تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219166 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

قضاوت:اسكے شرائط ۵; اس ميں علم ۵

پہاڑ:انكى تسبيح ۶، ۷; انكى تسخير ۶; انكا شعور ۷

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۳، ۸

موجودات:انكى تسبيح ۱۰

آیت ۸۰

( وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُم مِّن بَأْسِكُمْ فَهَلْ أَنتُمْ شَاكِرُونَ )

اور ہم نے انھيں زرہ بنانے كى صنعت تعليم ديدى تا كہ وہ تم كو جنگ كے خطرات سے محفوظ ركھ سكے تو كيا تم ہمارے شكرگذار بندے بنوگے (۸۰)

۱ _ خداتعالى نے حضرت داؤد(ع) كو زرہ سازى كا فن سكھايا_داؤد(ع) و علمنه صنعة لبوس

''لبوس'' در حقيقت اس لباس كو كہتے ہيں جو انسان كو ہر برى چيز سے چھپائے (مفردات راغب) اور''لتحصنكم من بأسكم'' (تا كہ تمہيں جنگ كے خطرات سے محفوظ ركھے) كے قرينے سے اس آيت ميں اس سے مراد زرہ ہوسكتى ہے_ قابل ذكر ہے كہ بعض اہل لغت نے ''لبوس'' كو ''درع'' (زرہ) كے معنى ميں قرار ديا ہے_ (قاموس)

۲ _ خداتعالى نے حضرت داؤد(ع) كو دفاعى اسلحہ بنانے كا فن سكھايداؤد و علمنه صنعة لبوس

''لبوس'' كے موارد استعمال ميں سے ايك مطلق ''اسلحہ'' ہے (لسان العرب) ليكن جملہ ''لتحصنكم من بأسكم'' كو ديكھتے ہوئے اس سے مراد دفاعى اسلحہ ہے كہ جو انسان كو دشمن كے حملوں سے بچائے اور اسے دشمن كى ضرب سے محفوظ ركھے_

۳ _صنعت زرہ سازي، حضرت داؤد(ع) كى ايجاد ہے_داؤد و علمنه صنعة لبوس

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ آيات انبيا(ع) ء كى خصوصيات كو شمار كر رہى ہيں اور حضرت داؤد(ع) پر خداتعالى كے خصوصى لطف و كرم كو بيان كر رہى ہيں _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ يہ صنعت پہلے نہيں تھى ورنہ اس كا تذكرہ زيادہ مناسب نہيں ہے_

۴ _ حضرت داؤد(ع) كا فن زرہ سازي، لوگوں كو جنگ كے خطرات اور نتائج سے محفوظ ركھنے كيلئے تھا_داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

۴۲۱

۵ _ حضرت داؤد(ع) حق كى باطل كے خلاف جنگ كے ميدانوں ميں لڑنے والے اور جنگجو پيغمبر تھے _*داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم خداتعالى كى طرف سے حضرت داؤد(ع) كو صنعت اسلحہ سازى اور زرہ بنانے كا طريقہ سكھانا اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ آپ اہل جنگ تھے اور جنگ كے ميدانوں ميں حاضر رہتے تھے_

۶ _ ضرورى ہے كہ صنعت اسلحہ سازى اور اسلحہ بنانا نيك لوگوں كے اختيار ميں اور دينى معاشرے كے رہنماؤں كى زير نظارت ہو_داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم چونكہ خداتعالى نے دشمن كے مقابلے ميں لوگوں كے اپنے مفادات كى حفاظت كيلئے صرف حضرت داؤد(ع) كو اسلحہ سازى كا فن سكھايا اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۷ _ حضرت داؤد(ع) كے ہمراہ زندگى گزارنے والے لوگوں كو دشمن كے فوجى حملوں كا خطرہ رہتا تھا_داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم آيت كريمہ ان لوگوں پر احسان جتلا رہى ہے جو حضرت داؤد(ع) كے ہمراہ زندگى بسر كر رہے تھے كيوكہ ''كم'' كے مخاطب وہى لوگ ہيں اور يہ احسان جتلانا اس وقت صحيح ہے جب وہ دشمن كے حملوں كى زد ميں اور اسكے خطرات سے دوچار ہوں _

۸ _ لوگوں كے مفادات اور منافع كى حفاظت كرنا ،اسلحے كى نوعيت، مقدار اور پھيلاؤ ميں بنيادى معيار اور صنعت اسلحہ سازى ميں دينى معاشرے كى كلى سياست ہے_و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

مذكورہ مطلب ''لكم'' كے لام انتفاع سے حاصل كيا گيا ہے اس طرح كہ حضرت داؤد(ع) كو اسلحہ سازى تعليم لوگوں كے مفادات كى حفاظت كيلئے تھا اور يہى مسئلہ دينى معاشرے ميں اسلحہ سازى اور اسكے پھيلاؤ كى كلى سياست كا معيار ہے_

۹ _ دفاعى اسلحہ تيار كرنا اور اس سے استفادہ كرنا ايك ضرورى اور شائستہ امر ہے_و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

۱۰ _ مظلوم اور دشمن كے تجاوز سے دوچار انسانوں كے مفادات كى خاطر علوم اور ايجادات كو استعمال ميں لانا ضرورى ہے_و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم ''لكم'' كا لام انتفاع كيلئے اور ''لتحصنكم'' كا لام علت كيلئے ہے اور علت ہوسكتا ہے حكم كو تعميم دينے والى ہو اس صورت ميں كہا جاسكتا ہے كہ جو چيز بھى لوگوں كے فائدے كيلئے ہو اور انسان كو دوسروں كے ظلم و تجاوز سے بچائے_ چاہے وہ اسلحہ كى تيارى ہو يا كوئي اور چيز_ وہ ضرورى اور لازمى ہے_

۱۱ _ انسان كى طرف صنعت اور تجرباتى علوم كے منتقل كرنے ميں انبيا(ع) ء كا كردار

۴۲۲

_داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

۱۲ _ انبيا(ع) ئ، خدا كى طرف سے لوگوں كو خير پہنچانے كا ذريعہ ہيں _داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

۱۳ _ خداتعالى نے حضرت داؤد(ع) كے زمانے كے لوگوں كو حضرت داؤد(ع) كو اسلحہ سازى كى نعمت عطا كرنے كے مقابلے ميں شكر ادا كرنے كى طرف دعوت دي_و علمنه صنعة لبوس لكم فهل أنتم شكرون جملہ''فهل أنتم شاكرون'' ميں استفہام امر كے معنى پر مشتمل ہے_

۱۴ _ انسان كا دفاعى علوم و صنايع تك دسترسى حاصل كرنا ايسى نعمت ہے جو شكر ادا كرنے كے لائق ہے_

و علمنه صنعة لبوس لكم فهل أنتم شكرون

۱۵ _ ملك كا امن و امان اور ملت كے مفادات كى حفاظت ايسى نعمتيں ہيں جو شكر ادا كرنے كے لائق ہيں _

و علمنه صنعة لبوس لكم فهل أنتم شكرون خداتعالى نے داؤد(ع) كو اسلحہ سازى كى صنعت كى تعليم دينے كى وجہ سے لوگوں كو شكر ادا كرنے كى دعوت دى ليكن چونكہ ضرورى ہے كہ يہ صنعت لوگوں كے مفادات كى حفاظت اور انہيں دشمن كے حملوں سے بچانے كيلئے ہو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ لوگوں كے مفادات اور دشمن كے مقابلے ميں ان كا امن و امان اصلى اور آخرى ہدف ہے_

۱۶ _ اسلحہ اور زرہ تيار كرنا، حضرت داؤد(ع) كا معجزہ اور انكى نبوت كى دليل_داؤد ...و علمنه صنعته لبوس لكم فهل أنتم شكرون عام طور پر مفسرين كا خيال يہ ہے كہ يہ آ يت اور اس سے پہلے كى آيات گذشتہ انبيا(ع) ء كے معجزات اوران كى نبوت كے شواہد بيان كر رہى ہيں _

۱۷ _ امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ اميرالمؤمنين(ع) نے فرمايا خداتعالى نے لوہے كى طرف وحى كى كہ ميرے بندے داؤد(ع) كيلئے نرم ہوجائے خداتعالى نے ان كيلئے لوہے كو نرم كيا اور وہ ہر روز ايك زرہ تيار كرتے تھے_

اسلحہ:اسكے تيار كرنے كى اہميت ۶; دفاعى اسلحہ تيار كرنے كى اہميت ۹; اسلحہ تيار كرنا ۱۶; اسلحہ تيار كرنے كا معيار ۸

ايجادات:

____________________

۱ ) كافى ج ۵ ص ۷۴ ح۵; نورالثقلين ج۳ ص ۴۴۶ ح ۱۲۲_

۴۲۳

ان سے استفادہ كرنے كا پيش خيمہ ۱۰

انبياء(ع) :ان كا نقش و كردار ۱۱، ۱۲

انسان:اسكى حفاظت كرنا ۱۴

جنگ:داؤد(ع) كے زمانے ميں جنگ كا خطرہ ۷

خداتعالى :اسكى تعليمات ۱، ۲; اسكى دعوت ۱۳

خير:اس كا سرچشمہ ۱۲; اس كا واسطہ ۱۲

داؤد(ع) (ع) :ان كا جنگجو ہونا ۵; ان كے زمانے كے لوگوں كو دعوت ۱۳; انكى نبوت كے دلائل ۱۶; انكى زرہ سازى ۱، ۳،۱۶، ۱۷; انكا دفاعى اسلحہ ۲; انكى صفات ۵; انكى زرہ سازى كا فلسفہ ۴; انكا قصہ ۱، ۴، ۷; ان كا معجزہ ۱۶; انكا معلم ۱، ۲

روايت :۱۷

دينى راہنما:ان كا نقش و كردار ۶

زرہ سازي:اسكى تاريخى ۳

لوہا:اس كا نرم ہونا ۱۷

شكر:نعمت كا شكر ادا كرنے كى دعوت ۱۳; نعمت كا شكر ۱۴، ۱۵

صالحين:ان كا نقش و كردار ۶

صنعت:اسكى تاريخ ۳; اسكے انتقال ميں مؤثر عوامل ۱۱

علم:اس سے استفادہ كا پيش خيمہ ۱۰

تجرباتى علوم:ان كے انتقال ميں مؤثر عوامل ۱۱

مظلومين:ان كے دفاع كى اہميت ۱۰

معاشرتى مفادات:انكى حفاظت كى اہميت ۸

نعمت:امن و امان والى نعمت ۱۵; اسلحہ والى نعمت ۱۳; دفاعى مصنوعات والى نعمت ۱۴; تجرباتى علوم والى نعمت ۱۴

۴۲۴

آیت ۸۱

( وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ )

اور سليمان كے لئے تيز و تند ہواؤں كو مسخر كرديا جو ان كے حكم سے اس سرزمين كى طرف چلتى تھيں جس ميں ہم نے بركتيں ركھى تھيں اور ہم ہر شے كے جاننے والے ہيں (۸۱)

۱ _ خداتعالى نے حضرت سليمان(ع) كيلئے تند و تيز ہواؤں كو مسخر كيا_و سخرنا مع داؤد الجبال و لسليمان(ع) الريح عاصفة تجرى بأمره

۲ _ تند و تيز ہوائيں ، حضرت سليمان(ع) كے حكم سے چلتى تھيں _و لسليمان(ع) الريح عاصفة تجرى بأمره

۳ _ حضرت سليمان(ع) كے حكم سے تند و تيز ہواؤں كا بركات الہى سے سرشار سرزمين كى طرف حركت كرنا_

تجرى بأمره إلى الأرض التى بركنا فيه

۴ _ تند و تيز ہواؤں كا حضرت سليمان(ع) كے ا ختيار ميں ہونا اور ان پر حضرت سليمان(ع) كى حكمرانى ان كا معجزہ اور انكى رسالت كى دليل ہے_و لسليمان الريح عاصفة

عام طور پر مفسرين كا خيال يہ ہے كہ يہ آيت اور ديگر آيات گذشتہ انبيا(ع) ء كے معجزات اور ان كى نبوت كے دلائل بيان كررہى ہيں _

۵ _ كسى بھى سرزمين كا با بركت ہونا خداتعالى كى عنايت اور ارادے ميں منحصر ہے_إلى الأرض التى بركنا فيه

۶ _ سرزمينوں كى قدر و قيمت، با بركت ہونے اور خداتعالى كى توجہ كا مركز ہونے كے لحاظ سے مختلف ہونا _

إلى الأرض التى بركنا فيه

۷ _ پورا عالم، ہستى خداتعالى كے علم لايزال كے زير تسلط ہے_

۴۲۵

و كنا بكل شيء علمين

۸ _ تند و تيز ہواؤں كا مسخر ہونا اور ان كا حضرت سليمان(ع) كے حكم كے تابع ہونا خداتعالى كے وسيع علم اور ارادے كے زير سايہ تھا_و لسليمان(ع) الريح و كنا بكل شى ء علمين

عبارت ''بكل شيء علمين'' بتاتى ہے كہ يہ كام علمى قوانين كى بنياد پر وقوع پذير ہوا اور خداتعالى نے ان قوانين كے سلسلے ميں اپنے وسيع علم كى بنياد پرارادہ كيا تھا كہ تند و تيز ہوائيں حضرت سليمان(ع) كے حكم كے تابع ہوں _

۹ _ تند و تيز ہواؤں كو مسخر كرنا اور انہيں حضرت سليمان(ع) كے حكم كے ما تحت كرنا خداتعالى كى طرف سے ايك عالمانہ اور حكيمانہ كام تھا_و لسليمان(ع) الريح و كنا بكل شى ء علمين

۱۰ _ دوسرں كو وسائل اور اختيارات فراہم كرنے كيلئے ان كے سلسلے ميں مناسب علم و آگاہى كى ضرورت ہے_

و لسليمان(ع) الريح و كنا بكل شى ء علمين

جملہ''و كنا بكل شيء علمين'' بتاتا ہے كہ حضرت سليمان(ع) كو ہواؤں كى تسخير كى قدرت عطا كرنے كا سرچشمہ خداتعالى كا علم و آگاہى تھا_ اس سے اس بات كا استفادہ كيا جاسكتا ہے كہ

دوسروں كو ہر قسم كى قدرت اور وسائل كا عطا كرنا ضرورى ہے كہ بجا اور ان كے سلسلے ميں مناسب علم و آگاہى كى بنياد پر ہو _

مادى وسائل:ان كے عطا كرنے كے شرائط ۱۰

ہوا:اس كا مطيع ہونا ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸; اسكے علم كے اثرات ۸; اسكے لطف و كرم كے اثرات ۵، ۶; اسكى مشيت كے اثرات ۵; اسكى خصوصيات ۷; اسكے افعال ۱; اسكى حكمت ۹; اس كا علم ۹; اسكے علم كى وسعت ۷

سرزمين:اسكى قدر و قيمت ۶; با بركت سرزمين ۳; اسكى بركت كا سرچشمہ ۵، ۶; اسكے تفاوت كا سرچشمہ ۶

سليمان(ع) (ع) :ان كے اوامر ۳; ان كيلئے ہوا كو مسخر كرنا ۱، ۲، ۳، ۴، ۹; ان كى نبوت كے دلائل ۴; ان كے فضائل ۱، ۲، ۳; ان كا معجزہ ۴; ان كيلئے ہوا كو مسخر كرنے كا سرچشمہ ۸

علم:اس كا كردار ۱۰

۴۲۶

آیت ۸۲

( وَمِنَ الشَّيَاطِينِ مَن يَغُوصُونَ لَهُ وَيَعْمَلُونَ عَمَلاً دُونَ ذَلِكَ وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِينَ )

اور بعض جناب كو بھى مسخر كرديا جو سمندر ميں غوطے لگايا كرتے تھے اور اس كے علاوہ دوسرے كام بھى انجام ديا كرتے تھے اور ہم ان سب كے نگہبان تھے (۸۲)

۱ _بعض شياطين، حضرت سليمان(ع) كے حكم كے ماتحت اور انكى تسخير ميں تھے_و سخرنا و من الشياطين من يغوصون له

۲ _ بعض شياطين، حضرت سليمان(ع) كيلئے غوطہ گرى و غيرہ كا كام كرتے تھے_و من الشياطين من يغوصون له و يعملون عملًا دون ذلك

۳ _ حضرت سليمان(ع) كى حكومت ميں غوطہ گرى اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد كى اہميتو من الشياطين من يغوصون له كاموں ميں سے خاص طور پر ''غواصي'' كو ذكر كرنا نيز ''لہ'' كا لام كہ جو انتفاع كيلئے ہے مذكورہ مطلب پر دلالت كرتے ہيں _

۴ _ شياطين، شعور ركھنے والے اور كار آمد موجودات ہيں _و من الشياطين من يغوصون له

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر حاصل ہوتا ہے كہ حضرت سليمان(ع) كيلئے شياطين كو مسخر كرنا اور ان كا مطيع فرمان بنانے كا لازمہ ان كا باشعور ہونا ہے_

۵ _ شياطين ايسے موجودات ہيں كہ جو انسان كيلئے مسخر ہونے اور اسكے مطيع فرمان ہونے كے قابل ہيں _

و سخرنا و من الشياطين من يغوصون له

۶ _ شياطين، مختلف علوم و فنون سے آشنا ہيں _و من الشياطين من يغوصون له و يعملون عملًا دون ذلك

۷ _ حضرت سليمان(ع) كے تابع فرمان ہونے ميں شياطين پر خداتعالى كى نظارت اور كنٹرول_و من الشياطين و كنا لهم حفظين

۴۲۷

۸ _ شياطين ہميشہ خداتعالى كى نظارت، كنٹرول، اور نگرانى ميں ہيں _من الشياطين و كنا لهم حفظين

۹ _ شياطين كے حكم خداوندى سے سركشى كرنے كا امكان اور ان كے مطيع ہونے كيلئے خداتعالى كى نظارت اور نگرانى كى ضرورت_و كنالهم حفظين

خداتعالى كا ہميشہ كيلئے شياطين كى نگرانى كى ياد دہانى كرانا بتاتا ہے كہ وہ سركش قسم كى مخلوقات ہيں اور انہيں نگرانى كى ضرورت ہے_

خداتعالى :اسكى نظارت ۷، ۸، ۹

سليمان(ع) :ان كيلئے شياطين كو مسخر كرنا ۱، ۲، ۷; ان كے فضائل ۱

شياطين:انہيں مسخر كرنا ۵; انكا شعور۴; انكى صفات ۵; انكى نافرمانى ۹; انكا علم ۶; انكى غواصي۲; ان كى نگرانى ۸، ۹; ان كے عمل كا ناظر ۷، ۸; ان كا نقش و كردار ۴

نافرماني:خدا كى نافرمانى ۹

غواصي:سليمان(ع) كے زمانے ميں اسكى اہميت ۳

آیت ۸۳

( وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ )

اور ايوب كو ياد كرو جب انھوں نے اپنے پروردگار كو پكارا كہ مجھے بيمارى نے چھوليا ہے اور تو بہترين رحم كرنے والا ہے (۸۳)

۱ _ حضرت ايوب(ع) كا قصہ اور ان كى خداتعالى كے ساتھ مناجات سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد كرانے كے قابل ہے_

و أيوب إذ نادى ربه مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ايّوب'' كى نصب مقدر عامل جيسے ''اذكر'' يا ''اذكروا'' كے ذريعے ہو_

۲ _ حضرت ايوب(ع) مختلف قسم كى مشكلات، تكاليف، فقر اور بيمارى ميں مبتلا تھے _أنى مسنى الضر

''الضر'' اسم مصدر ہے اور اس كا معنى ہے بدحالي، فقر اور جسمانى تكليف نيز ہر وہ چيز جو فائدے كى ضد ہو (لسان العرب)

۳ _ حضرت ايوب نے بلند اور واضح آواز كے ساتھ اپنے لئے دعا كى اور خداتعالى سے مختلف قسم كى مشكلات، جسمانى تكاليف اور فقر سے نجات كے خواہاں ہوئےو أيوب اذ نادى أنى مسنى الضر ''ندا'' كا معنى ہے بلند اور واضح آوا ز

۴۲۸

۴ _ رنج و الم اور مشكلات كے وقت انسان كے بارگاہ خداوندى كى طرف متوجہ ہونے كا شائستہ ہونا_

و أيوب اذ نادى ربه أنى مسنى الضر

۵ _ خداتعالى كو ''ربّ'' كے نام سے پكارنا دعا اور مناجات كے آداب ميں سے ہے_و أيوب إذ نادى ربه أنى مسنى الضر

۶ _ تمام انسان حتى كہ انبيا(ع) ء بھى دنيا ميں مختلف قسم كے رنج و الم تكاليف اور مشكلات كا شكار ہيں _

و أيوب أنى مسنى الضر

۷ _ لوگوں كا رنج و الم، تكاليف اور مشكلات ميں گرفتار ہونا ان كے برا اور فاسد ہونے كى دليل نہيں ہے_

و أيوب إذ نادى ربه أنى مسنى الضر مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ حضرت ايوب(ع) جيسا صاحب فضيلت نبى بھى رنج و الم اور مصيبت ميں مبتلاء تھا_

۸ _ ربوبيت الہى كا تقاضا يہ ہے كہ انسان رنج و الم اور ضرورت كے وقت بارگاہ خداوندى كى طرف متوجہ رہے_

و أيوب إذ نادى ربه أنى مسنى الضر

۹ _ حضرت ايوب(ع) كا خداتعالى كے لطف و كرم اور عنايات كو حاصل كرنے كيلئے اسكى وسيع رحمت كو وسيلہ بنانا اور اسكى پناہ لينا_و أيوب و أنت أرحم الراحمين

۱۰ _ خداتعالى سب مہربانوں سے زيادہ مہربان ہے_و أنت أرحم الراحمين

۱۱ _ خداتعالى كى وسيع رحمت بے مثل و بے مثال رحمت ہے_و أنت أرحم الراحمين

خداتعالى كے ''ارحم الراحمين'' (سب مہربانوں سے زيادہ مہربان) كے ساتھ توصيف اسكے مہربانى ميں بے مثل ہونے كى دليل ہے كيونكہ ہر صفت ميں برترين صرف ايك ہوسكتا ہے _

۱۲ _ دعا اور حاجت روائي كى درخواست كے وقت انسان كا رحمت الہى كى پناہ لينا دعا كے آداب ميں سے ہے_

و أيوب إذ نادى ربه و أنت أرحم الراحمين

۱۳ _ خداتعالى كى وسيع رحمت اور بے مثال مہربانى اسكى جانب سے بندوں كى دعا كى قبوليت كا تقاضا كرتى ہے_و أيوب إذ نادى ربه و أنت أرحم الراحمين چونكہ حضرت ايوب نے اپنى مشكلات كو بيان كرنے كے بعد خداتعالى كو ''أرحم الراحمين'' كى صفت كے ساتھ ياد كيا ہے اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

اسما و صفات:ارحم الراحمين ۱۰

۴۲۹

انبياء(ع) :انكى دنيوى مشكلات ۶

انسان:اسكى دنيوى مشكلات ۶

ايوب:ان كا پناہ لينا ۹; انكى بيمارى ۲; انكى دعا ۱، ۳; انكى شفا ۳; انكے قصے سے عبرت ۱; انكا فقر۲; انكى تكليف ۲; انكى مشكلات ۲بلائ:اس كا فلسفہ ۷

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۸; اسكى رحمت كے اثرات ۱۳; اسكى خصوصيات ۱۱; اسكى پناہ لينا ۹، ۱۲; اسكى رحمت كا بے نظير ہونا ۱۱; اسكى رحمت ۱۲; اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۹

دعا:اسكے آداب ۵، ۱۲; اس ميں پناہ لينا ۱۲; يہ سختى كے وقت ۴، ۸; اسكى قبوليت كا پيش خيمہ ۱۳; اس كا پيش خيمہ ۸

ذكر:ربوبيت خدا كا ذكر ۵; قصہ ايوب كا ذكر ۱

رنج و الم:اس كا فلسفہ ۷

سختي:اس سے نجات كى درخواست ۳; اس كا فلسفہ ۷

عبرت:اسكے عوامل ۱

فقر:اس سے نجات كى درخواست ۳

آیت ۸۴

( فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَ )

تو ہم نے ان كى دعا كو قبول كرليا اور ان كى بيمارى كو دور كرديا اور انھيں ان كے اہل و عيال ديدئے اور ويسے ہى اور بھى ديدئے كہ يہ ہمارى طرف سے خاص مہربانى تھى اور يہ عبادت گذار بندوں كے لئے ايك ياد دہانى ہے (۸۴)

۱ _ خداتعالى نے حضرت ايوب(ع) كى دعا اور درخواست كو قبول فرمايا_و أيوب إذ نادى ربه فاستجبناله

۲ _ خداتعالى نے ايوب(ع) كى مشكلات كو حل كرديا اور غم و اندوہ كو ان كے جسم و جان سے دور كرديا_و أيوب فكشفنا ما به من ضر

۳ _ خداتعالى كو پكارنے اور اسكى بارگاہ ميں دعا اور درخواست كرنے كا نتيجہ اسكى طرف سے قبوليت اور جواب كا آنا ہے_

إذ نادى ربه فاستجبناله فكشفنا ما به من ضر يہ آيت كريمہ _ جيسے كہ جملہ''رحمة من عندنا و ذكري ''

۴۳۰

صراحت كے ساتھ بيان كرر ہا ہے_ پيغمبر اكرم (ص) اور مؤمنين كو تسلى دينے نيز سبق سكھانے كيلئے ہے اس لحاظ سے يہ آيت حضرت ايوب(ع) كے ساتھ مختص نہيں ہے_

۴ _ خداتعالى نے حضرت ايوب كى فوت ہوجانے والى فيملى (بيوى اور اولاد) كو زندہ كر كے انہيں واپس پلٹاديا _و أتينه أهله اس سلسلے ميں كہ ايوب(ع) كى فيملى ايوب(ع) كو دينے سے كيا مراد ہے دورائے ہيں ۱_ ان كے فوت شدہ بيوى بچوں كو زندہ كر كے دوبارہ انكے پاس پلٹانا ۲_ فوت شدہ بيوى بچوں كے بجائے انہيں دوسرے بيوى بچے عطا كرنا_ مذكورہ مطلب پہلے نظريئے كے مطابق ہے_

۵ _ خداتعالى نے حضرت ايوب(ع) كى فوت شدہ بيوى بچوں كى جگہ انہيں دوسرے بيوى بچے عطا كئے_و أتينه أهله

۶ _ حضرت ايوب(ع) سے بيماري، غم و اندوہ اور مشكلات كو دور كرنااور انہيں انكى فيملى واپس پلٹانا خداتعالى كى جانب سے ان پر رحمت تھي_فكشفنا ما به رحمة من عندن

۷ _ خداتعالى نے حضرت ايوب(ع) كو بيوى بچے واپس پلٹانے كے علاوہ انہيں اسى جيسى دوسرى فيملى بھى عطا كي_

و أتينه أهله و مثلهم معهم

۸ _ ايوب(ع) اپنى فيملى كے فراق اور چلے جانے كى مصيبت ميں مبتلا ء تھے_و أتينه أهله

۹ _ فيملى (بيوى بچوں ) كا دنيا سے چلاجانا حضرت ايوب(ع) كى سب سے بڑى تكليف اور مشكل تھي_

أنّى مسنى الضر فكشفنا ما به من ضر و أتينه أهله و مثلهم معهم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''آتيناہ أہلہ ...'' كا ''فكشفنا ...'' پر عطف ہو اس صورت ميں ''آتيناہ أہلہ'' كا ذكر كرنا عام كے بعد خاص كا ذكر كرنا ہوگا اور يہ اہميت كا فائدہ ديگا كيونكہ فيملى كا دنيا سے چلاجانا خود ''ضرّ'' ہے_

۱۰ _ فيملى ( بيوى بچوں ) كا دنيا سے چلاجانا انسان كى سب سے بڑى تكليف اور رنج ہے_فكشفنا ما به من ضرّ و أتينه أهله و مثلهم معهم

۱۱ _ ايوب (ع) كا اپنى تمنا سے زيادہ عطا سے بہرہ مند ہونا_أنى مسنى الضرّ فكشفنا ما به من ضرّ و أتينه أهله و مثلهم معهم

۴۳۱

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''آتيناہ ...'' كا عطف ''فاستجبنا'' پر ہو اسكى بناپر جس كى ايوب(ع) نے درخواست كى تھى وہ بيمارى اور رنج و الم (ضرّ) كا دور ہونا تھا اور خداتعالى نے اسكے علاوہ انہيں بيوى بچے بھى واپس پلٹا ديئے_

۱۲ _ دعا كى قبوليت اور مشكلات كا دور كرنا، خداتعالى كى بے كراں رحمت كا ايك جلوہ ہے_

و أنت أرحم الرحمين_ فاستجبناله رحمة من عندن

۱۳ _ خداتعالى كا انسان كو اسكى آرزو سے زيادہ عطا كرنا خداتعالى كى طرف سے اس پر خاص رحمت كا ايك جلوہ ہے_

و أنت أرحم الرحمين و أتيناه أهله و مثلهم معهم رحمة من عندن

۱۴ _ ايوب(ع) ، كى دعا كى قبوليت اور انكى مشكلات اور رنج و الم كو دور كرنا خدا پرستوں كى بيدارى اور نصيحت حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_فاستجبناله و أتينه رحمة من عندنا و ذكرى للعبدين

۱۵ _ ايوب(ع) ،عابدين ميں سے اور ان كيلئے عبرت آميز نمونہ ہيں _و ذكرى للعبدين

حضرت ايوب(ع) كے ماجرا كا عابدين كيلئے نمونہ ہونا اس وقت ہوسكتاہے جب آپ خود ان ميں شامل ہوں اور پھر ان پر خدا كى رحمت دوسرے عابدين كيلئے نصيحت بنے_

۱۶ _ مشكلات و مصائب نيز ان كا دور ہونا متوجہ ہونے اور نصيحت حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_فاستجبناله ذكرى للعبدين

۱۷ _ خدا كى پرستش كرنے والے اسكى نصيحتوں اور خبردار كرنے سے بہرہ مند ہيں _ذكرى للعبدين

۱۸ _ خداتعالى كى عبادت ،نصحيت كو قبول كرنے اور حق كو سننے كے اسباب فراہم كرتى ہے_ذكرى للعبدين

۱۹ _ سب انسانوں حتى كہ عبادت كرنے والوں كو بھى نصيحت اور ياد دہانى كرانے كى ضرورت ہے_ذكرى للعبدين

۲۰ _ امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى نے حضرت ايوب(ع) كو انكى فيملى كہ جو فوت ہوچكى تھى واپس كردى اور ان جيسے اور بھى انہيں عطا كئے اور اسى طرح خداتعالى نے انكے اپنے اموال اور چوپائے واپس پلٹا ديئے اور ان جيسے اور بھى اتنى ہى مقدار ميں انہيں عطا كئے(۱)

اولاد:اسكى موت كا سخت ہونا ۱۰

انسان:اس پر فضل كرنا ۱۳; اس كا سب سے اہم رنج ۱۰;اسكى معنوى ضروريات ۱۹

۴۳۲

ايوب(ع) :انكى دعا كى قبوليت كے اثرات ۱۴; انكى مشكلات كے دور كرنے كے اثرات ۱۴; انكى دعا كى قبوليت ۱; انكى فيملى كا زندہ كرنا ۲۰; ان كے بچوں كا زندہ كرنا ۴; انكى بيوى كا زندہ كرنا ۴; انہيں فيملى عطا كرنا ۲۰; انہيں اولاد عطا كرنا ۵، ۶، ۷; انہيں مال عطا كرنا ۲۰; انہيں بيوى عطا كرنا ۵، ۶، ۷; ان پر فضل كرنا ۱۱،۲۰; ان كا نمونہ بننا ۱۵ ; ان كا عابدين ميں سے ہونا ۱۵،۹; ان پر رحمت ۶; ان كے غم كا دور كرنا ۲، ۶; انكى مشكلات كا دور كرنا ۲، ۶; انكى بيمارى كى شفا ۲، ۶; انكى فيملى سے جدائيء ۸; انكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۷، ۸، ۱۱; انكى تكليف۸; ان كى اولاد كى موت ۹; انكى بيوى كى موت ۹; انكا سب سے بڑا رنج ۹

بيوي:اسكى موت كا سخت ہونا ۱۰

حق:اسے قبول كرنے كا پيش خيمہ ۱۸

خداتعالى :اسكے عطيے ۵، ۷; اسكى رحمت كى نشانياں ۱۲، ۱۳

دعا:اسكے اثرات ۳; اسكى قبوليت ۳، ۱۳; اسكى قبوليت كا سرچشمہ ۱۲

رحمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۶/روايت :۲۰

سختي:اسے دور كرنے كا سرچشمہ ۱۲

عابدين:انكا نمونہ۱۵; انكا خبردار ہونا ۱۷; انكا عبرت لينا ۱۷; ان كے خبردار ہونے كے عوامل ۱۴; انكى معنوى ضروريات ۱۹/عبادت:عبادت خدا كے اثرات ۱۸/عبرت:اس كا پيش خيمہ ۱۸

فضل خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲۰/مردے:انہيں زندہ كرنا ۴

مشكلات:ان كا كردار ۱۶/مصائب:ان كا كردار ۱۶

ضروريات:نصيحت كى ضرورت ۱۹

نصيحت:اسكے عوامل ۱۶; عابدين كو نصيحت كے عوامل ۱۴

فيملي:اسكى اہميت ۱۰

____________________

۱ ) مجمع البيان ج ۷ ص ۹۴ _ بحارالانوار ج ۱۲ ص ۳۴۶

۴۳۳

آیت ۷۵

( وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَ )

اور اسماعيل و ادريس و ذوالكفل كو ياد كرو كہ يہ سب صبر كروالوں ميں سے تھے (۸۵)

۱ _ اسماعيل، ادريس اور ذوالكفل صابر اور بردبار لوگوں ميں سے تھے_و إسماعيل كل من الصبرين

۲ _ اسماعيل(ع) اور ادريس(ع) اور ذولكفل(ع) كا قصہ اور انكى صبرو شكيبايى سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد كرانے كے قابل ہے_و إسماعيل كل من الصبرين مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''اسماعيل'' كى نصب ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے ہو_

۳ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) صبرو شكيبائي ميں لوگوں كيلئے نمونہ ہيں _و إسماعيل و إدريس و ذوالكفل كل من الصبرين مذكورہ مطلب اس نكتے كو پيش نظر ركھنے سے حاصل ہوتا ہے كہ خداتعالى نے عصر بعثت كے لوگوں كى تربيت اور انہيں ہدايت كرنے كے مقام ميں ان تينوں انبيا(ع) ء كو ''صابرين'' كى صفت كے ساتھ متعارف كرايا ہے_

۴ _ بارگاہ خداوندى ميں صبر كا قابل قدر ہونا اور صابرين كا بلند مقامو إسماعيل كل من الصبرين

ادريس(ع) :ان كا صبر، ۱، ۲ ، ۳; ان كے قصے سے عبرت لينا ۲; انكے فضائل ۱، ۳

اقدار ۴:اسماعيل(ع) :ان كا صبر، ۱،۲،۳; ان كے قصے سے عبرت لينا ۲; ان كے فضائل ۱،۳

نمونہ بنانا:

۴۳۴

ادريس(ع) كو نمونہ بنانا ۳; اسماعيل(ع) كو نمونہ بنانا ۳; ذوالكفل(ع) كو نمونہ بنانا ۳

ذكر:ادريس كے قصے كا ذكر ۲; اسماعيل كے قصے كا ذكر ۲; ذوالكفل كے قصے كا ذكر ۲

ذوالكفل:انكا صبر، ۱، ۲، ۳; ان كے قصے سے عبرت لينا ۲;

ان كے فضائل ۱، ۳

صابرين:ان كے فضائل ۴

صبر:اسكى فضيلت ۴

عبرت:اسكے عوامل ۲

آیت ۸۶

( وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُم مِّنَ الصَّالِحِينَ )

اور سب كو ہم نے اپنى رحمت ميں داخل كرليا تھا اور يقينا يہ سب ہمارے نيك كردا ربندوں ميں سے تھے (۸۶)

۱ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) خداتعالى كى خاص رحمت سے بہرہ مند تھے_

و اسماعيل و إدخلنهم فى رحمتن

اسماعيل، ادريس اور ذوالكفل كے رحمت الہى سے بہرہ مند ہونے كو خاص طور پر ذكر كرنے سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے كيونكہ خداتعالى كى رحمت تو سب موجودات كو شامل ہے اور سب كسى نہ كسى طرح سے اسكى رحمت سے بہرہ مند ہيں _

۲ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) كا مقام صبر ان كے خاص رحمت الہى سے بہرہ مند ہونے كا سبب بنا_و إسماعيل ...كل من الصبرين و أدخلنهم فى رحمتن

۳ _ صبر انسان كے خاص رحمت الہى سے بہرہ مند ہونے كا ذريعہ ہے_من الصبرين و أدخلنهم فى رحمتن

۴ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) صالحين ميں سے ہيں _و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصلحين

۵ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) كا صالح ہونا ان

۴۳۵

كے خاص رحمت الہى سے بہرہ مند ہونے كا سبب بنا_و إسماعيل و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصلحين

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ جملہ ''إنہم من الصالحين'' سابقہ جملے كيلئے تعليل ہے يعنى چونكہ صالحين ميں سے تھے اسلئے انہيں اپنى بے كراں رحمت ميں قرار ديا_

۶ _ عمل صالح، خاص رحمت الہى كے حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصالحين

۷ _ صبر كرنے والے شائستہ انسان اور صالحين ميں شامل ہيں _و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصالحين

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں _ كہ جو بعض انبياء كى توصيف كر رہى تھي_ انہيں صابرين ميں سے متعارف كرايا ہے اور اس آيت ميں انہيں صالحين ميں سے قرار ديا ہے دو آيتوں كے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے كہ صبر كرنے والے لوگ صالحين ميں سے ہيں _

۸ _ انبيا(ع) ء كے عمل صالح اور نيك كردار كا ان كسى خاص رحمت خداوندى اور برتر مقام و مرتبے تك دسترسى ميں كردار _و إسماعيل كل من الصبرين و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصالحين

۹ _ خداتعالى كى خاص عنايات سے بہرہ مند ہونے كيلئے خود انسان كے اپنے عمل اور كوشش كى ضرورت ہے_

كل من الصبرين و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصالحين

ادريس(ع) :ان كے صبر كے اثرات ۲; ان كے صالح ہونے كے اثرات ۵; يہ صالحين ميں سے ۴; ان كے فضائل ۱، ۴

اسماعيل(ع) :ان كے صبر كے اثرات ۲; ان كے صالح ہونے كے اثرات ۵; يہ صالحين ميں سے ۴; ان كے فضائل ۱، ۴

انبياء(ع) :ان كے عمل صالح كے اثرات ۸; ان كے تكامل كے عوامل ۸

خداتعالى :اسكى رحمت ۱، ۳; اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۹

ذوالكفل(ع) :ان كے صبر كے اثرات ۲; ان كے صالح ہونے كے اثرات ۵; يہ صالحين ميں سے ۴; ان كے فضائل۱، ۴

رحمت:اس كا پيش خيمہ ۲، ۳، ۵، ۶، ۸; يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۲، ۵، ۸

صابرين:يہ صالحين ميں سے ۷; ان كے فضائل ۷

۴۳۶

صبر:اسكے اثرات ۳

عمل:اسكے اثرات ۹

عمل صالح:اسكے اثرات ۶

آیت ۸۷

( وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ )

اور يونس كو ياد كرو كہ جب وہ غصہ ميں آكر چلے اور يہ خيال كيا كہ ہم ان پرروزى تنگ نہ كريں گے اور پھر تاريكيوں ميں جاكر آواز دى كہ پروردگار تيرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے تو پاك و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم كرنے والوں ميں سے تھا (۸۷)

۱ _ ذا النون (يونس(ع) ) كا ماجرا سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد كرانے كے قابل ہے _و ذا النون إذ ذهب

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذالنون'' كا نصب ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے ہو قابل ذكر ہے كہ ''النون'' كا معنى ہے مچھلى اور ''ذا النون'' حضرت يونس(ع) كا لقب ہے اس وجہ سے كہ وہ ايك مدت تك مچھلى كے پيٹ ميں تھے_

۲ _ حضرت يونس (ع) غصے كى حالت ميں اپنى قوم ميں سے نكلے اور كسى دوسرى سرزمين كى طرف ہجرت كر گئے_

إذ ذهب مغاضب جو كچھ مفسرين اور مورخين كى رائے سے معلوم ہوتا ہے وہ يہ ہے كہ حضرت يونس (ع) اپنى قوم كے ايمان نہ لانے كى وجہ سے غصے كى حالت ميں ان ميں سے نكلے اور كسى دوسرى جگہ كى طرف ہجرت كر گئے اور آيت كريمہ اسى داستان كى طرف ناظر ہے_

۳ _ قوم يونس كى رفتار و كردار نے حضرت يونس(ع) كے شديد غصے كو بھڑ كاديا اور انہيں ناخوش كرديا_

إذ ذهب مغاضب

۴ _ انبيا(ع) ء بھى انسانى عادات كے حامل ہيں _إذ ذهب مغاضب

۵ _ حضرت يونس(ع) كا يہ گمان كہ اپنى قوم كو چھوڑنے پر خداتعالى ان پر سختى نہيں كريگا_إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه

۴۳۷

''قدر'' كا ايك معنى سختى اور تنگى كرنا (ضيق) ہے (مفردات راغب) مذكورہ مطلب اسى معنى پر مبتنى ہے_

۶ _ حضرت يونس(ع) كا يہ گمان كہ اپنى قوم ميں سے نكل كر كسى اور سرزمين كى طرف ہجرت كرنے پر انہيں خدا تعالى كى جانب سے پاداش نہيں ملے گى _فظن أن لن نقدر عليه

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''قدر'' ''قضاوت اور فيصلے'' كے معنى ميں ہو قابل ذكر ہے كہ آيت كا ذيل (إنى كنت من الظالمين) اسى مطلب كا مؤيد ہے_

۷ _ حضرت يونس (ع) اپنى كافر قوم ميں سے نكلنے اور كسى دوسرى سرزمين كى طرف ہجرت كرنے كے سلسلے ميں بے جا غصے اور نادرست گمان كا شكار ہوئے_ *إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه

۸ _ انبيا(ع) ء كے ناروا غصے اور نادرست گمان ميں مبتلا ہونے كا امكان _ *إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه

مذكورہ مطلب حضرت يونس (ع) سے الغاء خصوصيت كرنے سے حاصل ہوتا ہے_

۹ _ حضرت يونس (ع) كا اپنے بارے ميں تمام تقديرات الہى سے مكمل طور پر آگاہ نہ ہونا_و ذاالنون فظن أن لن نقدر عليه

۱۰ _ مقام نبوت كا اپنے بارے ميں تقديرات الہى سے آگاہ نہ ہونے كے منافى نہ ہونا _فظن أن لن نقدر عليه

۱۱ _ انبيا(ع) ء آخرى مرحلے تك تبليغ كے راستے ميں ثابت قدم رہنے اور اپنے معاشرے ميں اور لوگوں كے درميان رہنے پر مأمورو ذاالنون إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه

اپنى قوم كو ترك كرنے كى وجہ سے_ قبل اس كے كہ اس سلسلے ميں خدا كى جانب سے كوئي حكم آئے_ حضرت يونس(ع) كى توبيخ اس نكتے پر دلالت كرتى ہے كہ ا نبيا(ع) ء خدا كى جانب سے اجازت ملنے اور اسكے حكم كے آنے سے پہلے اپنى ڈيوٹى اور لوگوں كو ترك كرنے كے مجاز نہيں ہيں _

۱۲ _ حضرت يونس(ع) كا دريا ميں اور مچھلى كے پيٹ ميں گرفتار ہوجانا انكى غصے كى حالت ميں اپنى قوم كو ترك كرنے كى سزا _و ذاالنون إذ ذهب مغاضباً فظن فنادى فى الظلمت

آيت كريمہ ميں ''ظلمات'' سے مراد مچھلى كا پيٹ ہے اور اس كا جمع آنا تاريكى كى شدت كو بيان كرنے كيلئے ہے_

۱۳ _ تاريكيوں (مچھلى كے پيٹ)ميں گرفتار ہونے كے بعد حضرت يونس(ع) كا بارگاہ خداوندى ميں دعا اور تضرع و زارى كرنا_فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا أنت

۴۳۸

۱۴ _ حضرت يونس(ع) كا مچھلى كے پيٹ ميں اپنى خصوصى دعا ميں خداتعالى كى تہليل و تنزيہ كى طرف متوجہ ہونا_

فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا أنت سبحنك

۱۵ _ ''لا إلہ إلا أنت سبحانك إنى كنت من الظالمين'' مچھلى كے پيٹ كى تاريكى ميں گرفتار ہونے كے وقت حضرت يونس(ع) كى دعا_فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا أنت سبحنك إنى كنت من الظالمين

۱۶ _ تكاليف و مشكلات انسان كے خداتعالى كى طرف متوجہ ہونے كے اسباب فراہم كرتى ہيں _

فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا أنت سبحنك

۱۷ _ حضرت يونس (ع) كا بارگاہ الہى ميں خاضع ہونا اور ان كا اپنى عجولانہ رفتار كے نادرست اور ظلم ہونے كا اعتراف _فنادى إنى كنت من الظالمين

۱۸ _ حضرت يونس(ع) كى نظر ميں خداتعالى كى اجازت كے بغير اپنى قوم كے درميان سے نكل جانا خود اپنے اوپر ظلم تھا_

إذ ذهب مغاضباً إنى كنت من الظالمين

۱۹ _ خداتعالى كى تہليل و تنزيہ اور اپنے گناہ و كوتاہى كا اعتراف دعا كے آداب ميں سے ہے_

فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا انت سبحنك إنى كنت من الظالمين

۲۰ _ خداتعالى كى طرف سے سزا اور دنياوى مشكلات ميں گرفتار ہونے ميں خود انسان كا كردار_

إذ ذهب مغاضبا إنى كنت من الظالمين

۲۱ _ ( روايت ميں آيا ہے كہ) مامون نے امام رضا(ع) سے كہا مجھے خداتعالى كے فرمان''و ذا النون إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه'' كے بارے ميں بتايئےو آپ(ع) نے فرمايا وہ يونس بن متى تھے جو اپنى قوم پر غضب ناك ہونے كى حالت ميں ان ميں سے نكل كر چلے گئے اور الله تعالى كے كلام ميں ''ظن'' كا مطلب ہے ''استيقن'' اور ''لن نقدر عليہ'' كا معنى ہے ''لن نضيق عليہ رزقہ ...''''فنادى فى الظلمات'' يعنى (تين تاريكيوں ميں ) شب كى تاريكي، سمندر كى تاريكى اور مچھلى كے پيٹ كى تاريكي_ انہوں نے ند ا دى '' سبحانك إنى كنت من الظالمين'' يعنى ميں ستم كار لوگوں ميں سے ہوں كيونكہ ماضى ميں ميں نے ايسى عبادت كو ترك كيا تھا كہ جس كيلئے اس وقت مجھے مچھلى كے پيٹ ميں تو نے فارغ ركھا ہے(۱) _

____________________

۱ ) عيون اخبار الرضا ۱ ص ۲۰۱ ب ۱۵ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۴۹ ح ۱۳۷_

۴۳۹

۲۲ _ الله تعالى كے فرمان''و ذا النون إذ ذهب مغاضباً'' كے بارے ميں امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ حضرت يونس(ع) كا غضب اپنى قوم كے اعمال كى وجہ سے تھا (اور)''فظن ان لن نقدر عليه'' (كے معنى كے بارے ميں ) فرمايا يونس كا خيال يہ تھا كہ اس نے جو كچھ انجام ديا ہے اس كے مقابلے ميں اسے سزا نہيں دى جائيگى(۱)

اقرار:ظلم كا اقرار ۱۷; گناہ كا اقرار ۱۹

ابنيا(ع) ئ:ان كا بشر ہونا ۴; انكى تبليغ ۱۱; انكى دعوت ۱۱; ان كا صبر ۱۱; انكى صفات ۴; ان كا غضب ۸; انكى ذمہ دارى ۱۱/انسان:اس كا نقش و كردار ۲۰

تبليغ:اس ميں صبر، ۱۱/خداتعالى :اسكى تنزيہ ۱۴، ۱۹; اسكى تقديرات كا علم ۹; اسكى اجازت كا نقش و كردار ۱۸

خود:خود پر ظلم ۱۸

دعا:اسكے آداب ۱۹; اس ميں تسبيح ۱۹; اس ميں تہليل ۱۹

ذكر:حضرت يونس(ع) كے قصے كا ذكر۱; ذكر يونس(ع) ۱۵; ذكر خدا كا پيش خيمہ ۱۶

روايت ۲۱، ۲۲سختي:اسكے اثرات ۱۶; اس كا پيش خيمہ ۲۰/سزا:اس كا پيش خيمہ ۲۰

عبرت:اسكے عوامل ۱

غضب:بے جا غضب ۷، ۸

قوم يونس:اسكے سلوك كے اثرات ۳; اس پر غضب ۲۲

نبوت:يہ اور تقديرات سے جاہل ہونا ۱۰

يونس (ع) :انكى خطا ۷; انكا اقرار ۱۷، ۲۱; انكى سوچ ۱۸; انكى تہليل ۱۴، ۱۵; انكا خضوع ۱۷; انكى دعا ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكى روزى ۲۱; انكا ظلم ۱۷، ۱۸، ۲۱; انكا گمان ۵، ۶، ۲۲; ان كے قصے سے عبرت ۱; انكى جلدبازى ۱۷; ان كے غضب كے عوامل ۳، ۲۲; ان كا غضب ۲، ۵، ۷، ۲۱; انكا قصہ ۲، ۳، ۵، ۷، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۷، ۲۱; انكے غضب كى سزا ۱۲; انكى سزا ۶; انكى تكليف ۱۲، ۱۳; ان كے علم كا دائرہ ۹; انكى ہجرت ۲، ۵، ۶، ۷; انكا يقين ۲۱; يہ مچھلى كے پيٹ ميں ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۲۱

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۷۵_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۵۱ ح ۱۴۱_

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

۲ _ خدائے يكتا كى پرستش ايسا راستہ ہے جو خدا كى طرف جاتا ہے اور لقاء الله پر جاكر ختم ہوتا ہے_و يصدون عن سبيل الله ''سبيل الله '' يعنى راہ خدا_ اور راہ خدا سے مراد ہوسكتا ہے وہ راہ ہو كہ جسے خداتعالى نے اہل ايمان كيلئے تعيين اور ترسيم كيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد وہ راستہ ہو جو خدا كى طرف جاتا ہے اور اس تك پہنچتا ہے_

مذكورہ مطلب دوسرے معنى كى بنياد پر ہے_

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كى طرف سے مسلمانوں كو مسجد الحرام كى زيارت اور عبادت خدا كى رسومات انجام دينے سے ممانعت_إن الذين كفروا و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام (''يصدون'' كے مصدر) ''صدّ'' كا معنى ہے روكنا اور منع كرنا اور ''يصدون'' كا مفعول محذوف ہے اور يہ در اصل يوں ہے ''يصدون الذين آمنوا )

۴ _ بارگاہ خداوندى ميں كعبہ بڑى عزت اور تقدس كا حامل ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام

لوگوں كو مسجد الحرام كى زيارت سے منع كرنے كى وجہ سے كفار كو دوزخ كے عذاب كے دھمكى مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۵ _ حجاج كو مسجد الحرام ميں داخل ہونے سے منع كرنا لوگوں كو راہ خدا سے روكنے كا واضح نمونہ ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام ''سبيل الله '' سے مراد_ جيسا كہ پہلے بتاچكے ہيں _ خدائے يكتا كى عبادت ہے_ اس چيز كى بناپر اور اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ مؤمنين كى طرف سے مسجدالحرام كى زيارت اور اسكے خاص اعمال (طواف، سعى و غيرہ) كو انجام دينا عبادت خدا كے مصداق شمار ہوتے ہيں اسے ''سبيل الله '' كے بعد ذكر كرنا ہوسكتا ہے اس معنى ميں ہوكہ زائرين كو مسجدالحرام ميں داخل ہونے سے روكنا راہ خدا سے روكنے كے واضح مصاديق ميں سے ہے_

۶ _ مسجدالحرام سب خداپرستوں كيلئے ہے اور كسى خاص گروہ كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ لوگوں كو اسكى زيارت سے محروم كرے_الذى جعلنا للناس

۷ _ سب مسلمان (اہل مكہ اور ديگر اطراف اور ممالك كے) مسجدالحرام كے سلسلے ميں مساوى حق ركھتے ہيں _الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد ''سوائ'' بمعنى ''مستوي'' اور ''الناس'' كيلئے حال ہے اور ''عاكف'' كا معنى ہے مقيم (يعنى اہل مكہ) ''بادي'' يعنى اہل باديہ اور اس سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو مكہ سے باہر ديگر سرزمينوں ميں رہتے ہيں يعنى ہم نے مسجدالحرام كو سب لوگوں كيلئے خلق

۵۰۱

كيا ہے _ اور اس سے بہرہ مند ہونے ميں مكى اور ديگر سرزمين كے لوگوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے ا ور كسى كو دوسرے پر برترى حاصل نہيں ہے_

۸ _ حجاج كو مكہ ميں داخل ہونے سے منع كرنا ان كے اس حق كى نسبت تجاوز ہے كہ جو خدانے ان كيلئے قرار ديا ہے_

و يصدون الذى جعلنه للناس

۹ _ اہل مكہ دوسروں كو مسجدالحرام كى زيارت سے روكنے كا حق نہيں ركھتے_الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد

۱۰ _ حج اور مسجدالحرام كى زيارت جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان رائج رسومات_سواء العاكف فيه والباد

۱۱ _ ''مسجدالحرام'' جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان ايك رائج اور جانا پہچانانام_و المسجد الحرام الذى جعلنه للناس

۱۲ _ مسجدالحرام كے احاطے ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كا ممنوع ہونا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم ''الحاد'' كا معنى ہے انحراف اور كج روى ''الحاد'' اور ''ظلم'' كے نكرہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ مسجدالحرام اور اسكى حدود ميں لوگوں كا مكمل طور پر امن اور سكون ميں ہونا ضرورى ہے اور اس سلسلے ميں ذرہ برابر انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز سے چشم پوشى نہيں كى جائيگي_

۱۳ _ ضرورى ہے كہ مكہ (مسجدالحرام اور اس كى حدود) سب لوگوں كيلئے امن كى جگہ ہو_سوا العاكف فيه والباد

۱۴ _ مسجدالحرام كى حدود ميں حق سے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز بہت بڑا گناہ ہے اور كج روى كرنے والے ا ور ستم گر لوگ سخت دنيوى سزا كے منتظر رہيں _و من يردفيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''عذاب اليم'' سے مراد دنيوى سزا بھى ہو_

۱۵ _ دوزخ كا دردناك عذاب، مسجد الحرام كى حدود ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

۱۶ _ حضرت علي(ع) سے روايت ہے كہ رسول خدا(ص) نے اہل مكہ كو اپنے گھر كو كرائے پر دينے اور انہيں دروازے

۵۰۲

لگانے سے منع كرتے ہوئے فرمايا''سوآء العاكف فيه و الباد'' (۱)

۱۷ _ ابوالصباح كنانى كہتے ہيں ميں نے خداتعالى كے فرمان ''و من يرد فيہ إےلحاد بظلم نذقہ من عذاب أليم'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا ہر ظلم جوكوئي شخص مكہ ميں اپنے اوپر كرے چاہے وہ چورى ہو يا كسى دوسرے پر ظلم يا ہر قسم كا ستم ميں اسے الحاد اور انحراف سمجھتا ہوں(۲)

۱۸ _ امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان''و من يرد فيه إيلحاد بظلم'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا جو شخص مكہ ميں غيرخدا كى پرستش كرے يا اولياء خدا كے غير كى ولايت كو قبول كرے تو اس نے''إلحاد بظلم'' كيا ہے(۳)

اسلام:صد راسلام كى تاريخ ۳، ۱۶الحاد :۱۸انحراف:اسكى سزا ،۱۵; اس كا گناہ ۱۴

آنحضرت (ص) :آپ(ص) كے نواہى ۱۶

توحيد:توحيد عبادى كا انجام ۲عرب:انكى رسومات ۱۰

جزيرة العرب:اسكے لوگ اور حج ۱۰; اسكے لوگ اور مسجد الحرام ۱۱

جہنم:اسكے اسباب ۱، ۱۵حجاج:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۸

حج:اسكى تاريخ ۱۰خود:خود پر ظلم ۱۷

روايت ۱۶، ۱۷، ۱۸

سبيل الله :اس سے روكنا ۵

چلنا:

____________________

۱ ) قرب الا سناد ۱۰۸ ح ۳۷۲_ تفسير برہان ج ۳ ص ۸۴ ح ۸_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۲۲۷ ح ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۶۰_

۳ ) كافى ج ۸ ص ۳۳۷ ح ۵۳۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۵۷_

۵۰۳

اسكے راستے ۲

ظلم كرنے والے:انكى دنيوى سزا ، ۱۴

عبادت:عبادت خدا كے ترك كے اثرات ۱; غيرخدا كى عبادت ۱۸; عبادت خدا كے ترك كرنے كا گناہ ۱

عذاب:دردناك عذاب ۱۵; اسكے درجے ۱، ۱۵; اخروى عذاب كے اسباب ۱، ۱۵

كعبہ:اسكى فضيلت ۴; اس كا تقدس ۴

كفر:خدا كے ساتھ كفر كے اثرات ۱; خدا كے ساتھ كفر كا گناہ ۱

گناہ:گناہان كبيرہ ۱۴; ناقابل بخشش گناہ۱

لقاء الله :اس كا پيش خيمہ ۲

لوگ:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۱۲; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا ۱۵; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كا گناہ ۱۴

مسجد الحرام:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكى زيارت كى تاريخ ۱۰; اسكى تاريخ ۱۱; اس ميں حقوق ۱۴; اسكى زيارت ۷، ۱۱; اس كا سب كيلئے ہونا ۶; اس ميں عبادت خدا سے روكنا ۳; اس سے روكنا ۳، ۵; اس ميں حق تلفى كا ممنوع ہونا ۱۲; اس سے روكنے كا ممنوع ہونا ۶، ۹; اسكى خصوصيات ۱۲، ۱۳

مسلمان:ان كے حقوق كا مساوى ہونا ۷; ان كے حقوق ۷

مكہ كے مسلمان:ان كے حقوق ۷

مكہ:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكے گھروں كے دروازے ۱۶; اس ميں ظلم كا گناہ ۱۷; اس سے حاجيوں كو روكنا ۸; اسكے گھروں كو كرائے پر دينے سے نہى ۱۶; اسكى خصوصيات ۱۳

منحرفين:ان كى دنيوى سزا ،۱۴

موحدين:ان كے حقوق ۶

ولايت:اولياء الله كے غير كى ولايت كو قبول كرنا ۱۸

۵۰۴

آیت ۲۶

( وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئاً وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ )

اور اس وقت كو ياد دلاؤ جب ہم نے ابرہمى كے لئے بيت اللہ كى جگہ مہيا كى كہ خبردار ہمارے بارے ميں كسى طرح كا شرك نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر كو طرف كرنے والے، قيام كرنے والے اور ركوع و سجود كرنے والوں كے لئے پاك و پاكيزہ بناؤ(۲۶)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں كعبہ كى بنياد بہت اہم اور ايسا واقعہ ہے جو ياددہانى كرانے كے قابل ہے_

و اذ بوّانا لابراهيم مكان البيت ''اذ'' اسم زمان اور محل نصب ميں ہے اور يہ ''اذكر'' محذوف كا مفعول ہے يعنى ''يادكيجيئے اس وقت كو كہ جب ہم نے ...''

۲ _ كعبہ، حضرت ابراہيم (ع) كى عبادت كى جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

(''بوانا'' كے مصدر) ''تبوئة) كا معنى ہے مرجع اور مركز قرار دينا يعني'' اس زمانے كو ياد كيجيئے جب ہم نے كعبہ كى جگہ كو ابراہيم(ع) كيلئے رجوع كرنے كا مقام قرار ديا'' اور حضرت ابراہيم(ع) كا بار بار كعبہ كى جگہ كى طرف رجوع كرنا يا تو خدا كى عبادت كيلئے تھا اور يا اسے تعمير كرنے كيلئے مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے_

۳ _ كعبہ كى جگہ خداتعالى كى جانب سے عبادت كيلئے معين كردہ جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كعبہ كى بنياد ركھنے والے اور اسكے

۵۰۵

معمار_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۵ _ كعبہ، توحيد اور يكتاپرستى كى جلوہ گاہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت أن لا تشرك بى شيئ

۶ _ خدا كے علاوہ كوئي قابل پرستش نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۷ _ عبادت ميں اخلاص اور اسے ہر قسم كے غير الہى عمل سے آلودہ كرنے سے پرہيز كرنا خداتعالى كى طرف سے حضرت ابراہيم كو نصيحت _أن لا تشرك بى شيئ

۸ _ شرك كے ساتھ آلودہ عبادت كى بارگاہ خداوندى ميں كوئي قدر و قيمت نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۹ _ كعبہ بہت مقدس گھر اور بارگاہ خداوندى ميں بڑى عزت كا حامل ہے_و طهر بيتي

''بيت'' كى باء متكلم كى طرف اضافت، تشريفيہ اور مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۱۰ _ كعبہ كى توليت اور اسے زائرين كيلئے تيار كرنا، حضرت ابراہيم (ع) كے الہى وظائف ميں سے_و طهر بيتى للطائفين

۱۱ _ مسجد الحرام كى توليت اور اسے زائرين بيت الله كيلئے تيار كرنا توحيدى معاشرے كے رہنماؤں كى ذمہ دارى _

أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتى للطائفين

۱۲ _ شرك، طہارت و پاكيزگى سے دورى اور پليديگى و ناپاكى كے ساتھ آلودہ ہونا ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۳ _ مسجد الحرام كى حرمت كى پاسدارى اور اسے ظاہرى آلودگيوں اور باطنى پليدگيوں (شرك كے مظاہر) سے محفوظ ركھنا ضرورى ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۴ _ طواف، قيام، ركوع اور سجود (نماز) مسجد الحرام كى زيارت كے آداب ميں سے_و طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع السجود ظاہر يہ ہے كہ ''القائمين و الركع السجود'' سے مراد نماز پڑھنے والے ہيں يعنى ميرے گھر كو طواف كرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں كيلئے تيار كيجئے_

۱۵ _ مسجد الحرام كى زيارت ميں طواف كو نماز پر مقدم كرنا ضرورى ہے_للطائفين و القائمين و الركع السجود

۱۶ _ قيام، ركوع اور سجود نماز كے اركان ميں سے ہيں _و القائمين و الركع السجود

۱۷ _ طواف اور نماز، حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت كى ذمہ داريوں ميں سے _طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع

۵۰۶

السجود

۱۸ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے جب خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو كعبہ كى تعمير پر مأمور كياتوانہيں معلوم نہيں تھا كہ وہ كعبہ كو كہاں بنائيں تو خداتعالى نے جبرائيل كو بھيجا اور انہوں نے كعبہ كى جگہ پر ان كيلئے لكير كھينچ دي(۱)

ابراہيم (ع) :ان كے دين كى تعليمات ۱۷; انكو نصيحت ۷; انكى عبادت گاہ ۲; انكى ذمہ دارى ۱۰; ان كا نقش و كردار ۱، ۴

توحيد:توحيد عبادى ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۷; اس كا نقش و كردار ۳

ذكر:كعبے كى تعمير كا ذكر، ۱

روايت ۱۸دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۱۱

شرك:شرك عبادى كا بے قدر و قيمت ہونا ۸; اسكى پليدگى ۱۲; اسكى حقيقت ۱۲

طواف:اسكى تاريخ ۱۷; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

عبادت:اس ميں اخلاص ۷; بے قدر و قيمت عبادت ۸

كعبہ:اس كا احترام ۹; اسے تعمير كرنے والے ۱; اس كا موسس ۴; اسكى تاريخ ۱، ۴; اسكى تطہير ۱۰; اس ميں عبادت ۲، ۳; اسكى فضيلت ۵، ۹; اس كا تقدس ۹; اس كے متولى ۱۰; اسكى تعيين كا سرچشمہ ۳، ۱۸; اس ميں توحيد عبادى كى نشانياں ۵

مسجد الحرام:اسكى زيارت كے آداب ۱۴; اسكى تطہير كى اہميت ۱۳; اسكى حفاظت كى اہميت ۱۳; اس ميں ركوع ۱۴; اس ميں سجدہ ۱۴; اس ميں طواف ۱۴، ۱۵; اسكے متولى ۱۱; اس ميں نماز ۱۴، ۱۵

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۶

نماز:اسكے اركان ۱۶; اسكى تاريخ ۱۷; اس ميں ركوع ۱۶; اس ميں سجدہ ۱۶; اس ميں قيام ۱۶; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۱ ص۶۲_ نورالثقلين ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_

۵۰۷

آیت ۲۷

( وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ )

اور لوگوں كے درميان حج كا اعلان كردو كہ لوگ تمہارى طرف پيدل اور لاغر سواريوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہو كر آئيں گے (۲۷)

۱ _ حكم خدا سے حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے لوگوں كو حج كى دعوت_و أذن فى الناس بالحج

(''أذّن'' كے مصدر) ''تأذين'' كا معنى ہے اعلان كرنا اور ندا دينا يعنى اے ابراہيم(ع) لوگوں كے درميان جاؤ اور انہيں حج اور زيارت بيت الله كى دعوت دو_

۲ _ حج، دور و نزديك كے تمام لوگوں پر ايك الہى ذمہ داري_يأتوك رجالًا و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق

''يأتوك'' شرط محذوف كى جزا ہے اور يہ در حقيقت يوں ہے''إن تأذن فيهم به يأتوك'' ،''رجال''، ''راجل'' كى جمع ہے يعنى ''پيدل'' اور ''ضامر'' كمزور اونٹ كو كہاجاتا ہے _

اور ''فج'' در حقيقت پہاڑ كے شكاف كے معنى ميں ہے اور يہاں پر اس سے مراد راستہ ہے ''عميق'' بعيد كا مترادف ہے يعنى دورپس مذكورہ جملے كا معنى يہ بنے گا اگر لوگوں كو حج كى طرف بلاؤ تو وہ تيرى دعوت پر لبيك كہتے ہوئے پيدل، سوار ہوكر اور دور و نزديك كے راستوں سے چل نكليں گے_

۳ _ تبليغ اور لوگوں كو حج و زيارت بيت الله كى دعوت دينا الہى رہنماؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_و أذّن فى الناس بالحج

۴ _ حج، حضرت ابراہيم(ع) (ع) كى شريعت كى ايك يادگار_و أذن فى الناس بالحج

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كى اقامت گاہ ،مسجد الحرام كے جوار

۵۰۸

ميں تھي_يأتوك رجال

جملہ ''يأتوك'' (تيرے پاس پيدل اور سوار ہوكر آئيں گے) سے معلوم ہوتا ہے كہ كعبہ كے مؤسس اسكے جوار ميں رہتے تھے اس طرح، كہ ہر زائر مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت ان پر بھى وارد ہوتا تھا_

۶ _ دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم(ع) پر پختہ ايمان اورحضرت ابراہيم(ع) كى ان كے درميان انتہائي محبوبيت اور نفوذ_و اذن فى الناس بالحج يأتوك رجالا و على كل ضامر

دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم (ع) كى دعوت پر لبيك كہنا اور انكا پيدل اور سوار ہوكر كعبے كى زيارت كيلئے نكل پڑنا اور كى آپ(ع) كى شخصيت سے آشنائي اور ان كے درميان آپ(ع) كى محبوبيت كى علامت ہے_

۷ _ حضرت ابراہيم (ع) كے دين توحيدى كا خود ان كى زندگى ميں دور و نزديك كى سرزمين ميں پھيل جانا_يأتوك من كل فج عميق

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے زمانے ميں ہر سال حج كى رسومات ميں شريك ہونا_يأتوك رجالًا و على كل ضامر

فعل مضارع ''يأتوك'' ہوسكتا ہے مفيد استمرار ہو لہذا ہر سال لوگوں كا حج كى رسومات ميں حضرت ابراہيم(ع) كے پاس آنا ان كے ہر سال حج كى رسومات ميں شركت كو بيان كررہا ہے_

۹ _ مراسم حج كو اسلامى معاشرے كے رہبر كى محوريت كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''لوگ پيدل اور سوار ہوكر تيرے (ابراہيم(ع) ) پاس آئيں گے'' ہوسكتا ہے لوگوں كيلئے اس حكم پر مشتمل ہو كہ وہ پہلے الہى رہبر كى زيارت كيلئے جائيں اور اسكى رہبرى ميں مراسم حج كو انجام ديں _

۱۰ _ مناسك حج ميں اسلامى معاشرے كے رہبر سے ملاقات_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

۱۱ _ بارگاہ خداوندى ميں پيدل حج كى بڑى فضيلت اور قدر و قيمت_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

پيدل لوگوں (رجالًا) كو سواروں (و على كل ضامر) پر مقدم كرنا ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۱۲ _ زمين مكہ كى سطح كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے زيادہ ہے_يأتوك من كل فج عميق

(''عميق'' كا مصدر) ''عمق'' اس طولانى مسافت كو كہا جاتا ہے كہ جو نيچے كى طرف ہو لہذا ''بعيد'' كى بجائے كلمہ ''عميق'' كا استعمال يا تو اس لحاظ سے ہے كہ سرزمين مكہ كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے چونكہ زيادہ ہے لہذا جو لوگ مكہ كى طرف آتے ہيں وہ نيچے سے اوپر كى جانب حركت كرتے ہيں اور يا اسلئے ہے كہ چونكہ

۵۰۹

زمين گيند كى صورت ميں ہے لہذا لوگوں كى دور سے حركت اوپر كى جانب حركت نظر آتى ہے مذكورہ مطلب پہلے فرضيے كى بنياد پر ہے _

۱۳ _ قرآن كا زمين كے گيند كى طرح اور اسكى سطح كے گول ہونے كى طرف اشارہ_يأتين من كل فج عميق

۱۴ _ عبيد الله بن على الحلبى كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) سے سوال كيا كہ (حج ميں ) تلبيہ كيوں مقرر كيا گيا ہے؟ تو آپ(ع) نے فرمايا بيشك خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كى طرف وحى كى''و أذّن فى الناس بالحج يأتوك رجالًا'' پس حضرت ابراہيم نے ندا دى اور دور كے ہر راستے سے ''لبيك'' كے ساتھ حضرت ابراہيم(ع) كو جواب دياگيا(۱)

۱۵ _ امام صادق(ع) نے فرمايا كہ پيغمبراكرم دس سال مدينہ ميں رہے اور حج پر نہ گئے پھرخداتعالى نے آنحضرت پر نازل كيا''و أذن فى الناس بالحج يأتوك رجالاً و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق'' پس پيغمبراكرم(ص) نے مناديوں كو حكم ديا كہ وہ بلند آواز كے سا تھ اعلان كريں كہ اس سال رسول الله (ص) حج پرجائيں گے(۲)

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا حج۱۵

ابراہيم (ع) :آپ مسجد الحرام كے جوار ميں ۵; آپكى اقامت گاہ ۵; آپكے حج كا تسلسل ۸; آپ كے دين كى تعليمات ۴; آپكى شرعى ذمہ دارى ۱; آپكى دعوتيں ۱، ۱۴; آپ(ص) كى معاشرتى شخصيت۶; آپكے دين كا پھيلنا ۷; آپ كى محبوبيت ۶

ايمان:ابراہيم پر ايمان ۶

تلبيہ:اسكى تشريع كا فلسفہ ۱۴

حج:اسكے آداب ۹; اس كے احكام ۲; يہ دين ابراہيم ميں ۱۴ ; اسكى دعوت ۱، ۳، ۱۴; پيدل حج كى فضيلت ۱۱

روايت ۱۴، ۱۵

دينى رہنما:انكى ذمہ دارى ۳; حج ميں ان كے ساتھ ملاقات ۱۰; ان كا نقش و كردار ۹

شرعى ذمہ داري:سب كى شرعى ذمہ دارى ۲

زمين:اس كا گيند كى صورت ميں ہونا ۱۳

مكہ:اسكى بلندى ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۴۱۶ ب ۱۵۷ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۶ ح ۶۸_ ۲ ) كافى ح ۴ ص ۲۴۵ ح ۴; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۷ ح ۷۲_

۵۱۰

آیت ۲۸

( لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ )

تا كہ اپنے منافع كا مشاہدہ كريں اور چند معين دنوں ميں ان چوپايوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا كئے ہيں خدا كا نام ليں اور پھر تم اس ميں سے كھاؤ اور بھو:ے محتاج افراد كو كھلاؤ (۲۸)

۱ _ حج ، لوگوں كيلئے فائدے و منفعت اور خير و بركت سے سرشار_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

''منافع''، ''منفعت'' كى جمع ہے يعنى نفع، خير و بركت_ اور اس كاجمع كى صورت ميں آنا حج كى بركات كى فراوانى كو بيان كررہا ہے اور اس كا نكرہ آنا ان بركات ميں سے ہر ايك كى عظمت كو بيان كررہا ہے _

۲ _ حج كى بركات سے بہرہ مند ہونا اسكى رسومات ميں شركت اور اسكے اعمال كى انجام دہى ميں منحصر ہے_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم (''يشہدون'' كے مصدر) ''شہادة'' كا معنى ہے حاضر ہونا پس''ليشهدوا منافع لهم'' كا معنى يہ ہے كہ حج سب لوگوں كيلئے خير و بركت سے سرشار ہے اور جو انہيں حاصل كرنا چاہتا ہے اور ان سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے اس كيلئے ضرورى ہے كہ سفر كى مشقتوں كو برداشت كرے، اسكے مراسم ميں شركت كرے اور اسكے اعمال كو بجالائے_

۳ _ شريعت الہى ميں انسان كے دنيوي، اخروي، مادى اور معنوى پہلوؤں كى طرف توجہ _و أذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

چونكہ ''منافع'' كو دنيوي، اخروي، معنوى يا مادى كى قيد نہيں لگائي گئي پس كہا جاسكتا ہے كہ اس سے مراد،دينوي، اخروي، مادى اور معنوى سب بركات ہيں _

۵۱۱

۴ _ عرفات اور مشعر ميں وقوف كرنا (احرام كے بعد) مراسم حج ميں حاجيوں كى پہلى ذمہ دارى _يشهدوا منافع لهم

جملہ ''و يذكروا اسم الله ...'' قربانى كى رسومات سے مربوط ہے اور بعد والى آيت حلق، تقصير اور طواف كے بارے ميں ہے پس اس چيز كے پيش نظر كہ احرام باندہنے كے بعد مراسم حج بالترتيب يوں ہيں عرفات اور مشعر ميں و قوف، قربانى كرنا، حلق، تقصير اور طواف _ كہنا ہوگا كہ حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت ميں حج، قربانى سے شروع اور طواف كے ساتھ ختم ہوتا تھا اور عرفات و مشعر كا وقوف مراسم حج ميں شا مل نہيں تھا يا يہ كہ جملہ ''ليشہدوا منافع لہم'' تشريع حج كے فلسفے كو بيان كرنے كے علاوہ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے والے مسئلے كى طرف بھى ناظر ہے مذكورہ مطلب دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے_

۵ _ عرفات و مشعر، حج كرنے والوں كيلئے كثير خيرو بركت كا مركز_ليشهدوا منافع لهم

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''ليشهدوا '' عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے سے مربوط ہو_

۶ _ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے كے بعد قربانى كرنا حج كے واجب اعمال ميں سے ہے _و يذكروا اسم الله على مارزقهم من بهيمة الأنعام

۷ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت الله كا نام لينا ضرورى ہے_و يذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۸ _ لوگوں كو ذبح كرنے كى طريقے كى تعليم دينا (جانور كو نحر يا ذبح كرتے وقت خدا كا نام لينا)حج كے فلسفوں ميں سے ايك ہے_ليشهدوا منافع لهم و يذكروا اسم الله فى ايام معلومات ''يذكروا'' كا عطف ''ليشہدوا'' پر ہے اور اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اس كا لام تعليل كيلئے ہے اور يہ حج كى تشريع كے فلسفے كو بيان كررہا ہے ''يذكروا'' كا ''يشہدوا'' پر عطف تشريع حج كے ايك اور فلسفہ كا بيان ہے_

۹ _ قربانى والے حكم كا انجام دينا خاص اور معين وقت پر موقوف ہے (دس سے تيرہ ذى الحج تك)_و يذكورا اسم الله فى ايام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الانعام اہل بيت (ع) سے وارد ہونے والى روايات كى بنياد پر ''ايام معلومات'' سے مراد ذى الحج كے ايام تشريق (دس سے تيرہ تك) ہيں _

۱۰ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت خداتعالى كے اسما (الله ، رحمان و غيرہ) ميں سے ہر ايك كے ذكر كا جواز_و يذكروا اسم الله ہوسكتا ہے ''اسم'' كى ''الله '' كى طرف اضافہ بيانيہ ہو اس صورت ميں ''اسم اللہ'' يعنى وہ نام كہ جو اللہ سے عبادت ہے اسى طرح اضافہ لاميہ

۵۱۲

بھى ہوسكتاہے اس صورت ميں '' اسم اللّہ'' يعنى ہر وہ نام كہ جو خدا كے لئے ہو پہلے احتمال كى بناپر قربانى كے وقت ''اللّہ'' كے لفظ كے علاوہ كسى اور لفظ كا لينا جائز نہيں ہے برخلاف احتمال دوم گذشتہ مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۱۱ _ دس ذى الحج كے بجائے گيارہ، بارہ اور تيرہ ذى الحج كو قربانى كرنے كا جواز _و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات من بهيمة الأنعام

۱۲ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ميں سے ہر ايك كى قربانى كرنا جائز ہے_على ما رزقهم من بهيمة الانعام

(''نعم'' كى جمع) ''انعام ''كا اصلى معنى ''اونٹ'' ہے ليكن بعض اوقات اونٹ گائے اور بھيڑ بكرى كے مجمموعے پر بھى اس كا اطلاق ہوتا ہے تمام مفسرين كے نظريے كے مطابق يہاں پر اس سے مراد دوسرا معنى (اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى كا مجموعہ) ہے قابل ذكر ہے كہ ''بہيمہ'' كا معنى ہے ''چوپايہ'' اور اس كى ''أنعام'' كى طرف اضافت بيانيہ ہے يعنى وہ چوپايہ جو اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ہے_

۱۳ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى انسانوں كى روزى اور ان كيلئے خدا كى عطا ہے_على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۱۴ _ قربانى كے گوشت سے استفادے كا حرام ہونا جاہليت كے عربوں كا باطل خيال _فكلوا منه قربانى كے گوشت كے استعمال كو جائز كرنا جاہليت كے عربوں كے باطل خيال كى طرف ناظر ہے كہ جو اسے حرام سمجھتے تھے_

۱۵ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت چوپائے ہيں _على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منه

۱۶ _ حجاج كيلئے قربانى كے گوشت كے استعمال كا جواز_فكلوا منه

۱۷ _ حج كے موقع پر قربانى كے گوشت سے تنگدست لوگوں كو اطعام كرنے كا ضرورى ہونا_و ا طعموا البائس الفقير

۱۸ _ قربانى كے پورے گوشت كو استعمال كرنا جائز نہيں ہے_فكلوا منها و ا طعموا البائس الفقير

''منہا'' ميں ''من'' تبعيضيہ ہے پس ''كلوا منہا'' يعنى اس كا ايك حصہ كھاؤ (نہ پورا)

۱۹ _ لوگوں كى مدد اور تنگدستوں اور ضرورتمندوں كى دستگيرى كرنا حج كے فلسفوں ميں سے اور اس كا ايك سبق ہے_

و أطعموا البائس الفقير

۲۰ _ ربيع بن خيثم كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) كو ديكھا كہ آپ(ع) نے فرمايا ميں نے خداتعالى كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے''ليشهدوا منافع لهم'' تو ميں نے امام (ع) سے عرض كيا ''منافع'' سے مراد دنياوى فوائدہيں يا اخروي؟ تو آپ(ع) نے فرمايا سب

۵۱۳

منافع(۱)

۲۱ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى كے كلام ''ويذكروا اسم الله '' ميں ذكر سے مراد وہ تكبيريں ہيں جو پندرہ نمازوں ميں _ كہ جن ميں سے پہلى عيدوالے دن ظہر كى نماز ہے_ كہى جاتى ہيں(۲)

۲۲ _ امام صادق(ع) سے الله تعالى كے فرمان ''و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے فرمايا اس سے مراد ايام تشريق ہيں(۳)

۲۳ _ صفوان بن يحيى كہتے ہيں ميں نے امام كاظم(ع) سے عرض كيا شخص كسى كو كھال اتارنے كيلئے قربانى ديتا ہے اسكى كھال كے مقابلے ميں يعنى كھال كو اپنى مزدورى كے طور پر لے لے_ (تو اس كا حكم كيا ہے) _

فرمايا اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے كيونكہ خداتعالى نے فرمايا ہے ''فكلوا منہا و أطمعوا'' اور كھال نہ كھائي جاتى ہے اور نہ (اسكے ذريعے) اطعام كيا جاتا ہے(۴)

احكام ۴، ۶، ۷، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸/جاہليت:اسكے مشركين كى سوچ ۱۴; اسكى رسومات ۱۴

چوپائے:ان كے گوشت كى حليت ۱۵/حجاج:ان كا حج كى قربانى سے استفادہ كرنا ۱۶

حج:اسكے اثرات ۲; اسكے احكام ۴، ۶، ۹، ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے گوشت سے استفادہ كرنا ۱۸; اسكى بركات۱; اسكى قربانى كى كھال ۲۳; اسكى قربانى كو مؤخر كرنا ۱۱; اسكى تعليمات ۱۹; اس ميں تكبير ۲۱; اس كا خير ہونا ۱; اس ميں گائے كو ذبح كرنا ۱۲; اس ميں بھيڑ بكرى كو ذبح كرنا ۱۲; اسكى بركات كا پيش خيمہ ۲; اس كا فلسفہ ۸، ۱۹; اسكى قربانى ۶، ۱۲; اسكى قربانى كا گوشت ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے مصارف ۱۷; اسكے مناسك ۴، ۶، ۹، ۱۱، ۱۲;اسكے اخروى منافع ۲۰; اسكے منافع۱; اسكے دنيوى منافع ۲۰; اس ميں اونٹ كو نحر ركنا ۱۲; اسكے واجبات ۶; اسكى قربانى كا وقت ۹

حلال جانور :۱۵/خداتعالى :اسكى روزى ۱۳; اسكے عطيے ۱۳/كھانے كى چيزيں :ان كے احكام ۱۵; كھانے كى حلال چيزيں ۱۵

دين:

____________________

۱ ) كافى ج۴ ص ۴۲۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۸ ح ۷۷_/ ۲ ) عوالى اللئامى ج ۲ ص ۸۸ ح ۲۳۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ص ۸۲_

۳ ) معانى الاخبار ص ۲۹۷ ح ۱، ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ح ۸۴_

۴ ) علل الشرائع ص ۴۳۹ب ۱۸۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۹ ح ۱۳۹_

۵۱۴

اسكے اخروى پہلو ۳; اسكے مادى پہلو ۳; اسكے معنوى پہلو۳; يہ اور عينيت ۳

ذبح:اسكے احكام ۷، ۱۰; اس ميں بسم الله ۷،۸، ۱۰; اسكى تعليم ۸

ذكر:ذكر خدا ايام تشريق ميں ۲۲; ذكر خدا حج ميں ۲۱

روايت : ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

اونٹ:اسكے گوشت كا حلال ہونا ۱۵

عرفات:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵; اس ميں وقوف ۴

فقرا:انہيں اطعام كرنا ۱۷; انكى حاجت روائي كى اہميت ۱۹

قرباني:جاہليت ميں اسكے گوشت كى تحريم ۱۴

گائے:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

بھيڑ بكري:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

مسجدالحرام:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵

مشعرالحرام:اس ميں وقوف كرنا ۴

نعمت:اونٹ كى نعمت ۱۳; گائے كى نعمت ۱۳; بھيڑ بكرى كى نعمت ۱۳

آیت ۲۹

( ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ )

پھر لوگوں كو چاہئے كہ اپنے بدن كى كثافت كو دور كريں اور اپنى نذروں كو پورا كريں اور اس قديم ترين مكان كا طواف كريں (۲۹)

۱ _ مراسم حج كى انجام دہى كے بعد تقصير اور احرام سے خارج ہونے كا وجوب _و يذكروا اسم الله ثم ليقضوا تفثهم

(''يقضون'' كے مصدر قضا) كا معنى ہے كاٹنا اور جدا كرنا ''تفث'' يعنى وہ غبار اور ميل جو بدن پر ہوتى ہے پس''ثم ليقضوا تفثهم'' يعنى حاجى

قربانى كى رسومات ادا كرنے كے بعد اپنے سر اور ناخن تراش كر كے كہ جسے احرام كى وجہ سے انجام نہيں دے سكے تھے_ اپنے آپ كو صاف كريں اور يہ احرام سے خارج ہونے سے كنايہ ہے_

۵۱۵

۲ _ طواف بجالانے كيلئے آلودہ اور بے ہنگم سر اور بدن كے ساتھ مسجدالحرام ميں داخل ہونا ممنوع ہے_ثم ليقضوا تفثهم

۳ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد نذر كى ادائيگى كا ضرورى ہونا_و ليوفوا نذورهم

۴ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد طواف كا لازم ہونا_ثم ليقضوا تفثهم و ليطّوفّو

۵ _ تقصير اور طواف كى ادائيگى كو قربانى كرنے كے بعد تك مؤخر كرنا جائز ہے_ثم ليقضوا تفثهم و ليطوفو

''ثم '' كہ جو تراخى زمان كيلئے ہے _ كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے _

۶ _ كعبہ كا اپنا ماضى اور تاريخ ہے_بالبيت العتيق ''عتيق'' ہر اس چيز كو كہا جاتا ہے كہ جو وقت، جگہ يا مرتبے كے لحاظ سے تقدم ركھتى ہو اسى وجہ سے قديم كو بھى عتيق كہتے ہيں ''بيت عتيق'' يعنى وہ گھر جو اپنا ماضى اور تاريخ ركھتا ہے_

۷ _ عبدالله بن سنان كہتے ہيں ميں امام صادق (ع) كے پاس آيا اور ان سے عرض كى آپ(ع) پر قربان جاؤں خداتعالى كے فرمان ''ثم ليقضوا تفثهم '' (سے مقصود) كيا ہے تو آپ(ع) نے فرمايا: (اس سے مقصود) مونچھيں كاٹنا، ناخن اتارنا و غيرہ ہے(۱)

۸ _ اميرالمؤمنين (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے خداتعالى كے فرمان''ثم ليقضوا تفثهم و ليوفوا نذورهم و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا ''تفث'' سے مراد رمى جمرات اور سر منڈہوانا ہے اور ''نذور'' سے مراد وہ ہے كہ جس نے پيدل جانے كى نذر كى ہو اور طواف سے مراد طواف زيارت ہے(۲)

شايد مقصود يہ ہو كہ كسى نے منا سے مكہ پيدل جانے كى نذر كى ہو نہ اپنے وطن سے پيدل مكہ جانے كى كيونكہ اس صورت ميں يہ آيت كے ظاہر كے ساتھ متناسب نہيں ہے_

۹ _ امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے آپ(ع) نے خداتعالى كے فرمان''و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا (اس سے مراد) طواف النساء ہے(۳)

____________________

۱ ) كافى ج ۴ ص ۵۴۹ ح ۴_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۲ ح ۹۷_

۲ ) دعائم الاسلام ج ۱ ص ۳۳۰_ بحارالانوار ج ۹۶ ص ۳۱۲ ح ۳۹_

۳ ) كافى ج ۴ ص ۵۱۳ ح ۲_ تہذيب شيخ طوسى ج۵ ص ۲۵۳ ح ۱۵_

۵۱۶

۱۰ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ طوفان نوح كے روز خداتعالى نے پورى زمين كو غرق كرديا سوائے بيت (الله ) كے پس اس دن اسے ''عتيق'' كا نام ديا گيا كيونكہ اس دن يہ غرق ہونے سے آزاد ہوا(۱)

۱۱ _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں ميں نے مسجدالحرام ميں امام صادق (ع) سے عرض كيا كيوں خداتعالى نے (بيت الله ) كو عتيق كا نام ديا ہے،؟ تو آپ(ع) نے فرمايا خداتعالى نے زمين پر كوئي گھرنہيں بنايا مگر يہ كہ اس كے مالك ہيں اور اس ميں لوگ رہتے ہيں سوائے اس گھر كے كہ جس كا خدائے عزوجل كے علاوہ كوئي مالك نہيں ہے اور يہ (افراد كى ملكيت سے) آزاد ہے(۲)

احكام: ۲، ۳، ۴، ۵

حج:اسكے احكام ۳، ۵; اس ميں تقصير كو مؤخر كرنا ۵; اس ميں طواف كو موخر كرنا ۵; اس ميں تقصير ۱، ۳، ۴، ۷; اس ميں رمى جمرات ۸; اس ميں منڈہوانا ۸; اس ميں طواف ۸، ۹; اس ميں قربانى ۱; اسكے اعمال ۱، ۴، ۷، ۸، ۹; اس ميں نذر ۸; اسكے واجبات ۱، ۴ ; روايت ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

طواف:اسكے آداب ۲; اسكے احكام ۴; طواف النساء ۹

كعبہ:اسكى تاريخ ۶، ۱۰; اس كا نام ركھنے كا فلسفہ ۱۰، ۱۱; اس كا قديمى ہونا ۶; يہ طوفان نوح كے وقت ۱۰; اسكى مالكيت ۱۱

مسجدالحرام:اسكے آداب ۲; اس ميں پاكيزگى ۲

نذر:اسكے احكام ۳; اسكى وفا ۳

____________________

۱ ) علل الشرائع ج ۲ ص ۳۹۹ ح ۵_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۹۴ ح ۱۱۴_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۱۸۹ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۴ ح ۱۰۹_

۵۱۷

آیت ۳۰

( ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ )

يہ ايك حكم خدا ہے اور جو شخص بھى خدا كى محترم چيزوں كى تعظيم كرے گا وہ اس كے حق ميں پيش پروردگار بہترى كا سبب ہوگى اور تمہارے لئے تمام جانور حلال كردئے گئے ہيں علاوہ ان كے جن كے بارے ميں تم سے بيان جائے گا لہذا تم نا پاك بتوں سے پرہيز كرتے رہو اور لغو اور مہمل باتوں سے اجتناب كرتے رہو (۳۰)

۱ _ حج اور اسكے اعمال، خداتعالى كے نزديك بلند مقام و مرتبے كے حامل ہيں _و أذن فى الناس بالحج و ليطوفوا بالبيت العتيق ذلك ''ذلك'' ان تمام مطالب كى طرف اشارہ ہے كہ جو يہاں تك حج اور اسكے اعمال كے بارے ميں بيان ہوئے ہيں اور يہاں پر ''ذلك'' كے ا ستعمال سے غرض سابقہ اور بعد والے كلام كے درميان فاصلہ كرنا اور ايك اہم مطلب سے دوسرے اہم مطلب كى طرف منتقل ہونا ہے ايسے موارد ميں كلمہ ''ہذا'' كو استعمال كرتے ہيں جيسے ''ہذا و إن للطاغين لشرمآب'' (ص ۵۵۳۸) اس بناپر ''ذلك'' كہ جو بعيد كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے_ كا استعمال ممكن ہے بارگاہ خداوندى ميں حج اور اسكے اعمال كى اعلى قدر و منزلت كو بيان كرنے كيلئے ہو_

۲ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم كرنے، انہيں معمولى نہ سمجھنے اور ان كے حريم سے تجاوز نہ كرنے كا ضرورى ہونا_

و من يعظم حرمت الله

('' يعظم'' كے مصدر) تعظيم كامعنى ہے بڑا سمجھنا ''حرمات''، ''حرمت'' كى جمع ہے يعنى وہ چيز كہ جسكى ہتك كرنا ممنوع اور اسكى حفاظت كرنا واجب ہے ''حرمات الله '' يعنى وہ حدود و احكام كہ جو خدا كى طرف سے مشخص كئے گئے ہيں اور لوگوں كا فريضہ ہے كہ انكى رعايت كريں _ يہ مذكورہ جملہ خداتعالى كى طرف سے اہل ايمان كو نصيحت ہے كہ وہ حتماً حدود و احكام الہى كو بڑا سمجھيں اور ان كے حريم ميں تجاوز كرنے سے سخت پرہيز كريں _

۵۱۸

۳ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم ، انہيں بڑا سمجھنا اور ان كے حريم كى رعايت كرنا اہل ايمان كيلئے خير و سعادت اور خوشبختى كا سبب ہے_و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''فهو خيرله'' كى ''ہو'' خير كا مرجع (''يعظم'' كا مصدر ) تعظيم ہے يعنى''فالتعظيم خير له عند ربه''

۴ _ خداتعالى كے احكام اور حدود، انسان كى سعادت اور بھلائي كيلئے ہيں _ومن يعظم حرمت الله فهوخير له عند ربه

۵ _ قوانين اور احكام الہى كو معمولى سمجھنا اور ان كى حرمت شكنى انسان كى بدبختى اور شقاوت كا سبب ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''تعظيم'' ''تحقير'' كى ضد ہے پس جملے كا مفہوم يوں ہوگا''و من يحقر حرمات الله فهو شر له عند ربه''

۶ _ خداتعالى ، انسانوں كا پروردگار ہے_عند ربه

۷ _ خداتعالى كى طرف سے سعادت بخش احكام و قوانين كا وضع كرنا اسكى ربوبيت اور پروردگار ہونے كا مقتضا ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه

۸ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت جانور ہيں _و أحلت لكم الأنعام ''أنعام'' (''نعم'' كى جمع) در اصل اونٹ كے معنى ميں ہے پس انعام يعنى اونٹ ليكن بعض اوقات ''انعام'' بول كر اس سے مجموعى طور پر اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى مراد ليتے ہيں مذكورہ جملے ميں ''انعام'' دوسرے طريقے سے استعمال كيا گيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ جملہ''أحلت لكم الأنعام'' ،''أحلت لكم أكل لحوم الأنعام'' كى تقدير ميں ہے يعنى تمہارے لئے اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كا گوشت كھانا حلال ہے_

۹ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كے گوشت سے استفادہ كرنا حلال اور جائز ہے سوائے ان موارد كے كہ جن ميں الله تعالى نے انہيں حرام كيا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى جانب سے كھانے كى حرام چيزوں كے بارے ميں متعدد آيات كا نازل ہونا اور لوگوں كيلئے انہيں مكرر وطور پر بيان كرنا_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ ''يتلى '' زمان مستقبل كيلئے ہے يعنى اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى جيسے چوپاؤں كا گوشت تمہارے لئے حلال ہے مگر وہ جسے مستقبل ميں تمہارے لئے بيان كي جائيگا_لہذا كلمہ ''يتلي'' سورہ مائدہ كى آيت نمبر ۳ ''حرمت عليكم الميتة و الدم و لحم الخنزير و ...'' كى طرف اشارہ ہے كہ جو مورد بحث آيت كے بعد نازل ہوئي ہے_

۵۱۹

اور بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ كلمہ ''يتلي'' مضارع استمرارى ہے اور يہ ان آيات كى طرف اشارہ ہے كہ جو اس سے پہلے مكہ ميں (آيت ۱۴۵ سورہ انعام اور آيت ۱۱۵ سورہ نحل) اور ہجرت كے چھ ماہ بعد مدينہ ميں (آيت ۱۷۳ سورہ بقرہ) نازل ہوئي ہيں مذكورہ مطلب دوسرے نظريئےے مطابق ہے _

۱۱ _ اس جانور كے گوشت سے استفادہ كرنا حرام ہے كہ جسے غيرخدا كے نام كے ساتھ ذبح كيا گيا ہو_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم ''إلا ما يتلى عليكم'' ميں كلمہ ''ما'' اگرچہ عام ہے اور ان تمام موارد كو شامل ہے كہ جو ''محرمات اكل''كى آيات ميں بيان ہوئے ہيں ليكن گذشتہ دو آيتوں ميں جملہ ''ويذكروا اسم الله على ما رزقہم من بہيمة الأنعام'' نيز جملہ ''فاجتنبوا الرجس من الأوثان ...'' (آيت كا ذيل) كى جملہ''أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم'' پر تفريع كے قرينے سے كہا جاسكتا ہے كہ ''ما'' سے مرادفقط وہ موارد ہيں كہ جہاں جانور كو غيرخدا (بتوں ) كے نام سے ذبح كيا گيا ہو_

۱۲ _ زمانہ جاہليت ميں مراسم حج و قربانى كا شرك و بت پرستى كے مظاہر كے ساتھ آميختہ ہونا_

و احلت لكم الانعام الا ما يتلى عليكم فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۳ _ بت، رجس اور پليدگى كا مظہر ہے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۴ _ بتوں سے اجتناب كا ضرورى ہونا_فاجتنبوا الرجس من الاوثان ''رجس'' ہر برى اور پليد چيز كو كہاجاتا ہے ''اوثان''، ''وثن'' كى جمع اور بتوں كے معنى ميں ہے اور ''من الاوثان'' ميں ''من'' بيانيہ ہے پس''فاجتنبوا الرجس من الاوثان'' يعنى بتوں سے كہ جو برے اور پليد ہيں اجتناب كرو_

۱۵ _ بت پرست، پليد لوگ ہيں _فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۶ _ عصر بعثت كے مشركين، متعدد بت ركھتے تھے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۷ _ عصر جاہليت كے مراسم حج ميں مشركانہ اورمخالف توحيد نعروں كا وجود_واجتنبوا قول الزور

''زور'' كا معنى ہے''قول باطل'' اور''قول الزور'' ميں اضافت بيانيہ ہے يعنى باطل سخن اور ياوہ گوئي سے دورى اختيار كرو اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيت حج سے مربوط آيات ميں سے ہے كہا جاسكتا ہے كہ ''ياوہ گوئي'' سے مراد وہ مشركانہ نعرے ہيں كہ جو مشركين مراسم حج ميں اور شايد اپنے ان بتوں كے پاؤں ميں _ كہ جنہيں انہوں نے منى ميں نصب كرركھا تھا قربانى كو ذبح كرتے وقت لگاتے تھے_

۱۸ _ جھوٹ بولنے اور سخن باطل سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750