تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219106 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لا جبرولا تفو یض ولکن أمر بین أمر ین، قال قُلتُ: و ما أمر بین أمر ین؟ قال مثل ذلک رجل رأ یته علیٰ معصية ٍ فنهیتهُ فلم ینته فتر کته ففعل تلک المعصية، فلیس حیثُ لم یقبل منک فتر کته کنت أنت الذّی أمر ته بالمعصية'' ( ۱ )

نہ جبرہے اور نہ تفو یض ، بلکہ ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز ہے، راوی کہتا ہے : میں نے کہا : ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز کیا ہے؟ فر مایا: اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو گنا ہ کی حا لت میں ہو اور تم اسے منع کرو اور وہ قبول نہ کر ے اس کے بعد تم اسے اس کی حالت پر چھو ڑ دو اور وہ اس گناہ کو انجام دے ، پس چونکہ اس نے تمہا ری بات نہیں مانی اور تم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ تم ہی نے اسے گناہ کی دعوت دی ہے۔

۲'' ما استطعت أن تلو م العبد علیه فهو منه و ما لم تستطع أن تلو م العبد علیه فهو من فعل ﷲ، یقول ﷲ للعبد: لم عصیت؟ لم فسقت؟لم شربت الخمر؟ لم ز نیت؟ فهذا فعل العبد ولا یقول له لم مر ضت؟ لم قصرت؟ لم ابیضضتَ؟ لم اسو ددت؟ لأنه من فعل ﷲ تعا لیٰ'' ( ۲ )

جس کام پر بندہ کو ملا مت و سر زنش کر سکو وہ اس کی طرف سے ہے اور جس کام پرملا مت وسر زنش نہ کرسکو وہ خدا کی طرف سے ہے، خدا اپنے بندوں سے فرما تا ہے : تم نے کیوں سر کشی کی ؟ کیوں نافرمانی کی ؟کیوں شراب پی؟ کیوں زنا کیا؟ کیو نکہ یہ بندے کا کام ہے ، خدا اپنے بندوں سے یہ نہیں پو چھتا : کیو ں مر یض ہوگئے ؟ کیوں تمہا را قد چھوٹاہے؟ کیوں سفید رنگ ہو؟ کیوں سیا ہ رو ہو؟ کیو نکہ یہ سارے امور خدا کے ہیں ۔

روایات کی تشریح

جبر وتفویض کے دوپہلو ہیں :

۱۔ ایک پہلو وہ ہے جو خدا اوراس کے صفا ت سے متعلق ہے۔

۲۔ دوسرا پہلووہ ہے جس کی انسان اوراس کے صفا ت کی طر ف بازگشت ہو تی ہے۔

'' جبر و تفویض'' میں سے جو کچھ خدا اوراس کے صفات سے مر بوط اور متعلق ہے ، اس بات کا سزا وار

____________________

(۱) کافی،ج، ۱، ص ۱۶۰ اور توحید صدو ق، ص ۳۶۲.(۲)بحار ج۵،ص۵۹ح۱۰۹

۱۸۱

ہے کہ اس کو خدا،اس کے انبیا ء اور ان کے اوصیا ء سے اخذ کر یں اور جو چیز انسا ن اوراس کے صفات اور افعال سے متعلق ہو تی ہے ، اسی حد کافی ہے کہ ہم کہیں : میں یہ کام کر وں گا ، میں وہ کام نہیں کرو ں گا تا کہ جانیں جو کچھ ہم انجام دیتے ہیں اپنے اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ، گزشتہ بحثو ں میں بھی ہم نے یہ بھی جانا کہ انسا ن کی زندگی کی رفتا ر ذ رہ ، ایٹم، سیارات اور کہکشا نو ں نیز خدا کے حکم سے دیگر مسخرات کی رفتار سے حرکات اور نتا ئج میں یکساں نہیں ہے ،یہ ایک طرف ، دو سری طرف خدا وند سبحا ن نے انسا ن کوا س کے حال پر نہیں چھو ڑا اوراسے خود اس کے حوالے نہیں کیا تا کہ جو چا ہے ، جس طرح چاہے اور نفسیا نی خو اہشا ت جس کاحکم دیںاسی کو انجام دے ، بلکہ خدا وند عالم نے اپنے انبیا ء کے ذریعہ اس کی راہنما ئی کی ہے : اسے قلبی ایمان کی راہ بھی حق کے ساتھ دکھا ئی نیزاعمال شائستہ جو اس کے لئے جسمانی اعتبار سے مفید ہیں ان کی طرف بھی راہنمائی کی اور نقصا ن دہ اعمال سے بھی آگا ہ کیا ہے، اگر وہ خدا کی ہدا یت کا اتبا ع کرے اور ﷲ کی سیدھی را ہ پر ایک قد م آگے بڑھ جا ئے تو خدا وند عا لم اسے اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے دس قد م آگے بڑھا دیتا ہے پھر دنیا و آخرت میں آثار عمل کی بناء پر اس کوسات سو گنازیادہ جزا دیتا ہے اور خدا وند عالم اپنی حکمت کے اقتضاء اور اپنی سنت کے مطابق جس کے لئے چا ہتا ہے اضا فہ کرتاہے۔

ہم نے اس سے قبل مثا ل دی اور کہا: خدا وند عا لم نے اس دنیا کو'' سلف سروس''والے ہوٹل کے مانندمو من اور کا فر دو نوں کے لئے آما دہ کیا ہے، جیسا کہ سورۂ اسرا ء کی بیسویں آیت میں فرماتا ہے:

( کلاًّ نمدّ هٰؤلا ء و هٰؤٰلآء من عطا ئِ ربّک و ما کان عطائُ ربِّک محظورا )

ہم دو نو ں گروہوںکوخواہ یہ خواہ وہ تمہا رے رب کی عطا سے امداد کر تے ہیں ، کیو نکہ تمہا رے ربّ کی عطاکسی پربند نہیں ہے۔

یقینا اگر خدا کی امداد نہ ہو تی اور خدا کے بند ے جسمی اور فکر ی توا نائی اور اس عا لم کے آمادہ و مسخر اسباب و وسا ئل خدا کی طرف سے نہ رکھتے تو نہ راہ یا فتہ مو من عمل صا لح اور نیک و شا ئستہ عمل انجام دے سکتا تھا اور نہ ہی گمرا ہ کا فر نقصا ن دہ اور فا سد اقدامات کی صلا حیت رکھتا، سچ یہ ہے کہ اگر خدا ایک آن کے لئے اپنی عطا انسا ن سے سلب کر لے چا ہے اس عطا کا ایک معمو لی اور ادنیٰ جز ہی کیوں نہ ہوجیسے بینائی، سلا متی، عقل اور خرد وغیرہ... تویہ انسان کیا کر سکتا ہے ؟ اس لحا ظ سے انسا ن جو بھی کر تا ہے اپنے اختیا رسے اور ان وسا ئل و اسباب کے ذریعہ کرتاہے جو خدا نے اسے بخشے ہیں لہٰذا انسا ن انتخاب اور اکتسا ب میں مختار ہے۔

۱۸۲

جی ہاں ،انسا ن اس عالم میں مختارکل بھی نہیں ہے جس طرح سے وہ صرف مجبور بھی نہیں ہے، نہ اس عالم کے تمام اموراس کے حوالے اور سپرد کر دئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے انتخا ب کر دہ امور میں مجبور ہے، بلکہ ان دو نوں کے درمیا ن ایک امر ہے اور وہ ہے( امر بین امرین) اوریہ وہی خدا کی مشیت اور بند وں کے افعال کے سلسلے میں اس کا قا نو ن اور سنت ہے، '' ولن تجد لسنة ﷲ تبد یلا ً'' ہر گز سنت الٰہی میں تغیر و تبد یلی نہیں پا ؤ گے!

چند سوال ا و ر جو اب

اس حصّہ میں د ر ج ذیل چا ر سوا ل پیش کئے جا رہے ہیں:

۱۔ انسا ن جو کچھ کر تا ہے ا س میں مختار کیسے ہے، با وجو د یکہ شیطا ن اس پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے جب کہ وہ دکھا ئی بھی نہیں دیتا آد می کو اغوا( گمراہ) کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے اوراس کے دل میں و سو سہ ڈالتا رہتاہے اور اپنے شر آمیز کاموں کی دعوت دیتا ہے؟

۲۔انسان فا سد ماحول اور برے کلچرمیں بھی ایسا ہی ہے، وہ فسا د اور شر کے علا وہ کو ئی چیز نہیں دیکھتا پھر کس طرح وہ اپنے اختیا ر سے عمل کر تاہے ؟

۳۔ایسا انسا ن جس تک پیغمبروں کی دعو ت نہیں پہنچی ہے اوردور درازافتادہ علا قہ میں زند گی گزا رتا ہے وہ کیا کرے ؟

۴۔'' زنا زا دہ'' کا گنا ہ کیا ہے ؟( یعنی نا جا ئز بچہ کاکیا گنا ہ ہے) کیوں وہ دو سر وں کی رفتا ر کی بنا ء پر شر پسند ہوتا ہے اور شرار ت و برائی کر تا ہے؟

پہلے اور دوسرے سوال کا جو اب:

ان دو سو الوں کا جواب ابتدا ئے کتاب میں جو ہم نے میثا ق کی بحث کی ہے ا س میں تلا ش کیجئے۔( ۱ )

وہاں پر ہم نے کہا کہ خدا نے انسا ن پر اپنی حجت تمام کردی ہے ا ور تمام موجودات کے سبب سب کے متعلق جستجواور تلاش کے غریزہ کو ودیعت کرکے اس کی بہانہ بازی کا دروازہ بند کردیا ہے، لہٰذااسے چاہیئے کہ اس غریزہ کی مدد سے اس اصلی سبب سازتک پہنچے ، اسی لئے سورۂ اعرا ف کی ۱۷۲ ویں آ یت میں میثا ق خدا وند ی سے متعلق ارشاد فرما یا:

____________________

(۱)اسی کتاب کی پہلی جلد، بحث میثاق .ملاحظہ ہو.

۱۸۳

( أن تقولوا یو م القیامة اِنّا کُناعن هذا غا فلین )

تا کہ قیا مت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس (پیمان ) سے غا فل تھے ہمیں ۔

انسا ن جس طر ح ہر حا لت میں بھو ک کے غر یزہ سے غا فل نہیں ہو تا ہے جب تک کہ اپنی شکم کو غذا سے سیر نہ کرلے ، اسی طرح معر فت طلبی کے غر یزہ سے بھی غا فل نہیں ہو تا یہاں تک کہ حقیقی مسب الاسباب کی شناخت حا صل کرلے۔

تیسر ے سوال کا جو اب:

ہم اس سوال کے جواب میں کہیںگے : خداو ند سبحا ن نے سورہ بقرہ کی ۲۸۶ ویں آیت میں ارشا د فرما یا:

( لایکلف ﷲ نفساًاِلاّوسعها )

خدا کسی کو بھی اس کی طا قت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا۔

چو تھے سوا ل کا جو اب:

نا جا ئز اولا د بھی بُرے کا م انجام دینے پر مجبو ر نہیں ہے ، جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ بد کار مرد اور عو رت کی روحی حالت اور کیفیت ارتکاب گناہ کے وقت اس طرح ہوتی ہے کہ خو د کو سما جی قوا نین کا مجرم اور خا ئن تصور کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ معا شرہ ان کے کام کو برااور گناجا نتا ہے اور اگر ان کی رفتا ر سے آگا ہ ہو جائے اورایسی گند گی اور پستی کے ارتکاب کے وقت دیکھ لے تو ان سے دشمنی کر تے ہو ئے انھیں اپنے سے دور کر دیگا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام نیکو کار ، پا کیز ہ کر دار اور اخلاق کر یمہ کے ما لک ایسے کا م سے بیزاری کرتے ہیں یہ رو حی حا لت اور اندرونی کیفیت نطفہ پر اثر اندا ز ہو تی ہے اور میرا ث کے ذریعہ اس نو مو لو د تک منتقل ہو تی ہے اورنوزاد پر اثر انداز ہوتی ہے جواسے شر دوست اور نیکیوں کا دشمن بنا تی ہے اور سما ج کے نیک افراد اور مشہو ر و معروف لو گوں سے جنگ پر آمادہ کرتی ہے اس سیرت کا بارز نمو نہ'' زیا د ابن ابیہ'' اور اس کا بیٹا ابن زیاد ہے کہ انھوں نے عرا ق میں اپنی حکومت کے دوران جو نہیں کر نا چا ہئے تھا وہ کیا ،با لخصوص'' ابن زیاد'' کہ اسکے حکم سے امام حسین کی شہا دت کے بعد آپ اور آپ کے پا کیزہ اصحاب کے جسم اطہر کو مثلہ کیاگیا اور سروں کو شہروں میں پھرایا گیا اور رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حرم کو اسیر کر کے کو فہ و شام پہنچا یا گیا اور دیگر امور جو اس کے حکم سے انجام پا ئے اور یہ ایسے حا ل میں ہو اکہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد کو ئی فرد ایسی نہیں بچی تھی جو ان لوگوںکی حکو مت کا مقا بلہ کر ے

۱۸۴

اور کسی قسم کی تو جیہ اس کے ان افعا ل کیلئے نہیں تھی، بجز اس کے کہ وہ شر و برا ئی کا خو گر تھا اس کی خو اہش یہ تھی کہ عرب اور اسلام کے شریف ترین گھرا نے کی شا ن و شو کت، عظمت و سطو ت ختم کرکے انھیں بے اعتبار بنا دے، ہاں وہ ذا تی طور پر برا ئی کا دوست اور نیکیوں کا دشمن تھا اور سماج و معا شرہ کے کریم و شر یف افراد سے بر سر پیکا ر تھا۔( ۱ )

اس بنا پر ( صحیح ہے اور ہم قبو ل کر تے ہیں کہ) شر سے دوستی، نیکی سے دشمنی، نیکو کاروں کو آزار و اذیت دنیا اور سماج کے پا کیز ہ لو گوں کو تکلیف پہنچا نا زنا زادہ میں حلال زادہ کے بر خلاف تقریباًاس کی ذات اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن ان تمام باتوں کے با وجو د ان دو میں سے کو ئی بھی خواہ امور خیر ہوں یا شر جو وہ انجام دیتے ہیں یا نہیں دیتے مجبو ر ،ان پر نہیں ہیں، ان دو نوں کی مثال ایک تندرست و صحت مند ، با لغ و قوی جوان اور کمر خمیدہ بوڑھے مر د کی سی ہے: پہلا جسما نی شہو ت میں غرق اور نفسانی خوا ہشا ت تک پہنچنے کا خواہاں ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے یہا ں جو انی کی قوت ختم ہو چکی ہے اور جسمانی شہو ت کا تارک ہے! ایسے حال میں واضح ہے کہ کمر خمیدہ مرد '' زنا ''نہیں کر سکتا اور وہ جوان جس کی جنسی تو انا ٰئی اوج پر ہے وہ زنا کرنے پر مجبو ر بھی نہیں کہ مجبوری کی حالت میں وہ ایسے نا پسندیدہ فعل کا مر تکب ہو تومعذور کہلا ئے، بلکہ اگر زنا کا مو قع اور ما حو ل فر اہم ہو اور وہ ''خا ف مقا م ربہ'' اپنے رب کے حضور سے خو فز دہ ہو، ( ونھیٰ النفس عن الھوی) اور اپنے نفس کو بیجا خو اہشوں سے رو ک رکھے تو( فاِنّ الجنة ھی المأویٰ) یقینا اس کا ٹھکا نہ بہشت ہے۔( ۲ )

اس طرح ہم اگر انسان کی زندگی کے پہلؤوں کی تحقیق کر یں اور ان کے بارے میں غور و فکر کر یں، تو اسے اپنے امور میں صا حب اختیا ر پا ئیں گے، جز ان امور کے جو غفلت اور عدم آگا ہی کی بنیا د پر صا در ہوتے ہیں اور اخروی آثا ر نہیںرکھتے ہیں ۔

یہاں تک مباحث کی بنیاد قرآن کر یم کی آیات کی روشنی میں '' عقائد اسلام '' کے بیان پر تھی آئندہ بحثوں میں انشاء ﷲ خدا کے اذ ن سے مبلغین الٰہی کی سیرت کی قرآ ن کریم کی رو سے تحقیق و بررسی کر یں گے اور جس قدر توریت ،انجیل اور سیرت کی کتابوں سے قرآن کریم کی آیات کی تشریح و تبیین میں مفید پا ئیں گے ذکر کر یں گے۔

''الحمد لله ربّ العا لمین''

____________________

(۱)زیادکے الحاق ( معاویہ کا اسے اپنا پدری بھائی بنانے ) کی بحث آپ کتاب عبدﷲ بن سبا کی جلد اول میں ، اور شہادت امام حسین کی بحث معالم المدر ستین کی جلد ۳ میں ملاحظہ کریں. (۲)سورۂ ناز عا ت کی چا لیسویں آیت ''و امّا من خاف...'' سے اقتبا س ہے.

۱۸۵

(۹)

ملحقات

اسلا می عقا ئد میں بحث و تحقیق کے راستے اور راہ اہل بیت کی فوقیت و بر تری( ۱ )

اسلا می عقا ئد ہمیشہ مسلما نوں اور اسلامی محققین کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں اور تمام مسلما نو ں کا نظر یہ یہ ہے کہ اسلا می عقا ئد کا مر جع قرآ ن اور حدیث ہی ہے ، وہ اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود گز شتہ زمانے میں صدیو ں سے، مختلف وجوہ اور متعدد اسباب( ۲ ) کی بنا پر مختلف خیا لات اور نظریات اسلا می عقائد کے سلسلہ میں پیدا ہوئے کہ ان میں بعض اسباب کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ بحث وتحقیق اور استنبا ط کے طریقے اور روش میں اختلا ف.

۲۔ علما ئے یہو د و نصا ریٰ (احبار و رہبا ن)کا مسلما نو ں کی صفو ں میں نفو ذ اور رخنہ انداز ی اور اسلا می رو ایا ت کا ''اسرا ئیلیا ت''اور جعلی داستانوں سے مخلوط ہونا۔

۳۔ بد عتیں اور اسلا می نصو ص کی غلط اور نا درست تا ویلیں اور تفسیر یں۔

۴۔سیا سی رجحا نا ت اور قبا ئلی جھگڑے۔

۵۔ اسلا می نصوص سے ناواقفیت اور بے اعتنا ئی ۔

ہم اس مقا لہ میں سب سے پہلے سبب '' راہ اور روش میں اختلا ف ''کی تحقیق وبر رسی کر یں گے اور اسلامی عقائد کی تحقیق و بر رسی میں جو مو جو دہ طریقے اور را ہیں ہیں ان کا اہل بیت کی راہ و روش سے موازنہ کر کے قا رئین کے حو الے کر یں گے ، نیز آخری روش کی فو قیت وضا حت کے ساتھ بیان کر یں گے ۔

____________________

(۱) مجمع جہانی اہل البیت ، تہران کے نشریہ رسالة الثقلین نامی مجلہ میں آقا شیخ عباس علی براتی کے مقالہ کا ترجمہ ملاحظہ ہونمبر ۱۰، سال سوم ۱۴۱۵ ھ، ق.(۲) مقدمہ کتاب '' فی علم الکتاب '' : ڈاکٹر احمد محمود صبحی ج۱، ص ۴۶پانچواں ایڈیشن، بیروت، ۱۴۰۵ھ، ۱۹۸۵ ئ.

۱۸۶

عقید تی اختلا فا ت اور اس کی بنیاد اور تا ریخ

مسلما نوں کے درمیا ن فکر ی اور عقید تی اختلا ف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی ظا ہر ہو چکا تھا ،لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ، کلامی اور فکر ی مکا تب و مذاہب کے وجو د کا سبب قرار پائے، کیو نکہ رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنفس نفیس اس کا تدارک کرتے تھے اور اس کے پھیلنے کی گنجا ئش با قی نہیں ر کھتے تھے ، بالخصوص روح صدا قت وبرا دری، اخوت و محبت اس طرح سے اسلامی معاشرہ پر حا کم تھی کہ تا ریخ میں بے مثا ل یا کم نظیر ہے۔

نمو نہ کے طور پر اورانسا نو ں کی سر نو شت '' قدر'' کا مو ضو ع تھا جس نے پیغمبر کے اصحا ب اور انصا ر کے ذہن و فکر کو مکمل طور پر اپنے میں حصار میں لے لیا تھا اور انھیں اس کے متعلق بحث کر نے پر مجبور کردیا تھا ، یہاں تک کہ آخر میں بات جنگ و جدا ل اور جھگڑے تک پہنچ گئی جھگڑے کی آ واز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کان سے ٹکر ائی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (جیسا کہ حدیث کی کتا بو ں میں ذ کر ہوا ہے) اس طرح سے ان لو گو ں کو اس مو ضو ع کے آگے بڑھانے کے عواقب و انجام سے ڈرایا:

احمد ابن حنبل نے عمر و بن شعیب سے اس نے اپنے با پ سے اور اس نے اپنے جد سے رو ایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : ایک دن رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھر سے باہر نکلے تو لو گو ں کو قدر کے مو ضو ع پر گفتگو کرتے دیکھا،راو ی کہتا ہے : پیغمبر اکر م کے چہر ہ کا رنگ غیظ و غضب کی شدت سے اس طرح سر خ ہو گیا تھا، گو یا انار کے دانے ان کے رخسا ر مبارک پربکھرے ہوئے ہو ں! فر مایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کتاب خدا کی جر ح وتعدیل اور تجزیہ و تحلیل کر رہے ہو اسکے بعض حصّہ کا بعض سے مو از نہ کر رہے ہو( اس کی نفی و اثبات کرر ہے ہو )؟ تم سے پہلے وا لے افراد انہی کا موں کی و جہ سے نا بو د ہو گئے ہیں۔( ۱ )

قرآن کر یم اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں اسلامی عقا ئد کے اصو ل اور اس کے بنیادی مبا نی بطو ر کلی امت اسلام کے لئے بیا ن کیے گئے ہیںبعد میں بعض سو الات اس لئے پیش آئے کہ ( ظا ہر اً)قرآن و سنت میں ان کا صریح اور واضح جو اب ان لوگوںکے پاس نہیں تھا اورمسلمان اجتہا د و استنبا ط کے محتا ج ہو ئے تو یہ ذ مہ داری عقا ئد و احکام میں فقہا ء و مجتہد ین کے کا ند ھوں پر آئی، اس لئے اصحا ب پیغمبر بھی کبھی کبھی اعتقا دی مسا ئل میں ایک دوسرے سے اختلا ف رائے ر کھتے تھے ، اگر چہ پیغمبر کی حیات میں ان کے اختلاف کے آثا ر و نتائج، بعد کے

____________________

(۱)مسند احمد ج۳،ص۱۷۸تا ۱۹۶.

۱۸۷

زمانوں میں ان کے اختلاف کے آثار و نتائج سے مختلف تھے ،کیو نکہ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی حیات میں خو د ہی ان کے درمیا ن قضا وت کر تے تھے اور اپنی را ہنما ئی سے اختلا ف کی بنیا د کواکھاڑ دیتے تھے !( ۱ )

لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد لو گ مجبو ر ہو ئے کہ کسی صحا بی یا ان کے ایک گروہ سے( جوکہ خلفا ء و حکا م کے بر گز یدہ تھے) اجتہا د کا سہا را لیں اور ان سے قضا وت طلب کر یں جب کہ دو سرے اصحا ب اپنے آرا ء ونظریات کو محفو ظ ر کھتے تھے ( اور یہ خو د ہی اختلا ف میں اضا فہ کا سبب بنا ) اس اختلا ف کے واضح نمونے مند ر جہ ذ یل باتیں ہیں۔

۱۔ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفا ت کے بعد امت کا خلا فت اور اما مت کے بارے میں اختلاف۔( ۲ )

۲۔ زکو ة نہ دینے وا لو ں کا قتل اور یہ کہ آیا زکو ة نہ دینا ارتد اد اور دین سے خا رج ہو نے کا با عث ہے یا نہیں؟اس طرح سے ہر اختلا ف،خاص آراء و خیا لا ت ، گروہ اور کلا می اور اعتقا دی مکا تب کی پید ائش کا سر چشمہ بن گیاجس کے نتیجہ میں ہر ایک اس رو ش کے ساتھ جو اس نے استد لا ل و استنبا ط میں اختیا ر کی تھی اپنے آ را ء و عقا ئد کی تر ویج و تد وین میں مشغول ہوگیا ، ہما ری تحقیق کے مطا بق ان مکا تب میں اہم تر ین مکاتب مند ر جہ ذیل ہیں :

۱۔خالص نقلی مکتب۔

۲۔ خالص عقلی مکتب

۳۔ ذو قی و اشراقی مکتب

۴۔ حسّی و تجر بی مکتب

۵۔ فطر ی مکتب

الف ۔ خالص نقلی مکتب:

'' احمد ابن حنبل'' حبنلی مذ ہب کے امام ( متو فی ۲۴۱ ھ) اپنے زمانے میں اس مکتب کے پیشوا اور پیشر و شما ر کئے جاتے تھے، یہ مکتب ،اہل حد یث ( اخبار یین عا مہ) کے مکتب کے مانند ہے: ان لو گو ں کارو ایات

____________________

(۱)سیرہ ٔ ابن ہشام ، ص ۳۴۱،۳۴۲ ،اورڈاکٹرمحمد حمیدﷲ مجموعة الوثائق السیاسةج۱،ص۷.(۲)اشعری '' مقا لات الاسلامیین و اختلاف المصلین '' ج ۱، ص ۳۴، ۳۹ اور ابن حزم '' الفصل فی الملل والاہواء والنحل '' ج ۲، ص ۱۱۱ اور احمد امین '' فجر الاسلام ''.

۱۸۸

کی حفا ظت وپا سدا ری نیز ان کے نقل کر نے کے علا وہ کوئی کام نہ تھااوران کے مطا لب میں تد بر اور غور خوض کرنے نیزصحیح کو غلط سے جدا کرنے سے انھیںکوئی تعلق نہ تھا ،اس طرح کی جہت گیر ی کو آخری زمانوں میں ''سلفیہ'' کہتے ہیں، اور فقہ میں اہل سنت کے حنبلی مذہب والے میں اس روش کی پیر وی کرتے ہیں، وہ لوگ دینی مسا ئل میں رائے و نظر کو حرام( سبب و علت کے بارے میں ) سوال کو بدعت اور تحقیق اور استد لال کو بدعت پرستی اورہوا پر ستوں کے مقا بلے میں عقب نشینی جانتے ہیں، اس گروہ نے اپنی سا ری طاقت سنت کے تعقل وتفکرسے خالی درس و بحث پر وقف کر دی اوراس کو سنت کی پیر وی کرنااوراس کے علاوہ کو ''بد عت پرستی'' کہتے ہیں۔

ان کی سب سے زیادہ اور عظیم تر ین کو شش و تلا ش یہ ہے کہ اعتقا دی مسا ئل سے مر بو ط احا دیث کی تدوین اور جمع بندی کرکے اس کے الفا ظ و کلما ت اور اسنا د کی شر ح کریں جیسا کہ بخا ر ی ، احمد ابن حنبل ، ابن خز یمہ، بیہقی اور ابن بطّہ نے کیا ہے، وہ یہاںتک آگے بڑھ گئے کہ عقید تی مسا ئل میں علم کلا م اور عقلی نظر یا ت کو حرا م قراردے دیا،ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں مخصوص رسا لہ بھی تد وین کیا ، جیسے ابن قدامہ نے''تحریم النظر فی علم الکلا م''نا می رسا لہ تحریر کیا ہے۔

احمد ابن حنبل نے کہا ہے: اہل کلام کبھی کا میاب نہیں ہو ں گے ، ممکن نہیں کہ کوئی کلام یا کلامی نظر یہ کا حامل ہو اور اس کے دل میں مکر و حیلہ نہ ہو،اس نے متکلمین کی اس درجہ بد گو ئی کی کہ حا رث محا سبی جیسے (زا ہد و پرہیز گا ر) انسا ن سے بھی دور ہو گیا اور اس سے کنا رہ کشی اختیا ر کر لی، کیو نکہ اس نے بد عت پرست افراد کی رد میں کتا ب تصنیف کی تھی احمد نے اس سے کہا : تم پر وا ئے ہو! کیا تم پہلے ان کی بد عتوں کا ذکر نہیں کروگے تاکہ بعد میں اس کی رد کر و؟ کیا تم اس نوشتہ سے لوگوں کو بد عتوں کا مطا لعہ اور شبہو ں میں غو ر و فکر کرنے پر مجبور نہیں کروگے یہ بذات خود ان لو گو ں کو تلا ش و جستجو اورفکرونظر کی دعوت دینا ہے۔

احمد بن حنبل نے یہ بھی کہا ہے: علما ئے کلا م ز ند یق اور تخریب کا ر ہیں۔

زعفرا نی کہتا ہے :شا فعی نے کہا : اہل کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انھیں کھجور کی شاخ سے زدو کوب کرکے عشا ئر اور قبا ئل کے درمیا ن گھما ئیں اور کہیں: یہ سزا اس شخص کی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام سے وابستہ ہوگیا ہے!

تمام اہل حدیث سلفیو ں(اخبار یین عا مہ) کا اس سلسلہ میں متفقہ فیصلہ ہے اور متکلمین کے مقا بل ان کے عمل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا لوگوں نے نقل کیا ہے، یہ لو گ کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب باوجو د یکہ حقائق کے سب سے زیا دہ عا لم اور گفتا ر میں دوسرو ں سے زیا دہ محکم تھے، انہوں نے عقائد سے متعلق با ت کر نے میں اجتنا ب نہیں کیا مگر صرف اس لئے کہ وہ جا نتے تھے کہ کلام سے شر و فسا د پیدا ہوگا۔ یہی و جہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ہی جملے کی تین با ر تکرا ر کی اور فر مایا :

۱۸۹

(هلک المتعمقون، هلک المتعمقون ،هلک المتعمقون )

غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے والے ہلا ک ہو گئے، یعنی (دینی) مسا ئل گہرائی کے ساتھ غور و فکر کر نے والے ہلا ک ہوگئے!

یہ گروہ(اخبا ریین عا مہ) عقیدہ میں تجسیم اور تشبیہ(یعنی خدا کے جسم اور شبا ہت) کا قائل ہے ، '' ْقدر'' اور سر نوشت کے ناقابل تغییر ہونے اور انسا ن کے مسلو ب الا را دہ ہونے کا معتقدہے۔( ۱ )

یہ لو گ عقا ئد میں تقلید کو جا ئز جا نتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں را ئے و نظر کو جیسا کہ گز ر چکا ہے حرام سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد محمود صبحی فر ماتے ہیں:

'' با وجو د یکہ عقا ئد میں تقلید- عبد ﷲ بن حسن عنبری، حشویہ اور تعلیمیہ( ۲ ) کے نظریہ کے بر خلا ف نہ ممکن ہے اور نہ جائز ہے،یہی نظریہ ''محصل '' میں فخر رازی کا ہے( ۳ )

اورجمہو ر کا نظریہ یہ ہے کہ عقائد میں تقلیدجائز نہیں ہے اور استاد ابو اسحا ق نے ''شرح التر تیب'' میں اس کی نسبت اجماع اہل حق اور اس کے علاوہ کی طرف دی ہے اور امام الحرمین نے کتاب''الشامل'' میں کہا ہے کہ حنبلیوں کے علا وہ کو ئی بھی عقائد میں تقلید کا قائل نہیں ہے ، اس کے با وجود ، امام شو کا نی نے لو گو ں پر عقائد میں غور و فکر کو واجب جاننے کو''تکلیف مالایطاق'' (ایسی تکلیف جو قدرت و توانائی سے باہر ہو) سے تعبیر کیا ہے، وہ بزرگان دین کے نظریات اور اقوال پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی پناہ !یہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں یقیناً یہ ، لوگوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے کہ امت مرحومہ کو ایسی چیز کا مکلف بنایا جائے جس کی ان میں قدرت نہیں ہے،(کیا ا یسا نہیں ہے ) وہی صحا بہ کا حملی اور تقلیدی ایمان جو اجتہا د و نظر کی منزل تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس سے نزدیک بھی نہیں ہوئے تھے ، ان کے لئے کافی ہو ؟۔

____________________

(۱)صابونی ؛ ابو عثمان اسماعیل ؛رسالة عقیدةالسلف و اصحاب الحدیث(فی الرسائل المنیرة).

(۲)آمری؛ ''الاحکام فی اصول الاحکام'' ،ج۴ ، ص ۳۰۰.

(۳)شوکانی: '' ارشاد الفحول '' ص۲۶۶-۲۶۷.

۱۹۰

انھوں نے اس سلسلے میں نظر دینے کو بہت سارے لو گو ں پر حرا م اور اس کو گمرا ہی اور نا دانی میں شما ر کیا ہے ۔( ۱ )

اس لحا ظ سے ان کے نز دیک علم منطق بھی حرا م ہے اور ان کے نزدیک منطق انسانی شنا خت اور معرفت تک رسا ئی کی رو ش بھی شما ر نہیں ہو تی ہے، با وجودیکہ علم منطق ایک مشہو ر ترین اور قدیم تر ین مقیاس و معیا ر ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کو ارسطو نے'' ار غنو ن'' نامی کتاب میں تد وین کیا ہے اور اس کا نام علم سنجش و میز ان رکھا ہے۔

اس روش کو اپنا نے والوں کی نظر میں تنہا علم منطق ذہن کو خطا و غلط فہمی سے محفو ظ رکھنے کے لئے کا فی نہیں ہے ،یہ لوگ کہتے ہیں بہت سارے اسلامی مفکرین جیسے کندی .فا رابی، ابن سینا ، امام غزالی ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد علم منطق میں ممتا ز حیثیت کے مالک ہیں، لیکن آرا ء وافکا ر اور نظریاتمیں آپس میں شد ید اور بنیا دی اختلا فات کا شکا ر ہو گئے ہیں،لہٰذا منطق حق و با طل کی میزان نہیں ہے ۔

البتہ آخری دورمیں اس گروہ کا موقف علم منطق اور علم کلا م کے مقابلہ میں بہت نرم ہو گیا تھا جیسے ابن تیمیہ کے موقف کو علم کلام کے مقا بل مضطرب دیکھتے ہیں ،وہ علم کلام کو کلی طور پر حرا م نہیں کرتا بلکہ اگر ضرو رت اقتضا ء کرے اور کلا م عقلی اور شرعی دلائل پر مستند ہو اور تخریب کا روں، زند یقوں اور ملحدوں کے شبہو ں کو جدا کرنے کا سبب ہو توا سے جائز سمجھتا ہے۔( ۲ )

اس کے با وجود اس نے منطق کو حرا م کیا اور اس کی ردّ میں '' رسا لة الر د علیٰ المنطقین'' نا می رسا لہ لکھا ہے: اور اس کے پیرو کہتے ہیں:'' ڈیکا رٹ فر انسیسی''(۱۵۹۶۔۱۶۵۰ئ) نے خطا وصوا ب کی تشخیص کے لئے ارسطا طا لیس کی منطق کے بجا ئے ایک نئی میزا ن اور معیا ر اخترا ع کیا اور تا کید کی کہ اگر انسا ن اپنے تفکر میں قدم بہ قدم اس کے اختر اعی مقیا س کو اپنا ئے تو صواب کے علا وہ کو ئی اور راہ نہیں پا ئے گا'' ڈکا رٹ'' کی رو ش کا استعمال کر نا یقین آور نتیجہ دیتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دورمعاصرمیں ڈکا رٹ کی روش سے جو امیدیں جاگیں تھیں ان کا حال بھی منطق ارسطو سے پائی جانے والی امیدوںکی طرح رہا اور میلاد مسیح سے لے کر اب تک کے موضوع بحث مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہ گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) امام جوینی: '' الار شاد الی قواطع الادلة '' ص۲۵، غزالی '' الجام العوام عن العلم الکلام '' ص ۶۶، ۶۷.ڈاکٹر احمد محمود صبحی : '' فی علم الکلام'' مقدمہ ٔ جلد اول

(۲)ابن تیمیہ :''مجموع الفتاوی ''ج۳ ،ص ۳۰۶ ، ۳۰۷.(۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود : '' التوحید الخالص'' ، ص ۵تا ۲۰.

۱۹۱

یہ و ہی چیز ہے جس کے باعث بہت سارے پہلے کے مسلما ن مفکر ین منجملہ امام غزا لی(۴۵۰۔۵۰۵ھ) روش عقلی کے ترک کر نے اور اسے مطر ود قرار دینے کے قا ئل ہوئے ، غز الی اپنی کتا ب ( تھا فة الفلاسفہ) میں عقلی دلا ئل سے فلسفیوں کے آراء و خیا لا ت کو باطل اور رد کرتا ہے ، غزالی کی اس کتاب میں دقت ا س بات کی گواہ ہے کہ وہ عقل جو کہ دلا ئل کا مبنیٰ ہے، وہی عقل ہے جو ان سب کو برباد کر دیتی ہے۔

غزالی ثابت کرتاہے کہ عالم الٰہیات اور اخلا ق میں انسا نی عقل سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حا صل ہونے والا نہیں ہے۔

اسلامی فلسفی ابن رشد اند لسی(متوفی ۔۵۹۵ھ) نے اپنی کتاب ( تھا فةالتہافت) میں غزا لی کے آراء و خیا لات کی رد کی ہے ، ابن رشد وہ شخص ہے جو اثبا ت کرتا ہے کہ عقل صریح اور نقل صحیح کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی تعا رض نہیں ہے ، اوریہ بات ا س کی کتاب (فصل المقال بین الحکمة و الشر یعة من الا تصا ل) سے واضح ہو تی ہے ، حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اس موقف میں '' ابن تیمیہ'' کے ساتھ اپنی کتاب ( عقل صریح کی نقل صحیح سے مو افقت) میں ایک نتیجہ پر پہنچے ہیں۔

پھر ابن تیمیہ کے دو نوں موقف: '' عقلی روش سے مخالفت اور عقل صریح کے حکم سے موافقت''کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ نہیں معلوم ۔

مکتب خلفا ء کے اہل حدیث اور مکتب اہل بیت کے اخباریوں کی روش ؛ نصوص شر عی،آیات وروا یات کے ظواہر کی پیروی کرنا اوررائے و قیا س سے حتی الامکان اجتناب کرنا ہے۔( ۱ ) ( سلفی مکتب) یا اہل حدیث کا مر کز اس وقت جز یرة العر ب (نجد کا علا قہ) ہے نیز ان کے کچھ گروہ عرا ق، شام اور مصر میں بھی پا ئے جاتے ہیں۔( ۲ )

ب: خالص عقلی مکتب

اس مکتب کے ماننے وا لے عقل انسا نی کی عظمت و شان پر تکیہ کر تے ہو ئے، شنا خت و معر فت کے اسباب و وسا ئل کے مانند، دوسروں سے ممتاز اور الگ ہیں ، یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے ''مکتب رائے''کے ماننے والے اور عقیدہ میں ''معتز لہ '' کہلاتے ہیں ۔

____________________

(۱) شیخ مفید ، '' اوائل المقالات ''؛سیوطی'' صون المنطق والکلام عن علمی المنطق والکلام'' ص ۲۵۲.شوکانی : ارشاد الفحول ؛ ص ۲۰۲ ؛ علی سامی النشار : ''مناھج البحث عند مفکری الاسلام''ص ۱۹۴ تا ۱۹۵،علی حسین الجابری ،الفکرالسلفی عند الاثنی عشر یہ ،ص ۱۵۴، ۱۶۷، ۲۰۴ ، ۲۴۰ ، ۴۲۴، ۴۳۹ .(۲)قاسمی '' تاریخ الجہمیہ والمعتزلة ''ص ۵۶۔ ۵۷.

۱۹۲

اس مکتب کی پیدائش تاریخ اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہوئی ہے ، سب سے پہلے مکتب اعتزال کی بنیاد'' واصل ابن عطا( ۸۰ھ، ۱۳۱ ھ) اور اس کے ہم کلا س '' عمر و بن عبید''( ۸۰ ھ۔ ۱۴۴ھ) منصور دوا نقی کے معاصر نے ڈالی ، اس کے بعد مامون عباسی کے وزیر'' ابی داؤد''اور قاضی عبد الجبا ر بن احمدہمدا نی،متوفی ۴۱۵''جیسے کچھ پیشوا اس مکتب نے پیدا کئے اس گروہ کے بزرگوں میں '' نظّا م''''ابو ہذ یل علاّف''''جا حظ'' اور جبا ئیان کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اس نظر یہ نے انسا نی عقل کو بہت اہمیت دی ،خدا وند سبحا ن اور اس کے صفات کی شناخت اور معرفت میں اسے اہم ترین اور قوی ترین شما ر کرتا ہے، شریعت اسلامی کا ادراک اور اس کی تطبیق و موا زنہ اس گروہ کی نگاہ میں ، عقل انسا نی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔

یہ مکتب ( معتز لہ) ہمارے زمانے میں اس نام سے اپنے پیرو اور یار ویاور نہیں رکھتا صرف ا ن کے بعض افکار'' زید یہ'' اور ابا ضیہ فرقے میں دا خل ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ'' معتزلہ'' کے ساتھ بعض افکار ونظریات میں شر یک ہیں اسی طرح '' معتز لہ'' شیعہ اثنا عشری اور اسما علیہ کے ساتھ بعض جو انب کے لحاظ سے ایک ہیں ،اہل حدیث( اخباریین عا مہ) نے'' معتزلہ'' کواس لحا ظ سے کہ ارادہ اور انتخاب میں انسان کی آزا دی کے قا ئل ہیں'' قدر یہ'' کالقب دیا ہے۔

عقائد میں ان کی سب سے اہم کتاب'' شر ح الاصول الخمسة'' قا ضی عبد الجبا ر معتزلی کی تا لیف اور ''رسائل العدل والتو حید'' ہے جو کہ معتز لہ کے رہبروں کے ایک گروہ جیسے حسن بصری ، قاسم رسی اور عبد الجبا ر بن احمد کی تالیف کردہ کتاب ہے۔

معتزلہ ایسے تھے کہ جب بھی ایسی قرا نی آیات نیز مروی سنت سے رو برو ہو تے تھے جو ان کے عقائد کے بر خلا ف ہو تی تھی اس کی تا ویل کرتے تھے اسی لئے انھیں '' مکتب تاویل'' کے ماننے والوں میں شما ر کیا جاتاہے، اس کے با وجود ان لوگوں نے اسلام کیلئے عظیم خد متیں انجام دی ہیں اور عباسی دور کے آغا ز میں جب کہ اسلام کے خلاف زبردست فکری اور ثقا فتی یلغا ر تھی اس کے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ، بعض خلفاء جیسے'' مامون'' اور'' معتصم ''ان سے منسلک ہو گئے ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی'' متو کل'' کے زمانے میں قضیہ برعکس ہو گیا اور ان کے نقصا ن پر تمام ہو ا اور کفر و گمرا ہی اور فسق کے احکا م یکے بعد دیگرے ان کے خلا ف صادر ہوئے، بالکل اسی طرح جس طرح خود یہ لوگ درباروں پر اپنے غلبہ و اقتدار کے زمانے میں اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے تھے اور جو ان کے آراء و نظریات کوقبول نہیں کرتے تھے انھیں اذیت و آزار دیتے تھے۔

۱۹۳

اس کی مزید وضاحت معتزلہ کے متعلق جد ید اور قدیم تا لیفا ت میں ملا حظہ کیجئے ۔( ۱ )

فرقۂ معتز لہ حسب ذیل پانچ اصول سے معروف و مشہور ہے :

۱۔توحید، اس معنی میں کہ خدا وند عالم مخلو قین کے صفات سے منزہ ہے اور نگا ہوں سے خدا کو دیکھنا بطور مطلق ممکن نہیں ہے ۔

۲۔ عدل، یعنی خدا وند سبحا ن نے اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا ہے اور اپنی مخلو قات کو گناہ کر نے پر مجبور نہیں کرتا ہے

۳۔ ''المنز لة بین المنز لتین''

یعنی جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے نہ مو من ہے نہ کافر بلکہ فا سق ہے۔

۴۔ وعدو وعید، یعنی خدا پر واجب ہے کہ جو وعدہ ( بہشت کی خو شخبری) اور وعید ( جہنم سے ڈرا نا) مومنین اور کا فرین سے کیا ہے اسے وفا کرے۔

۵۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ظالم حکام جو اپنے ظلم سے باز نہیں آ تے ،ان کی مخا لفت وا جب ہے۔( ۲ )

مکتب اشعر ی :ما تر یدی یا اہل سنت میں متوسط راہ

'' مکتب اشعر ی'' کہ آج زیا دہ تر اہل سنت اسی مکتب کے ہم خیال ہیں،'' معتزلہ مکتب'' اور اہل حدیث کے درمیان کا راستہ ہے ، اس کے بانی شیخ ابو الحسن اشعر ی(متوفی ۳۲۴ ھ ) خودابتدا میں ( چا لیس سال تک) معتز لی مذ ہب رکھتے تھے ،لیکن تقریبا ۳۰۰ ھ کے آس پاس جا مع بصرہ کے منبر پر جا کر مذ ہب اعتزا ل سے بیزا ری اور مذہب سنت وجما عت کی طر ف لوٹنے کا اعلان کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ایک میا نہ اور معتدل روش جو کہ معتزلہ کی عقلی روش اور اہل حد یث کی نقلی روش سے مرکب ہو ، لوگوں کے درمیان عام

____________________

(۱)زھدی حسن جار ﷲ:( المعتز لة) طبع بیروت، دار الا ھلےة للنشر و التو زیع، ۱۹۷۴ ئ.

(۲) قاسم رسی،'' رسا ئل العدل و التو حید و نفی التشبیہ عن ﷲ الوا حد الصمد'' ج،۱،ص ۱۰۵۔

۱۹۴

کریں، وہ اسی تگ ودو میں لگ گئے، تا کہ مکتب اہل حدیث کو تقو یت پہنچائیں اور اس کی تائید و نصرت کریں، لیکن یہ کام معتزلہ کی اسی بروش یعنی : عقلی اور بر ہا نی استد لا ل سے انجام دیاکرتے تھے اس وجہ سے معتز لہ اور اہل حدیث کے نز دیک مردود و مطرود ہو گئے اور دونو ں گر وہوں میں سے ہر ایک اب تک اہم اور اساسی اعترا ضا ت وارد کر کے ا ن کی روش کو انحرا فی اور گمراہ کن جانتا ہے، یہا ں تک کہ ان کے بعض شد ت پسند وں نے ان کے کفر کا فتویٰ د ے دیا ۔

ایک دوسرا عالم جو کہ اشعری کا معاصر تھا ، بغیر اس کے کہ اس سے کو ئی را بطہ اورتعلق ہو،اس بات کی کوشش کی کہ اسی راہ وروش کو انتخاب کر کے اسے با قی رکھے اور آگے بڑھائے ، وہ ابو منصور ما تر ید ی سمرقندی(متوفی ۳۳۳ھ) ہے وہ بھی اہل سنت کے ایک گروہ کا عقید تی پیشوا ہے، یہ دو نو ں رہبرمجمو عی طور پر آپس میں آراء و نظریات میں اختلا ف بھی رکھتے ہیں بعض لوگو ں نے ان میں سے اہم ترین اختلاف کو گیا رہ تک ذکرکیا ہے ۔( ۱ )

اشعر ی مکتب کی سب سے اہم خصو صیت یہ ہے کہ ایک طرف آیات و روایات کے ظا ہری معنی کی تاویل سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتا ہے، دوسری طرف کوشش کرتا ہے کہ''بلا کیف'' کے قول کے ذریعہ یعنی یہ کہ با ری تعا لیٰ کے صفا ت میں کیفیت کا گزر نہیں ہے '' تشبیہ و تجسیم'' کے ہلا کت بار گڈ ھے میں سے فرار کرتا ہے اور'' با لکسب'' کے قول سے یعنی یہ کہ انسان اپنے کردار میں جو کچھ انجام دیتا ہے کسب کے ذریعہ ہے نہ اقدا م کے ذریعہ ''جبر'' کی دلدل میں پھنسنے سے دوری اختیار کر تا ہے، اگر چہ علماء کے ایک گروہ کی نظر میں یہ روش بھی فکری واعتقا دی مسا ئل کے حل کے لئے نا کافی اور ضعیف و ناتواں شمار کی گئی ہے ،'' اشعری مکتب'' نے تدریجا ً اپنے استقلا ل اور ثبات قدم میں اضا فہ کیا ہے اور اہل حدیث ( اخبا ریین عا مہ) کے بالمقابل استقا مت کا مظا ہر ہ کیا اور عا لم اسلام میں پھیل گیا۔( ۲ )

____________________

(۱)دیکھئے: محمد ابو زہر ہ؛ '' تاریخ المذ اھب الاسلا مےة'' قسم الا شا عرہ و الما تر یدےة، آےة ﷲ شیخ جعفر سبحانی ، ا لملل والنحل، ج، ۱،۲، ۴، الفر د بل : ( الفرق الا سلا مےة فی الشما ل الا فر یقی) ص ۱۱۸۔ ۱۳۰، احمد محمود صبحی: ( فی علم الکلا م)

(۲)سبکی : ''الطبقات الشافعیة ج ۳، ص ۳۹۱ الیافعی '' مرآة الجنان '' ج ۳، ص۳۴۳. ابن کثیر ؛ '' البدایة والنہایة '' ج ۱۴، ص ۷۶.

۱۹۵

ج:۔ ذو قی و اشر اقی مکتب

بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں اور ایک علیحدہ اور جدا گانہ روش کہ جس میں کلامی مسائل جن کا اپنے

محور بحث اور منا قشہ ہے ان سے آزاد ہو کر صو فیوں کے رمزی اور عشقی مسلک کی پیروی کرتے ہیں، یہ مسلک تمام پہلؤوں میں فلسفیو ں اور متکلمین کی روش کا جوکہ عقل و نقل پر استوار ہے، مخا لف رہا ہے.'' منصور حلاج'' (متوفی ۳۰۹ھ) کوبغدا د میں اس مذ ہب کا با نی اور '' امام غزا لی'' کو اس کا عظیم رہبر شمار کیا ہے، غزالی اپنی کتاب''الجام العوا م عن علم الکلا م'' میں کہتا ہے ! یہ راہ '' خواص'' اوربر گز یدہ افراد کی راہ ہے اور اس راہ کے علاوہ( کلام و فلسفہ وغیرہ)''عوام'' اور کمتر در جے وا لوں نیزان لوگو ں کی راہ ہے جن کے اور عوام کے درمیان فرق صرف ادلہ کے جاننے میں ہے اور صرف ادلہّ سے آگا ہی استد لال نہیں ہے۔( ۱ )

بعض محققین نے عقائد اسلامی کے دریا فت کرنے میں امام غزالی اور صو فیوں کی روش کے بارے میں مخصوص کتا ب تا لیف کی ہے ۔( ۲ ) ڈاکٹر صبحی، غزا لی کی راہ و روش کو صحیح درک کر نے کے بعد کہتے ہیں:

اگر چہ غزالی ذا ت خدا وندی کی حقیقت کے بارے میں غو ر و خوض کرنے کو عوام پر حرا م جانتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ان کے متعلق کوئی انکار نہیں کرتا ، لیکن انھوں نے اد بائ، نحو یوں، محد ثین ،فقہاء اور متکلمین کو عوام کی صف میں قرار دیا ہے اور تاویل کو راسخون فی العلم میں محدود و منحصر جا نا ہے اور وہ لوگ ان کی نظر میں اولیا ء ہیں جو معرفت کے دریا میں غر ق اور نفسانی خواہشات سے منزہ ہیں اور یہ عبارت بعض محققین کے اس دعویٰ کی صحت پر خود ہی قر ینہ ہے کہ'' غزا لی'' حکمت اشرا قی و ذوقی وغیرہ... میں ایک مخصوص اور مرموز عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ان کے عام اور آشکار اعتقاد کے مغائر ہے کہ جس کی بنا ء پروہ لوگو ں کے نز دیک حجةالاسلام کی منزل پر فا ئز ہوئے ۔

ڈ اکٹر صبحی سوال کرتے ہیں:

کیا حقیقت میں را سخون فی العلم صرف صو فی حضرا ت ہیں اور فقہا ئ، مفسر ین اور متکلمین حضرات ان سے خارج ہیں؟!

اگر ایسا ہے کہ فن کلام کی پیدا ئش اور اس کے ظاہر ہو نے سے برائیوں میں اضافہ ہوا ہے توکیا یہ استثنائ(صرف صو فیوںکو را سخون فی العلم جاننا ) ان کے لئے ایک خاص مو قع فراہم نہیں کرتا ہے کہ وہ اس خاص موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نا روا دعوے اور نازیباگستا خیا ں کریں؟

____________________

(۱)''الجام العوام عن علم الکلام '' ص ۶۶تا ۶۷.

(۲) ڈاکٹر سلیمان دنیا ؛ '' الحقیقة فی نظر الغزالی ''

۱۹۶

تصوف فلسفی کے نظر یات جیسے فیض، اشرا ق اوراس کے ( شرع سے) بیگا نہ اصول بہت زیا دہ واضح ہیں،اور ان کا اسلا می عقائد کے سلسلے میں شر و نقصا ن متکلمین کے شرور سے کسی صورت میں کم نہیں ہے۔( ۱ )

لیکن بہر صورت ، اس گروہ نے اسلامی عقائد میں صو فیا نہ طر ز کے کثرت سے آثا ر چھو ڑے ہیں کہ ان کے نمو نوں میں سے ایک نمو نہ'' فتو حات مکیہ'' نامی کتاب ہے۔( ۲ )

د: حسی و تجر بی مکتب( آج کی اصطلا ح میں علمی مکتب)

یہ روش اسلامی فکر میں ایک نئی روش ہے کہ بعض مسلما ن دا نشو روں نے آخری صدی میں ، یو رپ کے معا صرفکر ی رہبر وںکی پیر وی میں اس کو بنایاہے ، اس روش کا اتباع کر نے والے جد ید مصر، ہند، عرا ق اور ان دیگر اسلا می مما لک میں نظر آتے ہیںجو غرب کے استعما ری تمد ن اور عا لم اسلا م پر وارد ہو نے والی فکری امواج سے متاثر ہوگئے ہیں۔

وہ لوگ انسا نی معرفت و شنا خت کے وسا ئل کے بارے میں مخصوص نظر یات رکھتے ہیں، حسی اور تجر بی رو شوں پر مکمل اعتماد کر نا اور پر انی عقلی راہ وروش اور ارسطو ئی منطق کو با لکل چھو ڑ دینا ان کے اہم خصو صیات میں سے ہے. یہ لوگ کو شش کرتے ہیں کہ'' معا رف الٰہی'' کی بحث اور ما وراء الطبیعت مسا ئل کو'' علوم تجربی''کی رو شوں سے اور میدان حس وعمل میں پیشکریں۔( ۳ )

اس جدید کلامی مکتب کے منجملہ آثار میں سے معجز ات کی تفسیر اس دنیا کی ما دی علتوں کے ذریعہ کرنا ہے ، اور نبو ت کی تفسیر انسا نی نبوغ اورخصو صیا ت سے کرنا ہے، بعض محققین نے ان نظر یات کی تحقیق و بر رسی کے لئے مستقل کتا ب تا لیف کی ہے۔( ۴ )

اس نظریہ کے کچھ نمو نے ہمیں '' سرسید احمد خان ہندی'' کے نو شتوں میں ملتے ہیں اگرانھیں اس مکتب کا پیرو نہ ما نیں ، تب بھی وہ ان لو گوں میں سے ضرور ہیں جو اس نظر یہ سے ہمسوئی اور نزدیکی رکھتے ہیں، اس نزدیکی کا

____________________

(۱) ڈاکٹر احمد محمود صبحی ؛ '' فی علم الکلام '' ج ۲، ص۰۴ ۶تا۶۰۶. (۲) شعرانی عبد الوہاب بن احمد ؛ '' الیواقیت والجواہر فی بیان عقاید الاکابر '' سمیع عاطف الزین ؛ '' الصوفیة فی نظر الاسلام '' تیسرا ایڈیشن ، دار الکتاب اللبنانی ، ۱۴۰۵ ھ ، ۱۹۸۵ ئ. (۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود: '' التو حید الخا لص اوا لا سلا م و العقل'' ، مقدمہ.

(۴)ڈا کٹر عبد الر زّ اق نو فل؛ '' المسلمو ن و العلم الحدیث''. فر ید وجدی؛'' الا سلام فی عصر العلم''.

۱۹۷

سبب بھی یہ ہے کہ انھوں نے غرب کے جد ید دا نشو روں کے آراء و نظریات کو قرآن کی تفسیر میں پیش کرکے اوراپنی تفسیر کو ان نظر یات سے پُر کر کے یہ کو شش کی ہے کہ یہ ثا بت کر یں کہ قرآ ن تمام جد ید انکشا فات سے مو ا فق اور ہماہنگ ہے،سر سیداحمد خا ن ہندی بغیر اس کے کہ اپنے نظریئے کے لئے کوئی حد ومر ز مشخص کریں، اوردینی مسا ئل اور جد ید علمی مبا حث میں اپنا ہد ف، روش اور مو ضو ع واضح کریں، ایک جملہ میں کہتے ہیں:'' پو را قرآ ن علوم تجر بی انکشافات سے مو افق اور ہم آہنگ ہے''۔( ۱)

ھ:اہل بیت کا مکتب راہ فطرت

اس مکتب یعنی راہ فطرت کاخمیر، اہل بیت کی تعلیمات میں مو جو د ہے، ان حضرات نے لوگو ں کے لئے بیا ن کیا ہے :'' اسلامی عقائد کا صحیح طریقہ سے سمجھنا انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطا بقت کے بغیر ممکن نہیں ہے'' اس بیان کی اصل قرآن و سنت میں مو جود ہے ، کیو نکہ قرآ ن کریم جہا ں با طل کا کسی صورت سے گزر نہیں ہے اس میں ذکر ہوا ہے:

(( فطرة ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لایعلمون ) سورہ روم :۳۰.

ﷲ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسا نوں کو خلق کیا ہے ، ﷲ کی آفر ینش میں کوئی تغیر اور تبد یلی نہیں ہے ، یہ ہے محکم آئین لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!

پروردگا ر عا لم نے اس آیت میں اشارہ فرمایا: دینی معارف تک پہنچنے کی سب سے اچھی راہ انسان کی فطر ت سلیم ہے، ایسی فطرت کہ جسے غلط اور فا سد معاشرہ نیز بری تربیت کاما حول بھی بد ل نہیں سکتا اوراسے خواہشات ، جنگ و جدا ل محوا ورنابود نہیں کر سکتے اور اس بات کی علت کہ اکثر لوگ حق و حقیقت کو صحیح طر یقے سے درک نہیں کر سکتے یہ ہے کہ خود خواہی ( خود پسند ی) اور بے جا تعصب نے ان کے نور فطرت کو خا موش کر دیا ہے، اور ان کے اور ﷲ کے واقعی علوم و حقائق کے اور ان کی فطری درک و ہدایت کے درمیا ن طغیا نی اور سرکشی حا ئل ہو گئی ہے اور دونو ں کے درمیا ن فا صلہ ہو گیا ہے۔

____________________

(۱)۔محمود شلو ت '' تفسیر القرآن الکریم'' الا جزاء العشر ة الا ولی'' ص ۱۱ ۔ ۱۴، اقبال لاہو ری: ( احیا ئے تفکر دینی در اسلا م) احمد آرام کا تر جمہ ص ۱۴۷۔۱۵۱ ، سید جمال الدین اسد آبادی: ( العر وة الو ثقیٰ) شمار ہ ۷ ،ص ۳۸۳ ، روم، اٹلی ملا حظہ ہو.

۱۹۸

اس معنی کی سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی تا کید ہو ئی ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت میں مذ کور ہے :

''کل مولودٍ یو لد علی الفطر ةِ فا بوٰ اه یهو دٰ ا نه او ینصرٰا نه او يُمجسانه' '( ۱ )

ہر بچہ ﷲ کی پا کیزہ فطرت پرپیداہوتاہے یہ تو اس کے ماں باپ ہیں جواسے ( اپنی تربیت سے) یہودی، نصرا نی یا مجو سی بنا دیتے ہیں۔

راہ فطرت کسی صورت عقل و نقل، شہود و اشرا ق ، علمی وتجر بی روش سے استفادہ کے مخا لف نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ راہ شنا خت کے اسباب و وسا ئل میں سے کسی ایک سبب اور وسیلہ میں محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنی جگہ پر خداوند عا لم کی ہدایت کے مطابق میں استعمال کرتی ہے ، وہ ہدا یت جس کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یمنو ن علیک أن أسلموا قل لاتمنوا علیّ اِسلا مکم بل ﷲ یمن علیکم أن هدا کم للاِیمان اِن کنتم صا دقینَ ) ( ۲ )

(اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )وہ لوگ تم پر اسلا م لانے کا احسان جتا تے ہیں ، تو ان سے کہہ دو! اپنے اسلام لا نے کا مجھ پر احسان نہ جتا ؤ ، بلکہ خدا تم پر احسان جتا تا ہے کہ اس نے تمھیں ایما ن کی طر ف ہدا یت کی ہے، اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو !

دوسری جگہ فرماتا ہے :( و لولا فضل ﷲ علیکم و رحمته ما زکیٰ منکم من أحدٍ أبدا ) () ( ۳ )

اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو تم میں سے کو ئی بھی کبھی پاک نہ ہو تا ۔

اس راہ کا ایک امتیاز اور خصو صیت یہ ہے کہ اس کے ما ننے وا لے کلا می منا ظر ے اور پیچیدہ شکو ک و شبہات میں نہیں الجھتے اور اس سے دور ی اختیا ر کرتے ہیںاور اس سلسلے میں اہل بیت کی ان احا دیث سے استنا د کرتے ہیں جو دشمنی اور جنگ و جدا ل سے رو کتی ہیں، ان کی نظر میں وہ متکلمین جنھیں اس راہ کی تو فیق نہیں ہو ئی ہے ان کے اختلا ف کی تعداد ایک مذ ہب کے اعتقادی مسا ئل میں کبھی کبھی ( تقریبا)سینکڑوں مسائل تک پہنچ جاتی ہے۔( ۴ )

____________________

(۱) صحیح بخاری: کتاب جنائز و کتاب تفسیر ؛ صحیح مسلم : کتاب قدر ، حدیث ۲۲تا ۲۴.مسند احمد : ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۷۵، ۲۹۳، ۴۱۰، ۴۸۱، ج۳،ص ۳۵۳؛ صراط الحق: آصف محسنی (۲)سورہ حجرات ۱۷

(۳)سورہ ٔ نور ۲۱.

(۴) علی ابن طاؤوس ، ''کشف المحجة لثمرة الحجة '' ص ۱۱اور ص ۲۰، پریس داروی قم

۱۹۹

یہ پا کیزہ '' فطرت'' جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اہل بیت کی روایات میں کبھی ''طینت اور سرشت'' اور کبھی'' عقل طبیعی'' سے تعبیر ہو تی ہے، اس مو ضو ع کی مز ید معلو مات کے لئے اہل بیت کی گرانبہا میرا ث کے محا فظ اور ان کے شیعوں کی حد یث کی کتا بوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہیں۔( ۱ )

اسلامی عقا ئد کے بیان میں مکتب اہل بیت کے اصول و مبا نی

عقائد میں ایک مہم ترین بحث اس کے ماخذ و مدارک کی بحث ہے ، اسلامی عقائد کے مدا رک جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے،صرف کتاب خدا وندی اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور دیگرمکاتب میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ مکتب اہل بیت پوری طرح سے اپنے آپ کو ان مدا رک کا تا بع جانتا ہے اور کسی قسم بھی کی خو اہشات ، ہوائے نفس اوردلی جذ با ت اور تعصب کو ان پر مقدم نہیںکرتا اور ان دونوں مر جع سے عقائد حاصل کرنے میں صرف قرآ ن کریم اور روایات رسول اسلام میں اجتہاد کے اصول عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے ، ا ن میں سے بعض اصول یہ ہیں:

۱۔ان نصوص و تصر یحا ت کے مقا بلے میں ، جو معا رض سے خالی ہوں یا معارض ہو لیکن نص کے مقا بل استقا مت کی صلا حیت نہ رکھتا ہو، کبھی اجتہا د کو نص پر مقد م نہیں رکھتے اس حال میں کہ بعض ہوا پر ستوں اور نت نئے مکتب بنا نے وا لوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لغو اور بیہودہ تا ویلا ت کے ذریعہ اپنے آپ کو نصوص کی قید سے آزا د کر لیں ،عنقریب اس کے ہم چند نمو نوںکی نشان دہی کریں گے۔

حضرت امام امیر المو منین ـ ''حارث بن حوط'' کے جو اب میں فرما تے ہیں :

''انک لم تعرف الحقّ فتعرف من اتاه و لم تعرف البا طل فتعرف مَن أتا ه ''( ۲ )

تم نے حق ہی کو نہیں پہچا ناکہ اس پر عمل کرنے والوں کو پہچا نو اور تم نے باطل ہی کو نہیں پہچا نا کہ اس پر عمل کر نے والوں کو پہچا نو۔

۲۔ دوسرے لفظوںمیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں: مکتب اہل بیت کے ما ننے وا لے کسی چیز کو نص اوراس روایت پر جو قطعی اور متو اتر ہو مقدم نہیں کرتے اور یہ اسلام کے عقیدہ میں نہایت اہم اصلی ہے ، کیو نکہ عقائد میں ظن و گما ن اور اوہام کا گزر نہیں ہے ، اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے جو کہ ''سلفی'' نقطۂ نظر رکھتے ہیں ، نیز

____________________

(۱)کافی کلینی: ترجمہ ، ج۳، ص ۲، باب طینة المؤمن والکافر ، چوتھا ایڈیشن ، اسلامیہ تہران ، ۱۳۹۲ ھ.(۲)نہج البلا غہ، حکمت:۲۶۲:

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

اسكى مذمت ۶

حيات:اس كا سرچشمہ ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۱، ۳; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴

شرك:اسكى مذمت ۶

مردے:انہيں آخرت ميں زندہ كرنا ۳، ۴

موت:اس كا قطعى ہونا ۲

آیت ۶۷

( لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكاً هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُّسْتَقِيمٍ )

ہر امت كے لئے ايك طريقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل كر رہى ہے لہذا اس امر ميں ان لوگوں كو آپ سے جھگرا نہيں كرنا چاہئے اور آپ انہيں اپنے پروردگار كى طرف دعوت ديں كہ آپ بالكل سيدھى ہدايت كے راستہ پر ہيں (۶۷)

۱ _ قربانى كرنا، تمام الہى شريعتوں اور اديان كى عبادى رسومات ميں سے ہے_لكل ا مة جعلنا منسكاً هم ناسكوه

''منسك'' مصدر ميمى اور ''نسك'' كا مترادف ہے اور ''نسك'' كا معنى ہے حيوان كو تقرب الہى كے قصد كے ساتھ ذبح كرنا_

۲ _ گذشتہ ہر امت كا فريضہ تھا كہ وہ قربانى كى رسومات كو اس طرح انجام دے جيسے خدا تعالى نے مقرر كيا ہے_

لكل ا مة جلعنا منسكاً هم ناسكوه

جملہ ''ہم ناسكوہ'' محل نصب ميں اور ''منسكاً'' كيلئے صفت ہے اور مذكورہ جملہ خبر كے قالب ميں انشاء ہے يعنى ہر امت كا فريضہ تھا كہ اس ''منسك'' كو اس طرح انجام دے جيسے ہم نے مقرر كيا ہے قابل ذكر ہے كہ''ہم ناسكوہ'' خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) كو اور ان كى اتباع ميں مسلمانوں كو حكم ہے كہ ان كا بھى فريضہ ہے كہ اپنے منسك كو اس طرح انجام ديں جيسے خدا نے مقرر كيا ہے_

۳ _ مسلمان، قربانى كى رسومات كو اس طرح انجام دينے پر مأمور ہيں جيسے خداتعالى نے مقر ركيا ہے_

لكل ا مة جعلنا منسكاً هم ناسكوه

۶۰۱

۴ _ مسلمانوں كى قربانى كى رسومات، صدر اسلام كے مشركين كے دشمن پر مبنى اعتراض كا نشانہ _

لكل ا مة جعلنا منسكاً هم ناسكوه فلا ينازعنك فى الا مر

(''ينازعون'' كے مصدر) ''نزاع ''كا معنى ہے مخاصمت اور دشمنى كرنا ''لاينازعنك'' كى فاعل ضمير كا مرجع مشركين ہيں اور ''فى الا مر'' ميں ''ال'' مضاف اليہ كے عوض ميں ہے اور يہ ''فى ا مر المنسك'' كى تقدير ميں ہے يعنى مشركين قربانى كے مسئلہ ميں تيرے ساتھ دشمنى پر نہ اترآئيں _

۵ _ خداتعالى نے مشركين كو قربانى كے معاملے ميں پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ جھگڑنے اور مخاصمت سے شدت كے ساتھ ڈرايا_فلاينازعنك فى الا مر

۶ _ خداتعالى انسانوں كا پروردگار ہے_و ادع إلى ربك

۷ _ خداتعالى نے پيغمبراكرم(ص) كو حكم ديا كہ وہ مشركين سے چاہيں كہ وہ ان كے ساتھ دشمنى او رحدود و احكام الہى كى مخالفت كے بجائے خدائے يكتا كى طرف لوٹ آئيں اور اسكى پرستش كيلئے آمادہ ہوجائيں _

فلاينازعنك فى الا مر و ادع إلى سبيل ربك

۸ _ شرك و بت پرستى گمراہى اور صراط مستقيم سے انحراف ہے_فلاينازعنك فى الا مر و ادع إلى سبيل ربك لعلى هدء مستقيم

۹ _ توحيد اور يكتاپرستى راہ ہدايت اور صراط مستقيم ہے_و ادع الى ربك إنّك لعلى هديً مستقيم

۱۰ _ پيغمبراكرم(ص) ،صراط مستقيم كو پالينے والے شخص تھے_إنّك لعلى هديً مستقيم

۱۱ _ گمراہوں كو راہ ہدايت اور صراط مستقيم كى طرف دعوت دينا ،صراط مستقيم كو پالينے والے سب افراد كى الہى ذمہ داري_وادع إلى ربك إنّك لعلى هديً مستقيم

جملہ''إنك لعلى هديً مستقيم'' ''وادع إلى ربك'' كى علت ہے يعنى چونكہ تو راہ ہدايت اور صراط مستقيم پر ہے لذا ان گمراہ مشركين كو اپنے پروردگار كى طرف دعوت دے ممكن ہے

۶۰۲

وہ ضلالت و گمراہى سے نجات پاكر تيرے راستے كى طرف پلٹ آئيں _

آسمانى اديان:انكى ہم آہنگى ۱

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى دعوت ۷; آپ(ص) كى رسالت ۷; آپ(ص) كے فضائل ۱۰; آپ كے ساتھ جھگڑنے والے ۵; آپ(ص) كى ہدايت ۱۰

انسان:اس كا رب ۶

بت پرستي:اسكى گمراہى ۸

توحيد:اسكے اثرات ۹; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۷

خداتعالى :اسكے اوامر ۷; اسكى ربوبيت ۶; اسكے نواخى ۵

گذشتہ امتيں :انكى شرعى ذمہ دارى ۲

شرك:اسكى گمراہى ۸

صراط مستقيم:اس سے گمراہى ۸; اسكے موارد ۹; اسكى طرف ہدايت ۱۰، ۱۱

قرباني:اس كا عبادت ہونا ۱; يہ اديان آسمانى ميں ۱; يہ گذشتہ امتوں ميں ۲; اس كا طريقہ ۳; اسكے بارے ميں جھگڑا ۵

گمراہ لوگ:انہيں دعوت دينا ۱۱

مسلمان:انكى شرعى ذمہ دارى ۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا اعتراض ۴; انكو دعوت دينا ۷; صدر اسلام كے مشركين اور مسلمانوں كى قربانى ۴; صدر اسلام كے مشركين كا جھگڑا ۵

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۶ہدايت يافتہ لوگ: ۱۰

انكى ذمہ دارى ۱۱

ہدايت:اسكى طرف دعوت ۱۱; اسكے عوامل ۹

۶۰۳

آیت ۶۸

( وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ )

اور اگر يہ آپ سے جھگڑا كريں تو كہہ ديجئے كہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے (۶۸)

۱ _ مشركين كى پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مخاصمت اور دشمنى _وادع إلى ربّك و إن جادلوك

(''جادلوا'' كے مصدر ) ''جدال'' كا معنى ہے مخاصمت اور جھگڑنا ''جادلوا'' كا متعلق محذوف ہے اور يہ در اصل يوں ہے''و ان جادلوك فى ربك تدعوهم اليه ...'' اگر مشركين آپ(ع) كے ساتھ اس پروردگار يكتا_ كہ جس پر ايمان لانے اور اسكى پرستش كرنے كى آپ(ع) انہيں دعوت ديتا ہے_ جھگڑا اور مخاصمت كريں _

۲ _ مشركين كا پيغمبر(ص) كى دعوت (يكتاپرستى كى دعوت) كو ردكرنا اور ان كا شرك و بت پرستى پر مصر رہنا_

و ادع إلى ربّك و إن جادلوك

۳ _ مشركين كا برا انجام ہے_و إن جادلوك فقل الله ا علم بما تعملون

۴ _ خداتعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) كو مشركين كے ساتھ نمٹنے كى روش كى تعليم دينا_و إن جاد لوك فقل الله ا علم بما تعملون

۵ _ كفر اور توحيد و يكتاپرستى كے خلاف مبارزت كے برے انجام كے بارے ميں خبر دينا پيغمبر(ص) كى الہى رسالت_

و إن جادلوك فقل الله ا علم بما تعملون

۶ _ جھگڑالو كافروں كے ساتھ نرمى اور مدارات كا اظہار كرنا خداتعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) كو نصيحت_و إن جادلوك فقل الله ا علم بما تعملون جملہ ''الله ا علم بما تعملون'' دھمكى ہے ليكن نرمى ومدارات كے اظہار كے ساتھ _

۷ _ خداتعالى انسان كے تمام اعمال سے آگاہ ہے_الله اعلم بما تعملون

انسان:اس كے عمل كا علم ۷

۶۰۴

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا ڈرانا ۵; آپ(ص) كو نصيحت۶; آپ(ص) كے دشمن ۱; آپ(ص) كى دعوت كو رد كرنا ۲; آپ(ص) كى رسالت ۵; آپ(ص) كا معلم ۴

توحيد:توحيد عبادى كى طرف دعوت ۲; اسكے ساتھ مبارزت كا انجام ۵

خداتعالى :اسكى تعليمات ۴; اسكى نصيحتيں ۶; اس كا علم ۷

كفار:ان كے ساتھ مدارات ۶

ڈرانا:كفر كے انجام سے ڈرانا ۵

مشركين:انكى دشمنى ۱; ان كے ساتھ نمٹنے كا طريقہ ۴; انكا برا انجام ۳; انكى ھٹ دھرمى ۲; ان كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۲

آیت ۶۹

( اللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ )

اللہ ہى تمہارے درميان روز قيامت ان باتوں كا فيصلہ كرے گا جن باتوں ميں تم اختلاف كر رہے ہو (۶۹)

۱ _ قيامت، مؤمنين اورمشركين كے درميان فيصلہ كا دن_الله يحكم بينكم يوم القيامة

مذكورہ آيت ميں خداتعالى سب مؤمنين اور مشركين كو مخاطب بنا رہا ہے_ (''يحكم'' كے مصدر) ''حكم'' كا معنى ہے قضاوت اور فيصلہ كرنا يعنى خداتعالى روز قيامت مؤمنين اور مشركين كے درميان فيصلہ كرے گا ''

۲ _ خداتعالى رو زقيامت كا قاضى اور جج _الله يحكم بينكم يوم القيامة

۳ _ روز قيامت خداتعالى كا فيصلہ انسانوں كے كردار سے مكمل علم و آگاہى كى بنياد پر ہے_الله علم بما تعملون الله يحكم بينكم يوم القيامة

۴ _ عالم آخرت عالم سزا و جزا_الله يحكم بينكم يوم القيامة

جملہ''الله يحكم بينكم يوم القيامة'' مؤمنين كو اجر كى خوشخبرى اور مشركين كو سزا اور كيفر كى دھمكى ہے_

۶۰۵

۵ _ توحيد اور شرك (خداپرستى اور بت پرستي) روز قيامت خداتعالى كے فيصلوں اور جزا و سزا كے معين كرنے كى بنياد_

الله يحكم فيما كنتم فيه تختلفون

گذشتہ عبارت كے پيش نظر''فيما كنتم'' ميں ''ما'' ''الذي' كے معنى ميں ہے كہ جو مسئلہ توحيد و شرك_ كہ جو تاريخ كے موحدين اور مشركين كے درميان اختلاف كا محور رہا ہے_ كى طرف اشارہ ہے_

۶ _ كفر و ايمان كے محاذوں (خداپرستوں اور بت پرستوں ) كاٹكڑاؤ اور جھگڑے كى تاريخ بشر ميں گہرى جڑيں ہيں _

فيما كنتم فيه تختلفون

ماضى استمرارى (كنتم مختلفون ) كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۷ _خداتعالى كى طرف سے مشركين كى دشمنيوں كے مقابلے ميں پيغمبر(ص) اكرم كو تسلي_

و ان جدلوك فقل الله ا علم بما تعملون و الله يحكم بينكم يوم القيامة

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے دشمن ۷; آپ(ص) كو تسلى ۷

توحيد:اسكے اثرات۵; اسكى اخروى پاداش۵

خداتعالى :اسكے علم كے اثرات۳; اسكى اخروى قضاوت ۲; اسكى قضاوت كا معيار ۳، ۵

شرك:اسكے اثرات ۵; اسكى اخروى سزا ۵

عمل:اسكے اخروى اثرات ۳

قيامت:اس ميں پاداش۴; اس ميں قضاوت ۲، ۳; اس ميں سزا ۴; اسكى خصوصيات ۱، ۴

كفار:كفار و مؤمنين كى دشمنى ۶

مؤمنين:ان كے بارے ميں اخروى قضاوت ۱

مشركين:انكى دشمنى ۷; ان كے بارے ميں اخروى قضاوت ۱

۶۰۶

آیت ۷۰

( أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاء وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ )

كيا تمہيں نہيں معلوم ہے كہ اللہ زمين اور آسمان كى تمام باتوں كو خوب جانتا ہے اور يہ سب باتيں كتاب ميں محفوظ ہيں اور يہ سب باتيں خدا كے ليئے بہت آسان ہيں (۷۰)

۱ _ خداتعالى زمين و آسمان كى ہر چيز پر علمى احاطہ ركھتا ہے_ا لم تعلم ان الله يعلم ما فى السماء و الأرض

۲ _ اس بات كى طرف توجہ كہ خداتعالى آسمان و زمين كے تمام موجوات اور ان كے تحولات سے آگاہ ہے انسان كے تمام اعمال كے بارے ميں خداتعالى كے علمى احاطے كو باور كرنے كا ذريعہ ہے_فقل الله ا علم بما تعملون ...ا لم تعلم ا ن الله يعلم ما فى السماء و الأرض

''ا لم تعلم'' ميں استفہام تقريرى ہے يعنى كيا تجھے نہيں پتا كہ خدا آسمان و زمين ميں جو كچھ بھى ہے اس سے آگاہ ہے مقصود يہ ہے كہ وہ خدا كہ جسكے علمى احاطہ ميں پورا عالم ہستى ہے انسانوں كے ا عمال_ كہ جو عالم ہستى كا حصہ ہيں _ سے آگاہ ہے اور ان ان كا كوئي قول و فعل اس سے مخفى نہيں ہے_

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ كہ خداتعالى پورے عالم وجودپر علمى احاطہ ركھتا ہے_ا لم تعلم ا ن الله يعلم ما فى السماء و الأرض ''ا لم تعلم'' ميں استفہام تقريرى مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۴ _ انسان كے اعمال ايك كتاب ميں درج اور محفوظ كرديئے جاتے ہيں _الله ا علم بما تعملون إنّ ذلك فى كتاب

''ذلك'' آيت نمبر ۶۸ كے جملے ''ماتعلمون'' كے محتوى كى طرف اشارہ ہے يعنى وہ (تمہارے اعمال) سب ايك كتاب ميں درج اور محفوظ ہوجاتے ہيں _

۵ _ انسانوں كے اعمال كو درج اور محفوظ كرنا، خداتعالى

۶۰۷

كيلئے ايك آسان كام ہے_إن ذلك على الله يسير

جملہ ''إن ذلك على الله يسير'' ميں ''ذلك'' انسانوں كے اعمال كو درج اور محفوظ كرنے (ان ذلك فى الكتاب) كى طر ف اشارہ ہے_

۶ _ روز قيامت ،انسانوں كے ہر قول و فعل كو پر كھا جائيگا_الله ا علم بما تعملون الله يحكم بينكم يوم القيامة إنّ ذلك فى كتاب إنّ ذلك على الله يسير

آسمان:اس كے موجودات ۱

ايمان:خدا كے محيط ہونے پر ايمان ۲

خداتعالى :اس كا علمى احاطہ ۱، ۳; اسكے افعال ۵; اسكے علم و سعت ۱، ۲، ۳

ذكر:علم خدا كے ذكر كے اثرات ۲

عقيدہ:علم خدا كا عقيدہ ۳

عمل:اس كا درج كرنا ۴; اس كا اخروى حساب و كتاب ۶; اسكے اندراج كا آسان ہونا ۵

قيامت:اسكى خصوصيات ۶

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ ۳

موجودات:ان كا علم۱

نامہ اعمال: ۴

آیت ۷۱

( وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً وَمَا لَيْسَ لَهُم بِهِ عِلْمٌ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ )

اور يہ لوگ خدا كو چھوڑ كر ان كى پرستش كرتے ہيں جن كے بارے ميں نہ خدا نے كوئي دليل نازل كى ہے اور نہ خود انہيں كوئي علم ہے اور ظالمين كے لئے واقعا كوئي مدد گار نہيں ہے (۷۱)

۱ _ بت پرستي، اسلام سے پہلے كے عربوں كے درميان رائج تھي_

۶۰۸

و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۲ _ مشركين ،كائنات كو خداؤں (ارباب) كى تدبير اور ربوبيت كے تحت اور خداتعالى كو خداؤں كا خدا (رب الارباب) سمجھتے تھے_و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن ''لم ينزل'' ميں فاعلى ضمير كا مرجع ''الله '' اور ''بہ'' كى ضمير كا مرجع ''ما'' ہے اور ''سلطان'' كا معنى ''تسلط'' مذكورہ جملہ مشركين كے غلط مقصور كائنات كو بيان كررہا ہے وہ كائنات كو خداؤں (ارباب) كى ربوبيت اور تدبير كے تحت اور خدا كو رب الارباب اور خداؤں كا خدا سمجھتے تھے اس بناء پر خدا كى پرستش كے بجائے ان خداؤں كى عبادت كرتے تھے مذكورہ آيت ميں اس كو غلط شمار كرتے ہوئے اعلان كيا گيا ہے كہ خداتعالى نے كسى موجود كو ايسا تسلط اور قدرت عطا نہيں كى كہ وہ كائنات كے امور كى تدبير كرسكے بلكہ پورا عالم ہستى اسكے قبضہ قدرت ميں اور بلاواسطہ طور پر اسكى ربوبيت اور تدبير كے تحت ہے_

۳ _ كائنات كے امور كى تدبير كيلئے خداؤں كا وجود ايك باطل سوچ ہے_و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۴ _ خداتعالى نے كسى موجود كو كائنات كے امور كى تدبير كيلئے كسى قسم كى قدرت عطا نہيں كى _

و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۵ _ خداتعالى بے نظير پروردگار اور عالم ہستى كا واحد تدبير كرنے والا ہے_و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۶ _ بت پرستي، انتہائي جہالت اور نادانى كى علامت ہے_و ما ليس لهم به علم

۷ _ خداتعالى كى طرف سے عصر بعثت كے مشركين كى شديد تحقير _و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطناً و ما ليس لهم به علم

۸ _ شرك اور بت پرستى ظلم ہيں _و يعبدون من دون الله و ما للظالمين من نصير

۹ _ مشركين خداتعالى كى نصرت اور دستگيرى سے محروم ہيں _و ما للظالمين من نصير

بت پرستي:اسكے اثرات ۶; يہ جاہليت ميں ۱; اسكى تاريخ ۱; اس كا ظلم ہونا ۸

توحيد:توحيد ربوبى ۴، ۵

نظر يہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

جہالت:اسكى نشانياں ۶/خداتعالى :اسكى نصرت سے محروم لوگ ۹

شرك:

۶۰۹

اس كا ظلم ہونا ۸

عالم خلقت:اس كا مدبر ۵; اسكى تدبير كا سرچشمہ ۴

عقيدہ:باطل عقيدہ ۳; كئي معبودوں كا عقيدہ ۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى تحقير ۷; انكا عقيدہ ۲; انكى محروميت ۹; ان كے معبود ۲

موجودات:انكا عاجز ہونا۴

آیت ۷۲

( وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَلِكُمُ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَبِئْسَ الْمَصِيرُ )

اور جب ان كے سامنے ہمارى واضح آيتيں پڑھ كر سنائي جاتى ہيں تو تم ديكھتے ہو كہ كفر اختيار كرنے والوں كے چہرہ پر ناگوارى كے آثار ظاہر ہو جاتے ہيں اور قريب ہوتا ہے كہ وہ ان تلاوت كرنے والوں پر حملہ كر بيٹھيں تو كہہ ديجئے كہ ميں اس سے بدتبر بات كے بارے ميں تمہيں بتلا رہا ہوں اور وہ جہنم ہے جس كا خدا نے كافروں سے وعدہ كيا ہے اور وہ بہت برا انجام ہے (۷۲)

۱ _ قرآن كى ساخت ٹكڑے ٹكڑے كى صورت ميں ہے اور ہر ٹكڑے كو آيت كہاجاتا ہے_و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينات

۲ _ آيات قرآن واضح، قابل فہم اور ہر قسم كے ابہام سے دور ہيں _و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينات

۶۱۰

''بينات'' ''بينة'' كى جمع اور ''ء اياتنا'' كيلئے حال ہے اور ''بينہ'' (''بين'' كى مونث) كا معنى ہے واضح الدلالة

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كا شرك كى نسبت جاہلانہ اور اندھا تعصب اور قرآن كے الہى معارف كى نسبت غضب اور كينہو إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينات تعرف فى وجوه الذين كفروا المنكر

''منكر'' (''انكار'' كا مترداف) مصدر ميمى اور ناخوشى و ناپسنديدگى كے معنى ميں ہے يعنى جب بھى ان پر ہمارى واضح آيات كى تلاوت كى جائے تو كافروں كے چہروں پر ناخوشى و ناپسنديدگى كے اثرات كو تشخيص دے سكتا ہے _

۴ _ مؤمنين كى طرف سے صدر اسلام كے لوگوں كو توحيد كى دعوت اور ان پر آيات قرآنى كى تلاوت كرنا_

و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بالذين يتلون عليهم ء اى تن

۵ _ آيات قرآنى اور ان كے توحيدى معارف كو سننے كے وقت صدر اسلام كے كفار كا غضبناك ہونا اور ان كے چہروں پر كينے او رنفرت كے آثار كا نمايان ہونا_و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينت تعرف فى وجوه الذين كفروا المنكر

۶ _ آيات قرآنى كو سن كر مشركين كا غيض و غضب اس قدر زيادہ ہوتا كہ قريب تھا وہ اپنے سامنے آيت قرآنى كى تلاوت كرنے والوں پر حملہ آور ہوجائيں _يكادون يسطون بالذين يتلون عليهم ء اى تن

(''يسطون'' كے مصدر) ''سطو'' كا معنى ہے حملہ كرنا يعنى بعيد نہيں ہے كہ مشركين اپنے سامنے ہمارى آيات كى تلاوت كرنے والوں كے گلے پڑجائيں _

۷ _ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے كينہ توز كافروں كا استہزا_قل ا فا نبئكم بشر من ذلكم النار

''افانبئكم'' ميں استفہام استہزاء كيلئے ہے اور (''ا نبا'' كے مصدر) ''تنبئہ'' كا معنى ہے خبر دينا اور ''ذلكم'' قرآن كى توحيدى آيات كو سننے كے وقت مشركين كو چہروں كے اترجانے والى حالت كى طرف اشارہ ہے _

۸ _ خداتعالى كے حكم سے پيغمبر(ص) كى طر ف سے كينہ توز مشركين كو دوزخ كے عذاب كى دھمكى _

قل ا فا نبئكم بشر من ذلكم النار

۹ _ دوزخ ميں كافروں كے چہرے انتہائي گرفتگى اور افسردگى كى حالت ميں ہوں گے_قل افا نبئكم بشر من ذلكم النار

۱۰ _ دوزخ كى آگ ،كفار كو خدا كا وعدہ اور ان كا برا انجام_النار وعدها الله الذين كفرو

۱۱ _ دوزخ كافروں كى جائے بازگشت اور آخرى انجام_و بئس المصير

۶۱۱

''مصير'' كا معنى ہے انجام نيز يہ جائے بازگشت كے معنى ميں بھى آتا ہے_

۱۲ _ دوزخ دوزخيوں كيلئے برى جگہ_و بئس المصير

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴، ۵

انذار:جہنم سے انذار ۸

توحيد:اسكى دعوت ۴

جہنم:اسكى آگ ۸; اس كا برا ہونا ۱۲

جہنمى لوگ:ان كا برا انجام ۱۲

خداتعالى :اسكى طرف سے استہزا۷; اسكے اوامر ۸; اسكى دھمكياں ۱۰

قرآن كريم:اس كا آيت آيت ہونا۱; اسكے دشمن ۳، ۵،۶; اسكى ساخت ۱; اس كا آسان فہم ہونا ۲; اس كا واضح ہونا۲; اسكى خصوصيات۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا مسخر كرنا ۷; صدر اسلام كے كفار كى دشمنى ۵، ۶; صدر اسلام كے كفار كے ساتھ نمٹنے كا طريقہ ۵; صدر اسلام كے كفار كے غضب كا پيش خيمہ ۵; جہنم ميں ان كى وضع قطع ۹; صدر اسلام كے كفار كے غضب كى شدت ۶; ان كا برا انجام ۱۰; ان كا انجام ۱۱; يہ جہنم ميں ۱۰، ۱۱; صدر اسلام كے كفار قرآن كى تلاوت كے وقت ۵، ۶

مؤمنين:انكى دعوت ۴

لوگ:صدر اسلام كے لوگوں پر قرآن كى تلاوت ۴; صدر اسلام كے لوگوں كو دعوت ۴

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو ڈرانا ۸; صدر اسلام كے مشركين كا تعصب ۳; صدر اسلام كے مشركين كى دشمنى ۳

۶۱۲

آیت ۷۳

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئاً لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ )

انسانو تمارے لئے ايك مثل بيان كى گئي ہے لہذا اسے غور سے سنو _ يہ لوگ جنہيں تم خدا كو چھوڑ كر آواز ديتے ہو يہ سب مل بھى جائيں تو ايك مكھى نہيں پيدا كر سكتے ہيں اور اگر مكھى ان سے كوئي چيز چھين لے تو يہ اس سے چھڑا بھى نہيں سكتے ہيں كہ طالب اور مطلوب دونوں ہى كمزور ہيں (۷۳)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے شرك و بت پرستى والى بے بنياد فكر كو خوبصورت، مختصر بديع اور واضح (جيسے ضرب المثل) اسلوب ميں بيان كيا جانا_يا ايها الناس ضرب مثل فاستعموا له

''يا ايها الناس'' كے مخاطب مشركين ہيں (''استعموا'' كے مصدر) ''استماع'' كا معنى ہے كان دھرنا (''يدعون'' كے مصدر) ''دعا'' كا معنى ہے پكارنا اور استغاثہ بلند كرنا_

قابل ذكر ہے كہ ''مثل'' وہ مختصر جملہ ہے كہ جو تشبيہ يا حكيمانہ مطلب پر مشتمل ہو كہ جو الفاظ كى روانى معنى كے واضح ہونے اور تركيب كے لطيف ہونے كى وجہ سے زبان زدعام و خاص ہوجاتا ہے اور سب اسے بغير تبديلى كے محاور ے ميں استعمال كرتے ہيں مذكورہ آيت ميں شرك و بت پرستى كى بنياد كے كمزور ہونے كو اتنے خوبصورت، مختصر، بديع اور واضح اسلوب ميں بيان كيا گيا ہے

۶۱۳

كہ يہ ''مثل'' كى طرح اس قابل ہے كہ زبان زدعام و خاص ہوجائے اسى وجہ سے خداتعالى نے اسے 'مثل'' سے تعبير كيا ہے_

۲ _ عقيدہ شرك كى بنياد كى كمزورى كو بيان كرنے ميں خداتعالى كى طرف سے بيان كردہ ضرب المثل مشركين كو سننے كى دعوت _يا ا يها الناس ضرب مثل فاستمعوا له

۳ _ شرك و بت پرستى جاہليت كے عربوں كا عقيدہ اور سوچ _يا ا يها الناس إنّ الذين تدعون من دون الله

۴ _ مشركين كے نظريہ كائنات ميں جہاں اور انسان كے امور كى تدبير خداؤں كے اختيار ميں ہے نہ خداوند متعال كے_

يا ا يها الناس إنّ الذين تدعون من دون الله

۵ _ مشركين كا اپنے خداؤں سے استغاثہ اور فرياد كرنا_إنّ الذين تدعون من دون الله

۶ _ خالقيت، ربوبيت اور خدا ہونے كى شرط ہے_يا ا يها الناس إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۷ _ مشركين كے خداؤں كا سب مل كر بھى حتى كہ ايك مكھى كو خلق كرنے سے عاجز ہونا عقيدہ شرك كے كھوكھلا ہونے كى واضح اور ناقابل انكار دليل_إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۸ _ خداتعالى ، پورے عالم ہستى كا يكتا پروردگار اور بے مثل خالق ہے_إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۹ _ خداتعالى فرياد كرنے والوں كا تنہا فريادرس ہے_إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۱۰ _ اگر مكھى جيسى ناتوان مخلوق ان خداؤں سے كوئي چيز چھين لے تو يہ اس سے وہ چيز واپس لينے سے بھى عاجز ہيں يہ بات مشركين كے عقيدے اور فكر كے بے بنياد ہونے كى ايك اور واضح اور ناقابل انكار دليل ہے_و ا ن يسلبهم الذباب شيئاً لايستنقذوه منه (''يسلب'' كے مصدر) سلب كا معنى ہے چھيننا اور (''يستنقذون'' كے مصدر) استنقاذ كا معنى ہے چھڑوانا اور واپس لينا ہے كہ اگر وہى مكھى ان سے كوئي چيز چھين لے تو يہ اس سے بھى وہ چيز واپس نہيں لے سكتے ہيں _

۱۱ _ معبودوں (اصنام)كى كمزورى و ناتوانى اور انكى پرستش كرنے والوں كى جہالت اور نادانى كا خداتعالى كى طرف سے ضرب المثل كے ساتھ سب كيلئے برملا ہونا_ضعف الطالب و المطلوب (''ضعف'' كے مصدر) ''ضعافة'' كا معنى ہے ناتواں ہونا يعنى طالب اور مطلوب دونوں ناتوان ہيں ظاہراً مقصود يہ ہے كہ ان قطعى اور ناقابل انكار

۶۱۴

دلائل كے ساتھ نہ صرف بتوں كى كمزورى اور ناتوانى بلكہ انكى پرستش كرنے والوں كى جہالت اور نادانى بھى سب كيلئے آشكار ہوگئي ہے_

استغاثہ:خدا كے ہاں استغاثہ كرنا ۹الوہيت

: اس كى شرائط ۶

بت پرستي:اسكے كھوكھلے پن كو بيان كرنا ۱; يہ جاہليت ميں ۳

توحيد:يہ خالقيت ميں ۸

عالم خلقت:اسكے مدبر كا متعدد ہون

نظريہ كائنات:اسكى خصوصيات ۹; اسكى امداد ۹; اس كا بے نظير ہونا۸

ربوبيت:اس ميں خالقيت ۶; اسكے شرائط ۶

شرك:اس كا كھو كھلا ہونا۲; اسكے كھوكھلے پن كا بيان كرنا ۱; اسكے بطلان كے دلائل ۱۰

قرآن:اسكى مثالوں كو سننا ۲; اسكے بيان كى روش۱; اسكى مثالوں كے فوائد ۱۱; اسكى مثاليں ۱

مشركين:ان كا استغاثہ ۵; انكى جہالت كا افشاء كرنا ۱۱; انكى سوچ ۴; انكو دعوت دينا ۲

باطل معبود:ان سے استغاثہ كرنا۵; انكى ناتوانى كا افشاء كرنا۱۱; انكى ناتوانى ۷، ۱۰; يہ اور خالقيت ۷

آیت ۷۴

( مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ )

افسوس كہ ان لوگوں نے خدا كى واقعى قدر نہيں پہچانى اور بشك اللہ بڑا قوت والا اور سب پر غالب ہے (۷۴)

۱ _ شر ك ايسا عقيدہ ہے كہ جس كا سرچشمہ خداتعالى كى درست شناخت كا نہ ہونا ہے_و ما قدروا الله حق قدره

(''قدروا'' كے مصدر) قدر كا معنى ہے اندازہ لگانا ''قدروا'' كى فاعلى ضمير كا مرجع مشركين ہيں اور ''حق قدرہ'' ''قدروا'' كا مفعول مطلق ہے يعنى وہ جو كائنات كے تمام انسانوں كے امور

۶۱۵

كى تدبير ديگر خداؤں كے اختيار ميں سمجھتے ہيں انہوں نے خدا كو اس طرح نہيں پہچانا جيسا وہ ہے اور ان كا گمان يہ ہے كہ خداتعالى تنہا پورے عالم ہستى كو نہيں چلاسكتا تم نے نہيں پہچانا كہ خداتعالى طاقتور اور ناقابل شكست ہے_

۲ _ خداتعالى قوى (طاقتور) او رعزيز (ناقابل شكست) ہے_إنّ الله لقوى عزيز

۳ _ خداتعالى كى درست معرفت اسكى مطلق اور نامحدود قدرت اور اسكے عزيز ہونے كے اعتقاد كيلئے اسباب فراہم كرتى ہے_و ما قدروا الله حق قدره إنّ الله لقوى عزيز

۴ _ خداتعالى كى مطلق توانائي اور اسكے ناقابل شكست ہونے كا ايمان توحيد اور تنہا اسكى ربوبيت تك دسترسى ہے_

إنّ الله لقوى عزيز

اسماء و صفات:عزيز۲; قوى ۲

ايمان :خدا كے عزيز ہونے پر ايمان كے اثرات ۴; خدا كى قدرت پر ايمان كے اثرات ۴

توحيد:توحيد ربوبى كا پيش خيمہ ۴

خدا:خداشناسى كے اثرات ۳; ناقض خداشناسى كے اثرات ۱

شرك:اس كا سرچشمہ ۱

عقيدہ:خدا كے عزيز ہونے كے عقيدے كا پيش خيمہ ۳; خدا كى قدرت كے عقيدہ كا پيش خيمہ ۳

۶۱۶

آیت ۷۵

( اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ )

اللہ ملائكہ اور انسانوں ميں سے اپنے نمائندے منتخب كرتا ہے اور وہ بڑا سننے والا اور خوب ديكھنے والا ہے (۷۵)

۱ _ انبياء خداتعالى كے برگزيدہ انسان _الله يصطفي و من الناس

(''يصطفي'' كے مصدر) ''اصطفائ'' كا معنى ہے انتخاب كرنا اورچننا اور ''ملائكہ'' (ملك يا ملائك كى جمع) فرشتوں كے معنى ميں ہے_ مقصود يہ ہے كہ خداتعالى انسانوں كى ہدايت كيلئے ان ميں سے اور فرشتوں ميں سے بعض افراد كا انتخاب كرتا ہے تا كہ فرشتے خدا سے وحى لے كر انبياء تك پہنچائيں اور انبياء (ع) سے فرشتوں سے لے كر لوگوں تك پہنچائيں _

۲ _ انبيائ، مقام نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھى خالص اور شائستہ شخصيت كے مالك ہوتے ہيں _الله يصطفي و من الناس (''يصطفي'' كا مصدر) ''اصطفائ'' صفوہ سے مشتق ہے اور ''صفوہ'' كا معنى ہے ناب اور خالص پس ''الله يصطفي ...'' كا معنى يوں بنے گا خدا اپنى رسالت كيلئے فرشتوں اور انسانوں ميں سے ناب و خالص اور لائق افراد كا انتخاب كرتا ہے_

۳ _ الہى مناصب كو حاصل كرنے ميں فرشتوں كى لياقت اور درجات كا مختلف ہونا_الله يصطفى من الملائكة رسلً

۴ _ معاشرتى ذمہ داريوں اور مناصب كے عطا كرنے ميں افراد كى صلاحيت اور لياقت كو معيار قرار دينا ضرورى ہے_

الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

۵ _ فرشتوں كا خدا سے وحى لے كر انبياء تك پہنچانا_الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

۶ _ خداتعالى انبياء كا حامى و ناصر ہے_الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

''سميع'' اور ''بصير'' كا متعلق محذوف ہے اور يہ درحقيقت يوں ہے''إنّ الله سميع ا قوالهم و بصير ا عمالهم'' خداتعالى لوگوں كى باتيں سنتا ہے اور انكے اعمال كو ديكھتا ہے_

۶۱۷

يہ جملہ پيغمبر(ص) كيلئے خداتعالى كى حمايت كا اعلان كررہا ہے اور آنحضرت(ص) كى مخالفت كرنے والوں كو دھمكى دے رہا ہے _

۷ _ خداتعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) كى مكمل حمايت اور نصرت كا اعلان_الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

۸ _ خدا سميع (سننے والا) اور بصير (ديكھنے والا)ہے _إنّ الله سميع بصير

۹ _ حضرت ابوذر_ رحمة الله عليہ _ كہتے ہيں پيغمبر(ص) نے فرمايا انبياء ۱۲۴ ہزار تھے ميں نے عرض كيا ان ميں سے كتنے رسول تھے تو فرمايا ۳۱۳(۱)

اسما و صفات:سميع ۸; بصير۸

انبياء (ع) :نبوت سے پہلے ۲; ان كا انتخاب ۱; انكى تعداد ۹; انكا حامى ۶; ان كے فضائل ۱، ۲; انكى طرف وحى ۵

خدا كے برگزيدہ بندے : ۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا حامى ۷

خداتعالى :اسكى حمايت ۶، ۷

خدا كے رسول :ان كى تعداد ۹

روايت: ۹

صلاحيت:اس كا كردار ۴

انتخاب:اس كا معيار ۴

لياقت:اس كا كردار ۴

ذمہ داري:اسكے عطا كرنے كى شرائط ۴

فرشتے:ان كے مراتب ۳; وحى كے فرشتوں كا نقش و كردار ۵

____________________

۱ ) تفسير برہان ج۳ ، ص ۱۰۴; ح ۳_ و ج۴، ص ۴۵۲ ح ۴_

۶۱۸

آیت ۷۶

( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الأمُورُ )

وہ ان كے سامنے اور پس پشت كى تمام باتوں كو جانتا ہے اور تمام امور اسى كى طرف پلٹ كر جانے والے ہيں (۷۶)

۱ _ خداتعالى كا انسان كے ماضى اور مستقبل پر عملى لحاظ سے محيط ہونا_يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''بين ا يدي'' ماضى سے اور ''حلف'' مستقبل سے كنايہ ہے يعنى خداتعالى لوگوں كے ماضى اور استقبال كو جانتا ہے_

۲ _ سب كا م كا انجام خداتعالى كے اختيار ميں ہے_وإلى الله مرجع الا مور

۳ _ سننا، ديكھنا، جاننااور سب امور كو ہاتھ ميں ركھنا يہ سب خداتعالى كى قدرت اور ناقابل شكست ہونے كى نشانياں ہيں _

إن الله لقوى عزيز سميع بصير يعلم و إلى الله ترجع الا مور

خداتعالى :اس كا علمى احاطہ ۱; اسكے اختيارات ۲، ۳; اس كا بصير ہونا۳; اس كا سننا ۳; اس كا علم غيب۱، ۳; اسكے ناقابل شكست ہونے كى نشانياں ۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۳

عمل:اس كا انجام ۲

۶۱۹

آیت ۷۷

( ا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ )

ايمان والو ركوع كرو، سجدہ كرو اور اپنے رب كى عبادت كرو اور كار خير انجام دو كہ شايد اسى طرح كامياب ہو جاؤ اور نجات حاصل كر لو(۷۷)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے اہل ايمان كو نماز قائم كرنے كى دعوت_يا ا يها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدو

(''اركعوا''كے مصدر) ركوع نيز (''اسجدوا'' كے مصدر) سجود كا معنى ہے خضوع اور اپنے تذلل كا اظہار ليكن ركوع اظہار تذلل ہے جھكنے كى صورت ميں اور سجود اظہار خضوع ہے پيشانى كو زمين پر ركھ كر ''اركعوا'' اور ''اسجدوا'' كا متعلق محذوف ہے اور ''و اعبدوا ربكم'' قرينہ ہے كہ يہ در حقيقت ''اركعوا و اسجدوا لربكم'' ہے _ قابل ذكر ہے كہ ديگر موارد ميں ركوع و سجود كى صورت ميں خدا كيلئے اظہار خضوع كا نام ''صلاة'' ہے اس بناپر '' اركعوا و اسجدوا''،''صلوّا'' سے كنايہ ہے_

۲ _ نماز سب سے زيادہ اہم عبادت اور پرستش خدا كا برترين جلوہ ہے_يا ا يها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدوا و اعبدوا ربكم

اس چيز كے پيش نظر كہ نماز، عبادت كا مصداق ہے اور جملہ ''اعبدوا ربكم'' اس كو بھى شامل ہے لہذا اسے ''اعبدوا ربكم'' سے پہلے الگ ذكر كرنا اس عبادت كى خاص اہميت او رخداتعالى كے نزديك اسكى برترين قدر و قيمت كا غماز ہے_

۳ _ بارگاہ خداوندى ميں اظہار تذلل و خضوع ،نماز كى حقيقت اور روح_يا ايها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدو

۴ _ اللہ تعالى ،انسانوں كا پروردگار ہے_يا ايها الذين ء امنوا و اعبدوا ربكم

۵ _ فرامين الہى كى بلاچوں و چرا اطاعت كا لازمى ہونا_و اعبدوا ربكم

(''اعبدوا'' كے مصدر) ''عبادة و عبودية'' كا معنى ہے اطاعت اور بندگى كرنا لہذا ''اعبدوا ربكم'' يعنى اپنے پروردگار كى بندگى كرو_ مقصود يہ ہے كہ خداتعالى چونكہ پروردگار ہے لذا ضرورى ہے كہ مؤمنين خود كو اس كے عبد اور بندے قرار ديں اور اسكے احكام و فرامين كے بلا چوں و چرا مطيع و فرمانبردار ہوں _

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750