• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58614 / ڈاؤنلوڈ: 3134
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

نہ رنج ان کے افلاس کا ان کو اصلا

نہ فکر ان کی تعلیم اور تربیت کا

نہ کوشش کہ ہمت نہ دینے کو پیسا

اڑانا مگر مفت ایک اک کا خاکا

کہیں ان کی پوشاک پر طعن کرنا

کہیں ان کی خوراک کو نام دھرنا

***

عزیزوں کی جس بات میں عیب پانا

نشانہ اسے پھبتیوں کا بنانا

شماتت سے دل بھائیوں کا دکھانا

یگانوں کو بیگانہ بن کر چڑانا

نہ کچھ درد کی چوٹ ان کے جگر میں

نہ قطرہ کوئی خون کا چشمِ تر میں

***

جہاز ایک گرداب میں پھنس رہا ہے

پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا بڑا ہے

نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی جا ہے

کوئی ان میں سوتا کوئی جاگتا ہے

جو سوتے ہیں وہ مست خواب گراں ہیں

جو بیدار ہیں ان پہ خندہ زناں ہیں

***

۱۲۱

کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہوش والو

کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو

برا وقت بیڑے پہ آنے کو ہے جو

نہ چھوڑے گا سوتوں کو اور جاگتوں کو

بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے

اگر ناؤ ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے

***

۱۲۲

مسدسِ (۳۰)

غرض عیب کیجئے بیاں اپنا کیا کیا

کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا

فقیر اور جاہل ضعیف اور توانا

تاسف کے قابل ہے احوال سب کا

مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں

بگڑ کر کبھی جو نہ سںبھلی وہ ہم میں

***

کسی نے یہ اک مردِ دانا سے پوچھا

کہ " نعمت ہے دنیا میں سب سے بڑی کیا؟"

کہا" عقل جس سے ملے دین و دنیا"

کہا " گر نہ ہو اس سے انساں کو بہرا"

کہا " پھر اہم سب سے علم و ہنر ہے

کہ جو باعثِ افتخارِ بشر ہے"

***

کہا " گر نہ ہو یہ بھی اس کو میسر"

کہا" مال و دولت ہے، پھر سب سے بڑھ کر"

کہا" در ہو یہ بھی اگر بند اس پر"

کہا" اس پہ بجلی کا گرنا ہے بہتر"

وہ ننگِ بشر تاکہ ذلت سے چھوٹے

خلائق سب اس کی نحوست سے چھوٹے"

***

۱۲۳

مجھے ڈر ہے اے میرے ہم قوم یارو

مبادا کہ وہ ننگِ عالم تمہیں ہو

گر اسلام کی کچھ حمیت ہے تم کو

تو جلدی سے اٹھو اور اپنی خبر لو

وگر نہ یہ قول آئے گا راست تم پر

کہ ہونے سے ان کا نہ ہونا ہے بہتر

***

رہو گے یونہی فارغ البال کب تک

نہ بدلو گے یہ چال اور ڈھال کب تک

رہے گی نئی پود پامال کب تک

نہ چھوڑو گے تم بھیڑیا چال کب تک

بس اگلے فسانے فراموش کر دو

تعصب کے شعلے کو خاموش کر دو

***

حکومت نے آزادیاں تم کو دی ہیں

ترقی کی راہیں سراسر کھلی ہیں

صدائیں یہ ہر سمت سے آ رہی ہیں

کہ راجا سے پرجا تلک سب سکھی ہیں

تسلط ہے ملکوں میں امن و اماں کا

نہیں بند رستہ کسی کارواں کا

***

۱۲۴

نہ بد خواہ ہے دین و ایماں کا کوئی

نہ دشمن حدیث اور قرآں کا کوئی

نہ ناقص ہے ملت کے ارکاں کا کوئی

نہ مانع شریعت کے فرماں کا کوئی

نمازیں پڑھو بے خطر معبدوں میں

اذانیں دھڑلے سے دو مسجدوں میں

***

کھلی ہیں سفر اور تجارت کی راہیں

نہیں بند صنعت کی حرفت کی راہیں

جو روشن ہیں تحصیلِ حکمت کی راہیں

تو ہموار ہیں کسبِ دولت کی راہیں

نہ گھر غنیم اور دشمن کا کھٹکا

نہ باہر ہے قزاق و رہزن کا کھٹکا

***

مہینوں کے کٹتے ہیں رستے پلوں میں

گھروں سے سوا چین ہے منزلوں میں

ہر اک گوشہ گلزار ہے جنگلوں میں

شب و روز ہے ایمنی قافلوں میں

سفر جو کھیے تھا نمونہ سقر کا

وسیلہ ہے وہ اب سراسر ظفر کا

***

۱۲۵

پہنچتی ہیں ملکوں میں دم دم کی خبریں

چلی آتی ہیں شادی و غم کی خبریں

عیاں ہیں ہر اک بر اعظم کی خبریں

کھلی ہیں زمانہ پہ عالم کی خبریں

نہیں واقعہ کوئی پنہاں کہیں کا

ہے آئینہ احوالِ روئے زمیں کا

***

۱۲۶

مسدسِ (۳۱)

کرو قدر اس امن و آزادگی کی

کہ ہے صاف ہر سمت راہِ ترقی

ہر اک راہ رو کا زمانہ ہے ساتھی

یہ ہر سو سے آوازِ پیہم ہے آتی

کہ دشمن کا کھٹکا نہ رہزن کا ڈر سے

نکل جاؤ رستہ ابھی بے خطر ہے

***

بہت قافلے دیر سے جا رہے ہیں

بہت بوجھ بار اپنے لدوا رہے ہیں

بہت چل چلاؤ میں گھبرا رہے ہیں

بہت سے نہ چلنے سے پچتا رہے ہیں

مگر اک تمہیں ہو کہ سوتے ہو غافل

مبادا کہ غفلت میں کھوٹی ہو منزل

***

نہ بد خواہ سمجھو بس اب یاروں کو

لٹیرے نہ ٹھرماؤ تم رہبروں کو

دو الزام پیچھے نصیحت گروں کو

ٹٹولو ذرا پہلے اپنے گھروں کو

کہ خالی ہیں یا پر ذخیرے تمہارے

برے ہیں کہ اچھے و تیر تمامرے

***

۱۲۷

امیروں کی تم سن چلے داستاں سب

چلن ہو چکے عالموں کے بیاں سب

شریفوں کی حالت ہے، تم پر عیاں سب

بگڑنے کو تیار بیٹھے ہیں یاں سب

یہ بوسیدہ گھر اب گرا کا گرا ہے

ستوں مرکزِ ثقل سے ہٹ چکا ہے

***

یہ جو کچھ ہوا ایک شمّہ ہے اس کا

کہ جو وقت یاروں پہ ہے آنے والا

زمانہ نے اونچے سے جس کو گرایا

وہ آخر کو مٹی میں مل کر رہے گا

نہیں گرچہ کچھ قوم میں حال باقی

ابھی اور ہونا ہے پامال باقی

***

یہاں ہر ترقی کی غایت یہی ہے

سر انجام ہر قوم و ملت یہی ہے

سدا سے زمانہ کی عادت یہی ہے

طلسمِ جہاں کی حقیقت یہی ہے

بہت یاں ہوئے خشک چشمے ابل کر

بہت باغ چھانٹے گئے پھول پھل کر

***

۱۲۸

کہاں ہیں وہ اہرامِ مصری کے بانی

کہاں ہیں وہ گردانِ زابلستانی

گئے پیشدادی کدھر اور کیانی

مٹا کر رہی سب کو دنیائے فانی

لگاؤ کہیں کھوج کلدانیوں کا

بتاؤ نشاں کوئی ساسانیوں کا

***

وہی ایک ہے جس کو دایم بقا ہے

جہاں کی وراثت اسی کو سزا ہے

سوا اس کے انجام سب کا فنا ہے

نہ کوئی رہے گا نہ کوئی رہا ہے

مسافر یہاں ہیں فقیر اور غنی سب

غلام اور آزاد ہیں رفتنی سب

***

۱۲۹

مسدسِ (۳۲)

ضمیمہ

بس اے ناامیدی نہ یوں دل بجھا تو

جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو

ذرا نا امیدوں کی ڈھارس بندھا تو

فسردہ دلوں کے دل آ کر بڑھا تو

ترے دم سے مردوں میں جانںڈ پڑی ہیں

جلی کھیتیاں تو نے سر سبز کی ہیں

***

زلیخا کی غمخوار ہجراں میں تو تھی

دل آرام یوسف کی زنداں مں تو تھی

مصائب نے جب آن کر ان کو گھیرا

سہارا وہاں سبکو تھا اک تیرا

***

بہت ڈوبتوں کو ترایا ہے تو نے

بگڑتوں کو اکثر بنایا ہے تو نے

اکھڑتے دلوں کو جمایا ہے تو نے

اجڑتے گھروں کو بسایا ہے تو نے

بہت تو نے پستوں کو بالا کیا ہے

اندھیرے میں اکثر اجالا کیا ہے

***

۱۳۰

قومی تجھ سے ہمت ہے پیرو جواں کی

بندھی تجھ سے ڈھارس ہے خرد و کلاں کی

تجھی پر ہے بنیاد نظمِ جہاں کی

نہ ہو تو تو رونق نہ ہو اس دکاں کی

تگا پو ہے ہر مرحلے میں تجھی سے

روا رو ہے ہر قافلے میں تجھی سے

***

کسانوں سے کلر میں ہے تو بواتی

جہازوں کو گرداب میں ہے کھواتی

سکندر کو دارا پہ ہے تو چڑھاتی

فریدوں کا ضحاک سے ہے لڑاتی

چلے سب جدھر تو نے مائل عناں کی

نظر تیری سیٹی پہ ہے کارواں کی

***

نوازا بہت بے نواؤں کو تو نے

تو نگر بنایا گداؤں کو تو نے

دیا دسترس نا رساؤں کو تو نے

کیا بادشہ ناخداؤں کو تو نے

سکندر کو شانِ کئی تو نے بخشی

کلمبس کو دنیا نئی تو نے بخشی

***

۱۳۱

وہ رہرو نہیں رکھتے جو کوئی ساماں

خورو زاد سے جن کا خالی ہے داماں

نہ ساتھی کوئی جس سے منزل ہو آساں

نہ محرم کوئی جو سنے درد پنہاں

ترے بل پہ خوش خوش ہیں اس طرح جاتے

کہ جا کر خزانہ ہیں اب کوئی پاتے

***

زمیں جو تنے کو جب اٹھتا ہے جوتا

سمیں کا گمان تک نہیں جب کہ ہوتا

شب و روز محنت میں ہے جان کھوتا

مہینوں نہیں پاؤں پھیلا کے سوتا

اگر موجزن اس کے دل میں نہ تو ہو

تو دنیا میں غل جوک کا چار سو ہو

***

بنے اس سے بھی گر سوا اپنے دم پر

بلاؤں کا ہو سامنا ہر قدم پر

پہاڑ اک فزوں اور ہر کوہ غم پر

گزرتی ہو جو کچھ گزر جائے ہم پر

نہیں فکر تو دل بڑھاتی ہے جب تک

دماغوں میں بو تیری آتی ہے جب تک

***

۱۳۲

یہ سچ ہے کہ حالت ہماری زبوں ہے

عزیزوں کی غفلت وہی جوں کی توں ہے

جہالت وہی قوم کی رہنموں ہے

تعصب کی گردن پہ ملت کا خوں ہے

مگر اے امید اک سہارا ہے تیرا

کہ جلوہ یہ دنیا میں سارا ہے تیرا

***

نہیں قوم میں گرچہ کچھ جان باقی

نہ اس میں وہ اسلام کی شان باقی

نہ وہ جاہ و حشمت کے سامان باقی

پر اس حال میں بھی ہے اک آن باقی

بگڑنے کا گو ان کے وقت آگیا ہے

مگر اس بگڑنے میں بھی اک ادا ہے

***

۱۳۳

مسدسِ (۳۳)

بہت ہیں ابھی جن میں غیرت ہے باقی

دلیری نہیں پر حمیت ہے باقی

فقیری میں بھی بوئے ثروت ہے باقی

تہی دست ہیں پر مروت ہے، باقی

مٹے پر بھی پندار ہستی وہی ہے

مکاں گرم ہے آگ گو بجھ گئی ہے

***

سمجھتے ہیں عزت کو دولت سے بہتر

فقیری کو ذات کی شہرت سے بہتر

گلیمِ قناعت کو ثروت سے بہتر

انہیں موت ہے بارِ منت سے بہتر

سر ان کا نہیں در بدر جھکنے والا

وہ خود پست ہیں پر نگاہیں ہیں بالا

***

مشابہ ہے قوم اس مریضِ جواں سے

کیا ضعف نے جس کو مایوس جاں سے

نہ بستر سے حرکت نہ جنبش مکاں سے

اجل کے ہیں آثار جس پر عیاں سے

نظر آتے ہیں سب مرض جس کے مزمن

نہیں کوئی مہلک مرض اس کو لیکن

***

۱۳۴

بجا ہیں حواس اس کے اور ہوش قائم

طبعیت میں میل خور و نوش قائم

دماغ اور دل چشم اور گوش قائم

جونی کا پندار اور جوش قائم

کرے کوئی اس کی اگر غور کامل

عجب کیا جو ہو جائے زندوں میں شامل

***

عیاں سب پہ احوال بیمار کا ہے

کہ تیل اس میں جو کچھ تھا سب جل چکا ہے

موافق دوا ہے نہ کوئی غذا ہے

ہزالِ بدن ہے زوالِ قویٰ ہے

مگر ہے ابھی یہ دیا ٹمٹماتا

بجھا جو کہ ہے یاں نظر سب کو آتا

***

یہ سچ ہے کہ ہے قوم میں قحطِ انساں

نہیں قوم کے ہیں سب افراد یکساں

سفال و خزف کے ہیں انبار گریاں

جواہر کے ٹکڑے بھی ہیں ان میں پنہاں

چھپے سنگریزوں میں گوہر بھی ہیں کچھ

ملے ریت میں ریزۂ زر بھی ہیں کچھ

***

۱۳۵

جو چاہیں پلٹ دیں یہی سب کی کایا

کہ ایک اک نے ملکوں کو ہے یاں جگایا

اکیلوں نے ہے قافلوں کو بچایا

جہازوں کو ہے زورقوں نے ترایا

یونہی کام دنیا کا چلتا رہا ہے

دیے سے دیا یونہی جلتا رہا ہے

***

یہ سچ ہے کہ بیشتر ہم میں ناداں

نہیں جن کے دردِ تعصب کا درماں

جہاں میں ہیں جوان کی عزت کے خواہاں

انہیں سے وہ رہتے ہیں دست و گریباں

پہ ایسے بھی کچھ ہوتے جاتے ہیں پیدا

کہ جو خیر خواہوں پہ ہیں اپنے شیدا

***

کوئی خیر خواہی میں ہے ہمسر ان کا

کوئی دست و بازو سے ہے یاور ان کا

کوئی ہے زباں سے ستائش گر ان کا

بہت رکھتے ہیں نقش جب دل پر ان کا

بہت ان کے گن سنتے ہیں چپکے چپکے

بہت سن کے سر دھنتے ہیں چپکے چپکے

***

۱۳۶

بہت دن سے دریا کا پانی کھڑا تھا

تموج کا جس میں نہ ہر گز پتا تھا

تغیر سے یہ حال اس کا ہوا تھا

کہ مکروہ تھی بو تو کڑوا مزا تھا

ہوئی تھی یہ پانی سے زائل روانی

کہ مشکل سے کہہ سکتے تھے اس کو پانی

***

۱۳۷

مسدسِ (۳۴)

پر اب اس میں رو کچھ کچھ آنے لگی ہے

کناروں کو اس کے ہلانے لگی ہے

ہوا بلبلے کچھ اٹھانے لگی ہے

عفونت وہ پانی سے جانے لگی ہے

اگر ہو نہ یہ انقلاب اتفاقی

تو دریا میں بس اک تموج ہے باقی

***

حوادث نے ان کو ڈرایا ہے کچھ کچھ

مصائب نے نیچا دکھایا ہے کچھ کچھ

ضرورت نے رستہ بتایا ہے کچھ کچھ

زمانے کے غل نے جگایا ہے کچھ کچھ

ذرا دست و بازو ہلانے لگے ہیں

وہ سوتے میں کچھ کلبلانے لگے ہیں

***

رہِ راست پر ہیں وہ کچھ آتے جاتے

تعلی سے ہیں اپنی شرماتے جاتے

تفاخر سے ہیں اپنے پچتاتے جاتے

سراغ اپنا کچھ کچھ ہیں وہ پاتے جاتے

بزرگی کے دعووں سے پھرنے لگے ہیں

وہ خود اپنی نظروں سے گرنے لگے ہیں

***

۱۳۸

نہیں گھاٹ پر گو ترقی کے آتے

نئی بات سے ناک بھوں ہیں چڑھاتے

نئی روشنی سے ہیں آنکھیں چراتے

مگر ساتھ ہی یہ بھی ہیں کہتے جاتے

کہ دنیا نہیں گر چہ رہنے کے قابل

پر اس طرح دنیا میں رہنا ہے مشکل

***

تنزل پہ وہ ہاتھ ملنے لگے ہیں

کچھ اس سوز سے جی پگھلنے لگے ہیں

دھوئیں کچھ دلوں سے نکلنے لگے ہیں

کچھ آرے سے سینوں پہ چلنے لگے ہیں

وہ غفلت کی راتیں گزرنے کو ہیں اب

نشے جو چڑھے تھے اترنے کو ہیں اب

***

نہیں گرچہ کچھ دردِ اسلام ان کو

نہ بہبودیِ قوم سے کام ان کو

نہ کچھ فکرِ آغاز و انجام ان کو

برابر ہے ہو صبح یا شام ان کو

مگر قوم کی سن کے کوئی مصیبت

انہیں کچھ نہ کچھ آ ہی جاتی ہے رقت

***

۱۳۹

خصومت سے ہیں اپنی گو خواریاں سب

نزاعوں سے باہم کے ہیں ناتواں سب

خود آپس کی چوٹوں سے ہیں خستہ جاں سب

پہ ہیں متفق اس پہ پیرو جواں سب

کہ نا اتفاقی نے کھویا ہے ہم کو

اسی جزر و مد نے ڈبویا ہے ہم کو

***

یہ مانا کہ کہ ہم میں ہیں ایسے دانا

جنہوں نے حقیقت کو ہے اپنی چھانا

تنزل کو ہے ٹھیک ٹھیک اپنے جانا

کہ ہم ہیں کہاں اور کہاں ہے زمانا

یہ اتنا زبانوں پہ ہے سب کی جاری

کہ حالت بری آج کل ہے ہماری

***

فرائض میں گو دین کے سب ہیں قاصر

نہ مشغول باطن نہ پابند ظاہر

مساجد سے غائب ملا ہی میں حاضر

مگر ایسے فاسق ہیں ان میں نہ فاجر

کہ مذہب پہ حملے ہیں جوہر طرف سے

وہ دیکھ ان کو ہٹ جائیں راہِ سلف سے

***

۱۴۰