تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219105 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لا جبرولا تفو یض ولکن أمر بین أمر ین، قال قُلتُ: و ما أمر بین أمر ین؟ قال مثل ذلک رجل رأ یته علیٰ معصية ٍ فنهیتهُ فلم ینته فتر کته ففعل تلک المعصية، فلیس حیثُ لم یقبل منک فتر کته کنت أنت الذّی أمر ته بالمعصية'' ( ۱ )

نہ جبرہے اور نہ تفو یض ، بلکہ ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز ہے، راوی کہتا ہے : میں نے کہا : ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز کیا ہے؟ فر مایا: اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو گنا ہ کی حا لت میں ہو اور تم اسے منع کرو اور وہ قبول نہ کر ے اس کے بعد تم اسے اس کی حالت پر چھو ڑ دو اور وہ اس گناہ کو انجام دے ، پس چونکہ اس نے تمہا ری بات نہیں مانی اور تم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ تم ہی نے اسے گناہ کی دعوت دی ہے۔

۲'' ما استطعت أن تلو م العبد علیه فهو منه و ما لم تستطع أن تلو م العبد علیه فهو من فعل ﷲ، یقول ﷲ للعبد: لم عصیت؟ لم فسقت؟لم شربت الخمر؟ لم ز نیت؟ فهذا فعل العبد ولا یقول له لم مر ضت؟ لم قصرت؟ لم ابیضضتَ؟ لم اسو ددت؟ لأنه من فعل ﷲ تعا لیٰ'' ( ۲ )

جس کام پر بندہ کو ملا مت و سر زنش کر سکو وہ اس کی طرف سے ہے اور جس کام پرملا مت وسر زنش نہ کرسکو وہ خدا کی طرف سے ہے، خدا اپنے بندوں سے فرما تا ہے : تم نے کیوں سر کشی کی ؟ کیوں نافرمانی کی ؟کیوں شراب پی؟ کیوں زنا کیا؟ کیو نکہ یہ بندے کا کام ہے ، خدا اپنے بندوں سے یہ نہیں پو چھتا : کیو ں مر یض ہوگئے ؟ کیوں تمہا را قد چھوٹاہے؟ کیوں سفید رنگ ہو؟ کیوں سیا ہ رو ہو؟ کیو نکہ یہ سارے امور خدا کے ہیں ۔

روایات کی تشریح

جبر وتفویض کے دوپہلو ہیں :

۱۔ ایک پہلو وہ ہے جو خدا اوراس کے صفا ت سے متعلق ہے۔

۲۔ دوسرا پہلووہ ہے جس کی انسان اوراس کے صفا ت کی طر ف بازگشت ہو تی ہے۔

'' جبر و تفویض'' میں سے جو کچھ خدا اوراس کے صفات سے مر بوط اور متعلق ہے ، اس بات کا سزا وار

____________________

(۱) کافی،ج، ۱، ص ۱۶۰ اور توحید صدو ق، ص ۳۶۲.(۲)بحار ج۵،ص۵۹ح۱۰۹

۱۸۱

ہے کہ اس کو خدا،اس کے انبیا ء اور ان کے اوصیا ء سے اخذ کر یں اور جو چیز انسا ن اوراس کے صفات اور افعال سے متعلق ہو تی ہے ، اسی حد کافی ہے کہ ہم کہیں : میں یہ کام کر وں گا ، میں وہ کام نہیں کرو ں گا تا کہ جانیں جو کچھ ہم انجام دیتے ہیں اپنے اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ، گزشتہ بحثو ں میں بھی ہم نے یہ بھی جانا کہ انسا ن کی زندگی کی رفتا ر ذ رہ ، ایٹم، سیارات اور کہکشا نو ں نیز خدا کے حکم سے دیگر مسخرات کی رفتار سے حرکات اور نتا ئج میں یکساں نہیں ہے ،یہ ایک طرف ، دو سری طرف خدا وند سبحا ن نے انسا ن کوا س کے حال پر نہیں چھو ڑا اوراسے خود اس کے حوالے نہیں کیا تا کہ جو چا ہے ، جس طرح چاہے اور نفسیا نی خو اہشا ت جس کاحکم دیںاسی کو انجام دے ، بلکہ خدا وند عالم نے اپنے انبیا ء کے ذریعہ اس کی راہنما ئی کی ہے : اسے قلبی ایمان کی راہ بھی حق کے ساتھ دکھا ئی نیزاعمال شائستہ جو اس کے لئے جسمانی اعتبار سے مفید ہیں ان کی طرف بھی راہنمائی کی اور نقصا ن دہ اعمال سے بھی آگا ہ کیا ہے، اگر وہ خدا کی ہدا یت کا اتبا ع کرے اور ﷲ کی سیدھی را ہ پر ایک قد م آگے بڑھ جا ئے تو خدا وند عا لم اسے اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے دس قد م آگے بڑھا دیتا ہے پھر دنیا و آخرت میں آثار عمل کی بناء پر اس کوسات سو گنازیادہ جزا دیتا ہے اور خدا وند عالم اپنی حکمت کے اقتضاء اور اپنی سنت کے مطابق جس کے لئے چا ہتا ہے اضا فہ کرتاہے۔

ہم نے اس سے قبل مثا ل دی اور کہا: خدا وند عا لم نے اس دنیا کو'' سلف سروس''والے ہوٹل کے مانندمو من اور کا فر دو نوں کے لئے آما دہ کیا ہے، جیسا کہ سورۂ اسرا ء کی بیسویں آیت میں فرماتا ہے:

( کلاًّ نمدّ هٰؤلا ء و هٰؤٰلآء من عطا ئِ ربّک و ما کان عطائُ ربِّک محظورا )

ہم دو نو ں گروہوںکوخواہ یہ خواہ وہ تمہا رے رب کی عطا سے امداد کر تے ہیں ، کیو نکہ تمہا رے ربّ کی عطاکسی پربند نہیں ہے۔

یقینا اگر خدا کی امداد نہ ہو تی اور خدا کے بند ے جسمی اور فکر ی توا نائی اور اس عا لم کے آمادہ و مسخر اسباب و وسا ئل خدا کی طرف سے نہ رکھتے تو نہ راہ یا فتہ مو من عمل صا لح اور نیک و شا ئستہ عمل انجام دے سکتا تھا اور نہ ہی گمرا ہ کا فر نقصا ن دہ اور فا سد اقدامات کی صلا حیت رکھتا، سچ یہ ہے کہ اگر خدا ایک آن کے لئے اپنی عطا انسا ن سے سلب کر لے چا ہے اس عطا کا ایک معمو لی اور ادنیٰ جز ہی کیوں نہ ہوجیسے بینائی، سلا متی، عقل اور خرد وغیرہ... تویہ انسان کیا کر سکتا ہے ؟ اس لحا ظ سے انسا ن جو بھی کر تا ہے اپنے اختیا رسے اور ان وسا ئل و اسباب کے ذریعہ کرتاہے جو خدا نے اسے بخشے ہیں لہٰذا انسا ن انتخاب اور اکتسا ب میں مختار ہے۔

۱۸۲

جی ہاں ،انسا ن اس عالم میں مختارکل بھی نہیں ہے جس طرح سے وہ صرف مجبور بھی نہیں ہے، نہ اس عالم کے تمام اموراس کے حوالے اور سپرد کر دئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے انتخا ب کر دہ امور میں مجبور ہے، بلکہ ان دو نوں کے درمیا ن ایک امر ہے اور وہ ہے( امر بین امرین) اوریہ وہی خدا کی مشیت اور بند وں کے افعال کے سلسلے میں اس کا قا نو ن اور سنت ہے، '' ولن تجد لسنة ﷲ تبد یلا ً'' ہر گز سنت الٰہی میں تغیر و تبد یلی نہیں پا ؤ گے!

چند سوال ا و ر جو اب

اس حصّہ میں د ر ج ذیل چا ر سوا ل پیش کئے جا رہے ہیں:

۱۔ انسا ن جو کچھ کر تا ہے ا س میں مختار کیسے ہے، با وجو د یکہ شیطا ن اس پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے جب کہ وہ دکھا ئی بھی نہیں دیتا آد می کو اغوا( گمراہ) کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے اوراس کے دل میں و سو سہ ڈالتا رہتاہے اور اپنے شر آمیز کاموں کی دعوت دیتا ہے؟

۲۔انسان فا سد ماحول اور برے کلچرمیں بھی ایسا ہی ہے، وہ فسا د اور شر کے علا وہ کو ئی چیز نہیں دیکھتا پھر کس طرح وہ اپنے اختیا ر سے عمل کر تاہے ؟

۳۔ایسا انسا ن جس تک پیغمبروں کی دعو ت نہیں پہنچی ہے اوردور درازافتادہ علا قہ میں زند گی گزا رتا ہے وہ کیا کرے ؟

۴۔'' زنا زا دہ'' کا گنا ہ کیا ہے ؟( یعنی نا جا ئز بچہ کاکیا گنا ہ ہے) کیوں وہ دو سر وں کی رفتا ر کی بنا ء پر شر پسند ہوتا ہے اور شرار ت و برائی کر تا ہے؟

پہلے اور دوسرے سوال کا جو اب:

ان دو سو الوں کا جواب ابتدا ئے کتاب میں جو ہم نے میثا ق کی بحث کی ہے ا س میں تلا ش کیجئے۔( ۱ )

وہاں پر ہم نے کہا کہ خدا نے انسا ن پر اپنی حجت تمام کردی ہے ا ور تمام موجودات کے سبب سب کے متعلق جستجواور تلاش کے غریزہ کو ودیعت کرکے اس کی بہانہ بازی کا دروازہ بند کردیا ہے، لہٰذااسے چاہیئے کہ اس غریزہ کی مدد سے اس اصلی سبب سازتک پہنچے ، اسی لئے سورۂ اعرا ف کی ۱۷۲ ویں آ یت میں میثا ق خدا وند ی سے متعلق ارشاد فرما یا:

____________________

(۱)اسی کتاب کی پہلی جلد، بحث میثاق .ملاحظہ ہو.

۱۸۳

( أن تقولوا یو م القیامة اِنّا کُناعن هذا غا فلین )

تا کہ قیا مت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس (پیمان ) سے غا فل تھے ہمیں ۔

انسا ن جس طر ح ہر حا لت میں بھو ک کے غر یزہ سے غا فل نہیں ہو تا ہے جب تک کہ اپنی شکم کو غذا سے سیر نہ کرلے ، اسی طرح معر فت طلبی کے غر یزہ سے بھی غا فل نہیں ہو تا یہاں تک کہ حقیقی مسب الاسباب کی شناخت حا صل کرلے۔

تیسر ے سوال کا جو اب:

ہم اس سوال کے جواب میں کہیںگے : خداو ند سبحا ن نے سورہ بقرہ کی ۲۸۶ ویں آیت میں ارشا د فرما یا:

( لایکلف ﷲ نفساًاِلاّوسعها )

خدا کسی کو بھی اس کی طا قت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا۔

چو تھے سوا ل کا جو اب:

نا جا ئز اولا د بھی بُرے کا م انجام دینے پر مجبو ر نہیں ہے ، جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ بد کار مرد اور عو رت کی روحی حالت اور کیفیت ارتکاب گناہ کے وقت اس طرح ہوتی ہے کہ خو د کو سما جی قوا نین کا مجرم اور خا ئن تصور کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ معا شرہ ان کے کام کو برااور گناجا نتا ہے اور اگر ان کی رفتا ر سے آگا ہ ہو جائے اورایسی گند گی اور پستی کے ارتکاب کے وقت دیکھ لے تو ان سے دشمنی کر تے ہو ئے انھیں اپنے سے دور کر دیگا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام نیکو کار ، پا کیز ہ کر دار اور اخلاق کر یمہ کے ما لک ایسے کا م سے بیزاری کرتے ہیں یہ رو حی حا لت اور اندرونی کیفیت نطفہ پر اثر اندا ز ہو تی ہے اور میرا ث کے ذریعہ اس نو مو لو د تک منتقل ہو تی ہے اورنوزاد پر اثر انداز ہوتی ہے جواسے شر دوست اور نیکیوں کا دشمن بنا تی ہے اور سما ج کے نیک افراد اور مشہو ر و معروف لو گوں سے جنگ پر آمادہ کرتی ہے اس سیرت کا بارز نمو نہ'' زیا د ابن ابیہ'' اور اس کا بیٹا ابن زیاد ہے کہ انھوں نے عرا ق میں اپنی حکومت کے دوران جو نہیں کر نا چا ہئے تھا وہ کیا ،با لخصوص'' ابن زیاد'' کہ اسکے حکم سے امام حسین کی شہا دت کے بعد آپ اور آپ کے پا کیزہ اصحاب کے جسم اطہر کو مثلہ کیاگیا اور سروں کو شہروں میں پھرایا گیا اور رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حرم کو اسیر کر کے کو فہ و شام پہنچا یا گیا اور دیگر امور جو اس کے حکم سے انجام پا ئے اور یہ ایسے حا ل میں ہو اکہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد کو ئی فرد ایسی نہیں بچی تھی جو ان لوگوںکی حکو مت کا مقا بلہ کر ے

۱۸۴

اور کسی قسم کی تو جیہ اس کے ان افعا ل کیلئے نہیں تھی، بجز اس کے کہ وہ شر و برا ئی کا خو گر تھا اس کی خو اہش یہ تھی کہ عرب اور اسلام کے شریف ترین گھرا نے کی شا ن و شو کت، عظمت و سطو ت ختم کرکے انھیں بے اعتبار بنا دے، ہاں وہ ذا تی طور پر برا ئی کا دوست اور نیکیوں کا دشمن تھا اور سماج و معا شرہ کے کریم و شر یف افراد سے بر سر پیکا ر تھا۔( ۱ )

اس بنا پر ( صحیح ہے اور ہم قبو ل کر تے ہیں کہ) شر سے دوستی، نیکی سے دشمنی، نیکو کاروں کو آزار و اذیت دنیا اور سماج کے پا کیز ہ لو گوں کو تکلیف پہنچا نا زنا زادہ میں حلال زادہ کے بر خلاف تقریباًاس کی ذات اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن ان تمام باتوں کے با وجو د ان دو میں سے کو ئی بھی خواہ امور خیر ہوں یا شر جو وہ انجام دیتے ہیں یا نہیں دیتے مجبو ر ،ان پر نہیں ہیں، ان دو نوں کی مثال ایک تندرست و صحت مند ، با لغ و قوی جوان اور کمر خمیدہ بوڑھے مر د کی سی ہے: پہلا جسما نی شہو ت میں غرق اور نفسانی خوا ہشا ت تک پہنچنے کا خواہاں ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے یہا ں جو انی کی قوت ختم ہو چکی ہے اور جسمانی شہو ت کا تارک ہے! ایسے حال میں واضح ہے کہ کمر خمیدہ مرد '' زنا ''نہیں کر سکتا اور وہ جوان جس کی جنسی تو انا ٰئی اوج پر ہے وہ زنا کرنے پر مجبو ر بھی نہیں کہ مجبوری کی حالت میں وہ ایسے نا پسندیدہ فعل کا مر تکب ہو تومعذور کہلا ئے، بلکہ اگر زنا کا مو قع اور ما حو ل فر اہم ہو اور وہ ''خا ف مقا م ربہ'' اپنے رب کے حضور سے خو فز دہ ہو، ( ونھیٰ النفس عن الھوی) اور اپنے نفس کو بیجا خو اہشوں سے رو ک رکھے تو( فاِنّ الجنة ھی المأویٰ) یقینا اس کا ٹھکا نہ بہشت ہے۔( ۲ )

اس طرح ہم اگر انسان کی زندگی کے پہلؤوں کی تحقیق کر یں اور ان کے بارے میں غور و فکر کر یں، تو اسے اپنے امور میں صا حب اختیا ر پا ئیں گے، جز ان امور کے جو غفلت اور عدم آگا ہی کی بنیا د پر صا در ہوتے ہیں اور اخروی آثا ر نہیںرکھتے ہیں ۔

یہاں تک مباحث کی بنیاد قرآن کر یم کی آیات کی روشنی میں '' عقائد اسلام '' کے بیان پر تھی آئندہ بحثوں میں انشاء ﷲ خدا کے اذ ن سے مبلغین الٰہی کی سیرت کی قرآ ن کریم کی رو سے تحقیق و بررسی کر یں گے اور جس قدر توریت ،انجیل اور سیرت کی کتابوں سے قرآن کریم کی آیات کی تشریح و تبیین میں مفید پا ئیں گے ذکر کر یں گے۔

''الحمد لله ربّ العا لمین''

____________________

(۱)زیادکے الحاق ( معاویہ کا اسے اپنا پدری بھائی بنانے ) کی بحث آپ کتاب عبدﷲ بن سبا کی جلد اول میں ، اور شہادت امام حسین کی بحث معالم المدر ستین کی جلد ۳ میں ملاحظہ کریں. (۲)سورۂ ناز عا ت کی چا لیسویں آیت ''و امّا من خاف...'' سے اقتبا س ہے.

۱۸۵

(۹)

ملحقات

اسلا می عقا ئد میں بحث و تحقیق کے راستے اور راہ اہل بیت کی فوقیت و بر تری( ۱ )

اسلا می عقا ئد ہمیشہ مسلما نوں اور اسلامی محققین کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں اور تمام مسلما نو ں کا نظر یہ یہ ہے کہ اسلا می عقا ئد کا مر جع قرآ ن اور حدیث ہی ہے ، وہ اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود گز شتہ زمانے میں صدیو ں سے، مختلف وجوہ اور متعدد اسباب( ۲ ) کی بنا پر مختلف خیا لات اور نظریات اسلا می عقائد کے سلسلہ میں پیدا ہوئے کہ ان میں بعض اسباب کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ بحث وتحقیق اور استنبا ط کے طریقے اور روش میں اختلا ف.

۲۔ علما ئے یہو د و نصا ریٰ (احبار و رہبا ن)کا مسلما نو ں کی صفو ں میں نفو ذ اور رخنہ انداز ی اور اسلا می رو ایا ت کا ''اسرا ئیلیا ت''اور جعلی داستانوں سے مخلوط ہونا۔

۳۔ بد عتیں اور اسلا می نصو ص کی غلط اور نا درست تا ویلیں اور تفسیر یں۔

۴۔سیا سی رجحا نا ت اور قبا ئلی جھگڑے۔

۵۔ اسلا می نصوص سے ناواقفیت اور بے اعتنا ئی ۔

ہم اس مقا لہ میں سب سے پہلے سبب '' راہ اور روش میں اختلا ف ''کی تحقیق وبر رسی کر یں گے اور اسلامی عقائد کی تحقیق و بر رسی میں جو مو جو دہ طریقے اور را ہیں ہیں ان کا اہل بیت کی راہ و روش سے موازنہ کر کے قا رئین کے حو الے کر یں گے ، نیز آخری روش کی فو قیت وضا حت کے ساتھ بیان کر یں گے ۔

____________________

(۱) مجمع جہانی اہل البیت ، تہران کے نشریہ رسالة الثقلین نامی مجلہ میں آقا شیخ عباس علی براتی کے مقالہ کا ترجمہ ملاحظہ ہونمبر ۱۰، سال سوم ۱۴۱۵ ھ، ق.(۲) مقدمہ کتاب '' فی علم الکتاب '' : ڈاکٹر احمد محمود صبحی ج۱، ص ۴۶پانچواں ایڈیشن، بیروت، ۱۴۰۵ھ، ۱۹۸۵ ئ.

۱۸۶

عقید تی اختلا فا ت اور اس کی بنیاد اور تا ریخ

مسلما نوں کے درمیا ن فکر ی اور عقید تی اختلا ف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی ظا ہر ہو چکا تھا ،لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ، کلامی اور فکر ی مکا تب و مذاہب کے وجو د کا سبب قرار پائے، کیو نکہ رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنفس نفیس اس کا تدارک کرتے تھے اور اس کے پھیلنے کی گنجا ئش با قی نہیں ر کھتے تھے ، بالخصوص روح صدا قت وبرا دری، اخوت و محبت اس طرح سے اسلامی معاشرہ پر حا کم تھی کہ تا ریخ میں بے مثا ل یا کم نظیر ہے۔

نمو نہ کے طور پر اورانسا نو ں کی سر نو شت '' قدر'' کا مو ضو ع تھا جس نے پیغمبر کے اصحا ب اور انصا ر کے ذہن و فکر کو مکمل طور پر اپنے میں حصار میں لے لیا تھا اور انھیں اس کے متعلق بحث کر نے پر مجبور کردیا تھا ، یہاں تک کہ آخر میں بات جنگ و جدا ل اور جھگڑے تک پہنچ گئی جھگڑے کی آ واز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کان سے ٹکر ائی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (جیسا کہ حدیث کی کتا بو ں میں ذ کر ہوا ہے) اس طرح سے ان لو گو ں کو اس مو ضو ع کے آگے بڑھانے کے عواقب و انجام سے ڈرایا:

احمد ابن حنبل نے عمر و بن شعیب سے اس نے اپنے با پ سے اور اس نے اپنے جد سے رو ایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : ایک دن رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھر سے باہر نکلے تو لو گو ں کو قدر کے مو ضو ع پر گفتگو کرتے دیکھا،راو ی کہتا ہے : پیغمبر اکر م کے چہر ہ کا رنگ غیظ و غضب کی شدت سے اس طرح سر خ ہو گیا تھا، گو یا انار کے دانے ان کے رخسا ر مبارک پربکھرے ہوئے ہو ں! فر مایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کتاب خدا کی جر ح وتعدیل اور تجزیہ و تحلیل کر رہے ہو اسکے بعض حصّہ کا بعض سے مو از نہ کر رہے ہو( اس کی نفی و اثبات کرر ہے ہو )؟ تم سے پہلے وا لے افراد انہی کا موں کی و جہ سے نا بو د ہو گئے ہیں۔( ۱ )

قرآن کر یم اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں اسلامی عقا ئد کے اصو ل اور اس کے بنیادی مبا نی بطو ر کلی امت اسلام کے لئے بیا ن کیے گئے ہیںبعد میں بعض سو الات اس لئے پیش آئے کہ ( ظا ہر اً)قرآن و سنت میں ان کا صریح اور واضح جو اب ان لوگوںکے پاس نہیں تھا اورمسلمان اجتہا د و استنبا ط کے محتا ج ہو ئے تو یہ ذ مہ داری عقا ئد و احکام میں فقہا ء و مجتہد ین کے کا ند ھوں پر آئی، اس لئے اصحا ب پیغمبر بھی کبھی کبھی اعتقا دی مسا ئل میں ایک دوسرے سے اختلا ف رائے ر کھتے تھے ، اگر چہ پیغمبر کی حیات میں ان کے اختلاف کے آثا ر و نتائج، بعد کے

____________________

(۱)مسند احمد ج۳،ص۱۷۸تا ۱۹۶.

۱۸۷

زمانوں میں ان کے اختلاف کے آثار و نتائج سے مختلف تھے ،کیو نکہ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی حیات میں خو د ہی ان کے درمیا ن قضا وت کر تے تھے اور اپنی را ہنما ئی سے اختلا ف کی بنیا د کواکھاڑ دیتے تھے !( ۱ )

لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد لو گ مجبو ر ہو ئے کہ کسی صحا بی یا ان کے ایک گروہ سے( جوکہ خلفا ء و حکا م کے بر گز یدہ تھے) اجتہا د کا سہا را لیں اور ان سے قضا وت طلب کر یں جب کہ دو سرے اصحا ب اپنے آرا ء ونظریات کو محفو ظ ر کھتے تھے ( اور یہ خو د ہی اختلا ف میں اضا فہ کا سبب بنا ) اس اختلا ف کے واضح نمونے مند ر جہ ذ یل باتیں ہیں۔

۱۔ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفا ت کے بعد امت کا خلا فت اور اما مت کے بارے میں اختلاف۔( ۲ )

۲۔ زکو ة نہ دینے وا لو ں کا قتل اور یہ کہ آیا زکو ة نہ دینا ارتد اد اور دین سے خا رج ہو نے کا با عث ہے یا نہیں؟اس طرح سے ہر اختلا ف،خاص آراء و خیا لا ت ، گروہ اور کلا می اور اعتقا دی مکا تب کی پید ائش کا سر چشمہ بن گیاجس کے نتیجہ میں ہر ایک اس رو ش کے ساتھ جو اس نے استد لا ل و استنبا ط میں اختیا ر کی تھی اپنے آ را ء و عقا ئد کی تر ویج و تد وین میں مشغول ہوگیا ، ہما ری تحقیق کے مطا بق ان مکا تب میں اہم تر ین مکاتب مند ر جہ ذیل ہیں :

۱۔خالص نقلی مکتب۔

۲۔ خالص عقلی مکتب

۳۔ ذو قی و اشراقی مکتب

۴۔ حسّی و تجر بی مکتب

۵۔ فطر ی مکتب

الف ۔ خالص نقلی مکتب:

'' احمد ابن حنبل'' حبنلی مذ ہب کے امام ( متو فی ۲۴۱ ھ) اپنے زمانے میں اس مکتب کے پیشوا اور پیشر و شما ر کئے جاتے تھے، یہ مکتب ،اہل حد یث ( اخبار یین عا مہ) کے مکتب کے مانند ہے: ان لو گو ں کارو ایات

____________________

(۱)سیرہ ٔ ابن ہشام ، ص ۳۴۱،۳۴۲ ،اورڈاکٹرمحمد حمیدﷲ مجموعة الوثائق السیاسةج۱،ص۷.(۲)اشعری '' مقا لات الاسلامیین و اختلاف المصلین '' ج ۱، ص ۳۴، ۳۹ اور ابن حزم '' الفصل فی الملل والاہواء والنحل '' ج ۲، ص ۱۱۱ اور احمد امین '' فجر الاسلام ''.

۱۸۸

کی حفا ظت وپا سدا ری نیز ان کے نقل کر نے کے علا وہ کوئی کام نہ تھااوران کے مطا لب میں تد بر اور غور خوض کرنے نیزصحیح کو غلط سے جدا کرنے سے انھیںکوئی تعلق نہ تھا ،اس طرح کی جہت گیر ی کو آخری زمانوں میں ''سلفیہ'' کہتے ہیں، اور فقہ میں اہل سنت کے حنبلی مذہب والے میں اس روش کی پیر وی کرتے ہیں، وہ لوگ دینی مسا ئل میں رائے و نظر کو حرام( سبب و علت کے بارے میں ) سوال کو بدعت اور تحقیق اور استد لال کو بدعت پرستی اورہوا پر ستوں کے مقا بلے میں عقب نشینی جانتے ہیں، اس گروہ نے اپنی سا ری طاقت سنت کے تعقل وتفکرسے خالی درس و بحث پر وقف کر دی اوراس کو سنت کی پیر وی کرنااوراس کے علاوہ کو ''بد عت پرستی'' کہتے ہیں۔

ان کی سب سے زیادہ اور عظیم تر ین کو شش و تلا ش یہ ہے کہ اعتقا دی مسا ئل سے مر بو ط احا دیث کی تدوین اور جمع بندی کرکے اس کے الفا ظ و کلما ت اور اسنا د کی شر ح کریں جیسا کہ بخا ر ی ، احمد ابن حنبل ، ابن خز یمہ، بیہقی اور ابن بطّہ نے کیا ہے، وہ یہاںتک آگے بڑھ گئے کہ عقید تی مسا ئل میں علم کلا م اور عقلی نظر یا ت کو حرا م قراردے دیا،ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں مخصوص رسا لہ بھی تد وین کیا ، جیسے ابن قدامہ نے''تحریم النظر فی علم الکلا م''نا می رسا لہ تحریر کیا ہے۔

احمد ابن حنبل نے کہا ہے: اہل کلام کبھی کا میاب نہیں ہو ں گے ، ممکن نہیں کہ کوئی کلام یا کلامی نظر یہ کا حامل ہو اور اس کے دل میں مکر و حیلہ نہ ہو،اس نے متکلمین کی اس درجہ بد گو ئی کی کہ حا رث محا سبی جیسے (زا ہد و پرہیز گا ر) انسا ن سے بھی دور ہو گیا اور اس سے کنا رہ کشی اختیا ر کر لی، کیو نکہ اس نے بد عت پرست افراد کی رد میں کتا ب تصنیف کی تھی احمد نے اس سے کہا : تم پر وا ئے ہو! کیا تم پہلے ان کی بد عتوں کا ذکر نہیں کروگے تاکہ بعد میں اس کی رد کر و؟ کیا تم اس نوشتہ سے لوگوں کو بد عتوں کا مطا لعہ اور شبہو ں میں غو ر و فکر کرنے پر مجبور نہیں کروگے یہ بذات خود ان لو گو ں کو تلا ش و جستجو اورفکرونظر کی دعوت دینا ہے۔

احمد بن حنبل نے یہ بھی کہا ہے: علما ئے کلا م ز ند یق اور تخریب کا ر ہیں۔

زعفرا نی کہتا ہے :شا فعی نے کہا : اہل کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انھیں کھجور کی شاخ سے زدو کوب کرکے عشا ئر اور قبا ئل کے درمیا ن گھما ئیں اور کہیں: یہ سزا اس شخص کی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام سے وابستہ ہوگیا ہے!

تمام اہل حدیث سلفیو ں(اخبار یین عا مہ) کا اس سلسلہ میں متفقہ فیصلہ ہے اور متکلمین کے مقا بل ان کے عمل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا لوگوں نے نقل کیا ہے، یہ لو گ کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب باوجو د یکہ حقائق کے سب سے زیا دہ عا لم اور گفتا ر میں دوسرو ں سے زیا دہ محکم تھے، انہوں نے عقائد سے متعلق با ت کر نے میں اجتنا ب نہیں کیا مگر صرف اس لئے کہ وہ جا نتے تھے کہ کلام سے شر و فسا د پیدا ہوگا۔ یہی و جہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ہی جملے کی تین با ر تکرا ر کی اور فر مایا :

۱۸۹

(هلک المتعمقون، هلک المتعمقون ،هلک المتعمقون )

غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے والے ہلا ک ہو گئے، یعنی (دینی) مسا ئل گہرائی کے ساتھ غور و فکر کر نے والے ہلا ک ہوگئے!

یہ گروہ(اخبا ریین عا مہ) عقیدہ میں تجسیم اور تشبیہ(یعنی خدا کے جسم اور شبا ہت) کا قائل ہے ، '' ْقدر'' اور سر نوشت کے ناقابل تغییر ہونے اور انسا ن کے مسلو ب الا را دہ ہونے کا معتقدہے۔( ۱ )

یہ لو گ عقا ئد میں تقلید کو جا ئز جا نتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں را ئے و نظر کو جیسا کہ گز ر چکا ہے حرام سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد محمود صبحی فر ماتے ہیں:

'' با وجو د یکہ عقا ئد میں تقلید- عبد ﷲ بن حسن عنبری، حشویہ اور تعلیمیہ( ۲ ) کے نظریہ کے بر خلا ف نہ ممکن ہے اور نہ جائز ہے،یہی نظریہ ''محصل '' میں فخر رازی کا ہے( ۳ )

اورجمہو ر کا نظریہ یہ ہے کہ عقائد میں تقلیدجائز نہیں ہے اور استاد ابو اسحا ق نے ''شرح التر تیب'' میں اس کی نسبت اجماع اہل حق اور اس کے علاوہ کی طرف دی ہے اور امام الحرمین نے کتاب''الشامل'' میں کہا ہے کہ حنبلیوں کے علا وہ کو ئی بھی عقائد میں تقلید کا قائل نہیں ہے ، اس کے با وجود ، امام شو کا نی نے لو گو ں پر عقائد میں غور و فکر کو واجب جاننے کو''تکلیف مالایطاق'' (ایسی تکلیف جو قدرت و توانائی سے باہر ہو) سے تعبیر کیا ہے، وہ بزرگان دین کے نظریات اور اقوال پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی پناہ !یہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں یقیناً یہ ، لوگوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے کہ امت مرحومہ کو ایسی چیز کا مکلف بنایا جائے جس کی ان میں قدرت نہیں ہے،(کیا ا یسا نہیں ہے ) وہی صحا بہ کا حملی اور تقلیدی ایمان جو اجتہا د و نظر کی منزل تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس سے نزدیک بھی نہیں ہوئے تھے ، ان کے لئے کافی ہو ؟۔

____________________

(۱)صابونی ؛ ابو عثمان اسماعیل ؛رسالة عقیدةالسلف و اصحاب الحدیث(فی الرسائل المنیرة).

(۲)آمری؛ ''الاحکام فی اصول الاحکام'' ،ج۴ ، ص ۳۰۰.

(۳)شوکانی: '' ارشاد الفحول '' ص۲۶۶-۲۶۷.

۱۹۰

انھوں نے اس سلسلے میں نظر دینے کو بہت سارے لو گو ں پر حرا م اور اس کو گمرا ہی اور نا دانی میں شما ر کیا ہے ۔( ۱ )

اس لحا ظ سے ان کے نز دیک علم منطق بھی حرا م ہے اور ان کے نزدیک منطق انسانی شنا خت اور معرفت تک رسا ئی کی رو ش بھی شما ر نہیں ہو تی ہے، با وجودیکہ علم منطق ایک مشہو ر ترین اور قدیم تر ین مقیاس و معیا ر ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کو ارسطو نے'' ار غنو ن'' نامی کتاب میں تد وین کیا ہے اور اس کا نام علم سنجش و میز ان رکھا ہے۔

اس روش کو اپنا نے والوں کی نظر میں تنہا علم منطق ذہن کو خطا و غلط فہمی سے محفو ظ رکھنے کے لئے کا فی نہیں ہے ،یہ لوگ کہتے ہیں بہت سارے اسلامی مفکرین جیسے کندی .فا رابی، ابن سینا ، امام غزالی ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد علم منطق میں ممتا ز حیثیت کے مالک ہیں، لیکن آرا ء وافکا ر اور نظریاتمیں آپس میں شد ید اور بنیا دی اختلا فات کا شکا ر ہو گئے ہیں،لہٰذا منطق حق و با طل کی میزان نہیں ہے ۔

البتہ آخری دورمیں اس گروہ کا موقف علم منطق اور علم کلا م کے مقابلہ میں بہت نرم ہو گیا تھا جیسے ابن تیمیہ کے موقف کو علم کلام کے مقا بل مضطرب دیکھتے ہیں ،وہ علم کلام کو کلی طور پر حرا م نہیں کرتا بلکہ اگر ضرو رت اقتضا ء کرے اور کلا م عقلی اور شرعی دلائل پر مستند ہو اور تخریب کا روں، زند یقوں اور ملحدوں کے شبہو ں کو جدا کرنے کا سبب ہو توا سے جائز سمجھتا ہے۔( ۲ )

اس کے با وجود اس نے منطق کو حرا م کیا اور اس کی ردّ میں '' رسا لة الر د علیٰ المنطقین'' نا می رسا لہ لکھا ہے: اور اس کے پیرو کہتے ہیں:'' ڈیکا رٹ فر انسیسی''(۱۵۹۶۔۱۶۵۰ئ) نے خطا وصوا ب کی تشخیص کے لئے ارسطا طا لیس کی منطق کے بجا ئے ایک نئی میزا ن اور معیا ر اخترا ع کیا اور تا کید کی کہ اگر انسا ن اپنے تفکر میں قدم بہ قدم اس کے اختر اعی مقیا س کو اپنا ئے تو صواب کے علا وہ کو ئی اور راہ نہیں پا ئے گا'' ڈکا رٹ'' کی رو ش کا استعمال کر نا یقین آور نتیجہ دیتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دورمعاصرمیں ڈکا رٹ کی روش سے جو امیدیں جاگیں تھیں ان کا حال بھی منطق ارسطو سے پائی جانے والی امیدوںکی طرح رہا اور میلاد مسیح سے لے کر اب تک کے موضوع بحث مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہ گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) امام جوینی: '' الار شاد الی قواطع الادلة '' ص۲۵، غزالی '' الجام العوام عن العلم الکلام '' ص ۶۶، ۶۷.ڈاکٹر احمد محمود صبحی : '' فی علم الکلام'' مقدمہ ٔ جلد اول

(۲)ابن تیمیہ :''مجموع الفتاوی ''ج۳ ،ص ۳۰۶ ، ۳۰۷.(۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود : '' التوحید الخالص'' ، ص ۵تا ۲۰.

۱۹۱

یہ و ہی چیز ہے جس کے باعث بہت سارے پہلے کے مسلما ن مفکر ین منجملہ امام غزا لی(۴۵۰۔۵۰۵ھ) روش عقلی کے ترک کر نے اور اسے مطر ود قرار دینے کے قا ئل ہوئے ، غز الی اپنی کتا ب ( تھا فة الفلاسفہ) میں عقلی دلا ئل سے فلسفیوں کے آراء و خیا لا ت کو باطل اور رد کرتا ہے ، غزالی کی اس کتاب میں دقت ا س بات کی گواہ ہے کہ وہ عقل جو کہ دلا ئل کا مبنیٰ ہے، وہی عقل ہے جو ان سب کو برباد کر دیتی ہے۔

غزالی ثابت کرتاہے کہ عالم الٰہیات اور اخلا ق میں انسا نی عقل سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حا صل ہونے والا نہیں ہے۔

اسلامی فلسفی ابن رشد اند لسی(متوفی ۔۵۹۵ھ) نے اپنی کتاب ( تھا فةالتہافت) میں غزا لی کے آراء و خیا لات کی رد کی ہے ، ابن رشد وہ شخص ہے جو اثبا ت کرتا ہے کہ عقل صریح اور نقل صحیح کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی تعا رض نہیں ہے ، اوریہ بات ا س کی کتاب (فصل المقال بین الحکمة و الشر یعة من الا تصا ل) سے واضح ہو تی ہے ، حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اس موقف میں '' ابن تیمیہ'' کے ساتھ اپنی کتاب ( عقل صریح کی نقل صحیح سے مو افقت) میں ایک نتیجہ پر پہنچے ہیں۔

پھر ابن تیمیہ کے دو نوں موقف: '' عقلی روش سے مخالفت اور عقل صریح کے حکم سے موافقت''کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ نہیں معلوم ۔

مکتب خلفا ء کے اہل حدیث اور مکتب اہل بیت کے اخباریوں کی روش ؛ نصوص شر عی،آیات وروا یات کے ظواہر کی پیروی کرنا اوررائے و قیا س سے حتی الامکان اجتناب کرنا ہے۔( ۱ ) ( سلفی مکتب) یا اہل حدیث کا مر کز اس وقت جز یرة العر ب (نجد کا علا قہ) ہے نیز ان کے کچھ گروہ عرا ق، شام اور مصر میں بھی پا ئے جاتے ہیں۔( ۲ )

ب: خالص عقلی مکتب

اس مکتب کے ماننے وا لے عقل انسا نی کی عظمت و شان پر تکیہ کر تے ہو ئے، شنا خت و معر فت کے اسباب و وسا ئل کے مانند، دوسروں سے ممتاز اور الگ ہیں ، یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے ''مکتب رائے''کے ماننے والے اور عقیدہ میں ''معتز لہ '' کہلاتے ہیں ۔

____________________

(۱) شیخ مفید ، '' اوائل المقالات ''؛سیوطی'' صون المنطق والکلام عن علمی المنطق والکلام'' ص ۲۵۲.شوکانی : ارشاد الفحول ؛ ص ۲۰۲ ؛ علی سامی النشار : ''مناھج البحث عند مفکری الاسلام''ص ۱۹۴ تا ۱۹۵،علی حسین الجابری ،الفکرالسلفی عند الاثنی عشر یہ ،ص ۱۵۴، ۱۶۷، ۲۰۴ ، ۲۴۰ ، ۴۲۴، ۴۳۹ .(۲)قاسمی '' تاریخ الجہمیہ والمعتزلة ''ص ۵۶۔ ۵۷.

۱۹۲

اس مکتب کی پیدائش تاریخ اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہوئی ہے ، سب سے پہلے مکتب اعتزال کی بنیاد'' واصل ابن عطا( ۸۰ھ، ۱۳۱ ھ) اور اس کے ہم کلا س '' عمر و بن عبید''( ۸۰ ھ۔ ۱۴۴ھ) منصور دوا نقی کے معاصر نے ڈالی ، اس کے بعد مامون عباسی کے وزیر'' ابی داؤد''اور قاضی عبد الجبا ر بن احمدہمدا نی،متوفی ۴۱۵''جیسے کچھ پیشوا اس مکتب نے پیدا کئے اس گروہ کے بزرگوں میں '' نظّا م''''ابو ہذ یل علاّف''''جا حظ'' اور جبا ئیان کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اس نظر یہ نے انسا نی عقل کو بہت اہمیت دی ،خدا وند سبحا ن اور اس کے صفات کی شناخت اور معرفت میں اسے اہم ترین اور قوی ترین شما ر کرتا ہے، شریعت اسلامی کا ادراک اور اس کی تطبیق و موا زنہ اس گروہ کی نگاہ میں ، عقل انسا نی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔

یہ مکتب ( معتز لہ) ہمارے زمانے میں اس نام سے اپنے پیرو اور یار ویاور نہیں رکھتا صرف ا ن کے بعض افکار'' زید یہ'' اور ابا ضیہ فرقے میں دا خل ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ'' معتزلہ'' کے ساتھ بعض افکار ونظریات میں شر یک ہیں اسی طرح '' معتز لہ'' شیعہ اثنا عشری اور اسما علیہ کے ساتھ بعض جو انب کے لحاظ سے ایک ہیں ،اہل حدیث( اخباریین عا مہ) نے'' معتزلہ'' کواس لحا ظ سے کہ ارادہ اور انتخاب میں انسان کی آزا دی کے قا ئل ہیں'' قدر یہ'' کالقب دیا ہے۔

عقائد میں ان کی سب سے اہم کتاب'' شر ح الاصول الخمسة'' قا ضی عبد الجبا ر معتزلی کی تا لیف اور ''رسائل العدل والتو حید'' ہے جو کہ معتز لہ کے رہبروں کے ایک گروہ جیسے حسن بصری ، قاسم رسی اور عبد الجبا ر بن احمد کی تالیف کردہ کتاب ہے۔

معتزلہ ایسے تھے کہ جب بھی ایسی قرا نی آیات نیز مروی سنت سے رو برو ہو تے تھے جو ان کے عقائد کے بر خلا ف ہو تی تھی اس کی تا ویل کرتے تھے اسی لئے انھیں '' مکتب تاویل'' کے ماننے والوں میں شما ر کیا جاتاہے، اس کے با وجود ان لوگوں نے اسلام کیلئے عظیم خد متیں انجام دی ہیں اور عباسی دور کے آغا ز میں جب کہ اسلام کے خلاف زبردست فکری اور ثقا فتی یلغا ر تھی اس کے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ، بعض خلفاء جیسے'' مامون'' اور'' معتصم ''ان سے منسلک ہو گئے ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی'' متو کل'' کے زمانے میں قضیہ برعکس ہو گیا اور ان کے نقصا ن پر تمام ہو ا اور کفر و گمرا ہی اور فسق کے احکا م یکے بعد دیگرے ان کے خلا ف صادر ہوئے، بالکل اسی طرح جس طرح خود یہ لوگ درباروں پر اپنے غلبہ و اقتدار کے زمانے میں اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے تھے اور جو ان کے آراء و نظریات کوقبول نہیں کرتے تھے انھیں اذیت و آزار دیتے تھے۔

۱۹۳

اس کی مزید وضاحت معتزلہ کے متعلق جد ید اور قدیم تا لیفا ت میں ملا حظہ کیجئے ۔( ۱ )

فرقۂ معتز لہ حسب ذیل پانچ اصول سے معروف و مشہور ہے :

۱۔توحید، اس معنی میں کہ خدا وند عالم مخلو قین کے صفات سے منزہ ہے اور نگا ہوں سے خدا کو دیکھنا بطور مطلق ممکن نہیں ہے ۔

۲۔ عدل، یعنی خدا وند سبحا ن نے اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا ہے اور اپنی مخلو قات کو گناہ کر نے پر مجبور نہیں کرتا ہے

۳۔ ''المنز لة بین المنز لتین''

یعنی جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے نہ مو من ہے نہ کافر بلکہ فا سق ہے۔

۴۔ وعدو وعید، یعنی خدا پر واجب ہے کہ جو وعدہ ( بہشت کی خو شخبری) اور وعید ( جہنم سے ڈرا نا) مومنین اور کا فرین سے کیا ہے اسے وفا کرے۔

۵۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ظالم حکام جو اپنے ظلم سے باز نہیں آ تے ،ان کی مخا لفت وا جب ہے۔( ۲ )

مکتب اشعر ی :ما تر یدی یا اہل سنت میں متوسط راہ

'' مکتب اشعر ی'' کہ آج زیا دہ تر اہل سنت اسی مکتب کے ہم خیال ہیں،'' معتزلہ مکتب'' اور اہل حدیث کے درمیان کا راستہ ہے ، اس کے بانی شیخ ابو الحسن اشعر ی(متوفی ۳۲۴ ھ ) خودابتدا میں ( چا لیس سال تک) معتز لی مذ ہب رکھتے تھے ،لیکن تقریبا ۳۰۰ ھ کے آس پاس جا مع بصرہ کے منبر پر جا کر مذ ہب اعتزا ل سے بیزا ری اور مذہب سنت وجما عت کی طر ف لوٹنے کا اعلان کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ایک میا نہ اور معتدل روش جو کہ معتزلہ کی عقلی روش اور اہل حد یث کی نقلی روش سے مرکب ہو ، لوگوں کے درمیان عام

____________________

(۱)زھدی حسن جار ﷲ:( المعتز لة) طبع بیروت، دار الا ھلےة للنشر و التو زیع، ۱۹۷۴ ئ.

(۲) قاسم رسی،'' رسا ئل العدل و التو حید و نفی التشبیہ عن ﷲ الوا حد الصمد'' ج،۱،ص ۱۰۵۔

۱۹۴

کریں، وہ اسی تگ ودو میں لگ گئے، تا کہ مکتب اہل حدیث کو تقو یت پہنچائیں اور اس کی تائید و نصرت کریں، لیکن یہ کام معتزلہ کی اسی بروش یعنی : عقلی اور بر ہا نی استد لا ل سے انجام دیاکرتے تھے اس وجہ سے معتز لہ اور اہل حدیث کے نز دیک مردود و مطرود ہو گئے اور دونو ں گر وہوں میں سے ہر ایک اب تک اہم اور اساسی اعترا ضا ت وارد کر کے ا ن کی روش کو انحرا فی اور گمراہ کن جانتا ہے، یہا ں تک کہ ان کے بعض شد ت پسند وں نے ان کے کفر کا فتویٰ د ے دیا ۔

ایک دوسرا عالم جو کہ اشعری کا معاصر تھا ، بغیر اس کے کہ اس سے کو ئی را بطہ اورتعلق ہو،اس بات کی کوشش کی کہ اسی راہ وروش کو انتخاب کر کے اسے با قی رکھے اور آگے بڑھائے ، وہ ابو منصور ما تر ید ی سمرقندی(متوفی ۳۳۳ھ) ہے وہ بھی اہل سنت کے ایک گروہ کا عقید تی پیشوا ہے، یہ دو نو ں رہبرمجمو عی طور پر آپس میں آراء و نظریات میں اختلا ف بھی رکھتے ہیں بعض لوگو ں نے ان میں سے اہم ترین اختلاف کو گیا رہ تک ذکرکیا ہے ۔( ۱ )

اشعر ی مکتب کی سب سے اہم خصو صیت یہ ہے کہ ایک طرف آیات و روایات کے ظا ہری معنی کی تاویل سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتا ہے، دوسری طرف کوشش کرتا ہے کہ''بلا کیف'' کے قول کے ذریعہ یعنی یہ کہ با ری تعا لیٰ کے صفا ت میں کیفیت کا گزر نہیں ہے '' تشبیہ و تجسیم'' کے ہلا کت بار گڈ ھے میں سے فرار کرتا ہے اور'' با لکسب'' کے قول سے یعنی یہ کہ انسان اپنے کردار میں جو کچھ انجام دیتا ہے کسب کے ذریعہ ہے نہ اقدا م کے ذریعہ ''جبر'' کی دلدل میں پھنسنے سے دوری اختیار کر تا ہے، اگر چہ علماء کے ایک گروہ کی نظر میں یہ روش بھی فکری واعتقا دی مسا ئل کے حل کے لئے نا کافی اور ضعیف و ناتواں شمار کی گئی ہے ،'' اشعری مکتب'' نے تدریجا ً اپنے استقلا ل اور ثبات قدم میں اضا فہ کیا ہے اور اہل حدیث ( اخبا ریین عا مہ) کے بالمقابل استقا مت کا مظا ہر ہ کیا اور عا لم اسلام میں پھیل گیا۔( ۲ )

____________________

(۱)دیکھئے: محمد ابو زہر ہ؛ '' تاریخ المذ اھب الاسلا مےة'' قسم الا شا عرہ و الما تر یدےة، آےة ﷲ شیخ جعفر سبحانی ، ا لملل والنحل، ج، ۱،۲، ۴، الفر د بل : ( الفرق الا سلا مےة فی الشما ل الا فر یقی) ص ۱۱۸۔ ۱۳۰، احمد محمود صبحی: ( فی علم الکلا م)

(۲)سبکی : ''الطبقات الشافعیة ج ۳، ص ۳۹۱ الیافعی '' مرآة الجنان '' ج ۳، ص۳۴۳. ابن کثیر ؛ '' البدایة والنہایة '' ج ۱۴، ص ۷۶.

۱۹۵

ج:۔ ذو قی و اشر اقی مکتب

بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں اور ایک علیحدہ اور جدا گانہ روش کہ جس میں کلامی مسائل جن کا اپنے

محور بحث اور منا قشہ ہے ان سے آزاد ہو کر صو فیوں کے رمزی اور عشقی مسلک کی پیروی کرتے ہیں، یہ مسلک تمام پہلؤوں میں فلسفیو ں اور متکلمین کی روش کا جوکہ عقل و نقل پر استوار ہے، مخا لف رہا ہے.'' منصور حلاج'' (متوفی ۳۰۹ھ) کوبغدا د میں اس مذ ہب کا با نی اور '' امام غزا لی'' کو اس کا عظیم رہبر شمار کیا ہے، غزالی اپنی کتاب''الجام العوا م عن علم الکلا م'' میں کہتا ہے ! یہ راہ '' خواص'' اوربر گز یدہ افراد کی راہ ہے اور اس راہ کے علاوہ( کلام و فلسفہ وغیرہ)''عوام'' اور کمتر در جے وا لوں نیزان لوگو ں کی راہ ہے جن کے اور عوام کے درمیان فرق صرف ادلہ کے جاننے میں ہے اور صرف ادلہّ سے آگا ہی استد لال نہیں ہے۔( ۱ )

بعض محققین نے عقائد اسلامی کے دریا فت کرنے میں امام غزالی اور صو فیوں کی روش کے بارے میں مخصوص کتا ب تا لیف کی ہے ۔( ۲ ) ڈاکٹر صبحی، غزا لی کی راہ و روش کو صحیح درک کر نے کے بعد کہتے ہیں:

اگر چہ غزالی ذا ت خدا وندی کی حقیقت کے بارے میں غو ر و خوض کرنے کو عوام پر حرا م جانتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ان کے متعلق کوئی انکار نہیں کرتا ، لیکن انھوں نے اد بائ، نحو یوں، محد ثین ،فقہاء اور متکلمین کو عوام کی صف میں قرار دیا ہے اور تاویل کو راسخون فی العلم میں محدود و منحصر جا نا ہے اور وہ لوگ ان کی نظر میں اولیا ء ہیں جو معرفت کے دریا میں غر ق اور نفسانی خواہشات سے منزہ ہیں اور یہ عبارت بعض محققین کے اس دعویٰ کی صحت پر خود ہی قر ینہ ہے کہ'' غزا لی'' حکمت اشرا قی و ذوقی وغیرہ... میں ایک مخصوص اور مرموز عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ان کے عام اور آشکار اعتقاد کے مغائر ہے کہ جس کی بنا ء پروہ لوگو ں کے نز دیک حجةالاسلام کی منزل پر فا ئز ہوئے ۔

ڈ اکٹر صبحی سوال کرتے ہیں:

کیا حقیقت میں را سخون فی العلم صرف صو فی حضرا ت ہیں اور فقہا ئ، مفسر ین اور متکلمین حضرات ان سے خارج ہیں؟!

اگر ایسا ہے کہ فن کلام کی پیدا ئش اور اس کے ظاہر ہو نے سے برائیوں میں اضافہ ہوا ہے توکیا یہ استثنائ(صرف صو فیوںکو را سخون فی العلم جاننا ) ان کے لئے ایک خاص مو قع فراہم نہیں کرتا ہے کہ وہ اس خاص موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نا روا دعوے اور نازیباگستا خیا ں کریں؟

____________________

(۱)''الجام العوام عن علم الکلام '' ص ۶۶تا ۶۷.

(۲) ڈاکٹر سلیمان دنیا ؛ '' الحقیقة فی نظر الغزالی ''

۱۹۶

تصوف فلسفی کے نظر یات جیسے فیض، اشرا ق اوراس کے ( شرع سے) بیگا نہ اصول بہت زیا دہ واضح ہیں،اور ان کا اسلا می عقائد کے سلسلے میں شر و نقصا ن متکلمین کے شرور سے کسی صورت میں کم نہیں ہے۔( ۱ )

لیکن بہر صورت ، اس گروہ نے اسلامی عقائد میں صو فیا نہ طر ز کے کثرت سے آثا ر چھو ڑے ہیں کہ ان کے نمو نوں میں سے ایک نمو نہ'' فتو حات مکیہ'' نامی کتاب ہے۔( ۲ )

د: حسی و تجر بی مکتب( آج کی اصطلا ح میں علمی مکتب)

یہ روش اسلامی فکر میں ایک نئی روش ہے کہ بعض مسلما ن دا نشو روں نے آخری صدی میں ، یو رپ کے معا صرفکر ی رہبر وںکی پیر وی میں اس کو بنایاہے ، اس روش کا اتباع کر نے والے جد ید مصر، ہند، عرا ق اور ان دیگر اسلا می مما لک میں نظر آتے ہیںجو غرب کے استعما ری تمد ن اور عا لم اسلا م پر وارد ہو نے والی فکری امواج سے متاثر ہوگئے ہیں۔

وہ لوگ انسا نی معرفت و شنا خت کے وسا ئل کے بارے میں مخصوص نظر یات رکھتے ہیں، حسی اور تجر بی رو شوں پر مکمل اعتماد کر نا اور پر انی عقلی راہ وروش اور ارسطو ئی منطق کو با لکل چھو ڑ دینا ان کے اہم خصو صیات میں سے ہے. یہ لوگ کو شش کرتے ہیں کہ'' معا رف الٰہی'' کی بحث اور ما وراء الطبیعت مسا ئل کو'' علوم تجربی''کی رو شوں سے اور میدان حس وعمل میں پیشکریں۔( ۳ )

اس جدید کلامی مکتب کے منجملہ آثار میں سے معجز ات کی تفسیر اس دنیا کی ما دی علتوں کے ذریعہ کرنا ہے ، اور نبو ت کی تفسیر انسا نی نبوغ اورخصو صیا ت سے کرنا ہے، بعض محققین نے ان نظر یات کی تحقیق و بر رسی کے لئے مستقل کتا ب تا لیف کی ہے۔( ۴ )

اس نظریہ کے کچھ نمو نے ہمیں '' سرسید احمد خان ہندی'' کے نو شتوں میں ملتے ہیں اگرانھیں اس مکتب کا پیرو نہ ما نیں ، تب بھی وہ ان لو گوں میں سے ضرور ہیں جو اس نظر یہ سے ہمسوئی اور نزدیکی رکھتے ہیں، اس نزدیکی کا

____________________

(۱) ڈاکٹر احمد محمود صبحی ؛ '' فی علم الکلام '' ج ۲، ص۰۴ ۶تا۶۰۶. (۲) شعرانی عبد الوہاب بن احمد ؛ '' الیواقیت والجواہر فی بیان عقاید الاکابر '' سمیع عاطف الزین ؛ '' الصوفیة فی نظر الاسلام '' تیسرا ایڈیشن ، دار الکتاب اللبنانی ، ۱۴۰۵ ھ ، ۱۹۸۵ ئ. (۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود: '' التو حید الخا لص اوا لا سلا م و العقل'' ، مقدمہ.

(۴)ڈا کٹر عبد الر زّ اق نو فل؛ '' المسلمو ن و العلم الحدیث''. فر ید وجدی؛'' الا سلام فی عصر العلم''.

۱۹۷

سبب بھی یہ ہے کہ انھوں نے غرب کے جد ید دا نشو روں کے آراء و نظریات کو قرآن کی تفسیر میں پیش کرکے اوراپنی تفسیر کو ان نظر یات سے پُر کر کے یہ کو شش کی ہے کہ یہ ثا بت کر یں کہ قرآ ن تمام جد ید انکشا فات سے مو ا فق اور ہماہنگ ہے،سر سیداحمد خا ن ہندی بغیر اس کے کہ اپنے نظریئے کے لئے کوئی حد ومر ز مشخص کریں، اوردینی مسا ئل اور جد ید علمی مبا حث میں اپنا ہد ف، روش اور مو ضو ع واضح کریں، ایک جملہ میں کہتے ہیں:'' پو را قرآ ن علوم تجر بی انکشافات سے مو افق اور ہم آہنگ ہے''۔( ۱)

ھ:اہل بیت کا مکتب راہ فطرت

اس مکتب یعنی راہ فطرت کاخمیر، اہل بیت کی تعلیمات میں مو جو د ہے، ان حضرات نے لوگو ں کے لئے بیا ن کیا ہے :'' اسلامی عقائد کا صحیح طریقہ سے سمجھنا انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطا بقت کے بغیر ممکن نہیں ہے'' اس بیان کی اصل قرآن و سنت میں مو جود ہے ، کیو نکہ قرآ ن کریم جہا ں با طل کا کسی صورت سے گزر نہیں ہے اس میں ذکر ہوا ہے:

(( فطرة ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لایعلمون ) سورہ روم :۳۰.

ﷲ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسا نوں کو خلق کیا ہے ، ﷲ کی آفر ینش میں کوئی تغیر اور تبد یلی نہیں ہے ، یہ ہے محکم آئین لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!

پروردگا ر عا لم نے اس آیت میں اشارہ فرمایا: دینی معارف تک پہنچنے کی سب سے اچھی راہ انسان کی فطر ت سلیم ہے، ایسی فطرت کہ جسے غلط اور فا سد معاشرہ نیز بری تربیت کاما حول بھی بد ل نہیں سکتا اوراسے خواہشات ، جنگ و جدا ل محوا ورنابود نہیں کر سکتے اور اس بات کی علت کہ اکثر لوگ حق و حقیقت کو صحیح طر یقے سے درک نہیں کر سکتے یہ ہے کہ خود خواہی ( خود پسند ی) اور بے جا تعصب نے ان کے نور فطرت کو خا موش کر دیا ہے، اور ان کے اور ﷲ کے واقعی علوم و حقائق کے اور ان کی فطری درک و ہدایت کے درمیا ن طغیا نی اور سرکشی حا ئل ہو گئی ہے اور دونو ں کے درمیا ن فا صلہ ہو گیا ہے۔

____________________

(۱)۔محمود شلو ت '' تفسیر القرآن الکریم'' الا جزاء العشر ة الا ولی'' ص ۱۱ ۔ ۱۴، اقبال لاہو ری: ( احیا ئے تفکر دینی در اسلا م) احمد آرام کا تر جمہ ص ۱۴۷۔۱۵۱ ، سید جمال الدین اسد آبادی: ( العر وة الو ثقیٰ) شمار ہ ۷ ،ص ۳۸۳ ، روم، اٹلی ملا حظہ ہو.

۱۹۸

اس معنی کی سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی تا کید ہو ئی ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت میں مذ کور ہے :

''کل مولودٍ یو لد علی الفطر ةِ فا بوٰ اه یهو دٰ ا نه او ینصرٰا نه او يُمجسانه' '( ۱ )

ہر بچہ ﷲ کی پا کیزہ فطرت پرپیداہوتاہے یہ تو اس کے ماں باپ ہیں جواسے ( اپنی تربیت سے) یہودی، نصرا نی یا مجو سی بنا دیتے ہیں۔

راہ فطرت کسی صورت عقل و نقل، شہود و اشرا ق ، علمی وتجر بی روش سے استفادہ کے مخا لف نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ راہ شنا خت کے اسباب و وسا ئل میں سے کسی ایک سبب اور وسیلہ میں محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنی جگہ پر خداوند عا لم کی ہدایت کے مطابق میں استعمال کرتی ہے ، وہ ہدا یت جس کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یمنو ن علیک أن أسلموا قل لاتمنوا علیّ اِسلا مکم بل ﷲ یمن علیکم أن هدا کم للاِیمان اِن کنتم صا دقینَ ) ( ۲ )

(اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )وہ لوگ تم پر اسلا م لانے کا احسان جتا تے ہیں ، تو ان سے کہہ دو! اپنے اسلام لا نے کا مجھ پر احسان نہ جتا ؤ ، بلکہ خدا تم پر احسان جتا تا ہے کہ اس نے تمھیں ایما ن کی طر ف ہدا یت کی ہے، اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو !

دوسری جگہ فرماتا ہے :( و لولا فضل ﷲ علیکم و رحمته ما زکیٰ منکم من أحدٍ أبدا ) () ( ۳ )

اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو تم میں سے کو ئی بھی کبھی پاک نہ ہو تا ۔

اس راہ کا ایک امتیاز اور خصو صیت یہ ہے کہ اس کے ما ننے وا لے کلا می منا ظر ے اور پیچیدہ شکو ک و شبہات میں نہیں الجھتے اور اس سے دور ی اختیا ر کرتے ہیںاور اس سلسلے میں اہل بیت کی ان احا دیث سے استنا د کرتے ہیں جو دشمنی اور جنگ و جدا ل سے رو کتی ہیں، ان کی نظر میں وہ متکلمین جنھیں اس راہ کی تو فیق نہیں ہو ئی ہے ان کے اختلا ف کی تعداد ایک مذ ہب کے اعتقادی مسا ئل میں کبھی کبھی ( تقریبا)سینکڑوں مسائل تک پہنچ جاتی ہے۔( ۴ )

____________________

(۱) صحیح بخاری: کتاب جنائز و کتاب تفسیر ؛ صحیح مسلم : کتاب قدر ، حدیث ۲۲تا ۲۴.مسند احمد : ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۷۵، ۲۹۳، ۴۱۰، ۴۸۱، ج۳،ص ۳۵۳؛ صراط الحق: آصف محسنی (۲)سورہ حجرات ۱۷

(۳)سورہ ٔ نور ۲۱.

(۴) علی ابن طاؤوس ، ''کشف المحجة لثمرة الحجة '' ص ۱۱اور ص ۲۰، پریس داروی قم

۱۹۹

یہ پا کیزہ '' فطرت'' جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اہل بیت کی روایات میں کبھی ''طینت اور سرشت'' اور کبھی'' عقل طبیعی'' سے تعبیر ہو تی ہے، اس مو ضو ع کی مز ید معلو مات کے لئے اہل بیت کی گرانبہا میرا ث کے محا فظ اور ان کے شیعوں کی حد یث کی کتا بوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہیں۔( ۱ )

اسلامی عقا ئد کے بیان میں مکتب اہل بیت کے اصول و مبا نی

عقائد میں ایک مہم ترین بحث اس کے ماخذ و مدارک کی بحث ہے ، اسلامی عقائد کے مدا رک جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے،صرف کتاب خدا وندی اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور دیگرمکاتب میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ مکتب اہل بیت پوری طرح سے اپنے آپ کو ان مدا رک کا تا بع جانتا ہے اور کسی قسم بھی کی خو اہشات ، ہوائے نفس اوردلی جذ با ت اور تعصب کو ان پر مقدم نہیںکرتا اور ان دونوں مر جع سے عقائد حاصل کرنے میں صرف قرآ ن کریم اور روایات رسول اسلام میں اجتہاد کے اصول عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے ، ا ن میں سے بعض اصول یہ ہیں:

۱۔ان نصوص و تصر یحا ت کے مقا بلے میں ، جو معا رض سے خالی ہوں یا معارض ہو لیکن نص کے مقا بل استقا مت کی صلا حیت نہ رکھتا ہو، کبھی اجتہا د کو نص پر مقد م نہیں رکھتے اس حال میں کہ بعض ہوا پر ستوں اور نت نئے مکتب بنا نے وا لوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لغو اور بیہودہ تا ویلا ت کے ذریعہ اپنے آپ کو نصوص کی قید سے آزا د کر لیں ،عنقریب اس کے ہم چند نمو نوںکی نشان دہی کریں گے۔

حضرت امام امیر المو منین ـ ''حارث بن حوط'' کے جو اب میں فرما تے ہیں :

''انک لم تعرف الحقّ فتعرف من اتاه و لم تعرف البا طل فتعرف مَن أتا ه ''( ۲ )

تم نے حق ہی کو نہیں پہچا ناکہ اس پر عمل کرنے والوں کو پہچا نو اور تم نے باطل ہی کو نہیں پہچا نا کہ اس پر عمل کر نے والوں کو پہچا نو۔

۲۔ دوسرے لفظوںمیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں: مکتب اہل بیت کے ما ننے وا لے کسی چیز کو نص اوراس روایت پر جو قطعی اور متو اتر ہو مقدم نہیں کرتے اور یہ اسلام کے عقیدہ میں نہایت اہم اصلی ہے ، کیو نکہ عقائد میں ظن و گما ن اور اوہام کا گزر نہیں ہے ، اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے جو کہ ''سلفی'' نقطۂ نظر رکھتے ہیں ، نیز

____________________

(۱)کافی کلینی: ترجمہ ، ج۳، ص ۲، باب طینة المؤمن والکافر ، چوتھا ایڈیشن ، اسلامیہ تہران ، ۱۳۹۲ ھ.(۲)نہج البلا غہ، حکمت:۲۶۲:

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

جادوگر ،شعيب(ع) ، قرآن، لوط(ع) ، مؤمنين، آنحضرت(ع) ، موسي(ع) ،ہارون

''ث''

ثروت:كا سرچشمہ ۲۰/۱۳۱نيز ر_ك ثروتمند لوگ :عذاب ،كفار

ثمود:ر_ك قوم ثمود

ثواب :ر_ك پاداش

''ج''

جادو:كے اثرات ۲۰/۶۶،۶۹ ،اس كے نفسانى اثرات ۲۰/۶۶; _سے اجتناب كرنا اسكى اہميت ۲۰/۶۹; _ كے احكام ۲۰/۶۹;_ سے استفادہ كرنا ۲۰/ ۵۸ ; _ كا بے قدر و قيمت ہونا ۲۰/۶۹;_ كى پيروى كرنا :اسكے موانع ۲۱/۳;_ كى تاريخ ۲۰/۵۸ ،۶۵;_كا سكھينا۲۰/۷۱;_ كا سكھانا ۲۰/۷۱ ; _ فرعون كے زمانے ميں اسكى خصوصيات ۲۰/۶۵;_ قديم مصر ميں ۲۰/۵۸;_ كا حرام ہونا ۲۰/۶۹;_ كا گناہ ۲۰/۷۳;_ ميں جگہ :اس كا كردار ۲۰/۶۹

نيز ر_ك استغفار ،انبياء ،توبہ ،فرعونى ،قرانى ، آنحضرت ،معجزہ ،موسي، ہارون،جادوگر وہ كى شكست ۲۰/۶۹;_وں كا قتل ۲۰/۶۹;_وں كا مكر ۲۰/۶۹;_وں كا ناامن ہونا ۲۰/۶۹

جاودانگى :ر_ك آدم،انبيائ،بہشت،بہشتى لوگ، معاشرہ ،جہنم، خدا ،درخت روح،عذاب ،كفار

جاہليت :كى رسوم ۲۲/۲۸،۳۰،۳۶;_ كے محرمات ۲۲/ ۳۶;_ كے مشركين :انكى سورح ۲۲/۲۸،۳۳;_ ان كا عقيدہ ۲۲/۷۳

نيز ر_ك بت پرستى ،حج،دين،شرك،قرباني

عقيدہ جبر كى طرف تمايل ر_ك بنى اسرائيل

جبر و اختيار ۲۰/۱۱۶،۱۲۳

جدال:ر_ك مجادلہ

جرم:ے اثبات كى ادلہ ۲۱/۶۱نيز ر_ك گناہ

جزا:ر_ك پاداش ،سزا،جزا و سزا كا نظام

جزيرہ العرب:كے لوگ اور حج ۲۲/۲۵;_ اور مسجد الحرام ۲۲/۲۵

۶۶۱

جنگ:كے احكام ۲۲/۴۰;_ كى دھمكى ۲۱/۱۰۹;_ داود كے زمانے ميں ;_كا خطرہ۲۱/۸۰

جوانى :كا زمانہ ۲۲/۵;_ اس كا اختتام ۲۲/۵;_ ميں قدرت ۲۲/۶نيز ر_ك ابراہيم ،انسان

جھوٹ:كے اثرات ۲۰/۱۲۱;_سے اجتناب كرنا ۲۲/ ۳۰; _ جائز ۲۱/۶۳;_مصلحت والا ۲۱/۶۳نيز ر_ك ابراہيم ،گواھي

جھوٹ بولنا:ر_ك ابراہيم(ع) ،انبيائ، سامري، شعيب، شيطان، لوط(ع) ،مؤمنين،آنحضرت(ع)

جہاد:كے اثرات ۲۲/۴۰،۴۱;_ كے احكام ۲۱/ ۱۰۹، ۲۲/۳۹;_ ميں اخلاص ۲۲/۷۸;_ كى قدر و قيمت ۲۲/۷۸;_ كى اہميت ۲۲/۸۷;_ كى تشريع :اسكى تاريخ ۲۲/۴۰;_ كى نصيحت ۲۲/۷۸;_حق كو قبول نہ كرنے والوں كے خلاف ۲۱/۱۰۹; _ ظالموں كے خلاف ۲۲/۳۹،۴۰;_ كافروں كے خلاف ۲۱/۱۰۹;_ مشركين كے خلاف ۲۱/۱۰۹;_ دفاعى ۲۲/۳۹،۴۰;_كا فلسفہ ۲۲/۳۹،۴۰نيز ر_ك مؤمنين،مسلمان

جہان :ر_ك خلقت

جہالت:كے اثرات ۲۰/۵۲،۲۱/۲۴،۲۲/۵۴;_كى نشانياں ۲۲/۷۱نيز ر_ك بنى اسرائيل ،جہلا ،خدا ،كفار ،مشركين، نبوت

جھگڑا:ر_ك قرباني،آنحضرت(ص) ، مشركين

جلدى فراموش كر دينا:ر_ك آدم

جذبات:مادرى _ ۲۲/۲نيز ر_ك انبيائ، تبليغ، فرعونى لوگ، مشركين مكہ ، موسى

جلد بازي:_ كے اثرات ۲۰/۱۱۴; _ كى مذمت ۲۱/۳۷نيز ر_ك انسان، عمل، كفار، كفار مكہ، آنحضرت(ص) ، موسى ، وعدہ، يونس

جلانا:ر_ك ابراہيم :سامري

جوڑا جوڑا ہونا :ر_ك بناتات

۶۶۲

جہنم:كا كھولتا ہوا پانى ۲۲/۱۹ ،۲۰;_كى آگ ۲۲/ ۵۱، ۷۲; _ كا محيط ہونا ۲۱/۳۹;_ كسى خوفناكى ۲۱/۱۰۲;_كا متنوع ہونا ۲۲/۱۹;_ كى شدت ۲۱/۳۹،۲۲/۴;_ كى گرمى كى شدت۲۲/۹;_كى آواز ۲۱/۱۰۲;_كى صفات ۲۱/۱۰۲;_ كى خصوصيات ۲۲/۹،۲۲;_ كا ايندھن ۲۱/۹۸;_ كى پينے كى چيزيں ۲۲/۲۰;_كالوہا ۲۲/۲۱;_ ميں ہميشہ رہنے والے ۲۰/ ۷۴،۲۱/۴۰ ،۹۹، ۲۲/۲۲، ۵۱; _ ميں ہميشہ رہنا ۲۰/۷۴ ،۲۱/۹۹ ،۲۲/۲۲ ; _ جحيم ۲۲/۵۱;_ كى حقيقت ۲۲/۴;_ ميں زندگى ۲۰/۷۴;_ سے دورى :اس كا سرچشمہ ۲۱/۱۰۱; _ سعير۲۲/۴;_ كا منحوس ہونا ۲۲/۷۲;_ كے عذاب ۲۲/۱۹،۲۰،۲۱;_ان كا متنوع ہونا ۲۲/۵۷;_ ان كا دائمى ہونا ۲۰/۷۴;_ كى سختى ۱ ۲۰/۷۴، ۲۲/ ۲۱;_كى خصوصيات ۲۲/۵۷;_ كے كارندے ۲۲/۲۲;_ان كا غضب ۲۲/۲۲;_ ان كے مغضوب لوگ ۲۲/۲۲;_ كے آھنى گرز۲۲ / ۲۱ ، ۲۲;_ كى گرمى :اسكى شدت۲۲/۴،۲۲;_ميں مدت ۲۰/۷۴;_ كے موجبات ۲۰/۷۴ ،۲۱/ ۲۹، ۴۰ ،۸ ۹، ۹۹، ۲۲/۴ ،۱۰، ۱۹،۲۵ ، ۵۷; _كا ناگہانى ہونا ۲۱/۴۰;_كے نام ۲۲/۴،۵۱;_ سے نجات ۲۱/ ۴۰ ، ۲۲/۲۲;_ اس كا وعدہ ۲۱/۱۰۱;_ كى خصوصيات ۲۲/۵۱نيز ر_ك :بت ،بہشتى لوگ،خوف،خدا،ظالم لوگ،كفار ،مؤمنين،مشركين،باطل معبود،يقين،

جہنمى لوگ۲۰/۷۴;_وں كى جلد ;اس كا پگھل جانا ۲۲/۲۰;_وں كى حالات ۲۲/۲۲;_وں كا دل اور رودہ :ان كا پگھل جانا ۲۲/۲۰;_وں كى سماعت :اسكے موانع ۲۱/ ۱۰۰; _ وہ كا عذاب :اس كا ذريعہ ۲۲/۲۱;_وں پر غضب :۲۲/۲۲;_وں كا برا انجام ۲۲/۷۲ ; _ وں كى فرياد :اسكے اثرات ۲۱/۱۰۰;_وں كا لباس ۲۲/۱۹;_وں كى محروميت ۲۱و۴۰;_وں كا نقش و كردار ۲۱/۹۸

جواب :ر_ك ابراہيم ،قيامت،گناہ كار لوگ

جوابدہ ہونا :ر_ك راہبران

''چ''

چشمہ:ر_ك بہشت چروديا ر_ك موسي(ع)

چاند:_ كا ہونا ۲۲/۱۸; _ كا خالق ۲۱/; _ كى خلقت ۲۱/۳۳; _ كو سجدہ ۲۲/۱۸; _ كى گردش ۲۱/ ۳۳

چوپائے:چوپائيوں كا تغذيہ ۲۰/۵۴;_چوپائيوں كا چرنا ۲۰/۵۴;_چوپائيوں كى خلقت اس كا فلسفہ ۲۰/ ۵۴; _چوپائيوں كا گوشت :اس كا حلال ہونا ۲۲/ ۳۸ ، ۳۰

۶۶۳

''ح''

حجاج:كا حج كى قربانى سے استفادہ كرنا ۲۲/۲۸;_كى حقوق :ان پر ڈا كہ ڈالنا ۲۲/۲۵نيز ر_ك حج مكہ

حكمرانى :كا پيش خيمہ ۲۱/۱۰۵نيز ر_ك خدا كے بندے ،خدا،شفاعت، صالحين، عقيدہ ،قيامت

حب:ر_ك محبت

حج:كے اثرات ۲۲/۲۸،۳۴،۳۷;_كے آداب ۲۲/۲۷;_كے احكام ۲۲/ ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۳، ۳۴،۳۶;_كى بركتيں ۲۲/۲۸ ; _ تاركين ;_ قيامت ميں ۲۰/۱۲۴; _ تاركين حج كا آخرت ميں اندھاپن ۲۰/۱۲۴;_كى تاريخ ۲۲/۲۵;_كى تعليمات ۲۲/ ۲۸;_ ميں تقصير ۲۲/۲۹;_ اسے موخر كرنا ۲۲/۲۹;_ ميں تكبير ۲۲/۲۸;_ اديان آسمانى ميں ۲۲/۳۴;_ جاہليت ميں ۲۲/۳۰;_كا خير ہونا ۲۲/۲۸;_ كى دعوت ۲۲/۲۷;_دين ابراہيمى ميں ۲۲/۲۷;_ ميں گا ئے ذبح كرنا ۲۲/۲۸;_ ميں بھيڑ بكرى ذبح كرنا ۲۲/۲۸;_ ميں رمى حجرات ۲۲/۲۹;_ ميں سرمنڈا نا ۲۲/۲۹;_ ميں طواف ۲۲/۲۹;_ اسے موخر كرنا ۲۲/۲۹;_ كى فضيلت ۲۲/۳۰;_ بيدل ;_كى فضيلت ۲۲/۲۷;_ كا فلسفہ ۲۲/۲۸;_ كى قربانى ۲۲ / ۲۸،۲۹;_ اس سے استفادہ كرنا ۲۲ / ۳۳، ۳۶;_ كے گوشت سے استفادہ كرنا ۲۲/۲۸;_ اس سے اطعام كرنا ۲۲/۳۶;_ اس كى اہميت ۲۲/۳۷;_ اسكے ذريعہ سامان اٹھانا ۲۲/۳۶;_ اس كى كمال ۲۲/۲۸ ; _ اسے موخر كرنا ۲۲/۲۸;_اسكى تعظيم ۲۲/۳۲;_ اس ميں اختيار دينا ۲۲/۳۲;_ اسے كھانا ۲۲/۳۶;_ اس پر سوارى كرنا ۲۲/۳۶;_ اس كا اونٹ ۲۲/ ۳۴، ۳۶;_اس كا دودھ ۲۲/۳۶;_اس كا تقدس ۲۲/۳۲;_اديان آسمانى ميں حج قربانى ۲۲/۳۴ ; _ اسكى گائے ۲۲/۳۴;_اس كے بھيڑبكرے ۲۲/۳۴ ; _ اس كا گوشت ۲۲/۲۸;_اسكے اونٹ كو نحر كرنا ۲۲/۳۶;_ اس پر علامت لگانا ۲۲/ ۳۲، ۳۶;_ اس كا وقت ۲۲/۲۸،۲۹،۳۰;_كے فوائد ۲۲/۲۸ ; _ كے اخروى فوائد ۲۲/۲۸;_كے دنيوى فوائد ۲۲/۲۸;_ميں اونٹ كو نحر كرنا ۲۲/۲۸;_ميں نذر كرنا ۲۲/۲۹;_كے واجبات ۲۲/۲۸،۲۹نيز ر_ك ابراہيم ،جزيرہ العرب، حجاج، ذكر، دينى راہنما،آنحضرت(ع)

حدود الہى :كى اہميت ۲۲/۳۲;_سے تجاوز كرنا :اسكے اثرات ۲۲/۳۰;_اس سے اجتناب كرنا ۲۲/۳۰;_ كى تحقير :اسكے اثرات ۲۲/۳۰;_كى تعظيم :اسكے اثرات ۲۲/۳۰;_اسكى اہميت ۲۲/۳۰

حرم: ميں شكار كرنا ،اس كا كفارہ ۲۲/۳۲

حروف مقطعہ :۲۰/۱

حزن:ر_ك غم

۶۶۴

حق:اسے ثابت كرنا :اسكے احكام ۲۱/۱۰۹;_اسكى روش ۲۱/۱۰۹;_كا محكم ہونا ۲۱;_۱۸;_سے اعراض كرنا : اسكے عوامل ۲۱/۲۴;_ كى كاميابى ۲۱/۱۸;_اس كا سرچشمہ ۲۱/۱۹;_اسكے موارد ۲۱/۱۸;_كى تشخيص ۲۱/۴۸،۲۲/۱۷;_ اسكى اہميت ۲۱/۲۴;_ اس كا پيش خيمہ ۲۰/۵۴;_اسكے شرائط ۲۱/۴۸;_كو قبول كرنا : اس كا پيش خيمہ ۲۱/۴۸;_،۲۲/۵۴;_دشمن عناصر : ان كے خلاف مبارزے كے اثرات ۲۱ / ۷۱;_انہيں نصيحت كرنا ۲۲/۴۶;_انكى اخروى سزا ۲۲/۹;_انكى ہلاكت كے موانع ۲۰/۱۲۹;_دشمني: اسكے موانع ۲۱/۴،۳۹;_طلا پرستى :اسكے اثرات ۲۱/۴۱;_اسكى درخواست ۲۰/۲۵;_اس كا فطرى ہونا ۲۱/۵۵;_كو قبول نہ كرنے والے ۲۱/ ۴۵; _انكى اذيتيں ۲۱/۱۱۲;_ان كے دنيوى وسائل ۲۱ / ۱۱۱;_انہيں ڈرانا ۲۱/۱۰۹;_انكى دھمكى ۲۱/ ۱۰۹ ; _ انكى شكست ۲۱/۱۰۹;_ان كا عذاب ۲۱/ ۱۱۰ ; _ انكے عذاب كو موخر كرنے كا فلسفہ ۲۱/۱۱۱;_ ان كے عذاب كا وقت ۲۱/۱۰۹;_انكى سزا ۲۱/۱۱۰;_كو متنبہ كرنا ۲۱/۱۱۰;_ صدر اسلام كے ;_كو قبول نہ كرنے والے :ان كى آزمائش ۲۱/۱۱۱;_ ان كے عذاب كو موخر كرنا ۲۱/۱۱۱;_ ان كے عذاب كے موخر كرنے كا فلسفہ ۲۱/۱۱۱;_ ان كى شكست كا وقت ۲۱/۱۱۱;_ كو قبول نہ كرنا :اسكے اثرات ۲۱/ ۴۱ ، ۴۵، ۹۷; _ اس كا پيش خيمہ ۲۰/۵۶;_ اس كا نقصان ۲۱/۷۰;_ اسكے عوامل ۲۱/۹،۲۴،۹۷;_ كا دفاع كرنا :اسكے اثرات ۲۱/۷۱;_ كا انجام ۲۱/۸;_ و باطل كا مقابلہ ۲۱/۱۸;_ كے ساتھ مجادلہ :اسكے اثرات ۲۲/۹;_ و باطل كو تميز دينے والا ۲۱/۴۸;_ كا كردار ۲۱/۱۱۲نيز ر_ك اقرار ،بنى اسرائيل،جہاد،خدا،خود ،قسم،ظالم لوگ،عقيدہ،فرعون،قوم لوط، مستكبرين ، كفار،مشركين،مايوس،

حقائق:كا ادراك اس كا پيش خيمہ ۲۱/۳،اس سے محروميت كے عوامل ۲۲/۴۶;_ اس كا مركز ۲۲/۴۶; _ كا ظہور :اسكے عوامل ۲۰/۱۳۵نيز ر_ك قيامت

حق پرست لوگ:وہ كى نصرت ۲۲/۴۰;_وں كا نقش و كردار ۲۱/۱۸نيز ر_ك فرعوني

حقوق :كو ضائع كرنا: اسكے موانع ۲۱/۹۴ ;_استفادہ كرنے كا حق ۲۲/۶۵;_ حق دفاع ۲۰/۹۴ ، ۲۲/ ۳۹، ۴۰،وطن ميں رہنے كا حق ۲۲/۴۰نيز ر_ك انبياء ، انسان، حجاج، ملزمين، لوگ، مسجدالحرام،مسلمان،مكہ كے مسلمان،مظلوم لوگ ، موحد لوگ

حكمت :

۶۶۵

ر_ك خدا ،لوط(ع) ،نوح(ع)

حكومت:دائمى :اس تك پہنچانا۲۰/۱۲۰;_اسكى درخواست ۲۰/۱۲۰;_ كاسرچشمہ ۲۲/۷۸نيز ر_ك :خدا كے بندے ،خدا ،صالحين ، فرعون

حلال چيزيں : ۲۲/۲۸ ، ۳۰

حمل:كا رحم ميں ٹھہرنا۲۲/۵;_ اسكى مدت ۲۱/۱۰۹;_ كا امن :اس كا نفسيانى امن ۲۲/۲;_اس كا سرچشمہ ۲۲/۵;_ اسقاط ۲۲/۵;_ كى جگہ ۲۲/۵نيز ر_ك قيامت

حمد:خدا كى ۲۱/۸۹،۲۲/۶۴;_ اسكے اثرات ۲۰/ ۱۳۰;_ اسكے آداب ۲۰/۱۳۰;_ اسكى اہميت ۲۰/۳۴;_ يہ رات كى وقت ۲۰/۱۳۰;_ يہ مبارز ميں ۲۰/۱۳۰;_ يہ نماز ميں ۲۰/۱۳۰;_ اس كى تسلسل كا پيش خيمہ ۲۰/۳۴;_ اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۳۰;_ اس كى فضيلت ۲۰/۱۳۰;_ اس كا سرچشمہ ۲۲/۶۴;_ اس كا وقت ۲۰/۱۳۰;_ طلوع سے پہلے ۲۰/۱۳۰;_ غروب سے پہلے ۲۰/۱۳۰;_نيز ر_ك تسبيح ،دعا،موسي

حوا:كا دہو كہ كھانا ۲۰/۱۲۱;_ اسكے اثرات ۲۰/۱۲۳;_ كو ڈرانا :اس كا فلسفہ ۲۰/۱۱۷;_ كا لباس ۲۰/۱۱۸;_ كا آدم (ع) كى پيروى كرنا ۲۰/۱۲۱;_ كى كفالت ۲۰/۱۱۷;_ بہشت ميں :ان كى بہشت ميں شرعى ذمہ دارى ۲۰/۱۱۷;_ ان كى بہشت ميں رہا ئشے ۲۰/۱۱۷;_ اور ممنوعہ درخت ۲۰/ ۱۲۱، ۱۲۳;_ كے دشمن ۲۰/۱۱۷;_ كا كھانا ۲۰/۱۱۸;_ كى نافرمانى ۲۰/۱۲۱;_ اسكے اثرات ۲۰/۱۲۱;_ اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۲۱;_ كى شرمگاہ :اسے چھپانا ۲۰/۱۲۱;_ اسے ظاہر كرنا ۲۰/۱۲۱;_ اسے ظاہر كرنے كے عوامل ۲۰/۱۲۱;_ كا غريزہ ۲۰/۱۲۱;_ كے فضائل ۲۰/۱۱۷;_ كى محروميت :اسكے عوامل ۲۰/۱۲۱،۱۲۳;_ كى مشكلات ۲۰/۱۱۷;_ كا معلم ۲۰/۱۲۳;_ كى مادى ضروريات ۲۰/۱۱۸;_ كا اترنا :اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۲۳;_ اسكے عوامل ۲۰/۱۲۳;_ اس كا فلسفہ ۲۰/۱۲۳;_ كو خبردار كرنا ۲۰/۱۲۱نيز ر_ك آدم

حاملہ ہونا :ر_ك مريم

حامل لوگ:صدر اسلام كے ۲۲/۳;_ انكى دشمنى ۲۲/۹;_وں كى ذمہ دارى ۲۱/۷نيز ر_ك جاہليت ،جہالت

حوصلہ:افزائي كے عوامل ۲۰/۶

نيز ر_ك انبياء ،مؤمنين،آنحضرت

۶۶۶

حيوانات:_كى خلقت اس كا فلسفہ ۲۲/۶۵

''خ''

خيانتكار لوگ:_وں كى ناشكرى ۲۲/۳۸;_وں كى محروميت ۲۲/۳۸

خدا تعالى كى امداد:جنكے شامل حال ۲۱/۶۹

خدا تعالى كى حمايت :_سے محروم لوگ ۲۲/۳۸;_ جنكے شامل حال ہے ۲۲/۳۸

خوبصورتى :ر_ك زمين،قران

خاشعين : ۲۱/۹۰

خاضعين : ۲۱/۹۰

خانہ خدا:ر_ك كعبہ

خالقيت:ر_ك اقرار ،توحيد، خدا، ربوبيت، باطل معبود، سچے معبود

خدا:_كى بخشش :۲۰/۷۳ ،۸۲،۹۰;_ان كا پيش خيمہ ۲۰/۸۲;_ انكى وسعت ۲۰/۸۲;_ كا خلق كرنا ۳۱/۵۶;_ كا اتمام حجت كرنا ۲۰/ ۵۶، ۱۳۴، ۲۲/۴۸;_ اس كا سرچشمہ ۲۰/۱۳۴;_ كا احاطہ ہونا ۲۰/۵;_ اس كا علمى احاطہ ۲۲/۷۰،۷۶;_ اس كے دلائل ۲۰/۶;_ اسكى نشانياں ۲۲/۶۳;_كا احترام ۲۱/۲۸;_ كى خصوصيات ۲۰/۶، ۹۸ ،۱۱۰، ۱۱۴، ۲۱/۴، ۱۷، ۲۱ ، ۲۳، ۳۳، ۴۴ ،۶۶، ۷۹ ، ۸۱، ۸۳، ۱۱۰، ۲۲/۶ ،۱۲ ،۱۵ ،۱۷، ۳۴، ۵۶، ۵۸، ۶۲،۶۴،۷۳،;_كا اختيار ۲۰/۵۰;_ كے اختيارات ۲۰/۷۳، ۲۱/ ۴۴، ۲۲/۴۱،۷۶;_كى اجازت ۲۰/ ۱۰۹، ۲۲/۳۹، ۶۵;_ اسكے اثرات ۲۰/۲۹، ۲۱/ ۸۷، ۲۲/۶۵;_ اسكے عوامل ۲۰/ ۱۱۰; _ كا ارادہ ۲۰/ ۱۲۴،،۲۱/۴۴;_ اسكے اثرات ۲۰/۱۵، ۲۱/ ۲۳، ۵۵، ۱۰۲، ۱۲۸، ۲۱/۱۱ ،۷۱ ،۷۲، ۸۱ ،۱۰۵، ۲۲/ ۵،۱۶،۴۵،۵۲،۵۴،۶۶;_اسكى اہميت ۲۱/۷۰; _ اس كا قطعى ہونا ۲۲/۱۴;_ اسكى حكمرانى ۲۰/۷۷، ۷۸، ۱۳۴، ۲۱/۳۹، ۴۲، ۶۹; _ كا متعلق ۲۱/۱۷ ;_ كے مجارى ۲۰/۱۰ ، ۲۱/۷۷ ، ۲۲/۵، ۴۰، ۶۳، ۶۵ ;_ اس كى نشانياں ۲۲/۵;_ اس كا نقش و كردار ۲۲/۶۵;_ كا عرش پر مستوى ہونا ۲۰/۵ ;_ كا مذاق اڑانا ۲۱/۱۳،۲۲/۷۲;_ پر اعتراض كرنا :اس كا ناپسنديدہ ہونا ۲۱/۲۳;_سے روگردانى كرنا :اسكے اثرات ۲۰/۱۲۴;_ اسكے سز ۲۰/۱۲۴ ;_ كا افشا كرنا ۲۱/۴;_ كے افعال ۲۰/ ۲،۵۰، ۵۳، ۱۰۶، ۱۲۴، ۱۲۵، ۱۲۸، ۲۱/۱۱ ،۳۲، ۸۱، ۹۴، ۲۲/۵،۱۴،۳۸۸ ، ۷۰;_ انكى حقانيت ۲۱/ ۲۳ ; _ ان ميں حكمت ۲۱/۳۱;_ ان كا راز ۲۰/۱۱۰;_ ان كا تحت قانون ہونا ۲۱/۲۳;_ ان كے مجارى

۶۶۷

۲۲/۵;_كى پناہ لينا ۲۱/۸۳;_ كى امانت ۲۲/۳۸;_ كے امتحان ۲۰/۸۵ ، ۱۳۱ ،۲۲/۱۱;_ ان ميں كاميابى كے شرائط ۲۰/۹۰;_ يہ سب كيلے ۲۱/۳۵;_ كا احسان ۲۲ /۷۸;_ كى امداد كرنا ۲۱/۴۷;_ كى طرف سے امداد ۲۰/۸۵ ، ۲۲/ ۱۵، ۷۳ ;_ اسكے اثرات ۲۰/۴۶;_ اسكى اخرو ى امداد ۲۲/۱۵;_ اسكى اہميت ۲۱/۸۸;_اس كا پيش خيمہ ۲۱/۷۱،۱۱۲;_ كا ڈرانا ۲۰/۱۶،۱۱۷;_ اس كا فلسفہ ۲۰/۱۱۷;_ كے اوامر ۲۰/۱۲ ، ۱۳، ۱۴، ۱۹، ۲۱، ۲۲، ۲۴، ۳۹، ۴۳، ۴۷، ۶۹، ۱۰۵ ،۱۰۶ ،۱۱۶ ،۲۱/ ۶۹ ،۲۲/ ۲۷،۶۵،۶۷،۷۲;انكى حكمرانى ۲۲/۶۵; _ اس كا فلسفہ ۲۰/۱۲۱;_ ان كا اجراء كرنے والے ۲۰/۳۹،۷۷،۷۸;_ان كا كردار ۲۱/۷۳;_ كا مشركين كے ساتھ سلوك :اسكے بارے ميں سوال ۲۰/۵۱;_ كى بشارتيں ۲۰ / ۱۲۳ ، ۲۱/۱۸ ،۴۴، ۱۰۵ ; _كى بصيرت ۲۰/۳۵، ۲۲/ ۱ ۶،۷۶;_كا بينا ہونا ۲۰/۴۶;_ اسكے اثرات ۲۰/۴۶;_ كا بے مثل و بے مثال ہونا ۲۰ / ۱۱۴، ۲۲/۶۴،۷۳;_ كا بے نياز ہونا ۲۰/ ۱۱۱، ۲۱/ ۴۷،۲۲/۶۴;_كى پاداش ۲۲/۵۸، ۵۹;_ اس كا تسلسل ۲۰/۷۳;_ اس كا پيش خيمہ ۲۱/۹۴;_ اسكے شرائط ۲۲/۵۰;_ اسكى خصوصيات ۲۰/۷۳;_ سے سوال پوچھنا ۲۰/۱۲۵ ، ۱۲۶;_ اس كا فلسفہ ۲۰/۲۰;_ اس كا ناپسنديدہ ہونا ۲۱/۲۳;_ كے خلاف پروپيگنڈا كرنا ۲۰/۱۳۰;_ كى تدبير ۲۰/۵ ،۳۸، ۷۰، ۱۱۱ ، ۱۲۹ ،۲۲/۶۲;_ اسكے دلائل ۲۰/۶ ; _ اس كا مركز ۲۱/۲۲;_ اسكى نشانياں ۲۰/۵،۲۲/ ۶۲،۶۳;_ كى ترغيب ۲۰/ ۱۲۸ ،۲۱/۱۰،۴۴;_ كى تعليمات ۲۰/۳۹، ۵۰،۱۰۵،۱۱۴، ۱۲۳، ۲۱/۷۳، ۸۰/۲۲ /۶۸ ; _انكى اہميت ۲۰/۱۵،۲۱/۴۸;_ ان سے بے اعتنائي كرنا ۲۰/۹۶;_ ان كے سمجھنے كى درخواست ۲۰/۲۵;_ كا منزہ ہونا ۲۰/۸، ۵۲، ۲۱/۲۲ ،۲۶ ،۸۷،۲۲/۱۰،۶۷;_اسكى فضيلت ۲۰ / ۳۳;_ كى نصيحتيں ۲۰/ ۱۴، ۱۷، ۴۲،۸۱، ۱۱۴، ۱۱۵، ۱۳۰، ۱۳۲ ،۲۲/ ۱،۱۲،۲۶، ۳۰، ۳۲، ۳۷، ۴۰، ۴۴، ۴۵، ۴۶، ۵۳ ،۵۵، ۵۹ ،۶۰ ،۶۸ ،۷۷، ۷۸، انكى اہميت ۲۰/۱۶;_ ان پر عمل كرنا ۲۰/۱۱۵;_ ان پر عمل كرنے كے اثرات ۲۰/۱۱۵;_ كى دھمكيان ۲۱/۹ ،۱۱،۱۸;_ ان كا قطعى ہونا ۲۰/ ۱۲۸ ; _ كا جاويد ہونا ۲۰/۷۳،۲۱/۸۹;_ اسكے اثرات ۲۰/۱۱۱;_ كى حكمرانى ۲۰/۵،۶ ،۱۱۴، ۱۲۷ ،۲۱/ ۴۴; _ اس كا دائمى ہونا ۲۰/۱۱۴;_ كى اخروى حكمرانى ۲۰ / ۱۰۸ ، ۱۰۹، ۲۲/۱۵۶;_ اسكى حقانيت ۲۰/۱۱۴;_ اسكى نشانياں ۲۰/۷،۱۱۴;_ كى حجت ۲۱/۱۰۶ ،۲۲/ ۷۸; _ كا محاسبہ اس كا دقيق ہونا ۲۱/۴۷;_ اسكى خصوصيات ۲۱/۴۷;_ كا حاضر ہونا ۲۰/۵۲;_ كى حقانيت ۲۰/ ۱۱۴،۲۲/۶;_ پر حق ۲۱/۲۳;_ كى حكمت ۲۰/۱۱۴، ۲۱/۸۱;_ اسكى نشانياں ۲۲/۵۲;_ كى حكومت :اسكى حقانيت ۲۰/۱۱۴;_ كى حمايت ۲۰/۴۰،۵۰،۷۵;_ اسكے شرائط۲۲/۳۸;_ كا خالق ہونا ۲۰/۴، ۵۰، ۷۲، ۲۱/۱۷ ،۳۳ /۵۶ ،۲۲/ ۵;_اسكى نشانياں ۲۱ / ۱۰۴;_ شناسي:اسكے اثرات ۲۲/۷۴;_ ناقص خدا شناسى كے اثرات

۶۶۸

۲۲/۷۴ ;_ اسكى دعوت كى اہميت ۲۰/۱۴;_ عقلى خدا شناسي۲۲/۸;_ فطرت خداشناسى ۲۲/۸ ; _ اسكے دلائل ۲۲/۶۲;_ اسكى روش ۲۰/۵۰;_ اسكے مباني۲۰/۸۹;_ اور باطل ۲۰/۱۱۴ ;_ اور جہالت ۲۰/۵۲;_ اور روزى ۲۰/ ۱۳۲ ; _ اور شريك ۲۱/ ۹۹ ;_اور ظلم ۲۰/ ۱۱۲ ،۲۱/ ۴۷، ۲۲/ ۱۰;_ اور فراموشى ۲۰/۵۲;_ اور بيٹا ۲۱/۲۶;_ اور لہو ولعب ۲۱/۱۷;_ اور فرشتے ۲۱/۲۶;_اسكے اثرات ۲۱/۴۹;_ كے حضور خاضع ہونا ۲۰/۱۱۱ ،۲۲ /۷۷; _ اسكے عوامل ۲۰/۷۰;_ اسكى نشانياں ۲۰/۷۰ ،۱۱۱;_ كا خبر ہونا ۲۰/۷۳;_ كے دشمن ۲۰/ ۲۴، ۳۹، ۲۲/۱۱;_كى دشمنى ۲۲/۶۰;_كى دعوت ۲۱/ ۷، ۸۰، ۲۲/۷۷;_ كا رازق ہونا ۲۰/۸۱، ۱۳۱، ۱۳۲/ ۲۲/۳۴،۵۸،۲۲/۲۸;_كا رئوف ہونا :اسكى نشانياں ۲۲/۶۵;_كى ربوبيت ۲۰/ ۴۱، ۴۶، ۵۰، ۹۰، ۱۱۴، ۲۱/ ۳۳، ۴۶، ۵۶، ۱۱/ ۱، ۱۹، ۳۰، ۴۰،۴۷،۵۴،۶۷،۷۷;_اسكے اثرات ۲۰/ ۲۵، ۵۰، ۸۴، ۸۶، ۱۱۴، ۱۳۳، ۱۳۴، ۲۱/۲، ۸۳، ۸۹، ۹۲، ۱۱۲، ۲۲/ ۳۰;_اسكے دلا ئل ۲۰/ ۵۰، ۱۳۳; _ اسكے شوئون ۲۱/۱۱۲;_ اسكى شناخت ۲۰/۵۵;_ اس كا مركز ۲۱/۲۲;_ اسے جھٹلانے والے ۲۰/۵۰، ۱۳۳، ۲۲/۱۹;_اسے جھٹلانے والوں كى سزا ۲۲/۲۱;_ اسے جھٹلانے والے جہنم ميں ۲۲ / ۱۹،۲۱;_اسكى نشانياں ۲۰/۲۱، ۲۶، ۴۷ ،۵۳ ، ۵۴ ، ۷۰، ۷۳، ۷۴ ، ۱۰۵، ۱۲۲، ۱۲۵ ، ۱۲۷ ،۱۳۱ ، ۱۳۳ ، ۲۲/۶; _ ۶۲، ۶۳،۶۵،۶۶;_اسكى خصوصيات ۲۰/۵۲;_ كا رحمن ہونا ۲۰/۹۰;_ اسكے اثرات ۲۰ / ۱۰۹;_اسكى اہميت ۲۱/۳۶;_ اسے جھٹلانے كا غير منطقى ہونا ۲۱/۳۷;_ اس كى اخروى رحمانيت ۲۰/۱۰۸;_ اس كوجھٹلانے والے ۲۱/ ۳۶; _ اسكى نشانياں ۲۰/۵;_ كى رحمت ۲۱/ ۸۳، ۸۶، ۱۰۷;_ اسكے اثرات ۲۱/ ۲۶ ،۸۳، ۱۰۷; _اسكى توقع ۲۰/۱۰۸;_اس كا بے مثال ہونا ۲۱/۸۳;_ اس كا مقدم ہونا ۲۱/۷۵،۱۱۲;_ اسكى نشانياں ۲۱/۸۴،۱۰۹،۲۲/۶۵;_ اس كا تسلسل ۲۱/ ۴۲;_ اسكى رحمت عام ۲۱/۴۲;_ اس كا پيش خيمہ ۲۱/۷۵ ،۱۱۲;_ اسكى نشانياں ۲۱/۸۴، ۱۰۹، ۲۲/ ۶۵;_ اسكى وسعت ۲۰/۵;_ پر ذمہ دارى كا پلٹانا ۲۱/۲۳ ; _ كى رضامندى :اسكے اثرات ۲۰/ ۱۰۹، ۲۱/ ۲۸ ; _ اسے حاصل كرنے كے اثرات ۲۱/۲۸;_ اسكے تشخيص كا پيش خيمہ ۲۰/۸۴;_ اس كا پيش خيمہ ۲۰/ ۸۴ ،۱۰۹;_كى روح ۲۱/۹۱;_اسكى نشانياں ۲۱/۹۱ ;_ كا دن اسكى مدت ۲۲/۴۷;_پر سبقت ۲۱/۲۷;_كى طرف سے سرزنش ۲۰/ ۸۳، ۸۹، ۸۹،۲۱/۵۰،۲۲/۳،۸،۹،۴۶;_كى سنتيں ۲۰/ ۱۲۹ ،۲۱/۷، ۱۸، ۴۴، ۸۸، ۹۶ ،۲۲/ ۴۰، ۴۴ ; _انكى حاكميت كے اثرات ۲۰/۱۲۹;_انكے علم كے اثرات ۲۰/۱۳۰;_ ان كا قطعى ہونا ۲۰/ ۱۲۹ ; _ ان سے راحتى ہونا ۲۰/۱۳۰;_كى سماعت ۲۰/ ۴۶، ۲۱/ ۴،۲۲/۶۱،۷۶;_اسكے اثرات ۲۰/۴۶;_ كى عبوديت :اسكے اثرات ۲۱/۱۰۵،۱۰۶;_ اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۰۶;_ كا عادل ہونا ۱۰/۱۱۲ ،۲۱/ ۴۷ ، ۱۱۲ ، ۲۲/۱۰;

۶۶۹

_كے بارے ميں شكست كا ناپسنديدہ ہونا ۲۲/۱۰;_ كے عذاب ۲۲/۱;_ ان كے اثرات ۲۰/۱۳۴،۲۱/۴۶;_ان كا مذاق اڑانا ۲۰/۱۳۵،۲۱/۳۸،۲۲/۴۷;_ ان كا سخت ہونا ۲۰/۷۱،۲۱/۴۶;_ ان كا عام ہونا ۲۱/۲۹;_ ان كا قانون كے مطابق ہونا ۲۱/۳۷;_ انہيں جھٹلانےوالے ۲۰/۵۱،۲۲/۴۷;_ انكى خصوصيات ۲۲/ ۱۸،۴۴;_كا عزيز ہونا ،اسكے اثرات ۲۲/۴۰;_ اسكے دلائل ۲۱/۴۴;_ اسكے نشانياں ۲۲/ ۷۶; _ كے عطيہ ۲۰/۲۵، ۳۶، ۵۰، ۹۹، ۱۳۱ ،۲۱/ ۷۲، ۷۴ ،۸۴،۹۰،۲۲/۲۸،۳۴، ۳۵

خوف خدا ركھنے والے لوگ:_ قرآن ۲۰/۳;_وں كى مدح ۲۲/۳۵

خدمات:دوسروں كى :انكى تاثير كى عوامل ۲۰/۳۱

خرافات:كے خلاف مبارزت۲۱/۵۲

خدا كے محبوب:_ كے مفادات ۲۰/۳۹

خرد:ر_ك عقل/خشوع:كے اثرات:۲۱/۹نيز ر_ك انبيائ،اولياء اللہ، دعا،ذكريا،يحيي

خشيت:كے اثرات۲۰/۳;_كى اہميت ۲۰/۳;_ مخفى ۲۱/ ۴۹; _اسكى قدرو قيمت ۲۱/۴۹نيز ر_ك خدا كے بندے ،خدا، متقين، معصومين ، مقربين،فرشتے

خصومت:ر_ك دشمني خدا كے مغضوبين :۲۰/۸۶، ۲۲/۴۵_ كى توبہ ۲۰/۸۲; _ كا انجام ۲۰/۸۱; _ كى ہلاكت ۲۰/۸۱

خدا كے كارندے: ۲۱/۲۷ بڑائي ر_ك تكبر

خدا كى طرف بازگشت: ۲۱/۳۵،۹۳،۲۲/۴۸كا حتمى ہونا ۲۱/۹۵

خدا كى سنتيں :مہلت والى سنت ۲۰/۱۲۹،۲۲/۴۴;_ نجات دينے والى سنت ۲۱/۸۸نيز ر_ك خدا ،معاشرہ ،قديم مصر كے باشندے

خدا تعالى كا فضل:يہ جنكے شامل حال ہے ۲۱/ ۷۲، ۷۴

خدا كى رافت و رحمت :يہ جنكے شامل حال ۲۲/۶۵نيز ر_ك مسجدالحرام،نماز

خلقت:كا پلٹانا۲۱/۱۰۴;_كا ختم ہونا۲۲/۲;_كا انہدام ۲۱/۱۰۴، ۲۲/۲، ۷،۶۵;_اسكے عوامل ۲۱/۲۲; _ اس كا قصہ ۲۲/۱;_اس كا ساتھ كھاپنا ۲۱/ ۱۶; _

۶۷۰

كوبقا:اس كا سرچشمہ ۲۰/۱۱۱;_كى پيوستگى ۲۱/ ۳۰ ; _كى تدبير ۳۰/۱۱۱;_اس كا مركز ۲۱/۲۲;_اس كا سرچشمہ ۲۲/۷۱;_كى تقدير۲۰/۵۰;_كا حاكم ۲۰/ ۷ ، ۱۱۴، ۲۱/۴۴ ;_كا خالق ۲۱/۳۳، ۵۶;_كى خلقت :اس كا آغاز ۲۱/۳۰;_ اسكى پہلى خلقت ۲۱/۱۰۴; _ اسكے مراحل ۲۱/۳۰;_كے راز ۲۱/۹۱; _كے ساتھ كھيلنا۲۱/۳۳،۵۶;_كا شعور ۲۲/۱۸; _ كا انجام ۲۰/۱۰۵،۲۲/۱،۲،۷;_كا فاسد ہونا : اسكے عوامل ۲۱/۲۲;_كا تحت قانون ہونا ۲۰/۱۱۴، ۲۱/۱۶، ۱۷، ۱۸;_كے گواہ ۲۲/۱۷;_كا مالك ۲۰/۶، ۱۱۴، ۲۲/۶۴ ;_كا مدبر ۲۰/۵، ۲۱، ۲۳، ۲۲/۷۱;_اس كا متعدد ہونا ۲۲/۷۳;_اسكى شناخت۲۰/۵۵;_اسكى خصوصيات۲۰/۵۲;_كا رب۲۱/۵۶،۲۲/۶۴;_كا محفوظ ہونا ۲۲/۶۵; _ كا مطالعہ :اسكى اہميت ۲۱/۳۰;_كا نابودى :اسكے عوامل ۲۱/۲۲;_كا ناپائيدارى ۲۲/۷۵،اسكے دلائل ۲۲/۷،اس كا وضع ہونا ۲۲/۷;_كا نظام ۲۰/۱۱۴، ۲۱/۱۰۴، ۲۲/۶۵، اس كا تبديل ہونا ۲۱/۱۰۴ ;_ميں نظم :اس كا سرچشمہ ۲۱/۲۲;_كى نگہداشت ۲۲/۶۵;_كى نيازمندى ۲۲/۶۴ ; _ كا ہدف مند ہونا۲۱/۱۷;_كى ہماہنگى ۲۱/۲۲نيز ر_ك تدبر، تعقل، فرعون، فرعوني، قيامت

خوشخبري:ر_ك بشارت

خبرہ لوگ:_وں كا كلام;اسكى اہميت۲۱/۷

خاص موارد ترقي:كے عوامل ۲۰/۳۱

خوبصورتى :ر_ك زمين،قران

الساعہ :۲۰/۱۵،۲۱/۴۹

خضوع:ر_ك انسان ،خدا،سركش لوگ،عبادت، قيامت ، گناہ كار لوگ،مقربين،فرشتے ،يونس(ع)

خطرہ:اس كا پيش خيمہ۲۱/۴۵نيز ر_ك اديان آسمانى ،انبياء ،بنى اسرائيل، داود(ع) ،شيطان،غفلت،فرعونى لوگ،كفار،

خلقت:مٹى سے ۲۲/۵،۶،۷

(خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں )

خواري:ر_ك ذلت

خود:اعتمادى :اسكے اثرات ۲۱/۶۴;_ سے بيگانہ ہونا : اسكے عوامل ۲۱/۶۴;_سے دفاع كرنا ۲۰/۹۴ ، ۲۲/۳۹;_ كا كلام :اس پر عمل كرنا ۲۰/۱۳۲;_ كو مذمت ۲۱/۶۴;_پر ظلم ۲۱/۸۷ ، ۸۸،۲۲/۲۵;_

۶۷۱

اشاريے (۳)

اسكے اثرات ۲۱/۸۸

خود كو برتر سمجھنا :ر_ك تكبر

خود پسندي:ر_ك تكبر

خودكشي:كى مذمت۲۲/۱۵

خوشبختي:ر_ك سعادت

خوش گذرانى كرنے والے لوگ:وہ كا ظلم۲۱/۱۴

خوف:ر_ك ڈر

خيانت:ر_ك امانت،مؤمنين،مشركين

خبر:كا پيش خيمہ ۲۲/۳۰;_كے عوامل ۲۲/۳۰;_سے مراد ۲۱/۳۵;_ كا سرچشمہ ۲۰/۷۳ ، ۲۱/۵۰، ۸۰; _ كا وسط۲۱/۸۰ (خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں )

خير خواہى :ر_ك شيطان

''د''

دار الكفر:ر_ك ہجرت

دنيا كى طرف بازگشت :_كا محال ہونا ۲۱/۹۵ ،۹۶نيز ر_ك آرزو

دانش :ر_ك علم

داود(ع) :اور سليمان (ع) كا اختلاف ۲۱/۷۸;_ كى پيش قدمى ۲۱/۹۰;_كى تسبيح ۲۱/۷۹;_ كا جنگجو ہونا ۲۱/۸۰;_ كے زمانے كے لوگوں كو دعوت ۲۱/۸۰;_ كى زرہ سازى ۲۱/۸۰;_ اس كا فلسفہ ۲۱/۸۰;_ كا دفاعى اسلحہ ۲۱/۸۰;_ كى صفات ۲۱/۸۰;_ كا علم لدنى ۲۱/۷۰;_ كا عمل خير ۲۱/۹۰;_ كے فضائل ۲۱/۷۹;_ كا قصہ ۲۱/۷۸،۸۰;_ اسكى كھيتى ۲۱/۷۸;_ اسكى كھيتى كا نقصان ۲۱/۷۸ ، ۷۹; _كى قضاوت ۲۱/۷۸،۷۹;_ اسكے مبانى ۲۱/ ۷۸;_اس كا مقام ۲۱/۷۹;_اس كا ناظر ۲۱/۷۸ ;_ كى آسمانى كتاب ۲۱/۱۰۵;_ كا معجزہ ۲۱/۸۰;_ كا معلم ۲۱/۸۰;_ كا مقام و مرتبہ ۲۱/۷۸،۷۹;_ كا سليمان كے ساتھ مناظرہ ۲۱/۷۸;_ كى نبوت:اسكے دلائل ۲۱/۸۰نيز ر_ك جنگ ،ذكر ،سليمان

۶۷۲

دايہ:ر_ك موسي

درخت:جاودانگى كے درخت تك پہنچانا ۲۰/۱۲۰;_ كا انقياد ۲۲/۱۸;_ كا سجدہ ۲۲/۱۸;_ نيز ر_ك بہشت ، شرمگاہ

دل:_ كى بيماري: اسكے اثرت ۲۲/۵۳; اس كا پيش خيمہ ۲۱/۳; _ كى نرمي: اسكے اثرات ۲۲/۵۴; _كا سالم ہونا: اس كا پيش خيمہ ۲۲/۵۴; _ كے فوائد ۲۲/۸، ۳۲، ۴۶; _ كا سخت ہونا; اسكے اثرات ۲۲/۵۳; اسكے عوامل ۲۲/۵۴; _ كى جگہ ۲۲/ ۴۶

نيز ر_ك علمائ، كفار، آنحضرت(ص) ، مشركين

دل كا اندھاپن:اسكے اثرات ۲۲/۴۶; اسكى نشانياں ۲۲/۴۶نيز ر_ك انبيائ، كفار، مشركين

دريائے نيل:كا مطيع ہونا ۲۰/۳۹;_ كى تاريخ ۲۰/ ۳۹; _ حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں ۲۰/۳۹;_ كى جغرافيائي حيثيت ۲۰/۳۹نيز ر_ك بنى اسرائيل ،موسي

درہ:اسكے فوائد۲۱/۳۱

درہ طوبي:كااحترام۲۰/۱۲;_ ميں اعجاز :اس كا فلسفہ ۲۰/۱۲ ; _ كى پاگيزگى ۲۰/۱۲;_كا تقدس ۲۰/۱۲;_ كى فضيلت ۲۰/۱۲;_ ميں جوتے اتارنا۲۰/۱۲;_ كى جغرافيائي موقعيت ۲۰/۱۲;_ كا كردار ۲۰/۳۶نيز ر_ك موسي(ع)

دشمن:_وں كى سازش :اسكے شكست ۲۱/۷۰;_سے نجات ۲۱/۹;_ كا سرچشمہ ۲۱/۹نيز ر_ك :آيات الہى ،اسلام، انبيائ، انسان، توحيد،خدا،دشمني،دين،ظالم لوگ،قرآن، مؤمنين ، تجاوز كرنے والے ،مسلمان، مشركين، موحدين،نعمت

دشمن:_وں سے نجات۲۰/۱۲۳;_اسكے عوامل ۲۰/۱۲۳نيز ر_ك :ابليس،گذشتہ اقوام، انبيائ،ا نسان، جہاں خدا،دشمن،دينں زمين،راھبران،

شيطان،سركشى كرنے والے،ظالم لوگ، فرعون، قران،كفار،متكبرين،آنحضرت،عيش و عشرت پرست لوگ،متكبرين،اسراف كرنے والے ،مشرك ين،معبد

دعا:_كے اثرات ۲۰/۲۵، ۲۶، ۲۷، ۳۱، ۳۲، ۳۶، ۲۱، ۸۴، ۸۸،۹۰;_كے آداب ۲۰/۲۵، ۱۱۴ ،۲۱/ ۸۳، ۸۷، ۸۸،۸۹،۹۰ ;_كى قبوليت ۲۱/۸۴ ; اس كا پيش خيمہ ۲۱ / ۸۳،۹۰; اسكے عوامل ۲۱/۸۸;

۶۷۳

اس كا سرچشمہ ۲۱ / ۸۴;_ميں اخلاص ۲۱/۸۸;_ ميں اسماء و صفات ۲۱/۸۹;_ ميں التجا۲۱/۸۳;_ ميں اميد ركھنا ۲۱/۹۰ ; _اسكے اثرات ۲۱/۹۰ ; _ ميں ہاتھ بلند كرنا ۲۱/۹۰;_ كو تر_ك كرنا :اسكى مذمت ۲۲/ ۱۲; _ ميں تسبيح ۲۱/۸۷;_ كا نياز كے ساتھ تناسب ۲۱/۸۹;_ ميں تہليل ۲۱/۸۷ ; _ ميں حمد ۲۱/۸۹ ; _ ميں خشوع ۲۱/۹۰;_ علم ميں اضافہ كيلئے ۲۰/۱۱۴;_ سخت اوقاتى ميں ۲۱/۸۳;_ كى دعوت ۲۲/۱۲;_كا پيش خيمہ ۲۱/۸۳;_ كى فضيلت ۲۰/۳۵;_ كا وقت ۲۰/۱۳۰

نيز ر_ك ايوب(ع) ،زكريا(ع) ، آنحضرت(ع) ، موسي(ع) ، نوح(ع) ،يحيي(ع) ، يونس(ع)

دعوت:عملي:اسكى اہميت۲۰/۱۳۲;_كى روش ۲۰/۱۳۲;_ نيز ر_ك :اتحاد ،انبيائ،سرتسليم خم كرنا ،توحيد، حج،خدا،دعا،دين،راھبران،شكر،كوہ طور ،گمراہ لوگ،مؤمنين،مبلغين،لوگ،مشركين، مشركين مكہ،نماز،ہدايت

دفاع:كے اثرات ۲۲/۴۰،مشروع_۲۲/۳۹،۴۰

نيز ر_ك :آسمانى اديان ،مقدس مقامات، بت، بت پرست لوگ،حق،خود،دين،مظلوم،معبد

دليل:ر_ك برھان

دنيا:_كا انجام ۲۱/۱۰۵;_كا مالك ۲۲/۱۵;_ كا كردار ۲۰/۱۵نيز ر_ك :دنيا كى طرف بازگشت ،كفار

دنيا پرست لوگ :_وں سے بے اعتنائي ۲۰/۱۳۱

دنيا پرستي:_كے اثرات ۲۰/۱۳۱،۲۱/۲،۳،۱۳،۲۲/۱۱;_كى مذمت ۲۰/۱۳۱;_كے موانع ۲۰/۱۳۲;_ كا ناپسنديدہ ہونا ۲۰/۷۲نيز ر_ك ظالم لوگ

دوزخ:ر_ك جہنم

دوزخى لوگ:ر_ك جہنمى لوگ

دولت:ر_ك حكومت

دين:دينى آسيب شناسي۲۰/۱۶،۲۱/۲;_ كے مختلف پہلو:اسكے اخروى پہلو۲۲/۲۸; اسكے مادى پہلو ۲۲/۲۸; اسكے معنوى پہلو ۲۲/۲۸;_ كے ذريعہ اتمام حجت كرنا ۲۰/۱۳۴;_ اصول ۲۰/ ۱۶، ۲۱/۹۲;_ ميں مجبور كرنا :اسكى نفي۲۲/۴۹;_ كى اہميت ۲۱/۶۷،۲۲/۳۲;_ كے ساتھ كھيلنا :اس كا پيش خيمہ ۲۱/۲;_ بے دينى :اسكے نقصان كا اعلان

۶۷۴

۲۱/۶۶ ;_ دينى سوالات :ان كا جواب ۲۱/۷;_ كى تبليغ :اسكى روش ۲۱/۱۰۹;_ كے خلاف پروپيگنڈا ۲۰/۱۳۰;_ كے حامى :انكى نصرت ۲۲/۴۰;_ كى حقانيت :اسكے ظہور كا پيش خيمہ ۲۰/۱۳۵;_ كے دشمن :انكى ہلاكت كا قانون مند ہونا ۲۱/۱۶;_ انكى سزا ۲۲/۹;_ كے ساتھ دشمنى :اسكے اثرات ۲۲/۳۸;_ كے طرف دعوت :اسكى روش ۲۱/۱۰۹;_ كا دفاع۲۲/۴۰;_ دشمن: انكى شكست ۲۱/۳۷; انكى سزا كا وعدہ ۲۱/۳۸;_ انكى ہلاكت ۲۱/۳۷;_ دشمنى زمانہ جاہليت ميں ۲۲/۳۰;_ شناسى :اسكى اہميت ۲۱/۲۴;_ كے منابع ۲۱/۴۵;_ اور عينيت ۲۱/۲۸;_ سے سوء استفادہ كرنا ۲۰/۹۶;_ كا پيش خيمہ ۲۰/۹۶;_ كا فلسفہ ۲۱/۱۰۷،۲۲/۴۹;_ كى پابندى ۲۰/۱۶;_كا نزول تدريجى ۲۰/۱۰۵;_ كى نصرت ۲۲/۴۰;_ اس سے اجتناب كے اثرات ۲۲/۴۰;_ كا كردار ۲۱/۴۵،۲۲/۳۸نيزر_ك ابراہيم ،اتحاد ، اختلاف، اسلام ، معاشرہ ،حج، گھرانہ ،طواف،غفلت،فرعون نواز لوگ، كفار، تمايلات، مسلمان،نعمت، نماز

دينى علمائ:_ كا احترام ۲۱/۷; _ كا كلام: اسكى حجيت ۲۱/۷; صدر اسلام كے _ ۲۱/۷; زمان بعثت كے _: انكى سوچ ۲۱/۷; _ كى معاشرتى حيثيت ۲۱/۷نيز ر_ك علماء

ديندار لوگ:_وں كو نصيحت۲۲/۴۰;_وں كا مددگار ۲۲/۴۰

ديندارى :كے اثرات ۲۲/۱۵;_ كى اہميت ۲۲/۵۸;_ كے فوائد;ان كا اعلان ۲۱/۶۶

دريائے نيل:كا مطيع ہونا ۲۰/۳۹;_ كى تاريخ ۲۰/ ۳۹; _ حضرت موسى كے زمانے ميں ۲۰/۳۹;_ كى جغرافيائي حيثيت ۲۰/۳۹نيز ر_ك بنى اسرائيل ،موسي

دن:كا خالق ۲۱/۳۳;_ كى خلقت ۲۱/۳۳;_ كى گردش ۲۲/۶۱،۶۲نيز ر_ك تسبيح ،خدا،رات،فرعون،موسي

دينى راہنما:_وں كا مذاق اڑانا :اسكے اثرات ۲۱/۴۱;_وں كا گمراہ كرنا ۲۰/۷۹;_ رشتہ دار ان كے سزا ۲۰/۹۲;_وں كو تسلى دينا :اسكے عوامل ۲۱/۴۱;_وں كا زھد ۲۰/۱۳۱;_وں كى عبرت ۲۰/۹;_وں كا عمل :اس كا معيار ۲۱/۷۳;_وں كى قدرت ۲۰/۳۱;_وں كے ساتھ مبارزت ;اس كا نقصان ۲۱/۷۰;_وں كى ذمہ داري۲۰ /۸۳، ۸۶، ۹۲، ۱۳۱، ۲۲/ ۲۶، ۲۷;_وں كا دائرہ ۲۰/۲;_وں كے ساتھ حج ميں ملاقات۲۲/۲۷;_وں كا نقش و كردار ۲۰/ ۸۵، ۲۱/۸۰،۲۲/۲۷;_وں كا معاشرتى كردار ۲۰ / ۸۵ ;_وں كى خصوصيت ۲۰/۲۵;_ كا ہدايت كرنا ۲۰ / ۷۹

۶۷۵

داڑھي:كى تاريخ ۲۰/۸۴;_اديان آسمانى ميں ۲۰/۹۴;_نيز ر_ك ہارون

''ذ''

ذبح:كے احكام۲۲/۲۸،۳۳،۳۴،۳۶;_ميں بسم اللہ ۲۲/۲۸،۳۴;_كى تعليم ۲۲/۲۸;_ ميں قبلہ ۲۲/۳۳;_ميں خدا كے نام ۲۲/۳۴;_ميں واجبات ۲۲/۳۳نيز ر_ك حج،ذبيحہ ،قرباني،گائے ،بھيڑ، بكري

ذبيحہ:بسم اللہ كے بغير:اسكى حرمت۲۲/۳۰نيز ر_ك حج

ذمہ دار لوگ :_ وں كى ضرورت: اسے پورا كرنا ۲۰/۳۶نيز ر ك: گھرانہ، روزي، عمل، كاركردگى دكھانے والے، ذمہ داري

ذمہ داري:_ عطا كرنا: اسكے شرائط ۲۲/۷۵نيز ر_ك ذمہ دار لوگ

ذكر :۲۰/۹۹انسان كا ۲۱/۱۰;_ موجودات كے مطيع ہونے كا : اسكے اثرات ۲۲/۱۸;_كعبہ كى تعمير كا ۲۲/۲۶;_ تاريخ كا :اسكى اہميت ۲۰/۸۰;_ خدا كى تدبير كا : اسكے اثرات ۲۰/۱۳۰;_ فطرت كى تسخير كا :اسكے اثرات ۲۲/۶۵;_ توحيد افعالى كا ۲۲/۳۴;_ تہليل كا ۲۱/۲۵;_خدا تعالى كا :اسكے اثرات ۲۰/۷۰ ،۱۲۴ ،۱۳۰،۲۲/۴۰;_اسكى اہميت ۲۰/ ۱۴، ۳۴، ۴۲،۱۳۰،۲۱/۴۲،۲۲/۴۰;_اسكى نصيحت ۲۲/ ۳۷;_ايام تشريف ميں ۲۲/۲۸;_ حج ميں ۲۲/ ۲۸;_ يہ سختى ميں ۲۰/۱۳۰;_ يہ نماز ميں ۲۰/۱۴; _ اس كا پيش خيمہ ۲۰/۳۴،۲۱/۸۷;_ اسكى نشانياں ۲۰/۱۲۴;_ آسمان كى خلقت كا :اسكے اثرات ۲۱/۳۲ ;_ انسان كى خلقت كا :اسكى اثرات ۲۲/ ۵ ; _ دروں كى خلقت كا_ اسكے اثرات ۲۱/۳۱ ; _ راہوں كى خلقت كا_اسكے اثرات ۲۱/۳۱;_ پہاڑوں كى خلقت_اسكے اثرات ۲۱/۳۱;_ خدا كے رازق ہونے كا _اسكے اثرات ۲۰/۱۳۲;_ خدا كى ربوبيت كا ۲۰/۲۵ ، ۱۱۴، ۲۱/۴۲، ۸۳ ،۸۹ ; _ دينى راہنمائوں كے رنج و الم كا ۲۱/۴۱;_ روزى كا : اسكے اثرات ۲۰/۱۳۱;_ خدا كى عظمت كا ۲۲/۳۷ ; _ خدا كے علم كا _اسكے اثرات ۲۱/ ۲۸ ،۲۲/۷۰ ; _ خدا كے علم غيب كا_اسكے اثرات ۲۰/۷ ،۲۱/۴;_ خدا كے عہدكا _اسكے اثرات ۲۰/۱۲۱ ; _ آسمان كے فوائد كا _ اسكے اثرات ۲۱/۳۲ ;_ عذاب الہى كا قانونمند ہونا ۲۰/۱۳۰;_ خدا كى سزا كا قانونمند ہونا ۲۰/۱۳۰;_ قرآن كا _اسكے اثرات ۰/۱۰۰;_آدم كے قصہ كا ۲۰/۱۱۶ ; _ ادريس كے قصہ كا ۲۱/۸۵;_ اسماعيل كے قصہ كا ۲۱/۸۵;_ ايوب كے قصہ كا ۲۱/۸۳;_ داود كے قصہ كا ۲۱/۷۸;_ ذوالكفل كے قصہ كا ۲۱/۸۵;_ زكريا كے قصہ كا ۲۱/۸۹;_ سليمان كے قصہ كا ۲۱/۷۸;_ مريم كے قصہ كا ۲۱/۹۱;_ مو سى كے

۶۷۶

قصہ كا ۲۰/۹;_ نوح كے قصہ كا ۲۱/۷۶;_يونس كے قصہ كا ۲۱/۸۷;_قيامت كا :اسكى اہميت ۲۱/۱۰،۱۰۴;_منعم كا :اسكى اہميت ۲۰/۳۷;_ انسان كى ضروريات كا _اسكى اثرات ۲۰/۱۳۲;_ قرآن كى وحى ہونے كا _اسكى اثرات ۲۰/۶;_ قدرتى عوامل كے نيازمندى كا ۲۰/۳۱;_ قرآن كى دھمكيوں كا ۲۰/۱۱۳;_ حضرت يونس والا ۲۱/۸۷;_ كے عوامل ۲۱/۵۰;_ سے مراد ۲۱/۱۰۵ ;_ نيز ر_ك انسان ، تمايلات، موسي، ضروريات

ذلت:كے عوامل ۲۰/۱۳۴،۲۲/۹نيز ر_ك انسان،بشارت،سر_ك ش لوگ، فرعون، كفار،گناہكار لوگ،مشركين

ذوالكفل:كى پيشقدمى ۲۱/۹۰;_ صالحين ميں سے ۲۱/۸۶;_ كا صبر ۲۱/۸۵;_ اسكے اثرات ۲۱/۸۶ ; _ كى صلاحيت :اسكے اثرات ۲۱/۸۶;_ كا عمل خير ۲۱/۹۰;_ كے فضائل ۲۱/۸۵،۸۶;_ كا قصہ : اس سے عبرت حاصل كرنا ۲۱/۸۵;_نيز ر_ك نمونہ عمل بنانا ،ذكر

''ر''

راز:ر_ك انسان

رازق ہونا:ر_ك خدا ،ذكر

راستے:انكى اہميت ۲۱/۳۱،ان كے فوائد ۲۱/۳۱،ان كا كردار ۲۱/۳۱نيز ر_ك ذكر ،اہميت

راہنمائي :ر_ك ہدايت

راستہ پانا:اسكى نشانياں ۲۱/۳۱

رنج و الم:كا فلسفہ ۲۱/۸۳نيز ر_ك انسان ،ايوب ،ذكر ،زكريائ،مؤمنين

رجعت پسندي:كے موارد:۲۱/۶۵

روايت : ۲۰/۱ ، ۵ ، ۷ ، ۱۲ ، ۱۴ ، ۳۹ ، ۴۰ ، ۴۴ ، ۵۰، ۶۷، ۶۹، ۷۴، ۸۱،۹۴،۱۱۲،۱۱۵ ،۱۱۷، ۱۲۱، ۱۲۴، ۱۳۰، ۱۳۲ ،۲۱/۲،۷، ۱۸،۲۰،۲۶، ۲۸،۳۰،۳۵، ۴۷ ، ۵۷ ، ۶۳،۷۲، ۷۸،۸۰، ۸۴، ۸۷، ۹۰، ۹۸،۱۰۳،۱۰۴،۱۰۵،۲۲/۵،۷،۱۱،۱۷، ۲۱، ۲۲، ۲۵، ۲۶،۲۷،۲۸،۲۹،۳۰،۳۱،۳۲،۳۶، ۳۷، ۷۵،۷۷،۷۸،

۶۷۷

روح:كا دائمى ہونا ۲۲/۵;_ كى حقيقت ۲۱/۹۱;_ قبض كرنے والا ۲۲/۵;كا لطيف ہونا ۲۱/۹۱;_ كا ر_ك ردار۲۲/۵

نيز ر_ك انسان ،خدا،مريم

روزي:كى قدر و قيمت۲۰/۱۳۱;_ سے استفادہ كرنا :اسكى شرائط ۲۰/۸۱;_ كا خير ہونا ۲۰/۱۳۱;_ اخروى ۲۰/۱۳۱;_ اچھى ۲۲/۵۰;_ كا ذمہ دار ۲۰/۱۳۲;_ كا سرچشمہ ۲۰/۸۱،۱۳۱،۱۳۲،۲۲/۵۸نيز ر_ك :انسان،بنى اسرائيل، خدا، ذكر، صالحين، مؤمنين، آنحضرن، مہاجرين، نعمت، يونس (ع) ،روش شناسي،ر_ك تبليغ

راہنما:_وں كى بے حسي:اسكى مذمت ۲۰/۹۳;_وں كا جوابدہ ہونا :اسكى اہميت ۲۰/۹۳

ر_ك :ان كے تكبر كے اثرات ۲۲/۹;_ ان كے پيش آنے كا طريقہ ۲۱/۳۶;_انكى دشمنى ۲۲/۹;_ انكى موت ۲۱/۳۴;_ گمراہ _ان كا سلوك ۲۰/۸۸ ;_انكى اخروى سزا ۲۰/۹۷;_ انكى دنياوى سزا ۲۰/ ۹۷;_وں كى بات ۲۰/۱۳۲ ; _ وں كى ذمہ دارى ۲۰/ ۷۹، ۹۳،۱۳۲;_وں كا نقش و كردار ۲۰/ ۷۹ ، ۸۵نيز ر_ك اطاعت ،بنى اسرائيل

رجعت پسندى :سے اجتناب كرنا ۲۰/۹۴نيز ر_ك مشركين راستہ خدا: ۲۲/۹،۲۴

_كو چھوڑ دينا ۲۲/۹;_ سے روكنا ۲۲/۲۵

رہائش:ر_ك آدم،بنى اسرائيل،حو

رشك:ناپسنديدہ ۲۰/۱۳۱

رعايت كرنا:ر_ك كفا ر

رضا كار :ر_ك جنگ جہاد

رشتہ داري:_والے تعلقات :ان كى اہميت ۲۱/۶۷نيز ر_ك مشركين مكہ ،مكہ

رہائش:ر_ك آدم،بنى اسرائيل،حو

روايت پسندى :ر_ك مشركين

رہائش گاہ:ر ك: گذشتہ اقوام، بنى اسرائيل، مہاجرين، ضروريات

۶۷۸

راھبرى :كا ايك ہونا :اسكے اثرات ۲۱/۲۲نيز ر_ك موسي:ہارون(ع)

رسي:ر_ك فرعون كے جادوگر

''ز''

زبور:كى پيشين گوئياں ۲۱/۱۰۵;_كى تاريخ ۲۱ / ۱۰۵;_كى نصيحتيں ۲۱/۱۰۵;_كى تعليمات ۲۱/۱۰۵ ; _ آسمانى كتب ميں سے ۲۱/۱۰۵;_سے مراد ۲۱ / ۱۰۵;_ كى ياد دہانياں ۲۱/۱۰۵;_كا كردار ۲۱/ ۲۴نيز ر_ك يادہاني

زبوں حالى :ر_ك ذلت

زرہ سازي:كى تاريخ۲۱/۸۰نيز ر_ك داود(ع)

زكات:كے اثرات ۲۲/۷۸;_ كے معاشرتى اثرات ۲۲/۴۱;_ كى قدر و قيمت ۲۲/۴۱;_ كى اہميت ۲۱/۷۳،۲۲/۴۸،۷۸;_ كى فضيلت ۲۱/۷۳;_ دين ابراہيمى ميں ۲۱/۷۳;_ اسحاق كى شريعت ميں ۲۱/۷۳;_ يعقوب كى شريعت ميں ۲۱/۷۳

نيز ر_ك ابراہيم ،اسحاق ،مجاہدين،خدا كے مددگار ،يعقوب

زندگي:كا تسلسل ۲۰/۱۲۹;_كى عوامل ۲۲/۶۳;_ كا تحت قانون ہونا ۲۰/۵۳;_ كا سرچشمہ ۲۱/ ۳۰، ۲۲/ ۶۶نيز ر_ك جہنم ،زمين

زكريا:كى آرزو ۲۱/۸۹;_ كى وراثت :اسكى حفاظت ۲۱/۸۹;_ كا اميدوار ہونا ۲۱/۹۰;_ كا بے اولاد ہونا ۲۱/۸۹;_ كى پيشين قدمى ۲۱/۹۰;_ كى تنہائي ۲۱/۸۹;_ كا خشوع ۲۱/۹۰;_ كے كارنامے :انكى حفاظت كرنا ۲۱/۸۹;_ كى دعا ۲۱/۸۹;_ اس كا قبول ہونا ۲۱/۹۰;_ اسكى خصوصيات ۲۱/۹۰;_ كى رسالت :اس كا مستقبل ۲۱/۸۹;_ كا رنج و الم :اسكے عوامل ۲۱/۸۹;_ كى سيرت ۲۱/۹۰;_ كا عمل خير ۲۱/۹۰;_ كى اولاد :ان كا پہلا بچہ ۲۱/۹۰;_ كا اولاد طلب كرنا ۲۱/۸۹،۹۰;_ اس كا فلسفہ ۲۱/۸۹;_ كا صاحب اولاد ۲۱/۹۰;_ اسكے عوامل ۲۱/۹۰;_كے فضائل ۲۱/۹۰;_كا قصہ ۲۱/ ۸۹، ۹۰;_ اس سے عبرت لينا ۲۱/۸۹;_ كى مصلحتيں ۲۱/۹۰;_ كى نعمتيں ۲۱/۹۰;_ كى پريشانى :اسكے عوامل ۲۱/۸۹;_ كى بيوى :اس كا اخلاق ۲۱/۹۰;_ كى اصلاح ۲۱/۹۰;_ كا اميد ركھنا ۲۱/۹۰;_ كى پيش قدمى ۲۱/۹۰;_ كا خشوع ۲۱/۹۰;_ كا بانجھ پن ۲۱/۹۰;_ كى بانجھ پن كا علاج ۲۱/۹۰;_ كا عمل خير ۲۱/۹۰;_ كى دعا كى

۶۷۹

خصوصيات ۲۱/۹۰نيز ر_ك ذكر

زلزلہ:ر_ك قيامت

زمانہ :زمانوں كا فرق ۲۰/۱۳۰;_ كى حقيقت ۲۲/۴۷;_ نيز ر_ك انسان ،تبليغ،دع

زمين:ميں آسائش ۲۰/۷۳;_ كا پھٹنا ۲۱/۳۰;_ كى طرف بازگشت ۲۰/۵۵;_اس كا سرچشمہ ۲۰/۵۵ ; _ كى تاريخ ۲۰/۵۳،۲۱/۳۱;_ كى تدبير :اس كا مركز ۲۰/۵;_ كو مسطح كرنا ۲۰/۱۰۷، ۱۰۸; _ اسكا سرچشمہ ۲۰/۱۰۶;_ ميں زندگى ۲۰/۵۳، ۵۴;_ اسكى مدت ۲۲/۲;_ كا خالق ۲۰/۴، ۲۱/۵۶; _ كى خلقت ۲۱/۳۰;_ اس كا تحت ضابطہ ہونا ۲۱/۱۶;_ ميں دشمنى ۲۰/۱۲۳;_كى خوبصورتى :اس كا سرچشمہ ۲۲/۵;_كا سرسبز ہونا ۲۲/۶۳; _ اسكے عوامل ۲۲/۶۳;_كى شادابى :اس كا سرچشمہ ۲۲/۵;_ كى فوائد ۲۰/۵۵;_ كا گيند كى صورت ميں ہونا ۲۲/۲۷;_ كى گردش ۲۰/۵۳;_ كا لرزنا :اسكے موانع ۲۱/۳۱;_ كا رب ۲۱/۵۶;_ كا محفوظ ہونا ۲۲/۶۵;_ كى نعمتيں :ان سے استفادہ كرنا ۲۰/ ۵۳ ;_ كا كردار ۲۰/۱۰۷;_ كے وارث ۲۱/ ۱۰۵ ; _ ان سے مراد ۲۱/۱۰۵نيز ر_ك آدم ،آسمان،انسان،قرآن كى تشبيہات ،قيامت،نعمت

زندگي:كا كھو كھلاپن :اسكے عوامل ۲۱/۲;_ كا آسان ہونا : اسكے عوامل ۲۰/۱۲۴;_ كا قابل قدر ہونا ۲۱/۲;_ موت كے بعد ۲۱/۳۵;_ دائمى :اسكى درخواست ۲۰/۱۲۰;_ دنيوي:اس كا بے قدر و قيمت ہونا ۲۰/۷۲;_ اس كا ناپا ئيدار ہونا ۲۱/۳۴; _ دشوار :اس سے مراد ۲۰/۱۲۴;_ كى سختى ۲۰/۱۲۴ ; _ اسكے عوامل ۲۰/۱۲۴;_ ميں موثر عوامل ۲۰/۵۳

نيز ر_ك آدم ،معاشرہ ،زمين،ظالم لوگ، كفار مكہ،آنحضرت(ع) ،اسراف كرنے والے، مسلمان، مشركين

زھد:_ميں افراط كا ناپسنديدہ ہونا ۲۰/۸۱نيز ر_ك فرعون كے جادوگر ،دينى راہنم

زيارت:ر_ك مسجد الحرام

زينت:ر_ك بہشتى لوگ،قديم مصر كے باشندے

زبورات:ر_ك بنى اسرائيل،سامري،تمايلات،فرعونى لوگ

''س''

سحر كرنے والے :

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750