مکتب تشیع

مکتب تشیع0%

مکتب تشیع مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

مکتب تشیع

مؤلف: محمد رضا مظفر
زمرہ جات:

مشاہدے: 10305
ڈاؤنلوڈ: 3101

تبصرے:

مکتب تشیع
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10305 / ڈاؤنلوڈ: 3101
سائز سائز سائز
مکتب تشیع

مکتب تشیع

مؤلف:
اردو

پانچواں باب

اہلبیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق اور ان کا تربیتی مکتب

تمہید :۔

ہمارے وہ امام اور پیشوا جو اہلبیت ؑ میں سے تھے یہ جانتے تھے کہ جب تک وہ زندہ ہیں حکومت (ظالم خلیفاؤں کے زبردستی چھین لینے کی وجہ سے) انہیں نہیں ملے گی اور ظالم حکومتیں انہیں اور ان کے پیرووں کو لازمی طور پر نہایت کڑی پابندیوں اور سخت دباؤ میں رکھیں گی۔

ان حالات میں یہ بات فطری ہے کہ ایک طرف امام اس قدر دباؤ اور شدید پابندی میں اپنی ، اپنے عزیزوں اور اپنے حامیوں کی حفاظت کے لیے احتیاط کی راہ اختیاط کریں یعنی تقیے سے اپنے اور اپنے پیرووں کے لیے اس وقت تک کام لیں جب تک دوسروں کے جانی نقصان کا خدشہ اور دین اسلام کو خطرہ لاحق نہ ہو تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اپنے آپ کو سخت جانی دشمنوں اور حاسدوں سے بچا سکیں اور تقیے کے سائے میں زندگی بسر کرسکیں۔

دوسری طرف امامت کے ذمے دار منصب کے تقاضے کے مطابق یہ ضروری تھا کہ وہ اپنے حامیوں کو اسلامی احکام اور قوانین سکھائیں، انہیں صحیح اور مکمل دین کی راہ دکھائیں اور انہیں سماجی شعبے میں ایسی تربیت دیں کہ وہ پکے اور سچے مسلمانوں کا نمونہ بن جائیں۔

اہلبیت ؑ نے ایسی صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ رہبری کی کہ اس کتاب میں اس کی تشریح اور تفصیل کی گنجائش نہیں ہے ضخیم اور مفصل کتابیں جو اہلبیت ؑ کی احادیث پر مشتمل ہیں ان تعلیمات اور دانائیوں سے بھری ہوئی ہیں۔

اس جگہ یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان کے تعلیمی اور تربیتی پروگراموں کے ان نمونوں کی طرف اشارہ کرتے چلیں جو اعتقادات کی بحثوں سے ملتے ہیں اور تعلیم ، تربیت اور سماجی روش کے ان مفید پروگراموں کا انداز بھی جانتے چلیں جن کے مطابق وہ اپنے ماننے والوں کو تربیت دیتے تھے ۔ انہیں خدائی نجات اور بخشش کے قریب لاتے تھے اور ان کی روحوں کو گناہوں کی کثافتوں سے پاک کر دیتے تھے۔

یہاں ہم اہلبیت ؑ کے تربیتی مکتب کی کچھ تعلیمات بیان کرتے ہیں:۔

دعاء اور مناجات

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

الدُّعَآءُ سِلاَحُ المُومِنِ وُعَمُودُ الدِّینِ وَنُورُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرضِ :۔ دعا مومن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا اجالا ہے (اصول کافی، کتاب الدعاء)

دعا اور مناجات پر توجہ دینا شیعیت کی خصوصیات میں سے ہے جس کی بدولت شیعہ باقی لوگوں سے ممتاز ہوگئے ہیں شیعہ عالموں نے دعا کے قاعدوں ، طریقوں اور خوبیوں کے متعلق کتابیں لکھی ہیں اور ان دعاؤں کے متعلق جو اہلبیت ؑ سے آئی ہیں چھوٹی بڑی دس سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں۔ ان کتابوں میں دعا اور مناجات پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے خانوادے کی گہری توجہ اور ان کی بکثرت تاکیدوں کا ذکر کیا گیا ہے ، یہاں تک کہ ان کے یہ اقوال بھی بیان کیے گئے ہیں کہ

اَفضَلُ العِبَادَةِ الدُّعَآءُ :۔ دعا بہترین عبادت ہے ۔ (اصول کافی، کتاب الدعا)

اَحَبُّ الاَعمَالِ اِلیَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِی الاَرضِ الدُّعَآءُ :۔ دعا اور مناجات سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال ہیں جو روئے زمین پر خدا کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ (اصول کافی، کتاب الدعاء)

اِنَّ الدُّعَآءَ یَرُدُّ القَضَآءَ (وَالبَلآَءَ) :۔ دعا ناخوشگوار حادثات اور بلاؤں کو دور کرتی ہے۔ (اصول کافی، کتاب الدعا)

اِنَّ الدُّعَآءَ شِفَآءٌ مِّن کُلِّ دَآءٍ :۔ دعا ہر درد کی دوا ہے (اصول کافی ، کتاب الدعاء)

امیرالمومنین امام علی ؑ کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ آپ مجسم دعا تھے یعنی بہت زیادہ دعا اور مناجات کرتے تھے بے شک جو توحید پرستوں کا سردار اور خدا پرستو کا پیشوا ہو اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ آپ ؑ کی دعائیں بھی آپ کے خطبوں کی طرح عربی زبان کی بلاغت کے نمونے میں، مثلاً وہ مشہور دعا جو آپ نے کمیل ابن زیاد کو سکھائی تھی اور دعائے کمیل کے نام سے معروف ہے، یہ دعا خدائی تعلیمات اور دین کی ٹھوس حقیقتوں پر مشتمل ہے اور اس لائق ہے کہ ہر مسلمان کے لیے دین اور تربیت کا صحیح اور عظیم پروگرام اور دستور عمل بن جائے۔

اگر غور کیا جائے تو اصل میں وہ دعائیں جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہلبیت ؑ سے آئی ہیں ، ہر مسلمان کے لیے بہتری تربیتی مکتب اور تقلیدی نمونہ بن سکتی ہیں، ایک ایسا مکتب جو انسان میں ایمانی قوت ، پکا اعتقاد اور سچائی کے لیے جا دینے کا جذبہ پیدا کرتا ہے ، خدا کی عبادت کے راز سے واقف کراتا ہے ، مناجات کرنے اور خدا سے دل لگانے کا شوق دلاتا ہے، انسان کو فرض کا پہچاننا، دین پر چلنا اور ایسے اسباب مہیا کرنا سکھاتا ہے جو اسے خدا کے قریب لاتے اور بخشواتے ہیں اور اسے تباہیوں ، عیاشیوں اور بدعتوں سے دور رکھتے ہیں،

مختصر یہ ہے کہ ان دعاؤں میں اسلامی عقیدت، تربیت، اخلاق اور دین کی تعلیمات کے مجموعے کا نچوڑ جھلکتا ہے بلکہ یہ دعائیں فلسفہ اور اخلاق کی علمی بحثوں اور فلسفیانہ نظریوں اور خیالوں کے اہم ترین سرچشمے ہیں۔

اگر انسان میں اتنی صلاحیت اور اہلیت ہوتی۔۔۔ اہلبیت ایسا ساتھی ہے جو ہر ایک کو نہیں ملتا۔۔۔ کہ ان دعاؤں کے قیمتی اور روشن مواد سے فائدہ اٹھا پاتا تو ان تباہیوں کا نشان بھی نہ رہتا جنھوں نے کرہ ارض کو دبا رکھا ہے اور یہ برائیوں اور گناہوں کے قید خانوں میں گرفتار اور خوار روحیں سچائی اور پاکیزگی کے آسمان پر آزادی سے اڑتی (لیکن افسوس یہ ہے کہ انسانی نفس کی سرکش خواہشیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں) جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

اِنَّ الفَّفسَ لاَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءٍ :۔ انسان کا نفس امارہ اسے ہمیشہ بدی کی راہ دکھتا ہے (سورہ یوسف ؑ ۔ آیت ۵۳)

وَمَآ اَکثَرُ النَّاسِ وَلَو حَرَصتَ بِمُومِنِنَ :۔ اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! بہت سے آدمی ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ تمہیں ان کے ایمان لانے کی بہت فکر اور بہت زیادہ اصرار ہوگا (سورہ یوسف ۔ آیت ۱۰۳)

ہاں انسان میں کج روی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ گھمنڈی ہوجاتا ہے اور اپنی برائیوں سے نظر بچاتا ہے ، گمراہی اور فریب نظر کے باعث اپنے تمام اعمال کو اچھا اور مناسب سمجھنے لگتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے کہ میں صرف نیک کام کیا ہے وہ جان بوجھ کر اپنے برے کامو سے آنکھیں بند کرلیتا ہے اور انہیں اپنے نزدیک بہت معمولی سمجھتا ہے۔

یہ دعائیں جو وحی کے سرچشمے سے لی گئی ہیں کوشش کرتی ہی کہ انسان کو خدا کے حضور تنہا ہونے پر مجبور کریں تاکہ انسان تنہائی میں راز و نیاز کے وقت اپنے گناہ مان لے اور یہ کہے کہ اپنے گناہوں میں پھنس جانے کی وجہ سے مجھے تنہائی میں توبہ اور بخشش کی درخواست کے ساتھ خدا کی پناہ لینا چاہیے ایسا شخص اپنے گھمنڈ کے واقعات کے اور گناہوں کو ٹٹولے کہ یہ کیا ہیں اور کس طرح اس کی تباہی کا سبب بن گئے ہیں ، اس مناجات کرنے والے کی طرح جو دعائے کمیل میں خدا سے عرض کرتا ہے۔

اِلٰهی وَمَولاَیَ اَجرَیتُ عَلِیَّ حُکماً اِتَّبعَتُ فِیهِ هَوٰی نَفسِی وَلَم اَحتَرِس فِیهِ مِن تَزیِینِ عَدُوِّی فَغَرَّنِی بِمَٓااَهوٰی وَاَسعَدَهُ عَلٰی ذٰلِکَ القَضَآءُ فَتَجَاوَزتُ بِمَا جَرٰی عَلَیَّ مِن ذٰلِکَ بَعضَ حُدُدِکَ وَخَالَفتُ بَعضَ اَوَامِرِکَ :۔ اے خدا اور اے میرے مالک ! تو نے مجھے حکم دیا تھا لیکن میں نے نفسانی خواہش کی پیروی کی اور اپنے آپ کو اس دشمن (شیطان) کے شعبدوں سے نہیں بچایا جو انسانوں کی کشش کے لیے گناہوں کو خوشنما بنا دیتا ہے اس نے مجھے ان خواہشات کے ذریعے سے دھوکا دیا، قضائے آسمانی نے بھی اس کی مدد کی جس سے میں تیرے بعض احکام سے پھر گیا اور اپنی حد سے نکل گیا اور تیرے کچھ حکموں سے میں نے منہ موڑ لیا۔

اس میں شک نہی کہ انسانوں کے لیے تنہائی میں اپنے گناہوں کا ایسا اعتراف لوگوں کے سامنے اعتراف کرنے سے زیادہ آسان ہے چاہے یہ اعتراف تنہائی میں ہونے کے باوجود روح کی نہایت کربناک حالت کا موجب ہی ہو۔

روح کی مخصوص پریشانی کا یہ اعتراف اگر پورے طور پر ہوجائے تو انسان کی ناپاک روح کے ہیجان میں کمی آنے اور اسے خوش بختی کی راہ پر لگانے میں بہت کامیاب ہوتا ہے جو انسان اپنے نفس کی اصلاح کا خواہش مند ہے اسے چاہیے کہ اپنی زندگی میں ایسی تنہائیاں اختیار کرتا رہے ، ان میں نہایت آزادی سے سوچے بچارے اور اپنے نفس کا جائزہ لے۔

تنہائی اور محاسبے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان نہایت توجہ سے ان دعاؤں کا ورد کرے جو ائمہ اطہار ؑ سے ہمیں ملی ہیں اور جن کے گہرے معنیٰ انسانی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں جیسے ابو حمزہ ثمالی کی دعا جو امام زین العابدین ؑ سے نقل کی گئی ہے:

اَی رَبِّ جَلِّلنِی بِسِترِکَ وَاعفُ عَن تَوبِیخِی بِکَرَمِ وَجهِکَ :۔ اے میرے پالنے والے ! میری برائیوں کو اپنی پردہ پوشی سے چھپالے اور اپنی مہربانی اور بخشش کی بدولت مجھے ملامت اور تنبیہ سے معاف کر دے۔

اس جملے پر غور کرنے سے کہ ""میری برائیاں چھپالے"" ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے گناہوں کے چھپانے سے ذاتی دلچسپی رکھتا ہے اور یہ جملہ اس دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے اس لیے یہ دعا انسانوں کو گناہوں اور خطاؤں کے چھپانے کی طرف کسی بناوٹ کے بغیر توجہ دلاتی ہے جو ایک اہم بات ہے ۔ اس کے بعد یہ دعا اس مقام پر ایک دوسری حقیقت کا اعتراف کراتی ہیں جہاں مذکورہ دعا میں اوپر کے جملوں کے بعد کہتے ہیں:

فَلَوِ اطَّلَعَ الیَومَ عَلٰی ذَنبِی غَیرُکَ مَافَعَلتُهُ وِلَوخِفتُ تَعجِیلَ العُقُوبَةِ لاَاجتَنَبتُهُ :۔ اگر آج تیرے علاوہ کوئی اور بھی میرے گناہوں سے واقف ہوتا تو میں وہ گناہ نہ کرتا اور اگر مجھے گناہ کی جلد سزا ملنے کا ڈر ہوتا تو اس سے دور ہی رہتا۔

یہ اقرار اور اپنے گناہوں کے چھپانے سے گہری دلچسپی انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خدا سے گڑگڑا کر معافی اور بخشش طلب کرے تاکہ خدا کی دی ہوئی دنیوی یا اخروی سزاؤں کے نیتجے میں لوگوں کے سامنے رسوا نہ ہو، یہی وہ موقع ہے جب انسان راز و نیاز میں ایک لذت محسوس کرتا ہے مجبوراً خدا کی طرف جاتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے میری نافرمانیوں کے جواب میں برداشت اور چشم پوشی سے کام لیا اور اتنی زیادہ قوت رکھتے ہوئے بھی مجھے بدنام نہیں کیا، اسی دعا میں آگے چل کر امام زین العابدی ؑ فرماتے ہیں۔

فَلَکَ الحَمدُ عَلیٰ حِلمِکَ بَعدَ عِلمِکَ وَعَلٰی عَفوِکَ بَعدَ قُدرَتِکَ :۔ میں تیری تعریف کرتا ہوں کہ تو عالم اور دانا ہوتے ہوئے بھی حلیم اور برد بار ہے اور قادر اور توانا ہوتے ہوئے بھی عفو اور درگزر کرتا ہے۔

اس کے بعد امام ؑ انسان کو ان گناہوں کی معافی اور عذر خواہی کے طور پر جن کا ارتکاب اس نے خدا کی بردباری اور عفو سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے کیا تھا، یہ دعا سکھاتے ہیں تاکہ بندے کا خدا سے تعلق مضبوط ہوجائے اور بندہ اقرار کرے کہ اس نے حکم خدا سے انکار یا لاپروائی کی بنا پر گناہ نہیں کیے، چنانچہ اس کے بعد فرماتے ہیں:

وَیَحمِلُنِی وَیُجَرِّئُنِی عَلٰی مَعصِیَتِکَ حِلمُکَ عَنِّی وَیَد عُونِی اِلٰی قِلَّةِ الحَیَآءِ سِترُکَ عَلَیَّ وَیُسرِعُنِی اِلَی التَّوَثُّبِ عَلٰی مَحَارِمِکَ مَعرِفَتِی بِسَعَةِ رَحمَتِکَ وَعَظِیمِ عَفوِکَ :۔ اے خدا! تیری بردباری مجھے گناہ کی طرف لے جاتی ہے اور گناہ کی جرات دلاتی ہے، تیری رحمت اور درگزر کی جو معرفت مجھے حاصل ہوئی ہے اس نے مجھے ااعمال کی سزاؤ کے خوف سے بے پروا بنا دیا ہے جو تونے حرام قرار دیے ہیں۔

ان دعاؤں میں اس تعمیری روش کے ساتھ یہ مناجاتیں نفس انسانی کی اصلاح اور طہارت کرتی ہیں اور انسان کو خدا کی فرماں برداری اور گناہ چھوڑ دینے پر آمادہ کرتی ہیں، اس کتاب میں ان دعاؤں کے بہت سے نمونے پیش کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن ہمارا بہت جی چاہ رہا ہے کہ اس دعا کا ایک نمونہ ضرور دے دیں جس میں انسان نے خدا سے بحث اور استدلال کے طور پر معافی اور بخشش کی درخواست کی ہے ۔ مثلاً دعاءے کمیل کے ہنگامہ مچا دیے والے یہ فقرے:

وَلَیتَ شِعری یَا سَیِّدی وَاِلٰهِی وَ مَولاَیَ اَتُسلِّطُ النَّارَ عَلٰی وُجُوهٍ خَرَّت لِعَظَمَتِکَ سَاجِدَةًوَعَلٰی اَلسُنٍ نَطَقَت بِتَوحِیدِکَ صَادِقَةً وَبِشُکرِکَ مَادِحَةً وَعَلٰی قُلُوبٍ ن اعتَرَفَت بِاِلٰهِیَّتِکَ مُحَقّقَةً وَعَلٰی ضَمَآئِرَ حَوَت مِنَ العِلمِ بِکَ حَتَّی صَارَت خَاشِعَةً وَعَلیٰ جَوَارِحَ سَعَت اِلٰی اَوطَانِ تَعَبُّدِکَ طَآئِعَةً وَاَشَارَت بِاستِغفَارِکَ مُذعِنَةً مَا هٰکَذَاالظَّنُّ بِکَ وَلاَ اُخبِرنَا بَفَضلِکَ :۔ اے میرے خدا ! سردار اور آقا ! کاش میں جانتا کہ تو اپنے عذاب کی آگ ان صورتوں پر برسائے گا جو تیری عظیم درگاہ میں سرجھکائے ہوئے ہیں یا ان زبانوں پر جنہوں نے سچائی کے ساتھ تیری وحدانیت تعریف اور شکر کی باتیں کی ہیں یا ان دلوں پر جنہوں نے واقعی تیری خدائی کا اقرار کیا ہے یا ان ذہنوں پر جو تیری معرفت کی رو سے تیری عظمت کے سامنے احتام اور عاجزی سے پڑے ہوئے ہیں یا ان اعضا پر جو تیری عبادت کے لیے شوق سے عبادت گاہوں کی طرف دوڑتے ہیں ، (ایسا نہیں ہے) کوئی شخص تجھ پر ایسا شبہ بھی نہیں کرستا اور اس فضل و کرم کے باوجود جو تو ہم پر رکھتا ہے، ایسی کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی ہے۔

دعا کے ان فقرو کو پھر پڑھو اور ان کی جادو کر دینے والی بلاغت ، حسن اور بیان کی پاکیزگی پر غور کرو اور سوچو کہ یہ دعائیں کس طرح ایک ہی وقت میں گناہ اور قصور کے اقرار اور عبادت کی روح کا عملی طریقہ بھی سکھاتی ہیں اور انسان کو خدا کی مہربانی اور بخشش کی امید بھی دلاتی ہیں اور پھر رمزیہ انداز میں ۔۔۔۔ بالواسطہ طور پر ۔۔۔ خدا کی عبادت اور فرماں برداری کا ڈھنگ بتاتی ہیں اور سمجھای ہیں کہ فرائض ادا کرنے والا خدا کی بخشش اور انعام کا سزاوار ہوتا ہے۔

اس طرح کالائحہ عمل انسان میں یہ شوق پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی طرف رجوع کرے اور پھر ضمیر کی آواز پر اسے ادا کرے جو واجب تھا اور پہلے جسے ادا کرنے سے جی چرا رہا تھا۔

پھر ہم دعائے کمیل کے دوسرے حصے میں بحث اور فریاد کا دوسرا ڈھنگ پاتے ہیں اور خدا سے یوں راز و نیاز کرتے ہیں:

فَهَبنِی یَٓااِلٰهِی وَسَیِّدی وَمَولاَیَ وَرَبِّی صَبَرتُ عَذَابِکَ فَکَیفَ اَصبِرُ اَعلیٰ فِرَاقِکَ وَهَبنِی صَبَرتُ عَلیٰ حَرِّ نَارِکَ فَکَیفَ اَصبِرُ عَنِ النَّظَرِ اِلیٰ کَرَامَتِکَ :۔ اے خدا ، اے مالک اور اسے میرے پالنے والے ! بالفرض اگر میں تیرے عذاب کو برداشت بھی کرلوں تو تیری جدائی پر کیسے صبر کرلوں اور میں یہ بھی مانے لتا ہوں کہ میں تیرے غضب کی آگ کی گرمی برداشت کرسکتا ہوں لیکن تیرے فضل و کرم کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کرکے کیسے صبر کرلوں۔

یہ فقرے انسان کو بتاتے ہیں کہ اللہ کی نزدیکی سے لذت اور محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کی قدرت اور بخشش کے دیکھنے سے جوش ، دلچسپی اور شوق پیدا ہوتا ہے اور یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اس لذت کا اس حد اور اس درجے تک پہنچ جانا مناسب ہے کہ اس سے محرومی کا تکلیف دہ اثر دوذخ کی آگ کی گرمی اور عذاب سے بھی بڑھ جائے۔

جس طرح یہ فرض کر لیا کہ ممکن ہے انسان دوذخ کی آگ کی گرمی برداشت کرلے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کی عنایت کی نظر سے محرومی پر صبر کرے اسی طرح یہ فقرے ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ محبوب اور معبود سے جو دل بستگی اور نزدیکی کی لذت بندے کو حاصل ہے اور خدا کے نزدیک بہتری سفارش ہے کیونکہ خدا ایسے بندے پر عنایت کرتا اور اس سے درگزر کرتا ہے اور عشق اور جوش کی پاکیزگی اور خوبی ، کرم کرنے والے، بردبار، توبہ قبول کرنے والے اور بخشنے والے خدا سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

اس مقام پر یہ مناسب ہے کہ اس گفتگو کے اخیر میں وہ دعا بتادی جائے جو بہت مختصر ہے، تمام اخلاقی خوبیو پر محیط ہے اور انسان کے ہر عضو کے کام اور انسانی کے ہر طبقے اور ان کے طبقوں کی عمدہ خصوصیات بیان کرتی ہے، یہ دعا حضرت ولی عصر امام مہدی آخرالزمان ؑ کی دعا کے نام سے مشہور ہے اور وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰهُمَّ ارزُقنَا تَوفِیقَ الطَّاعَةِ وَبُعدَ المَعصِیَةِ وَصِدقَ النِّیَّةِ وَعِرفَانَ الحُرمَةِ وَاَکرِمنَا بِالهُدٰی وَالاِستِقَامَةِ وَسَدِّد اَلسِنَتَنَا بِالصَّوَابِ وَالحِکمَةِ وَاملاَ قُلُوبَنَا بِالعِلمِ وَالمَعرِفَةِ وَطَهِّر بُطُونَنَا مِنَ الحَرَامِ وَالشُّبهَةِ وَاکفُف اَیدِیَنَا عَنِ الظُّلمِ وَالسَّرِقَةِ وَاغضُض اَبصَارَنَا عَنِ الفُجُورِ وَالخِیَانَهِ وَاسدُد اَسمَاعَنَاعَنِ اللَّغوِ وَالغِیبَةِ وَتَفَضَّل عَلیٰ عَلَمَآئِنَا بِالزُّهدِ وَالنَّصِیحَةِ وَعَلیَ المُتَعَلِّمِینَ بِالجُهدِ وَالرَّغبَةِ وَعَلَی المُستَمِعِین َ بِالاِتِّبَاعِ وَالمَوعِظَةِ وَعَلیٰ مَرضَی المُسلِمِینَ بِالشِّفَآءِ وَالرَّاحَةِ وَعَلیٰ مَوتَاهُم بِالرَّافَةِ وَالرَّحمَةِ وَعَلیٰ مَشَایِخِنَا بِالوَقَارِ وَالسَّکِینَةِ وَعَلَی الشَّبَابِ بِالاِنَابَةِ وَالتَّوبَةِ وَعَلیَ النِّسَآءِ بِالحَیَآءِ وَالعِفَّةِ وَعَلَی الاَغنِیَآءِ بِالتَّوَاضُعِوَالسَّعَةِ وَعَلِی الفُقَرَآءِ بِاالصَّبرِ وَالقَنَاعَةِ وَعَلَی الغُزَاةِ بِالنَّصرِ وَالغَلَبَةِ وَعَلَی الاُسَرَآءِ بِالخَلاَصِ وَالرَّاحَةِ وَعَلَی الاُمَرَآءِ بِالعَدلِ وَالشَّفَقَةِ وَعَلَی الرَّعِیَّةِ بِالاِنصَافِ وَحُسنِ السِّیرَةِ وَبَارِک لِلحُجَّاجِ وَالرُّوَّارِ فِی الزَّادِ وَالنَّفَقَةِ وَاقضِ مَآ اَوجَبتَ عَلَیهِم مِنَ الحَجِّ وَالعُمرَةِ بَفَضلِکَ وَرَحمَتِکَ یَآاَرحَمَ الرَّاحِمِینَ :۔ اے خدا ! اطاعت کی توفیق ، گناہ سے دوری، اچھی نیت اور اس کا علم عنایت فرما جو تیرے نزدیک قابل احترام ہے اے خدا! ہمیں ہدایت اور ثابت قدمی عطا کر، ہماری زبانوں پر درست اور دانائی کی بات چیت جاری کر، ہمارے دلوں کو علم اور معرفت سے بھردے ہمارے پیٹوں کو حرام اور نجس غذا سے پاک رکھ، ہمارے ہاتھو کو ظلم اور چوری سے روک دے۔ ہماری آنکھوں کو حرام کاریاں اور خیانت سے روک دے۔ ہمارے کانوں کو فضول اور بے ہودہ باتیں اور چغلی سننے سے معذور کردے، ہمارے عالموں کو زہد اور نصیحت کرنے کی توفیق، طالب علموں کو محنت اور علم کاشوق، سننے والوں کو اطاعت اور وعظ قبول کرنا، بیمار مسلمانوں کو صحت اور آرام، مسلمان مردوں پر مہربانی اور رحم، بوڑھوں کو عزت اور سنجیدگی ، جوانوں کو غلطیوں پر پچھتا اور توبہ ، عورتوں کو شرم اور پاکدامنی ، دولتمندوں کو کشادگی عطا اور عاجزی مفلسوں کو صبر اور قناعت ، جنگجوؤں کو مدد اور فتح ، قیدیوں کو آزادی اور آرام، حاکموں اور حکمرانوں کو عدل اور نرمی اور رعیت کو انصاف اور نیک کرداری عطا فرما!

حاجیوں اور زائروں کو راستے کا کھانا اور خرچ عنایت کر اور ان پر تو نے جو حج اور عمرہ واجب کیا ہے اپنے فضل اور رحمت سے اسے ادا کرنے کی توفیق دے۔ اے مہربانوں میں سب سے مہربان!

ہم پڑھنے والے بھائیوں سے پر زور سفارش کرتے ہیں کہ فرصت کو غنیمت جانو اور دعاؤں کی تلاوت اس طرح کرو کہ ان کے معنیٰ فائدے اور مقصد پر گہری نظر رہے اور خدا کی طرف پورا پورا دھیان دے کر نہایت خلوص سے دل لگا کر پڑھو، تمہارے پڑھنے کا یہ انداز ہو جیسے یہ دعائیں تمہیں نے لکھی ہیں اور اب انہیں اپنی زبان سے ادا کر رہے ہو

یہ دعائیں ان قاعدوں کے مطابق پڑھنا چاہئیں جو اہلبیت ؑ سے ہم تک پہنچے ہیں، اس لیے کہ ان کو دلی توجہ کے بغیر پڑھنا صرف زبان ہلانا ہے اور اس سے نہ انسان کے لیے خدا کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے نہ وہ خدا کا مقرب بن سکتا ہے اور نہ اس کی پریشانی کی گتھی سلجھ سکتی ہے اور پھر ایسی صورت میں دعا قبول بھی نہیں ہوتی جیسا کہ امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:

اِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لاَ یَستَجِیبُ دُعَآءً بِظَهرِ قَلبٍ سَاهٍ فَاِذَا دَعَوتَ فَاَقبِل بِقَلبِکَ ثُمَّ استَقِن بِالاِجَابَةِ :۔ خداوند بزرگ و برتر وہ دعا قبول نہیں کرتا جو کسی بےپروا دل سے نکلتی ہے جب دعا کرو تو دل سے خدا کی طرف دھیان دو، پھر یقین رکھو کہ تمہارا چاہا ہوا پورا ہوجائے گا۔(اصول کافی جلد ۴ باب الدعاء صفحہ ۷۴۳)

صحیفہ سجادیہ کی دعائیں:۔

عاشورا کے دن جان گھلا دینے والے واقعے کے بعد بنی امیہ کے بادشاہوں نے مسلمانوں کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے کر سخت ظلم اور آمریت کے ساتھ بے حد خون بہاتے اور ظلم ڈھاتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو شدید نقصان پہنچایا۔

ان حالات میں امام زین العابدین ؑ بجھے دل کے ساتھ مصیبت کے مارے اپنے گھر میں بیٹھے زندگی گزار رہے تھے ۔ کوئی ان کے پاس نہیں آتا تھا اور آپ بھی سخت نگرانی کے باعث آزاد نہیں تھے کہ لوگوں میں چلیں پھریں اور ان کے فرائض اور کام ان کو بتائیں۔

ان حالات کے پیش نظر آپ نے یہ دستور اپنایا کہ دعا کے ذریعے سے جو تعلیم و تربیت کا ایک طریقہ ہے قرآن کے اصول ، اسلام کے حقائق اور اہلبیت ؑ کے رہن سہن کے طریقے بتائیں۔ لوگوں کو مذہب کی اصلیت سے روشناس کرائیں ۔ پرہیز گاری کی تعلیم دیں اور نفس کو سدھارنا اور سنوانا اور اچھی عادتی ڈالنا سکھائیں۔

یہ طریقہ ایک بے مثل ایجاد تھی جس کے پردے میں امام ؑ دشمنوں کو کسی بہانے کا موقع دیے بغیر اسلام کے حقائق اور اصول عام کرنے لگے۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کو بہت سی دعائیں سکھائیں۔ ان مناجاتوں میں سے کچھ جمع کرکے "صحیفہ سجادیہ" کے نام سے ایک کتاب مرتب کر دی گئی ہے جسے "زبور آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم " بھی کہتے ہیں۔

عربی ادب کے بلند ترین نمونوں کے طرز پر اس کتاب کا اسلوب بیان بہت دلکش ہے، یہ مذہب اسلام کے بلند مقاصد، توحید و نبوت کے گہرے رموز، سرور کائناتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق اور اسلام کے حقائق کی تعلیم کا سب سے صحیح طریقہ ہے اور اس می دینی تربیت کے مختلف مسائل شامل ہیں ، واقعی یہ کتاب دعا کے لباس میں مذہب اور اخلاق کی تعلیم دیتی ہے یا ایک مناجات ہے جو مخصوص اسلوب میں مذہب اور اخلاق کا ذکر کرتی ہے، سچ تو یہ ہے کہ یہ کتاب قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد عربی کے نہایت اعلیٰ انداز اور طرز بیان کی حامل ہے اور الہٰی اور اخلاقی فلسفوں کے سمندر سے ابھرا ہوا روشنی کا سب سے اونچا مینار ہے۔

اس دعا کی کچھ تعلیمات وہ ہیں جو یہ سکھاتی ہیں کہ خدا کی تعریف اور تقدیس کس طرح کی جائے۔ اس کا شکر کیسے ادا کیا جائے اور اس کی بارگاہ میں توبہ کیوں کرکے جائے۔

اس کا ایک حصہ یہ بتایا ہے کہ خدا سے راز و نیاز کیسے کیا جائے،تنہائی میں اخلاص سے کیسے کام لیا جائے اور اچھی طرح دل کیسے لگایا جائے۔

اس کتاب کا ایک جزو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام انبیاء ؑ اور خدا کے منتخب بندوں پر درود و سلام کے حقیقی معنی اور اس کا صحیح طریقہ بیان کرتا ہے۔

اس کتاب میں جو باتیں شامل ہیں ان کا ایک حصہ والدین کے احترام، اولاد پر والدین کے اور والدین پر اولاد کے حقوق کی تشریح کرتا ہے۔ اسی طرح پڑوسیوں ، عزیزوں اور تمام مسلمانوں کے حقوق اور غریبوں کے حقوق مالداروں پر اور غریبوں پر مالداروں کے حقوق بیان کرتا ہے۔

یہ کتاب اپنے ایک حصے میں قرض داروں اور تمام معاشی اور مالی معاملات کے سلسلے میں انسان کے فرائض ، تمام دوستوں، ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں اور اصول طور پر تمام آدمیوں ، کاریگروں اور ملازموں کے باہمی سلوک اور رویے کی تشریح کرتی ہے۔

یہ کتاب ایک اور حصے میں تمام اخلاقی خوبیوں کے ایسے اسباب کی نشان دہی کرتی ہے جو اچھی عادتیں ڈالنے کا ایک مکمل ذریعہ بن سکتے ہیں۔

ایک اور حصے میں یہ بتاتی ہے کہ برے حالات اور حادثٓت میں کیسے صبر کرنا چاہیے اور بیماری اور صحت میں کس طرح رہنا چاہیے۔

کچھ فقرو میں اسلامی فوج کے فرائض اور فوج کے مقابلے میں دوسرے لوگوں کے فرائض منصبی بیان کرتی ہے اور مجموعی طور پر جو کچھ اخلاق محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شریعت الہٰی کے تقاضے ہیں دعا کے لباس اور طرز میں ان سب کو کھول کر بیان کرتی ہے۔

حضرت امام زین العابدین ؑ کی ان دعاؤں کے نمایاں فقروں کے چند نمونے مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت مختصر طور پر پیش کیے جاتے ہیں :۔

۱ ۔ خدا کی پہچان :۔

خدا اور اس کی عظمت اور قدرت کی پہچان کرانا اور اس کی وحدانیت اور تقدس کی تشریح کرنا، علم کی نہایت نازک اور باریک معنیٰ آفرینیوں میں سے ہے،اور یہ مضمون ان دعاؤں میں طرح طرح کی عبارتو اور اسلوبوں میں آیا ہے ۔ جیسے یہ فقرے جو ہم پہلی دعا میں پڑھتے ہیں۔

اَلحَمدُلِلّٰهِ الاَوَّلِ بِلاَاَوَّلٍ کَانَ قَبلَهُ وَالاٰخِرِ بِلاَ آخِرٍ یَکُونُ بَعدَهُ الَّذِی قَصُرَت عَن رُویَتِهِ اَبصَارُ النَّاظِرِینَ وَعَجَزَت عَن نَعتِهِ اَوهَامُ الوَاصِفِینَ ابتَدَعَ بِقُدرَتِهِ الخَلقَ ابتِدَاعاً وَاختَرَ عَهُم عَلٰی مَشِیَّتِهِ اختِراعاً :۔ اس خدا کی تعریف اور شکر کرتا ہوں جو ایسا اول ہے کہ اس سے پہلے کوئی آغاز نہیں تھا اور ایسا آخر ہے کہ اس کے بعد کوئی انجام نہیں ہوگا۔ وہ ایسا خدا ہے جس کے دیکھنے سے آنکھی معذور ہیں اور تعریف کرنے والوں کی عقلیں اس کی تعریف سے عاجز ہیں وہ ایسا خدا ہے جس نے موجودات (کائنات) کو اپنی قدرت سے یپدا کیا اور اس کو جس طرح چاہتا تھا ظاہر کیا۔

مندرجہ بالافقرات نے بڑی نزاکت سے خدا کے اول اور آخر ہونے کی حقیقت مجسم بنا کر سمجھا دی کہ خدا اس سے بری اور الگ ہے جو آنکھ اور سوچ سے دیکھا اور سمجھتا جاتا ہے اس طرح ان فقرات میں بڑی باریکی سے موجودات کی (جو خدا کی قدرت اور ارادے سے متعلق ہیں) پیدائش اور بناوٹ بیان کی گئی ہے۔

ہم چھٹی دعا میں پڑھتے ہیں :۔

اَلحَمدُ لِلّٰهِ الَّذِی خَلَقَ اللَّیلَ وَالنَّهَارَ بَقُوَّتِهِ وَمَیَّزَ بَینَهُما بِقُدرَتِهِ وَجَعَلَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنهُما حَدّا مَّحدُوداً وَاَمَداً مَّمدُوداً یَولِجُ کُلَّ وَاحِدٍ مِّنهُمَا فِی صَاحِبِهِ وَیُولِجُ صَاحِبَهُ فِیهِ بَتَقدِیرٍ مِنهُ لِلعِبَادِ فِیمَا یَغذُوهُم بِهِ وَیُنشِئُهم عَلَیهِ فَخَلَقَ لَهُمُ اللَّیلَ لِیَسکُنُوا فِیهِ مِن حَرَکَاتِ التَّعَبِ وَنَهَضَاتِ النَّصَبِ وَجَعَلَهُ لِبَاساً لِیلبِسُوا مِن رَّاحَتِهِ وَمَنَامِهِ فَیَکُونَ ذٰلِکَ لَهُم جَمَاماً وَقُوَّةً وَلیَنَالُوابِهِ لَذّةً وَشَهوَةً :۔اس خدا کی تعریف اور شکر کرتا ہوں جس نے رات اور دن کو اپنی قدرت سے پیدا کیا اور اسی قدرت سے ان میں فرق رکھا اور ان دونوں میں سے ہر ایک کی ایک حد مقرر کی ، وہ ایسا خدا ہے جس نے رات اور دن میں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کا جانشین (جگہ لینے والا) بنا دیا (نوٹ، اس طرح کہ دھیرے دھیرے کرکے رات اور دن کے اثرات داخل کیے، یکدم روشنی یا تاریکی نہیں ہوتی) تاکہ (اس کے ذریعے سے) خلقت کی غذا بہم پہنچائے اور ان کی پرورش کرے، رات کو اس لیے پیہدا کیا کہ اس میں تھکا دینے والی حرکت اور محنت طلب تلاش سے آرام پائیں اور اس کو ان کے لیے پردہ بنا دیا تاکہ بستر پر آرام کریں، اس میں اپنی طاقت کے حصول اور خوشی کا انتظٓم کریں اور اپنی فطری خواہش اور لذت سے بہرہ مندہوں ۔

اس دعا میں دن رات کے پیدا کرنے اور اس انسانی فرض کے سلسلے میں جو اس نعمت کے شکریے کے لیے عائد ہوتا ہے کچھ دوسرے فائدے بھی بتائے گئے ہیں۔

ساتویں دعا میں دوسرے ڈھنگ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ تمام معاملات اور واقعات خدا کے ہاتھ میں ہی جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں:۔

یَامَن تُحَلُّ بِهِ عُقَدُ المَکَارِهِ وَیَا مَن یُفثَاُ بِهِ حَدُّ الشَّدَٓائِدِ وَیَامَن یُلتَمَسُ مِنهُ المَخرَجُ اِلیٰ رَوحِ الفَرَجِ ذَلَّت لِقُدرَتِکَ الصِّعَابُ وَتَسَبَّبَت بِلُطفِکَ الاَسبَابُ وَجَرٰی بَقُدرَتِکَ القَضَآءُ وَمَضَت عَلیٰ اِرَادَتِکَ الاَشیَآءُ فَهِیَ بِمَشِیَّتِکَ دُونَ قَولِکَ مَؤتَمِرَةٌ وَبِاِرَادَتِکَ دُونَ نَهِیکَ مُنزَجِرَةٌ :۔ اے خدا! دشواریاں (تکلیفیں ) تیرے ہی ذریعے سے دور ہوتی ہیں۔ اے خدا! مصیبتوں کی سختی تیری ہی بدولت کم ہوتی ہے اے خدا! آزادی اور آرام کی فراہمی کا تجھی سے تقاضا ہوتا ہے ۔ تیری ہی قدرت سے مصیبتیں چھٹ جاتی ہیں، تیری مہربانی سے اسباب اپنی جگہ ٹھیر جاتے ہیں۔ تیری طاقت سے حکم جاری ہوتا ہے اور تیرے چاہنے کے مطابق کام چلتے ہیں یہ تمام معاملات گفتگو میں حکم دیے بغیر تیری منشا اور ارادے سے طے ہوجاتے ہیں اور تیرے منع کیے بغیر ہی رک جاتے ہیں۔

۲ ۔ خدا کی عبادت میں عاجزی:۔

اس بات کی تشریح کہ انسان خدا کی درگاہ میں خالص عبادت اور فرماں برادری کی چا ہے جتنی کوششیں کریں، خدا کے انعامات اور مہربانیوں کا حق ادا نہیں کرسکتے ، جیسا کہ ہم سینتیسویں دعا میں پڑھتے ہیں:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ اَحَداً لاَ یَبلُغُ مِن شُکرِکَ غَایَةً اِلاّ حَصَلَ عَلَیهِ مِن اِحسَانِکَ مَا یُلزِمُهُ شُکراً وَلاَ یَبلُغُ مَبلَغاً مِن طَاعَتِکَ وَاِنِ اجتَهَدَ اِلاَّ کَانَ مُقَصِّراً دُونَ استِحقَاقِکَ بِفَضلِکَ فَاَشکَرُ عِبَادِکَ عَاجِزٌ عَن شُکرِکَ وَاَعبُدُهُم مُقَصِّرٌ عَن طَاعَتِکَ :۔ اے خدا! کوئی شخص تیری شکر گزاری کا پورا حق ادا نہیں کرسکتا البتہ صرف یہ کرسکتا ہے کہ پھر تیرا احسان مند ہو اور اس پر دوبارہ تیرا شکر ادا کرنا واجب ہوجائے ، وہ چاہے جتنی زیادہ کوشش کرے تیری اطاعت کی حد ختم نہیں کرسکتا۔ بس یہ کرسکستا ہے کہ تیری بے حد مہربانی کے باعث تیرے شایان شان اطاعت کرنے سے قاصر رہے ۔ اس لیے تیرے سب سے زیادہ شاکر بندے بھی تیری شکر گزاری میں کمزور ہیں اور تیرے سب سے زیادہ عبادت کرنے والے بندے تیری اطاعت سے قاصر ہیں۔

چونکہ بندوں کے لیے خدا کی نعمتیں اور عطیے لامحدود ہیں، بندے ان کا شکر ادا کرنے سے عاجز ہیں۔ پھر اسے کیا کہی جو لوگ نہایت ڈھٹائی سے خدا کا حکم ٹال دیں۔ وہ گنہگار بندہ جو ان گناہوں میں سے ایک گناہ کی تلافی کی بھی طاقت نہیں رکھتا وہ کیا کرے ، صحیفہ سجادیہ کی سولہویں دعا کے کے مندرجہ ذیل فقرے اس نکتے کی وضاحت کرتے ہیں:۔

یَآاِلٰھی لَوبَکَیتُ اِلَیکَ حَتیّٰ تَسقُطَ اَشفَارُ عیَنَیَّ وَانتَجَبتُ حَتّٰی یَنقَطِعَ صَوتِی وَقُمتُ لَکَ حَتّٰی تَتَنَشَّرَ قَدَمَایَ وَرَکَعتُ لَکَ حَتّٰی یَنخَلِعَ صُلبِی وَسَجَدتُّ لَکَ حَتیّٰ تَتَفَقَّاَ حَدَقَتَایَ وَاکَلتُ تُرَابَ الارضِ طَولَ عُمرِی وَشَرِبتُ مَآءَ الرَّمَادِ اٰخِرَ دَھرِی وَذَکَرتُکَ فِی خِلَالِ ذٰلِکَ حَتّٰی یَکِلَّ لَسَانِی ثُمَّ لَم اَرفَع طَرَفِی اِلیٰ اٰفَاقِ السّمَآءِ استِحیَاءً مِنکَ مَااستَوجَبتُ بَذٰلِکَ مَحوَسَیِّئَۃِ وَاحِدَۃٍ مِّن سَیِّئَاتِی :۔ اے خدا! اگر میں تیرے سامنے اس قدر روؤں کہ میری آنکھوں کی پلکیں بھی جھڑجائیں اور اس زور سے روؤں کہ میری آواز ختم ہوجائے (ٹوٹ جائے) اور اپنے دونوں پاؤں پر اتنے عرصے تک کھڑا رہوں کہ پاؤں سوج جائیں اور تیرے لیے اتنے رکوع کروں کہ میری ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے اور تجھے اتنے سجدے کرو کہ میری آنکھوں کے ڈھیلے حلقوں سے نکل پڑیں اور تمام عمر زمین کی مٹی چاٹتا رہوں اور مرتے وقت تک گدالا پانی پیتا رہوں اور ان حالات میں تیرے ذکر میں اتنا مشغول رہوں کہ زبان بولنے سے رک جائے اور پھر تجھ سے شرمندہ ہوکر آسمان کی طرف آنکھ نہ اٹھا سکوں اس وقت بھی ان کاموں کے عوض اپنے ایک گناہ کی معافی کا بھی حقدار نہیں ہوسکتا۔

۳ ۔ خدا کی طرف سے سزا اور جزا:۔

سزا و جزا اور بہشت و دوزخ اور اس کا بیان کہ خدا کے تمام انعامات اس کی مہربانی کا نتیجہ ہیں اور چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی جو بندہ ڈھٹائی سے کر بیٹھتا ہے عذاب کا موجب ہوگا۔ گناہ کے متعلق بندے پر خدا کی حجت ختم ہوچکی ہے اور اب بندے کو کسی قسم کے اعتراض کا کوئی حق نہیں ہوگا۔

صحیفہ سجادیہ کی سبھی دعائیں یہ اثر رکھتی ہیں کہ خدائی عذاب کا ڈر اور اس کے انعام کی امید انسان کی روح میں سمو دیں۔ یہ سبھی دعائیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ وہ اپنے طرح طرح کے اسالیب سے انسان کے سوچنے والے ذہبن میں گناہ کے ارتکاب کا ڈربٹھاٹی ہیں جیسا کہ ہم چھیالسیویں دعا میں پڑھتے ہیں،

حُجَّتُکَ قَآئِمَةٌ لاَ تُدحَضُ وَسُلطَانُکَ ثَابِتٌ لاَ یَزُولُ فَالوَیلُ الدَّآئِمُ لِمَن جَنَحَ عَنکَ وَالخَیبةٌ الخَاذِلَةٌ لِمَن خَابَ مِنکَ وَالشَّقَآءُ الاَشقیٰ لِمَنِ اغتَرَّبِکَ مَآاَکثَرَ تَصَرُّفَه فِی عَذَابِکَ وَمَآآبَعَدَ غَایَتَهُ مِنَ الفَرَجِ وَمَآ اَقنَطَهُ مِن سُهُولَةِ المَخرَجِ عَدلاً مّن قَضَآئِکَ لاَ تَجُورُ فِیهِ وَاِنصَافاً مِن حُکمِکَ لاَ تَحِیفُ عَلَیهِ فَقَد ظَاهَرتَ الحُجَجَ وَاَبلَیتَ الاَعذَارَ :۔اے خدا ! تیری دلیل اور حجت مضبوطی سے قائم ہے اور باطل نہیں ہوگی چنانچہ تیرا دائمی عذاب اس کے لیے ہے جو تجھ سے پھر گیا ہے اور ذلیل کرنے والی ناامیدی اسے نصیب ہے جو تجھ سے آس توڑ بیٹھا ہے۔ حددرجہ بدبخت وہ ہے جو تیری مہربانی اور بخشش سے گھمنڈی ہوگیا ہے ۔ کتنی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ایسا آدمی لگاتار تیرے عذاب کی طرف پلٹتا ہے اور تیری سزا میں وہ کتنے لمبے عرصے تک پریشانی بھگتتا ہے اور اس کی مصیبت کتنی طویل ہوتی ہے کتنے مایوس ہیں لوگ اس رہائی سے جو تیرے عادلانہ فیصلے کے باعث جس میں تو کوئی ظلم نہیں کرتا اور اپنے منصفافہ حکم کی بدولت جس میں تو کوئی زیادتی نہیں کرتا آسانی سے حاصل ہوسکتی ہے کیونکہ تو حجتوں اور دلیلوں کو لگاتار (یا ایک دوسرے کی تائید میں) گردش دیتا اور ان کو مدتوں تک ظاہر کرتا رہا ہے۔

ہم اکتیسویں دعا میں پڑھتے ہیں :۔

اَللّٰهُمَّ فَارحَم وَحدَتِی بَینَ یَدَیکَ وَ وَجِیبَ قَلبِی مِن خَشیَتِکَ وَاضطِرَابَ اَرکَانِی مِن هَیبَتِکَ فَقَد اَقَامَتنِی یَارَبِّ ذُنُوبِی مَقَامَ الخِزیِ بِفَنَائِکَ فَاِن سَکَتُّ لَم یَنطِق عَنِّی اَحَدٌ وَاِن شَفَعتُ فَلَستُ بِاَهلِ الشَّفَاعةِ :۔اے خدا ! تو اپنی بارگارہ میں میری تنہاءی، اپنے ڈر سے میرے دل کی دھڑکن اور اپنی دھاک سے میرے اعضا کی تھرتھری پر ترس کھا کیونکہ اے میرے پالنے والے ! میرے گناہ مجھے تیری درگارہ میں فنا کی بدنامی کے مقام پر لے آئے ہیں، اب اگر میں چپ رہتا ہوں تو کوئی مجھ سے بات نہیں کرتا جو سفارش یا ذریعہ چاہتا ہوں تو اپنے آپ کو سفارش کے لائق نہیں پاتا۔

انتالیسویں دعا میں پڑھتے ہیں :۔

فَاِنَّکَ اِن تُکَافِنِی بِالحَقِّ تُهلِکنِی وَاِلاَّ تَغَمَّدنِی بِرَحمَتِکَ تُوبِقنِی (اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَستَوهِبُکَ یَٓااِلٰهِی مَالاَ یُنقِصُکَ بَذلُهُ وَاَستَحمِلُکَ مَالاَ یَبهَضُکَ حَملُهُ اَستَوهِبُکَ یَٓااِلٰهِی نَفسِیَ الَّتِی لَم تَخلُقهَا لِتَمتَنِعَ بِهَامِن سُوٓءٍ اَو لِتَطَرَّقَ بِهَا اِلٰی عَلیٰ مِثلِهَا وَاحتِجَاجاً بِهَا عَلٰی شَکلِهَا) وَاَستَحمِلُکَ مِن ذُنُوبِی مَا قَد بَهَطَنِی حَملُهُ وَاَستَعِین بِکَ عَلیٰ مَاقَد فَدَحَنِی ثِقلُهُ فَصَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِهِ وَهَب لِنَفسِی عَلٰی ظُلمِهَا نَفسِی وَ وَکِّل رَحمَتَکَ بِاحتِمَالِ اِصرِی :۔ اگر تو مجھے صحیح سزا دے گا تو ہلاک کرے گا اور اگر مھجے اپنی رحمت سے نہیں ڈھانپے گا تو تباہ کردے گا۔ میں تجھ سے یہ چاہتا ہوں کہ میرے گناہ مجھ سے لے لے کیونکہ میں ان کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں اور تجھ سے ان گناہوں کے سلسلے میں مدد مانگتا ہوں جن کے بوجھ نے مجھے جھکا اور تھکا دیا ہے۔ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی آل پر درود بھیج اور میرے نفس کو معاف کردے جس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنی رحمت کو میرے گناہوں کا بوجھ اٹھانے میں میرا وکیل کر۔

۴ ۔ دعاؤں کی چھاؤں میں گناہ سے پرہیز :

یہ دعائیں اپنے پرھنے والے کو برائیوں، برے کاموں اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہیں اور اس کے دل کی گندگیاں دھو دھلا کر اسے پاک صاف کرتی ہیں۔

مثلاً بیسویں دعا کے یہ فقرے :۔

اَللّٰهُمَّ وَفِّر بِلُطفِکَ نِیَّتِی وَصَحِّح بِمَا عِندَکَ یَقِینِی وَاستَصلِح بِقُدرَتِکَ مَا فَسَدمِنِّی اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحمَّدٍ وَمَتِّعِی بِهُدًی صَالِحٍ لاَ اَستَبدِلُ بِهِ وَطَرِیقَةِ حَقٍّ لاَ اَزِیغُ عَنهَا وَنِیَّةِ رُشدٍ لاَ اَشُکُّ فِیهَا اَللّٰهُمَّ لاَ تَدَع خَصلَةً تُعَابُ مِنِّی اِلاَّ آصلَحتَهَا وَلاَ عَآئِبَةً اُوَنَّبُ بِهَا اِلاَّ حَسَّنتَهَا وَلاَ اُکرُومَةً فِی نَاقِصَةٍ اِلاَّ اَتمَمتَهَا :۔ اے معبود ! اپنی مہربانی سے میری نیت پوری کر میرا یقین مضبوط کر اور میری بربادیں اپنی قدرت سے درست کر اے خدا ! محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی آل پر درود بھیج اور مجھے ایسی اچھی رہنمائی عطا کر جسے (دوسری راہ سے) بدل نہ سکوں، ایسا سچا راستا جس سے ٹھیک نہ سکوں اور ایسی ثابت نیت جس پر شک نہ کرسکوں ۔ اے خدا! میری وہ عادت درست کردے جسے لوگ برا سمجھتے ہیں۔ اسی طرح میری وہ بری خصلتیں جن کی وجہ سے لوگ مجھے ملامت کرتے ہیں اچھی بنا دے اور میری اچھی لیکن ادھوری عادت کو کامل کردے۔

۵ ۔طاقتور روح کی پرورش :۔

ان دعاؤں کا ایک اور اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ پڑھنے والے کو قوت بخشتی ہیں تاکہ وہ خود کو لوگوں سے بے غرض بنالے ، ان کے سامنے ذلیل و خوار نہ ہو اور اپنی حاجت صرف خدا کے سامنے پیش کرے، جاننا چاہیے کہ اس چیز کی خواہش کرنا جو دوسروں کے ہاتھ میں ہو انسان کی ایک گھٹیا عادت ہے۔

جیسا کہ بیسوی دعا میں ہم پڑھتے ہیں :

وَلاَ تَفتِنِّی بِالاِستِعَانَةِ بِغَیرِکَ اِذَا اضرُرِرتُ وَلاَ بِالخُضُوعِ لِسُؤَلِ غَیرِکَ اَذا افتَقَرتُ وَلاَ بِالتَّضَرُّعِ اِلٰی مَن دُونَکَ اِذَا رَهِبتُ فَاستَحِقَّ بِذٰلِکَ خَذ لاَنَکَ وَ مَنعَکَ وَاِعرَاضَکَ :۔ مجھے اس خرابی میں نہ ڈال کہ مجبوری میں تیرے سوا کسی اور سے مدد چاہو، مفلسی میں تیرے سوا کسی اور سے گھگھیا کر مانگوں، ڈر کے مارے غیر کے سامنے رؤو پیٹوں اور گمراہیوں کی وجہ سے ذلت اور رسوائی، تیری رحمت سے دوری اور تیری بے توجہی کا سزوار بن جاؤں۔

اٹھائیسویں دعا میں ہم پڑھتے ہیں:

اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَخلَصتُ بِانقِطَاعِیٓ اِلَیکَ وَاَقبَلتُ بِکُلِّی عَلَیکُ وَصَرَفتُ وَجهِی عَمَّن یَحتَاجُ اِلٰی رِفدِکَ وَقَلَبتُ مَسئَلَتِی عَمَّن لَّم یَستَغنِ عَن فَضلِکَ وَرَاَیتُ اَنَّ طَلَبَالمُحتَاجِ اِلَی المُحتَاجٍ سَفَةٌ مِن رَایِهِ وَضَلَّةٌ مِن عَقلِهِ :۔ اے خدا! میں نے تجھ سے دل لگایا ہے اور تیرے علاوہ اس غیر سے جو تیری مہربانی کا محتاج ہے الگ ہوگیا ہوں، اس سے جو تیرے کرم کا حاجتمند ہے میں نے اپنا سوال واپس لے لیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک حاجت مند کا دوسرے حاجت مند سے مانگنا سوچ بچار کی حماقت اور عقل کا بھٹکنا ہے۔

تیرھویں دعا میں ہم پڑھتے ہیں:۔

فَمَن حَاوَلَ سَدَّ خَلَّتِهِ مِن عِندِکَ وَرَامَ صَرفَ الفَقرِ عَن نَفسِهِ بِکَ فَقَد طَلَبَ حَاجَتَهُ فِی مَظَانِّهَا وَاَتٰی طَلَبَتَهُ مِن وَجهِهَا وَمَن تَوجَّهَ بِحَاجَتِهِ اِلٰی اَحَدٍمّ،ن خَلقِکَ اَوجَعَلَهُ سَبَبَ نُجحِهَا دَونَکَ فَقَد تَعَرَّضَ لِلحِرمَانِ وَاستَحَقَّ مِن عِندِکَ فَوتَ الاِحسَانِ :۔ جو کوئی تیرے حضور میں اپنی حاجت مندی کا نقص مٹانے کی درخواست کرتا ہے اور اپنی مفلسی تیرے کرم سے دور کرنا چاہتا ہے وہ واقعی ٹھیک جگہ سے اپنی حاجتیں طلب کرتا ہے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ماسب راستے سے آتا ہے لیکن جس کسی نے اپنی ضرورت کی خاطر تیری کسی مخلوق کی طرف رخ کیا یا تیرے سوا کسی اور کو اپنی حاجت برآری کا سبب ٹھیرایا وہ اس بات کا سزاوار ہے کہ تجھ سے مایوس ہوجائے یا تیرے احسان اور بخشش میں شامل نہ ہو۔

۶ ۔ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی

صحیفہ سجادیہ کی دوسری دعاؤں کے فقرے انسانوں کو یہ بتاتے ہیں کہ لوگوں کے حقوق کی پاسداری لازم ہے اور یاد دلاتے ہیں کہ اسلامی برادری کے معنی کی اصلیت یہ ہے کہ مسلمانوں میں مدد، سہارا، صلح و صفائی، ہمدردی ، درگزر اور جاں نثاری پیدا ہو تاکہ ان میں اسلامی اخوت قائم ہو۔

جیسا کہ ہم اڑتیسویں دعا میں پڑھتے ہیں :

اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَعتَذِرُ اِلَیکَ مِن مَظلُومٍ ظُلِمَ بِحَضرَتِی فَلَم اَنصُرهُ وَمِن مَعرُوفٍ اُسدِیَ اِلَیَّ فَلَم اَشکُرهُ وَمِن مُسِیٓءِنِ اعتَذَرَ اِلیَّ فَلَم اَعذِرهُ وَمِن حَقِّ ذِی حَقٍّ لَزِمَنِی لِمُؤمِنٍ فَلَم اُوَفِّرهُ وَمِن عَیبِ مُؤمِنٍ طَهَرَ لِی فَلَم اَستُرهُ :۔ اے خدا! میں تیرے حضور میں معافی چاہتا ہوں اس مظلوم کی وجہ سے جس پر میرے سامنے ظلم ہوا اور میں اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکا اور اس احسان کی وجہ سے جو مجھ پر ہوا اور میں اس کا شکریہ ادا نہیں کرسکا اور جس برا کام کرنے والے نے مجھ سے معافی مانگی لیکن میں نے اسے معاف نہیں کیا اور اس حاجت مند کی وجہ سے جس نے مجھ سے مانگا اور میں نے اس کو اپنے اوپر ترجیح نہی دی اور اس حق کی وجہ سے جو مجھ پر واجب ہے اور میں نے اسے ادا نہیں کیا اور مومن کے اس عیب کی وجہ سے جو میرے سامنے کھل گیا تھا لیکن میں نے اس کو نہیں ڈھانکا۔

واقعی اس قسم کی عذر خواہی اور عفوطلبی ایسا پرکشش منصوبہ ہے جو انسان کی روح کو نہایت اعلیٰ درجے کی خوبیوں اور خدائی اخلاق کی طرف مائل کرتا ہے۔

انتالیسویں دعا میں جب ہم وسیع ترنظ سے دیکھتے ہیں تو یہ دعا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جس آدمی نے کوئی برائی کی ہو اسے کس طرح معاف کردینا چاہیے اور اس سے بدلہ نہیں لینا چاہیے ۔ یہ ایسی دعا ہے جو روح کو پاک کرتی اور انسان کو خدا کے نیک بندوں کے رتبے پر پہنچا دیتی ہے۔چنانچہ ہم پڑھتے ہیں :

اَللّٰهُمَّ وَاَیُّمَا عَبدٍ نَالَ مِنِّی مَاحَظَرتَ عَلَیهِ وَانتَهَکَ مِنِّی مَاحَجَرتَ عَلَیهِ فَمَضیٰ بِظَلاَمِتِی مَیِّتاً اَو حَصَلَت لِی قِبَلَهُ حَیّاً فَاغفِرلَهُ مَا اَلَمَّ بِهِ مِنِّی وَاعفُ لَهُ عَمَّا اَدبَرَ بِهِ عَنِّی وَلاَ تَقِفهُ عَلٰی مَاارتَکَبَ فِیِّ وَلاَ تَکشِفهُ عَمَّا اکتَسَبَ بِی وَاجعَل مَا سَمَحتُ بِهِ مِنَ العَفوِ عَنهُم وَتَبَرَّعتُ بِهِ مِنَ الصَّدَقَةِ عَلَیهِم اَزکٰی صَدَقَاتِ المُتَصَدِّقِینَ وَ اَعلٰی صِلاَتِ المُتَقَرِّبِینَ وَعَوِّضنِی مِن عَفوِی عَنهُم عَفوَکَ وَمِن دُعَائِی لَهُم رَحمَتَکَ حَتَّی یَسعَدَ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنَّا بَفَضلِکَ :۔اے خدا! جس بندے نے میرے متعلق وہ عمل کیا جس سے تو نے اسے منع کر دیا تھا اور میری ایسی پردہ دری کی جسے تو جائز نہیں سمجھتا، میرا حق روند ڈالا اور دنیا سے اٹھ گیا یا زندہ ہے اور میرا حق اس کے پاس موجود ہے اسے تو نے جس مصیبت میں ڈالا ہے بخش دے اور میرا جو حق اس نے چھینا ہے اس سے درگزر کر اور اس نے میرے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کے لیے اسے ملامت مت کر اور اس نے جو کچھ ظلم مجھ پر کیا ہے اس کے لیے اس رسوا نہ کر میری طرف سے اس کے لیے معافی اور درگزر کو معاف کرنے والوں کی بہترین معافیوں اور اسی طرح اس صدقے اور خیرات کو جو میں نے ان کے لیے کیا ہے اسے اپنے برگزیدہ بندو کی سب سے اعلیٰ سخاوتوں اور عطاؤں کا درجہ دے اور مجھے اس معافی کی خاطر جو میں نے ان کے لیے چاہی اور اس دعا کی خاطر جو میں نے ان کے لیے چاہی اور اس دعا کی خاطر جو میں نے ان کے لیے مانگی اپنی رحمت اور بخشش سے بدلہ دے تاکہ ہم میں سے ہر ایک تیرے احسان سے نیک بختی حاصل کرسکے۔

سچ مچ دعا کے یہ آخری فقرے کس قدر پرکشش ہیں اور پاکیزہ روحوں پر کس قدر مناسب اور اچھا اثر ڈالتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آدمی کو سب لوگوں کے لیے ثابت اور پاک نیت رکھنا چاہیے اور سب کے لیے خوشحالی طلب کرنا چاہیے یہاں تک کہ ان لوگوں کے لیے بھی جنہوں نے اس پر ظلم کیا ہے (صحیفہ سجادیہ کو دعاؤں میں یہ موضوع بیشتر نظر آتا ہے۔ واقعی زبور آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس قسم کی تعلیمات اور روحانی نصیحتیں اس قدر شامل ہیں کہ اگر انسان اس کی ہدایت کی راہ میں قدم رکھیں تو ان کی روح پاک ہوجائے اور اس سے گندگیاں دھل جائیں۔