تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218985 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اور جب یہود سے کہا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ہے اس پرایمان لاؤ،تو انھوں نے کہا : جو کچھ ہم لوگوں پر نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر نازل نہیں ہوا ہے ہم اس کے منکر ہیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ہے اور انبیاء کی کتابوں میں موجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ہے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ہیں اوران کے پاس ہیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ہو تو پھر کیوں اس سے پہلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ہو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ہم ایمان لائے ہیں جب کہ حضرت موسیٰ روشن علامتوںاور آیات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ہوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی نازل کی ہیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نہیں ہوگا۔

اگر یہود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اہل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم مسلمانوںپر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ہو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ہے خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔بہت سارے اہل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰہی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ہوئی ہے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ہے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ہو چکاہے!یہ تم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبہشت سے محروم رہو گے؛کہو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یہاں محفوظ ہے اور یہود ونصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یہود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ہے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یہود اور پیغمبر کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ہم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمہاری انتظار آمیز نگاہوں سے باخبر ہیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ہوجاؤگے۔

۴۱

(اے رسول! )تم جہاں کہیں بھی ہو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اہل کتاب،یہود جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ہیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ہے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کہیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ہے؟کہوحکم ،حکم خدا ہے مشرق و مغرب سب اسکا ہے جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یہود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ آیایہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ہے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ہیں یا نہیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں یا نہیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ہوا تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ہوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں خدا کے نزدیک برباد نہیں ہوں گی۔

اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورۂ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ہے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ہوناہے، اس نزاع کی تفصیل سورۂ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ہے۔

اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ (یہود مدینہ کی داستان میں ) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ہونا ہے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ہے)

راغب اصفہانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میں صحیح راستہ اختیار کیاہے وہ فرماتے ہیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ہے آیت ہے، چاہے وہ ایک کامل سورہ ہو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ہوں ۔

لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یہی ہے کہ جس کا تذ کرہ ہم نے کیا ہے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۴۲

۴

حضرت موسیٰ ـ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص ہے

حضرت موسیٰ کی شریعت جس کا تذکرہ توریت میں آیا ہے بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،جیسا کہ سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں آیا ہے:

''موسیٰ نے ہم کو ایک ایسی سنت کا حکم دیا ہے جو کہ جما عت یعقوب کی میراث ہے''

یعنی موسیٰ نے ہمیں ایک ایسی شریعت کا حکم دیا ہے جو کہ جماعت یعقوب یعنی بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،گزشتہ آیات میں بھی اس خصوصیت کا ذکر ہوا ہے ،آئندہ بحث میں انشاء ﷲ امر نسخ کی بسط وتفصیل کے ساتھ تحقیق و بررسی کریں گے۔

حضرت موسیٰ ـکی شریعت میں نسخ کی حقیقت

اس بحث میں ہم سب سے پہلے قرآن سے( زمانے کے تسلسل کا لحاظ کر تے ہو ئے )بنی اسرائیل کی داستان کا آغا ز کر یں گے، پھر ان کی شریعت میں نسخ کے مسئلہ کو بیان کریں گے ۔

۴۳

اوّل:بنی اسرائیل کو نعمت خدا وندی کی یاد دہانی

۱۔خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:( یا بنی اسرائیل أذکر وانعمتی التی أنعمت علیکم و أنی فضّلتکم علی العالمین..و اِذ نجّینا کم من آل فرعون یسومو نکم سوء العذاب یذ بحون أبناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذلکم بلاء من ربکم عظیم) (و أذفرقنا بکم البحر فانجیناکم وأغرقنا آل فرعون و ٔنتم تنظرون و أذ واعدناموسیٰ أربعین لیلة ثم ٔاتخذتم العجل من بعده و أنتم ظالمون ) ( ۱ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیںہم نے تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو اور یہ کہ ہم نے تم کو عالمین پر برتری اور فضیلت دی ہے...اورجب ہم نے تم کو فرعونیوں کے خونخوارچنگل سے آزادی دلائی وہ لوگ تمہیں بری طرح شکنجہ میں ڈالے ہوئے تھے تمہارے فرزندوں کے سر اڑا دیتے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے عظیم امتحان تھا اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگاف کیا اور تمھیں نجات دی اور فرعونیوں کوغرق کر ڈالا ،درانحالیکہ یہ سب کچھ تم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے اور جب موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعدہ کیا پھر تم لوگوں نے اس کے بعد گو سالہ کا انتخاب کیا جب کہ تم لوگ ظالم وستم گر تھے۔

۲۔سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:( وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علیٰ أصنام لهم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا اِلٰهاً کما لهم آلهة قال انکم قوم تجهلون ) ( ۲ )

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا راستے میں ایسے گروہ سے ملاقات ہوئی جو خضوع خشوع کے ساتھ اپنے بتوں کے ارد گرد اکٹھا تھے، تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ان کے خداؤں کے مانند کوئی خدا بنا دو ،انہوں نے فرمایا:سچ ہے تم لوگ ایک نادان اور جاہل قوم ہو۔

۳۔ سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے:( و اضلّهم السامری فکذٰلک القی السّامریفاخرج لهم عجلًا جسداً له خوار فقالو هذا اِلهکم واِلٰه موسیٰ و لقد قال لهم هارو ن من قبل یا قوم اِنّما فتنتم به و اِنَّ ربّکم الرحمن فا تبعونی وأَطیعوا أَمریقالو لن نبرح علیه عاکفین حتّیٰ یرجع اِلینا موسیٰ )

اورسامری نے انھیں گمراہ کر دیا ...اور سامری نے اس طرح ان کے اندر القاء کیا اور ان کے لئے گوسالہ کا ایسا مجسمہ جس میں سے گو سالہ کی آواز آتی تھی بنادیا تو ان سب نے کہا :یہ تمہارا اورموسیٰ کا خداہے... اور اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا : اے میری قوم والو! تم لوگ اس کی وجہ سے امتحان میں مبتلا ہو گئے ہو ، تمہارا رب خدا وند رحمان ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم و فرمان کی اطاعت کرو ، کہنے لگے :

____________________

(۱)بقرہ۴۷،۴۹،۵۰،۵۱(۲) اعراف۱۳۸

۴۴

ہم اسی طرح اس کے پابند ہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ کر آ جائیں۔( ۱ )

۴۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا :

( واِذْ قال موسیٰ لقومه یا قوم أنّکم ظلمتم انفسکم باتّخاذکم العجل فتو بوا ألی بارئکم فاقتلوا أنفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم أنّه هو التوّاب الرّحیم ) ( ۲ )

اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم !تم نے گوسا لہ کا انتخاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذا تو بہ کرو اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کیونکہ یہ کام تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر ہے پھر خدا وند عالم نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

دوم : توریت اور اس کے بعض احکام :

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ بقرہ میں فرماتا ہے :

( واِذ أخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطّور خذوا ما آتینا کم بقوّة و اذ کروا ما فیه لعلّکم تتقون ) ( ۳ )

اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے او پر قرار دیا ( اور تم سے کہا) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ا سے محکم طریقے سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔ سورۂ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے:

( وآتینا موسیٰ الکتاب وجعلناه هُدیً لبنی اسرائیل.. ) .)( ۴ )

اورہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ۔

۳۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

( کلّ الطعام کان حلًا لبنی اسرائیل اِلّا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل أن تنزّل التوراة... ) ( ۵ )

کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جزان اشیاء کے جنہیںخوداسرائیل (یعقوب)

____________________

(۱)طہ ۸۵ ،۹۱ .(۲)بقرہ ۵۴ (۳)بقرہ ۶۳،اس مضمون سے ملتی جلتی آیتیں سورہ بقرہ کی ۹۳ ویں آیت اور سورئہ اعراف کی ۱۷۱ویں آیت میں بھی آئی ہیں )

(۴)اسرائ۲ (۵)آل عمران ۹۳

۴۵

نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔

۴۔ سورۂ انعام میں فرمایا :

( و ماعلی الذین هادوا حرّمنا کلّ ذی ظفر من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما الا ماحملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و انّا لصاد قون ) ( ۱ )

یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن دار حیو ا نوں کو حرام کیا ، گائے اورگوسفند سے ا ن کی چربی ان پر حرام کی جزاس چربی کے جو ان کی پشت پر ہو یا جو پہلو میں ہو یا جو ہڈیوں سے متصل اورمخلوط ہو یہ ان کی بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے انھیں اور سزا کا مستحق قرار دیا اور ہم سچ کہتے ہیں۔

۵۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و علٰی الذین هادوا حرّمنا ما قصصنا علیک من قبل و ما ظلمنا هم و لکن کانوا أنفسهم یظلمون ) ( ۲ )

اورہم نے جن چیزوں کی اس سے پہلے تمہارئے لئے تفصیل بیان کی ہے ،ان چیزوں کویہود پر حرام کیا؛ ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا ،بلکہ ان لوگوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے۔

۶۔سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَسَْلُکَ َهْلُ الْکِتَابِ َنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَائِ فَقَدْ سََلُوا مُوسَی َکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا َرِنَا ﷲ جَهْرَةً فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ... (۱۵۳) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِم.... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وََخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (۱۵۴) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمْ الَْنْبِیَائَ (۱۵۵) وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا (۱۵۶) فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ ﷲ کَثِیرًا (۱۶۰) وََخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وََکْلِهِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.... ) ( ۳ )

اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو ؛ انھوں نے توحضرت موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کی خواہش کی تھی اور کہا تھا : خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھا ؤ لیکن ہم نے انھیں در گزر کر دیا ...اور ہم نے ان کے عہد کی خلاف ورزی کی بنا پر ان کے سروں پر کوہ طور کو بلند کردیا

____________________

(۱)انعام ۱۴۶(۲)نحل ۱۱۸

(۳)نسائ۱۵۴۱۵۳ ۱۵۶۱۵۵ ۱۶۱۱۶۰.

۴۶

اوران سے کہا :سنیچر کے دن تجاوز اور تعدی نہ کرو اوران سے محکم عہد و پیمان لیا ،ان کی پیمان شکنی ،آیات خداوندی کا انکار ،پیغمبروں کے قتل اور ان کے کفر کی وجہ سے نیزاس عظیم تہمت کی وجہ سے جو حضرت مریم پر لگائی، نیزاس ظلم کی وجہ سے جو یہود سے صادر ہوا اور بہت سارے لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی وجہ سے بعض پاکیزہ چیزوں کو جو ان پرحلال تھیںان کے لئے ہم نے حرام کر دیا اور ربا اور سود خوری کی وجہ سے جب کہ اس سے ممانعت کی گئی تھی اور لوگوں کے اموال کو باطل انداز سے خرد برد کرنے کی بنا پر ۔

۷۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( و سئلهم عن القرية التی کانت حاضرة البحراذ یعدون فی السبت اِذ تأ تیهم حیتانهم یوم سبتهم شُرّعاً ویوما لایسبتون لاتاتیهم کذٰلک نبلوهم بما کانوایفسقون ) ( ۱ )

دریا کے ساحل پر واقع ایک شہر کے بارے میں ان سے سوال کرو ؛ جب کہ سنیچر کے دن تجاوزکرتے تھے،اس وقت سنیچر کو دریا کی مچھلیاں ان پر ظاہر ہو جاتی تھیں اوراس کے علاوہ دوسرے دنوںمیں اس طرح ظاہر نہیں ہو تی تھیں ، اس طرح سے ہم نے ان کا اس چیز سے امتحان لیا جس کے نتیجہ میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔

۸۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:

( انّما جعل السبت علی الذین اختلفو فیه ) ( ۲ )

سنیچر کا دن صرف اور صرف ان کے مجازات اور سزا کے عنوان سے تھاان لوگوں کے لئے جو اس میں اختلاف کرتے تھے۔

سوم:خدا وند عالم کی بنی اسرائیل پر نعمتیں اور ان کی سرکشی و نا فرمانی

۱۔خدا وند عالم سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذْ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ (۱۶۰) وَِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة

____________________

(۱)اعراف ۱۶۳۔بقرہ ۶۵۔ نساء ۴۸، ۱۵۴.(۲)نحل ۱۲۴

۴۷

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ (۱۶۱) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ( ۱ )

اورہم نے بنی اسرائیل کو ایک نسل کے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ان کو ہم نے وحی کی : اپنے عصا کو پتھر پر مارو! اچا نک اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اس طرح سے کہ ہر گروہ اپنے گھاٹ کو پہچانتا تھا اور بادل کوان پر سائبان۔قرار دیا اوران کے لئے من وسلویٰ بھیجا( اور ہم نے کہا) جو تمھیں پاکیزہ رزق دیا ہے اسے کھاؤ انھوں نے ہم پر ستم نہیں کیا ہے بلکہ خود پر ستم کیاہے اور جس وقت ان سے کہا گیا : اس شہر (بیت المقدس ) میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے چاہو وہاں سے کھاؤ اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے! اوراس در سے تواضع و انکساری کے ساتھ داخل ہو جاؤتا کہ تمہارے گناہوں کو ہم بخش دیں اور نیکو کاروں کو اس سے بڑھ کر جزا دیں،لیکن ان ستمگروں نے جوان سے کہا گیا تھا اس کے علاوہ بات کہی یعنی اس میں تبدیلی کردی اور ہم نے اس وجہ سے کہ وہ مسلسل ظالم و ستمگر رہے ہیںان کے لئے آسمان سے بلا نازل کردی ہے۔

۱۔سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

( وَاِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ (۲۰) یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَْرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ (۲۱) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنَّا دَاخِلُونَ (۲۲) قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۲۳) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۴) قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ (۲۵) قَالَ فَِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ )

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اپنے اوپرﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو، جبکہ اس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو بھیجا اور تمھیں حاکم بنایا اور تمہیں ایسی چیزیں عطا کیں کہ دنیا والوں میں کسی کو

____________________

(۱)اعراف ۱۶۰، ۱۶۲

۴۸

ویسی نہیں دی ہیں، اے میری قوم! مقدس سر زمین میں جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے مقر ر کیا ہے داخل ہو جاؤ اور الٹے پاؤں واپس نہ ہونا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے ،ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ستمگر لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے ، خدا ترس دومردوں نے جن پر خدا نے نعمت نازل کی تھی کہا:تم لوگ ان کے پاس شہر کے دروازہ سے داخل ہو جاؤ اگر تم دروازہ میں داخل ہوگئے تو یقیناً ان پر کامیاب ہو جاؤ گے اورا گرایمان رکھتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو ، ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہ لوگ جب تک وہاں ہیں ہم لوگ ہرگز داخل نہیں ہوں گے ! تم اور تمہارا رب جائے اوران سے جنگ کرے ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کہا: پروردگارا! میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، میرے اور اس گنا ہ گار جماعت کے درمیان جدائی کر دے،فرمایا :یہ سرزمین ان کے لئے چالیس سال تک کے لئے ممنوع ہے وہ لوگ ہمیشہ سرگرداںاور پریشان رہیں گے اور تم اس گناہ گار قوم پر غمگین مت ہو۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔''اسرائیل'': یعقوب،آپ ابراہیم خلیل ﷲ کے فرزند حضرت اسحق کے بیٹے ہیں،ان کا لقب اسرائیل ہے بنی اسرائیل ان ہی کی نسل ہے جوان کے بارہ بیٹوں سے ہے۔

۲۔'' یسومونکم'': تمکو عذاب دیتے تھے، رسوا کن عذاب ۔

۳۔''یستحیون'': زندہ رکھتے تھے۔

۴۔''یعکفون'': خاضعانہ طور پر عبادت کرتے تھے، پابندتھے ۔

۵۔''خوار'' : گائے اور بھیڑ کی آواز ۔

۶ ۔''لن نبرح'': ہم ہرگز جدا نہیں ہوں گے، آگے نہ بڑھیں گے ۔

۷۔''فتنتم'':تمھارا امتحان لیا گیا، آزمائش خدا وندی ، بندوں کے امتحان کے لئے ہے اور ابلیس اور لوگوں کا فتنہ ، گمراہی اور زحمت میں ڈالنے کے معنی میں ہے، خدا وند عالم نے لوگوں کو فتنہ ابلیس سے خبردار کیا ہے اور فرمایا ہے:

____________________

(۱) مائدہ۲۰، ۲۶

۴۹

( یا بنی آدم لا یفتنّنکم الشیطان )

اے آدم کے بیٹو!کہیں شیطان تمھیں فتنہ اور فریب میں مبتلا نہ کرے: اور لوگوں کے فتنہ کے بارے میں فرمایا:

( اِنّ الذّین فتنوا المومنین و المومنات ثّم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

بیشک جن لوگوں نے با ایمان مردوں اور عورتوں کو زحمتوں میں مبتلا کیا ہے پھر انھوں نے توبہ نہیں کی ان کیلئے جہنم کا عذاب اور جھلسا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔

۸۔'' باری'': خالق اور ہستی عطا کرنے والا

۹۔ ''أسباطاً'' : اسباط یہاں پر قبیلہ اور خاندان کے معنی میں ہے۔

۱۰۔''فا نبجست'': ابلنے لگا ، پھوٹ پڑا ۔

۱۱۔''المن والسلوی''ٰ:المن؛جامد شہد کے مانند چپکنے والی اور شیریں ایک چیز ہے اور السلوی ؛ بٹیر،ایساپرندہ جس کا شمار بحر ابیض کے پرندوں میں ہوتا ہے ، جو موسم سرما میں مصر اور سوڈان کی طرف ہجرت اختیار کرتا ہے۔

۱۲۔''حِطّة'': ہمارے گناہ کو جھاڑ دے،دھو دے، ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے۔

۱۳۔''رفعنا'': ہم نے بلند کیا ، رفعت عطا کی۔

۱۴۔''میثاقکم'': تمہارا عہد و پیمان ، میثاق : ایسا عہد وپیمان جس کی تاکید کی گئی ہو، عہد وپیمان کا پابند ہونا۔

۱۵۔''رجز'': عذاب ، رجز الشیطان... اس کا وسوسہ۔

۱۶۔''یتیھون'': حیران و پریشان ہوتے ہیں ،راستہ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔''لا تأس'': غمز دہ نہ ہو، افسوس نہ کرو۔

۱۸۔''لا تعدوا'': تجاوز نہ کرو ،ظلم وستم نہ کرو۔

۱۹۔''میثاقاً غلیظاً'': محکم و مظبوط عہد و پیمان ۔

۲۰۔''الحوایا'': آنتیں

۲۱۔''شرعًّا'': آشکار اور نزدیک۔

۲۲۔جعل لھم: ان کے لئیقانون گزاری کی، قانون مقرر و معین کیا۔

۵۰

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل سے فرما یا :اُن نعمتوںکو یاد کرو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور تمہارے درمیان پیغمبروں اور حکّام کو قرار دیا نیز من وسلویٰ جیسی نعمت جو کہ دنیا میں کسی کو نہیں د ی ہے تمہیںدی ، خدا وند سبحان نے انھیں فرعون کی غلامی، اولاد کے قتل اور عورتوں کو کنیزی میں زندہ رکھنے کی ذلت سے نجات دی،فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا اور انہیں دریا سے عبور کرا دیا، اس کے باوجود جب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی عبادت اورپوجا میں مشغول ہیں ، تو موسیٰ سے کہا : ہمارے لئے بھی انہی کے مشابہ اور مانند خدا بنادو تاکہ ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں ! اور جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر توریت لینے گئے تو یہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے اور جب موسیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائیںجو خدا نے ان کے لئے مقرر کی ہے تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ ! وہاں ظالم اور قدرت مند گروہ (عمالقہ )ہے جب تک وہ لوگ وہاں سے خارج نہیں ہوں گے ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے''یشوع'' یا ''یسع'' اور ان کی دوسری فرد نے ان سے کہا : شہر میں داخل ہو جاؤ بہت جلدی کا میاب ہو جاؤ گے،تو انھوں نے سر کشی اور نا فرمانی کی اور بولے:اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جائے اور عمالقہ سے جنگ کرے ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں! موسیٰ نے کہا : پروردگارا ! میں صرف اپنے اور اپنے بھا ئی کا مالک و مختار ہوں میرے اور اس گناہ گار قوم کے درمیان جدائی کردے! خداوند سبحان نے فرمایا : یہ مقدس اور پاکیزہ سر زمین ان لوگوں پرچالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے اتنی مدت یہ لوگ سینا نامی صحرا میں حیران و سرگرداں پھر تے رہیں گے تم ان گناہ گاروں کی خاطر غمگین نہ ہو۔

خدا وندعالم ان لوگوں کے بارے میں سورۂ اعراف میں فرماتا ہے : بنی اسرائیل کو بارہ خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا اورانہوں نے جب موسیٰ سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسی پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، اُس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑ ے ہر قبیلہ کے لئے ایک چشمہ، نیزبادل کو ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا تاکہ خورشید کی حرارت وگرمی سے محفوظ رہیں ،شہد کے مانند شرینی اور پرندہ کا گوشت ان کے کھانے کے لئے فراہم کیا، پھر کچھ مسافت طے کرنے کے بعدان سے کہا گیا : اس شہر میں جو کہ تمہارے رو برو ہے سکونت اختیار کرو اور اس کے محصولات سے کھاؤ

۵۱

اور شہر کے دروازے سے داخل ہوتے وقت خدا کا شکر ادا کرو اور اس کا سجدہ ادا کرتے ہوئے کہو !''حطة'' یعنی خدا وندا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ستمگروں نے اس لفظ کو بدل ڈا لا اور ''حطة''کے بجائے''حنطة''کہنے لگے ،( ۱ ) یعنی ہم گندم ( گیہوں ) کے سراغ میں ہیں! خداوندعالم نے ان کے اس اعمال کے سبب آسمان سے عذاب نازل فرمایا۔

خدا وند عالم نے سورۂ نساء میں فرمایا: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم سے اہل کتاب کی خوا ہش ہے کہ تم کوئی کتاب ان کے لئے آسمان سے نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھلادو تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گناہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کو ان کے اوپر جگہ دی۔

اسرائیل(یعقوب) کی پسندیدہ اور مرغو ب ترین غذا دودھ ا وراونٹ کا گوشت تھی ، یعقوب ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورخدا نے انھیں شفا بخشی ،تو انھوں نے بھی خدا وند عالم کے شکرانے کے طور پر محبوب ترین کھانے اور پینے کی چیزوں کو جیسے دودھ اور اونٹ کا گوشت وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اسی طرح انھوں نے جگر اور گردے کی مخصوص چربی نیز دیگر چربی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا کیونکہ اس چربی کو ماضی میں قر بانی کے لئے لے جاتے تھے اور آگ اسے کھا جاتی تھی ۔( ۲ )

قوم یہود کا خدا سے جو عہد وپیمان تھا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جن کے مبعوث ہونے کی موسیٰ ابن عمران نے بشارت دی ہے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت خاتم الا نبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت،ان پر ایمان لائیں، اس بشارت کو اس سے پہلے ہم نے توریت کے سفر تثنیہ سے نقل کیا ہے۔

احکام کے بارے میں بھی انھوں نے عہد وپیمان کیا کہ شنبہ یعنی سنیچر کے دن تجاوز نہیں کریںگے ( کام کاج چھوڑ دیں گے ) خدا نے اس سلسلے میں محکم اور مضبوط عہد وپیمان لیا تھا،ان لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا اورآیات خدا وندی کا انکار کر گئے اور پاک وپاکیزہ خاتون مریم پر عظیم بہتان

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں بحارالا نوار اور مجمع البیان میں اسی طرح مذکور ہے

(۲ ) سیرئہ ابن ہشام ،طبع حجازی قاہرہ ، ج۲ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹ جو کچھ ہم نے متن میں ذکر کیا ہے تفسیر طبری اور سیوطی سے ماخوذ ہے میرے خیال میں جو کچھ سیرئہ ہشام میں ہے وہ متن میں مذکور عبارت سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے

۵۲

باندھا اور زبر دست الزام لگایا اسی لئے تو خدا وند عالم نے تادیب کے عنوان سے بہت سی پاکیزہ چیزوں کو جو ان پر حلال تھیں حرام کردیا اورجب وہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے تو انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یعنی جس نے بھی گوسالہ پر ایمان نہیں رکھا گوسالہ پرستوں قتل کرے اسی طرح جب یہ لوگ خدا پر ایمان لانے سے مانع ہوئے اور سود کا معاملہ کرنے لگے اور سود کھانے لگے ، باوجود یکہ سود (ربا ) سے انھیں منع کیا گیا تھا تواُن پر حلال اورپاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔

ان کی دوسری مخالفت اس پیمان کا توڑنا تھا جو انھوں نے خدا سے کیا تھا کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار نہیں کریںگے اوراس کے لئے انھیں سخت تاکید کی گئی تھی ،سنیچر کے دن مچھلیاںساحل کے کنارے سطح آب پر آجاتی تھیں لیکن دیگر ایام میں ایسا نہیں کرتی تھیں اور یہ ان کا مخصوص امتحان تھا سنیچر کے دن چھٹی کرنا صرف اور صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھا ،وہی لوگ کہ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، اس امتحان میں گرفتار ہوئے۔

خدا وندعالم سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

اہل کتاب یہودی تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کر چکے ہیںکہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھاؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گنا ہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کوان کے سروں پر لٹکادیا اوران سے سخت اور محکم عہد و پیمان لیا کہ جو کچھ موسیٰ ابن عمران ان کے لئے لائے ہیںاس پر ایمان لاکر عمل کریں گے ، ہمارے پیمان کا بعض حصّہ خدا کے پیغمبر بالخصوص حضرت عیسیٰ ابن مریم اورمحمد ابن عبد ﷲ پر ایمان لانا تھا ، لیکن ان لوگوں نے مریم عذرا پر نا روا تہمت لگائی اور توریت کے احکام کو کذب پر محمول کیا ، خدا کے نبیوں کا انکار کیا اور بہت سوں کو قتل کر ڈالا اور راہ خدا سے روکا ، سود لیا، لوگوں کے اموال کو ناجائز طور پر خورد و برد کیا تو ہم نے بھی ان تمام ظلم و ستم کے باعث ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال تھیں حرام کردیا، ان پر حرام ہونے والی اشیاء میں سنیچر کے دن ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا بھی تھا جہاں اس دن مچھلیاں آشکار طور پران سے نزدیک ہو جاتی تھیں اور خود نمائی کرتی تھیں۔

۵۳

بحث کا نتیجہ

خدا وندعالم نے بنی اسرائیل کو مصر کے ''فرعونیوں '' اور شام کے''عمالقہ'' اور اس عصر کی تمام ملتوں پر فضیلت اور برتری دی تھی بہت سے انبیاء جیسے موسیٰ ، ہارون ،عیسیٰ اور ان کے اوصیاء کوان کے درمیان مبعوث کیا اوراس سے بھی اہم یہ کہ توریت ان پر نازل کی ، ان سے سخت اور محکم پیمان لیا تا کہ جو کچھ ان کی کتابوں میں مذکور ہے اس پر عمل کریں ،''من وسلویٰ'' جیسی نعمت کا نزول ، پتھر سے ان کے لئے پانی کا چشمہ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ نعمتوںسے سرفرازفرمایا، لیکن ان لوگوں نے تمام نعمتوں کے باوجودآیات الٰہی کا انکار کیا اور گوسالہ کے پجاری ہو گئے، سود لیا ،لوگوں کے اموال ناجائز طورپر کھائے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی نافرمانی اور طغیانی کی، ایسے لوگوں کے اپنے آلودہ نفوس کی تربیت کی سخت ضرورت تھی اس لئے خدا وند عالم نے ان پر خود کو قتل کرنا واجب قرار دیا نیز سنیچر کے دن دنیاوی امور کی انجام دہی ان پر حرام کردی ،لیکن ان لوگوں نے سنیچر کے دن ترک عمل پر اختلاف کیا ، جیسا کہ اس ساحلی شہر کے لوگوں نے بھی اس سلسلے میں حیلے( ۱ ) اور بہانے سے کام لیا !خدا وندسبحان نے ان چیزوں کو جو کچھ اسرائیل نے اپنے او پر حرام کیا تھا(چربی ،اونٹ کا گوشت اور اس جیسی چیزوں کا کھا نا) ان کی جان کی حفاظت کی غرض سے ان پر بھی حرام کردیا، اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرئیل ہمیشہ قبائلی اتحاد و یکجہتی اور اٹوٹ رشتہ کے محتاج تھے تا کہ ا ن سرکش وطاغی عمالقہ اور قبطیوں کا مقابلہ کر سکیں جو ان کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لئے ہوئے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے بھی قبل اس کے کہ ہیکلِ سلیمان نامی معروف مسجد کی تعمیر کریں،ان پر واجب قرار دیا کہ سب ایک ساتھ عبادت کے لئے '' خیمہ اجتماع'' کے پاس جمع ہوں اور اپنی دینی رسومات کو ہارون کے فرزند وں کی سر پرستی میں بجا لائیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم کواور ان کی مادر گرامی مریم کو جو کہ حضرت داؤد کی نسل (جوبنی اسرائیل کے یہودا کی نسل )سے تھیںان کی طرف روانہ کیااور بعض وہ چیزیں جوان پر حرام تھیں حلال کر دیا ،جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زبانی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱) مادہ''سبت '' کے سلسلے میں کتاب قاموس کتاب مقدس ، تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو ۔

۵۴

( اِنّی قد جئتکم بآية من ربّکم... و مصدقاً لما بین یدیّ من التوراة و لأحلّ لکم بعض الذی حرّم علیکم... ) ( ۱ )

میں تمہارے پر وردگار کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشانی لایا ہوں اور جو کچھ مجھ سے پہلے توریت میں موجود تھااس کی تصدیق اور اثبات کرتا ہوں اورآیا ہوں تاکہ بعض وہ چیزیں جو تم پرحرا م کی گئی تھیں حلال کر دوں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیااس سے واضح ہو گیاکہ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ ابن عمران سے لے کر عیسیٰ ابن مریم تک بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، نیز توریت میں بعض شرعی احکام بھی صرف بنی اسرائیل کی مصلحت کے لئے نازل ہوئے ہیں اس بنا پر ایسے احکام موقت یعنی وقتی ہوتے ہیںاور یہ ان چیزوں کے مانند ہیںجنہیں اسرائیل( یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرا م کرلیا تھا لہٰذاان میں بعض کی مدت عیسیٰ ابن مریم کی بعثت سے تمام ہوگئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا ُن محرمات میں سے کچھ کوان کے لئے حلال کر دیا اور کچھ باقی بچے ہوئے تھے جن کی مدت حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت تک تھی وہ بھی تمام ہو گئی لہٰذاایسے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے اور ان سب کی مدت تمام ہونے کو بیان فرمایا۔

خدا وند عالم اس موضوع کو سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کرتا ہے :

( الذین یتبعون الرسول النّبی الأمیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوارة و الأنجیل یا مرهم با لمعروف و ینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم و الأغلال التی کانت علیهم ) ( ۲ )

جو لوگ اس رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیںجس کے صفات توریت اور انجیل میں جو خود ان کے پاس موجود ہے ،لکھا ہوا ہے وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی اور منکر سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اوران کے سنگین بار کو ان پر سے اٹھا دیا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انھیں اس سے آزاد کردیتا ہے۔

'' اِصرھم'' :ان کے سنگین بوجھ یعنی وہ سخت تکالیف و احکام جوان کے ذمّہ تھے۔

نسخ کی یہ شان حضرت موسیٰ کی شریعت میں ان سے پہلے شرائع کی بنسبت تھی ، اسی طرح بعض وہ چیزیں

جو موسیٰ کی شریعت میں تھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ ہو گئیں۔

''نسخ''کی دوسری قسم یہ ہے کہ یہ نسخ صرف ایک پیغمبر کی شریعت میں واقع ہو تاہے ،جیسا کہ آگے آئے گا۔

____________________

(۱)آل عمران ۴۹۔ ۵۰

(۲)اعراف ۱۵۷

۵۵

ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ کے معنی

ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:

یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْهَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۲) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ ﷲ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ وَﷲ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۳ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! جب رسول ﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔

اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:

بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔

____________________

(۱)مجادلہ ۱۲، ۱۳،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )

۵۶

اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔

اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

۱۔( شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ به نوحاً ) ...)(۱ )

تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔

۲۔( و ِأن من شیعة لأِبراهیم )

ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔( ۲ )

۳۔ خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:

الف۔( اتبع ملّة ابراهیم حنیفاً )

ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔

ب ۔( فاتّبعوا ملّة أِبراهیم حنیفاً )

____________________

(۱)شوری ۱۳(۲)،صافات ۸۳

۵۷

پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔( ۱ )

اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میں آیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

۱۔( کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسه ) ( ۲ )

کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

۲۔( و علیٰ الذین هادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل ) ( ۳ )

اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔

۳۔( اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیه ) ( ۴ )

سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

توریت کے سفر تثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''

اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔

____________________

(۱)آل عمران۹۵(۲)آل عمران ۹۳ (۳)نحل ۱۱۸ (۴)نحل ۱۲۴

۵۸

دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میں الواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔( ۱ ) نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔

حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔

حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :

( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الأنجیل یأمرهم بالمعروف وینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبا ت و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم والأغلال الّتی کا نت علیهم ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورئہ بقرہ ۲۸۴

(۲)اعراف۱۵۷

۵۹

وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔

خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّا انزلناالتوراة فیها هدیً و نور یحکم بها النبيّون الذین أسلموا للذین هادوا...) (و کتبنا علیهم فیها أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق به فهو کفّارة له و من لم یحکم بما انزل ﷲ فأولائک هم الظالمون ) ( ۱ )

ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔

جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔

____________________

(۱)مائدہ ۴۴ ،۴۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

نيز ر_ك امتحان، ربوب، عبوديت

فقرا:_ كو كھانا كھلانا ۲۲/ ۲۸; _ پر خرج كرنا ۲۲/۳۵; _ كى ضروريات پورى كرنا: اسكى اہميت ۲۲/ ۲۸، ۳۶

فلاح :ر_ك كاميابي

فلسطين:_ كى بركت ۲۱/ ۷۱; _كى طرف ہجرت ۲۱/ ۷۱

''ق''

قانون :_ كو اجرا كرنے والے _انكى شرائط ۲۰/ ۱۱۰قانون بنانے والے :انكى شرائط ۲۰/ ۱۱۰، ان كا علم ۲۰/ ۱۱۰قانون بنانا:اسكى شرائط ۲۲/ ۷۸

قبر:ر_ ك كفار/قبطي قبطيوں كو بنى اسرائيل پر ترجيح دينا ۲۰/۴۰

قبلہ :ر_ك ذبح

قدرت :ر_ك ابراہيم، الوہيت، انبيائ، ايمان، شرعى ذمہ داري، جواني، خدا، خدا كے رسول، دينى راہنما، عقيدہ، غفلت، فرعونى لوگ، مؤمنين، موسى

قرآن:_ ميں آيات الہى ۲۲/ ۵۷; _ كى آيات، ان كے نزول كا پيش خيمہ ۲۰/۱۰۵; _ كا آيت آيت ہوناا ۲/ ۱۶، ۵۱، ۵۷، ۷۲; _ كا محكم ہونا ۲۲/ ۵۲; _ كے ساتھ اتمام حجت كرنا ۲۰/ ۱۳۴; _ سے استفادہ كرنا، اسكے شرائط ۲۱/۱۰۶; _ كا معجزہ ہونا ۲۰/ ۱۳۳، ۲۱/۱۰; اسے جھٹلانے والے ۲۰/۱۳۳; _ سے منہ موڑنا; اسكے اثرات ۲۰/ ۱۰۰; اس كا ظلم ہونا ۲۰/ ۱۱۱; اس كا انجام ۲۰/ ۳; اس كا برا انجام ۲۰/ ۳; اس كا گناہ ہونا ۲۰/ ۱۰۰; كے ساتھ كھيلنا ۲۱/ ۲; كا بلاغت ۲۱/ ۱۰۶; _ سے بے اعتنائي كرنا ۲۱/ ۲; كا پاكيزہ ہونا ۲۲/۲۴; كى پيش گوئي ۲۱/۶،۳۴،۹۶; _ كى تاريخ ۲۱/۱۰; _ كى تأثير; اس كا پيش خيمہ ۲۰/۳; _ كے خلاف پروپيگنڈا ۲۱/۵; _ كى تبليغ اسكى اہميت ۲۰/۳; _ كى تدوين اس كا سرچشمہ ۲۰/ ۱۱۳; كى ۲۱/ ۲۴; _ كى تنبيہات ۲۰/ ۵۳، ۵۵، ۲۱/۱۰۴، ۲۲، ۳۱; _ كى تعليمات ۲۰/ ۱۱۳، ۱۱۵، ۱۳۳، ۲۱/۱۰; ان كا عاقلانہ ہونا ۲۱/۱۰; ان كا فطرى ہونا ۲۰/۳، انكى خصوصيات ۲۱/۲ ;_ ميں جلد بازى كرنا; اس سے اجتناب كرنا ۲۰/ ۱۱۴; _ كى تعليم، اس كا آسان ہونا ۲۰/۳;_ كو جھٹلانا; اس كاپيش خيمہ ۲۱/۱۰; اسكى سزا ۲۲/ ۵۷; اس كا سرچشمہ ۲۲/ ۵۷;_ كا منزہ ہونا ۲۲، ۴۵۴; _ كى بيان كا متنوع ہونا ۲۰/ ۱۱۳; _

۷۰۱

كے خلاف سازش ۲۱/۳،۲۲/۵۱; _ پر تہمت: اس پر پريشان حالى كى تہمت ۲۱،۵; اس پر جادو كى تہمت ۲۱/۳; اس پر پريشان خواب ہونے كى تہمت ۲۱/۵; اس پر شعر ہونے كى تہمت ۲۱/۵; _ كا پر كشش ہونا ۲۱/۵; _ كو جمع كرنا ۲۱/۱۰; _كو حفظ كرنا، اسكى اہميت ۲۰/ ۱۱۴; _ كى حقانيت ۲۱/۱۰،۲۲/۵۴; اسكے دلائل ۲۱/۱۰،۵۰; _ كے دشمنى ۲۲/ ۷۲; _ كے ساتھ دشمنى ۲۱/۱۱; _ سے شكوك و شبہات كو دور كرنا ۲۲/ ۵۲; اس كا فلسفہ ۲۲/۵۴; _ كے بيان كى روش ۲۰/۹۹، ۲۲/۷۳; _ كى خوبصورتي۲۱/ ۵; _ كى ساخت ۲۲/۱۶،۵۱،۵۷،۷۲; _ ميں شكوك پيدا كرنا ۲۲/۵۲; _ كى ظلم دشمنى ۲۱/۳; _ سے عبرت حاصل كرنا ۲۰/۶، ۲۱/۱۰; _ كا عربى ميں ہونا ۲۰/۱۱۳; _ كى عظمت ۲۱/۱۰;_ كا علم ہونا ۲۰/۱۱۴;_ كا غفلت كو دور كرنا ۲۱/۲;_ كى فصاحت ۲۰/۱۱۳; _ كى فضيلت ۲۰/۹۹، ۲۱/۱۰،۵۰; _ كو سمجھنا، اس كا پيش خيمہ ۲۲/۱۶، اس كا آسان ہونا ۲۰/۱۱۳،۲۲،۱۶، ۷۲; _ آيات الہى ميں سے ۲۰/۱۳۳،۲۲/۵۱; _ كے قصے: ان كا فلسفہ ۲۰/۹۹; ان كا سرچشمہ ۲۰/۹۹; ان كا واقعى ہونا ۲۰/۹۹; _ كا كافى ہونا ۲۱/۱۰۶; _ كے ساتھ مقابلہ ۲۱/۱۱; اسكى روش ۲۱/۵; اسكى سزا ۲۲/۵۱; _ كى مثاليں ۲۲/۷۳; انہيں غور سے سننا ۲۲/۷۳; ان كے فوائد ۲۲/۷۳; _ كى مخالفت كرنا: اس كا ممنوع ہونا ۲۰/۱۱۳; _ سے رو گردانى كرنے والے ۲۰/۱۳۳، ۲۱/۳ ،۴۲ ; انكى اخروى سزا ۲۰/۱۰۱; انكى اخروى سزا كا سخت ہونا ۲۰/۱۰۱; ان كے گناہ كا سنگين ہونا ۲۰/۱۰۰ ، ۱۰۱; ان كا برا انجام ۲۰/۱۰۲; انكى گمراہى ۲۰/۱۰۰; قيامت ميں ۲۰/۱۰۰ ; انكى آخرت ميں سرگوشى ۲۰/ ۱۰۳; _ كو جھٹلانے والے: ان كا استكبار ۲۲/۵۷; ان كا اعتراض ۲۰/۱۳۳; ان كے مطالبے ۲۰/۱۳۳; انكى مذمت ۲۱/۵۰; انكى صفات ۲۲/۵۷; _ كا سرچشمہ ۲۰/۲ ، ۷،۲۲/۵۴; _ كے نام ۲۰/۹۹;_ كا نزول ۲۰/۴ ، ۲۱/۱۰،۵۰; _ اسكے اثرات ۲۰/۲،۵; اسكى اہميت ۲۰/۱۱۴; اس ميں جلدى كرنا ۲۰/۱۱۴; اس كا متعدد ہونا ۲۰/۱۱۴;اس كا فلسفہ ۲۰/۳ ، ۹۹، ۱۱۳ ، ۲۱/۲; اس كا سرچشمہ ۲۲/۱۶; اس كا تدريجى نزول ۲۰/۱۱۴; _ كا كردار ۲۰/۱۳۳،۱۳۴،۲۱/۳، ۱۰، ۲۴، ۵۰، ۱۰۶; اس كا اخروى كردار ۲۰/۱۰۰/_ كا ۱۲/۲; _كا وحى ہونا ۲۰/۲ ، ۴، ۱۱۳ ، ۱۴ ۱،۱۳۳، ۲۱/۱۰ ، ۵۰ ، ۲۲/ ۱۶،۵۴; اس ميں شك كرنا ۲۲/۵۵; اسے جھٹلانے والے ۲۱/۳۶; _ كا واضح ہونا ۲۰/ ۱۱۳، ۲۲/ ۱۶،۷۲; _ كى دھمكياں ۲۰/۱۱۳; ان كا فلسفہ ۲۰/۱۱۳; _ كى خصوصيات ۲۰/۳، ۱۱۳ ، ۱۱۴ ، ۱۳۳ ، ۲۱/۱۰۶ ،۲۲/۱۶، ۲۴، ۵۱، ۵۴، ۵۷، ۷۲; _ كا ہادى ہونا ۲۱/۲، ۵۰، ۱۰۶، ۲۲/۱۶، ۵۴;_ كى ہدايات ۲۲/۵۴نيز ر_ك : افترا، ايمان، تدبر، مقتل، خدا، ذكر، تمايلات، كفار، آنحضرت، لوگ، مسلمان، مشركين ، نعمت /قربانگاہ:

۷۰۲

ر_ك امتيں

قرباني:_ كے آداب ۲۲/۳۷; _ كے وقت تكبير ۲۲/۳۳، اسكى اہميت ۲۲/۳۴; _ كا عبادت ہونا ۲۲/۶۷; _ كا فلسفہ ۲۲/۳۴،۳۶،۳۷; _ كا قبول ہونا: اسكے عوامل ۲۳/۳۷: _ آسمانى اديان ميں ۲۲/ ۳۴، ۶۷;_ سابقہ امتوں ميں ۲۲/ ۶۷; _ زمانہ جاہليت ميں ۲۲/ ۳۰; اس كا گوشت ۲۲/۳۶; اسكے گوشت كو حرام قرار دينا ۲۲/ ۲۸_ كى كيفيت ۲۲/ ۶۷; _ كے بارے ميں جھگڑا ۲۲/ ۶۷نيز ر_ك شكر، مشركين

قساوت:ر_ك سخت دل لوگ، دل، كفار، آنحضرت(ص) ، مشركين

قصص:ر_ك قرآن

قضاوت:_ كے آداب ۲۱/۷۸; _ كے شراء ۲۱/۷۹، ۲۲/ ۱۷;_ ميں علم ۲۱/۷۹، ۲۲/۱۷; _ ميں مشاورت ۲۱/۷۸

نيز ر ك: خدا، داود، سليمان، قيامت، كفار، لوط، مؤمنين، آنحضرت(ص) ، مشركين، موسى ، نوح

قوم ابراہيم (ع) :_ كے آباؤ اجداد: انكى بت پرستى ۲۱/۵۳، انكى بت پرستى كے اثرات ۲۱/۵۳; انكى گمراہى ۲۱/۵۴; _ كى اذيتيں ۲۱/۷۱; _ كا مرتد ہونا ۲۱/۶۵; _ كا اقرار ۲۱/۵۹،۶۴، ۶۵; _ كا برا بت ۲۱/۵۸; _ سے بازپرس ۲۱/۶۳; _ كو باقى ركھنے كا فلسفہ ۲۱/۵۸; _ كا نقش و كردار ۲۱/۶۳; _ كے بت پرست: ان كا متنبہ ہونا ۲۱/۶۶; _ كى بت پرستى ۲۱/۵۲، ۵۳، ۵۵، ۵۹; اس كا غير منطقى ۲۱/۵۳; اسكے عوامل ۲۱/۵۳; _ ميں بت شكنى ۲۱/۵۹;_ كے بت: ان كا متعدد ہونا ۲۱/۵۹; ان كا عاجز ہونا ۲۱/۶۳، ۶۶; ان كے درجے ۲۱/ ۵۸; كى بے عقلى ۲۱/۶۷; _ كى سوچ ۲۱/۵۵، ۵۹، ۶۰، ۶۲، ۶۵، ۶۸; _ سے سوال ۲۱/ ۵۲; كا سوال ۲۱/۵۹; كى تاريخ ۲۱/ ۵۲، ۵۳، ۵۴، ۵۵، ۵۶، ۵۸، ۵۹، ۶۴، ۶۵، ۶۷، ۶۸، ۷۰، ۲۲/۴۳; _ كو تحريك كرنا ۲۱/۶۸; _ كا تفكر اسكے عوامل ۲۱/۶۴; _ كى تقليد ۲۱/۵۳، ۵۴: _ كا متنبہ ہونا ۲۱/۶۴، ۶۵; اس كا پيش خيمہ ۲۱/۶۳; _ كى سازش ۲۱/۷۰، ۷۱; _ كى تہمتيں ۲۲/۴۳; _ كى شرمندگى ۲۱/۶۵; كے مطالبہ ۲۱/ ۶۱; كا نقصان كرنا ۲۱/۷۰; _ كى مذمت ۲۱/۵۲، ۶۴، ۶۶، ۶۷; _ كى سطحى نظر ۲۱/۶۷; _ كى شخصيت: اسے تبديل كرنا ۲۱/۶۵; كا شرك ۲۱/۵۲، ۵۳، ۵۹، ۶۵، ۶۶; اس كا غير منطقى ہونا ۲۱/۵۳; _ ان كا شرك ربوبى ۲۱/۵۶_ كا شك ۲۱/۵۵; اس كا پيش خيمہ ۲۱/۵۵; _ ميں ظلم ۲۱/۵۹; _ كا ظن و گمان ۲۱/۶۰; _ كا عاجز ہونا ۲۱/۶۸; _ كا مہلت عذاب ۲۲/۴۴; _ كا عقيدہ ۲۱/۶۶، ۵۹; اس كے ساتھ كھيلنا ۲۱/۵۵; _ كا غضب ۲۱،۵۹; كى گمراہى ۲۱/۵۴; _ ميں گناہ ۲۱/۵۹;_ ميں گواہى ۲۱/۵۱; _ كى ضد بازى

۷۰۳

۲۱/۶۵ ;_ كى عبادت گاہ ۲۱/۵۷،۶۲; اسكى خصوصيات ۲۱/۵۹; _ كى ناكامى ۲۱/۷۰; _ كى ہدايت ۲۱/۵۷; _ كى ہلاكت ۲۲/۴۴نيز ر_ك ابراہيم

قوم ثمود:_ كى تاريخ ۲۲/۴۲; _ كا مہلت عذاب ۲۲/۴۴; _ كى مخالفت ۲۲/۴۲; _ كى ہلاكت ۲۲/۴۴

قوم صالح:ر_ك قوم ثمود

قوم عاد:_ كى تاريخ ۲۲/۴۲; _ كا مہلت عذاب ۲۲/۴۴; كى مخالفت ۲۲/۴۲; _كى ہلاكت ۲۲/۴۴

قوم لوط:_ كى اذيتيں ۲۱/۷۱; _ كى پليدى ۲۱/۷۴; كى تاريخ ۲۱/۷۴، ۲۲/۴۳; _ كى سازش ۲۱/۷۱: _ كى تہمتيں ۲۲/۴۳; _ كى حق دشمني: اس كا پيش خيمہ ۲۱/۷۴; _ كا حق كو قبول نہ كرنا ۲۱/۷۴; كى برائياں ۲۱/۷۴; _ كا برا ماضى ۲۱/ ۷۴; _ كا مہلك عذاب ۲۲/۴۴; _ كا ناپسنديدہ عمل ۲۱/۷۴; اس كا پيش خيمہ ۲۱/۷۴; _ كا فسق: اسكے اثرات ۲۱/۷۴;_ سے نجات حاصل كرنا ۲۱/۷۴; _ كى ہلاكت ۲۲/۴۴نيز ر_ك قوم لو ط

قوم نوح:_ كى تاريخ ۲۱/۷۷، ۲۲/۴۲; _ كا جھٹلانا ۲۱/۷۷; _ كا برا ماضى ۲۱/۷۷; كا مہلك عذاب ۲۲/۴۴; _ كا ناپسنديدہ عمل ۲۱/۷۷; _ كا غرق ہونا ۲۱/۷۷; _ كا كفر ۲۱/۷۶; _ كى مخالفت ۲۲/۴۲; _ سے نجات حاصل كرنا ۲۱/۷۶;_ كا نقش و كردار ۲۱/۷۶ ; _ كى ہلاكت ۲۲/۴۴نيز ر_ك نوح

قدر و قيمت لگانا:اس كا معيار ۲۰/۱۰۴نيز ر_ك اقدار

قدرتى اسباب :ر_ك قدرتى عوامل

قران كى تشبيہات:آسمان كو تشبيہ دينا۲۱/۱۰۴;_انسانوں كو قيامت ميں تشبيہ دينا ۲۲/۲;_نيچے گرے ہونے آسمان كى ساتھ تشبيہ دينا ۲۲/۳۱;_انسان كى خلقت كے ساتھ تشبيہ ۲۰/۵۵;_شكارى پرندوں كے لقمے كے ساتھ تشبيہ _لپٹے ہونے طومار كے ساتھ تشبيہ ۲۱/۱۰۴;_گہوارے كے ساتھ تشبيہ ۲۰/۵۳; _ مست كے ساتھ تشبيہ ۲۲/۲;_زمين كے ساتھ تشبيہ ۲۰/۵۳;_مشركين كو تشبيہ دينا ۲۲/۳۱;_ معاد كو تشبيہ دينا ۲۰/۵۵

قوت سماعت:كى اہميت ۲۱/۱۰۰،كا مركز ۲۲/۴۶،كا كردار ۲۲/۴۶

۷۰۴

نيز ر_ك جہنمى لوگ،خدا،نعمت

قسم:كے احكام ۲۱/۵۷;_شرك دشمنى پر ۲۱/۵۷;_ حق كو زندہ كرنے كيلئے ۲۱/۵۷;_ اللہ كى ۲۱/۵۷;_ جائز ۲۱/۵۷

نيز ر_ك ابراہيم

قوميت پرستي:ر_ك كے فرعونى لوگ

قدرتى عوامل:_ كا تابع فرمان ہونا ۲۲/۶۵; _ كى تاثير ۲۱/۶۹; _ كا عمل كرنا ۲۰/۵۳; _ كا نقش و كردار ۲۰/۱۰، ۲۱/۲۹، ۲۱/۷۷، ۲۲/۵، ۴۰، ۶۳، ۶۵نيز ر_ك ذكر

قديم مصر كے باشندے :انكى زينت ۲۰/۵۹; انكى روايات ۲۰/۵۹; انكى عيد ۲۰/۵۹;_ وں سے مزدورى طلب كرنا ۲۲/۷۳; _ وں كى الوہيت ۲۱/۹۹; _ كى امداد ۲۱/۴۳; _ وں كا بے يارو مددگار ہونا ۲۱/۴۳; _وں كا كھوكھلاپن ۲۰/۱۴ ، ۲۲/۶۲; اسكے دلائل ۲۲/۶۲; _ وں كا متعدد ہنا ۲۱/۲۱; _ وں سے حساب لينا ۲۱/۲۳; _ وں كى خالقيت: اس كا رد كرنا ۲۱/۲۱; _ وں كا عاجز ہونا ۲۱/۲۱، ۴۳، ۴۴، ۲۲/۱۲، ۷۳; اسكے اثرات ۲۱/۹۹; اسے افشا كرنا ۲۲/۷۳; _ وں كا اخروى عذاب ۲۱/۱۰۰; _ وں كا عنصر ۲۱/۲۱; _وں كا تقدس: اسے رد كرنا ۲۱/۵۶; _ وں كے ساتھ مبارزت ۲۱/۳۶; _ وں سے مراد ۲۱/۹۸; _ جہنم ميں ۲۱/۹۸، ۹۹، ۱۰۰; ان كا اس ميں حتما جانا ۲۱/۹۸; _ اور خالقيت ۲۲/۷۳; ۹۸;_ وں كا نقش و كردار ۲۱/۴۴مشركين نيز ر_ك عقيدہ، باطل معبود: ۲۱/۲۹، ۴۳

قوم ہود :ر_ك قوم عاد/قوم يونس :_ كا پيش كرنا: اسكے اثرات ۲۱/۸۷; _ پر غضب ۲۱/۸۷ نيز ر_ك يونس

قيام:ر_ك نماز

قيامت:_ كے اثرات ۲۱/۱۰۳; _ ميں آسمان ۲۱/۱۰۳، ۱۰۴; _ميں خلقت ۲۱/۱۰۴; _ ميں آہستہ بولنا ۲۰/۱۰۸; اسكے عوامل ۲۰/۱۰۸; _ كا مخفى ہونا: اس كا فلسفہ ۲۰/۱۵; اس كا سرچشمہ۲۰/۱۵; _ ميں اضطراب ۲۲/۱، ۲; _كا اندوہ ناك ہونا ۲۰/۱۰۳; _ كى ہولناكى ۲۰/۱۰۴، ۱۰۸، ۲۱/۱۰۳، ۲۲/۱، ۲; ان سے محفوظ ہونا ۲۱/۱۰۳; _ ميں ايمان ۲۲/۵۵; _ كا برپا ہونا; اس كا فلسفہ ۲۰/۱۵، اس كا سرچشمہ ۲۰/۱۰۲، ۱۲۴، ۲۱/۲۱; _ ميں برہنہ ہونا ۲۱/۱۰۴; _ ميں پاداش ۲۰/۱۵، ۱۰۰، ۲۲/۵۶، ۶۹; _ميں سوال ۲۰/۱۲۵; _ ميں سوال و جواب ۲۰/۱۲۶; _ ميں جمع ہونا ۲۰/۷۴، ۱۰۲; _ ميں تجسم اعمال ۲۰/۱۰۰; _ ميں خوف ۲۱/۹۷، ۲۲/۲; _ كى خوفناكى ۲۱/۴۹، ۹۷، ۱۰۳; _ كا حاكم ۲۰/۱۰۹; _ ميں حكمرانى ۲۲/۵۶; _ كا حتمى ہونا ۲۰/۱۵،

۷۰۵

۲۱/۹۷، ۲۲/۷; _ ميں حساب و كتاب ۲۱/۱; _ ميں محشور ہونا ۲۰/۱۰۲، ۲۱/۱۰۳; ميں حقائق: ان كا مخفى ہونا ۲۰/۱۰۳; ان كا ظاہر ہونا ۲۰/ ۱۰۰ ، ۱۰۴،۱۰۸، ۱۲۴، ۱۲۵، ۲۱/۳۵، ۴۷، ۲۲/۱۷; _ كى حقيقت ۲۱/۴۹، ۱۰۴; كے واقعات ۲۱/۱; انہيں بيان كرنا ۲۰/۱۱۳; _ ميں خضوع ۲۰/۱۱۱; _ ميں آنكھوں كا خيرہ ہونا ۲۰/۱۰۲، ۲۱/۹۷;_ كے جلدى كرنے كى درخواست: اس كا پيش خيمہ ۲۱/۳۸; _ كے دلائل ۲۲/۷; _ كا زلزلہ ۲۲/۲; اسكى خوفناكى ۲۲/۱۰۲; اسكى خوفناكى كے اثرات ۲۲/۱; اس ميں سقط جنين ۲۲/۲; اسكى شدت ۲۲/۲; اس كا عظيم ہونا ۲۲/۱; اس ميں نوزاد بچوں كا بھول جانا ۲۲/۲; _ ميں زمين ۲۰/۱۰۷، ۱۰۸، ۲۱/۱۰۳; _ كے وقت زمين ۲۰/۱۰۵، ۱۰۶; _ ميں كلام: اسكى تاثير كے شرائط ۲۰/۱۰۹;_ ميں سقط جنين ۲۲/۲; ميں شفاعت ۲۰/۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱; _ ميں شفاعت كرنے والے ۲۰/۱۱۰; _ ميں عدل و انصاف ۲۰/۱۱۲; _ كى عظمت ۲۰/ ۱۰۸; _ كا علم ۲۲/۵۵; اس كا سرچشمہ ۲۰/۱۵; _ كا فلسفہ ۲۱/۵۷; _ ميں قضاوت ۲۲/۱۷، ۵۶، ۵۷، ۶۹; اس كا معيار ۲۲/۱۸; _ ميں كمياں :_ ان كا ادراك ۲۰/۱۲۵; ميں اندھاپن ۲۰/۱۲۴; اسكے عوامل ۲۰/۱۲۴; ميں پہاڑ ۲۰/۱۰۵; اسكے وقت پہاڑ ۲۰/۱۰۵،۱۰۶; _ ميں سزا ۲۰/۱۵، ۱۰۰، ۲۲/۵۶، ۶۹; ميں لرزنا ۲۲/۱; _ سے رو گردانى كرنے والے ۲۱/۱; _ كى جكہ ۲۰/۱۰۷; _ كو جھٹلانے والے ۲۱/۳۸; ان كا مكر ۲۰/۱۶; ميں مكر ۲۰/۱۱۰; _ كا منادى ۲۰/۱۰۸; اسے جواب دينا ۲۰/۱۰۸; _ ميں ميزان ۲۱/۴۷; اس كا متعدد ہونا ۲۱/۴۷; _ كا ناگہانى ہونا ۲۰/۱۵،۳۱/۹۷، ۲۲/۵۵; _ كے نام ۲۱/۱۵، ۲۱/۴۹; _ كا نزديك ہونا ۲۱/۹۷; _ كى نشانياں ۲۰/۱۰۵، ۱۰۶، ۲۱/۹۷، ۱۰۴، ۲۲/۱، ۲، ۷; _ ميں صور پھونكنا ۲۰/۱۰۲، ۲۱/۱۰۳; _ كا نقش و كردار ۲۰/۱۱۴، ۲۱/۹۳; _ كى وجہ سے پريشاني: اسكے اثرات ۲۱/۴۹; _ كا وعدہ ۲۱/۳۸، ۹۷، ۱۰۳، ۱۰۴; _ كا وقت ۲۰/۱۵، ۲۲/۱، ۵۵; _ كى خصوصيات ۲۰/۷۴، ۱۰۰، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۴، ۱۰۷، ۱۰۸، ۱۱۰، ۱۲۶، ۲۱/۱، ۹۷، ۱۰۴، ۲۲/۷، ۹، ۱۷، ۵۵، ۵۶، ۶۹، ۷۰نيز ر ك، آخرت، آيات الہي، انسان، ايمان، خوشخبري، خوف، قرآن كى تشبيہات، تفكر، حج، ذكر، عقيدہ، غفلت، قرآن، كفار، كفر، مؤمنين، موت

قيوميت: ر_ك خدا

''ك''

كارندے:ان كا عمل: اس كا ذمہ دار ۲۰/۴۷نيز ر_ك جہنم/كفالت كرنا:

۷۰۶

ر_ك حوا،موسي(ع)

كان:_ كے فوائد ۲۲/۴۶/كاميابي:ر_ك تبليغ خد

كفارہ دينا :ر_ك گناہ/گھئن كا ماحول :ر_ك فرعون ،مكہ/كھانے كى چيزيں :كھانے كى چيزوں كے احكام ۲۲/ ۲۸، ۳۰; _ سلوى كھانے كى چيز۲۰/۸۰;_من كھانے كى چيز ۲۰/۸۰;_كھانے كى حرام چيزيں ۲۲/۳۰;_ كھانے كى چيزوں كى آيات كا مكرر نزول ۲۲/۳۰ ، كھانے كى حلال چيزيں ۲۲/ ۲۸،۳۰;_كھانے كى چيزوں كا كردار۲۰/۸۱نيز ر_ك نعمت

كھانا :ر_ك آدم(ع) ،انبيائ،حوا،ضروريات

كمزور ايمان لوگ:صدراسلام كے ۲۲/۱۱

سطحى نظر ر_ك قوم ابراہيم

كو تبديل كرنا :اسكے عوامل ۲۱/۶۵نيز ر_ك ابراہيم،سامرے،مريم،موسي

عظمت :اس كى نشانياں ۲۲/۳۷;_كا علم ۲۰/۴۶، ۵۲، ۹۹، ۱۰۴، ۲۱/۴، ۵۱،۸۱، ۲۲/۱، ۷،۱۷، ۵۵، ۶۳، ۶۸;_ اسكے اثرات ۲۰/۷ ،۴۶، ۲۱ /۸۱، ۱۱۲ ،۲۲/۶۹;_اس كا كامل ہونا ۲۲/۶۱;_ اسكى نشانياں ۲۲/۵۲،۶۳;_اس كا كردار ۲۰/۱۰۵ ; _اسكى وسعت ۲۰/۹۸، ۱۱۰ ،۱۱۴، ۲۱، ۲۸ ، ۴۷، ۸۱، ۲۲/۷۰;_اسكى خصوصيات ۲۲/۶۱ ; _ كا علم غيب ۲۰/ ۷، ۶۸، ۱۰۴، ۱۱۰، ۲۱/ ۲۸، ۱۱۰، ۲۲/ ۷۶;_ اسكے اثرات ۲۰/ ۱۱۰ ;_ كا علمى ہونا ۲۰/ ۱۱۴ ، ۲۲/ ۶۲;_ اسكى نشانياں ۲۰/ ۱۱۴;_كا عہد ۲۰/۱۱۵;_ اس پر عمل كرنے كا عزم ۲۰/۱۱۵;_ اسے فراموشى كردينا ۲۰/۱۲۱;_كے ساتھ عہد شكنى ۲۰/۱۱۵;_سے غافل لوگ :ان كا اخروى اندھاپن ۲۰/۱۲۴;_ كا غضب: اس سے اجتناب كرنا ۲۰/۱۰۹;_اس كا پيش خيمہ ۲۰/ ۸۱، ۸۶،۱۰۹،۲۲/۴۵;_اس سے مراد ۲۰/۸۱;_ كا صاحب اولاد ہونا :اسكے موانع ۲۱/۴۶;_ كى قدرت ۲۰/۲۷، ۸۵،۲۱/۷۱،۴۴،۶۹،۲۲/۶، ۳۹،۶۱;_ اسكے اثرات ۲۲/۴۰;_ اسكى حكمرانى ۲۱/۶۹;_ اسكے دلائل ۲۱/۴۴،۲۲/۷،۶۱;_اس كا كامل ہونا ۲۲/۶۱;_ اسكى نشانياں ۲۰/۴ ، ۲۱،۷۹، ۹۱، ۱۰۴، ۲۲/ ۵، ۶،۶۱ ، ۶۵، ۷۶;_ اسكى وسعت ۲۲/۶،۱۴،۱۸;_ اسكى خصوصيات ۲۲/۶ ،۶۱;_ كى قضاوت :اسكى حقانيت ۲۱/۱۱۲;_ اسكى درخواست ۲۱/۱۱۲;_ اس كى اخروى قضاوت ۲۲/ ۱۷، ۵۶، ۶۹;_ اس كى اخروى قضاوت كا معيار ۲۲/۱۸،۵۷;_ اس كا معيار ۲۱/۱۱۲ ، ۲۲/ ۶۹;_ اسكى خصوصيات ۲۱/۱۱۲;_ كا قيوم ہونا :اسكے اثرات ۲۰/۱۱۱;_كى كبريائي ۲۲/۶۲;_ كا

۷۰۷

كلام :اسكے سننے ميں ادب سے كام لينا ۲۰/۱۲;_ كا كمال ۲۰/۸،۱۱۴;_ كے ساتھ گفتگو :اس كى لذت ۲۰/۱۸;_ كى آدم(ع) كے ساتھ گفتگو ۲۰/ ۱۱۷ ; _ كى انبياء كى ساتھ گفتگو :اسكى جگہ كا پاكيزہ ہونا ۲۰/۱۲;_ اسكى جگہ كا تقدس ۲۰/۱۲;_كى بنى اسرائيل كے ساتھ گفتگو ۲۰/۸۰;_ كى موسى كے ساتھ گفتگو ۲۰/۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۸، ۱۹، ۴۰، ۸۳، ۸۴; _ اسكى جگہ ۲۰/۱۲;_ كى گواھى ۲۰/۳۵،۲۲/۱۷;_ كا لطف و كرم ۲۲/۶۳;_ اسكے اثرات ۲۱/۸۱، ۹۰ ،۱۰۷; _ اس سے محروميت كے اثرات ۲۰/ ۱۲۶; _ اسكى نشانيا۲۰/۴۰،۲۲/۶۵;_ كا مالك ہونا ۲۰/ ۶ ، ۱۱۴، ۲۱/۱۹،۲۲،۲۲/۱۰،۶۴;_ اسكے اثرات ۲۱/۱۹;_ اس كا دائمى ہونا ۲۰/۱۱۴;_ اسكى نشانياں ۲۰/۷;_ كے بارے ميں مجادلہ كرنا ۲۲/۳، ۸; _ كى محبت :اس كا پيش خيمہ ۲۲/۳۸;_ كى طرف سے مدح ۲۲/۳۵،۷۸;_كى مشيت ۲۲/۱۸; _ اسكے اثرات ۲۰/۳۷ ،۵۵، ۲۱/۹ ، ۱۱/ ۸۱، ۲۲/ ۲، ۱۶;_اسكى نشانياں ۲۲/۵;_ كا معبود ہونا :اس كا پيش خيمہ ۲۲/۳۴;_ كے مقدرات ۲۰/۴۰ ،۲۱/ ۱۰۱ ;_ ان پر راضى ہونا ۲۰/۱۳۰;_ ان كا علم ۲۱/ ۸۷; _ كو نفع پہچانا :اسكى سوچ ۲۰/۱۳۲;_ كى مہربانى ۲۰/۴۰ ، ۱۲۲، ۲۱/۷;_ كى مہلت ۲۰/۱۲۹ ،۲۲ /۴۴، ۴۸;_ اس كا فلسفہ ۲۲/۴۸;_ كے نام ۲۱/ ۲۶ ;_ كا نجات دينا ۲۰/۴۰ ،۶۸، ۸۰، ۲۱/ ۷۱، ۷۴،۷۶،۷۷،۸۸،۲۲/۱۵;_ كى نصرتيں ۲۲ / ۳۹ ،۴۰،۶۰،;_ان كے دلائل ۲۲/ ۶۱ ; _ان كا پيش خيمہ ۲۲/۴۰،۴۱،۷۸;_ان سے محروميت كے عوامل ۲۲/۴۰،ان سے محروم لوگ ۲۲/۷۱;_ انكى مدح ۲۲/۷۸;_كى نظارت ۲۰/۳۹، ۲۱/ ۷۸ ،۸۲،۲۲/۱۷;_ كى نعمتيں ۲۰/ ۴۰، ۵۳، ۸۰، ۸۱، ۲۲/۳۶،۳۷،۷۸;_ انكى قدر و قيمت ۲۰/ ۱۳۱;_ ان سے استفادہ كرنا ۲۰/۵۴;_ ان كا فلسفہ ۲۰/۸۱;_ كا نقش و كردار ۲۰/ ۳۶، ۳۹، ۴۰، ۴۲ ، ۱۱۳، ۲۱/۷، ۷۳، ۲۲/ ۲۶; _ كے نواحب ۲۰/۱۳۱،۲۳/۶۷;_ان كا فلسفہ ۲۰/۱۲۱;_ كے وعدہ ۲۰/۴۲، ۶۶، ۶۹، ۸۰، ۸۶، ۹۹، ۲۱/۹، ۳۸،۸۸،۹۷،۱۰۱،۱۰۳،۱۰۴ ،۱۰۶ ،۲۲/ ۳۹، ۶۰ ; _ان كے اثرات ۲۰ / ۴۶، ۲۱/۱۰۱;_ان كا مذاق اڑانا ۲۲/۴۷;_ ان سے بى اعتنائي كرنا ۲۲ / ۸۶ ;_ ان سے بے اعتنائي كرنے كے اثرات ۲۰/۸۶;_ ان كا علمى ہونا ۲۰/۷۰ ، ۱۳۵ ; _ ان كا قطعى ہونا ۲۱/ ۹۷ ، ۱۰۴، ۲۲/۴۷;_ انہيں جھٹلانے والے ۲۲/۴۷;_ كى دھمكياں ۲۱/۳۸ ، ۱۰۹ ،۲۲/۷۲;_ ان كا قطعى ہونا ۲۰/۹۷;_ كى ولايت :اسكے اثرات ۲۲/۷۸;_ اس كا پيش خيمہ ۲۲/۷۸;_ اسكى مدح ۲۲/۷۸;_ كا ھادى ہونا ۲۰/ ۵۰ ، ۱۲۳، ۲۱/ ۳۹، ۲۲/ ۲۴، ۳۷;_كى ھدايات ۲۰/۵۰، ۱۲۳، ۱۲۶، ۲۱/۴۸، ۲۲/۱۶ ; _ ان كے اثرات ۲۰/۱۲۴،۲۲/۲۴;_انكى نشانياں ۲۰/۵۰،۲۲/۳۷;_كا متنبہ كرنا ۲۰/۱۱۹، ۱۲۱، ۲۱/ ۴، ۲۲/۴۸;_اس كا مذاق اڑانا ۲۱/ ۳۸ ; _ ا س كا فلسفہ ۲۰/۱۲۱نيز ر_ك استغاثہ ،استكبار،اطاعت،تمسك كرنا،

۷۰۸

اخترا ،اميد ركھنا،انقياد،ايمان،خدا كے بندہ، ياد دھانى كرنا،خوف،تسبيح،سرتسليم خم كرنا، توكل، حمد، ذبح كرنا،ذكر ،سجدہ ،شفاعت، عقل، عبادت، نافرماني،عقيدہ، دل بستگي،غفلت، فطرت ، كفر، تمايلات،مسجدالحرام،خداسے روگردانى كرنے والے،خدا كے مغضوب بندے ،خدا پر بہتان باندھنے والے ،نماز ،ضروريات، مايوسي

كفار :۲۲/۵۱_ كى اذيتيں ۲۰/۱۳۰، ۲۱/۱۱۲، ان پر صبر كرنا ۲۰/۱۳۰; _ كا مہلت طلب كرنا، اسے مسترد كرنا ۲۱/۴۰; _ كا مذاق اڑانا ۲۱/۴۱; _ كا روگردانى كرنا ۲۱/۴۲; _ كا اقرار ۲۱/۴۶، ان كا اخروى اقرار ۲۱/۹۷; _ كا امتحان ۲۰/۱۳۱، ۲۱/۱۱۱: _ كے دنياوى وسائل ۲۱/۱۱۱، ان سے بے اعتنائي كرنا ۲۰/۱۳۱; _ كو ڈرانا ۲۰/۱۳۵، ۲۱/۱۰۹; _ كا پيش آنا: اسكى روش ۲۱/۴۱; _ كى بہانہ تراشى ۲۰/۵۱; _ كا بے پناہ ہونا ۲۱/۴۳; _ كى بے عقلى ۲۱/۳۰; _ كا غير منقى ہونا ۲۱/۴۱; _ كى سوچ ۲۱/۳۸; _ كا بے يار و مددگار ہونا ۲۱/۳۹، ۲۲/۱۵; _ كى پشيمانى ۲۱/۴۶; _ كى تبليغ ۲۰/۱۳۰; كا حيرت زدہ ہونا ۲۱/۴۰; _ كا اخروى خوف ۲۱/۹۷; _ كا متنبہ ہونا: اس كا پيش خيمہ ۲۲/۴۴; اسكے عوامل ۲۱/۴۶; _ كى سازشيں ۲۱/۱۱۰; _ كى دھمكى دينا ۲۱/۱۹; _ كى ثروت: اسكے اثرات ۲۰/۱۳۱; اس سے استفادہ كرنا ۲۰/۱۳۱; _ كا جاہل ہونا ۲۱/۳۹; اسكے اثرات ۲۱/۳۹; _ كى آنكھ: اس كا خيرہ ہونا ۲۱/۹۷; _ كى حسرت ۲۱/۴۶; انكى اخروى حسرت ۲۱/۹۷; _ كى حق دشمنى ۲۲/۵۳; _ كا حق كو قبول نہ كرنا ۲۱/۴۲; _ كى دشمنى ۲۰/۱۶، ۲۱/۱۱۲، ۲۲/۴۰، ۵۳; انكى دشمنى اور مؤمنين ۲۲/۶۹; اس كا فلسفہ ۲۲/۴۰; _ كى دين دشمنى ۲۰/۱۶; _ كى ذلت ۲۱/۴۴; اس كيلئے كوشش ۲۲/۹; _ پر رحمت ۲۱/۱۱۰; _ كى آسائيش: ان كا بے قدر و قيمت ہونا ۲۰/ ۱۳۲، كا آشكار كلام ۲۱/۱۱۰; _ كى مذمت ۲۱/۳۰، ۵۰; _ كا شكوك پيدا كرنا ۳۰/۱۶; _ كا شك _اسے دور كرنا ۲۲/۵۵; _ كى شكست ۲۱/ ۳۷ ، ۱۰۹; _ كے شكنجے ۲۰/۷۴; _ كى صفات ۲۱/۴۶; _ كى كمزورى ۲۱/۴۴; _ كا عبرت كو قبول نہ كرنا ۲۱/۴۴ ; _ كا عاجز ہونا ۲۱/۴۰; ان كا آخرت ميں عاجز ہونا ۲۱/۳۹، ۴۰; _ كى چلہ بازي: اسكے عوامل ۲۱/۳۹; _ كا عذاب ۲۰/۱۳۱، ۲۱/۴۶، ۱۱۰ ; ان كا اخروى عذاب ۲۱/۴۰; ان كے اخروى عذاب كا دائمى ہونا ۲۱/۴۰; اس كا حتمى ہونا ۲۱/۴۳ ; اس كا خطرہ ۲۱/۴۲; ان كا مہلك عذاب ۲۲/۴۴، ۵۵; ان كا عذاب قبر ۲۰/۱۲۴; اس ميں تأخير كے عوامل ۲۰/۱۲۹; اسكى تأخير كا فلسفہ ۲۱/۱۱۱; اس كا وقت ۲۱/۱۰۹; _ كا عقيدہ ۲۱/۴۳; _ كا آخرت ميں پريشان ہونا ۲۱/۴۰; _ كى غفلت ۲۱/۹۷; _ كا انجام ۲۲/۵۵، ۷۲; ان كا اخروى انجام ۲۲/۴۹; ان كا برا انجام ۲۲/۴۹، ۷۲; _ اور مؤمنين كے درميان قضاوت ۲۲/۵۶; _ كا دل: اسكى بيمارى ۲۲/۵۳; اس كا سخت ہونا ۲۲/۵۳; جہنم ميں ۲۰/۷۴، ۲۱/۳۹، ۴۰، ۹۸، ۲۲/۹، ۷۲; جہنم ميں ان كا شكل و صورت ۲۲/۷۲; _ دنيا ميں ۲۱/۳۹; _

۷۰۹

قيامت ميں ۲۱/۳۹، ۴۰/۹۷; صدر اسلام كے _ ان كا دعوا ۲۰/۱۳۵; ان كا استكبار ۲۲/۵۷; ان كا مذاق اڑانا ۲۰/۱۳۵، ۲۲/۴۷; ان كا مذاق اڑاديا جانا ۲۲/۷۲; ان كا امتحان ۲۱/۱۱۱; ان كے مادى وسائل ۲۰/۱۳۱; ان كى توقعات ۲۰/۱۳۵; انہيں ڈرانا ۲۲/۴۷، ۵۵; انكى سوچ ۲۲/۴۷; ان كى سازش ۲۱/۱۱۰; انكى دشمنى ۲۲/۷۲; انكى آسائش ۲۰/۱۳۱; ان كا سلوك ۲۲/۷۲; ان كے غضب كى شدت ۲۲/۷۲ ان كى غضب كا پيش خيمہ ۲۲/۷۲; انكى سرزنش ۲۲/۴۶; ان كے غضب كى شدت ۲۲/۷۲; ان كى اذيتوں پر صبر ۲۲/۵۹; انكى صفات ۲۲/۵۷; ان كا ظلم ۲۲/ ۳۹; ان كا عبرت كو قبول نہ كرنا ۲۲/۴۶; ان كا عذاب ۲۱/۱۰۹; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲۲/ ۴۷; انكے عذاب كى تاخير كا فلسفہ ۲۱/۱۱۱; ان كا علم ۲۰/۱۲۸، ۱۳۳; صدر اسلام كے دولتمند كفار ۲۰/۱۳۱; ان كا كفر ۲۰/۱۳۳; _ تلاوت قرآن كے وقت ۲۲/۷۲; اور آسمانى كتب ۲۰/۱۳۳، ان كا كى ضد بازى ۲۰/۱۳۳; ان كيلئے مہلت ۲۰/۱۲۹ ; ان دلون كے اندھا ہونے كى نشانياں ۲۲/۴۷; انكى شكست كا وقت ۲۱/۱۱۱; ان كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۲۰/۱۳۵; _ اور آفاقى آيات ۲۱/۳۲; _ اور انبياء ۲۱/۴۱; _ عذاب كے وقت ۲۱/۳۹، ۴۰، ۴۶ ; _ كے دلوں كا اندھاپن ۲۲/۴۶; _ كى سزا ۲۱/۱۱۰، ۲۲/۹; انكى اخروى سزا ۲۰/۷۴، ۲۲/۹; _ كا مال: اس كا بے قدر و قيمت ہونا ۲۰/ ۱۳۲; _ كا مواخذہ: اس ميں تاخير ۲۰/۱۲۹; _ كے ساتھ مبارزت: اسكى روش ۲۰/۱۳۰; _ كى اخروى محروميت ۲۰/۱۱۱، ۲۱/۴۰; _ كے ساتھ نرم سلوك ۲۲/ ۶۸; _كى مشكلات ۲۲/۱۵; _ كا مكر: اس سے ممانعت ۲۰/۱۶; اس سے نجات حاصل كرنا ۲۰/۱۶; _ پر نصيحت كا اثر نہ كرنا ۲۱/۴۲; _ كو مہلت دينا ۲۰/۱۲۹، ۱۳۰، ۲۲/۴۴; اس كا فلسفہ ۲۰/ ۱۳۰ ، ۲۲/ ۴۴; ان كيلئے دنيوى مہلت ۲۱/۴۰; _ كى ہدايت ۲۱/۳۹; _ كو خبردار كرنا ۲۱/۱۱۰; كى ہلاكت ۲۱/۳۷،۲۲/۴۴; اسكى تاخير كا فلسفہ ۲۰/۱۲۹; _ كى ہم آہنگى ۲۱/۴۱; _ كى مايوس: اسكى اہميت ۲۰/۱۶نيز ر_ك بشارت، جہاد، كفار مكہ، آنحضرت(ص) ، مايوسي

كفار مكہ:_ پر حجت تمام كرنا ۲۰/۱۳۵; _ كا مذاق اڑانا ۲۱/۳۶; _ كا سلوك: اسكى روش ۲۱/۳۶; _ كى سوچ ۲۱/۱; _ كا تعصب ۲۱/۳۶; _ كى تہمتيں ۲۱/۳۸; _ كى زندگي: اسكى سطح ۲۰/۱۳۱; _ كى شكست ۲۱/۳۷; اس كا وعدہ ۲۱/۳۸ _ كے سينے كى تنگى ۲۱/۳۶; _ كا عاجز ہونا ۲۱/۳۶; _ كى جلد بازي: اس كا پيش خيمہ ۲۱/۳۸; _ كا عذاب ۲۰/۱۳۵، ۲۱/۳۷; ان كا دنيوى عذاب ۲۱/۷; _ كا مقابلہ ۲۱/۶; _ كو خبردار كرنا ۲۱/۳۷; _ كى ہلاكت ۲۰/۱۵، ۲۱/۳۷; اسكى تاخير كا فلسفہ ۲۱/۳۷; اس كا وعدہ ۲۱/۳۸كتاب: ۲۱/۱۰

كذب:ر_ك جھوٹ/كرامت:_ كا پيش خيمہ ۲۱/۲۷; _ كے عوامل ۲۱/۲۶نيز ر_ك فرشتے

۷۱۰

كشتي:_ كى حركت ۲۲/۶۵۵; اس كا سرچشمہ ۲۲/۶۵

كعبہ:_ كا احترام ۲۲/۲۶; كو تعمير كرنے والے ۲۲/۲۶; _ كى بنياد ركھنے والا ۲۲/۲۶; _ كى تاريخ ۲۲/۲۶، ۲۹، ۳۳; _ كو پاكيزہ كرنا ۲۲/۲۶; _ كو معين كرنا: اس كا سرچشمہ ۲۲/۲۶; _ ميں عبادت ۲۲/۲۶; _ كى فضيلت ۲۲/۲۵، ۲۶; كا تقدس ۲۲/۲۵، ۲۶; _ كى قدمت ۲۲/۲۹، ۳; _ طوفان نوح كے وقت ۲۲/۲۹; _ كى مالكيت ۲۲/۲۹; _ كا متولى ۲۲/۲۶; _ كا نام ركھنا: اس كا فلسفہ ۲۲/۲۹; _ ميں توحيد عبادى كى نشانياں ۲۲/۲۶; _ كا نقش و كردار ۲۲/۳۳نيز ر_ك ذكر

كفارہ:ر_ك حرام

كفر:_ كے اثرات ۲۱/۹، ۴۰، ۹۷، ۲۲/۳۱، ۵۷; اسكے اخروى اثرات ۲۰/۷۴; _ كى بخشش: اسكے شرائط ۲۰/۸۲; _ سے اجتناب كرنا ۲۲/۴۴; اسكى پاداش ۲۰/۷۶; _ كى تاريخ ۲۱/۴۴; _ كا پيش خيمہ ۲۰/۵۶،۲۲/۱۵; _ كا ظلم ۲۱/۴۶; _ كے عوامل ۲۱/۷; خدا كے ساتھ : _ اسكے اثرات ۲۲/۲۵; اس كا گناہ ۲۲/۲۵; اس كا پيش خيمہ ۲۲/۵۷; قيامت كے ساتھ _ : اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۶; _ كى سزا ۲۰/۲، ۲۲/۵۷; _ كا گناہ ۲۰/۷، ۷۴; _ كے موارد ۲۱/۹۸نيز ر_ك استغفار، ڈرنا، بشارت، توبہ، راہبران، عذاب، فرعون ، قوم نوح، كفار، مشركين

كفران:_ نعمت ۲۲/۳۸; اسكے اثرات ۲۰/۸۱; اس سے اجتناب كرنا ۲۰/۸۱; اس كا گناہ ۲۰/۸۱نيز ر_ك انسان، خيانت كرنے والے، سامري، مؤمنين، مشركين

كلمہ توحيد:_ كى پاكيزگى ۲۲/۲۴

كليسا:_ كا احترام ۲۲/۴۰; _ كى حفاظت ۲۲/۴۰

كمال:_ كے اثرات ۲۲/۶۴; _ كے عوامل ۲۱/۵۱نيز ر_ك ابراہيم، انسان، خدا، عورت، سچے معبود، موسى ، ہارون

كمي:ر_ك قيامت

كنيہ:_ كا احترام ۲۲/۴۰; _ كى حفاظت ۲۲/۴۰

كوشش:كے اثرات ۲۱/۹۴;_كا پيش خيمہ ۲۰/۱۵;_ نيز ر_ك عبادت كفار ،آنحضرت ،مكہ كے مسلمان،

۷۱۱

مشركين،موسي،نماز

كوشش:ر_ك سعي

كوہ طور:_ كى آگ ۲۰/۱۰، ۱۱/۱۷; اسكى اہميت ۲۰/۱۰; اسكى حقيقت ۲۰/۱۱; _ كا تقدس ۲۰/۸۰; _ كى دعوت ۲۰/۸۰; كى دائيں طرف ۲۰/۸۰; _ ميں مناجات ۲۰/۸۰; كا كردار ۲۰/۶نيز ر_ك موسى

''گ''

گائے:_ كى خلقت: اس كا فلسفہ ۲۰/۵۴; _ كا گوشت: اس كا حلال ہونا ۲۲/۲۸، ۳۰نيز ر_ك حج، نعمت

گرز:ر_ك جہنم

گرمي:ر_ك آدم(ع) ، جہنم

گفتگو:ر_ك خدا، شيطان، گناہ گار لوگ

گمراہ لوگ:_ وں سے اميد ركھنا: اسكى اہميت ۲۰/۹۰; _ وں كے ساتھ سلوك: اسكى روش ۲۰/۹۷; _ وں كا محشور ہونا ۲۰/۱۲۵; _ وں كو دعوت ۲۲/۶۷; _ وں كو نظر انداز كرنا ۲۰/ ۹۷; _ وں كے ساتھ قطع تعلقى كرنا ۲۰/۹۷; وں كا اخروى اندھاپن ۲۰/ ۱۲۴ ، ۱۲۵; _ وں كے ساتھ مبارزت: اسكى روش ۲۰/ ۲۷ ; _ وں سے محبت ۲۰/۹۰; صدر اسلام كے _ وں كو مہلت دينا ۲۰/۱۲۹نيز ر_ك اميدوار ہونا، گمراہي

گمراہي بدترين _ ۲۲/۱۲; _ كى پيش گوئي ۲۰/۸۶; _ كا پيش خيمہ ۲۰/۱۲۳; _ كے عوامل ۲۰/۹۶، ۷۹، ۱۰۰، ۱۲۱، ۱۲۳، ۲۱/۵۳، ۲۲/۴، ۳۱; اصلى سبب تلاش كرنا ۲۰/۹۵; اس كا كردار ۲۰/۸۵; _ كے درجے ۲۲/ ۱۲; سے ممانعت ۲۰/۹۲; كا سرچشمہ ۲۲/۱۶; _ كے موارد ۲۱/۵۴، ۲۲/۹; _ كے موانع ۲۰/۹۰، ۱۲۳ نيز ر ك: امتيں ، انسان، بت پرستي، بيمار دل لوگ، راہبران، سخت دل لوگ، شرك، صراط مستقيم، قرآن، گمراہ لوگ، لوگ

گناہ:_ كے اثرات ۲۰/ ۱۲۱، ۲۱/۲۹; _ كى بخشش ۲۰/ ۷۳ ، ۲۲/۵۰; _ سے اجتناب كرنا۲۰/۸۲; اسكى پاداش ۲۰/۷۶; _ پر مجبور كرنا ۲۰/۷۳; _ كا كفارہ دينا: اسكے عوامل ۲۲/۵۰; _ كا پيش خيمہ ۲۰/۱۱،

۷۱۲

۲۱/۷۴ ; _ كے عوامل ۲۰/۱۰۰; كبيرہ _ ۲۰/۶۱، ۸۱، ۲۱/۹۹، ۲۲/۱۱، ۲۵، ۳۰; ناقابل بخشش _ ۲۰/۱۲۹، ۲۱/۲۹، ۲۲/۱۱، ۱۸، ۱۹، ۲۵; _ كے موانع ۲۱/۴، ۲۸، ۳۹

( خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كيے جائيں )

گناہ گار لوگ ۲۰/۷۴_ وں كا اخروى جواب ۲۰/۱۲۶; _ وں كا اخروى سوال ۲۰/۱۲۶; _ وں كى اخروى حيرت ۲۰/۱۰۲; _ وں كا اخروى خوف ۲۰/۱۰۲; _ وں كا فرق ۲۰/ ۱۲۱; وں كا توبہ ۲۰/۸۲; وں كى آنكھ: اس كا خيرہ ہونا ۲۰/۱۰۲; وں كا محشور ہونا: اس كا سرچشمہ ۲۰/۱۰۲; اسكى خصوصيات ۲۰/۱۰۲; _ وں كا اخروى خضوع ۲۰/۱۱۱; _ وں كى اخروى ذلت ۲۰/۱۱۱; _ وں كى اخروى وضع قطع ۲۰/۱۱۱ ; وں كا چہرا: اس كا رنگ ۲۰/۱۰۲; _ وں كا انجام: اسے بيان كرنا ۲۰/۱۱۳; دن كا برا انجام ۲۰/۱۰۲; _ وں كى اخروى سزا ۲۰/۱۰۲; _ وں كى اخروى گفتگو ۲۰/۱۰۴; _ وں كى اخروى محروميت ۲۰/۱۱۱; _ وں كى اخروى سرگوشى ۲۰/۱۰۳; _ وں كى اخروى پريشانى ۲۰/۱۰۲نيز ر_ك گناہ

گواہ:ر_ك خلقت: امتيں ، توحيد، مسلمان

گمان:ر_ك قوم ابراہيم، يونس

گھرانہ:كى اہميت ۲۱/۸۴;_ كى دينى تربيت :اسكى اہميت ۲۰/۱۳۲;_ كى مشكلات ان كى دور كرنے كا ذمہ دار ۲۰/۱۱۷;_ كانقش و كردار ۲۱/۵۳;_ كى ضروريات : انہيں پورا كرنا ۲۰/۱۰نيز ر_ك ايوب،آنحضرت(ع) ،موسي(ع) ،نوح

گواہي:_ كے اثرات ۲۱/۶۱; جھوٹى _: اس كا گناہ ۲۲/۳۰نيز ر ك: ابراہيم، خدا، قوم ابراہيم، آنحضرت(ص) ، مسلمان

گوشت:ر_ك جاہليت، چوپائے، حج، اونٹ، گائے، بھيڑ بكرے

گہوارہ:ر_ك قرآن كى تشبيہات

گيندكى شكل ميں ہونا:ر_ك زمين

''ل''

لباس:آتشين لباس ۲۲/۱۹نيز ر_ك بہشتى لوگ، جہنمى لوگ، تمايلات

لالچ:

۷۱۳

ر_ك طمع

ليچڑيں :ر_ك بنى اسرائيل، عذاب، فوعون، قوم ابراہيم، كفار، مشركين

لج :ر_ك طمع

لطف خدا:_ سے محروم لوگ ۲۰،۱۲۷، ۲۱/۴۰; _ كے شامل حال ۲۰/۱۷، ۱۹، ۳۶، ۳۷، ۳۸، ۳۹، ۷۷، ۱۲۹، ۱۳۱، ۲۱/۴۸، ۵۱، ۶۹، ۷۴، ۷۶، ۷۹، ۹۰، ۹۱، ۱۰۵لعب و لہو: ر_ك خد

لقاء اللہ:_ كو پانا: اسكى روش ۲۲/۹; _ كا پيش خيمہ ۲۲/۲۵

لوح محفوظ: ۲۰/۵۲

لوط(ع) :_ كى اذيت ۲۱/۷۱، ۷۴; كى پاكيزگي:اسكے اثرات ۲۱/۷۵;_ كى پيش قدمى ۲۱/۹۰; _ كى تبليغ: اس كا اثر نہ كرنا ۲۱/۷۴; _ پر جھوٹ كى تہمت ۲۲/۴۳; _ كے زمانے كا معاشرہ ۲۱/۷۱; _ كى حكمت: اس كا سرچشمہ ۲۱/۷۴; _ كى صلاحيت: اسكے اثرات ۲۱/۷۵; _ كا علم لدنى ۲۱/۷۴; _ كا عمل خير ۲۱/۹۰; _ كے فضائل ۲۱/۷۴، ۷۵; كا قصہ ۲۱/۷۱، ۷۴; _ كى قضاوت: اس كا سرچشمہ ۲۱/۴; _صالحين ميں سے ۲۱/۷۵; _ كا مقام و مرتبہ ۲۱/۷۴; _ كو جھٹلانے والے ۲۲/۴۳; _ كى نبوت ۲۲/۴۳; _ كى نجات ۲۱/۷۴; _ كى ہجرت ۲۱/۷۱

لہو و لعب:_ كے اثرات ۲۱/۳نيز ر_ك خد

لچك دار ہونا :ر_ك اسلام

لوگ:_ وں كا مرتد ہونا: اسكے اثرات ۲۰/۸۶; _ وں كو دھوكہ دينا: اسكى پريشانى ۲۰/۶۷; _ وں كے حقوق: ان سے تجاوز كرنا ۲۲/۲۵; ان سے تجاوز كرنے كى سزا ۲۲/۲۵; ان سے تجاوز كرنے كا گناہ ۲۲/۲۵; سب سے زيادہ نقصان اٹھانے والے _ ۲۱/۷۰; _ وں كى گمراہى اسكے اثرات ۲۰/۸۶; اس سے ممانعت ۲۰/۹۲، ۹۳; صدر اسلام كے _ : ان كا سوال ۲۰/۱۰۵; ان كے سوال كے اثرات ۲۰/۱۰۵; ان كے سامنے تلاوت قرآن ۲۲/۷۲; انكو دعوت ۲۲/۷۲; يہ اور قرآن ۲۲/۷۲; _ كا نقش و كردار ۲۱/۹۳; _ وں كى ہدايت: اسكى اہميت ۲۰/۷۹، ۹۳; _ وں كى ہمراہي: اسكى اہميت ۲۰/۸۳

نيز ر_ك تبليغ، جزيرة العرب، داود

لياقت:_ كا كردار ۲۲/۷۵

۷۱۴

اشاريے (۵)

''م''

ماں :_ كا مقام و مرتبہ: اس كا پيش خيمہ ۲۰/۳۸: _ كا نقش و كردار ۲۰/۴۰نيز ر_ك روابط، جذبات، موسى ، ہارون

مال:_ كى قدر و قيمت ۲۲/۱۱; _ كا خير ہونا ۲۲/۱۱; _ كا سرچشمہ ۲۲/۳۵نيز ر_ك ايوب، كفار، مومنين

مال:ر_ك آخرت، آسمان، خلقت، انسان، دنيا، عرش، موجودات

مالكيت:_ كے احكام ۲۱/۵۸; دائمى _ : اس تك پہنچانا ۲۰/۱۲۰ ; اسكى درخواست ۲۰/۱۲۰; غير خدا كى _ ۲۱/۱۹

نيز ر_ك بت، خدا، سرزمين، فرعون، فرعونى لوگ، كعبہ، سچے معبود_

ماحول بنانا:ر_ك فرعون ،موسي(ع)مقدس مقامات :۲۰/۱۲،۸۰،۲۲/۳۳_كا احترام :۲۰/۱۲،۲۲/۴۰;_كى تاريخ ۲۲/۴۰ ; _ كو گرانا:اسكے موانع ۲۲/۴۰;_كى حمايت ۲۲/ ۴۰ ;_ كا دفاع كرنا :اسكى اہميت ۲۲/۴۰;_كا تقدس : اسكے عوامل ۲۲/۴۰ ; _ اس كا فلسفہ ۲۲/۱۴۰;_كى حفاظت ۲۲/۴۰;_كا كردار ۲۲/۴۰

متنبہ ہونا:اس كا پيش خيمہ ۲۲/۴۶;_اسكے عوامل ۲۱/۱۴، ۴۶نيز ر_ك امتيں ،انبيائ،انسان،عبادت كرنے والے ،فطرت،قوم ابراہيم ،مشركين،كفار

مچھلي:ر_ك يونس(ع)مبتلا ہونا:عذاب ميں :اسكے اثرات ۲۱/۱۴

ايجاد ر_كامرتد ہونا:اسكے اثرات ۲۰/۸۶،۲۲/۱۱;_سختى كے وقت ۲۲/۱۱;_اس كا سزا۲۰/۸۶،۲۲/۱۱;_اس كا گناہ ۲۲/۱۱نيز ر_ك بنى اسرائيل ،توبہ ،فرعون كے جادوگر ، سامرے ،سختى ،قيامت،لوگ ،مسلمان

مدد طلب كرنا :بنى اسرائيل سے ۲۰/۹۷;_رب سے ۲۱/۱۱۲نيز ر_ك فرعون

مہلت طلب كرنا:ر_ك كفار ،ہارون(ع)

۷۱۵

محبت:وراثت سے _ ۲۱/۸۹; خدا كى تسبيح سے _ ۲۰/۳۵; حفظ قرآن سے _ ۲۰/۱۱۴; ذكر خدا س ے _ ۲۰/۳۵; زيورات سے _ ۲۲/۲۳; ريشمى لباس سے _ ۲۲/۲۳; موسى سے _ ۲۰/۳۹

نيز ر_ك انبيائ، انسان، فرعون كے جادوگر، فرعون، فرعونى لوگ، آنحضرت(ص) ، موسى ہارون

مشكل ميں گرفتار ہونا:ر_ك ايوب، يونس

مادى :ان سے روگردانى كرنا ۲۰/۱۴نيز ر ك: خدا، موسى

متكبر:كے اثرات ۲۲/۹،۵۷;_كے مذمت ۲۲/۹; _ كے موانع ۲۱/۱۹نيز ر_ك راہبران ،عمل ،فرعون ،مكہ

مادى وسائل:كى قدر و قيمت۲۰/۱۳۱;_كا عطا كرنا :اسكے شرائط ۲۱/۸۱;_كى جذابيت ۲۰/۱۳۱;_كا سرچشمہ ۲۰/ ۱۳۱ ،۲۱/۴۴نيزر_ك ادم، بہشت، جنين، رحم، فرعون، مؤمنين ، مسجدالحرام،مكہ،موسي،نعمت پسند

معافي:ر_ك بخشش

مشكلات:كا فلسفہ ۲۱/۸۳

معاشرتى تبديلياں :ان ميں موثر عوامل ۲۰/۸۵

معاشرہ:معاشرتى آسيب شناسى ۲۰/۸۱، ۸۸، ۹۶، ۲۱/۱۱ ،۱۳، ۷۷،۲۲/۴۸

محاسبہ كرنا:محاسبہ كرنے كا ذريعہ :اس كا متعدد ہونا ۲۱/ ۴۷ ; _ ميں عدل و انصاف ۲۱/۴۷;اخروى محاسبہ :اس ميں عدل و انصاف ۲۱/۴۷;_اس سے غافل لوگ۲۱/۱;_اس كا معيار ۲۱/۴۷نيزر_ك انسان،خدا،عمل ،غفلت، قيامت، باطل معبود،مقربين

فرشتہ،موجودات،حسرت

ممنوعہ درخت :_سے كھانا ۲۰/۱۲۱;_اسكے اثرات ۲۰/۱۲۱، ۱۲۲، ۱۲۳;_اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۲۰،۱۲۱نيز ر_ك آدم ،حوا(ع)

مطالبات:_كو حاصل كرنا;اسكے عوامل ۲۰/۳۶نيز ر_ك بہشت

محشور ہونا:

۷۱۶

سب كا ۲۰/۱۰۸;_اس كا طريقہ ۲۰/۱۲۶;_اسكى جگہ ۲۰/۱۰۷نيز ر_ك انسان،خدا،غافل لوگ، قيامت، گمراہ لوگ،گناہ كار لوگ

مٹي:كو نطفے ميں تبديل كرنا ۲۲/۵;_ تر۲۰/۶۰;_ كى رطوبت :اسكے اثرات ۲۰/۶;_ كے فوائد ۲۲/۵نيز ر_ك انسان ;_خلقت

معاشرتى طبقات:صدر اسلام ميں _۲۰/۱۳۱نيز ر_ك گذشتہ اقوام

معاشرتى گروہ: ۲۱/۴۵، ۲۲/۱۸، ۵۱

صدر اسلام كے _ ۲۲/۱۱

موقع شناسي:ر_ك موسي

مأجوج:_كى كاميابى ۲۱/۹۶; كا خروج ۲۱/۹۶،۹۷; كا قصہ ۲۱/۹۶; _ كا حملہ ۲۱/۹۶; _ كى وسعت ۲۱/۹۶نيز ر_ك يأجوج

مايوس لوگ:_ وں كا بے يار و مددگار ہونا ۲۲/۱۵; _ وں كى مشكلات ۲۲/۱۵نيز ر_ك مايوس مؤمنين۲۲/۵۱

_ كا اخروى سكون: اسكے عوامل ۲۰/۱۱۲; _ كى بخشش ۲۰/۸۲، ۲۲/۵۰; _ كا استقبال ۲۱/۱۰۳; _ كا اطمينان: اس كا سرچشمہ ۲۲/۳۸; _ كا اخروى امن: اسكے عوامل ۲۰/۱۱۲; _ كى اميد ركھنا ۲۲/ ۷۷ ; _ كا غم و اندوہ: اسے دور كرنا ۲۱/۸۸; _ كا انفاق ۲۲/۳۵; _ كو بشارت دينا ۲۱/۱۸، ۱۰۳، ۲۲/۹; _ كى پاداش ۲۱/۹۶; انكى اخروى پاداش ۲۲/۱۴، ۵۰، ۵۶; اسكى ضمانت ۲۱/۹۴، ۲۲/۱۴، ۲۳; اس كا سرچشمہ ۲۲/۱۴; _ كى كاميابى ۲۱/۳۷، ۲۲/۳۸; اس كا وعدہ ۲۱/۹، ۸; _ كا خوف ۲۲/۷۷; _ كى حوصلہ افزائي ۲۱/۹; _ كى شرعى ذمہ دارى ۲۰/۳۰; _ كى توحيد عبادى ۲۲/۲۴; _ كو نصيحت ۲۲/۳۰، ۲، ۷۸; _ پر جھوٹ كى تہمت ۲۱/۳۸; كا مالى جہاد ۲۲/۷۸; كا حامى ۲۲/۳۸; كے دشمن: ان كى خيانت ۲۲/۸; _ ان كا كفران ۲۲/۳۸; انكى قدرت كى محدوديت ۲۰/۷۲; انكى ہلاكت ۲۱/۹; _ كو دعوت ۲۲/۷۷; _ كى دعوت ۲۲/۷۲; _ كو تسلى دينا ۲۱/۹; _ كى جہنم سے دورى ۲۱/۱۰۱; _ كا رنج: اسكے عوامل ۲۱/ ۷۴; _ كى اخروى روزى ۲۲/۵۰; _ كى خوشى ۲۲/۳۴; _ كى سعادت ۲۲/۴; _ كى شرك دشمني: اس كا سرچشمہ ۲۲/۲۴; _ كا شك_ اس كے دور كرنے كا سرچشمہ ۲۲/۳۸; _ كا شكنجہ ۲۰/۷۴; _ كا صبر ۲۲/۳۴; _ كى صفات ۲۲/۳۵; انكى پسنديدہ صفات ۲۱/۱۰۱; _ كا علم ۲۲/۵۴; _ كا عمل: اس كى نيت ۲۱/۹۶; عمل صالح ۲۱/۹۴; _ كا انجام: ان كا اچھا انجام ۲۲/۴; _ كے فضائل ۲۲/۵۴; ان كے اخروى فضائل ۲۱/۱۰۳; _ كے بارے ميں اخروى قضاوت ۲۲/۶۹; _ بہشت ميں ۲۲/۲۳، ۵۶; _

۷۱۷

قيامت ميں ۲۱/۱۰۱، ۱۰۳; صالح _ : انكى پاداش ۲۲/۲; صدر اسلام كے _ : انكى توقعات ۲۱/۷; _ كا پورا پورا مقابلہ كرنا ۲۲/۶۰; _ سختى كے وقت ۲۲/۳۵; _ كا مبارزت: اسكى روش ۲۰/۱۳۰; _ كى ذمہ دارى ۲۲/۹، ۳۶، ۷۷; _ كے مصالح ۲۰/۷۷; _ كا آخرت ميں محفوظ ہونا ۲۱/۱۰۳; _ كا مقام و مرتبہ ۲۰/۷۵; _ ان كا اخروى مقام ۲۰/۷۵، ۷۶، ۲۱/۱۰۱، ۱۰۳; _ كى نجات ۲۱/۸۸; كا وعدہ ۲۱/۹; _ كا وعدہ ۲۲/۳۹; _ كى نعمتيں ۲۲/۵۴، ۷۸; _ كى نماز ۲۲/۳۵; _ كى معنوى ۲۱/۱۱۲; _ كے ساتھ وعدہ ۲۱/۹، ۸۸، ۱۰۱، ۱۰۳; _ كى ہدايت ۲۲/۲۴، ۳۷، ۵۴نيز ر_ك آخرت، آيات الہي، بشارت، كفار، موسى (ع) ، نوح(ع) ، وحي

مبارزت:ر_ك آزر، آيات الہي، ابراہيم، اسلام، انبيائ، بت پرستي، تقليد، تسبيح، توحيد، فرعون كے جادوگر، حق، حمد، خرافات، دينى راہنما، شرك، طاغوت، سركش لوگ، نافرمانى كرنے والے، فرعون، كفار، قرآن، كفار مكہ، گمراہ لوگ، بچھڑا پرستي، مؤمنين، آنحضرت(ص) ، مشركين، مشركين مكہ، باطل معبود، موسي(ع) ، ہارون(ع)

مبلغين:_ كا اتمام حجت كرنا ۲۱/۱۰۹; _ كا امداد كرنا ۲۱/۶۹; _ كا انذار كرنا ۲۱/۱۰۹; _ كى عملى دعوت ۲۰/۱۳۲; _ كا صبر ۲۰/۱۳۲; _ كى عبرت ۲۰/۹; _ مشكل كے وقت ۲۱/۹۶; _ كى ذمہ دارى ۲۰/۲۸، ۶۱، ۳۲، ۲۱/۲۴، ۱۰۹; _ كى خصوصيات ۲۰/۲۵نيز ر_ك فرعون

متقين:_ كا اچھا انجام ۲۰/۱۳۲; _ كا خشيت ۲۱/۴۹; _ كے فضائل ۲۰/۱۳۲، ۲۱/۴۸; _ آسمانى كتابوں ميں : ان كے فضائل ۲۱/۴۸، _ كى خصوصيات ۲۱/۴۹; _ كى ہدايت ۲۱/۴۸

ملزمين:ملزم كا اقرار ۲۱/۶۲; _ كے حقوق ۲۰/۹۴

مجادلہ:_ كے احكام ۲۲/۳; _ ميں برہان ۲۲/۳، ۸; _ ميں غير منطقى روش ۲۲/; _ كا جواز: اسكے شرائط ۲۲/۳، ۸نيز ر_ك توحيد، حق، خدا، مشركين

مجاہدين:_ كا امر بالمعروف ۲۲/۴۱; _ كى زكوة۲۲/۴۱; _ كى نماز: اسے قائم كرنا ۲۲/۴۱; _ كا نہى از منكر ۲۲/۴۱; _ كى خصوصيات ۲۲/۴۱

مجرمين:_ كى سزا ۲۰/۷۱/مجسمہ:ر_ك سامري، بچھڑ

مجوسي:

۷۱۸

_ اہل كتاب ميں سے ۲۲/۱۷

مجوسيت:ر_ك توحيد

محاسبہ :ر_ك حساب لين

محبت:_ كا سرچشمہ ۲۰/۳۹نيز ر_ك خدا، گمراہ لوگ

محبت خدا:_ سے محروم لوگ ۲۲/۳۸

محبوبين:_ سے سوء استفادہ كرنا ۲۰/۸۸

محبوبيت:ر_ك موسى ، ابراہيم

محرمات: ۲۰/۶۹، ۲۲/۱۸،۳۰نيز ر_ك جاہليت

محروميت:دنيوى _ : اسكے اثرات ۲۲/۱۱

معاشرتى ماحول :_ كا جبر ۱۲/۷۴

مخالفين:_ كے ساتھ سلوك; اچھى روش ۲۱/۲۴نيز ر_ك صالح، آنحضرت(ص) ، نوح(ع) ، ہود(ع)

مدح:ر_ك خدا، خدا كا خوف ركھنے والے

مينجمنٹ:_ كى آفات ۲۰/۵۲; _ كى وحدت: اسكے اثرات ۲۱/۲۲نيز ر_ك سربراہان ادارات، ہارون

مدين:ر_ك موسى

مدينہ:_ كى طرف ہجرت ۲۲/۴۰

مذہب :ر_ك د ين نگرانى كرنا ر_ ك: سخن، شياطين، مستعد لوگ، نماز

مرتد:_ كے احكام ۲۰/۹۷; _ كو علاقہ بدر كرنا ۲۰/۹۷; _ يہوديت ميں ۲۰/۹۷; _ كا مغضوب ہونا ۲۰/۸۶

مرد:_ كا دھوكہ كھانا; اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۱۷نيز ر_ك انبياء

۷۱۹

مردے:انہيں زندہ كرنا ۲۱/۸۴، انہيں آخرت ميں زندہ كرنا ۲۰/۱۰۲، ۲۲/۶، ۷، ۶۶، انہيں آخرت ميں زندہ كرنے كے دلائل ۲۲/۵، ۶، ۷; انہيں زندہ كرنے سے عاجز ہونا ۲۱/۲۱; انہيں زندہ كرنے كا سرچشمہ ۲۱/۲۱نيز ر_ك ايمان

موت:_ كا تسلسل ۲۱/۴۴; _ كا حتمى ہونا ۲۱/۳۵، ۲۲/۶۶; _ كى حقيقت ۲۱/۳۵، ۲۲/۵; _ سے عبرت ۲۱/۴۴; _ كا عام ہونا ۲۱/۳۵; _ كا قيامت تك فاصلہ ۲۰/۱۰۳; _ كا نقش و كردار ۲۲/۷نيز ر_ك انبيائ، انسان، ايوب، بڑھايا، جہنم، راہبران، زندگي، عزرائيل، اولاد، آنحضرت(ص) ، مہاجرين، شريك حيات

مرواريد:ر_ك بہشتى لوگ

مريم:_ كا حمل: اس كا معجزانہ ہونا ۲۱/۹۱; اس كا سرچشمہ ۲۱/۹۱; _ كا تقرب ۲۱/۹۱; _ كى شخصيت ۲۱/۹۱; _ كى عفت ۲۱/۹۱; اسكے اثرات ۲۱/۹۱; كے فضائل ۲۱/۹۱ ; _ كا قصہ ۲۱/۹۱; اس سے عبرت ۲۱/۹۱; _ آيات الہى ميں سے ۲۱/۹۱; _ ميں روح پھونكنا ۲۱/۹۱نيز ر_ك ذكر

مست:ر_ك قرآن كى تشبيہات

مستعد لوگ:_ وں كى نگرانى ۲۰/۴۳

مستكبرين:_ كا گمراہ كرنا ۲۲/۹; _ كا سلوك: اسكى روش ۲۰/۶۳ ; _ كى حق دشمنى ۲۰/۶۳; _ كے مطالبے ۲۲/۹; _ كى دشمنى ۲۲/۹

مسجد:_ كا احترام ۲۲/۴۰; _ كى حفاظت ۲۲/۴۰

مسجدالحرام:_ كے آداب ۲۲/۲۹; _ كا امن ۲۲/۲۵; _ كى بركات ۲۲/۲۸; _ ميں پاكيزگى ۲۲/۲۹; _ كى تاريخ ۲۲/۲۵; _ ميں حقوق سے تجاوز كرنا ۲۲/۲۵; _ كو پاك كرنا: اسكى اہميت ۲۲/۲۶; _ كا خير ہونا ۲۲/۲۸; _ ميں ركوع ۲۲/۲۶; _ كى زيارت ۲۲/۲۵; _ كے آداب ۲۲/۲۶; _ كى تاريخ ۲۲/۲۵; _ ميں سجدہ ۲۲/۲۶; _ ميں طواف ۲۲/۲۶; كا عمومى ہونا ۲۲/۲۵; _ كے متولى ۲۲/۲۶; _ كى نگراني: اسكى اہميت ۲۲/۲۶; _ سے روكنا ۲۲/۲۵; اس كا ممنوع ہونا ۲۲/۲۵; اس ميں عبادت سے روكنا ۲۲/۲۵; _ميں نماز ۲۲/۲۶; _ كى خصوصيات ۲۲/۲۵نيز ر_ك ابراہيم، جزيرة العرب

۷۲۰

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750