چوتھا باب
امام کی پہچان
امامت کا مسئلہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ امامت اصول دین میں سے ایک اصول ہے اور اس کو مانے بغیر مسلمان کا ایمان پورا نہیں ہوتا اور اس بارے میں اس کے لیے باپ داداؤں ، رشتے داروں اور مربیوں کی تقلید جائز نہیں ہے، چاہے وہ کتنا ہی بلند مرتبہ کیوں نہ رکھتے ہوں بلکہ توحید اور نبوت کے مسئلے کی طرح اسے بھی تحقیق اور دلیل کی مدد سے سمجھنا چاہیے ۔
فرض کیجئیے کہ امامت اصول دین میں سے نہیں ہے تو یہاں ایک دوسرا مسئلہ پیش آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر مکلف کے لیے فرائض سے عہدہ برآء ہونے کا یقین حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ ""یقین "" امامت کے عقیدے کی نفی یا اثبات سے وابستہ ہے لہذا عقل امامت پر اعتقاد رکھنے کو ضروری سمجھتی ہے۔ پس ایسی صورت میں تقلید جائز نہیں ہے۔
ہم یہ فض کرتے ہیں کہ ہم سب شرع مقدس اسلام کی طرف سے فرائض اور احکام کے پابند ہیں لیکن یہ احکام ہمیں قطعیت کے ساتھ (ٹھیک ٹھیک) معلوم نہیں ہیں تو ایسی صورت می کسی نہ کسی کی پیروی کرنا پڑے گی تاکہ اس کی پیروی کرکے ہم ذمہ داری اور باز پرس سے یقینی طور چھوٹ جائیں۔ شیعوں کے عقیدے کی رو سے ایسا شخص جس کی پیروی کرنا چاہیے ۔ امام ہے اور دوسروں کے لیے دوسرا شخص ہے۔
اسی طرح ہمارے عقیدے میں نبوت کی طرح امامت بھی لطف الہٰی کا ایک مظہر ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہر زمانے میں ایک امام اور رہنما ہو جو پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی جگہ انسانوں کو دنیا اور آخرت کی بھلائی کا راستا دکھائے۔ یہ امام بھی اسی عام ولایت (دنیوی حکومت) کا مالک ہوتا ہے
(نوٹ ، تفصیلات کے لیے فلسفہ ولایت مولفہ مرتضی مطہری مطبوعہ جامعہ تعلیمات اسلامی ملاحظہ فرمائیے) جو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
لوگوں پر رکھتے تھے تاکہ وہ اپنے انتظامی طریقے سے قوم کے کام اور پالیسیاں چلائے انسانوں میں انصاف قائم کرے اور ظلم و ستم کا خاتمہ کردے۔
اس بنا پر امامت ، نبوت کا لاحقہ ہے ۔ جو دلیل پیغمبروں کے بھیجنے اور مقرر کرنے کا سبب بنتی ہے وہی پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد امام مقرر کرنے کو واجب بتاتی ہے۔
اس لیے ہمارا عقیدہ ہے کہ امامت کا منصب خدا کی طرف سے اور پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
یا پچھلے امام کی زبان سے طے ہونا چاہیے ۔ یہ لوگوں کے آزادانہ انتخاب یا اختیار سے طے نہیں ہوتا چنانچہ عام انسانوں کو یہ حق ہی نہیں ہے کہ وہ جسے چاہیں امامت پر مقرر کر دیں یا اسے رد کردیں اور پھر بغیر امام کے گزر کریں بلکہ رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ایک معتبر حدیث ہے کہ
مَن مَاتَ وَلَم یَعرِف اِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مِیتَةَ الجَاهِلِیّةِ
:۔ جو شخص اپنے زمانے کے امام کو جانے بغیر مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔
(نوٹ، احمد بن حنبل ، مسند جلد ۳ صفحہ ۴۴۶ ، ہیثمی ، مجمع الزوائد جلد ۵ صفحہ ۲۲۳ ۔ نیز تواتر معنوی کے ساتھ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں علامہ امینی کی الغدیر جلد ۱۰ بھی دیکھیے۔
اس لیے کوئی زمانہ ایسے امام سے خالی نہیں رہ سکتا جس کی اطاعت واجب ہو اور جو خدا کی طرف سے مقرر کیا گیا ہو ، یعنی ہر زمانے میں خدا کی طرف مقرر کیا ہوا ایک امام ضرور موجود رہتا ہے اور اس کی اطاعت لوگوں پر واجب ہوتی ہے ، خواہ لوگ اسے مانیں خواہ نہ مانیں، چاہے اس کی مدد کریں چاہے نہ کریں ، خواہ اس کی پیروی کریں خواہ نہ کریں، چاہے وہ آنکھوں کے سامنے ہو چاہے آنکھوں سے اوجھل ہو، کیونکہ جس طرح پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا غار ثور اور شعیب ابی طالب میں لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہنا درست ہے اسی طرح امام کے غائب ہونے میں بھی کوئی عذر، شبہ یا اشکال نہیں ہوسکتا اور عقل کی رو سے امام کے غائب رہنے کی مدت میں کمی بیشی بھی کوئی فرق نہیں رکھتی۔
خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :۔
(
لِکُلِّ قَومٍ هَادٍ
)
: ۔ ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہوتا ہے (سورہ رعد ۔آیت ۷)
پھر وہ یہ بھی فرماتا ہے :۔
(
وَاِن مِّن اُمَّةٍ اِلاَّ خَلاَ فِیهَا نَذِیرٌ
)
:۔ کوئی امت ایسی نہیں ہے جس میں (گناہ اور حق کی عدم پیروی سے جو کہ عذاب الہٰی ہے )ڈرانے والا نہ آیا ہو۔ (سورہ فاطر۔ آیت ۲۴)
اماموں کا معصوم ہونا :۔
ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ امام بھی پیغمبر کی طرح تمام ظاہری اور باطنی ، دانستہ اور نادانستہ اور بچپن سے مرتے وقت تک گناہوں اور نجاستوں سے پاک اور بری ہوتا ہے ۔ اسی طرح وہ بھول چوک اور غفلت سے بھی محفوظ ہوتا ہے۔
چونکہ امام بھی پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہی کی طرح دین کی حفاظت کرنے والے، اسے طاقت ور بنانے والے اور خطرات سے بچانے والے ہیں، اس لیے ان کے معصوم ہونے کے متعلق بھی ہماری دلیل وہی ہے جو پیغمبروں کے معصوم ہونے کے لیے ہے۔
خداوند عالم کی قدرت سے یہ بات دور نہیں کہ وہ تمام خصوصیات جو دنیا والے رکھتے ہیں ایک ہی شخصیت میں جمع کردے اور اسے تمام خوبیوں کا مجموعہ بنادے۔
امام کا علم اور صفات
ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ امام بھی پیغمبرخداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرح اخلاقی کمالات اور صفات مثلاً بہادری ، بخشش ، حفاظت نفس ، سچ بولنے، انصاف کرنے، تدبیر کی خوبی، عقلمندی ، علم اور تواضع میں سب لوگوں سے اونچا ہوتا ہے اس کے لیے بھی ہماری وہی دلیل ہے کہ پیغمبر وں میں تمام خوبیاں لازمی طور پر ایک جگہ جمع ہوگئی تھیں لیکن امام کے علم اور بصیرت سے وہ نکات سچائیاں اور تمام خدائی معلومات مراد ہیں جو وہ پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے لیتا ہے یا دوسرے امام سے جس نے پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے لیتا ہے یا دوسرے امام سے جس نے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے حاصل کی ہوں، وہ پیش آنے والے ہر معاملے کو الہام ، قوت قدسیہ اور باطنی طاقت کی مدد سے جو اسے خدا نے عطا کی ہے حقائق کو سمجھتا ہے چنانچہ جب کبھی امام کسی معاملے کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے چاہا کہ اس کی حقیقت سمجھ لے تو اسے فی الفور سمجھ جاتا ہے اور اس کے اس جاننے، سمجھنے میں کوئی غلطی یا خامی نہیں ہوتی اور نہ اسے اس کے لیے عقلی دلیلوں ، ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے ، حالانکہ امام کے علم میں بڑھنے کی بھی صلاحیت ہوتی ہے۔ اسی لیے پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنی دعا میں خدا سے عرض کرتے تھے کہ رَبِّ زِدنی عِلماً :۔ اے خدا میرے علم میں اضافہ فرما
(نوٹ، سورہ طٰہٓ ۔آیت ۱۱۴ ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ نفسیات کی بحثوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جن میں باتوں کا علم صرف اندازے (گمان) سے ہوجاتا ہے جو الہام کی ایک شاخ اور جزو ہے ۔ خدا نے یہ پوشیدہ قوت انسان کو عطا کی ہے جو مختلف لوگوں میں ان کی روح کی بناوٹ میں فرق کے حساب سے تیز ، سست، زیادہ اور کم ہوتی ہے۔
انسان کے لیے بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں جن میں سوچ بچار، دلیل کے سہارے اور دوسروں کی رہنمائی کے بغیر ہی اسے کسی بات کا علم ہوجاتا ہے اور ہو انسان نے اپنی زندگی میں ایسے لمحات کو بخوبی محسوس کیا ہے جب یہ بات نفسیات کی رو سے ممکن ثابت ہوگئی تو اس کا بھی امکان ہے کہ انسان اس باطنی قوت کے کمال اور بلند ترین درجے تک بھی پہنچ جائے جیسا کہ قدیم و جدید فلسفی، انسانوں میں اس قوت کا وجود مسلم سمجھتے ہیں، اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ انسان میں ایسی قوت کا ذاتی طور رپر ہونا ممکن ہے ، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امام میں یہ الہامی قوت جسے قوت قدسیہ کہتے ہیں زیادہ حد تک پائی جاتی ہے۔ چنانچہ امام اس قدر باطنی صفائی اور پاکیزگی کی وجہ سے اس صلاحیت اور اہلبیت کا مالک ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت الہام سے معلومات حاصل کرتا رہتا ہے اور ہر وقت ہر معاملے کے متعلق بے تکان کافی علم حاصل کرلیتا ہے اور اس راستے میں کسی دلیل اور رہنما کے تمہیدی بیان کی حاجب نہیں رکھتا اور ان اجسام کی طرح جو آئینے میں صاف نظر آجاتے ہیں امام کی پاک روح میں اشیاء کا علم جھلک اٹھتا ہے)
اماموں کی سوانح عمریوں کے مطالعے سے یہ بات اسی طرح ظاہر ہوتی ہے جس طرح پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زندگی کے واقعات سے دوسروں کے مقابلے میں ان کے روحانی اور علمی کمالات معلوم ہوتے ہیں، تاریخ بتاتی ہے کہ ائمہ اطہار ؑ نے کسی شخص سے تربیت نہیں پائی۔ نہ کسی استاد اور معلم سے سبق پڑھا اور نہ بچپن سے لیکر بلوغ تک کسی کے پاس لکھے پڑھنے کے لیے ہی گئے۔ تاریخ سے یہ بات بالکل معلوم نہیں ہوتی کہ امام مکتب گئے ہوں یا انہوں نے کسی موقع پر اور کسی لمحے میں کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا ہو۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ وہ علم و کمال کے اس درجے پر ہیں کہ جہاں کوئی ان کا ہمسر نہیں ہے۔ ان سے کبھی کوئی ایسا سوال نہیں کیا گیا جس کا انہوں نے اسی وقت جواب نہ دیا ہو اور کبھی ان کی زبان پر یہ جملہ جاری نہیں ہوا کہ ""میں نہیں جانتا'" اور کبھی انہوں نے سوال کرنے والوں سے یہ نہیں کہا کہ ""سوچ کر یا کتاب میں دیکھ کر تمہیں جواب دوں گا""
کسی سوانح نگار کی ایسی کوئی کتاب پیش نہیں کی جاسکتی جو اسلام کے عالموں، راویوں اور فقیہوں کا حال تو لکھتی ہے لیکن ان کی تربیت ، تعلیم اور شاگردی کے زمانے اور مشہور استادوں کا حال، ان کے علم اور روایات حاصل کرنے یا مسائل وغیرہ میں ان کے تامل شک اور عذر کی کیفیت نہیں لکھتی ۔ یہ ایک فطری طریقہ ہے جس کے مطابق ہر زمانے میں اور ہر مقام پر انسان زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اماموں کے حکم کی تعمیل کرنا:۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ امام اُولیِ الامر کا وہی طبقہ ہے جس کی اطاعت خدا نے قرآ میں واجب کر دی ہے۔
(
یٰٓاَیُّهَا الَّذِینَ اٰمَنُوٓا اَطِیعُواللهَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ اُولیِ الاَمرِ مِنکُم
)
(سورہ نساء ، آیت ۵۹)
یہ وہ افراد ہیں جو لوگوں کے اعمال کے گواہ ہیں، یہی افراد ہیں جو خدا کی طرف کھلنے والے دروازے اور خدا کی طرف جانے والے راستوں کی نشان دہی کرتے ہی، یہی لوگ ہیں جو خدائی علم کے دفینے، اس کی وحی بیان کرنے والے ، توحید کے ستون اور خدا کے پہچان کے خزانے ہیں،
پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے فرمان کے مطابق یہ افراد دنیا والوں کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو آسمان والوں کے لیے ستاروں کی ہے اور یہ (شیطان سے) پناہ اور بچاؤ کا ذریعہ ہیں۔
پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دوسرے قول کے مطابق:۔
اِنَّ مَثَلَهُم فِی هٰذِهِ الاُمَّةِ کَسَفِینَةِ نُوحٍ مَن رَکِبَهَا نَجیٰ وَمَن تَخَلَّفَ عَنهَا غَرِقَ وَهَوٰی
:۔ ان کی مثال اس امت میں حضر نوح ؑ کے سفینے کی سی ہے جو کوئی اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے پھر گیا وہ گمراہ ہوا اور ڈوب گیا۔
(نوٹ ، یہ حدیث تغیر لفظی کے ساتھ بہت سی کتب میں درج ہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۱ ۔حاکم ، مستدرک جلد ۳ صفحہ ۱۵۱ مطبوعہ حیدر آباد، ۲ ۔ ابن ابی الحدید، شرح ، نہج البلاغۃ جلد ۱ صفحہ ۲۱۸ مطبوعہ مصر نسخہ ابوالفضل، ۳ ۔ سیوطی، جامع الصغیر جلد ۲ صفحہ ۱۳۲ مطبوعہ میمنیہ مصر، ۴ ۔ شبلنجی ، نورالبصار صفحہ ۱۰۴ مطبوعہ سعیدیہ ، ۵ ۔ محب طبری ، ذخائر العقبیٰ صفحہ ۲ مطبوعہ مکتبۃ القدسی، ۶ ابو نعیم ، حلیتہ الاولیا، جلد ۴ صفحہ ۳۰۶ مطبوعہ سعادہ مصر، ۷ ۔ طبرانی، معجم صغیر جلد ۲ صفحہ ۲۲ مطبوعہ دارالنصر مصر، ۸ ۔ کنجی، کفایت الطالب صفحہ ۳۸۷ مطبوعہ الحیدریہ)
چنانچہ جو کوئی اماموں کی پیروی کرے گا وہ نیکی پائے گا ورنہ بربادی اور تباہی کے گڑھے میں گر جائے گا۔
خدا کی طرف سے ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔
(
عِبَادٌ مُّکرَمُونَ لاَ یَسبِقُونَهُ بِالقَولِ وَهُم بِاَمرِهِ یَعمَلُونَ
)
:۔ یہ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں جو خدا کی بات سے پہلے بات نہیں کرتے اور خدا کے احکام بجا لاتے ہیں (سورہ انبیاء ، آیات ۲۶ ۔ ۲۷)
انہی لوگوں کی شان میں ""آیت تطہیر ""نازل ہوئی ہے ۔ چنانچہ خدا فرماتا ہے :
(
اِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَیُطَهِّرَکُم تَطهِیراً
)
:۔ اے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اہل بیت ؑ ! خدا نے قطعی اور یقینی طور پر ارادہ کر لیا ہے کہ تمہیں نجاست سے دور اور بالکل پاک اور پاکیزہ رکھے۔(سورہ احزاب ۔ آیت ۳۳)
(ہاں خدا نے پاک اماموں کو جو خاندان نبوت کے روشن چراغ ہیں ہر قسم کی کثافت اور نجاست سے پاک صاف رکھا ہے)
ہمارا عقیدہ ہے کہ اماموں کا حکم خدا کا حکم ہے، ان کی ممانعت خدا کی ممانعت ہے ۔ ان کی فرماں برداری خدا کی فرماں برداری ہے ان کے احکام کی خلاف ورزی خدا کے احکام کی خلاف ورزی ہے ان کی محبت خدا کی محبت ہے ان سے دشمنی خدا سے دشمنی ہے ان کا کہنا ٹالنا پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حکم کا نہ ماننا ہے اس لیے ان کے سامنے تعظیماً سر جھکانا اور ان کا حکم بجالانا اور ان کے کہے پر عمل کرنا چاہیے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ شریعت کے احکام اور قوانین انہی کی معرفت سے قوت پاتے ہیں اور احکام صرف انہیں سے حاصل کرنا چاہیں ان کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف رجوع کرکے ہم اپنے فرائض کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے، انسان کی اپنی ذات اور خدا کے درمیان صرف انہیں شرعی فرائض اور احکامات سے اطمینان ہوسکتا ہے جو اماموں کی طرف سے ملتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی مثال کشتی نوحؑ کی سی ہے جو کوئی اس میں سوار ہوا وہ پار اتر گیا اور جو کوئی اس سے پھر گیا وہ شیطانی اور مادی گردابوں اور نجاست اور گمراہی کی موجوں میں غرق ہوگیا۔
اس زمانے میں یہ بحث کہ ""امام پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حقیقی اور شرعی جانشین ہیں اور خدائی حکومت کے معاملات کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھ میں ہے "" اس قابل نہیں رہی کہ اس میں الجھا جائے اور س پر غور کیا جائے۔ اس لیے کہ اس بات کا زمانہ تاریخ کی حرکت کے ساتھ گزر گیا اور اس کو ثابت کرنے سے اماموں کا وہ زمانہ پلٹ کر نہیں آسکتا کہ حق دار کو اس کا حق سونپا جائے۔
آج تو بس یہ بات ضروری ہے جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ شریعت کے احکام اور قوانین لینے اور جو کچھ پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنےساتھ لے کر آئے تھے اسے ٹھیک ٹھیک حاصل کرنے کے لیے صرف ائمہ اطہار ؑ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ان کو چھوڑ کر ان راویوں (مثلاً ابوہریرہ) اور مجتہدوں (مثلاً ابو حنیفہ) سے رجوع کرنا جنہوں نے ائمہ اطہار ؑ کی معرفت کے دریا سے پیاس نہیں بجھائی اور ان کی روشنی سے فائدہ نہیں اٹھایا یقیناً صحیح راستے سے بھٹک جانے کے مترادف ہے، انسان ایسے راویوں اور مجتہدوں کی پیروی کرکے یہ اطمینان قلب کبھی حاصل نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے دینی فرائض کی ذمے داری اور جواب دہی سے سکبدوش ہوگیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ احکام شرعی کے متعلق مختلف اسلامی فرقوں اور گروہوں میں قسم قسم کے فتووں اور طرح طرح کی رایوں کی موجودگی مانتے ہوئے اس حد تک کہ ان اختلافات میں اتحاد اور موافقت کا کوئی راستا نہیں ملتا کوئی ذمے دار شخص کبھی ایسے مذہب کے انتخاب میں آزاد نہیں ہوسکتا جس پر وہ خود مائل ہو۔ بس اسے چاہیے کہ وہ مسلسل تحقیق سے اپنے اور خدا کے درمیان کسی خاص مذھب کے انتخاب میں فیصلہ کن دلیل اور خصوصی حجت قائم کرے اور یقین کرلے کہ اس مذہب کے انتخاب سے وہ اسلام کے حقیقی احکام تک پہنچ جائے گا اور فرض کی ذمے داری سے سبکدوش ہوجائے گا کیونکہ جس طرح احکام شرعی کے وجود کا اندازہ کرنا واجب ہے اسی طرح ا ن کی ذمے داری سے سبکدوش ہونے کا یقین اور اندازہ بھی واجب ہے، جیسا کہ اصول فقہ کے عالموں نے کہا ہے :
اَلاِشتِغَالُ الیَقِینِی یَستَدعیِ الفَرَاغَ الیَقِینِی
:۔ اس بات کا یقین کر لینا کہ ہم شرعی احکام کے ضمن میں جواب دہی کے ذمے دار ہیں اس بات کا لازمہ ہے کہ ہم اپنے فرائض اس طرح بجا لائیں کہ ہمیں ان فرائض سے عہدہ بر آ ہونے کا یقین ہوجائے۔
اس کے علاوہ ہمارے پاس اس کی فیصلہ کن دلیل موجود ہے کہ احکام حاصل کرنے میں اہلبیت ؑ کی طرف سے رجوع کرنا چاہیے اور پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد خدائی احکام کا مرجع وہی ہیں۔ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ایک حدیث اس بات کے ثابت کرنے کو کافی ہے کہ :۔
اِنِّی قَد تَرَکتُ فِیکُم مَآ اِن تَمَسَّکتُم بِهِ لَن تَضِلُّوا بَعدِی اَبَداً الثَقَلَینِ ، وَ اَحَدُهُمَآ اَکبَرُ مِنَ الاٰخَرِ، کِتَابَ اللهِ حَبلٍ مَّمدُودٍ مِّنَ السَّمَآءِ اِلٰی الاَرضِ وَعِترَتِی اَهلَ بَیتِی اَلاَ وَ اِنَّهُمَا لَن یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَییَّ الحَوضَ
:۔ میں تمہارے درمیان دو ایسی قابل قدر چیزیں چھوڑ ے جاتا ہوں کہ اگر تم ان کا دامن پکڑے رہو گے تو میرے بعد ہرگز نہیں بھٹکو گے ۔ ان میں سے ایک دوسری سے بزرگ تر ہے ایک خدا کی کتاب (قرآن) ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکتی ہوئی رسی کے مانند ہے اور دوسری شے میری اولاد اور میرے اہلبیت ہیں، دیکھو یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ۔ یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے ۔
(نوٹ، یہ حدیث تغیر الفاظ کے ساتھ بہت سی معتبر کتب میں مذکورہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں: صحیح ترمذی جلد ۵ صفحہ ۳۲۸ مطبوعہ دارالفکر بیروت، جامع الاصول ، ابن اثیرجلد ۱ صفحہ ۱۸۷ مطبوعہ مصر، الفتح الکبیر، نبہانی جلد ۱ صفحہ ۵۰۳ مطبوعہ دارالکتب العربیہ ، اسدالغابہ، ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۱۲ مطبوعہ مصر آفسٹ ، تفسیر ابن کثیر جلد ۴ صفحہ ۱۱۳ مطبوعہ احیاء الکتب العربیہ مصر، مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۱۸۲ ، ۱۸۹ مطبوعہ میمنیہ مصر ، جامع الصغیر سیوطی جلد ۱ صفحہ ۳۵۳ مطبوعہ مصر، کنزالعمال متقی جلد ۱ صفحہ ۱۵۴ طبع دوم، مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۱۴۸ مطبوعہ حیدر آباد)
اس حدیث رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر اچھی طرح غصلىاللهعليهوآلهوسلم
ر کرنے سے جو شیعہ اور سنی دونوں کے یہاں معتبر مانی جاتی ہے ، انسان کو دلی اطمینان حاصل ہوجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ حدیث انتہائی اہمیت کی حاصل ہے چنانچہ ایک ہوشمند اور عقلمند انسان سنجیدگی سے سوچ لے کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس جملے کا کیا مطلب ہے کہ :۔ ""اگر تم ان کا دامن پکڑے رہو گے تو میرے بعد ہرگز نہیں بھٹکو گے""۔
غور کرنا چاہیے کہ اس حدیث کے مطابق پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ہمارے درمیان جو کچھ چھوڑا ہے وہ دو قابل قدر یاد گاریں ہیں جو ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں اور ایک ہی چیز کی طرح ہیں پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان میں سے صرف ایک سے وابستگی کے لیے نہیں فرمایا بلکہ بالکل صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ان دونوں سے ایک ساتھ وابستگی میرے بعد گمراہی سے بچنے کا سبب ہوگی، اس کے بعد کا جملہ اس بات کو بہت زیادہ واضح کر دیتا ہے :۔ ""یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گی یہاں تک کہ یہ حوض کوثر پر مجھ تک پہنچ جائیں گی""۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص ان دونوں کو جدا سمجھ لیتا ہے اور ان میں سے صرف ایک سے وابستہ ہوجاتا ہے وہ ہدایت کے راستے پر نہیں چلتا۔ اس لیے اہل بیت ؑ کو سفینہ نجات (پار لگانے والی کشتی) اور انسانوں کے لیے امان (دنیا کی آلودگیوں سے بچاؤ) کے نام سے یاد کیا گیا ہے ، جو کوئی ان کے احکام سے منہ موڑتا ہے وہ گمراہی کی دلدلوں میں دھنس جاتا ہے اور تباہی سے نہیں بچتا۔
جب کوئی اس گفتگو اور اس کے معنیٰ و مطلب کو محض اہلبیت ؑ کی دوستی بتاتا ہے لیکن نہ ان کے اقوال تسلیم کرتا ہے نہ ان کے راستے پر چلتا ہے تو ایسا شخص یقینی طور پر سچی اور اصلی بات سے کتراتا ہے اور اس کے اس گریز کا اصلی سبب جانبداری اور بے خبری ہے کیونکہ اس نے عربی کی ایک کھلی ہوئی اور سیدھی سادی سی بات کے معنیٰ و مفہوم میں کج فکری اختیار کی ہے۔
اہلبیت ؑ کی محبت :
خداوند عالم فرماتا ہے :۔(
قُل لاَّ اَسئَلُکُم عَلَیهِ اَجراً اِلاَّ المَوَدَّةَ فِی القُربیٰ
)
:۔(اے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
! لوگوں سے) کہہ دو کہ میں تم سے (لگاتا ہدایت کے بدلے میں) صرف یہ معاوضہ چاہتا ہوں کہ تم میرے قریب ترین عزیزوں سے محبت کرو۔ (سورہ شوری ۔آیت ۲۳)
ہمارے عقیدے کی رو سے اہلبیت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی پیروی واجب ہونے کے علاوہ ہر مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اس گھرانے سے محبت کرے کیونکہ خدا نے مذکورہ آیت میں یہ بتایا ہے کہ لوگوں سے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے مطالبے کا موضوع صرف اہلبیت نبوت کی محبت ہے۔
رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے بہت سی روایات کے ذریعے سے یہ بات آئی ہے کہ اہلبیت ؑ کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور ان کی دشمنی نفاق کی علامت ہے۔ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ بھی کہا ہے کہ جو ان سے محبت کرتا ہے خدا اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس سے محبت کرتے ہیں اور جو ان سے دشمنی کرتا ہے خدا اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ اہلبیت ؑ کی محبت کا واجب ہونا تو اسلام کی ضروریات میں سے ہے اور اس بات میں نہ کوئی شک کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی تردید کی جاسکتی ہے ۔ مسلمانوں کے مختلف فرقے اس بات پر متفق ہیں سوائے ان تھوڑے سے لوگوں کے جن کی پہچان ہی نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خاندان سے دشمنی ہے (جو نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خاندان سے دشمنی کے باعث پہچانے جاتے ہیں) اور جو نواصب کہلاتے ہیں یعنی جنھوں نے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خاندان کی دشمنی کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ اس طرح یہ لوگ اسلام کے ایک ضروری ، مانے ہوئے اور ناقابل انکار مسئلے سے پھر گئے ہیں اور جو شخص اسلام کے کسی مانے ہوئے اور ضروری مسئلے مثلاً نماز، روزہ اور زکات کے واجب ہونے سے منکر ہوجائے وہ اس شخص کی طرح ہے جو رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نبوت ہی سے انکار کردے بلکہ اصل میں ایسا شخص پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ذات سے ہی انکاری مانا جائے گا چاہے وہ زبان سے (خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رسالت کی) گواہی دیتا رہے اور لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہتا رہے ۔ چنانچہ اہلبیت پیغمبر ؑ کی دشمنی منافق ہونے کی نشانی ہے اور ان کی محبت ایمان کی علامت ہے اور ان سے دشمنی خد اور پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے دشمنی ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ خدا نے خاندان نبوت کی محبت بلاوجہ واجب نہیں کی ہے بلکہ ان کی محبت اس لیے واجب کی گئی ہے کہ یہ لوگ خدا کے حضور میں اپنے بلند مرتبے اور نزدیکی کے لحاظ سے نیز شرک کی نجاست ، گناہ کی آلائش اور ایسے تمام معاملات سے جو خدا کی رضامندی اور نیکی سے دور رکھتے ہیں اپنی دوری اور طہارت و پاکیزگی کے باعث اس دوستی اور محبت کے لائق اور مستحق ہیں۔
اس کے یہ معنیٰ نہیں نکالے جاسکتے کہ خدا کسی ایسے شخص کی محبت واجب کردے جو گناہ کرتا ہے اور خدا کا حکم نہیں بجا لاتا کیونکہ خدا کسی سے بلاوجہ قرب اور دوستی نہیں رکھتا بلکہ تمام انسان کسی چھوٹ کے بغیر خدا کی تمام مخلوقات اور بندوں کے برابر ہیں، خدا کے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محترم وہ ہیں، جو تقویٰ اور پرہیزگاری میں بڑھے ہوئے ہیں۔(نوٹ، سورہ حجرات ، آیت ۱۳)
چنانچہ خدا جس کی محبت تمام لوگوں کے لیے واجب کرتا ہے وہ تمام انسانوں میں سب سے اہم، پرہیز گار اور اچھا ہے ورنہ وہ دوسرے کی محبت اور دوستی واجب کردیتا یا کسی وجہ ، غرض اور استحقاق کے بغیر صرف لالچ اور حماقت سے کسی کی دوستی واجب کر دیتا لیکن خدا کے متعلق اس قسم کا خیال بالکل درست نہیں ہے۔
اماموں کے متعلق ہمارا نظریہ
ہم اس عقیدے کو جو غلات (غلات ، جمع ہے غالی کی، یہ کچھ لوگ ہیں جنہوں نے ائمہ اطہار ؑ کے متعلق جوش اور مبالغے سے کام لیا ہے۔ مثلاً یہ حضرت علیؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے ہی اور ان کے چند فرقے ہیں، یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے لوگ شیعہ تو کجا سرے سے مسلمان ہی نہیں کہلاسکتے، ایسے لوگ مرتد، دشمن اسلام اور اہلبیت ؑ کے لیے باعث ننگ و عار ہیں، ایسے فاسد العقیدہ اور نجس لوگوں سے دوری اور بیزاری ہر صحیح العقیدہ مسلما کے لیے ضروری) اور حلولی ائمہ اطہار ؑ (نوٹ، حلولی وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خدا بعض انسانوں کے جسم میں سما جاتا ہے اور ان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، ہندووں میں اسے اوتار کہتے ہیں) کے بارے می رکھتے ہیں بے بنیاد سمجھتے ہیں ، وہ بات جو یہ لوگ کہتے ہیں حد سے بڑھتی ہوئی اور بہت بڑی ہے۔ اس کے بجائے ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ تمام ائمہ اطہار ؑ ہماری ہی طرح کے انسان تھے۔ ہمارے ہی جیسے فرائض اور ذمے داریاں وہ بھی رکھتے تھے البتہ فرق یہ ہے کہ وہ چونکہ ممتاز اور پاک بندے ہیں ، خدائے تعالیٰ نے ان کو اپنے مخصوص بندوں میں سے قرار دیا ہے اور ان کی ولایت کا بلند مقام، عزت اور غیر معمولی شخصیت عطا کی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ علم، زہد، بہادری ، بزرگی اور پاکیزگی وغیرہ میں انسانی فضائل کے بلند ترین مدارج پر فائز ہیں اور تمام اچھی اخلاقی خصوصیات کے اس طرح مالک میں ہیں کہ کوئی دوسرا انسان اسے راستے میں ان کے برابر نہیں ہے۔
اسی سبب سے وہ اس کے سزاوار ہیں کہ پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد شرعی احکام ، دینی نکات اور فیصلہ طلب معاملات میں اور دین، شرعی قوانین اور قرآن مجید کی تفسیر اور تشریح سے تعلق رکھنے والی باتوں میں مرجع خلائق ہوں (نوٹ، تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے احیائے دین میں ائمہ اہلبیت ؑ کا کردار "" مولفہ علامہ مرتضیٰ عسکری مطبوعہ مجمع علمی اسلامی کراچی)
امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں۔
مَاجَآءَکُم عَنَّا مِمَّا یَجُوزُ اَن یَّکُونَ فِی المَخلُوقِینَ وَلَم تَعلَمُوهُ وَلَم تَفهَمُوهُ فَلاَ تَجحَدُوهُ وَرُدُّهُ اِلَینَا وَمَا جَٓاءَ کُم عَنَّامِمَّا لاَ یَجُوزُ اَن یّکُونَ فِی المَخلُوقِینَ فَاجحَدُوهُ وَلاَ تَرُدُّوهُ اِلَینَا
:۔ جو بات ہم سے نقل کی جاتی ہے جب وہ عقل اور فطرت کے اصولوں اور قاعدوں کے لحاظ سے ممکن ہو تو چاہے تم اس کو نہ سمجھ سکو اس سے انکار نہ کرو ہمارا بیان سمجھ کر مان لو اور دوسروں کو سناتے رہو لیکن جب عقل کے لحاظ سے خلقت کے معیاروں کے خلاف (یعنی محال) ہو تو اس سے انکار کردو، اسے قبول نہ کرو اور نہ ہی اسے بیان کرو۔
خدا کی طرف سے امام کا تقرر
ہمارا عقیدہ ہے کہ نبوت کے منصب کی طرح امامت کا منصب بھی خدا کی جانب سے بندوں کے لیے ہوتا ہے اور امام کا یہ تقرر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
یا پچھلے امام کی زبان سے ہوتا ہے جو رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف سے یا اس سے پچھلے امام کی طرف سے مقرر ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور امام میں کوئی فرق نہیں ہے اور لوگ اس ذات کی نسبت کسی قسم کے اعتراض کا حق نہیں رکھتے جس کا تقرر خدا کی طرف سے انسانوں کی رہبری اور تربیت کے لیے ہوتا ہے ۔ اسی طرح انہی امام کے تعین ، تقرر اور انتخاب کرنے کا حق بھی نہیں ہے کیونکہ ایسے شخص کو تو صرف خدا ہی پہچان سکتا ہے جو اس پاک روحانی قوت کا مالک ہو اور تمام انسانوں کی رہنماءی اور امامت کی ذمے داری کا بوجھ اٹھانے کے لائق ہو اس لیے خدا ہی کو اس کا تقرر کرنا چاہیے۔
ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے جانشین اور اپنے بعد کے پیشواؤں کا تقرر کر دیا تھا یعنی اپنے چچیرے بھائی علی ابن ابی طالب ؑ کو کئی موقعوں پر مومنوں کا سردار، وحی کا امانت دار اور انسانو کا رہبر مقرر فرمایا اور غدیر کے دن علی ؑ کی ولایت کا عام اعلان فرمایا اور لوگوں سے ان کے لیے بطو مومنوں کے سردار کے بیعت لی اور صاف صاف فرما دیا:۔
اَلاَ مَن کُنتُ مَولاَهُ فَهٰذَا عَلِیُّ مَولاَهُ اَللّٰهُمَّ وَالِ مَن وَّالاَهُ وَعَادِ مَن عَادَاهُ وَانصُر مَن نَصَرَهُ وَاخذُل مَن خَذَلَهُ وَادرِ الحَقَّ مَعَهُ کَیفَ مَادَارَ
:۔ دیکھو جس کا میں سردار اور رہبر ہوں یہ علی ؑ بھی اس کے سردار اور رہبر ہیں، اے خدا! اس سے محبت کر جو علیؑ سے محبت کرے اور اس کو دشمن رکھ جو علی ؑ سے دشمنی رکھے، جو علی ؑ کی مدد کرے اس کی مدد کر۔ جو علی ؑ کو چھوڑ دے اسے تو بھی چھوڑ دے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علیؑ مڑے۔
(نوٹ، ابن ابی الحدید: شرح نہج البلاغۃ جلد ۱ صفحہ ۲۸۹ طبع اول ، بلاذری، انسابُ الاشراف جلد ۲ صفحہ ۱۱۲ ، ابن عساکر: تاریخ دمشق جلد ۲ صفحہ ۱۳ ، کنجی شافعی: کفایت الطالب صفحہ ۶۳ ، حاکم جسکانی : شواہد التنزیل جلد ۱ صفحہ ۱۹۲ ، ہیمثی : مجمع الزوائد جلد ۹ صفحہ ۱۰۵ ، شہرستانی، الملل والنحل جلد ۱ صفحہ ۱۶۳ ، نساءی : خصائص علی ابن ابی طالب ؑ صفحہ ۹۶)
پہلی بار پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے بعد علیؑ کی امامت کی وضاحت اس وقت فرمائی تھی جب انہوں نے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو (نبوت کی تبلیغ کے لیے)بلایا تھا۔ اس موقع پر علیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَ هَذَا اَخِی وَ وَصِیِّی وَ خَلِیفَتِی فِیکُم مِن بَعدِی فَاسمَعُوا لَهُ وَاَطِیعُوه
:۔ یہ میرا بھائی، وصی اور میرےبعد میرا خلیفہ ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت اور پیروی کرو۔
(نوٹ، سیرت حلبیہ جلد ۱ صفحہ ۳۲۲ تاریخ کامل ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۶۳ تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۳۱۹)
بھی نہیں پہنچے تھے۔ رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علیصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے یہ بھی فرمایا:
(
اَنتَ مِنِّی بِمَنزِلَةِ هَارُونَ مِن مُوسیٰ اِلاَّ اَنَّه لاَ نَبِیَّ بَعدِی
)
:۔ تمہی مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون ؑ کو موسیٰ ؑ سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
(نوٹ ، یہ حدیث تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہے اور اس کے راویوں میں جابر ابن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری ، ابو ایوب انصافی، عبداللہ ابن عباس ، سعد ابن ابی وقاص عمر ابن خطاب ، عبداللہ ابن عمر، معاویہ اور ابوہریرہ شامل ہیں ، ملاحظہ ہوصحیح بخاری: باب مناقب علی ابن ابی طالب ؑ، صحیح مسلم: باب من فضائل علی ابن ابی طالب ؑ، صحیح ترمذی، باب مناقب علیؑ سنن ابن ماجہ، باب فضائل علی ابن ابی طالبؑ نیز دیکھیے احمد بن حنبل کی المسند، حاکم کی مستدرک علی الصحیحن ، ابن سعد کی طبقات اور ہیثمی کی مجمع الزوائد، اس کے علاوہ متعدد حوالے ہیں جنہیں المراجعات میں دیکھا جاسکتا ہے)
امام علی ؑ کی رہبری اور ولایت کے ثبوت میں، بہت سی روایتیں دلیل کے طور پر موجود ہیں۔
(نوٹ، تفصیلات کے لیے علامہ امینی کی الغدیر ملاحظہ فرمائیے)
(
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ الله ُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ اٰمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوةَ وَیُوتُونَ الزَّکٰوةَ وَهُم رَکِعُونَ
)
:۔ در حقیقت تمہارا سردار اور رہبر اللہ ہے ، اس کا رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوۃ دیتے ہیں۔ (سورہ مائدہ ۔ آیت ۵۵)
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب امام علی ؑ نے حالت رکوع میں ایک محتاج کو اپنی انگوٹھی خیرات کر دی تھی۔
اس کتاب کا انداز، جس کی بنیاد اختصار پر رکھی گئی ہے اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اس بارے میں جو کثیر تعداد میں آیتیں اور روایتیں ہیں ہم انہیں نقل کریں اور ان کی مدد سے بحث کریں۔
آگے چل کر امام علی ؑ نے اپنے بعد کے امام کی حیثیت سے امام حسن اور امام حسین ؑ کا تعارف اور تقرر فرمایا۔
امام حسین ؑ نے اپنے بیٹے امام علی زین العابدین ؑ کو متعین کیا اور اس طرح پہلے امام نے اپنے بعد کا امام مقرر کیا اور یہ طریقہ آخری امام (حضرت مہدی آخرالزمان ؑ )تک جاری رہا کیونکہ ان کے بعد کوئی امام نہیں آئے گا۔