• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58633 / ڈاؤنلوڈ: 3134
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

کوئی ان میں ہے حق کی طاعت پہ مفتوں

کوئی نامِ حق کی اشاعت پہ مفتوں

کوئی زہد و صبر و قناعت پہ مفتوں

کوئی پند و وعظِ جماعت پہ مفتوں

کوئی موج سے آپ کو ہے بچاتا

کوئی ناؤ ہے ڈوبتوں کی تراتا

***

بہت نوعِ انساں کے غمخوار و یاور

ہوا خواہِ ملت بہ اندیشِ کشور

شدائد کے دریائے خوں میں شناور

جہاں کی پر آشوب کشتی کے لنگر

ہر اک قوم کی ہست و بود ان سے ہے یاں

سب اس انجمن کی نمود ان سے ہے یاں

***

کسی پر سختی صعوبت ہے ان پر

کسی کو غم و رنج و کلفت ہے ان پر

کہیں ہو فلاکت مصیبت ہے ان پر

کہیں آئے آفت قیامت ہے ان پر

کسی پر چلیں تیرا آماج ہیں یہ

لٹے کوئی رہ گیر تاراج ہیں یہ

***

۱۶۱

یہ ہیں حشر تک بات پر اڑانے والے

یہ پیماں کو میخوں سے ہیں جڑنے والے

یہ فوجِ حوادث سے ہیں لڑنے والے

یہ غیروں کی ہیں آگ میں پڑے والے

امنڈتا ہے رکنے سے اور ان کا دریا

جنوں سے زیادہ ہے کچھ ان کا سودا

***

جماتے ہیں جب پاؤں ہٹتے نہیں یہ

بڑھا کر قدم پھر پلٹتے نہیں یہ

گئے پھیل جب پھر سمٹتے نہیں یہ

جہاں بڑھ گئے بڑھ کے گھٹتے نہیں یہ

مہم بِن کئے سر نہیں بیٹھتے یہ

جب اٹھتے ہیں اٹھ کر نہیں بیٹھتے یہ

***

خدا نے عطا کی ہے جو ان کو قوت

سمائی ہے دل میں بہت اس کی عظمت

نہیں پھیرتی ان کا منہ کوئی زحمت

نہیں کرتی زیر ان کو کوئی صعوبت

بھروسے پہ اپنے دل و دست و پا کے

سمجھتے ہیں ساتھ اپنے لشکر خدا کے

***

۱۶۲

نہیں مرحلہ کوئی دشوار ان کو

ہر اک راہ ملتی ہے ہموار ان کو

گلستاں ہے صحرائے پر خار ان کو

برابر ہے میدان و کہسار ان کو

نہیں حائل ان کے کوئی رہگزر میں

سمندر ہے پایاب ان کی نظر میں

***

۱۶۳

مسدسِ (۴۱)

اسی طرح یاں اہلِ ہمت ہیں جتنے

کمر بستہ ہیں کام پر اپنے اپنے

جہاں کی ہے سب دھوم دھام انکے دم سے

فقیر اور غنی سب طفیل ہیں ان کے

بغیر ان کے بے سازو ساماں تھی مجلس

نہ ہوتے اگر یہ تو ویراں تھی مجلس

***

زمیں سب خدا کی ہے گلزار انہیں سے

زمانہ کا ہے گرم بازار انہیں سے

ملے ہیں سعادت کے آثار انہیں سے

کھلے ہیں خدائی کے اسرار انہیں سے

انہیں پر ہے کچھ فخر ہے گر کسی کو

انہیں سے ہے گر ہے شرف آدمی کو

***

انہیں سے ہے آباد ہر ملک و دولت

انہیں سے ہے سر سبز ہر قوم و ملت

انہیں پر ہے موقوف قوموں کی عزت

انہیں کی ہے سب ربع مسکوں میں برکت

دم ان کا ہے دنیا میں رحمت خدا کی

انہیں کو ہے پھبتی خلافت خدا کی

***

۱۶۴

انہیں کا اجالا ہے ہر رہگزر میں

انہیں کی ہے یہ روشنی دشت و در میں

انہیں کا ظہورا ہے سب خشک و تر میں

انہیں کے کرشمے ہیں سب بحر و بر میں

انہیں سے یہ رتبہ تھا آدم نے پایا

کہ سر اس سے روحانیوں نے جھکایا

***

ہر اک ملک میں خیر و برکت ہے ان سے

ہر اک قوم کی شان و شوکت ہے ان سے

نجابت ہے ان سے شرافت ہے ان سے

شرف ان سے فخر ان سے عزت ہے ان سے

جفا کش بنو گر ہو عزت کے خواں

کہ عزت کا ہے بھید ذلت میں پنہاں

***

مشقت کی ذلت جنہوں نے اٹھائی

جہاں میں ملی ان کو آخر برائی

کسی نے بغیر اس کے ہر گز نہ پائی

فضیلت نہ عزت نہ فرمانروائی

نہاں اس گلستاں میں جتنے بڑھے ہیں

ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں

***

۱۶۵

حکومت ملی ان کو صفار تھے جو

امامت کو پہنچے وہ قصار تھے جو

وہ قطبِ زماں ٹھہرے عطار تھے جو

بنے مرجعِ خلق نجار تھے جو

اولو الفضل یاں اٹھے سراج کتنے

ابو الوقت یاں گزرے حلاج کتنے

***

نہ بو نصر تھا نوع میں ہم سے بالا

نہ تھا بو علی کچھ جہاں سے نرالا

طبعیت کو بچپن سے محنت میں ڈالا

ہوئے اس لیے صاحبِ قدر والا

اگر فکرِ کسبِ ہنر تم کو بھی ہو

تمہیں پھر ابو نصر اور بو علی ہو

***

بڑا ظلم اپنے پہ تم نے کیا ہے

کہ عزت کی یاں جس ستوں پر بنا ہے

ترقی کی منزل کا جو رہنما ہے

تنزل کی کشتی کا جو ناخدا ہے

قوی پشت تھیں جس سے پشتیں تمہاری

ہوئی دست بردار قوم اس سے ساری

***

۱۶۶

ہنر ہے نہ تم میں فضیلت ہے باقی

نہ علم و ادب ہے نہ حکمت ہے باقی

نہ منطق ہے باقی نہ ہتئپ ہے باقی

اگر ہے تو کچھ قابلیت باقی

اندھیرا نہ چھا جائے اس گھر میں دیکھو

پھر اکسا دو اس ٹمٹا تے دیے کو

***

۱۶۷

مسدسِ (۴۲)

بہت ہم میں اور تم میں جوہر ہیں مخیے

خبر کچھ نہ ہم کو نہ تم کو ہے جن کی

اگر جیتے جی ان کی کچھ نہ خبر لی

تو ہو جائیں گے مل کے مٹی میں مٹی

یہ جوہر ہیں ہم میں امانت خدا کی

مبادا تلف ہو ودیعت خدا کی

***

یہی نوجواں پھرتے آزاد جو ہیں

کمینوں کی صحبت میں برباد جو ہیں

شریفوں کی کہلاتے اولاد جو ہیں

مگر ننگِ آبا و اجداد جو ہیں

اگر نقدِ فرصت نہ یوں مفت کھوتے

یہی فخرِ آبا و اجداد ہوتے

***

یہی جو کہ پھرتے ہیں بے علم و جاہل

بہت ان میں ہیں جن کے جوہر ہیں قابل

رذائل میں پنہاں ہیں ان کے فضائل

انہیں ناقصوں میں ہیں پوشیدہ کامل

نہ ہوتے اگر مائلِ لہو و بازی

ہزاروں انہیں میں تھے طوسی و رازی

***

۱۶۸

یہی قوم، ہے جس میں قحط آدمی کا

جہاں شور ہے ہر طرف ناکسی کا

نہیں جہل میں جس کے حصہ کسی کا

کبھی علم و فن پر تھا قبضہ اسی کا

وہ تھیں برکتیں سعی و کوشش کی ساری

وہی خوں ہے ورنہ رگوں میں ہماری

***

حکومت سے مایوس تم ہو چکے ہو

زر و مال سے ہاتھ تم دھو چکے ہو

دلیری کو ڈھک ڈھک کے منہ رو چکے ہو

بزرگی بزرگوں کی سب کھو چکے ہو

مدار اب فقط علم پر ہے شرف کا

کہ باقی ہے تر کہ یہی اک سلف کا

***

ہمیشہ سے جو کہتے آئے ہیں سب یاں

کہ ہے علم سرمایۂ فخرِ انساں

عرب اور عجم ہند اور مصر و یوناں

رہا اتفاق اس پہ قوموں کا یکساں

یہ دعویٰ تھا اک جس پہ حجت نہ تھی کچھ

کھلی اس پہ اب تک شہادت نہ تھی کچھ

***

۱۶۹

جواہر تھا اک سب کی نظروں میں بھاری

پرکھنے کی جس کے نہ آئی تھی باری

فضائل تھے سب علم کے اعتباری

نہ تھی طاقتیں اس کی معلوم ساری

پہ اب بحر و بر دے رہے ہیں گواہی

کہ ہے علم میں زورِ دستِ الٰہی

***

کیا کوہساروں کو مسمار اس نے

بنایا سمندر کو بازار اس نے

زمینوں کو منوایا دوار اس نے

ثوابت کو ٹھہرایا سیار اس نے

لیا بھاپ سے کام لشکر کشی کا

دیا پتلیوں کو سکت آدمی کا

***

یہ پتھر کا ایندھن ہے جلوانے والا

جہازوں کو خشکی میں چلوانے والا

صداؤں کو سانچے میں ڈھلوانے والا

زمیں کے خزانے اگلوانے والا

یہی برق کو نامہ بر ہے بناتا

یہی آدمی کو ہے بے پر اڑاتا

***

۱۷۰

تمدن کے ایواں کا معمار ہے یہ

ترقی کے لشکر کا سالار ہے یہ

کہیں دستکاروں کا اوزار ہے یہ

کہیں جنگ جویوں کا ہتیار ہے یہ

دکھایا ہے نیچا دلیروں کو اس نے

بنایا ہے روباہ شیروں کو اس نے

***

۱۷۱

مسدسِ (۴۳)

اسی کی ہے اب چار سو حکمرانی

کئے اس نے زیر ارمنی اور یمانی

ہوئے رام دیوان ماژندرانی

گئے زابلی بھول سب پہلوانی

ہوا اس کی طاقت سے تسخیر عالم

پڑے سامنے اس کے چرکس نہ ویلم

***

یہ لاکھوں پہ ہے سینکڑوں کو چڑھاتا

سواروں کو پیادوں سے ہے زک دلاتا

جہازوں سے ہے زورقوں کو بھڑاتا

حصاروں کو ہے چٹکیوں میں اڑاتا

ہوا کوئی حربوں سے اس کے نہ سر بر

نہ ٹھہرے زرہ اس کے آگے نہ بکتر

***

جنہوں نے بنایا اسے اپنا یاور

ہر اک راہ میں اس کو ٹھہرایا رہبر

یہ قول آج کل صادق آتا ہے ان پر

کہ اک نوع ہی نوعِ انساں سے برتر

الگ سب سے کام ان کے اور طور ہیں کچھ

اگر سب ہیں انساں تو وہ اور ہیں کچھ

***

۱۷۲

بہت ان کو معجز نما جانتے ہیں

بہت دیوتا ان کو گردانتے ہیں

پہ جو ٹھیک ٹھیک ان کو پہچانتے ہیں

وہ اتنا مقرر انہیں مانتے ہیں

کہ دنیا نے جو کی تھی اب تک کمائی

وہ سب جزو و کل ان کے حصہ میں آئی

***

کیا علم نے ان کو ہر فن میں یکتا

نہ ہمسر رہا ان کا کوئی نہ ہمتا

ہر اک چیز ان کی ہر اک کام ان کا

سمجھ بوجھ سے ہے زمانہ کی بالا

ضائع کو سب ان کی تکتے ہیں ایسے

عجائب میں قدرت کے حیراں ہوں جیسے

***

دئیے علم نے کھول ان پر خزانے

چھپے اور ظاہر نئے اور پرانے

دکھائے انہیں غیب کے مال خانے

بتائے فتوحات کے سب ٹھکانے

ہوا جیسے چھائی ہے سب بحر و بر پر

وہ یوں چھا گئے خاور اور باختر پر

***

۱۷۳

پہ سچ ہے کہ ہے اصل تعلیم دولت

رہی ہے سدا پشتِ حکمت حکومت

ہوئی سلطنت جن کی دنیا سے رخصت

نہ علم ان میں باقی رہا اور نہ حکمت

نہ یونان محکوم ہو کر رہا کچھ

نہ ایران تاج اپنا کھو کر رہا کچھ

***

پہ اک خار کش صبر و ہمت میں کامل

یہ کہتا تھا محنت سے گھٹتا تھا جب دل

کہ"جن سختیوں کا اٹھانا ہے مشکل

وہی ہیں کچھ اے دل اٹھانے کے قابل

حلال آدمی پر ہے کھانا نہ پینا

نہ ہو ایک جب تک لہو اور پسینا"

***

نہیں سہل گر صید کا ہات آنا

تو لازم ہے گھوڑوں کو سر پٹ بھگانا

نہ بیٹھو جو ہے بوجھ بھاری اٹھانا

ذرا تیز ہانکو جو ہے دور جانا

زمانہ اگر ہم سے زور آزما ہے

تو وقت اے عزیزو یہی زور کا ہے

***

۱۷۴

کرو یاد اپنے بزرگوں کی حالت

شدائد میں جو ہارتے تھے نہ ہمت

اٹھاتے تھے برسوں سفر کی مشقت

غریبی میں کرتے تھے کسبِ فضیلت

جہاں کھوج پاتے تھے علم و ہنر کا

نکل گھر سے لیتے تھے رستہ ادھر کا

***

۱۷۵

مسدسِ (۴۴)

عراقین و شامات و خوارزم و توراں

جہاں جنسِ تعلیم سنتے تھے ارزاں

وہیں پے سپر کر کے کوہ و بیاباں

پہنچتے تھے طلاب افتان و خیزاں

جہاں تر عمل دین اسلام کا تھا

ہر اک راز میں ان کا تانتا بندھا تھا

***

نطامیہ نوریہ مستنصریہ نفیسیہ

ستیہ اور صاحبیہ

رواحیہ عزیہ اور قاہریہ

عزیزیہ زینیہ اور ناصریہ

یہ کالج تھے مرکز سب آفاقیوں کے

حجازی و کردی و قبچاقیوں کے

***

بشر کو ہے لازم کہ ہمت نہ ہارے

جہاں تک ہو کام آپ اپنے سنوارے

خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے

کہ ہیں عارضی زور کمزور سارے

اڑے وقت تم دائیں بائیں نہ جھانکو

سدا اپنی گاڑی کو تم آپ ہانکو

***

۱۷۶

بہت خوان بے اشتہار تم نے کھائے

بہت بوجھ بندھ بندھ کے تم نے اٹھائے

بہت آس پر ساز کی راگ گائے

بہت عارضی تم نے جلوے دکھائے

بس اب اپنی گردن پہ رکھو جوا تم

کرو حاجتیں آپ اپنی روا تم

***

تمہیں اپنی مشکل کو آساں کرو گے

تمہیں درد کا اپنے درماں کرو گے

تمہیں اپنی منزل کا ساماں کرو گے

کرو گے تمہیں کچھ اگر یاں کرو گے

چھپا دست ہمت میں زور قضا ہے

مثل ہے کہ ہمت کا حامی خدا ہے

***

سراسر ہو گو سلطنت فیض گستر

رعیت کی خود تربیت میں ہو یاور

مگر کوئی حالت نہیں اس سے بدتر

کہ ہر بوجھ ہو قوم کا سلطنت پر

ہو اس طرح ہاتھوں میں اس کے رعیت

کہ قبضے میں غسال کے جیسے میت

***

۱۷۷

وہی گر تجارت کے اس کو سجھائے

وہی صنعت اور حرفت اس کو بتائے

وہی کاشتکاری کے آئیں سکھائے

وہی اس کو لکھوائے وہ ہی پڑھائے

ملا جس رعیت کو ایسا سہارا

کیا آدمیت نے اسے سے کنارا

***

یہی سلطنت کی ہے کافی اعانت

کہ ہو ملک میں امن اس کی بدولت

نفوس اور اموال کی ہو حفاظت

حکومت میں ہو اعتدال اور عدالت

نہ توڑا رعیت پہ بے جا ہو کوئی

نہ قانون چھٹ کار فرما ہو کوئی

***

جہاں ہو یہ انداز فرماں روائی

رعیت کی ہے واں نپٹ بے حیائی

کہ ہر کام میں آس ڈھونڈے پرائی

کرے آپ اپنی نہ مشکل کشائی

کھڑا ہو سہارے اک اڑوار کے گھر

ہٹی وہ جہاں، آ رہا یہ زمیں پر

***

۱۷۸

گیا اب وہ دل تنگیوں کا زمانہ

کہ اپنوں کا حصہ تھا پڑھنا پڑھانا

برہمن کا پہنے اگر شدر بانا

تو اس پر نہیں کوئی اب تازیانا

ہوئے برطرف سب نشیب و فراز اب

سفید و سیہ میں نہیں امتیاز اب

***

۱۷۹

مسدسِ (۴۵)

بس اب وقت کا حکم ناطق یہی ہے

کہ جو کچھ ہے دنیا میں تعلیم ہی ہے

یہی آج کل اصل فرماندہی ہے

اسی میں چھپا سِرّ شاہنشہہی ہے

ملی ہے یہ طاقت اسی کیمیا کو

کہ کرتی ہے یہ ایک شاہ و گدا کو

***

سکھاتی ہے محکوم کو یہ اطاعت

سجھاتی ہے حاکم کو راہِ عدالت

دلوں سے مٹاتی ہے نقشِ عداوت

جہاں سے اٹھاتی ہے رسمِ بغاوت

یہی ہے رعیت کو حق دار کرتی

یہی ہے کہ دمہ کو ہموار کرتی

***

سنی غریبوں کی فریاد اسی نے

کیا ہے غلامی کو برباد اسی نے

رپبلک کی ڈالی ہے بنیاد اسی نے

بنایا ہے پبلک کو آزاد اسی نے

مقید بھی کرتی ہے یہ اور رہا بھی

بناتی ہے آزاد بھی با وفا بھی

***

۱۸۰