تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219207 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

مکتوب نمبر18

خدا آپ کا بھلا کرے آپ کی دلیلیں کتنی واضح اور روشن ہیں بڑا کرم ہوگا بقیہ ںصوص بھی تحریر فرمائیں۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

ابو داؤد طیالسی کی روایت کو لیجیے ( جیسا کہ استیعاب میں بسلسلہ حالاتِ امیرالمومنین(ع) مذکور ہے) ابن عباس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا : کہ تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔”(1)

--------------

1 ـ ابو داؤد و دیگر اہل سنت نے اس حدیث کو ابو عوانہ وضاح بن عبداﷲ یغکری سے انھوں نے ابو بلج یحی بن سلیم فراری سے انھوں نے عمر بن میمون اودی سے انھوں نے ابن عباس سے مرفوعا روایت کیا ہے اس سلسلہ اسناد کے کل رجال حجت ہیں مسلم اور بخاری دونوں نے اپنے صحیح میں ان رجال میں سے ہر ایک کو حجت سمجھا ہے اور ان سے مروی حدیثیں درج کی ہیں سوا یحی بن سلیم کے کہ ان کی روایت ان دونوں نے نہیں لکھی لیکن جرح و تعدیل کے مجتہدین نے یحی بن سلیم کی وثاقت کی تصریح کردی ہے۔ یہ خدا کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے بزرگ تھے۔ علامہ ذہبی نے ان کے حالات لکھتے ہوئے میزان الاعتدال میں ابن معین نسائی  دار قطنی محمد بن سعد ابی حاتم و غیرہ کا یحی بن سلیم کو ثقہ سمجھنا نقل کیا ہے۔

۲۲۱

اسی جیسی ایک صحیح حدیث عمران بن حصین سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

“ رسول اﷲ(ص) نے ایک لشکر روانہ کیا اور امیرالمومنین(ع) کو افسر مقرر کیا۔ مال خمس جو ہاتھ آیا اس سے ایک کنیز امیرالمومنین(ع) نے اپنے لیے علیحدہ کر لی۔ لوگوں کو یہ بات کھلی اور چار شخصوں نے باہم طے کیا کہ رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں شکایت کی جائے۔ جب رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں وہ پہنچے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : یا رسول اﷲ(ص) ! آپ علی(ع) کو نہیں دیکھتے ؟ انھوں نے ایسا ایسا کیا رسول(ص) نے اس سے منہ پھیر لیا۔ تب دوسرا کھڑا ہوا اس نے بھی ایسے ہی کلمات کہے۔ اس سے بھی رسول(ص) نے منہ پھیر لیا تب تیسرا کھڑا ہوا اس نے بھی اپنے دو ساتھیوں کی طرح شکایت کی۔ اس سے بھی رسول(ص) نے منہ پھیر لیا تب چوتھا کھڑا ہوا اور

۲۲۲

 اگلے ساتھیوں کی طرح اس نے بھی شکایت کی تو اس وقت رسول اﷲ(ص) ان سب کی طرف متوجہ ہوئے اور چہرے سے آثار غضب نمایاں تھے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : تم علی(ع) کے متعلق چاہتے کیا ہو؟ علی (ع) مجھ سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں(1) ۔”

ایسی ہی ایک روایت ابوہریرہ سے مروی ہے جس کی اصل عبارت مسند احمد بن حنبل ج5 صفحہ 356 پر موجود ہے۔

“ بریدہ کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے دو رسالے یمن کی جانب روانہ کیے ایک پر حضرت علی(ع) کو افسر بنایا دوسرے پر خالد بن ولید کو اور ارشاد فرمایا کہ جب تم دونوں مل جاؤ تو دونوں کے افسر علی(ع) ہی ہوں گے۔ اور جب تک الگ رہو تو ہر ایک اپنے

--------------

1 ـ بہت سے اصحاب سنن نے اس روایت کو درج کیا ہے۔ امام نسائی نے خصائص علویہ میں احمد بن حنبل نے بسلسلہ حدیث عمران صفحہ438 جلد رابع مسند میں امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 11 پر علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں بشرائط مسلم اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے ابن ابی شیبہ نے اس کی روایت کی ہے۔ ابن جریر نے اس کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ جیسا کہ علامہ متقی ہندی نے ان دونوں سے نقل کر کے کنزالعمال جلد6 شروع صفحہ 400 پر لکھا ہے نیز ترمذی نے بھی اس حدیث کی قوی اسناد سے روایت کی ہے جیسا کہ علامہ عسقلانی نے اصابہ میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) ذکر کیا ہے اور ان سے علامہ معتزلہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ450 پر نقل کیا ہے نیز لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں ایک جگہ نہیں متعدد و مقامات پر تحریر کیا ہے۔

۲۲۳

 اپنے دستہ کا افسر رہے گا۔(1) بریدہ کہتے ہیں کہ : اہل یمن کے بنی زبیدہ سے ہماری مڈبیھڑ ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا۔ آخر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ ہم نے جنگ آزماؤں کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان کی عورتوں بچوں کو قید کر لیا۔ حضرت علی(ع) انھیں قیدیوں میں سے ایک عورت کو اپنے لیے الگ کر لیا۔ بریدہ کہتے ہیں : کہ خالد نے ایک نامہ میرے ہاتھوں رسول(ص) کی خدمت میں بھیجا۔ جس میں واقعہ کی رسول(ص) کو خبر دی تھی۔ میں نے خدمت میں پہنچ کر وہ نامہ پیش کیا۔ خط جب پرھا گیا تو غیظ و غضب کے آثار رسول(ص) کے چہرے پر نمایاں ہوٹے میں نے عرض کی : میں معافی کا خواستگار ہوں آپ نے مجھے ایک شخص کے ہمراہ بھیجا اور مجھے اس کی اطاعت کا حکم دیا

--------------

1 ـ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) پر کبھی کسی کو افسر نہیں مقرر کیا بلکہ حضرت علی(ع) ہی ہمیشہ افسر ہوا کیے۔ اور ہر معرکہ میں علم لشکر آپ ہی کے ہاتھوں میں رہا بر خلاف غیروں کے ۔ ابوبکر و عمر اسامہ کی ماتحتی میں رکھے گئے۔ اس پر تمام مورخین متفق ہیں۔ نیز یہ دونوں بزرگوار غزوہ ذات السلاسل میں عمرو عاص کے ماتحت بنائے گئے ان دونوں  حضرات کا اس غزوہ میں اپنے افسر عمرو عاص کے ساتھ ایک مشہور قضیہ بھی ہے جسے امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 43 پرلکھا ہے اور علامہ ذہبی نے اس کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے تلخیص مستدرک میں درج کیا ہے لیکن حضرت علی (ع) نہ تو کسی کی ماتحتی میں رہے نہ محکوم بنے۔ بجز سرورِ کائنات کے۔ رسول کی بعثت سے وفات تک۔

۲۲۴

میں نے اس کی فرمانبرداری کی۔ رسول(ص) نے فرمایا : خبردار علی(ع) کے متعلق کچھ کہنا سننا نہیں۔ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی (ع) سے ہوں اور علی(ع) میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں(1) ۔ ”

--------------

1 ـ یہ تو وہ روایت ہے جسے امام احمد نے مسند جلد5 کے صفحہ 356 پر بطریق عبداﷲ بن بریدہ لکھا ہے۔ دوسری جگہ مسند ج5 صفحہ 347 پر سعید بن جبیر سے روایت کی ہے انھوں نے ابن عباس سے انھوں نے ابن بریدہ سے ۔بریدہ کہتے ہیں کہ میں حضرت علی(ع) کے ساتھ جنگ یمن میں شریک تھا۔ حضرت علی(ع) درشتی سے پیش آتے تھے میں جب واپس پلٹا تو رسول(ص) کی خدمت میں اس کا ذکر کیا اور حضرت کی تنقصت کی ۔ میں نے دیکھا کہ رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ رسول(ص) نے پوچھا : اے بریدہ کیا میں تمام مومنین کی جانوں کا مالک نہیں؟ بریدہ نے کہا: بے شک یا رسول اﷲ(ص) ۔ آپ نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 10 پر اس حدیث کولکھا جہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ یہ حدیثیں جو درج کی گئیں ہمارے مقصود پر بین دلیل ہیں کیونکہ رسول(ص) کا جملہ الست اولیٰ بالمومنین من انفسہم کو مقدم فرمانا قرینہ غالب ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ سے مراد اولی ہے جیسا کہ بظاہر عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی جیسی ایک حدیث اور ہے جسے بہت سے محدثین نے بیان کیا ہے۔ من جملہ ان کے امام احمد نے مسند ج3 صفحہ 483 پر عمرو بن شاس اسلمی سے اس حدیث کی روایت کی  ہے۔یہ حدیبیہ میں شریک ہونے والوں میں سے تھے۔ عمرو بن شاس کہتے ہیں کہ میں حضرت علی(ع) کے ساتھ یمن گیا۔ سفر میں حضرت علی(ع) درشتی سے پیش آئے میں دل میں بہت برہم ہوا جب رسول کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے مسجد میں ان کی شکایت کی ۔ رسول(ص) کو بھی اس کی خبر ہوئی دوسرے دن صبح کو جب میں مسجد میں آیا تو رسول اﷲ(ص) حلقہ اصحاب میں تشریف فرما تھے میں سامنے آیا تو مجھے کڑی نگاہ سے دیکھنے لگے جب میں بیٹھ گیا تو فرمایا : اے عمرو تم نے مجھے بڑی تکلیف پہنچائی۔ میں نے عرض کی کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ کی تکلیف کا باعث ہوں۔ آپ نے فرمایا : کہ ہاں تم میری ایذا رسانی کے باعث ہوئے ۔ یاد رکھو جس نے علی(ع) کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت دی۔

۲۲۵

اور امام نسائی نے خصائص علویہ میں یہ عبارت لکھی ہے :“ اے بریدہ ! مجھے علی(ع) کا دشمن بنانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں اور وہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

اور ابن حریر کی عبارت یہ ہے :

“ بریدہ کہتے ہیں کہ دفعتا رسول(ص) کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ میں جس کا ولی ہوں علی(ع) اس کے ولی ہیں۔ یہ سن کر میرے دل میں جو کچھ برے خیالات امیرالمومنین(ع) کی طرف سے قائم ہوگئے تھے دور ہوگئے اور میں نےطے کر لیا کہ آج سے پھر برائی کے ساتھ یاد نہ کروں گا(1) ۔”

طبرانی نے اس حدیث کو ذرا تفصیل سے درج کیا ہے ان کی روایت میں ہے کہ :

“ بریدہ جب یمن سے واپس آئے اور مسجد میں پہنچے تو رسول(ص) کے حجرے کے دروازے پر ایک جماعت لوگوں کی موجود تھی لوگ

--------------

1 ـ جیسا کہ علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال ج6 صفحہ 398 پر نقل کیا ہے۔نیز منتخب کنزالعمال میں  بھی نقل کیا ۔

۲۲۶

انھیں دیکھ کر ان کی طرف بڑھے۔ سلام و مزاج پرسی کرنے اور یمن کے حالات دریافت کرنے لگے کہ کیا خبر لے کے آئے بریدہ نے کہا : اچھی ہی خبر ہے۔ خدا نے مسلمانوں کو فتح بخشی، لوگوں نے پوچھا کہ آنا کیسے ہوا، میں نے کہا کہ مال خمس سے علی(ع)  نے ایک کنیز لے لی ہے۔ میں اسی کی رسول(ص) کو خبر کرنے آیا ہوں لوگوں نے کہا سناؤ سناؤ رسول(ص) کو تاکہ علی(ع) رسول(ص) کی نظروں سے گریں۔ آںحضرت(ص) دروازے کے عقب سے لوگوں کی یہ گفتگو سن  رہے تھے۔ آپ غیظ و غضب کی حالت میں برآمد ہوئے اور ارشاد فرمایا : کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ علی(ع) کی برائی کرتے ہیں۔ جس نے علی(ع) کو غضب ناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا جو علی(ع) سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا ۔ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ میری طینت سے علی(ع) کی خلقت ہوئی اور میں جناب ابراہیم(ع) کی طینت سے خلق ہوا اور میں جناب ابراہیم(ع) سے بہتر ہوں(1) ۔”

-----------

1 ـ چونکہ حضرت سرورکائنات(ص) نے فرمایا  تھا کہ علی(ع) میری طینت سے مخلوق ہوئے اور آںحضرت(ص) بدیہی طور پر علی(ع) سے افضل ہیں تو اب آںحضرت(ص) کے اس جملہ سے کہ میں ابراہیم(ع) کی طینت سے خلق ہوا یہ وہم پیدا ہوتا تھا کہ ابراہیم(ع) حضرت سرورکائنات (ص) سے افضل ہیں اور یہ قطعی طور پر مخالف واقع ہے۔ آںحضرت(ص) تو تمام انبیاء و مرسلین(ع) کے خاتم اور سب سے افضل و اشرف ہیں اس لیے آپ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے یہ فرمایا کہ میں ابراہیم(ع) سے افضل ہوں۔

۲۲۷

“اے بریدہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ علی(ع) کا حصہ اس کنیز سے بہت زیادہ ہے جو انھوں نے لی ہے اورمیرے بعد وہی تم لوگوں کے ولی ہیں(1) ۔”

یہ حدیث ایسی عظیم الشان حدیث ہے جس کے متعلق شک کیا ہی نہیں جاسکتا۔ بریدہ سے بکثرت طرق سے مروی ہے اور جمیع طرق معتبر و مستند ہیں۔

اسی جیسی ایک اور عظیم الشان حدیث حاکم نے ابن عباس سے روایت کی ہے ۔ جس میں امیرالمومنین(ع) کے دس مختص فضائل ذکر کیے ہیں :

“ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے علی (ع) سے فرمایا : تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو(2) ۔”

--------------

1 ـ بن حجر نے اس حدیث کو طبرانی سے صواعق محرقہ باب11 میں نقل کیا ہے لیکن جب اس جملے پر پہنچے اما علمت ان لعلی اکثر من الجاریہ ” کیا تم نہیں جانتے کہ علی (ع) کا حصہ اس کنیز سے زیادہ ہے ان کا قلم رک گیا اور ان کے نفس نے گوارا نہ کیا کہ جملہ پورا لکھیں انھوں نے الیٰ آخر الحدیث  لکھ کر عبارت ختم کر دی ہے۔ ابن حجر جیسے متعصب اشخاص سے اس قسم کی باتین تعجب خیز نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم لوگوں کو عصبیت سے محفوظ رکھا۔

2 ـ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 134 کے شروع میں اس حدیث کو لکھا ہے ۔ نیز علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے درج کیا ہے۔ امام نسائی نے خصائص علویہ ص6 پر لکھا ہے اور امام احمد نے مسند ج1 ص331 پر تحریر کیا ہے ہم پوری حدیث ص193 تا ص199 پر درج کرچکے ہیں۔

۲۲۸

اسی طرح ایک اور حدیث ہے جس میں رسول اﷲ(ص) کا یہ قول مذکورہ ہے کہ :

“ اے علی(ع) میں نے تمہارے بارے میں خداوند عالم سے پانچ چیزوں کا سوال کیا۔ چار تو خدا نے مرحمت فرمائیں اور ایک نہیں عطا فرمائی ۔ جو باتیں خدا نے مرحمت فرمائیں ان سے ایک یہ کہ تم میرے بعد مومنین کے ولی ہو(1) ۔”

اسی طرح وہ حدیث ہے جو ابن سکن سے وہب بن حمزہ نے روایت کی ہے ( ملاحظہ ہو اصابہ تذکرہ وہب) وہب کہتے ہیں:

“ میں نے ایک مرتبہ حضرت علی(ع) کے ساتھ سفر کیا ۔ سفر کے ایام میں حضرت علی(ع) کی طرف سے درشتی و سختی دیکھی تو میں نے دل میں تہیہ کیا کہ جب مدینہ پلٹوں گا تو رسول(ص) سے اس کی شکایت کروں گا۔ جب واپس ہوا تو میں نے رسول(ص) سے علی(ع) کی شکایت کی۔ رسول(ص) نے فرمایا : ایسی باتیں  علی(ع) کے متعلق کبھی نہ کہنا کیونکہ وہی میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

طبرانی نے بھی معجم کبیر میں وہب سے یہ روایت نقل کی ہے مگر اس میں یہ عبارت ہے کہ :

“ یہ بات علی(ع) کے لیے نہ کہو وہ میرے بعد تمام لوگوں سے زیادہ تم پر اختیار رکھتے ہیں(2) ۔”

--------------

1 ـ یہ حدیث کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر موجود ہے نمبر حدیث 1048۔

2 ـ کنزالعمال ج6 صفحہ 155 حدیث 2589۔

۲۲۹

ابن ابی عاصم نے امیرالمومنین(ع) سے مرفوعا روایت کی ہے :

“ رسول (ص) نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں لوگوں پر ان سے زیادہ اختیار و اقتدار نہیں رکھتا؟ لوگوں نے کہا بے شک آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا کہ : میں جس جس کا ولی ہوں، علی(ع) اس کے ولی ہی(1) ۔”

امیرالمومنین(ع) کی ولایت کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے متواتر صحیح حدیثیں منقول ہیں۔ اتنا جو لکھا گیا ہے یہی امید ہے کافی ہو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آیتانما ولیکم اﷲ بھی ہمارے قول کی تائید کرتی ہے۔

                                                     ش

--------------

1 ـ متقی ہندی نے ابن ابی عاصم سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو ص397 جلد 6 کنزالعمال۔

۲۳۰

مکتوب نمبر19

لفظ ولی، مددگار، دوست ، محب ، داماد ، پیرو، حلیف ، ہمسایہ اور ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جوکسی کے معاملات کا نگراں و مختار کل ہو۔ یہ اتنے معنوں میں مشترک ہے۔ لہذا آپ نے جتنی حدیثیں ذکر فرمائی ہیں غالبا ان تمام حدیثوں میں مراد ی ہے کہ علی(ع) میرے بعد تمھارے مددگار ہیں یا دوست ہیں یا محب ہیں۔

لہذا ان احادیث سے اور اس لفظ ولی سے آپ(ع) کی خلافت کہا ں ثابت ہوتی ہے؟

                                                                     س

جواب مکتوب

آپ نے لفظ ولی کے جتنے معانی درج کیے ہیں ان میں ایک یہ بھی

۲۳۱

 آپ نے تحریر فرمایا کہ جوکسی کےمعاملات کا نگراں ومختار کل ہو اسے بھی ولی کہتے ہیں تو ان تمام احادیث میں لفظ ولی سے یہی معنی مراد ہیں اور لفظ ولی کے سننے سےیہی معنی متبادر الی الذہن بھی ہوتے ہیں۔ جیسا ہم لوگوں کے اس قول میں “ ولی القاصر ابوہ وجدہ لابیہ ، ثم وصی احد ہما ثم الحاکم الشرعی”

“ شخص قاصر کا ولی اس کا باپ ہے پھر اس کا دادا اور ان دونوں کے نہ ہونے پر ان کا وصی اور سب کی غیر موجودگی میں حاکم شرعی۔”

تو یہاں لفظ ولی سے مراد یہی ہے کہ شخص قاصر کےیہی  لوگ نگران و مختار ہیں اس کے معاملات میں انہی کو تصرف کا اختیار ہے۔

مذکورہ بالا احادیث میں ایسے واضح قرائن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) نے لفظ ولی بول کر نگران و مختار ہی مراد لیا ہے جیسا کی صاحبانِ عقل و ادراک سے مخفی نہیں کیونکہ رسول(ص) کا فرمانا کہ :

“ یہ علی(ع) میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

بین ثبوت ہے کہ یہاں لفظ ولی سے مقصود بس یہی معنی ہیں کوئی دوسرا نہیں کیونکہ  وھو ولیکم بعدی ۔ یہی علی(ع) میرے بعد تمھارے ولی ہیں، اس کا مطلب تو یہی ہوا کو میرے بعد علی(ع) کے سوا تمھارا اور کوئی ولی نہیں۔ لہذا قطعی طور پر ان احادٰیث میں ولی سے یہی معنی سمجھنے پڑیں گے کسی اور معنی کی گنجائش ہی نہیں نکل سکتی۔ اس لیے کہ نصرت، محبت ، دوستی وغیرہ یہ کسی فرد خاص میں تو منحصر نہیں۔ تمام مومنین و مومنات ایک دوسرے کے دوست اور محب ہیں۔ ہم جو معنی

۲۳۲

مراد لیتے ہیں یعنی نگران و مختارر کل اگر یہ مقصود نہ ہو اور آپ کے کہنے کی بنا پر دوست یا محب مقصود ہے تو پھر آخر رسول(ص) اس شد ومد سے حضرت  علی(ع) کو ولی بنا کر ان کو کون سا امتیازی درجہ دینا چاہتے تھے یا کون سی فضیلت علی(ع) کو مل جاتی ہے اگر لفظ ولی سے مراد مددگار، دوست اور محب ہی کے مقصود ہیں تو ان احادیث کے ذریعہ حضرت علی(ع) کی ولایت کا اعلان کر کے کسی ڈھکی چھپی ہوئی بات کو رسول(ص) نمایاں کرنا چاہتے تھے؟

رسول(ص) کی شان کہیں اجل و ارفع ہے اس سے کہ باکل بدیہی اور ظاہری چیز کے واضح کرنے کے لیے اتنا اہتمام فرمائیں۔ آںحضرت(ص) کی حکمت ِ بالغہ، اندازِ عصمت، شان خاتمیت ان مہل خیالات و اوہام سے کہیں بزرگ برتر ہے علاوہ اس کے کہ ان احادیث میں تصریح ہے کہ علی بعد رسول(ص) لوگوں کے ولی ہیں، بعد رسول(ص) کی قید کو دیکھتے  ہوئے کوئی چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ ولی کے معنی وہی لیے جائیں جو ہم لیتے ہیں یعنی نگران و مختار کل۔ورنہ رسول(ص) کا یہ قید لگانا مہمل ہوجاتا ہے۔

کیا  حضرت علی(ع) رسول(ص) کی زندگی میں مسلمانوں کے محب ومددگار نہ تھے؟ کیا آپ کو کسی لمحہ بھی مسلمانوں کی نصرت سے منہ موڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ حضرت علی(ع) تو جب سے آغوش رسالت میں پل کر اور کنارِ تربیت پیغمبر(ص) میں پرورش پاکر نکلے اس وقت سے رسول(ص) کی رحلت کے وقت تک مسلمانوں کے ناصر رہے۔ مسلمانوں کے دوست و محب رہے ۔لہذا یہ کہنا کیونکہ صحیح ہوسکتا ہے کہ رسول(ص) کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد علی(ع) مسلمانوں کے ناصر و مددگار ہیں۔ دوست اور محب ہیں۔

ہم جو لفظ ولی سے معنی سمجھتے ہیں اسی کے واقعا مقصود مراد ہونے

۲۳۳

 پرمن جملہ اور قرائن کے ایک وہی حدیث کافی ہے جو امام احد بن حنبل نےمسند جلد5 صفحہ 347 پر بطریق صحیح روایت کی ہے۔ بریدہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :

“ میں حضرت علی(ع) کےساتھ یمن کی جنگ میں شریک تھا حضرت علی(ع) کچھ سختی سے پیش آتے تھے۔ میں جب رسول(ص) کی خدمت میں پہنچا تو اس کا ذکر کیا اور حضرت علی(ع) کی کچھ تنقصت کی میں نے دیکھا کہ رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ اے بریدہ الست اولیٰ بالمومنین من انفسہم کیا میں مومنین سے بڑھ کر ان پر اختیار نہیں رکھتا ۔ میں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص) ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو : جس جس کا میں مولی ہوں علی(ع) اس کے مولی ہیں۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج2 صفحہ 120 پر درج کیا ہے اور امام مسلم کے نزدیک جو شرائط صحت ہیں ان کے لحاظ سے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز علامہ ذہبی نے بھی تلخیص میں اسے درج کیا ہے اور بشرائط مسلم اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔

رسول(ص) کا جملہ الست اولی بالمومنین من انفسہم کو مقدم کرنا پہلے یہ اقرار لے لینا کہ کیا میں تم سے زیادہ اولی نہیں ہوں بین دلیل ہے کہ لفظ ولی سے مقصود وہی معنی ہیں جو ہم سمھتے ہیں کوئی دوسرا نہیں۔

ان احادیث پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو خود بخود مطلب واضح ہوجائے گا اور ہمارے قول میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے گا۔

                                                     ش

۲۳۴

  مکتوب نمبر20

واقعی آپ بڑی قوتِ استدلال کے مالک ہیں۔کوئی نبرد آزما آپ کے مقابلہ میں میدان بحث میں جم نہیں سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ تمام احادیث اسی مطلب پر دلالت کرتی ہیں جو آپ نے بیان کیا اگر صحابہ ( کے مسلک) کو صحیح سمجھنے کی مجبوری نہ ہوتی تو میں آپ کے فیصلہ پر سرتسلیم خم کردیتا لیکن مجبوری یہ ہے کہ ہم صحابہ کے مسلک سے اںحراف نہیں کرسکتے اور نہ ان کے سمجھے ہوئے معنی و مطلب کے علاوہ کوئی دوسرا معنی سمجھ سکتے ہیں لہذا خواہ مخواہ حدیث کو س کی ظاہری معنی سے پھیرنا ہی پڑے گا۔ ظاہری معنی چھوڑ کر کوئی معنی مراد لینا ہی ہوگا تاکہ سلف صالحین کا دامن ہاتھ سے جانے نہ پائے اور ان کے جادہ سے اپنے قدم نہ ہٹیں ۔ آپ نے سابق مکتوب میں جس آیت محکمہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ کہ یہ بھی ہمارے قول کی موئد ہے  آپ نے اس کی تصریح نہیں فرمائی براہ کرم لکھیے کہ وہ کون سی آیت ہے۔

                                                     س

۲۳۵

جوابِ مکتوب

وہ آیہ محکمہ کلامِ مجید کی سورہ مائدہ کی یہ آیت ہے :

  “ إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ وَ مَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ” (مائدہ ، 55۔ 56)

“ بے شک تمھارا ولی خدا ہے اس کا رسول(ص) ہے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں در آںحالیکہ وہ رکوع میں ہوتے ہیں۔ جو شخص خدا اور اس کے رسول(ص) اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اپنا ولی سمجھے گا تو یہ سمجھ رکھو کہ خدا کی جمعیت ہی غالب رہنے والی ہے۔”

اس آیت کےامیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونے کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے متواتر صحیح احادیث موجود ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) سے قطع نظر دیگر طریقوں سے جتنی روایتیں اس آیت کے سلسلہ میں پائی جاتی ہیں اور جو شان نزول آیت کے متعلق نص صریح ہیں ان میں ایک ابن اسلام ہی کی حدیث کو لے لیجیے جو رسول(ص) سے مرفوعا مری ہے ملاحظہ ہو صحیح نسائی یا کتاب الجمع بین الصحاح ستہ بسلسلہ تفسیر سورہ مائدہ اسی جیسی ایک حدیث ابن عباس سے مروی ہے اور ایک حدیث امیرالمومنین(ع) سے۔ ابن عباس کی حدیث امام واحدی کی کتاب اسباب النزول میں بسلسلہ تفسیر آیت انما موجود ہے

۲۳۶

جسے کتاب متفق میں علامہ خطیب نے بھی درج کیا ہے۔ امیرالمومنین(ع) کی حدیث بسند ابن مردویہ اور مسند ابو الشیخ میں موجود ہے کنزالعمال جلد5 صفحہ 405 پر بھی آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

علاوہ اس کے اس آیت کا امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونا ایسا مسلم ہے جس سے انکار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ تمام مفسرین اجماع کیے بیٹھے ہیں اور مفسرین کے اس اجماع کو سینکڑوں علمائے اعلام اہلسنت نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے منجملہ ان کے علامہ قوشجی نے شرح تجرید کے مبحث امامت میں اس اجماع کا ذکر کیا ہے۔

غایة المرام باب 18 میں 24 حدیثیں بطریق جمہور مذکور ہیں جو شان نزول کے متعلق ہماری موئد ہیں۔ ایک تو اختصار ملحوظ ہے ، دوسرے یہ مسئلہ آفتاب سے بھ زیادہ واضح ہے ورنہ ہم وہ تمام صحیح احادیث اکٹھا کردیتے جو اس آیت کے حضرت علی(ع) کی شان مین نازل ہونے کے متلعق مروی ہیں لیکن یہ تو وہ نا قابل انکار حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔

پھر بھی ہم اس مکتوب کو جمہور کی حدیث سے خالی نہیں رکھنا چاہتے صرف ایک امام ابواسحق احمد بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری ثلعبی کی تفسیر کا حوالہ دے دیتے ہیں۔

امام مذکور اپنی تفسیر میں اس آیت پر پہنچ کر بسلسلہ اسناد جناب ابوذر کی ایک حدیث درج فرماتے ہیں ۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ :

“ میں نے خود اپنے کانوں سے رسول اﷲ(ص) کو  کہتے سنا ( اگر میں غلط کہتا ہوں تو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں) اور میں نے اپنی ان آنکھوں سے رسول(ص) کو دیکھا ( ورنہ میری دونوں آنکھیں

۲۳۷

کور ہو جائیں) رسول(ص) فرماتے تھے کہ علی(ع) نیکو کاروں کے قائد کافروں کے قاتل ہیں۔ جو علی(ع) کی مدد کرے گا وہ نصرت یافتہ ہوگا اور جو علی(ع) کا ساتھ نہ دے گا اس کی مدد نہ کی جائے گی۔ میں نے ایک دن رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا کسی نے کچھ نہ دیا۔ حضرت علی(ع) حالتِ رکوع میں تھے۔ آپ نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا جس میں انگوٹھی پہنے ہوئے تھے ۔ سائل بڑھا اور اس نے انگوٹھی اتار لی ۔ اس پر رسول اﷲ(ص) نے خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعا مانگی ۔ عرض کیا  میرے معبود ! میرے بھائی موسی نے تجھ سے سوال کیا تھا ( کہا تھا کہ اے میرے معبود ! میرے سینہ کو کشادہ فرما میرے معاملہ کو سہل بنا، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا۔ ان کے ذریعہ میری کمر مضبوط کر اسے میرا شریک کار قرار دے تاکہ ہم دونوں زیادہ تیری تسبیح کریں اور بہت زیادہ ذکر کریں تو ہماری حالت کو بخوبی دیکھنے والا ہے تو خداوندا تو نے ان پر وحی نازل فرمائی کہ تمھاری تمنائیں پوری کی گئیں) اے میرے معبود! میں تیرا نبی(ص) ہوں میرے سینہ کو بھی کشادہ فرما میرے معاملہ کو سہل کر اور میرے اہل سے علی(ع) کو میرا وزیر بنا اس کے ذریعہ میری کمر کو مضبوط کر۔۔۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم رسول(ص) کا کلام پورا بھی نہ ہونے پایا تھا کہ جبرئیل امین اس آیت انما کو لے کر نازل ہوئے ” جز این نیست کہ تمھارا

۲۳۸

حاکم و مختار خدا ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ لوگ جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں جو شخص خدا اور رسول (ص) اور ایمان لانے والوں سے وابستہ ہوگا تو کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی جمعیت ہی غلبہ پانے والی ہے۔”

آپ سے مخفی نہیں کہ اس جگہ ولی سے مراد ولی بالتصرف ہی ہے جیسے ہم لوگوں کے اس قول میں کہ فلاں ولی القاصر ہے، ولی سے مقصود اولیٰ بالتصرف ہے۔ اہل فقہ نے تصریح کردی ہے کہ  ہر وہ شخص جو کسی کے معاملات میں متصرف و مختار ہو وہ اس کا ولی ہے لہذا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو تمھارے امور کے مالک و مختار ہیں اور تم سے زیادہ تمھارے امور میں تصرف کا حق رکھتے ہیں وہ خداوند عالم ہے اور اس کا رسول(ص) اور علی(ع) کیونکہ حضرت علی(ع) ہی کی ذات بس ایک ایسی ذات ہے جس میں آیت کے مذکورہ بالا صفات مجتمع تھے۔ ایمان، نماز کو قائم کرنا اور بحالتِ رکوع زکوة دینا اور آپ ہی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

خداوند عالم نے اس آیت میں اپنے لیے، اپنے رسول(ص) کے لیے اپنے ولی کے لیے ایک ہی ساتھ ولایت ثابت کی ہے، ایک ہی ذیل میں جس طرح خود ولی ہے اسی طرح بغیر کسی فرق کے اپنے رسول(ص) اور اپنے ولی کو بھی لوگوں کا ولی فرمایا ۔ یہ ظاہر ہے کہ خداوند عالم کی ولایت عام ہے لہذا نبی(ص) اور ولی کی ولایت جیسی عام ہونا چاہیے، وہ جن معنوں میں ولی ہے اور جس حیثیت کی ولایت اسے حاصل ہے ٹھیک انھیں معنوں میں اور اسی حیثیت سے امیرالمومنین(ع) کو بھی ولایت حاصل ہونی چاہیے۔

اور یہاں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ ولی نصیر یا محب وغیرہ مراد

۲۳۹

 لیا جائے ورنہ حصر کی کوئی وجہ باقی نہ رہے گی۔ جب ولی کے معنی مددگار یا دوست ہی کے لیے جائیں تو پھر اس کا انحصار صرف تین فردوں میں کیونکر صحیح ہوگا۔ کیا بس خدا اور رسول(ص) اور علی(ع) ہی مومنین کے دوست ہیں اور مددگار ہیں۔ دوسرا کوئی نہیں ؟ حالانکہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ  : مومنین ایک دوسرے کے اولیاء ہیں، دوست ہیں، مددگار ہیں میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جتنی بدیہی چیزیں ہیں انھیں میں سے ایک یہ بھی ہے یعنی آیہ مبارکہ میں ولی سے مراد اولیٰ بالتصرف ہونا نہ کہ محب ، دوست، نصیر وغیرہ ۔

                                                                     ش

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

ر_ك جادوگر

سربراہان ادارات:_ كى تقويت: اسكے اثرات ۲۰/۳۱; _ كى نياز: اسے پورا كرنا ۲۰/۳۶نيز ر_ك مينجمنٹ

سوچ:كى قدر و قيمت :اس كا معيار ۲۰/۱۰۴;_، غلط۲۱/۱۶،۳۴;_(خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں )

سورج:ر_ك عقل

سمندر:كو مسخر كرنا۲۲/۶۵نيز ر_ك بنى اسرائيل ،سامري،فرعوني

سوال:كے فوائد۲۱/۲۱،۲۴;_كے موانع ۲۱/۲۳نيز ر_ك

سورج:كا انقياد۲۲/۱۸;_كا خالق ۲۱/۳۳;_كى خلقت ۲۱/۳۳;_كا سجدہ ۲۲/۱۸;_كى گردش ۲۱/۳۳

سركشي:ر_ك عصيان

سركشي:_ كے اثرات ۲۰/۸۱، ۸۲; _ كا پيش خيمہ ۲۰/۸۱; _ كے عوامل ۲۰/۴۴; _ كا گناہ ۲۰/۸۱; _ كے موانع ۲۰/۴۳; _ كا ناپسنديدہ ہونا ۲۰/۲۴نيز ر_ك فرعون

سركش لوگ:_ وں كو نصيحت ۲۲/۴۶; _ وں كو اخروى خضوع ۲۰/۱۱۱; _ وں كے دشمن ۲۰/۲۴; _ وں كى اخروى ذلت ۲۰/۱۱۱ ; _ وں كا اخروى چہرہ ۲۰/۱۱۱; _ وں كے ساتھ مبارزت ۲۰/۲۴; اسكى اہميت ۲۰/۲۴، ۴۳: اسكى روش ۲۰/۲۴; اسكے شرائط ۲۰/۳۱، ۴۳۳; _ وں كو ہدايت كرنا ۲۰/۲۵نيز ر_ك طاغوت

سركشى كرنا:ر_ك فرعون

سزا:_ كا گناہ كے ساتھ تناسب ۲۰/۱۲۶، ۲۲/۹، ۵۷; _ كا پيش خيمہ ۲۰/۱۵، ۲۱/۸۷; _ كا ذاتى ہونا ۲۰/۲ _ ميں عدل ۲۰/۱۱۲; _ كے عوامل ۲۰/۱۵، ۲۱/۴۱; اخروى _ : اس كا مذاق اڑانا ۲۱/۳۸; _ اسكى حقيقت ۲۰/۱۰۱; اسكے عوامل ۲۰/۱۲۶; بيان كے بغير _: اس كا ناپسنديدہ ہونا ۲۰/۱۴; دنياوى _ : اس كا محدود ہونا ۲۰/۱۵; _ كى جگہ ۲۰/۱۵

( خاص موارد اپنے اپنے موضوعات ميں تلاش كئے جائيں )

۶۸۱

سير:ر_ك سياحت

سانپ:_ كو ڈنڈے ميں تبديل كرنا ۲۰/۲۱; اس كا سرچشمہ ۲۰/۲۱نيز ر_ك ڈنڈ

سامرى كا بچھڑا:اسكى ساخت كا مخفى ہونا ۲۰/۸۸; اسے دريا ميں پھينكنا ۲۰/۹۷; _ كى نوعيت ۲۰/۸۸; اسے جلانا ۲۰/۹۷; _ كى جنس ۲۰/۸۸; _ كى آواز ۲۰/۸۸، ۸۹; اس كا كردار ۲۰/۸۸; اس كا عاجز ہونا ۲۰/۸۹; اسكى حفاظت كرنا ۲۰/۹۷; _ كى نابودى ۲۰/۹۷; اسكى روش ۲۰/۹۷; _ كا فلسفہ ۲۰/۹۸; _ كا نقش و كردار ۲۰/۹۰; اس كا خرچ نيز ر_ك سامري، موسى

سامرے:كى دعوت ۲۰/۹۶;_كا مرتد ہوجانا :اسكے اثرات ۲۰/۹۶;_ كا گمراہ ہونا ۲۰/۸۵،۹۵،۹۶;_ اس كا ذريعہ ۲۰/۹۶;_ سے روگردانى كرنا ۲۰/۹۰;_ كا اقرار كرنا ۲۰/۹۶;_ كى سوچ ۲۰/۸۸;_ كے پيروكار ۲۰/۸۸;_ ان كى سوچ ۲۰/۸۸;_ انكى تہمتيں ۲۰/۸۸;_ ان كا جھوٹ بولنا ۲۰/۸۸;_ كى پيروى كرنا :اسكے اثرات ۲۰/۸۶;_ كو علاقہ بدر كرنا ۲۰/۹۷;_ كا پروبيگنڈا :اسكى روش ۲۰/۹۶;_ كى تہمتيں ۲۰/۸۸;_ كا جھوٹ بولنا ۲۰/۸۸;_ كى نفسيات شناسى ۲۰/۸۸;_ كے زيورات : انہيں دور پھينكنا ۲۰/۸۷;_ كا سوء استفادہ كرنا ۲۰/۹۶;_ كى شخصيت ۲۰/۸۸;_ كو نظر انداز كرنا ۲۰/۹۷;_ كا علم ۲۰/۹۶;_ اس كا سرچشمہ ۲۰/۹۶;_ كى غفلت ۲۰/۸۸;_ كے فضائل ۲۰/۹۶;_ كا قصہ ۲۰/۹۵،۹۶،۹۷;_ كے ساتھ قطع تعلقى كرنا ۲۰/۹۷;_ كى ناشكرى ۲۰/۸۸;_ كى سزا ۲۰/۹۷;_ اسكى اخروى سزا كا حتمى ہونا ۲۰/۹۷;_ اسكى دنيوى سزا ۲۰/۹۷ ;_ كى بچھڑا پرستى ۲۰/۹۷;_ كا مواخذہ ۲۰/۹۵;_ كى مجسمہ سازى ۲۰/۸۸،۹۶;_اس كا ھدف ۲۰/۹۵ ;_كا محاسبہ ۲۰/۹۷;_كى مہارت ۲۰/ ۸۸ _پر نفرين ۲۰/۹۷;_ كا نقش و كردار ۲۰/ ۸۷، ۹۵،۹۷;_كى خواہش پرستى :اسكے اثرات ۲۰/۹۶

نيز ر_ك موسي

ستارہ:ان كا مطيع ہونا ۲۲/۱۸;_ انكى حركت ۲۱/۳۳;_ ان كا سجدہ ۲۲/۱۸

ستائش :ر_ك حمد

ستم:ر_ك ظلم

ستمگر لوگ:ظالم لوگ

سر تسليم خم كرنا:

۶۸۲

خدا كے ساتھ ۲۱/۲۷،۲۲/۷۸;_اسكے اثرات ۲۲/۳۴;_اسكى اہميت ۲۱/۲۷،۱۰۸;_اس كا پيش خيمہ ۲۲/۳۴;_اسكے عوامل ۲۱/۱۰۸;_اسكے دعوت ۲۱/۱۰۸

سمندر:كو مسخر كرنا۲۲/۶۵نيز ر_ك بنى اسرائيل ،سامري،فرعوني

سفر:_ كے آداب ۲۰/۸۴نيز ر_ك موسى (ع) سچے معبود: ۲۰/۹۸

_ كا احاطہ ۲۰/۹۸; _ كا زندہ كرنا ۲۱/۲۱; _ كا بے نظير ہونا ۲۰/۹۸; _ كا بے نياز ہونا ۲۰/۹۸; _ كى تدبير ۲۰/۸، _ كى خالقيت ۲۰/۸; _ كى رحمانيت ۲۰/۹۰; _ كا نقصان پہنچانا ۲۰/۸۹; _ كے شرائط ۲۰/۸، ۹۸; _ كا علم ۲۰/۸، ۹۸; _ كا كمال ۲۰/۸; _ كا مالك ہونا ۲۰/۸; _ كا نفع پہنچانا ۲۰/۹۸; _ كا نام ۲۰/۹۸; _ كى نيازمندى ۲۱/۴۳; _ كى خصوصيات ۲۰/۸۹، ۹۰

سجدہ:كے اثرات ۲۲/۱۸;_كے احكام ۲۰/۷۰;_ كے احكام ۲۰/۱۱۶،۲۲/۷۷;_ كا ذكر ۲۲/۷۷;_ كى تاريخ ۲۰/۷۰;_ آدم كو كرنا ۲۰/۱۱۶;_ اس كا ترك كرنا ۲۰/۱۱۶،۱۱۷;_ خدا كو كرنا ۲۰/ ۱۸، ۷۷; _ غير خدا كو _كرنا; _اس كا جواز ۲۰/۱۱۶;_ كا نقش و كردار ۲۰/۷۰نيز ر_ك آسمان ،فرعون كى جادوگر ،جاندار چيزيں ،سورج، درخت، ستارے، بہاڑ،چاند، مسجدالحرام، فرشتہ، موجودات،نماز

سحر:ر_ك جادو

سخت دل لوگ:وہ كا دھوكہ كھانا ۲۲/۵۳;_وں كا ظالم ۲۲/۵۳ ; _ وں كى گمراہي:اس كا پيش خيمہ۲۲/۵۳نيز ر_ك مايوس

سختي:كے اثرات ۲۱/۴۶،۸۷;_ميں اميد وار ہونا ۲۲/۱۵;_ ميں تسبيح ۲۰/۱۳۰;_ كو آسان كرنا :اسكى درخواست ۲۰/۲۶;_ اس كا پيش خيمہ ۲۰/۲۶;_ كو دور كرنا :اسكے عوامل ۲۰/۱۲۴;_ اس كا سرچشمہ ۲۱/۸۴;_ كا پيش خيمہ ۲۱/۸۷;_ميں صبر ۲۲/۳۵;_ كا پيش خيمہ ۲۰/۱۳۰;_ كے عوامل ۲۰/۱۲۳;_ سختيوں كا فلسفہ ۲۱/۸۳;_ سے نجات حاصل كرنا :اسكى درخواست ۲۱/۸۳نيز ر_ك آدم ،مرتد ہونا،امتحان ،جہنم، خدا، دعا، ذكر، زندگى ، اولاد ، فرعون ، قران ، مؤمنين، مبلغين ، اسراف كرنے والے،مشكلات،مقام رضا ،موسي،ضروريات،شريك زندگي

سخن:كے اثرات۲۰/۱۰۹;_ كے آداب ۲۰/۱۴،۴۷ ;

۶۸۳

_ باطل :اس سے پرہيز كرنا ۲۲/۳۰;_ ناپسنديدہ : اسكے موانع ۲۰/۷;_ ميں احتياط كرنا :اسكى اہميت ۲۰/۱۰۹;_ نرم:اسكے اثرات ۲۰/۴۴;_ كا كردار ۲۰/۲۷;_ كى عمل كے ساتھ ہم آھنگى ۲۰/۱۳۲نيز ر_ك آسمان;_ڈرانا،انسان،اہل خبرہ، تبليغ، خود،راھبران،دينى علما، قيامت،كفار ، تربيت كرنے والے، مشركين ،فرشتے، موسى ، ہارون

سرزمين:كى قدر و قيمت ۲۱/۸۱;_ كى بركت :اس كا سرچشمہ۲۱/۸۱;_وں كا فرق :اس كا سرچشمہ ۲۱/۸۱;_ بابركت ۲۱/۷۱،۸۱;_ كى طرف ہجرت ۲۱/۷۱

سرزمين مصر:اسكى ملكيت كا دعوى ۲۰/۷۵;_ اس كا مالك ہونا ۲۰/۶۳نيز ر_ك موسي

سرسبز ہونا:ر_ك بہشت زمين

سرگرداني:ر_ك موسي

سرگرمى :ر_ك خلقت :موجودات

سرور:ر_ك مؤمنين ،نيكى كرنے والے

سعادت:كے عوامل ۲۰/۱۲۳،۲۲/۳۰;_ كا سرچشمہ ۲۲/۳۰نيز ر_ك انسان ،عابدين،مؤمنين ،نيكى كرنے والے

سكون:_كے عوامل ۲۲،۴۳نيز ر_ك زمين ، مؤمنين

سعہ صدر :ر_ك شرح صدر

سلام:ر_ك موسى ،ہارون

سلامتى :كے عوامل ۲۰/۴۷نيز ر_ك فرعون

سير و سلوك:كے راستے ۲۲/۲۵

سلونى :ر_ك بنى اسرائيل ،كھانے كى چيزيں ،نعمت

سليمان:كو الہام كرنا ۲۱/۷۹;_ كے اوامر ۲۱/۸۱;_كى پيش قدمى ۲۱/۹۰;_ كيلئے ہوا كو مسخر كرنا ۲۱/۸۱;_ اس كا سرچشمہ ۲۱/۸۱;_كيلئے شياطين كو مسخر كرنا ۲۱/۸۲;_ كا علم لدنى ۲۱/۷۹;_ كا عمل خير

۶۸۴

۲۱/۹۰ ;_ كے فضائل ۲۱/۷۹،۸۱،۸۲;_ كا قصہ ۲۱/۷۸;_ كى قضاوت ۲۱/۷۸،۷۹;_ اسكے مبانى ۲۱/۷۸;_ اس كا مقام ۲۱/۷۹;_ اس كا سرچشمہ ۲۱/۷۹;_كا نگران۲۱/۷۸;_كا داود سے مشورہ ۲۱/۷۸;_ كا معجزہ ۲۱/۸۱

كا مقام ومرتبہ ۲۱/۷۸،۷۹;_ كى نبوت :اسكے دلائل ۲۱/۸۱نيز ر_ك داود ،ذكر ،غوط زني

سياحت:كى نصيحت ۲۲/۴۶

سيارے :انكى حركت ۲۱/۳۳

سيرت :ر_ك انبيائ،زكريائ،آنحضرت

سينہ:اس كے كردار ۲۲/۴۶

''ش''

شب:_كا خالق ۲۱/۳۳;_كى خلقت ۲۱/۳۳;_ كى گردش ۲۲/۶۱،۶۲نيز ر_ك تسبيح،حمد،دن

شبہہ:كودور كرنا :اسكى روش ۲۰/۶۶نيز ر_ك قرآن ،معاد

شبہات پيدا كرنا :ر_ك شيطان ،فرعون،قرآن،كفار

شجاعت:ر_ك ابراہيم ،موسي

شخصيت:كى آسيب شناسى ۲۰/۱۲۱، ۱۲۳، ۲۱/۶۵ ، ۲۲/ ۳۱

شخصيت پرستى :ر_ك بنى اسرائيل

شرارت :ر_ك شيطان

شرح صدر:كے اثرات ۲۰/۲۵،۳۴;_ كى اہميت ۲۰/۲۵;_ كى درخواست ۲۰/۲۵;_كا سرچشمہ ۲۰/۲۵

شرك اثرات ۲۱/۶۴،۲۲/۳۱،۶۹;_اسكے اخروى اثرات ۲۰/۷۴;_ كى بخشش :اسكے شرائط ۲۰/۸۲ ; _ سے اجتناب كرنا :اسكى اہميت ۲۰/۱۴ : ۲۲/ ۳۱ ; اسكى پاداش ۲۰/۷۶; اسكى طرف دعوت ۲۲/۹ ;_ سے اعراض كرنا :اس كا پيش خيمہ ۲۲/۱۸;_سے انحراف كرنا۲۲/۱۸;_ كا باطل ہونا ۲۲/۳۴;_ اسكے دلائل ۲۱/۵۶، ۲۲/ ۶۲، ۷۳;_ ك

۶۸۵

غير منطقى ہونا ۲۲/۳،۸;_كى پليدى ۲۲/۲۶;_كا كھو كھلانا ہونا ۲۱/۲۴،۲۲/۷۳;_اسے واضح كرنا ۲۲/۷۳;اسكے دلائل ۲۲/۶۲;_ كى تاريخ ۲۱/ ۴۴ ،۵۳; _ كى حقيقت ۲۱/۵۴ ، ۲۲/۱۸ ، ۲۶; _ كو رد كرنا :اسكے دلائل ۲۱/۲۲;_ كا پيش خيمہ ۲۲/۱۵;_ كى عزمت ۲۲ / ۶۶;_ جاہليت ميں ۲۲/۳۰;_ ربوبي:اس كا غير منطقى ہونا ۲۰/۷۲;_ عبادى :اسكى اثرات ۲۲/۳۱;_ اس كا بے قدر و قيمت ہونا ۲۲/۲۶;_ كا ظلم ہونا ۲۱/۴۶، ۶۴ ، ۲۲/۷۱;_ كے عوامل ۲۱ / ۲۴;_ كى سزا ۲۲/۱۹;_ اسكى اخروى سزا ۲۲/۶۹;_ كى گمراہى ۲۲/۱۲، ۶۷ ; _ كا گناہ ہونا ۲۰/ ۷۳ ، ۲۱/ ۹۹،۲۲/۱۸،۱۹;_ كے خلاف مبارزت ۲۱/ ۲۵، ۵۲;اسكى اہميت ۲۰/۹۷; _ كا سرچشمہ ۲۲/۷۴، كے موارد ۲۲/۳۰

نيز ر_ك ابراہيم ، استغفار، انبيائ، ڈرانا، بشارت ، اظہار برات، توبہ، راھبران، فرعون، قوم ابراہيم (ع) ، آسمانى كتاب، مؤمنين (ع) ، آنحضرت (ع) ، موحدين، موسى (ع) ، ہارون(ع)

شرور:سے مراد ۲۱/۳۵

شريعت:ر_ك اسحاق،دين،زكات،نماز ،يعقوب

شطرنج:سے نہى ۲۲/۳۰

شعائر اللہ :۲۲/۳۶كى تعظيم۲۲/۳۲،۳۶;_اسكى نصيحت۲۲/۳۲;_كا تقدس ۲۲/۳۲;_سے مراد ۲۲/۳۲

شعور :ر_ك آگ، آسمان،خلقت ،پرندے ، شياطين، طبيعت،پہاڑ،موجودات

شعيب(ع) :پر جھوٹ كى تہمت ۲۲/۴۴;_ كو جھٹلانے والے ۲۲/۴۴;_ كى نبوت ۲۲/۴۴

شفاعت :كے اثرات ۲۰/۱۰۹;_ كا حتمى ہونا ۲۰/۱۰۹;_ كے شرائط ۲۰/۱۰۹،۲۱/۲۸;_ آخرت ميں :اس سے محروم ہونے كے عوامل ۲۱/۳۹;_ بے جا_اسكے موانع ۲۱/۲۸;_ اور خدا كى حاكميت ۲۰/۱۰۹;_كا تحت ضابطہ ہونا ۲۰/۱۰۹،۱۱۰;_ كا دائرہ كار ۲۰/۱۰۹;_ سے محردم۶ لوگ ۲۰/۱۱۱ ،۲۱/ ۲۸; _ جنكے شامل حال ہے ۲۰/۱۰۹;_ ا سرچشمہ ۲۰/۱۰۹نيز ر_ك خدا كى خوشنودى ،قيامت ،فرشتے

شفاعت كرنے والے :ان سے رضا مندى ۲۰/۱۰۹;_ انكى شرائط ۲۰/ ۱۰۹ ; _ قيامت ميں ۲۰/۱۱۰

شقاوت:اخروى :اسكے عوامل ۲۱/۹۷;_ اسكے موانع ۲۲ / ۴۹;_ كے عوامل ۲۲/۳۰;_ كے موانع ۲۰/ ۳ ۱۲;_

۶۸۶

نيز ر_ك انسان ،معاشرہ

شرعى ذمہ دارى :سخت:اسكى نفى ۲۰/۲;_سب پہلے ۲۲/۲۷;_ كے شرائط ۲۲/۷۸;_پر عمل كرنا ۲۰/۸۴;اسكے اثرات ۲۲/۳۰; اسكى اہميت ۲۰/۴۱; اسكى روش ۲۰/۹۴;_اس كا پيش خيمہ ۲۲/۷۸;_ اسكى كيفيت ۲۰/۱۸;_ ميں قدرت ۲۲/۷۸;_ سب سے اھم ۲۰/۱۴،۲۲/۴۱;_كا نظام۲۰/۲نيز ر_ك آدم ،ابراہيم، ابليس، اسحاق، امتيں ، انبياء ، انسان ، حوا ، خدا ، مؤمنين، آنحضرت، مسلمان ، فرشتے،موسي،ہارون يعقوب

شرم گاہ:_ كو چھپانا: اسے درخت كے پتوں سے چھپانا ۲۰/۱۲۱; _ كو ظاہر كرنے كا ناپسنديدہ ہونا ۲۰/۱۲۱نيز ر_ك آدم، حو

شرمگاہ :اسے چھپانا ۲۰/۱۲۱،اسے ظاہر كرنا ۲۰/ ۱۲۱ ; اسے ظاہر كرنے كے عوامل ۲۰/۱۲۱;_كى عہد شكنى ۲۰/۱۱۵; _ كا غريزہ ۲۰/۱۲۱;_ كا فراموشى ۲۰/۱۱۵، ۱۲۱;_كے مفاسد۲۰/۱۱۷، ۱۲۲;_ كافانى ہونا۰ ۲ /۱۲۱ ;_ كا قصہ ۲۰/۱۱۵، ۱۱۶، ۱۱۷، ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۲۲، ۱۲۳، اس سے عبرت حاصل كرنا ۲۰/ ۱۱۶;_كا گناہ صغيرہ ۲۰/۱۲۱ ;_ كى محروميت : اسكے عوامل ۲۰/ ۱۲۱، ۱۲۳;_كے شكاريات۲۰/۱۱۷;_كا معلم ۲۰/۱۲۳;_كا مقام ۰۲/۱۱۶ ; _كا نقش و كردار ۲۰/۱۲۱;_كى مادى ضروريات ۲۰/۱۱۸;_كا وسوسہ ۲۰/۱۲۰;_كا زمين پر اثر ۲۰/۱۲۳ ;_اس كا شكر ادا كرن

ر_ك شكر

شكر:_كى اہميت ۲۲/۳۶;_ كى نصيحت ۲۲/۳۷;_ كى نعمت ۲۱/۷۴،۸۰،۲۲/۳۴،۳۶; اسكے اثرات ۲۲ / ۳۸; اسكى اہميت ۲۲/ ۳۶; اسكى اہميت ۲۱/۸۰; قربانى كے وقت ۲۲/۳۷نيز ر_ك نيكى كرنے والے ،ہدايت يافتہ لوگ

شكنجہ:ر_ك بنى اسرائيل ،فرعون كے جادوگر ،فرعون لوگ،كفار،مؤمنين

شكيبائي :ر_ك صبر

شناخت:كا ذريعہ ۲۲/۸،۴۶;_كے منابع۲۱/۴۵نيز ر_ك خلقت ،خد

شوھر:كى ذمہ دارى ۲۰/۱۱۷

شہادت:ر_ك گمراہي،مہاجرين

شمر:وہ كى نابودى :اس كے عوامل۲۱/۱۱

۶۸۷

شہدا:۲۲/۵۸شيطان:۲۰/۱۲۰_كى آزادى ۲۲/۵۲;_ كا فلسفہ ۲۲/۵۳;_ كو نكال باير كرنا ۲۰/۱۲۳;_ كا گمراہ كرنا ۲۲/۴،۵۲;_ كا دہو كہ دينا ۲۲/۵۲;_ اسكے اثرات ۲۰/۱۲۳ ،۲۲/ ۵۳; _ اس كا ذريعہ ۲۰/۱۲۱;_اسكى روش ۲۰/۱۲۰ ; _ اسكى متنوع روش ۲۲/۳;_صدر اسلام ميں ;_كے پيروكار ۲۲/۳;_ كى پيروى ۲۲/۳،اسكے اثرات ۲۲/۴;_ كى حقيقت ۲۲ / ۴۳;_كى خير خواہى :اس كا تظاہر ۲۰/۱۲۰;_ كے جال ۲۲/۳۱ ;_ كا جھوٹ بولنا ۲۰/۱۲۱;_ كى دشمنى ۲۰/۱۲۱، ۱۲۳; _ كا شكوك پيدا كرنا ۲۲/۵۲ ; _ ان كا بے اثر ہونا ۲۲/۵۴;_ كے شرارت ۲۲/۳

شياطين:ان كومسخر كرنا ۲۱/۸۲;_ان كا شعور ۲۱/۸۲;_ ان كى صفات ۲۱/۸۲;_ ان كى نافرمانى ۲۱/۸۲;_ ان كا علم ۲۱/۸۲;_ ان كى غوطہ خورى ۲۱/۸۲;_ ان كى نگرانى ۲۱/۸۲;_ ان كے عمل كا نگران ۲۱/۸۲; ان كا نقش و كردار ۲۱/۸۲;_ كاعلم ۲۰/ ۱۲۰; _ كى آدم كے ساتھ گفتگو ۲۰/۱۲۰;_ سے نجات حاصل كرنا ;اسكے عوامل ۲۲/۳۱;_ كا نقش و كردار ۲۰/۱۲۰،۱۲۳;_ كے وسوسہ ۲۰/۱۲۰،۱۲۱;_ ان كے اثرات ۲۰/۱۲۳ ; ان كا خطرہ ۲۰/۱۱۷،ان كى روش ۲۰/۱۲۰;_ ان كى تاثير كے موانع ۲۰/۱۲۱ ; _ كى ولايت :اس كا برا انجام ۲۲/۴; اسے قبول كرنا ۲۲/۴; اسے قبول كرنے كے اثرات ۲۲/۴;كى خصوصيات ۲۰/۱۲، كا اترنا ۲۰/۱۲۳نيز ر_ك آدم(ع)

شيطنت:ر_ك ابليس

''ص''

صابئيت:كى تاريخ ۲۲/۱۷

صابرين:۲۱/۸۵صالحين ميں سے ۲۱/۸۶;_كے فضائل ۲۱/۸۵، ۸۶

صالح (ع) :_كے مخالفين ۲۲/۴۲;كى نبوت۲۲/۴۲

صالحين:_كى بخشش ۲۲/۸۲،۲۲/۵۰;_ كى پاداش :انكى اخروى پاداش ۲۲/۱۴،۵۰،۵۶;_انكو ضمانت ۲۱/ ۹۴ ، ۲۲/۱۴;_ كى كاميابى ۲۱/۱۰۵;_كى حكمرانى ۲۱/۱۰۵; اس كا سرچشمہ ۲۱/۱۰۵;_ كى حكومت ; انكى عالى حكومت ۲۱/۱۰۵; اس كا پيش خيمہ ۲۱/۱۰۷ ;_ كى اخروى روزى ۲۲/۵۰;_ كى عبوديت ۲۱/۱۰۵;_ كے فضائل ۲۱/۷۵،۱۰۵ ;_ كا مقام و مرتبہ ۲۰/ ۷۵، ۲۱/ ۱۰۵ ; _ ان كا اخروى مقام و مرتبہ ۲۱/۷۵،۷۶;_ كا نقش و كردار ۲۱/ ۸۰; _ كى وراثت ۲۱/۱۰۵

۶۸۸

نيزر_ك ابراہيم ،ادريس،اسحاق ،اسماعيل، بشارت،ذوالكفل، صابرين، عقيدہ، لوط(ع) ، يعقوب

صبح :ر_ك تسبيح

صبر:_كے اثرات ۲۰/۱۳۰،۲۱/۸۶ ;_ كا پيش خيمہ ۲۰/۱۳۲;_ كى فضيلت ۲۱/۸۵

نيزر_ك ادريس ،اسماعيل،انبيائ، تبليغ، ذوالكفل ،سختى ،كفار، مبلغين، آنحضرت(ع) ،مشركين، مہاجرين ، نماز

صراط مستقيم:_سے گمراہي۲۲/۶۷;_كے موارد ۲۲/۵۴، ۶۷;_ كى طرف ہدايت ۲۲/۶۷

صدر اسلام :ان كى دشمنى ۲۲/۹

صفات:بہترين ;_۲۰/۸;_ پسنديدہ :ان كا سرچشمہ ۲۱/۱۰۱;_ ناپسنديدہ ۲۱/۳

صلاحيت:_كے اثرات ۲۱/۷۳َ;_كا كردار ۲۲/۷۵نيز ر_ك ابراہيم ،ادريس،اسحاق ، اسماعيل، ذوالكفل،لوط،يعقوب

صاحب اولاد ہونا:اس كا پيش خيمہ ۲۰/۶۱نيز ر_ك تبليغ، عمل، فرعون

صلح:_كى اہميت ۲۰/۷۴;_ كے عوامل ۲۰ ۴۷نيز ر_ك آدم(ع)

صلاحيت :كا كردار ۲۱/۵۱،۹۱نيز ر_ك ابراہيم ،انسان،فرشتے

صندوق :ر_ك موسي(ع)

صاحبان عقل:_ اور آثار قديمہ ۲۰/۱۲۸; _ اور خدا كى ربوبيت ۲۰/۵۴; _ كى فضائل ۲۰/۵۴; _ كا فہم ۲۰/۵۴

صنعت:_كا منتقل ہونا :اس ميں موثر عوامل ۲۱/۸۰;_ كى تاريخ ۲۱/۸۰

صومعہ:كا احترام:۲۲/۴۰;_ كى حفاظت۲۲/۴۰

''ض''

ضلالت:ر_ك گمراہي

ضيق صدر :ر_ك كفار مكہ ،مشركين مكہ

۶۸۹

اشاريے (۴)

''ط''

طبع:ر_ك انسان

طلوع:ر_ك تسبيح، حمد

طمع:_ كے اثرات ۲۰/۱۳۱; _ كى سرزنش ۲۰/۱۳۱; _ كے موانع ۲۰/۱۳۱، ۱۳۲نيز ر_ك آدم(ع)

طواف:_ كے آداب ۲۲/۲۹; _ كے احكام ۲۲/۲۹; _ كى تاريخ ۲۲/۲۴; _ دين ابراہيمى ۲۲/۲۶; _ نساء ۲۲/۲۹نيز ر_ك حج، مسجد الحرام

طہ:_ سے مراد ۲۰/۱

''ظ''

ظالم لوگ ۲۱/۱۱، ۱۴، ۲۱، ۲۲/۵۳_ وں كا مذاق اڑانا ۲۱/۱۳; _ وں كا اضطرار ۲۱/۱۲; _ وں كا اقرار ۲۱/۱۴; _ وں سے انتقام ۲۲/۶۱; _ وں كى پشيمانى ۲۱/۱۴، ۱۵; _ وں كا كھوكھلاپں ۲۱/۱۴; _ وں كا خوف ۲۱/۱۲; _ وں كو دھمكى ۲۱/۱۱; _ وں كى حسرت ۲۱/۱۴; _ وں كے حق دشمنى ۵۳۲۲; _ وں كى عياشى ۲۱/۱۳; _ وں كے دشمن ۲۲/۶۰; _ وں كى دشمنى ۲۲/۵۳ ; _ وں كى دنيا پرستى ۲۱/۱۳; _ وں كى زندگى : اسكى روش ۲۱/۱۳ ; وں كى تقدير: اس كا مطالعہ ۲۲/۴۶; _ جہنم ميں ۲۱/۲۹; _ صدر اسلام ميں : انكى سازش ۲۱/۳; _ عذاب كے وقت ۲۱/۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵; _ وں كا عذاب: اس كا حتمى ہونا ۲۱/۱۳; ان كا اخروى عذاب ۲۲/۴۸; ان كا تدريحى عذاب ۲۱/۱۲; _ وں كا فرار ۲۱/۱۲، ۱۳; _ وں كا انجام: اس كا مطالعہ ۲۲/۲۶; _ وں كى سزا ۲۱/۲۹; اانكى دنيوى سزا ۲۲/۲۵; _وں كا مواخذہ ۲۱/۱۳; _ وں كى اخروى محروميت ۲۰/۱۱۱ ; _ وں كا نقش كردار ۲۱/۱۳; _ وں كى ہلاكت ۲۱/۱۱، ۱۲، ۱۸، ۲۲/۴۵، ۴۸; اس كا تحت ضابطہ ہونا ۲۱/۱۶نيز ر_ك گذشتہ اقوام، جہاد، نعمت

ظلم:_ كے اثرات ۲۰/۱۱۱، ۲۱/۱۱، ۱۴، ۹۷; اس كے اخروى اثرات ۲۰/۱۱۲; _ سے اجتناب كرنا: اسكى اہميت ۲۰/۱۱۱ ; _ سے پشيمان ہونا ۲۱/۴۶; _ كى حقيقت ۲۱/۱۶; _ كا آخرت مين بوجھہ ہونا ۲۰/۱۱۱; _ كے موارد ۲۱/۳، ۱۱، ۲۹، ۴۶، ۶۴، ۹۷; _كا ناپسنديدہ ہونا ۲۲/۱۰; _ كا واضح ہونا ۲۱/۶۴

۶۹۰

نيز ر_ ك اقرار، گذشتہ اقوام، الوہيت، انبيائ، ايمان، بت پرستي، بے گناہ لوگ، بيمار، دل لوگ، خدا، خود،عياشى لوگ، سخت دل لوگ، شرك، عمل صالح، قرآن كفار، كفر، كھائے پيتے لوگ، مسلمان، مكہ، وطن

ظلم دشمني:ر_ك اسلام، قرآن

''ع''

عابدين:_ كا عملى نمونہ ۲۱/۸۴; _ كا خبردار ہونا ۲۱/۸۴; اسكے عوامل ۲۱/۸۴; _ كى سعادت، اسكى عوامل ۲۱/۱۰۶; _ كا عبرت حاصل كرنا ۲۱/۸۴; _ كى معنوى ضروريات ۲۱/۸۴; _ كى ہدايت: اسكے عامل ۲۱/۱۰۶

نيز ر_ك ايوب، يادديانى كران

عاد:ر_ك قوم عاد

عاقبت:ر_ك انجام

عالم برزخ:_ كى موت ۲۰/۱۰۳، ۱۰۴; اس كا كم ہونا ۲۰/۱۰۳، ۱۰۴

عدد:دس كا ۲۰/۱۰۳;_ہزار كا ۲۲/۴۷;_دھو كہ كھانا : اس كا پيش خيمہ ۲۲/۵۳نيز ر_ك آدم ،انسان،بيمار دل لوگ، ہود، عوت، سخت دل لوگ،مرد،مشركين

عمل كو درج كرنا:ر_ك

عمل كافر :انہيں اہميت دينا ۲۰/۱۳۱نيز ر_ك ثروت

عدالتى كارواني:ر_ك سامري

عورت:كا دھو كہ كھانا :اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۱۷;_ كا تكامل : اسكے عوامل ۲۱/۹۱;_ كى عفت :اسكى اہميت ۲۱/۹۱;_كا كمال ۲۱/۹۱

عالم طبيعت :_كى تخليق ۲۱/۵۶;_ سے استفادہ كرنا ۲۲/۶۵ ; _ كا مطيع ہونا ۲۰/۷۷;_ كو مسخر كرنا ۲۲/۶۵;_ كا شعور ۲۱/۷۹;_ كا كردار ۲۰/۷۸نيز ر_ك ذكر

عمومى مفادات:_ كى اہميت ۲۱/۸۰

۶۹۱

عبادت:_ كے اثرات ۲۰/۸۴; _ ميں آسائش طلبى ۲۲/۱۱; _ ميں اخلاص ۲۰/۱۴، ۲۱/۷۳، ۲۲/۲۶; اسكے اثرات ۲۲/۳۱; اسكى اہميت ۲۰/۱۴; _ كا محرك ۲۲/۱۱، ۱۴; _ كا تسلسل ۲۱/۷۳; اسكى قدر و قيمت ۲۱/۱۹; _ كيلئے كوشش: اسكى اثرات ۲۰/۱۵; _ ميں خضوع ۲۱/۱۵; _ ميں عيش پرستى ۲۲/۱۱ ; _ كا پيش خيمہ ۲۰/۱۳۲; _ ميں سستي: اسكے موانع ۲۱/۱۹; _ بہشت كيلئے ۲۲/۱۴; بے قدر و قيمت _ ۲۲/۱۱، ۲۶; خدا كى _ ۲۱/۹۲، ۲۲/۱۱، ۳۴; اسكے اثرات ۲۱/۸۴; _ كو ترك كرنے كے اثرات ۲۲/۲۵; اس كا احكام ۲۱/۶۶; اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۴; خدا كى عبادت مادى مفادات كيلئے ۲۱/۶۶; اسكے ترك كرنے كا گناہ ۲۲/۲۵; غير خدا كى _ ۲۲/۲۵; اسكے اثرات ۲۱/۹۸; اس سے اجتناب كرنا ۲۲/۳۱; عبادات كا فلسفہ ۲۰/۱۴; _ كے موانع ۲۰/۱۳۲; سب سے اہم _ ۲۲/۷۷; _ ميں نشاط ۲۱/۱۹

نيز ر ك: عيش پرست لوگ، قرباني، كعبہ، مسجد الحرام

عبث كام:_ سے اجتناب كرنا ۲۲/۳۰

عبرت:_ كى طرف ترغيب دلانا ۲۱/۴۴; _ كا پيش خيمہ ۲۰/۴، ۲۱/۸۴; _ كو قبول نہ كرنے والے: ان كى بے عقلى ۲۰/۱۲۸; _ كو قبول نہ كرنا: اسكى مذمت ۲۰/۱۲۸; اسكى نشانياں ۲۲/۴۶; _ كے عوامل ۲۰/۶، ۹، ۱۱۶، ۱۲۸، ۲۱/۱۰، ۴۴، ۷۶، ۸۳، ۸۵، ۸۷، ۸۹، ۹۱، ۱۰۴، ۲۲/۴۴، ۴۵، ۴۶

خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كئے جائيں

عبوديت:_ كے اثرات ۲۱/۴۶; _ ميں استقامت ۲۲/۱۱; _ كا پيش خيمہ ۲۲/۷۷; _ بے نيازى ميں ۲۲/۱۱; _ فقر ميں ۲۲/۱۱; _ كے درجے ۲۱/۷۳; _ كا مقام: اسكى قدر و قيمت ۲۱/۲۶; _ كى اہميت ۲۱/۲۶; اس كا پيش خيمہ ۲۱/۲۷; _ كى نشانياں ۲۰/۱۴، ۷۰، ۲۱/۲۷نيز ر_ك ابراہيم، اسحاق، انسان، اسلامى معاشرہ، خدا، صالحين، فرشتے، يعقوب

عاجزي:ر_ك انسان، بت، فرعون كے جادوگر، خدا، سامري، عذاب، غافل لوگ، قوم ابراہيم، كفار، كفار مكہ، مردے، مشركين، مشركين مكہ، باطل معبود، موجودات

عدالت:ر_ك پاداش، محاسبہ كرنا، خدا، قيامت، سز

عدالت خواہ لوگ:_ وں كى نجات ۲۰/۱۳۵

عداوت:ر_ك دشمني

۶۹۲

عذاب:_ كا ذريعہ ۲۰/۱۳۱; _ كے اہل ۲۰/۱۲۹، ۱۳۵، ۲۱/۴۱، ۴۳، ۲۲/۱۸، ۴۴، ۴۵، ۴۸، ۵۷،; ان كا اقرار ۲۰/۱۳۴; ان كا بے يار و مددگار ہونا ۲۱/۴۳; ان سے عبرت اصل كرنا ۲۰/۱۲۸; _ ان كا كفر ۲۱/۶; ان كا لپچڑپن ۲۱/۶; _ كے وقت پشيمانى ۲۱/۱۴، ۱۵; _ كو موخر كرنا ۲۰/۱۳۰، ۲۲/۴۸; _ ميں جلدى كرنا، اس كى درخواست ۲۱/۳۹، ۲۲/۴۷; اسكى درخواست كا پيش خيمہ ۲۱/۳۸; _ ميں ہميشہ رہنا ۲۰/۱۰۱; اسكے اسباب ۲۲/۱۱; _ كو روكنا: اس سے عاجز ہونا ۲۱/۴۰; _ كو ديكھنا: اسكے اثرات ۲۱/۱۴، ۱۵; _ كا پيش خيمہ ۲۱/۱۳، ۴۱، ۷۷; اخروى _ ۲۲/۲۱; اس كا ذريعہ ۲۲/۲۱; اسكى شدت ۲۰/۱۲۷; اسكے درجے ۲۰/۱۲۷; اسے جھٹلانے والے ۲۱/۳۸; اسكے اسباب ۲۲/۱۰، ۲۵ ، ۵۷; مہلك _ ۲۰/۱۳۴، ۲۱/۱۳، ۲۲، ۵۵; اسكے اثرات ۲۲/۵۵; اس سے محفوظ ہونا ۲۰/۱۳۴; اسكے اسباب ۲۲/۴۸; اس سے نجات حاصل كرنا ۲۲/۵۵; دولت كے ساتھ _ ۲۰/۱۳۱; دردناك _ ۲۲/۲۵; دنيوى _ ۲۰/۱۲۷; ذلت آميز _ ۲۲/۱۸، ۵۷; سخت _ ۲۲/۴۴; شديد _ ۲۲/۲ ; اچانك _ ۲۱/۴۰; _ كے عوامل ۲۱/۱۴، ۴۱; _ سے فرار كرنا ۲۱/۱۲، ۱۳; _ كے درجے ۲۰/۷۴، ۸۶، ۱۲۷، ۱۳۴، ۲۱/۴۶، ۱۰۰، ۲۲/۲، ۲۵، ۴۴، ۵۷; _ كے اسباب ۲۰/۴۸، ۶۱، ۸۶، ۶۱، ۸۶، ۲۱/۱۸، _ سے محفوظ ہونا: اسكے شرائط ۲۰/۱۲۷; _ سے نجات ۲۰/۱۳۵; _ كى نشانياں ۲۱/۱۲; _ كا وقت: اس كا علم: ۲۱/۱۱۰

خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كئے جائيں

عرب:_ كے رسوم ۲۲/۲۵

عرش:_ كى اہميت ۲۱/۲۲; _ كى تدبير: اسكے اثرات ۲۱/۲۲; _ كى حقيقت ۲۰/۵; _ كى عظمت ۲۱/۲۲; _ كا مالك ۲۱/۲۲; _ كى تدبير كرنے والا ۲۱/۲۲; _ كا كردار ۲۰/۵، ۲۱، ۲۲

عرفات:_ كى بركتيں ۲۲/۲۸; كا خير ہونا ۲۲/۲۸; _ ميں موقوف ۲۲/۲۸

عزت:_ كے عوامل ۲۰/۱۳۴، ۲۱/۱۰نيز ر_ك ايمان، خدا، عقيدہ، مسلمان

عزرائيل:_ كى موت ۲۱/۳۵

عصا:_ كے آداب ۲۰/۶۹; _ كو سانپ ميں تبديل كرنا ۲۰/۲۰، ۲۱; _ كا سرچشمہ ۲۰/۲۱; _ كے فوائد ۲۰/۱۸

نيز ر_ك خوف، فرعون كے جادوگر، سانپ، موسى

عصمت:_ كے اثرات ۲۱/۲۸

۶۹۳

نيز ر_ك معصومين، فرشتے

عفت:_ كے اثرات ۲۱/۹۱

عقاب:ر_ك عذاب، سز

عقل:_ كى قدر و قيمت ۲۰/۵۴،۱۲۸; بے عقل لوگ ۲۰/۱۲۸; _ كا كردار ۲۰/۵۴، ۱۲۸، ۲۱/۳، ۲۲/۸

عقيدہ:_ كے اثرات ۲۰/۵۲; _ ميں الہام ۲۲/۸; _ ميں دليل ۲۰/۱۳۳، ۲۱/۲۲، ۲۴، ۵۶، ۲۲/۸; اسكى اہميت ۲۱/۲۴، ۵۳; _ كى تصحيح: اسكى روش ۲۱/۲۱; _ ميں تقليد ۲۱/۵۳; _ كى حقانيت: اسكى دليل ۲۱/۵۴; _ كى درستي: اس كا معيار ۲۱/۲۴; باطل _ ۲۱/۱۸، ۲۴، ۴۳، ۴۴، ۲۲/۳، ۷۱; اس پر اصرار ۲۲/۳; اس پر اصرار كى مذمت ۲۲/۳، ۸; اسكے بارے ميں سوال ۲۱/۲۱، ۲۴; اسكے موانع ۲۰/۱۳۲; كئي معبودوں كا _ ۲۲/۷۱; توحيد ربوبى كا _ ۲۱/۹۲، ۲۲/۱۹; صالحين كى حكمرانى كا _ ۲۱/۱۰۶; خدا كى ربوبيت كا _ : اسكے اثرات ۲۲/۱، ۴۰; غيرخدا كى ربوبيت كا _ ۲۲/۱۹; خدا كے عزيز ہونے كا _ : اس كا پيش خيمہ ۲۲/۷۴; علم خدا كا _ ۲۲/۷۰; خدا كے صاحب اولاد ہونے كا _ ۲۱/۲۶; قدرت خدا كا _: اس كا پيش خيمہ ۲۲/۷۴; قيامت كا _: اسكے اثرات ۲۱/۳۹; باطل معبودوں كا _ ۲۱/۴۴; ولايت خدا كا _ : اسكے اثرات ۲۲/۷۸; حق كا _ ۲۱/۱۸; خدا كى رشتہ دارى كا _ : اسكى تصحيح ۲۰/۳۴; _ ميں علم ۲۱/۷; _ كے مبانى ۲۰/۱۳۳، ۲۲/۸; ا_ اعتقادى مسائل: اس ميں تفحص ۲۱/۷; _ پر نظارت ۲۲/۱۷نيز ر_ك انسان، بنى اسرائيل، اظہار برآئت، جاہليت، كفار، آسمانى كتب، مسلمان، مكہ كے مسلمان، مشركين، موحدين

علقہ:_ كو مضغہ ميں تبديل كرنا ۲۲/۵نيز ر_ك نطفہ

علم:_ كے اثرات ۲۱/۸۱، ۲۲/۵۲; _ كى آفات ۲۰/۱۱۴; _ كى قدر و قيمت ۲۲/۵، ۵۴; _ كا زيادہ ہونا ۲۰/۱۱۴; _ سے استفادہ كرنا: اس كا پيش خيمہ ۲۱/۸۰; _ كى جگہ ۲۲/۴۶; _ كا سرچشمہ ۲۰/۱۱۴، ۲۲، ۵۴; _ كى وسعت ۲۰/۱۱۴; _ كى خصوصيات ۲۰/۱۱۴نيز ر_ك انبيائ، خدا، دعا، ذكر، عذاب، عقيدہ، قانون بنانے والے، قرآن، قضاوت، قيامت، سچے معبود، فرشتے، موجودات، نعمت

علمائ:_ كا ايمان ۲۲/۵۴; _ سے بازپرس ۲۱/۷; _ كے فضائل ۲۲/۵۴; زمان بعثت كے _ ۲۱/۷; _ كا دل: اس كا اطمينان ۲۲/۵۴; اسكى رقت ۲۲/۵۴; قلب سليم ۲۲/۵۴; _ كى ذمہ دارى ۲۱/۷

۶۹۴

علم غيب:_ كے اثرات ۲۱/۱۱۰نيز ر_ك خدا، ذكر

عمر:_ كے مختلف ادوار ۲۲/۵، ۶: اس كا بدترين دور ۲۲/۵; لمبى _ : اسكے اثرات ۲۱/۴۴; اس كا سرچشمہ ۲۱/۴۴; اس كا كردار ۲۱/۴۴; _ كا سرچشمہ ۲۱/۴۴نيز ر_ك گذشتہ اقوام، انسان، مشركين، مكہ

عمل:_ كے اثرات ۲۰/۱۵، ۵۲، ۱۲۶، ۲۱/۱۱، ۴۱، ۸۶، ۲۲/۱۰;اسكے اخروى اثرات ۲۲/۶۹; _ كى قدرت و قيمت: اس كا معيار ۲۲/۳۷; _ كى بقا ۲۰/ ۱۱۲، ۲۱/۴۷; _ كى پاداش ۲۰/۷۴، ۲۱/۴۷; اسكى اخروى پاداش ۲۰/۱۱۲، ۱۲۶; _ كا تجسم ۲۰/۱۰۱ ، ۲۱/۴۷; _ كا نيكى ہونا ۲۰/۵۲، ۲۱/۹۴، ۲۲/۷۰; اسكے اثرات ۲۱/۹۴; اس كا آسان ہونا ۲۲/۷۰; _ كا تدارك ۲۱/۹۵; _ كا محاسبہ: اس كا حتمى ہونا ۲۱/۱، اس كا اخروى محاسبہ ۲۲/۷۰; اس كا نزديك ہونا ۲۱/۱; پسنديدہ _ ۲۰/۱۰، ۱۸، ۳۵، ۴۳، ۴۷، ۱۳۰، ۲۱/۱۹، ۲۷، ۴۴، ۷۱، ۲۲/۳۷، ۵۸; _ خير: اسكے اثرات ۲۲/۷۷; اس ميں پيش قدمى كے اثرات ۲۰/۸۴، ۲۱/۹۰; اس ميں پيش قدمى كى قدر و قيمت ۲۱/۹۰; اسكى نجات دہى ۲۲/۷۷، اسكى اہميت ۲۱/۷۳; اس ميں پيش قدم لوگوں كے پاداش ۲۰/۸۴ اسكى تشخيص ۲۲/۷۷; اس پر تكبر كرنا ۲۲/۷۷; اس ميں جلدى كرنا ۲۱/۳۷; اسكى نصيحت ۲۲/۷۷; اسكى پاداش كا پيش خيمہ ۲۰/۸۴; اس كے شرائط ۲۰/۸۴; اس ميں نيت ۲۰/۸۴; احمقانہ _ ۲۱/۶۷; ناپسنديدہ _ ۲۰/۷۲، ۸۱، ۱۳۱، ۲۱/۷۸; اسكے اثرات ۲۱/ ۷۷; اسكے معاشرتى اثرات ۲۱/۷۷; اسے مزين كرنا ۲۰/۹۶; اسے مزين كرنے كے اثرات ۲۰/۹۶; اس كى تشخيص ۲۲/۷۷; اس كا انجام ۲۰/۴۴; اسكى سزا ۲۱/۷۷; اسكے موانع ۲۰/۵۴، ۱۲۸; _ كا انجام ۲۲/۷۶; _ كى فرصت ۲۰/۱۵; _ كى سزا ۲۰/۷۴، ۲۱/۴۷; اسكى اخروى سزا ۲۰/۱۱۲، ۱۲۶; _ كى ذمہ دارى ۲۰/۱۵، ۲۱/۱; كا ترازو ۲۰/۱۰۰; _ پر نظارت ۲۲/۱۷; _ ميں نيت ۲۲/۳۷

( خاص موارد كو اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كيا جائے)

عمل صالح:_كے اثرات ۲۰/۷۶، ۸۲، ۲۱/۸۶، ۹۴، ۱۰۵، ۲۲/۱۴، ۵۰، ۵۶; اسكے اخروى اثرات ۲۰/۱۱۲; _ سے روگردانى كرنا: اسكے اخروى اثرات ۲۰/۱۱۲; _ اس كا ظلم ہونا ۲۰/۱۱۲; دوسروں كے _ كو اہميت دينا ۲۱/۹۴_ كى اہميت ۲۰/۸۲; _ كى پاداش ۲۰/۱۱۲; _ كا پيش خيمہ ۲۱/۹۴نيز ر_ك انبيائ، ايمان، تمايلات، مومنين

عناد:ر_ك دشمني

عہد :

۶۹۵

ر_ك خدا، ذكر، موسى

عہد جديد :ر_ك انجيل

عہد شكنى :ر_ك آدم، انبيائ، بنى اسرائيل، خد

عہد عتيق:ر_ك تورات

عيسى (ع) :_ آيات الہى ميں سے ۲۱/۹۱; _ كے فضائل ۲۱/۹۱; _ كا مقام و مرتبہ ۲۱/۹۱; _ كى ولادت: اس كا معجزانہ ہونا ۲۱/۹۱

''غ''

غافل لوگ: ۲۱/۳_ وں كا اخروى اقرار ۲۰/۱۲۵; _ وں سے آخرت ميں بازپرسى ۲۰/۱۲۵; _ وں كا آخرت ميں تعجب ۲۰/۱۲۵; _ كا محشور ہونا ۱۲۵; اس كا سرچشمہ ۲۰/۱۲۴; _ وں كا عاجز ہونا ۲۰/۱۲۵; _ وں كا اندھاپن ۲۰/۱۲۵; ان كا آخرت ميں اندھاپن ۲۰/۱۲۴، ۱۲۵; _ وں كا آخرت ميں گلہ_ ۲۰/۱۲۵نيز ر_ك محاسبہ، خد

غم واندوہ:_كو دور كرنا:اسكے عوامل ۲۱/۸۸;_اس كا سرچشمہ ۲۰/۴۰;_كے عوامل ۲۰/۸۶،۲۱/۸۸نيز ر_ك ايوب ، قيامت، مؤمنين، موسي، نوح، يونس

غصہ:ر_ك غضب

غريزہ:_ كو كنٹرول كرنا ۲۱/۳۷، _ كا كردار ۲۱/۱۰نيز ر_ك آدم، حو

غرق ہونا:ر_ك فرعون، فرعونى لوگ، قوم نوح

غروب:ر_ك تسبيح، حمد

غرور:ر_ك تكبر

غضب:_ كے عوامل ۲۰/۸۶، بے جا _ ۲۱/۸۷; ناپسنديدہ _ ۲۰/۹۴نيز ر_ك انبيائ، جہنم، جہنمى لوگ، خدا، قوم ابراہيم، قوم يونس، كفار، موسى ، يونس

غفران:ر_ك بخشش

۶۹۶

غفلت:_ كے اثرات ۲۰/۷، ۴۴، ۲۱/۹۷; _ كو دور كرنا: اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۱۳; آخرت سے _ : اس كا انجام ۲۰/۱۶; آيات الہى سے_ : اسكے اثرات ۲۰/۱۲۶; عمل كى پاداش_ : اس كا انجام ۲۰/۱۶; آخرت كے محاسبہ سے _ ۲۱/۱; خدا سے _: اسكے اثرات ۲۰/۱۲۴، ۱۲۵، ۱۲۶; اس كا خطرہ ۲۰/۴۲; اس كا گناہ ۲۰/۱۲۹; دين سے _ : اسكے عوامل ۲۱/۲; خدا كى قدرت سے _: اسكے اثرات ۲۲/۵; قيامت سے _ ۲۱/۱; اسكے اثرات ۲۱/۲، ۹۷; _ كا خطرہ ۲۰/۱۶; عمل كى سزا سے _ : اس كا انجام ۲۰/۱۶; قيامت بچوں سے _ ۲۲/۲; وحى سے _: اسكے عوامل ۲۱/۲

نيز ر_ك انسان، سامري، قرآن، كفار، مشركين، مكہ

غنا:_ سے نہى ۲۲/۳۰

غوطہ خوري:سليمان(ع) كے زمانہ ميں _ كى اہميت ۲۱/۸۲نيز ر_ك شيطان

غور كرنا:بارش برنے كے عوامل ميں ۲۲/۶۳;_ قيامت ميں اسكى اہميت ۲۱/۱;_اسكى نشانيان۲۱/۱;_موسي(ع) كے قصے ميں ۲۰/۹نيز ر_ك قوم ابراہيم

''ف''

فجور:ر_ك فسق

فراق:ر_ك ايوب، موسى

فراموشي:_ كے اثرات ۲۰/۵۲نيز ر_ك آدم، آيات خدا، بڑھاپا، خدا، موسى

فرعونى لوگ:_ وں كا تحاد ۲۰/ ۶۲/ ۶۴; _ وں كا اختلاف ۲۰/ ۶۲، ۶۴; اسے مخفى كرنا ۲۰/ ۶۴; اس كا پيش خيمہ ۲۰/ ۶۲، ۶۳; اسے حل كرنے كا پيش خيمہ ۲۰/ ۶۲; _ وں كا حصر سے نكالنا ۲۰/ ۵۷، ۶۳; _ وں كا دعوى ۲۰/ ۶۳; _ وں كا اذيتيں ۲۰/ ۴۷; _ وں كے بہتان ۲۰/ ۶۱; _ وں كا اقرار ۲۰/ ۵۰/ ۶۴; _ وں كو ڈرانا; اسكے اثرات ۲۰/ ۶۲; _ وں كا سلوك; اسكى روش ۲۰/ ۶۴ _ وں كى سوچ ۲۰/ ۶۳، ۶۴; _ وں كاميابي: اس كا خوف ۲۰/ ۶۷; _ وں كى تاريخ ۲۲/ ۴۴; _ وں كا نسلى امتياز ۲۰/ ۴۰; _ وں كا پروپيگنڈا ۲۰/ ۶۳; اسكى روش ۲۰/ ۶۳، ۶۴;_ وں و تحريك كرنا ۲۰/ ۵۷; _ وں كا تاويليں كرنا ۲۰/ ۶۳; _ وں كى تہمتيں ۲۰/ ۶۳; _ وں كا جادو ۲۰/ ۶۴; _ وں كا حركت كرنا: اس كى منزل ۲۰/ ۷۸; _ وں كى حقانيت: اس كا دعوى

۶۹۷

۲۰ / ۶۴ ; _ وں ميں سے حق طلب ۲۰/ ۶۲; _ وں كا خطرہ ۲۰/۷۷; _ وں كے مطالبے ۲۰/ ۶۴; _وں كو دعوت ۲۰/ ۶۴; _ وں كا دين : اسكى برترى ۲۰/ ۶۳; _ وں كى روش: اسے نابود كرنے والا ۲۰/ ۶۳; _ وں كے زيورات ۲۰/ ۸۷; _ وں كے شكست اسكى پيشين گوئي۲۰/ ۶۱; اس كا پيش خيمہ ۲۰/ ۶۴; _ وں كے شكنجے ۲۰/ ۴۷; _ وں كى صفات ۲۰/ ۶۲; _وں كى كمزورى ۲۰/ ۶۸; _ وں كا ظلم ۲۰/ ۴۷; _ وں كى عبرت: اسكے عوامل ۲۰/ ۶۱; _ وں كا مہلك عذاب ۲۲/ ۴۴; _ وں كا عقيدہ ۲۰ / ۵۰; وں كے تمايلات ۲۰/ ۳۹; _ وں كے جذبات: انہيں بھڑ كانا ۲۰/ ۶۳; _ وں كا غرق ہونا ۲۰/ ۷۸; اں كے دريا ميں غرق ہونا ۲۰/ ۷۸; _ اور بنى اسرائيل ۲۰/ ۴۷، ۷۸; _ اور وعدہ خلافى ۲۰/ ۵۸; _ اور مخلوقات كا خالق ۲۰/ ۵۰; _ اور موجودات كا رب ۲۰/ ۵۰; _ اور موسى ۲۰/ ۴۰، ۶۳، ۲۲/ ۴۴; _ وں كى قدرت نمائي ۲۰/ ۴; _ وں كى گمراہي: اسكے عوامل ۲۰/ ۷۹; وں كى مالكيت ۲۰/ ۵۷; _ وں كى مشكلات ۲۰/ ۴۰; _ وں كا آپس ميں مشورہ ۲۰/ ۶۲; _ وں كا مكر ۲۰/ ۶۴; _ وں كى مشكلات ۲۰/ ۴۰; _ وں ميں سے نصيحت قبول كرنے والے ۲۰/ ۶۲; _ وں سے نجات ۲۰/ ۸۰ ; _ اس كا پيش خيمہ ۲۰/ ۶۴; _ وں كى سرگوشى اس كا فلسفہ ۲۰/ ۶۲; _ وں كى ہدايت ۲۰/ ۲۸; _ وں كى ہلاكت ۲۲/ ۶۴; اسكے عوامل ۲۰/ ۷۹نيز ر_ك فرعون،موسى /فرياد:ر_ك جہنمى لوگ: مشركين

فساد:ر_ك خلقت

فسق:_ كے اثرات ۲۱/ ۷۴نيز ر_ك قوم لوطفقہى قواعد: ۲۰/۸۱، ۱۲۶، ۱۳۴

قاعدہ حليت ۲۰/۸۱; قاعدہ قبح عقاب بلا بيان ۲۰/۱۲۶; قاعدہ نفى عسر و حرج ۲۰/۲، ۲۲/۷۸; اس كا دائرہ كار ۲۲/۷۸

فقہى قواعد: ۲۰/۸۱، ۱۲۶، ۱۳۴قاعدہ حليت ۲۰/۸۱; قاعدہ قبح عقاب بلا بيان ۲۰/۱۲۶; قاعدہ نفى عسر و حرج ۲۰/۲، ۲۲/۷۸; اس كا دائرہ كار ۲۲/۷۸

فرعون:_ كے پاس آيات الہى ۲۰/۲۴; اسكے پاس آيات الہى پيش كرنا ۲۰،۵۶; _ اتمام حجت كرنا ۲۰/۵۶; _ كى اجازت ۲۰/۷۱; _ كے سامنے استدلال ۲۰/۵۲; _ كا مصر سے نكالنا ۲۰/۵۷; _ كا دعوى ۲۰/۵۷; _ كا استبداد ۲۰/۴۵، ۷۱، ۷۳; _ كا جادو سے مدد لينا ۲۰/۶۰; _ كا گمراہ كرنا ۲۰/۷۹; _ كا اطمينان ۲۰/۵۸; _ كا منہ موڑنا ۲۰/۶۰; _ كے بہتان ۲۰/۶۱; _ كا اقرار ۲۰/۵۰، ۵۸; _ كا امن: اس كا پيش خيمہ ۲۰/۴۷; _ كا ڈرانا ۲۰/۴۸; _ كے ساتھ سلوك: اسكى روش ۲۰/۴۴; _ ا سلوك: اسكى روش ۲۰/۵۷; _ كا باطل ہونا: اسكے دلائل ۲۰/۷۲ ; _ كا غير منطقى ہونا ۲۰/۷۲; _ كى سوچ ۲۰/۵۷، ۷۱; سے بازپرس ۲۰/۵۱; اس كا فلسفہ ۲۰/۵۱;_ كى كاميابى ۲۰/۵۸; كى پيروى كرنا: اسكے اثرات ۲۰/۷۹;

۶۹۸

_ كى پيشقدمي: اسكى وجہ سے پريشانى ۲۰/۴۵; _كا پروپيگنڈا: اسكى روش ۲۰/۶۳; _ كا تجاہل عرافانہ ۲۰/۴۹; اسكے اثرات ۲۰/۴۹; _ كى تحقير ۲۰/۷۲; _ كا خوف: اس كا پيش خيمہ ۲۰/۴۴; _ كا تكبر ۲۰/۷۱; _ كا سازش كرنا ۲۰/۶۰، ۷۱; _ كى دھمكياں ۲۰/۷۱، ۷۳; ان كا ہدف ۲۰/۷۲; _كى تہمتيں ۲۰/۵۷، ۵۸، ۷۱; _ كا ماحول كو بگاڑنا ۲۰/ ۵۷; _ كى حق شناسي_ اس كا پيش خيمہ ۲۰/۴۴; _ كا حق كو قبول نہ كرنا: اسكى وجہ سے پريشانى ۲۰/۴۵; _ كى حكومت: اس ميں گھٹن ۲۰/۷۱; اس كا بے قدر و قيمت ہونا ۲۰/۷۲; اسے محكم كرنا ۲۰/۷۱; _ كے انحطاط كا پيش خيمہ ۲۰/۷۱; اسكى بقا كے عوامل ۲۰/۷۸; _ كے مركز كا گرم ہونا ۲۰/۷۱; _ كے مركز كى آپ ہوا ۲۰/۷۱; _ كے مركز ميں نخلستان ۲۰/۷۱; _ فوجى حكومت ۲۰/۷۱، ۷۳; _اسكى خصوصيات ۲۰/۷۱ ; _كے مطالبے ۲۰/ ۵۸; _ا س درخواست ۲۰/ ۴۷;_ كى دشمنى ۲۰/ ۳۹، ۷۱، ۸۰; _كو دعوت ۲۰/ ۴۷; _كى ذلت _اسے چھپانا ۲۰/ ۵۱; _ كى فوج، اس كا سپہسالار ۲۰/ ۷۸; _ كى مذمت ۲۰/ ۷۱; _كا سوء استفادہ كرنا; اس سے مخالفت ۲۰/ ۷۰; كى سلامتي، اس كا پيش خيمہ ۲۰/ ۴۷;_ كا شكوك پيدا كرنا ۲۰/ ۴۹، ۵۱;_ كا شرك ۲۰/ ۵۱; _كے شكنجہ ۲۰/ ۴۵، ۷۱; انہيں برداشت كرنا ۲۰/۷۲;_ ان كا سخت ہونا ۲۰/ ۷۱; انكى موت ۲۰/ ۷۱; ان سے مخالفت ۲۰/ ۴۷; ان سے نجات ۲۰/ ۷۷; _ كے صفات ۲۰/ ۲۴، ۴۳، ۵۶، ۷۱;_ كا كمزور ہونا ۲۰/ ۶۸;_ كى سركشى ۲۰/ ۲۴، ۲۵، ۴۳; اس كا پيش خيمہ ۲۰/ ۲۸;_ اس سے روكنا ۲۰/ ۲۴، ۴۳; اسكى وجہ سے پريشانى ۲۰/ ۴۵/ ۴۶; _ كا ظلم ۲۰/۳۹، ۷۱; _ كى نافرمانى ۲۰/ ۲۴;_ كا عقيدہ ۲۰/ ۵۰;_ كے تمايلات ۲۰/ ۳۹; _كا غرق ہونا ۲۰/ ۷۸; _كى فرصت ۲۰/ ۶۰;_ اور عمومى افكار ۲۰/ ۵۸; _اور بنى اسرائيل ۲۰/ ۴۷، ۷۸;_ اور وعدہ خلافى ۲۰/۸۵; _اور كائنات كا خالق ۲۰/ ۵۰ ;_اور گذشتہ اقوام كا عقيدہ ۲۰/ ۵۱; _اور موجودات كا رب ۲۰/ ۵۰; _ اورموسى ۲۰/ ۴۰، ۵۶، ۶۳ ; _ كى كمان ۲۰/ ۷۸; _ كا قصہ ۲۰/ ۴۰; _ كا كفر ۲۰/ ۵۶; _ كى سزائيں ۲۰/ ۷۱; _ كى كنيت ۲۰/ ۴۴; _ كا ليچڑپن ۲۰/ ۵۶; _ كا مالك ہونا ۲۰/ ۵۷; _ كا مقابلہ ۲۰/ ۵۸; اسكى روش ۲۰/ ۶۰، ۷۱; _ كے ساتھ مبارزت ۲۰/ ۶۳; _ كے پروپيگينڈا كرنے والے_ انكى دعوت ۲۰/ ۶۴; _ كى محروميت ۲۰/ ۴۷; _ سے محفوظ ہونا ۲۰/ ۷۱; _ پر معجزہ: _ اس پر معجزہ پيش كرنا ۲۰/ ۴۷; _ كا مكر ۲۰/ ۶۰; _ كا موسى كے ساتھ مناظرہ ۲۰/ ۶۰; _ كى نصيحت ۲۰/ ۷۲; _ كى موسى كے ساتھ ميعادگاہ ۲۰/ ۵۸، ۵۹، ۶۰ ; اس كا دن ۲۰/ ۶۴; _ سے عنايت ۲۰/ ۸۰; _ كا سزا كا نظام ۲۰/۷۱; _ كى طرف وحى پہچانا ۲۰/ ۴۹ ; _ كى ہدايت ۲۰/ ۲۹، ۴۳، ۴۶; اس كا پيش خيمہ ۲۰/ ۲۴; اس كا مشكل ہونا۲۰/۲۵، ۲۶نيز بنى اسرائيل، فرعونى لوگ، موسى /فصاحت:_ كے اثرات ۲۰/ ۲۷ ۳۴

۶۹۹

فضل و كرم كرنا :ر_ك ابراہيم (ع) ،انسان ،ايوب(ع)

فرعون كے جادوگر :وہ كى آخرت پرستى ۲۰/۷۲;_وں كى آمادگى ۲۰/۶۵،۷۲;_وں كا ذريعہ ۲۰/۶۶;_وں كا اتحاد ۲۰/۶۵;_وں كا ادب ۲۰/۶۵;_وں كا مرتد ہونا :اس كا پيش خيمہ ;_۲۰/۷۲;_وں كا استغار ۲۰/۷۳;_وں كى استقامت ۲۰/۷۲،۷۳،اسكے عوامل ۲۰/۷۴;_/ہ كا اطمينان ۲۰/۶۵;_وں كا اقرار ۲۰/۷۳;_وں كو مجبور كرنا ۲۰/۷۳;_وں كا اميد ركھنا ۲۰/۷۳;_وں كا ايمان ۲۰/ ۷۰، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۴;_اسكے اثرات ۲۰/۷۱;_وں كى خصوصيات ۲۰/۷۰;_وں پيش آنا :اسكى روش ۲۰/۶۵;_وں كى سورج ۲۰/۶۵، ۷۰ ،۷۲ ; _ وں كى پائوں :انہيں كاٹنا ۲۰/۷۱;_كى پشيمانى ۲۰/ ۷۳ ;_ كى كاميابى :اسكے اثرات ۲۰/۶۴;_وں كى تجويز ۲۰/۶۵;_وں كى تبليغ ۲۰/۷۲;_وں كا خوف :اسكے اثرات ۲۰/۷۴;_وں كو سولى دينا ۲۰/۷۱;_وں كو تواضع ۲۰/۷۰;_وں كو دھمكى دينا :اس كا فلسفہ ۲۰/۷۲;_وں پر مل كر سازش كرنے كى تہمت ۲۰/۷۱;_اور ہارون كى دعوت ۲۰/۷۰;_ اور موسي(ع) كا معجزہ ۲۰/۷۰;_ اور موسى ۲۰/۶۵;_اور موسي(ع) كى دعوت ۲۰/۷۰;_وں كا جادو ۲۰/۶۵، ۶۶; _اسكے اثرات ۲۰/ ۶۶، ۶۷، ۶۸;_ اسے باطل كرنا ۲۰/۶۹،۷۰;_ اسے باطل كرنے كا آسان ہونا ۲۰/۶۹;_ اس كا دلكش ہونا ۲۰/۶۷;_ اس كا خيال انگيز ہونا ۲۰/۶۶;_اسكے بطلان كے دلائل ۲۰/۶۹;_وں كا خالق ۲۰/۷۲; _ وں كى خداشناسى ۲۰/۷۳;_وں كا سجدہ ۲۰/۰ ۷ ; _وں كى سرزنش ۲۰/۷۱;_وں كى شكست ۲۰/۷۱ ; _وں كا شكنجہ ۱۰/۷۱;_وں كا عاجز ہونا ۲۰/۷۰ ; _ وں كا ڈنڈا۲۰/۶۶;_وں كا تمايل ۲۰/۶۵ ; _ وں كے ہاتھ كاٹنا ۲۰/۷۱;_وں كى سزا ۲۰/۷۱ ; _ وں كا گناہ ۲۰/۷۳;_كے خلاف مبارزت ۲۰/ ۶۳ ;_وں كے ساتھ مناظرہ ۲۰/۶۱;_وں كى نصيحتيں ۲۰/۷۲;_وں كا ھادى ہونا ۲۰/۷۲نيز ر_ك موسي(ع)

فضول خرچي:ر_ك اسراف

فيصلہ كرنا:ر_ك قضاوت

فضا:_ كا موجودات ۲۰/ ۶، ۲۱/ ۱۶; ان كا گرنا ۲۱/ ۳۲، انكى خلقت كا تحت ضابطہ ہونا ۲۱/ ۱۶; انكى حفاظت ۲۱/ ۳۴

فطرت:_ كا كردار ۲۱/ ۱۰; _ كا متنبہ ہونا: اسكے عوامل ۲۰/۳، ۲۱/ ۲، ۲۴، ۵۰; خدا شناسى والى _ ۲۲/ ۳۱نيز ر_ك انسان، حق ، خدا، قرآن

فقر:_ كے اثرات ۲۲/ ۱۵; _ ميں اميدوار ہونا ۲۲/ ۱۵; _ سے نجات حاصل كرنا; اسكى درخواست ۲۱/ ۸۳

۷۰۰

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750