قبروں کی زیارت :
پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ائمہ اطہار ؑ کے مزارات مقدسہ کی زیارت پر زیادہ توجہ امامیہ شیعوں کی خصوصیات میں داخل ہے کیونکہ شیعہ ان مزارات کا غیر معمولی احترام کرتے ہیں اور ان کے لیے پرشکوہ اور بڑی بڑی عمارتیں بنواتے ہیں اور اس کام کے لیے اعتقاد اور گہرے لگاؤ کے باعث تھوڑی اور بہت دولت خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔
شیعہ یہ احترام اور تعظیم ائمّہ اطہار ؑ کے طریقوں اور سفارشوں کے مطابق کرتے ہیں کیونکہ ان حضرات نے ان مزارات کی زیارت کے لیے شیعوں کو بہت وصیتیں کی ہیں اور وہ خدا کے یہاں سے بہت بڑے صلے پانے کی خاطر شیعوں کو ان زیارتوں کی ترغیب دیتے تھے اور اس عمل کو واجب عبادتوں کے بعد بہترین عبادتی اور خدا کے نزدیک ہونے کے وسیلے سمجھتے تھے وہ ان مزارات کے پہلو کو خدا کی طرف خالص توجہ دینے اور دعا کے قبول ہونے کے لیے بہترین مقام بتاتے تھے، وہ تو یہاں تک بتاتے تھے کہ ان قبروں کی زیارت اور تعظیم ائمہ اطہار ؑ سے شیعوں کے عہد وفاداری کی تکمیل کرتی ہے، جیسا کہ امام رضا ؑ نے فرمایا ہے :
لِکُلِّ اِمَامٍ عَهدًا فِی عُنُقِ اَولِیَآئِهِ وَشِیَعتِهِ وَاِنَّ مِن واِنَّ مِن تَمَامِ الوَفَاءِ بِالعَهدِ وَحُسنِ الاَدَآءِ زِیَارَةَ قُبُورِهِم فَمَن زَارَهُم رَغبَةً فِی زِیَارَتِهِم وَتَصدِیقاً بِمَا رَغِبُوا فِیهِ کَانَ اَئِمَّتُهُم شُفَعَآئَهُم یَومَ القِیَامَةِ
:۔ ہر امام سے اس کے شیعوں اور دوستوں کا ایک معاہدہ ہوتا ہے انہیں کاموں میں سے جو اس معاہدے کی بخوبی تکمیل کرتے ہیں، ائمہ اطہار ؑ کے مزارات کی زیارت بھی ہے، جو شخص شوق سے اماموں کے مزارات کی زیارت کرتا ہے اور اس زیارت میں ائمّہ اطہار ؑ کے مقاصد کی طرف دھیان رکھتا ہے قیامت کے دن ائمَّہ ؑ اس کی بخشش کی سفارش کریں گے۔ (محمد بن قولویہ : کامل الزیارات صفحہ ۱۲۲ )
ان قبروں کی زیارت پر ائمّہ اطہار ؑ کی خاص توجہ اور خاص عنایت اس وجہ سے کہ اس کے ضمن میں بہت سے دینی اور دینوی فائدے حاصل ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:
ائمہ اطہار ؑ اور ان کے شیعوں کے درمیان زیادہ دوستی اورمحبت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔
دلوں میں ائمہ اطہار ؑ کی خوبیوں ، اچھی عادتوں اور خدا کے لیے ان کے جہاد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
(خاص طور پر) زیارت کے دنوں میں دنیا کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے مسلمان جب روضہ امام کے اطراف میں جمع ہوتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے سے واقف ہوجاتے ہیں اور باہم محبت کرنے لگتے ہیں اور اس طریقے سے خدا کی فرماں برداری اور اطاعت کا جذبہ اور خدا کے احکام کی بجا آوری میں خلوص زیارت کرنے والوں کے دلوں میں باہم گندھ جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ زیارتوں کی ا بلیغ عبارتوں کے پردے میں جو اہلبیت ؑ کی طرف سے ہم تک پہنچی ہیں توحید کی حقیقت، اسلام کی طہارت اور پاکیزگی اور حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رسالت کا اقرار دہرایا جاتا ہے اور جو کچھ ہر مسلمان کا فرض واجب ہے مثلاً بلند اور پختہ اخلاق، کائنات کے منتظم (خدا) کے آگے عاجزی اور تعظیم اور اس کی نعمتوں اور بخششوں کی شکر گزاری زائروں میں ابھر آتی ہیں،
اس لحاظ سے زیارتوں کا پڑھنا بھی وہی اثر رکھتا ہے جو ائمہ اطہار ؑ سے منقول دعائی رکھتی ہیں (جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے) بلکہ ان میں سے کچھ تو نہایت بلیغ اور بلند رتبہ دعاؤں میں شامل ہی مثلاً زیارت امین اللہ جو امام زین العابدین ؑ نے اپنے دادا حضرت علی ؑ کی قبر کے پہلو میں زیارت کے وقت پڑھی ہے۔
ایک لحاظ سے یہ زیارتیں جو ائمہ اطہار ؑ سے ہم تک پہنچی ہیں اماموں کے مراتب، خدا کی محبت، دین کے کلمے کی بلندی کے لیے ان کی قربانیوں اور خدا کی بارگاہ میں ان کی پرخلوص اطاعتوں کو مجسم کر دیتی ہیں، یہ زیارتیں عربی کے چمکیلے اسالیب اور بڑی فصاحت کے ساتھ ایسی عبارتوں میں ملتی ہیں جن کا مطلب سمجھ لینا عام اور خاص سب لوگوں کے لیے آسان ہے اور توحید کے مطالب اور اس کی باریکیوں کی تشریح ، خدا سے دعا اور اس سے لو لگانے کے بیان پر مشتمل ہیں۔
واقعی قرآن ، نہج البلاغہ اور ان دعاؤں کے بعد جو اماموں سے ہم تک چلی آرہی ہیں یہ زیارتیں دین کے اعلیٰ ترین ادب ہے کیونکہ ان میں ائمہ اطہار ؑ کی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ ملتا ہے اور دینی اور اخلاقی معاملات سے متعلق ان کے اصول جھلکتے ہیں۔
زیات کے آداب :۔
دوسری طرف سے دیکھیے تو جو آداب ان مزارات کی زیارت کرنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں وہ ان تعلیمات اور اشارات کو واضح کرتے ہیں جو دین کے ایسے اعلیٰ معانی اور مطالب حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں جیسے مسلمانوں کا روحانی درجہ بلند کرنا، ان میں کمزور پر مہربانی کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ، سماجی زندگی سے تعلق اور چلن میں حسن معاشرت اور رعایت اخلاق پر انہیں آمادہ کرنا اس وجہ سے ان میں سے کچھ زیارت کے بیچ میں اور کچھ زیارت کے بعد پورے کرنا چائیں۔
ہم اس جگہ ان میں سے کچھ آداب بیان کرتے ہیں تاکہ ان زیارتوں کے مقاصد واضح ہوجائیں۔
۱ ۔ آداب زیارت میں سے ایک یہ ہے کہ زائر زیارت شروع کرنے سے پہلے نہائے اور اپنے آپ کو پاک صاف کرے اس کام کا فائدہ جو ہم سمجھتے ہیں بہت واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ غسل انسان کے جسم کو غلاظتو اور گندگیوں سے پاک کرتا ہے ، بدن کو بہت سی بیماریوں سے اور دوسرے آدمیوں کو اس کے بدن کی بدبو سے پریشان ہونے سے بچاتا ہے (نوٹ، امیرالمومنین امام علیؑ فرماتے ہیں، اپنے بدن کو پانی کے وسیلے سے بدبو سے بچاؤ اور ہمیشہ یہ کام کرتے رہو، خدا ایسے لوگوں کو دشمن رکھتا ہے جن کے بدن کی بدبو سے دوسرے پریشان ہوتے ہیں۔ (تحف العقول صفحہ ۲۴)
اسی طرح غسل روح اور باطن کی گندگی سے بھی طہارت کا سبب ہوتا ، (ثبوت یہ ہے کہ ) روایت کے مطابق اور ائمہ اطہار ؑکے دستور کے مطابق زائر عمل سے پہلے یہ دعا پڑھے تاکہ زیارت کے بلند مقاصد سے آگاہ ہوجائے۔
اَللَّهُمَّ اجعَل لِّی نَوراً وَحَرِّزاً کَافِیاًمِّن کُلِّ دَآعٍ وَّسُقمٍ وَمِن کُلِّ آفَةٍ وَعَاهَةٍ وَطَهِّر بِهِ قَلبِی وَجَوَارِ حِی وَعِظَامِی وَلَحمِی وَدَمِی وَشَعرِی وَبَشَرِی وَمُخِّی وَعَظمِی وَمَآ اَقَلتُ الاَرضَ مِنِّی وَاجعَل لِی شَاهِداً یَومَ حَاجَتِی وَفَقرِی وَفَاقَتِی
:۔ اے خدا ! اس غسل کو میرے لیے روشنی اور طہارت کا سبب اور ہر دکھ، درد اور ہر مصیب اور دشواری کی روک کے لیے ایک مناسب ڈھال بنا دے اور میرے دل ، اعضاء ہڈیوں ، گوشت ، خون، بال ، کھال ، گودے اور نسوں کو (اس غسل کی بدولت) پاک کر اور اسے اس دن (یعنی قیامت کے دن) جو میری حاجت ، تہی دستی اور بیچارگی کا دن ہوگا میرا گواہ بنادے۔
۲ ۔ زیارت کے دیگر آداب میں سے ایک یہ ہے کہ زائر اپنا سب سے اچھا اور سب سے پاکیزہ لباس پہنے، عام مجمعوں میں صاف ہے اور اچھے کپڑے پہننا لوگوں میں محبت اور دوستی کا سبب ہوتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے قریب کردیتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کام عزت نفس میں بھی اضافہ کرتا ہے اور ان رسوم کی جن میں شرکت کرتے ہیں اہمیت معلوم ہونے کا بھی ذریعہ ہوتا ہے۔
یہ دھیان رہے کہ اس اصول کا یہ مقصد نہیں ہے کہ زائر سب لوگوں سے اچھا لباس پہنے بلکہ مقصد یہ ہے کہ زائر کے پاس جو کپڑے ہیں ان میں سے اچھے کپڑے پہنے کیونکہ ہر شخص بہترین لباس مہیا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور اس میں مفلسوں کو سخت مجبوری آپڑے گی اور یہ بات مہربانی اور شفقت کے خلاف ہے اسی وجہ سے جسموں کی زیب اور زینت کرتے وقت فقریروں اور محتاجوں کو نظر میں رکھنا چاہیے۔
۳ ۔ ایک ادب یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے زائر اپنے کپڑوں میں خوشبو لگائے اور اس کا فائدہ اور اثر بھی اچھا لباس پہننے کے فائدے اور اثر کی طرح ہے جیسا کہ بیان کیا گیا۔
۴ ۔ جتنا ہوسکے فقیروں اور مفلسوں کی مدد کرے، ان مراسم میں محتاجوں پر صدقے اور خیرات کا اثر ظاہر ہے کیونکہ اس کام سے بھی بے آسرا اور مجبور لوگوں کی مدد کرکے زائر میں امداد اور غریب نوازی کا جذبہ پرورش پاتا ہے۔
۵ ۔ زیارت کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ زیارت گاہ کی طرف نہایت وقار اور آہستہ روی سے جائے اور اس طرح جائے کہ غیر شرعی مناظر کے دیکھنے سے آنکھیں بند کرلے ۔ ظاہر ہے کہ اس قاعدے پر عمل حرم، زیارت اور زیارت کرنے والے کی عزت اور تعظیم اور خدا کی طرف خالص توجہ کا سبب ہوتا ہے اس کے علاوہ آنے جانے والوں کے لیے رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی اور دوسروں کی بے ادبی بھی نہیں ہوتی۔
۶ ۔ زیارت کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ زیارت کے وقت جہاں تک ہوسکے اللہ اکبر کا جملہ دہراتا رہے۔ بعض زیارتوں میں سو بار دہرانے کو کہا گیا ہے اس دستور کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی روح خدا کی بڑائی کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی چیز اس سے بڑی نہیں ہے زیارت خدا کی عبادت، احترام اور تسبیح و تقدیس کے علاوہ کچھ نہیں اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ خدا کہ نشانیوں اور شعائر کو زندہ کرکے اس کے قانون کی پیروی کی جائے۔
۷ ۔ زیارت کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ پیغمبرخدصلىاللهعليهوآلهوسلم
یا امام ؑ کے مزار کے زیارت کرنے کے بعد زائر کم از کم دو رکعت نماز پڑھے اور اس طرح خدا کی عبادت اور شکر ادا کرے کہ اس نے زیارت کی توفیق دی اور اس نماز کا ثواب جس مزار کی زیارت کی ہے اس کے مالک کی روح کو ہدیہ کیاجاتا ہے۔
اس کے ساتھ زائر جو دعا اس نماز کے بعد پڑھتا ہے وہ اسے دھیان دلاتی ہے کہ اس کی یہ نماز اور یہ عمل صرف ایک خدا کے لیے ہے وہ غیر خدا کی عبادت نہیں کرتا ہے اور یہ زیارت صرف خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور وہ اس دعا میں پڑھتا ہے:
اَللّٰهُمَّ لَکَ صَلَّیتُ وَلَکَ رَکَعتُ وَلَکَ سَجَدتُّ وَحدَکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ لاِنَّهُ لاَ تَکُونُ الصَّلوٰةُ وَالرُّکُوعُ وَالسُّجُودُ اِلاَّ لَکَ لِاَنَّکَ اَنتَ اللهُ لآ اِلٰهَ اِلاَّ اَنتَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَتَقَبَّل مِنِّی زِیَارَتِی وَاَعطِنِی سُؤلِی بِمُحَمَّدٍ وَّاِلِهِ الطّاهِرِینَ
۔ اے خدا ! میں نے صرف تیرے لیے نماز پڑھی ہے اور رکوع اور سجدہ کیا ہے ۔ تو ایک ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے اس لیے نماز، رکوع اور سجدہ تیرے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہے کیونکہ تو ہی خدا ہے، تیرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔
اے خدا ! محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور آل محمد ؑ پر درود بھیج، میری زیارت قبول کر اور میری حاجت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور آل محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے صدقے میں پوری کر جو پاک اور طاہر ہیں۔
یہ قاعدہ مزارات کی زیارت سے ائمہ اطہار ؑ اور ان کے شیعوں کے مقصد کو ظاہر کرتا ہے اور ان لوگوں کے لیے منہ توڑ جواب ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ قبروں کی زیارت شیعوں کے نزدیک قبروں کی پرستش ، قبروں کی نزدیکی اور خدا کے ساتھ شرک ہے۔
غالباً ایسے خیال پرستوں کا اعتراض اس لیے کہ (ان دم بازیوں سے) لوگوں کو شیعوں کے ان مفید او ۴ ر شاندار اجتماعات سے الگ رکھیں، کیونکہ دراصل یہ اجتماعات اہل بیت ؑ کے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں ورنہ میں نہیں سمجھتا کہ انہیں زیارت کے اس دستور سے اہل ؑ کے اعلیٰ مقاصد کا پتا نہیں لگا ہوگا۔
یہ بزرگ انسان جو نہایت خلوص سے خدا کی عبادت کرتے تھے اور دین کی خاطر اپنی جانیں تک فدا کر دیتے تھے کیا وہ لوگوں کو خدا کی عبادت میں شرک کی دعوت دیتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
۸ ۔ زیارت کا ایک اور ادب یہ ہے کہ زائر اپنے پاس بیٹھنے والوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرے ، بات کم کرے اور جو بات کرے وہ مفید ہو، نیز بیشتر خدا کی یاد میں مشغول رہے۔
(نوٹ، خدا کو یاد کرنے سے یہ مراد نہیں کہ کثرت سے سبحان اللہ لا الہ الا اللہ اللہ اکبر کہا جائے بلکہ مقصد وہ ہے جیسا کہ امام جعفر صادق ؑ نے بعض احادیث کے مطابق بہت زیادہ خدا کی یاد میں رہنے کی تفسیر میں فرمایا اور یہ وضاحت کی : مقصد سبحان اللہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہنا نہیں ہے اگرچہ یہ بھی خدا کی یاد کی مثالیں ہیں بلکہ ذکر خدا کا مطلب یہ ہے کہ انسان اچھائی کی طرف راغب ہو اور برائی سے بچے ۔ (محمد بن قولویہ : کامل الزیارات) اس میں عاجزی ہو، بہت سی نمازیں پڑھے اور محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور آل محمد ؑ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجے، آنکھوں سے اشارے نہ کرے، غریب بھائیوں اور دوستو کی مدد کرے اور خود ان سے درگزر کرے۔ جن باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے اور دشمنی کرنے سے دور رہے
اور بہت زیادہ قسم کھانے اور ایسے لڑائی جھگڑے سے جس میں قسم کھانا پڑتی ہو پرہیز کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ زیارت کی حقیقت کا مطلب پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
یا امام ؑ پر اس سلام بھیجنا ہے جیسے وہ لوگ زندہ ہیں اور خدا کے یہاں سے رزق پاتے ہیں، (سورہ آل عمران ۔ آیت ۱۶۹)
فرشہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
(اقبال)
وہ زائرو کی باتیں سنتے ہی اور ان کا جواب دیتے ہیں یہی کافی ہے کہ زائر پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زیارت میں کہے :
اَلسَّلامُ عَلَیکَ یَارَسُول اللہِ
اے خدا کے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
! آپ پر سلام ہو۔
البتہ بہتر یہ ہے کہ اہل بیت ؑ کی طرف سے اس ضمن میں جو زیارتیں تعلیم کی گئی ہیں وہ بلند مقاصد کی طرف دھیا دینے کے لیے، دینی فائدوں اور ان تاثیروں کے لیے جو وہ رکھتی ہیں اور جن کا پہلے ذکر کیا جاچکا ہے، ان کی سلیس عبارتوں، فصاحت اور بلاغت پر غور کرنے کے لیے اور ان کے ایسی دعاوں پر مشتمل ہونے کے باعث جو بہت بلند ہیں، غور و فکر اور اہمیت کے لائق ہیں اور انسان کو ایک بے مثل خدا کی طرف متوجہ کرتی ہی ، پڑھتی جائیں۔
ائمہ اطہار ؑ کی نظر میں سچا شعیہ :
جب ائمہ اہل بیت ؑ اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنےہاتھوں میں لینے سے محروم کردیے گئے تو انہوں نے اپنی پوری توجہ اور تدبیر صحیح معنوں میں مسلمانوں کے اخلاق کی درستی، پرورش اور تربیت پر لگا دی جیسا کہ خدا نے ان سے چاہا تھا۔ انہوں نے ایسے تمام لوگوں کی تربیت کا انتظام کیا جو اہل بیت رسول ؑ سے تعلق رکھتے تھے اور ائمہ کے بھروسے کے تھے۔ انہوں نے انتہائی کوشش کی کہ ان لوگوں کو اسلام کے تمام احکام، قوانین اور حقائق و معارف سکھائیں اور انہیں نفع و نقصان کی باتوں سے آگاہ کریں۔
وہ ہر ایک کو شیعہ یا اپنا پیرو نہیں سمجھتے ، ان کی نظر میں شیعہ وہ تھا جو ہر لحاظ سے خدا کے حکم کا تابع اور نفسانی خواہشات سے بچنے والا ہو اور رہبروں کی تعلیمات اور رہنمائیوں پر عامل ہو۔ اس آدمی کی طرح جو گناہ اور خواہشات میں ڈوبا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ ائمہ ؑ سے محبت اور دوستی کو اپنے عذر کے طور پر منتخب کرے۔ وہ بخشش کے لیے صرف ائمہ ؑ سے دوستی کافی نہیں سمجھتے تھے جب تک وہ نیک کرداری، درستی، امانت اور پرہیزگاری سے ملی ہوئی نہ ہو۔
خیثمہ کہتے ہیں کہ میں امام باقر ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ کو الوداع کہوں۔ آپ نے مجھ سے فرمایا :
یَا خَیثَمَةُ ! اَبلِغ مَوَالِیَنَا اِنَّا لاَ نُغنِی عَنهُم مِنَ اللهِ شَیئاً اِلاّبِعَمَلٍ وَاَنَّهُم لَن یَّنَالُوا وَلاَ یَتَنَا اِلاَّ بِالوَرَعِ وَاِنَّ اَشَدَّ النَّاسِ حَسرَةً یَومَ القِیَامَةِ مَن وَصَفَ عَدلاً ثُمَّ خَالَفَهُ اِلیٰ غَیرِه
:۔ اے خیثمہ ! ہمارے دوستوں سے (ہمارا یہ پیام) کہنا کہ ہم صرف ان کے نیک عمل کی ہی بدولت خدا کی طرف سے ان کی نجات کا انتظام کرواسکتے ہیں، وہ لوگ یقینی طور پر تقویٰ اور پرہیزگاری ہی سے ہماری دوستی اور محبت پاسکتے ہیں قیامت کے د سب سے زیادہ وہ شخص پچھتائے گا جس نے دوسرو کے لیے تو عدالت کی تعریف کی اور خوبیاں بیان کیں لیکن خود اس کی مخالفت کی یعنی خود عدالت سے کام نہیں لیا ۔
(نوٹ ، اصول کافی جلد دوم صفحہ ۱۷۶ باب زیارت اخوان)
بلکہ شیعوں کے رہنماؤں نے اپنے ماننے والوں سے عمل چاہا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ خدا کی طرف بلانے والے اور خوشحالی کی راہ دکھانے والے ہیں اور نیکیوں کی ہدایت کرتے ہیں، ائمہ اطہار ؑ کے نقطہ نظر سے عملی ترغیب زبانی ترغیب سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔
امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں :
کُونُوا دُعَاةً لِّلنَّاسِ بِغَیرِ اَلسِنَتِکُم لِیَرَوا مِنکُمُ الوَرَعَ وَالاِجتِهَادَ وَالصَّلاَةَ وَالخَیرَ
:۔ تم لوگوں کو اپنی زبانوں کے بغیر (یعنی عمل سے ) خدا کی طرف بلاؤ اور رہنمائی کرو۔ انہیں چاہیے کہ وہ تمہارا تقویٰ ، کوشش ، نماز اور نیک کام دیکھیں۔
(نوٹ ، اصول کافی جلد دوم صفحہ ۷۸ باب ورع)
اب ہم اس جگہ ائمہ اطہار ؑ کی ان گفتگوؤں کے کچھ حصے جو انہوں نے اپنے ماننے والوں سے کی ہیں پیش کرتے ہیں تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ یہ محترم ہستیا لوگوں کی عادتیں سدھارنے کے لیے ترغیب و تاکید کو کتنی اہمیت دیتی ہیں۔
امام باقر ؑ کی جابر جعفی سے گفتگو:
اے جابر ! کیا اس شخص کا جو شیعہ ہونے کا دعوی کرتا ہے یہ کہنا کافی ہے کہ اہل بیت اؑ سے محبت کرتا ہوں؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ وہی ہے جو پرہیز گار ہو اور خدا کی اطاعت کرتا ہو۔
ہمارے شیعوں کو ان صفات سے پہچاننا:
عاجزی اور انکساری والے ہیں۔
امامنت دار ہیں۔
خدا کو بہت یاد کرتے ہیں۔
نماز، روزے کے پابند ہیں۔
ماں باپ کی عزت کرتے ہیں۔
پڑوسیوں، غریبوں، حاجت مندوں، قرض داروں اور یتیموں پر مہربانی کرتے ہیں۔
سچ بولتے ہیں۔
قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔
زبان سے لوگوں کی نیکیاں بیان کرتے ہیں۔
اور اپنے رشتہ داروں کی ہر شے کے امانت دار ہیں۔
خدا کے حضور میں پرہیزگار بنو، خدا کا انعام حاصل کرنے کے لیے نیک عمل کرو، خدا کی کسی سے رشتہ داری نہیں ہے، خدا کی درگارہ میں سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو تقویٰ اور اطاعت میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔
(نوٹ، امیرالمومنین ؑ نے نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں جو خطبہ قاصعہ کے نام سے مشہور ہے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے وہ فرماتے ہیں۔خدا کا حکم آسمان اور زمین والوں کے لیے ایک ہی ہے خدا نے جو چیزیں سب کے لیے حرام کر دی ہیں ان کے لیے کسی ایک شخص کو بھی چھوٹ نہیں دی جس سے اس کے مضبوط قانون پر چوٹ پڑے)۔
اے جابر! خدا کی قسم آدمی صرف اطاعت سے ہی خدا کی نزدیکی حاصل کرسکتا ہے اور ہمارے پاس دوزخ کی آگ سے آزادی کا پروانہ نہیں ہے اب اگر کوئی شخص اللہ کی اطاعت نہیں کرتا وہ خدا کے سامنے عمل نہ کرنے کا عذر نہیں رکھتا۔ جو خدا کی اطاعت کرتا ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو خدا کے حکم سے منہ موڑتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے لوگ صرف نیک عمل اور پرہیزگاری ہی سے ہماری ولایت اور دوستی تک پہنچ سکتے ہیں۔
(نوٹ، اصول کافی جلد دوم صفحہ ۷۴ باب طاعت و تقویٰ)
سعید بن حسن سے امام محمد باقر ؑ کی گفتگو
سعید بن حسن کہتے ہیں کہ امام باقر ؑ نے مجھ سے فرمایا:
امام: کیا تمہارے ہاں یہ دستور ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنے دینی بھائی کے پاس جائے، اس کی جیب میں ہاتھ ڈالے اور اپنی ضرورت کی رقم اس میں سے نکال لے اور جیب والا اسے منع نہ کرے؟
سعید: اپنے یہاں میں نے ایسا دستور نہیں دیکھا اور نہ مجھے اس کا پتا ہے ۔
امام : اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ لوگوں کے درمیان بھائی چارہ نہیں ہے۔
سعید: کیا ایسی صورت میں ہم ہلاک ہوگئے؟
امام: ان لوگوں کی عقل کامل نہیں ہوپائی ہے (یعنی عقل کے مختلف درجوں کے حساب سے فرض بھی مختلف ہوجاتا ہے ۔
(نوٹ ، اصول کافی جلد دوم صفحہ ۱۷۴ باب حق مومن علیٰ اخیہ)
ابوالصباح کعنانی سے امام جعفر صادق ؑ کی گفتگو
ابوالصباح کنعانی کہتے ہیں : میں نے امام صادق ؑ سے عرض کیا:
آپ سے تعلق کے باعث لوگوں کی طرف سے ہمیں کیا کیا چیزیں (اور چوٹیں) ملتی ہیں۔
امام صادق ؑ : لوگو سے تمہیں کیا ملتا ہے ؟
ابوالصباح : جب تک ہمارے اور کسی شخص کے درمیان بات چیت ہوتی رہتی ہے وہ کہتا ہے : ""اے جعفری خبیث""
امام صادقصلىاللهعليهوآلهوسلم
: کیا لوگ تمہیں ہماری پییروی کی وجہ سے ملامت کرتے ہیں؟
ابو الصباح : جی ہاں۔
امام صادق ؑ : خدا کی قسم ! تم میں کتنے کم لوگ ہیں جو واقعی جعفر ؑ کی پیروی کرتے ہیں میرے اصحاب وہ لوگ ہیں ج کا تقویٰ اور پرہیزگاری پکی ہے وہ اپنے پیدا کرنے والے کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے صلے کے امیدوار ہیں۔ ہاں میرے اصحاب ایسے لوگ ہیں۔(اصول کافی جلد ۲ ۔ باب ورع)
امام جعفر صادق ؑ اس بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں ، اس میں سے کچھ ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
لَیسَ مِنَّا وَلاَ کَرَامَتةَ مَن کَانَ فِی مِصرٍ فِیهِ مِاةُ اَلفٍ اَو یَزِیدُونَ وَکَانَ فِی ذٰلِکَ المِصِر اَحَدٌ اَورَعَ مِنهُ
: وہ شخص نہ ہم میں سے ہے اور نہ فضیلت رکھتا ہے جو ایک لاکھ یا زیادہ انسانوں کے شہر میں رہتا ہے اور اس شہر میں اس سے زیادہ پرہیز گار ایک اور شخص ہو۔
اِنَّالاَ نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤمِناً حَتیّٰ یَکُونَ لِجَمِیعِ اَمرِنَا مُتبِعاً وَمُرِیدًا اَلاَ وَاِنَّ مِن اِتبَاعِ اَمرِنَا وَاِرَادَتِهِ الوَرعُ فَتَزَ یَّنُوا بِهِ یَرحَمُکُمُ اللهُ
:۔ ہم اسے مومن نہیں گنتے مگر وہ جو تمام احکامات میں ہماری پیروی کرتا ہے اور ان سب احکام کو چاہتا ہے جان لو کہ تقویٰ اور پرہیز گاری ہمارے حکم کی پیروی کی شان اور اس کا تقاضا ہے اپنے آپ کو تقویٰ سے آراستہ کرو۔ خدا تمہیں اپنی مہربانی میں شاملا کرے گا۔
لَیسَ مِن شِیعَتِنا مَن لاَ تَتَحَدَّثُ المُخَدَّراتُ المُخَدَّرَاتُ بِوَرَعِهِ فِی خُذُورِهِنَّ وَلَیسَ مِن اَولِیآَئِنَا مَن هُوَ فِی قَریَةٍ فِیهَا عَشَرَةُ اٰلاَفِ رَجُلٍ فِیهِم مِن خَلقِ اللهِ اَورَعَ مِنهُ
:۔ وہ شخص ہمارا شیعہ نہیں ہے جسے پاک دامن عورتیں پردوں کے اندر پاکباز نہیں کہتیں، وہ شخص ہمارے دوستوں میں سے نہیں ہے جو دس ہزار نفری کے شہر میں رہتا ہے اور میں سے ایک یاکئی آدمی اس سے زیادہ پرہیزگار ہوں۔
اِنَّمَاشیِعةُ جَعفَرٍ مَن عَفَّ بَطنَهُ وَفَرجَهُ وَاشتَدَّحِهَادَهُ عَمِلَ لِخَالِقِهِ وَرَجَاثَوَابَهُ وَخَافَ عِقَابَهُ فَاِذَا رَاَیتَ اُولٰئِکَ فَاُولٰئِکَ شِیعَةُ جَعفَرٍ
:۔ واقعی جعفر ؑ کا شیعہ وہ ہے جو اپنے پیٹ اور شرمگاہ کر حرام سے بچاتا ہے ۔ اس کا جہاد اور جانبازی دین کی خاطر پکی ہے وہ خدا کی خوشنودی کے لیے کام کرتا ہے اور اسی سےصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی امید رکھتا ہے اور اس کی سزاوں سے ڈرتا ہے جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ لوگ واقعی جعفر ؑ کے شیعہ ہیں۔
تشیع کے نقطہ نظر سے ظلم اور زیادتی
دوسروں کے حقوق مارلینا اور ان پرظلم وستم ڈھانا ان سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے جن سے ائمہ اطہار ؑ نے قرآن کی پیروی میں جس نے نہایت شدت سے انسانوں کو ظلم وستم سے روکا ہے نہایت سختی سے منع کیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے : یہ نہ سمجھنا کہ خدا ظالموں کے افعال سے بے خبر ہے۔ اس نے ان کی سزا اس (قیامت کے) دن پر اٹھا رکھی ہے جب آنکھیں حیران ہوجائیں گی۔
(نوٹ، سورہ ابراہیم ۔ آیت ۴۲)
امام علیؑ نے بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ ظلم وستم کی برائی میں نہایت سخت لہجے میں کچھ باتیں کہی ہیں ان میں سے ایک یہ پیاری اور سچی بات بھی ہے۔
وَاللّٰهِ لَواُعطِیتُ الاَ قَالِیمَ السَّبعَةَ بِمَا تَحتَ اَفلاکِهَا عَلیٰ اَن اَعصِیَ اللهَ فِی نَملَةٍ اَسلُبُهَا جُلبَ شَعِیرَةٍ فَعَلتُهُ
: بخدا اگر ہفت اقلیم بھی اس سب مال و متاع کے ساتھ ساتھ جو آسمان کے نیچے ہے مجھے اس شرط پر دی جائے کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں اور خدا کا اتنا سا گناہ کروں تو بھی میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا
(نوٹ، صبحی صالح : نہج البلاغۃ ۔ خطبہ ۲۲۴)
یہ مقدار ظلم سے بچنے کی سب سے آخری حد ہے جسے انسان ستم سے دور رہنے اور اسے برا سمجھنے کے لیے سوچ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ امام علی ؑ چیونٹی پر جو کا چھلکا چھیننے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتے چاہے۔ ہفت اقلیم کی حکومت ان کو دے دی جائے۔
اس صورت میں ان کا کردار کیسا ہے جنہوں نے حد سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہایا ہے، ان کا مال لوٹا ہے اور لوگوں کی آبروریزی کرتے ہیں۔
جو ایسا ہے وہ اپنی زندگی کی مطابقت امام علی ؑ کی زندگی سے کیسے کرسکتا ہے اور ان کے تربیت یافتہ شاگردوں کے مقام تک کیسے پہنچ سکتا ہے ۔ یہ ہے خدا کی اعلیٰ تربیت جو وہ اپنے دین کی خاطر انسان سے چاہتا ہے۔
ہاں ظلم ان سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے جنہیں خدا نے حرام کر دیا ہے اس لیے اہل بیت ؑ کی دعاؤں اور روایتوں میں ظلم و ستم کی سب سے زیادہ برائی کی گئی ہے اور برائی کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
ائمہ اطہار ؑ کا یہ رویہ اور طریقہ کار رہا ہے کہ وہ ان لوگوں پر ظلم کرنے سے بھی دور رہتے تھے جو ان پر ظلم ڈھاتے اور ان کی توہین کرتے تھے۔ ایک شامی مرد کے ساتھ حضرت امام حسن ؑ کی بردباری کا مشہور قصہ اس بات کا گواہ ہے۔ اس شخص نے بہت گستاخیاں کیں، یہاں تک کہ آپ کو گالیاں دیں لیکن آپ نے ان بدتمیزیوں کے جواب میں نہایت برداشت اور خاص مہربانی کا برتاؤ کیا کہ جس سے آخر میں وہ اپنے برے رویے پر شرمندہ ہوگیا۔
چند صفحے پہلے ہم نے صحیفہ سجادیہ میں ایک دعا پڑھی ہے کہ امام سجاد ؑ اپنے عالی مکتب میں ان لوگوں کو معاف کرنے کی کیسے حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے جو انسانوں پر ظلم کرتے تھے اور یہ سبق دیا کرتے تھے کہ ہم خدا سے ان کی بخشش کی دعا کریں۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ شرع کے مطابق ظالم کے ظلم کے جواب میں ظلم کرنا اور اس پر لعنت بھیجنا جائز ہے لیکن جائز ہونا ایک اور بات ہے اور معافی اور درگزر جو اخلاقی خوبیوں میں سے ہے دوسری چیز ہے بلکہ ائمہ اطہار ؑ کے نقطہ نظر سے ظالم پر زیادہ لعنت بھیجنا بعض اوقات ظلم شمار ہوتا ہے۔
امام صادق ؑ فرماتے ہیں۔
اِنَّ العَبدَ لَیَکُونَ مَظلُوماً فَمَا یَزَالُ یَدعُو حَتَّٰی یَکُونَ ظَالِماً
:۔ کبھی کبھی وہ انسان جس پر ظلم ہوا ہے ظلم کرنے والے پر اس قدر لعنت بھیجتا ہے کہ خود بھی ظالم بن جاتا ہے (یعنی زیادہ لعنت کرنے کے باعث ظالم ہوجاتا ہے)
حیرت اس بات پر ہے کہ جب ظالم پر لعنت کی کثرت ظلم شمار ہوتی ہے تو اس صورت میں اہل بیت ؑ کی تعلیم کی رو سے اس شخص کا حساب کیسے ہوگا جو ابتدا میں ظلم و زیادتی کرتا ہے یا لوگوں کو بے آبرو کرتا ہے یا ان کا مال لوٹ لیتا ہے یا ظالموں سے لوگوں کی چغلی کھتا ہے تاکہ انہیں ظالموں کی بدنیتی کا نشانہ بنوادے یا دھوکا دے کر لوگوں کی پریشانی ، تکلیف اور تباہی کا سبب بنتا ہے یا مخبری کرکے لوگوں کو پکڑوا دیتا ہے۔
ایسے لوگ تمام لوگوں کی بہ نسبت خدا سے زیادہ دور ہیں، ان کا گناہ اور اس کی سزا بھی زیادہ سخت ہوگی اور ایسے لوگ عمل اور اخلاق کی رو سے تمام انسانوں سے برے ہیں۔