ثنائے محمد(ص)

ثنائے محمد(ص)0%

ثنائے محمد(ص) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 70

ثنائے محمد(ص)

مؤلف: ایاز صدیقی
زمرہ جات:

صفحے: 70
مشاہدے: 31165
ڈاؤنلوڈ: 2479

تبصرے:

ثنائے محمد(ص)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 70 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31165 / ڈاؤنلوڈ: 2479
سائز سائز سائز
ثنائے محمد(ص)

ثنائے محمد(ص)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ثنائے محمد(ص)

ایاز صدیقی

ترتیب: مہ جبین، اعجاز عبید

ماخذ: اردو کی برقی کتاب

۳

معجزہ ہے آیۂ والنجم کی تفسیر کا

معجزہ ہے آیۂ والنجم کی تفسیر کا

ایک ایک نقطہ ستارہ ہے مری تحریر کا

٭

آپ کی نسبت ہے مجھ کو باعثِ عزّ و شرف

آپ کی مدحت وسیلہ ہے مری توقیر کا

٭

کس طرح گزریں گے یہ دوری کے روز و شب حضور

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

٭

کب مجھے بلوائیں گے آقا حریمِ قدس میں

خوابِ ہستی منتظر ہے جلوۂ تعبیر کا

٭

آہِ غم دل سے اٹھی اور بابِ رحمت کھل گیا

میں نے دیکھا ہے یہ منظر آہ کی تاثیر کا

٭

جنتِ خوابِ تمنا ہے مدینے کا خیال

شہرِ رنگ و بو علاقہ ہے مری جاگیر کا

٭

خاک ہو کر راہِ طیبہ میں بکھر جاؤں ایاز

یہ حسیں رخ ہے مری تخریب میں تعمیر کا

٭٭٭

۴

دل روضۂ رسولؐ پہ محوِ سجود تھا

دل روضۂ رسولؐ پہ محوِ سجود تھا

پابندیوں کے رخ پہ بھی رنگِ کُشود تھا

٭

آقا نے مجھ کو دامنِ رحمت میں لے لیا

"میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا "

٭

رنگِ شگفتنِ گلِ طیبہ سے پیشتر

بے نام تھی بہار چمن بے نمود تھا

٭

حدِّ نگاہ میں تھیں دو عالم کی وسعتیں

میرے لبوں پہ ذکرِ شہِ ہست و بود تھا

٭

مہکا ہوا تھا ذکرِ محمدؐ سے ہر نَفَس

اُس انجمن میں کس کو سرِ مشک و عود تھا

٭

جبریل سے سنیں شبِ اسرا کی رونقیں

انوار کے حصار میں چرخِ کبود تھا

٭

اللہ رے مدحتِ شہِ لوح و قلم ایاز

تا بامِ عرش وردِ سلام و درود تھا

٭٭٭

۵

دل کو آئینہ دیکھا ، ذہن کو رسا پایا

دل کو آئینہ دیکھا ، ذہن کو رسا پایا

ہم نے اُن کی مدحت میں زیست کا مزہ پایا

٭

بے وسیلۂ احمد زندگی نے کیا پایا

آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا

٭

جس طرف نظر اٹھی آپ ہی نظر آئے

سایہ افگنِ عالم دامنِ عطا پایا

٭

راستے کے پتھر ہوں یا سخن کے نشتر ہوں

آپ کو بہر عالم پیکرِ رضا پایا

٭

کون عرشِ اعظم پر آپ کے سوا پہنچا

کس نے سارے نبیوں میں ایسا مرتبہ پایا

٭

رحمتِ دو عالم سے ہم نے جب کبھی مانگا

ظرف سے سوا مانگا ، مانگ سے سوا پایا

٭

مرحبا ایاز اُن پر لطفِ خالقِ اکبر

تاجِ کُن فکاں سر پر ، عرش زیرِ پا، پایا

٭٭٭

۶

مُنہ سے جب نامِ شہنشاہِ رسولاں نکلا

مُنہ سے جب نامِ شہنشاہِ رسولاں نکلا

خیر مقدم کو دُرودوں کا گلستاں نکلا

٭

بچھ گئی دولتِ کونین مرے رستے میں

میں جو طیبہ کی طرف بے سرو ساماں نکلا

٭

میں تو سمجھا تھا کہ دشوار ہے ہستی کا سفر

اُن کی تعلیم سے یہ کام بھی آساں نکلا

٭

فکرِ مدحت میں جو پہنچا سرِ گلزارِ سخن

ہر گُلِ حرف محمد کا ثنا خواں نکلا

٭

خاک ہو کر ہَدفِ موجِ ہَوا بن جاؤں

درِ آقا کی رسائی کا یہ عنواں نکلا

٭

میرے آئینے میں ہے عشقِ محمد کی جِلا

مجھ سے کترا کے غبارِ غمِ دوراں نکلا

٭

منصبِ ذہن پہ فائز ہوئی جب چشمِ خیال

عشقِ محبوبِ خدا حاصلِ ایماں نکلا

٭

۷

گُلِ توحید کی خوشبو سے مہکتا ہے دماغ

میں بھی منجملۂ خاصانِ گلستاں نکلا

٭

بابِ مدحت میں جو تائیدِ خدا چاہی ایاز

رہنمائی کو ہر اک آیۂ قرآں نکلا

٭٭٭

۸

آنکھیں لہو لہو تھیں ، نہ دل درد درد تھا

آنکھیں لہو لہو تھیں ، نہ دل درد درد تھا

ہجرِ نبی میں ضبط کا انداز فرد تھا

٭

صحرا نشیں و عرشِ معلّٰی نورد تھا

اللہ ! ایک فرد دو عالم میں فرد تھا

٭

اَسرا کی رات مہرِ رسالت کو دیکھ کر

رنگِ نجوم و چہرۂ مہتاب زرد تھا

٭

پل بھر میں بامِ عرش پہ تھا شہسوارِ نور

دامانِ کہکشاں تھا کہ رستے کی گرد تھا

٭

خلدِ نظر تھا گلشنِ سرکار خواب میں

پژ مردہ کوئی گُل نہ کوئی برگ زرد تھا

٭

گریہ سبب ہوا مرے عفوِ گناہ کا

آنکھیں جلیں تو شعلۂ تقصیر سرد تھا

٭

مدحت کے باب میں یہ عجب لطف تھا ایاز

میں خواب میں ، خیالِ مدینہ نورد تھا

٭٭٭

۹

رُخِ ابرِ کرم عنواں ہے میرے بابِ ہجراں کا

رُخِ ابرِ کرم عنواں ہے میرے بابِ ہجراں کا

"مرا ہر داغِ دل اک تخم ہے سروِ چراغاں کا"

٭

قدم چومے ہیں جن ذروں نے خورشیدِ رسالت کے

بیاں کیا کیجیے ان ذرہ ہائے مہر ساماں کا

٭

مرے سرکار کی کملی سے ایسی روشنی پھوٹی

کہ ذروں کو بھی منصب مل گیا مہرِ درخشاں کا

٭

غریبِ دشتِ ہجراں صاحبِ شہرِ طرب ٹھہرا

مدینے مںت کھُلا جوہر مرے شوقِ فراواں کا

٭

بہارِ گنبدِ خضریٰ ، منارِ مسجدِ آقا

مری آنکھوں میں ہر منظر ہے اُس شہرِ درخشاں کا

٭

صدا صلِّ علےٰ کی دَم بہ دَم کانوں میں آتی ہے

غمِ سرکار زخمہ ہے مرے سازِ رگِ جاں کا

٭

خدارا مجھ خزاں دیدہ کو اُس گلشن میں بلوا لو

جہاں ہر وقت رہتا ہے سماں جشنِ بہاراں کا

٭

۱۰

خدا کی حمد ، مدحِ صاحبِ لوح و قلم کیجیے

کہ اک اُمّی معلم ہے دو عالم کے دبستاں کا

٭

ایاز ان کا سراپا ہر نفس نظروں میں رہتا ہے

خیالِ سرورِ دیں آئینہ ہے میرے ایماں کا

٭٭٭

۱۱

ہر گوشہ آسماں ہے زمینِ حجاز کا

ہر گوشہ آسماں ہے زمینِ حجاز کا

حاصل ہے اس نشیب کو رتبہ فراز کا

٭

نورِ خدا ہے شکلِ محمد میں جلوہ گر

آئینہ شاہکار ہے آئینہ ساز کا

٭

کس کو ملا یہ حسنِ شرف آپ کے سوا

محرم ہے اور کون مشیت کے راز کا

٭

دل گونجتا ہے صلِّ علےٰ کی صداؤں سے

یہ نغمہ خلدِ گوش ہے ہستی کے ساز کا

٭

صبحِ ازل سے شامِ ابد تک محیط ہے

دامانِ التفات نگارِ حجاز کا

٭

میرا طواف کرتے ہیں مہر و مہ و نجوم

مدحت سرا ہوں میں شہِ گردوں طراز کا

٭

۱۲

شاہانِ دہر جس کے غلاموں کے ہیں غلام

بندہ ہوں میں اُسی شہِ بندہ نواز کا

٭

میری نظر میں سنّت و فرض ایک ہیں ایاز

آموز گار ایک ہے سب کی نماز کا

٭٭٭

۱۳

آپ آئے ذہن و دل میں آگہی کا در کھلا

آپ آئے ذہن و دل میں آگہی کا در کھلا

جہل نے بازو سمیٹے ، علم کا شہپر کھلا

٭

چاند سورج آپ کی تنویر سے روشن ہوئے

بابِ مغرب وا ہوا ، دروازۂ خاور کھلا

٭

آپ کی بخشش ہے سب پر کیا فرشتے کیا بشر

آپ کا بابِ سخاوت ہے دو عالَم پر کھلا

٭

جب زمیں پر آپ کے قدموں سے بکھری کہکشاں

مقصدِ تکوینِ عالم تب کیںم جا کر کھلا

٭

ہم گنہگاروں کی پردہ پوشیاں ہو جائیں گی

آپ کا دامانِ رحمت جب سرِ محشر کھلا

٭

دل میں جب آیا کبھی عہدِ رسالت کا خیال

ایک منظر وقت کی دیوار کے اندر کھلا

٭

قلبِ مضطر پر کسی نے دستِ تسکیں رکھ دیا

اُن کے سنگِ در پہ اس آئینے کا جوہر کھلا

٭

۱۴

اس کو کہتے ہیں سخاوت یہ سخی کی شان ہے

حرف بھی لب پر نہ آیا ، لطف کا دفتر کھلا

٭

اُس کی مدحت کیا لکھیں گے ہم زمیں والے ایاز

جس شہِ لوح و قلم پر گنبدِ بے در کھلا

٭٭٭

۱۵

اللہ اللہ کیا سفر کیا روح پرور خواب تھا

اللہ اللہ کیا سفر کیا روح پرور خواب تھا

فرشِ ریگِ راہِ طیبہ بسترِ سنجاب تھا

٭

نطقِ جاں شیرینیِ مدحت سے لذت یاب تھا

یہ کتابِ زندگی کا اک درخشاں باب تھا

٭

ارضِ طیبہ پر قدم تو کیا ، نظر جمتی نہ تھی

"ذرہ ذرہ رو کشِ خورشیدِ عالم تاب تھا "

٭

بن گیا اشکِ ندامت میری بخشش کا سبب

بربطِ امید کب سے تشنۂ مضراب تھا

٭

صبح کا تارا حضوری کا پیامی بن گیا

رات ہجرِ مصطفےٰ میں دل بہت بیتاب تھا

٭

آنکھ بیتابِ نظارا تھی نہ دل تھا مضطرب

اُن کے در پر ہر کوئی شائستۂ آداب تھا

٭

اللہ اللہ روبرو ہے گنبدِ خضرا ایاز

بن گیا عینِ حقیقت جو نظر کا خواب تھا

٭٭٭

۱۶

حشر تک شافعِ محشر کا ثنا خواں ہونا

حشر تک شافعِ محشر کا ثنا خواں ہونا

بخشوائے گا مجھے میرا سخنداں ہونا

٭

جلوہ گر ہے مرے خوابوں میں مدینے کی فضا

لے اڑا مجھ کو خیالوں کا پرافشاں ہونا

٭

رشتۂ عشقِ نبی کارِ رفو کرتا ہے

راس آیا مرے دامن کو گریباں ہونا

٭

دامنِ ابرِ کرم نے مرے آنسو پونچھے

تارِ گریہ کو مبارک ہو رگِ جاں ہونا

٭

آپ کے دَم سے دعاؤں کو ملا رنگِ قبول

آپ کے غم نے سکھایا مجھے خنداں ہونا

٭

آپ کے نقشِ کفِ پا کی تجلی سے لیا

ماہ و خورشید و کواکب نے درخشاں ہونا

٭

کاش میں بھی اُنہیں گلیوں میں بکھر جاؤں ایاز

عینِ تسکیں ہے جہاں دل کا پریشاں ہونا

٭٭٭

۱۷

میرے ہاتھوں میں بیاضِ نعت کا شیرازہ تھا

میرے ہاتھوں میں بیاضِ نعت کا شیرازہ تھا

رات اک اُمی لقب کا فیض بے اندازہ تھا

٭

صف بہ صف استادہ تھے سارے فضائل سب علوم

مجھ پہ شہرِ علم کا وا ایک اک دروازہ تھا

٭

بخششیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں

میرے دامن کا اُنہیں پہلے ہی سے اندازہ تھا

٭

آپ دل میں آئے جنت کے دریچے کھل گئے

آپ سے پہلے یہ گھر زندانِ بے دروازہ تھا

٭

میرے دل پر آپ نے جب دستِ رحمت رکھ دیا

میرے حق میں حرفِ شیریں وقت کا دروازہ تھا

٭

آپ کی مدحت سے پہلے ننگ تھا ذوقِ سخن

فکر آوارہ تھی ، برہم ذہن کا شیرازہ تھا

٭

تھا تصور میں شبِ غم گنبدِ خضرا ایاز !

دل کا ایک اک زخمِ نادیدہ گلابِ تازہ تھا

٭٭٭

۱۸

ملا ہے جب سے پروانہ محمدؐ کی گدائی کا

ملا ہے جب سے پروانہ محمدؐ کی گدائی کا

دو عالَم اک علاقہ ہے مری کشور کشائی کا

٭

خدا کی بندگی کرتا ہوں میں اُن کے وسیلے سے

درِ سرکار آئینہ ہے عرشِ کبریائی کا

٭

مری جانب سے اے موجِ صبا آقا سے کہہ دینا

"کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا "

٭

مرے عجزِ سخن پر اُنکی رحمت ناز کرتی ہے

کہ حرفِ جاں حوالہ بن گیا مدحت سرائی کا

٭

ہزاروں سال پہلے آپ عرشِ نور تک پہنچے

ہمیں تو اب خیال آیا ہے تسخیرِ خلائی کا

٭

محبت کار فرما فرش سے عرشِ علیٰ تک ہے

حبیبِ کبریا، محبوب ہے ساری خدائی کا

٭

مری کیا خامہ فرسائی، ایاز اُنکی عنایت ہے

کہ اک عاجز کو حاصل ہے شرف مدحت سرائی کا

٭٭٭

۱۹

مجھ پہ جب لطفِ شہِ کون و مکاں ہو جائے گا

مجھ پہ جب لطفِ شہِ کون و مکاں ہو جائے گا

چرخ سا نا مہرباں بھی مہرباں ہو جائے گا

٭

نامِ نامی آپ کا وردِ زباں ہو جائے گا

دور ہر اندیشۂ سود و زیاں ہو جائے گا

٭

شوقِ دل تنہا چلا ہے جانبِ طیبہ مگر

ہوتے ہوتے ایک دن یہ کارواں ہو جائے گا

٭

اوج بخشے گا مجھے ذکرِ شہِ لوح و قلم

ایک دن عجزِ سخن حسنِ بیاں ہو جائے گا

٭

جب مِرے دل کی زمیں پر آپ رکھیں گے قدم

اس زمیں کا ذرہ ذرہ آسماں ہو جائے گا

٭

گامزن ہو گا زمانہ اسوۂ سرکار پر

راستے کا ذرہ ذرہ کہکشاں ہو جائے گا

٭

ذہن کیا مدحت کرے ممدوحِ داور کی ایاز

بند کیا کوزے میں بحرِ بیکراں ہو جائے گا؟

٭٭٭

۲۰