تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219117 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

آیت ۲۱

( قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى )

حكم ہوا كہ اسے لے لو اور ڈرو نہيں كہ ہم عنقريب اسے اس كى پرانى اصل كى طرف پلٹاديں گے (۲۱)

۱ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو حكم ديا كہ سانپ بننے والے ڈنڈے كو بغير كسى خوف كے زمين سے اٹھاليں _

قال خذها ولا تخف

۲ _ موسى (ع) سانپ بن جانے والے ڈنڈے كو پكڑنے سے ڈرر ہے تھے _قال خذها ولا تخف

۳ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كواطمينان دلاياكہ سانپ بن جانے والا ڈنڈا پكڑنے كے بعد اپنى اصلى حالت پر پلٹ جائيگا _ولا تخف سنعيدها سيرتها الا ولى

''سيرة'' كا اصل معنى ہے ''سير'' (چلنے ) كى حالت ليكن مجازاً ہر صفت اور حالت پر بولا جاتا ہے_ جملہ ''سنعيدہا سيرتہا'' ميں ''الي'' مقدر ہے او راسكے حذف ہونے كى وجہ سے يہ كلمہ منصوب بنزع الخافض ہوگيا ہے يعنى '' سنعيدہا إلى سيرتہا'' يا''سنعيد إليها سيرتها'' _

۴ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كا سانپ بننا اور پھر اس كا پہلى حالت پر پلٹ آنا، ارادہ خداوندى سے تھا _

سنعيده

۵ _ لوگوں كى آنكھوں سے دور اور وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو معجزہ دكھانا انہيں لوگوں كے سامنے معجزہ پيش كرنے كيلئے زيادہ آمادہ ہونے اور تجربے كى خاطر تھا _*ا لقها خذها ولاتخف

۶ _ معجزے كے قدرتى اور فطرى امور كے ساتھ مرتبط اور وابستہ ہونے كا امكان _

ا لقها فإذا هى حية خذها سنعيدها سيرتها الاُولى

ڈنڈے كے سانپ بننے كو اسكے پھينكنے پر تفريع كي

۴۱

گيا ہے اور پھر سانپ كے ڈنڈا بننے كو اسے حضرت موسى (ع) كے پكڑنے پر_اس مرحلہ بندى سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے _

۷ _ غير خدا سے ڈرنا مقام نبوت كے منافى نہيں ہے_لا تخف

۸ _ مادى چيزيں خداتعالى كے اذن وارادے سے اپنى موجودہ حقيقت سے دوسرى حقيقت ميں تبديل ہوسكتى ہيں _

سنعيدها سيرتها الُاولى

خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كى پہلى حالت كو''سيرتها الاُولى '' سے تعبير كيا ہے_ اور ''سيرتہا الا صلية'' يا ''سيرتہا الحقيقية '' و غيرہ كى تعبيرات كے بجائے اس تعبير كا انتخاب بتاتا ہے كہ مادہ پر آنے والى شكلوں ميں سے كوئي بھى اصل نہيں ہے بلكہ مادہ مختلف شكلوں اور حالتوں كى طرف تبديل ہونے كے قابل ہے _

انبياء:انكا خوف ۷

خوف:موسى (ع) كے ڈنڈے سے خوف ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۴، ۸; اسكے اوامر

وادى طوى :اس ميں معجزے كا فلسفہ ۵

ڈنڈا:اس كا سانپ بننا۲; اسكے سانپ بننے كا سرچشمہ ۴

قدرتى عوامل:ان كا كردار ۶

سانپ:اس كا ڈنڈا بننا ۳;اسكے ڈنڈا بننے كا سرچشمہ ۴

معجزہ:اس ميں مؤثر عوامل ۶

موجودات:انكے تبديل ہونے كا سرچشمہ ۸

موسى (ع) :انكو اطمينان دلانا ۳; ان ميں آمادگى پيدا كرنا ۵; انكا خوف ۲; انكا ڈنڈا ۴، ۵; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵; انكا ڈنڈا پكڑنا ۱، ۳

۴۲

آیت ۲۲

( وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاء مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى )

اور اپنے ہاتھ كو سميٹ كر بغل ميں كرلو يہ بغير بيمارى كے سفيد ہوكر نكلے گا اور يہ ہمارى دوسرى نشانى ہوگى (۲۲)

۱ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو وادى طوى ميں حكم ديا كہ اپنا ہاتھ اپنى بغل كے نيچے لے جائيں اور باہر نكال كر ايك اور معجزے سے آشناہوں _واضمم يدك إلى جناحك اية ا خرى

''جناح'' ہاتھ، بازو، بغل كے نيچے، اور پہلو كے معنوں ميں استعمال ہوتا ہے ( قاموس) فعل ''تخرج''قرينہ ہے كہ آيت كريمہ ميں ''جناح'' سے مراد '' بغل كے نيچے'' ہے كيونكہ بازو اور پہلو سے ہاتھ كے دور ہونے كو ''خروج'' نہيں كہا جاتا_

۲ _ حضرت موسى (ع) كا بازو بغل كے نيچے رہنے كے بعد جب باہر آتا تو اس كا رنگ تبديل جاتا اور سفيد تھا_

تخرج بيضاء

۳ _ حضرت موسى (ع) كے ہاتھ كى سفيدى ايسى تھى كہ جو نقص، بيمارى اور برص شمار نہيں ہوتى تھى _

تخرج بيضاء من غير سوء كلمہ ''سوئ'' ہر آفت اور درد كيلئے استعمال ہوتا ہے اور برص سے بھى كنايہ ہوتا ہے (لسان العرب)_

۴ _ سفيد ہاتھ اور ڈنڈے كا سانپ بننا،حضرت موسى (ع) كى رسالت كو ثابت كرنے كيلئے دو معجزے _

فا لقى ها فإذا هى حيّة تسعى و اضمم يدك اية ا خرى ''آية''(علامت) ''تخرج'' كے فاعل كيلئے حال ہے اور بعد والى آيات كہ جن ميں فرعون كو ہدايت كرنا حضرت موسى (ع) كے ذمے قرار ديا گيا ہے_ كے قرينے سے ''آية'' سے مراد انكى رسالت كى علامت ہے _

۴۳

خداتعالى :اسكے اوامر ۱

موسى (ع) :انكى نبوت كے د لائل ۴; انكا عصا ۴; انكا قصہ۱; انكا معجزہ ۱، ۲، ۴; آپ وادى طوى ميں ۱; ان كے سفيد ہاتھ كى خصوصيات ۳; انكا سفيد ہاتھ ۱، ۲، ۴

آیت ۲۳

( لِنُرِيَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَى )

تا كہ ہم تمھيں اپنى بڑى نشانياں دكھا سكيں (۲۳)

۱ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو ڈنڈے اور سفيد ہاتھ كے معجزوں كا دكھانا آپ كيلئے خداتعالى كے بعض بڑے معجزات نماياں كرنے كيلئے تھا _لنريك من آيا تنا الكبرى

''لنريك'' اس فعل كے متعلق ہے جو ''آية ا خرى '' سے انتزاع ہوتا ہے يعنى آيت لائے لاتے ہيں تاكہ ''من'' تبعيض كيلئے ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ مراد بعض بڑى آيات الہى كا دكھانا ہے _

۲ _ خداتعالى بڑى اور فراوان نشانياں اور معجزات ركھتا ہے كہ جن ميں سے صرف بعض اس نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو دكھائيں _من ء آيا تنا الكبرى

دلالت كرتا ہے كہ خداتعالى قسم و قسم كى آيات اور نشانياں ركھتا ہے كہ سفيد ہاتھ اور ڈنڈے والا معجزہ انكى اعلى اقسام كے نمونے ہيں _

۳ _ انبياء كے ہاتھوں معجزے كا معرض وجود ميں آنا خداتعالى كے اختيار اور اس كے ارادے كے ساتھ ہے _لنريك

فعل ''نريك'' كا جمع ہونا يا تعظيم كيلئے ہے اور يا ان واسطوں كے كردار كو بيان كررہا ہے جو فرمان الہى كو عملى كرتے ہيں _

۴ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے اور سفيد ہاتھ والے معجزے عظيم ترين معجزات الہى اور خدا كى نشانيوں كے دو نمونے ہيں _لنريك من ء آيا تنا الكبرى

۵ _ حضرت موسى (ع) كا ڈنڈے اور سفيد ہاتھ والا معجزہ

۴۴

مستقبل ميں انہيں اس سے بڑے معجزے دكھانے كا ايك پيش خيمہ تھا_لنريك من ء ايتنا الكبرى

چونكہ اس سے پہلى آيت ميں سفيد ہاتھ اور ڈنڈے كا تذكرہ ہوچكا ہے اسلئے ممكن ہے كہا جائے كہ ''لنريك'' ايك نئي بات بيان كررہا ہے اور موسى (ع) كو وعدہ دے رہا ہے كہ يہ دو معجزے ايك پيش خيمہ تھے تا كہ مستقبل ميں آپ كو اس سے بڑے معجزے دكھائے جائيں _

۶ _ كوہ طور ميں معجزے كا اظہار حضرت موسى (ع) كے دل كى تسكين كيلئے تھا _لنريك

موسى (ع) كو معجزہ دكھانانہ صرف انہيں فرعون كے مقابلے ميں مسلح كررہا تھا ''لنريك'' قرينہ ہے كہ خود انكے اپنے اطمينان اور علم ميں بھى اضافہ كررہا تھا _

آيات خدا: ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۳

معجزہ:اسكے درجے ۱، ۲، ۴; اس كا سرچشمہ ۳

موسى (ع) :انكے معجزے كے اثرات ۶; انكے ڈنڈے كى اہميت ۴; ان كے سفيد ہاتھ كى اہميت ۴; انكے اطمينان كے عوامل ۶; انكا قصہ ۱; انكا ڈنڈے والا معجزہ ۵; انكا معجزہ ۱، ۴، ۵; انكا سفيد ہاتھ والا معجزہ ۵; انكے ڈنڈے كا كردار ۱; انكے سفيد ہاتھ كا كردار ۱

آیت ۲۴

( اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى )

جاؤ فرعون كى طرف جاؤ كہ وہ سركش ہوگيا ہے (۲۴)

۱ _ فرعون، خداتعالى كے مقابلے ميں سركش اور طغيان گر تھا _اذهب إلى فرعون إنّه طغى

حضرت موسى (ع) كى رسالت قرينہ ہے كہ فرعون كے طغيان سے مراد، خداتعالى كے مقابلے ميں اسكى سركشى ہے_

۴۵

۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو فرعون كى طرف جانے اور اسے سركشى سے روكنے كا حكم ديا _

اذهب إلى فرعون إنه طغى

۳ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كا تبديل ہونا اور انكا سفيد ہاتھ فرعون كى ہدايت كيلئے دو معجزے اور نشانياں _

ء اية اخري اذهب الى فرعون

۴ _ سركش حكمرانوں كا سامنا كرنے كيلئے لازمى چيزوں كى فراہمى ضرورى ہے _ء اية ا خرى اذهب إلى فرعون إنّه طغى

۵ _ سركشوں كا مقابلہ كرنا انبياء كى رسالت كا اعلى ترين پروگرام ہے _اذهب إلى فرعون إنه طغى

۶ _ سركشى بہت ہى ناروا خصلت ہے اور سركشى كرنے والے راہ خدا كے مقابلے ميں كھڑے ہيں _

اذهب إلى فرعون إنّه طغى

۷ _ سركشى ،سركش لوگوں اور انكے اصلى عوامل كا مقابلہ ضرورى ہے _اذهب إنّه طغى

۸ _ خودسازى دوسروں كى ہدايت كرنے پر مقدم ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة فلايصّدنّك اذهب إلى فرعون إنّه طغى

اخلاق:پست اخلاق ۶

انبياء:انكى اہم ترين رسالت ۵

تبليغ:اسكى اہميت ۸

تذكيہ:اسكى اہميت ۸

خداتعالى :اسكے اوامر ۲; اسكے دشمن ۶

سركشى :اس كا ناپسنديدہ ہونا ۶

سركشى كرنے والے :انكا مقابلہ كرنے كى اہميت ۷; انكى دشمنى ۶; انكے ساتھ مقابلے كى روش ۴; انكے ساتھ مقابلہ كرنا ۵

فرعون:اس كے لئے خدا كى نشانياں ۳; اسكى ہدايت كا پيش خيمہ ۳; اسكى صفات ۱; اسكى سركشي۱; اسكى نافرمانى ۱; اسكى سركشى سے ممانعت ۲

موسى (ع) :انكى رسالت ۲; انكے ڈنڈے كا تبديل ہونا۳_ انكا قصہ ۲; انكے ڈنڈے كا كردار ۳; انكے سفيد ہاتھ كا كردار ۳

۴۶

آیت ۲۵

( قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي )

موسى نے عرض كى پروردگار ميرے سينے كو كشادہ كردے (۲۵)

۱ _ حضرت موسى (ع) اپنى رسالت كو انجام دينے اور فرعون كو سركشى سے روكنے كيلئے بارگاہ خداوندى ميں دعا كے ساتھ اپنے لئے شرح صدر كے خواہاں ہوئے _اذهب قال ربّ اشرح لى صدري

سينے كى كشادگي، بردبارى اور اپنے كنٹرول اور اختيار كو نہ چھوڑنے سے كنايہ ہے _

۲ _ حضرت موسى (ع) اپنى رسالت كى ذمہ دارى كے سنگين ہونے اور فرعون كى ہدايت كى دشوارى كى طرف متوجہ تھے _اذهب قال ربّ اشرح لى صدري

حضرت موسى (ع) كو رسالت كيلئے منصوب كرنے اور انہيں فرعون كى طرف جانے كا حكم دينے كے بعد انكا خداتعالى سے شرح صدر كى درخواست كرنااس چيز كى علامت ہے كہ آپ (ع) اس راہ كو طے كرنے كيلئے مشكلات و موانع اور لازمى روحانى ضروريات كى طرف مكمل توجہ ركھتے تھے_

۳ _ سركشوں كى راہنمائي ،ہدايت اور پيغام الہى كى تبليغ كيلئے شرح صدر اور تحمل كى ضرورت ہوتى ہے _

اذهب قال ربّ اشرح لى صدري

۴ _ شرح صدر انبياء الہى اور دينى مبلغين اور رہبروں كيلئے اہم ترين اور لازمى خصوصيات ميں سے ايك ہے _

قال ربّ اشرح لى صدري

حضرت موسى (ع) نے ديگر چيزوں كے طلب كرنے پر شرح صدر كو مقدم كيا ہے يہ چيز اسكے الہى ذمہ دارى كے انجام پانے ميں اہم كردار كى علامت ہے _

۵ _ شرح صدر خداتعالى كا عطيہ ہے اور اس كا سرچشمہ خداتعالى كا مقام ربوبيت ہے _قال ربّ اشرح لى صدري

۴۷

۶ _ خداتعالى كى ربوبيت كو يادكرنا اور مقدس نام ''رب'' كو زبان پر لانا اسكى بارگاہ ميں دعا كے آداب ميں سے ہے _

قال ربّ اشرح لي

۷ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) نے خداتعالى سے چاہا كہ اسے حقيقت كو قبول كرنے والا قرار دے اور الہى پيغام كے دريافت كرنے كيلئے اسكى طاقت ميں اضافہ فرمائے _ربّ اشرح لى صدري

شرح صدر كا مطلب ہے حق كو قبول كرنے كيلئے سينے ميں گنجائش پيدا كرنا_ (لسان العرب) صدراور قلب، انسان كے نفس سے كنايہ ہے كہ جو فہم و درك ركھتا ہے اور كہتے ہيں صدر ،قلب سے عام ہے كيونكہ يہ عقل و علم كے علاوہ انسان كى قوتوں كو بھى شامل ہے (مفردات راغب) _

۸ _ نبوت اور وحى كو دريافت كرنے كيلئے وسيع ظرف اور كشادہ سينے كى ضرورت ہوتى ہے _قال رب اشرح لى صدري

۹ _ دعا، انبيا كى تربيت و راہنمائي ميں بنيادى كردار ركھتى ہے _رب اشرح لى صدري

انبياء (ع) :انكى خصوصيات ۴

تبليغ :اسكى روش ۳; اس ميں شرح صدر ۳

تربيت:اس ميں مؤثر عوامل ۹

تكامل:اسكے عوامل ۹

حق پرستي:اسكى درخواست ۷

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۵; تعليمات خدا كے فہم كى درخواست ۷; اسكے عطيے ۵

دعا:اسكے اثرات ۹; اسكے آداب ۶

دينى راہنما:انكى خصوصيات ۴

شرح صدر:اسكے اثرات ۸; اكى اہميت ۴; اسكى درخواست ۱; اس كاسرچشمہ ۵

سركشى كرنے والے :

۴۸

انكى اہميت ۳

فرعون:اسكى ہدايت كا سخت ہونا ۲; اسكى سركشى ۱

مبلغين:انكى خصوصيات ۴

موسى (ع) :انكى دعا۱، ۷; انكى رسالت كى سنگينى ۲; انكا قصہ ۱، ۷

نبوت:ا س كا سرچشمہ ۸

وحي:اس كا سرچشمہ ۸

ہدايت:اسكى روش ۳

يادكرنا:ربوبيت خدا كو ياد كرنا ۶

آیت ۲۶

( وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي )

ميرے كام كو آسان كردے (۲۶)

۱ _ حضرت موسى (ع) اپنى رسالت كى انجام دہى كيلئے توفيق اور راستہ ہموار ہونے كے خواہان تھے _ويسّرلى ا مري

۲ _ حضرت موسى (ع) اپنى رسالت كى دشواريوں اور فرعون كى ہدايت كے مشكل ہونے سے آگاہ تھے _و يسّرلى ا مري

۳ _ بڑے اور مشكل كاموں كے راستے كو آسان كرنا اور انكے انجام كى توفيق فراہم كرنا خداوند متعال كے ہاتھ ميں ہے_

ويسّرلى ا مري

۴ _ انبياء كے تبليغى پروگراموں كو آسان كرنا خداوند متعال كى ربوبيت اور اہداف رسالت كو آگے بڑھانے كيلئے اسكى طرف سے خاص توجہ كا جلوہ ہے_رب يسّرلى ا مري

۵ _ تبليغ دين كى مشكلات كے آسان ہونے ميں دعا كا بنيادى كردار ہے _

۴۹

ويسّرلى ا مري

۶ _زندگى كے امور كے آسان ہونے كيلئے دعا كرنا ايك مطلوب امر ہے _ويسّرلى ا مري ہوسكتا ہے ''ا مري'' سے مراد زندگى كے تمام امور ہوں _

انبياء (ع) :انكى مشكلات كو آسان كرنے كا سرچشمہ ۴

تبليغ:سكى مشكلات كو آسان كرنا ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴; اس كا كردار ادا كرنا ۳

دعا:اسكے اثرات ۵، ۶

سختي:اسكے آسان كرنے كى درخواست ۱; اسكے آسان كرنے كا سرچشمہ ۳; اسكے آسان كر نے كا پيش خيمہ ۶

فرعون:اسكى ہدايت كا مشكل ہونا ۲

موسى (ع) :انكى دعا۱; انكى رسالت كا مشكل ہونا ۲; انكا علم ۲; انكى رسالت كى مشكلات ۲

آیت ۲۷

( وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي )

اور ميرى زبان كى گرہ كو كھول دے (۲۷)

۱ _ رسالت سے پہلے حضرت موسى (ع) كى زبان ميں لكنت تھى _و احلل عقدة من لساني

۲ _ حضرت موسى (ع) نے وادى طوى ميں خداتعالى سے درخواست كى كہ اسكى زبان كى لكنت كم كردے اور اسكى سخن كو واضح كردے _

۵۰

و احلل عقدة من لساني

''عقدہ'' نكرہ ہے اور لكنت كى ہر مقدار پر صدق كرتا ہے_ ''من لساني'' ميں ''من'' ہوسكتا ہے تبعيض كيلئے ہو يعنى ''عقدة كائنة من عُقَد لساني''_ يہ سب حكايت كررہا ہے كہ حضرت موسى (ع) كا مطلب اپنى زبان كى لكنت كى ايك مقدار كا دور ہونا تھا اور بعد والى آيت كريمہ بھى قرينہ ہے كہ انكا ہدف اتنى مقدار كا دور ہونا تھا كہ جو انكى كلام كے قابل فہم ہونے ميں كمك كرے_

۳ _ كلام،ا نبياء كا ايك آلہ اور ذريعہ ہے منحرفين اور سركشوں كا مقابلہ كرنے كيلئے _و احلل عقدة من لساني

۴ _ زبان كى گويائي اور سخن كى روانى كا تبليغ دين اور ہدايت كرنے ميں مؤثر كردار ہے_و احلل عقدة من لساني

۵ _ خداتعالى ،امراض او رموجودات كے ہر قسم كے نقص و عيب كو دور كرنے پر قادر ہے _و احلل عقدة من لساني

۶ _ دعا، انسان كى بيماريوں اور آسيب كى شفا ميں مؤثر ہے _و احلل عقدة من لساني

كہاگياہے كہ حضرت موسى (ع) نے بچپن ميں آگ اپنے منہ كے اندر لے جا كر اپنى زبان پر ركھ لى تھى كہ جسكے نتيجے ميں آپ كى زبان ميں لكنت آگئي تھي_

انبياء:انكے مقابلے كا ذريعہ ۳

بلاغت:اس كا كردار ۴

بيماري:اسكى شفا كے عوامل ۶; اسكے دور ہونے كا سرچشمہ ۵

تبليغ:اس ميں مؤثر عوامل ۴

خداتعالى :اسكى قدرت ۵

دعا:اسكے اثرات ۶

سخن:اس كا كردار ۳

سركش لوگ:ان كا مقابلہ كرنے كى روش ۳

فصاحت:اسكے اثرات ۴

۵۱

گمراہ لوگ:انكا مقابلہ كرنے كى روش ۳

موجودات:انكے عيب كو دور كرنے كا سرچشمہ ۵; انكے نقص كے دور كرنے كا سرچشمہ ۵

موسى (ع) :انكى دعا ۲; انكى صفات ۱; انكى زبان كى لكنت ۱، ۲

آیت ۲۸

( يَفْقَهُوا قَوْلِي )

كہ يہ لوگ ميرى بات سمجھ سكيں (۲۸)

۱ _ اپنى زبان كى لكنت كے ٹھيك ہونے كيلئے بارگاہ خداوندى ميں حضرت موسى (ع) كى دعا كا ہدف انكى سخن كا لوگوں كيلئے قابل فہم ہونا تھا _واحلل عقدة من لساني يفقهوا قولي

۲ _ حضرت موسى (ع) ،فرعون كا مقابلہ كرنے ميں اپنے آپ كو اسكے حاميوں كے ايك گروہ كے مقابلے ميں ديكھ رہے تھے اور انكى راہنمائي كيلئے كسى چارے كى تلاش ميں تھے _اذهب إلى فرعون يفقهوا قولي

باوجود اس كے كہ رسالت والے حكم ميں صرف فرعون كا نام تھا ليكن حضرت موسى (ع) اپنى سخن كو سننے والے زيادہ افراد كى پيشين گوئي كررہے تھے اسى لئے انہوں نے صيغہ جمع ''يفقہوا'' استعمال كيا_

۳ _ حضرت موسى (ع) نے لوگوں كى جہالت كو فرعون كى سركشى كى بنياد قرار ديا _يفقهوا قولي

حضرت موسى (ع) كا فرعون كى سركشى كا مقابلہ كرنے كيلئے اسكے حاشيہ نشينوں كو آگاہ كرنے پر انحصار كرنا بتاتا ہے كہ حضرت موسى (ع) فرعون كى كاميابى كى جڑ اسكے حاشيہ نشينوں كى جہالت ميں سمجھتے تھے_

۴ _ مبلغين دين كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اس طرح بات كريں كہ لوگ انكى بات كو سمجھيں اور اسے درك كرسكيں _

يفقهوا قولي

۵۲

۵ _ دين كے مبلغين كيلئے ضرورى ہے كہ وہ لوگوں كو دين كے حقائق سمجھانے كيلئے ضرورى ان وسائل كو فراہم كرنے كى كوشش كريں _يفقهوا قولي

بنى اسرائيل:انكى جہالت كے اثرات ۳

تبليغ:اسكے ذريعے كى اہميت ۵; اس ميں بلاغت ۴; اسكى روش ۴

فرعون:اسكى سركشى كا پيش خيمہ ۳

فرعون كے حاشيہ نشين:انكى ہدايت ۲

مبلغين:انكى ذمہ دارى ۴، ۵

موسى (ع) :آپ كى سوچ۳; آپكى پيشين گوئي ۲; آپكى تبليغ كى روش ۲; آپكى دعا كا فلسفہ ۱; آپكا قصہ۲; آپكى زبان كى لكنت ۱; آپ اور فرعون ۲

آیت ۲۹

( وَاجْعَل لِّي وَزِيراً مِّنْ أَهْلِي )

اور ميرے اہل ميں سے ميرا وزير قرار ديدے (۲۹)

۱ _ حضرت موسى (ع) ،فرعون كى ہدايت و راہنمائي كيلئے اپنى الہى رسالت كو انجام دينے كى خاطر اپنے لئے ايك وزير اور معاون كى ضرورت محسوس كررہے تھے _و اجعل لى وزير وزير اسے كہا جاتا ہے جو اپنے كمانڈر كى سنگين ذمہ داريوں كو اپنے كندھے پر لے لے ( مفردات راغب) _

۲ _ حضرت موسى (ع) ،خداتعالى سے خواہاں ہوئے كہ ان كے خاندان سے انكا وزير اور خليفہ معين كرے _

و اجعل لى وزيراً من ا هلي

۳ _ ضرورى ہے كہ رہبر و سرپرست كا خليفہ و وزير اس كا قابل اعتماد ہو _و اجعل لى وزيراً من ا هلي

بعد والى آيات ميں جملہ''إنّك كنت بن

۵۳

بصيراً'' بتاتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كا اس بات پر انحصار كرنا كہ انكا وزير ان كے خاندان سے ہو اس وجہ سے تھا كہ آپ اپنے خاندان كے اس مقام كے لائق ہونے سے مطلع تھے _

۴ _ ضرورى ہے كہ انبياء كے وزير اور خليفہ كى تعيين خداتعالى كى اجازت اور اسكے نصب كرنے سے ہو_

و اجعل لى وزيراً من ا هلي حضرت موسى (ع) كا اپنے وزير كى تعيين كيلئے خداتعالى سے درخواست كرنا بتاتا ہے كہ اگر انبياء كو خليفہ اور وزير كى ضرورت ہو تو ضرورى ہے كہ وہ پروردگار كے اذن سے ہو اور اسكى طرف سے منصوب ہو_

۵ _ الہى پيغام كو پہچانے ميں حضرت موسى (ع) كى ہمراہى كيلئے آپ كے خاندان ميں لائق افراد موجود تھے_

و اجعل لى وزيراً من ا هلي حضرت موسى (ع) نے اپنى درخواست ميں پہلے ہارون كا نام ذكر نہيں كيا بلكہ كلى طور پر اپنے خاندان سے اپنے وزير كى درخواست كى اس سے پتاچلتا ہے_

حضرت موسى (ع) اپنے خاندان كے ديگر افراد كو بھى اس كام كے لائق سمجھتے تھے ورنہ شروع سے ہى اپنى درخواست ميں حضرت ہارون كا نام ذكر كرتے _

انبياء (ع) :انكے وزير كے منصوب كرنے كا سرچشمہ ۴

خداتعالى :اسكے اذن كے اثرات ۴

فرعون:اسكى ہدايت ۱

خليفہ:اس پر اعتماد ۳

موسى (ع) :انكا خاندان ۲; انكى دعا ۲; انكے خاندان كے فضائل۵; انكى ضروريات ۱; انكا وزير ۱، ۲; انكا ہدايت كرنا ۱

وزير:اس پر اعتماد ۳; اسكى شرائط ۳

۵۴

آیت ۳۰

( هَارُونَ أَخِي )

ہارون كو جوميرا بھائي بھى ہے (۳۰)

۱ _ ہارون، حضرت موسى (ع) كے بھائي تھے اور آپ كو ہارون پر مكمل اعتماد تھا _و اجعل لى وزيراً من ا هليهارون ا خي

۲ _ حضرت ہارون ،وزارت و خلافت كيلئے حضرت موسى (ع) كى طرف سے نامزد _و اجعل لى وزيراً من ا هليهارون ا خي كلمہ ''ہارون'' ،''وزيراً '' كيلئے بدل اور كلمہ -''ا خي''، ''ہارون'' كيلئے عطف بيان ہے _

موسى (ع) :آپ كا بھائي ۱; آپكا وزير ۲

ہارون:ان پر اعتماد ۱; انكے فضائل ۱، ۲

آیت ۳۱

( اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي )

اس سے ميرى پشت كو مضبوط كردے (۳۱)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے بارگاہ خداوندى ميں دعا كى كہ ہارون كو انكا مددگار اور پشت پناہ قرار دے _اشدد به ا زري

''ا زر'' قوت، پشت نيز ضعف كے معنوں ميں استعمال ہوتا ہے ( لسان العرب) اور آيت كريمہ ميں ان ميں سے ہر معنے كا احتمال ہے اور

۵۵

ممكن ہے حضرت موسى (ع) كا مطلوب ، طاقت ميں اضافہ كرنا ، پشت پناہ كا ہونا يا انكى كمزورى كا تدارك كرنے والا اور انہيں طاقت بخشنے ولاہو _

۲ _ حضرت موسى (ع) ، ہارون كى خلافت كو اپنى ذمہ دارى كى انجام دہى كيلئے اپنى قوت ميں اضافے كا باعث سمجھتے تھے _هارون ا خي اشدد به ا زري

۳ _ پيش نظر اہداف كو آگے بڑھانے كيلئے دوسرے لوگوں كى خدمات كے ثمربخش ہونے ميں دعا مؤثر ہے _اشدد به ا زري

حضرت موسى (ع) كى خداتعالى سے يہ درخواست تھى كہ ہارون كو انكى طاقت كا ذريعہ قرار دے ايسى درخواست سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) سمجھتے تھے كہ ہارون كى كوشش كے ثمر بخش ہونے كيلئے انكى دعا اثر ركھتى ہے _

۴ _ تمام علل و اسباب ،خداتعالى سے وابستہ ہيں _اشدد به ا زري

حضرت موسى ،(ع) ہارون سے مددلينے كو بھى خداتعالى سے طلب كرتے ہيں اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تمام علل و اسباب، صرف خداتعالى كى منشاء سے موثر ہيں _

۵ _ طاقت اور مضبوطي، انبياء الہى اور سركشوں كا مقابلہ كرنے والے رہبروں كيلئے لازمى شرط ہے _اشدد به ا زري

۶ _ لائق رہبروں كى تقويت اور انكى كمزوريوں كو دور كرنا كام كے آگے بڑھنے كى لازمى شرط ہے _و اجعلى لى وزيراً ا شدد به ا زري

پيش رفت:اسكے عوامل ۶

خدمات:دوسروں كى خدمات كے مؤثر ہونے كے عوامل ۳

دعا:اسكے اثرات ۳

انبياء الہي:انكى طاقت ۵

دينى راہبر:انكى طاقت ۵

سركشى كرنے والے :انكے مقابلے كى شرائط ۵

منتظمين:انكى تقويت كے اثرات ۶

موسى (ع) :

۵۶

آپ كى سوچ ۲; آپ كى دعا ۱; آپكى تقويت كے عوامل ۱، ۲

ہارون:انكى وزارت كے اثرات ۲; انكا كردار ادا كرنا ۱

يادكرنا:قدرتى عوامل كے وابستہ ہونے كو ياد كرنا ۴

آیت ۳۲

( وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي )

اسے ميرے كام ميں شريك بنادے (۳۲)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى سے درخواست كى كہ فرعون كو پيغام الہى پہچانے كيلئے ہارون كو انكا شريك قرار دے _هرون ا خي و ا شركه فى ا مري

حضرت موسى (ع) نے جس شراكت كى درخواست كى تھى اس سے مراد يہ ہے كہ فرعون اور اسكے حاشيہ نشينوں تك پيغام الہى پہچانے كيلئے ہارون انكے شريك ہوں نہ وحى كے دريافت كرنے ميں كيونكہ حضرت موسى (ع) كو اس ميں تنہا ہونے سے كوئي خوف نہيں تھا _

۲ _ انبياء (ع) كو خداتعالى سے اپنے وزير اور خليفہ كى درخواست كرنے كى اجازت ہے _و اجعل لى وزيراً و ا شركه فى ا مري

۳ _ ايك وقت ميں اور ايك مشتركہ ذمہ دارى كيلئے دو انبياء كى بعثت ممكن ہے _و ا شركه فى ا مري

كہا گيا ہے ''ا مري'' سے مراد نبوت ہے اور جملہ''ا شركه فى ا مري'' ،'' و اجعل لى وزيراً'' سے بڑى درخواست ہے_ يعنى حضرت موسى (ع) نے خلافت كى درخواست كے بعد خداتعالى سے خواہش كى كہ فرعونيوں كو ڈرانے كيلئے ہارون كو بھى نبوت عطا فرمائے تا كہ وہ اس رسالت ميں موسى (ع) كے شريك ہوں _

۴ _ جناب ہارون كو نبوت عطا كرنے ميں حضرت موسى (ع) نے وساطت كى _و ا شركه فى ا مري

۵ _ رسالت ميں جناب ہارون كى نسبت حضرت موسى كا اصل ہونا _و ا شركه فى ا مري

۵۷

۶ _ دعا، دوسروں كے رشد و تكامل ميں مؤثر ہے _و ا شركه فى ا مري

انبياء (ع) :انكى درخواست ۲; انكا شريك ۲; انكا ايك وقت ميں ہونا ۳

تكامل:اسكے عوامل ۶

دعا:اسكے اثرات ۶

موسى (ع) :آپكى نبوت كى اہميت ۵; آپكى دعا ۱; آپكى رسالت كا شريك ۱; آپكا قصہ ۱; آپكا مقام ۵; آپكا كردار ادا كرنا ۴

ہارون (ع) :آپكى نبوت كا پيش خيمہ ۴; آپكا قصہ ۱; آپكا مقام ۵; آپكى نبوت ۵; آپكا كردار ادا كرنا ۱

آیت ۳۳

( كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيراً )

تا كہ ہم تيرى بہت زيادہ تسبيح كرسكيں (۳۳)

۱ _ حضرت موسى ،(ع) مشركين كى باطل افكار سے خداتعالى كى مكرر برائتيں اور كثير تسبيح كو جناب ہارون كے اپنے ہمراہ ہونے ميں سمجھتے تھے _كى نسبّحك كثيرا

حضرت موسى (ع) كو جو فرعون كى ہدايت كيلئے ما مور كيا گيا تھا يہ قرينہ ہے كہ تسبيح سے مراد خداتعالى كے شريك ركھنے اور اسكى ربوبيت اور الوہيت ميں كسى قسم كى محدوديت سے اسكى تنزيہ ہے ''نسبّحك'' كا فاعل موسى (ع) اور ہارون ہيں اور ''كى نسبّحك'' آخرى جملوں كى علت كا بيان ہے كہ جن ميں حضرت موسى (ع) كى طرف سے ہارون كى ہمراہى كى درخواست كا تذكرہ ہے يعنى جناب ہارون كى پشت پنا ہى سے دعوت توحيد كہ جو خداتعالى كے شريك ركھنے سے منزہ ہونے پر مشتمل ہے آگے بڑھے گى _

۲ _ حضرت موسى (ع) مشركين كے مقابلے ميں خداتعالى كى تسبيح و تنزيہ كيلئے اپنے آپ كوشرح صدر اور واضح بيان كا ضرورت مندمحسوس كرتے تھے _رب اشرح لى كى نسبّحك كثيرا

۵۸

ہوسكتا ہے ''كى نسبّحك'' حضرت موسى (ع) كى تمام درخواستوں كى علت كا بيان ہو كہ جن ميں شرح صدر اور زبان كى لكنت كے كم ہونے كى درخواست بھى شامل ہے حضرت موسى (ع) چاہتے تھے كہ خداوند عالم كے بارے ميں گمراہ لوگوں كے توہمات كو رد كرنے كيلئے لازمى توان ركھتے ہوں _

۳ _ عام لوگوں كا خداتعالى كى تنزيہ كى طرف متوجہ ہونا حضرت موسى (ع) اور ہارون كى رسالت كے اہداف ميں سے تھا_

يفقهوا قولي كى نسبّحك كثيرا ممكن ہے كثرت تسبيح سے مراد تسبيح كرنے والوں كى كثرت ہو تو اس صورت ميں ''نسبّحك'' كا فاعل صرف حضرت موسى اور ہارون نہيں ہوں گے _

۴ _ خداتعالى كى زيادہ تسبيح كرنا اور اسے ہر قسم كے نقص و شرك سے منزہ سمجھنا بڑى فضيلت ركھتا ہے_

تسيبح:تسبيح خدا كى اہميت ۱، ۳; تسبيح خدا كى فضيلت ۴

خداتعالى :اسكى تنزيہ كى فضيلت ۴

مشركين:انكے شرح صدر كے اثرات ۲; انكى فصاحت كے اثرات ۲; انكى نبوت كے اہداف ۳; انكى تسبيح ۱; انكى تسبيح كا پيش خيمہ ۲;انكى كوشش كا فلسفہ ۱; انكا ہدايت كرنا ۲

ہارون(ع) :انكى نبوت كے اہداف ۳; انكى تسبيح ۱; انكى وزارت كا فلسفہ ۱

آیت ۳۴

( وَنَذْكُرَكَ كَثِيراً )

اور تيرا بہت زيادہ ذكر كرسكيں (۳۴)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى طرف سے ہارون كيلئے نبوت و رسالت كے مطالبے كا ہدف ،خداتعالى كے ذكر اور اسكى مكرر حمد و ثنا كيلئے زيادہ فرصت حاصل كرنا تھا _و ا شركه فى ا مرى و نذكرك كثيراً كى نسبّحك كثيرا

۲ _لوگوں كے درميان خداتعالى كى ياد كا كثرت سے پھيلنا حضرت موسى و ہارون كے اہداف ميں سے تھا_

يفقهوا قولي و نذكرك كثيرا

۳ _ حضرت موسى (ع) اپنى خوش بيانى اور شرح صدر كو خداتعالى كى كثير ياد كيلئے موقع فراہم ہونے كا سبب سمجھتے تھے_

قال رب اشرح لى صدرى و نذكرك كثيرا

۵۹

ہوسكتا ہے'' و نذكرك'' حضرت موسى (ع) كى طلب كردہ تمام چيزوں كى علت كا بيان ہو كہ جن ميں شرح صدر اور روانى سے بولنے كى درخواست بھى شامل ہے _حضرت موسى (ع) نے اپنى ان دعاؤں كا ہدف ہر كوچہ و گلى ميں اور ہر فرد اور گروہ كو نصيحت كرتے وقت ياد خدا كى توفيق كا زيادہ ہونا بتايا _

۴ _ لوگوں كے ساتھ بات كرتے وقت خداتعالى كى ياد اور ذكر ميں زيادہ مشغول رہنا بہت فضيلت ركھتا ہے اور دين خدا كى ترويج كيلئے انبياء كا شيوہ ہے_و نذكرك كثيرا خلوت ميں خداتعالى كے كثير ذكر اور تسبيح كيلئے حضرت موسى (ع) كو فصيح زبان اور ہارون كى مدد كى ضرورت نہيں تھى _ بنابر اين آپ كا مطلوب خداتعالى كى تسبيح و ياد كا ملاء عام ميں پھيلنا تھا _

۵ _ خداتعالى كے بارے ميں لوگوں كى گمراہ افكار كو دور كرنا خداتعالى كى صفات ثبوتيہ كے بيان پر مقدم ہے _

كى نسبّحك كثيراً و نذكرك كثيرا

حضرت موسى (ع) كى كلام ميں تسبيح كو جو غلط عقائد كا باطل كرنا ہے_ذكر خدا پر مقدم كيا گيا ہے بنابراين تخليہ كا رتبہ تحليہ پر مقدم ہے _

اسماء و صفات:صفات جمال كى اہميت ۵

انبياء (ع) :انكى تبليغ كى روش ۴; انكى سيرت ۴

انسان:اسكے عقائد كو صحيح كرنا ۵

حمد:حمد خدا كى اہميت ۵; حمد خدا كے تسلسل كا پيش خيمہ ۲

شرح صدر:اسكے اثرات ۳

عقيدہ:خدا كے بارے ميں عقيدے كو صحيح كرنا ۵

فصاحت:اسكے اثرات ۳

موسى (ع) :آپ كا حمد خدا كو اہميت دينا۱; آپكا ياد خدا ۱; آپكى نبوت كے اہداف ۲; آپكى سوچ ۳; آپكى دعاؤں كا فلسفہ ۱

ہارون:انكى نبوت كے اہداف ۱، ۲

ياد:ياد خدا كى اہميت ۲، ۴; ياد خدا كا پيش خيمہ ۳

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

"اے علی ؑ! اگر خدا تیرے ذریعے کسی ایک آدمی کی ہدایت کر دے تو یہ تیرے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے کہ جس پر سورج کی روشنی پڑ تی ہے۔"(۱)

۲۷ ۔ ستائیسواں عمل:

ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق امام عصر ؑ کے حقوق ادا کرے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

بحار الانوار میں مروی ہے کہ امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا گیا:

"کیا قائم کی ولادت ہوچکی ہے؟"

فرمایا:

نہیں ، اگر میں انہیں پاتا توساری زندگی ان کی خدمت کرتا رہتا۔"(۲)

مصنف :اے مومنو ! زرا سوچیے!امام صادق ؑ کتنی زیادہ ان کی قدر و منزلت بیان فرما رہے ہیں۔پس اگر آپ امام ؑ کے خادم نہیں بن سکتے تو کم از کم اپنے گناہوں کے ذریعے دن رات انہیں غمگین تو نہ کیجئے۔اگر آپ شہد نہیں دےسکتے تو زہر بھی تو نہ دیں ۔

____________________

۱:- البحار ۸

۲:- بحارالانوار ۵۱/۱۴۸ ح۲۲

۱۰۱

۲۸ ۔ اٹھائیسواں عمل:۔

دعا کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے لیے دعا کرنے سے پہلے اللہ سے امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرے اور پھر اپنے لیے دعا کرے۔ایک تو امامؑ کی محبت اور ان کے حقوق کی ادائیگی بھی اس چیز کا تقاضہ کرتی ہے اور اس کے علاوہ صحیفہ سجادیہ میں موجود دعاء عرفہ میں بھی یہ چیز واضح ہے۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث سے بھی اس امر کی جانب رہنمائی ملتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرنے سے اسی (۸۰) سے زائد دنیوی و اخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

یہ تمام فوائد اپنے مصادر و ادلۃ سمیت میں نے اپنی کتاب "ابواب الجنات " اور " مکیال المکارم"(۱) میں ذکر کیے ہیں۔اوربعض اس کتاب میں بھی گزر چکے ہیں۔

یہ بات طبیعی اور فکری ہے کہ ایک عقل مند شخص یہ فوائداس دعا پر بھی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ جس کے قبول ہونے یا نہ ہونے کا علم بھی نہیں۔ جبکہ امام ؑ کی خاطر دعا کرنا اس کی اپنی دعا کی قبولیت کا سبب بنے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ج۱ ص ۳۷۷ باب۵

۱۰۲

جیسا کہ آداب دعا میں دعا سے پہلے محمد وآل محمد ؑ پر صلوات بھیجنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ اپنے بعد والی دعا کی قبولیت کا سبب بنتا ہے۔(۱)

____________________

۱:- الکافی /۲۴۹۱ باب صلوات ح۱۔(امام صادقؑ:دعا اس وقت تک پردے میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد و آل محمد پر صلوات نہ پڑھی جائے۔

۱۰۳

۲۹ ۔ انتیسواں عمل:۔

امامؑ کے لیے محبت و دوستی کا اظہار کرنا۔

غایۃ المرام میں مروی ہے کہ رسول خدا ؐ حدیث معراج میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپؑ سے فرمایا:

"اے محمد ؐ ! کیا آپ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔پھر فرمایا آگے بڑھیئے۔پس میں آگے بڑھا تو اچانک علی ؑ ابن بی طالبؑ ،اور حسنؑ ،حسین ؑ،محمد بن علی ؑ ،جعفر بن محمدؑ ،موسی بن جعفرؑ ،علی ابن موسیؑ،محمد بن علیؑ، علی بن محمدؑ،حسن بن علی ؑ اور حجت قائمؑ کو دیکھا کہ ان کے درمیان کوکب دری کی طرح چمک رہے تھے۔

میں نے پوچھا اے پروردگار یہ کون ہیں؟

فرمایا:

یہ آئمہ حق ہیں اور یہ قائم ؑ ہیں کہ جو میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام کرنے والے ہیں۔(۱) اور میرے دشمنوں سےانتقام لیں گے۔

اے محمدؐ ان سے محبت کیجئے ۔بے شک میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت کرتا ہوں۔"(۲)

____________________

۱:- یعنی تمام احکام کو ظاہر کریں گے حتی کہ تقیہ کے بغیر عمل کریں گے۔

۲:- غایۃ المرام :۱۸۹ ح۱۰۵ اور ص۲۵۶ ح۲۴

۱۰۴

مصنف : امام ؑ کی محبت کابطور خاص حکم دینے سے(جبکہ تمام آئمہ ؑ سے محبت واجب ہے) یہ پتا چلتاہے کہ ان کی محبت میں اللہ کے اس حکم کے پیچھے کوئی خاص اور معین خصوصیت ہے۔اور ان کے وجود مبارک میں ایسی صفات ہیں جو اس تخصیص کا تقاضا کرتی ہیں۔

۳۰ ۔ تیسواں عمل: ۔

امام ؑ کے انصار اور ان کےخادموں کے لیےدعا کرنا۔

جیسا کہ یونس بن عبد الرحمٰن کی دعا میں آیا ہے کہ جو پہلے گزر چکی ہے۔(۱)

۳۱ ۔ اکتیسواں عمل:

امام ؑ کے دشمنوں پر لعنت کرے۔

جیسا کہ بہت سی روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔اور امام ؑ سے وارد ہونے والی دعا میں بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔(۲)

۳۲ ۔ بتیسواں عمل:۔

اللہ سے توسل کرنا ۔

____________________

۱:- جمال الاسبوع ص۳۱۳

۲:- الاحتجاج : ۲/۳۱۶

۱۰۵

تاکہ وہ ہمیں امام ؑ کے انصار میں سے قرار دے۔جیسا کہ دعا عہد وغیرہ میں وارد ہوا ہے۔

۳۳ ۔ تینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلندکرنا:

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلند کرے بالخصوص عام محافل و مجالس میں ۔ اس میں ایک تو شعائر اللہ کی تعظیم ہے اور اس کے ساتھ امام صادقؑ سے مروی دعا ندبہ کے بعض فقرات سے اس کا مستحب ہونا ظاہر ہوتا ہے۔(۱)

۳۴ ۔ چونتیسواں عمل:۔

آپؑ کے اعوان وانصار پر صلوات بھیجنا۔

یہ بھی ان کے لیے دعا ہی کی ایک صورت ہے۔صحیفہ سجادیہ کی دعا عرفہ اور بعض دیگر مقامات میں یہی و ارد ہوا ہے۔

۳۵ ۔ پینتیسواں عمل :۔

امام ؑ کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف بجا لانا۔

____________________

۱:- عبارت یہ ہے: دعا و استغاثہ کے وقت آواز بلند کرو۔

۱۰۶

کتاب مکیال المکارم میں اس کی دلیل بیان کی ہے۔(۱) یہاں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ذکر نہیں کر رہا۔

۳۶ ۔ چھتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج بجا لانا۔

۳۷ ۔ سینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج کرنے کے لیے نائب بھیجے۔

اس کی دلیل وہی ہے جو پہلے خرائج(۲) میں حدیث مروی ہے۔اسے میں نے مکیال المکارم(۳) میں ذکر کیا ہے اور یہ النجم الثاقب(۴) میں بھی موجود ہے۔

۳۸ ۔ اڑھتیسواں عمل:۔

روزانہ کی بنیاد پر یا ہر ممکن وقت میں امام ؑ سے تجدید عہد و تجدید بیعت کرنا۔

جان لیجئے کہ اہل لغت کے ہاں بیعت کا معنی یہ ہے: کسی کام پر عہد اور اتفاق کرنا۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۱۶

۲:- الخرائج والجرائح : ۷۳

۳:- مکیال المکارم : ۲/۲۱۵

۴:- النجم الثاقب: ص۷۷۴ (فارسی)

۱۰۷

امام ؑ کے ساتھ عہد اور بیعت کا معنی یہ ہے کہ :

مومن اپنی زبان سے اقرار کرے اور دل سے پختہ عزم کرے کہ وہ امام ؑ کی مکمل اطاعت کرے گاار وہ جب بھی ظہور فرمائیں گے ان کی نصرت و مدد کرے گا۔

دعا عہد صغیر جو پیچھے گزر چکی ہے اور دعا عہد کبیر جو آگے آئے گی ان دونوں میں بیعت کا یہی معنی ظاہر ہوتا ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی شخص کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اس عنوان سے کہ یہ امامؑ کی بیعت ہے تو یہ ایک گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ یہ طریقہ قرآن و روایات معصومین ؑ میں سے کسی میں بھی بیان نہیں ہوا ہے۔ ہاں اہل عرب میں یہ بات مشہور تھی کہ ایک شخص اپنا ہاتھ دوسرے کہ ہاتھ پر رکھ کر اس کے ساتھ واضح صورت میں عہد و بیعت کا اظہار کرتا تھا۔

بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا ؐ نے بیعت کے مقام پر مصافہ کیا۔ پھر اپنامبارک ہاتھ پانی کے ایک برتن میں ڈال کرنکال لیا اور پھر مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈالیں ۔ لیکن یہ کام اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ بیعت کی یہ شکل و صوارت ہر زمانے حتی امام ؑ کی غیبت کے زمانےمیں بھی جائز ہے۔بلکہ بعض احادیث سے ظاہر ہوتاہے کہ جہاں امام یا نبی سے بیعت کرنا ممکن نہ ہو وہاں زبانی اقرار اور دل سے عزم کرنے

۱۰۸

پر اکتفاء کرنا واجب ہے۔اس مسئلہ میں ایک مفصل حدیث موجود ہے جسے علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔

انہی میں سے ایک تفسیر البرہان میں امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ رسول خداؐ نے امیرالمومنینؑ کو اپنا خلیفہ بنانے کے بعد ان کے بہت سے فضائل بیان کیے اور پھر فرمایا:

"اے لوگو! تم اس سے زیادہ ہو کہ میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ سکو(بیعت کر سکو) اور اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہاری زبانوں سے علیؑ کے امیرالمومنین ہونے کا اور ان کے بعد آنے والے آئمہ کا اقرار لوں کہ جو مجھ سے ہیں اور ان(علیؑ) سے ہیں۔جیسا کہ میں نے تمہیں بتا دیا کہ میری زریت علی ؑ کی صلب سے ہے۔پس تم سب یوں کہو: آپؐ نے امیرالمومنین علیؑ اور ان کی اولاد سے آنے والے آئمہؑ کے بارے میں ہمارے اور آپؐ کے رب کا جو حکم پہنچا دیا ہے ہم نے اسے سنا،اطاعت کی اور اس پر راضی ہیں اور سر تسلیم کرتے ہیں۔۔۔الخ

پس اگر امام کی بیعت کے عنوان سے کسی غیر امام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا جائز ہوتا تو پھر رسولؐ لوگوں کو حکم دیتے کہ ہر گروہ اکابرین صحابہ میں سے کسی ایک کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے ۔ جیسے سلمان ،ابوزر وغیرہ۔پس جب ایسا نہیں ہوا تو یہ عمل خود نبی و امام کے زمانہ ظہور کےعلاوہ صحیح نہیں۔جہاد کی طرح کہ جو امام ؑ کے زمانہ ظہور کے ساتھ مختص ہے۔

۱۰۹

اس کے علاوہ یہ بھی مد نظر رہے کہ کسی کتاب کی کسی روایت میں یہ بات وارد نہیں ہوئی کہ آئمہؑ کے زمانہ میں کچھ مسلمانوں نے آئمہ ؑ کے بڑے صحابہ میں سے کسی کے ہاتھ بیعت کی ہواس عنوان سے کہ خود آئمہ ؑ نے ان کے بارے یہ حکم دیا ہےاور ہم اس معاملے میں ان سے مدد لے رہے ہیں۔

۳۹ ۔ انتالیسواں عمل:۔

بعض فقہاء مثلا محدث شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں لکھا ہے کہ :

امام مہدیؑ کی نیابت میں آئمہ معصومین کی قبورکی زیارت کرنا مستحب ہے۔(۱)

۴۰ ۔ چالیسواں عمل:۔

اصول کافی میں مفضل سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے:

"اس صاحب امر کی دوٖغیبتیں ہیں۔ان میں سے ایک اپنے اہل کی طرف پلٹ جائے گی۔اور دوسری کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ ہلاک ہوگئے یا کس وادی میں چلے گئے۔میں نے عرض کیا: جب ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ فرمایا:

____________________

۱:- وسائل الشیعہ ج۱۰ ص۴۶۴ ح۱

۱۱۰

جب کوئی مدعی اس بات کا دعوی کرےتو اس سے ایسے سوال کرو کہ جس کا جواب ان جیسی شخصیت دے سکتی ہو۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اس سے ایسے امور کے بارے سوال کریں کہ جن پر لوگوں کا علم نہیں پہنچ سکتا۔مثلا ماں کے رحم میں جنین کے بارے کہ مذکر ہے یا مؤنث ہے؟ اور کس وقت ولادت ہوگی؟ اور ان چیزوں کے بارے میں کہ جنہیں آپ اپنے دلوں میں چھپائے رکھتے ہیں کہ جنہیں صرف اللہ جانتا ہے۔اور حیوانات و جمادات کے ساتھ کلام کرنا۔اور ان کا گواہی دینا کہ یہ سچا ہےاور اس امر میں برحق ہے۔جیسا کہ ایسی چیزیں آئمہ سے کئی بار صادر ہوئی ہیں۔اور کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہیں۔

۴۱ ۔ اکتالیسواں عمل:۔

غیبت کبری کےدوران جو شخص امام کی نیابت خاصہ کا دعوی کرے اسے جھٹلانا۔

یہی بات کمال الدین اور احتجاج میں امامؑ کی توقیع شریف میں مذکور ہے۔

۴۲ ۔ بیالیسواں عمل:۔

امام کے ظہور کا وقت معین نہ کرنا۔

____________________

۱:- الکافی ج۱ ص۳۴۰

۱۱۱

جو شخص ایسا کرے اسے جھٹلانا اور اسے کذاب (جھوٹا) کا نام دینا۔امام صادق ؑ کی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے محمد بن مسلم سے فرمایا:

"لوگوں میں سے جوشخص تمہارے سامنے کسی چیز کا وقت معین کرے تو اس کوجھٹلانے سے مت گھبراؤ کیونکہ ہم کسی کے لیے وقت معین نہیں کرتے۔"(۱)

ایک اور حدیث میں فضیل سے رویت ہے کہ انھوں نے فرمایا:

میں نے امام باقر سے عر ض کیا : کیا اس امر (ظہور مہدیؑ ) کا کوئی وقت معین ہے؟

تو امام نے فرمایا:

وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(۲)

اور کمال الدین میں امام رضا ؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: مجھے میرے باپ نے ،انہوں نے اپنےباپ سے، انہو ں نے اپنے آباء سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول خدا ؐ سے پوچھا گیا کہ اے رسول خداؐ۔ آپ کی زریت میں سے قائم کب ظہور فرمائیں گے؟ تو فرمایا: ان کی مثال اس گھڑی کی سی ہے جس کے بارے اللہ نے فرمایا:

____________________

۱:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲ اورانہوں نے بحارالانوار ۵۲/۱۰۴ ح۸ سے

۲:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲

۱۱۲

لا يُجَلِّيها لِوَقْتِها إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّماواتِ وَالأْرْضِ لا تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَة

"وہی اس کو بروقت ظاہر کردے گا یہ قیامت زمین و آسمان دونوں کے لیے گراں ہے اور تمہارے پاس اچانک آنے والی ہے"۔(۱)

۴۳ ۔ تینتالیسواں عمل:۔

دشمنوں سے تقیہ کرنا:

واجب تقیہ یہ ہے کہ جب بندہ مومن کو عقلا اپنی جان یا اپنے مال یا اپنی عزت پر کسی ضرر اور نقصان کا خوف ہو تو وہ حق کو ظاہر کرنے سے خود کو روک لے۔ بلکہ اگر اپنی جان،مال یا عزت کی حفاظت کے لیے اپنی زبان سے مخالفوں کی موافقت بھی کرنی پڑے تو یہ بھی کر دینی چاہیے۔لیکن ضروری ہے کہ اس کا دل اس کی اس زبانی بات کے مخالف ہو۔

کمال الدین میں امام رضا ؑ سےمروی ہے کہ فرمایا:

"جس کے پاس پرہیزگاری نہیں اس کا دین نہیں اور جس کے پاس تقیہ نہیں اس کا ایمان نہیں ۔تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ صاحب عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقیہ پر عمل پیرا ہو"۔

پوچھاگیا : اے فرزند رسولؐ : کس وقت تک تقیہ کریں؟

فرمایا:

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۳ اور آیۃ سورۃ اعراف ۱۸۷

۱۱۳

"وقت معلوم کے دن تک۔اور یہ وہ دن ہے کہ جس میں ہم اہل بیتؑ کے قائم ظہور فرمائیں گے۔پس جس نے ظہور قائمؑ سے پہلے تقیہ ترک کر دیا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"(۱)

تقیہ کے وجوب پربہت سی روایات موجود ہیں۔ اور جو میں نے تقیہ کا معنی پیش کیا یہ وہی معنی ہے جو کتاب الاحتجاج کے اسی باب میں امیرالمومنینؑ کی حدیث میں مذکور ہے۔ امام ؑ نے اس حدیث میں تقیہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ تقیہ ترک کرنے میں تمہاری ذلت ہے اور تمہارے اور مومنین کے خون بہے جانے کا سبب ہے۔۔۔۔الخ(۲)

خصال میں شیخ صدوق نے سند صحیح کے ذریعے امام باقر ؑ سے روایت کی ہے کہ امیر المومنینؑ نے فرمایا:

"دنیا کی مضبوطی چار چیزوں سے ہے:(۳)

۱۔اس عالم سے جو بولنے والا اور اپنے علم پر عمل کرنے والا ہو۔

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۱

۲:- امیر المومنین کی ایک طویل حدیث ہے کہ جس سے ہم نے اپنی ضرورت کا مطلب لیا ہے۔ فرمایا: بچو اس وقت سے کہ تم تقیہ ترک کر دو کہ جس کا میں نےتمہیں حکم دیا تھا کہ اس سے تمہارا اور تمہارے بھائیوں کا خون بہے گا۔۔۔الاحتجاج طبرسی۱/۳۵۵

[۳:- یعنی دین اسلام کا قیام ان چار چیزوں پر موقوف ہے۔

۱۱۴

۲۔اس غنی سے جو دینداروں پر فضل کرنے میں کنجوسی نہیں کرتا۔

۳۔ اس فقیر سے کہ جو اپنی دنیا کے بدلے اپنی آخرت نہیں بیچتا۔

۴۔اس جاہل سے جو علم حاصل کرنے میں تکبر نہیں کرتا۔

پس جب عالم اپنا علم چھپانے لگے،غنی اپنے مال میں کنجوسی کرنے لگے ،فقیر اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالے،اور جاہل طلب علم سے تکبر کرنے لگے تو دنیا پیچھے کی جانب پلٹ جائے گی۔پھر تمہیں مال کی کثرت اور قوم کا مختلف ٹکڑوں میں بکھرا ہونا تعجب میں نہ ڈالے۔

پوچھا گیا:

اے میرالمومنین ؑ اس زمانے میں زندگی کیسے گزاریں ؟

فرمایا:

ظاہر میں ان کے ساتھ مل کر رہو لیکن باطن میں ان کے مخالف رہو۔ آدمی جو کچھ کماتا ہے اسے وہی ملتا ہے اور جس کے ساتھ محبت کرتا ہے وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا۔اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے فرج(کشائش) کا انتطار کرو۔(۱)

____________________

۱:- الخصال ص۱۹۷ ح۵

۱۱۵

اس باب میں بہت سی روایات ہیں جن میں سے کچھ میں نے اپنی کتاب مکیال المکارم(۱) میں ذکر کی ہیں۔

۴۴ ۔ چوالیسواں عمل:۔

گناہوں سے حقیقی توبہ کرنا:

اگرچہ درست ہے کہ حرام اعمال سے توبہ کرنا ہر زمانے میں واجب ہے لیکن اس زمانے (زمانہ غیبت) میں اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ حضرت صاحب الامر ؑ کی غیبت اور اس کے طولانی ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہمارے بہت بڑے اور کثیر گناہ ہیں۔پس یہ گناہ ظہور میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ جیسا کہ بحارالانوار میں امیر المومنین ؑ سے روایت ہے اور اسی طرح امام ؑ کی ایک توقیع مبارک کہ جواحتجاج میں مروی ہے کہ فرمایا:

"ہمیں ان سے کوئی چیز روکے ہوئے نہیں ہے سوائے ہم تک پہنچنے والے (وہ اعمال) کہ جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں اور ان سے ان اعمال کا سر زدہونا پسند نہیں کرتے ۔"(۲)

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۸۴

۲:- الاحتجاج ۲/۳۲۵ اور انہوں نے بحارالانوار ۵۳/۱۷۷ سے

۱۱۶

تو بہ یہ ہے کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر پشیمان ہو کر مستقبل میں انہیں ترک کرنے کا عزم کرنا۔ اس کی علامت یہ ہے کہ جو واجبات چھوڑے ہیں (انہیں ادا کرکے)ان سے اپنا ذمہ بری کرانا،اور اپنے ذمے لوگوں کے جو حقوق باقی ہوں انہیں ادا کرنا اور گناہوں کی وجہ سے اپنے بدن پر بڑھے ہوئے گوشت کو ختم کرنا اور عبادت کی اس قدر مشقت برداشت کرنا کہ گناہوں کی لذت بھول جائے۔اور یہ چھ کام انجام دینے سے توبہ کامل ہوجاتی ہےاور ویسی توبہ بن جاتی ہے کہ جیسی امیرالمومنینؑ سے متعدد کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔

پس اپنے نفس کو خبر دار کرو اوریہ نہ کہو کہ بالفرض اگر میں توبہ کر بھی لوں پھر بھی بہت سے لوگ توبہ نہیں کر یں گے پس امام ؑ کی غیبت جوں کی توں باقی رہے گی۔ پس تمام لوگوں کے گناہ امام ؑکی غیبت کو بڑھاتے ہیں اور ظہور میں تاخیر کا سبب ہیں۔

تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ : اگر ساری مخلوق امامؑ کے ظہور میں تاخیر کا سبب ہے تو آپ اپنے نفس کی طرف دیکھیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تونہیں ہے مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ بھی ویسے ہی شمار نہ ہونے لگیں جیسے ہارون رشید نے امام موسی کاظم ؑ ،مامون نے امام رضاؑ کو اور متوکل نے امام علی نقی ؑ کو سامرء میں قید کیے رکھا۔

۱۱۷

۴۵ ۔ پینتالیسواں عمل:۔

روضۃ الکافی میں امام صادقؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: "جب تم میں سے کوئی قائم ؑ کی تمنا کرے تو اسے چاہیے کہ عافیت میں تمنا کرے کیونکہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت بنا کر بھیجا تھا اور قائم ؑ کو انتقام لینے والا بنا کر بھیجے گا۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اللہ سے دعا کریں کہ ہم امامؑ سے اس حال میں ملاقات کریں کہ ہم مومن ہوں اور آخری زمانے کی گمراہیوں سے عافیت میں ہوں تاکہ ہم امام ؑ کے انتقام کا نشانہ نہ بن جائیں۔

۴۶ ۔ چھیالیسواں عمل:۔

لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دینا۔

مومن کو چاہیے کہ لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دے۔ ان کے سامنے امام ؑ کے لوگوں پر احسان ، ان کی برکات ،ان کے وجود کے فائدے ،اور ان کی لوگوں سے محبت جیسی باتیں بیان کرکے انہیں امامؑ سے محبت کی طرف

____________________

۱:- الکافی ۸/۲۳۳ ح۳۰۶

۱۱۸

بلائے اور انہیں ان اعمال کی تشویق دلائے کہ جن سے امامؑ کی محبت حاصل کی جاتی ہے۔

۴۷ ۔ سینتالیسواں عمل:۔

امام ؑ کا زمانہ غیبت طویل ہونے کی وجہ سے دل سخت نہ کریں بلکہ مولا کی یاد سے دلوں کو نرم و تروتازہ رکھیں۔اللہ رب العالمین نے قرآن کی سورہ حدید میں فرمایا ہے:

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَما نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

"کیا مومنین کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا سے اور نازل ہونے والے حق سے نرم ہو جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ایک طویل مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئےاور ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں۔"(۱)

اور برہان میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے(۲) کہ آپ نے فرمایا: یہ آیۃ

____________________

۱:- سورۃ حدید :۱۶

۲:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۱

۱۱۹

وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

(ان لوگوں کی طرح نہ ہونا کہ جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت طویل ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اوران میں سے اکثر فاسق ہیں )

زمانہ غیبت کے لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے۔

پھر فرمایا:

اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الأْرْضَ بَعْدَ مَوْتِها

جان لو کہ اللہ زمین کو مردہ ہونے کے بعد پھر زندہ کرے گا۔

امام محمد باقر ؑ نے "زمین کے مردہ ہونے " کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد اہل زمین کا کفرہے اور کافر مردہ ہوتاہے۔اللہ اسے قائم کے ذریعے زندہ کرے گا۔پس وہ زمین میں عدل قائم فرمائیں گے پس زمین زندہ ہو جائےگی اور اہل زمین بھی مردہ ہونے کے بعد زندہ ہو جائیں گے۔(۱)

اور کمال الدین میں امیرالمومنین ؑ سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ فرمایا:

"ہمارے قائم کے لیے ایسی غیبت ہے کہ جس کی مدت طویل ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں شیعہ ان کی غیبت میں ریوڑ کی طرح سرگرداں ہیں ۔وہ چراگاہ کی

____________________

۱:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750