تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219079 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

۶ _ سخت دشمنى او ر شديدمخالفت، انبيا(ع) ء كے ہلاك شدہ مخالفين كى خصوصيات ميں سے تھيں _ثم صدقنا هم الوعد و أهلكنا المسرفين مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ اسراف سے مراد_ حكم و موضوع اور آيت كے مورد كے تناسب سے _ انبيا(ع) ء كى مخالفت اور دشمنى ميں حد سے تجاوز كرنا ہے نہ كہ امور مالى و غيرہ ميں اسراف

۷ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كى حوصلہ افزائي اور انہيں تسلى دينا اور مشركين كو دھمكى دينا _

ثم صدقنهم الوعد و أهلكنا المسرفين

خداتعالى كے انبيا(ع) ء اور مؤمنين كے ساتھ كاميابى اور ان كے دشمنوں كى نابودى كے وعدے كا تذكرہ ہوسكتا ہے مذكورہ نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو _

۸ _ انبيا(ع) ء كے دشمن اور مخالفين ،اسراف كرنے والے ہيں _ثم صدقناهم الوعد أهلكنا المسرفين

۹ _ اسراف كرنا، حق كو قبول نہ كرنے اور انبيا(ع) ء كى مخالفت كے اسباب فراہم كرتا ہے اور ہلاكت اور نابودى كا سبب ہے _و أهلكنا المسرفين ہلاك ہونے والوں كى ''مسرفين'' كے ساتھ توصيف ان كى ہلاكت ميں اس وصف كى تا ثير اور علت ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۱۰ _ مشركين كے خلاف كاميابي، خداتعالى كا پيغمبر(ص) اسلام كے ساتھ وعدہ _ثم صدقناهم الوعد

آيت كريمہ پيغمبر(ص) اسلام كو تسلى دينے كے مقام ميں ہے اور خداتعالى عمومى روش كو بيان كر كے (سب انبيا(ع) ء كى كاميابى كا وعدہ) در حقيقت پيغمبراكرم(ص) كو بھى كاميابى كا وعدہ دے رہا ہے _

اسراف:اسكے اثرات ۹

انبياء(ع) :ان كے دشمنوں كا اسراف ۸; ان كے دشمن۵; ان كے دشمنوں كى دشمنى ۶; ان كے ساتھ دشمنى كے عوامل ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى خصوصيات ۶; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

حق:اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۹

خداتعالى :

۳۰۱

اسكى مشيتّ كے اثرات ۴; اسكى دھمكياں ۷; اسكے وعدے ۳

دشمن:ان سے نجات كا سرچشمہ ۴; ان سے نجات ۱

مؤمنين:انكى حوصلہ افزائي ۷; انكو تسلى ۷; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى حوصلہ افزائي ۷; آپكو تسلى ۷; آپ كو كاميابى كا وعدہ ۱۰

مسرفين: ۸

انكى دشمنى ۵

مشركين:ان پر كاميابى ۱۰; انكى دھمكي۷

ہلاكت:اسكے عوامل

وعدہ:اسكى وفا، ۳

آیت ۱۰

( لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ )

بيشك ہم نے تمھارى طرف وہ كتاب نازل كى ہے جس ميں خود تمھارا بھى ذكر ہے تو كيا تم اتنى بھى عقل نہيں ركھتے ہو (۱۰)

۱ _ قرآن، آسمانى كتاب اور خداتعالى كى طرف سے نازل كى گئي ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب

۲ _ قرآن، با عظمت اور بلند مرتبہ كتاب ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب ''كتاباً '' كى تنوين تفخيم اور تعظيم پر دال ہے_

۳ _ قرآن، پيغمبراكرم(ص) كے زمانے ميں (بعثت كے پہلے نصف حصے ميں ) كتاب كے طور پر جانى پہچانى جاتى تھي_

لقد أنزلنا إليكم كتب اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كے سورہ ''انبيائ'' مكہ ميں نازل ہوئي معلوم ہوتا ہے كہ بعثت كے پہلے نصف حصے ميں قرآن كتاب كے طور پر پہچانا جاتا تھا _

۳۰۲

۴ _ قرآن، انسان كو ياد دہانى كرانے والا اور انسان كے ساتھ مربوط مسائل پر مشتمل ہے_كتاباً فيه ذكر كم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' كسى چيز كو زبان پر لانے اور ياد كرنے كے معنى ميں ہو_ قابل ذكر ہے كہ يہ معنى اسكے مشہور اور غالب معانى ميں سے ہے _

۵ _ قرآن، انسان كيلئے سبق آموز او رپند و نصيحت كا سبب ہے_كتبا فيه ذكركم

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى نصيحت اور نصيحت حاصل كرنا ہو _

۶ _ قرآن، انسان اور امت اسلامى كى شرافت و بزرگى كا سبب اور اس كا نعرہ ہے_كتبا فيه ذكركم

اہل لغت نے كلمہ ''ذكر'' كيلئے جو معانى ذكر كئے ہيں ان ميں سے شرافت ، بزرگى اور شہرت ہے (قاموس) اس بناپر ''فيہ ذكركم'' سے مراد يہ ہے كہ شرافت و بزرگى اور شہرت، قرآن كے سائے ميں اور اس پر عمل كرنے ميں ہے_

قابل ذكر ہے كہ ''ذكركم'' كى ضمير مخاطب سے مراد ہوسكتا ہے سب انسان ہوں اور ہوسكتا ہے صرف امت اسلامى ہو_ مذكورہ مطلب ميں دونوں احتمال ملحوظ ہيں _

۷ _ انسان كے فطرى اور غريزى محركات و تمايلات سے استفادہ كرنا قرآن كى تربيتى اور ہدايت كرنے كى ايك روش _

فيه ذكركم مذكورہ مطلب مندرجہ ذيل دو نكتوں پر مبتنى ہے ۱_ ذكر ثناء اور نغمے كے معنى ميں ہو _۲_ نام كے ہميشہ رہنے اور بلند شہرت كا شوق ،سب انسانوں كى طبع اور غريزے ميں ہے_

۸ _ خداتعالى ،انسان كو معارف قرآن ميں غور و فكر كرنے كى دعوت ديتا ہے اور اسكى ترغيب دلاتا ہے_أفلا تعقلون

۹ _ مشركين كا قرآن كا جھٹلانا ان كے عقل و خرد سے كام نہ لينے كا نتيجہ ہے _هم فى غفلة معرضوں لاهية قلوبهم لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۰ _ پيغمبر اكرم(ص) اور قرآن كى حقانيت تك پہنچنے ميں خردمندى اور غور و فكر كا مؤثر اور تعميرى كردار ہے_

لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۱ _ قرآن كے معارف اور تعليمات عقل و خرد كے موافق او راسكے ساتھ سازگار ہيں _لقد أنزلنا إليكم كتاباً أفلا تعقلون قرآن ميں غور وفكر كرنے كى تشويق دلانا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ يہ آسمانى كتاب محتوا كے لحاظ سے عقل و خرد كے ساتھ سازگار ہے_

۱۲ _ قرآن اپنى اور پيغمبر(ص) اسلام كى حقانيت كو ثابت كرنے كى بہترين اور سب سے زيادہ قوى دليل اور معجزہ

۳۰۳

ہے_لقد أنزلنا إليكم كتباً فيه ذكركم أفلا تعقلون

ممكن ہے يہ آيت كريمہ مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) سے اپنى حقانيت كو ثابت كرنے كيلئے معجزہ لانے كے بہانے والى درخواست كا جواب ہو يعنى اگر يہ لوگ غور كريں تو سمجھ جائيں گے كے قرآن، پيغمبر(ص) اسلام كا معجزہ ہے _ قابل ذكر ہے كہ اس حقيقت كى لام قسم اور حرف تحقيق (لقد) كے ساتھ تاكيد اسى مطلب كى تائيد كرتى ہے_

آسمانى كتب :۱

آنحضرت(ص) :آپكى حقانيت ۱۰; آپكي(ص) حقانيت كے دلائل ۱۲

تربيت:اسكى روش ۷

غور و فكر كرنا:اسكے اثرات ۱۰; اسكى تشويق ۸; يہ قرآن ميں ۸

خداتعالى :اسكى تشويق ۸

ذكر:انسان كا ذكر ۴

عبرت:اسكے عوامل ۵

عزت:اسكے عوامل ۶

غريزہ:اس كا كردار ۷

فطريات:ان كا كردار ۷

قرآن كريم:اس كا معجزہ ہونا ۱۲; اسكى تاريخ ۳; اس كى تعليمات ۴; اس كا جمع كرنا ۳; اسكى حقانيت ۱۰; اسكى حقانيت كے دلائل ۱۲; اسے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۵; اسكى عظمت ۲; اسكى تعليمات كا عقلى ہونا ۱۱; اسكى فضيلت ۴; اس كا نزول ۱; اس كا كردار ۵_ ۶، ۱۲; اس كا وحى ہونا ۱

كتاب :۳

مسلمان:انكى عزت كے عوامل ۶

مشركين:ان كے غور نہ كرنے كے اثرات ۹

ہدايت:اسكى روش ۷

۳۰۴

آیت ۱۱

( وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْماً آخَرِينَ )

اور ہم نے كتنى ہى ظالم بستيوں كو تباہ كرديا اور ان كے بعد ان كى جگہ پر دوسرى قوموں كو ايجاد كرديا (۱۱)

۱ _ خداتعالى نے بہت سے شہروں اور آباديوں كو ان كے لوگوں كے ظلم و ستم كى وجہ سے سختى كے ساتھ كچل ديا اور نابود كردياو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''قصمنا'' كے مصدر ''قصم'' كا معنى ہے سختى كے ساتھ كسى چيز كو توڑنا اس طرح كہ وہ پراكندہ اجزاء اور ٹكڑوں ميں تبديل ہوجائے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اس سے مراد نابودى اور ہلاكت ہے

۲ _ ظلم و ستم، معاشروں اور تہذيبوں كے مكمل انحطاط اورانہدام كا سبب ہے _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

''قرية'' (شہروں كے لوگ) كى ''ظالمہ'' (ستمگر) كے ساتھ توصيف نابودى اور انہدام ميں ظلم كے كردار كو بيان كررہى ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے مشركين اور ستمگر معاشروں اور مشركين كو ہلاكت اور نابودى كى دھمكى _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

۴ _ قرآن اور پيغمبر(ص) اسلام كى مخالفت اور ان كے ساتھ مقابلہ ظلم و ستم كا واضح مصداق ہے _لقد أنزلنا إليكم و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة خداتعالى نے نزول قرآن كو بيان كرنے اور لوگوں كو اس ميں غور و فكر كى دعوت دينے نيز بہت سى اقوام كو ان كے ظلم كى وجہ سے نابود كرنے كا تذكرہ كرنے كے بعد اسلام اور قرآن كے مخالفين كو عذاب اور نابودى كى دھمكى دى ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اسلام اور قرآن كى مخالفت ظلم كا واضح مصداق اور نابودى كا موجب ہے _

۵ _ ظلم، اسراف ہے اور ستمگر معاشرے مسرفين كى تاريخ كے واضح مصداق ہيں _

و أهلكنا المسرفين و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

خداتعالى نے سابقہ دو آيتوں ميں انبيا(ع) ء كے دشمنوں كو مسرفين كہا ہے (و أهلكن المسرفين ) اور اس آيت ميں بہت سارى اقوام كو كہ جو دين الہى كے ساتھ دشمنى كى وجہ سے نابود ہوئي ہيں ظالم كہا ہے ان دو آيتوں كے ارتباط سے يہ سمجھا جاسكتا ہے كہ ظالمين وہى مسرفين ہيں _

۳۰۵

۶ _ بہت سارے معاشروں كا انحطاط اور انكى نابودى ان كے لوگوں كے كردار كى وجہ سے ہوئي _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''كم قصمنا'' ميں كلمہ ''كم'' خبريہ اور كثير كے معنى ميں ہے اور قريوں اور امتوں كو ظالم كہنا ان كى ہلاكت اور نابودى كے سبب كا بيان ہے_

۷ _ خداتعالى نے ستمگر اقوام كو نابود كرنے كے بعد دوسرے لوگوں كو پيدا كيا اور ان كى جگہ پر قرار ديا_

و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين ''انشأنا'' كے مصدر ''انشائ'' كا معنى ہے كسى جاندار شے كو خلق كرنا اور اسے وجود ميں لانا اور اسكى تربيت كرنا (مفردات راغب)_

۸ _ معاشروں اور تہذيبوں كا تغير و تبدل اور دگرگونى خداتعالى كى مشيت اور ارادے كے تابع ہے _

و كم قصمنا و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ دشمنى ۴; آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ ۴

اسراف:اسكے موارد۵

اقوام:انكے متبادل لانے كا سرچشمہ ۷، ۸

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۲، ۶; ان كے ختم ہونے كا سرچشمہ ۸

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸; اسكى مشيت كے اثرات ۸; اسكے افعال ۷ ; اسكى دھمكياں ۳

شہر:انكى نابودى كے عوامل ۱

ظالم لوگ: ۵انہيں دھمكى دينا ۳; انكى ہلاكت ۷

ظلم:اسكے اثرات ۱، ۲، ۵; اسكے موارد ۴

عمل:اسكے اثرات ۶

قرآن كريم:اسكے ساتھ د شمنى ۴; اسكے ساتھ مبارزت ۴

مسرفين: ۵مشركين:ان كو دھمكى دينا ۳

ہلاكت:اسكى دھمكى ۳

۳۰۶

آیت ۱۲

( فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَرْكُضُونَ )

پھر جب ان لوگوں نے عذاب كى آہٹ محسوس كى تو اسے ديكھ كر بھاگنا شروع كرديا (۱۲)

۱ _ ستمگر اقوام اور معاشرے جب عذاب الہى كے نزول كا احساس كرتے ہيں تو بھاگ كھڑے ہوتے ہيں _

فلما أحسّوا بأسنا إذا هم منها يركضون

(يركضون كے مصدر) ''ركض'' كا اصلى معنى زمين پر پاؤں مارنا ہے اور جب اسے شخص كى طرف نسبت دى جائے تو اس سے مراد بھاگنا اور تيز چلنا ہوتا ہے_

۲ _ ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى سے پہلے عذاب كى نشانيوں او رعلامات كا ظاہر ہونا_فلما أحسّوا بأسن

مذكورہ مطلب اس نكتے پر مبتنى ہے كہ عذاب كے احساس سے مراد اسكى نشانيوں اور علامات كا مشاہدہ ہو اور اس وقت عذاب كے شكار لوگوں كا فرار كرنا اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے كيونكہ اگر وہ خود عذاب كا احساس كرتے تو بھاگنے كى فرصت اور راستہ ہى نہ ہوتا _

۳ _ عذاب ا لہى كى علامات اور نشانيوں كے ظہور كے وقت ،ستمگر معاشروں كا شديد اور ناگہانى اضطراب اور وحشت _

فلما أحسّوا إذا هم منها يركضون مذكورہ مطلب ''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع امر پر دلالت كرتا ہے_ سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ناگہانى فرار ايك قسم كے وحشت اور اضطراب كى دليل ہے_

۴ _ ستمگر معاشروں پر نازل ہونے والا عذاب تدريجى ہوتا تھا _فلما أحسّوا يركضون

اس چيز كے پيش نظر كے آيت كريمہ ميں عذاب كے شكار لوگوں كے فرار كو بيان كيا گيا ہے لگتاہے كہ عذاب كے احساس كے آغاز اور انكى نابودي_ كہ جس كا تذكرہ بعد كى تين آيتوں ميں ہے_ كے درميان فاصلہ موجود تھا _

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۱; انكا تدريجى عذاب ۴; انكى ہلاكت ۲

ظالم لوگ:

۳۰۷

انكا اضطراب ۳; انكا خوف ۳; يہ عذاب كے وقت ۱، ۳; انكا تدريجى عذاب ۴; انكا فرار ۱; انكى ہلاكت ۲

عذاب:اس سے فرار ۱; اسكى نشانياں ۲

آیت ۱۳

( لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ )

ہم نے كہا كہ اب بھاگو نہيں اور اپنے گھروں كى طرف اور اپنے سامان عيش و عشرت كى طرف پلٹ كر جاؤ كہ تم سے اس كے بارے ميں پوچھ كچھ كى جائے گى (۱۳)

۱ _ ''فرار نہ كرو اور پر آسائش زندگى كى طرف پلٹ آو'' مہلك عذاب كے نزول كے وقت خداتعالى كى ستمگر اور پر آسائش كى زندگى گزارنے والوں كے ساتھ استہزا ء والى گفتگو_لاتركضوا و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

''الترف'' كا معنى ہے صاحب نعمت ہونا اور ''الترفہ'' كا معنى ہے خود نعمت اور ''مترف'' اسے كہتے ہيں حو فراوان نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ مند ہو اس طرح كہ غرور كرنے لگے (لسان العرب) يا اس طرح ناز و نعمت ميں ہو كہ اسے كوئي روك نہ سكے اور جو اس كا دل چاہے كرے قابل ذكر ہے كہ ''لاتركضوا'' اور ''ارجعوا ...'' ميں نہى اور امرطلب حقيقى كيلئے نہيں ہيں بلكہ مجاز اور تہكم و استہزا ء كيلئے ہيں _

۲ _ ستمگر اور پرُ آسائش زندگى گزارنے والے معاشروں كا عذاب اور سزا حتمى ہے اور اس سے فرار كا كوئي فائدہ نہيں ہے _لاتركضوا و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه

۳ _ پر آسائش زندگى گزارنے والے ستمگر نزول عذاب كے وقت اپنا مال و متاع اور گھر چھوڑ كر اپنے شہر و ديار سے فرار كر جاتے ہيں _و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم

۴ _ مادى اور خوشگوار زندگى ميں غوطہ زن ہونا ستمگر معاشروں ميں زندگى گزارنے كا طريقہ ہے _قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

۵ _ خوش گذرانى اور ناز و نعمت اور آسائشوں ميں غرق رہنا دنيوى عذاب اور ہلاكت كاپيش خيمہ ہے _و كم قصمنا من قرية و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه مذكورہ مطلب ''فيہ'' سے كہ جو ظرفيت كل ے ہے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ نعمت اور آسائش كو ظرف اور انسان جو صاحب نعمت ہے اس كومظروف قرار ديا گيا ہے اور يہ چيز پرُ آسائش زندگى گزارنے والے ستمگروں كے ناز و نعمت ميں غرق ہونے كو بيان كرتى ہے_

۳۰۸

۶ _ معاشرے كے ستمگر اور پر آسائش زندگى گزارنے والے لوگ، تہذيبوں كى نابودى اور معاشرے كے افراد كى ہلاكت كا سبب ہيںو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

ان آيات كے مخاطب كچھ خاص لوگ ہيں كيونكہ خداتعالى نے انكى دو صفتيں بيان كى ہيں ستمگر ہونا اور پر نعمت ہونا اور يہ دو صفتيں عام طور پر معاشرے كے خاص طبقے ميں ہوتى ہيں اور اكثر لوگ نہ ظالم ہيں اور نہ پر آسائش _

۷ _ گذشتہ ظالم معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے لوگ خوبصورت اور مجلل عمارتيں اور گھر ركھتے تھے_و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم پرُ آسائش زندگى والوں كے مال و متاع ميں سے ''گھروں '' كا تذكرہ انكى خصوصيت كا گواہ ہے نيز يہ انكے باسيوں كى دلى وابستگى كى بھى دليل ہے_

۸ _ ستمگر معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے افراد كى ممتاز معاشرتى اور اقتصادى حيثيت_ارجعوا لعلكم تسئلون

اس سلسلے ميں كہ ''تسئلون'' ميں سوال كيا ہے اور سوال كرنے والے كون ہيں مفسرين كى مختلف آراء ہيں _ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ سوال كرنے والے لوگ ہيں اور سوال سے مراد، معاشرتى مسائل ميں مشورہ اور اقتصادى مسائل ميں مدد اور درخواست ہے_

۹ _ ماضى كے ستمگر اور پرُ آسائش معاشروں ميں فقير اور نادار طبقے كا وجود _ارجعوا لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''لعلكم تسئلون'' سے مراد فقراء كى ان سے درخواست اور سوال ہو_

۱۰ _ گذشتہ معاشروں كے ستمگر اور پرُ آسائش زندگى والے لوگ انبيا(ع) ء الہى كى مخالفت اور ان كے خلاف مقابلہ ميں پيش ہوتے _و كم قصمنامن قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس نكتے كو پيش نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے ہے كہ يہ آيت كريمہ اور اس سے پہلے كى دو آيتيں ان لوگوں كے بارے ميں ہيں كہ جو انبياء كى مخالفت كى وجہ سے عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے_

۱۱ _ پرُآسائش زندگى والے ستمگر لوگوں كا نعمات الہى اور آسائش سے بہرہ مند ہونے كى وجہ سے مؤاخذہ ہوگا اور ان سے سؤال كيا جائيگا_ارجعوا إلى ما أترفتم فيه ومسكنكم لعلكم تسئلون

امتيں :ان كى ہلاكت كے عوامل ۶/انبياء (ع) :

۳۰۹

ان كے دشمن ۱۰

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۶

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۶

خداتعالى :اس كا مذاق اڑانا ۱

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے ظالموں كى دشمنى ۱۰; ان كے معاشرتى طبقات ۹; ان كے پر آسائش لوگوں كے گھر ۷; ان كے ظالموں كى معاشرتى حيثيت ۸; ان كے پر آسائش زندگى والے افراد كى معاشرتى حيثيت۸; ان كے ظالموں كى اقتصادى حيثيت ۸; ان كے عيش و عشرت والوں كى اقتصادى حيثيت۸

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۵

ظالم لوگ:ان كا مذاق اڑانا ۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; انكى خوش گذرانى ۴; ان كى دنيا پرستى ۴; ان كى روش زندگى ۴; يہ عذاب كے وقت ۳; انكافرار ۳; انكا مؤاخذہ ۱۱; ان كا نقش و كردار ۶

عذاب:اس كا پيش خيمہ ۵; جڑ سے اكھاڑ پھينكنے والا عذاب ۱; ا س سے فرار ۱

پرآسائش زندگى والے لوگ:ان كا مذاق اڑانا۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; ماضى كے پر آسائش زندگى والوں كى دشمنى ۱۰; ان كا فرار ۱، ۳; ان كا مواخذہ ۱۱; يہ عذاب كى وقت ۳; انكا نقش و كردار ۶

نعمت:صاحبان نعمت كا مواخذہ ۱۱

ہلاكت:س كا پيش خيمہ ۵

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۵

آیت ۱۴

( قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہائے افسوس ہم واقعاً ظالم تھے (۱۴)

۱ _ ظالم معاشروں كے عيش و عشرت پسند لوگ، عذاب الہى كے احساس كے بعد اپنے ظلم و ستم كا اعتراف كرليتے ہيں _فلما أحسوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

۲ _ عيش و عشرت پسند ظالم لوگ، عذاب الہى كو ديكھ كر

۳۱۰

حسرت اور ندامت ميں ڈوب جاتے ہيں _فلما أحسّوا بأسنا قالوا يا ويلنا إنّا كنا ظالمين

۳ _ ہلاك كردينے والى مشكلات اور عذاب الہى كے مشاہدہ كے وقت انسان كا حقائق كى طرف توجہ كرنا اور اپنے كردار سے پشيمان ہونا_فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''قالواياويلناا ...'' مستأنفہ اور جملہ ''فلما أحسّوا بأسنا ...'' كيلئے بيان ہو يعنى جب ہمارے عذاب كو محسوس كرتے ہيں تو اپنے گناہ كا اقرار اور حقيقت حال كا اعتراف كرليتے ہيں پس عذاب كو محسوس كرنا اور تباہ و برباد كردينے والى مشكلات كا مشاہدہ انسان كے حقائق كى طرف توجہ كرنے اور ان كے اعتراف كا سبب ہے_

۴ _معاشروں كے عيش و عشرت پسند اور خوش گذران لوگ ظالم اور ستمگر ہيں _

قرية كانت ظالمة ما أترفتم فيه إنا كنا ظالمين

۵ _ مسلسل ظلم، نابودى اور عذاب الہى كے نزول كا سبب ہے _فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنا كنا ظلمين

مبتلا ہونا:عذاب ميں مبتلا ہونے كے اثرات ۳

اقرار:ظلم كا اقرار ۱

پشيماني:اسكے عوامل ۳

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

خوش گذراں لوگ:ان كا ظلم ۴

ظالم لوگ:ان كا اقرار ۱; انكى حسرت۲; يہ عذاب كے وقت۱، ۲

ظلم:اسكے اثرات ۵

عذاب:اسكے ديكھنے كے اثرات ۳; اسكے وقت پشيمانى ۱; اسكے عوامل ۵

عيش و عشرت پر ست لوگ:ان كا اقرار۱; ان كى پشيمانى ۲; انكى حسرت۲; انكا ظلم ۴; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

۳۱۱

آیت ۱۵

( فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيداً خَامِدِينَ )

اور يہ كہہ كر فرياد كرتے رہے يہاں تك كہ ہم نے انھيں كٹى ہوئي كھيتى كى طرح بنا كر ان كے سارے جوش كو ٹھنڈا كرديا (۱۵)

۱ _ عيش و عشرت پرست ستمگر لوگ ،عذاب كے احساس سے ليكر ہلاكت و نابودى تك افسوس اور پشيمانى ميں رہيں گے_فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلناهم حصيداً خمدين

۲ _ عذاب الہى كى نشانياں اور علامات ديكھنے كے بعد ايمان لانا اور ظلم و گناہ كا اعتراف كرنا بے ثمر ہے_

إنا كنا ظالمين فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلنهم حصيد

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''گناہ گار لوگ عذاب كے مشاہدے كے وقت سے ليكر ہلاكت كے وقت تك مسلسل اپنے ظلم كا اعتراف كرتے ہيں '' تو اس كا مطلب يہ ہے كہ عذاب كے مشاہدے كے وقت گناہ كا اعتراف كرنا اثر نہيں ركھتا اور ضرورى ہے كہ توبہ عذاب كو ديكھنے سے پہلے انجام پائے_

۳ _ بہت سارے ستمگر اور پر آسائش زندگى والے معاشرے، خداتعالى كے شديد عذاب كے نتيجے ميں بالكل نابود ہوگئے_

و كم قصمنا حتى جعلنهم حصيداً خمدين

''حصيد'' كا معنى ہے محصود يعنى كاٹا ہوا اور ''خامد'' ''خمدت النار خموداً'' كا اسم فاعل ہے يعنى آگ كا بجھا ہوا شعلہ اور يہ اس آيت ميں موت سے كنايہ ہے (مفردات راغب) _

اقرار:ظلم كا اقرار ۲; گناہ كا اقرار۲

ايمان:بے ثمر ايمان ۲

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۳; انكا عذاب ۳; ان كے ختم ہونے كے عوامل ۳

۳۱۲

ظالم لوگ:انكى پشيماني۱; يہ عذاب كے وقت ۱

عذاب:اسے ديكھنے كے اثرات۲; اسكے وقت پشيماني۱

عيش و عشرت پسندلوگ:انكى پشيمانى ۱; يہ عذاب كے وقت ۱

آیت ۱۶

( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ )

اور ہم نے آسمان و زمين اور ان كے درميان كى تمام چيزوں كو كھيل تماشے كے ئے نہيں بنايا ہے (۱۶)

۱ _ آسمان و زمين اور فضا كے موجودات (عالم وجود) كى خلقت، فضول اور كھيل تماشا نہيں ہے بلكہ بامقصد اور با ہدف ہے_و ما خلقنا السماء والأرض و ما بينهما لعبين

''لعب'' كا معنى ہے ايسا بے فائدہ كام كہ جس كا كوئي صحيح مقصد اور سود نہ ہو ''لاعبين''، ''خلقنا'' كى ضمير كيلئے حال ہے يعنى ہم نے عالم ہستى كو كھيل تماشے كے قصد سے خلق نہيں كيا_

۲ _ آسمان و زمين كے درميان كى فضا ميں مخلوقات اور موجودات ہيں _و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۳ _ انبيا(ع) ء كى بعثت اور ستمگر اور دين دشمن معاشروں كى ہلاكت، نظام ہستى كے باہدف ہونے كى بنياد پر ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگر اقوام كى ہلاكت كے بعد كائنات كے باہدف ہونے كى ياددہانى ہوسكتا ہے اس نكتے كو بيان كررہى ہو كہ جب كائنات با مقصد اور باہدف ہے تو ستمگر اقوام كى ہلاكت بھى كائنات كے اسى باہدف ہونے اور كھيل تماشا نہ ہونے كا حصہ ہوگي

۴ _ ظلم اور انبيا(ع) ء كى مخالفت ،عالم ہستى كے قانون كے تابع ہونے والے نظام كے خلاف ہے _

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگروں كى نابودى كے بعد، خداتعالى كى طرف سے خلقت كائنات كے فضول نہ ہونے كى ياد دہانى ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كررہى ہو كہ انسان ظلم نہ كرے اور ستم كرنا كائنات كى بامقصد حركت كے خلاف ہے_

۵ _ عيش و عشرت پسند ستمگر لوگ ،كائنات كو كھيل تماشااور بے مقصد سمجھتے ہيں _

قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۶ _ كائنات كو بے مقصد سمجھنا، عالم خلقت كو فضول اور كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے _

۳۱۳

و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

''مبطلين'' كے بجائے ''لعبين'' كى تعبير بتاتى ہے كہ كائنات كو باطل اور بے مقصد سمجھنا عالم خلقت كو كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے_

آسمان:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا ۲

خلقت:اسكے ساتھ كھيلنا ۶; اسكو كھوكھلا سمجھنا۵، ۶; اس كا قانون كے مطابق ہونا ۱، ۳، ۴

انبياء(ع) :انكے ساتھ مخالفت كى حقيقت ۴; انكى بعثت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

سوچ:غلط سوچ ۶

دين:اسكے دشمنوں كى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

زمين:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱

ظالم لوگ:انكى سوچ۵; انكا كھوكھلے يں كا طرف تمايل۵; انكى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

ظلم:اسكى حقيقت ۴

فضا:اسكے موجودات كى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱; اسكے موجودات ۲

عيش و عشرت پسند لوگ :ان كى سوچ۵; انكا كھوكھلے پن كى طرف تمايل ۵

آیت ۱۷

( لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ )

ہم كھيل ہى بنانا چاہتے تو اپنى طرف ہى سے بناليتے اگر ہميں ايسا كرنا ہوتا (۱۷)

۱ _ خداتعالى كا ارادہ ، كھيل اور سرگرمى كى خاطر كسي كام كے انجام دينے كے ساتھ تعلق نہيں پكڑتا _

و ما خلقنا لعبين_ لو أردنا أن نتخذ لهو

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لو'' امتنا عيہ ہو_ اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''اگر ہم كسى چيز كو _ برفرض محال اور اسكے ممكن يا غير ممكن ہونے يا ہمارى شان سے كم ہونے سے صرف نظر كرتے ہوئے_ كھيل اور اپنى سرگرمى كيلئے انجام ديتے ...'' قابل ذكر ہے كہ بعض مفسرين كے مطابق' ' إن كنّا فاعلين'' ميں ''إن'' نافيہ ہے_ يہ بھى مذكورہ مطلب كا مؤيد ہوگا

۳۱۴

۲ _ مخلوقات كبھى بھى اپنے خالق كے لہو و لعب اور سرگرمى كا ذريعہ نہيں ہيں _

لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فاعلين

۳ _ موجودہ كائنات كو اپنے كھيل تماشے كيلئے خلق كرنے كى قدرت، صرف خداتعالى كے پاس ہے اور كوئي بھى موجود اس پر قادر نہيں ہے_لو أردنا نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنّ

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ''من جہة قدرتنا'' ہو (جيسا كہ بعض بزرگ مفسرين كى يہى رائے ہے) اور يا كہ يہ ''من لدنا'' (ظرف مختص) ''من لدن غيرنا'' كے مقابلے ميں ہو_ اس بناپر آيت كا پيغام يوں ہوگا اگر بنايہ ہوتى كہ كائنات كو اپنے لئے سرگرمى قرار ديں تو بھى يہ كام صرف ہمارى قدرت ميں ہے نہ ان خداؤں كى قدرت ميں جنكا مشركين دعوى كرتے ہيں اور نہ كوئي اور قدرت اسے انجام دے سكتى ہے پس مطلق قدرت اور ربوبيت صرف خداتعالى كے پاس ہے قابل ذكر ہے كہ ''عندنا'' كى جگہ كہ جو صرف حضور كيلئے ہے ''لدنا'' جو ابتدائے غايت كيلئے ہے كا آنا مذكورہ مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۴ _ بر فرض محال اگر خداتعالى اپنى سرگرمى كيلئے كائنات كو خلق كرتا تو يہ مادى كائنات اسكى غرض كے لائق نہيں تھى بلكہ اس سے برتر جہان كا انتخاب كرتا _لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتخذنه من لدنا إن كنا فعلين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ہو ''مما عندنا'' يا ''مما يليق بحضرتنا ...'' يعنى اگر ہم سرگرمى چاہتے تو ان جہانوں اور موجودات ميں سے كہ جو ہمارے پاس ہيں اور ہمارے زيادہ قريب ہيں اور اس مادى كائنات سے برتر ہيں (جيسے عالم مجردات ...) ان سے انتخاب كرتے_

۵ _ خداتعالى ، كائنات كے خلق كرنے والے كام ميں حق اور صحيح ہدف ركھتا تھا _و ما خلقنا السمائ لعبين لو أردنا أن نتّخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فعلين خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كو با ہدف قرار ديا ہے اور اس آيت ميں مزيد تاكيد كيلئے فرمايا ہے ''ہم نے كائنات كو اپنى سرگرمى اور كھيل كيلئے خلق نہيں كيا'' ان دو آيتوں كے مجموعے سے استفادہ ہوتا ہے كہ كائنات كى خلقت ميں ايك ہدف ملحوظ تھا اور وہ ہدف صحيح اور حق ہے كيونكہ كلمہ'' لہو و لعب'' كا معنى وہى باطل ہے اور جو باطل نہ ہو وہ صحيح اور حق ہوگا_

خلقت:

۳۱۵

اس كے ساتھ سرگرمى ۳، ۴; اس كا قانون كے مطابق ہونا۵; اس كا باہدف ہونا۵

توحيد:توحيد افعالى ۳

خداتعالى :اسكى خالقيت ۳; يہ اور كھيل ۱، ۲، ۳، ۴; يہ اور لہو ،۱، ۲، ۳، ۴; اسكى قدرت ۳; اسكے ارادے كا متعلق ۱

موجودات:انكى حقيقت۲; ان كے ساتھ سرگرمى ۲

آیت ۱۸

( بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ )

بلكہ ہم تو ق كو باطل كے سر پردے مارتے ہيں اور اس كے دماغ كو كچل ديتے ہيں اور وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور تمھارے لئے ويل ہے كہ تم ايسى بے ربط باتيں بيان كر رہے ہو (۱۸)

۱ _ حق و باطل كى جنگ ميں آخرى كاميابى اہل حق كى ہے_بل نقذف بالحق على الباطل

۲ _ حق كے عقيدے اور نظريہ كائنات كے حق ہونے كى باطل عقيدے اور باطل نظريہ كائنات پر كاميابى سنت الہى ہے_و ما خلقنا السمائ لعبين بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كے باہدف ہونے اور اسكى خلقت كے فضول اور بيہودہ ہونے والے عقيدہ كے باطل ہونے كى بات كى ہے يہ بات قرينہ ہے كہ آيت كريمہ ميں حق و باطل سے مراد حق و باطل عقيدہ اور ان كا نظريہ كائنات ہے قابل ذكر ہے كہ اسى آيت كا ذيل (ولكم الويل مما تصفون) كہ جو خداتعالى كى طرف ناروا نسبت اور اسكى نادرست امور كے ساتھ توصيف كے بارے ميں ہے مذكورہ مطلب كا مؤيد ہے_

۳ _ حق كى باطل پر كاميابي، نظام خلقت كے بامقصد ہونے كا ايك جلوہ ہے_

و ما خلقنا السماء بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے حق كى بنياد پر كائنات كى خلقت كى بات كى تھى اور اس آيت ميں حق كى باطل پر كاميابى كى ياد دہانى كرائي ہے ان دو باتوں كے درميان ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كرتا ہے_

۴ _ طول تاريخ ميں حق و باطل كے درميان مسلسل جنگ اور كشمكش_و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيد مغه

۳۱۶

۵ _ باطل اور نادرست عقيدوں كى نابودى اہل حق كے باطل كے خلاف ميدان مبارزت ميں حاضر ہونے كا مرہون منت ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه

''بالحق'' ميں ''بائ'' استعانت كيلئے ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''ہم حق كى مدد سے باطل كو نابود اور تہس نہس كرديں گے'' اس كا مطلب يہ ہے كہ حق كا باطل كے مقابلے ميں ميدان كارزار ميں حاضر رہنا ضرورى ہے تا كہ اسكے ذريعے باطل اور نادرست عقيدوں كو نابود كيا جاسكے_ قابل ذكر ہے كہ خداتعالى نے باطل كو نابود كرنے كو اپنى طرف نسبت نہيں دى بلكہ حق كو باطل كا نابود كرنے والا قرار ديا ہے (فيد مغہ) يہ نكتہ بھى اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۶ _ غير متوقع حالات ميں باطل كى ناگہانى نابودى _بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق

''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع ہونے پر دلالت كرتا ہے ،سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۷ _ حق ،استحكام و صلابت ركھتا ہے اور باطل كھوكھلا اورقابل شكست ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق چونكہ خداتعالى نے حق كو باطل كو ختم كردينے والا اور اسے تہس نہس كردينے والا قرار ديا ہے اس سے حق كا مستحكم ہونا ظاہر ہوتا ہے اور اس سے كہ باطل ناگہانى طور پر اور فوراً ختم ہوگيا اس كا كھوكھلا ہونا معلوم ہوتا ہے_ قابل ذكر ہے كہ تعبير ''قذف'' _ يعنى زور سے پھينكنا_ مذكورہ مطلب كى تائيد كرتى ہے_

۸ _ ماضى كے ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى حق كى باطل كے خلاف كاميابى كا ايك نمونہ ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق

۹ _ عصر پيغمبراكرم(ص) كے مشركين كا نظام خلقت اور انبياء (ع) كى بعثت كو كھيل تماشا قرار دينا_و ما خلقنا السمائ لعبين و لكم الويل مما تصفون ''لكم'' اور ''تصفون'' كے مخاطب مشركين ہيں اور گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ توصيف سے مراد مشركين كا خلقت كائنات كے بارے ميں غير صحيح عقيدہ اور خداتعالى كى طرف نظام خلقت كو سرگرمى كے طور پر لينے كى ناروا نسبت ہے _

۱۰ _ خداتعالى كى طرف ناروا نسبت ہلاكت اور عذاب الہى كے مستحق ہونے كا سبب ہے_

لكم الويل مما تصفون ''الويل'' كا اصلى معنى عذاب اور ہلاكت ہے اور يہ اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں كسى شخص يا اشخاص كو ايسى ہلاكت كا خطرہ ہو جسكے وہ مستحق ہيں (لسان العرب) _

۳۱۷

۱۱ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى اور مشركين كو شكست اور نابودى كى دھمكيبل نقذف بالحق و لكم الويل مما تصفون

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبراكرم(ص) اور اہل حق، حق دشمن مشركين كے ساتھ مقابلے ميں مشغول تھے_ آيت شريفہ كے لحن سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى دے رہى ہے اور اسى طرح مشركين كو شكست اورنابودى كى دھمكى دے رہى ہے_

۱۲ _''عن ا يّوب بن الحر قال: قال لى ا بو عبدالله (ع) : يا ا يوب ما من ا حد إلا و قد برز عليه الحق حتى يصدع، قبله ا م تركه و ذلك ا ن الله يقول فى كتابه:'' بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق ...'' ; امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ كوئي شخص نہيں ہے مگر يہ كہ حق مكمل طور پر اس كيلئے ظاہر ہوچكا ہے چاہے اسے قبول كرے يا رد كرے خداتعالى يہى اپنى كتاب ميں فرما رہا ہے''بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق'' _

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو بشارت ۱۱

انبياء (ع) :انكى بعثت كو فضول سمجھنا۹

باطل:اس كا كھوكھلاپن ۷; اسكى شكست كا پيش خيمہ ۵; اسكى شكست ۱، ۲، ۳; اسكى ناگہانى شكست ۶; اس كا انجام ۱; اسكى شكست كے موارد ۸

بشارت:مؤمنين كو كاميابى كى بشارت ۱۱; آنحضرت(ص) كو كاميابى كى بشارت ۱۱

حق:اس كا مستحكم ہونا۷; اسكى كاميابى ۱، ۲، ۳، ۱۲; اس كا انجام۱; اسكى كاميابى كے موارد۸; حق و باطل كے درميان كشمكش ۱، ۴، ۵

حق پرست لوگ:ان كا كردار اور نقش۵

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى دھمكياں ۱۱; اسكى سنت۲

روايت: ۱۲

گذشتہ اقوام:انكى ہلاكت ۸/ظالم لوگ:انكى ہلاكت ۸

____________________

۱ ) محاسن برقى ج۱، ص ۲۷۶، ب ۳۸، ح ۳۹۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۶، ح ۱۸_

۳۱۸

عذاب:اسكے اسباب ۱۰

عقيدہ:باطل عقيدہ۲، ۵; حق عقيدہ ۲

مؤمنين:انہيں بشارت ۱۱

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۹; انكو دھمكى ۱۱

آیت ۱۹

( وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ )

اور اسى خدا كے لئے زمين و آسمان كى كل كائنات ہے اور جو افراد اس كى بارگاہ ميں ہيں وہ نہ اس كى عبادت سے ا كڑ كر انكار كرتے ہيں اور نہ تھكتے ہيں (۱۹)

۱ _ خداتعالى ان سب كا مالك ہے جو آسمانوں اور زمين ميں ہيں _و له من فى السموات و الأرض

۲ _غير خدا كى مالكيت (حتى كہ اپنے اوپر) مجازى ہے _و له من فى السموات و الأرض

۳ _ آسمانوں اور زمين ميں صاحب شعور و عقل مخلوق كا وجود_و له من السموات والأرض

''من'' ان موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے جو صاحب عقل و شعور ہوں _

۴ _ جہان خلقت ميں متعددآسمان ہيں _السموات

۵ _ خداتعالى كا جہان ہستى كا بطور مطلق مالك ہونا حق كى باطل پر كاميابى كى ضمانت اور پشت پناہ ہے_بل نقذف بالحق و له من فى السموات و الأرض جملہ''و له من فى السموات '' كا جمله '' لو أردنا بل نقذف بالحق '' پر عطف ہے اور يہ خلقت كائنات كے حق ہونے اور حق كى باطل كے خلاف كاميابى كو بيان كررہا ہے كيونكہ جب پورى كائنات خداتعالى كى ملكيت ہے تو اس كيلئے حق كو باطل پر كامياب كرنا ممكن اور آسان ہوگا_

۶ _ مقربين خدا (فرشتے) اسكى عبادت سے تكبر نہيں كرتے_و من عنده لايستكبرون عن عبادته

۳۱۹

مفسرين كے بقول ''من عندہ'' سے مراد فرشتے ہيں _

۷ _ تقرب الہى ايسا مقام و مرتبہ ہے كہ جو عبادت ميں تكبر كرنے اور اسكے مقابلے ميں اكڑنے كے ساتھ سازگا نہيں ہے_

و من عنده لايستكبرون عن عبادته ''لايستكبرون عنه'' كے بجائے''لايستكبرون عن عبادته'' كى تعبير سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۸ _ بارگاہ خداوندى كے مقربين كبھى بھى اسكى عبادت سے ملول اور تھكاوٹ كا شكار نہيں ہوتے_من عنده لايستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون (''يستحسرون'' كے مصدر) ''استحسار'' كا معنى ہے تھكاوٹ اور ملالت_

۹ _ تقرب الہى كے مقام تك دسترسى كا خداتعالى كى عبادت سے نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں مؤثر ہونا_و من عنده لا يستكبرون عن عبادته و لايستحسرون يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ جو ہمارے پاس اور مقرب ہيں وہ خدا كى عبادت سے نہيں تھكتے اور تكبر نہيں كرتے'' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقرب الہى كو حاصل كرنا نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں اثر ركھتا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى عبادت ميں تسلسل اور نہ تھكنا پسنديدہ اور قابل قدر چيز يں ہيں _و من عنده لار يستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون مذكور مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ مقربين خدا كى تعريف و تمجيد كر رہى ہے اور بندوں كو پروردگار كى عبادت كى تشويق دلا رہى ہے_

آسمان:ان كا متعدد ہونا۴; ان كے با شعور موجودات ۳

باطل:اس پر كاميابى كا سرچشمہ ۵

تقرب:اسكے اثرات ۹/تكبر:اسكے موانع ۹

حق:اسكى كاميابى كا سرچشمہ ۵

خاضعين: ۶

خداتعالى :اسكى مالكيت كے اثرات ۵; اسكى مالكيت ۱

عبادت:اسكے تسلسل كى قدر و قيمت ۱۰; اس ميں خضوع ۶، ۹; اس ميں سستى كے موانع ۹; اس ميں نشاط ۸،۹

عمل:پسنديدہ عمل ۱۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

آیت ۹۷

( وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا يَا وَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ )

او راللہ كا سچا وعدہ قريب آجائے گا تو سب ديكھيں گے كہ كفار كى آنكھيں پتھر آگئي ہيں اور وہ كہہ رہے ہيں كہ وائے بر حال ما ہم اس طرف سے بالكل غفلت ميں پڑے ہوئے تھے بلكہ ہم اپنے نفس پرظلم كرنے والے تھے (۹۷)

۱ _ خداتعالى كا قيامت كو برپا كرنے كا سچا وعدہ قريب ہے_و اقترب الوعد الحق

۲ _ يأجوج و مأجوج كا حملہ ،قيامت كے نزديك ہونے كى علامات ميں سے ہے_حتى إذا فتحت يأجوج و اقترب الوعد الحق

يأجوج و مأجوج كا ماجرا آخرى زمانے سے مربوط ہے اس بناپر اس ماجرا كے بعد قيامت كے برپا كرنے كا ذكر كرنا اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ يہ ماجرا قيامت كى علامات ميں سے ہے_

۳ _ قيامت، خداتعالى كا سچا اور قطعى وعدہو اقترب الوعد الحق

۴ _ قيامت برپا ہونے كے وقت كفار كامبہوت اور حيران و پريشان ہونا _و اقترب الوعد الحق فإذا هى شاخصة أبصار الذين كفرو ''شخوص'' كا معنى ہے ٹكٹكى باندھ كر ديكھنا اور عام طور پر ايسى حالت مبہوت افراد كيلئے پيش آتى ہے_

۵ _ قيامت ناگہانى اور مبہوت كردينے والا واقعہ ہے_و اقترب الوعد الحق فإذا هى شاخصة

مذكورہ مطلب ''إذا'' فجائيہ سے حاصل ہوتا ہے_

۶ _ قيامت كفار كيلئے وحشتناك اور دہشت پيدا كرنے والا واقعہ ہے_و اقترب الوعد الحق فإذا هى شاخصة أبصار الذين كفرو كفار كى آنكھوں كا خيرہ ہونا اور ان كامبہوت ہونا قيامت كے وحشتناك اور دہشت پيدا كرنے والے واقعات كى وجہ سے ہے_

۷ _ روز قيامت انسان كى آنكھوں ميں خوف و وحشت كى حالت كا ظاہر ہونا_فإذا هى شخصة ابصرالذين كفرو

۴۶۱

۸ _ روز قيامت كفار كى قيامت كے دن سے اپنى گہرى اور مسلسل غفلت كى وجہ سے حسرت كا اظہار_ياويلنا قدكنا فى غفلة من هذ مذكورہ مطلب ''في'' كے آنے سے كہ جو ظرفيت كيلئے ہے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ غفلت ظرف اور انسان غافل كو مظروف بنايا گيا ہے اور يہ گہرى غفلت ميں ڈوب جانے كو بيان كر رہا ہے_

۹ _ ستمگر ہونا حق سے دوري، كفر كى طرف مائل ہونے اور عالم آخرت ميں بدبختى كا اصلى عامل ہے_ياويلنا قدكنا فى غفلة من هذا بل كنا ظلمين مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بل كنا ...'' ميں ''بل'' اضراب ابطالى كيلئے ہو يعنى حقيقت يہ نہيں ہے جو آغاز ميں ہم كہہ چكے ہيں كہ ہم غفلت ميں رہ رہے تھے بلكہ حقيقت يہ ہے كہ ہم ظالموں اور ستم گروں ميں سے ہيں _

۱۰ _ دنيا ميں ظلم اور غفلت قيامت ميں انسان كى ندامت اور حسرت كا سبب ہے_ياويلنا قدكنا فى غفلة من هذا بل كنا ظلمين مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى كہ ہے ''بل كنا ...'' ميں ''بل'' اضراب انتقالى كيلئے ہو يعنى روز قيامت كافروں كا كلام دو چيزيں ہيں ۱_ اپنے غافل ہونے كا اعتراف ۲_ اپنے ستمگر ہونے كا اعتراف

۱۱ _ روز قيامت كافر كا دنيا ميں اپنے ظالم و ستمگر ہونے كا اعتراف_بل كنا ظلمين

۱۲ _ حق كى عبوديت سے منہ موڑنا اور كفر ظلم كا واضح مصداق ہے_أبصار الذين كفروا بل كنا ظلمين

كافروں كى كافر ہونے كے بجائے ظالم ہونے كى ساتھ توصيف ان دو صفات كے ايك ہونے كى دليل ہے اور ہر كافر در حقيقت ظالم ہے_

قرار:ظلم كا اقرار، ۱۱

پشيماني:اخروى پشيمانى كے عوامل ۱۰

خوف:اسكى نشانياں ۷

آنكھ:

۴۶۲

اس كا كردار ۷

حسرت:اخرى حسرت كے عوامل ۱۰

حق:اسے قبول نہ كرنے كے اثرات ۱۲; اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۹

خداتعالى :اسكے وعدوں كا قطعى ہونا ۳; اسكے وعدے ۱

شقاوت:اخروى شقاوت كے عوامل ۹

ظلم :اسكے اثرات ۹، ۱۰; اسكے موارد ۱۲

غفلت:اسكے اثرات ۱۰; قيامت سے غفلت كے اثرات ۸

قيامت:اسكى خوفناكى ۶; اس ميں خوف ۷; اس كا حتمى ہونا ۳; اس ميں آنكھوں كا خيرہ ہونا ۴; اس كا ناگہانى ہونا ۵; اس كا نزديك ہونا ۱; اسكى نشانياں ۲; اس كا وعدہ۱; اسكى خصوصيات ۵

كفار:انكا اخروى اقرار، ۱۱; انكا اخروى خوف ۶; انكى اخروى حسرت ۸; انكى آنكھوں كا خيرہ ہونا ۴; انكى غفلت ۸; يہ قيامت ميں ۴، ۶، ۸، ۱۱

كفر:اسكے اثرات ۱۲; اسكے عوامل ۹

مأجوج:اس كا خروج ۴

يأجوج:اس كا خروج۴

آیت ۹۸

( إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ )

ياد ركھو كہ تم لوگ خود اور جن چيزوں كى تم پرستش كر رہے ہو سب كو جہنم كا ايندھن بنايا جائے گا اور تم سب اسى ميں وارد ہونے والے ہو (۹۸)

۱ _ كفار اور ان كے جھوٹے معبود جہنم كا ايندھن ہيں _إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم

''حصب'' يعنى ہر وہ چيز جسے آگ ميں پھينكتے ہيں اور اس كا غالبى معنى ايندھن ہے (لسان العرب)

۲ _ دوزخيوں كا بدن جہنم كى آگ پيدا كرنے والا مادہ ہے_إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم

چونكہ خود كفار اور ان كے بدن جہنم كا ايندھن ہيں اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۴۶۳

۳ _ جہنم كى آگ دوزخى كفار كے پورے بدن كو اپنى ليپٹ ميں لئے ہوگى اور ايك ہى جگہ پر ان كا بدن آگ ميں تبديل ہوجائيگا_إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم

مذكورہ مطلب كافروں كے جہنم كا ايندھن بننے سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ جب بھى ايندھن كو آگ لگے تو پورا ايندھن آگ ميں تبديل ہوجاتا ہے اس بناپر كافروں كا بدن بھى ايك جگہ پر آگ ميں تبديل ہوجائيگا اور ان كا پورا بدن جل جائيگا_

۴ _ تمام مشركين اور ان كے معبودوں كا جہنم ميں داخل ہونا قطعى ہے_إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم انتم لها وردون جملہ''أنتم لها واردون'' جملہ''انكم و ما تعبدون '' كيلئے تاكيد ہے_

۵ _ غير خدا كى عبادت كفر اور جہنم كا سبب ہے_الذين كفروا إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم

۶ _ حديث ميں آيا ہے كہ ايك گروہ پيغمبر اكرم(ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كر كہنے لگا '' ہميں خداتعالى كے فرمان'' إنكم و ما تعبدون من دون الله صحب جہنم '' كے بارے ميں بتايئےگر ان كا معبود آگ ميں ہو تو ايك گروہ نے عيسى (ع) كى عبادت كى ہے كيا آپ(ع) كہتے ہيں وہ آگ ميں ہيں تو رسول خدا(ص) نے انہيں فرمايا خداتعالى نے فرمايا ہے ''إنكم و ما تعبدون'' اور اسكى مراد وہ بت ہيں جنكى وہ عبادت كرتے تھے اور بت غير عاقل ہيں اور حضرت مسيح(ع) اس ميں داخل نہيں ہيں كيونكہ وہ صاحب عقل ہيں اور اگر فرماتا''إنكم و من تعبدون '' تو مسيح(ع) بھى اس جمع ميں داخل ہوتے تو اس گروہ نے كہا آپ(ع) نے سچ فرمايا اے رسول خدا(۱)

۷ _ امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا جب يہ آيت نازل ہوئي ابن زبعري نے كہا اے محمد(ص) بتا يہ آيت جو ابھى ابھى تونے پڑھى ہے يہ ہم اور ہمارے معبودوں كے بارے ميں ہے يا گذشتہ امتوں اور ان كے معبودوں كے بارے ميں تو آپ(ع) نے فرمايا تم اور تمہارے معبودوں كے بارے ميں بھى ہے اور گذشتہ امتوں كے بارے ميں بھى ہے سوائے اس كے جسے خداتعالى نے مستثنا ديا ہے ابن زبعرى نے كہا مگر تو عيسى (ع) كو اچھائي كے ساتھ ياد نہيں كرتا جبكہ تو جانتا ہے كہ نصارى عيسى (ع) اور انكى ماں كى عبادت كرتے ہيں اور بعض لوگ فرشتوں كى عبات كرتے ہيں تو كيا وہ اور ان

____________________

۱ ) كنز الفوائد ص ۲۸۵_ بحار الانوار ج ۹ ص ۲۸۲ ح ۶_

۴۶۴

كے معبود آگ ميں نہيں ہيں ؟ تو رسول خدا(ص) نے فرمايا نہيں كيا ميں نے نہيں كہا مگر وہ جنہيں خدا تعالى نے مستثنے كرديا ہے اور وہ استثنا خداتعالى كا يہ فرمان ہے ''إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون ''(۱)

باطل معبود:غير خدا كى عبادت كے اثرات ۵

بت:يہ جہنم ميں ۶

جہنم:اس كا آتش گير مادہ ۱، ۲; اسكى آگ كا احاطہ ۳;اسكے اسباب ۵

جہنمى لوگ:ان كا نقش و كردار ۲روايت :۶، ۷

مشركين:ان كے جہنم ميں داخل ہونے كا قطعى ہونا ۴ان كے جہنم ميں داخل ہونے كا حتمى ہونا ۴; ان سے مراد ۶، ۷; يہ جہنم ميں ۱، ۶، ۷

كفار:يہ جہنم ميں ۱، ۳

كفر:اسكے موارد ۵

آیت ۹۹

( لَوْ كَانَ هَؤُلَاء آلِهَةً مَّا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ )

اگر يہ سب واقعاً خدا ہوتے تو كبھى جہنم ميں وارد نہ ہوتے حالانكہ يہ سب اسى ميں ہميشہ ہميشہ رہنے واولے ہيں (۹۹)

۱ _ مشركين كے معبودوں كا جہنم سے بچنے پر قادر نہ ہونا،ان كے معبود نہ ہونے كى دليل ہے _

ما تعبدون من دون الله حصب جهنم لو كان هولآء ألهة ما وردوه

۲ _ اپنے آپ سے ہر قسم كے نقصان كو دور كرنے پر قادر ہونا الوہيت كا لازمہ ہے_

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ص ۷۶; نورالثقلين ج۳، ص ۴۵۹ ج ۱۶۹

۴۶۵

لو كان هؤلآء ألهة ما وردوه

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ خداتعالى نے مشركين كے معبودوں كى عدم الوہيت كيلئے ان كى اپنے آپ سے آتش جہنم كو دور كرنے سے ناتوانى كو دليل بنايا ہے_

۳ _ خداتعالى كيلئے شريك كا وجود محال ہے_لو كان هوهؤلآء ألهة مذكورہ مطلب ''لو'' امتناعيہ سے حاصل ہوتا ہے_

۴ _ مشركين اور ان كے معبودوں كا ہميشہ جہنم ميں رھناو كل فيها خلدون

۵ _ شرك بڑا گناہ اور آتش جہنم ميں ہميشہ رہنے كا سبب ہے_إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم و كل فيها خلدون

اسما و صفات:صفات جلال ۳

الوہيت:اس ميں نقصان كو روكنا ۲; اس ميں قدرت ۲ ; اسكے شرائط ۲

باطل معبود:ان كے عجز كے اثرات ۱; انكى الوہيت ۱; يہ جہنم ميں ۱، ۴

جہنم :اس ميں ہميشہ رہنے والے ۴; اس ميں ہميشہ رہنا ۵; اس كے اسباب۵

خداتعالى :خداتعالى اور شريك ۳

شرك:اس كا گناہ ۵

گناہان كبيرہ :۵

مشركين:يہ جہنم ميں ۴

۴۶۶

آیت ۱۰۰

( لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ )

جہنم ميں ان كے لئے چيخ پكار ہوگى اور وہ كسى كى بات سننے كے قابل نہ ہونگے (۱۰۰)

۱ _ جہنم ميں مشركين كى دردناك اور تكليف دہ فرياد_لهم فيها زفير ''زفير'' كا معنى ہے سينے كا غم و اندوہ سے پر ہونا نيز گدھوں كى پہلى پہلى آواز كے معنى ميں بھى ہے

۴۶۷

(لسان العرب) اور يہاں يہ دردناك غمگين فرياد كے معنى ميں ہے_

۲ _ جہنم ميں مشركين اور ان كے معبودوں كا عذاب اور شكنجہ شديد ہوگا_لهم فيها زفير و هم فيها لا يسمعون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لہم'' كى ضمير كا مرجع مشركين اور ان كے معبود ہوں تو اس صورت ميں آواز كانہ سننا ممكن ہے عذاب اور اسكى ہولناكى كى شدت كى وجہ سے ہو اور يا اس وجہ سے ہو كہ انكى فرياد كى آواز اسقدر بلند ہے كہ كوئي دوسرى آواز نہيں سنتے_

۳ _ مشركين كا جہنم ميں قوت سماعت سے محروم ہونا _و هم فيها لا يسمعون

۴ _ عذاب كى شدت اور فرياد كى آواز جہنم ميں مشركين كے سننے سے مانع ہوگي_لهم فيها زفير و هم فيها لا يسمعون

مذكورہ مطلب اس احتمال پر مبتنى ہے كہ''لهم فيها زفير'' كو''لايسمعون'' كى علت كے طور پر لياجائے يعنى عذاب اور دوزخيوں كى فرياد اس قدر شديد اور بلند ہے كہ يہ ان كے دوسروں كى آواز كو سننے سے مانع ہوگي_

۵ _ قوت سماعت انسان كيلئے ايك اہم نعمت ہے حتى كہ جہنم ميں دو زخيوں كيلئے بھي_و هم فيها لايسمعون

چونكہ دوزخيوں كے اوصاف ميں اس چيز كو ذكر كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ سماعت ايسى نعمت ہے كہ جسے خداتعالى نے دوزخيوں سے چھين ليا ہے_

جہنمى لوگ:انكى فرياد كے اثرات ۴; انكى شنوائي كے موانع ۴

قوت سماعت:اسكى اہميت ۵

عذاب:اسكے درجے ۲،۴

مشركين:ان كے عذاب كى شدت كے اثرات ۴; ان كا اخروى عذاب ۲; انكى فرياد، ۱; ان كا بہرہ پن ۳; يہ جہنم ميں ۱، ۲، ۳

باطل معبود:ان كا اخروى عذاب ۲; يہ جہنم ميں ۲

نعمت:قوت سماعت كى نعمت ۵

۴۶۸

آیت ۱۰۱

( إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَى أُوْلَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ )

بيشك جن لوگوں كے حق ميں ہمارى طرف سے پہلے ہى نيكى مقدر ہوچكى ہے وہ اس جہنم سے دور ركھے جائيں گے (۱۰۱)

۱ _ خداتعالى نے ان لوگوں كو آتش جہنم سے نجات اور دورى كا وعدہ ديا ہے كہ جو اچھے مقام اور پسنديدہ خصلت كے مالك (سچے مؤمن) ہيں _إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون

''الحسنى ''، ''أحسن'' كى مونث اور ''المنزلہ'' يا ''الخصلة'' جيسے محذوف موصوف كى صفت ہے اور گذشتہ آيت كہ جو كفار اور مشركين كے بارے ميں تھى كے مقابلے ميں ہونا قرينہ ہے كہ يہ سچے مؤمنين كے بارے ميں ہے_

۲ _ سچا ايمان اور اچھا مقام ركھنا اور پسنديدہ خصلتوں كا حامل ہونا تقدير الہى كے ساتھ مربوط ہے_إن الذين سبقت لهم منا الحسني جملہ''سبفت لهم منا'' پہلے سے ہى خداتعالى كى جانب سے ''الحسني'' (اچھا ہونا) كے ان كا مقدر ہونے كو بيان كر رہا ہے يعنى وہ جن كيلئے ہم نے پہلے سے ہى مقدر كر ركھا ہے_

۳ _ ايك گروہ كى آتش جہنم سے دورى دنيا ميں ان كے ساتھ خداتعالى كى طرف سے كئے گئے اچھے وعدے كى بنياد پر ہے_

إن الذين سبقت ...مبعدون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الحسني'' ،''الوعدة'' جيسے محذوف موصوف كى صفت ہو_

۴ _ سچے، با فضيلت اور بارگاہ الہى كے مقرب مؤمنين روز قيامت جہنم كى آگ سے دور ايك جگہ ميں ٹھہرے ہوئے ہوں گے_إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون

ايمان:

۴۶۹

اس كا سرچشمہ ۲

جہنم:اس سے دورى كا سرچشمہ ۲; اس سے نجات كا وعدہ ۱

خداتعالى :اسكے وعدوں كے اثرات ۳; اسكى تقديرات ۲; اسكے وعدے ۱

صفات:پسنديدہ صفات كا سرچشمہ ۲

مؤمنين:انكى جہنم سے دورى ۴; انكى پسنديدہ صفات ۱; ان كا اخروى مقام ۴; يہ قيامت ميں ۴; ان كے ساتھ وعدہ ۱

مقربين:ان كا اخروى مقام و مرتبہ ۴

آیت ۱۰۲

( لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنفُسُهُمْ خَالِدُونَ )

اور اس كى بھنك بھى نہ سنيں گے اور اپنى حسب خواہش نعمتوں ميں ہميشہ ہميشہ آرام سے رہيں گے (۱۰۲)

۱ _ اہل بہشت ايسى جگہ ميں ہوں گے كہ جہاں آتش جہنم كى آہستہ سى آواز بھى سنائي نہيں دے گي_لا يسمعون حسيسه ''حسيس'' كا معنى ہے آہستہ آواز اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد وہ آواز ہے كہ جو آتش جہنم كى حركت سے پيدا ہوگي_

۲ _ آتش جہنم كى وحشتناك آواز ہے_لا يسمعون حسيسه

۳ _ اہل بہشت اپنى من پسند نعمتوں ميں غرق اور جاوداں ہوں گے_و هم فيها ما اشتهت أنفسهم خلدون

۴ _ بہشت دائمى اور من پسند جگہ اور اسكى نعمتيں انسان كى تمام خواہشات اور تمايلات كو سير كرنے والى ہيں _

و هم فى ما اشتهت أنفسهم خلدون

بہشت:اس ميں خواہشات كا پورا ہونا ۴; اس كا دائمى ہونا ۴; اسكى نعمتوں كى خصوصيت ۴

بہشتى لوگ:ان كا دائمى ہونا ۳; انكى خواہشات ۳; انكى جہنم سے

۴۷۰

دورى ۱; ان كے فضائل ۳; انكى نعمتيں ۳

جہنم:اسكى آگ كا خوفناك ہونا ۲; اسكى آگ كى آواز ۱، ۲; اسكى آگ كى صفات ۲

آیت ۱۰۳

( لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ )

انھيں قيامت كابڑے سے بڑا ہولناك منظر بھى رنجيدہ نہ كرسكے گا اور ان سے ملائكہ اس طرح ملاقات كريں گے كہ يہى وہ دن ہے جس كا تم سے وعدہ كيا گيا تھا (۱۰۳)

۱ _ اہل بہشت اور سچے مؤمنين قيامت كے عظيم غم و اندوہ اور جزع فزع سے دور ہوں گے اور غمگين نہيں ہوں گے_

إن الذين سبقت لهم منا الحسني لا يحزنهم الفزع الأكبر ''فزع'' كا معنى ہے انقباض اور گرفتگى كى وہ حالت كہ جو خوفناك چيز سے پيدا ہوتى ہے اور يہ ''جزع'' (آہ و زاري) كى قسم سے ہے (مفردات راغب)

۲ _ قيامت كا برپا ہونا غم انگير اور وحشت و جزع فزع كے ہمراہ ہے_لايحزنهم الفزع الأكبر

۳ _ قيامت برپا ہونے كے وقت اہل بہشت اور سچے مؤمنين كا فرشتے استقبال كريں گے_و تتلقى هم الملائكة

۴ _ اہل بہشت اور سچے مؤمنين روز قيامت بلند مقام و مرتبے پر فا ئز ہوں گے_و تتلقى هم الملائكة

فرشتوں كا مؤمنين اور اہل بہشت كا استقبال كرنا انكے بلند مقام و مرتبے كو بيان كرنا ہے_

۵ _ روز قيامت فرشتوں كى طرف سے سچے مؤمنين اور اہل بہشت كو يوم موعود (قيامت) كے آنے كى بشارت

هذا يومكم الذى كنتم توعدون

۶ _ قيامت (بہشت) خداتعالى كى طرف سے سچے مؤمنين كے ساتھ پہلے سے كيا گيا وعدہ_و هذا يومكم الذى كنتم توعدون

۴۷۱

۷ _ پيغمبر خدا(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ص) نے ''فزع اكبر'' كے معنى كے بارے ميں فرمايا بيشك لوگوں پر ايك چنگھاڑ مارى جائيگى كہ كوئي مردہ نہيں رہيگا مگر يہ كہ وہ زندہ ہوجائيگا اور كوئي زندہ نہيں ہوگا مگر يہ كہ وہ مرجائيگا_ سوائے اسكے جو خدا چاہے پھر ان پر دوسرى صيحہ مارى جائيگى اور جو مرچكے ہوں گے وہ زندہ ہوكر سب كى صف بنا دى جائيگى اور آسمان شگافتہ ہوجائيگا زمين تہس نہس ہوجائيگى پہاڑ گرجائيں گے اور آگ آسمان كو چھوتے ہوئے شعلے نكالے گى پس كوئي ذى روح نہيں رہيگا مگر يہ كہ (خوف و ہراس كى وجہ سے) اس كا دل اكھڑ جائيگا اور اپنے گناہوں كو ياد كريگا اور ہر كسى كو اپنى فكر ہوگى مگر جو خدا چاہے(۱)

انسان:يہ قيامت ميں ۷

بشارت:قيامت كى بشارت ۵

بہشت:اس كا وعدہ ۶

اہل بہشت:ان كا استقبال ۳; ان كو بشارت ۵; ان كے فضائل ۱، ۳; انكا محفوظ ہونا۱; ان كا مقام و مرتبہ ۴

خوف:اسكے درجے ۲

خداتعالى :اسكے وعدے ۶

روايت ۷قيامت :اسكے اثرات ۲; اس ميں آسمان ۷; اس كا اندوہ ناك ہونا ۲; اسكى ہولناكياں ۷; اسكى خوفناكى ۲; اس ميں حشر ۷; اس ميں زمين ۷; اسكى ہولناكيوں سے محفوظ ہونا ۱; اس ميں صور پھونكنا ۷; اس كا وعدہ ۶

مؤمنين:ان كا استقبال ۳; انكو بشارت ۵; ان كے اخروى فضائل ۱، ۳; انكا آخرت ميں محفوظ ہونا ۱; ان كا اخروى مقام و مرتبہ ۴; يہ قيامت ميں ۳، ۴; ان كے ساتھ وعدہ ۶

فرشتے:ان كا استقبال كرنا ۳; انكى بشارتيں ۵

____________________

۱ ) نورالثقلين ج۳ ص ۴۶۱ ح ۱۸۰_ ارشاد مفيد ج ۱۱ ، ص ۱۵۸_

۴۷۲

آیت ۱۰۴

( يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاء كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْداً عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ )

اس دن ہم تمام آسمانوں كو اس طرح لپيٹ ديں گے جس طرح خطوں كا طومار لپيٹا جاتا ہے اور جس طرح ہم نے تخليق كى ابتدا كى ہے اسى طرح انھيں واپس بھى لے آئيں گے يہ ہمارے ذمہ ايك وعدہ ہے جس پر ہم بہرحال عمل كرنے والے ہيں (۱۰۴)

۱ _ قيامت ايسا دن ہے كہ جس ميں خداتعالى آسمان كو اس طرح لپيٹے گا جيسے خطوط كا طومار لپيٹا جاتا ہے_يو م نطوى السماء كطى السجل للكتب مذكورہ مطلب دو نكتوں كو پيش نظر ركھنے سے حاصل ہوتا ہے ۱_ ''طي'' كا معنى ہے لپٹينا_ ۲_ ''سجّل'' كا معنى يا تو لكھنے والا ہے اس صورت ميں ''طي'' كى سجل كى طرف اضافت مصدر كى فاعل كى طرف اضافت ہوگى اور ''للكتب'' ميں لام اختصاص كيلئے ہوگا يا ''طّي'' كے عامل كى تقويت كے لئے ہے اور يا سجل كا معنى ہے وہ چيز جن ميں لكھتے ہيں اس صورت ميں طى كى اضافت مفعول كى طرف ہوگى اور ''للكتب ''ميں لام ''من اجل'' كے معنى ميں ہوگا_

۲ _ قيامت اور اس ميں آسمان كا لپيٹا جانا ايسے واقعات ميں سے ہے جو سبق آموز اور ياد ركھنے و ياد كرانے كے قابل ہيں _يوم نطوى السماء كطى السجل للكتب مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''يوم'' كا نصب ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عا مل كى وجہ سے ہو_

۳ _ قيامت برپا ہونے كے وقت موجودہ نظام طبيعت كا ختم ہوجانا _يوم نطوى السماء كطى السجل للكتب

آسمان كے لپيٹنے كے ساتھ اس كا موجودہ نظام بھى لپيٹ ديا جائيگا_

۴ _ قيامت برپا ہونے كا معنى جہان طبيعت كى مكمل نابودى اور ختم ہوكر اس كا دوبارہ خلق ہونا نہيں ہے بلكہ موجودہ نظام كا تہس نہس ہوكر لپيٹ ليا جانا اور اس كا نئے نظام ميں تبديل ہونا ہے_يوم نطوى السماء كطى السجل للكتب

آسمان كے لپيٹنے كو طومار كے لپيٹنے كے ساتھ تشبيہ دينے كو مد نظر ركھتے ہوئے _ كہ جو اصل كو محفوظ ركھنے اور اس پر حاكم نظام كے ختم ہوجانے كے معنى ميں ہے_ مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۴۷۳

۵ _ خداتعالى قيامت كے وقت اپنى نابود شدہ مخلوقات كو انكى پہلى آفرينش كى طرح دوبارہ خلق فرمائے گا_

كما بدا نا أول خلق نعيده

۶ _ آسمان ليپٹ ديئے جانے كے بعد دوبارہ اپنى پہلى خلقت جيسى شكل اختيار كريگا_كما بدأنا أول خلق نعيده

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''نعيدہ'' آسمان كو لپيٹ دينے كے بعد اسكى دوبارہ خلقت كى طرف اشارہ ہو نہ تمام مخلوقات كى خلقت كى طرف_

۷ _ قيامت برپا ہونے كے وقت كائنات كى نئي پيدائش اسكى پہلى خلقت جيسى ہوگي_كما بدا نا أول خلق نعيده

۸ _ كائنات كى نئي خلقت اور نظام كے ہمراہ قيامت كا برپا ہونا خداتعالى كا قطعى وعدہ_وعداً علينا إنا كنا فعلين

۹ _ خداتعالى كے وعدے اور پروگرام حتمى او رقطعى الوقوع ہيں _وعداً علينا إنا كنا فعلين

۱۰ _ خداتعالى كا نظام آفرينش كى پہلى خلقت پر قادر ہونا اسكے اسكى دوسرے خلقت پر قادر ہونے كى علامت ہے_يوم نطوي إنا كنا فعلين ''كما'' كے ذريعے تشبيہ ممكن ہے كائنات كى اصل خلقت اور اسكى نئي آفرينش كيلئے ہو يعنى جيسے آغاز ميں ہم نے كائنات كو خلق كيا تھا اسى طرح اسے دوبارہ بھى وجود ميں لاسكتے ہيں _قابل ذكر ہے كہ تأكيدى جملہ ''إنا كنا فعلين'' اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ كائنات كى دوبارہ خلقت كا انكار كيا جاتا تھا اور آيت كريمہ اسكے امكان كو بيان كررہى ہے_

۱۱ _ امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ فضا ميں ايك اسماعيل نامى فرشتہ ہے كہ جسكے ما تحت تين لاكھ فرشتے ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك كے پاس ايك لاكھ فرشتوں كى كمان ہے اور وہ لوگوں كے اعمال كو شمار كرتے ہيں ہر سال كے آغاز ميں خداتعالى سجل نامى فرشتے كو بھيجتا ہے تا كہ بندوں كے (نامہ اعمال) سے (كہ جو فضا والے فرشتوں كے پاس ہے) ايك نقل اتارلے اور يہى ہے خداتعالى كا فرمان''يوم نطوى السما كطى السجل للكتب'' (۱)

۱۲ _ پيغمبر خدا(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا اے لوگو تم جس طرح پيدا كئے گئے اسى طرح پابرہنہ اور عريان خداتعالى كى طرف محشور ہوگے

____________________

۱ ) بحار الانوار ج ۵ ص ۳۳۲ ح ۸_

۴۷۴

(اس آيت كي) تلاوت فرمائي''كما بدأنا أول خلق نعيده'' (۱)

آسمان:اسے دوبارہ پلٹانا ۶; اسكى پہلى خلقت ۶

خلقت:اسے دوبارہ پلٹانا ۵، ۷، ۸، ۱۰; اس كا انہدام ۳; اسكے نظام كى تبديلى ۴; اسكى پہلى خلقت ۵، ۷، ۱۰; اس كا نظام ۳

انسان:اسكے محشور ہونے كى خصوصيات ۱۲

خدا تعالي:اسكے وعدوں كا قطعى ہونا ۹; اسكے خالق ہونے كى نشانياں ۱۰; اسكى قدرت كى نشانياں ۱۰; اسكے وعدے ۸

ذكر:ذكر قيامت كى اہميت ۲

روايت ۱۱، ۱۲

عبرت:اسكے عوامل ۲

فرشتے:اعمال كو ثبت كرنے والے فرشتے ۱۱; ان كا نقش و كردار ۱۱

قرآن:اسكى تشبيہات ۱

قرآن كى تشبيہات:آسمان كى تشبيہ ۱; لپٹے ہوئے طومار كے ساتھ تشبيہ ۱

قيامت:اس ميں آسمان ۱، ۲; اس ميں خلقت ۴; اس ميں برہنگى ۱۲; اسكى حقيقت ۴; اسكى نشانياں ۳; اس كا وعدہ ۸; اسكى خصوصيات ۵، ۶

نامہ عمل:اسكى نقل اتارنا ۱۱

آیت ۱۰۵

( وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ )

اور ہم نے ذكر كے بعد زبور ميں بھى لكھ ديا ہے كہ ہمارى زمين كے وارث ہمارے نيك بندے ہى ہوں گے_(۱۰۵)

۱ _ بندگان صالح كا زمين كا مالك بننا اور اسكے منافع پرمسلط ہونا ايسى چيز ہے جو تورات و زبور ميں درج اور ثبت ہے_و لقد كتبنا فى الزبور من بعد الذكر

____________________

۱ ) نورالثقلين ج۳ ص ۴۶۳ ح ۱۸۶

۴۷۵

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ۱_ ''الزبور'' كا الف و لام عہد كيلئے اور اس سے مراد حضرت داؤد(ع) (ع) كى آسمانى كتاب ہو جيسا كہ سورہ نساء كى آيت ۱۶۳ ميں آيا ہے (و آتينا داؤد(ع) زبوراً' ۲_ الذكر سے مراد تورات ہو چنانچہ يہ نام قرآن ميں تورات پر بولا گيا ہے (انبياء آيت ۳۸) ۳_ ''من بعد الذكر''، ''كتبنا'' سے متعلق ہو_

۲ _ زبور ميں صالح انسانوں كى روئے زمين پر حكمرانى اور كاميابى كى پيشين گوئي_و لقد كتبنا فى الزبور من بعد الذكر

بعض مفسرين نے ''الذكر'' كو اسكے لغوى معانى (نصيحت كرنا، موعظہ، ياد كرنا، ياد دہانى كرانا) ميں سے ايك ميں ليا ہے اس صورت ميں آيت كا معنى يوں ہوگا كتاب زبور ميں ہم نے پند و نصيحت اور ياد دہانى كے ايك سلسلے كے بعد لكھا

۵ _ تورات، ياد و ياددہانى اور پند و نصيحت والى كتابمن بعد الذكر

۶ _ خداتعالى كى جانب سے زمين پر صالحين كى حكمرانى كى بشارت_أن الأرض يرثها عبادى الصالحون

۷ _ خداتعالى كى جانب سے اپنے صالح بندوں كے بہشت كا وارث ہونے كى خوشخبريبأن الأرض يرثها عبادى الصالحون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الأرض'' سے مراد بہشت ہو جيسا كہ بعض آيات ميں صراحت كے ساتھ آيا ہے''وأورثنا الأرض نتبؤا من الجنة حيث نشاء فنعم اجر العملين'' (سورہ زمر ۳۹ آيت ۷۴)

۸ _ صالحين كا زمين كا وارث بننا ان پر خداتعالى كى عنايات كے سائے ميں ہے_و لقد كتبنا أن الأرض يرثها عبادى الصالحون

۹ _ زمين كى حكمرانى كو حاصل كرنے ميں خداتعالى كى عبوديت اور صلاح و درستى كا كردار_يرثها عبادى الصالحون

۱۰ _ صالحين خداتعالى كے خاص بندے ہيں _عبادى الصالحون

اگر ''الصالحون''، ''عبادي'' كيلئے قيد توضيحى ہو تو مندرجہ ذيل مطلب حاصل ہوتا ہے_

۱۱ _ خداتعالى كے صالح بندوں كى عالمى حكومت زمين ميں انسانى زندگى كا آخرى انجام_أن الأرض يرثها عبادى الصالحون

۱۲ _ حيات بشر كے تغير و تبدل ميں خداتعالى كے ارادے كا بنيادى كردار _و لقد كتبنا فى الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادى الصالحون

۱۳ _ عبدالله بن سنان سے منقول ہے كہ انہوں نے خداتعالى كے فرمان ''و لقد كتبنا فى الزبور من بعد الذكر'' كے بارے ميں امام صادق (ع) سے پوچھا زبور كيا ہے اور ذكر سے كيا مراد ہے؟ تو

۴۷۶

آپ(ع) نے فرمايا ذكر خداتعالى كے پاس ہے اور زبور وہ ہے جو حضرت داؤد(ع) پر نازل ہوئي تھى(۱)

۱۴ _ امام باقر (ع) سے خداتعالى كے فرمان''أن الأرض يرثها عبادى الصالحون'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپ نے فرمايا وہ آخرى زمانے ميں امام مہدي(ع) كے مددگار ہيں(۲)

امام مہدي(ع) :ان كے پيرو كاروں كے فضائل ۱۴

بہشت:اسكے وارث ۷/تاريخ:اسكے تغير و تبدل كا سرچشمہ ۱۲

تورات:اسكى تاريخ ۳; اسكى ياد دہانى ۵; اسكى تعليمات ۱، ۵; اسكى نصيحتيں ۵

حكمراني:اس كا پيش خيمہ ۹/خدا كے بندے:انكى عالمى حكومت ۱۱; انكى وراثت ۱، ۷

خوشخبري:صالحين كى حكمرانى كى خوشخبرى ۶/خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۸

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۱۲; اسكى عبوديت كے اثرات ۹; اسكى بشارتيں ۶،۷

داؤد(ع) :انكى آسمانى كتاب ۱۳

دنيا:اس كا انجام ۱۱

ذكر:اس سے مراد ۱۳

روايت :۱۳، ۱۴

زبور:اسكى پيش گوئياں ۲; اسكى تاريخ ۳; اسكى ياد دہانياں ۴; اسكى تعليمات ۱، ۴; يہ آسمانى كتب ميں سے ۳; اس سے مراد ۱۳; اسكى نصيحتيں ۴

زمين:اسكے وارثوں سے مراد ۱۴; اسكے وارث ۱، ۸

صالحين:انكى كاميابى ۲; انكى حكمرانى ۲; انكى عالمى حكومت ۱۱; انكى عبوديت ۱۰; ان كے فضائل ۸; انكا مقام و مرتبہ ۱۰; انكى حكمرانى كا سرچشمہ ۸; انكى وراثت ۱، ۷

عمل صالح:اسكے اثرات ۹

____________________

۱ ) كافى ج ۱ ص ۲۲۵ ح ۶; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۶۴ ح ۱۹۲_

۲ ) تاؤيل الآيات الظاہرة ص ۳۲۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۶۴ ح ۱۹۳_

۴۷۷

آیت ۱۰۶

( إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغاً لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ )

يقيناً اس ميں عبادت گذارقوم كے لئے ايك پيغام ہے_(۱۰۶)

۱ _ قرآن كے معارف خدا كى عبادت كرنے والى قوم كى سعادت اور ہدايت كيلئے كافى ہيں _إن فى هذا ا لبلغاً لقوم عبدين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہذا'' قرآن اور اس سورہ كے مطالب كے مجموعے كى طرف اشارہ ہو اور ''بلاغ'' بھى كافى ہونے ''كے معنى ميں ہو (لسان العرب)

۲ _ خداتعالى كى عبوديت اور بندگى معارف قرآن سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_إن فى هذا ا لبلغاً لقوم عبدين

۳ _ خداتعالى كى طرف سے اپنے تمام حقيقى بندوں كو پيغام اور ان كے ساتھ وعدہ كہ انہيں كرہ زمين كے چپے چپے پر حكمرانى اور كاميابى حاصل ہوگي_أن الأرض يرثها عبادى الصالحون_ إن فى هذا ا لبلغاً لقوم عبدين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہذا'' گذشتہ آيت كے محتوا كى طرف اشارہ ہو اور ''بلاغ'' سے مراد پيغام كا ابلاغ اور مقصود كا پہچانا ہو (لسان العرب) قابل ذكر ہے كہ دو آيتوں كا لحن خداتعالى كے وعدے اور بشارت پر مشتمل ہے_

۴ _ زمين پر صالحين كى آخرى حكمرانى كے اعتقاد كا خداتعالى كى بندگى اور عبوديت ميں اثر _و لقد كتبنا فى الزبور إن فى هذا ا لبلغاً لقوم عبدين مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہذا'' صالحين كى حكمرانى والے مسئلے كى طرف اشارہ ہو_

۵ _ قرآن بندوں كيلئے خداتعالى كى بڑى حجت اور بليغ پيغام ہے_إن فى هذا لبلغاً لقوم عبدين

۶ _ قرآن كريم اپنے اہداف اور مقاصد كو بيان كرنے ميں بليغ اور كامل ہے_إن فى هذا لبلغاً لقوم عبدين

۷ _ انسانى معاشرے كے انجام كے بارے ميں مذہبى

۴۷۸

تفكر كى مثبت اور پر اميد سوچ _و لقد كتبنا فى الزبور أن الأرض يرثها عبادى الصالحون_إن فى هذا لبلغاً لقوم عبدين

اميد ركھنا:انسانوں كے اچھے انجام كى اميد ركھنا ۷

بندگان خدا:انكى كاميابى ۳; انكى حكمرانى كى وسعت ۳; ان كے ساتھ وعدہ ۳

نظريہ كائنات:نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۴

خداتعالى :اسكى عبوديت كے اثرات ۲; اسكى حجتيں ۵; اسكى عبوديت كا پيش خيمہ ۴; اسكے وعدے ۳

عابدين:انكى سعادت كے عوامل ۱; انكى ہدايت كے عوامل ۱

عقيدہ:صالحين كى حكمرانى كا عقيدہ ۴

قرآن :اسكى بلاغت ۵، ۶; اس سے استفادہ كے شرائط ۲; اس كا كافى ہونا ۱; اس كا كردار ۵; اسكى خصوصيات ۶; اس كا ہادى ہونا ۱

آیت ۱۰۷

( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ )

اور ہم نے آپ كو عالمين كےلئے صرف رحمت بناكر بھيجا ہے _(۱۰۷)

۱ _ پيغمبر اكرم(ص) كى رسالت اہل عالم كيلئے خداتعالى كى خالص مہربانى اور رحمت كا ايك جلوہ ہے_

و ما أرسلناك إلا رحمة للعالمين

۲ _ انسان كا مورد رحمت و كرم قرار پانا دين كا فلسفہ اور انبياء (ع) كو بھيجنے كى حكمت_و ما أرسلناك إلا رحمة للعالمين

۳ _ اسلامى تعليمات خداتعالى كى انسان پر خصوصى رحمت و مہربانى كى بنياد پر ہيں _و ما أرسلناك الا رحمة للعالمين

۴ _اسلام اور پيغمبر(ص) اكرم كى رسالت عالمى اور سب انسانوں كيلئے ہے نہ فقط كسى خاص گروہ كيلئے_

و ما أرسلناك إلا رحمة للعالمين

۵ _ صالحين كى عالمى حكومت كا قيام دين اسلام اور پيغمبر اكرم(ص) كى رسالت كے سائے ميں ہے_

و لقد كتبنا فى الزبور و ما أرسلناك إلا رحمة للعالمين

۴۷۹

دو آيتوں كہ پہلى ميں عالمى حكومت اور اس آيت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى عالمى رسالت كا تذكرہ ہے_ كے باہمى ارتباط كو مدنظر ركھتے ہوئے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتاہے_

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى رسالت كے اثرات ۵; آپكى رسالت كا عالمى ہونا ۴; آپ(ص) كى رسالت كا فلسفہ ۱; آپ(ص) كى رسالت كى خصوصيات ۴

اسلام:اس كا عالمى ہونا ۴; اسكى فضيلت۳; اس كا سرچشمہ ۳; اس كا كردار ۵; اسكى خصوصيات ۴

انبياء:انكى نبوت كا فلسفہ ۲

خداتعالى :اسكى رحمت كے اثرات ۲; اسكى را فت كے اثرات ۲; اسكى رحمت ۳; اسكى را فت۳; اسكى رحمت كى نشانياں ۱

دين:اس كا فلسفہ ۲

صالحين:انكى حكومت كا پيش خيمہ ۵

آیت ۱۰۸

( قُلْ إِنَّمَا يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ )

آپ كہہ ديجئے كہ ہمارى طرف صرف يہ وحى آتى ہے كہ تمہارا خدا ايك ہے تو كيا تم اسلام لانے والے ہو_(۱۰۸)

۱ _ پيغمبر(ص) اكرم لوگوں كو توحيد كى طرف دعوت دينے اور ان كے سامنے اپنے موقف كے اعلان پر مأمور_

قل إنما يوحى إليّ إنما إلهكم إله واحد

۲ _ دعوت توحيد پيغمبر اكرم(ص) كى رسالت كى بنياد تھي_و ما أرسلناك ...قل إنما يوحى إليّ أنما إلهكم إله واحد

۳ _ خدا اور انسان كا حقيقى معبود اور خدا صرف ايك ہے_أنما إلهكم إله واحد

۴ _ پيغمبر اكرم(ص) (ص) كى دعوت توحيد، صرف وحى الہى كى بنياد پر

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750