگا_

۶ _ عصا اور يد بيضا والے معجزوں كے ہمراہ حضرت موسى (ع) كو ديگر معجزات عطا كرنا خداتعالى كا كوہ طور ميں ان كے ساتھ وعدہ _*بآيا تي باوجود اس كے كہ اس وقت تك حضرت موسى (ع) كو صرف دو معجزے عطا ہوئے تھے ''آيات'' كو جمع لانا ہوسكتا ہے خداتعالى كى طرف حضرت موسى (ع) كے ساتھ ديگر معجزات عطا كرنے كا ضمنى وعدہ ہو _

۷ _ معجزہ انبيا كى نبوت و رسالت كى حقانيت كو ثابت كرنے كاايك طريقہ_إذهب ا نت و ا خوك بآيا تي

۸ _ رسالت انبياء كى نشانياں اور معجزات،خداتعالى كى طرف سے ہيں _بآيا تي

۹ _ خداتعالى كو ياد كرنا اور اسكى بات كرنا موسى (ع) و ہارون (ع) كى دعوت كا محور اور نعرہ_ولاتنيا فى ذكري

۱۰ _ ياد خدا ،رسالت كى انجام د ہى اور پيغام پہنچانے ميں سستى نہ كرنا،خداتعالى كى طرف سے موسى (ع) و ہارون (ع) كو نصيحت _ولاتنيا فى ذكري ''وني'' كا معنى ہے سستى اور كوتاہى كرنا (مصباح) ''لاتينا'' يعنى اے موسى اور ہارون ميرى ياد ميں سستى اور كوتاہى مت كرنا_ اور خداتعالى كى ياد كا لازمہ ان ذمہ داريوں كى طرف توجہ ہے جو خداتعالى كى طرف سے انكے سپردكى گئي ہيں _

۱۱ _ ياد خدا ميں سنجيدگي، اسكى طرف سے سپردكى گئي ذمہ داريوں كى طرف مسلسل توجہ اور اس ميں سستى نہ كرنے كا لازمى ہونا_ولاتنيا فى ذكري

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

۸ _ ربوبيت ميں توحيد، خالقيت ميں توحيد كا لازمہ ہے_بل ربكم الذى فطرهن آيت كريمہ نے ربوبيت ميں خداتعالى كى توحيد كو ثابت كرنے كيلئے اسے كائنات كے خالق ہونے كى صفت كے ساتھ متصف كيا ہے اس توصيف كا مطلب يہ ہے كہ ربوبيت ميں توحيد اور خالقيت ميں توحيد كے درميان كبھى نہ ٹوٹنے والا تعلق موجود ہے_

۹ _ خداتعالى كا خالق كائنات ہونا اسكے انسان اور كائنات كا واحد رب ہونے كى دليل ہے_

قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

۱۰ _ مشركين كے بتوں اور معبودوں كا خالق نہ ہونا ان كے انسان كى عبادت اور تقديس كے لائق نہ ہونے كى دليل ہے_ما هذه التماثيل ...قال بل ربكم رب السموات و الأرض الذى فطرهن

حضرت ابراہيم (ع) نے مشركين اور بت پرستوں كے عقيدے كو باطل كرنے اور خداتعالى كيلئے توحيد ربوبى كو ثابت كرنے كيلئے اسكى خالقيت كے ساتھ تمسك كيا_ يہ بات اس حقيقت كى غماز ہے كہ صرف خالق كائنات تقديس و عبادت كے لائق ہے نہ كوئي اور چيز_

۱۱ _ دين كى طرف دعوت دينے ميں دليل و برہان سے استفادہ كرنا ضرورى ہے_ما هذه التماثيل ...قال بل ربكم ...الذى فطرهن

۱۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے اپنے توحيدى عقائد كى صحت پر گواہى دى اور اپنے آپ كو اس عقيدے كے نتايئج اور اثرات كا پابند اور متعہد قرار ديا_و انا على ذلكم من الشهدين

۱۳ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنے عقيدہ توحيد كو ثابت كرنے كيلئے واضح برہان اور قاطع حجت ركھتے تھے_و أنا على ذلكم من الشهدين بعض مفسرين كے بقول ممكن ہے حضرت ابراہيم(ع) كى شہادت اور گواہى سے مراديہ ہو كہ آپ واضح او رقانع كنندہ حجت و برہان كے حامل تھے_ اسى وجہ سے انہوں نے قاطعيت كے ساتھ اپنے آپ كو گواہ كے طور پر متعارف كرايا _

۱۴ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنے اعتقادى موقف ميں محكم ايمان اور انتہائي قاطعيت سے بہرہ مند تھے_

ربكم رب السموات و أنا على ذلكم من الشهدين

۳۸۱

حضرت ابراہيم(ع) كى طرف سے اپنى دعوت كے صدق كے گواہ ہونے اور عقيدہ توحيد كى صحت پر دليل و حجت پيش كرنے كيلئے آمادہ ہونے كا اعلان مذكورہ حقيقت پر دال ہے_

آسمان:اس كا متعدد ہونا ۳; اس كا خالق ۳; اس كا رب۱

ابراہيم(ع) :ان كا ايمان ۱۴; ان كے زمانے كے بت پرستوں كے خلاف مقابلہ ۵; انكى برہان ۱۳; ان كے مقابلہ ميں برہان ۵; ان كے فضائل ۱۴; انكى قاطعيت ۱۴; انكا قصہ ۵; انكى گواہى ۱۲; ان كے زمانے كے مشركين كے خلاف مقابلہ۵

انسان :اس كا خالق ۳; اس كا رب ۱

باطل معبود:ان كے تقدس كا رد كرنا ۱۰; انكى خالقيت كا رد كرنا ۱۰

بت:ان كے عاجز ہونے كے اثرات ۱۰

تبليغ:اس ميں برہان ۱۱

توحيد:خالقيت ميں توحيد كے اثرات ۸; توحيد ربوبى ۲; توحيد ربوبى كے دلائل ۹; توحيد ربوبى كا پيش خيمہ ۸; اسكى حقانيت كے گواہ ۱۲

خداتعالى :اس كا بغير نمونے كے خلق كرنا ۷; اسكى خالقيت ۳، ۹; اسكى ربوبيت ۱

زمين:اس كا خالق ۳; اس كا رب ۱

شرك:اسكے بطلان كے دلائل ۱۰

عالم خلقت:اس كا خالق ۳، ۹; اس كا رب۱

طبيعت:اسے بغير نمونے كے خلق كرنا ۷

عقيدہ:اس ميں برہان ۱۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى تاريخ ۴; اس كا شرك ربوبي۴; اس كا عقيدہ ۴

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۸

۳۸۲

آیت ۵۷

( وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ )

اور خدا كى قسم ميں تمھارے بتوں كے بارے ميں تمھارے چلے جانے كے بعد كوئي تدبير ضرور كروں گا (۵۷)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كى تأكيد كے ساتھ قسم كہ بت پرستوں كى عدم موجودگى ميں بتوں پر ضرب لگانے كيلئے حتما حيلہ اور تدبير كريں گے_وتالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولوا مدبرين

''كيد'' كا معنى ہے كسى پر ضرب لگانے كيلئے حيلہ اور تدبير كرنا_

۲ _ حق كے احيا، اور دوسروں كو ہدايت كرنے كے لئے مقدس نام ''الله '' كى قسم اٹھانا جائز ہے_و تالله لأكيدن

۳ _حضرت ابراہيم (ع) نے لوگوں كے عقيدے كى اصلاح و ہدايت كيلئے فكرى و علمى كام انجام دينے كے بعد بتوں اور بت پرستى كو نابود كرنے كا عزم كيا_لقد كنتم فى ضلل مبين ربكم رب السموات و تالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا مدبرين مذكورہ مطلب اس بات سے حاصل ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) نے بت پرستى كى مخالفت كے آغاز ميں اپنے باپ اور اپنى قوم كو مخاطب قرار ديا اور ان كے سامنے توحيد كے اثبات اور شرك كى نفى پر واضح دلائل پيش كئے پھر انہوں نے دوسرے مرحلے ميں بتوں كو نابود كرنے كى دھمكى دى اور آخر كار انہوں نے اپنى دھمكى كو عملى جامہ پہنايا اور تمام بتوں كو نابود كرديا_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) ، بت پرستى كے خلاف مقابلہ كرنے ميں عزم راسخ اور بڑى شجاعت كے مالك تھے_

تالله لأكيدن أصنامكم حضرت ابراہيم (ع) كے كلام كا ''تأ'' اور ''لام قسم'' كے ذريعے مؤكد ہونا ''تالله لأكيدن ...'' آپ كے عزم راسخ كى دليل ہے_ بت پرستوں كى موجودگى ميں _ كہ جس پر ''اصنامكم'' كا حرف خطاب ''كم'' اور فعل ''تولّوا'' كا مخاطب آنا دلالت كرتا ہے_ ايسے مؤكد كلام كا اظہار آپكى بڑى شجاعت كو بيان كر رہا ہے_

۵ _ بت پرستوں كے خلاف حضرت ابراہيم(ع) كے موقف اور مقابلہ كى روش اور كيفيت موجودہ حالات اور ان كى اپنى توانائيوں كے ساتھ متناسب تھي_

۳۸۳

تالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا مدبرين

حضرت ابراہيم (ع) كا بطور مخفى اور لوگوں كى عدم موجودگى ميں بتوں كو نابود كرنے كا عزم اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ وہ لوگوں كى موجودگى ميں اور آشكارا طور پر اس كام كو انجام دينے كى توانائي نہيں ركھتے تھے پس انكا مقابلہ اور مبارزہ ان كے حالات اور توانائيوں كے ساتھ متناسب تھا_

۶ _ قوم ابراہيم (ع) كے پاس بتوں كى پرستش كيلئے مخصوص جگہ اور عبادت گاہ تھي_لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا مدبرين قوم ابراہيم(ع) كے پشت كرنے اور چلے جانے سے مراد ممكن ہے بت خانے اور بتوں كے مركز اجتماع سے چلاجانا ہو يعنى جب تم بت خانے كى طرف پشت كروگے اور گھروں كو يا كہيں اور چلے جاؤگے تو ميں بتوں كے پاس آكر كوئي چارہ انديشى كروں گا اس كلام سے معلوم ہوتا ہے كہ قوم ابراہيم (ع) بتوں كى پرستش كيلئے خاص جگہ اور عبادت گاہ ركھتى تھي_

۷ _ امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ جب نمرودى لوگ ابراہيم (ع) سے دور اپنے مخصوص جشن كے مقام كى طرف چلے گئے تو آپ(ع) تيشہ ليكر بت خانہ ميں داخل ہوئے اور بڑے بت كے علاوہ سب بتوں كو توڑديا(۱)

ابراہيم (ع) :انكى بت شكنى ۱، ۳،۷; انكى تدبير، ۱; انكى قسم ۱; انكى شجاعت ۴; انكى شرك دشمنى ۳، ۴، ۷; ان كے فضائل ۴; انكى قاطعيت ۴; انكى قدرت ۵; انكا قصہ ۱، ۳، ۷; انكى شرك دشمنى كى خصوصيات ۵

احكام :۲روايت: ۷

قسم:اسكے احكام ۲; احيائے حق كيلئے قسم ۲; شرك دشمنى پر قسم ۱; الله كى قسم ۲;جائز قسم ۲

قوم ابراہيم(ع) :اس كا معبد ۶; اسكى ہدايت ۳

ہدايت:اسكى روش ۳

____________________

۱ ) كافى ح ۸ص ۳۶۹ ح ۵۵۹_ تفسير برہان ج۳ ص ۶۳ ح ۲_

۳۸۴

آیت ۵۸

( فَجَعَلَهُمْ جُذَاذاً إِلَّا كَبِيراً لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ )

پھر ابراہيم نے ان كے بڑے كے علاوہ سب كو چو رچور كرديا كہ شايد يہ لوگ پلٹ كر اس كے پاس آئيں (۵۸)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) نے لوگوں كى عدم موجودگى ميں اور جب وہ بتوں سے دور جاچكے تھے بتوں كو توڑديا_بعد أن تولّوا مدبرين_ فجعلهم جذاذ ''جذاذ'' فعال بہ معنى مفعول ہے اور يہ مادہ ''جذّ'' (توڑنا) سے ہے اور ''فجلعہم'' ميں فاء اہل لغت كے بقول فصيحہ ہے اور ايك جملے كے مقدر ہونے سے حاكى ہے اور يہ در حقيقت يوں تھا ''فولّوا فاتى إبراہيم الأصنام فجعلہم جذاذاً'' لوگوں نے بتوں كى طرف پشت كى پس ابراہيم (ع) ،بتوں كے پاس آئے اور انہيں توڑ ڈالا_

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے تمام بتوں كو توڑديا اور صرف بڑے بت كو صحيح و سالم چھوڑ ديا_فجعلهم جذاًذا إلا كبير

۳ _ قوم ابراہيم (ع) كے بت پرستوں كے نزديك بتوں كے مختلف درجے، مختلف مقام و مرتبے اور مختلف سائز تھے_

إلا كبيراً لهم بتوں كا بڑا ہونا بت پرستوں كے نزديك ان كے درجے اور مقام و مرتبے كے اعتبار سے بھى ہوسكتا ہے اور چھوٹے بڑے سائز كے لحاظ سے بھى ہوسكتا ہے_

۴ _ بت اور گناہ كے ديگر وسائل و آلات حرمت اور مالكيت سے ساقط ہيں اور انہيں توڑنا اور نابود كرنا جائز ہے_فجعلهم جذاذ مذكورہ مطلب حضرت ابراہيم (ع) كے بتوں كو توڑنے ، ان كے اس كام كى قسم اٹھانے اور نيز آيت شريفہ كے ايك طرح سے تائيد و تمجيد والے لحن سے حاصل ہوتا ہے_

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بڑے بت كو باقى ركھنا بت پرستوں كے اسكى طرف رجوع كرنے اور بتوں كے عجز كو درك كرنے كيلئے تھا_فجعلهم جذاذاً إلا كبيراً لهم لعلهم إليه يرجعون

۳۸۵

۶ _ حضرت ابراہيم (ع) كا بتوں كو توڑنا اور بڑے بت كو صحيح و سالم رہنے دينا لوگوں كى توجہ كو جذب كرنے اور انہيں بت پرستى كے بطلان كى طرف متوجہ كرنے كيلئے، آپ كى طرف سے ايك تدبير تھي_و تالله لأكيدن أصنامكم فجعلهم جذاذاً إلا كبيراً لهم لعلهم إليه يرجعون ''فجعلہم'' ميں ''فائ'' يا ترتيب كيلئے اور يا تعقيب كيلئے ہے دونوں صورتوں ميں يہ اس بات كو بيان ذكررہى ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كا عمل اسى حيلے اور تدبير كا مصداق تھا كہ جس پر انہوں نے قسم كھائي تھي_

ابراہيم (ع) :انكى بت شكنى ۱، ۲; انكى تبليغ كى روش۶; انكى شرك دشمنى كى روش ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۵، ۶

احكام :۴

بت :ان كے احكام ۴; انكى بے احترامى ۴; انكا عاجز ہونا ۵; انكى مالكيت ۴

بت پرستي:اسكے خلاف مقابلہ ۶

بت شكني:اس كا جواز ۴

قوم ابراہيم (ع) :اس كا بڑا بت ۲; اسكى تاريخ ۳; اسكے بڑے بت كو باقى ركھتے كا فلسفہ ۵، ۶; اسكے بتوں كے درجے ۳

مالك ہونا:اسكے احكام ۴

آیت ۵۹

( قَالُوا مَن فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہمارے خداؤں كے ساتھ برتاؤ كس نے كيا ہے وہ يقينا ظالمين ميں سے ہے (۵۹)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں بتوں كے ٹوٹنے كے بعد بت پرست ايك دوسرے سے ان كے توڑنے والے كے بارے ميں تحقيق كرنے لگے_فجعلهم جذاذا قالوا من فعل هذا بألهتن

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من'' اسم استفہام ہو_

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے لوگوں كى عدم موجودگى ميں بتوں كو توڑديا اور كسى كو خبر تك نہ ہوئي_

قالوا من فعل هذا بألهتن بت پرستوں كا بتوں كو توڑنے والے كے بارے ميں ايك دوسرے سے سوال اور تحقيق كرنا نيز ان ميں سے بعض كا يہ جواب دينا كہ ابراہيم (ع) بتوں كو بڑابھلا كہتے تھے (فتيً يذكر ہم) بجائے اسكے كہ كہيں ہم نے ديكھا ہے انہيں كس نے توڑا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۳۸۶

۳ _ بتوں كو ٹوٹا ہوا ديكھنے كے بعد قوم ابراہيم(ع) نے انكى عاجزى اور ناتوانى كو درك كرليا _إلا كبيراً إليه يرجعون قالوا من فعل هذا بألهتن چونكہ قوم ابراہيم(ع) نے بتوں كو مورد سوال قرار نہيں ديا اور ان كے علاوہ كسى اور عامل كى تلاش ميں تھے اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے بالخصوص اگر ''إليہ'' كى ضمير كا مرجع ''كبيراً'' (بڑا بت) ہے_

۴ _ قوم ابراہيم(ع) بتوں كو اپنے معبود سمجھتى تھى اور انكى عبادت كرتى تھي_لأكيدن أصنامكم قالوا من فعل هذا بألهتن ''الہ'' كا معنى ہے معبود اور سكى جمع ''آلہة'' كا معنى ہے كئي معبود _

۵ _ قوم ابراہيم(ع) ،متعدد معبودوں كا عقيدہ ركھتى تھى اور اس كے پاس كئي بت تھے_

ما هذه التماثيل لأكيدن أصنامكم من فعل هذا بألهتن

۶ _ قوم ابراہيم كا بتكدہ اور معبد نگہبان نہيں ركھتا تھا_فجعلهم جذاذاً قالوا من فعل هذا بألهتن

چونكہ حضرت ابراہيم(ع) كے مقابلے ميں كوئي دفاع سامنے نہيں آيا اور مشركين كو بتوں كو توڑنے والے كى اطلاع نہيں ہوئي اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۷ _ حضرت ابراہيم (ع) ، بتوں كو توڑنے كى وجہ سے اپنى قوم كى نظر ميں ظالم اور ستمگر تھے_قالوا من فعل هذا بألهتنا إنه لمن الظالمين

۸ _ قوم ابراہيم(ع) اپنے ٹوٹے ہوئے بتوں كو ديكھ كر سيخ پاہوگئي_قالوا من فعل هذا بألهتنا إنه لمن الظالمين

۹ _ بتوں كو نقصان پہنچانا، حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كى نظر ميں بڑا ظلم اور ناقابل بخشش گناہ تھا_قالوا من فعل هذا بألهتنا إنه لمن الظالمين ظالم اور ستمگر اسے كہتے ہيں جو بار بار ظلم كرے بنابر اين بت پرستوں كا حضرت ابراہيم (ع) كو ستمگر كہنا جبكہ وہ صرف ايك بار بتوں كے درپے ہوئے تھے اس نكتے كو بيان كرتا ہے كہ بتوں كے درپے ہونا بت پرستوں كى نظر ميں بڑا ظلم شمار ہوتا تھا_

ابراہيم (ع) :يہ اور ظلم ۷; انكى بت شكنى ۲، ۸; ابراہيم (ع) بت شكن كا قصہ ۱; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۷

بت :انكى اہانت ۹; انكا عاجز ہونا ۳

قوم ابراہيم(ع) :

۳۸۷

اس كا اقرار ۳; اسكى بت پرستى ۴، ۵; اس ميں بت شكنى ۹; اسكى سوچ ۷، ۹; اس كا سوال ۱; اسكى تاريخ ۴، ۵، ۸، ۹; اسكے بتوں كا متعدد ہونا ۵; اس كا شرك ۵; اس ميں ظلم ۹; اس كا عقيدہ ۴; اس كا غضب ۸; اس ميں گناہ ۹; اسكے معبد كى خصوصيات ۶

آیت ۶۰

( قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ )

لوگوں نے بتايا كہ ايك جوان ہے جو ان كا ذكر كيا كرتا ہے اور اسے ابراہيم كہا جاتا ہے (۶۰)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنى قوم كى نظر ميں بتوں كو ٹوڑنے كے سلسلے ميں مشكوك تھے_قالوا سمعنا فتيً يذكر هم يقال له إبراهيم

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) نے جوانى ميں بتوں كو توڑا اور بت پرستى كے خلاف جنگ كا آغاز كيا_قالوا سمعنا فتيً يذكر هم

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كے خلاف چارہ انديشى اور حيلہ كرنے كا اپنا عزم بعض بت پرستوں كے سامنے ظاہر كياتھا_ما هذه التماثيل قالوا سمعنا فتيً يذكرهم

بت پرستوں نے جو يہ كہا ''ہم نے سنا ہے كہ ابراہيم(ع) بتوں كو برا بھلا كہتے ہيں '' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انہوں نے يہ باتيں بلا واسطہ طور پر ان سے نہيں سنى تھيں دوسرى طرف ايك گروہ ايسا تھا كہ جس نے بلاواسطہ طور پر ابراہيم (ع) كى دھمكى آميز باتيں سنى تھيں اور انہيں دوسروں تك نقل كيا تھا_ پچھلى دو آيتيں (تالله لأكيدن أصنامكم بعد أن تولّوا ...) كہ جس ميں ''أصنامكم'' كا خطاب مخاطب حاضر كيلئے ہے اسى مطلب كى مؤيد ہيں _

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) اپنى قوم كى نظر ميں معاشرے ميں كوئي ممتاز حيثيت نہيں ركھتے تھے اور اپنى قوم كى طرف سے مورد تحقير قرار پاتے_سمعنا فتيً يذكرهم يقال له إبراهيم

بت پرستوں كا حضرت ابراہيم (ع) كو جو ان كہنا ممكن ہے ان كى ناپختگى اور كم تجربہ ہونے كى طرف تعريض ہونہ كہ واقعا وہ عمر كے لحاظ سے جوان تھے اور ''يقال لہ إبراہيم'' كى تعبير كو بھى ايك طرح سے انكى تحقير اور جانا پہچانا نہ ہونا شمار كيا جاسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :

۳۸۸

انكى بت شكنى ۱، ۲; انكى تحقير۴; انكى تدبير ۳; انكى جوانى ۲; انكا قصہ ۱، ۲، ۳; انكى معاشرتى حيثيت ۴

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۴

بت پرست لوگ:يہ اور ابراہيم (ع) كى بت شكنى ۳

قوم ابراہيم (ع) :انكى سوچ۴; انكا گمان ۱

آیت ۶۱

( قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اسے لوگوں كے سامنے لے آؤ شايد لوگ گواہى دے سكيں (۶۱)

۱ _ بت پرست بتوں كو توڑنے والے كو كشف كرنے كى خاطر حضرت ا براہيم (ع) كو حاضر كرنے اور ان سے كھلم كھلا بازپرسى كے خواہاں _قالوا فأتوا به على أعين الناس

۲ _ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم (ع) كو لوگوں كى طرف سے ان كے مجرم ہونے كى گواہى دينے كيلئے حاضر كيا_

فأتوا به لعلهم يشهدون

۳ _ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم (ع) كو اسلئے حاضر كيا تا كہ ان كى بت شكنى كى سزا عام لوگوں كو دكھائي جاسكے_

فأتوا به لعلهم يشهدون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''يشہدون'' ،''يحضرون'' (حاضر ہوں ) كے معنى ميں ہو اس احتمال كى بنياد پر آيت كے مورد كى مناسبت سے لوگوں كے حاضر ہونے سے مقصود ان كا حضرت ابراہيم (ع) كى سزا كو ديكھنے كيلئے حاضر ہونا ہوگا_

۴ _ گواہى دينا، قوم ابراہيم (ع) ميں جرم كے ثابت كرنے كا ذريعہ تھا_فأتوا به لعلهم يشهدون

ابراہيم (ع) :ان سے آشكارا تفتيش۱; انكى تفتيش كى درخواست۱; ان كے حاضر كرنے كا فلسفہ ۲، ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳;

۳۸۹

انكى بت شكنى كى سزا ۳; انكے خلاف گواہى ۲

جرائم:اثبات جرم كى ادلہ ۴

قوم ابراہيم (ع) :مشار اليہ حضرت ابراہيم (ع) كا عمل (بتوں كو توڑنا)

اسكے مطالبے ۱; اس ميں گواہى ۴

گواہي:اسكے اثرات ۴

آیت ۶۲

( قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ )

پھر ان لوگوں نے ابراہيم سے كہا كہ كيا تم نے ہمارے خداؤں كے ساتھ يہ برتاؤ كيا ہے (۶۲)

۱ _ بت پرست، حضرت ابراہيم (ع) كو بتوں كا توڑنے والا سمجھتے تھے_قالواء ا نت فعلت هذا بألهتنا يا إبراهيم

۲ _ بت پرستوں نے حضرت ابراہيم(ع) سے بتوں كو توڑنے كا اعتراف لينے كيلئے ان سے تفتيش كى _

قالوا ء ا نت فعلت هذا بألهتنا يا إبراهيم ''انت'' ميں استفہام تقريرى او رمخاطب سے اعتراف لينے كيلئے ہے يعنى بت پرست جانتے تھے كہ حضرت ابراہيم(ع) بتوں كو توڑنے والے ہيں ليكن ان سے اعتراف لينے كيلئے انہوں نے كہا''أنت فعلت'' _

۳ _ قوم ابراہيم (ع) كا بتكدہ حضرت ابراہيم (ع) سے تفتيش اور ان كے خلاف عدالتى كا روائي كا مركز _*

قالوا ء ا نت فعلت هذابألهتنا يا إبراهيم ''ہذا'' قريب كى طرف اشارہ ہے اور اس كا ہے اس سے استفادہ كيا جاسكتا ہے كہ آپ كے خلاف كاروائي كا مركز خود بتكدہ يا اسكے قريب تھا_

۴ _ سب لوگوں كے سامنے ملزمين اور مجرمين سے اعتراف لينا حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كے درميان كاروائي كرنے اور سزا دينے كى ايك روش_قالوا فأتوا بها على أعين الناس قالوا ء ا نت فعلت هذابألهتنا إبراهيم

ابراہيم (ع) :ان كا اقرار ۲; ان كى بت شكنى ۱; ان كى تفتيش كا فلسفہ ۲; انكا قصہ ۱، ۲; انكى تفتيش كا امكان ۳

قوم ابراہيم(ع) :اسكى سوچ ۱; اس كا معبد ۳

۳۹۰

ملزم:اس سے اقرار لينا۴

عدالتى نظام:يہ حضرت ابراہيم (ع) كے زمانے ميں ۴

آیت ۶۳

( قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ )

ابراہيم نے كہا كہ يہ ان كے بڑے نے كيا ہے تم ان سے دريافت كر كے ديكھو اگر يہ بول سكيں (۶۳)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كو توڑنے والے كے بارے ميں كئے گئے سوال كے جواب ميں پہلے بتوں كو توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت دي_قال بل فعله كبيرهم

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے بتوں كے توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت دينا بت پرستوں كے بت پرستى والے عقيدے كے بطلان كى طرف متوجہ ہونے كا پيش خيمہ تھا نہ آپ كى طرف سے جھوٹى نسبت_قال بل فعله كبيرهم

حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كے توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت ديكر نہ فقط جھوٹ نہيں بولا بلكہ ايك بليغ اشارے كے ساتھ ماجرا كى حقيقت بھى بيان كردى كيونكہ حضرت ابراہيم (ع) نے جملہ ''فسئلوہم ...'' كے ذريعے بت پرستوں كو يہ سمجھانا چاہا كہ بت تو بات كرنے سے عاجز ہيں چہ جائيكہ بتوں كو توڑنا پس مان لينا چاہے كہ عاجز معبود پرستش كے لائق نہيں ہے_ قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت (يہ كہ بت پرست حضرت ابراہيم (ع) كا جواب سمجھ كر متوجہ اور خبردار ہوگئے) مذكورہ مطلب كى مؤيد ہے_

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) نے ايك عالمانہ طريقے سے بت پرستوں سے چاہا كہ وہ بتوں كے توڑنے والے كے بارے ميں خود بتوں سے باز پرس كريں _فسئلوهم إن كانوا ينطقون

حضرت ابراہيم (ع) نے بتوں كے توڑنے كو بڑے بت كى طرف نسبت ديكر اور بت پرستوں سے يہ درخواست كر كے كہ بت شكن كو پہچاننے كيلئے وہ خود بتوں سے باز پرس كريں _ بت پرستى كے خلاف مقابلہ ميں عالمانہ روش اختيار كى كيونكہ اس طريقے سے بت پرستوں نے اپنے راستے كے باطل ہونے كو آسانى سے پاليا جيسا كہ بعد والى آيت (فرجعوا إلى انفسہم ...) اسى

۳۹۱

حقيقت كو بيان كررہى ہے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بت پرستوں سے خود بتوں سے تفتيش كرنے كى درخواست كركے بتوں كے عجز و ناتوانى كو ان كيلئے ظاہر كرديا_فسئلوهم إن كانوا ينطقون

۵ _ بت حتى بت پرستوں كى نظر ميں بھى بولنے اور گفتگو كرنے سے عاجز ہيں _فسئلوهم إن كانوا ينطقون

۶ _''عن الصادق(ع) : والله ما فعله كبيرهم و ما كذب إبراهيم فقيل: و كيف ذلك؟ قال: إنما قال: فعله كبيرهم هذاأن نطق و ان لم ينطق فلم يفعل كبير هم هذا شيئاً ; امام صادق (ع) سے روايت ہے: قسم بخدا بڑے بت نے وہ كام نہيں كيا تھا اور ابراہيم (ع) نے بھى جھوٹ نہيں بولا تھا_ امام صادق (ع) سے كہا گيا يہ كيسے ممكن ہے(جبكہ خود ابراہيم (ع) نے كہا تھا كہ يہ كام بڑے بت نے كيا ہے) تو آپ(ع) نے فرمايا ابراہيم (ع) نے كہا تھا اگر بڑا بت بات كرے تو اس نے يہ كام كيا ہے اور اگر بات نہ كرے تو بڑے بت نے كوئي كام نہيں كيا_

۷ _'' عن عبدالله (ع) : إن الله ا حب الكذب فى الإصلاح انّ ابراهيم (ع) إنّما قال:''بل فعله كبيرهم هذا'' ارادة الإصلاح و دلالة على ا نهم لا يفعلون .; امام صادق (ع) سے روايت ہے خداتعالي اصلاح كى خاطر جھوٹ بولنے كو دوست ركھتا ہے جب ابراہيم(ع) نے كہا''بل فعله كبيرهم هذا'' تو انكى غرض (لوگوں كي) اصلاح اور راہنمائي تھى تا كہ وہ (سمجھ جائيں ) كہ بت كوئي كام انجام نہيں دے سكتے(۲)

ابراہيم (ع) :ان كے جواب كے اثرات ۲; يہ اور جھوٹ ۶، ۷; انكے قصے كا بت شكن ۳; ان كا جواب ۱; ان كے پيش آنے كى روش ۳; انكى تبليغ كى روش ۴; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴

بت:يہ اور بات كرنا ۵; ان سے سوال ۳; انكا عاجز ہونا ۵/بت پرست لوگ:ان كى سوچ ۵

جھوٹ:جائز جھوٹ ۷; مصلحت والا جھوٹ ۷

روايت ۶، ۷قوم ابراہيم (ع) :ان كے بڑے بت سے تفتيش ۴; اسكے متنبہ ہونے كا پيش خيمہ ۲; اس كے بتوں كا عاجز ہونا۴; اسكے بتوں كا كردار ۱، ۶

____________________

۱ ) تفسير قمى ج۲ ص ۷۲; نورالثقلين ج۳ ص ۴۳۱ ح ۷۹_/ ۲ ) كافى ج ۲ ص ۳۴۲ ح ۱۷; نورالثقلين ج۳ ص ۴۳۴ ح ۸۵ و ۸۶_

۳۹۲

آیت ۶۴

( فَرَجَعُوا إِلَى أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ )

اس پر ان لوگوں نے اپنے دلوں كى طرف رجوع كيا اور آپس ميں كہنے لگے كہ يقينا تم ہى لوگ ظالم ہو (۶۴)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم اس بات سے آگاہ ہونے كے بعد كہ بت بات كرنے سے عاجز ہيں كچھ متوجہ ہوئے اور اپنے عقيدے كے بارے ميں سوچ و بيچار كرنے لگے_فرجعوا إلى أنفسهم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''فرجعوا إلى أنفسهم'' سے مراد بت پرستوں ميں سے ہر ايك كا اپنے ضمير كى طرف رجوع كرنا اور غور و فكر كرنا ہو_

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم اس بات سے آگاہ ہونے كے بعد كہ بت بات كرنے سے عاجز ہيں ايك دوسرے كے پاس آكر آپس ميں ايك دوسرے كى مذمت كرنے لگي_فرجعوا إلى أنفسهم فقالوا إنكم أنتم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''أنفسہم'' سے مقصود بت پرستوں كا آپس ميں ايك دوسرے كى طرف رجوع كرنا ہو اس طرح وہ ايك دوسرے كو مخاطب كر كے(فقالوا إنكم أنتم ...) آپس ميں ايك دوسرے كى مذمت كرنے لگے_

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كا شرك كے بطلان پر استدلال اور بت پرستى كے ساتھ مقابلہ ميں انكى روش نے انكى پورى قوم پر مكمل اثر كيا_قال بل فعله كبيرهم فرجعوا إلى ا نفسهم فقالوا إنكم أنتم الظالمون

اس بات كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پورى قوم نے فورى طور پر اپنى گمراہى كا اعتراف كرليا حضرت ابراہيم (ع) كے استدلال كے قوى ہونے اور ان كى دعوت كى روش كے مكمل طور پر اثر كرنے كا اندازہ ہوتا ہے_

۴ _ قوم ابراہيم(ع) كے بت پرستوں نے اپنے ظلم اور حضرت ابراہيم(ع) كے اس سے برى ہونے كا اعتراف كيا_

فقالو إنكم أنتم الظالمون ضمير منفصل ''أنتم'' ،''كم'' كيلئے تأكيد ہے اور جملہ ''إنكم أنتم ...'' حصر پر دلالت كرتا ہے يہ

۳۹۳

حصر حصر اضافى ہے يعنى فقط تم ظالم ہو نہ ابراہيم(ع) _

۵ _ بت پرستى اور شرك، فطرت انسانى كى نظر ميں ظلم و ستم ہے_فرجعوا إلى أنفسهم فقالوا إنكم أنتم الظالمون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''انفسہم'' سے مراد اپنى طرف رجوع كرنا اور ضمير و وجدان ہو_

۶ _ حضرت ابراہيم (ع) نے بت پرستى كے خلاف مبارزت اور توحيد كے اثبات كيلئے فن نمائش (اداكاري) سے استفادہ كيا_فجعلهم جذاذاً إلا كبيراً لهم قال بل فعله كبيرهم هذا فسئلوهم فقالوا إنكم أنتم الظالمون

۷ _ تبليغ دين ميں فن نمائش سے استفادہ كرنا شائستہ اور كامياب طريقہ ہے_فجعلهم جذاذاً الا كبيراً لهم قال بل فعله كبيرهم هذا فسئلوهم فقالوا إنكم ا نتم الظالمون حضرت ابراہيم (ع) نے اپنى تبليغ ميں فن نمائش سے استفادہ كيا اور اپنے ہدف كو پاليا اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۸ _ شرك اور بت پرستى انسان كے اپنے آپ سے بيگانہ ہونے كا واضح مصداق ہے_ا نت فعلت هذا بألهتنا فرجعوا إلى ا نفسهم فقالو إنكم ا نتم الظالمون چونكہ بت پرستوں نے اپنى طرف واپس پلٹنے اور متنبہ ہونے كے بعد شرك كے بطلان كو درك كرليا اس كا مطلب يہ ہے كہ بت پرست لوگ اپنے آپ سے بيگانہ ہيں _

۹ _ اپنے كو پالينا اور ضمير كى طرف رجوع كرنا حقائق كے اعتراف كيلئے اسباب فراہم كرتا ہے _فرجعوا إلى ا نفسهم فقالوا إنكم ا نتم الظالمون چونكہ بت پرستوں نے اپنے كو پالينے اور اپنے ضمير كى طرف رجوع كرنے كے بعد شرك كے بطلان اور توحيد كى سچائي كو درك كرليا اس سے مذكورہ مطلب كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۱۰ _ ظلم كا برا اور ناپسنديدہ ہونا سب انسانوں كيلئے قابل درك اور قابل قبول ہے_فقالوا إنكم ا نتم الظالمون

مذكورہ مطلب اس نكتے كى طرف توجہ كرنے سے حاصل ہوتا ہے كہ قوم ابراہيم (ع) باوجود اسكے كہ الہى شريعتوں ميں سے كسى خاص شريعت كا اعتقاد نہيں ركھتى تھى ليكن پھر بھى اس نے ظلم كے قبيح ہونے كو مسلم ليا_

ابراہيم (ع) :ان كے استدلال كے اثرات ۳; يہ اور ظلم ۴; انہيں برى الزمہ كرنا ۴; انكى تبليغ كى روش ۳، ۴; انكے مقابلے كى روش ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴; انكا فن ۶

اقرار:ظلم كا اقرار ۴; حق كے اقرار كا پيش خيمہ ۹

۳۹۴

انسان :اسكے فطرى امور ۵

بت:يہ اور بات كرنا ۱; انكا عاجز ہونا ۱، ۲

بت پرستي:اسكے اثرات ۷; اس كا ظلم ہونا ۵

تبليغ:اسكى روش ۷; اس ميں ہنر ۷

خود:خود كو باور ى اثرات ۹; خود كى سرزنش ۲; خود سے بيگانہ ہونے كے عوامل ۸

شرك:اسكے اثرات ۸; اس كا ظلم ہونا ۵

ظلم:اسكے موارد ۵; اسكے ناپسنديدہ ہونے كا واضح ہونا ۱۰

قوم ابراہيم:اسكے افراد ۴; اسكى تاريخ ۱; اس كا متنبہ ہونا ۱، ۲، ۳; اسكى سرزنش ۲; اسكے تفكر كے عوامل ۱

ضمير:اسكا كردار ۹

فن:فن نمائش كا كردار ۶، ۷

آیت ۶۵

( ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُؤُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاء يَنطِقُونَ )

اس كے بعد ان كے سر شرم سے جھكا ديئے گئے اور كہنے لگے ابراہيم تمھيں تو معلوم ہے كہ يہ بولنے والے نہيں ہيں (۶۵)

۱ _شرك كے بطلان پر حضرت ابراہيم (ع) كے مستحكم استدلال كے مقابلے ميں بت پرستوں نے شرمندہ ہوكر سر جھكالئے_ثم نكسوا على رؤسهم

''نكس'' كا معنى ہے كسى شے كے اوپر والے حصے كو نيچے كى طرف پلٹانا اور اسے برعكس كرنا جملہ ''نكسوا على رؤسہم'' تمثيل (معقول كي محسوس كے ساتھ تشبيہ) اور ان لوگوں سے كنايہ ہے كہ جن كے سر زيادہ شرمندگى كى وجہ سے ان كے بدن كى نچلى جانب كى طرف ہوں _

۲ _ بت پرست،شرك كے بطلان پر حضرت ابراہيم (ع) كے محكم استدلال سے قانع ہونے كے باوجود دوبارہ اپنے شرك آميز عقيدے كا دفاع كرنے لگے_مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ اوپر اور نيچے ہونا كہ جو كنايہ والے جملے (ثم نكسوا على رؤسهم ) ميں موجود ہے

۳۹۵

اس سے مراد بت پرستوں كے اعتقادى موقف اور عقائد كا اوپر اور نيچے ہونا ہو يعنى ابتداء ميں تو انہوں نے حضرت ابراہيم (ع) كے استدلال كے نتيجے ميں شرك كے بطلان كو درك كرليا ليكن پھر وہ اپنے سابقہ عقيدے پر پلٹ گئے اور دوبارہ اس كا دفاع كرنے لگے_

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كا شرك وبت پرستى كو دوبارہ اپناكر اپنى شخصيت كو تبديل كرنا_

فقالوا إنكم ا نتم الظالمون_ ثم نكسوا على رؤسهم مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ (ثم نكسوا على رؤسہم ) ميں اوپر نيچے ہونے سے مراد بت پرستوں كے عقيدہ كا تبديل ہونا ہو اس بناپر ايسى تبديلى كو انسان كے برعكس ہونے سے تشبيہ دينا ہوسكتا ہے بت پرستوں كى شخصيت كى بنيادى تبديلى سے كنايہ ہو كہ جسكے نتيجے ميں ان كے عقائد بھى تبديل ہوگئے_

۴ _ توحيد سے منہ موڑ كر شرك كى طرف مائل ہونا انسان كى حقيقت اور شخصيت كى تبديلى اور پچھلے قدموں لوٹنا ہے_

فقالوا إنكم ا نتم الظالمون_ ثم نكسوا على رؤسهم

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم كا يہ اعتراف كہ بت نطق، كلام اور علم و عقل سے بے بہرہ ہيں _

لقد علمت ما هؤلا ينطقون

۶ _ بت پرستوں نے شرك كے بطلان پر حضرت ابراہيم (ع) كے استدلال كو نادرست قرار ديا اور انہيں بتوں كو توڑنے كى وجہ سے مجرم ٹھہرايا_فسئلوهم إن كانوا ينطقون ...ثم نكسوا على رؤسهم لقد علمت ما هؤلاء ينطقون

حضرت ابراہيم (ع) كے كلام'' فسئلوهم ان كانوا ينطقون'' كا جواب جملہ (لقد علمت ما هؤلاء ينطقون )ہے يعنى تجھے پتا ہے كہ بت بات كرنے سے عاجز ہيں پس كيوں ہميں بتوں سے سوال كرنے كا كہہ رہے ہے لامحالہ تيرا يہ سوال بت شكنى كى تہمت سے فرار كيلئے ہے_

ابراہيم (ع) :ان كے استدلال كے اثرات ۱، ۲; انكا استدلال ۶; انكى بت شكنى ۶; ان كى شرك دشمنى ۶; انكا قصہ ۱، ۶

واپس پلٹنا:اسكے موارد ۴

بت:يہ اور بات كرنا۵; انكا عاجز ہونا ۵

توحيد:اس سے منہ موڑنا ۴

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۴; اسكى تغيير كے عوامل ۴

قوم ابراہيم (ع) :

۳۹۶

اس كا مرتد ہونا۴; اس كا اقرار ۵; اسكى سوچ۶; اسكى تاريخ ۲، ۳; اسكى شخصيت كى تبديلى ۳; اس كا خبردار ہونا۱; اسكى شرمندگى ۱، اس كا شرك ۲، ۳; اس كا ليچڑين ۲

آیت ۶۶

( قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئاً وَلَا يَضُرُّكُمْ )

ابراہيم نے كہا كہ پھر خدا كو چھوڑ كر ايسے خداؤں كى عبادت كيوں كرتے ہو جو نہ كوئي فائدہ پہنچاسكتے ہيں اور نہ نقصان (۶۶)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) نے خدائے يكتا كے غير كى عبادت كى وجہ سے اپنى قوم كى مذمت كي_قال ا فتعبدون من دون الله ''ا فتعبدون'' كا ہمزہ استفہام انكارى توبيخى كيلئے ہے_

۲ _ قوم ابراہيم (ع) ان چيزوں كى عبادت كرتى تھى جو اسے نہ كوئي نفع پہنچاسكتى تھيں اور نہ نقصان_

قال ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئاً و لا يضركم

۳ _ نفع و نقصان صرف خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے_ا فتعبدون من دو ن الله ما لا ينفعكم شيئاً و لا يضركم

اس حقيقت كا بيان كرنا كہ معبود انسانوں كو كوئي نفع و نقصان نہيں پہنچاسكتے ہوسكتا ہے اس نكتے كى طرف اشارہ اور تعريض ہو كہ نفع و نقصان صرف خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) نے توحيد كے اثبات اور شرك كے بطلان كيلئے بت پرستوں كو بتوں كى ناتوانى سے آگاہ كرنے اور ان سے اس حقيقت كا اعتراف لينے كى روش سے استفادہ كيا_فسئلوهم إن كانوا ينطقون ...لقد علمت ما هؤلاء ينطقون قال ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئاًو لا يضركم

۵ _لوگوں كو دين دارى كے سودمند ہونے اور بے دينى كے نقصان دہ ہو نے سے آ گاہ كرنا دين كى تبليغ اور انسانوں كى ہدايت ميں ايك پسنديدہ اور مفيد روش

۳۹۷

ہے _قال ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئًا و لا يضركم

۶ _عبادت خدا كے منافع كو حاصل كرنے اور ترك عبادت كے نقصانات سے بچنے كيلئے عبادت كرنے كاجواز_

ا فتعبدون من دون الله مالا ينفعكم شيئاً ولا يضركم

حضرت ابراہيم (ع) نے شرك كے بطلان كو ثابت كرنے كيلئے غيرخدا كى عبادت كے لا حاصل ہونے كو دليل بنايا اس حقيقت كے بيان سے اس بات كا استفادہ كيا جا سكتا ہے كہ ہر معبود كى عبادت كا انسان كيلئے كوئي فائدہ ہونا ضرورى ہے اور انسان اس فائدے كے پيش نظر خداتعالى كى عبادت كرسكتا ہے_

ابراہيم (ع) :انكى تبليغ كى روش۴; انكى شرك دشمنى كى روش ۴; انكى طرف سے مذمت ۱; انكا قصہ ۱، ۴

احكام ۶

بت:انكا عاجز ہونا ۴

تبليغ:اسكى روش ۵

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۳

دين:بے د ينى كے نقصان كا اعلان ۵

دينداري:اسكے منافع كا اعلان ۵

نقصان:اس كا سرچشمہ ۳

نفع:اس كا سرچشمہ ۳

عبادت:عبادت خدا كے احكام ۶; مادى مفادات كيلئے عبادت ۶

قوم ابراہيم:اسكے بت پرستوں كا متنبہ ہونا ۴; اسكى سرزنش ۱; اس كا شرك ۱; اسكے بتوں كا عاجز ہونا ۲

ہدايت:اسكى روش ۵

۳۹۸

۴۳۲ تا ۴۳۶

( أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) (٦٧)

( قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ) (٦٨)

( قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْداً وَسَلَاماً عَلَى إِبْرَاهِيمَ ) (٦٩)

۳۹۹

آیت ۷۰

( وَأَرَادُوا بِهِ كَيْداً فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ )

اور ان لوگوں نے ايك مكر كا ارادہ كيا تھا تو ہم نے بھى انھيں خسارہ والا اور ناكام قرار ديديا (۷۰)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے خلاف بت پرستوں كى سازش اور فريب كارى نا كام رہي_و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) كے خلاف بت پرستوں كى سازش اور نيرنگ خود ان كے مكمل نقصان اور خسارت كا عامل بنا_

و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كو آگ ميں پھينكے جانے كے علاوہ بت پرستوں كى ايك اور سازش اور نيرنگ كا بھى سامنا كرنا پڑا _و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''كيداً'' سے مراد آگ ميں پھينكنے كے علاوہ كوئي نيا نيرنگ ہو كيونكہ ''كيد'' كے معنى ميں خفيہ ہونا بھى ہے جبكہ آگ ميں پھينكنا تو ايك آشكارا عمل تھا نہ مخفى اسكے علاوہ ''أرادو'' يعنى انہوں نے ارادہ كيا اور چاہا (نہ اسے عملى كيا) كى تعبير اسى دعوت كى تائيد كرتى ہے قابل ذكر ہے كہ ''كيدًا'' كى تنوين تعظيم و تفخيم كيلئے ہے_ اس صورت ميں يہ نيرنگ كے بڑے ہونے كو بيان كررہى ہے_

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كى بت پرست قوم، كائنات كى سب سے زيادہ خسارة والى قوم تھي_فجعلنهم الأخسرين

۵ _ اہل باطل كى نيرنگ بازياں اور فريب كارياں ، ارادہ الہى كے مقابلے ميں ناتوان اور بے نتيجہ ہيں _

و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

۶ _ بت پرستى اور حق اور رہبرن الہى كے مقابلے ميں كھڑا ہونا سب سے زيادہ نقصان والے كاموں ميں سے ہے_

و أرادوا به كيداً فجعلنهم الأخسرين

ابراہيم (ع) :ان كے خلاف سازش كے اثرات ۲; ان كے خلاف سازش ۱، ۳; انہيں جلانا ۳; ان كا قصہ ۱، ۲، ۳

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750