تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218980 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اور جب یہود سے کہا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ہے اس پرایمان لاؤ،تو انھوں نے کہا : جو کچھ ہم لوگوں پر نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر نازل نہیں ہوا ہے ہم اس کے منکر ہیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ہے اور انبیاء کی کتابوں میں موجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ہے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ہیں اوران کے پاس ہیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ہو تو پھر کیوں اس سے پہلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ہو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ہم ایمان لائے ہیں جب کہ حضرت موسیٰ روشن علامتوںاور آیات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ہوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی نازل کی ہیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نہیں ہوگا۔

اگر یہود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اہل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم مسلمانوںپر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ہو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ہے خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔بہت سارے اہل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰہی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ہوئی ہے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ہے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ہو چکاہے!یہ تم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبہشت سے محروم رہو گے؛کہو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یہاں محفوظ ہے اور یہود ونصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یہود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ہے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یہود اور پیغمبر کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ہم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمہاری انتظار آمیز نگاہوں سے باخبر ہیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ہوجاؤگے۔

۴۱

(اے رسول! )تم جہاں کہیں بھی ہو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اہل کتاب،یہود جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ہیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ہے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کہیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ہے؟کہوحکم ،حکم خدا ہے مشرق و مغرب سب اسکا ہے جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یہود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ آیایہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ہے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ہیں یا نہیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں یا نہیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ہوا تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ہوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں خدا کے نزدیک برباد نہیں ہوں گی۔

اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورۂ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ہے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ہوناہے، اس نزاع کی تفصیل سورۂ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ہے۔

اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ (یہود مدینہ کی داستان میں ) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ہونا ہے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ہے)

راغب اصفہانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میں صحیح راستہ اختیار کیاہے وہ فرماتے ہیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ہے آیت ہے، چاہے وہ ایک کامل سورہ ہو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ہوں ۔

لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یہی ہے کہ جس کا تذ کرہ ہم نے کیا ہے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۴۲

۴

حضرت موسیٰ ـ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص ہے

حضرت موسیٰ کی شریعت جس کا تذکرہ توریت میں آیا ہے بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،جیسا کہ سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں آیا ہے:

''موسیٰ نے ہم کو ایک ایسی سنت کا حکم دیا ہے جو کہ جما عت یعقوب کی میراث ہے''

یعنی موسیٰ نے ہمیں ایک ایسی شریعت کا حکم دیا ہے جو کہ جماعت یعقوب یعنی بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،گزشتہ آیات میں بھی اس خصوصیت کا ذکر ہوا ہے ،آئندہ بحث میں انشاء ﷲ امر نسخ کی بسط وتفصیل کے ساتھ تحقیق و بررسی کریں گے۔

حضرت موسیٰ ـکی شریعت میں نسخ کی حقیقت

اس بحث میں ہم سب سے پہلے قرآن سے( زمانے کے تسلسل کا لحاظ کر تے ہو ئے )بنی اسرائیل کی داستان کا آغا ز کر یں گے، پھر ان کی شریعت میں نسخ کے مسئلہ کو بیان کریں گے ۔

۴۳

اوّل:بنی اسرائیل کو نعمت خدا وندی کی یاد دہانی

۱۔خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:( یا بنی اسرائیل أذکر وانعمتی التی أنعمت علیکم و أنی فضّلتکم علی العالمین..و اِذ نجّینا کم من آل فرعون یسومو نکم سوء العذاب یذ بحون أبناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذلکم بلاء من ربکم عظیم) (و أذفرقنا بکم البحر فانجیناکم وأغرقنا آل فرعون و ٔنتم تنظرون و أذ واعدناموسیٰ أربعین لیلة ثم ٔاتخذتم العجل من بعده و أنتم ظالمون ) ( ۱ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیںہم نے تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو اور یہ کہ ہم نے تم کو عالمین پر برتری اور فضیلت دی ہے...اورجب ہم نے تم کو فرعونیوں کے خونخوارچنگل سے آزادی دلائی وہ لوگ تمہیں بری طرح شکنجہ میں ڈالے ہوئے تھے تمہارے فرزندوں کے سر اڑا دیتے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے عظیم امتحان تھا اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگاف کیا اور تمھیں نجات دی اور فرعونیوں کوغرق کر ڈالا ،درانحالیکہ یہ سب کچھ تم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے اور جب موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعدہ کیا پھر تم لوگوں نے اس کے بعد گو سالہ کا انتخاب کیا جب کہ تم لوگ ظالم وستم گر تھے۔

۲۔سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:( وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علیٰ أصنام لهم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا اِلٰهاً کما لهم آلهة قال انکم قوم تجهلون ) ( ۲ )

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا راستے میں ایسے گروہ سے ملاقات ہوئی جو خضوع خشوع کے ساتھ اپنے بتوں کے ارد گرد اکٹھا تھے، تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ان کے خداؤں کے مانند کوئی خدا بنا دو ،انہوں نے فرمایا:سچ ہے تم لوگ ایک نادان اور جاہل قوم ہو۔

۳۔ سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے:( و اضلّهم السامری فکذٰلک القی السّامریفاخرج لهم عجلًا جسداً له خوار فقالو هذا اِلهکم واِلٰه موسیٰ و لقد قال لهم هارو ن من قبل یا قوم اِنّما فتنتم به و اِنَّ ربّکم الرحمن فا تبعونی وأَطیعوا أَمریقالو لن نبرح علیه عاکفین حتّیٰ یرجع اِلینا موسیٰ )

اورسامری نے انھیں گمراہ کر دیا ...اور سامری نے اس طرح ان کے اندر القاء کیا اور ان کے لئے گوسالہ کا ایسا مجسمہ جس میں سے گو سالہ کی آواز آتی تھی بنادیا تو ان سب نے کہا :یہ تمہارا اورموسیٰ کا خداہے... اور اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا : اے میری قوم والو! تم لوگ اس کی وجہ سے امتحان میں مبتلا ہو گئے ہو ، تمہارا رب خدا وند رحمان ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم و فرمان کی اطاعت کرو ، کہنے لگے :

____________________

(۱)بقرہ۴۷،۴۹،۵۰،۵۱(۲) اعراف۱۳۸

۴۴

ہم اسی طرح اس کے پابند ہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ کر آ جائیں۔( ۱ )

۴۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا :

( واِذْ قال موسیٰ لقومه یا قوم أنّکم ظلمتم انفسکم باتّخاذکم العجل فتو بوا ألی بارئکم فاقتلوا أنفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم أنّه هو التوّاب الرّحیم ) ( ۲ )

اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم !تم نے گوسا لہ کا انتخاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذا تو بہ کرو اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کیونکہ یہ کام تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر ہے پھر خدا وند عالم نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

دوم : توریت اور اس کے بعض احکام :

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ بقرہ میں فرماتا ہے :

( واِذ أخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطّور خذوا ما آتینا کم بقوّة و اذ کروا ما فیه لعلّکم تتقون ) ( ۳ )

اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے او پر قرار دیا ( اور تم سے کہا) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ا سے محکم طریقے سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔ سورۂ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے:

( وآتینا موسیٰ الکتاب وجعلناه هُدیً لبنی اسرائیل.. ) .)( ۴ )

اورہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ۔

۳۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

( کلّ الطعام کان حلًا لبنی اسرائیل اِلّا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل أن تنزّل التوراة... ) ( ۵ )

کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جزان اشیاء کے جنہیںخوداسرائیل (یعقوب)

____________________

(۱)طہ ۸۵ ،۹۱ .(۲)بقرہ ۵۴ (۳)بقرہ ۶۳،اس مضمون سے ملتی جلتی آیتیں سورہ بقرہ کی ۹۳ ویں آیت اور سورئہ اعراف کی ۱۷۱ویں آیت میں بھی آئی ہیں )

(۴)اسرائ۲ (۵)آل عمران ۹۳

۴۵

نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔

۴۔ سورۂ انعام میں فرمایا :

( و ماعلی الذین هادوا حرّمنا کلّ ذی ظفر من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما الا ماحملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و انّا لصاد قون ) ( ۱ )

یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن دار حیو ا نوں کو حرام کیا ، گائے اورگوسفند سے ا ن کی چربی ان پر حرام کی جزاس چربی کے جو ان کی پشت پر ہو یا جو پہلو میں ہو یا جو ہڈیوں سے متصل اورمخلوط ہو یہ ان کی بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے انھیں اور سزا کا مستحق قرار دیا اور ہم سچ کہتے ہیں۔

۵۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و علٰی الذین هادوا حرّمنا ما قصصنا علیک من قبل و ما ظلمنا هم و لکن کانوا أنفسهم یظلمون ) ( ۲ )

اورہم نے جن چیزوں کی اس سے پہلے تمہارئے لئے تفصیل بیان کی ہے ،ان چیزوں کویہود پر حرام کیا؛ ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا ،بلکہ ان لوگوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے۔

۶۔سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَسَْلُکَ َهْلُ الْکِتَابِ َنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَائِ فَقَدْ سََلُوا مُوسَی َکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا َرِنَا ﷲ جَهْرَةً فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ... (۱۵۳) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِم.... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وََخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (۱۵۴) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمْ الَْنْبِیَائَ (۱۵۵) وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا (۱۵۶) فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ ﷲ کَثِیرًا (۱۶۰) وََخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وََکْلِهِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.... ) ( ۳ )

اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو ؛ انھوں نے توحضرت موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کی خواہش کی تھی اور کہا تھا : خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھا ؤ لیکن ہم نے انھیں در گزر کر دیا ...اور ہم نے ان کے عہد کی خلاف ورزی کی بنا پر ان کے سروں پر کوہ طور کو بلند کردیا

____________________

(۱)انعام ۱۴۶(۲)نحل ۱۱۸

(۳)نسائ۱۵۴۱۵۳ ۱۵۶۱۵۵ ۱۶۱۱۶۰.

۴۶

اوران سے کہا :سنیچر کے دن تجاوز اور تعدی نہ کرو اوران سے محکم عہد و پیمان لیا ،ان کی پیمان شکنی ،آیات خداوندی کا انکار ،پیغمبروں کے قتل اور ان کے کفر کی وجہ سے نیزاس عظیم تہمت کی وجہ سے جو حضرت مریم پر لگائی، نیزاس ظلم کی وجہ سے جو یہود سے صادر ہوا اور بہت سارے لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی وجہ سے بعض پاکیزہ چیزوں کو جو ان پرحلال تھیںان کے لئے ہم نے حرام کر دیا اور ربا اور سود خوری کی وجہ سے جب کہ اس سے ممانعت کی گئی تھی اور لوگوں کے اموال کو باطل انداز سے خرد برد کرنے کی بنا پر ۔

۷۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( و سئلهم عن القرية التی کانت حاضرة البحراذ یعدون فی السبت اِذ تأ تیهم حیتانهم یوم سبتهم شُرّعاً ویوما لایسبتون لاتاتیهم کذٰلک نبلوهم بما کانوایفسقون ) ( ۱ )

دریا کے ساحل پر واقع ایک شہر کے بارے میں ان سے سوال کرو ؛ جب کہ سنیچر کے دن تجاوزکرتے تھے،اس وقت سنیچر کو دریا کی مچھلیاں ان پر ظاہر ہو جاتی تھیں اوراس کے علاوہ دوسرے دنوںمیں اس طرح ظاہر نہیں ہو تی تھیں ، اس طرح سے ہم نے ان کا اس چیز سے امتحان لیا جس کے نتیجہ میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔

۸۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:

( انّما جعل السبت علی الذین اختلفو فیه ) ( ۲ )

سنیچر کا دن صرف اور صرف ان کے مجازات اور سزا کے عنوان سے تھاان لوگوں کے لئے جو اس میں اختلاف کرتے تھے۔

سوم:خدا وند عالم کی بنی اسرائیل پر نعمتیں اور ان کی سرکشی و نا فرمانی

۱۔خدا وند عالم سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذْ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ (۱۶۰) وَِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة

____________________

(۱)اعراف ۱۶۳۔بقرہ ۶۵۔ نساء ۴۸، ۱۵۴.(۲)نحل ۱۲۴

۴۷

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ (۱۶۱) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ( ۱ )

اورہم نے بنی اسرائیل کو ایک نسل کے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ان کو ہم نے وحی کی : اپنے عصا کو پتھر پر مارو! اچا نک اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اس طرح سے کہ ہر گروہ اپنے گھاٹ کو پہچانتا تھا اور بادل کوان پر سائبان۔قرار دیا اوران کے لئے من وسلویٰ بھیجا( اور ہم نے کہا) جو تمھیں پاکیزہ رزق دیا ہے اسے کھاؤ انھوں نے ہم پر ستم نہیں کیا ہے بلکہ خود پر ستم کیاہے اور جس وقت ان سے کہا گیا : اس شہر (بیت المقدس ) میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے چاہو وہاں سے کھاؤ اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے! اوراس در سے تواضع و انکساری کے ساتھ داخل ہو جاؤتا کہ تمہارے گناہوں کو ہم بخش دیں اور نیکو کاروں کو اس سے بڑھ کر جزا دیں،لیکن ان ستمگروں نے جوان سے کہا گیا تھا اس کے علاوہ بات کہی یعنی اس میں تبدیلی کردی اور ہم نے اس وجہ سے کہ وہ مسلسل ظالم و ستمگر رہے ہیںان کے لئے آسمان سے بلا نازل کردی ہے۔

۱۔سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

( وَاِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ (۲۰) یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَْرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ (۲۱) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنَّا دَاخِلُونَ (۲۲) قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۲۳) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۴) قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ (۲۵) قَالَ فَِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ )

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اپنے اوپرﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو، جبکہ اس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو بھیجا اور تمھیں حاکم بنایا اور تمہیں ایسی چیزیں عطا کیں کہ دنیا والوں میں کسی کو

____________________

(۱)اعراف ۱۶۰، ۱۶۲

۴۸

ویسی نہیں دی ہیں، اے میری قوم! مقدس سر زمین میں جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے مقر ر کیا ہے داخل ہو جاؤ اور الٹے پاؤں واپس نہ ہونا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے ،ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ستمگر لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے ، خدا ترس دومردوں نے جن پر خدا نے نعمت نازل کی تھی کہا:تم لوگ ان کے پاس شہر کے دروازہ سے داخل ہو جاؤ اگر تم دروازہ میں داخل ہوگئے تو یقیناً ان پر کامیاب ہو جاؤ گے اورا گرایمان رکھتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو ، ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہ لوگ جب تک وہاں ہیں ہم لوگ ہرگز داخل نہیں ہوں گے ! تم اور تمہارا رب جائے اوران سے جنگ کرے ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کہا: پروردگارا! میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، میرے اور اس گنا ہ گار جماعت کے درمیان جدائی کر دے،فرمایا :یہ سرزمین ان کے لئے چالیس سال تک کے لئے ممنوع ہے وہ لوگ ہمیشہ سرگرداںاور پریشان رہیں گے اور تم اس گناہ گار قوم پر غمگین مت ہو۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔''اسرائیل'': یعقوب،آپ ابراہیم خلیل ﷲ کے فرزند حضرت اسحق کے بیٹے ہیں،ان کا لقب اسرائیل ہے بنی اسرائیل ان ہی کی نسل ہے جوان کے بارہ بیٹوں سے ہے۔

۲۔'' یسومونکم'': تمکو عذاب دیتے تھے، رسوا کن عذاب ۔

۳۔''یستحیون'': زندہ رکھتے تھے۔

۴۔''یعکفون'': خاضعانہ طور پر عبادت کرتے تھے، پابندتھے ۔

۵۔''خوار'' : گائے اور بھیڑ کی آواز ۔

۶ ۔''لن نبرح'': ہم ہرگز جدا نہیں ہوں گے، آگے نہ بڑھیں گے ۔

۷۔''فتنتم'':تمھارا امتحان لیا گیا، آزمائش خدا وندی ، بندوں کے امتحان کے لئے ہے اور ابلیس اور لوگوں کا فتنہ ، گمراہی اور زحمت میں ڈالنے کے معنی میں ہے، خدا وند عالم نے لوگوں کو فتنہ ابلیس سے خبردار کیا ہے اور فرمایا ہے:

____________________

(۱) مائدہ۲۰، ۲۶

۴۹

( یا بنی آدم لا یفتنّنکم الشیطان )

اے آدم کے بیٹو!کہیں شیطان تمھیں فتنہ اور فریب میں مبتلا نہ کرے: اور لوگوں کے فتنہ کے بارے میں فرمایا:

( اِنّ الذّین فتنوا المومنین و المومنات ثّم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

بیشک جن لوگوں نے با ایمان مردوں اور عورتوں کو زحمتوں میں مبتلا کیا ہے پھر انھوں نے توبہ نہیں کی ان کیلئے جہنم کا عذاب اور جھلسا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔

۸۔'' باری'': خالق اور ہستی عطا کرنے والا

۹۔ ''أسباطاً'' : اسباط یہاں پر قبیلہ اور خاندان کے معنی میں ہے۔

۱۰۔''فا نبجست'': ابلنے لگا ، پھوٹ پڑا ۔

۱۱۔''المن والسلوی''ٰ:المن؛جامد شہد کے مانند چپکنے والی اور شیریں ایک چیز ہے اور السلوی ؛ بٹیر،ایساپرندہ جس کا شمار بحر ابیض کے پرندوں میں ہوتا ہے ، جو موسم سرما میں مصر اور سوڈان کی طرف ہجرت اختیار کرتا ہے۔

۱۲۔''حِطّة'': ہمارے گناہ کو جھاڑ دے،دھو دے، ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے۔

۱۳۔''رفعنا'': ہم نے بلند کیا ، رفعت عطا کی۔

۱۴۔''میثاقکم'': تمہارا عہد و پیمان ، میثاق : ایسا عہد وپیمان جس کی تاکید کی گئی ہو، عہد وپیمان کا پابند ہونا۔

۱۵۔''رجز'': عذاب ، رجز الشیطان... اس کا وسوسہ۔

۱۶۔''یتیھون'': حیران و پریشان ہوتے ہیں ،راستہ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔''لا تأس'': غمز دہ نہ ہو، افسوس نہ کرو۔

۱۸۔''لا تعدوا'': تجاوز نہ کرو ،ظلم وستم نہ کرو۔

۱۹۔''میثاقاً غلیظاً'': محکم و مظبوط عہد و پیمان ۔

۲۰۔''الحوایا'': آنتیں

۲۱۔''شرعًّا'': آشکار اور نزدیک۔

۲۲۔جعل لھم: ان کے لئیقانون گزاری کی، قانون مقرر و معین کیا۔

۵۰

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل سے فرما یا :اُن نعمتوںکو یاد کرو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور تمہارے درمیان پیغمبروں اور حکّام کو قرار دیا نیز من وسلویٰ جیسی نعمت جو کہ دنیا میں کسی کو نہیں د ی ہے تمہیںدی ، خدا وند سبحان نے انھیں فرعون کی غلامی، اولاد کے قتل اور عورتوں کو کنیزی میں زندہ رکھنے کی ذلت سے نجات دی،فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا اور انہیں دریا سے عبور کرا دیا، اس کے باوجود جب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی عبادت اورپوجا میں مشغول ہیں ، تو موسیٰ سے کہا : ہمارے لئے بھی انہی کے مشابہ اور مانند خدا بنادو تاکہ ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں ! اور جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر توریت لینے گئے تو یہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے اور جب موسیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائیںجو خدا نے ان کے لئے مقرر کی ہے تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ ! وہاں ظالم اور قدرت مند گروہ (عمالقہ )ہے جب تک وہ لوگ وہاں سے خارج نہیں ہوں گے ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے''یشوع'' یا ''یسع'' اور ان کی دوسری فرد نے ان سے کہا : شہر میں داخل ہو جاؤ بہت جلدی کا میاب ہو جاؤ گے،تو انھوں نے سر کشی اور نا فرمانی کی اور بولے:اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جائے اور عمالقہ سے جنگ کرے ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں! موسیٰ نے کہا : پروردگارا ! میں صرف اپنے اور اپنے بھا ئی کا مالک و مختار ہوں میرے اور اس گناہ گار قوم کے درمیان جدائی کردے! خداوند سبحان نے فرمایا : یہ مقدس اور پاکیزہ سر زمین ان لوگوں پرچالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے اتنی مدت یہ لوگ سینا نامی صحرا میں حیران و سرگرداں پھر تے رہیں گے تم ان گناہ گاروں کی خاطر غمگین نہ ہو۔

خدا وندعالم ان لوگوں کے بارے میں سورۂ اعراف میں فرماتا ہے : بنی اسرائیل کو بارہ خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا اورانہوں نے جب موسیٰ سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسی پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، اُس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑ ے ہر قبیلہ کے لئے ایک چشمہ، نیزبادل کو ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا تاکہ خورشید کی حرارت وگرمی سے محفوظ رہیں ،شہد کے مانند شرینی اور پرندہ کا گوشت ان کے کھانے کے لئے فراہم کیا، پھر کچھ مسافت طے کرنے کے بعدان سے کہا گیا : اس شہر میں جو کہ تمہارے رو برو ہے سکونت اختیار کرو اور اس کے محصولات سے کھاؤ

۵۱

اور شہر کے دروازے سے داخل ہوتے وقت خدا کا شکر ادا کرو اور اس کا سجدہ ادا کرتے ہوئے کہو !''حطة'' یعنی خدا وندا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ستمگروں نے اس لفظ کو بدل ڈا لا اور ''حطة''کے بجائے''حنطة''کہنے لگے ،( ۱ ) یعنی ہم گندم ( گیہوں ) کے سراغ میں ہیں! خداوندعالم نے ان کے اس اعمال کے سبب آسمان سے عذاب نازل فرمایا۔

خدا وند عالم نے سورۂ نساء میں فرمایا: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم سے اہل کتاب کی خوا ہش ہے کہ تم کوئی کتاب ان کے لئے آسمان سے نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھلادو تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گناہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کو ان کے اوپر جگہ دی۔

اسرائیل(یعقوب) کی پسندیدہ اور مرغو ب ترین غذا دودھ ا وراونٹ کا گوشت تھی ، یعقوب ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورخدا نے انھیں شفا بخشی ،تو انھوں نے بھی خدا وند عالم کے شکرانے کے طور پر محبوب ترین کھانے اور پینے کی چیزوں کو جیسے دودھ اور اونٹ کا گوشت وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اسی طرح انھوں نے جگر اور گردے کی مخصوص چربی نیز دیگر چربی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا کیونکہ اس چربی کو ماضی میں قر بانی کے لئے لے جاتے تھے اور آگ اسے کھا جاتی تھی ۔( ۲ )

قوم یہود کا خدا سے جو عہد وپیمان تھا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جن کے مبعوث ہونے کی موسیٰ ابن عمران نے بشارت دی ہے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت خاتم الا نبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت،ان پر ایمان لائیں، اس بشارت کو اس سے پہلے ہم نے توریت کے سفر تثنیہ سے نقل کیا ہے۔

احکام کے بارے میں بھی انھوں نے عہد وپیمان کیا کہ شنبہ یعنی سنیچر کے دن تجاوز نہیں کریںگے ( کام کاج چھوڑ دیں گے ) خدا نے اس سلسلے میں محکم اور مضبوط عہد وپیمان لیا تھا،ان لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا اورآیات خدا وندی کا انکار کر گئے اور پاک وپاکیزہ خاتون مریم پر عظیم بہتان

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں بحارالا نوار اور مجمع البیان میں اسی طرح مذکور ہے

(۲ ) سیرئہ ابن ہشام ،طبع حجازی قاہرہ ، ج۲ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹ جو کچھ ہم نے متن میں ذکر کیا ہے تفسیر طبری اور سیوطی سے ماخوذ ہے میرے خیال میں جو کچھ سیرئہ ہشام میں ہے وہ متن میں مذکور عبارت سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے

۵۲

باندھا اور زبر دست الزام لگایا اسی لئے تو خدا وند عالم نے تادیب کے عنوان سے بہت سی پاکیزہ چیزوں کو جو ان پر حلال تھیں حرام کردیا اورجب وہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے تو انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یعنی جس نے بھی گوسالہ پر ایمان نہیں رکھا گوسالہ پرستوں قتل کرے اسی طرح جب یہ لوگ خدا پر ایمان لانے سے مانع ہوئے اور سود کا معاملہ کرنے لگے اور سود کھانے لگے ، باوجود یکہ سود (ربا ) سے انھیں منع کیا گیا تھا تواُن پر حلال اورپاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔

ان کی دوسری مخالفت اس پیمان کا توڑنا تھا جو انھوں نے خدا سے کیا تھا کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار نہیں کریںگے اوراس کے لئے انھیں سخت تاکید کی گئی تھی ،سنیچر کے دن مچھلیاںساحل کے کنارے سطح آب پر آجاتی تھیں لیکن دیگر ایام میں ایسا نہیں کرتی تھیں اور یہ ان کا مخصوص امتحان تھا سنیچر کے دن چھٹی کرنا صرف اور صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھا ،وہی لوگ کہ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، اس امتحان میں گرفتار ہوئے۔

خدا وندعالم سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

اہل کتاب یہودی تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کر چکے ہیںکہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھاؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گنا ہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کوان کے سروں پر لٹکادیا اوران سے سخت اور محکم عہد و پیمان لیا کہ جو کچھ موسیٰ ابن عمران ان کے لئے لائے ہیںاس پر ایمان لاکر عمل کریں گے ، ہمارے پیمان کا بعض حصّہ خدا کے پیغمبر بالخصوص حضرت عیسیٰ ابن مریم اورمحمد ابن عبد ﷲ پر ایمان لانا تھا ، لیکن ان لوگوں نے مریم عذرا پر نا روا تہمت لگائی اور توریت کے احکام کو کذب پر محمول کیا ، خدا کے نبیوں کا انکار کیا اور بہت سوں کو قتل کر ڈالا اور راہ خدا سے روکا ، سود لیا، لوگوں کے اموال کو ناجائز طور پر خورد و برد کیا تو ہم نے بھی ان تمام ظلم و ستم کے باعث ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال تھیں حرام کردیا، ان پر حرام ہونے والی اشیاء میں سنیچر کے دن ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا بھی تھا جہاں اس دن مچھلیاں آشکار طور پران سے نزدیک ہو جاتی تھیں اور خود نمائی کرتی تھیں۔

۵۳

بحث کا نتیجہ

خدا وندعالم نے بنی اسرائیل کو مصر کے ''فرعونیوں '' اور شام کے''عمالقہ'' اور اس عصر کی تمام ملتوں پر فضیلت اور برتری دی تھی بہت سے انبیاء جیسے موسیٰ ، ہارون ،عیسیٰ اور ان کے اوصیاء کوان کے درمیان مبعوث کیا اوراس سے بھی اہم یہ کہ توریت ان پر نازل کی ، ان سے سخت اور محکم پیمان لیا تا کہ جو کچھ ان کی کتابوں میں مذکور ہے اس پر عمل کریں ،''من وسلویٰ'' جیسی نعمت کا نزول ، پتھر سے ان کے لئے پانی کا چشمہ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ نعمتوںسے سرفرازفرمایا، لیکن ان لوگوں نے تمام نعمتوں کے باوجودآیات الٰہی کا انکار کیا اور گوسالہ کے پجاری ہو گئے، سود لیا ،لوگوں کے اموال ناجائز طورپر کھائے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی نافرمانی اور طغیانی کی، ایسے لوگوں کے اپنے آلودہ نفوس کی تربیت کی سخت ضرورت تھی اس لئے خدا وند عالم نے ان پر خود کو قتل کرنا واجب قرار دیا نیز سنیچر کے دن دنیاوی امور کی انجام دہی ان پر حرام کردی ،لیکن ان لوگوں نے سنیچر کے دن ترک عمل پر اختلاف کیا ، جیسا کہ اس ساحلی شہر کے لوگوں نے بھی اس سلسلے میں حیلے( ۱ ) اور بہانے سے کام لیا !خدا وندسبحان نے ان چیزوں کو جو کچھ اسرائیل نے اپنے او پر حرام کیا تھا(چربی ،اونٹ کا گوشت اور اس جیسی چیزوں کا کھا نا) ان کی جان کی حفاظت کی غرض سے ان پر بھی حرام کردیا، اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرئیل ہمیشہ قبائلی اتحاد و یکجہتی اور اٹوٹ رشتہ کے محتاج تھے تا کہ ا ن سرکش وطاغی عمالقہ اور قبطیوں کا مقابلہ کر سکیں جو ان کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لئے ہوئے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے بھی قبل اس کے کہ ہیکلِ سلیمان نامی معروف مسجد کی تعمیر کریں،ان پر واجب قرار دیا کہ سب ایک ساتھ عبادت کے لئے '' خیمہ اجتماع'' کے پاس جمع ہوں اور اپنی دینی رسومات کو ہارون کے فرزند وں کی سر پرستی میں بجا لائیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم کواور ان کی مادر گرامی مریم کو جو کہ حضرت داؤد کی نسل (جوبنی اسرائیل کے یہودا کی نسل )سے تھیںان کی طرف روانہ کیااور بعض وہ چیزیں جوان پر حرام تھیں حلال کر دیا ،جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زبانی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱) مادہ''سبت '' کے سلسلے میں کتاب قاموس کتاب مقدس ، تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو ۔

۵۴

( اِنّی قد جئتکم بآية من ربّکم... و مصدقاً لما بین یدیّ من التوراة و لأحلّ لکم بعض الذی حرّم علیکم... ) ( ۱ )

میں تمہارے پر وردگار کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشانی لایا ہوں اور جو کچھ مجھ سے پہلے توریت میں موجود تھااس کی تصدیق اور اثبات کرتا ہوں اورآیا ہوں تاکہ بعض وہ چیزیں جو تم پرحرا م کی گئی تھیں حلال کر دوں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیااس سے واضح ہو گیاکہ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ ابن عمران سے لے کر عیسیٰ ابن مریم تک بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، نیز توریت میں بعض شرعی احکام بھی صرف بنی اسرائیل کی مصلحت کے لئے نازل ہوئے ہیں اس بنا پر ایسے احکام موقت یعنی وقتی ہوتے ہیںاور یہ ان چیزوں کے مانند ہیںجنہیں اسرائیل( یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرا م کرلیا تھا لہٰذاان میں بعض کی مدت عیسیٰ ابن مریم کی بعثت سے تمام ہوگئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا ُن محرمات میں سے کچھ کوان کے لئے حلال کر دیا اور کچھ باقی بچے ہوئے تھے جن کی مدت حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت تک تھی وہ بھی تمام ہو گئی لہٰذاایسے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے اور ان سب کی مدت تمام ہونے کو بیان فرمایا۔

خدا وند عالم اس موضوع کو سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کرتا ہے :

( الذین یتبعون الرسول النّبی الأمیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوارة و الأنجیل یا مرهم با لمعروف و ینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم و الأغلال التی کانت علیهم ) ( ۲ )

جو لوگ اس رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیںجس کے صفات توریت اور انجیل میں جو خود ان کے پاس موجود ہے ،لکھا ہوا ہے وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی اور منکر سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اوران کے سنگین بار کو ان پر سے اٹھا دیا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انھیں اس سے آزاد کردیتا ہے۔

'' اِصرھم'' :ان کے سنگین بوجھ یعنی وہ سخت تکالیف و احکام جوان کے ذمّہ تھے۔

نسخ کی یہ شان حضرت موسیٰ کی شریعت میں ان سے پہلے شرائع کی بنسبت تھی ، اسی طرح بعض وہ چیزیں

جو موسیٰ کی شریعت میں تھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ ہو گئیں۔

''نسخ''کی دوسری قسم یہ ہے کہ یہ نسخ صرف ایک پیغمبر کی شریعت میں واقع ہو تاہے ،جیسا کہ آگے آئے گا۔

____________________

(۱)آل عمران ۴۹۔ ۵۰

(۲)اعراف ۱۵۷

۵۵

ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ کے معنی

ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:

یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْهَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۲) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ ﷲ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ وَﷲ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۳ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! جب رسول ﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔

اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:

بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔

____________________

(۱)مجادلہ ۱۲، ۱۳،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )

۵۶

اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔

اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

۱۔( شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ به نوحاً ) ...)(۱ )

تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔

۲۔( و ِأن من شیعة لأِبراهیم )

ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔( ۲ )

۳۔ خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:

الف۔( اتبع ملّة ابراهیم حنیفاً )

ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔

ب ۔( فاتّبعوا ملّة أِبراهیم حنیفاً )

____________________

(۱)شوری ۱۳(۲)،صافات ۸۳

۵۷

پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔( ۱ )

اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میں آیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

۱۔( کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسه ) ( ۲ )

کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

۲۔( و علیٰ الذین هادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل ) ( ۳ )

اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔

۳۔( اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیه ) ( ۴ )

سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

توریت کے سفر تثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''

اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔

____________________

(۱)آل عمران۹۵(۲)آل عمران ۹۳ (۳)نحل ۱۱۸ (۴)نحل ۱۲۴

۵۸

دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میں الواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔( ۱ ) نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔

حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔

حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :

( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الأنجیل یأمرهم بالمعروف وینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبا ت و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم والأغلال الّتی کا نت علیهم ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورئہ بقرہ ۲۸۴

(۲)اعراف۱۵۷

۵۹

وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔

خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّا انزلناالتوراة فیها هدیً و نور یحکم بها النبيّون الذین أسلموا للذین هادوا...) (و کتبنا علیهم فیها أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق به فهو کفّارة له و من لم یحکم بما انزل ﷲ فأولائک هم الظالمون ) ( ۱ )

ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔

جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔

____________________

(۱)مائدہ ۴۴ ،۴۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲; اس كا علم ۴

عذاب:مہلك عذاب كے اثرات ۷; مہلك عذاب ۸; مہلك عذاب سے نجات ۶

قرآن:اسكے وحى ہونے ميں شك ۱

قيامت:اس ميں ايمان ۸; اس كا علم ۴; اس كا اچانك ہونا ۳; اس كا وقت ۴; اسكى خصوصيات ۳

كفار:صدر اسلام كے كفار كو ڈرانا ۵; ان كے شك كو دور كرنا ۷; ان كا مہلك عذاب ۶; ان كا انجام ۶

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا شك ۱; صدر اسلام كے مشركين اور قرآن ۱

مايوسي:حق دشمنوں كے ايمان سے مايوسى ۲; كافروں كے ايمان سے مايوسى ۲

آیت ۵۶

( الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ )

آج كے دين ملك اللہ كے ليے ہے اور وہى ان سب كے درميان فيصلہ كرے گا پھر جو لوگ ايمان لے آئے اور انہوں نے نيك اعمال كئے وہ نعمتوں والى جنت ميں رہيں گے (۵۶)

۱ _ روز قيامت كى مطلق اور بے مثل فرمانروانى ،خداتعالى كے ساتھ مخصوص ہے_الملك يومئذ لله

۲ _ قيامت، كفر و ايمان كے محاذوں كے درميان فيصلے كا دن ہے_يحكم بينهم

۳ _ خداتعالى روز قيامت كا حاكم اور فيصلہ كرنے والاہے_الملك يومئذ لله يحكم بينهم

۴ _ بہشت، نيك كردار مؤمنين كا اجرہے_فالذين أمنوا و عملوا الصلحت فى جنت النعيم

۵ _ بہشت كى نعمتوں كا حصول ايمان و عمل صالح كى ہمراہى ميں منحصر ہے_فالذين أمنوا و عملوا الصلحت فى جنت

۵۸۱

النعيم

۶ _ اہل ايمان كا بہشت ميں داخل ہونا، خداتعالى كى طرف سے ان كے اور كافروں كے درميان فيصلہ كے بعد ہوگا_

يحكم بينهم فالذين أمنوا فى جنت النعيم

۷ _ بہشت ميں متعدد باغ ہيں اور وہ نعمتوں سے سرشار ہے_فى جنت النعيم

۸ _ عالم آخرت، عالم جزا و سزا_الملك يومئذ لله يحكم بينهم فى جنت النعيم

ايمان:اسكے اثرات ۵

بہشت:اسكى پاداش ۴; اسكے باغوں كا متعدد ہونا ۷; اسكى نعمتيں ۵، ۷

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱; اسكى اخروى حكمرانى ۱; اسكى اخروى قضاوت ۳، ۶

صالحين:انكى اخروى پاداش ۴

عمل صالح:اسكے اثرات ۵

قيامت:اس ميں پاداش ۸; اس ميں حاكميت ۱; اس ميں قضاوت ۲، ۳، ۶; اس ميں سزا، ۸ ; اسكى خصوصيات ۲، ۸

كفار:ان كے اور مؤمنين كے درميان قضاوت ۲، ۶

مؤمنين:انكى اخروى پاداش ۴; يہ بہشت ميں ۶

۵۸۲

آیت ۵۷

( وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ )

اور جن لوگوں نے كفر اختيار كيا اور ہمارى آيتوں كى تكذيب كى ان كے ليے نہايت درجہ كا رسوا كن عذاب ہے (۵۷)

۱ _ كفر و ايمان، روز قيامت انسانوں كے درميان خداتعالى كے فيصلے كا معيار _يحكم بينهم فالذين أمنوا و الذين كفروا عذاب مهين

۲ _ دوزخ كا عذاب ،خدا كے ساتھ كفر كرنے اور اسكى آيات (قرآن) كو جھٹلانے كى سزا_والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا فأولئك لهم عذاب مهين

۳ _ دوزخ كا عذب متنوع اور مختلف اقسام كا ہے_فأولئك لهم عذاب مهين

(''مہين'' كے مصدر) ''إہانة'' كا معنى ہے رسوا اور ذليل كرنا_ كافروں اور آيات الہى كى تكذيب كرنے والوں كے عذاب كى ''خوار كرنے والے'' كے ساتھ توصيف اس حقيقت كو بيان كر رہى ہے كہ دوزخ كے عذاب اور انواع و اقسام كے ہيں قابل ذكر ہے كہ مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''مہين'' صفت تخصيصى ہو نہ تو ضيحي_

۴ _ دوزخ كا عذاب خوار كرنے والا اور ذلت آور ہے_لهم عذاب مهين

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''مہين'' ''عذاب'' كى صفت توضيحى ہے_

۵ _ خدا كاكفر كرنا اور اسكى آيات (قرآن) كو جھٹلانا ، استكبارى فطرت اور خود كو برتر سمجھنے كا سرچشمہ ہے _والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا فأولئك لهم عذاب مهين

''عذاب'' كى ''مہين'' (ذليل كرنے والا) كے ساتھ توصيف اس حقيقت كو بيان كررہى ہے كہ خدا كاكفر اور اسكى آيات كى تكذيب ايسا كردار ہے كہ جس كا سرچشمہ استكبارى فطرت اور اپنے آپ كو بڑا سمجھنا ہے اور خداتعالى نے اسكى ساتھ متناسب سزا كا انتظام فرمايا ہے تا كہ اس استكبارى

۵۸۳

فطرت كو ختم كر كے انہيں ذلت و خوارى ميں مبتلا كردے_

۶ _ اخروى سزائيں انسانوں كے دنياورى كردار كے ساتھ متناسب ہيں _والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا عذاب مهين

۷ _ صدر اسلام كے كفار اور تكذيب كرنے والے، مستكبر اور اپنے آپ كو برتر سمجھنے والے لوگ تھے_

والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا عذاب مهين

۸ _ خداتعالى اور اسكى آيات كے مقابلے ميں استكبار كرنے كا نتيجہ ،دوزخ كا خوار كرنے والا اور ذلت آميز عذاب ہے_

والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا عذاب مهين

۹ _ قرآن مجيد،آيت آيت كى صورت ميں ہے_كذبوا بأى تن

۱۰ _ قرآن كريم خداتعالى كى نشانيوں كا مجموعہ ہے_كذبوا بأى تن

آيات الہى :انكى تكذيب كى سزا ،۲; انكى تكذيب كا سرچشمہ ۵

استكبار:آيات خدا كے مقابلے ميں استكبار كى سزا، ۸; خدا كے مقابلے ميں استكبار كى سزا،۸

ايمان:اسكے اثرات ۱

تكبر:اسكے اثرات۵

جہنم:اسكے عذاب كا متنوع ہونا ۳; اسكے اسباب ۲، ۸; اسكے عذاب كى خصوصيات ۴

خداتعالى :اسكى اخروى قضاوت كا معيار، ۱

عذاب:اہل عذاب ۲; ذلت آميز عذاب ۴، ۸; اسكے درجے ۴، ۸; اخروى عذاب كى اسباب ۸

قرآن:اس ميں آيات الہى ۱۰; اس كا آيت آيت ہونا ۹; اسے جھٹلانے والوں كا استكبار ۷; اسكى ساخت ۹; اسے جھٹلانے والوں كى صفات۹; اسے جھٹلانے كى سزا، ۲; اسے جھٹلانے كا سرچشمہ ۵; اسكى خصوصيات ۹، ۱۰

قيامت:اس ميں قضاوت ۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا استكبار ۷; صدر اسلام كے كفار كى صفات ۷

كفر:اسكے اثرات ۱; اسكى سزا،۲; خدا كے ساتھ كفر كا سرچشمہ ۵

سزا:اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۶

سزا كا نظام :۶

۵۸۴

آیت ۵۸

( وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقاً حَسَناً وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ )

اور جن لوگوں نے راہ خدا ميں ہجرت كى اور پھر قتل ہوگئے يا انہيں موت آگئي تو يقينا خدا انہيں بہترين رزق عطا كرے گا كہ وہ بيشك بہترين رزق دينے والا ہے (۵۸)

۱ _ دين كى حفاظت كى خاطر اپنا شہر اور وطن چھوڑ كر ديار غربت كى طرف ہجرت كرنا ايك شائستہ اور خدا كا محبوب عمل ہے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ليرزقهم الله

۲ _ اللہ تعالى ،مہاجر مؤمنين كے اجر كا ذمہ دار ہے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ليرزقهم الله رزقاً حسن

۳ _ مہاجرين كى ديا ر ہجرت ميں موت وہاں پر انكى شہادت كے برابر ہے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ليرزقهم الله رزقاً حسن

۴ _ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے ان مہاجرين كيلئے بہشت كى ضمانت كہ جو اس وقت (مذكورہ آيت كے نزول كے وقت) تك فوت ہوچكے تھے يا دشمن كے ہاتھوں قتل ہوچكے تھے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ثم ليرزقهم الله رزقاً حسن

۵ _ عمدہ رزق، خداتعالى كى طرف سے مؤمن مہاجرين كيلئے اخروى اجر _و الذين هاجروا ليرزقهم الله رزقاً حسن

۶ _ خداتعالى سب سے اچھا رازق ہے_و إنّ الله لهو خيرا لرازقين

اسما و صفات:

۵۸۵

خير الرازقين ۶

بہشتى لوگ :۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۶; اس كا اجر ۲; اس كا رازق ہونا ۶

دينداري:اسكى اہميت ۱

روزي:اس كا سرچشمہ ۶

عمل :پسنديدہ عمل ۱

مؤمنين:ان كے اجر كا سرچشمہ ۲

مہاجرين:انكى موت كى قدر و قيمت ۳; ان كا اخروى اجر ۵; انكى اخروى روزى ۵; انكى اچھى روزى ۵; صدر اسلام كے مہاجرين كى شہادت ۴; صدر اسلام كے مہاجرين كى موت ۴; ان كے اجر كا سرچشمہ ۲; صدر اسلام كے مہاجرين بہشت ميں ۴

ہجرت:اسكى فضيلت ۱

آیت ۵۹

( لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلاً يَرْضَوْنَهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ )

وہ انہيں ايسى جگہ پہنچائے گا جسے وہ پسند كرتے ہوں گے اور اللہ بہت زيادہ جاننے والا اور برداشت كرنے والا ہے (۵۹)

۱ _ خداتعالى ،آخرت ميں ہجرت كرنے والے مؤمنين كے اجر كا ذمہ دار ہے _و الذين هاجروا ليدخلنّهم مدخلاً يرضونه

۲ _ ہجرت كرنے والے مؤمنين جہان آخرت ميں مطلوب اور دل پسند مقام ركھتے ہوں گے_و الذين هاجروا ليدخلنّهم مدخلاً يرضونه

۳ _ دلپسند گھر اور جگہ، آخرت ميں ہجرت كرنے والے مؤمنين كيلئے خداتعالى كى عمدہ روزى كے برجستہ ترين مصاديق ميں سے ہے_ليرزقنهم الله رزقاً حسناً ليدخلنّهم

۵۸۶

مدخلًا يرضونه

مذكورہ مطلب اس نكتے كو مد نظر ركھتے ہوئے ہے كہ جملہ''ليدخلنهم'' بدل اشتمال اور باالفاظ ديگر اچھے رزق (ليرزقنہم الله رزقاً حسناً) كے مصاديق ميں سے ہے_

۴ _ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے مؤمنين اور مہاجرين كو نصيحت كہ وہ كفار كے دباؤ اور اذيتوں كے مقابلے ميں بردبارى كا ثبوت ديں اور صبر كا دامن نہ چھوڑيں _و الذين هاجروا ...ثم قتلوا ...و إنّ الله لعليم حليم

جملہ''و إنّ الله لعليم حليم'' ميں ''عليم'' كا متعلق محذوف اور قرينہ مقام كے پيش نظريہ درحقيقت''إنّ الله لعليم بما فعل المشركون بالمؤمنين من إخراجهم من ديارهم و قتلهم المهاجرين حليم يمهلهم و لا ينتقم منهم إلى حين'' ہے_ مشركين نے مؤمنين كے ساتھ جو كچھ كيا ہے خدا اس سے آگاہ ہے اور چونكہ وہ حليم اور بردبار ہے لہذا انہيں فرصت ديتا ہے_ قابل ذكر ہے كہ مذكورہ جملہ در حقيقت خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے مؤمنين كو ايك نصيحت ہے كہ وہ كافروں كے دباؤ كى وجہ سے بے حوصلہ نہ ہوجائيں بلكہ جس طرح خدا حليم اور بردبار ہے وہ بھى بردبارى كا ثبوت ديں اور صبر كا دامن نہ چھوڑيں _

۵ _ خداتعالى عليم (جاننے والا) اور حليم (بردبار) ہے_و إنّ الله لعليم حليم

اسما و صفات:حليم ۵; عليم ۵

خداتعالى :اس كا اجر،۱ اسكى نصيحتيں ۴

كفار:صدر اسلام كے كفار كى اذيتوں پر صبر كرنا ۴

مہاجرين:صدر اسلام كے مہاجرين كو اذيت ۴; ان كا اخروى اجر، ۱; صدر اسلام كے مہاجرين كو نصيحت۴; انكى عمدہ روزى ۳; صدر اسلام كے مہاجرين كا صبر ۴; ان كا اخروى گھر ۳; ان كا اخروى مقام و مرتبہ ۲; ان كے اجر كا سرچشمہ ۱

۵۸۷

آیت ۶۰

( ذَلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ )

يہ سب اپنے مقام پر ہے ليكن اس كے بعد جو دشمن كو اتنى ہى سزا دے جتنا كہ اس ستايا گيا ہے اور پھر بھى اس پر ظلم كيا جائے تو خددا اس كى مدد ضرور كرے گا كہ وہ يقينا بہت معاف كرنے والا اور بخشنے والا ہے (۶۰)

۱ _ مشركين كے دباؤ اور اذيتوں كے مقابلے ميں مؤمنين اور مہاجرين كا صبر اور بردبارى سے كام لينا اور انتقام سے پرہيز كرنا، ايك ايسا اہم اور تقدير ساز امر ہے كہ جسكى خداتعالى نے تاكيد كے ساتھ نصيحت فرمائي ہے (مكہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كے اوائل ميں )و الذين هاجروا و إنّ الله لعليم حليم ذلك

''ذلك'' محذوف مبتدا كى خبر ہے اور يہ صدر اسلام كے مؤمنين اور مہاجرين كو خداتعالى كى اس نصيحت كى طرف اشارہ ہے كہ وہ مشركين كے دباؤ اور اذيتوں كے مقابلے ميں بردبار رہيں اور صبر كا دامن نہ چھوڑيں _ قابل ذكر ہے كہ ايسے موارد ميں عام طور پر ''ہذا'' استعمال ہوتا ہے لہذا ''ذلك'' كہ جو بعيد كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے _ كا استعمال اس خاص دور ميں صدر اسلام كے مشركين كى اذيتوں كے مقابلے ميں صبر و تحمل كى اہميت كو بيان كررہا ہے يہ وہ دور تھا كہ ظاہراً مؤمنين ابھى تك دشمن كا مقابلہ كرنے كيلئے كافى طاقت سے بہرہ مند نہيں تھے_

۲ _ مشركين كى عقوبت كے مقابلے ميں صدر اسلام كے ايك مؤمن كا انہيں ان جيسا جواب دينا_و من عاقب بمثل ما عوقب به

آيت كے ظاہر سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ ايك مؤمن نے مشركين كى طرف سے اسے دى جانے والى عقوبت كے مقابلے ميں انہيں انتقاماً تركى بہ تركى جواب ديا اور پھر دوبارہ ان كى طرف سے اس پر ظلم و ستم كيا گيا_ اس ظلم كے بعد خداتعالى نے اسے پكا وعدہ ديا كہ وہ اسكى مدد كريگا تا كہ اپنا انتقام لے سكے البتہ اسكے ساتھ ساتھ اس حقيقت كى ياد دہانى بھى كراكر كہ خدا بخشنے والا اور مغفرت كرنے والا ہے نصيحت كى كہ اگر اس ظلم سے درگذر كرتے ہوئے اور ظالم كو معاف كردے تو يہ زيادہ مناسب اور پسنديدہ ہے_

۳ _ مشركين كى طرف سے ان مسلمانوں پر دوبارہ ظلم كہ جنہوں نے انہيں تركى بہ تركى جواب ديا تھا (يعنى جيس عقوبت مشركين نے انہيں دى تھى انہوں نے بھى ويسى ہى عقوبت مشركين كو دى تھي)و من عاقب بمثل ما عوقب به ثم بغى عليه

۵۸۸

۴ _ خداتعالى نے ستم كا شكار ہونے والے مسلمانوں كو قطعى وعدہ ديا ہے كہ وہ انكى مدد اور نصرت كريگا تاكہ ستمگروں سے اپنا انتقام لے سكيں _ومن عاقب ثم بغى عليه لينصرنه الله

۵ _ خداتعالى مظلوموں كا حامى اور مددگار اور ظالموں اور ستمگروں كا دشمن ہے _و من عاقب بمثل ما عوقب به ثم بغى عليه لينصرنه الله

۶ _ خداتعالى نے مشركين كے ظلم كا شكار ہونے والے مسلمان شخص كو نصيحت فرمائي كہ وہ دشمنوں سے درگزر كردے اور انہيں معاف كردے_و من عاقب ثم بغى عليه لينصرنه الله إنّ اللّه لعفو غفور

۷ _ خداتعالى عفوّ (در گزر كرنے والا) اور غفور (بخشنے والا) ہے_إن الله لعفو غفور

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶

اسما و صفات:عفو۷; غفور ۷

تجاوز كرنے والے:ان كا دشمن ۵

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۱، ۶; اسكى حمايت ۵; اسكى دشمنى ۵; اسكى نصرت ۴; اس كا وعدہ ۴

ظالم لوگ:ان كا دشمن ۵

مسلمان:مظلوم مسلمان كو نصيحت ۶; صدر اسلام كے مسلمان كا تركى بہ تركى جواب دينا ۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا تجاوز كرنا ۳; صدر اسلام كے مشركين كى اذيتوں كے مقابلے ميں صبر ۱

مظلومين:ان كا حامى ۵; انكى نصرت ۴

مؤمنين:صدر اسلام كے مؤمنين كا تركى بہ تركى جواب دينا۲

مہاجرين:صدر اسلام كے مہاجرين كے صبر كى اہميت ۱; صدر اسلام كے مہاجرين كو نصيحت۱۱

۵۸۹

آیت ۶۱

( ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ )

يہ سب اس ئلے ہے كہ خدا رات كو دن ميں داخل كرتا ہے اور دن كو رات ميں داخل كرتا ہے اور اللہ بہت زيادہ سننے والا اور ديكھنے والا ہے (۶۱)

۱ _ خداتعالى كا شب و روز كو تبديل كرنے پر قادر ہونا ،اس بات كى واضح دليل ہے كہ وہ ستمگروں سے انتقام لينے كيلئے مظلوموں كى مدد كرنے كى طاقت ركھتا ہے_ذلك بأنّ الله يولج اليل فى النهار و أنّ الله سميع بصير

گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے مشركين كے ظلم كا شكار بننے والے مسلمان كو قطعى وعدہ ديا كہ وہ اسكى مدد كريگا تا كہ وہ ظالموں سے اپنا انتقام لے سكے اور اس آيت ميں _ اس چيز كے پيش نظر كہ مبادا كوئي خداتعالى كے اپنے وعدوں كو پورا كرنے پر قادر ہونے اور مظلوموں كى مدد اور حمايت كرنے ميں شك كرے اپنى بے انتہا قدرت كے ايك گوشے كو بيان كيا ہے_

۲ _ شب و روز كو ايك دوسرے كے پيچھے لانا اور انہيں مسلسل ايك دوسرے كى جگہ پر تبديل كرنا خداتعالى كى قدرت مطلقہ كا ايك جلوہ ہے_با نّ الله يولج اليل فى النهار و يولج النهار فى اليل

(''يولج'' كے مصدر) ''إيلاج'' كا معنى ہے داخل كرنا رات كو دن ميں اور دن كو رات ميں داخل كرنا ممكن ہے شب و روز كو ايك دوسرى كى جگہ پر تبديل كرنے سے كنايہ ہو يعنى خداتعالى تدريجاً رات كو دن كى جگہ پر اور تدريجاً دن كو رات كى جگہ پر قرار ديتا ہے_ اسى طرح ہوسكتا ہے اس سے مراد دن كو چھوٹا اور رات كو بڑا كرنا ہواور اس كا برعكس ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے_

۳ _ پورے سال ميں شب و روز كا مسلسل چھوٹا بڑا ہونا ، خداتعالى كى غير محدود قدرت كى علامت ہے_

ذلك با نّ الله يولج اليل فى النهارو يولج النهار فى الّيل

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ رات كو دن ميں داخل كرنے سے مراد رات كو چھوٹا اور دن كو بڑا كرنا ہو نيز دن كو رات ميں داخل كرنے سے مراد دن كى گھڑيوں كو كم اور رات كو گھڑيوں كو زيادہ كرنا ہو_

۵۹۰

۴ _ خداتعالى ،مظلوم كى فرياد سنتا ہے اور ظالم كو ديكھتا ہے_و ا ن الله سميع بصير

''سميع'' اور ''بصير'' كا متعلق محذوف ہے اور گذشتہ آيت كے پيش نظر اصل ميں يوں ہے''و ا ن الله سميع دعاء من بغى عليه و بصير ببغى الباغي'' _

۵ _ خداتعالى كا علم و قدرت كامل اور نقص سے پاك ہے_ذلك با نّ الله يولج اليل وا ن الله سميع بصير

۶ _ خدا سميع (سننے والا) اور بصير (ديكھنے والا) ہے_و ا ن الله سميع بصير

اسما و صفات:بصير۶; سميع ۶

خداتعالى :اس كا بصير ہونا۴; اس كا منزہ ہونا ۵; اسكى قدرت كے دلائل ۳; اسكى نصرت كے دلائل ۱; اس كا سننا ۴; اسكى قدرت ۱; اسكے علم كا كامل ہونا ۵; اسكى قدرت كا كامل ہونا۵; اسكى قدرت كى نشانياں ۲: اسكے علم كى خصوصيات ۵; اسكى قدرت كى خصوصيات ۵

دن:اسكى گردش ۱، ۲،۳

رات:اسكى گردش ۱، ۲، ۳

ظالم لوگ:ان سے انتقام ۱

مظلومين:ان كا حامى ۱

آیت ۶۲

( ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ )

يہ اس لئے ہے كہ خدا ہى يقينا بر حق ہے اور اس كے علاوہ جس كو بھى يہ لوگ پكارتے ہيں وہ سب باطل ہيں اور اللہ بہت زيادہ بلندى والا اور بزرگى اور عظمت والا ہے (۶۲)

۱ _ قدرت خدا كے سائے ميں شب و روز كا مسلسل ايك دوسرے كى جگہ پر تبديل ہونا اسكى تدبير اور ربوبيت

۵۹۱

كا بولتا ثبوت ہے_با نّ الله يولج اليل فى النهار ذلك با نّ الله هو الحق

گذشتہ آيت خداتعالى كى قدرت مطلقہ كے ايك جلوے كو بيان كر رہى تھى يعنى شب و روز كو تبديل كرنا كہ جس كے ساتھ انسان كى زندگى كا نظام چلتا ہے اس آيت ميں فرماتا ہے يہ جو خداتعالى نے نظام ہستى كى تدبير اپنے اختيار ميں ركھى ہے يہ اسلئے ہے كہ پورے عالم ہستى ميں صرف وہ ہے جو معبود برحق ہے اور جو بھى اس كے غير ہيں كہ جنہيں معبود سمجھتا جاتا ہے سب باطل، كھوكھلے اور خيالى ہيں اور بلند مرتبہ ہونا اور بزرگى صرف اسكى شان ہے نہ اسكے غير كي_

۲ _ صرف خداتعالى معبود برحق اور لائق عباد ت ہے_ذلك با نّ الله هو الحق

۳ _ خدا تعالى كے علاوہ ہر معبود خيالى اور باطل ہے_و ا نّ ما يدعون من دونه هو الباطل

۴ _ تدبير الہى كے سائے ميں شب و روز كى گردش ،شرك كے ہدف اور ديگر خداؤں كے بطلان كى واضح نشانى ہے_

با نّ الله يولج اليل فى النهار و ا ن ما يدعون من دونه هو الباطل

۵ _ جہان اور اس كا نظام، خداشناسى اور توحيد تك پہنچنے اور شرك كے مقصد كے بطلان كا مناسب ذريعہ ہے_

ذلك با ن الله هو الحق و ا ن الله هو العلى الكبير

۶ _ بلندمرتبہ ہونا اور بزرگى صرف خداتعالى كى شان ہے_و ا نّ الله هو العلى الكبير

مذكورہ جملے ميں ''ہو'' ضمير فصل ہے اور ''العليَّ'' ''ا نّ''كى پہلى اور ''الكبير'' دوسرى خبر ہے اور دونوں ميں ''ال'' جنس كا اور مفيد حصر ہے_

۷ _ خداتعالى ''علّي'' (بلند مرتبہ) اور كبير (بزرگ) ہے_و انّ الله هوالعلى الكبير

آيات الہي:آفاقى آيات ۵/اسما و صفات:على ۷; كبير ۷

باطل معبود:ان كا كھوكھلاپن ۳; ان كے كھوكھلے پن كے دلائل ۴

توحيد:توحيد عبادى ۲، ۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۶; اسكى تدبير ۴; خداشناسى كے دلائل ۵; اس كا علو ۶; اسكى كبريائي ۶; اسكى تدبير كى نشانياں ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۱

دن:اسكى گردش ۱، ۴/رات:

۵۹۲

اسكى گردش ۱، ۴

شرك:اسكے بطلان كے دلائل ۴; اسكے كھوكھلے ہونے كے دلائل ۵

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۲

آیت ۶۳

( أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ )

كيا تم نے نہيں ديكھا كہ اللہ نے آسمان سے پانى برسايا تو اس سے زمين سرسبز و شاداب ہوجاتى ہے _ يقينا اللہ بہت زيادہ مہربان اور حالات كى خبر ركھنے والا ہے (۶۳)

۱ _ آسمان سے بارش كا نازل ہونا، خداتعالى كى ربوبيت اور تدبير كا ايك جلوہ ہے _ا لم تر فتصبح الأرض مخضرة

''ا لم تر ...'' ميں استفہام تقرير كيلئے ہے يہاں پر بات ان لوگوں كے ساتھ ہے كہ جن كا عقيدہ تھا كہ آسمان سے بارش كا نازل ہونا اور اس كے ذريعے زمين كا سبز و شاداب ہونا اور زندگى كى گاڑى كا چلنا اور انسان كى زندگى كا سر و سامان پانا يہ سب صرف قدرت الہى كے جلوہ اور خداتعالى كى تدبير كے زير سايہ ميسر ہے ليكن اسكے باوجود ان كا خيال يہ تھا كہ ان كى تقدير ديگر خداؤں كے ہاتھ ميں ہے_

۲ _ بارش ، زمين كے سرسبز ہونے، نباتات كے اگنے اور زندگى كے نظام كے چلتے رہنے كا سبب ہے_

ا نزل من السماء مائً فتصبح الأرض مخضرّة

۳ _ قدرتى اشياء ميں غور و فكر، انسان كى توحيد اور يكتاپرستى تك دسترسى حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_

ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائً

۴ _ قدرتى اور مادى علتوں كى كارگردگي، اراده الهى كي محقق هوني كا مظهر هي_ا لم تر ا نّ الله انزل من السماء مائً فتصبح

الأرض مخضرّة

۵ _ آسمان سے بارش كے نازل ہونے كى اصلى علت ميں گہر اغور و فكر كرنا ضرورى ہے_

ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائً فقبح الأرض مخضرّة

۶ _ بارش كا نازل ہونا اور اس كا زمين كے اندرتك گھس جانا اور اسكے ذريعے زمين كا سرسبز و شاداب ہوجان خداتعالى كى اشيا كے ظاہر و باطن پر محيط ہونے اور اسكے جہان ہستى كے موجودات كے تار و پود ميں نفوذ ركھنے كى ايك نشانى ہے_

۵۹۳

ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائً إنّ الله لطيف

''لطيف'' (مصدر ''لطافة'') سے دقيق كے معنى ميں ہے اور مصدر ''لطف'' سے ''صاحب لطف و كرم'' كے معنى ميں ہے خداتعالى كى لطيف كے ساتھ توصيف پہلے معنى كى بنياد پر خداتعالى كے اس طرح اشياء كے دل و جان ميں نفوذ ركھنے اور حاضر ہونے سے كنايہ ہے كہ كوئي اسے محسوس نہيں كرتا اس بناء پر بارش كے نزول كو بيان كرنے كے بعد كہ جو غير محسوس طريقے سے زمين كے اندر تك سرايت كرتى ہے_ اس صفت كا ذكر كرنا اس حقيقت كو بيان كر رہا ہے كہ بارش خداتعالى كے لطيف ہونے كى ايك علامت ہے_ مذكورہ مطلب اسى معنى كى بنياد پر ہے_

۷ _ خداتعالى كى سب انسانوں كے ساتھ نرى اور مدارات_إنّ الله لطيف

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''لطيف'' لطف (نرمى و مدارات) سے مشتق ہو اس صورت ميں ''لطيف'' كا متعلق محذوف ہے يعنى''إنّ الله لطيف بعباده''

۸ _ خداتعالى ،انسانوں كے امور سے مكمل طور پر آگاہ ہے_إنّ الله لطيف خبير

۹ _ بارش كا نازل ہونا اور اسكے ذريعے نباتات كا اُگنا خداتعالى كى انسانوں كے امور سے مكمل طور پر آگاہ ہونے كى نشانيوں ميں سے ہے_ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائ إنّ الله لطيف خبير

۱۰ _ خداتعالى لطيف (دقيق) اور خبير (آگاہ) ہے_إن الله لطيف خبير

اسما و صفات:خبير ۱۰; لطيف ۱۰

بارش:اس كا برسنا ۱، ۶، ۹; اسكے فوائد ۲

تدبر:خلقت ميں تدبر كے اثرات ۳

تفكر:بارش برسنے كے عوامل ميں تفكر كرنا ۵

توحيد:اس كا پيش خيمہ۳

نباتات:ان كے اگنے كے عوامل ۲

زندگي:اسكے عوامل ۲

خداتعالى :اس كا علم ۸; اسكے ارادے كے مجارى ۴; اس كا لطف و كرم ۷; اسكے محيط ہونے كى نشانياں ۶; اسكى تدبير كى نشانياں ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۱; اسكے علم كى نشانياں ۹

۵۹۴

زمين:اس كا سرسبز ہونا۶; اسكے سرسبز ہونے كے عوامل ۲

قدرتى عوامل:ان كا كردار ۴

نباتات:ان كا اگنا ۹

آیت ۶۴

( لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )

آسمانوں اور زمين ميں جو كچھ بھى ہے سب اسى كے لئے ہے اور يقينا وہ سب سے بے نياز اور قابل حمد و ستايش ہے (۶۴)

۱ _ خداتعالى عالم ہستى كا مطلق اور بے رقيب مالك ہے_له ما فى السّموات و ما فى الأرض

''لہ'' مقدر عامل كے متعلق اور ''ما'' كى خبر ہے پس اس كا مبتدا پر مقدم كرنا مفيد حصر ہے قابل ذكر ہے كہ يہاں پر بات ان لوگوں سے ہے جن كا يہ خيال تھا كہ جہاں ميں كئي خدا ہيں اور انسانوں كى تقدير ان كے ہاتھ ميں ہے اس حقيقت كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پورا عالم ہستى خداتعالى كى ملكيت اور اسكے اختيار ميں ہے مذكورہ جمع ميں بنيادى طور پر كسى دوسرے موجود_ كہ جو خود كى ملكيت سے باہر اور ديگر اشياء ميں تصرف كى قدرت ركھتا ہو_ كے وجود كو ايك باطل اور جاہل ذہنوں كا گھڑا ہوا خيال شمار كيا گيا ہے_

۲ _ عالم خلقت ميں كئي آسمان ہيں _له ما فى السّموات

۳ _ خداتعالى ، پورے عالم ہستى كا ايسا پروردگار ہے كہ جس كا كوئي ہمسر نہيں ہے_له ما فى السّموات و ما فى الأرض

۴ _ پورے عالم ہستى ميں صرف خداتعالى غنى و بے نياز اور حميد و لائق تعريف ہے_و إن الله لهو الغنى الحميد

''ہو'' ضمير فعل اور ''الغني''،''إن'' كى پہلى اور ''الحميد''دوسرى خبر ہے اور ان ميں ''ال'' جنس كيلئے اور مفيد حصر ہے_ قابل ذكر ہے كہ يہ حصر شرك والى فكر كے وہم و خيال ہونے كى ايك اور دليل كو بيان كررہى ہے كيونكہ اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے پورا عالم ہستى خدا كى حمد ميں مصروف ہے اور صرف اس كا نيازمند ہے كسى ايسے موجود كى

۵۹۵

كوئي گنجائش نہيں ہے كہ جو خود بے نياز ہو اور دوسروں كى نياز كو پورا كرے اور اس وجہ سے قابل ستائش ہو_

۵ _ پورا عالم ہستى فقير، خدائے يكتا كا نيازمند اور اسكى تعريف كرنے و الا ہے_له ما فى السموات و إنّ الله لهو الغنى الحميد

۶ _ بے نياز ى اور تمام كمالات كا حامل ہونا ،ربوبيت اور انسان و كائنات كے امور كى تدبير كے لائق ہونے كى شرط ہے_و إن الله لهو الغنى الحميد

۷ _ خداتعالى كى مطلق بے نيازى اور مالكيت اسكے حمد و ستائش كے لائق ہونے كا سرچشمہ _

له ما فى السموات و إن الله لهو الغنى الحميد

''مطلق بے نيازى اور مالكيت'' كے بعد ''حميد'' كو ذكر كرنا مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ خداتعالى غنى (بے نياز) اور حميد (تعريف كيا ہوا) ہے_و إن الله لهو الغنى الحميد

آسمان:ان كا متعدد ہونا ۲

اسما ء و صفات:حميد۸; غنى ۸

انسان:اس كا رب ۶

بے نيازي:اسكے اثرات ۶

توحيد:توحيد ربوبى ۳

عالم خلقت:اس كا مالك ۱; اس كا رب ۶; اس كى نيازمندى ۵

حمد:خدا كى حمد ۴، ۵; خدا كى حمد كا سرچشمہ ۷

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱، ۴; اس كا بے نظير ہونا۳; اسكى بے نيازى ۴، ۷; اسكى مالكيت ۴، ۱، ۷

ربوبيت:اسكے شرائط ۶

كمال:اسكے اثرات ۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۱، ۳، ۴

نياز:خدا كى طرف نياز ۵

۵۹۶

آیت ۶۵

( أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاء أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ )

كيا تم نے نہيں ديكھا كہ اللہ نے تمہارے لئے زمين كى تمام چيزوں كو مسخر كر ديا ہے اور كشتياں بھى دريا ميں اسى كى حكم سے چلتى ہيں اور وہى آسمانوں كو روكے ہوئے ہے كہ اس كى اجازت كے بغير زمين پر نہيں گر سكتا ہے _ اللہ اپنے بندوں پر بڑا شفيق اور مہربان ہے (۶۵)

۱ _ زمين كى تمام موجودات (جمادات، نباتاتاور حيوانات) انسان كى خدمت ميں اور اس كے استفادہ كيلئے مسخر اور رام ہيں _ا لم تر ا نّ سخرلكم ما فى الأرض

۲ _ انسان، زمين ميں خدا كى محترم ترين اور بزرگ ترين مخلوق ہے_سخر لكم ما فى الا رض لرء وف رحيم

''ا لم تر ...'' ميں استفہام تقرير كيلئے ہے (''سخّر'' كے مصدر) تسخير كا معنى ہے رام كرنا_ قابل ذكر ہے كہ اس حصے ميں بھى بات ان لوگوں سے ہو رہى ہے كہ جو يہ ديكھتے ہيں كہ خداتعالى نے اس وسيع زمين ميں سب چيزوں كو _ جمادات، نباتات اور حيوانات_ ان كيلئے رام كيا ہے اور ان كے اختيار ميں قرار ديا ہے تا كہ اسكے سائے تلے اپنى زندگى كى مختلف قسم كى ضروريات كو پورا كرسكيں اور انكى زندگى كى گاڑى بلاتوقف چلتى رہے ليكن اسكے باوجود ان كا خيال يہ ہے كہ انكى تقدير ديگر خداؤں كے يہاں بنتى ہے_

۳ _زمين،خداتعالى كے انسان كا رب ہونے كے جلووں سے سرشار ہے_ا لم تر ا نّ سخرلكم ما فى الأرض

۴ _ عالم طبيعت كے انسان كيلئے رام ہونے، سمندر ميں كشتى كى حركت اور زمين كے آسمانى پتھروں اور ديگر كرات كے ساتھ ٹكرانے سے محفوظ رہنے كى طرف توجہ خداتعالى كى توحيد ربوبى تك پہنچنے كا واضح ذريعہ ہے_

ا لم تر ا نّ الله سخّر ا ن تقع على الأرض

۵ _ عالم طبيعت سے خدمت لينا اور اسكے منافع سے بہرہ مند ہونا ،سب انسانوں كا مساوى اور جائز حق ہے_

ا لم تر ا نّ الله سخّر لكم ما فى الأرض

۵۹۷

جو كچھ زمين ميں ہے اسے انسان كيلئے رام كرنے كا لازمہ يہ حقيقت ہے كہ سب انسان زمين اور اس ميں جو كچھ ہے اس سے استفادہ كرنے كا مساوى حق ركھتے ہيں اور كسى كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ دوسرے كو اس حق سے منع كرے_

۶ _ سمندر ميں كشتيوں كى حركت ، خداتعالى كے ا ذن اور اسكے حكم كے تحت ہے_و الفلك التى تجرى فى البحر بأمره

۷ _ قدرتى عوامل، حكم خدا كے تحت اور اسكے ارادے كے مجارى ہيں _ا لم تر ا ن الله سخّرلكم ما فى الا رض و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۸ _ موجيں مارتے ہوئے سمندر كو رام كرنا، خداتعالى كى انسانوں كو عالم طبيعت پر مسلط كرنے كى طرف توجہ كا واضح نمونہ ہے_ا لم تر ا ن الله سخّرلكم ما فى الأرض و الفلك تجرى فى البحر بأمره

۹ _ زمين كا خداتعالى كے ارادے سے اجرام سماوى اور ديگر كرات كے ساتھ ٹكرانے سے محفوظ ہونا_

و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۱۰ _ نظام خلقت كا برپا ہونا اور اس كا نابودى سے محفوظ ہونا خداتعالى كى مسلسل حفاظت اور نگہداشت كا نيازمند ہے_

و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۱۱ _ نظام خلقت كا قائم ہونا، خداتعالى كى بے انتہا قدرت كا ايك جلوہ ہے_و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۱۲ _ اجرام آسمانى (شہاب و غيرہ) كا زمين پر گرنا ، خداتعالى كى مشيت اور اذن كے ساتھ ہے _

و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض إلّاإيذنه

۱۳ _ انسان كيلئے عالم طبيعت كا رام ہونا، سمندر ميں كشتيوں كى حركت اور زمين كا اجرام سماوى كے ساتھ ٹكرانے سے محفوظ ہونا يہ سب خداتعالى كى انسان كے ساتھ خاص رحمت و رافت كے جلوے ہيں _ا لم تر ا ن الله سخّر إنّ الله بالناس لرء وف رحيم

۱۴ _ خداتعالى كى وسيع رحمت و رافت تمام انسانوں (مؤمن و كافر) كو شامل ہے_إنّ الله بالناس لرء وف رحيم

صدر آيت (سخر لكم) كے قرينے سے ''الناس'' سب انسانوں كو شامل ہے چاہے وہ مؤمن ہوں يا كافر_

۱۵ _ خداتعالى ،رؤوف اور رحيم ہے_إنّ الله بالناس لرء وف رحيم

۵۹۸

مذكورہ جملے ميں مفسرين نے ''رافت'' كو ضرر كو روكنے سے اور ''رحمت'' كو فائدہ پہنچانے سے كنايہ بنايا ہے صدر آيت كہ جو دونوں خصوصيات پر مشتمل ہے اس معنى كا مويد ہوسكتا ہے_

اجرام سماوي:ان سے محفوظ ہونا ۴، ۹، ۱۳; ان كے گرنے كا سرچشمہ ۱۲

اللہ تعالي:اسكے اذن كے اثرات ۱۲; اس كا اذن ۶; اسكے اوامر ۶; اسكے اوامر كى حكمرانى ۷; اسكے ارادے كے مجارى ۷; اسكى رافت كى نشانياں ۱۳; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۳; اسكى رحمت كى نشانياں ۱۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۱۱; اسكے لطف و كرم كى نشانياں ۸; اسكے ارادے كا كردار ۹

اسما و صفات:رؤوف ۱۵; رحيم ۱۵

انسان:ان كے حقوق كا مساوى ہونا ۵; اسكے فضائل ۱، ۲; اس كا رب ۳

توحيد:توحيد ربوبى ۴

حقوق:حق استفادہ ۵

حيوانات:انكى خلقت كا فلسفہ ۱

سمندر:اسے مسخر كرنا ۸

ذكر:عالم طبيعت كى تسخير كے ذكر كرنے كے اثرات ۴

خدا كى رافت:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۴

رحمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۴

زمين:اس كا محفوظ ہونا ۴، ۹، ۱۳

عالم خلقت:اس كا انہدام ۱۰; اس كا محفوظ ہونا۱۰; انكا نظام ۱۱; اسكى نگہداشت ۱۰

طبيعت:اس سے استفادہ كرنا۵; اسكى تسخير ۱۳

قدرتى عوامل:ان كا رام ہونا ۷; ان كا كردار ۷/كشتياں :انكى حركت ۴، ۱۳; انكى حركت كا سرچشمہ ۶

نباتات:انكى خلقت كا فلسفہ ۱/موجودات:انكى تسخير ۱; ان ميں سے معززترين ۲; انكى خلقت كا فلسفہ۱

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۴

۵۹۹

آیت ۶۶

( وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ )

وہى خدا ہے جس نے تم كو حيات دى ہے اور پھر موت دے گا اور پھر زندہ كرے گا مگر انسان بڑا انكار كرنے والا اور نا شكرا ہے (۶۶)

۱ _ انسان خدا كا خلق كيا ہوا اور اسكے ارادے سے زندہ ہے_و هو الذى ا حياكم

۲ _ موت تمام انسانوں كى قطعى تقدير _ثم يميتكم

۳ _ (روز قيامت) ارادہ الہى سے انسانوں كى نئي زندگي_ثم يحييكم

۴ _ انسان كى خلقت، موت اور نئي زندگى ميں خداتعالى كى ربوبيت كا متجلى ہونا_و هو الذى ا حياكم ثم يميتكم ثم يحييكم

۵ _ انسان ،خداتعالى كے مقابلے ميں بہت ناشكرا ہے_و هو الذى ا حياكم إنّ الإنسان لكفور

''كفور'' مبالغے كا صيغہ اور ''كفر'' سے مشتق ہے ''كفر'' كبھى ايمان كے مقابلے ميں استعمال ہوتا ہے اور كبھى شكر كے مقابلے ميں لہذا مذكورہ جملے ميں ''كفور'' ہوسكتا ہے شكور (بہت شكرگزار) كے مقابلے ميں اور ''بہت ناشكرا'' كے معنى ميں ہو اسى طرح ہوسكتا ہے بہت بے ايمان كے معنى ميں ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے_

۶ _ شرك، بت پرستى اور توحيد سے منہ موڑنا، خداتعالى كے مقابلے ميں انسان كى ناشكرى كا عروج ہے_

و هو الذى ا حياكم إنّ الإنسان لكفور

انسان:اس كا خالق ۱; اسكى خلقت ۴; اسكى صفات ۵; اس كا انجام ۲; اسكى ناشكرى ۵، ۶; اسكى موت ۴

بت پرستي:

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750