تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219121 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

عوامل اختلاف كے ساتھ قاطعيت كے ساتھ نمٹنے واكے رہبر تھے _إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

۲۰ _ انتشار و افتراق ڈالنے كا الزام حضرت ہارون(ع) كيلئے سخت اور ناقابل برداشت تھا _إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون(ع) كا تفرقہ ڈالنے كے الزام سے خوف كلمہ ''خشيت'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جس ميں خوف كے ہمراہ بڑا شمار كرنا بھى ہے اسكے ان كے لئے سخت ناگوار ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۲۱ _ لمبى ڈاڑھي، اديان آسمانى كے ماننے والوں كى تاريخ ميں مطلوب وضع قطع كا حصہ رہى ہے _لا تأخذ بلحيتي

۲۲ _''على بن سالم عن ا بيه قال: قلت لابى عبدالله (ع) ا خبرنى عن هارون لم قال لموسي(ع) يابن ا م و لم يقل يابن ا بى فقال: إنّ العداوات بين الاخوة ا كثرها تكون اذا كانوا بنى علات و متى كانوا بنى ا م قلت العداوة بينهم قال: قلت له : فلم ا خذ برا سه يجره اليه و بلحيته و لم يكن له فى اتخاذهم العجل و عبادتهم له ذنب؟ فقال: انّما فعل ذلك به لأنه لم يفارقهم لما فعلوا ذلك و لم يلحق بموسى (ع) و كان اذا فارقهم ينزل بهم العذاب ; على ابن سالم نے اپنے باپ سے نقل كيا ہے كہ اس نے كہا ميں نے امام صادق (ع) كى خدمت ميں عرض كيا مجھے حضرت ہارون(ع) كے بارے ميں بتايئےہ انہوں نے كيوں اپنے بھائي موسى (ع) سے كہا''اے ميرى ماں كے بيٹے ...'' اور نہيں كہا اے ميرے باپ كے بيٹے؟ تو امام(ع) نے فرمايا بھائيوں كے درميان اس وقت دشمنى زيادہ ہوتى ہے جب ان كى مائيں مختلف ہوں اور اگر انكى ماں ايك ہو تو ان كے درميان دشمنى كم ہوتى ہے_ ميں نے امام(ع) سے عرض كيا كيوں حضرت موسى (ع) نے اپنے بھائي كى داڑھى پكڑ كر اسے اپنى طرف كھينچا تھا جبكہ اس قوم كى بچھڑا پرستى ميں ہارون(ع) كا كوئي قصور نہيں تھا امام نے فرمايا اس لئے كہ وہ بچھڑا پرستى كے زمانے ميں ان سے جدا ہوكر موسي(ع) كے ساتھ ملحق نہ ہوئے اور اگر انہيں چھوڑ ديتے تو ان پر عذاب نازل ہوجاتا _(۱)

۲۳ _''عن ا بى جعفر (ع) قال: انّ ا مير المؤمنين (ع) خطب الناس فقال: كان هارون ا خا موسى لابيه و ا مّه ; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا اميرالمؤمنين (ع) نے لوگوں كو خطبہ ديا پھر فرمايا ہارون(ع) ،حضرت موسى (ع) كے

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۶۸ ب ۵۸ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۷۲ ج ۲۷_

۱۸۱

باپ اور ماں كى طرف سے بھائي تھے_(۱)

اتحاد:اسكى اہميت ۱۴/انبياء (ع) :ان كا اثر قبول كرنا ۶; ان كے احساسات كو تحريك كرنا ۶; انكے علم كا دائرہ ۱۰

اہم و مہم: ۱۴/ان كے درج۱۵

بنى اسرائيل:انكى بچھڑا پرستى كے اثرات ۱، ۲; انكے اتحاد كى اہميت ۱۲; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۱۲، ۱۷; انكى گمراہى كو بيان كرنا ۸; ان كے بچھڑا پرستوں كى حكمرانى ۱۷; ان كے اختلاف كا خطرہ ۱۱; ان كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ نمٹنے كى روش ۸; انكى گمراہى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۳; ان كے بچھڑا پرستوں كا مقابلہ ۱۱

جمود:اس سے اجتناب ۱۶/شرعى ذمہ داري:اس پرعمل كى روش ۱۶

خود:خود كا دفاع ۹

روايت :۲۲، ۲۳/داڑھي:اسكى تاريخ ۲۱; يہ آسمانى اديان ميں ۲۱

غضب:پسنديدہ غضب ۴/ملزمين:ان كے حقوق ۹

موسى (ع) :انكا اتحاد كو اہميت دينا ۱۳; انكا باپ اور ماں كى طرف سے بھائي ۲۳; انكا مادرى بھائي ۷، ۲۲; انكى سوچ ۳، ۱۹; ان كے جذبات كو تحريك كرنا ۵; انكى نصيحتيں ۱۳; انكا سلوك ۲; ان كے غضب كے عوامل ۱; انكا غضب ۲، ۵; انكى قاطعيت ۱۹; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۳، ۱۷، ۱۸; يہ اور ہارون(ع) ۱۹

ہارون(ع) :ان كا مہلت طلب كرنا ۸; انكا باپ اور ماں كى طرف سے بھائي ۲۳; انكا مادرى بھائي ۷، ۲۲; انكے ساتھ سلوك ۲; انكو اتحاد كى نصيحت ۱۳; ان پر اختلاف ڈالنے كى تہمت ۲۰; ان كے رد عمل كا اظہار نہ كرنے كى وجوہات ۱۲; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱۸; انكا قصہ ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۲، ۱۳، ۱۸، ۲۰; انكى داڑھى پكڑنا ۲; انكا سر پكڑنا ۲; انكا مواخذہ ۲; انكا ذمہ دارى قبول كرنا ۱۸; انكا كردار و تأثير ۳، ۵; يہ موسي(ع) كے عدم موجودگى ميں ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۴

____________________

۱ ) كافى ج ۸ ص ۷۲ ص ۴; نور الثقلين ج ۲ ص ۷۲ ح ۲۷۲_

۱۸۲

آیت ۹۵

( قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ )

پھر موسى نے سامرى سے كہا كہ تيرا كيا حال ہے (۹۵)

۱ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كى توبيخ اور ہارون(ع) كے ساتھ سختى سے نمٹنے كے بعد،بنى اسرائيل كى بچھڑا پرستى ميں سامرى كى بلا واسطہ مداخلت كوديكھ كر اس سے بازپرس اور تفتيش كى _قال فما خطبك يا سامريّ

۲ _ سنہرى بچھڑا بنانے اور لوگوں كو گمراہ كرنے ميں سامرى كے ہدف اور مقصد كے بارے ميں سوال ، حضرت موسي(ع) كے بازپرسى كے موارد ميں سےفماخطبك يا سامري

بعض اہل لغت كے نزديك ''خطب'' كامعنى ہے سبب امر (لسان العرب) زمخشرى نے اسے طلب كے معنى ميں قرار ديا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ ''ما خطبك'' يعنى تيرے كام كا سبب يا تيرا مطلوب اور مقصود كيا تھا؟نيز اس كلمے كے معانى ميں سے ''شأن'' اور ''امر'' بھى شمار كئے گئے ہيں (قاموس)

۳ _ لوگوں كے اعتقادى او رفكرى انحرافات كے بارے ميں تحقيق اور ان كے علل و اسباب كى شناخت ضرورى ہے _

قال فما خطبك يا سامري مسلّم ہے كہ سامرى كا كام، انحراف، مذموم اور حضرت موسي(ع) كے اعتقادات كے مخالف تھا اسكے باوجود حضرت موسى (ع) اسكے كام كے بارے ميں سوال كر كے اسكے علل و اسباب جاننا چاہتے ہيں _

۴_ حضرت موسى (ع) نڈر، اور مضبوط ارادي اور بلند همت والي شخص تهي_يا هرون . قال فما خطبك يا سامري

قال ياقوم قال

حضرت موسي(ع) نے ميقات سے واپسى كے بعد تن تنہا بنى اسرائيل كے سردار و رعايا اور فردو گروہ كى باز پرس كى اور ان كے غالب نظام كے ساتھ ٹكرائے اور ان سب سے قوت كے ساتھ مخاطب ہوئے يہ روش، انكى شجاعت اور بلند ہمت ہونے كى علامت ہے _

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲; انكى سرزنش۱;

۱۸۳

انكى گمراہى كے عوال ۲; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل۱

سامري:اس كا گمراہ كرنا ۲; اسكى مجسمہ سازى كا مقصد ۲; اس كا قصہ ۱، ۲;اس كا مواخذہ۱،۲; اس كا نقش و تاثير ۱

گمراہي:اسكے عوامل تلاش كرنا ۳موسى (ع)ان كا ارادہ ۴; انكے سلوك كى روش ۱; انكى طرف سے سرزنش ۱; انكى شجاعت ۴; انكے فضائل ۴; انكى قدرت ۴; انكا قصہ ۱، ۲; پہ اور ہاورن(ع) ۱

ہارون(ع) :ان كا قصہ ۱

آیت ۹۶

( قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي )

اس نے كہا كہ ميں نے وہ ديكھا ہے جو ان لوگوں نے نہيں ديكھا ہے تو ميں نے نمائں دہ پروردگار كے نشان قدم كى ايك مٹھى خاك اٹھالى اور اس كو گوسالہ كے اندر ڈال ديا اور مجھے ميرے نفس نے اسى طرح سمجھايا تھا (۹۶)

۱ _ سامرى اس بات كا مدعى تھاكہ وہ ممتاز فكر، درك حقائق اور ان علوم كا مالك ہے كہ جن سے دوسرے لوگ بے بہرہ ہيں _قال بصرت بمالم يبصروا به

فعل ''بصر'' اس وقت آنكھ كے ساتھ ديكھنے كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے كہ جب اسكے ہمراہ قلبى ادراك بھى ہو اور ايسے موارد ميں اس كا استعمال نہايت كم ہے كہ جہاں قلبى ادراك نہ ہو (مفردات راغب)اس بارے ميں كہ سامرى كى اس بات سے مراد كيا تھى كئي احتمالات ذكر كئے گئے ہيں ، ان ميں سے ايك يہ ھے كہ مجھے ايسے فنون و حقائق سے آگاہى حاصل ہوئي كہ جن كى بناپر ميں رسالت كے اثرات سے زيادہ ا ستفادہ كرسكا اور دوسرے لوگ اس سے محروم رہے _

۲ _ سامرى كو بنى اسرائيل پر علمى برترى حاصل تھى _قال بصرت بمالم يبصروا به

۳ _ سامرى نے اپنے علم و آگاہى كى مدد سے خدا كے ايك بھيجے رسولوں ميں سے ايك رسول كے بعض آثار اور تعليمات تك دسترسى حاصل كى اور انہيں اپنے اختيار ميں لے ليا _بصرت فقبضت قبضةً من ا ثر الرسول

ممكن ہے''أثر الرسول'' سے مراد وہ علم و اسرار ہوں كہ جو حضرت موسى (ع) اورہارون(ع) يا ان سے پہلے كے انبياء كے پاس تھے اوروہ سامرى كے ہاتھ لگ گئے تھے اور اس نے اپنے نفس كى گمراہى كے ذريعے انہيں لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے

۱۸۴

استعمال كياہو_''الرسول'' كا ''ال'' دلالت كررہا ہے كہ سامرى كے مد نظر شخص كو حضرت موسي(ع) بھى پہچانتے تھے ليكن گويا سامرى نے دوسرے لوگوں كے ماجرا كى حقيقت تك نہ پہنچنے كى خاطر بنى اسرائيل كے عام لوگوں كيلئے رسول كا نام اور اس كا اثر معين نہ كيا_

۴ _ بنى اسرائيل كو گمراہ كرنے اور ان كے درميان بچھڑا پرستى كو ترويج دينے كيلئے دين اور تعليمات آسمانى سے سوء استفادہ كرنا،حضرت موسى (ع) كے سامنے سامرى كے اعترافات ميں سے تھا _فنبذته

ممكن ہے ''نبذتہا'' ميں ''نبذ'' اپنے حقيقى معنى ''يعنى آثار رسالت كو دور پھينكنا'' ميں ہو اور ممكن ہے مجاز اور خداكے رسولوں كى تعليمات سے سوء استفادہ كے معنى ميں ہو دوسرے معنى كى بنياد پر سامرى اعتراف كرتا ہے كہ اس نے اپنى معلومات سے غلط استفادہ كر كے انہيں ضائع اور نابود كرديا _

۵ _ سامرى نے اپنى خصوصى اور الہى معلومات كى بے اعتنائي كر كے اور انہيں دور پھينك كر بچھڑا سازى اور لوگوں كو گمراہ كرنا شروع كرديا _فنبذتها و كذلك سولت لى نفسي

مندرجہ بالا آيت كے معانى ميں ايك احتمالى معنى يہ ہے كہ ''نبذتہا'' سے مراد معلومات (بصرت قبضت) سے بے اعتنائي كرنا ہو يعنى سامرى نے اعتراف كيا تھا كہ ميں نے الہى علوم و دانش كہ جو ميں نے انبياء سے حاصل كئے تھے_ كو دور پھينك ديا اسكے نتيجے ميں اپنے نفس سے دھوكہ كھا كريہ سب انجام دے ديا _

۶ _ سامرى كا مرتد ہونا،بنى اسرائيل كے انحراف كا سبب بنا _فنبذته

۷ _ خطا كرنا اور نفس كى تسويل (نفس كا عمل كو مزين كر كے پيش كرنا) بازپرسى كے وقت سامرى كے اعترافات ميں سے _قالبصرت و كذلك سولت لى نفسي

''تسويل'' كا معنى ہے كسى چيز كو دوسرے كى نظر ميں خوبصورت كر كے اور محبوب صورت ميں پيش كرنا تا كہ وہ مخصوص بات كے كہنے يا خاص كام كے انجام دينے پر مجبور ہو جائے (لسان العرب) بعض نے اسے ''سول''بمعني'' استرخا'' (نرمى و آساني) سے مشتق قرار ديا ہے اور اسے آسان كرنے كے معنى ميں ليا ہے _

۸ _ نفس كى فريب كارى اور اسكى ظاہرسازى نے سامرى كو بنى اسرائيل ميں بچھڑا پرستى والا انحراف پيدا كرنے پر مجبور كيا _و كذلك سولت لى نفسي ايسے موارد ميں ''كذلك'' ايك چيز كو اپنے ساتھ تشبيہ دينے كيلئے ہوتا ہے اس بناپر سامرى كا

۱۸۵

اس تشبيہ سے مراد يہ كہ ہے ميرى نفسانى تسويلات كيلئے خود اسى تسويل_ كہ جو لوگوں كو بچھڑاپرستى كى دعوت دينا ہے_ سے بہتر مثال نہيں ہے _

۹ _ نفس كے وسوسے اور تسويلات،لوگوں كو گمراہ كرنے اور انحراف پيدا كرنے كى خاطر دين و دانش كے استعمال كيلئے زمينہ ہموار كرتے ہيں _بصرت فنبذتها و كذلك سولت لى نفسي

جو كچھ سامرى كے ہاتھ ميں تھا جو خود اسكى اور بہت سارے لوگوں كى گمراہى كا سبب بنا وہ علوم و معارف تھے كہ جنہيں اس نے لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے استعمال كيا _

۱۰ _ نفس كى تسويلات (برے اور ناروا كاموں كو خوبصورت كر كے پيش كرنا) ايسا خطرہ جو افراد اور جوامع كيلئے كمين لگائے ہوئے ہے_و كذلك سوّلت لى نفسي

۱۱ _ ناروا كاموں كو خوبصورت بنانا،انسانى نفس كى خصوصيات ميں سے ہے _و كذلك سولت لى نفسي

۱۲ _ انسان كے لئے اپنے نفس كى تسويلات كے مقابلے ميں ہوشيار رہنا ضرورى ہے_و كذلك سوّلت لى نفسي

اقرار:ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانے كا اقرار ۷

انبيائ(ع) :ان كے علم تك دسترسى ۳

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۴، ۶، ۷، ۸; انكى گمراہى كے عوامل ۶; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۸

معاشرہ:معاشرتى آسيب شناسى ۹، ۱۰; اسكے انحطاط كے عوامل ۱۰

خداتعالى :اسكى تعليمات سے بے اعتنائي ۵

دين:اس سے سوء استفادہ كرنے كا پيش خيمہ ۹; اس سے سوء استفادہ كرنا ۴

سامري:اسكے مرتد ہونے كے اثرات ۶; اسكى خواہش پرستى كے اثرات ۸; اسكے گمراہ كرنے كا آلہ ۴; اسكے دعوے ۱; اس كا گمراہ كرنا ۵، ۷، ۸; اس كا اقرار ۴، ۷; اسكى تبليغ كى روشن۴; اس كا سود استفادہ ۴; اس كا علم ۱، ۲; اسكے فضائل۲; اس كا قصہ ۳، ۴، ۵، ۶، ۷; اسكى مجسمہ سازى ۵; اسكے علم كا سرچشمہ۳/عمل:ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانے كے اثرات ۱۰; ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانا۱۱/لوگ:لوگوں كو گمراہ كرنے كا پيش خيمہ ۹

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۹، ۱۱; اسكے مقابلے ميں ہوشيارى كى اہميت ۱۲

۱۸۶

آیت ۹۷

( قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِداً لَّنْ تُخْلَفَهُ وَانظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفاً لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً )

موسى نے كہا كہ اچھا جا دور ہوجا اب زندگانى دنيا ميں تيرى سزا يہ ہے كہ ہر ايك سے بہى كہتاپھرے گا كہ مجھے چھونا نہيں اور آخرت ميں ايك خاص وعدہ ہے جس كى مخالفت نہيں ہوسكتى اور اب ديكھ اپنے خدا كو جس كے گرد تونے اعتكاف كر ركھا ہے كہ ميں اسے جلاكر خاكستر كردوں گا اور اس كى راكھ دريا ميں اڑادوں گا (۹۷)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے سامرى كى عدالتى كاروائي كے بعد اسكے فورى طور پر معاشرے سے نكل جانے، تنہا ہوجانے اور پورى زندگى ميں لوگوں كے ساتھ اسكى قطع تعلقى كا فيصلہ سنايا _قال فاذهب فإن لك فى الحى وة إن تقول لامساس

''فاذہب'' كى ''فائ'' اس بات پر دلالت كرنے كے علاوہ كہ سامرى كے نكل جانے كا حكم اس كے خلاف فيصلے پر مترتب تھا اسكے فورى ہونے پر بھى دلالت كرتا ہے ''مساس'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور ''لامساس'' كا مطلب ہے ہر قسم كے رابطے اور تعلق كى نفى يعنى تو اپنى زندگى ميں اس انجام كا مستحق ہے كہ تيرى پہلى اور آخرى بات اپنى بے كسى اور اس بات كى خبردينا ہوگى كہ تيرے ساتھ كوئي بھى رابطے ميں نہيں ہے_

۲ _ دين موسى (ع) ميں دہتكارنا اور تن تنہا كردينا،مرتدوں اور گمراہ كرنے والوں كى سزا تھيقال فاذهب فإن لك فى الحى وة ا ن تقول لا مساس ''لامساس'' كے بارے ميں دو رائے كا اظہار كيا گيا ہے ۱_ يہ حضرت موسى (ع) كى طرف سے عدالتى فيصلہ تھا ۲_ يہ سامرى كے بارے ميں حضرت موسى (ع) كى نفرين ہے مذكورہ مطلب پہلى رائے كے مطابق ہے _

۳ _ سامرى كا لوگوں سے دور ہونے اور لوگوں كا اس سے دور ہونے سے دوچار ہونا اسكے بارے ميں حضرت موسي(ع) كى نفرين كا نتيجہ تھا_فإن لك فى الحيوة ا ن تقول لامساس

جيسا كہ بعض مفسرين نے كہا ہے احتمال ہے كہ ''فإن لك فى الحياة ...'' سامرى كے بارے ميں حضرت موسي(ع) كى نفرين ہو _ يعنى سامرى اپنى خاص نفسياتى يا جسمانى بيمارى ميں مبتلا ہوجائے كہ لوگ اس سے دور رہيں اور وہ لوگوں سے دورى اختيار كرے _

۱۸۷

۴ _ لوگوں سے رابطہ ختم ہونا اور معاشرے سے دہتكاراجانا اور تنہا ہوجانا ايسى سزاتھى كہ جو سامرى كيلئے سزاوار تھي_

قال فاذهب فإن لك لامساس

''لك'' كا ''لام'' سامرى كے استحقاق پر دلالت كرتا ہے اور (پچھلى آيت ميں مذكور) ''نبذتہا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ معاشرے سے دھتكارا جانا سامرى كى طرف سے رسالت كے آثار كو درو پھينكنے والے گناہ كے مناسب سزا تھى _

۵ _ معاشرے كو گمراہ كرنے والے عناصر سے پاك كرنا اور ان كے اور لوگوں كے دو طرفہ روابط كو منقطع كرنا ضرورى ہے_قال فاذهب لامساس

۶ _ سامرى كو دنياوى سزا كے علاوہ آخرت ميں حتمى اور قطعى سزا كا سامنا ہوگا _لك فى الحياة و إن لك موعداً لن تخلفه

''موعد'' ''وعدہ، وعدہ كى جگہ اور وعدہ كا وقت كے معانى ميں استعمال ہوتا ہے اور ظاہراً اس سے مراد وہ عذاب ہے جس كا قيامت ميں وعدہ ديا گيا ہے_

۷ _ گمراہ قائدين دنياوى سزا كى وجہ سے اخروى سزا سے معاف نہيں ہوں گے _فى الحى وة لامساس و إن لك موعداً لن تخلفه

۸ _ خداتعالى كى بعض دھمكيوں كا قطعى ہونا _موعدا لن تخلفه ''لن تخلفہ'' مجہول ہے اور اس كا غير مذكورہ فاعل خداتعالى ہے _

۹ _ سامرى خود بھى اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بچھڑے كى پرستش كرتا تھا _و انظر إلى إلهك الذى ظلت عليه عاكف

''الہك'' سامرى كے معبود كى تحقير كے علاوہ اس بات پر بھى دلالت كرتا ہے كہ خود سامرى نے بھى اسے معبود كے طور پر قبول كر ركھا تھا_

۱۰ _ سامرى نے خود كو اپنے دست ساز بچھڑے كى مكمل نگرانى كا پابند بناركھا تھا اور مسلسل اسكے ہمراہ رہتا_ظلت عليه عاكف ''ظلت''،''ظللت'' (تو اس پر كاربند تھا) كا مخفف ہے ''عكوف'' كا معنى ہے كسى چيز كو چمٹا رہنا اور اسى سے دائمى سركشى ہے (مصباح) اور''ظلت عليه عاكفاً'' يعنى اسكى طرف تيرى بہت توجہ تھى اور تو ہميشہ اس كا ديدار كررہا تھا _

۱۱ _ سامرى كے بچھڑے كو مكمل طور پر جلاكر اسكے آثار كو ختم كردينا اور اسكى راكھ كو دريا ميں پھينك دينا سامرى كے

۱۸۸

سنہرے بچھڑے كے بارے ميں حضرت موسى (ع) كى قطعى اور مؤكد تصميم _و انظر إلى إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف (''لنحرقنہ'' كے مصدر) تحريق كا معنى ہے زيادہ جلانا (مصباح) نسف كامعنى ہے جڑ سے اكھاڑنا، گرادينا اور ہوا ميں منتشر كردينا (قاموس)قابل ذكرہے كہ آيت ميں آخرى معنى زيادہ مناسب لگ رہا ہے پس ''ثم لننسفنہ'' يعنى بچھڑے كو جلانے كے بعد ( اسے راكھ كرنا) اسكى راكھ كو دريا ميں پھينك ديں گے _

۱۲ _ سامرى كے بچھڑے كو جلانا اور اسكى راكھ كو دريا ميں پھينكنا ،سامرى اور ديگر لوگوں كے سامنے انجام پايا_و انظر لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم ''انظر'' حضرت موسي(ع) كى طرف سے سامرى كو حكم ہے اور ظاہراً اس سے مراد جلانے اور دريا ميں پھينكنے والے پروگرام كا نظارہ كرنا ہے_ ''لنحرقنہ'' اور ''لننسفنہ'' كى جمع كى ضمير ميں موقع پر لوگوں كے حاضر ہونے كو بيان كر رہى ہيں _

۱۳ _ حضرت موسى (ع) نے سامرى كے بچھڑے كو نابود كرنے كيلئے بنى اسرائيل كى مدد كا انتظام كيا تھا اور آپ انہيں اس كام ميں شريك كرنے پر مصمم تھے_لنحرقنه ثم لننسفنه ''لنحرقنه' ' اور ''لننسفنہ'' كى جمع كى ضمير يں مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہيں _

۱۴ _ سامرى كے بچھڑے كو تراش كر اسے ناقابل استعمال برادے ميں تبديل كرنا اور پھر اسے دريا ميں منتشر كردينا بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستى والے انحراف كا قلع قمع كرنے كيلئے حضرت موسي(ع) كا پروگرام _لنحرقنه

''حرق'' اور ''تحريق'' كے معانى ميں سے ايك نرم كرنا اور پگھلانا ہے _اور ''تحريق'' اسكے تسلسل اور شدت پر دلالت كر رہا ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب اسى معنى كى بناپر ہے_

۱۵ _ شرك كے فكرى اور عينى ذرائع كے ساتھ مقابلہ كرنا اور انہيں نابود كرنا،بنى اسرائيل كى بچھڑاپرستى كے خلاف حضرت موسي(ع) كى روش_إلهك الذي لنحرقنه ثم لننسفنه

سامرى كے بچھڑے كو جلانا چند جہات سے قابل تامل ہے ۱: نابود كرنے اور اسے لوگوں كى نظروں سے مٹا دينے كى جہت سے تا كہ دوبارہ اسكى طرف مائل نہ ہوجائيں ۲: اس سنہرے بچھڑے كو جلاكر راكھ كردينے سے ظاہر بينوں كيلئے اس كے معبود نہ ہونے كو ثابت كرنا _ پہلى جہت عينى اور دوسرى فكرى ہے_

۱۶ _ شرك اور غير خدا كى پرستش كى جڑوں كو كاٹنا اور لوگوں

۱۸۹

كى زندگى سے اسكے آثار كو محو كردينا ضرورى ہے _إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف

۱۷ _ مادى اور فنى اقدار كو شرك كے خلاف مقابلے اور اسكے آثار اور ذرائع كو نابود كرنے ميں سستى كاموجب نہيں بننا چاہے_و انظر إلى إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف باوجود اسكے كہ سامرى كا بچھڑا قيمتى دھاتوں سے بنايا گيا تھا اور اس سے صحيح استفادے كا امكان تھا حضرت موسي(ع) نے جلانے اور نابود كردينے كا حكم ديا كيونكہ صحيح عقائد كى حفاظت اور اعتقادى انحرافات كے ساتھ مقابلے كى قدر و قيمت مادى اقدار كے ساتھ قابل قياس نہيں ہے_

ہنرى آثار:انكا كردار ۱۷

مدد طلب كرنا:بنى اسرائل سے مدد طلب كرنا ۱۳

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۳، ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكى بچھڑا پرستى كے خلاف مبارزت كى روش ۱۴، ۱۵; انكا كردار نقش و ۱۳

خداتعالى :اسكى دھمكيوں كا قطعى ہونا ۸

راہنما:گمراہى كے راہنماؤں كى اخروى سزا ۷; گمراہى كے راہنماؤں كى دنيوى سزا ۷

سامري:اسكے بچھڑے كو دريا برد ہ كرنا ۱۱، ۱۲; اسكى جلا وطنى ۱; اسكے بچھڑے كونابود كرنے كى روش ۱۴; اسكے بچھڑے كو جلانا ۱۱، ۱۲; اسے مطرود كرنا ۳، ۴، ۶; اس كا قصہ ۱، ۳، ۹، ۱۰; اسكے ساتھ قطع تعلقى ۱; اسكى اخروى سزا كا قطعى ہونا ۶; اسكى دنيوى سزا ۶; اسكى سزا ۴; اسكى بچھڑا پرستى ۹; اسكے بچھڑے كى نگرانى ۱۰; اسكے خلاف عدالتى كا روائي۱; اسكے بچھڑے كى نابودى ۱۳; اس پر نفرين ۳; اس كا كردار ونقش ۱۰

شرك دشمني:اسكى اہميت ۱۶، ۱۷

گمراہ لوگ:انكے ساتھ نمٹنے كى روش ۵; انہيں مطرود كرنا۵; انكے ساتھ قطع تعلقي۵

مرتد:اسكے احكام ۲; اسكى جلا وطني۲; يہ يہوديت ميں ۲

موسي(ع) (ع) :انكى نفرين كے اثرات ۳; انكى تصميم ۱۱; انكى شرك دشمنى كى روشء ۱۵; انكا قصہ ۱، ۳، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكا فيصلہ۱; يہ اور سامرى كا بچھڑ ۱۱

يہوديت:اسكى تعليمات ۲

۱۹۰

آیت ۹۸

( إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً )

يقينا تم سب كا خدا صرف اللہ ہے جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اور وہى ہر شے كا وسيع علم ركھنے والا ہے (۹۸)

۱ _ لوگوں كو عبادت ميں توحيد كى طرف متوجہ كرنا، حضرت موسي(ع) كا سامرى كے بچھڑے كو جلا كر راكھ كردينے كا مقصد_لنحرقنه إنما إلهكم الله

ظاہراً يہ آيت حضرت موسي(ع) كى اپنى قوم كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہے _ سامرى كے خلاف عدالتى كاروائي اور اسكے خلاف فيصلے نيز اسكے بچھڑے كو نابود كرنے كے بعد ان بيانات كو پيش كرناكى تصميم اس پورے واقعے كا نتيجہ ہے اور يہ اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے يہ نتيجہ (شرك كا ابطال اور توحيد كا اثبات) اخذ كرنے كيلئے يہ سب كام انجام ديئے تھے _

۲ _ صرف الله تعالى ،انسانوں كا حقيقى معبود ہے _إنما إلهكم الله

۳ _ ''الله '' عالم ہستى كے واحد حقيقى معبود كا مخصوص نام ہے_إنما إلهكم الله الذى لا إله إلا هو

۴ _ انسان كا حقيقى معبود،عالم ہستى كا يكتا معبود ہےإنما إلهكم الله الذى لا إله إلا هو

''الذي ...'' كا وصف تعليل كيلئے ہے يعنى چونكہ ''الله '' وہ ذات ہے كہ كائنات ميں اسكے سوا كوئي معبود بر حق نہيں ہے لذا تمہارا خدا بھى وہى ہے_

۵ _ كائنات كى تمام مخلوقات،خدائے يكتا كے علم ميں ہيںالله الذي وسع كل شيء علم

''علماً''،''وسع'' كے فاعل كيلئے تميز ہے يعنى خداتعالى علم و آگاہى كے لحاظ سے تمام مخلوقات پر محيط ہے _

۶ _ وہ معبود لائق عبادت ہے جو شريك سے بے نياز ہو اس كا علم مطلق ہو اور سب چيزوں پر محيط ہو _

إنما إلهكم الله وسع كل شيء علم

۱۹۱

''وسع'' كا جملہ ''لا إلہ إلا ہو'' كيلئے بدل ہے اور يہ دونوں '' إنما إلہكم ...'' كيلئے تعليل ہيں _

اسما و صفات : الله ۳

انسان:اس كا معبود ۴

توحيد:توحيد عبادى كى اہميت ۱; توحيد عبادي۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۲; اسكے علم كى وسعت ۵

سامري:اسكے بچھڑے كو نابود كرنے كا فلسفہ ۱سچامعبود ۲، ۴

اس كا احاطہ ۶; اس كا بے مثال ہونا ۶; اس كا بے نياز ہونا ۶; اسكى شرائط ۶; اس كا علم ۶; اس كا نام ۳

موجودات:ان كا علم ۵

موسى (ع) :انكے اہداف ۱

آیت ۹۹

( كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاء مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْراً )

اور ہم اسى طرح گذشتہ دور كے واقعات آپ سے بيان كرتے ہيں اور ہم نے اپنى بارگاہ سے آپ كو قرآن بھى عطا كرديا ہے (۹۹)

۱ _ سابقہ اقوام كى سرگذشت نقل كرنے ميں قرآنى روش كى طرف توجہ كرنا ضرورى ہے _كذلك نقص عليك من ا نباء ما قد سبق ''كذلك'' دوسروں كى سرگذشت كے نقل كرنے كو موسي(ع) كى داستان كے نقل كرنے كے ساتھ تشبيہ دينے كيلئے ہے اور آيت كا ذيل ''آتيناك ذكراً'' اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ خداتعالى ان قصوں ميں بھى پندآموز نكات كا انتخاب كر كے انہيں قرآن ميں بيان كرتاہے جيسا كہ اس نے حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى دوستان ميں كيا ہے_

۲ _ گذشتہ انبياء (ع) اور امتوں كى اخبار كو مسلسل نقل كرنا، خداتعالى كا پيغمبر (ص) كے ساتھ ايك وعدہ _

۱۹۲

كذلكنقص عليك من ا نباء ما قد سبق

''نقص عليك ...''گذشتہ لوگوں كى تاريخ كے گوشوں كو نقل كرنے كے سلسلے ميں خداتعالى كا وعدہ ہے_

۳ _ قرآن مجيد كى داستانيں ،تاريخى واقعيات سے ماخوذ ہيںنقص عليك من ا نباء ما قد سبق

''نبا'' خبر كے معنى ميں ہے ''ما قد سبق'' يعنى وہ جو ماضى ميں واقع ہوچكا ہے نہ يہ كہ صرف خيالى اور غير واقعى امور ہوں _

۴ _ قرآن مجيد خداتعالى كى طرف سے پيغمبر اكرم(ص) كيلئے ايك عظيم عطيہ اور نصيحت گيرى اور ہوشيار رہنے كا ايك ذريعہ ہے _و قد ء اتيناك من لدنّا ذكرا

''ذكرا'' كا نكرہ ہونا اسكى عظمت پر دلالت كرتا ہے (بعد والى آيت ميں ) ''من ا عرض عنہ'' قرينہ ہے كہ ذكر سے مراد قرآن ہے_

۵ _ قرآن كريم ميں گذشتہ لوگوں كى داستانوں كو نقل كرنا يادآورى اور بيدار كرنے كيلئے ہے _نقص عليك من ا نباء ما قد سبق ذكرا

۶ _ نصيحت گيرى اور سبق حاصل كرنے كيلئے قرآن كى داستانوں ميں غور و فكر كرنا ضرورى ہے _نقص عليك من ا نبا ئ ذكرا

۷ _ ''ذكر'' قرآن مجيد كے ناموں اور اوصاف ميں سے ہے_و قد ء اتيناك من لدنا ذكرا

۸ _ قرآن مجيد كى داستانيں ،خداتعالى كے علم كے سرچشمہ سے نازل ہوئي ہيں نہ يہ كہ دوسروں كى باتوں سے مأخوذہوں _

من لدنا

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ وعدہ ۲

تدبر:قرآن كے قصوں ميں تدبر ۶

خداتعالى :اسكے عطيات ۴; اس كا علم ۸; اسكے وعدے ۲

ذكر: ۷قرآن مجيد:اس ميں تاريخ ۱، ۲; اسكى تعليمات كى روش ۱; اس كى فضيلت ۴; اسكے قصوں كا فلسفہ۵; اسكے نزول كا فلسفہ ۴; اسكے قصوں كا سرچشمہ ۸; اسكے نام ۷; اسكے قصوں كى حقيقت ۳

نعمت:قرآن كى نعمت۴

ياددہاني:پيغمبر كوياد دہانى ۴; اسكے عوامل ۴، ۵، ۶

۱۹۳

آیت ۱۰۰

( مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْراً )

جو اس سے اعراض كرے گا وہ قيامت كے دن اس ا نكار كا بوجھ اٹھائے گا (۱۰۰)

۱ _ قرآن مجيد اور اسكى نصيحتوں سے روگردانى كرنے والے قيامت كے دن اپنے كندھوں پر گناہ كا بھارى بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے _من أعرض عند فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

۲ _ قرآن مجيد سے روگردانى گناہ ہے اور قيامت والے دن يہ انسان كے دامنگير ہوگى _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

۳ _ قرآن اور اسكى نصيحتوں سے روگردانى كرنے والے دنيا ميں انحراف اور گناہ ميں گرفتار ہوتے ہيں _

ء اتيناك من لدنا ذكراً_ من أعرض عنه فانه يحمل وزرا

جملہ '' فإنہ يحمل ...'' ممكن ہے قرآن مجيد سے اعراض كرنے والوں كے ديگر گناہوں ميں گرفتار ہونے كو بيان كررہا ہو يعنى يہ لوگ اس روگردانى كى وجہ سے دنيا ميں گناہ كے جال ميں پھنس جائيں گے اور قيامت ميں اس كے بوجھ تلے اور اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے_

۴ _ قيامت،انسان كے دنياوى اعمال كے ظہور كا دن ہے _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

''وزر'' كا معنى ہے پھارى بوجھ اور چونكہ گناہ بھى گناہ گار كے كا ندھے پر بھارى بوجھ ہوتا ہے اس لئے اسے بھى ''وزر'' كہتے ہيں (مفردات راغب) ''حمل وزر'' اس چيز كى حكايت كررہا ہے كہ قيامت كے دن گناہ، گناہ گار كے كندھے پر بوجھ كى صورت ميں ظاہر ہوگا_

۵ _ قرآن مجيد اور اسكى نصيحتوں كى طرف توجہ قيامت والے دن بوجھ كے ہلكا ہونے اور نجات كا سبب ہے _

من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

جس طرح قرآن مجيدسے روگردانى قيامت كے دن بوجھ كے بھارى ہونے اور پريشانى كا سبب ہے اسى طرح قرآن مجيد كى طرف پلٹنا اور اسكے ساتھ تمسك قيامت والے دن انسان كے بوجھ كے ہلكا كرنے اور اسكى نجات كا سبب ہے_

۱۹۴

۶ _ قرآن مجيد، قيامت والے دن اعمال كے پركھنے كا محور اور ميزان ہے _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

آيت كا منطوق دلالت كرر ہا ہے كہ قرآن سے روگردانى ''وزر'' آور ہے اور اس كا مفہوم يہ ہے كہ اسكى طرف توجہ نجات كا سبب ہے پس قيامت كے دن انسان كے اعمال اور عقائد كى قدر و قيمت كا معيار اس كى قرآن سے دورى اور نزديكى ہوگى اور اس ذريعہ سے اس كيلئے ثواب و عقاب كى درجہ بندى ہوگى _

ذكر:قرآن كے ذكر كے اثرات ۵

عمل:اس كا ميزان ۶

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كے اثرات ۳; اس سے روگردانى كرنے والوں كے گناہ كا سنگين ہونا۱; اس سے روگردانى كرنے والوں كى گمراہى ۳; اس سے روگردانى كرنے كا گناہ ۲; اس سے روگردانى كرنے والے قيامت ميں ۱; اس كا اخروى كردار ۶

قيامت:اس ميں پاداش ۴; اس ميں عمل كا مجسم ہونا ۴; اس ميں حقائق كا ظہور ۴; اس ميں سزا ۴; اسكى خصوصيات ۴

گمراہي:اسكے عوامل ۳

گناہ:اسكے عوامل ۳

نجات:اخروى نجات كے عوامل ۵

آیت ۱۰۱

( خَالِدِينَ فِيهِ وَسَاء لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلاً )

اور پھر اسى حال ميں رہے گا اور قيامت كے دن يہ بہت بڑا بوجھ ہوگا (۱۰۱)

۱ _ قرآن مجيد سے اعراض كرنے كى سزا،قيامت ميں بھارى بوجھ كى طرح اعراض كرنے والوں كے گندھوں پر ہوگي_

من ا عرض عنه وزراً خلدين فيه حملا

''حمل'' اس اٹھائي ہوئي چيز كو كہتے ہيں كہ جو سر يا پشت پر اٹھائے ہوئے وزن كى طرح آشكار ہو (لسان العرب) اور اس كا نكرہ ہونا اسكے بھارى ہونے كو بيان كررہا _

۲ _ قرآن مجيد سے روگردانى كرنے والوں كى اخروى سز

۱۹۵

اور نتائج ابدى ہوں گے اور كبھى جدا نہيں ہوں گے _وزرا خلدين فيه و ساء لهم

''فيہ'' كى ضمير كا مرجع ''وزرا'' ہے جو گذشتہ آيت ميں تھا ''وزر'' ميں خلود اور ہميشگى كا معنى اسكے اثرات اور نتائج كا دائمى ہونا _

۳ _ قيامت كے دن قرآن مجيد سے روگردانى كا وزر اور عقوبت روگردانى كرنے والوں كے كندھوں پر ناگوار اور مشقت بار وزن ہوگا _وزراً و ساء لهم يوم القيامة حملًا

۴ _ اخروى سزائيں ،دنيوى اعمال كا تجسم ہيں _فإنه يحمل يوم القيامة وزراً خلدين فيه حملًا

گناہ گاروں كا وزر اور گناہ ميں ہميشہ رہنا اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ قيامت كى عقوبتيں اور مشكلات دنياوى اعمال كا تجسم ہيں كيونكہ وہ اپنے گناہ ميں ہميشہ ہيں _

۵ _ قيامت،گناہ گاروں كى سزا كا دن ہے_وساء لهم يوم القيامة حملا

عذاب:اس ميں ہميشہ رہنا ۲

عمل:اس كا مجسم ہونا ۴

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كى سزا كا سخت ہونا۳; اس سے روگردانى كرنے والوں كى سزا كا سنگين ہونا ۱; اس سے روگردانى كرنے والوں كى اخروى سزا ۱، ۲

قيامت:اسكى خصوصيات ۵

سزا:اخروى سزا كى حقيقت ۴

گناہ گار لوگ:انكى اخروى سزا ۵

آیت ۱۰۲

( يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقاً )

جس دن صور پھونكا جائے گا اور ہم تمام مجرمين كو بدلے ہوئے رنگ ميں اكٹھا كريں گے (۱۰۲)

۱ _ صور (بگل يا صورت اور پيكر ) ميں پھونكا جانا،روز قيامت كے واقعات ميں سے ہے _يوم ينفخ فى الصور

ممكن ہے صوران دو معنوں ميں سے ايك ميں ہو_ ۱_سينگ كے

۱۹۶

معنى ميں تو اس صورت ميں مراد بگل ميں پھونكاجانا ہوگا كيونكہ قديم زمانے ميں جانوروں كے سينگ ميں سوراخ كر كے اس سے بناتے تھے ۲_ ممكن ہے صور''صورة'' كى جمع ہو تو اس صورت ميں مراد مردوں كے جسموں اور پيكروں ميں پھونكاجانا ہوگا تا كہ وہ زندہ ہوجائيں بعض آيات كہ جن ميں كلمہ '' صور'' آيا ہے دوسرے معنى كے ساتھ سازگار نہيں ہيں _

۲ _ صور ميں پھونكاجانا اور قيامت ميں محشور ہونا ايسے دو واقعات ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _يوم ينفخ فى الصور و نحشر المجرمين ''حشر'' كا ''نفخ صور'' پر عطف بتاتا ہے قيامت كے برپا ہونے كے سلسلے ميں يہ دو واقعات آپس ميں مربوط ہيں _

۳ _ قيامت،مردوں كے اجساد ميں دوبارہ روحوں كے پھونكے جانے كا دن _*يوم ينفخ فى الصور

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''صور'' ''صورة'' كى جمع اور ''اجساد'' كے معنى ميں ہو_

۴ _ مجرمين جس لحظے قيامت ميں حاضر ہوں گے پريشانى كے ساتھ اپنے انجام پر نظر يں لگائے مبہوت اور حيرت زدہ ہوں گے _و نحشرالمجرمين يومئذ زرقا

''زرقاً''،''المجرمين'' كيلئے حال ہے اور اس كا مفرد ''ارزق'' يا ''رزقائ'' اس شخص كو كہاجاتا ہے كہ جس كى آنكھ كى سفيدى اسكى سياہى كو ڈھانپ لے (لسان العرب) يہ حالت مجرمين كے ٹكٹكى باندھ كر ديكھنے كى علامت ہے اور ان كے شديد اندرونى اضطراب كو بيان كررہى ہے بعض لوگوں كا كہنا ہے كہ آنكھ كے سفيدہونے كا لازمہ اس كا اندھا ہونا ہے (لسان العرب)_

۵ _ قيامت ميں مجرمين كا محشور ہونا شديد رنج،الم اور وحشت كے ساتھ ہوگا _و ساء لهم يوم القيامة حملاً نحشر المجرمين يومئذ زرقا ''حملا'' اور ''زرقا'' قيامت كے دن منكرين قرآن كى پريشان حالى اور سخت حالات پر دلالت كررہے ہيں

۶ _ قيامت كے دن مجرمين نيل پڑے اور اترے ہوئے چہروں كے ساتھ محشور ہوں گے _*و نحشرالمجرمين يومئذ زرقا

ممكن ہے (''زرقاً'' كے مفرد) ''ا رزق'' يا ''زرقائ'' سے مراد لاجوردى رنگ ہوكہ جسے آسمانى رنگ يا نيلگوں بھى كہا جاتا ہے يہ صفت اگرچہ عام طور پر آنكھو كيلئے استعمال ہوتى ہے ليكن آنكھ كے غير ميں بھى استعمال ہوتى ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''زرقاً'' مجرمين كى جسمانى حالت كو بيان كررہا ہو_

۷ _ قيامت انسانوں كے جمع اور اكٹھا ہونے كا دن _نحشر المجرمين

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا (لسان العرب) اور اس ميں چلانے كا معنى ہى ملحوظ ہوتا ہے _

۱۹۷

۸ _ قيامت برپا كرنا اور اس ميں مجرمين كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے ساتھ مربوط ہے _نحشر

۹ _ قرآن مجيد سے روگردانى كرنے والے ايسے مجرم ہيں جن كا برا انجام ہے _ء اتينك من أعرض و نحشر المجرمين يومئذ زرقا

انسان:اس ميں روح پھونكنا ۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كا انجام ۹

قيامت :اس ميں جمع ہونا ۷; اس ميں محشورہونا ۲; اس ميں آنكھ خيرہ ہونا ۴; اسكے برپا ہونے كا سرچشمہ ۴; اس ميں صور پھونكنا ۱، ۲; اسكى خصوصيات ۱، ۳، ۷

گناہ گار لوگ:انكى اخروى حيرت ۴; ان كا اخروى خوف ۵; انكے چہرے كا رنگ ۶; انكى آنكھ كا خيرہ ہونا ۴; انكا برا انجام ۹; انكے محشور ہونے كا سرچشمہ۸; انكى اخروى پريشاني۴; ان كے محشور ہونے كى خصوصيات ۵

مردے:انہيں آخرت ميں زندہ كرنا ۳

آیت ۱۰۳

( يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْراً )

يہ سب آپس ميں يہ بات كر رہے ہوں گے كہہم دنيا ميں صرف دس ہى دن تو رہے ہيں (۱۰۳)

۱ _ گناہ گار اور قرآن سے روگردانى كرنے والے روز قيامت ايك دوسرے كے ساتھ آہستہ آہستہ باتيں كريں گے _

يتخفتون بينهم

''خفت'' كا مطلب ہے بات كو مخفى ركھنا (لسان العرب) ''يتخافتون'' باب تفاعل سے ہے اور اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ايك دوسرے كے ساتھ گفتگو كرتے وقت انكى آواز سنائي نہيں ديں گى قابل ذكر ہے كہ (بعد والى آيات ميں مذكور) ''خشعت الا صوات للرحمان'' قرينہ ہے كہ خداتعالى كى عظمت كے احساس اور اسكى رحمت كى توقع نے مجرمين كو آوازيں ا نيچى ركھنے پر مجبور كيا _

۱۹۸

۲ _ برزخ ميں ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ قيامت كے دن قرآن سے روگردانى كرنے والوں كى آپس ميں خفيہ گفتگو كا حصہ _

يتخفتون بينهم إن لبثتم

اپنے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں مجرمين كا سوال _ اس قرينے كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ دنيا ميں انكى عمر يں بہت مختلف تھيں _ موت كے بعد گزرنے والى مدت كے بارے ميں سوال ہے_

۳ _ مجرمين اور قرآن سے روگردانى كرنے والا ايك گروہ،قيامت كے دن برزخ ميں اپنے ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ دس دن لگائے گا _إن لبثتم إلا عشرا

''لبث'' كا معنى ہے ٹھہرنا اور بعد والى آيت ميں مذكورہ ''يوماً''قرينہ ہے كہ ''عشراً'' سے مراددس دن ہيں يہ كلمہ اگر چہ صرف مو نث (جيسے ليالي) كيلئے استعمال ہوتا ہے ليكن اگر تميز محذوف ہو تو مذكر (جيسے ايام) كيلئے بھى استعمال ہوتاہے _

۴ _ موت سے روز قيامت تك كا فاصلہ،حاضرين قيامت كى نظر ميں بہت ہى كم اور معمولى فاصلہ ہے_

يتخفون بينهم إن لبثتم إلا عشرا

۵ _ قيامت ميں بھى بعض لوگوں كيلئے بعض حقائق مخفى رہيں گے _يتخفتون بينهم إن لبثتم إلا عشرا

جملہ ''يتخفتون'' بتاتا ہے كہ''إن لبثتم إلا عشراً'' كا محتوا مجرمين كى گفتگو كا محور تھا نہ يہ كہ اس پر ان كا اتفاق رائے ہو اور مختلف نظريات كا پيش كرنا ان ميں سے بعض كيلئے حقيقت كے مشخص نہ ہونے سے حكايت كرتا ہے_

عدد:دس كا عدد ۳عالم برزخ

اسكى مدت كا كم ہونا ۴; اسكى مدت ۲، ۳

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كى آخرى سرگوشياں ۱، ۲، ۳

قيامت:اس ميں حقائق كا مخفى رہنا ۵

گناہ گار لوگ:انكى اخروى سرگوشياں ۱

موت:اس كا قيامت تك كا فاصلہ ۴

۱۹۹

آیت ۱۰۴

( نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْماً )

ہم ان كى باتوں كو خوب جانتے ہيں جب ان كا سب ہے ہوشيار يہ كہہ رہا تھا كہ تم لوگ صرف ايك دن رہے ہو (۱۰۴)

۱ _ الله تعالى ،قيامت كے دن مجرمين كى برزخ ميں ان كے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں ايك دوسرے كے ساتھ گفتگو كے بارے ميں سب سے زيادہ آگاہ ہے_إن لبثتم إلا عشراً نحن أعلم بما يقولون

''ما يقولون'' يعنى جو وہ كہتے ہيں او رممكن ہے اس سے مراد مجرمين كى طرف سے آپس ميں بولے گئے جملے ہوں اور ممكن ہے اس سے مراد وہ موضوع ہو كہ جسكے بارے ميں مجرمين اظہار نظر كرتے ہيں مذكورہ مطلب ميں پہلا احتمال مد نظر ركھا گيا ہے _

۲ _ خداتعالى سے كوئي چيز مخفى نہيں ہے _يتخفتون نحن أعلم بما يقولون

۳ _ خداتعالى برزخ ميں انسانوں كے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں سب سے زيادہ آگاہ ہے _نحن أعلم بما يقولوں

''ما يقولون'' كے دو احتمالى معنوں ميں سے ايك كى بنياد پر اس سے مراد وہ موضوع ہے كہ جو روز قيامت مجرمين كى گفتگو كا محور ہوگا _

۴ _ روز قيامت سب سے زيادہ صحيح فكر والے مجرمين سب كيلئے برزخ ميں ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ ايك دن لگائيں گے _

إذ يقول ا مثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما ''ا مثلهم طريقةً'' اس شخص كو كہا جاتا ہے جو افراد ميں سے سب سے زيادہ منصف اور حق پرستوں كے سب سے زيادہ مشابہ ہو اور جو كچھ كہتا ہو زيادہ اطمينان سے كہتا ہو (قاموس) _

۵ _ برزخ كى تھوڑى سى مدت كاايك دن يا اس سے زيادہ اندازہ لگانا،ايك نادرست اور حقيقت سے دور انداز ہ ہے

نحن أعلم إذ يقول إلا يوما ''إذ'' ،''أعلم'' كيلئے ظرف ہے اور اس سے مراد يہ ہے كہ صحيح ترين فكروالے مجرمين كى طرف سے اظہار رائے كى صورت ميں بھى خداتعالى سب سے زيادہ آگاہ ہے_ اور يہ چيز كنايہ ہے كہ ان ميں

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

اسكى مذمت ۶

حيات:اس كا سرچشمہ ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۱، ۳; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴

شرك:اسكى مذمت ۶

مردے:انہيں آخرت ميں زندہ كرنا ۳، ۴

موت:اس كا قطعى ہونا ۲

آیت ۶۷

( لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكاً هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُّسْتَقِيمٍ )

ہر امت كے لئے ايك طريقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل كر رہى ہے لہذا اس امر ميں ان لوگوں كو آپ سے جھگرا نہيں كرنا چاہئے اور آپ انہيں اپنے پروردگار كى طرف دعوت ديں كہ آپ بالكل سيدھى ہدايت كے راستہ پر ہيں (۶۷)

۱ _ قربانى كرنا، تمام الہى شريعتوں اور اديان كى عبادى رسومات ميں سے ہے_لكل ا مة جعلنا منسكاً هم ناسكوه

''منسك'' مصدر ميمى اور ''نسك'' كا مترادف ہے اور ''نسك'' كا معنى ہے حيوان كو تقرب الہى كے قصد كے ساتھ ذبح كرنا_

۲ _ گذشتہ ہر امت كا فريضہ تھا كہ وہ قربانى كى رسومات كو اس طرح انجام دے جيسے خدا تعالى نے مقرر كيا ہے_

لكل ا مة جلعنا منسكاً هم ناسكوه

جملہ ''ہم ناسكوہ'' محل نصب ميں اور ''منسكاً'' كيلئے صفت ہے اور مذكورہ جملہ خبر كے قالب ميں انشاء ہے يعنى ہر امت كا فريضہ تھا كہ اس ''منسك'' كو اس طرح انجام دے جيسے ہم نے مقرر كيا ہے قابل ذكر ہے كہ''ہم ناسكوہ'' خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) كو اور ان كى اتباع ميں مسلمانوں كو حكم ہے كہ ان كا بھى فريضہ ہے كہ اپنے منسك كو اس طرح انجام ديں جيسے خدا نے مقرر كيا ہے_

۳ _ مسلمان، قربانى كى رسومات كو اس طرح انجام دينے پر مأمور ہيں جيسے خداتعالى نے مقر ركيا ہے_

لكل ا مة جعلنا منسكاً هم ناسكوه

۶۰۱

۴ _ مسلمانوں كى قربانى كى رسومات، صدر اسلام كے مشركين كے دشمن پر مبنى اعتراض كا نشانہ _

لكل ا مة جعلنا منسكاً هم ناسكوه فلا ينازعنك فى الا مر

(''ينازعون'' كے مصدر) ''نزاع ''كا معنى ہے مخاصمت اور دشمنى كرنا ''لاينازعنك'' كى فاعل ضمير كا مرجع مشركين ہيں اور ''فى الا مر'' ميں ''ال'' مضاف اليہ كے عوض ميں ہے اور يہ ''فى ا مر المنسك'' كى تقدير ميں ہے يعنى مشركين قربانى كے مسئلہ ميں تيرے ساتھ دشمنى پر نہ اترآئيں _

۵ _ خداتعالى نے مشركين كو قربانى كے معاملے ميں پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ جھگڑنے اور مخاصمت سے شدت كے ساتھ ڈرايا_فلاينازعنك فى الا مر

۶ _ خداتعالى انسانوں كا پروردگار ہے_و ادع إلى ربك

۷ _ خداتعالى نے پيغمبراكرم(ص) كو حكم ديا كہ وہ مشركين سے چاہيں كہ وہ ان كے ساتھ دشمنى او رحدود و احكام الہى كى مخالفت كے بجائے خدائے يكتا كى طرف لوٹ آئيں اور اسكى پرستش كيلئے آمادہ ہوجائيں _

فلاينازعنك فى الا مر و ادع إلى سبيل ربك

۸ _ شرك و بت پرستى گمراہى اور صراط مستقيم سے انحراف ہے_فلاينازعنك فى الا مر و ادع إلى سبيل ربك لعلى هدء مستقيم

۹ _ توحيد اور يكتاپرستى راہ ہدايت اور صراط مستقيم ہے_و ادع الى ربك إنّك لعلى هديً مستقيم

۱۰ _ پيغمبراكرم(ص) ،صراط مستقيم كو پالينے والے شخص تھے_إنّك لعلى هديً مستقيم

۱۱ _ گمراہوں كو راہ ہدايت اور صراط مستقيم كى طرف دعوت دينا ،صراط مستقيم كو پالينے والے سب افراد كى الہى ذمہ داري_وادع إلى ربك إنّك لعلى هديً مستقيم

جملہ''إنك لعلى هديً مستقيم'' ''وادع إلى ربك'' كى علت ہے يعنى چونكہ تو راہ ہدايت اور صراط مستقيم پر ہے لذا ان گمراہ مشركين كو اپنے پروردگار كى طرف دعوت دے ممكن ہے

۶۰۲

وہ ضلالت و گمراہى سے نجات پاكر تيرے راستے كى طرف پلٹ آئيں _

آسمانى اديان:انكى ہم آہنگى ۱

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى دعوت ۷; آپ(ص) كى رسالت ۷; آپ(ص) كے فضائل ۱۰; آپ كے ساتھ جھگڑنے والے ۵; آپ(ص) كى ہدايت ۱۰

انسان:اس كا رب ۶

بت پرستي:اسكى گمراہى ۸

توحيد:اسكے اثرات ۹; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۷

خداتعالى :اسكے اوامر ۷; اسكى ربوبيت ۶; اسكے نواخى ۵

گذشتہ امتيں :انكى شرعى ذمہ دارى ۲

شرك:اسكى گمراہى ۸

صراط مستقيم:اس سے گمراہى ۸; اسكے موارد ۹; اسكى طرف ہدايت ۱۰، ۱۱

قرباني:اس كا عبادت ہونا ۱; يہ اديان آسمانى ميں ۱; يہ گذشتہ امتوں ميں ۲; اس كا طريقہ ۳; اسكے بارے ميں جھگڑا ۵

گمراہ لوگ:انہيں دعوت دينا ۱۱

مسلمان:انكى شرعى ذمہ دارى ۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا اعتراض ۴; انكو دعوت دينا ۷; صدر اسلام كے مشركين اور مسلمانوں كى قربانى ۴; صدر اسلام كے مشركين كا جھگڑا ۵

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۶ہدايت يافتہ لوگ: ۱۰

انكى ذمہ دارى ۱۱

ہدايت:اسكى طرف دعوت ۱۱; اسكے عوامل ۹

۶۰۳

آیت ۶۸

( وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ )

اور اگر يہ آپ سے جھگڑا كريں تو كہہ ديجئے كہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے (۶۸)

۱ _ مشركين كى پيغمبراكرم(ص) كے ساتھ مخاصمت اور دشمنى _وادع إلى ربّك و إن جادلوك

(''جادلوا'' كے مصدر ) ''جدال'' كا معنى ہے مخاصمت اور جھگڑنا ''جادلوا'' كا متعلق محذوف ہے اور يہ در اصل يوں ہے''و ان جادلوك فى ربك تدعوهم اليه ...'' اگر مشركين آپ(ع) كے ساتھ اس پروردگار يكتا_ كہ جس پر ايمان لانے اور اسكى پرستش كرنے كى آپ(ع) انہيں دعوت ديتا ہے_ جھگڑا اور مخاصمت كريں _

۲ _ مشركين كا پيغمبر(ص) كى دعوت (يكتاپرستى كى دعوت) كو ردكرنا اور ان كا شرك و بت پرستى پر مصر رہنا_

و ادع إلى ربّك و إن جادلوك

۳ _ مشركين كا برا انجام ہے_و إن جادلوك فقل الله ا علم بما تعملون

۴ _ خداتعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) كو مشركين كے ساتھ نمٹنے كى روش كى تعليم دينا_و إن جاد لوك فقل الله ا علم بما تعملون

۵ _ كفر اور توحيد و يكتاپرستى كے خلاف مبارزت كے برے انجام كے بارے ميں خبر دينا پيغمبر(ص) كى الہى رسالت_

و إن جادلوك فقل الله ا علم بما تعملون

۶ _ جھگڑالو كافروں كے ساتھ نرمى اور مدارات كا اظہار كرنا خداتعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) كو نصيحت_و إن جادلوك فقل الله ا علم بما تعملون جملہ ''الله ا علم بما تعملون'' دھمكى ہے ليكن نرمى ومدارات كے اظہار كے ساتھ _

۷ _ خداتعالى انسان كے تمام اعمال سے آگاہ ہے_الله اعلم بما تعملون

انسان:اس كے عمل كا علم ۷

۶۰۴

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا ڈرانا ۵; آپ(ص) كو نصيحت۶; آپ(ص) كے دشمن ۱; آپ(ص) كى دعوت كو رد كرنا ۲; آپ(ص) كى رسالت ۵; آپ(ص) كا معلم ۴

توحيد:توحيد عبادى كى طرف دعوت ۲; اسكے ساتھ مبارزت كا انجام ۵

خداتعالى :اسكى تعليمات ۴; اسكى نصيحتيں ۶; اس كا علم ۷

كفار:ان كے ساتھ مدارات ۶

ڈرانا:كفر كے انجام سے ڈرانا ۵

مشركين:انكى دشمنى ۱; ان كے ساتھ نمٹنے كا طريقہ ۴; انكا برا انجام ۳; انكى ھٹ دھرمى ۲; ان كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۲

آیت ۶۹

( اللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ )

اللہ ہى تمہارے درميان روز قيامت ان باتوں كا فيصلہ كرے گا جن باتوں ميں تم اختلاف كر رہے ہو (۶۹)

۱ _ قيامت، مؤمنين اورمشركين كے درميان فيصلہ كا دن_الله يحكم بينكم يوم القيامة

مذكورہ آيت ميں خداتعالى سب مؤمنين اور مشركين كو مخاطب بنا رہا ہے_ (''يحكم'' كے مصدر) ''حكم'' كا معنى ہے قضاوت اور فيصلہ كرنا يعنى خداتعالى روز قيامت مؤمنين اور مشركين كے درميان فيصلہ كرے گا ''

۲ _ خداتعالى رو زقيامت كا قاضى اور جج _الله يحكم بينكم يوم القيامة

۳ _ روز قيامت خداتعالى كا فيصلہ انسانوں كے كردار سے مكمل علم و آگاہى كى بنياد پر ہے_الله علم بما تعملون الله يحكم بينكم يوم القيامة

۴ _ عالم آخرت عالم سزا و جزا_الله يحكم بينكم يوم القيامة

جملہ''الله يحكم بينكم يوم القيامة'' مؤمنين كو اجر كى خوشخبرى اور مشركين كو سزا اور كيفر كى دھمكى ہے_

۶۰۵

۵ _ توحيد اور شرك (خداپرستى اور بت پرستي) روز قيامت خداتعالى كے فيصلوں اور جزا و سزا كے معين كرنے كى بنياد_

الله يحكم فيما كنتم فيه تختلفون

گذشتہ عبارت كے پيش نظر''فيما كنتم'' ميں ''ما'' ''الذي' كے معنى ميں ہے كہ جو مسئلہ توحيد و شرك_ كہ جو تاريخ كے موحدين اور مشركين كے درميان اختلاف كا محور رہا ہے_ كى طرف اشارہ ہے_

۶ _ كفر و ايمان كے محاذوں (خداپرستوں اور بت پرستوں ) كاٹكڑاؤ اور جھگڑے كى تاريخ بشر ميں گہرى جڑيں ہيں _

فيما كنتم فيه تختلفون

ماضى استمرارى (كنتم مختلفون ) كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۷ _خداتعالى كى طرف سے مشركين كى دشمنيوں كے مقابلے ميں پيغمبر(ص) اكرم كو تسلي_

و ان جدلوك فقل الله ا علم بما تعملون و الله يحكم بينكم يوم القيامة

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے دشمن ۷; آپ(ص) كو تسلى ۷

توحيد:اسكے اثرات۵; اسكى اخروى پاداش۵

خداتعالى :اسكے علم كے اثرات۳; اسكى اخروى قضاوت ۲; اسكى قضاوت كا معيار ۳، ۵

شرك:اسكے اثرات ۵; اسكى اخروى سزا ۵

عمل:اسكے اخروى اثرات ۳

قيامت:اس ميں پاداش۴; اس ميں قضاوت ۲، ۳; اس ميں سزا ۴; اسكى خصوصيات ۱، ۴

كفار:كفار و مؤمنين كى دشمنى ۶

مؤمنين:ان كے بارے ميں اخروى قضاوت ۱

مشركين:انكى دشمنى ۷; ان كے بارے ميں اخروى قضاوت ۱

۶۰۶

آیت ۷۰

( أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاء وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ )

كيا تمہيں نہيں معلوم ہے كہ اللہ زمين اور آسمان كى تمام باتوں كو خوب جانتا ہے اور يہ سب باتيں كتاب ميں محفوظ ہيں اور يہ سب باتيں خدا كے ليئے بہت آسان ہيں (۷۰)

۱ _ خداتعالى زمين و آسمان كى ہر چيز پر علمى احاطہ ركھتا ہے_ا لم تعلم ان الله يعلم ما فى السماء و الأرض

۲ _ اس بات كى طرف توجہ كہ خداتعالى آسمان و زمين كے تمام موجوات اور ان كے تحولات سے آگاہ ہے انسان كے تمام اعمال كے بارے ميں خداتعالى كے علمى احاطے كو باور كرنے كا ذريعہ ہے_فقل الله ا علم بما تعملون ...ا لم تعلم ا ن الله يعلم ما فى السماء و الأرض

''ا لم تعلم'' ميں استفہام تقريرى ہے يعنى كيا تجھے نہيں پتا كہ خدا آسمان و زمين ميں جو كچھ بھى ہے اس سے آگاہ ہے مقصود يہ ہے كہ وہ خدا كہ جسكے علمى احاطہ ميں پورا عالم ہستى ہے انسانوں كے ا عمال_ كہ جو عالم ہستى كا حصہ ہيں _ سے آگاہ ہے اور ان ان كا كوئي قول و فعل اس سے مخفى نہيں ہے_

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ كہ خداتعالى پورے عالم وجودپر علمى احاطہ ركھتا ہے_ا لم تعلم ا ن الله يعلم ما فى السماء و الأرض ''ا لم تعلم'' ميں استفہام تقريرى مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۴ _ انسان كے اعمال ايك كتاب ميں درج اور محفوظ كرديئے جاتے ہيں _الله ا علم بما تعملون إنّ ذلك فى كتاب

''ذلك'' آيت نمبر ۶۸ كے جملے ''ماتعلمون'' كے محتوى كى طرف اشارہ ہے يعنى وہ (تمہارے اعمال) سب ايك كتاب ميں درج اور محفوظ ہوجاتے ہيں _

۵ _ انسانوں كے اعمال كو درج اور محفوظ كرنا، خداتعالى

۶۰۷

كيلئے ايك آسان كام ہے_إن ذلك على الله يسير

جملہ ''إن ذلك على الله يسير'' ميں ''ذلك'' انسانوں كے اعمال كو درج اور محفوظ كرنے (ان ذلك فى الكتاب) كى طر ف اشارہ ہے_

۶ _ روز قيامت ،انسانوں كے ہر قول و فعل كو پر كھا جائيگا_الله ا علم بما تعملون الله يحكم بينكم يوم القيامة إنّ ذلك فى كتاب إنّ ذلك على الله يسير

آسمان:اس كے موجودات ۱

ايمان:خدا كے محيط ہونے پر ايمان ۲

خداتعالى :اس كا علمى احاطہ ۱، ۳; اسكے افعال ۵; اسكے علم و سعت ۱، ۲، ۳

ذكر:علم خدا كے ذكر كے اثرات ۲

عقيدہ:علم خدا كا عقيدہ ۳

عمل:اس كا درج كرنا ۴; اس كا اخروى حساب و كتاب ۶; اسكے اندراج كا آسان ہونا ۵

قيامت:اسكى خصوصيات ۶

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ ۳

موجودات:ان كا علم۱

نامہ اعمال: ۴

آیت ۷۱

( وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً وَمَا لَيْسَ لَهُم بِهِ عِلْمٌ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ )

اور يہ لوگ خدا كو چھوڑ كر ان كى پرستش كرتے ہيں جن كے بارے ميں نہ خدا نے كوئي دليل نازل كى ہے اور نہ خود انہيں كوئي علم ہے اور ظالمين كے لئے واقعا كوئي مدد گار نہيں ہے (۷۱)

۱ _ بت پرستي، اسلام سے پہلے كے عربوں كے درميان رائج تھي_

۶۰۸

و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۲ _ مشركين ،كائنات كو خداؤں (ارباب) كى تدبير اور ربوبيت كے تحت اور خداتعالى كو خداؤں كا خدا (رب الارباب) سمجھتے تھے_و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن ''لم ينزل'' ميں فاعلى ضمير كا مرجع ''الله '' اور ''بہ'' كى ضمير كا مرجع ''ما'' ہے اور ''سلطان'' كا معنى ''تسلط'' مذكورہ جملہ مشركين كے غلط مقصور كائنات كو بيان كررہا ہے وہ كائنات كو خداؤں (ارباب) كى ربوبيت اور تدبير كے تحت اور خدا كو رب الارباب اور خداؤں كا خدا سمجھتے تھے اس بناء پر خدا كى پرستش كے بجائے ان خداؤں كى عبادت كرتے تھے مذكورہ آيت ميں اس كو غلط شمار كرتے ہوئے اعلان كيا گيا ہے كہ خداتعالى نے كسى موجود كو ايسا تسلط اور قدرت عطا نہيں كى كہ وہ كائنات كے امور كى تدبير كرسكے بلكہ پورا عالم ہستى اسكے قبضہ قدرت ميں اور بلاواسطہ طور پر اسكى ربوبيت اور تدبير كے تحت ہے_

۳ _ كائنات كے امور كى تدبير كيلئے خداؤں كا وجود ايك باطل سوچ ہے_و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۴ _ خداتعالى نے كسى موجود كو كائنات كے امور كى تدبير كيلئے كسى قسم كى قدرت عطا نہيں كى _

و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۵ _ خداتعالى بے نظير پروردگار اور عالم ہستى كا واحد تدبير كرنے والا ہے_و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطن

۶ _ بت پرستي، انتہائي جہالت اور نادانى كى علامت ہے_و ما ليس لهم به علم

۷ _ خداتعالى كى طرف سے عصر بعثت كے مشركين كى شديد تحقير _و يعبدون من دون الله ما لم ينزل به سلطناً و ما ليس لهم به علم

۸ _ شرك اور بت پرستى ظلم ہيں _و يعبدون من دون الله و ما للظالمين من نصير

۹ _ مشركين خداتعالى كى نصرت اور دستگيرى سے محروم ہيں _و ما للظالمين من نصير

بت پرستي:اسكے اثرات ۶; يہ جاہليت ميں ۱; اسكى تاريخ ۱; اس كا ظلم ہونا ۸

توحيد:توحيد ربوبى ۴، ۵

نظر يہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۵

جہالت:اسكى نشانياں ۶/خداتعالى :اسكى نصرت سے محروم لوگ ۹

شرك:

۶۰۹

اس كا ظلم ہونا ۸

عالم خلقت:اس كا مدبر ۵; اسكى تدبير كا سرچشمہ ۴

عقيدہ:باطل عقيدہ ۳; كئي معبودوں كا عقيدہ ۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى تحقير ۷; انكا عقيدہ ۲; انكى محروميت ۹; ان كے معبود ۲

موجودات:انكا عاجز ہونا۴

آیت ۷۲

( وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَلِكُمُ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَبِئْسَ الْمَصِيرُ )

اور جب ان كے سامنے ہمارى واضح آيتيں پڑھ كر سنائي جاتى ہيں تو تم ديكھتے ہو كہ كفر اختيار كرنے والوں كے چہرہ پر ناگوارى كے آثار ظاہر ہو جاتے ہيں اور قريب ہوتا ہے كہ وہ ان تلاوت كرنے والوں پر حملہ كر بيٹھيں تو كہہ ديجئے كہ ميں اس سے بدتبر بات كے بارے ميں تمہيں بتلا رہا ہوں اور وہ جہنم ہے جس كا خدا نے كافروں سے وعدہ كيا ہے اور وہ بہت برا انجام ہے (۷۲)

۱ _ قرآن كى ساخت ٹكڑے ٹكڑے كى صورت ميں ہے اور ہر ٹكڑے كو آيت كہاجاتا ہے_و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينات

۲ _ آيات قرآن واضح، قابل فہم اور ہر قسم كے ابہام سے دور ہيں _و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينات

۶۱۰

''بينات'' ''بينة'' كى جمع اور ''ء اياتنا'' كيلئے حال ہے اور ''بينہ'' (''بين'' كى مونث) كا معنى ہے واضح الدلالة

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كا شرك كى نسبت جاہلانہ اور اندھا تعصب اور قرآن كے الہى معارف كى نسبت غضب اور كينہو إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينات تعرف فى وجوه الذين كفروا المنكر

''منكر'' (''انكار'' كا مترداف) مصدر ميمى اور ناخوشى و ناپسنديدگى كے معنى ميں ہے يعنى جب بھى ان پر ہمارى واضح آيات كى تلاوت كى جائے تو كافروں كے چہروں پر ناخوشى و ناپسنديدگى كے اثرات كو تشخيص دے سكتا ہے _

۴ _ مؤمنين كى طرف سے صدر اسلام كے لوگوں كو توحيد كى دعوت اور ان پر آيات قرآنى كى تلاوت كرنا_

و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بالذين يتلون عليهم ء اى تن

۵ _ آيات قرآنى اور ان كے توحيدى معارف كو سننے كے وقت صدر اسلام كے كفار كا غضبناك ہونا اور ان كے چہروں پر كينے او رنفرت كے آثار كا نمايان ہونا_و إذا تتلى عليهم ء آيا تنا بينت تعرف فى وجوه الذين كفروا المنكر

۶ _ آيات قرآنى كو سن كر مشركين كا غيض و غضب اس قدر زيادہ ہوتا كہ قريب تھا وہ اپنے سامنے آيت قرآنى كى تلاوت كرنے والوں پر حملہ آور ہوجائيں _يكادون يسطون بالذين يتلون عليهم ء اى تن

(''يسطون'' كے مصدر) ''سطو'' كا معنى ہے حملہ كرنا يعنى بعيد نہيں ہے كہ مشركين اپنے سامنے ہمارى آيات كى تلاوت كرنے والوں كے گلے پڑجائيں _

۷ _ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے كينہ توز كافروں كا استہزا_قل ا فا نبئكم بشر من ذلكم النار

''افانبئكم'' ميں استفہام استہزاء كيلئے ہے اور (''ا نبا'' كے مصدر) ''تنبئہ'' كا معنى ہے خبر دينا اور ''ذلكم'' قرآن كى توحيدى آيات كو سننے كے وقت مشركين كو چہروں كے اترجانے والى حالت كى طرف اشارہ ہے _

۸ _ خداتعالى كے حكم سے پيغمبر(ص) كى طر ف سے كينہ توز مشركين كو دوزخ كے عذاب كى دھمكى _

قل ا فا نبئكم بشر من ذلكم النار

۹ _ دوزخ ميں كافروں كے چہرے انتہائي گرفتگى اور افسردگى كى حالت ميں ہوں گے_قل افا نبئكم بشر من ذلكم النار

۱۰ _ دوزخ كى آگ ،كفار كو خدا كا وعدہ اور ان كا برا انجام_النار وعدها الله الذين كفرو

۱۱ _ دوزخ كافروں كى جائے بازگشت اور آخرى انجام_و بئس المصير

۶۱۱

''مصير'' كا معنى ہے انجام نيز يہ جائے بازگشت كے معنى ميں بھى آتا ہے_

۱۲ _ دوزخ دوزخيوں كيلئے برى جگہ_و بئس المصير

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴، ۵

انذار:جہنم سے انذار ۸

توحيد:اسكى دعوت ۴

جہنم:اسكى آگ ۸; اس كا برا ہونا ۱۲

جہنمى لوگ:ان كا برا انجام ۱۲

خداتعالى :اسكى طرف سے استہزا۷; اسكے اوامر ۸; اسكى دھمكياں ۱۰

قرآن كريم:اس كا آيت آيت ہونا۱; اسكے دشمن ۳، ۵،۶; اسكى ساخت ۱; اس كا آسان فہم ہونا ۲; اس كا واضح ہونا۲; اسكى خصوصيات۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا مسخر كرنا ۷; صدر اسلام كے كفار كى دشمنى ۵، ۶; صدر اسلام كے كفار كے ساتھ نمٹنے كا طريقہ ۵; صدر اسلام كے كفار كے غضب كا پيش خيمہ ۵; جہنم ميں ان كى وضع قطع ۹; صدر اسلام كے كفار كے غضب كى شدت ۶; ان كا برا انجام ۱۰; ان كا انجام ۱۱; يہ جہنم ميں ۱۰، ۱۱; صدر اسلام كے كفار قرآن كى تلاوت كے وقت ۵، ۶

مؤمنين:انكى دعوت ۴

لوگ:صدر اسلام كے لوگوں پر قرآن كى تلاوت ۴; صدر اسلام كے لوگوں كو دعوت ۴

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو ڈرانا ۸; صدر اسلام كے مشركين كا تعصب ۳; صدر اسلام كے مشركين كى دشمنى ۳

۶۱۲

آیت ۷۳

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئاً لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ )

انسانو تمارے لئے ايك مثل بيان كى گئي ہے لہذا اسے غور سے سنو _ يہ لوگ جنہيں تم خدا كو چھوڑ كر آواز ديتے ہو يہ سب مل بھى جائيں تو ايك مكھى نہيں پيدا كر سكتے ہيں اور اگر مكھى ان سے كوئي چيز چھين لے تو يہ اس سے چھڑا بھى نہيں سكتے ہيں كہ طالب اور مطلوب دونوں ہى كمزور ہيں (۷۳)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے شرك و بت پرستى والى بے بنياد فكر كو خوبصورت، مختصر بديع اور واضح (جيسے ضرب المثل) اسلوب ميں بيان كيا جانا_يا ايها الناس ضرب مثل فاستعموا له

''يا ايها الناس'' كے مخاطب مشركين ہيں (''استعموا'' كے مصدر) ''استماع'' كا معنى ہے كان دھرنا (''يدعون'' كے مصدر) ''دعا'' كا معنى ہے پكارنا اور استغاثہ بلند كرنا_

قابل ذكر ہے كہ ''مثل'' وہ مختصر جملہ ہے كہ جو تشبيہ يا حكيمانہ مطلب پر مشتمل ہو كہ جو الفاظ كى روانى معنى كے واضح ہونے اور تركيب كے لطيف ہونے كى وجہ سے زبان زدعام و خاص ہوجاتا ہے اور سب اسے بغير تبديلى كے محاور ے ميں استعمال كرتے ہيں مذكورہ آيت ميں شرك و بت پرستى كى بنياد كے كمزور ہونے كو اتنے خوبصورت، مختصر، بديع اور واضح اسلوب ميں بيان كيا گيا ہے

۶۱۳

كہ يہ ''مثل'' كى طرح اس قابل ہے كہ زبان زدعام و خاص ہوجائے اسى وجہ سے خداتعالى نے اسے 'مثل'' سے تعبير كيا ہے_

۲ _ عقيدہ شرك كى بنياد كى كمزورى كو بيان كرنے ميں خداتعالى كى طرف سے بيان كردہ ضرب المثل مشركين كو سننے كى دعوت _يا ا يها الناس ضرب مثل فاستمعوا له

۳ _ شرك و بت پرستى جاہليت كے عربوں كا عقيدہ اور سوچ _يا ا يها الناس إنّ الذين تدعون من دون الله

۴ _ مشركين كے نظريہ كائنات ميں جہاں اور انسان كے امور كى تدبير خداؤں كے اختيار ميں ہے نہ خداوند متعال كے_

يا ا يها الناس إنّ الذين تدعون من دون الله

۵ _ مشركين كا اپنے خداؤں سے استغاثہ اور فرياد كرنا_إنّ الذين تدعون من دون الله

۶ _ خالقيت، ربوبيت اور خدا ہونے كى شرط ہے_يا ا يها الناس إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۷ _ مشركين كے خداؤں كا سب مل كر بھى حتى كہ ايك مكھى كو خلق كرنے سے عاجز ہونا عقيدہ شرك كے كھوكھلا ہونے كى واضح اور ناقابل انكار دليل_إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۸ _ خداتعالى ، پورے عالم ہستى كا يكتا پروردگار اور بے مثل خالق ہے_إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۹ _ خداتعالى فرياد كرنے والوں كا تنہا فريادرس ہے_إنّ الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذباب

۱۰ _ اگر مكھى جيسى ناتوان مخلوق ان خداؤں سے كوئي چيز چھين لے تو يہ اس سے وہ چيز واپس لينے سے بھى عاجز ہيں يہ بات مشركين كے عقيدے اور فكر كے بے بنياد ہونے كى ايك اور واضح اور ناقابل انكار دليل ہے_و ا ن يسلبهم الذباب شيئاً لايستنقذوه منه (''يسلب'' كے مصدر) سلب كا معنى ہے چھيننا اور (''يستنقذون'' كے مصدر) استنقاذ كا معنى ہے چھڑوانا اور واپس لينا ہے كہ اگر وہى مكھى ان سے كوئي چيز چھين لے تو يہ اس سے بھى وہ چيز واپس نہيں لے سكتے ہيں _

۱۱ _ معبودوں (اصنام)كى كمزورى و ناتوانى اور انكى پرستش كرنے والوں كى جہالت اور نادانى كا خداتعالى كى طرف سے ضرب المثل كے ساتھ سب كيلئے برملا ہونا_ضعف الطالب و المطلوب (''ضعف'' كے مصدر) ''ضعافة'' كا معنى ہے ناتواں ہونا يعنى طالب اور مطلوب دونوں ناتوان ہيں ظاہراً مقصود يہ ہے كہ ان قطعى اور ناقابل انكار

۶۱۴

دلائل كے ساتھ نہ صرف بتوں كى كمزورى اور ناتوانى بلكہ انكى پرستش كرنے والوں كى جہالت اور نادانى بھى سب كيلئے آشكار ہوگئي ہے_

استغاثہ:خدا كے ہاں استغاثہ كرنا ۹الوہيت

: اس كى شرائط ۶

بت پرستي:اسكے كھوكھلے پن كو بيان كرنا ۱; يہ جاہليت ميں ۳

توحيد:يہ خالقيت ميں ۸

عالم خلقت:اسكے مدبر كا متعدد ہون

نظريہ كائنات:اسكى خصوصيات ۹; اسكى امداد ۹; اس كا بے نظير ہونا۸

ربوبيت:اس ميں خالقيت ۶; اسكے شرائط ۶

شرك:اس كا كھو كھلا ہونا۲; اسكے كھوكھلے پن كا بيان كرنا ۱; اسكے بطلان كے دلائل ۱۰

قرآن:اسكى مثالوں كو سننا ۲; اسكے بيان كى روش۱; اسكى مثالوں كے فوائد ۱۱; اسكى مثاليں ۱

مشركين:ان كا استغاثہ ۵; انكى جہالت كا افشاء كرنا ۱۱; انكى سوچ ۴; انكو دعوت دينا ۲

باطل معبود:ان سے استغاثہ كرنا۵; انكى ناتوانى كا افشاء كرنا۱۱; انكى ناتوانى ۷، ۱۰; يہ اور خالقيت ۷

آیت ۷۴

( مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ )

افسوس كہ ان لوگوں نے خدا كى واقعى قدر نہيں پہچانى اور بشك اللہ بڑا قوت والا اور سب پر غالب ہے (۷۴)

۱ _ شر ك ايسا عقيدہ ہے كہ جس كا سرچشمہ خداتعالى كى درست شناخت كا نہ ہونا ہے_و ما قدروا الله حق قدره

(''قدروا'' كے مصدر) قدر كا معنى ہے اندازہ لگانا ''قدروا'' كى فاعلى ضمير كا مرجع مشركين ہيں اور ''حق قدرہ'' ''قدروا'' كا مفعول مطلق ہے يعنى وہ جو كائنات كے تمام انسانوں كے امور

۶۱۵

كى تدبير ديگر خداؤں كے اختيار ميں سمجھتے ہيں انہوں نے خدا كو اس طرح نہيں پہچانا جيسا وہ ہے اور ان كا گمان يہ ہے كہ خداتعالى تنہا پورے عالم ہستى كو نہيں چلاسكتا تم نے نہيں پہچانا كہ خداتعالى طاقتور اور ناقابل شكست ہے_

۲ _ خداتعالى قوى (طاقتور) او رعزيز (ناقابل شكست) ہے_إنّ الله لقوى عزيز

۳ _ خداتعالى كى درست معرفت اسكى مطلق اور نامحدود قدرت اور اسكے عزيز ہونے كے اعتقاد كيلئے اسباب فراہم كرتى ہے_و ما قدروا الله حق قدره إنّ الله لقوى عزيز

۴ _ خداتعالى كى مطلق توانائي اور اسكے ناقابل شكست ہونے كا ايمان توحيد اور تنہا اسكى ربوبيت تك دسترسى ہے_

إنّ الله لقوى عزيز

اسماء و صفات:عزيز۲; قوى ۲

ايمان :خدا كے عزيز ہونے پر ايمان كے اثرات ۴; خدا كى قدرت پر ايمان كے اثرات ۴

توحيد:توحيد ربوبى كا پيش خيمہ ۴

خدا:خداشناسى كے اثرات ۳; ناقض خداشناسى كے اثرات ۱

شرك:اس كا سرچشمہ ۱

عقيدہ:خدا كے عزيز ہونے كے عقيدے كا پيش خيمہ ۳; خدا كى قدرت كے عقيدہ كا پيش خيمہ ۳

۶۱۶

آیت ۷۵

( اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ )

اللہ ملائكہ اور انسانوں ميں سے اپنے نمائندے منتخب كرتا ہے اور وہ بڑا سننے والا اور خوب ديكھنے والا ہے (۷۵)

۱ _ انبياء خداتعالى كے برگزيدہ انسان _الله يصطفي و من الناس

(''يصطفي'' كے مصدر) ''اصطفائ'' كا معنى ہے انتخاب كرنا اورچننا اور ''ملائكہ'' (ملك يا ملائك كى جمع) فرشتوں كے معنى ميں ہے_ مقصود يہ ہے كہ خداتعالى انسانوں كى ہدايت كيلئے ان ميں سے اور فرشتوں ميں سے بعض افراد كا انتخاب كرتا ہے تا كہ فرشتے خدا سے وحى لے كر انبياء تك پہنچائيں اور انبياء (ع) سے فرشتوں سے لے كر لوگوں تك پہنچائيں _

۲ _ انبيائ، مقام نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھى خالص اور شائستہ شخصيت كے مالك ہوتے ہيں _الله يصطفي و من الناس (''يصطفي'' كا مصدر) ''اصطفائ'' صفوہ سے مشتق ہے اور ''صفوہ'' كا معنى ہے ناب اور خالص پس ''الله يصطفي ...'' كا معنى يوں بنے گا خدا اپنى رسالت كيلئے فرشتوں اور انسانوں ميں سے ناب و خالص اور لائق افراد كا انتخاب كرتا ہے_

۳ _ الہى مناصب كو حاصل كرنے ميں فرشتوں كى لياقت اور درجات كا مختلف ہونا_الله يصطفى من الملائكة رسلً

۴ _ معاشرتى ذمہ داريوں اور مناصب كے عطا كرنے ميں افراد كى صلاحيت اور لياقت كو معيار قرار دينا ضرورى ہے_

الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

۵ _ فرشتوں كا خدا سے وحى لے كر انبياء تك پہنچانا_الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

۶ _ خداتعالى انبياء كا حامى و ناصر ہے_الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

''سميع'' اور ''بصير'' كا متعلق محذوف ہے اور يہ درحقيقت يوں ہے''إنّ الله سميع ا قوالهم و بصير ا عمالهم'' خداتعالى لوگوں كى باتيں سنتا ہے اور انكے اعمال كو ديكھتا ہے_

۶۱۷

يہ جملہ پيغمبر(ص) كيلئے خداتعالى كى حمايت كا اعلان كررہا ہے اور آنحضرت(ص) كى مخالفت كرنے والوں كو دھمكى دے رہا ہے _

۷ _ خداتعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) كى مكمل حمايت اور نصرت كا اعلان_الله يصطفى من الملائكة رسلاً و من الناس

۸ _ خدا سميع (سننے والا) اور بصير (ديكھنے والا)ہے _إنّ الله سميع بصير

۹ _ حضرت ابوذر_ رحمة الله عليہ _ كہتے ہيں پيغمبر(ص) نے فرمايا انبياء ۱۲۴ ہزار تھے ميں نے عرض كيا ان ميں سے كتنے رسول تھے تو فرمايا ۳۱۳(۱)

اسما و صفات:سميع ۸; بصير۸

انبياء (ع) :نبوت سے پہلے ۲; ان كا انتخاب ۱; انكى تعداد ۹; انكا حامى ۶; ان كے فضائل ۱، ۲; انكى طرف وحى ۵

خدا كے برگزيدہ بندے : ۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا حامى ۷

خداتعالى :اسكى حمايت ۶، ۷

خدا كے رسول :ان كى تعداد ۹

روايت: ۹

صلاحيت:اس كا كردار ۴

انتخاب:اس كا معيار ۴

لياقت:اس كا كردار ۴

ذمہ داري:اسكے عطا كرنے كى شرائط ۴

فرشتے:ان كے مراتب ۳; وحى كے فرشتوں كا نقش و كردار ۵

____________________

۱ ) تفسير برہان ج۳ ، ص ۱۰۴; ح ۳_ و ج۴، ص ۴۵۲ ح ۴_

۶۱۸

آیت ۷۶

( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الأمُورُ )

وہ ان كے سامنے اور پس پشت كى تمام باتوں كو جانتا ہے اور تمام امور اسى كى طرف پلٹ كر جانے والے ہيں (۷۶)

۱ _ خداتعالى كا انسان كے ماضى اور مستقبل پر عملى لحاظ سے محيط ہونا_يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''بين ا يدي'' ماضى سے اور ''حلف'' مستقبل سے كنايہ ہے يعنى خداتعالى لوگوں كے ماضى اور استقبال كو جانتا ہے_

۲ _ سب كا م كا انجام خداتعالى كے اختيار ميں ہے_وإلى الله مرجع الا مور

۳ _ سننا، ديكھنا، جاننااور سب امور كو ہاتھ ميں ركھنا يہ سب خداتعالى كى قدرت اور ناقابل شكست ہونے كى نشانياں ہيں _

إن الله لقوى عزيز سميع بصير يعلم و إلى الله ترجع الا مور

خداتعالى :اس كا علمى احاطہ ۱; اسكے اختيارات ۲، ۳; اس كا بصير ہونا۳; اس كا سننا ۳; اس كا علم غيب۱، ۳; اسكے ناقابل شكست ہونے كى نشانياں ۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۳

عمل:اس كا انجام ۲

۶۱۹

آیت ۷۷

( ا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ )

ايمان والو ركوع كرو، سجدہ كرو اور اپنے رب كى عبادت كرو اور كار خير انجام دو كہ شايد اسى طرح كامياب ہو جاؤ اور نجات حاصل كر لو(۷۷)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے اہل ايمان كو نماز قائم كرنے كى دعوت_يا ا يها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدو

(''اركعوا''كے مصدر) ركوع نيز (''اسجدوا'' كے مصدر) سجود كا معنى ہے خضوع اور اپنے تذلل كا اظہار ليكن ركوع اظہار تذلل ہے جھكنے كى صورت ميں اور سجود اظہار خضوع ہے پيشانى كو زمين پر ركھ كر ''اركعوا'' اور ''اسجدوا'' كا متعلق محذوف ہے اور ''و اعبدوا ربكم'' قرينہ ہے كہ يہ در حقيقت ''اركعوا و اسجدوا لربكم'' ہے _ قابل ذكر ہے كہ ديگر موارد ميں ركوع و سجود كى صورت ميں خدا كيلئے اظہار خضوع كا نام ''صلاة'' ہے اس بناپر '' اركعوا و اسجدوا''،''صلوّا'' سے كنايہ ہے_

۲ _ نماز سب سے زيادہ اہم عبادت اور پرستش خدا كا برترين جلوہ ہے_يا ا يها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدوا و اعبدوا ربكم

اس چيز كے پيش نظر كہ نماز، عبادت كا مصداق ہے اور جملہ ''اعبدوا ربكم'' اس كو بھى شامل ہے لہذا اسے ''اعبدوا ربكم'' سے پہلے الگ ذكر كرنا اس عبادت كى خاص اہميت او رخداتعالى كے نزديك اسكى برترين قدر و قيمت كا غماز ہے_

۳ _ بارگاہ خداوندى ميں اظہار تذلل و خضوع ،نماز كى حقيقت اور روح_يا ايها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدو

۴ _ اللہ تعالى ،انسانوں كا پروردگار ہے_يا ايها الذين ء امنوا و اعبدوا ربكم

۵ _ فرامين الہى كى بلاچوں و چرا اطاعت كا لازمى ہونا_و اعبدوا ربكم

(''اعبدوا'' كے مصدر) ''عبادة و عبودية'' كا معنى ہے اطاعت اور بندگى كرنا لہذا ''اعبدوا ربكم'' يعنى اپنے پروردگار كى بندگى كرو_ مقصود يہ ہے كہ خداتعالى چونكہ پروردگار ہے لذا ضرورى ہے كہ مؤمنين خود كو اس كے عبد اور بندے قرار ديں اور اسكے احكام و فرامين كے بلا چوں و چرا مطيع و فرمانبردار ہوں _

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750