تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219180 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

یہی وہ رجال تسبیح ہیں جن کے بارے مین خداوند عالم نے ارشاد فرمایا :

 “يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ (1) وَ الْآصالِ رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقامِ الصَّلاةِ وَ إيتاءِ الزَّكاةِ يَخافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فيهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصارُ ” ( نور، 36 ۔37)

“ ان گھروں میں خداوند عالم کی تسبیح کیا کرتے ہیں صبح و شام ایسے مرد جنھیں خرید و فروخت خدا کے ذکر اور نماز قائم کرنے ، زکوة ادا

--------------

1 ـ مجاہد و یعقوب بن سفیان نے ابن عباس سے آیت “وَ إِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها وَ تَرَكُوكَ قائِماً (جمعہ،11) “ اور جب وہ کسی تجارت یا کھیل تماشے کو دیکھ پاتے ہیں تو اس طرف دوڑ پڑتے ہیں اور تمہیں کھڑا چھوڑ جاتے ہیں” کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ وحیہ کلثوم سامان تجارت لے کر جمعہ کے دن پلٹے اور مدینہ سے باہر آکر ٹکے اور طبل بچایا تاکہ لوگوں کو ان کی آمد کی اطلاع ہوجائے طبل کی آواز سن کر سب کے سب دوڑ پڑے اور رسول اﷲ(ص) کو منبر پر خطبہ پڑھتے چھوڑ دیا” صرف حضرت علی(ع) حسن(ع) و حسین(ع) ابوذر و مقداد رہ گئے۔ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا خداوند عالم نے  آج کے دن میری اس مسجد کی طرف نگاہ کی اگر یہ چند نفر نہ ہوتے تو پورا مدینہ آگ سے پھونک دیا جاتا اور ان لوگوں پر اسی طرح پتھر برسائے جاتے جیسا کہ قوم لوط پر برسائے گئے اور  جو لوگ پیغمبر(ص) کے پاس مسجد میں باقی رہ گئے ان کے بارے میں خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی“يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ ۔۔الخ”

۸۱

کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن میں دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔”

انھیں کا گھر وہ گھر تھا جس کا ذکر خداوند عالم نے ان شاندار الفاظ میں فرمایا :

 “ في‏ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ ”( نور، 36)

“ وہ قندیل ایسے گھروں میں روشن ہے جس کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں(1) ۔”

خداوند عالم نے آیتِ نور میں انھیں کے مشکوة(2) کو اپنے نور کی مثال قرار دیا ہے اور اس کے تو زمین و آسمان میں بلند تر نمونے ہیں۔ وہ بڑی قوت و حکمت والا ہے یہی سبقت کرنے والے یہی مقربان بارگاہ(3) یہی صدیقین(4) یہ شہداء و صالحین ہیں۔

--------------

1 ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں انس بن مالک و بریدہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے آیت فی بیوت الخ کی تلاوت فرمائی تو حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر علی(ع) و فاطمہ(س) کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) یہ گھر بھی ان گھروں میں سے ہے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہاں بلکہ ان سے بہتر گھروں میں ہے۔

2 ـ اشارہ ہے آیت مثل نورہ کمشکوة ۔۔۔۔الخ کی طرف جس کے متعلق حسن بصری اور ابو الحسن مغازلی شافعی سے روایت ہے کہ مشکوة سے مراد حضرت فاطمہ(س) مصباح سے حسنین(ع) اور شجرہ مبارکہ سے حضرت ابراہیم(ع) شرقی و غربی نہ ہونے سے حضرت فاطمہ(س) کا یہودی و نصرانی نہ ہونا یکاد زیتہا سے ان کی کثرت علم اور نور علی(ع) نور سے ایک امام کے بعد دوسرا امام یھدی اﷲ نورہ سے ان کی اولاد کی محبت مراد ہے۔

3 ـ دیلمی نے جناب عائشہ اور طبرانی ابن مردویہ ن جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا سبقت کرنے والے تین ہوئے موسی کی طرف سبقت کرنے والے ۔ یوشع بن نون۔ عیسی کی طرف یاسین اور میری طرف علی بن ابی طالب(ع) ۔ صواعق محرقہ باب9 فصل 2۔

4 ـ ابن نجار نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہےکہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا صدیقین تین ہیں۔ حبیب نجار مومن آل یاسین۔دوسرے حزقیل مومن آل فرعون، تیسرے علی بن ابی طالب(ع) اور یہ علی سب سے افضل ہیں۔

۸۲

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دوستوں کے بارے میں خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “وَ مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ ”( اعراف، 181)

“ اور ہماری مخلوقات میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دین حق کی ہدیت کرتے ہیں اور حق ہی حق اںصاف بھی کرتے ہیں(1) ۔”

انھیں کی جماعت اور دشمنوں کی جماعت کے متعلق ارشاد ہوا:

 “لا يَسْتَوي أَصْحابُ النَّارِ وَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفائِزُونَ ” ( حشر، 20)

“ جہنم والے اور جنت والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جنت والے ہی تو کامیاب ورستگار ہیں(2) ۔”

نیز انھیں حضرات کے دوستوں اور دشمنوں کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا:

--------------

1 ـ زاذان نے حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ عنقریب اس امت کے تہتر (73) فرقے ہوں گے ان میں سے بہتر(72) جہنمی اور ایک جنتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا و ممن خلقنا ۔۔ ۔ الخ اور یہ لوگ ہم ہیں اور ہمارے شیعہ ہیں ۔کتاب علامہ ابن مردویہ صفحہ276۔

2 ـ شیخ طوسی نے اپنی آمالی میں نہ اسناد صحیح امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرماکر کہا اصحاب نار وہ ہیں جو علی(ع) کی ولایت کو ناپسند کریں اور عہد توڑیں اور میرے بعد ان سے جنگ  کریں جناب صدوق نے بھی حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے او علامہ اہلسنت وموفق بن احمد نے جناب جابر سے روایت کی ہے  کہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا قسم بخدا یہ(علی(ع)) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن رستگار ہیں۔

۸۳

 “أَمْ نَجْعَلُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ كَالْمُفْسِدينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقينَ كَالْفُجَّارِ ”( ص، 28)

“ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان لوگوں جیسا قرار دین گے جو زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں یا ہم نیکوکار و پرہیز گار بندوں کو بدکاروں جیسا قرار دیں گے(1) ۔”

انھیں دونوں جماعتوں کے متعلق ارشاد خداوندِ عالم ہوا :

 “أَمْ حَسِبَ الَّذينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَواءً مَحْياهُمْ وَ مَماتُهُمْ ساءَ ما يَحْكُمُونَ ” (جاثیه، 21)

“ جو لوگ برے کام کیا کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام بھی کرتے رہے  اور ان سب کا جینا مرنا ایک سا ہوگا۔ یہ لوگ کیا برے حکم لگاتے ہیں(2) ۔”

انھیں کے  متعلق اور ان کے شیعوں کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے:

 “  إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ

--------------

1 ـ ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ بن الحارث کے حق میں نازل ہوئی ہے، پس اس آیت میں وہ لوگ کہ کرتے ہیں برائیاں عتبہ اور شیبہ اور ولید ہیں اور وہ لوگ کہ ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں وہ جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ ہیں۔

2 ـ صواعق محرقہ، باب 9، فصل اول۔

۸۴

خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ” (البینہ، 7)

“ بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا وہی بہترین خلائق ہیں(1) ۔”

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “هذانِ خَصْمانِ اخْتَصَمُوا في‏ رَبِّهِمْ فَالَّذينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيابٌ مِنْ نارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَميمُ ” ( حج، 19)

“ یہ دونوں مومن وکافر دو فریق ہیں جو آپس میں اپنے پرورگار کے بارے میں لڑتے ہیں پس جو لوگ کہ کافر ہیں ان کے لیے یہ آتشین لباس قطع کیا جائے گا اور ان کے سروں پہ کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔”

انھیں کے بارے میں اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی :

 “  أَ فَمَنْ كانَ مُؤْمِناً كَمَنْ كانَ فاسِقاً لا يَسْتَوُونَ

--------------

1 ـ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری پارہ 3 صفحہ16 میں بسلسلہ تفسیر سورہ حج باسناد صحیحہ حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا میں سب سے پہلے خداوند عالم کے حضور بروز قیامت اپنا جھگڑا پیش کروں گا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ قیس نے کہا یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جنھیں نے بدر کے روز جنگ کی وہ جناب حمزہ، اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ ، شیبہ اور ولید ہیں امام بخاری نے اس پرجناب ابوذر سے روایت کی ہے جناب ابوذر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ آیت جناب حمزہ اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ و شیبہ اور ولید کے حق نازل ہوئی۔

۸۵

 أَمَّا الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى‏ نُزُلاً بِما كانُوا يَعْمَلُونَ وَ أَمَّا الَّذينَ فَسَقُوا فَمَأْواهُمُ النَّارُ كُلَّما أَرادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْها أُعيدُوا فيها وَ قيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذابَ النَّارِ الَّذي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (1) ” ( سجدہ، 18،19،20)

“ بھلا وہ شخص جو ایمان والا ہو فاسق جیسا ہوسکتا ہے ؟ ( ہرگز نہیں) دونوں برابر نہیں ہوسکتے پس وہ لوگ جوکہ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان کے لیے جنات ماوی ہیں وہاں وہ فروکش ہوں گے یہ صلہ ہے ان کے اعمال خیر کا اور جولوگ  فاسق ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے جب وہ اس میں سے نکلنا چاہیں گے دوبارہ اسی جہنم میں پلٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آتش جہنم کا مزہ چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔”

انھیں حضرات کے متعلق اور ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے ان سے حاجیوں

--------------

1 ـ یہ آیت بہ اتفاق مفسرین و محدثین حضرت امیرالمومنین(ع) اور ولید عتبہ بن ابی معیط کے متعلق نازل ہوئی۔ امام واحدی نے کتاب اسباب النزول میں سعید بن جبیر سے انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید بن عتبہ بن ابی معیط نے حضرت امیرالمومنین(ع) سے کہا میرا نیزہ تمھارے نیزے سے کہیں زیادہ تیز اور میری زبان تمھاری زبان سے کہیں زیادہ چلتی ہوئی اور لشکر میری وجہ سے کہیں زیادہ بھرا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت تمھارے۔ اس پر حضرت علی(ع) نے فرمایا خاموش بھی رہ کر تو فاسق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی افمن کان مومنا کمن فاسقا ۔ اس آیت میں مومن سے مراد حضرت علی(ع) اور فاسق سے مراد ولید بن عتبہ ہے۔

۸۶

 کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی آباد کاری کی بدولت فخر و مباہات کی تھی خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی۔

 “أَ جَعَلْتُمْ سِقايَةَ الْحاجِّ وَ عِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ جاهَدَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمينَ (1) ”( توبه، 19)

“ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کی سقائی اور  خانہ کعبہ کی آبادی کو اس شخص کے ہمسر بنا دیا ہے جو خدا کے اور روز آخرت پر ایمان لایا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا۔ خدا کے نزدیک تو یہ لوگ برابر نہیں اور خداوندِ عالم ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا۔”

انھیں حضرات کے ابتلا و آزمائش میں بہ عمدگی پورے  اترنے اور شدائد و مصائب ہنسی خوشی جھیل جانے پر خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا :

--------------

1 ـ یہ آیت حضرت علی(ع) اور جناب عباس اور طلحہ بن شیبہ کی شان میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ ان لوگوں نے باہم فخر کیا طلحہ نے کہا تھا خانہ کعبہ کا میں متولی ہوں اس کی کنجیاں میرے پاس رہتی ہیں۔ عباس نے کہا میں زمزم کا متولی ہوں اور سقائی میرے ہاتھوں مین ہے۔ حضرت علی(ع) نے کہا کہ میری سمجھ نہیں آتا کہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو میں نے چھ مہینے لوگوں سے پہلے نماز پڑھی ہے اور میں خدا کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ علامہ واحدی نے کتاب اسباب النزول میں یہ روایت حسن بصری شبسی وغیرہ سے نقل کی ہے اور ابن سیرین و مرہ حمدانی سے منقول ہے کہ حضرت علی(ع) نے جناب عباس سے کہا آپ ہجرت نہیں کرتے؟ آپ رسول(ص) کے پاس نہ جائیے گا۔ جناب عباس نے کہا مجھے حاجیوں کی سقائی کا شرف پہلے سے حاصل ہے کیا یہ ہجرت کےشرف سے بڑھا ہوا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۸۷

 “  وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْري نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ (1) ” ( بقره، 207)

“ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں اور خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔”

نیز یہ بھی ارشاد فرمایا :

 “  إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى‏ مِنَ الْمُؤْمِنينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقاتِلُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْراةِ وَ الْإِنْجيلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ أَوْفى‏ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد3 صفحہ4 پر جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ قال شری علی نفسہ لیس ثوب النبی الحدیث۔ جناب ابن عباس نے کہا حضرت علی(ع) نے اپنا نفس فروخت کیا اور پیغمبر (ص) کی چادر اوڑھی ۔ امام حاکم نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے معیار و شرائط پربھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے لکھا نہیں۔ ذہبی ایسے متشدد بزرگ نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ امام حاکم نے اسی صفحہ پر امام زین العابدین(ع) سے یہ روایت بھی کی ہے کہ پہلے وہ شخص جنھوں نے اپنے نفس کو خوشنودی خدا کے لیے بیچا وہ علی بن ابی طالب(ع) ہیں جب کہ وہ شب ہجرت پیغمبر(ص) کے بستر پر سورہے۔ پھر امام حاکم نے اس موقع پر حضرت علی(ع) نے جو اشعار فرمائے تھے وہ اشعار نقل کیے ہیں جن کا پہلا شعر یہ ہے

                   وقيت بنفسی خير من وطا الحصا              ومن طاف بالبيت العتيق و بالحجر

میں نے جان پر کھیل کر اس بزرگ کی حفاظت کی جو ان تمام لوگوں میں جو سرزمین بطحا پر چلے درجنوں نے خانہ کعبہ اور حجر اسود کا طواف کیا بہتر و افضل ہیں۔”

۸۸

الَّذي بايَعْتُمْ بِهِ وَ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظيمُ التَّائِبُونَ الْعابِدُونَ الْحامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنينَ ” (توبہ، 111۔112)

“ اس میں تو شک نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لیے ہیں کہ ( ان کی قیمت) ان کے لیے بہشت ہے( اسی وجہ سے) یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو ( کفار کو) مارتے ہیں اور (خود بھی) مارے جاتے ہیں ( یہ ) پکا وعدہ ہے ( جس کا پورا کرنا ) خدا پر لازم ہے ( اور ایسا پکا ہے کہ) توریت اور انجیل اور قرآن (سب) میں ( لکھا ہوا) ہے اور اپنے عہد کا پورا کرنے والا خدا سے بڑھ کر اور کون  ہے تو تم اپنی ( خرید) فروخت سے جو تم نے خدا سے کی ہے خوشیاں مناؤ یہی تو بڑی کامیابی ہے ( یہ لوگ ) توبہ کرنے والے عبادت گزار ( خدا کی ) حمد و ثنا کرنے والے ( اس کی راہ میں) سفر کرنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک کام کا حکم کرنے والے اور برے کام سے روکنے والے اور خدا کی ( مقرر کی ہوئی) حدوں کے اوپر نگاہ رکھنے والے ہیں اور ( اے رسول(ص)ان ) مومنین کو ( بہشت کی ) خوشخبری دے دو۔”

نیز ارشاد فرمایا :

 “الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَ النَّهارِ سِرًّا

۸۹

وَ عَلانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ (1) ” ( بقرہ، 274)

“ جو لوگ کہ اپنے مالوں کو رات اور دن میں ظاہر بہ ظاہر اور چھپا کر ( راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کا صلہ ہے ان کے پروردگار کے نزدیک ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ اندوہ گین ہوں گے۔”

انھیں نے صدق دل سے پیغمبر(ص) کی سچائی کی تصدیق کی اور خداوندِ عالم نے ان کی اس تصدیق کی ان الفاظ میں گواہی دی :

 “  وَ الَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ (2) بِهِ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ” (زمر، 33)

“ اور یاد رکھو کہ جو رسول(ص) سچی بات لے کر آئے ہیں اور جس نے

--------------

1 ـ جملہ محدثین و مفسرین نے بسلسلہ اسناد جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ آپ کے پاس چار درہم تھے آپ نے ایک درہم شب میں ایک دن میں ، ایک چھپا کر، ایک ظاہر بظاہر راہ خدا میں صدقہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ تفسیروحیدی ص16، تفسیر معالم التنزیل ص135، تفسیر بیضاوی،جلد 1، ص125 تفسیر نیشاپوری، ص278 تفسیر کبیر رازی، جلد2، ص528 تفسیر روح المعانی جلد1، صفحہ 495 وغیرہ۔

2 ـالَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ سے مراد پیغمبر(ص) صدق بہ سے مراد امیرالمومنین(ع) ہیں۔ جیسا کہ امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) و موسی کاظم(ع) و امام رضا(ع) اور عبداﷲ بن عباس ، ابن حذیفہ ، عبداﷲ بن حسن ، زید شہید و غیر ہم نے تصریح کی ہے۔ خود امیرالمومنین(ع) اس آیت کے ذریعہ احتجاج فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی اور میں مراد ہوں۔ ابن مغازلی نے بھی اپنی مناقب میں مجاہد سے اس مضمون کی روایت کی ہے اور حافظ ابن مردویہ اور حافظ ابو نعیم نے بھی۔

۹۰

ان کی تصدیق کی یہی لوگ تو پرہیز گار ہیں۔”

پس یہی حضرات حضرت رسول خدا(ص) کی مخلص جماعت اور آپ کے قریبی رشتہ دار  ہیں جنھیں خداوند عالم نے اپنی بہترین رعایت اور بلندترین توجہ کے ساتھ مخصوص فرمایا اور ارشاد فرمایا :

 “وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، 214)

“ اے پیغمبر(ص) اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو خدا کا خوف دلاؤ۔”

یہی پیغمبر(ص) کے اولی الارحام ہیں اور اولی الارحام بعض بعض سے مقدم و اولیٰ ہیں کتاب الہی میں یہ پیغمبر(ص) کے قریبی رشتہ دار اور قریبی رشتہ دار بھلائی کے  زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔ یہی بروز قیامت پیغمبر(ص) کے درجے میں ہوں گے اور جنتِ نعیم میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں گے جس پر دلیل خداوند عالم کا یہ قول ہے۔

 “وَ الَّذينَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإيمانٍ أَلْحَقْنا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ ما أَلَتْناهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ (1) ” (طور، 21)

“ جو لوگ کہ ایمان لائے اور ان کی ذریت نے بھی ایمان لا کر اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی انھٰیں سے ملحق کردیں گے اور ان کے اعمال میں سے رتی برابر کمی نہ کریں گے۔”

یہی وہ حق دار حضرات ہیں جن کے حق کی ادائیگی کا قرآن نے ان الفاظ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد2 صفحہ468 پر بسلسلہ تفسیر سور طور ابن عباس سے اس آیت کے متعلق روایت کی ہےابن عباس نے کہا کہ خداوند کریم مومن کی ذریت کو بھی جنت کے اسی درجے میں رکھے گا جس میں وہ مومن ہوگا اگرچہ بلحاظ اعمال کمتر ہو پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ وما التناہم کا مطلب یہ ہے کہ وما نقصناھم یعنی ہم کوئی کمی نہ کریں گے۔

۹۱

 میں حکم سنایا :

 “  وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ (1) ” ( اسراء، 26)

“ صاحبان قرابت کو ان کا حق دے دو۔”

یہی وہ صاحبان خمس ہیں کہ جب تک ان کو خمس نہ پہنچا دیا جائے انسان بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ارشاد الہی ہے:

 “ وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ (2) ” ( انفال، 41)

“ سمجھ رکھو کہ تم جو کچھ مال غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ خدا کا ہے اور رسول(ص) کا اور رسول(ص) کے قرابت داروں کا۔”

یہی وہ صاحبان فئی ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

“ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى‏ فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ ( حشر، 7)

خداوندِ عالم نے دیہات والوں سے جو مال بطور خالصہ بلا حرب و ضرب رسول(ص) کو دلوایا ہے وہ اﷲ کے لیے ہے اور رسول(ص) کے لیے اور صاحبان قرابت کے لیے اور یہی وہ اہل بیت(ع) ہیں جن سے آیہ “إِنَّما يُريدُ اللَّهُ

--------------

1 ـ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آںحضرت(ص) نے جبرائیل(ع) سے پوچھا ، قرابت والے کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے۔ جواب دیا فاطمہ(س) کو فدک دے دیجیے کہ یہ انھیں کا حق ہے اور جو کچھ فدک میں خدا و رسول(ص) کا حق  ہے وہ بھی انھیں کے حوالے کر دیجیے پس رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ(س) کو بلا کر وثیقہ لکھ کر فدک ان کے حوالے کردیا۔تفسیر در منثور جلد4، صفحہ177، وغیرہ۔

2 ـ تفسیر روح المعانی جلد 3 صفحہ 637، تفسیر نیشاپوری، جلد10، صفحہ15 وغیرہ۔

۹۲

لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ” ( احزاب، 33) خطاب کیا گیا۔

یہی وہ آل یسین ہیں جن پر خداوند عالم سلام بھیجا اور ارشاد ہوا : سلام(1) علیٰ آل یسین۔ یہی وہ آل محمد(ص) ہیں جن پر درود و سلام بھیجنا خداوند عالم نے بندوں پر فرض قرار دیا اور ارشاد ہوا :

 “  إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً ” ( احزاب، 56)

“ تحقیق کہ خداوند عالم اور ملائکہ نبی(ص) پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو۔”

لوگوں نے پیغمبر(ص) سے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) ہم آپ پر سلام کیونکر کریں یہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن یہ ارشاد ہو کہ درود آپ کی آل پر کیونکر بھیجا جائے تو آپ نے ارشاد

--------------

1 ـ  علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ باب 11 میں بسلسلہ ان آیات کے جو اہل بیت(ع) کی شان میں  نازل ہوئیں تیسری آیت یہ بھی لکھی ہے اور لکھا ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہاں آیت میں مراد سلام علی آل محمد ( آل محمد پر سلام ہو) علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ کلبی نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) کےاہل بیت(ع) پانچ چیزوں میں پیغمبر(ص) کے برابر حصہ دار ہیں۔ سلام میں  خداوند عالم نے پیغمبر(ص) سے کہا السلام علیک ایہا النبی اور اہل بیت (ع) کے لیے کہا سلام علی آل یسین دوسرے تشہد مین درود بھیجے جاتے ہیں تیسرے طہارت میں پیغمبر(ص) سے فرمایا طہ اے طیب و طاہر اور اہل بیت(ع) کے لیے آیت تطہیر نازل ہوئی چوتھے صدقہ حرام ہونے میں پانچویں محبت میں رسول کے لیے فرمایا :فاتبعونی يحببکم اﷲ اور اہل بیت(ع) کے لیے ارشاد فرمایا:قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى (شوری، 23)

۹۳

فرمایا یوں کیا کرو :

الل ه م صل علی محمد و علی آل محمد”

لہذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان حضرات پر درود بھیجنا پیغمبر(ص) پر درود بھجنے کا جزو ہے جب تک آپ کی آل(ع) کو بھی شامل کر کے درود نہ بھیجا جائے تب تک پیغمبر(ص) پر درود پورا نہ ہوگا اسی وجہ سے علماء و محققین نے اس آیت کو بھی ان آیات میں شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان  میں نازل ہوئیں۔ چنانچہ علامہ ابن حجر مکی نے بھی صواعق محرقہ باب 11 میں اس آیت کو منجملہ  ان آیات کے شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ پس یہی منتخب و برگزیدہ بندگان الہی  ہیں بحکم خدا نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی وارثان کتاب خدا ہیں جن کے بارے میں خداوندِ عالم نے فرمایا ہے:

 “ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَيْراتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبيرُ (1) ۔” ( فاطر، 32)

--------------

1 ـ ثقتہ الاسلام کلینی علیہ الرحمہ نے بہ سند صحیح سالم سے روایت کی ہے کہ سالم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر(ع) سے اس آیت  ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا  آیت میں سابق بالخیرات ( نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والا) سے مراد امام اور مقتصد ( میانہ رو) سے مراد امام کی معرفت رکھنے والا اور ظالم لنفسہ ( اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والا) سے مقصود وہ ہے جو امام سے بے گانہ و نا آشناہو ۔ اسی مضمون کی روایت کلینی نے امام جعفر صادق(ع) امام موسی کاظم(ع) اور امام رضا علیہ السلام سے بھی کی  ہے۔ علمائے اہلسنت میں حافظ  ابن مردویہ  نے اس حدیث کی روایت امیرالمومنین(ع) سے کی ہے۔

۹۴

“ پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں منتخب کیا ہے، پس لوگوں میں بعض تو ایسے ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ( اور یہ وہ لوگ ہیں جو امام کی معرفت نہیں رکھتے) اور بعض میانہ رو ہیں ( یعنی دوستدارن ائمہ) اور بعض نیکیوں کی طرف بحکم خدا سبقت کرنے والے ہیں( یعنی امام ) اور یہ بہت بڑا فضل ہے۔”

اہل بیت طاہرین(ع) کی شان میں نازل شدہ اتنی ہی آیات بیان کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

جناب ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ تنہا حضرت عی(ع)  کی شان میں تین سو آیتیں(1) نازل ہوئیں اور ابن عباس کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بیان ہے کہ ایک چوتھائی قرآن اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہلبیت(ع) اور قرآن ایک جڑکی دوشاخین ہیں جو کبھی جدا نہیں ہوسکتیں۔ ہم انہیں چند آیتوں پر بس کرتے ہیں۔ انھیں میں غور فرمائیے آپ پر حقیقت و امر واقع بخوبی واضح ہوجائے گا۔

                                                                                                                                                                             ش

--------------

1 ـ جیسا کہ ابن عساکر نے ابن عباس سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب 9، فصل 3 صفحہ2۔

۹۵

مکتوب نمبر7

جناب مولانائے محترم ! تسلیم

گرامی نامہ سبب عزت افزائی ہوا۔ سبحان اﷲ آپ کے زور بیان قوتِ تحریر کی داد نہیں دی جاسکتی۔ آپ نے جتنی باتیں تحریر فرمائیں ان میں کسی کا مجال تکلم نہیں جو کچھ آپ نے لکھا صحیح لکھا البتہ ایک کھٹک دل میں رہی جاتی ہے۔ اعتراض کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اہل بیت(ع) کے متعلق ان آیات کے نازل ہونے کی روایت کی ہے وہ شیعہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ براہ کرم اس اعتراض کا دفعیہ فرمائیے۔

                                                                     س

۹۶

جواب مکتوب

محترمی تسلیم!

آپ نے جو اعتراض پیش کیا وہ درست نہیں۔ اعتراض کے دونوں ٹکڑے غلط ہیں۔ یہ بھی کہ جنھوں نے ان آیات کے شانِ نزول کےمتعلق روایت کیا ہے وہ شیعہ تھے اور یہ بھی کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ اعتراض کا پہلا حصہ تو یوں درست نہیں کہ ان آیات کے شانِ نزول کے متعلق صرف شیعوں ہی نے روایت نہیں کی بلکہ معتبر و موثق علماء اہل سنت نے بھی روایتیں کی ہیں ۔ ان کی سنن اور مسانید اٹھا کر دیکھیے آپ کو نظر آئے گا کہ انھوں نے ان روایتوں  کو شیعوں سے کہیں زیادہ طریقوں سے ذکر کیا ہے۔ اگر شیعہ علماء نے کسی آیت کے متعلق چار طریقوں سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی تو حضرات اہل سنت نے دس طریقوں سے روایت کی ہے۔

رہ گیا اعتراض کا دوسرا ٹکڑا کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں اہلسنت کے لیے حجت نہیں تو یہ اور بھی غلط ہے جیسا کہ علماء اہلسنت کی کتب حدیث گواہ ہیں حضرات اہل سنت کے طریق و اسناد میں ایک دو نہیں بکثرت شیعہ راوی ملتے ہیں۔ اور شیعہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ نامی گرامی ، جن کی شیعیت  سے دنیا واقف ہے۔وہ شیعہ جنھیں برا کہا جاتاہے، گمراہ سمجھا جاتا ہے ، رافضی کہہ کر پکارا  جاتا ہے۔ انھیں شیعوں کی روایتیں آپ کے صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں اور ان کے علاوہ دیگر حدیث کی کتابوں میں بھی۔ خود امام بخاری کے شیوخ میں بہت سے ایسے شیعوں کے نام ملتے ہیں

۹۷

 جنھیں رافضی مخالف وغیرہ کہا جاتا ہے مگر پھر بھی امام بخاری نے ان سے استفادہ کیا ، ان سے روایتیں لیں۔ امام بخاری نے بھی ان کی روایت کردہ حدیثیں اپنی صحیح میں درج کی ہیں اور دیگر اصحاب نے بھی۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ شیعوں کی روایت حضرات اہلسنت کے لیے حجت نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں کو حقیقت کا علم ہی نہیں۔ اگر معترضین اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ شیعہ اہلبیت(ع) کے پیرو انھیں کے اصولوں کے پابند اور ان کے اوصاف و محاسن کو پرتو ہیں اندازہ ہو کہ وہ کس قدر اعتماد و اعتبار کے لائق ہیں لیکن ناواقف نے ایک اشتباہ کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے کس قدر لائق ماتم ہے یہ امر کہ محمد بن یعقوب کلینی ایسے بزرگ جنھیں دنیا ثقتہ الاسلام کے لقب سے یاد کرتی ہے محمد بن علی بن بابویہ القمی جو مسلمانوں کے صدوق کہے جاتے ہیں، محمد بن حسن طوسی جنھیں شیخ الامہ کہا جاتا ہے محض شیعیت کے جرم میں معترضین کے نزدیک اعتبار کے قابل نہ سمجھے جائیں اور ان کی پاکیزہ صفات جو علوم آلِ محمد(ص) کا خزینہ ہیں حقارت کی نظر سے دیکھی جائیں ایسے بزرگوں کے متعلق شک وشبہ سے کام لیا جائے جو جامع علوم و کمالات تھے۔ روئے زمین پر قطب و ابدال کی حیثیت رکھتے تھے جنھوں نے خدا و رسول(ص) کی اطاعت احکامِ الہی کی تبلیغ و اشاعت مسلمانوں  کی خیر خواہی و رہبری میں اپنی عمریں تمام کردیں۔

معمولی سے معمولی شخص واقف ہے کہ یہ مقدس حضرات جھوٹ کو کتنا بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی ہزاروں کتابوں میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور صراحت کی ہے کہ حدیثِ پیغمبر(ص) میں جھوٹ بولنا ہلاکت و عذاب دائمی کا سبب ہے حدیث میں جھوٹ بولنا تو اتنا بڑا گناہ سمجھا ہے ان لوگوں نے کہ روزہ توڑ دینے

۹۸

 والی چیزوں میں قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان میں عمدا جھوٹی حدیث بیان کرے تو ان حضرات کا فتوی ہے کہ اس شخص کا روزہ باطل ہوگیا۔ اس پر روزہ کی قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی دینا ضروری ہے جس طرح دیگر مفطرات کا حکم ہے بعینہ جھوٹی حدیث بیان کرنے کا بھی۔ جب کذب کو وہ ایسا امر عظیم سمجھتے ہیں تو خدا را انصاف سے فرمائیے کہ خود ایسے حضرات کے متعلق جو صالحین و ابرار عابد شب زندہ دار ہوں ایسا وہم و گمان بھی کیا جاسکتا ہے؟

ہائے ہائے ! شیعیانِ آل محمد(ص) اہل بیت(ع) کے پیرو متہم سمجھے جائیں اور ان کی بیان کی ہوئی حدیثوں پر کذب و افترا کا شک وشبہ کیا جائے۔ ان کے اقوال ٹھکرا دینے کے قابل سمجھے جائیں اور خارجی ناصبی خدا کو مجسم ماننے والے افراد کی حدیثیں سر آنکھوں پر رکھی جائیں۔ وہ جو کچھ بیان کریں آمنا و صدقنا کہہ کر تسلیم کر لیا جائے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ سمجھی جائے۔ یہ تو کھلی ہوئی نا انصافی صریحی جفا پروری ہے۔ خدا محفوظ رکھے۔

                                                                     ش

۹۹

مکتوب نمبر8

حضرت مولانائے محترم ! تسلیم!

آپ کا تازہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ کی تحریر اتنی متین، دلائل سے پر اور حقائق سے لبریز تھی کہ میرے لیے چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے ایک ایک لفظ تسلیم کرلوں۔ البتہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرات اہل سنت نے بکثرت شیعہ راویوں سے روایتیں لی ہیں، اسے آپ نے بہت مجمل رکھا۔ آپ کو ذرا تفصیل سے کام لینا چاہیے تھا۔ مناسب تھا کہ آپ ان شیعہ راویوں کے نام بھی تحریر فرماتے نیز ان کی شیعیت کے متعلق حضرات اہل سنت کا اقرار بھی ذکر کرتے۔ امید ہے کہ آپ میرا مقصد سمجھے گئے ہوں گے۔

                                                                             س

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

بت پرستي:اس كا نقصان ۳

حق:اسے قبول نہ كرنے كا نقصان ۶

خداتعالي:اسكے ارادے كى اہميت ۵

دشمن:انكى سازش كى شكست ۵

دينى رہنما:ان كے خلاف مبارزت كا نقصان ۶

قوم ابراہيم (ع) :اسكى تاريخ ۴; اسكى سازش ۳; اس كا نقصان اٹھانا ۲، ۴; اسكى ناكامى ۱

لوگ:سب سے زيادہ نقصان اٹھانے والے لوگ۴

نقصان:بدترين نقصان ۶; اسكے عوامل ۲; اسكے مراتب ۶

آیت ۷۱

( وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطاً إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ )

اور ابراہيم اور لوط كو نجات دلا كر اس سرزمين كى طرف لے آئے جس ميں عالمين كے لئے بركت كا سامان موجود تھا (۷۱)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) اور حضرت لوط (ع) نے ارادہ الہى كے ساتھ اپنى قوم كى نيزنگ بازيوں اور دسيسہ كاريوں سے نجات حاصل كي_و أرادوا به كيداً و نجينه و لوطاً إلى الأرض التى بركنا فيه

۲ _ حضرت ابراہيم (ع) اور حضرت لوط (ع) نے اپنے آلودہ معاشرے سے پر بركت سرزمين كى طرف ہجرت كي_

إلى الأرض التى بركنا فيه

۳ _ حضرت ابراہيم (ع) كى طرح حضرت لوط(ع) بھى اپنى قوم كى طرف سے رنج و الم اور اذيت كا شكار تھے_

و نجينه و لوطاً إلى الأرض التى بركنا فيه حضرت ابراہيم (ع) اور حضرت لوط كے بارے ميں ايك ہى طرح سے كلمہ نجات كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے كيونكہ نجات وہاں ہوتى ہے جہاں كسى خطرے اور نقصان كا سامنا ہو_

۴۰۱

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) اور لوط (ع) كى ہجرت كى جگہ (شام _ فلسطين) دنيا كے سب لوگوں كيلئے با بركت ہے_

و نجينه و لوطاً إلى الأرض التى بركنا فيها للعلمين ''عالم'' كا معنى ہے پورى مخلوقات يا موجودات كا ايك حصہ اور اس كا جمع (عالمين) آنا موجودات كى تمام اقسام كو شامل ہونے كيلئے ہے اور اس آيت ميں اس سے مراد دور و نزديك كے سب قبائل اور اقوام كے تمام افراد ہيں _قابل ذكر ہے كہ معمولاً مفسرين كا كہنا يہ ہے كہ سرزمين مبارك سے مراد شام (فلسطين) ہے_

۵ _ حق كا دفاع اور حق دشمنوں اور مشركين كے مقابلے ميں توحيد كے مدارپر حركت كرنا خداتعالى كى امداد اور نصرت كو ہمراہ ركھتا ہے_و أرادوا به كيداً و نجينه و لوطاً إلى الأرض التى بركنا فيه

۶ _ آلودہ ماحول اور بلاد كفر و شرك سے پاك اور پربركت سرزمين كى طرف ہجرت كرنا ايك شائستہ اور لازمى امر ہے_

و نجينه و لوطاً إلى الأرض التى بركنا فيه

ابراہيم (ع) :انكى اذيت ۳; ان كے زمانے كا معاشرہ ۲; انكا قصہ ۱، ۲، ۳; انكى نجات۱; انكى ہجرت ۲، ۴

حق:اسكے دفاع كے اثرات ۵; حق دشمنوں كے خلاف مبارزت كے اثرات ۵

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۱; اسكى امداد كا پيش خيمہ ۱; اس كا نجات دينا ۱

سرزمين:با بركت سرزمين ۲، ۴; با بركت سرزمين كى طرف ہجرت ۶

عمل:پسنديدہ عمل۶

فلسطين:اسكى بركت ۴; اسكى طرف ہجرت۴

قوم ابراہيم (ع) :اسكى اذيتيں ۳; اسكى سازش۱

قوم لوط(ع) :اسكى اذيتيں ۳; اسكى سازش۱

لوط(ع) :انكى اذيت ۳ ; ان كے زمانے كا معاشرہ ۲; انكا قصہ۱، ۲، ۳; انكى نجات ۱; انكى ہجرت ۲، ۴

مشركين:ان كے خلاف مقابلے كے اثرات ۵

ہجرت:اسكى اہميت ۶; خراب معاشرے سے ہجرت ۶; دارالكفر سے ہجرت ۶

۴۰۲

آیت ۷۲

( وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً وَكُلّاً جَعَلْنَا صَالِحِينَ )

اور پھر ابراہيم كو اسحاق اور ان كے بعد يعقوب عطا كئے اور سب كو صالح اور نيك كردار قرار ديا (۷۲)

۱ _ حضرت اسحاق(ع) اور حضرت يعقوب(ع) كى پيدائش حضرت ابراہيم (ع) كى ہجرت كے بعد ہوئي_

و نجيناه و لوطاً إلى الأرض و وهبنا له إسحاق و يعقوب

ان آيات ميں حضرت ابراہيم (ع) كى داستان بطور مجموع مذكورہ مطلب كو بيان كر رہى ہے_ اسكے علاوہ يہ كہ حضرت ابراہيم (ع) كا آگ ميں پھينكاجانا اور انكا اس سے نجات پانا جوانى ميں تھا اور آپ برہاپے ميں صاحب اولاد ہوئے_

۲ _ اسحاق(ع) و يعقوب(ع) ،داتعالى كى طرف سے حضرت ابراہيم (ع) كو عطيہ _ووهبنا له إسحق و يعقوب

۳ _ اولاد اور اولاد كى اولاد پروردگار كى طرف سے ايك عطيہ ہے_ووهبنا له إسحق و يعقوب

۴ _حضرت يعقوب(ع) كى پيدائش ،حضرت ابراہيم (ع) كى زندگى ميں ہوئي_ووهبنا له إسحق و يعقوب

حضرت يعقوب (ع) حضرت اسحاق (ع) كے بيٹے اور حضرت ابراہيم (ع) كے پوتے ہيں ليكن چونكہ خداتعالى نے يعقوب(ع) كا نام اسحاق كے ہمراہ ذكر كيا ہے اور دونوں كو اپنى طرف سے حضرت ابراہيم (ع) كيلئے عطيہ قرار ديا ہے اس كا مطلب ہے كہ يعقوب(ع) ،حضرت ابراہيم (ع) كى زندگى يں پيدا ہوچكے تھے_

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كو يعقوب كا عطا كرنا خداتعالى كى طرف سے ان كے استحقاق سے بڑھ كر ان كيلئے خصوصى عطيہ اور فضل تھا _و وهبنا له إسحاق و يعقوب نافلة

يہ مطلب دو نكتوں كى وجہ سے حاصل ہوتا ہے ۱_ ''نافلہ'' يعقوب(ع) كيلئے حال ہے ۲_ ''نافلة'' كا ايك معنى ہے عطيہ جو استحقاق سے بڑھ كر ہو

۴۰۳

حضرت ابراہيم (ع) كو يعقوب كے عطا كرنے كے سلسلے ميں اس كلمے كا استعمال اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) نے خداتعالى سے صرف بيٹے كى درخواست كى تھى نہ پوتے كى ليكن خداتعالى نے ان پر خصوصى فضل و كرم كرتے ہوئے انہيں پوتا بھى عطا كيا (لسان العرب)

۶ _ ابراہيم (ع) ، يعقوب (ع) اور اسحاق (ع) صالحين ميں سے ہيں _وكلاً جعلنا صالحين

۷ _ ابراہيم (ع) ، اسحاق(ع) اور يعقوب (ع) كا مقام صالحين كو پانا خداتعالى كے ارادے اور لطف و كرم كے سائے ميں تھا_وكلاً جعلنا صالحين

۸عن أبى عبدالله(ع) فى قوله عزوجل:''ووهبنا له اسحاق و يعقوب نافلة ''قال:ولدا لولد نافل _ الله تعالى كے فرمان (و وهبنا له اسحاق و يعقوب نافلة ) كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا اولاد كى اولاد نافلہ ہے(۱)

ابراہيم (ع) :يہ صالحين ميں سے ۶; يہ اور يعقوب (ع) ۴; ان پر فضل كرنا ۵; ان كے فضائل ۵، ۶; ان كا قصہ ۱; انكى صلاحيت كا سرچشمہ ۷; انكى نعمتيں ۲; انكى ہجرت ۱

اسحاق (ع) :يہ صالحين ميں سے ۶; انكى تاريخ ولادت ۱; ان كے فضائل ۶; انكا قصہ ۱; انكى صلاحيت كا سرچشمہ ۷

انبيائ:(ع)

انكى تاريخ۱

پوتا:اس كا كردار ۸

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۷; اسكے عطيے ۲، ۳

روايت ۸خداتعالى كا فضل:يہ جنكے شامل حال ہے ۵

نافلہ:اس سے مراد ۸

نعمت:اسحاق كى نعمت ۲ ; بيٹے كى نعمت ۳; پوتے كى نعمت ۳; يعقوب كى نعمت ۲

يعقوب(ع) :انكى تاريخ ولادت ۱، ۴; ان كے فضائل ۶; انكا قصہ ۱; انكى صلاحيت كا سرچشمہ ۷; يہ صالحين ميں سے ۶

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۲۲۵ ح ۱; نورالثقلين ج۳ ص ۴۴۰ ح ۱۰۴_

۴۰۴

آیت ۷۳

( وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ )

اور ہم نے ان سب كو پيشوا قرار ديا جو ہمارے حكم سے ہدايت كرتے تھے اور ان كى طرف كار خير كرنے نماز قائم كرنے اور زكوة ادا كرنے كى وحى كى اور يہ سب كے سب ہمارے عبدات گذار بندے تھے (۷۳)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) ، اسحاق(ع) اور يعقوب(ع) معاشرے ميں رہبرى اور قيادت كا منصب ركھتے تھے_

و جعلنهم أئمة

۲ _ ابراہيم (ع) ، اسحاق (ع) اور يعقوب (ع) كى امامت و راہبرى خداتعالى كے انتخاب اور انتصاب كى وجہ سے تھي_

و جعلنهم أئمة

۳ _ مقام امامت ،خداتعالى كى جانب سے عطا ہوتا ہے_و جعلنهم أئمة

۴ _ امامت ،نبوت و رسالت سے بالاتر مقام و منصبو كلاً جعلنا صالحين و جعلنهم أئمة يهدون بأمرن

خداتعالى كى طرف سے حضرت ابراہيم (ع) كو صالح قرار دينا اور انہيں منصب امامت عطا كرنا انكى نبوت و رسالت كے بعد تھا يہ ہوسكتا ہے مقام امامت كے ،منصب نبوت سے بالاتر ہونے كو بيان كررہا ہے_

۵ _ صالح ہونا، مقام امامت كو پانے كى شرط ہے_كلاً جعلنا صالحين و جعلنهم أئمة

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر حاصل ہوتا ہے كہ خداتعالى نے ابراہيم(ع) اور كو مقام امامت عطا كرنے سے پہلے انہيں صالح بنايا اور پھر انہيں منصب امامت عطا كيا _

۶ _ ابراہيم (ع) ، اسحاق(ع) اور يعقوب (ع) كو خداتعالى كى طرف سے لوگوں كا ہادى اور رہنما بناياگيا _

و جعلنهم أئمة يهدون

۷ _ ابراہيم (ع) ، اسحاق (ع) اور يعقوب (ع) ما مور تھے كہ احكام الہى كى حدود ميں رہتے ہوئے لوگوں كى ہدايت كريں نہ اپنے ذاتى ذوق اور دوسروں كے حكم كے مطابق_و جعلنهم ائمة يهدون بأمرن

''بامرنا''،''يہدون'' كے متعلق اور در حقيقت ہدايت كرنے كيلئے شرط اور قيد كے طور پر ہے يعنى ضرورى ہے كہ لوگوں كو ہدايت كرنا ہمارے حكم سے ہو_

۴۰۵

۸ _ رہبران الہى كے عمل كا معيار حكم خداوندى ہے نہ انكا ذاتى ذوق اور لوگوں كى خواہشات نفسانى _و جعلنهم أئمة يهدون بأمرن

۹ _ لوگوں كو خداتعالي، اسكى صفات، افعال اور كلام كى طرف ہدايت كرنا حضرت ابراہيم (ع) ،اسحاق(ع) اور يعقوب(ع) كا فريضہ تھا_و جعلنهم أئمة يهدون بأمرن

مذكورہ مطلب دو نكتوں كى بنياد پر ہے_ ۱_ ''امر'' اصل ميں ''شأن'' كے معنى ميں ہے اور يہ ايسا عام كلمہ ہے جو تمام افعال اور اقوال كو شامل ہے (مفردات راغب) ۲_ ''بامرنا'' ميں ''با'' ممكن ہے غايت كيلئے اور ''الى '' كے معنى ميں ہو_

۱۰ _ ابراہيم (ع) ، اسحاق (ع) اور يعقوب (ع) ان انبيا(ع) ء ميں سے ہيں كہ جنكو خداتعالى كى طرف سے وحى ہوتى تھي_و أوحينا إليهم

۱۱ _ ابراہيم (ع) ،اسحاق (ع) اور يعقوب (ع) نيك كام كو انجام دينے، نماز قائم كرنے اور زكات ادا كرنے پر مأمور_

و أوحينا إليهم فعل الخيرات و إقام الصلوة و إيتاء الزكاة

۱۲ _ خداتعالى نے ابراہيم (ع) ، اسحاق (ع) اور يعقوب (ع) كو نيك كاموں كى شناخت كرائي اور وحى كے ذريعے انہيں ان كے انجام دينے كا طريقہ سكھايا_و أوحينا إليهم فعل الخيرات

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''فعل الخيرات'' كى نصب ''أوحينا'' كا مفعول ہونے كى وجہ سے ہو_ اس بناپر فعل خيرات كى وحى اور الہام سے مراد ہوسكتا ہے يہ ہو كہ خداتعالى نے انہيں ہر اس كام كى پہچان كرائي جو ميزان الہى اور واقع ميں كار خير ہے اور وحى كے ذريعے انہيں ان كے انجام كا طريقہ سكھايا بہ الفاظ ديگر ''أوحينا'' ''علّمنا'' كے معنى پر مشتمل ہے_

۱۳ _ نماز قائم كرنا اور زكات ادا كرنا ديگر نيك كاموں كے مقابلے ميں خصوصى اور بالاتر مقام كے حامل ہيں _

و أوحينا إليهم فعل الخيرات و إقام الصلوة و إيتاء الزكاة

باوجود اسكے كہ نماز اور زكات خود نيك كاموں ميں سے ہيں ليكن خداتعالى نے ان دو فريضوں كو عليحدہ طور پر ذكر كياہے _ انہيں خصوصى طور پر بيان كرنے سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۱۴ _نيك كاموں كو انجام دينا، نماز قائم كرنا اور زكات ادا كرنا حضرت ابراہيم (ع) ، اسحاق (ع) اور يعقوب (ع) كى شريعت كے فرائض ميں سے تھے_و أوحينا إليهم فعل الخيرات و إقام الصلوة و

۴۰۶

إيتاء الزكاة

۱۵ _ مسلسل اور مخلصانہ عبادت اور بندگى حضرت ابراہيم (ع) ، اسحاق(ع) اور يعقوب (ع) كے اوصاف ميں سے تھے_و كانو لنا عبدين فعل ''كون'' كہ جو وصف كے استقرار پر دلالت كرتا ہے حضرت ابراہيم(ع) كى عبادت كے دائمى ہونے كو بيان كر رہا ہے اور جار و مجرور ''لنا'' كامقدم ہونا ان كى عبادت كے خداتعالى كيلئے منحصر ہونے پر دلالت كر رہا ہے كہ جسے مخلصانہ عبادت كہا جاتا ہے _

۱۶ _ عبادت ميں اخلاص اور تسلسل،خداتعالى كيلئے عبوديت و بندگى كے كمال كا ايك مرتبہ ہے_و كانوا لنا عبدين

ابراہيم (ع) :ان كا اخلاص ۱۵; انكى امامت ۱; ان كا برگزيدہ ہونا ۲، ۶; انكى عبوديت كا دائمى ہونا ۱۵; ان كے دين كى تعليمات ۱۴; انكى شرعى ذمہ دارى ۱۱; انكى زكات ۱۱; انكا عمل خير ۱۱; ۱۲، ان كے فضائل ۱۵; انكى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۷; انكى ذمہ دارى ۹; انكا معلم ۱۲; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۲، ۱۰; انكى امامت كا سرچشمہ ۲; انكى نبوت ۱۰; انكى نماز ۱۱; انكى طرف وحى ۱۰، ۱۱; انكا ہادى ہونا ۶، ۷، ۹

اسحاق (ع) :ان كا اخلاص ۱۵; انكى امامت ۱; ان برگزيدہ ہونا ۲، ۶; انكى عبوديت كا دائمى ہونا ۱۵; ان كے دين كى تعليمات ۱۴; انكى شرعى ذمہ دارى ۱۱; انكى زكات ۱۱; انكا عمل خير ۱۱; ۱۲، ان كے فضائل ۱۵; انكى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۷; انكى ذمہ دارى ۹; انكا معلم ۱۲; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۲، ۱۰; انكى امامت كا سرچشمہ ۲; انكى نبوت ۱۰; انكى نماز ۱۲; انكى طرف وحى ۱۰، ۱۱; انكا ہادى ہونا ۶، ۷، ۹

اطاعت:خدا كى اطاعت ۸/امامت:اسكے مقام كى قدر و قيمت ۴; اسكے شرائط ۵; اس كا سرچشمہ ۳

انسان:اسكى ہدايت ۷، ۹/خداتعالى :اسكى تعليمات ۱۲; اسكے اوامر كا كردار ۷; اس كا كردار ۳

خدا كے برگزيدہ بندے ۲، ۶/دينى رہنما:ان كے عمل كا معيار۸

زكات:اسكى اہميت ۱۱; يہ د ين ابراہيم(ع) ميں ۱۴; يہ شريعت اسحاق ميں ۱۴; يہ شريعت يعقوب (ع) ميں ۱۴; اسكے ادا كرنے كى فضيلت ۱۳

صلاحيت :اسكے اثرات ۵

عبادت:اس ميں اخلاص ۱۶; اس كا دائمى ہونا ۱۶

۴۰۷

عبوديت:اسكے مراتب ۱۶

عمل:عمل خير كى اہميت ۱۱

نبوت:اسكے مقام كى قدر و قيمت ۴

نماز:اسے قائم كرنے كى اہميت ۱۱; اسے قائم كرنے كى فضيلت ۱۳; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۴; يہ شريعت

اسحاق (ع) ميں ۱۴; يہ شريعت يعقوب(ع) ميں ۱۴

يعقوب(ع) :ان كا اخلاص ۱۵; انكى امامت ۱; ان كا برگزيدہ ہونا ۲، ۶; انكى عبوديت كا دائمى ہونا ۱۵; ان كے دين كى تعليمات ۱۴; انكى شرعى ذمہ دارى ۱۱; انكى زكات ۱۱; انكا عمل خير ۱۱; ۱۲، ان كے فضائل ۱۵; انكى ذمہ دراى كا دائرہ كار ۷; انكى ذمہ دارى ۹; انكا معلم ۱۲; انكا مقام و مرتبہ ۱، ۲، ۱۰; انكى امامت كا سرچشمہ ۲; انكى نبوت ۱۰; انكى نماز ۱۲; انكى طرف وحى ۱۰، ۱۱; انكا ہادى ہونا ۶، ۷، ۹

آیت ۷۴

( وَلُوطاً آتَيْنَاهُ حُكْماً وَعِلْماً وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَت تَّعْمَلُ الْخَبَائِثَ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِينَ )

اور لوط كو ياد كرو جنھيں ہم نے قوت فيصلہ اور علم عطا كيا اور اس بستى سے نجات دلادى جو بدكاريوں ميں مبتلا تھى كہ يقينا يہ لوگ بڑے برے اور فاسق تھے (۷۴)

۱ _ حضرت لوط، (ع) خدادادى علم و حكمت سے مالامال تھے_و لوطاً ء اتينه حكماً و علم ''حكم'' كے معانى ميں سے ايك حكمت ہے مذكورہ مطلب اسى معنى پر مبتنى ہے_

۲ _ حضرت لوط(ع) ،خداتعالى كى جانب سے منصب قضاوت _ركھتے تھے_و لوطاً ء اتينه حكم مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ حكم ''قضاوت'' كے معنى ميں ہو (لسان العرب) قابل ذكر ہے كہ حكم كا ''قضاوت'' كے معنى ميں استعمال بہت زيادہ ہے_

۳ _ حضرت لوط (ع) كو خداتعالى كى خصوصى عنايات حاصل تھيں _و لوطاً ء اتينه حكماً و علما ً جملہ''و لوطاً آتيناه ...'' كا عطف جملہ''لقد آتينا إبراهيم '' پر ہے اور ''لوطاً '' كہ جو فعل ''آتيناہ'' كا مفعول ہے كا مقدم ہونا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ حضرت لوط (ع) كو خداتعالى كى خصوصى عنايات حاصل تھيں كيونكہ گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے حضرت ابراہيم كى داستان كے ضمن ميں حضرت لوط (ع) كا تذكرہ بھى فرمايا تھاليكن اس آيت ميں عليحدہ طور پر ان كا ذكر فرمايا

۴۰۸

۴ _ قوم لوط، مختلف قسم كى پليدگيوں ، وسيع ناپاكيوں اور پست و ناپسند اعمال اور خصلتوں ميں مبتلا تھي_و نجينه من القرية التى كانت تعمل الخبائث ''خبائث'' (خبيثہ كى جمع) اور مادہ ''خبث'' سے ہے كہ جس كا معنى ہے مختلف قسم كى پليدگي، ناپاكي، پست اعمال اور ناپسنديدہ خصلتيں _

۵ _ خداتعالى نے حضرت لوط(ع) كو اپنى پليد، ناپاك اور برى قوم كے شر سے نجات دي_و نجينه من القرية التى كانت تعمل الخبائث

۶ _ حضرت لوط (ع) كو روحى اور نفسياتى تكليف و اذيت پہنچاناان كے معاشرے كے ناپسنديدہ اعمال ميں سے تھي_و لوطاً و نجينه من القرية التى كانت تعمل الخبائث مذكورہ مطلب دو نكتوں كے پيش نظر ہے _ الف نجات اس جگہ ہوتى ہے جہاں پہلے مشكل ہو قريہ كيلئے ''تعمل الخبائث'' والى صفت بتاتى ہے كہ ان كا كردار حضرت لوط (ع) كو ناخوش كرتا تھا اور ان كى اذيت اور تكليف كا باعث تھا_

۷ _ آلودہ اور فاسد معاشرے ميں زندگى گزارنا مؤمنين كيلئے باعث رنج و الم اور ناقابل برداشت ہے_

و نجينه من القرية التى كانت تعمل الخبائث

۸ _ معاشرے كا فرد پر اثر جبرى اور ناقابل اجتناب نہيں ہے بلكہ مكمل طور پر فاسد اور آلودہ معاشرے ميں بھى عادات و اخلاق كو سالم ركھنا ممكن ہےو نجينه من القرية التى كانت تعمل الخبائث مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ حضرت لوط اپنى قوم كے فاسد اور خراب ماحول ميں بھى پاك اور بے گناہ رہے اور آخر كار اس سے نجات حاصل كى

۹ _ حضرت لوط (ع) كے ناپاك اور فاسد معاشرے نے آپكى دعوت اور تبليغ سے اثر قبول نہ كيا _و نجينه من القرية التى كانت تعمل الخبائث

۱۰ _ حضرت لوط (ع) كے معاشرے كا فسق و انحراف والا ماضى ان كے پليد اور غير شائستہ كردار كو اپنانے اور حضرت لوط (ع) كى دعوت كو قبول نہ كرنے كا سبب بنا_تعمل الخبائث إنهم كانوا قوم سوء فسقين جملہ''إنهم كانوا '' جملہ''تعمل الخبائث'' كى تعليل كے طور پر ہے_ بنابراين فسق (نافرمانى اور راہ حق سے انحراف) قوم لوط كے خبائث اور ناپاكى كو اختيار كرنے كا سبب بنا_ قابل ذكر ہے كہ فعل ''كانوا'' كہ جو وصف كے ثبوت اور استقرار پر دلالت كرتا ہے ماضى ميں

۴۰۹

قوم لوط كے درميان فساد اور خرابى كے دائمى ہونے كو بيان كررہا ہے_

۱۱ _ مسلسل انحراف اور فسق ،انسان كے مزيد بڑے اور زيادہ گناہوں ميں مبتلا ء ہونے كا سبب ہے_

كانت تعمل الخبئث إنهم كانوا قوم سوء فسقين

۱۲ _ فاسد اور ناپاك معاشرے سے نجات ايك عظيم اور شكر كے قابل نعمت ہے_و نجينه من القرية التى كانت تعمل الخبئث إنهم كانوا قوم سوء فسقين آيت كريمہ حضرت لوط (ع) پر احسان جتلانے كے درپے ہے بنابراين فاسد قوم سے نجات ايسى نعمت ہے كہ جسكے ساتھ خداتعالى نے حضرت لوط(ع) پر احسان كيا_

انسان:اس كا اختيار ۸

معاشرہ:فاسد معاشرے ميں زندگى كے اثرات ۷

خداتعالى :اسكے عطيے ۱; اس كا نجات دينا ۵

شكر:نعمت كا شكر ۱۲

فسق:اسكے اثرات ۱۱

قوم لوط:اسكے فسق كے اثرات ۱۰; اسكى پليدگى ۴; اس كى تاريخ ۴، ۹، ۱۰; اس كا حق كو قبول نہ كرنا ۹; اسكے رذائل ۴; اسكى حق دشمنى كا پيش خيمہ ۱۰; اسكے ناپسنديدہ عمل كا پيش خيمہ ۱۰; اس كا برا ماضي۱۰; اس كا ناپسنديدہ عمل ۴، ۶; اس سے نجات ۵

گناہ:اس كا پيش خيمہ ۱۱

خدا كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۳

لوط(ع) :انكى اذيت ۶; انكى تبليغ كا اثر نہ كرنا ۹; انكا عمل لدنى ۱; ان كے فضائل ۱، ۳; انكا قصہ ۵، ۶، ۹; انكا مقام و مرتبہ ۲; انكى حكمت كا سرچشمہ ۱; انكى قضاوت كا سرچشمہ ۲; انكى نجات ۵

مؤمنين:انكے رنج كے عوامل ۷

معاشرتى ماحول:اس كا مجبور كرنا ۸

نعمت:اسكے درجے ۱۲; فاسد معاشرے سے نجات والى نعمت ۱۲

۴۱۰

آیت ۷۵

( وَأَدْخَلْنَاهُ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ )

اور ہم نے انھيں اپين رحمت ميں داخل كرليا كہ وہ يقينا ہمارے نيك كردار بندوں ميں سے تھے (۷۵)

۱ _ حضرت لوط (ع) پر الله تعالى كى خاص رحمت تھي_و ا دخلناه فى رحمتن

۲ _ حضرت لوط(ع) صالحين اور شائستہ لوگوں ميں سے تھے_إنه من الصالحين

۳ _ حضرت لوط(ع) كا صالح اور شائستہ ہونا ان كے خداتعالى كى خصوصى رحمت سے بہرہ مند ہونے كا سبب تھا_

و ا دخلنه فى رحمتنا إنه من الصالحين

مذكورہ مطلب اس وجہ سے ہے كہ جملہ ''إنہ من الصالحين'' جملہ''ا دخلناه فى رحمتنا'' كيلئے علت ہے_

۴ _ صالحين، خداتعالى كى خاص رحمت سے بہرہ مند ہيں _و ا دخلنه فى رحمتنا إنه من الصالحين

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ جملہ ''انہ من الصالحين''، ''ا دخلناہ ...'' كيلئے علت ہے اور تعليل حكم كے عام ہونے اور اسكے ديگر مورد بحث افراد كو شامل ہونے كا سبب ہوتى ہے يعنى جو بھى صالح ہو وہ رحمت خدا ميں داخل ہوگا_

۵ _ حضرت لوط (ع) كا اپنى قوم كى برائيوں سے پاك ہونا اور نجات پانا ان كے خداتعالى كى خاص رحمت سے بہرہ مند ہونے كا سبب_و لوطاً نجينه و أدخلنه فى رحمتن

۶ _ فاسد اور خراب معاشرے سے نجات پانا الله تعالى كى خاص رحمت كى علامت ہے _*و نجينه و أدخلنه فى رحمتن مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''ا دخلناہ ...'' كا جملہ ''آتيناہ'' پر عطف، تفسيرى ہو_

معاشرہ:فاسد معاشرے سے نجات ۶

۴۱۱

خداتعالى :اسكى رحمت كا پيش خيمہ ۳

رحمت:اس كا پيش خيمہ ۵; يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۴، ۵; اسكى نشانياں ۶

صالحين:ان كے فضائل ۴

لوط(ع) :انكى پاكى كے اثرات ۵; انكى صلاحيت كے اثرات۳; ان كے فضائل ۱، ۲، ۵; آپ صالحين ميں سے ۲

آیت ۷۶

( وَنُوحاً إِذْ نَادَى مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ )

اور نوح كو ياد كرو كہ جب انھوں نے پہلے ہى ہم كو آواز دى اور ہم نے ان كى گذارش قبول كرلى اور انھيں اور ان كے اہل كو بہت بڑے كرب سے نجات دلادى (۷۶)

۱ _ حضرت نوح(ع) ايك پيغمبر جو حضرت ابراہيم (ع) اور لوط(ع) سے پہلے تھے_و نوحاً إذ نادى من قبل

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ گذشتہ آيات _ كہ جو حضرت ابراہيم (ع) اور حضرت لوط (ع) كے بارے ميں تھيں _ قرينہ ہيں كہ ''من قبل'' سے مراد حضرت ابراہيم (ع) اور حضرت لوط(ع) سے پہلے كا زمانہ ہے_

۲ _ حضرت نوح (ع) كى د استان ايسى داستان ہے جو سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد دہانى كرانے كے قابل ہے_

و نوحاً إذ نادى ''نوحاً'' فعل مقدر (جيسے ''اذكر'' يا ''اذكروا'') كا مفعول ہو_

۳ _ حضرت نوح (ع) خداتعالى كى جانب سے علم و حكمت اور منصب قضاوت ركھتے تھے_و لوطاً أتينه حكماً و علماً و نوحاً إذ نادى مذكورہ مطلب اس احتمال كى بنياد پر ہے كہ ''نوحا'' كا عطف ''لوطاً آتيناہ'' پر ہو يعنى جس طرح ہم نے لوط (ع) كو علم، حكمت اور عطا كئے اسى طرح ہم نے ''نوح(ع) '' كو بھى عطا كئے قابل ذكر

۴۱۲

ہے كہ كلمہ ''حكم'' حكمت كے معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے اور قضاوت كے معنى ميں بھى (لسان العرب)

۴ _ حضرت نوح(ع) بلند اور واضح آواز كے ساتھ خداتعالى سے اس بات كے خواہاں ہوئے كہ وہ اسے اپنى قوم سے نجات دے_و نوحاً إذ نادى من قبل

''ندائ'' كا معنى ہے بلند اور واضح آواز (مفردات راغب) اور سورہ نوح كى آيت ۲۶ (و قال نوح رب لا تذر على الأرض من الكافرين ديّاراً) نيز اس آيت شريفہ كا ذيل (فنجيناہ و أہلہ ...) قرينہ ہے كہ اس آيت ميں اس سے مراد حضرت نوح (ع) كى اپنى قوم سے نجات ہے_

۵ _ حضرت نوح(ع) كى اپنى قوم سے نجات حاصل كرنے والى دعا قبول ہوئي _و نوحاً إذ نادى من قبل فاستجنا له

۶ _ اپنى رسالت كى انجام دہى كے راستے ميں حضرت نوح(ع) اور انكا خاندان شديد اور بڑے غم و اندوہ ميں گرفتار تھے_و نوحاً إذ نادى فنجّينه و أهله من الكرب العظيم ''كرب'' كا معنى ہے شديد غم و اندوہ (مفردات راغب)

۷ _خداتعالى نے رسالت كى انجام دہى كے نتيجے ميں پہنچنے والے شديد اور بڑے غم و اندوہ سے حضرت نوح(ع) اور ان كے خاندان كو نجات دي_فنجينه و أهله من الكرب العظيم

۸ _ حضرت نوح(ع) كى بے ايمان قوم حضرت نوح (ع) اور ان كے خاندان كيلئے شديد غم و اندوہ كا باعث تھي_

فنجينه و أهله من الكرب العظيم

۹ _ حضرت نوح (ع) كا خاندان انكى رسالت پر ايمان ركھتا تھا اور وہ خدا تعالى كے لطف و كرم سے بہرہ مند تھا_

فنجينه و أهله من الكرب العظيم خاندان نوح(ع) كى نجات خداتعالى كى اس پر خصوصى عنايات كو بيان كر رہى ہے نيز ان كے حضرت نوح(ع) كى رسالت پر ايمان سے حاكى ہے كيونكہ اگر وہ بھى قوم نوح كى طرح كافر ہوتے تو نجات نہ پاتے قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت (و نصرنه من القوم الذين كذبوا ...) اسى نكتے كى تائيد كرتى ہے _

انبياء (ع) :حضرت ابراہيم (ع) سے پہلے كے انبيا(ع) ء ۱; حضرت لوط(ع) سے پہلے كے ، انبيا ئ۱; انكى تاريخ ۱

خداتعالى :اس كا نجات دينا ۷

ذكر:حضرت نوح(ع) كے قصے كا ذكر ۲

عبرت:اسكے عوامل ۲

قوم نوح(ع) :اس كا كفر ۸; اس سے نجات ۴، ۵; اس كا كردار ۸

۴۱۳

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۹

نوح(ع) :انكى دعا كا قبول ہونا ۵; ان كے گھرانے كا غم ۶; انكا غم ۶; ان كے گھرانے كا ايمان ۹; انكى تاريخ ۱; انكى دعا ۴; انكى رسالت ۶، ۷; ان كے گھرانے كے غم كا دور ہونا ۷; ان كے غم كا دور ہونا ۷; ان كے قصے سے عبرت ۲; ان كا علم لدني۳; ان كے گھرانے كے غم كے عوامل ۸; ان كے غم كے عوامل ۸; ان كے گھرانے كے فضائل ۹; ان كے فضائل ۳، ۹; ان كا قصہ ۴، ۵، ۶، ۷، ۸; ان پر ايمان لانے والے ۹; انكا مقام ۳; انكى حكمت كا سرچشمہ ۳; انكى قضاوت كا سرچشمہ۳; ان كے گھروالوں كى نجات ۷; انكى نجات ۵، ۷

آیت ۷۷

( وَنَصَرْنَاهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ )

اور ان لوگوں كے مقابلہ ميں ان كى مدد كى جو ہمارى آيتوں كى تكذيب كيا كرتے تھے كہ يہ لوگ بہت برى قوم تھے تو ہم نے ان سب كو غرق كرديا (۷۷)

۱ _ خداتعالى نے حضرت نوح(ع) كو آيات الہى كے جھٹلانے والوں كے گزند سے نجات دى اور انكى مكمل حمايت كي_و نصرنه من القوم الذين كذّبوا بأى تن كلمہ ''نصر'' جب بھى ''من'' كے ساتھ متعدى ہو تو يہ نجات اور خلاصى پانے كے معنى پر مشتمل ہوتا ہے (اقتباس از قاموس)

۲ _ قوم نوح(ع) نے آيات الہى كو جھٹلايا _و نصرنه من القوم الذين كذّبوا بأيتن

۳ _ قوم نوح (ع) بدكار اور ناشائستہ لوگ تھے_إنهم كانوا قوم سوء

۴ _ قوم نوح(ع) كا برا ماضى ان كے آيات الہى كو جھلانے كا سبب بنا _الذين كذبوا بأيتنا كانوا قوم سوء

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''إنہم كانوا ...'' سابقہ جملہ كى علت كو بيان كررہا ہو قابل ذكر ہے كہ فعل ''كانوا'' كہ جو وصف كے ثابت اور مستقر ہونے پر دلالت كرتا ہے_ قوم نوح كے درميان وصف سوء كے دائمى ہونے كو بيان كررہا ہے اور چونكہ يہ فعل ماضى ہے اس لئے اسے برے ماضى سے تعبير كيا گيا_

۵ _ خداتعالى نے حضرت نوح(ع) كى پورى قوم كو آيات الہى كو جھٹلانے ، بدكارى اور برے ماضى كى وجہ سے غرق كرديا_

الذين كذبوا بآيا تنا أنهم كانوا قوم سوء فأغرقنهم أجمعين مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''انہم كانوا ...'' سابقہ جملہ كى علت ہونے كے علاوہ جملہ ''فاغرقناهم '' كيلئے مقدمہ بھى ہو_

۴۱۴

۶ _آيات الہى كو جھٹلانا، بدكارى اور برا ماضى عذاب الہى كے نزول اور ہلاكت كا سبب ہے_

الذين كذبوا بآيا تنا إنهم كانوا قوم سوء فأغرقناهم أجمعين

۷ _ قدرتى عوامل ارادہ الہى كے مظاہر اور تجلى گاہ ہيں _الذين كذبوا بآيا تنا فأغرقناهم أجمعين

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے ہے كہ خداتعالى نے قوم نوح كو ہلاك كرنے كے اپنے ارادے كو طوفان بھيج كر عملى جامہ پہنايا_

۸ _ انسانى معاشروں كى ہلاكت اور بدبختى خود ان كى اپنى بدكارى اور نامناسب كرداركا نتيجہ ہے_الذين كذبوا بآيا تنا إنهم كانوا قوم سوء فأغرقناهم أجمعين مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر حاصل ہوتا ہے كہ خداتعالى نے دو عوامل (آيات الہى كو جھٹلانا اور برا ماضي) كو ہلاكت كا سبب شمار كيا ہے اور دونوں كو خود انسان كى طرف نسبت دى ہے_

آيات الہي:انكے جھٹلانے كے اثرات ۶; ان كے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۴; ان كے جھٹلانے كى سزا ۵; انہيں جھٹلانے والے ۱، ۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے مظاہر ۷; اس كا نجات دينا ۱

عذاب:اس كا پيش خيمہ ۶

عمل:ناپسنديدہ عمل كے معاشرتى اثرات ۸; ناپسنديدہ عمل كے اثرات ۴، ۶; ناپسنديدہ عمل كى سزا ۵

قدرتى عوامل:ان كا دخل ۷

قوم نوح (ع) :اسكى تاريخ ۲، ۳، ۴; اس كا جھٹلانا ۲، ۴; اس كا برا ماضى ۴، ۵; اس كا ناپسنديدہ عمل ۳، ۵; اس كا غرق ہونا ۵

ماضي:برے ماضى كے اثرات ۶

معاشرہ:معاشرتى آسيب شناسى ۸; اسكى بدبختى كے عوامل ۸; اسكى ہلاكت كے عوامل ۸

نوح(ع) :انكا حامى ۱; انكا قصہ ۱; انكى نجات ۱

ہلاكت:اس كا پيش خيمہ ۶

۴۱۵

آیت ۷۸

( وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ )

اور داؤد اور سليمان كو ياد كرو جب وہ دونوں ايك كھيتى كے بارے ميں فيصلہ كر رہے تھے جب كھيت ميں قوم كى بكرياں گھس گئي تھيں اور ہم ان كے فيصلہ كو ديكھ رہے تھے (۷۸)

۱ _ داود اور سليمان كى داستان ياد ركھنے اور ياد دلانے كے قابل ہے_و داود و سليمان إذ يحكمان فى الحرث

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''داود'' فعل محذوف ''جيسے اذكر'' كا مفعول بہ ہو (البتہ خبر جيسے مضاف كو حذف كرنے كے ساتھ ) يعنى داود اور سليمان كى خبر كى ياد دہانى كرا_

۲ _ داودا ور سليمان(ع) كا ان كھيتوں كے بارے ميں فيصلہ كرنا جن ميں رات كے وقت لوگوں كى بكرياں چرگئي تھيں _

و داود و سليمان إذ يحكمان فى الحرث إذ نفشت فيه غنم القوم

''نفش'' كا معنى ہے رات كے وقت حيوان كا چرواہے كے بغير يا اسكى اطلاع كے بغير چرنا _

۳ _ داوداور سليمان نے ان كھيتوں كے نقصان كے بارے ميں مشورہ كيا كہ جنہيں بكريوں نے تلف كرديا تھا_

و داود و سليمان إذ يحكمان فى الحرث إذ نفشت فيه غنم القوم مذكورہ مطلب اس احتمال كى نبياد پر ہے كہ ''يحكمان'' صيغہ تثنيہ داود اور سليمان كے مشورے كى طرف اشارہ ہو كيونكہ ايك ہى واقعے ميں ہر ايك كا عليحدہ طور پر فيصلہ كرنا بعيد لگتا ہے_

۴ _ فيصلے اور قضاوت كے معاملے ميں مشورہ كرنا پسنديدہ اور شائستہ امر ہے_داود و سليمان إذ يحكمان فى الحرث و كنا لحكمهم شهدين

۵ _ داودا ور سليمان بكريوں كے ذريعے تلف شدہ كھيتوں كے نقصان كے تدارك كے بارے ميں حكم خدا كو عملى كرنے كى كيفيت كے بارے ميں اختلاف رائے ركھتے تھے_داود و سليمان اذ يحكمان فى الحرث إذ نفشت فيه غنم القوم و كنا لحكمهم شهدين معمولاً مفسرين كا كہنا يہ ہے كہ ''ففہمناہا'' كا بتاتاہے كہ خداتعالى نے حضرت سليمان(ع) كے نظريئےى تائيد كى اور دوسرى طرف سے يہ جملے ''كنا لحكمہم شاہدين'' اور ''وكلا آتينا حكماً و علماً'' بتاتے ہيں كہ دونوں كا نظريہ خداتعالى كى نظارت، حكم اور علم كى بنياد پر تھا_ ان دو باتوں كو يوں جمع كيا جاسكتا ہے كہ ان دونوں كا اختلاف حكم الہى ميں نہيں تھا بلكہ عملى اور اجراء كرنے كى كيفيت ميں تھا_

۴۱۶

۶ _ داود اور سليمان كا فيصلہ خداتعالى كى نظارت ميں اور اس كا مورد تائيد تھا_و كنالحكمهم شهدين

''حكمہم'' كى ضمير كا مرجع داودا رو سليمان ہيں بنابراين ان دونوں كے فيصلے كى نسبت خداتعالى كى شہادت اور گواہى كو ذكر كرنا اسكى تائيد كى طرف اشارہ ہے _

۷ _ داود اور سليمان اپنے زمانے كے لوگوں كے درميان فيصلے كرنے اور قضاوت كا منصب ركھتے تھے_و داود و سليمان إذ يحكمان فى الحرث

۸ _''عن آبى جعفر(ع) فى قوله الله تبارك و تعالى :و داود و سليمان أذا يحكمان فى الحرث ''قال لم يحكمان إنما كانا يتاظران ففهمها سليمان ;الله تعالى كے فرمان (و داود و سليمان اذ يحكمان فى الحرث ...) كے بارے ميں امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا كہ داود(ع) ا ور سليمان نے فيصلہ نہيں كيا تھا بلكہ وہ بحث مباحثے ميں مشغول تھے كہ خداتعالى نے اس واقعے كا حكم حضرت سليمان(ع) كو سمجھا ديا(۱)

۹ _ احمدبن عمر حلبى كہتے ہيں ميں نے خداتعالى كے فرمان (و داود و سليمان اذ يحكمان فى الحرث ...) كے بارے ميں امام ابوالحسن(ع) سے سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا حضرت داؤد(ع) كا فيصلہ يہ تھا كہ وہ بكرياں صاحب زراعت كو دے دى جائيں اور جو چيز خداتعالى نے حضرت سليمان(ع) كو سمجھائي وہ يہ تھى كہ صاحب زراعت كے حق ميں يہ فيصلہ كيا جائے كہ پورا سال ان بكريوں كا دودھ اور پشم اسكى ہوگى(۲)

۱۰ _ امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ بنى اسرائيل كے ايك شخص كا انگوروں كا باغ تھا اور كسى دوسرے شخص كى بكرياں رات كے وقت اس ميں داخل ہوئيں اور اسے كھانے لگيں اور اس طرح اسے برباد كرديا باغ كے مالك نے حضرت داود (ع) كے پاس بكريوں كے مالك كى شكايت كى انہوں نے فرمايا سليمان(ع) كے پاس جائيں تا كہ وہ تمہارے درميان فيصلہ كريں پس وہ سليمان(ع) كے پاس گئے انہوں نے كہا اگر بكريوں نے بيلوں اور شاخوں

____________________

۱ ) من لايحضرہ الفقيہ ج۳، ص ۵۷، ح۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۴۳، ح ۱۱۵_

۲ ) من لا يحضرہ الفقيہ ج۳، ص ۵۷ ح ب ۴۳ ح ۲_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۴۳ ح ۱۱۶_

۴۱۷

دونوں كو كھايا ہے تو بكريوں كے مالك كيلئے ضرورى ہے كہ بكرياں اور ان كے شكم ميں موجود بچے صاحب باغ كو دے اور اگر صرف بيلوں كى ٹہنيوں كو كھايا ہے اور اصل بيليں باقى ہوں تو بكريوں كے بچے صاحب باغ كو دے اور حضرت داؤد كى رائے بھى يہى تھي ...''(۱)

۱۱ _ الله تعالى كے فرمان (و داؤد و سليمان اذ يحكمان فى الحرث ...) كے بارے ميں امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا بيشك خداتعالى نے داود سے پہلے كے انبيا كى طرف وحى كى تھي_پھر خداتعالى نے انہيں (داؤد كو) مبعوث كيا وحى يہ تھي_ كہ اگر كوئي بكرى رات كے وقت كسى كھيتى ميں داخل ہو تو كھيتى كے مالك كو حق ہے كہ اس بكرى پر قبضہ كرلے پس داؤد (ع) نے اپنے سے پہلے انبيا(ع) ء كے اسى حكم كے مطابق فيصلہ دے ديا اور خداتعالى نے سليمان(ع) كى طرف وحى كى كہ اگر بكرى رات كے وقت كھيت ميں داخل ہو تو كھيتى كے مالك كو كوئي حق نہيں ہے _ مگر اس چيز (بچے) كا جو اسكے پيٹ سے باہر آئے اور سليمان(ع) كے بعد يہى سنت جارى رہى(۲)

خداتعالى :اسكى نظارت ۶

تذكرہ:داؤد(ع) كے قصے كا تذكرہ ۱: سليمان(ع) كے قصے كا تذكرہ ۱

روايت ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

سليمان:ان كا قصہ ۲، ۹، ۱۰، ۱۱; انكا فيصلہ ۲، ۵، ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے فيصلے كے مبانى ۱۱; انكا داود كے ساتھ مشورہ ۳; انكا مقام و مرتبہ ۷; ان كے فيصلے كا ناظر ۶_

داؤد (ع) :انكا اور سليمان(ع) كا اختلاف ۵; ان كے قصے كے كھيت كا نقصان ۵; انكا قصہ ۲، ۹، ۱۰، ۱۱; ان كے قصے كى كھيتى ۲، ۳، ۹، ۱۰، ۱۱; انكافيصلہ۸ہ ۲، ۵، ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے فيصلے كے مبانى ۱۱; انكا مقام و مرتبہ ۷; انكا سليمان(ع) كے ساتھ مناظرہ ۸; ان كے فيصلے كا ناظر و شاہد ۶

عمل:ناپسنديدہ عمل۴

فيصلہ:اسكے آداب۴; اس ميں مشورہ ۴

____________________

۱ ) تفسير قمى ج۲، ص ۷۳_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۴۳، ح ۱۱۴_

۲ ) كافى ج۵ ص ۳۰۲ ح ۳_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۴۱ ح ۱۱۱_

۴۱۸

آیت ۷۹

( فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلّاً آتَيْنَا حُكْماً وَعِلْماً وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ وَكُنَّا فَاعِلِينَ )

پھر ہم نے سليمان كو صحيح فيصلہ سمجھا ديا اور ہم نے سب كو قوت فيصلہ اور علم عطا كيا تھا اور داؤد كے ساتھ پہاڑوں كو مسخر كرديا تھا كہ وہ تسبيح پروردگار كريں اور طيور كو بھى مسخر كرديا تھا اور ہم ايسے كام كرتے رہتے ہيں (۷۹)

۱ _ بكريوں كے ذريعے تلف شدہ كھيتى كے نقصان كے بارے ميں حضرت سليمان(ع) كا فيصلہ خداتعالى كے الہام كى بنياد پر تھا _ففهمنا ها سليمان(ع)

''ففہمنا'' ميں ''فائ'' تعقيب كيلئے ہے اور ضمير ''ھا'' حكومت (فيصلے) كى طرف راجع ہے يعنى داؤدا(ع) ور سليمان(ع) كے فيصلے ميں ہم نے واقعى حكم سليمان(ع) كو سمجھايا_

۲ _ تلف شدہ كھيتى كے نقصان كے بارے ميں حكم كى تشخيص ميں سليمان(ع) كى داؤد(ع) پر برتري

وداؤد و سليمان إذ يحكمان فى الحرث ففهمناها سليمان

۳ _ حضرت سليمان(ع) ، خداتعالى كے مورد توجہ و عنايات حتى كہ داؤد(ع) كے زمانے ميں بھى _

و داؤد و سليمان إذ يحكمان فى الحرث ففهمناها سليمان(ع)

۴ _ داؤد(ع) ا ور سليمان(ع) مقام قضاوت اور علم لدنى كے مالك تھے_وداؤد(ع) و سليمان(ع) و كلاًّ أتينا حكماً و علم

۵ _ منصب قضاوت پر فائز ہونے كيلئے علمى صلاحيت كى ضرورت ہے_و كلاً أيتنا حكماً و علم

منصب قضاوت كے بعد علم عطا كرنا ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كر رہا ہو كے قضاوت كا علم كے ہمراہ ہونا ضرورى ہے اگرچہ آيت كريمہ ميں علم وسيع معنى ركھتا ہے اور صرف فيصلے كے علم ميں منحصر نہيں ہے_

۶ _ پہاڑ اور پرندے بھى تسخير الہى كے ساتھ داؤد(ع) كے ہمراہ خداتعالى كى تسبيح كرتے تھے_و سخرنا مع داؤد الجبال يسبّحن و الطير

۴۱۹

۷ _ فطرت (پہاڑ پرندے و غيرہ) بھى خداتعالى كے بارے ميں ايك قسم كا شعور اور آگاہى ركھتے ہيں _الجبال يسبّحن و الطير پہاڑوں اور پرندوں كا تسبيح خداوندى ميں داؤد(ع) كے ساتھ ہم آواز ہونا مذكورہ حقيقت كا غماز ہوسكتا ہے_

۸ _ داؤد(ع) بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام ركھتے تھے اور اسكے خصوصى الطاف سے بہرہ مند تھے_و سخرنا مع داؤد الجبال يسبّحن و الطير چونكہ خداتعالى نے داؤد(ع) كے ساتھ تسبيح الہى ميں ہم آواز ہونے كيلئے پہاڑوں اور پرندوں كو مسخر كيا_ جبكہ سب چيزيں خداتعالى كى تسبيح ميں مشغول ہيں _ اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۹ _ فطرت كے موجودات (پہاڑ، پرندے و غيرہ) كا تسبيح الہى ميں انبيا(ع) ء كے ساتھ ہم آواز ہونا_و سخرنا مع داؤد الجبال يسبّحن و الطير و كنا فعلين

''كنا فعلين'' (ہم ماضى ميں اس كام كو انجام ديتے تھے) كى تعبير اس حقيقت كو بيان كرنے كيلئے ہے كہ پہاڑ اور پرندے صرف داؤد(ع) اور سليمان(ع) كے ساتھ ہم آواز نہيں ہوئے بلكہ اس سے پہلے انبيا(ع) ء الہى كے ساتھ ہم آواز ہوتے تھے_

۱۰ _ فطرت كے موجودات كا تسبيح الہى كے لئے انبيا(ع) ء كے ساتھ ہم آواز ہونا، قدرت الہى كا ايك جلوہ ہے_

و سخرنا مع داؤد الجبال يسبّحن و الطير و كنا فعلين

انبياء(ع) :انكى تسبيح ۹، ۱۰

پرندے:انكى تسبيح ۶، ۹; ان كا شعور ۷

تسبيح:تسبيح خدا ۶، ۹

خداتعالى :اسكى قدرت كى نشانياں ۱۰

داؤد(ع) :انكى تسبيح ۶; ان كے قصے كى كھيتى كا نقصان ۱; انكا علم لدنى ۴; ان كے فضائل ۲، ۳، ۴، ۸; انكى قضاوت ۲; انكا مقام و مرتبہ ۴; انكا منصب قضاوت ۴

سليمان(ع) :انكو الہام ۱; انكا علم لدنى ۴; ان كے فضائل ۲، ۳، ۴; انكى قضاوت ۲; انكا مقام و مرتبہ ۴; انكا منصب قضاوت ۴; انكى قضاوت كا سرچشمہ ۱

فطرت و طبيعت :اس كا شعور ۷

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750