تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219111 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

آیت ۹۷

( وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا يَا وَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ )

او راللہ كا سچا وعدہ قريب آجائے گا تو سب ديكھيں گے كہ كفار كى آنكھيں پتھر آگئي ہيں اور وہ كہہ رہے ہيں كہ وائے بر حال ما ہم اس طرف سے بالكل غفلت ميں پڑے ہوئے تھے بلكہ ہم اپنے نفس پرظلم كرنے والے تھے (۹۷)

۱ _ خداتعالى كا قيامت كو برپا كرنے كا سچا وعدہ قريب ہے_و اقترب الوعد الحق

۲ _ يأجوج و مأجوج كا حملہ ،قيامت كے نزديك ہونے كى علامات ميں سے ہے_حتى إذا فتحت يأجوج و اقترب الوعد الحق

يأجوج و مأجوج كا ماجرا آخرى زمانے سے مربوط ہے اس بناپر اس ماجرا كے بعد قيامت كے برپا كرنے كا ذكر كرنا اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ يہ ماجرا قيامت كى علامات ميں سے ہے_

۳ _ قيامت، خداتعالى كا سچا اور قطعى وعدہو اقترب الوعد الحق

۴ _ قيامت برپا ہونے كے وقت كفار كامبہوت اور حيران و پريشان ہونا _و اقترب الوعد الحق فإذا هى شاخصة أبصار الذين كفرو ''شخوص'' كا معنى ہے ٹكٹكى باندھ كر ديكھنا اور عام طور پر ايسى حالت مبہوت افراد كيلئے پيش آتى ہے_

۵ _ قيامت ناگہانى اور مبہوت كردينے والا واقعہ ہے_و اقترب الوعد الحق فإذا هى شاخصة

مذكورہ مطلب ''إذا'' فجائيہ سے حاصل ہوتا ہے_

۶ _ قيامت كفار كيلئے وحشتناك اور دہشت پيدا كرنے والا واقعہ ہے_و اقترب الوعد الحق فإذا هى شاخصة أبصار الذين كفرو كفار كى آنكھوں كا خيرہ ہونا اور ان كامبہوت ہونا قيامت كے وحشتناك اور دہشت پيدا كرنے والے واقعات كى وجہ سے ہے_

۷ _ روز قيامت انسان كى آنكھوں ميں خوف و وحشت كى حالت كا ظاہر ہونا_فإذا هى شخصة ابصرالذين كفرو

۴۶۱

۸ _ روز قيامت كفار كى قيامت كے دن سے اپنى گہرى اور مسلسل غفلت كى وجہ سے حسرت كا اظہار_ياويلنا قدكنا فى غفلة من هذ مذكورہ مطلب ''في'' كے آنے سے كہ جو ظرفيت كيلئے ہے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ غفلت ظرف اور انسان غافل كو مظروف بنايا گيا ہے اور يہ گہرى غفلت ميں ڈوب جانے كو بيان كر رہا ہے_

۹ _ ستمگر ہونا حق سے دوري، كفر كى طرف مائل ہونے اور عالم آخرت ميں بدبختى كا اصلى عامل ہے_ياويلنا قدكنا فى غفلة من هذا بل كنا ظلمين مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''بل كنا ...'' ميں ''بل'' اضراب ابطالى كيلئے ہو يعنى حقيقت يہ نہيں ہے جو آغاز ميں ہم كہہ چكے ہيں كہ ہم غفلت ميں رہ رہے تھے بلكہ حقيقت يہ ہے كہ ہم ظالموں اور ستم گروں ميں سے ہيں _

۱۰ _ دنيا ميں ظلم اور غفلت قيامت ميں انسان كى ندامت اور حسرت كا سبب ہے_ياويلنا قدكنا فى غفلة من هذا بل كنا ظلمين مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى كہ ہے ''بل كنا ...'' ميں ''بل'' اضراب انتقالى كيلئے ہو يعنى روز قيامت كافروں كا كلام دو چيزيں ہيں ۱_ اپنے غافل ہونے كا اعتراف ۲_ اپنے ستمگر ہونے كا اعتراف

۱۱ _ روز قيامت كافر كا دنيا ميں اپنے ظالم و ستمگر ہونے كا اعتراف_بل كنا ظلمين

۱۲ _ حق كى عبوديت سے منہ موڑنا اور كفر ظلم كا واضح مصداق ہے_أبصار الذين كفروا بل كنا ظلمين

كافروں كى كافر ہونے كے بجائے ظالم ہونے كى ساتھ توصيف ان دو صفات كے ايك ہونے كى دليل ہے اور ہر كافر در حقيقت ظالم ہے_

قرار:ظلم كا اقرار، ۱۱

پشيماني:اخروى پشيمانى كے عوامل ۱۰

خوف:اسكى نشانياں ۷

آنكھ:

۴۶۲

اس كا كردار ۷

حسرت:اخرى حسرت كے عوامل ۱۰

حق:اسے قبول نہ كرنے كے اثرات ۱۲; اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۹

خداتعالى :اسكے وعدوں كا قطعى ہونا ۳; اسكے وعدے ۱

شقاوت:اخروى شقاوت كے عوامل ۹

ظلم :اسكے اثرات ۹، ۱۰; اسكے موارد ۱۲

غفلت:اسكے اثرات ۱۰; قيامت سے غفلت كے اثرات ۸

قيامت:اسكى خوفناكى ۶; اس ميں خوف ۷; اس كا حتمى ہونا ۳; اس ميں آنكھوں كا خيرہ ہونا ۴; اس كا ناگہانى ہونا ۵; اس كا نزديك ہونا ۱; اسكى نشانياں ۲; اس كا وعدہ۱; اسكى خصوصيات ۵

كفار:انكا اخروى اقرار، ۱۱; انكا اخروى خوف ۶; انكى اخروى حسرت ۸; انكى آنكھوں كا خيرہ ہونا ۴; انكى غفلت ۸; يہ قيامت ميں ۴، ۶، ۸، ۱۱

كفر:اسكے اثرات ۱۲; اسكے عوامل ۹

مأجوج:اس كا خروج ۴

يأجوج:اس كا خروج۴

آیت ۹۸

( إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ )

ياد ركھو كہ تم لوگ خود اور جن چيزوں كى تم پرستش كر رہے ہو سب كو جہنم كا ايندھن بنايا جائے گا اور تم سب اسى ميں وارد ہونے والے ہو (۹۸)

۱ _ كفار اور ان كے جھوٹے معبود جہنم كا ايندھن ہيں _إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم

''حصب'' يعنى ہر وہ چيز جسے آگ ميں پھينكتے ہيں اور اس كا غالبى معنى ايندھن ہے (لسان العرب)

۲ _ دوزخيوں كا بدن جہنم كى آگ پيدا كرنے والا مادہ ہے_إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم

چونكہ خود كفار اور ان كے بدن جہنم كا ايندھن ہيں اس سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۴۶۳

۳ _ جہنم كى آگ دوزخى كفار كے پورے بدن كو اپنى ليپٹ ميں لئے ہوگى اور ايك ہى جگہ پر ان كا بدن آگ ميں تبديل ہوجائيگا_إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم

مذكورہ مطلب كافروں كے جہنم كا ايندھن بننے سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ جب بھى ايندھن كو آگ لگے تو پورا ايندھن آگ ميں تبديل ہوجاتا ہے اس بناپر كافروں كا بدن بھى ايك جگہ پر آگ ميں تبديل ہوجائيگا اور ان كا پورا بدن جل جائيگا_

۴ _ تمام مشركين اور ان كے معبودوں كا جہنم ميں داخل ہونا قطعى ہے_إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم انتم لها وردون جملہ''أنتم لها واردون'' جملہ''انكم و ما تعبدون '' كيلئے تاكيد ہے_

۵ _ غير خدا كى عبادت كفر اور جہنم كا سبب ہے_الذين كفروا إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم

۶ _ حديث ميں آيا ہے كہ ايك گروہ پيغمبر اكرم(ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كر كہنے لگا '' ہميں خداتعالى كے فرمان'' إنكم و ما تعبدون من دون الله صحب جہنم '' كے بارے ميں بتايئےگر ان كا معبود آگ ميں ہو تو ايك گروہ نے عيسى (ع) كى عبادت كى ہے كيا آپ(ع) كہتے ہيں وہ آگ ميں ہيں تو رسول خدا(ص) نے انہيں فرمايا خداتعالى نے فرمايا ہے ''إنكم و ما تعبدون'' اور اسكى مراد وہ بت ہيں جنكى وہ عبادت كرتے تھے اور بت غير عاقل ہيں اور حضرت مسيح(ع) اس ميں داخل نہيں ہيں كيونكہ وہ صاحب عقل ہيں اور اگر فرماتا''إنكم و من تعبدون '' تو مسيح(ع) بھى اس جمع ميں داخل ہوتے تو اس گروہ نے كہا آپ(ع) نے سچ فرمايا اے رسول خدا(۱)

۷ _ امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا جب يہ آيت نازل ہوئي ابن زبعري نے كہا اے محمد(ص) بتا يہ آيت جو ابھى ابھى تونے پڑھى ہے يہ ہم اور ہمارے معبودوں كے بارے ميں ہے يا گذشتہ امتوں اور ان كے معبودوں كے بارے ميں تو آپ(ع) نے فرمايا تم اور تمہارے معبودوں كے بارے ميں بھى ہے اور گذشتہ امتوں كے بارے ميں بھى ہے سوائے اس كے جسے خداتعالى نے مستثنا ديا ہے ابن زبعرى نے كہا مگر تو عيسى (ع) كو اچھائي كے ساتھ ياد نہيں كرتا جبكہ تو جانتا ہے كہ نصارى عيسى (ع) اور انكى ماں كى عبادت كرتے ہيں اور بعض لوگ فرشتوں كى عبات كرتے ہيں تو كيا وہ اور ان

____________________

۱ ) كنز الفوائد ص ۲۸۵_ بحار الانوار ج ۹ ص ۲۸۲ ح ۶_

۴۶۴

كے معبود آگ ميں نہيں ہيں ؟ تو رسول خدا(ص) نے فرمايا نہيں كيا ميں نے نہيں كہا مگر وہ جنہيں خدا تعالى نے مستثنے كرديا ہے اور وہ استثنا خداتعالى كا يہ فرمان ہے ''إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون ''(۱)

باطل معبود:غير خدا كى عبادت كے اثرات ۵

بت:يہ جہنم ميں ۶

جہنم:اس كا آتش گير مادہ ۱، ۲; اسكى آگ كا احاطہ ۳;اسكے اسباب ۵

جہنمى لوگ:ان كا نقش و كردار ۲روايت :۶، ۷

مشركين:ان كے جہنم ميں داخل ہونے كا قطعى ہونا ۴ان كے جہنم ميں داخل ہونے كا حتمى ہونا ۴; ان سے مراد ۶، ۷; يہ جہنم ميں ۱، ۶، ۷

كفار:يہ جہنم ميں ۱، ۳

كفر:اسكے موارد ۵

آیت ۹۹

( لَوْ كَانَ هَؤُلَاء آلِهَةً مَّا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ )

اگر يہ سب واقعاً خدا ہوتے تو كبھى جہنم ميں وارد نہ ہوتے حالانكہ يہ سب اسى ميں ہميشہ ہميشہ رہنے واولے ہيں (۹۹)

۱ _ مشركين كے معبودوں كا جہنم سے بچنے پر قادر نہ ہونا،ان كے معبود نہ ہونے كى دليل ہے _

ما تعبدون من دون الله حصب جهنم لو كان هولآء ألهة ما وردوه

۲ _ اپنے آپ سے ہر قسم كے نقصان كو دور كرنے پر قادر ہونا الوہيت كا لازمہ ہے_

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ص ۷۶; نورالثقلين ج۳، ص ۴۵۹ ج ۱۶۹

۴۶۵

لو كان هؤلآء ألهة ما وردوه

مذكورہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ خداتعالى نے مشركين كے معبودوں كى عدم الوہيت كيلئے ان كى اپنے آپ سے آتش جہنم كو دور كرنے سے ناتوانى كو دليل بنايا ہے_

۳ _ خداتعالى كيلئے شريك كا وجود محال ہے_لو كان هوهؤلآء ألهة مذكورہ مطلب ''لو'' امتناعيہ سے حاصل ہوتا ہے_

۴ _ مشركين اور ان كے معبودوں كا ہميشہ جہنم ميں رھناو كل فيها خلدون

۵ _ شرك بڑا گناہ اور آتش جہنم ميں ہميشہ رہنے كا سبب ہے_إنكم و ما تعبدون من دون الله حصب جهنم و كل فيها خلدون

اسما و صفات:صفات جلال ۳

الوہيت:اس ميں نقصان كو روكنا ۲; اس ميں قدرت ۲ ; اسكے شرائط ۲

باطل معبود:ان كے عجز كے اثرات ۱; انكى الوہيت ۱; يہ جہنم ميں ۱، ۴

جہنم :اس ميں ہميشہ رہنے والے ۴; اس ميں ہميشہ رہنا ۵; اس كے اسباب۵

خداتعالى :خداتعالى اور شريك ۳

شرك:اس كا گناہ ۵

گناہان كبيرہ :۵

مشركين:يہ جہنم ميں ۴

۴۶۶

آیت ۱۰۰

( لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ )

جہنم ميں ان كے لئے چيخ پكار ہوگى اور وہ كسى كى بات سننے كے قابل نہ ہونگے (۱۰۰)

۱ _ جہنم ميں مشركين كى دردناك اور تكليف دہ فرياد_لهم فيها زفير ''زفير'' كا معنى ہے سينے كا غم و اندوہ سے پر ہونا نيز گدھوں كى پہلى پہلى آواز كے معنى ميں بھى ہے

۴۶۷

(لسان العرب) اور يہاں يہ دردناك غمگين فرياد كے معنى ميں ہے_

۲ _ جہنم ميں مشركين اور ان كے معبودوں كا عذاب اور شكنجہ شديد ہوگا_لهم فيها زفير و هم فيها لا يسمعون

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لہم'' كى ضمير كا مرجع مشركين اور ان كے معبود ہوں تو اس صورت ميں آواز كانہ سننا ممكن ہے عذاب اور اسكى ہولناكى كى شدت كى وجہ سے ہو اور يا اس وجہ سے ہو كہ انكى فرياد كى آواز اسقدر بلند ہے كہ كوئي دوسرى آواز نہيں سنتے_

۳ _ مشركين كا جہنم ميں قوت سماعت سے محروم ہونا _و هم فيها لا يسمعون

۴ _ عذاب كى شدت اور فرياد كى آواز جہنم ميں مشركين كے سننے سے مانع ہوگي_لهم فيها زفير و هم فيها لا يسمعون

مذكورہ مطلب اس احتمال پر مبتنى ہے كہ''لهم فيها زفير'' كو''لايسمعون'' كى علت كے طور پر لياجائے يعنى عذاب اور دوزخيوں كى فرياد اس قدر شديد اور بلند ہے كہ يہ ان كے دوسروں كى آواز كو سننے سے مانع ہوگي_

۵ _ قوت سماعت انسان كيلئے ايك اہم نعمت ہے حتى كہ جہنم ميں دو زخيوں كيلئے بھي_و هم فيها لايسمعون

چونكہ دوزخيوں كے اوصاف ميں اس چيز كو ذكر كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ سماعت ايسى نعمت ہے كہ جسے خداتعالى نے دوزخيوں سے چھين ليا ہے_

جہنمى لوگ:انكى فرياد كے اثرات ۴; انكى شنوائي كے موانع ۴

قوت سماعت:اسكى اہميت ۵

عذاب:اسكے درجے ۲،۴

مشركين:ان كے عذاب كى شدت كے اثرات ۴; ان كا اخروى عذاب ۲; انكى فرياد، ۱; ان كا بہرہ پن ۳; يہ جہنم ميں ۱، ۲، ۳

باطل معبود:ان كا اخروى عذاب ۲; يہ جہنم ميں ۲

نعمت:قوت سماعت كى نعمت ۵

۴۶۸

آیت ۱۰۱

( إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَى أُوْلَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ )

بيشك جن لوگوں كے حق ميں ہمارى طرف سے پہلے ہى نيكى مقدر ہوچكى ہے وہ اس جہنم سے دور ركھے جائيں گے (۱۰۱)

۱ _ خداتعالى نے ان لوگوں كو آتش جہنم سے نجات اور دورى كا وعدہ ديا ہے كہ جو اچھے مقام اور پسنديدہ خصلت كے مالك (سچے مؤمن) ہيں _إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون

''الحسنى ''، ''أحسن'' كى مونث اور ''المنزلہ'' يا ''الخصلة'' جيسے محذوف موصوف كى صفت ہے اور گذشتہ آيت كہ جو كفار اور مشركين كے بارے ميں تھى كے مقابلے ميں ہونا قرينہ ہے كہ يہ سچے مؤمنين كے بارے ميں ہے_

۲ _ سچا ايمان اور اچھا مقام ركھنا اور پسنديدہ خصلتوں كا حامل ہونا تقدير الہى كے ساتھ مربوط ہے_إن الذين سبقت لهم منا الحسني جملہ''سبفت لهم منا'' پہلے سے ہى خداتعالى كى جانب سے ''الحسني'' (اچھا ہونا) كے ان كا مقدر ہونے كو بيان كر رہا ہے يعنى وہ جن كيلئے ہم نے پہلے سے ہى مقدر كر ركھا ہے_

۳ _ ايك گروہ كى آتش جہنم سے دورى دنيا ميں ان كے ساتھ خداتعالى كى طرف سے كئے گئے اچھے وعدے كى بنياد پر ہے_

إن الذين سبقت ...مبعدون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الحسني'' ،''الوعدة'' جيسے محذوف موصوف كى صفت ہو_

۴ _ سچے، با فضيلت اور بارگاہ الہى كے مقرب مؤمنين روز قيامت جہنم كى آگ سے دور ايك جگہ ميں ٹھہرے ہوئے ہوں گے_إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون

ايمان:

۴۶۹

اس كا سرچشمہ ۲

جہنم:اس سے دورى كا سرچشمہ ۲; اس سے نجات كا وعدہ ۱

خداتعالى :اسكے وعدوں كے اثرات ۳; اسكى تقديرات ۲; اسكے وعدے ۱

صفات:پسنديدہ صفات كا سرچشمہ ۲

مؤمنين:انكى جہنم سے دورى ۴; انكى پسنديدہ صفات ۱; ان كا اخروى مقام ۴; يہ قيامت ميں ۴; ان كے ساتھ وعدہ ۱

مقربين:ان كا اخروى مقام و مرتبہ ۴

آیت ۱۰۲

( لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنفُسُهُمْ خَالِدُونَ )

اور اس كى بھنك بھى نہ سنيں گے اور اپنى حسب خواہش نعمتوں ميں ہميشہ ہميشہ آرام سے رہيں گے (۱۰۲)

۱ _ اہل بہشت ايسى جگہ ميں ہوں گے كہ جہاں آتش جہنم كى آہستہ سى آواز بھى سنائي نہيں دے گي_لا يسمعون حسيسه ''حسيس'' كا معنى ہے آہستہ آواز اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد وہ آواز ہے كہ جو آتش جہنم كى حركت سے پيدا ہوگي_

۲ _ آتش جہنم كى وحشتناك آواز ہے_لا يسمعون حسيسه

۳ _ اہل بہشت اپنى من پسند نعمتوں ميں غرق اور جاوداں ہوں گے_و هم فيها ما اشتهت أنفسهم خلدون

۴ _ بہشت دائمى اور من پسند جگہ اور اسكى نعمتيں انسان كى تمام خواہشات اور تمايلات كو سير كرنے والى ہيں _

و هم فى ما اشتهت أنفسهم خلدون

بہشت:اس ميں خواہشات كا پورا ہونا ۴; اس كا دائمى ہونا ۴; اسكى نعمتوں كى خصوصيت ۴

بہشتى لوگ:ان كا دائمى ہونا ۳; انكى خواہشات ۳; انكى جہنم سے

۴۷۰

دورى ۱; ان كے فضائل ۳; انكى نعمتيں ۳

جہنم:اسكى آگ كا خوفناك ہونا ۲; اسكى آگ كى آواز ۱، ۲; اسكى آگ كى صفات ۲

آیت ۱۰۳

( لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ )

انھيں قيامت كابڑے سے بڑا ہولناك منظر بھى رنجيدہ نہ كرسكے گا اور ان سے ملائكہ اس طرح ملاقات كريں گے كہ يہى وہ دن ہے جس كا تم سے وعدہ كيا گيا تھا (۱۰۳)

۱ _ اہل بہشت اور سچے مؤمنين قيامت كے عظيم غم و اندوہ اور جزع فزع سے دور ہوں گے اور غمگين نہيں ہوں گے_

إن الذين سبقت لهم منا الحسني لا يحزنهم الفزع الأكبر ''فزع'' كا معنى ہے انقباض اور گرفتگى كى وہ حالت كہ جو خوفناك چيز سے پيدا ہوتى ہے اور يہ ''جزع'' (آہ و زاري) كى قسم سے ہے (مفردات راغب)

۲ _ قيامت كا برپا ہونا غم انگير اور وحشت و جزع فزع كے ہمراہ ہے_لايحزنهم الفزع الأكبر

۳ _ قيامت برپا ہونے كے وقت اہل بہشت اور سچے مؤمنين كا فرشتے استقبال كريں گے_و تتلقى هم الملائكة

۴ _ اہل بہشت اور سچے مؤمنين روز قيامت بلند مقام و مرتبے پر فا ئز ہوں گے_و تتلقى هم الملائكة

فرشتوں كا مؤمنين اور اہل بہشت كا استقبال كرنا انكے بلند مقام و مرتبے كو بيان كرنا ہے_

۵ _ روز قيامت فرشتوں كى طرف سے سچے مؤمنين اور اہل بہشت كو يوم موعود (قيامت) كے آنے كى بشارت

هذا يومكم الذى كنتم توعدون

۶ _ قيامت (بہشت) خداتعالى كى طرف سے سچے مؤمنين كے ساتھ پہلے سے كيا گيا وعدہ_و هذا يومكم الذى كنتم توعدون

۴۷۱

۷ _ پيغمبر خدا(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ص) نے ''فزع اكبر'' كے معنى كے بارے ميں فرمايا بيشك لوگوں پر ايك چنگھاڑ مارى جائيگى كہ كوئي مردہ نہيں رہيگا مگر يہ كہ وہ زندہ ہوجائيگا اور كوئي زندہ نہيں ہوگا مگر يہ كہ وہ مرجائيگا_ سوائے اسكے جو خدا چاہے پھر ان پر دوسرى صيحہ مارى جائيگى اور جو مرچكے ہوں گے وہ زندہ ہوكر سب كى صف بنا دى جائيگى اور آسمان شگافتہ ہوجائيگا زمين تہس نہس ہوجائيگى پہاڑ گرجائيں گے اور آگ آسمان كو چھوتے ہوئے شعلے نكالے گى پس كوئي ذى روح نہيں رہيگا مگر يہ كہ (خوف و ہراس كى وجہ سے) اس كا دل اكھڑ جائيگا اور اپنے گناہوں كو ياد كريگا اور ہر كسى كو اپنى فكر ہوگى مگر جو خدا چاہے(۱)

انسان:يہ قيامت ميں ۷

بشارت:قيامت كى بشارت ۵

بہشت:اس كا وعدہ ۶

اہل بہشت:ان كا استقبال ۳; ان كو بشارت ۵; ان كے فضائل ۱، ۳; انكا محفوظ ہونا۱; ان كا مقام و مرتبہ ۴

خوف:اسكے درجے ۲

خداتعالى :اسكے وعدے ۶

روايت ۷قيامت :اسكے اثرات ۲; اس ميں آسمان ۷; اس كا اندوہ ناك ہونا ۲; اسكى ہولناكياں ۷; اسكى خوفناكى ۲; اس ميں حشر ۷; اس ميں زمين ۷; اسكى ہولناكيوں سے محفوظ ہونا ۱; اس ميں صور پھونكنا ۷; اس كا وعدہ ۶

مؤمنين:ان كا استقبال ۳; انكو بشارت ۵; ان كے اخروى فضائل ۱، ۳; انكا آخرت ميں محفوظ ہونا ۱; ان كا اخروى مقام و مرتبہ ۴; يہ قيامت ميں ۳، ۴; ان كے ساتھ وعدہ ۶

فرشتے:ان كا استقبال كرنا ۳; انكى بشارتيں ۵

____________________

۱ ) نورالثقلين ج۳ ص ۴۶۱ ح ۱۸۰_ ارشاد مفيد ج ۱۱ ، ص ۱۵۸_

۴۷۲

آیت ۱۰۴

( يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاء كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْداً عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ )

اس دن ہم تمام آسمانوں كو اس طرح لپيٹ ديں گے جس طرح خطوں كا طومار لپيٹا جاتا ہے اور جس طرح ہم نے تخليق كى ابتدا كى ہے اسى طرح انھيں واپس بھى لے آئيں گے يہ ہمارے ذمہ ايك وعدہ ہے جس پر ہم بہرحال عمل كرنے والے ہيں (۱۰۴)

۱ _ قيامت ايسا دن ہے كہ جس ميں خداتعالى آسمان كو اس طرح لپيٹے گا جيسے خطوط كا طومار لپيٹا جاتا ہے_يو م نطوى السماء كطى السجل للكتب مذكورہ مطلب دو نكتوں كو پيش نظر ركھنے سے حاصل ہوتا ہے ۱_ ''طي'' كا معنى ہے لپٹينا_ ۲_ ''سجّل'' كا معنى يا تو لكھنے والا ہے اس صورت ميں ''طي'' كى سجل كى طرف اضافت مصدر كى فاعل كى طرف اضافت ہوگى اور ''للكتب'' ميں لام اختصاص كيلئے ہوگا يا ''طّي'' كے عامل كى تقويت كے لئے ہے اور يا سجل كا معنى ہے وہ چيز جن ميں لكھتے ہيں اس صورت ميں طى كى اضافت مفعول كى طرف ہوگى اور ''للكتب ''ميں لام ''من اجل'' كے معنى ميں ہوگا_

۲ _ قيامت اور اس ميں آسمان كا لپيٹا جانا ايسے واقعات ميں سے ہے جو سبق آموز اور ياد ركھنے و ياد كرانے كے قابل ہيں _يوم نطوى السماء كطى السجل للكتب مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''يوم'' كا نصب ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عا مل كى وجہ سے ہو_

۳ _ قيامت برپا ہونے كے وقت موجودہ نظام طبيعت كا ختم ہوجانا _يوم نطوى السماء كطى السجل للكتب

آسمان كے لپيٹنے كے ساتھ اس كا موجودہ نظام بھى لپيٹ ديا جائيگا_

۴ _ قيامت برپا ہونے كا معنى جہان طبيعت كى مكمل نابودى اور ختم ہوكر اس كا دوبارہ خلق ہونا نہيں ہے بلكہ موجودہ نظام كا تہس نہس ہوكر لپيٹ ليا جانا اور اس كا نئے نظام ميں تبديل ہونا ہے_يوم نطوى السماء كطى السجل للكتب

آسمان كے لپيٹنے كو طومار كے لپيٹنے كے ساتھ تشبيہ دينے كو مد نظر ركھتے ہوئے _ كہ جو اصل كو محفوظ ركھنے اور اس پر حاكم نظام كے ختم ہوجانے كے معنى ميں ہے_ مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۴۷۳

۵ _ خداتعالى قيامت كے وقت اپنى نابود شدہ مخلوقات كو انكى پہلى آفرينش كى طرح دوبارہ خلق فرمائے گا_

كما بدا نا أول خلق نعيده

۶ _ آسمان ليپٹ ديئے جانے كے بعد دوبارہ اپنى پہلى خلقت جيسى شكل اختيار كريگا_كما بدأنا أول خلق نعيده

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''نعيدہ'' آسمان كو لپيٹ دينے كے بعد اسكى دوبارہ خلقت كى طرف اشارہ ہو نہ تمام مخلوقات كى خلقت كى طرف_

۷ _ قيامت برپا ہونے كے وقت كائنات كى نئي پيدائش اسكى پہلى خلقت جيسى ہوگي_كما بدا نا أول خلق نعيده

۸ _ كائنات كى نئي خلقت اور نظام كے ہمراہ قيامت كا برپا ہونا خداتعالى كا قطعى وعدہ_وعداً علينا إنا كنا فعلين

۹ _ خداتعالى كے وعدے اور پروگرام حتمى او رقطعى الوقوع ہيں _وعداً علينا إنا كنا فعلين

۱۰ _ خداتعالى كا نظام آفرينش كى پہلى خلقت پر قادر ہونا اسكے اسكى دوسرے خلقت پر قادر ہونے كى علامت ہے_يوم نطوي إنا كنا فعلين ''كما'' كے ذريعے تشبيہ ممكن ہے كائنات كى اصل خلقت اور اسكى نئي آفرينش كيلئے ہو يعنى جيسے آغاز ميں ہم نے كائنات كو خلق كيا تھا اسى طرح اسے دوبارہ بھى وجود ميں لاسكتے ہيں _قابل ذكر ہے كہ تأكيدى جملہ ''إنا كنا فعلين'' اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ كائنات كى دوبارہ خلقت كا انكار كيا جاتا تھا اور آيت كريمہ اسكے امكان كو بيان كررہى ہے_

۱۱ _ امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ فضا ميں ايك اسماعيل نامى فرشتہ ہے كہ جسكے ما تحت تين لاكھ فرشتے ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك كے پاس ايك لاكھ فرشتوں كى كمان ہے اور وہ لوگوں كے اعمال كو شمار كرتے ہيں ہر سال كے آغاز ميں خداتعالى سجل نامى فرشتے كو بھيجتا ہے تا كہ بندوں كے (نامہ اعمال) سے (كہ جو فضا والے فرشتوں كے پاس ہے) ايك نقل اتارلے اور يہى ہے خداتعالى كا فرمان''يوم نطوى السما كطى السجل للكتب'' (۱)

۱۲ _ پيغمبر خدا(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا اے لوگو تم جس طرح پيدا كئے گئے اسى طرح پابرہنہ اور عريان خداتعالى كى طرف محشور ہوگے

____________________

۱ ) بحار الانوار ج ۵ ص ۳۳۲ ح ۸_

۴۷۴

(اس آيت كي) تلاوت فرمائي''كما بدأنا أول خلق نعيده'' (۱)

آسمان:اسے دوبارہ پلٹانا ۶; اسكى پہلى خلقت ۶

خلقت:اسے دوبارہ پلٹانا ۵، ۷، ۸، ۱۰; اس كا انہدام ۳; اسكے نظام كى تبديلى ۴; اسكى پہلى خلقت ۵، ۷، ۱۰; اس كا نظام ۳

انسان:اسكے محشور ہونے كى خصوصيات ۱۲

خدا تعالي:اسكے وعدوں كا قطعى ہونا ۹; اسكے خالق ہونے كى نشانياں ۱۰; اسكى قدرت كى نشانياں ۱۰; اسكے وعدے ۸

ذكر:ذكر قيامت كى اہميت ۲

روايت ۱۱، ۱۲

عبرت:اسكے عوامل ۲

فرشتے:اعمال كو ثبت كرنے والے فرشتے ۱۱; ان كا نقش و كردار ۱۱

قرآن:اسكى تشبيہات ۱

قرآن كى تشبيہات:آسمان كى تشبيہ ۱; لپٹے ہوئے طومار كے ساتھ تشبيہ ۱

قيامت:اس ميں آسمان ۱، ۲; اس ميں خلقت ۴; اس ميں برہنگى ۱۲; اسكى حقيقت ۴; اسكى نشانياں ۳; اس كا وعدہ ۸; اسكى خصوصيات ۵، ۶

نامہ عمل:اسكى نقل اتارنا ۱۱

آیت ۱۰۵

( وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ )

اور ہم نے ذكر كے بعد زبور ميں بھى لكھ ديا ہے كہ ہمارى زمين كے وارث ہمارے نيك بندے ہى ہوں گے_(۱۰۵)

۱ _ بندگان صالح كا زمين كا مالك بننا اور اسكے منافع پرمسلط ہونا ايسى چيز ہے جو تورات و زبور ميں درج اور ثبت ہے_و لقد كتبنا فى الزبور من بعد الذكر

____________________

۱ ) نورالثقلين ج۳ ص ۴۶۳ ح ۱۸۶

۴۷۵

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ۱_ ''الزبور'' كا الف و لام عہد كيلئے اور اس سے مراد حضرت داؤد(ع) (ع) كى آسمانى كتاب ہو جيسا كہ سورہ نساء كى آيت ۱۶۳ ميں آيا ہے (و آتينا داؤد(ع) زبوراً' ۲_ الذكر سے مراد تورات ہو چنانچہ يہ نام قرآن ميں تورات پر بولا گيا ہے (انبياء آيت ۳۸) ۳_ ''من بعد الذكر''، ''كتبنا'' سے متعلق ہو_

۲ _ زبور ميں صالح انسانوں كى روئے زمين پر حكمرانى اور كاميابى كى پيشين گوئي_و لقد كتبنا فى الزبور من بعد الذكر

بعض مفسرين نے ''الذكر'' كو اسكے لغوى معانى (نصيحت كرنا، موعظہ، ياد كرنا، ياد دہانى كرانا) ميں سے ايك ميں ليا ہے اس صورت ميں آيت كا معنى يوں ہوگا كتاب زبور ميں ہم نے پند و نصيحت اور ياد دہانى كے ايك سلسلے كے بعد لكھا

۵ _ تورات، ياد و ياددہانى اور پند و نصيحت والى كتابمن بعد الذكر

۶ _ خداتعالى كى جانب سے زمين پر صالحين كى حكمرانى كى بشارت_أن الأرض يرثها عبادى الصالحون

۷ _ خداتعالى كى جانب سے اپنے صالح بندوں كے بہشت كا وارث ہونے كى خوشخبريبأن الأرض يرثها عبادى الصالحون مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''الأرض'' سے مراد بہشت ہو جيسا كہ بعض آيات ميں صراحت كے ساتھ آيا ہے''وأورثنا الأرض نتبؤا من الجنة حيث نشاء فنعم اجر العملين'' (سورہ زمر ۳۹ آيت ۷۴)

۸ _ صالحين كا زمين كا وارث بننا ان پر خداتعالى كى عنايات كے سائے ميں ہے_و لقد كتبنا أن الأرض يرثها عبادى الصالحون

۹ _ زمين كى حكمرانى كو حاصل كرنے ميں خداتعالى كى عبوديت اور صلاح و درستى كا كردار_يرثها عبادى الصالحون

۱۰ _ صالحين خداتعالى كے خاص بندے ہيں _عبادى الصالحون

اگر ''الصالحون''، ''عبادي'' كيلئے قيد توضيحى ہو تو مندرجہ ذيل مطلب حاصل ہوتا ہے_

۱۱ _ خداتعالى كے صالح بندوں كى عالمى حكومت زمين ميں انسانى زندگى كا آخرى انجام_أن الأرض يرثها عبادى الصالحون

۱۲ _ حيات بشر كے تغير و تبدل ميں خداتعالى كے ارادے كا بنيادى كردار _و لقد كتبنا فى الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادى الصالحون

۱۳ _ عبدالله بن سنان سے منقول ہے كہ انہوں نے خداتعالى كے فرمان ''و لقد كتبنا فى الزبور من بعد الذكر'' كے بارے ميں امام صادق (ع) سے پوچھا زبور كيا ہے اور ذكر سے كيا مراد ہے؟ تو

۴۷۶

آپ(ع) نے فرمايا ذكر خداتعالى كے پاس ہے اور زبور وہ ہے جو حضرت داؤد(ع) پر نازل ہوئي تھى(۱)

۱۴ _ امام باقر (ع) سے خداتعالى كے فرمان''أن الأرض يرثها عبادى الصالحون'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپ نے فرمايا وہ آخرى زمانے ميں امام مہدي(ع) كے مددگار ہيں(۲)

امام مہدي(ع) :ان كے پيرو كاروں كے فضائل ۱۴

بہشت:اسكے وارث ۷/تاريخ:اسكے تغير و تبدل كا سرچشمہ ۱۲

تورات:اسكى تاريخ ۳; اسكى ياد دہانى ۵; اسكى تعليمات ۱، ۵; اسكى نصيحتيں ۵

حكمراني:اس كا پيش خيمہ ۹/خدا كے بندے:انكى عالمى حكومت ۱۱; انكى وراثت ۱، ۷

خوشخبري:صالحين كى حكمرانى كى خوشخبرى ۶/خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۸

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۱۲; اسكى عبوديت كے اثرات ۹; اسكى بشارتيں ۶،۷

داؤد(ع) :انكى آسمانى كتاب ۱۳

دنيا:اس كا انجام ۱۱

ذكر:اس سے مراد ۱۳

روايت :۱۳، ۱۴

زبور:اسكى پيش گوئياں ۲; اسكى تاريخ ۳; اسكى ياد دہانياں ۴; اسكى تعليمات ۱، ۴; يہ آسمانى كتب ميں سے ۳; اس سے مراد ۱۳; اسكى نصيحتيں ۴

زمين:اسكے وارثوں سے مراد ۱۴; اسكے وارث ۱، ۸

صالحين:انكى كاميابى ۲; انكى حكمرانى ۲; انكى عالمى حكومت ۱۱; انكى عبوديت ۱۰; ان كے فضائل ۸; انكا مقام و مرتبہ ۱۰; انكى حكمرانى كا سرچشمہ ۸; انكى وراثت ۱، ۷

عمل صالح:اسكے اثرات ۹

____________________

۱ ) كافى ج ۱ ص ۲۲۵ ح ۶; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۶۴ ح ۱۹۲_

۲ ) تاؤيل الآيات الظاہرة ص ۳۲۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۶۴ ح ۱۹۳_

۴۷۷

آیت ۱۰۶

( إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغاً لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ )

يقيناً اس ميں عبادت گذارقوم كے لئے ايك پيغام ہے_(۱۰۶)

۱ _ قرآن كے معارف خدا كى عبادت كرنے والى قوم كى سعادت اور ہدايت كيلئے كافى ہيں _إن فى هذا ا لبلغاً لقوم عبدين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہذا'' قرآن اور اس سورہ كے مطالب كے مجموعے كى طرف اشارہ ہو اور ''بلاغ'' بھى كافى ہونے ''كے معنى ميں ہو (لسان العرب)

۲ _ خداتعالى كى عبوديت اور بندگى معارف قرآن سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_إن فى هذا ا لبلغاً لقوم عبدين

۳ _ خداتعالى كى طرف سے اپنے تمام حقيقى بندوں كو پيغام اور ان كے ساتھ وعدہ كہ انہيں كرہ زمين كے چپے چپے پر حكمرانى اور كاميابى حاصل ہوگي_أن الأرض يرثها عبادى الصالحون_ إن فى هذا ا لبلغاً لقوم عبدين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہذا'' گذشتہ آيت كے محتوا كى طرف اشارہ ہو اور ''بلاغ'' سے مراد پيغام كا ابلاغ اور مقصود كا پہچانا ہو (لسان العرب) قابل ذكر ہے كہ دو آيتوں كا لحن خداتعالى كے وعدے اور بشارت پر مشتمل ہے_

۴ _ زمين پر صالحين كى آخرى حكمرانى كے اعتقاد كا خداتعالى كى بندگى اور عبوديت ميں اثر _و لقد كتبنا فى الزبور إن فى هذا ا لبلغاً لقوم عبدين مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہذا'' صالحين كى حكمرانى والے مسئلے كى طرف اشارہ ہو_

۵ _ قرآن بندوں كيلئے خداتعالى كى بڑى حجت اور بليغ پيغام ہے_إن فى هذا لبلغاً لقوم عبدين

۶ _ قرآن كريم اپنے اہداف اور مقاصد كو بيان كرنے ميں بليغ اور كامل ہے_إن فى هذا لبلغاً لقوم عبدين

۷ _ انسانى معاشرے كے انجام كے بارے ميں مذہبى

۴۷۸

تفكر كى مثبت اور پر اميد سوچ _و لقد كتبنا فى الزبور أن الأرض يرثها عبادى الصالحون_إن فى هذا لبلغاً لقوم عبدين

اميد ركھنا:انسانوں كے اچھے انجام كى اميد ركھنا ۷

بندگان خدا:انكى كاميابى ۳; انكى حكمرانى كى وسعت ۳; ان كے ساتھ وعدہ ۳

نظريہ كائنات:نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۴

خداتعالى :اسكى عبوديت كے اثرات ۲; اسكى حجتيں ۵; اسكى عبوديت كا پيش خيمہ ۴; اسكے وعدے ۳

عابدين:انكى سعادت كے عوامل ۱; انكى ہدايت كے عوامل ۱

عقيدہ:صالحين كى حكمرانى كا عقيدہ ۴

قرآن :اسكى بلاغت ۵، ۶; اس سے استفادہ كے شرائط ۲; اس كا كافى ہونا ۱; اس كا كردار ۵; اسكى خصوصيات ۶; اس كا ہادى ہونا ۱

آیت ۱۰۷

( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ )

اور ہم نے آپ كو عالمين كےلئے صرف رحمت بناكر بھيجا ہے _(۱۰۷)

۱ _ پيغمبر اكرم(ص) كى رسالت اہل عالم كيلئے خداتعالى كى خالص مہربانى اور رحمت كا ايك جلوہ ہے_

و ما أرسلناك إلا رحمة للعالمين

۲ _ انسان كا مورد رحمت و كرم قرار پانا دين كا فلسفہ اور انبياء (ع) كو بھيجنے كى حكمت_و ما أرسلناك إلا رحمة للعالمين

۳ _ اسلامى تعليمات خداتعالى كى انسان پر خصوصى رحمت و مہربانى كى بنياد پر ہيں _و ما أرسلناك الا رحمة للعالمين

۴ _اسلام اور پيغمبر(ص) اكرم كى رسالت عالمى اور سب انسانوں كيلئے ہے نہ فقط كسى خاص گروہ كيلئے_

و ما أرسلناك إلا رحمة للعالمين

۵ _ صالحين كى عالمى حكومت كا قيام دين اسلام اور پيغمبر اكرم(ص) كى رسالت كے سائے ميں ہے_

و لقد كتبنا فى الزبور و ما أرسلناك إلا رحمة للعالمين

۴۷۹

دو آيتوں كہ پہلى ميں عالمى حكومت اور اس آيت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى عالمى رسالت كا تذكرہ ہے_ كے باہمى ارتباط كو مدنظر ركھتے ہوئے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتاہے_

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى رسالت كے اثرات ۵; آپكى رسالت كا عالمى ہونا ۴; آپ(ص) كى رسالت كا فلسفہ ۱; آپ(ص) كى رسالت كى خصوصيات ۴

اسلام:اس كا عالمى ہونا ۴; اسكى فضيلت۳; اس كا سرچشمہ ۳; اس كا كردار ۵; اسكى خصوصيات ۴

انبياء:انكى نبوت كا فلسفہ ۲

خداتعالى :اسكى رحمت كے اثرات ۲; اسكى را فت كے اثرات ۲; اسكى رحمت ۳; اسكى را فت۳; اسكى رحمت كى نشانياں ۱

دين:اس كا فلسفہ ۲

صالحين:انكى حكومت كا پيش خيمہ ۵

آیت ۱۰۸

( قُلْ إِنَّمَا يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ )

آپ كہہ ديجئے كہ ہمارى طرف صرف يہ وحى آتى ہے كہ تمہارا خدا ايك ہے تو كيا تم اسلام لانے والے ہو_(۱۰۸)

۱ _ پيغمبر(ص) اكرم لوگوں كو توحيد كى طرف دعوت دينے اور ان كے سامنے اپنے موقف كے اعلان پر مأمور_

قل إنما يوحى إليّ إنما إلهكم إله واحد

۲ _ دعوت توحيد پيغمبر اكرم(ص) كى رسالت كى بنياد تھي_و ما أرسلناك ...قل إنما يوحى إليّ أنما إلهكم إله واحد

۳ _ خدا اور انسان كا حقيقى معبود اور خدا صرف ايك ہے_أنما إلهكم إله واحد

۴ _ پيغمبر اكرم(ص) (ص) كى دعوت توحيد، صرف وحى الہى كى بنياد پر

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

 منتہی ہوئے ہیں۔ آپ ہی سے سب نے سنا اور آپ ہے سے سب نے روای تکی ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے اشخاص نے اس حدیث کی امیرالمومنین(ع) سے روایت کی سب سے آپ نے اپنے وصی ہونے کا ذکر فرمایا۔ ہم اس حدیث کو گزشتہ صفحات پر ذکر کرچکے ہیں۔

امیرالمومنین(ع) کی شہادت کے بعد امام حسن مجتبی(ع) نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں آپ نے فرمایا تھا:

“ میں نبی(ص) کا فرزند ہوں میں وصی (ع) کا بیٹا ہوں۔”
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
“ حضرت علی (ع) رسول(ص) کے ساتھ ساتھ رسالت کے پہلے روشنی دیکھتے اور آواز سنتے تھے۔”
نیز آپ فرماتے ہیں کہ :
“ حضرت سرورکائنات(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا اگر میں خاتم الانبیاء(ص) نہ ہوتا تو تم میری نبوت میں شریک ہوتے ، اگر نبی نہیں تو تم نبی(ص) کے وصی ، نبی(ص) کے وارث ہو۔”
یہ چیز تقریبا جملہ اہل بیت علیہم السلام سے بتواتر منقول ہے اور اہلبیت(ع) و موالیان اہل بیت(ع) کے نزدیک صحابہ کے زمانہ سے لے کر آج تک بدیہات میں سے سمجھی جاتی ہے۔
جناب سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ :
“ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا : میرے وصی، میرے رازوں کی جگہ اور بہترین وہ فرد جسے میں اپنے بعد چھوڑوں گا جو میرے وعدوں کو پورا کرے گا اور مجھے میرے دیون سے سبکدوش بنائے گا وہ
۵۶۱

علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔”
جناب ابوایوب اںصاری فرماتے ہیں کہ:
“ میں نے رسول اﷲ(ص) کو کہتے سنا آپ جناب سیدہ (س) سے فرمارہے تھے کیا تم جانتی نہیں کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر نگاہ کی ان میں تمھارے باپ کو منتخب کیا اور نبوت سے سرفراز کیا پھر دوبارہ نگاہ کی اور تمھارے شوہر کو منخب کیا اور مجھے وحی کے ذریعہ حکم دیا تو میں نے ان کا نکاح تمھارے ساتھ کردیا اور انھیں اپنا وصی بنایا۔”

بریدہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا:

“ ہر نبی کے لیے وصی اور وارث ہوا کرتا ہے اور میرے وصی و وارث علی بن ابی طالب (ع) ہیں”

جناب جابر بن یزید جعفی جب امام محمد باقر(ع) سے کوئی حدیث روایت کرتے تو کہتے کہ مجھ سے وصی الاوصیاء وصیوں کے وصی نے بیان کیا ( ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ، علامہ ذہبی ، حالات جابر)

ام خیر بنت حریش بارقیہ نے جنگ صفیں کے موقع پر ایک تقریر کی(1) کی جس میں انھوں نے اہل کوفہ کو معاویہ سے جنگ کرنے پر ابھارا تھا۔ اس تقریر میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا:

“ آؤ، آؤ، خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔ اس امام کی طرف جو عادل ہیں، وصی پیغمبر(ص) ہیں ، وفا کرنے والے اور صدیق اکبر ہیں۔”

اسی طرح کی پوری تقریر ان کی تھی۔

--------------

1ـ بلاغات النساء، ص41

۵۶۲

یہ تو سلف صالحین کا ذکر تھا جنھوں نے اپنے اپنے خطبوں میں اپنی حدیثوں میں وصیت کا تذکرہ کر کے اس کو مستحکم کای۔ اگر ان کے حالات کا جائزہ لیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ وصی کا لفظ امیرالمومنین(ع) کے لیے یوں استعمال کرتے تھے جیسے مسمیات کے لیے اسماء کا استعمال ہوتا ہے ۔ آپ کا نام ہی پڑگیا تھا وصی۔حد تویہ ہے کہ صاحب تاج العروس جلد 10 ص392 لغت تاج العروس میں لفظ وصی کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“ الوَصِيُ‏، كغَنِيٍ‏: لَقَبُ عليٍّ”

“ وصی بر وزن غنی حضرت علی(ع) کا لقب ہے۔

اشعار میں اس قدر کثرت سے آپ کے لیے لفظ وصی کا استعمال کیا گیا ہے کہ کوئی حساب ہی نہیں۔ ہم صرف چند شعر اپنے مقصد کی توضیح میں ذکر کیے دیتے ہیں۔

عبداﷲ بن عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں۔

وَصِيُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ مِنْ دُونِ أَهْلِهِ‏     وَ فَارِسُهُ إِنْ قِيلَ: هَلْ مِنْ مُنَازِلِ

“ آپ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں اہلبیت(ع) میں آپ کے سوا اور کوئی وصی رسول(ص) نہیں اور اگر میدان جنگ میں دشمن کی طرف سے مقابلہ کی طلب ہوتو آپ ہی شہسوار شجاعت ہیں۔”

مغیرہ بن حارث بن عبد المطلب نے جنگ صفین میں چند شعر کہے تھے جس میں اہ عراق کو معاویہ سے جنگ پر ابھارا تھا۔ اس میں ایک شعر یہ بھی تھا ۔

 هذا وصي رسول اللّه قائدكم‏    و صهره‏ و كتاب اللّه قد نشرا

“ یہ رسول اﷲ(ـص) کے وصی اور تمھارے قائد ہیں۔ رسول(ص) کے داماد اور خدا کی کھلی ہوئی کتاب ہیں۔”
عبداﷲ بن ابی سفیان بن حرث بن عبدالمطلب کہتے ہیں
۵۶۳

و منا علي ذاك صاحب‏ خيبر  و صاحب بدر يوم سالت كتائبه‏

وصي النبي المصطفى و ابن عمه             فمن ذا يدانيه و من ذا يقاربه

“ اور ہم ہی میں سے وہ علی(ع) ہیں خیبر والے ( جنھوں نے خیبر فتخ کیا) اور بدر والے ( جن کی بدولت جنگ بدر میں فتح ہوئی) جو پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفی(ص)  کے وصی اور ان کے چچا کے بیٹے ہیں۔ کون ان کا مقابلہ کرسکتا ہے اور عزت و شرف میں کون ان سے قریب ہوسکتا ہے۔”

ابو الہیثم بن تیہان صحابی پیغمبر(ص) نے ( جو جنگ بدر میں بھی شریک رہ چکے ہیں ) جنگ جمل کے موقع جپر چند شعر کہے تھے۔ ان میں یہ شعر بھی تھا۔

إن‏ الوصي‏ إمامنا و ولينا                     برح الخفاء و باحت الأسرار.

“ وصی پیغمبر(ص) ہمارے امام و حاکم ہیں۔ پردہ اٹھ گیا اور راز ظاہر ہوگئے۔”

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین نے ( یہ بھی جنگ بدر میں شریک رہ چکے ہیں۔) جنگ جمل کے موقع جپر چند شعر کہیے ، ان میں ایک شعر یہ تھا۔

يا وصي‏ النبي‏ قد أجلت‏                     الحرب الأعادي و سارت الأظعان‏

“ اے وصی رسول(ص) جنگ نے دشمنوں کو متحرک کردیا ہے ۔ ہودج نشین عورتیں مقابلہ کے لیے چل کھڑی ہوئی ہیں۔”

انھیں کے یہ اشعار بھی ہیں۔

أعايش‏ خلى‏ عن على و عيبه‏               بما ليس فيه يا والدة

وصى رسول اللَّه من دون اهله‏              و انت على ما كان من ذاك شاهدة

“ اے عائشہ ، علی(ع) کی دشمنی اور ان کی عیب جوئی سے جو حقیقتا ان میں
۵۶۴

 نہیں بلکہ تمھاری من گھڑت ہے باز رہو ، وہ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں اہلبیت(ع) ہیں، آپ کے سوا اور کوئی وصی رسول (ص) نہیں اور علی(ع9 کو رسول(ص) سے جو خصوصیت حاصل ہے تم خود اس کی چشم دید شاہد ہو۔”

عبداﷲ بن بدیل بن و رقاء خزاعی نے جنگِ جمل مین یہ شعر کہا تھا۔یہ بزرگ بہادرترین صحابہ میں سے تھے ۔ یہ اور ان کے بھائی عبدالرحمن جنگ صفین میں شہید ہوئے۔

يا قوم‏ للخطة العظمى التي حدثت‏          حرب الوصي و ما للحرب من آسي‏

“ اے قوم والو! یہ کتنی مصیبت ہے کہ جس نے وصی رسول(ص) سے جنگ چھیڑ دی ہے اور جنگ کے لیے کوئی مداوا نہیں۔”

خود امیرالمومنین(ع) نے جنگِ صفین کے موقع پر یہ شعر فرمایا :

ما كان يرضى‏ أحمد لو أخبرا        أن يقرنوا وصيه و الأبترا

“ رسول(ص) کو اگر ی یہ خبر پہنچائی جائے کہ لوگوں نے آپ کے وصی اور مقطوع النسل یعنی معاویہ کو ہم پلہ سمجھ لیا ہے تو رسول(ص) اس بات سے ہرگز خوش نہ ہوں گے۔”

جزیر بن عبداﷲ بجلی صحابی نے چند اشعار شرجیل بن سمط کو تحریر کر کے بھیجے تھے اس میں امیرالمومنین(ع) کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

وَصِيُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ مِنْ دُونِ أَهْلِهِ‏              وَ فَارِسُهُ الْأُولَى بِهِ يَضْرِبُ الْمَثَلْ.

“ آپ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں۔ اہلبیت(ع) میں آپ کے سوائے کوئی دوسرا وصی رسول نہیں اور وہ جماعت کرنے والے شہسوار ہیں جن سے مثل بولی جاتی ہے۔”

عمر بن حارثہ اںصاری نے چند شعر محمد بن امیرالمومنین(ع) ( جو محمد بن حنفیہ

۵۶۵

 کے نام سے مشہور ہیں) کی مدح میں کہے تھے ۔ ان میں ایک شعر یہ بھی ہے۔:

سمي‏ النبي‏ و شبه الوصي‏             و رايته لونها العندم‏

“ ( محمد بن حنفیہ ) نبی(ص) کے ہم نام اور وصی نبی(ص) ( یعنی امیرالمومنین(ع)) کے مشابہ ہیں اور آپ کے علم کے پھریرے کا رنگ خونین رنگ ہے۔”

جب قتل عثمان کے بعد لوگوں نے حضرت علی(ع) کی بیعت کی اس موقع پر عبدالرحمن بن جمیل نے ی شعر کہےتھے:

لعمري‏ لقد بايعتم‏ ذا حفيظة         على الدين معروف العفاف موفقا

عليا وصي المصطفى و ابن عمه‏             و أول من صلى أخا الدين و التقى.

“ اپنی زندگی کی قسم تم نے ایسے شخص کی بیعت کی جو دین کے معاملہ میں بڑا با غیرت و حمیت ہے جس کی پاکدامنی شہرہ آفاق ہے اور توفیقات الہی جس کے شامل حال ہیں۔”
“ تم نے علی(ع) کی بیعت کی ہے جو محمد مصطفی(ص) کے وصی اور ان کے چچا کے بیٹے ہیں اور پہلے نماز پڑھنے والے ہیں اور صاحب دین و تقوی ہیں۔”

قبیلہ ازد کے ایک شخص نے جنگ جمل میں یہ شعر کہے تھے:

هذا علي‏ و هو الوصي‏              آخاه يوم النجوة النبي‏

و قال هذا بعدي الولي‏              وعاه واع و نسي الشقي.

“ یہ علی(ع) ہیں اور وہی وصی ہیں جنھیں رسول(ص) نے یوم نجوہ اپنا بھائی بنایا تھا اور کہا تھا کہ یہ میرے بعد میرے ولی ہیں۔ یاد رکھنے والوں نے اس کو یاد رکھا اور جو بدبخت تھے
۵۶۶

 وہ بھلا بیٹھے۔”

جنگ جمل میں بنی ضبہ کا ایک نوجوان جو جناب عائشہ کی طرف سے جنگ میں شریک تھا صف سے نکلا اور یہ اشعادربطور رجز پڑھے:

نَحْنُ‏ بَنُو ضَبَّةَ أَعْدَاءُ عَلِيٍ‏            ذَاكَ الَّذِي يُعْرَفُ قِدْماً بِالْوَصِيِ‏

وَ فَارِسِ الْخَيْلِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِ‏               مَا أَنَا عَنْ فَضْلِ عَلِيٍّ بِالْعَمِيِ‏

                             لكننی أفعى ابْنَ عَفَّانَ التَّقِيَ‏

“ ہم بنو ضبہ ہیں جو علی(ع) کے دشمن ہیں۔ وہی علی(ع) جو ہمیشہ وصی کہے گئے۔ اوررسول(ص) کے زمانہ میں لشکر کے شہسوار تھے۔ میں علی (ع) کے فضل و شرف سے اندھا نہیں ہوں لیکن میں عثمان کی خبر مرگ سنانے آیا ہوں۔”
سعید بن قیس ہمدانی نے جو حضرت علی(ع) کے ساتھ جنگ میں شریک سے یہ اشعار کہے تھے:

أَيَّةُ حَرْبٍ‏ أُضْرِمَتْ نِيرَانُهَا            وَ كُسِرَتْ يَوْمَ الْوَغَى مُرَّانُهَا

قُلْ لِلْوَصِيِّ أَقْبَلَتْ قَحْطَانُهَا          فَادْعُ بِهَا تَكْفِيكَهَا هَمْدَانُهَا

                             هُمُ بَنُوهَا وَ هُمُ إِخْوَانُهَا.

“ یہ کون سی لڑائی کی آگ بھڑکائی گئی ہے اور جنگ کے دن نیزے ٹوٹ ٹوٹ گئے کہو وصی سے کہ بنو قحطان کل کے کل امڈ آئے ہیں آپ بنی ہمدان کو پکاریے وہ آپ کی کفایت کریں گے کیونکہ وہ بنو قحطان کے بیٹے اور بھائی ہیں۔”

زیاد بن لبید انصاری نے جو امیرالمومنین(ع) کے اصحاب سے ہیں جنگ ِ جمل میں یہ شعر کہے تھے:

۵۶۷

كيف ترى الأنصار في‏ يوم‏ الكلب‏           إنا أناس لا نبالي من عطب‏

و لا نبالي في الوصي من غضب‏             و إنما الأنصار جد لا لعب‏

هذا علي و ابن عبد المطلب‏         ننصره اليوم على من قد كذب‏

             من يكسب البغي فبئس ما اكتسب

“ کیسا پارہے ہیں ہم لوگ ایسے آدمی ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے اور وصی کے بارے میں ہم غضب و غصہ کی پروا نہیں کرتے۔ انصار کھیل ٹھٹھا نہیں، وہ حقیقت و واقعیت کے حامل ہیں۔ یہ علی(ع) ہیں جو فرزند عبدالمطلب ہیں۔ ہم ان کی آج جھوٹوں کے مقابلہ میں ؟؟؟ کر رہے ہیں جس نے بغاوت کا ارتکاب کیا اس نے بہت برا کیا۔

حجربن عدی کندی نے بھی اسی دن یہ شعر کہے تھے :

يا ربنا سلم‏ لنا عليا          سلم لنا المبارك المضيا

المؤمن الموحد التقيا           لا خطل الرأي و لا غويا

بل هاديا موفقا مهديا                و احفظه ربي و احفظ النبيا

فيه فقد كان له وليا         ثم ارتضاه بعده وصيا.

“ پروردگار تو ہمارے لیے علی(ع) کو صحیح و سالم رکھ ۔ صحیح و سالم رکھ ہمارے لیے مبارک اور ضیا گستر ہستی کو جو مومن ہیں، موحد ہیں، پرہیز گار ہیں، مہمل رائے والے نہیں نہ گمراہ ہیں بلکہ ہدایت کرنے والے توفیقات ربانی کے حامل ہدایت یافتہ ہیں۔ ان کو محفوظ رکھ پرورگار اور ان کی وجہ
۵۶۸

سے نبی(ص) کو محفوظ رکھ کیونکہ یہ رسول(ص) کے ولی ہیں۔ پھر اپنے بعد کے لیے نبی(ص) نے انھیں وصی بنانا پسند کیا۔”

عمر بن احجیہ نے جنگ جمل کے دن امام حسن(ع) کے خطبہ کی تعریف و توصیف میں جو آپ نے ابن زبیر کے خطبہ کے بعد فرمایا تھا چند شعر پڑھے۔ ایک شعریہ ہے :

و أبى‏ اللّه‏ أن يقوم بما قا             م به ابن الوصيّ و ابن النجيب‏

“ خداوند عالم کو ہرگز گوارا نہیں کہ ابن زبیر وصی کے فرزند اور شریف و معزز کے لختِ جگر یعنی امام حسن(ع) کی برابری کرسکے۔”

زجر بن قیس جعفی نے بھی جنگ جمل کے موقع پر یہ شعر کہا تھا :

أضربكم‏ حتى‏ تقروا لعلي‏             خير قريش كلها بعد النبي‏

             اضربکم حتی تقرروا لعلی              خير قريش کلها بعد النبی

من زانه الله و سماه الوصي‏

“ میں اس وقت تک تم کو یہ تیغ کرتا رہوں گا جب تک تم علی(ع) کی امامت کا اقرار نہ کر لو۔ وہ علی(ع) جو بعد رسول(ص) قریش میں سب سے بہتر ہیں جنھیں خدا نے کمالات و فضائل سے زینت بخشی اور ان کا نام وصی رکھا ہے۔”

انھیں زجر نے جنگِ صفین کے موقع پر یہ اشعار کہے تھے:

فصلى الإله على‏ أحمد                       رسول المليك تمام النعم‏

و صلى على الطهر من بعده‏                خليفتنا القائم المدعم‏

عليا عنيت وصي النبي‏                       يجالد عنه غواة الأمم‏

“ خدا رحمت نازل کرے حضرت احمد مجتبی(ص) پر جو خدا کے رسول(ص) تھے اور جن کے ذریعہ نعمتیں تمام ہوئیں۔ ( رحمت نازل ہو) خدا کے
۵۶۹

 رسول(ص) پر اور ان کے بعد ہمارے موجودہ خلیفہ پر جو جائے پناہ ہیں۔ میری مراد علی(ع) سے ہے جو رسول(ص) کے وصی ہیں جس سے امت کے گمراہ لوگ بر سر پیکار ہیں۔”

اشعث بن قیس کندی کہتا ہے:

أتانا الرسول رسول‏ الإمام‏            فسر بمقدمه المسلمونا

رسول الوصي وصي النبي‏            له السبق و الفضل في المؤمنينا.

“ ہمارے پاس قاصد آیا، امام کا قاصد ، اس کے آنے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، وصی کا قاصد آیا وہ وصی جو نبی(ص) کا ہے جسے تمام مومنین میں سبقت و فضیلت حاصل ہے۔

نیز یہ اشعار بھی اسی اشعث کے ہیں :

أَتَانَا الرَّسُولُ رَسُولُ‏ الْوَصِيِ‏           عَلِيٌّ الْمُهَذَّبُ مِنْ هَاشِمٍ‏

وَزِيرُ النَّبِيِّ وَ ذُو صِهْرِهِ‏                       وَ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ فِي الْعَالَمِ‏

“ ہمارے پاس قاصد آیا وصی رسول(ص) کا قاصد یعنی علی(ع) کا جو بنی ہاشم میں (  کمالات سے) آراستہ و پیراستہ ہیں جو نبی(ص) کے وصی ہیں اور داماد ہیں اور تمام عالم اور جملہ خلق سے بہتر ہیں۔”

نعمان بن عجلان زرقی اںصاری نے جنگ صفین میں یہ اشعار کہے :

كيف‏ التفرق‏ و الوصي إمامنا                لا كيف إلا حيرة و تخاذلا

     و ذروا معاوية الغوي و تابعوا            دين الوصي لتحمدوه آجلا

“ یہ پراگندگی کیسی جبکہ وصی رسول(ص) ہمارے امام ہیں ۔ نہیں بھلا کیونکر یہ پراگندگی ممکن ہے ۔یہ صرف سرگشتگی اور ایک دوسرے
۵۷۰

کی مدد نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ گمراہ معاویہ کو چھوڑو اور وصی رسول(ص) کے دین کی پیروی کرو تاکہ تمھارا انجام پسندیدہ ہو۔”

عبدالرحمن بن ذؤیب اسلمی نے چند اشعار کہے جن میں معاویہ کو عراق کی نوجون کی دھمکی دی تھی۔

يَقُودُهُمُ الْوَصِيُ‏ إِلَيْكَ‏ حَتَّى‏           يَرُدَّكَ عَنْ عَوَائِكَ وَ ارْتِيَابِ‏

“ ان سواروں کے لے کر وصی رسول(ص) تم پر چڑھائی کریںگے۔ یہاں تک کہ تم گمراہی اور اس اشتباہی کیفیت سے پلٹ آؤ۔”

عبداﷲ بن ابی سفیان بن حارث(1) بن عبدالمطلب کہتے ہیں :

و انّ‏ ولىّ‏ الامر بعد محمّد            علىّ و في كلّ المواطن صاحبه‏

وصىّ رسول اللَّه حقّا و جاره‏                و اوّل من صلّى و من لان جانبه‏

“ رسالتماب(ص) کے بعد مالک و مختار علی(ع) ہیں جو ہر منزل پر رسول(ص) کے ساتھ رہے ۔ رسول(ص) کے وصی برحق ہیں  وہ اور رسول(ص) ایک جڑ کی دو شاخین ہیں اور پہلے نمازی ہیں اور نرم پہلو رکھنے والے ہیں۔”

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین کہتے ہیں:

--------------

1ـ یہ تمام اشعار کتب سیر و تواریخ خصوصا وہ کتابیں جو جنگ جمل و صفین پر لکھی گئی ہیں میں موجود ہیں علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں یہ تمام اشعار اکٹھا کر دیے ہیں اور ان اشعار کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ایسے اشعار جن میں حضرت کو وصی کہہ کر مراد لیا گیا بے شمار ہیں ہم نے یہاں صرف وہ اشعار درج کیے ہیں جو بالخصوص جنگ جمل و صفین کے موقع پر کہے گئے۔

۵۷۱

وصي‏ رسول‏ الله‏ من دون أهله‏               و فارسه مذ كان في سالف الزمن‏

و أول من صلى من الناس كلهم‏            سوى خيرة النسوان و الله ذو منن

“ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں اہلبیت(ع) میں آپ کے سوا کوئی وصی رسول(ص) نہیں ۔ رسول(ص) کے شہسوار میدان دغا ہیں گزشتہ زمانے سے تمام لوگوں میں سوا جناب خدیجہ کے سب سے پہلے نماز پڑھنے والے ہیں اور خداوند عالم بڑے احسانات والا ہے۔”

زفربن حذیفہ اسدی کہتے ہیں(1) :

فحوطوا عليا و احفظوه فإنه‏         وصي و في الإسلام أول أول.

“ علی(ع) کو اپنے حلقہ میں لے لو اور ان کی مدد کرو کیونکہ یہ وصی ہیں اور سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں اول ہیں۔”

ابوالاسود دولی کہتے ہیں :

أحبّ‏ محمّدا حبّا شديدا                     و عبّاسا و حمزة و الوصيّا

“ میں حضرت محمد مصطفی(ص) سے بہت ہی زیادہ محبت رکھتا ہوں اور عباس اور حمزہ سے اور وصی رسول(ص) سے ۔”

نعمان(2) بن عجلان جو اںصار کے شاعر ہیں اور ان کے سرداروں مٰیں سے ایک سردار تھے ایک قصیدہ میں کہتے ہیں جس میں انھوں نے عمرو عاص سے خطاب کیا :

--------------

1ـ زفر کا یہ شعر اور اس کے قبل حزیمہ کے دونوں شعر امام اسکافی نے اپنی کتاب نقض عثمانہ میں ذکر کیا ہے اور اسے ابن ابی الحدید نے شرح النہج البلاغہ جلد3 صفحہ458 پر نقل کیا ہے۔

2ـ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 13 و استیعاب حالات نعمان۔

۵۷۲

و كان‏ هوانا في عليّ و أنّه‏          لأهل لها يا عمرو من حيث لا تدري‏

فذاك‏ بعون‏ الله‏ يدعو إلى الهدى‏              و ينهى عن الفحشاء و البغي و النكر

وصي النبي المصطفى و ابن عمه‏             و قاتل فرسان الضلالة و الكفر

“ عمرو عاص علی(ع) کی اہانت کرتا ہے حالانکہ یہی علی(ع) سزاوار خلافت ہیں جیسا کہ تم جانتے ہو یا تم نہ بھی جانو خدا کی طرف سے ہدایت کی طرف لاتے ہیں اور بری باتوں سے بغاوت و سرکشی سے اورہر ناپسندیدہ امر سے روکتے ہیں ۔ حضرت محمد مصطفی(ص) پیغمبر خدا کے وصی اور ان کے چچا کے بیٹے ہیں

اور گمراہی و کفر کے سواروں کو قتل کرنے والے ہیں۔

فضل بن عباس نے چند اشعار کہے تھے ان میں یہ دو شعر(1) بھی تھے۔

ألا انّ خير النّاس بعد نبيّهم‏          وصيّ‏ النّبيّ‏ المصطفى‏ عند ذي الذّكر

و أوّل من صلّى و صنو نبيّه‏         و أوّل من أردى الغواة لدى بدر

“ آگاہ ہو لوگوں میں بعد رسول(ص) سب سے بہتر حضرت محمد مصطفی(ص) پیغمبر خدا(ص) کے وصی ہیں ہر یاد رکھنے والے کے نزدیک اور پہلے نماز پڑھنے والے ہیں اور رسول(ص) و علی(ع) ایک ہی جڑ کی دو شاخین ہیں اور پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے جنگ بدر میں سرکشوں کو ہلاک کیا”

حسان(2) بن ثابت نے چند اشعار کہے تھے جن میں بزبان اںصار امیرالمومنین(ع)

--------------

1ـ تاریخ کامل جلد3 ص24

2ـ اس شعر کو زبیر بن بکار نے موفقیات میں درج کیا ہے اور اس سے ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 5 پر نقل کیا ہے۔

۵۷۳

 کی مدح سرائی کی ہے:

حفظت‏ رسول‏ الله‏ فينا و عهده‏              إليك و من أولى به منك من و من‏

أ لست أخاه في الهدى و وصيه‏              و أعلم منهم بالكتاب و بالسنن

“ آپ نے ہمارے درمیان رسول(ص) کی حفاظت کی اور اس عہد کی حفاظت کی جو رسول(ص) نے آپ سے متعلق کیا تھا اور آپ سے بڑھ کر رسول(ص) سے زیادہ قربت و خصوصیت کون رکھ سکتا ہے آیا کار ہدایت میں آپ ان کے وصی نہیں اور تمام لوگوں سے زیادہ قرآن  و احادیث نبی(ص) کا علم رکھنے والے ہیں۔”

کسی شاعر نے امام حسن(ع) سے خطاب کر کے کہا ہے :

‏ يا اجل الانام يا ابن الوصی        انت سبط النبی وابن علی

 “ تمام خلائق میں بزرگ و برتر ہستی اے وصی رسول(ص) کے فرزند آپ سبط پیغمبر(ص) اور علی(ع) ک بیٹے ہیں۔”

ام سنان بنت خیثمہ بن خرشہ مذحجیہ(1) نے چند اشعار حضرت علی(ع) کو مخاطب کر کے کہے جن میں آپ کی مدح کی تھی:

قد كنت‏ بعد محمد خلفا لنا                 أوصى إليك بنا فكنت وفيا

“ آپ رسول(ص) کے بعد ہمارے لیے رسول(ص) کے جانشین تھے رسول(ص) نے آپ کو اپنا وصی بنایا ۔ آپ نے رسول(ص) کی تمام باتیں پوری کیں۔”

یہ چند اشعار ہیں جنھیں جلدی میں لکھ سکا اور جتنی گنجائش ہوسکی

--------------

1ـ بلاغات النساء

۵۷۴

اس مکتوب میں ان اشعار کی جو امیرالمومنین(ع) کے زمانہ میں اس مضمون کے کہے گے اگر عہد امیرالمومنین(ع) کے بعد کے اشعار جمع کرنے بیٹھیں جن میں آپ کو وصی کہہ کر خطاب کیا گیا ہے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہوجائے اور پھر بھی اشعار اکٹھا نہ ہوسکیں۔ سب اشعار لکھنے میں تھک بھی جائیں گے اور اصل بحث سے بھی ہٹ جائیں گے اس لیے صرف مشاہیر کے کچھ اشعار پر ہم اکتفا کرتے ہیں ۔ انھیں چند اشعار کو اس مضمون کے تمام اشعار کا نمونہ سمجھ لیجیے۔

کمیت ابن زید اپنے قصیدہ ہاشمیہ میں کہتے ہیں(1) :

والوصی الذی امال التجوبی                 به عرش امه لانهدام

“ وہ ایسے وصی ہیں جنھوں نے امت کے گرتے ہوئے عرش کو سیدھا کردیا۔”

--------------

1ـ علامہ شیخ محمد محمود الرافعی جنھوں نے کمیت کے اشعار کی  شرح لکھی ہے اس شعر کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وصی سے مراد علی کرم اﷲ وجہ ہیں کیونکہ پیغمبر خدا(ص) نے آپ کو وصی مقرر فرمایا چنانچہ ابن بریدہ سے روایت ہے کہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا  ہر نبی کے لیے وصی ہوا کرتا ہے اور علی(ع) میرے وصی و وارث ہیں اور امام ترمذی نے پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے آپ نے ارشاد فرمایا : من کنت مولاہ فہذا علی (ع) مولاہ اور امام بخاری نے سعد سے روایت کی ہے کہ جب پیغمبر(ص) غزوہ تبوک میں جانے لگے اور مدینہ میں علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنایا تو علی(ع) نے کہا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا اے علی(ع) کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ہارون (ع) کو موسی(ع) سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ یہ لکھنے کے بعد علامہ رافعی لکھتے ہیں کہ حضرت علی(ع) کو وصی رسول(ص)کہنا اکثر و بیشتر کی زبان پر چڑھا ہوا تھا اور اس کے ثبوت میں انھوں نے مشہور شاعر کثیر عزہ کا شعر نقل کیا ہے ۔ جو ہم انھی صفحات پر درج کررہے ہیں۔

۵۷۵

کثیر بن عبدالرحمن بن الاسود بن عامر الخزاعی جو کثیر عزة کے نام سے مشہور ہیں کہتے ہیں:

وصي‏ النبي‏ المصطفى‏ و ابن عمه‏             و فكاك أغلال و قاضي مغارم.

“ پیغمبر خدا محمد مصطفی (ص) کے وصی اور آپ کے چچا کے بیٹے ہیں غلاموں کو آزاد کرنے والے اور قرضوں کو پورا کرنے والے ہیں۔”

ابو تمام طائی اپنے قصیدہ رائیہ میں کہتے ہیں :

ومن قبله احلفتم لوصيه                      بداهيه دهياء ليس لها قدر

فجئتم بها بکرا عوانا ولم يکن                لها قبلها مثلا عوان ولا بکر

 أخوه إذا عد الفخار و صهره‏               فلا مثله أخ و لا مثله صهر

و شد به‏ أزر النبي‏ محمد             كما شد من موسى بهارونه الأزر

 “ اس کے پہلے تم نے ان کے وصی کو خوفناک مصیبت میں مبتلا کیا جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ تم
نئی نئی مصیبتیں ان کے سامنے لائے ایسی مصیبتیں اس سے پہلے کبھی نہیں آئیں۔ اظہار شرف کے موقع پر علی(ع) رسول(ص) کے بھائی اور داماد ہیں۔ علی(ع) جیسا نہ کوئی بھائی تھا نہ داماد۔ رسول(ص) کی پشت ان کی وجہ سے اس طرح  مضبوط ہوئی جس طرح ہارون(ع) کی وجہ سے موسی(ع) کی پشت مضبوط ہوئی۔”

دعبل بن علی خزاعی حضرت مظلوم کربلا(ع) کو مرثیہ کہتے ہوئے کہتے ہیں :

رأس‏ ابن‏ بنت‏ محمد و وصيّه‏         للرجال على قناة يرفع‏  

“ ہائے لوگو! حضرت محمد مصطفی(ص) کی دختر اور آپ کے وصی
۵۷۶

کے فرزند کا سر اس قابل تھا کہ نیزے پر بلند کیا جائے۔”

ابوالطیب متنبی کو جب لوگوں نے بر بھلا کہا کہ تم ایرے غیرے کی مدح کرتے ہو اور حضرت علی(ع) کی مدح میں تم نے کبھی ایک شعر بھی نہیں کہا تو وہ کہتا ہے :

و تركت‏ مدحي‏ للوصيّ تعمّدا               إذ كان نورا مستطيلا شاملا

و إذا استطال الشي‏ء قام بنفسه‏             و صفات نور الشمس تذهب باطلا

“ میں نے وصی رسول(ص) امیرالمومنین(ع) کی مدح نہ کی تو جان بوجھ کر ایسا کیا کیونکہ وہ ایسا نور ہیں جس کی روشنی عالم میں پھیلی ہوئی ہے اور تمام کائنات کو اپنے حلقہ میں لیے ہوئے ہے۔ جب کوئی شے بلند ہوجاتی ہے تو اپنے بقاء کی خود ضامن بن جاتی ہے ۔ نورِ خورشید کی ثنا و صفت کرنا فعلِ عبث ہے۔( خورشید اپنے وجود کا خود معرف ہے۔)

یہی متنبی ابوالقاسم طاہر بن الحسین بن طاہر علوی کی مدح لکھتے ہوئے کہتا ہے جیسا کہ اس کے دیوان میں موجود ہے:

هو ابن‏ رسول‏ اللّه‏ و ابن وصيه‏              وشبههما شبهت بعد التجارب

“ یہ ابوالقاسم رسول(ص) اور ان کے وصی حضرت علی(ع) کے فرزند ہیں اور ان دونوں سے مشابہ ہیں۔”

میں نے ان کو ان بزرگوں سے جو تشبیہ دی ہے تو بہت کچھ تجربوں کے بعد آراء پرکھ کے یوں ہی نہیں ۔ اس جیسے بہت سے اشعار ہیں جس کی نہ کوئی انتہا ہے نہ مد وحساب۔

                                                     ش

۵۷۷

مکتوب نمبر55

ہم نے سابق کے کسی مکتوب میں آپ سے عرض کیا تھا کہ بعض متعصب اشخاص آپ کے مذہب کے متعلق یہ کہتے پھرتے ہین کہ آپ کا مذہب ائمہ اہل بیت(ع) سے کوئی تعلق نہیں رکھتا نہ ان کی طرف آپ کے مذہب کو منسوب کرنا صحیح ہے ۔ آپ سے اس پر بھی روشنی ڈالنے کا وعدہ تھا۔ اب وقت آگیا ہے آپ وعدہ ایفا فرمائیے۔ ان متعصبین کی بکواس کا جواب دیجیے۔

                                                             س

۵۷۸

جواب مکتوب

مذہب شیعہ کا اہلبیت(ع) سے ماخوذ ہونا

ارباب فہم و بصیرت بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ فرشتہ شیعہ کا سلف سے لے کر خلف تک ابتدا آج کے دن تک اصول دین ، فروع دین ہر ایک میں بس ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی طرف رجوع رہا۔ اصول و فروع اور قرآن وحدیث سے جتنے مطالب مستفاد ہوتے ہیں یا قرآن و حدیث جتنے علوم تعلق رکھتے ہیں غرض ہر چیز میں ان کی رائے کے تابع ہے۔ ان کلی چیزوں میں صرف ائمہ طاہرین(ع) پر انھوں نے بھروسہ کیا۔ انھیں کی طرف رجوع کیا۔

مذہب اہلبیت(ع) ہی کے قاعدوں سے وہ خدا کی عبادت کرتے ہیں اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں اس مذہب کے علاوہ کوئی رہ ہی نظر نظر نہیں آتی اور نہ اس مذہب کو چھوڑ کر اس کے بدلہ میں کسی اور مذہب کو اختیار کرنا انھیں گوارا ہوگا۔

ہر ایک امام کے زمانے میں امیرالمومنین(ع) کے عہد میں ، امام حسن(ع) کے عہد میں، امام حسین(ع) کے عہد میں، امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) کے عہد میں، امام موسی کاظم(ع) و امام علی رضا(ع) کے عہد میں، امام محمد تقی(ع)  وعلی نقی(ع) کے عہد میں، امام حسن عسکری(ع) کے عہد میں ، غرض جس امام کا بھی عہد آیا ان گنت ثقات شیعہ حافظان حدیث ، بے شمار صاحب ورع و ضبط و اتفاق نے جن کی تعداد و تواتر سے بھی بڑھ کر تھی اپنے اپنے زمانے کے امام کی صحبت میں

۵۷۹

 بیٹھ کر ان سے استفادہ کر کے ان اصول و فروع کو حاصل کیا اور انھوں نے اپنے بعد کے لوگوں سے بیان کیا۔ اسی طرح ہر زمانہ اور ہر نسل میں یہ اصول و فروع نقل ہوتے رہے یہاں تک کہ ہم تک پہنچے لہذا ہم بھی اسی مسلک پر ہیں جو ائمہ اہل بیت(ع) کا مسلک رہا کیونکہ ہم نے ان کے مذہب کی ایک ایک چیز جزئی جزئی باتیں اپنے آباء و اجداد سے حاصل کیں، انھوں نے اپنے آباء و اجدادسے حاصل کیں اسی طرح شروع سے یہ سلسلہ جاری رہا ۔ ہر نسل و ہر عہد میں جو دور بھی آیا وہ اپنے اگلے برزگوں سے حاصل کرتا ہوا آیا ۔ آج ہم شمار کرنے بیٹھیں کہ سلفِ شیعہ میں کتنے افراد ائمہ طاہرین(ع) کی صحبت سے فیضیاب ہوئے ، ان سے احکام دین کو سنا ، ان سے استفادہ کیا۔ تو ظاہر ہے کہ شمار کرنا سہل نہیں کس کے بس کی بات ہے کہ ان کا احصار کرسکے۔ اس کا اندازہ لگانا ہوتو آپ ان بے شمار کتابوں سے لگائیے جو ائمہ طاہرین(ع) کے ارشادات و افادات سے استفادہ کر کے لکھی ہیں، ائمہ طاہرین(ع) سے معلوم کر کے ان سے سن کر تحریر کی ہیں۔ یہ کتابیں کیا ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) کے علوم کا دفتر، ان کی حکومتوں کا سرچشمہ ہیں جو ائمہ طاہرین(ع) کے عہد میں ضبط تحریر میں لائی گئیں اور ان کے بعد شیعوں کا مرجع قرار پائیں۔

اسی سے آپ کو مذہب اہلبیت(ع) اور دیگر مذاہب مسلمین میں فرق و امتیاز معلوم ہوجائے گا ۔ ہم کو تو نہیں معلوم کہ ائمہ اربعہ کے مقلدین میں سے کسی ایک نے بھی ان ائمہ کے عہد میں کوئی کتاب تالیف کی ہو۔ ان ائمہ کے مقلدین نے کتابیں لکھیں اور بے شمار لکھیں لیکن اس وقت لکھیں جب ان کا زمانہ ختم ہوگیا انھیں دنیا سے رخصت ہوئے مدتیں گزر گئیں اور تقلید انھیں چاروں ائمہ میں منحصر سمجھ لی گئی۔ یہ لے کر لیا گیا کہ فروع دین میں بس انھیں چاروں اماموں میں سے کسی نہ کسی ایک کی تقلید ضروری ہے۔

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750