ثنائے محمد(ص)

ثنائے محمد(ص)50%

ثنائے محمد(ص) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 70

ثنائے محمد(ص)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 70 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34926 / ڈاؤنلوڈ: 3174
سائز سائز سائز
ثنائے محمد(ص)

ثنائے محمد(ص)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ثنائے محمد(ص)

ایاز صدیقی

ترتیب: مہ جبین، اعجاز عبید

ماخذ: اردو کی برقی کتاب

۳

معجزہ ہے آیۂ والنجم کی تفسیر کا

معجزہ ہے آیۂ والنجم کی تفسیر کا

ایک ایک نقطہ ستارہ ہے مری تحریر کا

٭

آپ کی نسبت ہے مجھ کو باعثِ عزّ و شرف

آپ کی مدحت وسیلہ ہے مری توقیر کا

٭

کس طرح گزریں گے یہ دوری کے روز و شب حضور

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

٭

کب مجھے بلوائیں گے آقا حریمِ قدس میں

خوابِ ہستی منتظر ہے جلوۂ تعبیر کا

٭

آہِ غم دل سے اٹھی اور بابِ رحمت کھل گیا

میں نے دیکھا ہے یہ منظر آہ کی تاثیر کا

٭

جنتِ خوابِ تمنا ہے مدینے کا خیال

شہرِ رنگ و بو علاقہ ہے مری جاگیر کا

٭

خاک ہو کر راہِ طیبہ میں بکھر جاؤں ایاز

یہ حسیں رخ ہے مری تخریب میں تعمیر کا

٭٭٭

۴

دل روضۂ رسولؐ پہ محوِ سجود تھا

دل روضۂ رسولؐ پہ محوِ سجود تھا

پابندیوں کے رخ پہ بھی رنگِ کُشود تھا

٭

آقا نے مجھ کو دامنِ رحمت میں لے لیا

"میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا "

٭

رنگِ شگفتنِ گلِ طیبہ سے پیشتر

بے نام تھی بہار چمن بے نمود تھا

٭

حدِّ نگاہ میں تھیں دو عالم کی وسعتیں

میرے لبوں پہ ذکرِ شہِ ہست و بود تھا

٭

مہکا ہوا تھا ذکرِ محمدؐ سے ہر نَفَس

اُس انجمن میں کس کو سرِ مشک و عود تھا

٭

جبریل سے سنیں شبِ اسرا کی رونقیں

انوار کے حصار میں چرخِ کبود تھا

٭

اللہ رے مدحتِ شہِ لوح و قلم ایاز

تا بامِ عرش وردِ سلام و درود تھا

٭٭٭

۵

دل کو آئینہ دیکھا ، ذہن کو رسا پایا

دل کو آئینہ دیکھا ، ذہن کو رسا پایا

ہم نے اُن کی مدحت میں زیست کا مزہ پایا

٭

بے وسیلۂ احمد زندگی نے کیا پایا

آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا

٭

جس طرف نظر اٹھی آپ ہی نظر آئے

سایہ افگنِ عالم دامنِ عطا پایا

٭

راستے کے پتھر ہوں یا سخن کے نشتر ہوں

آپ کو بہر عالم پیکرِ رضا پایا

٭

کون عرشِ اعظم پر آپ کے سوا پہنچا

کس نے سارے نبیوں میں ایسا مرتبہ پایا

٭

رحمتِ دو عالم سے ہم نے جب کبھی مانگا

ظرف سے سوا مانگا ، مانگ سے سوا پایا

٭

مرحبا ایاز اُن پر لطفِ خالقِ اکبر

تاجِ کُن فکاں سر پر ، عرش زیرِ پا، پایا

٭٭٭

۶

مُنہ سے جب نامِ شہنشاہِ رسولاں نکلا

مُنہ سے جب نامِ شہنشاہِ رسولاں نکلا

خیر مقدم کو دُرودوں کا گلستاں نکلا

٭

بچھ گئی دولتِ کونین مرے رستے میں

میں جو طیبہ کی طرف بے سرو ساماں نکلا

٭

میں تو سمجھا تھا کہ دشوار ہے ہستی کا سفر

اُن کی تعلیم سے یہ کام بھی آساں نکلا

٭

فکرِ مدحت میں جو پہنچا سرِ گلزارِ سخن

ہر گُلِ حرف محمد کا ثنا خواں نکلا

٭

خاک ہو کر ہَدفِ موجِ ہَوا بن جاؤں

درِ آقا کی رسائی کا یہ عنواں نکلا

٭

میرے آئینے میں ہے عشقِ محمد کی جِلا

مجھ سے کترا کے غبارِ غمِ دوراں نکلا

٭

منصبِ ذہن پہ فائز ہوئی جب چشمِ خیال

عشقِ محبوبِ خدا حاصلِ ایماں نکلا

٭

۷

گُلِ توحید کی خوشبو سے مہکتا ہے دماغ

میں بھی منجملۂ خاصانِ گلستاں نکلا

٭

بابِ مدحت میں جو تائیدِ خدا چاہی ایاز

رہنمائی کو ہر اک آیۂ قرآں نکلا

٭٭٭

۸

آنکھیں لہو لہو تھیں ، نہ دل درد درد تھا

آنکھیں لہو لہو تھیں ، نہ دل درد درد تھا

ہجرِ نبی میں ضبط کا انداز فرد تھا

٭

صحرا نشیں و عرشِ معلّٰی نورد تھا

اللہ ! ایک فرد دو عالم میں فرد تھا

٭

اَسرا کی رات مہرِ رسالت کو دیکھ کر

رنگِ نجوم و چہرۂ مہتاب زرد تھا

٭

پل بھر میں بامِ عرش پہ تھا شہسوارِ نور

دامانِ کہکشاں تھا کہ رستے کی گرد تھا

٭

خلدِ نظر تھا گلشنِ سرکار خواب میں

پژ مردہ کوئی گُل نہ کوئی برگ زرد تھا

٭

گریہ سبب ہوا مرے عفوِ گناہ کا

آنکھیں جلیں تو شعلۂ تقصیر سرد تھا

٭

مدحت کے باب میں یہ عجب لطف تھا ایاز

میں خواب میں ، خیالِ مدینہ نورد تھا

٭٭٭

۹

رُخِ ابرِ کرم عنواں ہے میرے بابِ ہجراں کا

رُخِ ابرِ کرم عنواں ہے میرے بابِ ہجراں کا

"مرا ہر داغِ دل اک تخم ہے سروِ چراغاں کا"

٭

قدم چومے ہیں جن ذروں نے خورشیدِ رسالت کے

بیاں کیا کیجیے ان ذرہ ہائے مہر ساماں کا

٭

مرے سرکار کی کملی سے ایسی روشنی پھوٹی

کہ ذروں کو بھی منصب مل گیا مہرِ درخشاں کا

٭

غریبِ دشتِ ہجراں صاحبِ شہرِ طرب ٹھہرا

مدینے مںت کھُلا جوہر مرے شوقِ فراواں کا

٭

بہارِ گنبدِ خضریٰ ، منارِ مسجدِ آقا

مری آنکھوں میں ہر منظر ہے اُس شہرِ درخشاں کا

٭

صدا صلِّ علےٰ کی دَم بہ دَم کانوں میں آتی ہے

غمِ سرکار زخمہ ہے مرے سازِ رگِ جاں کا

٭

خدارا مجھ خزاں دیدہ کو اُس گلشن میں بلوا لو

جہاں ہر وقت رہتا ہے سماں جشنِ بہاراں کا

٭

۱۰

خدا کی حمد ، مدحِ صاحبِ لوح و قلم کیجیے

کہ اک اُمّی معلم ہے دو عالم کے دبستاں کا

٭

ایاز ان کا سراپا ہر نفس نظروں میں رہتا ہے

خیالِ سرورِ دیں آئینہ ہے میرے ایماں کا

٭٭٭

۱۱

ہر گوشہ آسماں ہے زمینِ حجاز کا

ہر گوشہ آسماں ہے زمینِ حجاز کا

حاصل ہے اس نشیب کو رتبہ فراز کا

٭

نورِ خدا ہے شکلِ محمد میں جلوہ گر

آئینہ شاہکار ہے آئینہ ساز کا

٭

کس کو ملا یہ حسنِ شرف آپ کے سوا

محرم ہے اور کون مشیت کے راز کا

٭

دل گونجتا ہے صلِّ علےٰ کی صداؤں سے

یہ نغمہ خلدِ گوش ہے ہستی کے ساز کا

٭

صبحِ ازل سے شامِ ابد تک محیط ہے

دامانِ التفات نگارِ حجاز کا

٭

میرا طواف کرتے ہیں مہر و مہ و نجوم

مدحت سرا ہوں میں شہِ گردوں طراز کا

٭

۱۲

شاہانِ دہر جس کے غلاموں کے ہیں غلام

بندہ ہوں میں اُسی شہِ بندہ نواز کا

٭

میری نظر میں سنّت و فرض ایک ہیں ایاز

آموز گار ایک ہے سب کی نماز کا

٭٭٭

۱۳

آپ آئے ذہن و دل میں آگہی کا در کھلا

آپ آئے ذہن و دل میں آگہی کا در کھلا

جہل نے بازو سمیٹے ، علم کا شہپر کھلا

٭

چاند سورج آپ کی تنویر سے روشن ہوئے

بابِ مغرب وا ہوا ، دروازۂ خاور کھلا

٭

آپ کی بخشش ہے سب پر کیا فرشتے کیا بشر

آپ کا بابِ سخاوت ہے دو عالَم پر کھلا

٭

جب زمیں پر آپ کے قدموں سے بکھری کہکشاں

مقصدِ تکوینِ عالم تب کیںم جا کر کھلا

٭

ہم گنہگاروں کی پردہ پوشیاں ہو جائیں گی

آپ کا دامانِ رحمت جب سرِ محشر کھلا

٭

دل میں جب آیا کبھی عہدِ رسالت کا خیال

ایک منظر وقت کی دیوار کے اندر کھلا

٭

قلبِ مضطر پر کسی نے دستِ تسکیں رکھ دیا

اُن کے سنگِ در پہ اس آئینے کا جوہر کھلا

٭

۱۴

اس کو کہتے ہیں سخاوت یہ سخی کی شان ہے

حرف بھی لب پر نہ آیا ، لطف کا دفتر کھلا

٭

اُس کی مدحت کیا لکھیں گے ہم زمیں والے ایاز

جس شہِ لوح و قلم پر گنبدِ بے در کھلا

٭٭٭

۱۵

اللہ اللہ کیا سفر کیا روح پرور خواب تھا

اللہ اللہ کیا سفر کیا روح پرور خواب تھا

فرشِ ریگِ راہِ طیبہ بسترِ سنجاب تھا

٭

نطقِ جاں شیرینیِ مدحت سے لذت یاب تھا

یہ کتابِ زندگی کا اک درخشاں باب تھا

٭

ارضِ طیبہ پر قدم تو کیا ، نظر جمتی نہ تھی

"ذرہ ذرہ رو کشِ خورشیدِ عالم تاب تھا "

٭

بن گیا اشکِ ندامت میری بخشش کا سبب

بربطِ امید کب سے تشنۂ مضراب تھا

٭

صبح کا تارا حضوری کا پیامی بن گیا

رات ہجرِ مصطفےٰ میں دل بہت بیتاب تھا

٭

آنکھ بیتابِ نظارا تھی نہ دل تھا مضطرب

اُن کے در پر ہر کوئی شائستۂ آداب تھا

٭

اللہ اللہ روبرو ہے گنبدِ خضرا ایاز

بن گیا عینِ حقیقت جو نظر کا خواب تھا

٭٭٭

۱۶

حشر تک شافعِ محشر کا ثنا خواں ہونا

حشر تک شافعِ محشر کا ثنا خواں ہونا

بخشوائے گا مجھے میرا سخنداں ہونا

٭

جلوہ گر ہے مرے خوابوں میں مدینے کی فضا

لے اڑا مجھ کو خیالوں کا پرافشاں ہونا

٭

رشتۂ عشقِ نبی کارِ رفو کرتا ہے

راس آیا مرے دامن کو گریباں ہونا

٭

دامنِ ابرِ کرم نے مرے آنسو پونچھے

تارِ گریہ کو مبارک ہو رگِ جاں ہونا

٭

آپ کے دَم سے دعاؤں کو ملا رنگِ قبول

آپ کے غم نے سکھایا مجھے خنداں ہونا

٭

آپ کے نقشِ کفِ پا کی تجلی سے لیا

ماہ و خورشید و کواکب نے درخشاں ہونا

٭

کاش میں بھی اُنہیں گلیوں میں بکھر جاؤں ایاز

عینِ تسکیں ہے جہاں دل کا پریشاں ہونا

٭٭٭

۱۷

میرے ہاتھوں میں بیاضِ نعت کا شیرازہ تھا

میرے ہاتھوں میں بیاضِ نعت کا شیرازہ تھا

رات اک اُمی لقب کا فیض بے اندازہ تھا

٭

صف بہ صف استادہ تھے سارے فضائل سب علوم

مجھ پہ شہرِ علم کا وا ایک اک دروازہ تھا

٭

بخششیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں

میرے دامن کا اُنہیں پہلے ہی سے اندازہ تھا

٭

آپ دل میں آئے جنت کے دریچے کھل گئے

آپ سے پہلے یہ گھر زندانِ بے دروازہ تھا

٭

میرے دل پر آپ نے جب دستِ رحمت رکھ دیا

میرے حق میں حرفِ شیریں وقت کا دروازہ تھا

٭

آپ کی مدحت سے پہلے ننگ تھا ذوقِ سخن

فکر آوارہ تھی ، برہم ذہن کا شیرازہ تھا

٭

تھا تصور میں شبِ غم گنبدِ خضرا ایاز !

دل کا ایک اک زخمِ نادیدہ گلابِ تازہ تھا

٭٭٭

۱۸

ملا ہے جب سے پروانہ محمدؐ کی گدائی کا

ملا ہے جب سے پروانہ محمدؐ کی گدائی کا

دو عالَم اک علاقہ ہے مری کشور کشائی کا

٭

خدا کی بندگی کرتا ہوں میں اُن کے وسیلے سے

درِ سرکار آئینہ ہے عرشِ کبریائی کا

٭

مری جانب سے اے موجِ صبا آقا سے کہہ دینا

"کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا "

٭

مرے عجزِ سخن پر اُنکی رحمت ناز کرتی ہے

کہ حرفِ جاں حوالہ بن گیا مدحت سرائی کا

٭

ہزاروں سال پہلے آپ عرشِ نور تک پہنچے

ہمیں تو اب خیال آیا ہے تسخیرِ خلائی کا

٭

محبت کار فرما فرش سے عرشِ علیٰ تک ہے

حبیبِ کبریا، محبوب ہے ساری خدائی کا

٭

مری کیا خامہ فرسائی، ایاز اُنکی عنایت ہے

کہ اک عاجز کو حاصل ہے شرف مدحت سرائی کا

٭٭٭

۱۹

مجھ پہ جب لطفِ شہِ کون و مکاں ہو جائے گا

مجھ پہ جب لطفِ شہِ کون و مکاں ہو جائے گا

چرخ سا نا مہرباں بھی مہرباں ہو جائے گا

٭

نامِ نامی آپ کا وردِ زباں ہو جائے گا

دور ہر اندیشۂ سود و زیاں ہو جائے گا

٭

شوقِ دل تنہا چلا ہے جانبِ طیبہ مگر

ہوتے ہوتے ایک دن یہ کارواں ہو جائے گا

٭

اوج بخشے گا مجھے ذکرِ شہِ لوح و قلم

ایک دن عجزِ سخن حسنِ بیاں ہو جائے گا

٭

جب مِرے دل کی زمیں پر آپ رکھیں گے قدم

اس زمیں کا ذرہ ذرہ آسماں ہو جائے گا

٭

گامزن ہو گا زمانہ اسوۂ سرکار پر

راستے کا ذرہ ذرہ کہکشاں ہو جائے گا

٭

ذہن کیا مدحت کرے ممدوحِ داور کی ایاز

بند کیا کوزے میں بحرِ بیکراں ہو جائے گا؟

٭٭٭

۲۰

اللہ رے فیضِ عام شہِ خوش نگاہ کا

اللہ رے فیضِ عام شہِ خوش نگاہ کا

ذروں کو رنگ و نور دیا مہر و ماہ کا

٭

اُس کی بلندیوں کی کوئی انتہا نہیں

دربان جبرئیل ہو جس بارگاہ کا

٭

مشاّطگیِ باغِ جہاں آپ ہی سے ہے

"بے شانۂ صبا نہیں طرّہ گیاہ کا"

٭

مجھ پر بھی ہے نگاہِ کرم شہرِ علم کی

مدحت سرا ہوں میں بھی شہِ عرش جاہ کا

٭

اذنِ سفر ملے تو چُنوں ایک ایک خار

ہر خار برگِ گل ہے مدینے کی راہ کا

٭

شہرِ نبی کی آب و ہوا چاہئے مجھے

دار الشفا وہی ہے مِرے اشک و آہ کا

٭

آیا خیالِ گنبدِ خضرا جہاں ایاز

جلووں سے بھر گیا وہیں دامن نگاہ کا

٭٭٭

۲۱

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

اللہ اللہ یہ شرف خواجۂ گیہاں میرا

٭

رنگ و بُو ، لالہ و گل ، سرو و سمن جشنِ بہار

آپ میرے ہیں تو سارا ہے گلستاں میرا

٭

آپ کا عشق ازل سے ہے مِرے دل میں مقیم

سب پہ ظاہر ہے یہ سرمایۂ پنہاں میرا

٭

آپ کی مدح لکھے جاؤں یونہی تا بہ ابد

ساتھ چھوڑے نہ کبھی عمرِ گریزاں میرا

٭

ہے محیطِ دل و جاں گنبدِ خضرا کا خیال

کیا بگاڑے گا بھلا وقت کا طوفاں میرا

٭

آخرت کے لئے سامان بہم ہو ہی گیا

بن گئے اشکِ ندامت سرو ساماں میرا

٭

ہے مطافِ دل و جاں اسمِ گرامی اُن کا

یہی قبلہ ، یہی کعبہ ، یہی ایماں میرا

٭

۲۲

اِس سے پہلے کہ کوئی پُرسشِ وحشت ہوتی

چھپ گیا دامنِ رحمت میں گریباں میرا

٭

اللہ اللہ ایاز اُن کی عطا کا عالم

بھر دیا دولتِ کونین سے داماں میرا

٭٭٭

۲۳

حریمِ نور کے آئینہ گر در و دیوار

حریمِ نور کے آئینہ گر در و دیوار

نظر فزا ہیں وہ حیرت اثر در و دیوار

٭

رہِ حجاز میں حائل نہیں یہ دیواریں

"مقام و راہ "، قیام و سفر درو دیوار

٭

حضور خوب میں آئے تھے ایک شب مِرے گھر

درود پڑھتے رہے عمر بھر درو دیوار

٭

مِرے خیال کے خلوت کدے میں روشن ہیں

دیارِ نور کے شام و سحر درو دیوار

٭

وہ خاک بوس ہوئے میں چلا مدینے کو

لگا گئے ہیں مجھے راہ پر درو دیوار

٭

نگار خانۂ ملّت کی خرا ہو آقا

بکھر نہ جائیں یہ خلدِ نظر درو دیوار

٭

جہاں نگاہ نے جھانکا حریمِ دل میں ایاز

وہیں مدینے کے آئے نظر درو دیوار

٭٭٭

۲۴

آیا ہوں آج آپ کا دربار دیکھ کر

آیا ہوں آج آپ کا دربار دیکھ کر

حیراں ہوں 'اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر"

٭

میں سنگِ بے عیار تھا آئینہ بن گیا

اُس شہرِ نور کے در و دیوار دیکھ کر

٭

اللہ رے جمالِ محمد فلک فلک

حور و مَلَک ہیں نقش بہ دیوار دیکھ کر

٭

اب ڈھونڈتے ہیں نقشِ کفِ پائے مصطفےٰ

چلتے جو تھے ستاروں کی رفتار دیکھ کر

٭

گرمِ سفر ہیں لوگ رہِ مستقیم پر

حسنِ سلوک قافلہ سالار دیکھ کر

٭

میں اپنے دل کے غارِ حرا میں ہوں محوِ دید

لوگ آرہے ہیں روضۂ سرکار دیکھ کر

٭

اچھا ہوا کہ مقطعِ جاں آگیا ایاز

کیا دیکھتے ، وہ "مطلعِ انوار دیکھ کر "

٭٭٭

۲۵

ہر نبی شاہدِ خدا نہ ہوا

ہر نبی شاہدِ خدا نہ ہوا

آپ سا کوئی دوسرا نہ ہوا

٭

کرمِ شہرِ علم سے پہلے

نعت کہنے کا حوصلہ نہ ہوا

٭

دل رہا ہر قدم پہ سر بسجود

میں مدینے کو جب روانہ ہوا

٭

لاکھ پلکوں سے خاکِ طیبہ چنی

" حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا"

٭

فرشِ خاکی سے عرشِ نوری تک

کس جگہ ذکرِ مصطفےٰ نہ ہوا

٭

آپ کی یاد کے سوا کوئی

کشتیِ جاں کا ناخدا نہ ہوا

٭

۲۶

دل کہ تھا ایک بے نوائے ازل

آپ کے لطف کا خزانہ ہوا

٭

آپ کا در نہ وا ہوا جس پر

کوئی دروازہ اس پہ وا نہ ہوا

٭

جالیوں ہی کو چوم لیں گے ایاز

گر کرم باِلمشافِہہ نہ ہوا

٭٭٭

۲۷

محوِ کرم ہے چشمِ پیمبر، کہے بغیر

محوِ کرم ہے چشمِ پیمبر، کہے بغیر

" ظاہر ہے میرا حال سب اُن پر کہے بغیر"

کہنے کے باوجود جو دنیا نہ دے سکے

ملتا ہے اُن کے در سے برابر ، کہے بغیر

مہر و مہ و نجوم ازل سے ہیں کاسہ لیس

جاری ہے اُن کے نور کا لنگر ، کہے بغیر

اللہ رے اوج ، آپ کی تعظیم کے لئے

جھکتا ہے آسمان زمیں پر، کہے بغیر

ملتی ہے بِن کہے شہِ لوح و قلم سے بھیک

کھلتا ہے اُن کے لطف کا دفتر ، کہے بغیر

سرکار کی عطا میں صدا کا گزر نہیں

کر دیتے ہیں گدا کو تونگر ، کہے بغیر

قادر ایاز صنفِ سخن پر سہی مگر

بنتی نہیں ہے نعتِ پیمبر کہے بغیر

٭٭٭

۲۸

متاعِ سخن ، نقدِ مدحت سلامت

متاعِ سخن ، نقدِ مدحت سلامت

یہ سرمایۂ بیش قیمت سلامت

٭

مدینے کے جلوے مِرے منتظر ہیں

مِرا جذب و شوقِ زیارت سلامت

٭

مدینے کی گلیوں میں کھو جاؤں یارب

رہے یہ سماں تا قیامت سلامت

٭

مجھے بھی نشیبِ زمںم سے اٹھا لے

تِرے سبز گنبد کی رفعت سلامت

٭

تصور میں ہے شہرِ سرکارِ والا

یہ گہوارۂ نور و نکہت سلامت

٭

مِرے آئینے کی جِلا اللہ اللہ

تمنائے مہرِ رسالت سلامت

٭

مدد کو مِری آئیں گے میرے آقا

مِرا جذبۂ استعانت سلامت

٭

۲۹

ولائے محمد ولائے خدا ہے

ارادت مبارک عبادت سلامت

٭

ایاز اپنی مدحت وہ خود سن رہے ہیں

مبارک مبارک سلامت سلامت

٭٭٭

۳۰

جس جگہ بے بال و پر جبریل سا شہپر ہوا

جس جگہ بے بال و پر جبریل سا شہپر ہوا

سوچتا ہوں میں وہاں مدحت سرا کیونکر ہوا

٭

ساقیِ کوثر کا لطفِ خاص جب مجھ پر ہوا

بادۂ انوار سے پُر ذہن کا ساغر ہوا

٭

آپ جب جلوہ فروزِ مسندِ امکاں ہوئے

ذرہ ذرہ آئینہ دارِ شہِ خاور ہوا

٭

ہے مسلسل نکہت و انوار کی بارش وہاں

جس نگر ، جس انجمن میں ذکرِ پیغمبر ہوا

٭

جب کبھی برداشت سے باہر ہوئی فرقت کی دھوپ

سایہ افگن دامنِ رحمت وہیں مجھ پر ہوا

٭

ان کے در سے مل گیا پروانۂ بخشش مجھے

مجھ سے عاصی پر بھی لطفِ شافعِ محشر ہوا

٭

وجہِ تکوینِ جہاں کی نعت لکھی جب ایاز

آئینہ ایک ایک حرفِ کُن فکاں مجھ پر ہوا

٭٭٭

۳۱

آپ آئے نفرتیں سر در گریباں ہو گئیں

آپ آئے نفرتیں سر در گریباں ہو گئیں

بزمِ جاں میں پیار کی شمعیں فروزاں ہو گئیں

٭

آپ کی کملی سے پھوٹی ایک لاہوتی کرن

ہر طرف انوار کی پَریاں پَر افشاں ہو گئیں

٭

اللہ اللہ آپکے نقشِ قدم کی برکتیں

سجدہ گاہِ قدسیاں طیبہ کی گلیاں ہو گئیں

٭

جنتِ تخیل میں گویا دبستاں کھل گیا

میں ہُوا مدحت سرا ، حوریں ثنا خواں ہو گئیں

٭

میرا کیا بگڑا، کہ ہوں آسودۂ عشقِ رسول

گردشیں مجھ سے الجھ کر خود پریشاں ہو گئیں

٭

پھر مدینے کو گئے حُجاج میں پھر رہ گیا

حسرتیں پھر حلقہ ہائے دامِ ہجراں ہو گئیں

٭

کیا دعا مانگیں ایاز اب جالیوں کو چوم کر

" یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں "

٭٭٭

۳۲

شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں میں

شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں میں

سرکار کا کرم ہے کہ مضطر نہیں ہوں میں

٭

شہرِ جمال میں بھی نہ اڑ پاؤں تیرے ساتھ

موجِ ہوا ! اب ایسا بھی بے پر نہیں ہوں میں

٭

طیبہ کے دشت و راغ بھی جنت بدوش ہیں

منّت پذیرِ گنبدِ بے در نہیں ہوں میں

٭

صد شکر میں گدائے شہِ مشرقین ہوں

دارا و کاقبںد و سکندر نہیں ہوں میں

٭

مجھ کو درِ حضور سے دوری کا رنج ہے

آلامِ روزگار کا خوگر نہیں ہوں میں

٭

مجھ سے گریز پا ہیں زمانے کی ٹھوکریں

آقا! کسی کی راہ کا پتھر نہیں ہوں میں

٭

مال و متاعِ عشقِ محمد ہے میرے پاس

یہ کس نے کہہ دیا کہ تونگر نہیں ہوں میں

٭

۳۳

روشن ہے نورِ عشقِ محمد سے میرا دل

پامالِ جلوۂ مہ و اختر نہیں ہوں میں

٭

آقا کے در پہ ہے سرِ تسلیمِ خم ایاز

اللہ جانتا ہے کہ خود سر نہیں ہوں میں

٭٭٭

۳۴

کبھی تو ہونگے مِرے رہنما براہِ حجاز

کبھی تو ہونگے مِرے رہنما براہِ حجاز

"دعا قبول ہو یارب کہ عمرِ خضر دراز"

٭

ہوئے شوق اڑا لے گئی بہ سوئے حجاز

نکل گئی دلِ بے پر کی حسرتِ پرواز

٭

مسافتِ شبِ اسرا ہے آپ کا اعجاز

نشیبِ فرش پہ کھولے فراز عرش کے راز

٭

پہنچ گیا ہوں سرِ منزلِ غریب نواز

پڑا رہوں پھر اسی در پہ مثلِ پا انداز

٭

حضور دامنِ رحمت میں ڈھانپ لیں مجھ کو

کہ میری تاک میں ہے وقت کا قدر انداز

٭

جہانِ دولت و ثروت نہیں مجھے درکار

میں اُن کے در کا گدا ہوں بڑا ہے یہ اعزاز

٭

حضور آپ کے در پر ہو خاتمہ بالخیر

یہی ہے دل کی تمنا یہی دعائے ایاز

٭٭٭

۳۵

اشکوں کی زباں اور ہے لفظوں کی زباں اور

اشکوں کی زباں اور ہے لفظوں کی زباں اور

مدحت کے لئے چاہئے اندازِ بیاں اور

٭

مدحت کا تقاضا ہے کہ اللہ سے مانگو

دل اور ، نر اور ، دہن اور ، زباں اور

٭

کیا مدح کرے آدمی ممدوحِ خدا کی

بندے کا بیاں اور ہے اللہ کا بیاں اور

٭

بالا ہے بہت نرخِ غمِ عشقِ محمد

لعل و گہر اے دیدۂ خوننابہ فشاں اور

٭

سانسوں میں نہیں آئی ابھی بوئے مدینہ

کچھ دور ابھی قافلۂ عمرِ رواں اور

٭

کعبے میں جھکا سر تو مدینے میں جھکا دل

اللہ کا گھر اور محمد کا مکاں اور

٭

ہوتا ہے ایاز آئینۂ ذہن ، مجلّا

مدحت سے نکھرتا ہے مِرا حسنِ بیاں اور

٭٭٭

۳۶

ابھی تو خواب ہی دیکھا ہے شہرِ طیبہ کا

ابھی تو خواب ہی دیکھا ہے شہرِ طیبہ کا

ابھی سے حال دگرگوں ہے چشمِ بینا کا

٭

مِری نظر میں ہے تنویرِ منزلِ مقصود

چراغِ راہِ یقیں ہے خیال آقا کا

٭

رہِ حجاز کے ذروں میں جذب ہو جاؤں

علاج ہے یہ مِرے دردِ بے مداوا کا

٭

نبی کے ہجر میں رونا بھی عینِ راحت ہے

" مِری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا "

٭

دعا قبول ہوئی آپ کے وسیلے سے

شعور آپ نے بخشا ہمیں تمنا کا

٭

کہاں اسیرِ ہوا اور کہاں ثنائے رسول

حباب خاک احاطہ کرے گا دریا کا

٭

خیالِ شافعِ محشر محیطِ جاں ہے ایاز

نہیں ہے تشنۂ تعبیر خواب فردا کا

٭٭٭

۳۷

گردِ رہِ مدینہ کے قابل نہیں رہا

گردِ رہِ مدینہ کے قابل نہیں رہا

"جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا"

٭

عجزِ سخن ، کمال ہے مدحت کے باب میں

اس فن میں کوئی میرا مقابل نہیں رہا

٭

اُن کے کرم سے کھل گئے سب عقدہ ہائے شوق

اب کوئی مرحلہ مجھے مشکل نہیں رہا

٭

اب میں ہوں اور عشقِ شہنشاہِ بحر و بر

اب کوئی رنج مدِّ مقابل نہیں رہا

٭

ہونٹوں پہ ہر نفس ہے وظیفہ حضور کا

میں اک نفس بھی آپ سے غافل نہیں رہا

٭

ہاں آپ کے خیال کی دولت ہے میرے پاس

ہاں میں نشاطِ دہر کا سائل نہیں رہا

٭

گُم ہو گئے ایاز مدینے کی راہ میں

احساسِ نارسائیِ منزل نہیں رہا

٭٭٭

۳۸

جُز غمِ ہجرِ نبی ہر غم سے ہوں ناآشنا

جُز غمِ ہجرِ نبی ہر غم سے ہوں ناآشنا

یہ بھری دنیا میں ہے میرا اکیلا آشنا

٭

ذہن کعبہ آشنا ہے دل مدینہ آشنا

عشق نے بخشا ہے مجھ کو کیسا کیسا آشنا

٭

میں زباں سے کچھ نہیں کہتا مجھے کیا چاہئے

میری ہر خواہش سے ہیں سرکارِ والا آشنا

٭

سیرتِ سرکار کا ہر رخ ہے دل پر آئینہ

خیر سے مجھ کو میسر ہے اک اچھا آشنا

٭

ایک میں ہی تو نہیں تنہا ثنا خوانِ حضور!

آپ کے لطف و کرم سے ہے زمانہ آشنا

٭

کس کے در پر جاؤں آقا آپ کا در چھوڑ کر

میں ہوا خواہِ وفا، دنیا وفا ناآشنا

٭

ہے تصور میں جمالِ گنبدِ خضرا ایاز !

میری آسودہ نگاہی سے ہے دنیا آشنا

٭٭٭

۳۹

جادۂ مدینہ ہے اور کارواں اپنا

جادۂ مدینہ ہے اور کارواں اپنا

عزم ہمسفر اپنا، شوق ہم عِناں اپنا

٭

رحمتِ دو عالم ہے ، فخرِ مرسلاں اپنا

رہبروں کا رہبر ہے میرِ کارواں اپنا

٭

جب سے ارضِ طیبہ کو ہم نے محترم جانا

احترام کرتا ہے تب سے آسماں اپنا

٭

شاید اِس طرف سے وہ سیرِ عرش کو جائیں

راستہ بدلتی ہے روز کہکشاں اپنا

٭

ڈھل گیا حضوری میں کربِ دوریِ منزل

لے اڑا ہمیں آخر شوقِ پَر فشاں اپنا

٭

روضۂ محمدؐ پھر روضۂ محمد ؐ ہے

خلد کے عوض کیوں دوں گلشنِ جہاں اپنا

٭

میں ایاز ہوں اُن کا میں غلام ہوں اُن کا

کر لیا دو عالم کو میں نے ہم زباں اپنا

٭٭٭

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70