ثنائے محمد(ص)

ثنائے محمد(ص)50%

ثنائے محمد(ص) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 70

ثنائے محمد(ص)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 70 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34951 / ڈاؤنلوڈ: 3180
سائز سائز سائز
ثنائے محمد(ص)

ثنائے محمد(ص)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اللہ رے فیضِ عام شہِ خوش نگاہ کا

اللہ رے فیضِ عام شہِ خوش نگاہ کا

ذروں کو رنگ و نور دیا مہر و ماہ کا

٭

اُس کی بلندیوں کی کوئی انتہا نہیں

دربان جبرئیل ہو جس بارگاہ کا

٭

مشاّطگیِ باغِ جہاں آپ ہی سے ہے

"بے شانۂ صبا نہیں طرّہ گیاہ کا"

٭

مجھ پر بھی ہے نگاہِ کرم شہرِ علم کی

مدحت سرا ہوں میں بھی شہِ عرش جاہ کا

٭

اذنِ سفر ملے تو چُنوں ایک ایک خار

ہر خار برگِ گل ہے مدینے کی راہ کا

٭

شہرِ نبی کی آب و ہوا چاہئے مجھے

دار الشفا وہی ہے مِرے اشک و آہ کا

٭

آیا خیالِ گنبدِ خضرا جہاں ایاز

جلووں سے بھر گیا وہیں دامن نگاہ کا

٭٭٭

۲۱

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

اللہ اللہ یہ شرف خواجۂ گیہاں میرا

٭

رنگ و بُو ، لالہ و گل ، سرو و سمن جشنِ بہار

آپ میرے ہیں تو سارا ہے گلستاں میرا

٭

آپ کا عشق ازل سے ہے مِرے دل میں مقیم

سب پہ ظاہر ہے یہ سرمایۂ پنہاں میرا

٭

آپ کی مدح لکھے جاؤں یونہی تا بہ ابد

ساتھ چھوڑے نہ کبھی عمرِ گریزاں میرا

٭

ہے محیطِ دل و جاں گنبدِ خضرا کا خیال

کیا بگاڑے گا بھلا وقت کا طوفاں میرا

٭

آخرت کے لئے سامان بہم ہو ہی گیا

بن گئے اشکِ ندامت سرو ساماں میرا

٭

ہے مطافِ دل و جاں اسمِ گرامی اُن کا

یہی قبلہ ، یہی کعبہ ، یہی ایماں میرا

٭

۲۲

اِس سے پہلے کہ کوئی پُرسشِ وحشت ہوتی

چھپ گیا دامنِ رحمت میں گریباں میرا

٭

اللہ اللہ ایاز اُن کی عطا کا عالم

بھر دیا دولتِ کونین سے داماں میرا

٭٭٭

۲۳

حریمِ نور کے آئینہ گر در و دیوار

حریمِ نور کے آئینہ گر در و دیوار

نظر فزا ہیں وہ حیرت اثر در و دیوار

٭

رہِ حجاز میں حائل نہیں یہ دیواریں

"مقام و راہ "، قیام و سفر درو دیوار

٭

حضور خوب میں آئے تھے ایک شب مِرے گھر

درود پڑھتے رہے عمر بھر درو دیوار

٭

مِرے خیال کے خلوت کدے میں روشن ہیں

دیارِ نور کے شام و سحر درو دیوار

٭

وہ خاک بوس ہوئے میں چلا مدینے کو

لگا گئے ہیں مجھے راہ پر درو دیوار

٭

نگار خانۂ ملّت کی خرا ہو آقا

بکھر نہ جائیں یہ خلدِ نظر درو دیوار

٭

جہاں نگاہ نے جھانکا حریمِ دل میں ایاز

وہیں مدینے کے آئے نظر درو دیوار

٭٭٭

۲۴

آیا ہوں آج آپ کا دربار دیکھ کر

آیا ہوں آج آپ کا دربار دیکھ کر

حیراں ہوں 'اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر"

٭

میں سنگِ بے عیار تھا آئینہ بن گیا

اُس شہرِ نور کے در و دیوار دیکھ کر

٭

اللہ رے جمالِ محمد فلک فلک

حور و مَلَک ہیں نقش بہ دیوار دیکھ کر

٭

اب ڈھونڈتے ہیں نقشِ کفِ پائے مصطفےٰ

چلتے جو تھے ستاروں کی رفتار دیکھ کر

٭

گرمِ سفر ہیں لوگ رہِ مستقیم پر

حسنِ سلوک قافلہ سالار دیکھ کر

٭

میں اپنے دل کے غارِ حرا میں ہوں محوِ دید

لوگ آرہے ہیں روضۂ سرکار دیکھ کر

٭

اچھا ہوا کہ مقطعِ جاں آگیا ایاز

کیا دیکھتے ، وہ "مطلعِ انوار دیکھ کر "

٭٭٭

۲۵

ہر نبی شاہدِ خدا نہ ہوا

ہر نبی شاہدِ خدا نہ ہوا

آپ سا کوئی دوسرا نہ ہوا

٭

کرمِ شہرِ علم سے پہلے

نعت کہنے کا حوصلہ نہ ہوا

٭

دل رہا ہر قدم پہ سر بسجود

میں مدینے کو جب روانہ ہوا

٭

لاکھ پلکوں سے خاکِ طیبہ چنی

" حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا"

٭

فرشِ خاکی سے عرشِ نوری تک

کس جگہ ذکرِ مصطفےٰ نہ ہوا

٭

آپ کی یاد کے سوا کوئی

کشتیِ جاں کا ناخدا نہ ہوا

٭

۲۶

دل کہ تھا ایک بے نوائے ازل

آپ کے لطف کا خزانہ ہوا

٭

آپ کا در نہ وا ہوا جس پر

کوئی دروازہ اس پہ وا نہ ہوا

٭

جالیوں ہی کو چوم لیں گے ایاز

گر کرم باِلمشافِہہ نہ ہوا

٭٭٭

۲۷

محوِ کرم ہے چشمِ پیمبر، کہے بغیر

محوِ کرم ہے چشمِ پیمبر، کہے بغیر

" ظاہر ہے میرا حال سب اُن پر کہے بغیر"

کہنے کے باوجود جو دنیا نہ دے سکے

ملتا ہے اُن کے در سے برابر ، کہے بغیر

مہر و مہ و نجوم ازل سے ہیں کاسہ لیس

جاری ہے اُن کے نور کا لنگر ، کہے بغیر

اللہ رے اوج ، آپ کی تعظیم کے لئے

جھکتا ہے آسمان زمیں پر، کہے بغیر

ملتی ہے بِن کہے شہِ لوح و قلم سے بھیک

کھلتا ہے اُن کے لطف کا دفتر ، کہے بغیر

سرکار کی عطا میں صدا کا گزر نہیں

کر دیتے ہیں گدا کو تونگر ، کہے بغیر

قادر ایاز صنفِ سخن پر سہی مگر

بنتی نہیں ہے نعتِ پیمبر کہے بغیر

٭٭٭

۲۸

متاعِ سخن ، نقدِ مدحت سلامت

متاعِ سخن ، نقدِ مدحت سلامت

یہ سرمایۂ بیش قیمت سلامت

٭

مدینے کے جلوے مِرے منتظر ہیں

مِرا جذب و شوقِ زیارت سلامت

٭

مدینے کی گلیوں میں کھو جاؤں یارب

رہے یہ سماں تا قیامت سلامت

٭

مجھے بھی نشیبِ زمںم سے اٹھا لے

تِرے سبز گنبد کی رفعت سلامت

٭

تصور میں ہے شہرِ سرکارِ والا

یہ گہوارۂ نور و نکہت سلامت

٭

مِرے آئینے کی جِلا اللہ اللہ

تمنائے مہرِ رسالت سلامت

٭

مدد کو مِری آئیں گے میرے آقا

مِرا جذبۂ استعانت سلامت

٭

۲۹

ولائے محمد ولائے خدا ہے

ارادت مبارک عبادت سلامت

٭

ایاز اپنی مدحت وہ خود سن رہے ہیں

مبارک مبارک سلامت سلامت

٭٭٭

۳۰

جس جگہ بے بال و پر جبریل سا شہپر ہوا

جس جگہ بے بال و پر جبریل سا شہپر ہوا

سوچتا ہوں میں وہاں مدحت سرا کیونکر ہوا

٭

ساقیِ کوثر کا لطفِ خاص جب مجھ پر ہوا

بادۂ انوار سے پُر ذہن کا ساغر ہوا

٭

آپ جب جلوہ فروزِ مسندِ امکاں ہوئے

ذرہ ذرہ آئینہ دارِ شہِ خاور ہوا

٭

ہے مسلسل نکہت و انوار کی بارش وہاں

جس نگر ، جس انجمن میں ذکرِ پیغمبر ہوا

٭

جب کبھی برداشت سے باہر ہوئی فرقت کی دھوپ

سایہ افگن دامنِ رحمت وہیں مجھ پر ہوا

٭

ان کے در سے مل گیا پروانۂ بخشش مجھے

مجھ سے عاصی پر بھی لطفِ شافعِ محشر ہوا

٭

وجہِ تکوینِ جہاں کی نعت لکھی جب ایاز

آئینہ ایک ایک حرفِ کُن فکاں مجھ پر ہوا

٭٭٭

۳۱

آپ آئے نفرتیں سر در گریباں ہو گئیں

آپ آئے نفرتیں سر در گریباں ہو گئیں

بزمِ جاں میں پیار کی شمعیں فروزاں ہو گئیں

٭

آپ کی کملی سے پھوٹی ایک لاہوتی کرن

ہر طرف انوار کی پَریاں پَر افشاں ہو گئیں

٭

اللہ اللہ آپکے نقشِ قدم کی برکتیں

سجدہ گاہِ قدسیاں طیبہ کی گلیاں ہو گئیں

٭

جنتِ تخیل میں گویا دبستاں کھل گیا

میں ہُوا مدحت سرا ، حوریں ثنا خواں ہو گئیں

٭

میرا کیا بگڑا، کہ ہوں آسودۂ عشقِ رسول

گردشیں مجھ سے الجھ کر خود پریشاں ہو گئیں

٭

پھر مدینے کو گئے حُجاج میں پھر رہ گیا

حسرتیں پھر حلقہ ہائے دامِ ہجراں ہو گئیں

٭

کیا دعا مانگیں ایاز اب جالیوں کو چوم کر

" یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں "

٭٭٭

۳۲

شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں میں

شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں میں

سرکار کا کرم ہے کہ مضطر نہیں ہوں میں

٭

شہرِ جمال میں بھی نہ اڑ پاؤں تیرے ساتھ

موجِ ہوا ! اب ایسا بھی بے پر نہیں ہوں میں

٭

طیبہ کے دشت و راغ بھی جنت بدوش ہیں

منّت پذیرِ گنبدِ بے در نہیں ہوں میں

٭

صد شکر میں گدائے شہِ مشرقین ہوں

دارا و کاقبںد و سکندر نہیں ہوں میں

٭

مجھ کو درِ حضور سے دوری کا رنج ہے

آلامِ روزگار کا خوگر نہیں ہوں میں

٭

مجھ سے گریز پا ہیں زمانے کی ٹھوکریں

آقا! کسی کی راہ کا پتھر نہیں ہوں میں

٭

مال و متاعِ عشقِ محمد ہے میرے پاس

یہ کس نے کہہ دیا کہ تونگر نہیں ہوں میں

٭

۳۳

روشن ہے نورِ عشقِ محمد سے میرا دل

پامالِ جلوۂ مہ و اختر نہیں ہوں میں

٭

آقا کے در پہ ہے سرِ تسلیمِ خم ایاز

اللہ جانتا ہے کہ خود سر نہیں ہوں میں

٭٭٭

۳۴

کبھی تو ہونگے مِرے رہنما براہِ حجاز

کبھی تو ہونگے مِرے رہنما براہِ حجاز

"دعا قبول ہو یارب کہ عمرِ خضر دراز"

٭

ہوئے شوق اڑا لے گئی بہ سوئے حجاز

نکل گئی دلِ بے پر کی حسرتِ پرواز

٭

مسافتِ شبِ اسرا ہے آپ کا اعجاز

نشیبِ فرش پہ کھولے فراز عرش کے راز

٭

پہنچ گیا ہوں سرِ منزلِ غریب نواز

پڑا رہوں پھر اسی در پہ مثلِ پا انداز

٭

حضور دامنِ رحمت میں ڈھانپ لیں مجھ کو

کہ میری تاک میں ہے وقت کا قدر انداز

٭

جہانِ دولت و ثروت نہیں مجھے درکار

میں اُن کے در کا گدا ہوں بڑا ہے یہ اعزاز

٭

حضور آپ کے در پر ہو خاتمہ بالخیر

یہی ہے دل کی تمنا یہی دعائے ایاز

٭٭٭

۳۵

اشکوں کی زباں اور ہے لفظوں کی زباں اور

اشکوں کی زباں اور ہے لفظوں کی زباں اور

مدحت کے لئے چاہئے اندازِ بیاں اور

٭

مدحت کا تقاضا ہے کہ اللہ سے مانگو

دل اور ، نر اور ، دہن اور ، زباں اور

٭

کیا مدح کرے آدمی ممدوحِ خدا کی

بندے کا بیاں اور ہے اللہ کا بیاں اور

٭

بالا ہے بہت نرخِ غمِ عشقِ محمد

لعل و گہر اے دیدۂ خوننابہ فشاں اور

٭

سانسوں میں نہیں آئی ابھی بوئے مدینہ

کچھ دور ابھی قافلۂ عمرِ رواں اور

٭

کعبے میں جھکا سر تو مدینے میں جھکا دل

اللہ کا گھر اور محمد کا مکاں اور

٭

ہوتا ہے ایاز آئینۂ ذہن ، مجلّا

مدحت سے نکھرتا ہے مِرا حسنِ بیاں اور

٭٭٭

۳۶

ابھی تو خواب ہی دیکھا ہے شہرِ طیبہ کا

ابھی تو خواب ہی دیکھا ہے شہرِ طیبہ کا

ابھی سے حال دگرگوں ہے چشمِ بینا کا

٭

مِری نظر میں ہے تنویرِ منزلِ مقصود

چراغِ راہِ یقیں ہے خیال آقا کا

٭

رہِ حجاز کے ذروں میں جذب ہو جاؤں

علاج ہے یہ مِرے دردِ بے مداوا کا

٭

نبی کے ہجر میں رونا بھی عینِ راحت ہے

" مِری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا "

٭

دعا قبول ہوئی آپ کے وسیلے سے

شعور آپ نے بخشا ہمیں تمنا کا

٭

کہاں اسیرِ ہوا اور کہاں ثنائے رسول

حباب خاک احاطہ کرے گا دریا کا

٭

خیالِ شافعِ محشر محیطِ جاں ہے ایاز

نہیں ہے تشنۂ تعبیر خواب فردا کا

٭٭٭

۳۷

گردِ رہِ مدینہ کے قابل نہیں رہا

گردِ رہِ مدینہ کے قابل نہیں رہا

"جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا"

٭

عجزِ سخن ، کمال ہے مدحت کے باب میں

اس فن میں کوئی میرا مقابل نہیں رہا

٭

اُن کے کرم سے کھل گئے سب عقدہ ہائے شوق

اب کوئی مرحلہ مجھے مشکل نہیں رہا

٭

اب میں ہوں اور عشقِ شہنشاہِ بحر و بر

اب کوئی رنج مدِّ مقابل نہیں رہا

٭

ہونٹوں پہ ہر نفس ہے وظیفہ حضور کا

میں اک نفس بھی آپ سے غافل نہیں رہا

٭

ہاں آپ کے خیال کی دولت ہے میرے پاس

ہاں میں نشاطِ دہر کا سائل نہیں رہا

٭

گُم ہو گئے ایاز مدینے کی راہ میں

احساسِ نارسائیِ منزل نہیں رہا

٭٭٭

۳۸

جُز غمِ ہجرِ نبی ہر غم سے ہوں ناآشنا

جُز غمِ ہجرِ نبی ہر غم سے ہوں ناآشنا

یہ بھری دنیا میں ہے میرا اکیلا آشنا

٭

ذہن کعبہ آشنا ہے دل مدینہ آشنا

عشق نے بخشا ہے مجھ کو کیسا کیسا آشنا

٭

میں زباں سے کچھ نہیں کہتا مجھے کیا چاہئے

میری ہر خواہش سے ہیں سرکارِ والا آشنا

٭

سیرتِ سرکار کا ہر رخ ہے دل پر آئینہ

خیر سے مجھ کو میسر ہے اک اچھا آشنا

٭

ایک میں ہی تو نہیں تنہا ثنا خوانِ حضور!

آپ کے لطف و کرم سے ہے زمانہ آشنا

٭

کس کے در پر جاؤں آقا آپ کا در چھوڑ کر

میں ہوا خواہِ وفا، دنیا وفا ناآشنا

٭

ہے تصور میں جمالِ گنبدِ خضرا ایاز !

میری آسودہ نگاہی سے ہے دنیا آشنا

٭٭٭

۳۹

جادۂ مدینہ ہے اور کارواں اپنا

جادۂ مدینہ ہے اور کارواں اپنا

عزم ہمسفر اپنا، شوق ہم عِناں اپنا

٭

رحمتِ دو عالم ہے ، فخرِ مرسلاں اپنا

رہبروں کا رہبر ہے میرِ کارواں اپنا

٭

جب سے ارضِ طیبہ کو ہم نے محترم جانا

احترام کرتا ہے تب سے آسماں اپنا

٭

شاید اِس طرف سے وہ سیرِ عرش کو جائیں

راستہ بدلتی ہے روز کہکشاں اپنا

٭

ڈھل گیا حضوری میں کربِ دوریِ منزل

لے اڑا ہمیں آخر شوقِ پَر فشاں اپنا

٭

روضۂ محمدؐ پھر روضۂ محمد ؐ ہے

خلد کے عوض کیوں دوں گلشنِ جہاں اپنا

٭

میں ایاز ہوں اُن کا میں غلام ہوں اُن کا

کر لیا دو عالم کو میں نے ہم زباں اپنا

٭٭٭

۴۰

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

اللہ اللہ یہ شرف خواجۂ گیہاں میرا

٭

رنگ و بُو ، لالہ و گل ، سرو و سمن جشنِ بہار

آپ میرے ہیں تو سارا ہے گلستاں میرا

٭

آپ کا عشق ازل سے ہے مِرے دل میں مقیم

سب پہ ظاہر ہے یہ سرمایۂ پنہاں میرا

٭

آپ کی مدح لکھے جاؤں یونہی تا بہ ابد

ساتھ چھوڑے نہ کبھی عمرِ گریزاں میرا

٭

ہے میطِ دل و جاں گنبدِ خضرا کا خیال

کیا بگاڑے گا بھلا وقت کا طوفاں میرا

٭

آخرت کے لئے سامان بہم ہو ہی گیا

بن گئے اشکِ ندامت سرو ساماں میرا

٭

ہے مطافِ دل و جاں اسمِ گرامی اُن کا

یہی قبلہ ، یہی کعبہ ، یہی ایماں میرا

٭

۴۱

اِس سے پہلے کہ کوئی پُرسشِ وحشت ہوتی

چھپ گیا دامنِ رحمت میں گریباں میرا

٭

اللہ اللہ ایاز اُن کی عطا کا عالم

بھر دیا دولتِ کونین سے داماں میرا

٭٭٭

۴۲

دل کی دھڑکن کا ہم آہنگِ دعا ہو جانا

دل کی دھڑکن کا ہم آہنگِ دعا ہو جانا

بابِ تاثیر کا آغوش کشا ہو جانا

٭

میرا ایماں ہے حضوری میں ڈھلے گی دوری

" درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا "

٭

مجھ کو آتا ہے عذابِ شبِ ہجراں کا علاج

یاد کرنا انہیں اور نعت سرا ہو جانا

٭

وہ بلائیں تو سہی اذنِ سفر تو آئے

تَو سنِ شوق کو آتا ہے ہَوا ہو جانا

٭

میں بھی سرکار کے کُوچے کا گدا ہوں یارب

میرے سجدوں کو بھی آجائے ادا ہو جانا

٭

آپ کی سیرتِ اطہر نے سکھایا ہے ہمیں

سر بہ سر بندۂ تسلیم و رضا ہو جانا

٭

تجھ پہ کھل جائیں گے الفاظ کے اسرار ایاز

ان کے در پر ہمہ تن حرفِ دعا ہو جانا

٭٭٭

۴۳

آپ کی یاد تھی بس آپؐ کے بیمار کے پاس

آپ کی یاد تھی بس آپؐ کے بیمار کے پاس

کون آتا کسی گرتی ہوئی دیوار کے پاس

٭

غمِ دنیا، غمِ عقبےٰ، غمِ ہجراں ، غمِ دل

میرے ہر دکھ کی دوا ہے مِرے سرکار کے پاس

٭

ایک امیدِ کرم ، ایک شفاعت کا یقیں

یہ دو آئینے ہیں بے چہرہ گنہگار کے پاس

٭

فرقتِ سرورِ دیں میں ہیں گہر بار آنکھیں

دولتِ درد بہت ہے دلِ نادار کے پاس

٭

آپ نے قول و عمل سے یہ سکھایا ہے ہمیں

حسنِ کردار بھی ہو صاحبِ گفتار کے پاس

٭

جگمگائے کبھی میرا بھی مقدر یارب

میں بھی پہنچوں کبھی اُس پیکرِ انوار کے پاس

٭

حسنِ تعبیر بھی ہو جائے گا اک روز عیاں

خوابِ طیبہ ہے ابھی دیدۂ دیدار کے پاس

٭

۴۴

کوئی اس خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو

آگیا گنبدِ خضرا مری دیوار کے پاس

٭

رات دن نور برستا ہے مدینے میں ایاز

مطلعِ نور ہے اُس شہرِ ضیا بار کے پاس

٭٭٭

۴۵

دل سلامت رہے رحمت کی نظر ہونے تک

دل سلامت رہے رحمت کی نظر ہونے تک

یہ مکاں بیٹھ نہ جائے کہیں گھر ہونے تک

٭

مجھ کو آئینہ بنایا ہے مِرے آقا نے

سنگ تھا میں ، نگہِ آئینہ گر ہونے تک

٭

آپ سب جانتے ہیں ، آپ سےپنہاں کیا ہے

کیسے گزری ہے شبِ ہجر ، سحر ہونے تک

٭

مجھ کو آ جائے گا مدحت کا سیقہ آخر

وہ چھپا لیں گے مِرے عیب ہنر ہونے تک

٭

دیکھیں کب موج میں آتا ہے وہ دریائے کرم

" دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک "

٭

اب تو ہر سمت وہی وہ ہیں نگاہوں کے حضور

دل میں پنہاں تھے وہ مسجودِ نظر ہونے تک

٭

کہیں محرومِ زیارت ہی نہ رہ جاؤں ایاز

مر نہ جاؤں کہیں آقا کو خبر ہونے تک

٭٭٭

۴۶

عشقِ رسول ایاز ! " خدا سے سوا " نہ مانگ

عشقِ رسول ایاز ! " خدا سے سوا " نہ مانگ

جو قابلِ قبول نہ ہو وہ دعا نہ مانگ

٭

آقا کی اک نظر ہی بہت ہے تِرے لئے

اے قلبِ کم عیار ! طلب سے سوا نہ مانگ

٭

ملتا ہے اُن کے در سے تو بن مانگے بے بہا

اے کم سواد ! مدحِ نبی کا صلہ نہ مانگ

٭

موجِ ہوا سے خاکِ مدینہ طلب نہ کر

اے دل جنابِ خضر سے آبِ بقا نہ مانگ

٭

اُن کا مریض ہے تو کسی چارہ ساز سے

تسکینِ جاں ، دوائے دلِ مبتلا نہ مانگ

٭

دربارَ ایزدی میں نہ ہو گی کبھی قبول

نادان ! بے وسیلۂ آقا دعا نہ مانگ

٭

درکار اگر ہے دولتِ تسکینِ دل ایاز

کچھ اور جز غمِ شہِ ارض وسما نہ مانگ

٭٭٭

۴۷

میں نے مدحت کا ارادہ جو سرِ دل باندھا

میں نے مدحت کا ارادہ جو سرِ دل باندھا

نطق نے لیلیء اظہار کا محمل باندھا

٭

شوقِ دیدار ، غمِ زیست ، خیالِ سرکار

پاس جو زادِ سفر تھا پئے منزل باندھا

٭

لے گئی گنبدِ خضرا پہ تخیل کی اڑان

رشتۂ ذہن سے جب سلسلۂ دل باندھا

٭

شدتِ تشنگیِ دید بیاں ہو نہ سکی

" گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا"

٭

بخش دیں آپ نے کونین کی خوشیاں مجھ کو

چشمِ گریاں نے وہ مضمونِ غمِ دل باندھا

٭

اللہ اللہ جمالِ غمِ ہجرِ سرکار

داغِ حسرت کو حریفِ مہِ کامل باندھا

٭

شہرِ دل میں ، میرے ممدوح کا مسکن ہے ایاز

میں نے اس شہر کو طیبہ کا مماثل باندھا

٭٭٭

۴۸

کاش اول ہی سے دل ان کا ثنا خواں ہوتا

کاش اول ہی سے دل ان کا ثنا خواں ہوتا

میرا دیوانِ غزل نعت کا دیواں ہوتا

٭

میں بھی جاروب کشِ شہرِ گل افشاں ہوتا

میری بخشش کا بھی یارب یہی عنواں ہوتا

٭

میری تعمیر میں شامل ہے غمِ عشقِ رسول

میں بھلا کیسے خرابِ غمِ دوراں ہوتا

٭

میری آنکھوں میں ہیں انوارِ شبہِِ سرکار

آئینہ کیوں نہ مجھے دیکھ کے حیراں ہوتا

٭

ناخدا تھے مرے محبوبِ خدا صلِّ علےٰ

سر اٹھاتا تو خجل موجۂ طوفاں ہوتا

٭

میرا ایماں ہے مجھے نیند نہ آتی تا حشر

میرے دل پر جو نہ دستِ شہِ دوراں ہوتا

٭

۴۹

ان کی محفل میں جنوں ہوش میں ڈھل جاتا ہے

ہار کرنوں کا مرا چاک گریباں ہوتا

٭

عشقِ سرکار کی دولت جو نہ ملتی تو ایاز

بے سرو پا نہ سہی بے سر و ساماں ہوتا

٭٭٭

۵۰

اگر سارا زمانہ حاملِ عشقِ خدا ہوتا

اگر سارا زمانہ حاملِ عشقِ خدا ہوتا

تو ہر لب پر محمد مصطفےٰ صلِّ علےٰ ہوتا

٭

یہ مہر و مہ نہ یہ ہنگامۂ صبح و مسا ہوتا

نہ آتے آپ تو اک ہو کا عالم جا بجا ہوتا

٭

اگر وہ نام جاں پرور لبِ دل سے ادا ہوتا

تو اے بیمارِ غم تو کب کا اچھا ہو گیا ہوتا

٭

خیالِ صاحبِ لوح و قلم کا فیض ہے ورنہ

نہ آنکھیں با وضو ہوتیں نہ دل محوِ ثنا ہوتا

٭

دلِ سوزاں میں ٹھنڈک پڑ گئی بارانِ رحمت سے

عنایت وہ نہ فرماتے تو اپنا حال کیا ہوتا

٭

غمِ سرکار نے اک اک قدم پر رہنمائی کی

میں اس ہنگامۂ عیش و طرب میں کھو گیا ہوتا

٭

ہواؤ !جانبِ طیبہ مجھے بھی ساتھ لے جاؤ

خدارا یہ نہ کہہ دینا کہ "پہلے سے کہا ہوتا "

٭

۵۱

دمِ آخر اگر آقا نہ دل پر ہاتھ رکھ دیتے

تو پھر صدیوں میں طے یہ اک نفس کا فاصلہ ہوتا

٭

شبیِہ شافعِ محشر سجی تھی شیشۂ دل میں

ایاز ایسے میں کیا اندیشۂ روزِ جزا ہوتا

٭٭٭

۵۲

مصروفِ حمدِ باری و مدحِ حضور تھا

مصروفِ حمدِ باری و مدحِ حضور تھا

میں بے نیازِ پرسشِ یومِ نشور تھا

٭

میں گھر میں قید اور دل اُنکے حضور تھا

کیا منظرِ تحیرِ نزدیک و دور تھا

٭

سرکار کی ولادتِ اطہر سے پیشتر

عالم تمام حلقۂ فسق و فجور تھا

٭

میں لکھ رہا تھا مدحتِ مقصودِ کائنات

میری نظر میں حسنِ غیاب و حضور تھا

٭

رہتے تھے آپ شام و سحر حق سے ہمکلام

غارِ حر ا بھی آئۂنم کوہِ طور تھا

٭

میں خاک ہوکے شہرِ نبی میں بکھر گیا

یارب یہی علاجِ دلِ ناصبور تھا

٭

فیضانِ شہرِ علم ہے ورنہ مجھے ایاز

عرفانِ حرف تھا نہ سخن کا شعور تھا

٭٭٭

۵۳

مصروفِ رنگ و بُو ہے سپاہِ ہوائے گل

مصروفِ رنگ و بُو ہے سپاہِ ہوائے گل

طیبہ کے خارو خس بھی ہیں پرچم کشائے گل

٭

مہکا بس ایک گل کی مہک سے مشامِ جاں

یوں تو ریاضِ دہر میں کیا کیا نہ آئے گل

٭

میں عندلیبِ گلشنِ خیر الانام ہوں

صبحِ بہار سے ہوں بہار آشنائے گل

٭

دوری کا کرب لطفِ حضوری میں ڈھل گیا

موجِ ہوائے گل ہوئی چہرہ کشائے گل

٭

آقا کی یاد خانۂ دل میں ہے عطر بیز

خوشبو کا راج ہے سرِ خلوت سرائے گل

٭

نقدِ غمِ حضور متاعِ حیات ہے

گلزارِ شوق میں زرِ گل ہے بہائے گل

٭

برسا بہار بن کے سحابِ کرم ایاز

پہنی کلی کلی نے معطر قبائے گل

٭٭٭

۵۴

تیرا کہنا مان لیں گے اے دلِ دیوانہ ہم

تیرا کہنا مان لیں گے اے دلِ دیوانہ ہم

چوم لیں روضۂ سرکار بے تابانہ ہم

٭

ایک دن ہو جائیں گے شمعِ رسالت پر نثار

اِس لگن میں جی رہے ہیں صورتِ پروانہ ہم

٭

یہ حقیقت ہے ابھی اس آستاں سے دور ہیں

اس حقتقت کو بنا دیں گے ابھی افسانہ ہم

٭

ساقیء کوثر کا جاں پرور اشارا چاہئے

پھر چھلکنے ہی نہ دیں گے عمر کا پیمانہ ہم

٭

جس کے اک جھونکے سے کھِل اٹھتا ہے گلزارِ حیات

چاہتے ہیں وہ ہوائے کوچۂ جانانہ ہم

٭

ان کے در پر مر کے ملتی ہے حیاتِ جاوداں

موت کے ہاتھوں سے لیں گے زیست کا پروانہ ہم

٭

آپ کا غم حاصلِ عمرِ گریزاں ہے ایاز !

ان کے در پر پیش کر دیں گے یہی نذرانہ ہم

٭٭٭

۵۵

پہلے زبانِ شوق سے حمدِ خدا کروں

پہلے زبانِ شوق سے حمدِ خدا کروں

پھر ابتدائے مدحتِ خیر الورا کروں

٭

یارب مِرے سخن کو وہ حسنِ کمال دے

فرضِ ثنا نماز کی صورت ادا کروں

٭

ہر گفتگو کا محور و مرکز حضور ہیں

آئے اُنہیں کا ذکر ، کوئی تذکرہ کروں

٭

چوموں قدم قدم پہ زمینِ حجاز کو

روشن قدم قدم پہ چراغِ وفا کروں

٭

یارائے خامشی ہے نہ توفیقِ گفتگو

عرضِ نیاز عشق کی تدبیر کیا کروں

٭

ہو جاؤں پہلے خاکِ رہِ منزلِ حجاز

پھر عاجزی سے منّتِ موجِ ہوا کروں

٭

طیبہ کی راہ میں ہمہ تن گوش ہوں ایاز

اِذنِ سفر ملے تو سفر ابتدا کروں

٭٭٭

۵۶

روح طیبہ کی فضا میں ہے مِرے تن میں نہیں

روح طیبہ کی فضا میں ہے مِرے تن میں نہیں

"کون کہتا ہے مِری پرواز گلشن میں نہیں "

٭

آپ کے صدقے میں سب کچھ دے دیا اللہ نے

کونسی نعمت مِرے بھرپور دامن میں نہیں

٭

ہے محیطِ ہر دو عالم سبز گنبد کی بہار

کونسا منظر مِرے آقا کے مسکن میں نہیں

٭

آپ کے اوصاف لفظوں میں بیاں کیسے کروں

اتنی گنجائش ابھی توصیف کے فن میں نہیں

٭

گریۂ ہجرِ محمد میں انوکھا لطف ہے

جو مزہ آنکھوں کے جل تھل میں ہے ساون میں نہیں

٭

جس کے پتوں پر نہ ہو تحریر نامِ مصطفےٰ

ایسا کوئی پیڑ میرے گھر کے آنگن میں نہیں

٭

آپ کے روضے کی جالی سے جو چھنتی ہے ایاز

وہ تجلی وقت کے تاریک روزن میں نہیں

٭٭٭

۵۷

درِ آقا پہ شب و روز کی زنجیر نہیں

درِ آقا پہ شب و روز کی زنجیر نہیں

یہ وہ منزل ہے جہاں وقت عِناں گیر نہیں

٭

جالیاں ، قصرِ سرِ عرش کے دروازے ہیں

گنبدِ سبز سے اونچی کوئی تعمیر نہیں

٭

روز آتی ہے عیادت کو نسیمِ طیبہ

کون کہتا ہے مِری آہ میں تاثیر نہیں

٭

وہ برابر مِری جانب نگراں رہتے ہیں

حادثاتِ متواتر سے میں دل گیر نہیں

٭

للہ الحمد کہ سرکار کی مدحت کے سوا

کچھ مِرے نامۂ اعمال میں تحریر نہیں

٭

خانۂ دل میں بجز جلوۂ محبوبِ خدا

کوئی خاکہ کوئی صورت کوئی تصویر نہیں

٭

سنگِ دیوارِ مصائب سے نہ سر پھوڑ ایاز

درِ اقدس پہ پہنچنے کی یہ تدبیر نہیں

٭٭٭

۵۸

یوں تو ہر اک پھول میں تھا رنگِ رخسارِ چمن

یوں تو ہر اک پھول میں تھا رنگِ رخسارِ چمن

اک گلابِ ہاشمی ہے صرف شہکارِ چمن

٭

آپ کی مرضی جسے چاہیں مدینے میں بلائیں

یعنی ہر غنچہ نہیں ہوتا سزاوارِ چمن

٭

حلقۂ خوابِ نظر ہے سبز گنبد کا خیال

"سرو ہے با وصفِ آزادی گرفتارِ چمن "

٭

ہے تصور میں مدینے کی گلاب افشاں بہار

میرے دروازے تک آ پہنچی ہے دیوارِ چمن

٭

یارِ غارِ مصطفےٰ ، فاروق و عثمان و علی

سروِ رنگ و نور ہے ایک ایک کردارِ چمن

٭

اے بہارِ دینِ فطرت اک نگاہِ گل طراز

بے زرِ گل سرد ہے مدت سے بازارِ چمن

٭

گلشنِ دیں کے خس و خاشاک چنتا ہوں ایاز

برگ و گل کہتے ہیں مجھ کو بار بردارِ چمن

٭٭٭

۵۹

جہاں اُن کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں

جہاں اُن کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں

جبینِ مہ و مہر خم دیکھتے ہیں

٭

محمد کی مدحت متاعِ سخن ہے

ہم انوارِ لوح و قلم دیکھتے ہیں

٭

سلامت دمِ آرزوئے محمد

کہ آباد دل کا حرم دیکھتے ہیں

٭

ہم اہلِ نظر ہر نفس لوحِ دل پر

وہ اسمِ گرامی رقم دیکھتے ہیں

٭

ضیا بار ہے دل میں عشقِ محمد

فروزاں چراغِ حرم دیکھتے ہیں

٭

درِ مصطفےٰ سے سرِ لامکاں تک

دو عالم کے جلوے بہم دیکھتے ہیں

٭

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70