ثنائے محمد(ص)

ثنائے محمد(ص)0%

ثنائے محمد(ص) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 70

ثنائے محمد(ص)

مؤلف: ایاز صدیقی
زمرہ جات:

صفحے: 70
مشاہدے: 31162
ڈاؤنلوڈ: 2479

تبصرے:

ثنائے محمد(ص)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 70 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31162 / ڈاؤنلوڈ: 2479
سائز سائز سائز
ثنائے محمد(ص)

ثنائے محمد(ص)

مؤلف:
اردو

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

آپ کے نام سے موسوم ہے دیواں میرا

اللہ اللہ یہ شرف خواجۂ گیہاں میرا

٭

رنگ و بُو ، لالہ و گل ، سرو و سمن جشنِ بہار

آپ میرے ہیں تو سارا ہے گلستاں میرا

٭

آپ کا عشق ازل سے ہے مِرے دل میں مقیم

سب پہ ظاہر ہے یہ سرمایۂ پنہاں میرا

٭

آپ کی مدح لکھے جاؤں یونہی تا بہ ابد

ساتھ چھوڑے نہ کبھی عمرِ گریزاں میرا

٭

ہے میطِ دل و جاں گنبدِ خضرا کا خیال

کیا بگاڑے گا بھلا وقت کا طوفاں میرا

٭

آخرت کے لئے سامان بہم ہو ہی گیا

بن گئے اشکِ ندامت سرو ساماں میرا

٭

ہے مطافِ دل و جاں اسمِ گرامی اُن کا

یہی قبلہ ، یہی کعبہ ، یہی ایماں میرا

٭

۴۱

اِس سے پہلے کہ کوئی پُرسشِ وحشت ہوتی

چھپ گیا دامنِ رحمت میں گریباں میرا

٭

اللہ اللہ ایاز اُن کی عطا کا عالم

بھر دیا دولتِ کونین سے داماں میرا

٭٭٭

۴۲

دل کی دھڑکن کا ہم آہنگِ دعا ہو جانا

دل کی دھڑکن کا ہم آہنگِ دعا ہو جانا

بابِ تاثیر کا آغوش کشا ہو جانا

٭

میرا ایماں ہے حضوری میں ڈھلے گی دوری

" درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا "

٭

مجھ کو آتا ہے عذابِ شبِ ہجراں کا علاج

یاد کرنا انہیں اور نعت سرا ہو جانا

٭

وہ بلائیں تو سہی اذنِ سفر تو آئے

تَو سنِ شوق کو آتا ہے ہَوا ہو جانا

٭

میں بھی سرکار کے کُوچے کا گدا ہوں یارب

میرے سجدوں کو بھی آجائے ادا ہو جانا

٭

آپ کی سیرتِ اطہر نے سکھایا ہے ہمیں

سر بہ سر بندۂ تسلیم و رضا ہو جانا

٭

تجھ پہ کھل جائیں گے الفاظ کے اسرار ایاز

ان کے در پر ہمہ تن حرفِ دعا ہو جانا

٭٭٭

۴۳

آپ کی یاد تھی بس آپؐ کے بیمار کے پاس

آپ کی یاد تھی بس آپؐ کے بیمار کے پاس

کون آتا کسی گرتی ہوئی دیوار کے پاس

٭

غمِ دنیا، غمِ عقبےٰ، غمِ ہجراں ، غمِ دل

میرے ہر دکھ کی دوا ہے مِرے سرکار کے پاس

٭

ایک امیدِ کرم ، ایک شفاعت کا یقیں

یہ دو آئینے ہیں بے چہرہ گنہگار کے پاس

٭

فرقتِ سرورِ دیں میں ہیں گہر بار آنکھیں

دولتِ درد بہت ہے دلِ نادار کے پاس

٭

آپ نے قول و عمل سے یہ سکھایا ہے ہمیں

حسنِ کردار بھی ہو صاحبِ گفتار کے پاس

٭

جگمگائے کبھی میرا بھی مقدر یارب

میں بھی پہنچوں کبھی اُس پیکرِ انوار کے پاس

٭

حسنِ تعبیر بھی ہو جائے گا اک روز عیاں

خوابِ طیبہ ہے ابھی دیدۂ دیدار کے پاس

٭

۴۴

کوئی اس خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو

آگیا گنبدِ خضرا مری دیوار کے پاس

٭

رات دن نور برستا ہے مدینے میں ایاز

مطلعِ نور ہے اُس شہرِ ضیا بار کے پاس

٭٭٭

۴۵

دل سلامت رہے رحمت کی نظر ہونے تک

دل سلامت رہے رحمت کی نظر ہونے تک

یہ مکاں بیٹھ نہ جائے کہیں گھر ہونے تک

٭

مجھ کو آئینہ بنایا ہے مِرے آقا نے

سنگ تھا میں ، نگہِ آئینہ گر ہونے تک

٭

آپ سب جانتے ہیں ، آپ سےپنہاں کیا ہے

کیسے گزری ہے شبِ ہجر ، سحر ہونے تک

٭

مجھ کو آ جائے گا مدحت کا سیقہ آخر

وہ چھپا لیں گے مِرے عیب ہنر ہونے تک

٭

دیکھیں کب موج میں آتا ہے وہ دریائے کرم

" دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک "

٭

اب تو ہر سمت وہی وہ ہیں نگاہوں کے حضور

دل میں پنہاں تھے وہ مسجودِ نظر ہونے تک

٭

کہیں محرومِ زیارت ہی نہ رہ جاؤں ایاز

مر نہ جاؤں کہیں آقا کو خبر ہونے تک

٭٭٭

۴۶

عشقِ رسول ایاز ! " خدا سے سوا " نہ مانگ

عشقِ رسول ایاز ! " خدا سے سوا " نہ مانگ

جو قابلِ قبول نہ ہو وہ دعا نہ مانگ

٭

آقا کی اک نظر ہی بہت ہے تِرے لئے

اے قلبِ کم عیار ! طلب سے سوا نہ مانگ

٭

ملتا ہے اُن کے در سے تو بن مانگے بے بہا

اے کم سواد ! مدحِ نبی کا صلہ نہ مانگ

٭

موجِ ہوا سے خاکِ مدینہ طلب نہ کر

اے دل جنابِ خضر سے آبِ بقا نہ مانگ

٭

اُن کا مریض ہے تو کسی چارہ ساز سے

تسکینِ جاں ، دوائے دلِ مبتلا نہ مانگ

٭

دربارَ ایزدی میں نہ ہو گی کبھی قبول

نادان ! بے وسیلۂ آقا دعا نہ مانگ

٭

درکار اگر ہے دولتِ تسکینِ دل ایاز

کچھ اور جز غمِ شہِ ارض وسما نہ مانگ

٭٭٭

۴۷

میں نے مدحت کا ارادہ جو سرِ دل باندھا

میں نے مدحت کا ارادہ جو سرِ دل باندھا

نطق نے لیلیء اظہار کا محمل باندھا

٭

شوقِ دیدار ، غمِ زیست ، خیالِ سرکار

پاس جو زادِ سفر تھا پئے منزل باندھا

٭

لے گئی گنبدِ خضرا پہ تخیل کی اڑان

رشتۂ ذہن سے جب سلسلۂ دل باندھا

٭

شدتِ تشنگیِ دید بیاں ہو نہ سکی

" گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا"

٭

بخش دیں آپ نے کونین کی خوشیاں مجھ کو

چشمِ گریاں نے وہ مضمونِ غمِ دل باندھا

٭

اللہ اللہ جمالِ غمِ ہجرِ سرکار

داغِ حسرت کو حریفِ مہِ کامل باندھا

٭

شہرِ دل میں ، میرے ممدوح کا مسکن ہے ایاز

میں نے اس شہر کو طیبہ کا مماثل باندھا

٭٭٭

۴۸

کاش اول ہی سے دل ان کا ثنا خواں ہوتا

کاش اول ہی سے دل ان کا ثنا خواں ہوتا

میرا دیوانِ غزل نعت کا دیواں ہوتا

٭

میں بھی جاروب کشِ شہرِ گل افشاں ہوتا

میری بخشش کا بھی یارب یہی عنواں ہوتا

٭

میری تعمیر میں شامل ہے غمِ عشقِ رسول

میں بھلا کیسے خرابِ غمِ دوراں ہوتا

٭

میری آنکھوں میں ہیں انوارِ شبہِِ سرکار

آئینہ کیوں نہ مجھے دیکھ کے حیراں ہوتا

٭

ناخدا تھے مرے محبوبِ خدا صلِّ علےٰ

سر اٹھاتا تو خجل موجۂ طوفاں ہوتا

٭

میرا ایماں ہے مجھے نیند نہ آتی تا حشر

میرے دل پر جو نہ دستِ شہِ دوراں ہوتا

٭

۴۹

ان کی محفل میں جنوں ہوش میں ڈھل جاتا ہے

ہار کرنوں کا مرا چاک گریباں ہوتا

٭

عشقِ سرکار کی دولت جو نہ ملتی تو ایاز

بے سرو پا نہ سہی بے سر و ساماں ہوتا

٭٭٭

۵۰

اگر سارا زمانہ حاملِ عشقِ خدا ہوتا

اگر سارا زمانہ حاملِ عشقِ خدا ہوتا

تو ہر لب پر محمد مصطفےٰ صلِّ علےٰ ہوتا

٭

یہ مہر و مہ نہ یہ ہنگامۂ صبح و مسا ہوتا

نہ آتے آپ تو اک ہو کا عالم جا بجا ہوتا

٭

اگر وہ نام جاں پرور لبِ دل سے ادا ہوتا

تو اے بیمارِ غم تو کب کا اچھا ہو گیا ہوتا

٭

خیالِ صاحبِ لوح و قلم کا فیض ہے ورنہ

نہ آنکھیں با وضو ہوتیں نہ دل محوِ ثنا ہوتا

٭

دلِ سوزاں میں ٹھنڈک پڑ گئی بارانِ رحمت سے

عنایت وہ نہ فرماتے تو اپنا حال کیا ہوتا

٭

غمِ سرکار نے اک اک قدم پر رہنمائی کی

میں اس ہنگامۂ عیش و طرب میں کھو گیا ہوتا

٭

ہواؤ !جانبِ طیبہ مجھے بھی ساتھ لے جاؤ

خدارا یہ نہ کہہ دینا کہ "پہلے سے کہا ہوتا "

٭

۵۱

دمِ آخر اگر آقا نہ دل پر ہاتھ رکھ دیتے

تو پھر صدیوں میں طے یہ اک نفس کا فاصلہ ہوتا

٭

شبیِہ شافعِ محشر سجی تھی شیشۂ دل میں

ایاز ایسے میں کیا اندیشۂ روزِ جزا ہوتا

٭٭٭

۵۲

مصروفِ حمدِ باری و مدحِ حضور تھا

مصروفِ حمدِ باری و مدحِ حضور تھا

میں بے نیازِ پرسشِ یومِ نشور تھا

٭

میں گھر میں قید اور دل اُنکے حضور تھا

کیا منظرِ تحیرِ نزدیک و دور تھا

٭

سرکار کی ولادتِ اطہر سے پیشتر

عالم تمام حلقۂ فسق و فجور تھا

٭

میں لکھ رہا تھا مدحتِ مقصودِ کائنات

میری نظر میں حسنِ غیاب و حضور تھا

٭

رہتے تھے آپ شام و سحر حق سے ہمکلام

غارِ حر ا بھی آئۂنم کوہِ طور تھا

٭

میں خاک ہوکے شہرِ نبی میں بکھر گیا

یارب یہی علاجِ دلِ ناصبور تھا

٭

فیضانِ شہرِ علم ہے ورنہ مجھے ایاز

عرفانِ حرف تھا نہ سخن کا شعور تھا

٭٭٭

۵۳

مصروفِ رنگ و بُو ہے سپاہِ ہوائے گل

مصروفِ رنگ و بُو ہے سپاہِ ہوائے گل

طیبہ کے خارو خس بھی ہیں پرچم کشائے گل

٭

مہکا بس ایک گل کی مہک سے مشامِ جاں

یوں تو ریاضِ دہر میں کیا کیا نہ آئے گل

٭

میں عندلیبِ گلشنِ خیر الانام ہوں

صبحِ بہار سے ہوں بہار آشنائے گل

٭

دوری کا کرب لطفِ حضوری میں ڈھل گیا

موجِ ہوائے گل ہوئی چہرہ کشائے گل

٭

آقا کی یاد خانۂ دل میں ہے عطر بیز

خوشبو کا راج ہے سرِ خلوت سرائے گل

٭

نقدِ غمِ حضور متاعِ حیات ہے

گلزارِ شوق میں زرِ گل ہے بہائے گل

٭

برسا بہار بن کے سحابِ کرم ایاز

پہنی کلی کلی نے معطر قبائے گل

٭٭٭

۵۴

تیرا کہنا مان لیں گے اے دلِ دیوانہ ہم

تیرا کہنا مان لیں گے اے دلِ دیوانہ ہم

چوم لیں روضۂ سرکار بے تابانہ ہم

٭

ایک دن ہو جائیں گے شمعِ رسالت پر نثار

اِس لگن میں جی رہے ہیں صورتِ پروانہ ہم

٭

یہ حقیقت ہے ابھی اس آستاں سے دور ہیں

اس حقتقت کو بنا دیں گے ابھی افسانہ ہم

٭

ساقیء کوثر کا جاں پرور اشارا چاہئے

پھر چھلکنے ہی نہ دیں گے عمر کا پیمانہ ہم

٭

جس کے اک جھونکے سے کھِل اٹھتا ہے گلزارِ حیات

چاہتے ہیں وہ ہوائے کوچۂ جانانہ ہم

٭

ان کے در پر مر کے ملتی ہے حیاتِ جاوداں

موت کے ہاتھوں سے لیں گے زیست کا پروانہ ہم

٭

آپ کا غم حاصلِ عمرِ گریزاں ہے ایاز !

ان کے در پر پیش کر دیں گے یہی نذرانہ ہم

٭٭٭

۵۵

پہلے زبانِ شوق سے حمدِ خدا کروں

پہلے زبانِ شوق سے حمدِ خدا کروں

پھر ابتدائے مدحتِ خیر الورا کروں

٭

یارب مِرے سخن کو وہ حسنِ کمال دے

فرضِ ثنا نماز کی صورت ادا کروں

٭

ہر گفتگو کا محور و مرکز حضور ہیں

آئے اُنہیں کا ذکر ، کوئی تذکرہ کروں

٭

چوموں قدم قدم پہ زمینِ حجاز کو

روشن قدم قدم پہ چراغِ وفا کروں

٭

یارائے خامشی ہے نہ توفیقِ گفتگو

عرضِ نیاز عشق کی تدبیر کیا کروں

٭

ہو جاؤں پہلے خاکِ رہِ منزلِ حجاز

پھر عاجزی سے منّتِ موجِ ہوا کروں

٭

طیبہ کی راہ میں ہمہ تن گوش ہوں ایاز

اِذنِ سفر ملے تو سفر ابتدا کروں

٭٭٭

۵۶

روح طیبہ کی فضا میں ہے مِرے تن میں نہیں

روح طیبہ کی فضا میں ہے مِرے تن میں نہیں

"کون کہتا ہے مِری پرواز گلشن میں نہیں "

٭

آپ کے صدقے میں سب کچھ دے دیا اللہ نے

کونسی نعمت مِرے بھرپور دامن میں نہیں

٭

ہے محیطِ ہر دو عالم سبز گنبد کی بہار

کونسا منظر مِرے آقا کے مسکن میں نہیں

٭

آپ کے اوصاف لفظوں میں بیاں کیسے کروں

اتنی گنجائش ابھی توصیف کے فن میں نہیں

٭

گریۂ ہجرِ محمد میں انوکھا لطف ہے

جو مزہ آنکھوں کے جل تھل میں ہے ساون میں نہیں

٭

جس کے پتوں پر نہ ہو تحریر نامِ مصطفےٰ

ایسا کوئی پیڑ میرے گھر کے آنگن میں نہیں

٭

آپ کے روضے کی جالی سے جو چھنتی ہے ایاز

وہ تجلی وقت کے تاریک روزن میں نہیں

٭٭٭

۵۷

درِ آقا پہ شب و روز کی زنجیر نہیں

درِ آقا پہ شب و روز کی زنجیر نہیں

یہ وہ منزل ہے جہاں وقت عِناں گیر نہیں

٭

جالیاں ، قصرِ سرِ عرش کے دروازے ہیں

گنبدِ سبز سے اونچی کوئی تعمیر نہیں

٭

روز آتی ہے عیادت کو نسیمِ طیبہ

کون کہتا ہے مِری آہ میں تاثیر نہیں

٭

وہ برابر مِری جانب نگراں رہتے ہیں

حادثاتِ متواتر سے میں دل گیر نہیں

٭

للہ الحمد کہ سرکار کی مدحت کے سوا

کچھ مِرے نامۂ اعمال میں تحریر نہیں

٭

خانۂ دل میں بجز جلوۂ محبوبِ خدا

کوئی خاکہ کوئی صورت کوئی تصویر نہیں

٭

سنگِ دیوارِ مصائب سے نہ سر پھوڑ ایاز

درِ اقدس پہ پہنچنے کی یہ تدبیر نہیں

٭٭٭

۵۸

یوں تو ہر اک پھول میں تھا رنگِ رخسارِ چمن

یوں تو ہر اک پھول میں تھا رنگِ رخسارِ چمن

اک گلابِ ہاشمی ہے صرف شہکارِ چمن

٭

آپ کی مرضی جسے چاہیں مدینے میں بلائیں

یعنی ہر غنچہ نہیں ہوتا سزاوارِ چمن

٭

حلقۂ خوابِ نظر ہے سبز گنبد کا خیال

"سرو ہے با وصفِ آزادی گرفتارِ چمن "

٭

ہے تصور میں مدینے کی گلاب افشاں بہار

میرے دروازے تک آ پہنچی ہے دیوارِ چمن

٭

یارِ غارِ مصطفےٰ ، فاروق و عثمان و علی

سروِ رنگ و نور ہے ایک ایک کردارِ چمن

٭

اے بہارِ دینِ فطرت اک نگاہِ گل طراز

بے زرِ گل سرد ہے مدت سے بازارِ چمن

٭

گلشنِ دیں کے خس و خاشاک چنتا ہوں ایاز

برگ و گل کہتے ہیں مجھ کو بار بردارِ چمن

٭٭٭

۵۹

جہاں اُن کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں

جہاں اُن کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں

جبینِ مہ و مہر خم دیکھتے ہیں

٭

محمد کی مدحت متاعِ سخن ہے

ہم انوارِ لوح و قلم دیکھتے ہیں

٭

سلامت دمِ آرزوئے محمد

کہ آباد دل کا حرم دیکھتے ہیں

٭

ہم اہلِ نظر ہر نفس لوحِ دل پر

وہ اسمِ گرامی رقم دیکھتے ہیں

٭

ضیا بار ہے دل میں عشقِ محمد

فروزاں چراغِ حرم دیکھتے ہیں

٭

درِ مصطفےٰ سے سرِ لامکاں تک

دو عالم کے جلوے بہم دیکھتے ہیں

٭

۶۰