• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58599 / ڈاؤنلوڈ: 3134
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

خوشامد میں ہم کو وہ قدرت ہے حاصل

کہ انساں ہو ہر طرح کرتے ہیں مائل

کہیں احمقوں کو بناتے ہیں عاقل

کہیں ہوشیاروں کو کرتے ہیں غافل

کسی کو اتارا کسی کو چڑھایا

یونہی سیکڑوں کو اسامی بنایا

***

روایات پر حاشیہ اک چڑھانا

قسم جھوٹے وعدوں پہ سو بار کھانا

اگر مدح کرنا تو حد سے بڑھانا

مذمت پہ آنا تو طوفاں اٹھانا

یہ ہے روزمرہ کا یاں ان کے عنواں

فصاحت میں بے مثل ہیں جو مسلماں

***

اسے جانتے ہیں بڑا اپنا دشمن

ہمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن

نصحتم سے نفرت ہے، ناصح سے اَن بَن

سمجھتے ہیں ہم رہنماؤں کو رہزن

یہی عیب ہے، سب کو کھویا ہے جس نے

ہمیں ناؤ بھر کر ڈبویا ہے جس نے

***

۱۰۱

وہ عہدِ ہمایوں جو خیر القروں تھا

خلافت کا جب تک کہ قائم ستوں تھا

نبوت کا سایہ ابھی رہنموں تھا

سماں خیرو برکت کا ہر دم فزوں تھا

عدالت کے زیور سے تھے سب مزین

پھلا اور پھولا تار احمد کا گلشن

***

۱۰۲

مسدسِ(۲۵)

سعادت بڑی اس زمانہ کی یہ تھی

کہ جھکتی تھی گردن نصتیا پہ سب کی

نہ کرتے تھے خود قول حق سے خموشی

نہ لگتی تھی حق کی انہیں بات کڑوی

غلاموں سے ہو جاتے تھے بند آقا

خلیفہ سے لڑتی تھی ایک ایک بڑھیا

***

نبی نے کہا تھا انہیں فخرِ امت

جنہیں خلد کی مل چکی تھی بشارت

مسلم تھی عالم میں جن کی عدالت

رہا مفتخر جن سے تختِ خلافت

وہ پھرتے تھے راتوں کو چھپ چھپ کے در در

وہ شرمائیں اپنا کہیں عیب سن کر

***

مگر ہم کہ ہیں دام و درہم سے بہتر

نہ ظاہر کہیں ہم میں خوبی نہ مضمر

نہ اقران و امثال میں ہم موقر

نہ اجداد و اسلاف کے ہم میں جوہر

نصیحت سے ایسا برا مانتے ہیں

کہ گویا ہم اپنے کو پہچانتے ہیں

***

۱۰۳

نبوت نہ گر ختم ہوتی عرب پر

کوئی ہم پہ مبعوث ہوتا پیمبر

تو ہے جیسے مذکورہ قرآں کے اندر

ضلالت یہود اور نصاریٰ کی اکثر

یونہی جو کتاب اس پیمبر پہ آتی

وہ گمراہیاں سب ہماری جتاتی

***

ہنر ہم میں جو ہیں وہ معلوم ہیں سب

علوم اور کمالات معدوم ہیں سب

چلن اور اطوار مذموم ہیں سب

فراغت سے دولت سے محروم ہیں سب

جہالت نہیں چھوڑتی ساتھ دم بھر

تعصب نہیں بڑھنے دیتا قدم بھر

***

وہ تقویمِ پارینہ یونانیوں کی

وہ حکمت کہ ہے ایک دھو کے کی ٹٹی

یقیں جس کو ٹھہرا چکا ہے نکمی

عمل نے جسے کر دیا آ کے ردی

اسے وحی سے سمجھے ہیں ہم زیادہ

کوئی بات اس میں نہیں کم زیادہ

***

۱۰۴

زبور اور توریت و انجیل و قرآں

بالا جماع ہیں قابلِ نسخ و نسیاں

مگر لکھ گئے جو اصول اہلِ یوناں

نہیں نسخ و تبدیل کا ان میں امکاں

نہیں مٹتے جب تک کہ آثار دنیا

مٹے گا کبھی کوئی شوشہ نہ ان کا

***

نتائج ہیں جو مغربی علم و فن کے

وہ ہیں ہند میں جلوہ گر سو برس سے

تعصب نے لیکن یہ ڈالے ہیں پردے

کہ ہم حق کا جلوہ نہیں دیکھ سکتے

دلوں پر ہیں نقش اہل یوناں کی رائیں

جواب وحی اترے تو ایماں نہ لائیں

***

اب اس فلسفہ پر جو ہیں مرنے والے

شفا اور مجسطی کے دم بھرنے والے

ارسطو کی چوکھٹ پہ سر دھرنے والے

فلاطون کی اقتدا کرنے والے

وہ تیلی کے کچھ بیل سے کم نہیں ہیں

پھرے عمر بھر اور جہاں تھے وہیں ہیں

***

۱۰۵

وہ جب کر چکے ختم تحصیلِ حکمت

بندھی سر پہ دستارِ علم و فضیلت

اگر رکھتے ہیں کچھ طبعیت میں جودت

تو ہے سب ان کی بڑی یہ لیاقت

کہ گردن کو وہ رات کہہ دیں زباں سے

تو منوا کے چھوڑیں اسے اک جہاں سے

***

۱۰۶

مسدسِ(۲۶)

سوا اس کے جو آئے اس کو پڑھا ویں

انہیں جو کچھ آتا ہے اس کو بتا ویں

وہ سیکھے ہیں جو بولیاں سب سکھا ویں

میاں مٹھو اپنا سا اس کو بنا ویں

یہ لے دے کے ہے علم کا ن کے حاصل

اسی پر ہے فخر ان کو بین الاماثل

***

نہ سرکار میں کام پانے کے قابل

نہ دربار میں لب ہلانے کے قابل

نہ جنگل میں ریوڑ چرانے کے قابل

نہ بازار میں بوجھ اٹھانے کے قابل

نہ پڑھتے تو سو طرح کھاتے کما کر

وہ کھوئے گئے اور تعلیم پاکر

***

جو پوچھو کہ حضرت نے جو کچھ پڑھا ہے

مراد آپ کی اس کے پڑھنے سے کیا ہے

مفاد اس میں دنیا کا یا دین کا ہے

نتیجہ کوئی یا کہ اس کے سوا ہے

تو مجذوب کی طرح سب کچھ بکیں گے

جواب اس کا لیکن نہ کچھ دے سکیں گے

***

۱۰۷

نہ حجت رسالت پہ لا سکتے ہیں وہ

نہ اسلام کا حق جتا سکتے ہیں وہ

نہ قرآں کی عظمت دکھا سکتے ہیں وہ

نہ حق کی حقیقت بتا سکتے ہیں وہ

دلیلیں ہیں سب آج بے کار ان کی

نہیں چلتی توپوں میں تلوار ان کی

***

پڑے اس مشقت میں ہیں وہ سراپا

نتیجہ نہیں ان کو معلوم جس کا

گئیں بھول آگے کی بھیڑیں جو بیٹا

اسی راہ پر پڑ لیا سارا گلا

نہیں جانتے یہ کہ جاتے کدھر ہیں

گئے بھول رستہ وہ یا راہ پر ہیں

***

مثال ان کی کوشش کی ہے صاف ایسی

کہ کھائی کہیں بندروں نے جو سردی

ادھر اور ادھر دیر تک آگ ڈھونڈی

کہیں روشنی ان کو پائی نہ اس کی

مگر ایک جگنو چمکتا جو دیکھا

پتنگا اسے آگ کا سب نے سمجھا

***

۱۰۸

لیا جا کے تھام اور سب نے اسی دم

کیا گھانس پھونس اس پہ لا کر فراہم

لگے اس کو سلگانے سب مل کے پیہم

پہ کچھ آگ سلگی نہ سردی ہوئی کم

یونہی رات ساری انہوں نے گنوائی

مگر اپنی محنت کی راحت نہ پائی

***

گزرتے تھے جو جانور اس طرف سے

جب اس کشمکش میں انہیں دیکھتے تھے

ملامت بہت سخت تھے ان کو کرتے

کہ شرمائیں وہ زعم باطل سے اپنے

مگر اپنی کد سے نہ باز آتے تھے وہ

ملامت پہ اور الٹے غراتے تھے وہ

***

نہ سمجھے وہ جب تک ہوا دن نہ روشن

اسی طرح جو ہیں حقیقت کے دشمن

نہ جھاڑیں گے گرد تو ہم سے دامن

پہ جب ہو گا نور سحر لمعہ افگن

بہت جلد ہو جائے گا آشکارا

کہ جگنو کو سمجھے تھے وہ اک شرارا

***

۱۰۹

وہ طب جس پہ غش ہیں ہمارے اطباء

سمجھتے ہیں جس کو بیاضِ مسیحا

بتانے میں ہے بخل جس کے بہت سا

جسے عیب کی طرح کرتے ہیں اخفا

فقط چند نسخوں کا ہے وہ سفینہ

چلے آئے ہیں جو کہ سینہ بسینہ

***

۱۱۰

مسدسِ (۲۷)

نہ ان کو نباتات سے آگہی ہے

نہ اصلا خبر معدنیات کی ہے

نہ تشریح کی لے کسی پر کھلی ہے

نہ علمِ طبیعی نہ کیمسٹری ہے

نہ پانی کا علم اور نہ علمِ ہوا ہے

مریضوں کا ان کے نگہباں خدا ہے

***

نہ قانون میں ان کے کوئی خطا ہے

نہ مخزن میں انگشت رکھنے کی جا ہے

سیدی میں لکھا ہے جو کچھ بجا ہے

نفیسی کے ہر قول پر جاں فدا ہے

سلف لکھ گئے جو قیاس اور گماں سے

صحیفے ہیں اترے ہوئے آسماں سے

***

وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر

عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر

زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر

ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر

ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا

وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا

***

۱۱۱

برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے

عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے

تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے

مقر جہاں نیک و بد کی سزا ہے

گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے

جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

***

زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں

کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور ہیں

گویے امیروں کے نورِ نظر ہیں

ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں

مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا ہیں

خدا جانے وہ کس مرض کی دوا ہیں

***

جو سقے نہ ہوں جی سے جائیں گزر سب

ہو میلا جہاں گم ہوں دھوبی اگر سب

بنے دم پہ گر شہر چھوڑیں نفر سب

جو تھڑ جائیں مہتر تو گندے ہوں گھر سب

پہ کر جائیں ہجرت جو شاعر ہمارے

کہیں مل کے " خس کم جہاں پاک" سارے

***

۱۱۲

عرب جو تھے دنیا میں اس فن کے بانی

نہ تھا کوئی آفاق میں جن کا ثانی

زمانہ نے جن کی فصاحت تھی مانی

مٹا دی عزیزوں نے ان کی نشانی

سب ان کے ہنر اور کمالات کھو کر

رہے شاعری کو بھی آخر ڈبو کر

***

ادب میں پڑی جان ان کی زباں سے

جلا دین نے پائی ان کے بیاں سے

سناں کے لیے کام انہوں نے لساں سے

زبانوں کے کوچے تھے بڑھ کر سناں سے

ہوئے ان کے شعروں سے اخلاق صیقل

پڑی ان کے خطبوں سے عالم میں ہلچل

***

خلف ان کے یاں جو کہ جادو بیاں ہیں

فصاحت میں مقبول پیر و جواں ہیں

بلاغت میں مشہور ہندوستاں ہیں

وہ کچھ ہیں تولے دیکے اس گوں کے یاں ہیں

کہ جب شعر میں عمر ساری گنوائیں

تو بھانڈ ان کی غزلیں مجالس میں گائیں

***

۱۱۳

طوائف کو از بر ہیں دیوان ان کے

گویوں پے بے حد ہیں احسان ان کے

نکلتے ہیں تکیوں میں ارمان ان کے

ثنا خواں ہیں ابلیس و شیطان ان کے

کہ عقلوں پہ پردے دیئے ڈال انہوں نے

ہمیں کر دیا فارغ البال انہوں نے

***

۱۱۴

مسدسِ (۲۸)

شریفوں کی اولاد بے تربیت ہے

تباہ ان کی حالت بری ان کی گت ہے

کسی کو کبوتر اڑنے کی لت ہے

کسی کو بٹیریں لڑانے کی دھت ہے

چرس اور گانجے پہ شیدا ہے کوئی

مدک اور چنڈو کا رسیا ہے کوئی

***

سدا گرم انفار سے ان کی صحبت

ہر اک رند اوباش سے ان کی ملت

پڑھے لکھوں کے سایہ سے ان کو وحشت

مدارس سے تعلیم سے ان کو نفرت

کمینوں کے جرگے میں عمریں گنوانی

انہیں گالیاں دینی اور آپ کھانی

***

نہ علمی مدارس میں ہیں ان کو پاتے

نہ شائتہم جلسوں میں ہیں آتے جاتے

پہ میلوں کی رونق ہیں جا کر بڑھاتے

پڑے پھرتے ہیں دیکھتے اور دکھاتے

کتاب اور معلم سے پھرتے ہیں بھاگے

مگر ناچ گانے میں ہیں سب سے آگے

***

۱۱۵

اگر کیجئے ان پاک شہدوں کی گنتی

ہوا جن کے پہلو سے بچ کر ہے چلتی

ملی خاک میں جن سے عزت بڑوں کی

مٹی خاندانوں کی جن سے بزرگی

تو یہ جس قدر خانہ برباد ہونگے

وہ سب ان شریفوں کی اولاد ہونگے

***

ہوئی ان کی بچپن میں یوں پاسبانی

کہ قیدی کی جیسے کٹے زندگانی

لگی ہونے جب کچھ سمجھ بوجھ سیانی

چڑھی بھوت کی طرح سر پر جوانی

بس اب گھر میں دشوار تھمنا ہے ان کا

اکھاڑوں میں تکیوں میں رمنا ہے ان کا

***

نشہ میں مئے عشق کے چور ہیں وہ

صفِ فوجِ مژگاں میں محصور ہیں وہ

غمِ چشم و ابرو میں رنجور ہیں وہ

بہت ہات سے دل کے مجبور ہیں وہ

کریں کیا کہ ہے عشق طینت میں ان کی

حرارت بھری ہے طبعیت میں ان کی

***

۱۱۶

اگر شش جہت میں کوئی دلربا ہے

تو دل ان کا نادیدہ اس پر فدا ہے

اگر خواب میں کچھ نظر آگیا ہے

تو یاد اس کی دن رات نامِ خدا ہے

بھری سب کی وحشت سے روداد ہے یاں

جسے دیکھئے قیس و فرہاد ہے یاں

***

اگر ماں ہے دکھیا تو ان کی بلا سے

اپاہج ہے باوا تو ان کی بلا سے

جو ہے گھر میں فاقہ ان کی بلا سے

جو مرتا ہے کنبا تو ان کی بلا سے

جنہوں نے لگائی ہو لو دلربا سے

غرض پھر انہیں کیا رہی ماسوا سے

***

نہ گالی سے دشنام سے جی چرائیں

نہ جوتی سے پیزار سے ہچکچائیں

جو میلوں میں جائیں تو لچپن دکھائیں

جو محفل میں بیٹھیں تو فتنے اٹھائیں

لرزتے ہیں اوباش ان کی ہنسی سے

گریزاں ہیں رندان کی ہمسائیگی سے

***

۱۱۷

سپوتوں کو اپنے اگر بیاہ دیجے

تو بہوؤں کا بوجھ اپنی گردن پہ لیجے

جو بیٹی کے پیوند کی فکر کیجئے

تو بد راہ ہیں بھانجے اور بھتیجے

یہی جھینکنا کو بہ کو گھر بہ گھر ہے

بہو کو ٹھکانہ نہ بیٹی کو بر ہے

***

۱۱۸

مسدسِ (۲۹)

نہ مطلب نگاری کا ان کو سلیقہ

نہ دربار داری کا ان کو سلیقہ

نہ امید واری کا ان کو سلیقہ

نہ خدمت گزاری کا ان کو سلیقہ

قلی یا نفر ہو تو کچھ کام آئے

مگر ان کو کس مد میں کوئی کھپائے

***

نہیں ملتی روٹی جنہیں پیٹ بھر کے

وہ گزرا ان کرتے ہیں سو عیب کر کے

جو ہیں ان میں دوچار آسودہ گھر کے

وہ دن رات خواہاں ہین مرگِ پدر کے

نمونے یہ اعیان و اشراف کے ہیں

سلف ان کے وہ تھے خلف ان کے یہ ہیں

***

وہ اسلام کی پود شاید یہی ہے

کہ جس کی طرف آنکھ سب کی لگی ہے

بہت جس سے آئندہ چشمِ بہی ہے

بقا منحصر جس پہ اسلام کی ہے

یہی جان ڈالے گی باغِ کہن میں ؟

اسی سے بہار آئے گی اس چمن میں ؟

***

۱۱۹

یہی ہیں وہ نسلیں مبارک ہماری؟

کہ بخشیں گی جو دین کو استواری؟

کریں گی یہی قوم کی غم گساری؟

انہیں پر امیدیں ہیں موقوف ساری؟

یہی شمعِ اسلام روشن کریں گی؟

بڑوں کا یہی نام روشن کریں گی؟

***

خلف ان کے الحق اگر یاں یہی ہیں

سلف کے اگر فاتحہ خواں یہی ہیں

اگر یاد گارِ عزیزاں یہی ہیں

اگر نسلِ اشراف و اعیاں یہی ہیں

تو یاد اس قدر ان کی رہ جائے گی یاں

کہ اک قوم رہتی تھی اس نام کی یاں

***

سمجھتے ہیں شائستہ جو آپ کو یاں

ہیں آزادیِ رائے پر جو کہ نازاں

چلن پر ہیں جو قوم کے اپنی خنداں

مسلماں ہیں سب جن کے نزدیک ناداں

جو ڈھونڈو گے یاروں کے ہمدرد ان میں

تو نکلیں گے تھوڑے جوانمرد ان میں

***

۱۲۰