تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219179 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

یہی وہ رجال تسبیح ہیں جن کے بارے مین خداوند عالم نے ارشاد فرمایا :

 “يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ (1) وَ الْآصالِ رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقامِ الصَّلاةِ وَ إيتاءِ الزَّكاةِ يَخافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فيهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصارُ ” ( نور، 36 ۔37)

“ ان گھروں میں خداوند عالم کی تسبیح کیا کرتے ہیں صبح و شام ایسے مرد جنھیں خرید و فروخت خدا کے ذکر اور نماز قائم کرنے ، زکوة ادا

--------------

1 ـ مجاہد و یعقوب بن سفیان نے ابن عباس سے آیت “وَ إِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها وَ تَرَكُوكَ قائِماً (جمعہ،11) “ اور جب وہ کسی تجارت یا کھیل تماشے کو دیکھ پاتے ہیں تو اس طرف دوڑ پڑتے ہیں اور تمہیں کھڑا چھوڑ جاتے ہیں” کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ وحیہ کلثوم سامان تجارت لے کر جمعہ کے دن پلٹے اور مدینہ سے باہر آکر ٹکے اور طبل بچایا تاکہ لوگوں کو ان کی آمد کی اطلاع ہوجائے طبل کی آواز سن کر سب کے سب دوڑ پڑے اور رسول اﷲ(ص) کو منبر پر خطبہ پڑھتے چھوڑ دیا” صرف حضرت علی(ع) حسن(ع) و حسین(ع) ابوذر و مقداد رہ گئے۔ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا خداوند عالم نے  آج کے دن میری اس مسجد کی طرف نگاہ کی اگر یہ چند نفر نہ ہوتے تو پورا مدینہ آگ سے پھونک دیا جاتا اور ان لوگوں پر اسی طرح پتھر برسائے جاتے جیسا کہ قوم لوط پر برسائے گئے اور  جو لوگ پیغمبر(ص) کے پاس مسجد میں باقی رہ گئے ان کے بارے میں خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی“يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ ۔۔الخ”

۸۱

کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن میں دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔”

انھیں کا گھر وہ گھر تھا جس کا ذکر خداوند عالم نے ان شاندار الفاظ میں فرمایا :

 “ في‏ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ ”( نور، 36)

“ وہ قندیل ایسے گھروں میں روشن ہے جس کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں(1) ۔”

خداوند عالم نے آیتِ نور میں انھیں کے مشکوة(2) کو اپنے نور کی مثال قرار دیا ہے اور اس کے تو زمین و آسمان میں بلند تر نمونے ہیں۔ وہ بڑی قوت و حکمت والا ہے یہی سبقت کرنے والے یہی مقربان بارگاہ(3) یہی صدیقین(4) یہ شہداء و صالحین ہیں۔

--------------

1 ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں انس بن مالک و بریدہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے آیت فی بیوت الخ کی تلاوت فرمائی تو حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر علی(ع) و فاطمہ(س) کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) یہ گھر بھی ان گھروں میں سے ہے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہاں بلکہ ان سے بہتر گھروں میں ہے۔

2 ـ اشارہ ہے آیت مثل نورہ کمشکوة ۔۔۔۔الخ کی طرف جس کے متعلق حسن بصری اور ابو الحسن مغازلی شافعی سے روایت ہے کہ مشکوة سے مراد حضرت فاطمہ(س) مصباح سے حسنین(ع) اور شجرہ مبارکہ سے حضرت ابراہیم(ع) شرقی و غربی نہ ہونے سے حضرت فاطمہ(س) کا یہودی و نصرانی نہ ہونا یکاد زیتہا سے ان کی کثرت علم اور نور علی(ع) نور سے ایک امام کے بعد دوسرا امام یھدی اﷲ نورہ سے ان کی اولاد کی محبت مراد ہے۔

3 ـ دیلمی نے جناب عائشہ اور طبرانی ابن مردویہ ن جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا سبقت کرنے والے تین ہوئے موسی کی طرف سبقت کرنے والے ۔ یوشع بن نون۔ عیسی کی طرف یاسین اور میری طرف علی بن ابی طالب(ع) ۔ صواعق محرقہ باب9 فصل 2۔

4 ـ ابن نجار نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہےکہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا صدیقین تین ہیں۔ حبیب نجار مومن آل یاسین۔دوسرے حزقیل مومن آل فرعون، تیسرے علی بن ابی طالب(ع) اور یہ علی سب سے افضل ہیں۔

۸۲

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دوستوں کے بارے میں خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “وَ مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ ”( اعراف، 181)

“ اور ہماری مخلوقات میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دین حق کی ہدیت کرتے ہیں اور حق ہی حق اںصاف بھی کرتے ہیں(1) ۔”

انھیں کی جماعت اور دشمنوں کی جماعت کے متعلق ارشاد ہوا:

 “لا يَسْتَوي أَصْحابُ النَّارِ وَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفائِزُونَ ” ( حشر، 20)

“ جہنم والے اور جنت والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جنت والے ہی تو کامیاب ورستگار ہیں(2) ۔”

نیز انھیں حضرات کے دوستوں اور دشمنوں کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا:

--------------

1 ـ زاذان نے حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ عنقریب اس امت کے تہتر (73) فرقے ہوں گے ان میں سے بہتر(72) جہنمی اور ایک جنتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا و ممن خلقنا ۔۔ ۔ الخ اور یہ لوگ ہم ہیں اور ہمارے شیعہ ہیں ۔کتاب علامہ ابن مردویہ صفحہ276۔

2 ـ شیخ طوسی نے اپنی آمالی میں نہ اسناد صحیح امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرماکر کہا اصحاب نار وہ ہیں جو علی(ع) کی ولایت کو ناپسند کریں اور عہد توڑیں اور میرے بعد ان سے جنگ  کریں جناب صدوق نے بھی حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے او علامہ اہلسنت وموفق بن احمد نے جناب جابر سے روایت کی ہے  کہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا قسم بخدا یہ(علی(ع)) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن رستگار ہیں۔

۸۳

 “أَمْ نَجْعَلُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ كَالْمُفْسِدينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقينَ كَالْفُجَّارِ ”( ص، 28)

“ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان لوگوں جیسا قرار دین گے جو زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں یا ہم نیکوکار و پرہیز گار بندوں کو بدکاروں جیسا قرار دیں گے(1) ۔”

انھیں دونوں جماعتوں کے متعلق ارشاد خداوندِ عالم ہوا :

 “أَمْ حَسِبَ الَّذينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَواءً مَحْياهُمْ وَ مَماتُهُمْ ساءَ ما يَحْكُمُونَ ” (جاثیه، 21)

“ جو لوگ برے کام کیا کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام بھی کرتے رہے  اور ان سب کا جینا مرنا ایک سا ہوگا۔ یہ لوگ کیا برے حکم لگاتے ہیں(2) ۔”

انھیں کے  متعلق اور ان کے شیعوں کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے:

 “  إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ

--------------

1 ـ ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ بن الحارث کے حق میں نازل ہوئی ہے، پس اس آیت میں وہ لوگ کہ کرتے ہیں برائیاں عتبہ اور شیبہ اور ولید ہیں اور وہ لوگ کہ ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں وہ جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ ہیں۔

2 ـ صواعق محرقہ، باب 9، فصل اول۔

۸۴

خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ” (البینہ، 7)

“ بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا وہی بہترین خلائق ہیں(1) ۔”

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “هذانِ خَصْمانِ اخْتَصَمُوا في‏ رَبِّهِمْ فَالَّذينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيابٌ مِنْ نارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَميمُ ” ( حج، 19)

“ یہ دونوں مومن وکافر دو فریق ہیں جو آپس میں اپنے پرورگار کے بارے میں لڑتے ہیں پس جو لوگ کہ کافر ہیں ان کے لیے یہ آتشین لباس قطع کیا جائے گا اور ان کے سروں پہ کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔”

انھیں کے بارے میں اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی :

 “  أَ فَمَنْ كانَ مُؤْمِناً كَمَنْ كانَ فاسِقاً لا يَسْتَوُونَ

--------------

1 ـ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری پارہ 3 صفحہ16 میں بسلسلہ تفسیر سورہ حج باسناد صحیحہ حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا میں سب سے پہلے خداوند عالم کے حضور بروز قیامت اپنا جھگڑا پیش کروں گا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ قیس نے کہا یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جنھیں نے بدر کے روز جنگ کی وہ جناب حمزہ، اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ ، شیبہ اور ولید ہیں امام بخاری نے اس پرجناب ابوذر سے روایت کی ہے جناب ابوذر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ آیت جناب حمزہ اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ و شیبہ اور ولید کے حق نازل ہوئی۔

۸۵

 أَمَّا الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى‏ نُزُلاً بِما كانُوا يَعْمَلُونَ وَ أَمَّا الَّذينَ فَسَقُوا فَمَأْواهُمُ النَّارُ كُلَّما أَرادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْها أُعيدُوا فيها وَ قيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذابَ النَّارِ الَّذي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (1) ” ( سجدہ، 18،19،20)

“ بھلا وہ شخص جو ایمان والا ہو فاسق جیسا ہوسکتا ہے ؟ ( ہرگز نہیں) دونوں برابر نہیں ہوسکتے پس وہ لوگ جوکہ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان کے لیے جنات ماوی ہیں وہاں وہ فروکش ہوں گے یہ صلہ ہے ان کے اعمال خیر کا اور جولوگ  فاسق ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے جب وہ اس میں سے نکلنا چاہیں گے دوبارہ اسی جہنم میں پلٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آتش جہنم کا مزہ چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔”

انھیں حضرات کے متعلق اور ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے ان سے حاجیوں

--------------

1 ـ یہ آیت بہ اتفاق مفسرین و محدثین حضرت امیرالمومنین(ع) اور ولید عتبہ بن ابی معیط کے متعلق نازل ہوئی۔ امام واحدی نے کتاب اسباب النزول میں سعید بن جبیر سے انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید بن عتبہ بن ابی معیط نے حضرت امیرالمومنین(ع) سے کہا میرا نیزہ تمھارے نیزے سے کہیں زیادہ تیز اور میری زبان تمھاری زبان سے کہیں زیادہ چلتی ہوئی اور لشکر میری وجہ سے کہیں زیادہ بھرا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت تمھارے۔ اس پر حضرت علی(ع) نے فرمایا خاموش بھی رہ کر تو فاسق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی افمن کان مومنا کمن فاسقا ۔ اس آیت میں مومن سے مراد حضرت علی(ع) اور فاسق سے مراد ولید بن عتبہ ہے۔

۸۶

 کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی آباد کاری کی بدولت فخر و مباہات کی تھی خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی۔

 “أَ جَعَلْتُمْ سِقايَةَ الْحاجِّ وَ عِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ جاهَدَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمينَ (1) ”( توبه، 19)

“ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کی سقائی اور  خانہ کعبہ کی آبادی کو اس شخص کے ہمسر بنا دیا ہے جو خدا کے اور روز آخرت پر ایمان لایا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا۔ خدا کے نزدیک تو یہ لوگ برابر نہیں اور خداوندِ عالم ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا۔”

انھیں حضرات کے ابتلا و آزمائش میں بہ عمدگی پورے  اترنے اور شدائد و مصائب ہنسی خوشی جھیل جانے پر خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا :

--------------

1 ـ یہ آیت حضرت علی(ع) اور جناب عباس اور طلحہ بن شیبہ کی شان میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ ان لوگوں نے باہم فخر کیا طلحہ نے کہا تھا خانہ کعبہ کا میں متولی ہوں اس کی کنجیاں میرے پاس رہتی ہیں۔ عباس نے کہا میں زمزم کا متولی ہوں اور سقائی میرے ہاتھوں مین ہے۔ حضرت علی(ع) نے کہا کہ میری سمجھ نہیں آتا کہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو میں نے چھ مہینے لوگوں سے پہلے نماز پڑھی ہے اور میں خدا کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ علامہ واحدی نے کتاب اسباب النزول میں یہ روایت حسن بصری شبسی وغیرہ سے نقل کی ہے اور ابن سیرین و مرہ حمدانی سے منقول ہے کہ حضرت علی(ع) نے جناب عباس سے کہا آپ ہجرت نہیں کرتے؟ آپ رسول(ص) کے پاس نہ جائیے گا۔ جناب عباس نے کہا مجھے حاجیوں کی سقائی کا شرف پہلے سے حاصل ہے کیا یہ ہجرت کےشرف سے بڑھا ہوا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۸۷

 “  وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْري نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ (1) ” ( بقره، 207)

“ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں اور خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔”

نیز یہ بھی ارشاد فرمایا :

 “  إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى‏ مِنَ الْمُؤْمِنينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقاتِلُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْراةِ وَ الْإِنْجيلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ أَوْفى‏ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد3 صفحہ4 پر جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ قال شری علی نفسہ لیس ثوب النبی الحدیث۔ جناب ابن عباس نے کہا حضرت علی(ع) نے اپنا نفس فروخت کیا اور پیغمبر (ص) کی چادر اوڑھی ۔ امام حاکم نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے معیار و شرائط پربھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے لکھا نہیں۔ ذہبی ایسے متشدد بزرگ نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ امام حاکم نے اسی صفحہ پر امام زین العابدین(ع) سے یہ روایت بھی کی ہے کہ پہلے وہ شخص جنھوں نے اپنے نفس کو خوشنودی خدا کے لیے بیچا وہ علی بن ابی طالب(ع) ہیں جب کہ وہ شب ہجرت پیغمبر(ص) کے بستر پر سورہے۔ پھر امام حاکم نے اس موقع پر حضرت علی(ع) نے جو اشعار فرمائے تھے وہ اشعار نقل کیے ہیں جن کا پہلا شعر یہ ہے

                   وقيت بنفسی خير من وطا الحصا              ومن طاف بالبيت العتيق و بالحجر

میں نے جان پر کھیل کر اس بزرگ کی حفاظت کی جو ان تمام لوگوں میں جو سرزمین بطحا پر چلے درجنوں نے خانہ کعبہ اور حجر اسود کا طواف کیا بہتر و افضل ہیں۔”

۸۸

الَّذي بايَعْتُمْ بِهِ وَ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظيمُ التَّائِبُونَ الْعابِدُونَ الْحامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنينَ ” (توبہ، 111۔112)

“ اس میں تو شک نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لیے ہیں کہ ( ان کی قیمت) ان کے لیے بہشت ہے( اسی وجہ سے) یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو ( کفار کو) مارتے ہیں اور (خود بھی) مارے جاتے ہیں ( یہ ) پکا وعدہ ہے ( جس کا پورا کرنا ) خدا پر لازم ہے ( اور ایسا پکا ہے کہ) توریت اور انجیل اور قرآن (سب) میں ( لکھا ہوا) ہے اور اپنے عہد کا پورا کرنے والا خدا سے بڑھ کر اور کون  ہے تو تم اپنی ( خرید) فروخت سے جو تم نے خدا سے کی ہے خوشیاں مناؤ یہی تو بڑی کامیابی ہے ( یہ لوگ ) توبہ کرنے والے عبادت گزار ( خدا کی ) حمد و ثنا کرنے والے ( اس کی راہ میں) سفر کرنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک کام کا حکم کرنے والے اور برے کام سے روکنے والے اور خدا کی ( مقرر کی ہوئی) حدوں کے اوپر نگاہ رکھنے والے ہیں اور ( اے رسول(ص)ان ) مومنین کو ( بہشت کی ) خوشخبری دے دو۔”

نیز ارشاد فرمایا :

 “الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَ النَّهارِ سِرًّا

۸۹

وَ عَلانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ (1) ” ( بقرہ، 274)

“ جو لوگ کہ اپنے مالوں کو رات اور دن میں ظاہر بہ ظاہر اور چھپا کر ( راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کا صلہ ہے ان کے پروردگار کے نزدیک ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ اندوہ گین ہوں گے۔”

انھیں نے صدق دل سے پیغمبر(ص) کی سچائی کی تصدیق کی اور خداوندِ عالم نے ان کی اس تصدیق کی ان الفاظ میں گواہی دی :

 “  وَ الَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ (2) بِهِ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ” (زمر، 33)

“ اور یاد رکھو کہ جو رسول(ص) سچی بات لے کر آئے ہیں اور جس نے

--------------

1 ـ جملہ محدثین و مفسرین نے بسلسلہ اسناد جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ آپ کے پاس چار درہم تھے آپ نے ایک درہم شب میں ایک دن میں ، ایک چھپا کر، ایک ظاہر بظاہر راہ خدا میں صدقہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ تفسیروحیدی ص16، تفسیر معالم التنزیل ص135، تفسیر بیضاوی،جلد 1، ص125 تفسیر نیشاپوری، ص278 تفسیر کبیر رازی، جلد2، ص528 تفسیر روح المعانی جلد1، صفحہ 495 وغیرہ۔

2 ـالَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ سے مراد پیغمبر(ص) صدق بہ سے مراد امیرالمومنین(ع) ہیں۔ جیسا کہ امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) و موسی کاظم(ع) و امام رضا(ع) اور عبداﷲ بن عباس ، ابن حذیفہ ، عبداﷲ بن حسن ، زید شہید و غیر ہم نے تصریح کی ہے۔ خود امیرالمومنین(ع) اس آیت کے ذریعہ احتجاج فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی اور میں مراد ہوں۔ ابن مغازلی نے بھی اپنی مناقب میں مجاہد سے اس مضمون کی روایت کی ہے اور حافظ ابن مردویہ اور حافظ ابو نعیم نے بھی۔

۹۰

ان کی تصدیق کی یہی لوگ تو پرہیز گار ہیں۔”

پس یہی حضرات حضرت رسول خدا(ص) کی مخلص جماعت اور آپ کے قریبی رشتہ دار  ہیں جنھیں خداوند عالم نے اپنی بہترین رعایت اور بلندترین توجہ کے ساتھ مخصوص فرمایا اور ارشاد فرمایا :

 “وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، 214)

“ اے پیغمبر(ص) اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو خدا کا خوف دلاؤ۔”

یہی پیغمبر(ص) کے اولی الارحام ہیں اور اولی الارحام بعض بعض سے مقدم و اولیٰ ہیں کتاب الہی میں یہ پیغمبر(ص) کے قریبی رشتہ دار اور قریبی رشتہ دار بھلائی کے  زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔ یہی بروز قیامت پیغمبر(ص) کے درجے میں ہوں گے اور جنتِ نعیم میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں گے جس پر دلیل خداوند عالم کا یہ قول ہے۔

 “وَ الَّذينَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإيمانٍ أَلْحَقْنا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ ما أَلَتْناهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ (1) ” (طور، 21)

“ جو لوگ کہ ایمان لائے اور ان کی ذریت نے بھی ایمان لا کر اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی انھٰیں سے ملحق کردیں گے اور ان کے اعمال میں سے رتی برابر کمی نہ کریں گے۔”

یہی وہ حق دار حضرات ہیں جن کے حق کی ادائیگی کا قرآن نے ان الفاظ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد2 صفحہ468 پر بسلسلہ تفسیر سور طور ابن عباس سے اس آیت کے متعلق روایت کی ہےابن عباس نے کہا کہ خداوند کریم مومن کی ذریت کو بھی جنت کے اسی درجے میں رکھے گا جس میں وہ مومن ہوگا اگرچہ بلحاظ اعمال کمتر ہو پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ وما التناہم کا مطلب یہ ہے کہ وما نقصناھم یعنی ہم کوئی کمی نہ کریں گے۔

۹۱

 میں حکم سنایا :

 “  وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ (1) ” ( اسراء، 26)

“ صاحبان قرابت کو ان کا حق دے دو۔”

یہی وہ صاحبان خمس ہیں کہ جب تک ان کو خمس نہ پہنچا دیا جائے انسان بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ارشاد الہی ہے:

 “ وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ (2) ” ( انفال، 41)

“ سمجھ رکھو کہ تم جو کچھ مال غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ خدا کا ہے اور رسول(ص) کا اور رسول(ص) کے قرابت داروں کا۔”

یہی وہ صاحبان فئی ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

“ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى‏ فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ ( حشر، 7)

خداوندِ عالم نے دیہات والوں سے جو مال بطور خالصہ بلا حرب و ضرب رسول(ص) کو دلوایا ہے وہ اﷲ کے لیے ہے اور رسول(ص) کے لیے اور صاحبان قرابت کے لیے اور یہی وہ اہل بیت(ع) ہیں جن سے آیہ “إِنَّما يُريدُ اللَّهُ

--------------

1 ـ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آںحضرت(ص) نے جبرائیل(ع) سے پوچھا ، قرابت والے کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے۔ جواب دیا فاطمہ(س) کو فدک دے دیجیے کہ یہ انھیں کا حق ہے اور جو کچھ فدک میں خدا و رسول(ص) کا حق  ہے وہ بھی انھیں کے حوالے کر دیجیے پس رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ(س) کو بلا کر وثیقہ لکھ کر فدک ان کے حوالے کردیا۔تفسیر در منثور جلد4، صفحہ177، وغیرہ۔

2 ـ تفسیر روح المعانی جلد 3 صفحہ 637، تفسیر نیشاپوری، جلد10، صفحہ15 وغیرہ۔

۹۲

لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ” ( احزاب، 33) خطاب کیا گیا۔

یہی وہ آل یسین ہیں جن پر خداوند عالم سلام بھیجا اور ارشاد ہوا : سلام(1) علیٰ آل یسین۔ یہی وہ آل محمد(ص) ہیں جن پر درود و سلام بھیجنا خداوند عالم نے بندوں پر فرض قرار دیا اور ارشاد ہوا :

 “  إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً ” ( احزاب، 56)

“ تحقیق کہ خداوند عالم اور ملائکہ نبی(ص) پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو۔”

لوگوں نے پیغمبر(ص) سے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) ہم آپ پر سلام کیونکر کریں یہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن یہ ارشاد ہو کہ درود آپ کی آل پر کیونکر بھیجا جائے تو آپ نے ارشاد

--------------

1 ـ  علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ باب 11 میں بسلسلہ ان آیات کے جو اہل بیت(ع) کی شان میں  نازل ہوئیں تیسری آیت یہ بھی لکھی ہے اور لکھا ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہاں آیت میں مراد سلام علی آل محمد ( آل محمد پر سلام ہو) علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ کلبی نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) کےاہل بیت(ع) پانچ چیزوں میں پیغمبر(ص) کے برابر حصہ دار ہیں۔ سلام میں  خداوند عالم نے پیغمبر(ص) سے کہا السلام علیک ایہا النبی اور اہل بیت (ع) کے لیے کہا سلام علی آل یسین دوسرے تشہد مین درود بھیجے جاتے ہیں تیسرے طہارت میں پیغمبر(ص) سے فرمایا طہ اے طیب و طاہر اور اہل بیت(ع) کے لیے آیت تطہیر نازل ہوئی چوتھے صدقہ حرام ہونے میں پانچویں محبت میں رسول کے لیے فرمایا :فاتبعونی يحببکم اﷲ اور اہل بیت(ع) کے لیے ارشاد فرمایا:قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى (شوری، 23)

۹۳

فرمایا یوں کیا کرو :

الل ه م صل علی محمد و علی آل محمد”

لہذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان حضرات پر درود بھیجنا پیغمبر(ص) پر درود بھجنے کا جزو ہے جب تک آپ کی آل(ع) کو بھی شامل کر کے درود نہ بھیجا جائے تب تک پیغمبر(ص) پر درود پورا نہ ہوگا اسی وجہ سے علماء و محققین نے اس آیت کو بھی ان آیات میں شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان  میں نازل ہوئیں۔ چنانچہ علامہ ابن حجر مکی نے بھی صواعق محرقہ باب 11 میں اس آیت کو منجملہ  ان آیات کے شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ پس یہی منتخب و برگزیدہ بندگان الہی  ہیں بحکم خدا نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی وارثان کتاب خدا ہیں جن کے بارے میں خداوندِ عالم نے فرمایا ہے:

 “ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَيْراتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبيرُ (1) ۔” ( فاطر، 32)

--------------

1 ـ ثقتہ الاسلام کلینی علیہ الرحمہ نے بہ سند صحیح سالم سے روایت کی ہے کہ سالم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر(ع) سے اس آیت  ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا  آیت میں سابق بالخیرات ( نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والا) سے مراد امام اور مقتصد ( میانہ رو) سے مراد امام کی معرفت رکھنے والا اور ظالم لنفسہ ( اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والا) سے مقصود وہ ہے جو امام سے بے گانہ و نا آشناہو ۔ اسی مضمون کی روایت کلینی نے امام جعفر صادق(ع) امام موسی کاظم(ع) اور امام رضا علیہ السلام سے بھی کی  ہے۔ علمائے اہلسنت میں حافظ  ابن مردویہ  نے اس حدیث کی روایت امیرالمومنین(ع) سے کی ہے۔

۹۴

“ پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں منتخب کیا ہے، پس لوگوں میں بعض تو ایسے ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ( اور یہ وہ لوگ ہیں جو امام کی معرفت نہیں رکھتے) اور بعض میانہ رو ہیں ( یعنی دوستدارن ائمہ) اور بعض نیکیوں کی طرف بحکم خدا سبقت کرنے والے ہیں( یعنی امام ) اور یہ بہت بڑا فضل ہے۔”

اہل بیت طاہرین(ع) کی شان میں نازل شدہ اتنی ہی آیات بیان کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

جناب ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ تنہا حضرت عی(ع)  کی شان میں تین سو آیتیں(1) نازل ہوئیں اور ابن عباس کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بیان ہے کہ ایک چوتھائی قرآن اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہلبیت(ع) اور قرآن ایک جڑکی دوشاخین ہیں جو کبھی جدا نہیں ہوسکتیں۔ ہم انہیں چند آیتوں پر بس کرتے ہیں۔ انھیں میں غور فرمائیے آپ پر حقیقت و امر واقع بخوبی واضح ہوجائے گا۔

                                                                                                                                                                             ش

--------------

1 ـ جیسا کہ ابن عساکر نے ابن عباس سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب 9، فصل 3 صفحہ2۔

۹۵

مکتوب نمبر7

جناب مولانائے محترم ! تسلیم

گرامی نامہ سبب عزت افزائی ہوا۔ سبحان اﷲ آپ کے زور بیان قوتِ تحریر کی داد نہیں دی جاسکتی۔ آپ نے جتنی باتیں تحریر فرمائیں ان میں کسی کا مجال تکلم نہیں جو کچھ آپ نے لکھا صحیح لکھا البتہ ایک کھٹک دل میں رہی جاتی ہے۔ اعتراض کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اہل بیت(ع) کے متعلق ان آیات کے نازل ہونے کی روایت کی ہے وہ شیعہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ براہ کرم اس اعتراض کا دفعیہ فرمائیے۔

                                                                     س

۹۶

جواب مکتوب

محترمی تسلیم!

آپ نے جو اعتراض پیش کیا وہ درست نہیں۔ اعتراض کے دونوں ٹکڑے غلط ہیں۔ یہ بھی کہ جنھوں نے ان آیات کے شانِ نزول کےمتعلق روایت کیا ہے وہ شیعہ تھے اور یہ بھی کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ اعتراض کا پہلا حصہ تو یوں درست نہیں کہ ان آیات کے شانِ نزول کے متعلق صرف شیعوں ہی نے روایت نہیں کی بلکہ معتبر و موثق علماء اہل سنت نے بھی روایتیں کی ہیں ۔ ان کی سنن اور مسانید اٹھا کر دیکھیے آپ کو نظر آئے گا کہ انھوں نے ان روایتوں  کو شیعوں سے کہیں زیادہ طریقوں سے ذکر کیا ہے۔ اگر شیعہ علماء نے کسی آیت کے متعلق چار طریقوں سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی تو حضرات اہل سنت نے دس طریقوں سے روایت کی ہے۔

رہ گیا اعتراض کا دوسرا ٹکڑا کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں اہلسنت کے لیے حجت نہیں تو یہ اور بھی غلط ہے جیسا کہ علماء اہلسنت کی کتب حدیث گواہ ہیں حضرات اہل سنت کے طریق و اسناد میں ایک دو نہیں بکثرت شیعہ راوی ملتے ہیں۔ اور شیعہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ نامی گرامی ، جن کی شیعیت  سے دنیا واقف ہے۔وہ شیعہ جنھیں برا کہا جاتاہے، گمراہ سمجھا جاتا ہے ، رافضی کہہ کر پکارا  جاتا ہے۔ انھیں شیعوں کی روایتیں آپ کے صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں اور ان کے علاوہ دیگر حدیث کی کتابوں میں بھی۔ خود امام بخاری کے شیوخ میں بہت سے ایسے شیعوں کے نام ملتے ہیں

۹۷

 جنھیں رافضی مخالف وغیرہ کہا جاتا ہے مگر پھر بھی امام بخاری نے ان سے استفادہ کیا ، ان سے روایتیں لیں۔ امام بخاری نے بھی ان کی روایت کردہ حدیثیں اپنی صحیح میں درج کی ہیں اور دیگر اصحاب نے بھی۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ شیعوں کی روایت حضرات اہلسنت کے لیے حجت نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں کو حقیقت کا علم ہی نہیں۔ اگر معترضین اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ شیعہ اہلبیت(ع) کے پیرو انھیں کے اصولوں کے پابند اور ان کے اوصاف و محاسن کو پرتو ہیں اندازہ ہو کہ وہ کس قدر اعتماد و اعتبار کے لائق ہیں لیکن ناواقف نے ایک اشتباہ کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے کس قدر لائق ماتم ہے یہ امر کہ محمد بن یعقوب کلینی ایسے بزرگ جنھیں دنیا ثقتہ الاسلام کے لقب سے یاد کرتی ہے محمد بن علی بن بابویہ القمی جو مسلمانوں کے صدوق کہے جاتے ہیں، محمد بن حسن طوسی جنھیں شیخ الامہ کہا جاتا ہے محض شیعیت کے جرم میں معترضین کے نزدیک اعتبار کے قابل نہ سمجھے جائیں اور ان کی پاکیزہ صفات جو علوم آلِ محمد(ص) کا خزینہ ہیں حقارت کی نظر سے دیکھی جائیں ایسے بزرگوں کے متعلق شک وشبہ سے کام لیا جائے جو جامع علوم و کمالات تھے۔ روئے زمین پر قطب و ابدال کی حیثیت رکھتے تھے جنھوں نے خدا و رسول(ص) کی اطاعت احکامِ الہی کی تبلیغ و اشاعت مسلمانوں  کی خیر خواہی و رہبری میں اپنی عمریں تمام کردیں۔

معمولی سے معمولی شخص واقف ہے کہ یہ مقدس حضرات جھوٹ کو کتنا بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی ہزاروں کتابوں میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور صراحت کی ہے کہ حدیثِ پیغمبر(ص) میں جھوٹ بولنا ہلاکت و عذاب دائمی کا سبب ہے حدیث میں جھوٹ بولنا تو اتنا بڑا گناہ سمجھا ہے ان لوگوں نے کہ روزہ توڑ دینے

۹۸

 والی چیزوں میں قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان میں عمدا جھوٹی حدیث بیان کرے تو ان حضرات کا فتوی ہے کہ اس شخص کا روزہ باطل ہوگیا۔ اس پر روزہ کی قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی دینا ضروری ہے جس طرح دیگر مفطرات کا حکم ہے بعینہ جھوٹی حدیث بیان کرنے کا بھی۔ جب کذب کو وہ ایسا امر عظیم سمجھتے ہیں تو خدا را انصاف سے فرمائیے کہ خود ایسے حضرات کے متعلق جو صالحین و ابرار عابد شب زندہ دار ہوں ایسا وہم و گمان بھی کیا جاسکتا ہے؟

ہائے ہائے ! شیعیانِ آل محمد(ص) اہل بیت(ع) کے پیرو متہم سمجھے جائیں اور ان کی بیان کی ہوئی حدیثوں پر کذب و افترا کا شک وشبہ کیا جائے۔ ان کے اقوال ٹھکرا دینے کے قابل سمجھے جائیں اور خارجی ناصبی خدا کو مجسم ماننے والے افراد کی حدیثیں سر آنکھوں پر رکھی جائیں۔ وہ جو کچھ بیان کریں آمنا و صدقنا کہہ کر تسلیم کر لیا جائے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ سمجھی جائے۔ یہ تو کھلی ہوئی نا انصافی صریحی جفا پروری ہے۔ خدا محفوظ رکھے۔

                                                                     ش

۹۹

مکتوب نمبر8

حضرت مولانائے محترم ! تسلیم!

آپ کا تازہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ کی تحریر اتنی متین، دلائل سے پر اور حقائق سے لبریز تھی کہ میرے لیے چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے ایک ایک لفظ تسلیم کرلوں۔ البتہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرات اہل سنت نے بکثرت شیعہ راویوں سے روایتیں لی ہیں، اسے آپ نے بہت مجمل رکھا۔ آپ کو ذرا تفصیل سے کام لینا چاہیے تھا۔ مناسب تھا کہ آپ ان شیعہ راویوں کے نام بھی تحریر فرماتے نیز ان کی شیعیت کے متعلق حضرات اہل سنت کا اقرار بھی ذکر کرتے۔ امید ہے کہ آپ میرا مقصد سمجھے گئے ہوں گے۔

                                                                             س

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

اسكى مذمت ۶

حيات:اس كا سرچشمہ ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۱، ۳; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴

شرك:اسكى مذمت ۶

مردے:انہيں آخرت ميں زندہ كرنا ۳، ۴

موت:اس كا قطعى ہونا ۲

آیت ۶۷

( لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكاً هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُّسْتَقِيمٍ )

ہر امت كے لئے ايك طريقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل كر رہى ہے لہذا اس امر ميں ان لوگوں كو آپ سے جھگرا نہيں كرنا چاہئے اور آپ انہيں اپنے پروردگار كى طرف دعوت ديں كہ آپ بالكل سيدھى ہدايت كے راستہ پر ہيں (۶۷)

۱ _ قربانى كرنا، تمام الہى شريعتوں اور اديان كى عبادى رسومات ميں سے ہے_لكل ا مة جعلنا منسكاً هم ناسكوه

''منسك'' مصدر ميمى اور ''نسك'' كا مترادف ہے اور ''نسك'' كا معنى ہے حيوان كو تقرب الہى كے قصد كے ساتھ ذبح كرنا_

۲ _ گذشتہ ہر امت كا فريضہ تھا كہ وہ قربانى كى رسومات كو اس طرح انجام دے جيسے خدا تعالى نے مقرر كيا ہے_

لكل ا مة جلعنا منسكاً هم ناسكوه

جملہ ''ہم ناسكوہ'' محل نصب ميں اور ''منسكاً'' كيلئے صفت ہے اور مذكورہ جملہ خبر كے قالب ميں انشاء ہے يعنى ہر امت كا فريضہ تھا كہ اس ''منسك'' كو اس طرح انجام دے جيسے ہم نے مقرر كيا ہے قابل ذكر ہے كہ''ہم ناسكوہ'' خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) كو اور ان كى اتباع ميں مسلمانوں كو حكم ہے كہ ان كا بھى فريضہ ہے كہ اپنے منسك كو اس طرح انجام ديں جيسے خدا نے مقرر كيا ہے_

۳ _ مسلمان، قربانى كى رسومات كو اس طرح انجام دينے پر مأمور ہيں جيسے خداتعالى نے مقر ركيا ہے_

لكل ا مة جعلنا منسكاً هم ناسكوه

۶۰۱

۴ _ مسلمانوں كى قربانى كى رسومات، صدر اسلام كے مشركين كے دشمن پر مبنى اعتراض كا نشانہ _

لكل ا مة جعلنا منسكاً هم ناسكوه فلا ينازعنك فى الا مر

(''ينازعون'' كے مصدر) ''نزاع ''كا معنى ہے مخاصمت اور دشمنى كرنا ''لاينازعنك'' كى فاعل ضمير كا مرجع مشركين ہيں اور ''فى الا مر'' ميں ''ال'' مضاف اليہ كے عوض ميں ہے اور يہ ''فى ا مر المنسك'' كى تقدير ميں ہے يعنى مشركين قربانى كے مسئلہ ميں تيرے ساتھ دشمنى پر نہ اترآئيں _

۵ _ خداتعالى نے مشركين كو قربانى كے معاملے ميں پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ جھگڑنے اور مخاصمت سے شدت كے ساتھ ڈرايا_فلاينازعنك فى الا مر

۶ _ خداتعالى انسانوں كا پروردگار ہے_و ادع إلى ربك

۷ _ خداتعالى نے پيغمبراكرم(ص) كو حكم ديا كہ وہ مشركين سے چاہيں كہ وہ ان كے ساتھ دشمنى او رحدود و احكام الہى كى مخالفت كے بجائے خدائے يكتا كى طرف لوٹ آئيں اور اسكى پرستش كيلئے آمادہ ہوجائيں _

فلاينازعنك فى الا مر و ادع إلى سبيل ربك

۸ _ شرك و بت پرستى گمراہى اور صراط مستقيم سے انحراف ہے_فلاينازعنك فى الا مر و ادع إلى سبيل ربك لعلى هدء مستقيم

۹ _ توحيد اور يكتاپرستى راہ ہدايت اور صراط مستقيم ہے_و ادع الى ربك إنّك لعلى هديً مستقيم

۱۰ _ پيغمبراكرم(ص) ،صراط مستقيم كو پالينے والے شخص تھے_إنّك لعلى هديً مستقيم

۱۱ _ گمراہوں كو راہ ہدايت اور صراط مستقيم كى طرف دعوت دينا ،صراط مستقيم كو پالينے والے سب افراد كى الہى ذمہ داري_وادع إلى ربك إنّك لعلى هديً مستقيم

جملہ''إنك لعلى هديً مستقيم'' ''وادع إلى ربك'' كى علت ہے يعنى چونكہ تو راہ ہدايت اور صراط مستقيم پر ہے لذا ان گمراہ مشركين كو اپنے پروردگار كى طرف دعوت دے ممكن ہے

۶۰۲

وہ ضلالت و گمراہى سے نجات پاكر تيرے راستے كى طرف پلٹ آئيں _

آسمانى اديان:انكى ہم آہنگى ۱

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى دعوت ۷; آپ(ص) كى رسالت ۷; آپ(ص) كے فضائل ۱۰; آپ كے ساتھ جھگڑنے والے ۵; آپ(ص) كى ہدايت ۱۰

انسان:اس كا رب ۶

بت پرستي:اسكى گمراہى ۸

توحيد:اسكے اثرات ۹; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۷

خداتعالى :اسكے اوامر ۷; اسكى ربوبيت ۶; اسكے نواخى ۵

گذشتہ امتيں :انكى شرعى ذمہ دارى ۲

شرك:اسكى گمراہى ۸

صراط مستقيم:اس سے گمراہى ۸; اسكے موارد ۹; اسكى طرف ہدايت ۱۰، ۱۱

قرباني:اس كا عبادت ہونا ۱; يہ اديان آسمانى ميں ۱; يہ گذشتہ امتوں ميں ۲; اس كا طريقہ ۳; اسكے بارے ميں جھگڑا ۵

گمراہ لوگ:انہيں دعوت دينا ۱۱

مسلمان:انكى شرعى ذمہ دارى ۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا اعتراض ۴; انكو دعوت دينا ۷; صدر اسلام كے مشركين اور مسلمانوں كى قربانى ۴; صدر اسلام كے مشركين كا جھگڑا ۵

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۶ہدايت يافتہ لوگ: ۱۰

انكى ذمہ دارى ۱۱

ہدايت:اسكى طرف دعوت ۱۱; اسكے عوامل ۹

۶۰۳

آیت ۶۸

( وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ )

اور اگر يہ آپ سے جھگڑا كريں تو كہہ ديجئے كہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے (۶۸)

۱ _ مشركين كى پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مخاصمت اور دشمنى _وادع إلى ربّك و إن جادلوك

(''جادلوا'' كے مصدر ) ''جدال'' كا معنى ہے مخاصمت اور جھگڑنا ''جادلوا'' كا متعلق محذوف ہے اور يہ در اصل يوں ہے''و ان جادلوك فى ربك تدعوهم اليه ...'' اگر مشركين آپ(ع) كے ساتھ اس پروردگار يكتا_ كہ جس پر ايمان لانے اور اسكى پرستش كرنے كى آپ(ع) انہيں دعوت ديتا ہے_ جھگڑا اور مخاصمت كريں _

۲ _ مشركين كا پيغمبر(ص) كى دعوت (يكتاپرستى كى دعوت) كو ردكرنا اور ان كا شرك و بت پرستى پر مصر رہنا_

و ادع إلى ربّك و إن جادلوك

۳ _ مشركين كا برا انجام ہے_و إن جادلوك فقل الله ا علم بما تعملون

۴ _ خداتعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) كو مشركين كے ساتھ نمٹنے كى روش كى تعليم دينا_و إن جاد لوك فقل الله ا علم بما تعملون

۵ _ كفر اور توحيد و يكتاپرستى كے خلاف مبارزت كے برے انجام كے بارے ميں خبر دينا پيغمبر(ص) كى الہى رسالت_

و إن جادلوك فقل الله ا علم بما تعملون

۶ _ جھگڑالو كافروں كے ساتھ نرمى اور مدارات كا اظہار كرنا خداتعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) كو نصيحت_و إن جادلوك فقل الله ا علم بما تعملون جملہ ''الله ا علم بما تعملون'' دھمكى ہے ليكن نرمى ومدارات كے اظہار كے ساتھ _

۷ _ خداتعالى انسان كے تمام اعمال سے آگاہ ہے_الله اعلم بما تعملون

انسان:اس كے عمل كا علم ۷

۶۰۴

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا ڈرانا ۵; آپ(ص) كو نصيحت۶; آپ(ص) كے دشمن ۱; آپ(ص) كى دعوت كو رد كرنا ۲; آپ(ص) كى رسالت ۵; آپ(ص) كا معلم ۴

توحيد:توحيد عبادى كى طرف دعوت ۲; اسكے ساتھ مبارزت كا انجام ۵

خداتعالى :اسكى تعليمات ۴; اسكى نصيحتيں ۶; اس كا علم ۷

كفار:ان كے ساتھ مدارات ۶

ڈرانا:كفر كے انجام سے ڈرانا ۵

مشركين:انكى دشمنى ۱; ان كے ساتھ نمٹنے كا طريقہ ۴; انكا برا انجام ۳; انكى ھٹ دھرمى ۲; ان كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۲

آیت ۶۹

( اللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ )

اللہ ہى تمہارے درميان روز قيامت ان باتوں كا فيصلہ كرے گا جن باتوں ميں تم اختلاف كر رہے ہو (۶۹)

۱ _ قيامت، مؤمنين اورمشركين كے درميان فيصلہ كا دن_الله يحكم بينكم يوم القيامة

مذكورہ آيت ميں خداتعالى سب مؤمنين اور مشركين كو مخاطب بنا رہا ہے_ (''يحكم'' كے مصدر) ''حكم'' كا معنى ہے قضاوت اور فيصلہ كرنا يعنى خداتعالى روز قيامت مؤمنين اور مشركين كے درميان فيصلہ كرے گا ''

۲ _ خداتعالى رو زقيامت كا قاضى اور جج _الله يحكم بينكم يوم القيامة

۳ _ روز قيامت خداتعالى كا فيصلہ انسانوں كے كردار سے مكمل علم و آگاہى كى بنياد پر ہے_الله علم بما تعملون الله يحكم بينكم يوم القيامة

۴ _ عالم آخرت عالم سزا و جزا_الله يحكم بينكم يوم القيامة

جملہ''الله يحكم بينكم يوم القيامة'' مؤمنين كو اجر كى خوشخبرى اور مشركين كو سزا اور كيفر كى دھمكى ہے_

۶۰۵

۵ _ توحيد اور شرك (خداپرستى اور بت پرستي) روز قيامت خداتعالى كے فيصلوں اور جزا و سزا كے معين كرنے كى بنياد_

الله يحكم فيما كنتم فيه تختلفون

گذشتہ عبارت كے پيش نظر''فيما كنتم'' ميں ''ما'' ''الذي' كے معنى ميں ہے كہ جو مسئلہ توحيد و شرك_ كہ جو تاريخ كے موحدين اور مشركين كے درميان اختلاف كا محور رہا ہے_ كى طرف اشارہ ہے_

۶ _ كفر و ايمان كے محاذوں (خداپرستوں اور بت پرستوں ) كاٹكڑاؤ اور جھگڑے كى تاريخ بشر ميں گہرى جڑيں ہيں _

فيما كنتم فيه تختلفون

ماضى استمرارى (كنتم مختلفون ) كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۷ _خداتعالى كى طرف سے مشركين كى دشمنيوں كے مقابلے ميں پيغمبر(ص) اكرم كو تسلي_

و ان جدلوك فقل الله ا علم بما تعملون و الله يحكم بينكم يوم القيامة

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے دشمن ۷; آپ(ص) كو تسلى ۷

توحيد:اسكے اثرات۵; اسكى اخروى پاداش۵

خداتعالى :اسكے علم كے اثرات۳; اسكى اخروى قضاوت ۲; اسكى قضاوت كا معيار ۳، ۵

شرك:اسكے اثرات ۵; اسكى اخروى سزا ۵

عمل:اسكے اخروى اثرات ۳

قيامت:اس ميں پاداش۴; اس ميں قضاوت ۲، ۳; اس ميں سزا ۴; اسكى خصوصيات ۱، ۴

كفار:كفار و مؤمنين كى دشمنى ۶

مؤمنين:ان كے بارے ميں اخروى قضاوت ۱

مشركين:انكى دشمنى ۷; ان كے بارے ميں اخروى قضاوت ۱

۶۰۶

آیت ۷۰

( أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاء وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ )

كيا تمہيں نہيں معلوم ہے كہ اللہ زمين اور آسمان كى تمام باتوں كو خوب جانتا ہے اور يہ سب باتيں كتاب ميں محفوظ ہيں اور يہ سب باتيں خدا كے ليئے بہت آسان ہيں (۷۰)

۱ _ خداتعالى زمين و آسمان كى ہر چيز پر علمى احاطہ ركھتا ہے_ا لم تعلم ان الله يعلم ما فى السماء و الأرض

۲ _ اس بات كى طرف توجہ كہ خداتعالى آسمان و زمين كے تمام موجوات اور ان كے تحولات سے آگاہ ہے انسان كے تمام اعمال كے بارے ميں خداتعالى كے علمى احاطے كو باور كرنے كا ذريعہ ہے_فقل الله ا علم بما تعملون ...ا لم تعلم ا ن الله يعلم ما فى السماء و الأرض

''ا لم تعلم'' ميں استفہام تقريرى ہے يعنى كيا تجھے نہيں پتا كہ خدا آسمان و زمين ميں جو كچھ بھى ہے اس سے آگاہ ہے مقصود يہ ہے كہ وہ خدا كہ جسكے علمى احاطہ ميں پورا عالم ہستى ہے انسانوں كے ا عمال_ كہ جو عالم ہستى كا حصہ ہيں _ سے آگاہ ہے اور ان ان كا كوئي قول و فعل اس سے مخفى نہيں ہے_

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ كہ خداتعالى پورے عالم وجودپر علمى احاطہ ركھتا ہے_ا لم تعلم ا ن الله يعلم ما فى السماء و الأرض ''ا لم تعلم'' ميں استفہام تقريرى مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۴ _ انسان كے اعمال ايك كتاب ميں درج اور محفوظ كرديئے جاتے ہيں _الله ا علم بما تعملون إنّ ذلك فى كتاب

''ذلك'' آيت نمبر ۶۸ كے جملے ''ماتعلمون'' كے محتوى كى طرف اشارہ ہے يعنى وہ (تمہارے اعمال) سب ايك كتاب ميں درج اور محفوظ ہوجاتے ہيں _

۵ _ انسانوں كے اعمال كو درج اور محفوظ كرنا، خداتعالى

۶۰۷

كيلئے ايك آسان كام ہے_إن ذلك على الله يسير

جملہ ''إن ذلك على الله يسير'' ميں ''ذلك'' انسانوں كے اعمال كو درج اور محفوظ كرنے (ان ذلك فى الكتاب) كى طر ف اشارہ ہے_

۶ _ روز قيامت ،انسانوں كے ہر قول و فعل كو پر كھا جائيگا_الله ا علم بما تعملون الله يحكم بينكم يوم القيامة إنّ ذلك فى كتاب إنّ ذلك على الله يسير

آسمان:اس كے موجودات ۱

ايمان:خدا كے محيط ہونے پر ايمان ۲

خداتعالى :اس كا علمى احاطہ ۱، ۳; اسكے افعال ۵; اسكے علم و سعت ۱، ۲، ۳

ذكر:علم خدا كے ذكر كے اثرات ۲

عقيدہ:علم خدا كا عقيدہ ۳

عمل:اس كا درج كرنا ۴; اس كا اخروى حساب و كتاب ۶; اسكے اندراج كا آسان ہونا ۵

قيامت:اسكى خصوصيات ۶

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ ۳

موجودات:ان كا علم۱

نامہ اعمال: ۴

آیت ۷۱

( وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً وَمَا لَيْسَ لَهُم بِهِ عِلْمٌ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ )

اور يہ لوگ خدا كو چھوڑ كر ان كى پرستش كرتے ہيں جن كے بارے ميں نہ خدا نے كوئي دليل نازل كى ہے اور نہ خود انہيں كوئي علم ہے اور ظالمين كے لئے واقعا كوئي مدد گار نہيں ہے (۷۱)

۱ _ بت پرستي، اسلام سے پہلے كے عربوں كے درميان رائج تھي_

۶۰۸

و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۲ _ مشركين ،كائنات كو خداؤں (ارباب) كى تدبير اور ربوبيت كے تحت اور خداتعالى كو خداؤں كا خدا (رب الارباب) سمجھتے تھے_و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن ''لم ينزل'' ميں فاعلى ضمير كا مرجع ''الله '' اور ''بہ'' كى ضمير كا مرجع ''ما'' ہے اور ''سلطان'' كا معنى ''تسلط'' مذكورہ جملہ مشركين كے غلط مقصور كائنات كو بيان كررہا ہے وہ كائنات كو خداؤں (ارباب) كى ربوبيت اور تدبير كے تحت اور خدا كو رب الارباب اور خداؤں كا خدا سمجھتے تھے اس بناء پر خدا كى پرستش كے بجائے ان خداؤں كى عبادت كرتے تھے مذكورہ آيت ميں اس كو غلط شمار كرتے ہوئے اعلان كيا گيا ہے كہ خداتعالى نے كسى موجود كو ايسا تسلط اور قدرت عطا نہيں كى كہ وہ كائنات كے امور كى تدبير كرسكے بلكہ پورا عالم ہستى اسكے قبضہ قدرت ميں اور بلاواسطہ طور پر اسكى ربوبيت اور تدبير كے تحت ہے_

۳ _ كائنات كے امور كى تدبير كيلئے خداؤں كا وجود ايك باطل سوچ ہے_و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۴ _ خداتعالى نے كسى موجود كو كائنات كے امور كى تدبير كيلئے كسى قسم كى قدرت عطا نہيں كى _

و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۵ _ خداتعالى بے نظير پروردگار اور عالم ہستى كا واحد تدبير كرنے والا ہے_و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۶ _ بت پرستي، انتہائي جہالت اور نادانى كى علامت ہے_و ما ليس لهم به علم

۷ _ خداتعالى كى طرف سے عصر بعثت كے مشركين كى شديد تحقير _و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطناً و ما ليس لهم به علم

۸ _ شرك اور بت پرستى ظلم ہيں _و يعبدون من دون الله و ما للظالمين من نصير

۹ _ مشركين خداتعالى كى نصرت اور دستگيرى سے محروم ہيں _و ما للظالمين من نصير

بت پرستي:اسكے اثرات ۶; يہ جاہليت ميں ۱; اسكى تاريخ ۱; اس كا ظلم ہونا ۸

توحيد:توحيد ربوبى ۴، ۵

نظر يہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

جہالت:اسكى نشانياں ۶/خداتعالى :اسكى نصرت سے محروم لوگ ۹

شرك:

۶۰۹

اس كا ظلم ہونا ۸

عالم خلقت:اس كا مدبر ۵; اسكى تدبير كا سرچشمہ ۴

عقيدہ:باطل عقيدہ ۳; كئي معبودوں كا عقيدہ ۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى تحقير ۷; انكا عقيدہ ۲; انكى محروميت ۹; ان كے معبود ۲

موجودات:انكا عاجز ہونا۴

آیت ۷۲

( وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَلِكُمُ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَبِئْسَ الْمَصِيرُ )

اور جب ان كے سامنے ہمارى واضح آيتيں پڑھ كر سنائي جاتى ہيں تو تم ديكھتے ہو كہ كفر اختيار كرنے والوں كے چہرہ پر ناگوارى كے آثار ظاہر ہو جاتے ہيں اور قريب ہوتا ہے كہ وہ ان تلاوت كرنے والوں پر حملہ كر بيٹھيں تو كہہ ديجئے كہ ميں اس سے بدتبر بات كے بارے ميں تمہيں بتلا رہا ہوں اور وہ جہنم ہے جس كا خدا نے كافروں سے وعدہ كيا ہے اور وہ بہت برا انجام ہے (۷۲)

۱ _ قرآن كى ساخت ٹكڑے ٹكڑے كى صورت ميں ہے اور ہر ٹكڑے كو آيت كہاجاتا ہے_و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينات

۲ _ آيات قرآن واضح، قابل فہم اور ہر قسم كے ابہام سے دور ہيں _و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينات

۶۱۰

''بينات'' ''بينة'' كى جمع اور ''ء اياتنا'' كيلئے حال ہے اور ''بينہ'' (''بين'' كى مونث) كا معنى ہے واضح الدلالة

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كا شرك كى نسبت جاہلانہ اور اندھا تعصب اور قرآن كے الہى معارف كى نسبت غضب اور كينہو إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينات تعرف فى وجوه الذين كفروا المنكر

''منكر'' (''انكار'' كا مترداف) مصدر ميمى اور ناخوشى و ناپسنديدگى كے معنى ميں ہے يعنى جب بھى ان پر ہمارى واضح آيات كى تلاوت كى جائے تو كافروں كے چہروں پر ناخوشى و ناپسنديدگى كے اثرات كو تشخيص دے سكتا ہے _

۴ _ مؤمنين كى طرف سے صدر اسلام كے لوگوں كو توحيد كى دعوت اور ان پر آيات قرآنى كى تلاوت كرنا_

و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بالذين يتلون عليهم ء اى تن

۵ _ آيات قرآنى اور ان كے توحيدى معارف كو سننے كے وقت صدر اسلام كے كفار كا غضبناك ہونا اور ان كے چہروں پر كينے او رنفرت كے آثار كا نمايان ہونا_و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينت تعرف فى وجوه الذين كفروا المنكر

۶ _ آيات قرآنى كو سن كر مشركين كا غيض و غضب اس قدر زيادہ ہوتا كہ قريب تھا وہ اپنے سامنے آيت قرآنى كى تلاوت كرنے والوں پر حملہ آور ہوجائيں _يكادون يسطون بالذين يتلون عليهم ء اى تن

(''يسطون'' كے مصدر) ''سطو'' كا معنى ہے حملہ كرنا يعنى بعيد نہيں ہے كہ مشركين اپنے سامنے ہمارى آيات كى تلاوت كرنے والوں كے گلے پڑجائيں _

۷ _ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے كينہ توز كافروں كا استہزا_قل ا فا نبئكم بشر من ذلكم النار

''افانبئكم'' ميں استفہام استہزاء كيلئے ہے اور (''ا نبا'' كے مصدر) ''تنبئہ'' كا معنى ہے خبر دينا اور ''ذلكم'' قرآن كى توحيدى آيات كو سننے كے وقت مشركين كو چہروں كے اترجانے والى حالت كى طرف اشارہ ہے _

۸ _ خداتعالى كے حكم سے پيغمبر(ص) كى طر ف سے كينہ توز مشركين كو دوزخ كے عذاب كى دھمكى _

قل ا فا نبئكم بشر من ذلكم النار

۹ _ دوزخ ميں كافروں كے چہرے انتہائي گرفتگى اور افسردگى كى حالت ميں ہوں گے_قل افا نبئكم بشر من ذلكم النار

۱۰ _ دوزخ كى آگ ،كفار كو خدا كا وعدہ اور ان كا برا انجام_النار وعدها الله الذين كفرو

۱۱ _ دوزخ كافروں كى جائے بازگشت اور آخرى انجام_و بئس المصير

۶۱۱

''مصير'' كا معنى ہے انجام نيز يہ جائے بازگشت كے معنى ميں بھى آتا ہے_

۱۲ _ دوزخ دوزخيوں كيلئے برى جگہ_و بئس المصير

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴، ۵

انذار:جہنم سے انذار ۸

توحيد:اسكى دعوت ۴

جہنم:اسكى آگ ۸; اس كا برا ہونا ۱۲

جہنمى لوگ:ان كا برا انجام ۱۲

خداتعالى :اسكى طرف سے استہزا۷; اسكے اوامر ۸; اسكى دھمكياں ۱۰

قرآن كريم:اس كا آيت آيت ہونا۱; اسكے دشمن ۳، ۵،۶; اسكى ساخت ۱; اس كا آسان فہم ہونا ۲; اس كا واضح ہونا۲; اسكى خصوصيات۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا مسخر كرنا ۷; صدر اسلام كے كفار كى دشمنى ۵، ۶; صدر اسلام كے كفار كے ساتھ نمٹنے كا طريقہ ۵; صدر اسلام كے كفار كے غضب كا پيش خيمہ ۵; جہنم ميں ان كى وضع قطع ۹; صدر اسلام كے كفار كے غضب كى شدت ۶; ان كا برا انجام ۱۰; ان كا انجام ۱۱; يہ جہنم ميں ۱۰، ۱۱; صدر اسلام كے كفار قرآن كى تلاوت كے وقت ۵، ۶

مؤمنين:انكى دعوت ۴

لوگ:صدر اسلام كے لوگوں پر قرآن كى تلاوت ۴; صدر اسلام كے لوگوں كو دعوت ۴

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو ڈرانا ۸; صدر اسلام كے مشركين كا تعصب ۳; صدر اسلام كے مشركين كى دشمنى ۳

۶۱۲

آیت ۷۳

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئاً لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ )

انسانو تمارے لئے ايك مثل بيان كى گئي ہے لہذا اسے غور سے سنو _ يہ لوگ جنہيں تم خدا كو چھوڑ كر آواز ديتے ہو يہ سب مل بھى جائيں تو ايك مكھى نہيں پيدا كر سكتے ہيں اور اگر مكھى ان سے كوئي چيز چھين لے تو يہ اس سے چھڑا بھى نہيں سكتے ہيں كہ طالب اور مطلوب دونوں ہى كمزور ہيں (۷۳)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے شرك و بت پرستى والى بے بنياد فكر كو خوبصورت، مختصر بديع اور واضح (جيسے ضرب المثل) اسلوب ميں بيان كيا جانا_يا ايها الناس ضرب مثل فاستعموا له

''يا ايها الناس'' كے مخاطب مشركين ہيں (''استعموا'' كے مصدر) ''استماع'' كا معنى ہے كان دھرنا (''يدعون'' كے مصدر) ''دعا'' كا معنى ہے پكارنا اور استغاثہ بلند كرنا_

قابل ذكر ہے كہ ''مثل'' وہ مختصر جملہ ہے كہ جو تشبيہ يا حكيمانہ مطلب پر مشتمل ہو كہ جو الفاظ كى روانى معنى كے واضح ہونے اور تركيب كے لطيف ہونے كى وجہ سے زبان زدعام و خاص ہوجاتا ہے اور سب اسے بغير تبديلى كے محاور ے ميں استعمال كرتے ہيں مذكورہ آيت ميں شرك و بت پرستى كى بنياد كے كمزور ہونے كو اتنے خوبصورت، مختصر، بديع اور واضح اسلوب ميں بيان كيا گيا ہے

۶۱۳

كہ يہ ''مثل'' كى طرح اس قابل ہے كہ زبان زدعام و خاص ہوجائے اسى وجہ سے خداتعالى نے اسے 'مثل'' سے تعبير كيا ہے_

۲ _ عقيدہ شرك كى بنياد كى كمزورى كو بيان كرنے ميں خداتعالى كى طرف سے بيان كردہ ضرب المثل مشركين كو سننے كى دعوت _يا ا يها الناس ضرب مثل فاستمعوا له

۳ _ شرك و بت پرستى جاہليت كے عربوں كا عقيدہ اور سوچ _يا ا يها الناس إنّ الذين تدعون من دون الله

۴ _ مشركين كے نظريہ كائنات ميں جہاں اور انسان كے امور كى تدبير خداؤں كے اختيار ميں ہے نہ خداوند متعال كے_

يا ا يها الناس إنّ الذين تدعون من دون الله

۵ _ مشركين كا اپنے خداؤں سے استغاثہ اور فرياد كرنا_إنّ الذين تدعون من دون الله

۶ _ خالقيت، ربوبيت اور خدا ہونے كى شرط ہے_يا ا يها الناس إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۷ _ مشركين كے خداؤں كا سب مل كر بھى حتى كہ ايك مكھى كو خلق كرنے سے عاجز ہونا عقيدہ شرك كے كھوكھلا ہونے كى واضح اور ناقابل انكار دليل_إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۸ _ خداتعالى ، پورے عالم ہستى كا يكتا پروردگار اور بے مثل خالق ہے_إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۹ _ خداتعالى فرياد كرنے والوں كا تنہا فريادرس ہے_إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۱۰ _ اگر مكھى جيسى ناتوان مخلوق ان خداؤں سے كوئي چيز چھين لے تو يہ اس سے وہ چيز واپس لينے سے بھى عاجز ہيں يہ بات مشركين كے عقيدے اور فكر كے بے بنياد ہونے كى ايك اور واضح اور ناقابل انكار دليل ہے_و ا ن يسلبهم الذباب شيئاً لايستنقذوه منه (''يسلب'' كے مصدر) سلب كا معنى ہے چھيننا اور (''يستنقذون'' كے مصدر) استنقاذ كا معنى ہے چھڑوانا اور واپس لينا ہے كہ اگر وہى مكھى ان سے كوئي چيز چھين لے تو يہ اس سے بھى وہ چيز واپس نہيں لے سكتے ہيں _

۱۱ _ معبودوں (اصنام)كى كمزورى و ناتوانى اور انكى پرستش كرنے والوں كى جہالت اور نادانى كا خداتعالى كى طرف سے ضرب المثل كے ساتھ سب كيلئے برملا ہونا_ضعف الطالب و المطلوب (''ضعف'' كے مصدر) ''ضعافة'' كا معنى ہے ناتواں ہونا يعنى طالب اور مطلوب دونوں ناتوان ہيں ظاہراً مقصود يہ ہے كہ ان قطعى اور ناقابل انكار

۶۱۴

دلائل كے ساتھ نہ صرف بتوں كى كمزورى اور ناتوانى بلكہ انكى پرستش كرنے والوں كى جہالت اور نادانى بھى سب كيلئے آشكار ہوگئي ہے_

استغاثہ:خدا كے ہاں استغاثہ كرنا ۹الوہيت

: اس كى شرائط ۶

بت پرستي:اسكے كھوكھلے پن كو بيان كرنا ۱; يہ جاہليت ميں ۳

توحيد:يہ خالقيت ميں ۸

عالم خلقت:اسكے مدبر كا متعدد ہون

نظريہ كائنات:اسكى خصوصيات ۹; اسكى امداد ۹; اس كا بے نظير ہونا۸

ربوبيت:اس ميں خالقيت ۶; اسكے شرائط ۶

شرك:اس كا كھو كھلا ہونا۲; اسكے كھوكھلے پن كا بيان كرنا ۱; اسكے بطلان كے دلائل ۱۰

قرآن:اسكى مثالوں كو سننا ۲; اسكے بيان كى روش۱; اسكى مثالوں كے فوائد ۱۱; اسكى مثاليں ۱

مشركين:ان كا استغاثہ ۵; انكى جہالت كا افشاء كرنا ۱۱; انكى سوچ ۴; انكو دعوت دينا ۲

باطل معبود:ان سے استغاثہ كرنا۵; انكى ناتوانى كا افشاء كرنا۱۱; انكى ناتوانى ۷، ۱۰; يہ اور خالقيت ۷

آیت ۷۴

( مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ )

افسوس كہ ان لوگوں نے خدا كى واقعى قدر نہيں پہچانى اور بشك اللہ بڑا قوت والا اور سب پر غالب ہے (۷۴)

۱ _ شر ك ايسا عقيدہ ہے كہ جس كا سرچشمہ خداتعالى كى درست شناخت كا نہ ہونا ہے_و ما قدروا الله حق قدره

(''قدروا'' كے مصدر) قدر كا معنى ہے اندازہ لگانا ''قدروا'' كى فاعلى ضمير كا مرجع مشركين ہيں اور ''حق قدرہ'' ''قدروا'' كا مفعول مطلق ہے يعنى وہ جو كائنات كے تمام انسانوں كے امور

۶۱۵

كى تدبير ديگر خداؤں كے اختيار ميں سمجھتے ہيں انہوں نے خدا كو اس طرح نہيں پہچانا جيسا وہ ہے اور ان كا گمان يہ ہے كہ خداتعالى تنہا پورے عالم ہستى كو نہيں چلاسكتا تم نے نہيں پہچانا كہ خداتعالى طاقتور اور ناقابل شكست ہے_

۲ _ خداتعالى قوى (طاقتور) او رعزيز (ناقابل شكست) ہے_إنّ الله لقوى عزيز

۳ _ خداتعالى كى درست معرفت اسكى مطلق اور نامحدود قدرت اور اسكے عزيز ہونے كے اعتقاد كيلئے اسباب فراہم كرتى ہے_و ما قدروا الله حق قدره إنّ الله لقوى عزيز

۴ _ خداتعالى كى مطلق توانائي اور اسكے ناقابل شكست ہونے كا ايمان توحيد اور تنہا اسكى ربوبيت تك دسترسى ہے_

إنّ الله لقوى عزيز

اسماء و صفات:عزيز۲; قوى ۲

ايمان :خدا كے عزيز ہونے پر ايمان كے اثرات ۴; خدا كى قدرت پر ايمان كے اثرات ۴

توحيد:توحيد ربوبى كا پيش خيمہ ۴

خدا:خداشناسى كے اثرات ۳; ناقض خداشناسى كے اثرات ۱

شرك:اس كا سرچشمہ ۱

عقيدہ:خدا كے عزيز ہونے كے عقيدے كا پيش خيمہ ۳; خدا كى قدرت كے عقيدہ كا پيش خيمہ ۳

۶۱۶

آیت ۷۵

( اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ )

اللہ ملائكہ اور انسانوں ميں سے اپنے نمائندے منتخب كرتا ہے اور وہ بڑا سننے والا اور خوب ديكھنے والا ہے (۷۵)

۱ _ انبياء خداتعالى كے برگزيدہ انسان _الله يصطفي و من الناس

(''يصطفي'' كے مصدر) ''اصطفائ'' كا معنى ہے انتخاب كرنا اورچننا اور ''ملائكہ'' (ملك يا ملائك كى جمع) فرشتوں كے معنى ميں ہے_ مقصود يہ ہے كہ خداتعالى انسانوں كى ہدايت كيلئے ان ميں سے اور فرشتوں ميں سے بعض افراد كا انتخاب كرتا ہے تا كہ فرشتے خدا سے وحى لے كر انبياء تك پہنچائيں اور انبياء (ع) سے فرشتوں سے لے كر لوگوں تك پہنچائيں _

۲ _ انبيائ، مقام نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھى خالص اور شائستہ شخصيت كے مالك ہوتے ہيں _الله يصطفي و من الناس (''يصطفي'' كا مصدر) ''اصطفائ'' صفوہ سے مشتق ہے اور ''صفوہ'' كا معنى ہے ناب اور خالص پس ''الله يصطفي ...'' كا معنى يوں بنے گا خدا اپنى رسالت كيلئے فرشتوں اور انسانوں ميں سے ناب و خالص اور لائق افراد كا انتخاب كرتا ہے_

۳ _ الہى مناصب كو حاصل كرنے ميں فرشتوں كى لياقت اور درجات كا مختلف ہونا_الله يصطفى من الملائكة رسلً

۴ _ معاشرتى ذمہ داريوں اور مناصب كے عطا كرنے ميں افراد كى صلاحيت اور لياقت كو معيار قرار دينا ضرورى ہے_

الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

۵ _ فرشتوں كا خدا سے وحى لے كر انبياء تك پہنچانا_الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

۶ _ خداتعالى انبياء كا حامى و ناصر ہے_الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

''سميع'' اور ''بصير'' كا متعلق محذوف ہے اور يہ درحقيقت يوں ہے''إنّ الله سميع ا قوالهم و بصير ا عمالهم'' خداتعالى لوگوں كى باتيں سنتا ہے اور انكے اعمال كو ديكھتا ہے_

۶۱۷

يہ جملہ پيغمبر(ص) كيلئے خداتعالى كى حمايت كا اعلان كررہا ہے اور آنحضرت(ص) كى مخالفت كرنے والوں كو دھمكى دے رہا ہے _

۷ _ خداتعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) كى مكمل حمايت اور نصرت كا اعلان_الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

۸ _ خدا سميع (سننے والا) اور بصير (ديكھنے والا)ہے _إنّ الله سميع بصير

۹ _ حضرت ابوذر_ رحمة الله عليہ _ كہتے ہيں پيغمبر(ص) نے فرمايا انبياء ۱۲۴ ہزار تھے ميں نے عرض كيا ان ميں سے كتنے رسول تھے تو فرمايا ۳۱۳(۱)

اسما و صفات:سميع ۸; بصير۸

انبياء (ع) :نبوت سے پہلے ۲; ان كا انتخاب ۱; انكى تعداد ۹; انكا حامى ۶; ان كے فضائل ۱، ۲; انكى طرف وحى ۵

خدا كے برگزيدہ بندے : ۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا حامى ۷

خداتعالى :اسكى حمايت ۶، ۷

خدا كے رسول :ان كى تعداد ۹

روايت: ۹

صلاحيت:اس كا كردار ۴

انتخاب:اس كا معيار ۴

لياقت:اس كا كردار ۴

ذمہ داري:اسكے عطا كرنے كى شرائط ۴

فرشتے:ان كے مراتب ۳; وحى كے فرشتوں كا نقش و كردار ۵

____________________

۱ ) تفسير برہان ج۳ ، ص ۱۰۴; ح ۳_ و ج۴، ص ۴۵۲ ح ۴_

۶۱۸

آیت ۷۶

( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الأمُورُ )

وہ ان كے سامنے اور پس پشت كى تمام باتوں كو جانتا ہے اور تمام امور اسى كى طرف پلٹ كر جانے والے ہيں (۷۶)

۱ _ خداتعالى كا انسان كے ماضى اور مستقبل پر عملى لحاظ سے محيط ہونا_يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''بين ا يدي'' ماضى سے اور ''حلف'' مستقبل سے كنايہ ہے يعنى خداتعالى لوگوں كے ماضى اور استقبال كو جانتا ہے_

۲ _ سب كا م كا انجام خداتعالى كے اختيار ميں ہے_وإلى الله مرجع الا مور

۳ _ سننا، ديكھنا، جاننااور سب امور كو ہاتھ ميں ركھنا يہ سب خداتعالى كى قدرت اور ناقابل شكست ہونے كى نشانياں ہيں _

إن الله لقوى عزيز سميع بصير يعلم و إلى الله ترجع الا مور

خداتعالى :اس كا علمى احاطہ ۱; اسكے اختيارات ۲، ۳; اس كا بصير ہونا۳; اس كا سننا ۳; اس كا علم غيب۱، ۳; اسكے ناقابل شكست ہونے كى نشانياں ۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۳

عمل:اس كا انجام ۲

۶۱۹

آیت ۷۷

( ا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ )

ايمان والو ركوع كرو، سجدہ كرو اور اپنے رب كى عبادت كرو اور كار خير انجام دو كہ شايد اسى طرح كامياب ہو جاؤ اور نجات حاصل كر لو(۷۷)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے اہل ايمان كو نماز قائم كرنے كى دعوت_يا ا يها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدو

(''اركعوا''كے مصدر) ركوع نيز (''اسجدوا'' كے مصدر) سجود كا معنى ہے خضوع اور اپنے تذلل كا اظہار ليكن ركوع اظہار تذلل ہے جھكنے كى صورت ميں اور سجود اظہار خضوع ہے پيشانى كو زمين پر ركھ كر ''اركعوا'' اور ''اسجدوا'' كا متعلق محذوف ہے اور ''و اعبدوا ربكم'' قرينہ ہے كہ يہ در حقيقت ''اركعوا و اسجدوا لربكم'' ہے _ قابل ذكر ہے كہ ديگر موارد ميں ركوع و سجود كى صورت ميں خدا كيلئے اظہار خضوع كا نام ''صلاة'' ہے اس بناپر '' اركعوا و اسجدوا''،''صلوّا'' سے كنايہ ہے_

۲ _ نماز سب سے زيادہ اہم عبادت اور پرستش خدا كا برترين جلوہ ہے_يا ا يها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدوا و اعبدوا ربكم

اس چيز كے پيش نظر كہ نماز، عبادت كا مصداق ہے اور جملہ ''اعبدوا ربكم'' اس كو بھى شامل ہے لہذا اسے ''اعبدوا ربكم'' سے پہلے الگ ذكر كرنا اس عبادت كى خاص اہميت او رخداتعالى كے نزديك اسكى برترين قدر و قيمت كا غماز ہے_

۳ _ بارگاہ خداوندى ميں اظہار تذلل و خضوع ،نماز كى حقيقت اور روح_يا ايها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدو

۴ _ اللہ تعالى ،انسانوں كا پروردگار ہے_يا ايها الذين ء امنوا و اعبدوا ربكم

۵ _ فرامين الہى كى بلاچوں و چرا اطاعت كا لازمى ہونا_و اعبدوا ربكم

(''اعبدوا'' كے مصدر) ''عبادة و عبودية'' كا معنى ہے اطاعت اور بندگى كرنا لہذا ''اعبدوا ربكم'' يعنى اپنے پروردگار كى بندگى كرو_ مقصود يہ ہے كہ خداتعالى چونكہ پروردگار ہے لذا ضرورى ہے كہ مؤمنين خود كو اس كے عبد اور بندے قرار ديں اور اسكے احكام و فرامين كے بلا چوں و چرا مطيع و فرمانبردار ہوں _

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750