تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219134 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

پھراحمد بن اسحاق نے کہا : اے ہمارے مولا کوئی علامت ہے کہ جس سے میرا دل مطمئن ہو جائے۔

اس وقت وہ بچہ فصیح عربی میں یوں گویا ہوا:

"میں اللہ کی زمین میں اس کا ذخیرہ (بقیۃ اللہ) ہوں اور اس کے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہوں۔اے احمد بن اسحاق آنکھوں سے دیکھنے کے بعد کوئی نشانی طلب نہ کرو۔"(۱)

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۴۸

۸۱

غیبت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں بارہ احادیث

توفیق پروردگار کے ساتھ اور وہی میرے لیے کافی ہے۔

اس مقام پر مؤلف کتاب ھذا بندہ گناہگار و خطاکار محمد تقی بن عبدالرزاق مناسب بلکہ لازم سمجھتا ہے کہ امام ؑ کی غیبت سے متعلقہ آئمہ اہل بیتؑ کی بارہ احادیث نقل کرے تاکہ یہ ہر خاص و عام کے لیے مکمل نفع بخش ہوں اور اس حقیر کے لیے ذخیرہ آخرت قرار پائیں۔یہ احادیث شیخ صدوق ؒ(۱) کی کتاب کمال الدین وتمام النعمۃ سے نقل کر رہا ہوں۔اور پر امید ہوں کہ یہ عمل حضرت حجت ؑ کی خدمت اقدس میں پیش ہو۔ان شاء اللہ تعالی۔

____________________

۱:- ان کا نام محمد بن علی بن الحسین بن موسیٰ بن بابویہ قمی تھا۔ان کی ولادت کی بشارت خود حضرت حجت نے دی تھی۔وفات ۳۸۱ ھجری میں ہوئی۔ان کی قبر اطراف تہران میں ہے۔ان کی عظمت بیان کی محتاج نہیں۔انہوں نے تقریبا تین سو کتابیں لکھیں۔

۸۲

پہلی حدیث:۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"مہدیؑ میری اولاد میں سے ہیں۔ان کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہے۔وہ لوگوں میں سےسب سے زیادہ خلق و خلق میں میرے مشابہ ہیں۔ان کے لیے ایک ایسی غیبت ہوگی کہ جس پر حیرانی و سرگردانی میں امتیں گمراہ ہوجائیں گی۔پھر وہ شہاب ثاقب کی طرح ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جس طرح پہلے وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی۔"(۱)

دوسری حدیث:۔

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام نےفرمایا:

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ میں امیرالمومنین ؑ کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو دیکھا کہ آپؑ کسی فکر میں ڈوبے ہوئے زمین کرید رہے تھے۔میں نے عرض کیا:

"اے ا میرالمومنین ؑ میں نے آج تک آپ کو اس قدر فکر مند نہیں پایا کیا دنیا کی کوئی فکر لاحق ہے؟"

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۲۸۶ ح۱ اور ۴

۸۳

فرمایا:

"نہیں خدا کی قسم میں نے اس دنیا سے ایک دن بھی لگاؤ نہیں رکھا۔میں تو اس مولودؑ کے بارے سوچ رہا ہوں جو میری نسل سے ہوں گے اور میرے بعد گیارہویں فرد ہوں گے۔وہ مہدیؑ ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی۔ان کے لیے ایک ایسی غیبت ہوگی کہ جس میں کچھ اقوام گمراہ ہوجائیں گی اور کچھ ہدایت پائیں گی۔"

میں نے عرض کیا : "یا امیرالمومنین ؑ کیا ایسا ہوگا؟"

فرمایا :

"ہاں یہ ہو کر رہے گا۔"(۱)

تیسری حدیث:۔

حضرت امام حسن مجتبی ٰعلیہ السلام نےفرمایا:

"ہم اہل بیت ؑ میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے گلے میں طاغوت کے ساتھ مصلحت کا طوق نہ ہو سوائے ہمارے قائم ؑ کے جو روح اللہ عیسی ابن مریم کو نماز پڑھائیں گے۔اللہ تعالی ان کی ولادت کو مخفی رکھے گا۔اور ان پہ غیبت کا پردہ

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۲۸۹ ح۱

۸۴

ڈال دے گا۔تاکہ جب وہ ظہور کریں تو ان کی گردن پہ کسی کی بیعت کا طوق نہ ہو۔وہ میرے بھائی حسینؑ ابن سیدۃ النساء ؑ کی اولاد میں سے نویں ہونگے۔اللہ ان کی غیبت میں ان کی عمر کو طول دے گا۔پھر اپنی قدرت سے انہیں ایک چالیس سالہ جوان کی مانند ظاہر فرمائے گا۔"(۱)

چوتھی حدیث:۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

"ا س امت کا قائم میری اولاد میں سے میرےنویں فرزند ہو ں گے۔اور وہ صاحب ٖغیبت ہوں گے۔ان کی میراث تقسیم کی جائے گی جبکہ وہ زندہ ہوں گے۔"(۲)

پانچویں حدیث:۔

حضرت امام ذین العابدین علیہ السلام نے فرمایا :

آپ ؑ نے ابو خالد کابلی سے فرمایا:

"۔۔۔پھر اس کے ولئ خدا اور رسول خداؐ کے اوصیاء میں سے بارہویں کے لیے ایک طویل غیبت کا زمانہ ہوگا۔اے ابو خالد! ان کی ٖغیبت کے زمانہ میں

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۱۶ ح۲

۲:- کمال الدین ۱/۳۱۷ ح۲

۸۵

وہ لوگ جو ان کی امامت کے قائل اور ان کے ظہور کے منتظر ہوں گے وہ تمام زمانے کے لوگوں سے افضل ہوں گے۔کیونکہ اللہ انہیں علم و معرفت سے نوازے گا اور ان کے نزدیک غیبت بھی مشاہدہ کی طرح ہوگی۔ان کا مقام ان مجاہدین کے برابر ہوگا جنہوں نے رسول خداؐ کی اقتداء میں تلوار سے جہاد کیا۔یہی لوگ حقیقتا ہمارے مخلص اور سچے شیعہ ہوں گے۔وہ لوگوں کو دین خدا کی طرف ظاہرا اور پوشیدہ طور پر دعوت دیں گے۔"(۱)

چھٹی حدیث:۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

"وہ مہدی ؑ عترت میں سے ہوں گے،ان کے لیے ایسی غیبت اور حیرت و سرگردانی ہو گی کہ جس میں کچھ اقوام گمراہ ہو جائیں گی اور کچھ ہدایت پائیں گی۔"(۲)

ساتویں حدیث:۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

عبد اللہ ابن ابی یعفور روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:

"جس نے میرے آباء و اولاد میں سے تمام آئمہ کا اقرار کیا اور مہدی ؑ کا انکار کیا تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام انبیاء ؑکا اقرار کیا اور محمد ؐ کا انکار کیا۔"

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۲۰ ح۲

۲:- کمال الدین ۱/۳۳۰ ح۱۴

۸۶

میں نے عرض کیا اے میرے آقا!آپ کی اولاد میں سے مہدیؑ کون ہوں گے؟

فرمایا:

" ہماری نسل سے ساتویں پشت سے پانچویں ہوں گے۔وہ تمہاری نظروں سے غائب رہیں گے اور تمہارے لیے ان کا نام لینا جائز نہ ہوگا۔"(۱)

آٹھویں حدیث:۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

"جب ساتویں کی اولاد سے پانچویں غائب ہو جائیں تو خدا کے لیے تم اپنے دین کی حفاظت کرنا کوئی تمہیں دین سے برگشتہ نہ کرے۔اے میرے فرزند! اس صاحب امر کے لیے غیبت ضروری ہے۔یہاں تک کہ وہ لوگ بھی اس سے پلٹ جائیں جو کہا کرتے تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے مخلوق کے لیے آزمائش ہے۔"(۲)

نویں حدیث:۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۳۷ ح۱۲

۲:- کمال الدین ۱/۳۳۸ ح۱

۸۷

حضرت امام علی رضاؑ ؑ سے پوچھا گیا کہ اے فرزند رسول ؐ آپ اہل بیت ؑ میں سے قائمؑ کون ہے؟

فرمایا:

"میری اولاد میں سے چوتھا ، سیدۃ النساء کا فرزند ہوگا۔اللہ ان کے ذریعے زمین کو ہر ظلم و ستم سے پاک و پاکیزہ کر دے گا۔لوگ ان کی ولادت میں شک کریں گے۔وہ اپنے ظہور سے پہلے غیبت میں رہیں گے۔پس جب وہ ظہور کریں گے تو زمین ان کے نور سے چمک اٹھے گی۔اور وہ لوگوں کے درمیان میزان عدل قائم کریں گے پھر کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ان کے لیے فاصلے سمٹ جائیں گے اور ان کا کوئی سایہ نہ ہوگا۔اور ان کے لیے آسمان سے ایک منادی ندا دے گا کہ جسے تمام اہل زمین سنیں گے کہ:

"آگاہ ہوجاؤکہ حجت خداؑ بیت اللہ میں ظہور فرما چکے ہیں پس ان کی اتباع کرو۔حق ان کے ساتھ ہے اور ان میں ہے۔"(۱)

دسویں حدیث:۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا :

____________________

۱:- کمال الدین ۳۷۱ ح۵

۸۸

آپؑ سےحضرت عبدالعظیم حسنی نے عرض کیا: میں سمجھتا ہوں اہل بیتؑ محمد ؐ ؐمیں سے آپ ہی وہ قائم ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی۔

امام ؑ نے فرمایا:

"اے ابوالقاسم! ہم میں سے ہرایک امام اللہ کی طرف سے قائم ہے اور دین خدا کی طرف ہدایت کرنے والا ہے۔لیکن وہ قائم ؑ جو زمین کو کافروں اور منکروں سے پاک کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا وہ امام ہوگا کہ جس کی ولادت لوگوں سے مخفی ہوگی۔ وہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہوں گے اور ان پر ان کا نام لینا حرام ہوگا۔ان کا نام و کنیت وہی رسول اللہ ؐ والی ہو گی۔ ان کے لیے فاصلے سمٹ جائیں گے ،ہر سختی اور مشکل ان کے لیے آسان ہوجائےگی۔ اور اہل بدر کی تعداد کے برابر ۳۱۳ اصحاب زمین کے کونے کونے سے ان کے لیے جمع ہوجائیں گے۔ اور یہ اللہ کا ارشاد ہے کہ :

اَيْنَ مَا تَكُـوْنُـوْا يَاْتِ بِكُمُ اللّـٰهُ جَـمِيْعًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (۱)

____________________

۱:- سورۃ بقرۃ :۱۴۸

۸۹

پس جب یہ اہل اخلاص ان کے لیے جمع ہوجائیں گے تو اللہ اپنے امر کوظاہرکردے گا۔اور جب دس ہزار کا لشکر جمع ہو جائے گا تو اللہ کے حکم سے خروج کریں گے۔اور وہ اس وقت تک دشمنان خدا کو قتل کریں گے جب تک اللہ راضی نہ ہو جائے۔

عبد العظیم کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :مولا یہ کیسے پتا چلے گا کہ اللہ راضی ہوگیا ہے؟

فرمایا:

اللہ ان کے دل میں رحم ڈال دے گا اور جب وہ مدینہ میں داخل ہوں گے تو لات و عزی کو نکال کر جلا دیں گے۔"

مصنف : میرے نزدیک لات سے مراد پہلا ظالم اور عزی سے مراد دوسرا ظالم ہے۔

گیارہویں حدیث:۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا:

"میرے بعد میرا بیٹا حسن(عسکری) امام ہوگا۔اور ان کے بعد کیا ہی امامت ہوگی ۔ میں نے پوچھا میں آپ پر قربان جاؤں وہ کیوں؟

فرمایا :

۹۰

کیونکہ تم انہیں نہیں دیکھ پاؤ گے۔اور تمہارے لیے ان کانام لینا جائز نہ ہوگا۔میں نے عرض کیا ہم کیسے ان کا تذکرہ کریں۔ فرمایا: یوں کہو حجت آلؑ محمدؐ۔"(۱)

بارہویں حدیث:۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:

حضرت امام حسن عسکری ؑ سے احمد بن اسحاق نے پوچھا: ان میں خضر و ذوالقرنین کی کون سی سنت ہوگی؟

فرمایا: "اے احمد ! لمبی غیبت۔ عرض کیا : فرزند رسول ؐ !کیا ان کی غیبت بہت طولانی ہوگی؟ فرمایا:ہاں قسم بخدا،یہاں تک کہ اس امر پرایمان رکھنے والوں میں سے اکثر اپنی بات سے پھر جائیں گے۔اور فقط وہی بچے گا جس سے اللہ نے ان کی ولایت کا عہد لے رکھا ہےاور اس کےدل میں ایمان جاگزیں کیا ہےاور اپنی روح سے اس کی تائید کی ہے۔"(۲)

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۸۱ ح۵

۲:- یہ حدیث فوائد دعا میں چودہویں فائدہ میں ذکر کی گئی حدیث کا ابتدائی حصہ ہے۔

۹۱

فصل سوم

پانچ علامات ظہور

حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا ظہور کسی وقت کے ساتھ معین اور خاص نہیں ہے۔غیبت نعمانی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے ابو بصیر سے فرمایا:

إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ لاَ نُوَقِّتُ وَ قَدْ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ كَذَبَ اَلْوَقَّاتُونَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ قُدَّامَ هَذَا اَلْأَمْرِ خَمْسَ عَلاَمَاتٍ أُولاَهُنَّ اَلنِّدَاءُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ خُرُوجُ اَلسُّفْيَانِيِّ وَ خُرُوجُ اَلْخُرَاسَانِيِّ وَ قَتْلُ اَلنَّفْسِ اَلزَّكِيَّةِ وَ خَسْفٌ بِالْبَيْدَاءِ

"ہم اہل بیت ؑ وقت مقرر نہیں کر رہے۔ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: کذب الوقاتون۔ ظہور کا وقت مقرر کرنے والے جھوٹے ہیں۔اے ابو محمد اس امر (ظہور) کی پانچ علامتیں ہیں:

۹۲

ان میں سے پہلی ماہ رمضان میں آسمانی نداء کا آنا ،دوسری سفیانی کا خروج، تیسری خراسانی کا خروج، چوتھی نفس زکیہ کا قتل اور پانچویں خسف بیداء یعنی وادی بیداء کا دھنسنا۔"(۱)

عریضہ بحضور حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف:۔

یہاں پر ہم بحار الانوار سے وہ عریضۃ نقل کر رہے ہیں کہ جسے حضرت حجت کی بارگاہ میں بھیجا جاتا ہے۔

یہ عریضہ لکھ کر کسی پاک مٹی میں ڈال کر کسی نہر یا پانی کے چشمہ میں ڈالا جائے اور ڈالتے وقت یہ کہیں

يَا سَيّدي يا أبا القاسم يا حُسين بن رُوْح سَلام عَلَيكَ اَشهدُ أَنَّ وفاتَكَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَاَنَكَ حيٌّ عِندَ اللهِ مرزوقٌ وقَد خاطَبتُكَ في حَياتِكَ الّتي لَكَ عَندَ اللهِ عَزَّ وجَلّ وهَذهِ رُقعَتي وحاجَتي إلى مَولاَنا عَليهِ السَلام فَسَلّمها اِليهِ فأنْتَ الثِقة الاَمينِ .

____________________

۱:- غیبۃ النعمانی ص۲۸۹ ح۶

۹۳

عریضہ بحضور حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف

بسم الله الرحمن الرحيم كَتَبْتُ إلَيْكَ يا مَولاَيَ صَلَواتُ الله عَلَيكَ مُسْتَغِيثاً وشَكَوتُ ما نَزلَ بِي مُستَجِيراً باللهِ عَزَّ وجَلّ ثمَّ بِكَ من أمرٍ قَد دَهَمَني واَشغَلَ قَلبَي وأطالَ فِكْري وسَلَبَني بَعضَ لُبّي وَغَيّر خَطِيرَ نِعمَةِ اللهِ عِنْدِي أسلَمَني عِندَ تَخيّلِ وُرُودِه الخَليلُ وَتَبرَّأَ مِنّي عِنَدَ تَرائي إقْبالِهِ اِليَّ الحِمِيمُ وعَجَزَتْ عَن دِفَاعِهِ حِيلَتي وَخَانَني في تَحَمُّلِهِ صَبْرِي وَقوَّتي فَلَجَأتُ فِيهِ إلَيكَ وَتَوَكَّلْتُ في المسْألةِ لِلّهِ جَلَّ ثَنَاؤهُ عَلَيهِ وعَلَيكَ وفي دِفَاعِهِ عَنّي عِلماً بِمَكَانِكَ مِنَ اللهِ رَبِّ العَالَمِينَ وَلِيّ التَّدْبِيرِ وَمَالِكِ الأُمورِ وَاثِقاً بِكَ في المسارَعَةِ فِي الشّفَاعَةِ إِلَيهِ جَلَّ ثناؤهُ في اَمْري مُتَيقِّناً لاِجَابَتِهِ تَبَاركَ وَتَعالى إيّاكَ بِاِعْطَاءِ سُؤْلي واَنتَ يا مَولايَ جَدِيرٌ بِتَحْقِيقِ ظَنّي وَتَصْدِيقِ اَمَلِي فِيكَ في أَمْرِ (یہاں اپنی حاجت لکھیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مِمّا لاَ طَاقةَ لِي بِحَمْلِهِ ولا صَبْرَ لِي عَلَيهِ وَاِن كُنتُ مُستَحِقّاً لَهُ وَلأضعَافِهِ بقَبيحِ أَفعَالِي وَتَفريطي فِي الواجِباتِ الّتي لِلّهِ عَزَّ وجَلَّ عَلَيّ فأغِثْني يا مَولاَيَ صَلَواتُ اللهِ عَلَيكَ عِندَ اللَهفِ وَقَدِّمِ المسْألةَ للهِ عَزَّ وجَلَّ في اَمْرِي قَبلَ حُلولِ التَلَفِ وشِماتَةِ الأعداءِ فَبِكَ بُسِطَتِ النِعْمَةُ عَلَيَّ وَاسْأَلِ اللهَ جَلَ جَلاَلُهُ لِي نَصْراً عَزيزاً وفَتْحاً قَريباً فِيهِ بلُوغُ الآمالِ وَخَيرُ المبَادِي وَخَواتِيمُ الاعمَالِ وَالأمنُ مِنَ المخَاوفِ كُلِّها فِي كُلِّ حَالٍ إنّهُ جَلَّ ثناؤهُ لِما يَشَاءُ فعّالٌ وَهُو حَسبي وَنِعمَ الوكِيلُ في المبدءِ وَالمآل

۹۴

۹۵

دوسراحصہ

۹۶

الحمدلله رب العالمین والصلاة والسلام علی خاتم المرسلین خیرالخلق اجمعین محمد وآله المعصومین ولا سیما امام زماننا خاتم الوصیین ولعنة الله علی اعدائهم و ظالمیهم الی یوم الدین اما بعد

گناہوں اور آرزؤں کے سمندر میں ڈوبا ہوا (محمد تقی بن عبدالرزاق الموسوی الاصفہانی) عفی اللہ عنھما انے مومن بھائیوں سے مخاطب ہے کہ:

یہ میری کتاب (زمانہ غیبت امام میں ہماری ذمہ داریاں ) کا دوسرا حصہ ہے کہ جس میں وہ اعمال جمع کیے ہیں کہ جنہیں امام عصر ؑ کے زمانہ غیبت میں مومنین کو پابندی سے بجا لانا چاہیے۔

یہ اعمال جوکہ چون (۵۴) کی تعداد تک پہنچتے ہیں ، مکتب امامیہ کی معتبر کتب سے جمع کیے گئے ہیں۔کتاب کے پہلے حصہ میں پچیس اعمال ذکر کیے گئے تھے ۔

اب یہاں باقی اعمال ذکر کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔

۹۷

۲۶ ۔ چھبیسواں عمل:۔

علماء کو چاہیے کہ وہ اپنا علم ظاہر کریں اور مخالفین کی طرف سے کیے گئے شبہات کے جواب میں لاعلم لوگوں کی رہنمائی کریں تاکہ وہ گمراہ نہ ہوجائیں۔اور اگر وہ حیرت و پریشانی میں مبتلا ہوں تو انہیں اس سے نجات دیں۔یہ کام بطور خاص اس زمانہ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور علماء پر واجب ہے ۔

تفسیر امام حسن عسکریؑ میں وارد ہوا ہے کہ امام محمد تقی ؑ نے فرمایا:

وہ یتیمان آل محمد کہ جو اپنے امام ؑ سے جدا کر دیئےگئے اور اپنی جہالت کی وجہ سے حیرت و سرگرانی میں پڑے ہوئےہوں،شیاطین کے ہاتھوں میں جکڑے ہوئے اور ہمارے دشمن ناصبیوں کے ہاتھوں قید ہوں تو جن لوگوں نے ان کی کفالت کی اور انہیں ان مشکلات سے نکالا،انہیں اس حیرت و سرگردانی سے باہر لایا،خدا کی حجتوں اور آئمہؑ کی دلیل کے ذریعہ شیاطین اور ناصبیوں کے وسوسے رد کرتےہوئے ان کے قہر سے نجات دلائی تو انہیں اللہ کے ہاں باقی بندوں سے بلند مقام دیا جائے گا۔ان کی فضیلت آسمان کی زمین پر اور اس کی وسعت،کرسی اور حجابات پر فضیلت سے بھی زیادہ ہوگی۔انہیں ایک عابد پر ایسے

۹۸

ہی فضیلت حاصل ہوگی جس طرح چودہویں کے چاند کو باقی تمام ستاروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے۔"(۱)

امام علی نقی ؑ سے روایات ہے کہ فرمایا:

"اگر تمہارے قائم کی غیبت کے بعد ایسے علماء باقی نہ رہتے جو ان کی طرف بلانے والے، رہنمائی کرنے والے،اللہ کی حجتوں کے ذریعے ان کے دین کا دفاع کرنے والے،خدا کے کمزور بندوں کو ابلیس کی چالوں اور ناصبیوں کے شکار سے بچانے والےہیں تو پھر ہر شخص خدا کے دین سے مرتد ہوجاتا۔لیکن یہ ایسے لوگ ہیں کہ جو کمزور شیعوں کے دلوں کو ایسے سنبھالے رکھتے ہیں کہ جیسے کشتی والا سواروں کو سنبھالے رکھتا ہے۔یہی لوگ اللہ کےہاں افضل ہیں۔"(۲)

اصول کافی میں معاویہ بن عمار روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق ؑ سے عرض کیا:

"ایک شخص آپ کی حدیث روایت کرتا ہے اور اسے لوگوں میں پھیلاتا ہے اور اسے لوگوں کے دلوں میں اور آپ کے شیعوں کے دلوں میں

____________________

۱:- تفسیرالامام حسن عسکری ؑ:۱۱۶

۲:- تفسیرالامام حسن عسکری ؑ:۱۱۶

۹۹

پیوست کرتا ہے ،جبکہ آپ کے شیعوں میں ایک عبادت گزار ہے کہ جس کے پاس یہ روایت نہیں ہے ۔تو ان دونو ں میں سے کون افضل ہے؟

امام نے فرمایا:

ہماری حدیث روایت کرنا کہ جس سے ہمارے شیعوں کے دل (ا یمان ) کو مضبوط کیا جائے ہزار عابد (کی عبادت)سے افضل ہے۔"(۱)

پس ان احادیث اور ان جیسی دوسری احادیث کی روشنی میں عالم پر واجب ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنا علم ظاہر کرے۔باالخصوص اس زمانے میں کہ جس میں بدعتیں پھوٹ رہی ہیں۔

اصول کافی میں رسول خداؐ سے مروی ہے:

"جب میری امت میں بدعتیں پھوٹنے لگیں تو عالم کو چاہیے کہ اپنا علم ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔"(۲)

کتاب الفتن میں بحارالانوار سے نقل کرتے ہوئے رسول خدا ؐ سے مروی ہے کہ آپ نے امیرالمومنین ؑ سے فرمایا:

____________________

۱:- الکافی ۱/۳۳

۲:- الکافی ۱/۵۴

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

آیت ۸۸

( فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ )

تو ہم نے ان كى دعا كو قبول كرليا اور انھيں غم سے نجات دلادى كہ ہم اسى طرح صاحبان ايمان كو نجات دلاتے رہتے ہيں (۸۸)

۱ _ مچھلى كے پيٹ كى تاريكى ميں گرفتار ہونے كے وقت حضرت يونس(ع) نے جو دعا كى وہ خداتعالى نے قبول كرلى _

فنادى فى الظلمت فاستجبناله

۲ _ خداتعالى نے حضرت يونس(ع) كو غم و اندوہ سے نجات دي_و نجينه من الغم

۳ _ دعا كى قبوليت اور غموں سے نجات ميں خداتعالى كى تسبيح و تہليل اور اپنے نفس پر ظلم كے اقرار كا كردار_

فنادى فى الظلمت أن لا إله إلا أنت سبحانك إنى كنت من الظالمين فاستجبناله و نجيناه من الغم

۴ _ دعا، غم و اندوہ اور مشكلات سے نجات حاصل كرنے كا موثر ذريعہ ہے_فنادى و نجينه من الغم

۵ _ اپنے نفس پر ظلم غمناك نتائج كا حامل ہے اور ان سے نجات كيلئے خداتعالى كى مددكى ضرورت ہے_

إنى كنت من الظلمين فاستجبناله و نجينه من الغم

۶ _ مؤمنين كو غم و اندوہ سے نجات دينا خداتعالى كى سنت ہے_فاستجبناله و نجينه من الغم و كذلك ننجى المؤمنين

حضرت يونس(ع) كى نجات كو ذكر كرنے كے بعد جملہ''كذلك ننجى المؤمنين'' ہوسكتا ہے سنت الہى اور ايك قانون كو بيان كررہا ہو_

۷ _ مؤمنين كى مخلصانہ دعا كى صورت ميں خداتعالى كا انہيں غم و اندوہ اور مشكلات سے نجات دينے ك

۴۴۱

وعدہ _فنادى و كذلك ننجى المؤمنين

۸ _ حضرت يونس(ع) كى غم و اندوہ سے نجات، مؤمنين كى نجات كے بارے ميں خداتعالى كى سنت كا ايك جلوہ تھا_و نجينه من الغم و كذلك ننجى المؤمنين اسم اشارہ ''كذلك'' حضرت يونس(ع) كى غم و اندوہ سے نجات كى طرف اشارہ ہے_

۹ _ اپنے نفس پر ظلم انسان كے غم و اندوہ ميں مبتلاء ہونے كا سبب ہے_فظن ان لن نقدر عليه إنى كنت من الظالمين و نجيناه من الغم

اخلاص:اسكے اثرات ۷

اقرار:ظلم كے اقرار كے اثرات ۳

غم و اندوہ:اسكے عوامل ۵، ۹; اسكے دور كرنے كے عوامل ۴، ۵

تسبيح:اسكے فوائد ۳

تہليل:اسكے فوائد ۳

خداتعالى :اسكى امداد كى اہميت ۵; اسكى سنت ۶، ۸; اس كا نجات دينا ۲; اس كے وعدے ۷

خود:خود پر ظلم كے اثرات ۵، ۹; خود پر ظلم ۳

دعا:اسكے اثرات ۴; اسكے آداب ۳; اس ميں اخلاص ۷; اسكى قبوليت كے عوامل ۳

سنن الہي:نجات دينے والى سنت ۶، ۸

مؤمنين:ان كے غم كو دور كرنا ۶، ۷; انكى نجات ۸; ان كے ساتھ وعدہ ۷

يونس (ع) :انكى دعا كى قبوليت ۱; ان كے غم كا دور كرنا ۲، ۸; انكى تكليف ۱; انكى نجات۲; يہ مچھلى كے پيٹ ميں ۱

۴۴۲

آیت ۸۹

( وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْداً وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ )

اور زكريا كو ياد كرو كہ جب انھوں نے اپنے رب كو پكارا كہ پروردگار مجھے اكيلا نہ چھوڑ دينا كہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے (۸۹)

۱ _ حضرت زكريا(ع) اور ان كے بيٹا چاہنے كى داستان سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد دہانى كرانے كے قابل ہے_و زكريا إذ نادى مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''زكريا'' كى نصب ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے ہو_

۲ _ حضرت زكريا(ع) نے بلند اور واضح آواز كے ساتھ خداتعالى سے بيٹا طلب كيا_و زكريا إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً بعدوالى آيت (فاستجبناله و وهبنا له يحيى ) قرينہ ہے كہ جملہ''لاتذرنى فرداً'' سے مراد بيٹے كى درخواست ہے قابل ذكر ہے كہ ''ندا'' كا معنى ہے بلند اور واضح آواز (لسان العرب)

۳ _ تنہائي سے نجات اور موت كے بعد اپنى وراثت كى حفاظت حضرت زكريا(ع) كے خدا سے بيٹا طلب كرنے كا محرك_

و زكريا إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين حضرت زكريا(ع) نے صراحت كے ساتھ بيٹا طلب كرنے كے بجائے اپنى تنہائي كا تذكرہ كيا اور اپنى درخواست كے آخر ميں خدا كے بہترين وارث ہونے كو ياد كيا ان دو مطلبوں كو ذكر كرنا در حقيقت دعا ميں حضرت زكريا(ع) كے محرك اور حالات كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ حضرت زكريا(ع) تنہائي كى وجہ سے رنج ميں مبتلاء تھے اور بيٹے كى آرزو ركھتے تھے_إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً

بلاشك انسان اپنى دعا ميں جو كچھ خدا سے چاہتا ہے وہ اسے دوست ركھتا ہوتا ہے اور اسكى آرزو ركھتا ہے اور اس كا نہ ہونا اسكے رنج كا سبب ہوتا ہے بالخصوص اگر دعا كرنے والا عظيم شخصيت كا مالك ہو جيسے پيغمبر الہى اس بناپر حضرت زكريا(ع) كى صاحب فرزند ہونے كيلئے دعا مذكورہ مطلب كى غماز ہوسكتى ہے_

۴۴۳

۵ _ صاحب اولاد ہونے كى آرزو انسان كيلئے ايك فطرى آرزو اور پسنديدہ اميد ہے_رب لاتذرنى فرداً

۶ _ موت كے بعد اولاد كے سائے ميں زندگى كے ماحصل كو محفوظ كرنا انسان كافطرى مطالبہ ہے_و زكريا إذ نادى ربه رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين چونكہ حضرت زكريا(ع) جيسے پيغمبر خدا نے صاحب اولاد ہونے كے ذريعے اپنى ميراث كى حفاظت كو طلب كيا ہے اس سے اس بات كا استفادہ كيا جاسكتا ہے كہ سب انسان ايسا مطالبہ ركھتے ہيں _

۷ _ زندگى ميں بيٹا اور وارث نہ ہونے كى صورت ميں حضرت زكريا(ع) كو اپنى رسالت كے مستقبل كى پريشاني_رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين ممكن ہے حضرت زكريا(ع) كى خداتعالى سے صاحب فرزند ہونے كى درخواست معاشرتى مسائل كى خاطر ہو يعنى آپ چاہتے تھے كہ رسالت اور اسكے ثمرات محفوظ اور ہميشہ رہيں _

۸ _ مسئلہ وراثت كى ماضى ميں لمبى تاريخ ہے اور وراثت چھوڑنے اور وراثت حاصل كرنے كى خواہش ايك فطرى اور انسانوں حتى كہ انبيا(ع) ء كے درميان ايك رائج امر ہے_رب لاتذرنى فرداً و أنت خير الوارثين

۹ _ خداوند، بہترين وارث ہے_أنت خير الوارثين

۱۰ _ تمام زندہ موجودات مرنے والے اور فانى ہيں اور صرف خداتعالى كى ذات زندہ و جاويد ہے_أنت خير الوارثين

خداتعالى كا بہترين وارث ہونا ممكن ہے اس لحاظ سے ہو كہ سب وارث كسى نہ كسى دن موت كا شكار ہوجائيں گے اور انہوں نے جو كچھ وراثت حاصل كى ہے اسے دوسروں كے سپرد كريں گے ليكن خداتعالى ايسا وارث ہے جو ناقابل فنا اور زندہ و جاويد ہے_

۱۱ _ دعا كے وقت خداتعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ اور اس كا تذكرہ كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے_إذ نادى ربه رب لاتذرني

۱۲ _ ربوبيت خدا كا تقاضا ہے كہ انسان نياز كے وقت اسكى بارگاہ كى طرف متوجہ ہو_إذ نادى ربه رب لاتذرني

۱۳ _ دعا كے وقت خداتعالى كى تعريف اور ضرورت كے ساتھ مناسب طريقے سے اس كے اسما و صفات كو ياد كرنے كا اچھا ہونا_و أنت خير الوارثين

مذكورہ مطلب كے حاصل ہونے كى وجہ يہ ہے كہ حضرت زكريا(ع) نے اپنى نياز اور مطالبے (صاحب

۴۴۴

اولاد ہونے كے ذريعے اپنى ميراث كى حفاظت) كے ساتھ متناسب،خداتعالى كو بہترين وارث ہونے كے ساتھ ياد كيا_

آرزو:بيٹے كى آرزو۵; پسنديدہ آرزو۵

وراثت:بہترين وراثت ۹; اسكى تاريخ۸

اسما ء و صفات:خيرالوارثين۹

انبياء(ع) :ان كے تمايلات۸

انسان:اسكے مطالبے ۶; اسكے تمايلات ۸، اسكى ضروريات ۵

تنہائي:اس سے نجات ۳

حمد:حمد خدا، ۱۳

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۲; اس كا زندہ و جاويد ہونا ۱۰

دعا:اسكے آد اب ۱۱، ۱۳; اس ميں اسما ء و صفات ۱۳; اس كا ضرورت كے مطابق ہونا ۱۳; اس ميں حمد ۱۳

ذكر:ربوبيت خدا كا ذكر ۱۱; حضرت زكريا كے قصے كا ذكر ۱

زكريا (ع) :انكى آرزو۴; انكى رسالت كا مستقبل۷; انكا بے اولاد ہونا ۴، ۷; انكى تنہائي ۳; انكى دعا۲; ان كے قصے سے عبرت۱; ان كے رنج كے عوامل۴; انكى پريشانى كے عوامل ۷; ان كا بيٹا طلب كرنا ۱، ۲، ۴; ان كے بيٹا طلب كرنے كا فلسفہ۳، ۷; انكا قصہ ۲، ۴، ۷; انكى وراثت كى حفاظت ۳; انكى وراثت كى حفاظت ۳، ۶

عبرت:اسكے عوامل ۱

محبت:وراثت سے محبت ۸

بيٹا:اسكى درخواست ۲; اس كا كردار ۶

تمايلات:خدا كى طرف تمايل كا پيش خيمہ ۱۲

موجودات:ان كا فانى ہونا ۱۰

۴۴۵

آیت ۹۰

( فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَى وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَباً وَرَهَباً وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ )

تو ہم نے ان كى دعا كو بھى قبول كرليا اور انھيں يحيى جيسا فرزند عطا كرديا اور ان كى زوجہ كو صالحہ بناديا كہ يہ تمام وہ لوگ تھے جو نيكيوں كى طرف سبقت كرنے والے اور رغبت اور خوف كے ہر عالم ميں ہميں كو پكارنے والے تھے اور ہمارى بارگاہ ميں گڑگڑا كر التجا كرنے والے بندے تھے (۹۰)

۱ _ حضرت زكريا(ع) كى صاحب فرزند ہونے كى دعا كو خداتعالى نے قبول فرمايا_رب لا تذرنى فرداً فاستجبناله

۲ _ حضرت زكريا(ع) كى دعا اور ان كے بارگاہ الہى ميں آنے كے بعد خداتعالى كى طرف سے ان كيلئے يحيى (ع) كا بلاعوض اور كسى قسم كى غرض سے خالى عطيہإذ نادى ربه فاستجبنا له و و هبنا له يحيى ''ہبہ'' كا معنى كسى قسم كى غرض اور عوض كے بغير ''عطيہ''_

۳ _ حضرت زكريا(ع) كى صاحب فرزند ہونے كى دعا كے بعد حضرت يحيى (ع) ان كى پہلى اولاد_رب لاتذرنى فرداً فاستجبناله و وهبنا له يحيى

۴ _ حضرت زكريا كى اپنى بيوى كے بانجھ پن كے درست كرنے كى دعا كوخداتعالى نے قبول فرماليا اور خداتعالى نے اسے حمل كے قابل بناديا_فاستجبناله و وهبناله يحيى و اْصلحنا له زوجه

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ

''أصلحنا له زوجه'' كا عطف جملہ''وهبنا له يحيى '' پر ہو اس صورت ميں بيوى كا ٹھيك ہونا حضرت زكريا(ع) كى دعا كا حصہ شمار ہوگا_

۵ _ حضرت زكريا(ع) كى دعا سے پہلے انكى بيوى بانجھ تھي_رب لاتذرنى فرداً فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

۴۴۶

۶ _ حضرت زكريا(ع) كے قدرتى عوامل كے مطابق اور خداتعالى كے لطف و كرم كے بغير صاحب فرزند ہونے كا ممكن نہ ہونا_و زكريا إذ نادى ربه فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

حضرت زكريا(ع) نے كہا ''خدايا مجھے تنہائي سے نجات دے مجھے بيٹا عطا فرما'' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر خداتعالى ان كى دعا كو قبول نہ فرماتا تو وہ صاحب اولاد ہونے سے محروم رہتے اور عمر كے آخر تك تنہا رہتے_

۷ _ عورت كا بانجھ پن اس كيلئے ايك نقص ہے كہ جسكى اصلاح كى ضرورت ہے_و أصلحنا له زوجه

كلمہ ''أصلحنا'' كا استعمال بانجھ پن كے نقص كى طرف اشارہ ہے كيونكہ صلاح، فساد و نقص كے مقابلے ميں ہے_

۸ _ خداتعالى نے حضرت زكريا(ع) كى بيوى كے اخلاق و اطوار كى اصلاح فرمائي اور اسے حضرت زكريا كيلئے ايك شائستہ بيوى قرار ديا_ *فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''أصلحنا لہ زوجہ'' كا عطف جملہ ''فاستجبنالہ'' پر ہو اس صورت ميں بيوى كى اصلاح حضرت زكريا(ع) كى دعا كا حصہ نہيں تھابلكہ خداتعالى نے اپنے فضل و كرم سے اور انكى دعا سے بڑھ كر انہيں يہ عطا فرمايا نيز ''اصلاح'' اپنے عام اور وسيع معنى ميں استعمال ہوا ہے نہ بانجھ پن كى اصلاح قابل ذكر ہے كہ بيٹا عطا كرنے كے بعد بيوى كى اصلاح كا تذكرہ اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۹ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت زكريا(ع) كو بيٹا عطا كرنا اور انكى بيوى كى اصلاح صرف حضرت زكريا(ع) كى دعا كى قبوليت اور ان كے فائدے كيلئے تھا_فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

''لہ'' (اس كيلئے) كا تكرار خاص طور پر بيوى كى اصلاح كے مورد ميں ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۱۰ _ حضرت زكريا(ع) خداتعالى كے خاص لطف و كرم اور عنايات سے بہرہ مند تھے_فاستجبناله و وهبنا له يحيى و اصلحنا له زوجه ''لہ'' (اس كيلئے) كا تكرار ہوسكتاہے خداتعالى كى حضرت زكريا(ع) كيلئے خاص عنايات سے حاكى ہو_

۱۱ _ دعا و مناجات، صاحب اولاد ہونے اور بانجھ پن كے درست ہونے كا سبب ہے_

رب لاتذرنى فرداً فاستجبناله و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه

۱۲ _ حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور ان كا بيٹا (يحيى (ع) ) نيكى كے كاموں كو بھاگ بھاگ كے انجام ديتے اور اس ميں پيش قدم رہتے_إنهم كانوا يسرعون فى الخيرات مذكورہ مطب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''إنہم كانوا يسارعون ...'' كى جمع كى ضميروں كا مرجع زكريا(ع) ، انكى بيوى اور بيٹا (يحيي) ہو_

۴۴۷

۱۳ _ كار خير كو انجام دينا حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور بيٹے (يحيى (ع) ) كى دائمى سيرت اور محبوب مشغلہ تھا_و زكريا و وهبنا له يحيى و أصلحنا له زوجه إنهم كانوا يسرعون فى الخيرات فعل مضارع ''يسارعون'' اور اس سے پہلے فعل ''كانوا'' كا آنا استمرار اور دوام كو بيان كرتا ہے اور فعل ''يسارعون'' كا ''في'' كے ساتھ متعدى ہونا كام سے محبت اور اس كے سلسلے ميں سنجيدگى پر دلالت كرتا ہے_

۱۴ _ انبيا(ع) ء الہى موسي(ع) ، ہارون، ابراہيم، لوط، اسحاق، يعقوب، نوح، داؤد(ع) ، سليمان(ع) ، ايوب، اسماعيل، ادريس، ذاالكفل، يونس، زكريا اور يحيي(ع) (عليہم السلام) كار خير ميں آگے آگے_و لقد أتينا موسى و هارون يحيى إنهم كانوا يسارعون فى الخيرات مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''إنہم كانوا يسرعون ...'' كى جمع كى ضميريں ان انبيا(ع) ء كى طرف راجع ہوں كہ جن كا ذكر گذشتہ آيات (۸۴ _ ۹۰) ميں ہوچكا ہے_

۱۵ _ كار خير كو انجام دينا، انبياء الہى موسي(ع) ، ہارون، ابراہيم، لوط، اسحاق، يعقوب، نوح، داؤد(ع) ، سليمان(ع) ، ايوب، اسماعيل، ادريس، ذاالكفل، يونس، زكريا اور يحيي(ع) (عليہم السلام) كى دائمى سيرت اور محبوب مشغلہ تھا_

و لقد أتينا موسى و هارون يحيى إنهم كانوا يسارعون فى الخيرات

۱۶ _ حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور انكا بيٹا (يحيى (ع) ) رغبت اور اميد كے ساتھ خداتعالى كو پكار رہے تھے_

و يدعوننا رغباً و رهب

۱۷ _ حضرت زكريا(ع) ، انكى بيوى اور بيٹا (يحيي(ع) ) بارگاہ الہى كے خاشعين ميں سے تھے_و كانوا لنا خشعين

۱۸ _ انبيا(ع) ء كا كارخير ميں آگے بڑھنا، رغبت و خوف كے ہمراہ دعا كرنا نيز ان كا خشوع ان كے الہى عطيات سے بہرہ مند ہونے كا عامل تھا_و لقد أتينا موسى و هارون انهم كانوا يسارعون فى الخيرات و كانوا لنا خشعين مذكورہ مطلب دو نكتوں كو مد نظر ركھتے ہوئے حاصل ہو رہا ہے_

۱ _ جملہ''إنهم كانوا يسارعون '' كى جمع كى ضميروں كا مرجع انبيا(ع) ء ہوں كيونكہ گذشتہ آيات انہيں كے بارے ميں تھيں _

۲ _ جملہ ''إنہم كانوا يسارعون ...'' اور اسكے بعد كے جملے تعليل كے مقام ميں ہوں

۱۹ _ كار خير ميں سبقت لينے، رغبت و اميد كے ہمراہ دعا كرنے اور بارگاہ الہى ميں خشوع كا دعا كى قبوليت ميں مؤثر كردار_فاستجبناله إنهم يسارعون فى الخيرات و كانوا لنا خشعين

۴۴۸

۲۰ _ كارخير ميں سبقت اور جلدى كرنا، رغبت و اميد كے ہمراہ دعا كرنا اور بارگاہ الہى ميں خشوع كرنا اعلى اقدار اور الہى لوگوں كى برجستہ صفات ميں سے ہيںإنهم كانوا يسرعون فى الخيرات و يدعوننا رغباً و رهباً و كانوا لنا خشعين

مذكورہ مطلب اس وجہ سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ انبياء الہى كى توصيف كررہى ہے اور ان كى دسيوں صفات اور خصوصيات ميں سے صرف ان تين كى طرف اشارہ كيا ہے_

۲۱ _ امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ (دعا ميں ) ''رغبت'' يہ ہے كہ تو اپنى ہتھيليوں كو آسمان كى طرف كرے اور ''رہبت'' يہ ہے كہ تو اپنے ہاتھوں كى پشت كو آسمان كى طرف قرار دے(۱)

ابراہيم(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

ادريس(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

اسحاق(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

اسماعيل (ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

انبياء(ع) :ان كے خشوع كے اثرات ۱۸; انكى سيرت ۱۵; انكا عمل خير ۱۵، ۱۸

اولياء الله :انكى اميدوارى ۲۰; انكا خشوع ۲۰; انكى صفات ۲۰; انكا عمل خير ۲۰

ايوب(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

خاشعين ۱۷

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كے اثرات ۶; اسكے عطيات ۲

خشوع:اسكے اثرات ۱۹

داؤد(ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; انكا عمل خير ۱۵

دعا:اس ميں اميد كے اثرات ۱۹; اسكے اثرات ۱۱; اسكے آداب ۲۱; اس ميں اميد ۱۶، ۱۸، ۲۰; اس ميں ہاتھ بلند كرنا ۲۱; اس ميں خشوع ۱۸; اسكى قبوليت كا پيش خيمہ ۱۹

ذوالكفل(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

____________________

۱ ) كافى ج۲ ص ۴۷۹ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۵۷ ح ۱۶۰_

۴۴۹

روايت ۲۱

زكريا(ع) :انكى دعا كى قبوليت ۱، ۲، ۳، ۴، ۹; انكى بيوى كا اخلاق ۸; انكى بيوى كى اصلاح ۸، ۹; انكى اميد ۱۶; انكى بيوى كى اميد ۱۶; انكا پہلابيٹا ۳; انكا سبقت لينا۱۲، ۱۴;ان كى بيوى كا سبقت لينا ۱۲; انكا خشوع ۱۷; انكى بيوى كا خشوع ۱۷; انكى بيوى كے بانجھ پن كا علاج ۴; انكى سيرت ۱۳; انكى بيوى كا بانجھ پن۵; انكا عمل خير ۱۲، ۱۳، ۱۵; انكى بيوى كا عمل خير ۱۲، ۱۳; ان كے صاحب فرزند ہونے كے عوامل ۶; ان كا بيٹا طلب كرنا ۱، ۲، ۳; انكا صاحب فرزند ہونا۹; ان كے فضائل ۱۰; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۸، ۹; ان كے مفادات ۹; انكى نعمتيں ۲; انكى دعا كى خصوصيات ۱۶; انكى بيوى كى دعا كى خصوصيات ۱۶

سليمان(ع) :انكا سبقت لينا ۱۴: انكا عمل خير ۱۵

بانجھ پن:اسكى شفا كا پيش خيمہ ۱۱

عمل:عمل خير ميں اگے بڑھنے كے اثرات ۱۸، ۱۹; عمل خير ميں آگے بڑھنے كى قدر و قيمت ۲۰

صاحب فرزند ہونا:اس كا پيش خيمہ ۱۱

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۰

لوط(ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; انكا عمل خير ۱۵

موسى (ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; ان كا عمل خير ۱۵

نعمت:اس كا پيش خيمہ ۱۸; يہ جنكے شامل حال ہے ۱۸

نوح(ع) :ان كا سبقت لينا ۱۴; انكا عمل خير ۱۵

ہارون(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

بيوي:ان كے بانجھ پن كا علاج ۷; ان كے عيوب ۷

يحيى (ع) :ان كى اميد ۱۶; ان كا سبقت لينا ۱۲، ۱۴; انكا خشوع ۱۷; انكا عمل خير ۱۲، ۱۳، ۱۵; ان كا نقش و كردار ۲، ۳; ان كى دعا كى خصوصيات ۱۶

يعقوب(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

يونس(ع) :ان كا سبقت لينا۱۴; انكا عمل خير ۱۵

۴۵۰

آیت ۹۱

( وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ )

اور اس خاتون كو ياد كرو جس نے اپنى شرم كى حفاظت كى تو ہم نے اس ميں اپنى طرف سے روح پھونك دى اور اسے اور اس كے فرزند كو تمام عالمين كے لئے اپنى نشانى قرار دے ديا (۹۱)

۱ _ حضرت مريم(ع) ، ان كى پاكدامنى اور صاحب فرزند ہونے كى داستان سبق آموز اور ياد ركھنے و ياد كرانے كے قابل ہے_والتى أحصنت فرجها فنفخنا فيه مذكورہ بالا مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''التي'' ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے منصوب ہو_

۲ _ حضرت مريم(ع) با عفت و پاك دامن خاتون تھيں اور بارگاہ الہى ميں بلند مقام ركھتى تھيں _و التى أحصنت فرجه

(''أحصنت'' كے مصدر) احصان كا معنى ہے منع كرنا اور روكنا اور ''فرج'' كا اصلى معنى دو چيزوں كے درميان شگاف (شرم گاہ و غيرہ) ہے فرج كو روكنا عفت اور پاكدامنى سے كنايہ ہے_

۳ _ عفت اور پاكدامنى عورتوں كے برجستہ ترين اور صاف اور بہترين كمالات ميں سے ہے_و التى أحصنت فرجه

مذكورہ مطلب اس وجہ سے ہے كہ خداتعالى نے حضرت مريم(ع) كى توصيف و تمجيد كرتے ہوئے_ كيونكہ ان آيات ميں ان كا نام انبيا(ع) ء كے ساتھ ذكر كيا گياہے_ ان كى عفت اور پاكدامنى كا تذكرہ كيا ہے_

۴ _ حضرت مريم(ع) كا حاملہ ہونا اور حضرت مسيح(ع) كى پيدائش حضرت مريم(ع) ميں روح الہى كے پھونكنے كے ذريعے تھا_فنفحنا فيها من روحن

۵ _ روح لطيف مخلوق ہے_فنفخنا فيها من روحن جسم ميں روح ڈالنے كو نفخ كے ساتھ تعبير كرنا كہ جس كا معنى ہے ہوا كو اجسام كے اندر داخل كرنا مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۶ _ حضرت مريم(ع) كى عفت اور پاكدامنى نے ان كے خداتعالى كى خصوصى عنايات سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كئے_التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحن

عبارت''التى أحصنت فرجها'' كا''فنفخنا فيها من روحنا'' پر مقدم ہونا ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۴۵۱

۷ _ خداتعالى كى عنايات و الطاف سے بہرہ مند ہونے كيلئے مناسب اور صلاحيت ركھنے والے ظرف كى ضرورت ہے_

التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحن

۸ _ عفت اور پاكدامنى عورت كى ترقى اور تكامل كا ذريعہ ہے اور اسكے خداتعالى كے الطالف و عنايات سے بہرہ مند ہونے كے اسباب فراہم كرتى ہے_التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحن

مذكورہ مطلب اس وجہ سے حاصل ہوتا ہے كہ حضرت مريم(ع) كى عفت اور پاكدامنى سبب بنى كہ حضرت مريم(ع) ترقى كريں اور اس مرتبے تك پہنچ جائيں كہ خداتعالى كى خصوصى عنايات سے بہرہ مند ہوجائيں اور پروردگار كى عنايت كے ساتھ ان ميں حضرت مسيح(ع) كى عظيم روح پھونكى جائے_

۹ _ حضرت مريم (ع) كے بيٹے عيسى (ع) روح الہى كے جلوہ اور بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام كے حامل تھے_فنفخنا فيها من روحن ''روح''كى ''نا'' كى طرف اضافت تشريفى اور اس روح كى شرافت اور بزرگى كو بيان كرنے كيلئے ہے_

۱۰ _ مريم (ع) اور ان كا بيٹا عيسى (ع) آيت الہى اور اہل جہان كيلئے خلقت خداوندى كے راز كى نشانى ہيں ہے_

و جعلنها و ابنها أية للعالمين

۱۱ _ حضرت مريم(ع) كے حاملہ ہونے اور حضرت عيسى كى معجزانہ پيدائش ميں خداتعالى كى قدرت اور عظمت كا متجلى ہونا_و جعلنها و ابنها أية للعالمين

۱۲ _ حضرت مريم(ع) بارگاہ خداوندى ميں بلند و بالا مقام و مرتبے اور عالمى شخصيت كى مالك تھيں _

و التى أحصنت فرجها فنفخنا فيها من روحنا و جعلنها و ابنها أية للعالمين

مذكورہ مطلب تين نكات كو مدنظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے ۱_ ''التي''،''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے منصوب ہے كہ اس صورت ميں حضرت مريم(ع) كى داستان كى ياد دہانى كا حكم سب انسانوں كيلئے ہے ۲_ حضرت مريم كا نام انبيا(ع) ء الہى كے ناموں كے ہمراہ آيا ہے ۳_ خداتعالى نے حضرت مريم(ع) كو اہل جہان كيلئے اپنى آيت اور نشانى قرار ديا ہے (و جعلنها و ابنها آية للعالمين )

خلقت:

۴۵۲

اسكے اسرار ۱۰

استعداد:اس كا كردار ۷

خداتعالى :اسكى روح ۴; اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۷، ۸; اسكى روح كى نشانياں ۹; اسكى قدرت كى نشانياں ۹، ۱۱

تذكر:حضرت مريم(ع) كے قصے كا تذكرہ ۱

روح:اسكى حقيقت ۵; اس كا لطيف ہونا۵

عورت:اسكى عفت كى اہميت ۳; اسكے تكامل كے عوامل ۸; اس كا كمال ۳

عبرت:اسكے عوامل ۱

عفت:اسكے اثرات ۸

عيسى (ع) :انكى ولادت كا اعجاز، ۱۱; يہ آيات الہى ميں سے ۱۰; ان كے فضائل ۱۰; انكا مقام و مرتبہ ۹

خداتعالى كا لطف وكرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۶

مريم (ع) :انكى عفت كے اثرات ۶; ان كے حمل كا اعجاز، ۱۱; انكا تقرب ۱۲; انكى شخصيت ۱۲; ان كے قصے سے عبرت ۱; انكى عبرت ۱، ۲; ان كے فضائل ۲، ۶، ۱۰; ۱۲; انكا قصہ ۴; يہ آيات الہى ميں سے ۱۰; انكے حاملہ ہونے كا سرچشمہ ۴; ان ميں روح پھونكنا ۴

آیت ۹۲

( إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ )

بيشك يہ تمھارا دين ايك ہى دين اسلام ہے اور ميں تم سب كا پروردگار ہوں لہذا ميرى ہى عبادت كيا كرو (۹۲)

۱ _ امت اسلام امت واحدہ اور ايك دين ركھنے والى ہے_إن هذه أمتكم أمة واحدة

''ہذہ'' مبتدا اور اس كا مشاراليہ وہ چيز ہے كہ جو مخاطبين كے اذہان ميں مستحضر ہے اور ''أمتكم امة واحدة''، ''ہذہ'' كى خبر اور حال ہے يہ جملہ ''ہذا بعلى شيخا'' كى طرح اس امر كو بيان كررہا ہے كہ جو ذہن ميں ہے_ قابل ذكر ہے بعض اہل لغت كے نزديك ''أمة'' كا معنى ان لوگوں كا مجموعہ ہے كہ جو ايك دين، وقت اور جگہ و غيرہ ميں اكٹھے اور مشترك ہوں (مفردات راغب) اور بعض دوسروں كى نظر ميں يہ دين اور ملت كے معنى ميں ہے (لسان العرب)

۴۵۳

۲ _ انبيا(ع) ء اور ان كے پيرو كار سب كے سب ايك امت اور ايك دين ركھنے والے تھے_إن هذه أمتكم أمة واحدة

مذكورہ بالا مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ آيت كريمہ كے مخاطب وہ انبيا(ع) ء ہوں كہ جن كا گذشتہ آيات ميں تذكرہ ہوچكا ہے كيونكہ يہ آيت ان كى داستان كے آخر ميں آئي ہے يہ جملہ ''و تقطعوا امرہم بينہم'' (انہوں نے اپنے دين كواپنے درميان ٹكڑے ٹكڑے كرديا) اس مطلب كا شاہد ہے_ قابل ذكر ہے كہ سورہ مؤمنون (۲۳) كى آيات ۵۱، ۵۲ ميں بھى صراحت كے ساتھ انبيا(ع) ء كو مخاطب قرار ديا گيا ہے (يا اْيها الرسل كلوا من الطيبات و ان هذه أمتكم أمة واحدة و أنا ربكم فاتقون )

۳ _ توحيد، اديان الہى كى وحدت كى بنياد ہے_إن هذه أمتكم امة واحده و أنا ربكم فاعبدون

۴ _ صرف خداتعالى ہى لائق پرستش پروردگار ہے_أنا ربكم فاعبدون

۵ _ خداتعالى كے لوگوں كے ''رب'' ہونے كا لازمہ اسكى پرستش ہے_أنا ربكم فاعبدون

مذكورہ مطلب ''اعبدون'' كے ''انا ربكم'' پر تفريع سے حاصل ہوتاہے_

۶ _ بشر، خدائے يكتا كى پرستش پر مأمور ہے_أنا ربكم فاعبدون

۷ _ پروردگار يكتا كا عقيدہ انسانوں كى وحدت اور امت واحدہ كى تشكيل كا محور ہے_أن هذه أمتكم أمة واحده و أنا ربكم فاعبدون

اتحاد:دينى اتحاد ۱; اس كا معيار ۷/آسمانى اديان:ان كى ہم آہنگى ۳

امت:امت واحدہ ۱، ۲، ۷

انسان:اسكى شرعى ذمہ دارى ۶; اسكى عبوديت ۶

توحيد:يہ آسمانى اديان ميں ۳; توحيد ربوبى ۴; توحيد عبادى ۴، ۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۴

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۵

دين:اسكے اصول ۳/عبادت:عبادت خدا ۵

عقيدہ:توحيد ربوبى كا عقيدہ ۷/مسلمان:ان كا اتحاد، ۱; انكا دين

۴۵۴

آیت ۹۳

( وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ )

اور ان لوگوں نے تو اپنے دين كو بھى آپس ميں ٹكڑے ٹكڑے كرليا ہے حالانكہ يہ سب پلٹ كر ہمارى ہى بارگاہ ميں آنے والے ہيں (۹۳)

۱ _ گذشتہ انبيا(ع) ء كى امتيں ايك عرصے تك دينى وحدت كے بعد خدائے يكتا كى پرستش كے بارے ميں اختلاف و انتشار كا شكار ہوگئيں _أمة واحده وأنا ربكم فاعبدون و تقطعوا أمرهم بينهم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ''تقطعوا أمرہم بينہم ...''كى جمع كى ضميروں كا مرجع گذشتہ انبيا(ع) ء كى امتيں ہوں اور در حقيقت انبيا(ع) ء كے فوت ہونے كے بعد لوگوں كے رد عمل كى كيفيت اور ان كے پيروكاروں كے درميان دين توحيدى كى حالت كو بيان كررہى ہو_ قابل ذكر ہے كہ ''امر'' ،''شان'' كے معنى ميں ہے اور يہ ہر قسم كى رفتار و سخن پر بولا جاتا ہے ليكن مقام كے تناسب سے اس آيت ميں اس سے مراد دين ہے_

۲ _ لوگ خود دين ميں اختلاف كا سبب بنے نہ انبيا(ع) ء الہيأمة واحدة و تقطعوا أمرهم بينهم

خداتعالى نے اختلاف و انتشار كو خود لوگوں كى طرف نسبت دى ہے (و تقطعوا أمرہم بينہم) يہ نسبت ہوسكتا ہے اس دہم كو دور كرنے كيلئے ہو كہ انبيا(ع) ء كا متعدد ہونا لوگوں كے درميان اختلاف كا سبب بنا_

۳ _ سب انسانوں كى بازگشت خداتعالى كى طرف ہے_كل إلينا راجعون

۴ _ قيامت اور تمام انسانوں كا خدائے يكتا كى طرف پلٹ كر جانے كا تقاضا يہ ہے كہ دين ميں اختلاف و انتشارسے پرہيز كيا جائے_اُمة واحده و أنا ربكم فاعبدون_ و تقطعوا أمرهم بينهم كل إلينا راجعون

جملہ ''كل إلينا راجعون'' مستانفہ بيانى ہے يعنى اس مقدر سوال كا جواب ہے كہ اس اختلاف كا انجام كيا ہے؟ اس نكتہ كى ياد دہانى ممكن ہے قيامت سے غافل ان لوگوں كو تعريض اور متنبہ كرنے كيلئے ہو كہ جنہوں نے دين ميں اختلاف ڈال ركھا ہے_

۴۵۵

۵ _ دين توحيدى ميں اختلاف كرنے والوں سے روز قيامت خدا كى جانب سے باز پرس ہوگي_

و تقطعوا أمرهم بينهم كل إلينا راجعون

اختلاف:دينى اختلاف سے اجتناب كا پيش خيمہ ۴; دينى اختلاف كے عوامل ۲

اختلاف ڈالنے والے:ان كا اخروى مواخذہ ۵

امتيں :ان كا دينى اختلاف ۱; انكى تاريخ ۱

انبياء(ع) :ان كا نقش و كردار ۲

انسان:اس كا انجام ۳خدا كى طرف بازگشت :۳، ۴

قيامت:اس كا كردار ۴

لوگ:لوگوں كا نقش و كردار ۲

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۳

آیت ۹۴

( فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ )

پھر جو شخص صاحب ايمان رہ كر نيك عمل كرے گا اس كى كوشش برباد نہ ہوگى اور ہم اس كى كوشش كو برابر لكھ رہے ہيں (۹۴)

۱ _ نيك كردار مؤمنين كى كوششوں كے اجر كى خداتعالى كى طرف سے ضمانت اٹھائي گئي ہے_ اور وہ بغير كسى قسم كى كمى كے انہيں ديا جائيگا_فمن يعمل من الصالحات و هو مؤمن فلا كفران لسعيه

۲ _ عمل صالح ايمان كے ہمراہ ہونے كى صورت ميں ثمربخش ہے_فمن يعمل من الصالحات و هو مؤمن

جملہ''و هو مؤمن'' ، ''يعمل'' كے فاعل كيلئے حال ہے اور يہ جملہ در حقيقت نيك كاموں كى

۴۵۶

انجام دہى كيلئے شرط ہے_

۳ _ دوسروں كى نيكيوں اور پسنديدہ كاموں كو ناچيز سمجھنے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _فمن يعمل فلا كفران لسعيه

مذكورہ مطلب خداتعالى كے نيك كردار مؤمنوں كے ساتھ سلوك سے حاصل ہوتا ہے_

۴ _ عمل صالح كو انجام دينے كيلئے سعى و كوشش كى ضرورت ہے_فمن يعمل فلا كفران لسعيه

''لعملہ'' كى بجائے ''لسعيہ'' كى تعبير ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ عمل صالح ہميشہ كوشش كے ساتھ ہے اور ان كے درميان جدائي ممكن نہيں ہے اور ہر عمل صالح كو انجام دينا سعى و كوشش كا مرہون منت ہے_

۵ _ اجر الہى كو حاصل كرنے اور اپنى تقدير ميں انسان كى اپنى سعى و كوشش كا كردارفمن يعمل فلا كفران لسعيه

۶ _ مؤمنين كا ہر عمل صالح خداتعالى كى جانب سے لكھا اور ثبت كيا جائيگا_فمن يعمل من الصلحت إنا له كتبون

۷ _ خداتعالى كى جانب سے ہر انسان كے نامہ اعمال كا مرتب كيا جانا اسكے مكمل اجر كى ضمانت ہے_فمن يعمل ...إنا له كتبون جملہ''إنا له كاتبون'' كا عطف جملہ''فلا كفران لسعيه'' پر ہے اور يہ اسكے محتوا كى تأكيد كر رہا ہے اور د رحقيقت يہ اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ چونكہ ہم سب انسانوں كے اعمال كو لكھتے ہيں اسلئے بغير كسى كمى كے ان كا اجر بھى ديں گے_

۸ _ افراد كے حقوق كے ضائع نہ ہونے ميں ان كى كاركردگى كے ثبت اور محفوظ كرنے كا بنيادى كردار_فمن يعمل ...إنّا له كتبون خداتعالى كا نيكو كار مؤمنين كے تمام اعمال كو ثبت كرنا اور لكھنے كے ذريعے ان كے اجر كى ضمانت دينے كى تاكيد كرنا مذكورہ بالا مطلب كو بيان كر رہا ہے_

انسان:اسكے اجر كى ضمانت دينا ۷/ايمان:اسكے اثرات ۲; يہ اور عمل صالح۲

كوشش:اسكے اثرات ۴، ۵/حقوق:انہيں ضائع كرنے كے موانع ۸

خداتعالى :اسكے افعال ۶; اسكے اجر كا پيش خيمہ ۵

تقدير:اس ميں مؤثر عوامل ۵

صالحين:ان كے اجر كى ضمانت ۱

عمل:

۴۵۷

اسے ثبت كرنے كى اثرات ۸; اسے ثبت كرنا ۶

عمل صالح:اسكے اثرات ۲; دوسروں كے عمل صالح كو اہميت دينا ۳; اس كا پيش خيمہ ۴

مؤمنين :ان كے اجر كى ضمانت ۱; ان كا عمل صالح ۶

نامہ اعمال:اس كا كردار ۷

آیت ۹۵

( وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ )

اور جس بستى كو ہم نے تباہ كرديا ہے اس كے لئے بھى ناممكن ہے كہ قيامت كے دن ہمارے پاس پلٹ كرنہ آئے (۹۵)

۱ _ ہلاك شدہ امتوں كے دنيا ميں واپس آنے اور اعمال كے تدارك كرنے كا ممكن نہ ہونا_و حرام على قرينة أهلكنها أنهم لايرجعون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''حرام'' خبر مقدم اور ''أنہم لايرجعون'' ميں مصدر مؤول ''رجوع'' مبتدا مؤخر ہو نيز ''لايرجعون'' ميں ''لا'' زائدہ اور رجوع سے مقصود دنيا كى طرف بازگشت ہو_

۲ _ ہلاكت كا شكار ہونے والے معاشرے دنيا ميں واپس آنے اور اپنے اعمال كا تدارك كرنے كے آرزومند ہيں _

حرام على قرية أهلكنها أنهم لايرجعون اگر بازگشت سے مراد دنيا كى طرف بازگشت ہو تو خداتعالى كى اس تاكيد (حرام أنہم لايرجعون) سے يوں لگتا ہے كہ امتيں واپس پلٹنے كى خواہان رہى ہيں _

۳ _ ہلاكت كا شكار ہونے والى امتوں كا روز قيامت سزا پانے كيلئے خداتعالى كى طرف پلٹنا حتمى ہے_كل إلينا راجعون و حرام على قرية أهلكنها أنهم لايرجعون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''حرام'' خبر مقدم اور (أنہم يرجعون) ميں مصدر موؤل ''رجوع'' مبتدا مؤخر ہو نيز ''لايرجعون '' ميں ''لا'' نفى كيلئے ہو اور ''كل إلينا راجعون'' كے قرينے سے رجوع سے مراد آخرت كى طرف پلٹنا ہو يعنى ہلاكت كا شكار ہونے والى امتوں كا واپس

۴۵۸

نہ پلٹنا ممكن نہيں ہے بلكہ وہ حتما واپس پلٹيں گي_

۴ _ ان كفار اور مشركين كيلئے كفر و شرك سے واپس پلٹنا (توبہ) ممكن نہيں ہے كہ ہلاكت جنكى تقدير بن چكى ہے_

و حرام على قرية أهلكنها أنهم لايرجعون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لايرجعون'' ميں ''لا'' زائدہ ہو اور رجوع سے مقصود كفر و شرك سے پلٹنا ہو_

آرزو:دنيا كى طرف واپس پلٹنے كى آرزو ۲

امتيں :ہلاك ہونے والى امتوں كى آرزوئيں ۲; ہلاك ہونے والى امتوں كا واپس پلٹنا ۱; ہلاك ہونے والى امتوں كى توبہ ۴; ہلاك ہونے والى امتوں كى اخروى سزا، ۳

خدا كى طرف بازگشت:اس كا حتمى ہونا ۳

دنيا كى طرف بازگشت:اس كا محال ہونا ۱

توبہ:شرك سے توبہ ۴; كفر سے توبہ ۴

عمل:اس كا تدارك ۱، ۲

آیت ۹۶

( حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ )

يہانتك كہ جب ياجوج و ماجوج آزاد كردئے جائيں گے اور زمين كى ہر بلندى سے دوڑتے ہوئے نكل پڑيں گے (۹۶)

۱ _ خداتعالى كى مؤمنين كو اجر دينے كيلئے ان كے اعمال كو ثبت كرنے اور ہلاك ہونے والوں كى دنيا كى طرف واپس آنے سے محروميت والى سنت يأجوج و مأجوج كے خروج تك (دنيا كا ختم ہونا) جارى رہے گي_

فمن يعمل و حرام على حتى اذا فتحت يأجوج و مأجوج

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ '' حتى '' غايت كا معنى دے رہا ہو البتہ ''حتى '' كے غايت كا معنى دينے كے بارے ميں اہل ادب كے درميان اختلاف ہے ليكن آيت كريمہ كے سياق اور لحن سے غايت كا استفادہ ہوسكتا ہے اس بناپر ''حتى إذا افتحت ...'' ''فمن يعمل من الصالحات و حرام على قرية '' كى غايت ہوگى قابل ذكر ہے كہ عام طور پر مفسرين كا نظريہ يہ ہے كہ يأجوج و مأجوج لوگوں كے دو گروہ ہيں كہ جو آخرى زمانہ ميں ظاہر ہوں گے اور تاخت و تاراج كرتے ہوئے فتوحات حاصل كريں گے اور ان كى موت كے بعد دنيا كى عمر ختم ہوجائيگي_

۴۵۹

۲ _ اديان الہى كے پيروكاروں كے مسئلہ توحيد كے بارے ميں دينى اختلافات يأجوج و مأجوج كے خروج (دنيا كے ختم ہونے) تك جارى رہيں گے_و تقطعوا أمرهم بينهم حتى إذا فتحت يأجوج و مأجوج

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''حتى ''، اور تقطعوا امرہم بينہم'' كيلئے غايت ہو _

۳ _ مستقبل ميں فتوحات كے تمام راستے يأجوج و مأجوج كيلئے كھول ديئے جائيں گے اور وہ زمين كى بلنديوں اور ہرچوٹى سے سرعت كے ساتھ عبور كرجائيں گے_حتى إذا فتحت يأجوج و مأجوج و هم من كل حدب ينسلون

''حدب'' كا معنى ہے زمين كى بلند اور اونچى جگہيں اور (ينسلون كے مادہ) نسل كا اصلى معنى كسى شيء سے جدا ہونا ہے اور جب بھى يہ مادہ چلنے والے كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے تو يہ تيز رفتارى كے معنى ميں ہوتا ہے پس ''ينسلون'' يعنى تيزى سے چليں گے اور سرعت كے ساتھ گزر جائيں گے_

۴ _ قرآن كريم كى پيشين گوئي كہ يأجوج و مأجوج مستقبل ميں تيزى سے حملے كريں گے اور انہيں پورى دنيا ميں فتوحات حاصل ہوں گي_حتى إذا فتحت يأجوج و مأجوج و هم من كل حدب ينسلون لفظ عموم ''كل'' كا اسم نكرہ ''حدب'' پر داخل ہونا اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ يأجوج و مأجوج كا ماجرا كسى خاص سرزمين سے مختص نہيں ہے بلكہ يہ عالمى ہوگا اور پورى دنيا كو شامل ہوگا_

امتيں :ہلاك ہونے والى امتوں كى بازگشت ۱; انكے دينى اختلاف كا دائمى ہونا ۲دنيا ميں بازگشت:۱اس كا محال ہونا ۱

توحيد:اس ميں اختلاف ۲خداتعالى :اسكى سنن۱

قرآن كريم:اسكى پيشين گوئي ۴مأجوج:اسكى كاميابى ۳، ۴; اس كا خروج ۱، ۲; اس كا قصد ۳; اسكے حملے كى وسعت ۴; اس كا حملہ ۳

مؤمنين:ان كا اجر،ا ۱; انكے اعمال كا ثبت ہونا ۱يأجوج:اسكى كاميابى ۳، ۴; اس كا خروج ۱، ۲; اس كا قصد ۳; اسكے حملے كى وسعت ۴; اس كا حملہ ۳

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750