ظالموں کی مدد
چونکہ ظلم ایک بڑا گناہ ہے اور اس کا نتیجہ بہت برا ہوتا ہے اس لیے خدا نے ظالموں کے ساتھ شریک ہونے اور ان کو سہارا دینے سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
وَلاَ تَرکَنُوا اِلیَ الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَالَکُم مِن دَونِ اللهِ مِن اَولِیَآءَ ثُمَّ لاَ تُنضَرُونَ
:۔ ظالموں کے ساتھ شرکت اور دوستی نہ کرو جو تم آگ میں جاپڑو۔ تم خدا کے سوا اور کسی سے دوستی نہ کرو ورنہ پھر کوئی تمہاری مدد نہیں کرے گا۔(سورہ ہود۔ آیت ۱۱۳)
یہ ہے قرآن کی تربیت کا ڈھنگ اور وہ ہے اہل بیت ؑ کے تربیتی مکتب کا انداز!
ظالموں کی مدد کرنے ، ان کی تقویت کا باعث بننے اور ان کے ساتھ کسی کام میں شرکت کرنے سے چاہے، وہ ایک کھجور کے ٹکڑے کے برابر ہی ہو، پرہیز اور نفرت کرنے کے سلسلے میں ائمہ اہلبیت ؑ کی بہت سی روایات ہم تک پہنچی ہیں۔
اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی سب سے بڑی بدبختی اور مصیبت یہ رہی ہے کہ ظالموں سے نرمی کرتے ہیں ان کے برے کاموں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ان سے تعلق قائم رکھتے ہیں، پھر یہ تو اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کہ ان سے نہایت گرمجوشی سے ملیں اور ظلم ڈھانے میں ان کی مدد کریں۔
واقعی حق کی راہ سے ہٹ کر مسلمانوں پر کیا کیا بدبختیاں اور نحوستیں نازل ہوئی ہیں کہ جن کے منحوس سائے میں دین دھیرے دھیرے کمزور ہوتا گیا اور اس کی طاقت گھٹتی چلی گئی یہاں تک کہ آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دین اجنبی ہوگیا اور مسلمان یا وہ لوگ جو صرف ظاہر میں مسلمان ہیں اور وہ جو غیر خدا سے دوستی کرتے ہیں خدا کی دوستی اور توفیق میں شامل نہیں رہے اور خدا کی مدد سے ایسے محروم ہوگئے کہ اب طاقتور عیسائی دشمنوں کا تو ذکر ہی کیا، یہودیوں جیسے سب سے زیادہ کمزور دشمنوں اور ظالموں سے مقابلے کی بھی طاقت نہیں رکھتے۔
ائمہ اطہار ؑ بہت کوشش کرکے شیعوں اور اپنے ماننے والے لوگوں کو ایسی باتوں سے جو ظالموں کی مدد کا موجب ہوتی تھیں الگ رکھتے تھے اور اپنے محبوں کو سختی سے تاکید کرتے تھے کہ ظالموں کی ذرا سی بھی مدد اور دوستی کا اظہار نہ کریں، اس بارے میں ان کے ارشادات شمار سے باہر ہیں، انہی میں ایک وہ بات ہے جو امام سجاد ؑ نے محمد بن مسلم زہری کو ایک خط میں لکھی تھی۔ آپ اس خط میں دشمنوں کی مدد سے خبردار کرنے کے بعد ان کے ظلم کے متعلق لکھتے ہیں:
اَوَلَیسَ بِدُعَائِهِم اِیَّاکَ حِینَ دَعَوکَ جَعَلوُکَ قُطباً اَدَارُوا بِکَ رَحٰیَ مَظَالِمِهِم وَجِسراً یَعبَرُونَ عَلَیکَ اِلٰی بَلاَیَاهُم سِلماً اِلٰی ضَلاَلَتِهِم دَععِیاً اِلٰی غَیِّهم سَالِکاً سَلِبِیلَهُ یَدخُلُونَ بِکَ الشَّکَّ عَلَی العُلَمَآءِ وَیَقتَادُونَ بِکَ قُلُوبَ الجُهَّالِ اِلَیهِم فَلَم یَبلُغ اَخَصَّ وُزَرَآئِهِم وَلاَ اَقوٰٓی اَعوَانِهِم اِلاَّ دُونَ مَابَلَغَت مِن اِصلاَحِ فَسَادِهِم وَاختِلاَفِ الخَآصَّةِ وَالعَآمَّةِ اِلَیهِم فَمَآ اَقَلَّ مَآاَعطوکَ فِی قَدرِمَآ اَخَذُوا مِنکَ وَمَآ اَیسَرَ مَا عَمَرُوا لَکَ فِی جَنبِ مَا
خَرَّبُوا عَلَیکَ فَانظُر لِنَفسِکَ فَاِنَّهُ لاَ یَنظُرُ لَهَا غَیرُکَ حَاسِبِهَا حِسَابَ رَجُلٍ مَسؤُلٍ
:۔ کیا تمہارے لیے دشمنوں کے بلاوے کی یہ غرض نہیں تھی کہ تم کو اپنے ظلم کی چکی کا محور و مدار اور پشت و پناہ بنالیں اور تمہیں اپنے منحوس مقاصد تک پہنچنے کے لیے پل ، اپنی گمراہی کی سیڑھی، ظلم کا اعلان کرنے والا اور اپنے ظلم کے راستے کا مسافر سمجھ لیں۔
انہوں نے تمہاری شمولیت سے عقلمندوں کے دل میں شک پیدا کر دیا اور تمہارے وسیلے سے بیوقوفوں کے دل اپہنی طرف مائل کرلیے۔ انہوں نے اچھے موقعے پر اپنا فساد چھیڑکر اور خاص و عام کی توجہ اپنی طرف کرکے جو فائدہ تم سے اٹھایا وہ خاص الخاص وزیروں جی حضوریوں اور سب سے زیادہ طاقتور دوستوں سے بھی نہیں اٹھایا، تمہارے دیے ہوئے کے بدلے میں انہوں نے جو کچھ تمہیں دیا وہ بہت تھوڑا ہے اورتمہاری اتنی ساری بربادیوں کے بدلے میں انہوں نے جو کچھ تمہارے لیے بسایا وہ بہت کم ہے۔ اپنے نفس کے بارے میں سوچو کیونکہ تمہارے علاوہ اور کوئی اس کے متعلق نہیں سوچے گا اور اپنے نفس سے اتنا حساب لو اور اتنی پوچھ گچھ کرو جتنا ایک ذمے دار اور فرض پہچاننے والا آدمی اس سے حساب لے گا۔
(نوٹ، تحف العقول عن آل الرسول صفحہ ۱۹۸ مطبوعہ سستہ الاعلمی للمطبوعات بیروت ۱۹۷۴) ۔
امام ؑ کا آخری جملہ واقعی اہم ہے کیونکہ جب انسان پر خواہش نفسانی غالب آجاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو اپنے ضمیر میں بہت ہی حقیر اور ہیچ محسوس کرتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں خود کو اپنے اعمال کا ذمے دار نہیں پاتا۔ اپنے کام بہت چھوٹے گنتا اور سوچتا ہے کہ ان کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ اس طریقے کا اختیار کرنا انسان کے نفس امارہ کی خفیہ کارروائیوں میں شامل ہے۔
امام زین العابین ؑ کا اس بیان سے یہ مقصد ہے کہ محمد بن مسلم زہری کو نفس کے ان بھیدوں سے جو ہمیشہ انسان میں موجود رہتے ہیں آگاہ کردیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر یہ خیال غالب آجائے اور وہ انہیں ان کی ذمے داری کے مقام سے ہٹا دے۔
ظالموں کے ساتھ کام کرنے کے گناہ کو آنکھو کے سامنے لے آنے میں پچھلی گفتگو سے زیادہ واضح اور پرتاثیر صفوان جمال (اونٹ والے) سے ساتوی امام حضرت موسیٰ ب جعفر ؑ کی بات چیت ہے۔ صفوان ساتویں امام کے شیعہ اورمعتبر راوی تھے۔
کشی کی کتاب رجال کی روایت کے مطابق جو اس نے ""صفوان ان سے بیان کرتا ہے"" کے ذیل میں دی ہے ، صفوان نقل کرتے ہیں کہ میں امام موسیٰ ب جعفر ؑ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے مجھ سے فرمایا:
اے صفوان ! ایک کام کے سوا تمہارے سب کام اچھے ہیں۔
میں نے کہا : میں آپ کے صدقے، وہ ایک کام کون سا ہے؟
امام ؑ نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ تم اپنے اونٹ اس مرد (ہارون رشید) کو کرائے پر دیتے ہو۔
میں نے کہا : خدا کی قسم ! میں اپنے اونٹ حرام ، گناہ ، باطل ، شکار اور عیاشی کے کاموں کے لیے نہیں دیتا بلکہ میں نے اپنے اونٹ مکے جانے کے لیے کرائے پر دیے ہیں اور پھر میں خود اونٹوں کے ساتھ نہیں جاتا بلکہ اپنے غلاموں کو بھیج دیتا ہوں۔
امام ؑ نے فرمایا: اے صفوان ! کیا تمہارے کرائے کی شرط یہ ہے کہ وہ واپس آجائیں؟
میں نے کہا : آپ پر فدا ہوجاؤں ، بے شک۔
آپ نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ وہ زندہ واپس آجائیں تاکہ تمہارا کرایہ وصول ہوجائے۔
میں نے عرض کیا : جی ہاں ۔
آپ نے فرمایا :
فَمَن اَحَبَّ بَقَآءَ هُم فَهُوَمِنهُم وَمَن کَانَ مِنهُم فَهُوا کَاَن وَّرَدَ النَّارَ
:۔ جو ان کے زندہ رہنے کو اچھا سمجھتا ہے وہ انہیں کے زمرے میں داخل ہے اور جو ان کے زمرے میں داخل ہے وہ دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا۔
صفوان کہتا ہے کہ میں گیا اور میں نے تمام اونٹ ایک دم بیچ دیے۔
ہاں جب محض ظالموں کی زندگی باقی رہنے کی خواہش ایسی ہوسکتی ہے تو پھر اس شخص کا کیا ہوگا جو مستقل طور پر ظالموں کی مدد کرتا ہے اور ان کے ظلم اور زیادتی میں ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور پھر ان کا پوچھنا ہی کیا جو انہیں کی سی عادتیں اختیار کریں اور ان کے ساتھ ان کے کاموں ، منصوبوں اور گروہوں میں شریک ہوجائیں۔
ظالموں کی طرف سے کام قبول کرنا
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ظالموں کی مدد اور ان کے ساتھ کام کرنے کی چاہے ایک کھجور کے ٹکڑے کے برابر ہی کیوں نہ ہو بلکہ ان کے لیے زندگی کی خواہش کرنے کی بھی ائمہ اطہار ؑ نے نہایت سختی سے ممانعت کی ہے۔ پھر اس کے بارے میں تو کہا ہی کیا جائے جو ایسی حکومت میں شریک ہے اور ایسی ظالم حکومت کے منصوبوں اور عہدو پر متعین ہے۔ اس سے بھی آگے اس شخص کے لیے کیا کہا جائے جو ایسی حکومت کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ہو اور جو اس حکومت کو قوت پہنچانے اور مضبوط بنانے والے کارکنوں میں شمار کیا جائے کیونکہ امام جعفر صادق ؑ کے فرمان کے مطابق ظالم حکومت تمام صحیح قوانین کے مٹنے، باطل کے زندہ ہونے اور ظلم اور تباہی کے ظاہر ہونے کا موجب بنتی ہے۔
البتہ ائمہ اطہار ؑ نے بعض خاص موقعوں پر ان عہدوں کا قبول کرنا جائز سمجھا ہے مثلاً ظالم حکومت کی طرف سے ایک ایسا منصب قبول کرنا جو انصاف قائم کرنے، خدائی سزائیں دینے، مومنوں سے احسان اور نیکی کرنے، حلال کا حکم دینے اور حرام سے منع کرنے کے لیے ہو جیسا کہ امام موسیٰ بن جعفر ؑ ایک حدیث میں فرماتے ہیں :
اِنَّ لِلّٰهِ فِیٓ اَبوَابِ الظُّلمَةِ مِن نُّورِ اللهِ بِهِ البُرهَانَ وَمَکَّنَ لَهُ فِی البِلاَدِ اُمُورَ المُسلِمِینَ اُولٰٓئِکَ هُمُ المُؤمِنُونَ حَقّاً اُولٰٓئِکَ مَنَارُ اللهِ فِیٓ اَرضِهِ اُولٰٓئِکَ نُورُ اللهِ فِی رَعِیَّتِهِ
:۔ ظالموں کے یہاں خدا کے لیے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے خدا لوگو پر اپنی دلیل اور حجت ظاہر کرتا ہے اور ان کو شہروں میں اختیار دیتا ہے تاکہ ان کے وسیلے سے اپنے دوستوں کی مدد ہو، ان سے شر دفع ہو اور مسلمانوں کے کام سدھریں ایسے لوگ اصلی مومن ہوتے ہیں، ایسے لوگ زمین پر خدا کی واضح علامتیں اور نشانیاں اور خدا کے بندوں میں اس کی روشنی ہوتے ہیں
اس کے بارے میں ائمہ اطہار ؑ سے بہت سی روایتیں ہیں جو مذکورہ حکومتوں کے منصب داروں کے فرائض اور اچھے طرز عمل پر روشنی ڈالتی ہیں مثلاً امیرا ہواز عبداللہ نجاشی کے نام امام جعفر صادق ؑ کا رسالہ جس کا ذکر ایک بہت بڑے محقق شیخ حرعاملی نے وسائل الشیعہ کتاب البیع باب ۷۷ میں کیا ہے۔
اسلامی اتحاد کی ترغیب :۔
اہل بیت ؑ ان چیزوں کی بزرگی اور مضبوطی کی شدید خواہش رکھتے تھے جن سے اسلام کا اظہار ہوتا ہے ۔ اور اسلام کی عزت، مسلمانوں کے اتحاد، ان میں بھائی چارے کی حفاظت اور مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے ہر قسم کی دشمنیاں دور کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔
مولی الموحدین ، امام المتقین ، امیر المومنین حضر ت علی ؑ کا ان خلفاء کے ساتھ طرز عمل جو ان سے پہلے مسند خلافت پر بیٹھے تھے بھلایا نہیں جاسکتا۔ اگرچہ آپ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے اور ان لوگوں غاصب ، تاہم آپ نے ان کے ساتھ (مسلمانوں کے اتحاد کی حفاظت کی خاطر) صلح جوئی اور مصاحبت رکھی بلکہ (ایک مدت تک) آپ نے اپنا یہ عقیدہ بھی عوام کے مجمعوں میں پیش نہیں کیا کہ منصب خلافت پر جس کا تعین کیا گیا ہے وہ صرف وہی ہیں لیکن جب حکومت آپ کے ہاتھ میں آئی تو آپ نے ""میدان رحبہ"" (نوٹ،کوفہ کا وہ مقام جہاں امیرالمومنین ؑ عموماً اپنے دور خلافت میں خطبہ دیا کرتے تھے) میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے باقی ماندہ اصحاب سے جنہوں نے غدیر کے دن حضور سرورکائناتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف سے آپ کا تقرر دیکھا تھا گواہی چاہی، آپ نے ان باتوں کا بے جھجک ذکر کیا جن میں مسلمانوں کے فائدے اور بھلائیاں تھیں۔ یہ اسی اتحادالمسلمین کے خیال سے تھا جو آپ نے اپنی حکومت سے پہلے کے زمانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
فَخَشِیتُ اِن لَّم اَنصُرِالاِسلاَمَ وَ اَهلَهُ اَرٰی فِیهِ ثَلماً وَّهَدماً
:۔مجھے ڈر تھا کہ اگر میں اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ نہیں دوں گا تو اسلام میں تفرقہ اور تباہی پھیل جائے گی۔
یہی وجہ تھی کہ خلافت شروع ہونے کے بعد امام ؑ کی جانب سے کوئی ایسی بات دیکھنے میں نہیں آئی کہ ان کی گفتگو یا عمل سے (اسلام کی طاقت کی حفاظت کے خیال سے)خلفاء کی طاقت اور دبدبے کو نقصان پہنچے یا ان کی طاقت گھٹنے یا ان کی شان اور رعب میں بٹا لگنے کا سبب بنتی ، خلفاء کی ان کارروائیوں کے باوجود جو آپ دیکھتے تھے اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے گھر میں بیٹھے رہے یہ تمام احتیاطیں محض اس لیے تھیں کہ اسلام کے فائدے محفوظ رہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد اور میل جول کے محل میں کوئی خرابی اور دراڑ پیدانہ ہو چنانچہ یہ احتیاط لوگوں نے آپ ہی سے سیکھی سمجھی ۔
حضرت عمر ابن خطاب بار بار کہتے تھے:
لاَ کُنتُ لِمُعضَلَةٍ لَیسَ لَهَا اَبُو الحَسَن
:۔ خدا نہ کرے کہ میں ایسی مشکل میں پڑوں کہ جہاں ابوالحسن نہ ہوں۔
یا
لَولاَ عَلِّیٌ لَهَلَکَ عُمَرُ
:۔ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔
(نوٹ، ۱ ۔صحیح بخاری، کتاب المحاربین ، باب الایرجم المجنون ،سنن ابی داود، باب مجنون یسرق صفحہ ۱۴۷ ، مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۱۴۰ و ۱۵۴ ،سنن دار قطنی، کتاب الحدود صفحہ ۳۴۶ ، کنرالعمال، علی متقی، جلد ۳ صفحہ ۹۵ ،فیض القدریر ،منادی،جلد ۴ صفحہ ۳۵۶ ، موطا، مالک، کتاب الاشر بہ صفحہ ۱۸۶ ، مسند، شافعی، کتاب الاشربہ صفحہ ۱۶۶ ، مستدرک حاکم جلد ۴ صفحہ ۳۷۵ ، سنن بیہقی صفحہ ۱۲۳ ، ریاض النضرہ، محب طبری، جلد ۲ صفحہ ۱۹۶ ، طبقات ابن سعد جلد ۲ باب ۲ صفحہ ۱۰۲ ، شرح معافی الآثار، طحاوی، کتاب القضاء صفحہ ۲۹۴ ، استیعاب، ابن عبدالبر، جلد ۲ صفحہ ۴۶۳ ، نورالابصار، ثعلبی، صفحہ ۵۶۶ ، درمنشور، سیوطی، سورہ مائدہ آیت خمر)
امام حسین ؑ کی روش بھی کبھی بھلائی نہیں جاسکتی کہ انہوں نے کس طرح اسلام کی حفاظت کی خاطر معاویہ سے صلح کی، جب آپ نے دیکھا کہ اپنے حق کے دفاع کے لیے جگ پر اصرار کرنا، قرآن اور عادلانہ حکومت ہی کونہیں بلکہ اسلام کے نام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹادے گا اور شریعت الہٰیہ کو بھی نابود کردے گا تو آپ نے اسلام کی ظاہری نشانیوں اور دین کے نام کی حفاظت ہی کو مقدم سمجھا۔
اگرچہ یہ رویہ اس کے برابر ٹھہرا کہ ان ظالموں کے باوجود جن کے بارے میں یہ انتظار تھا کہ آپ پر اور آپ کے شیعوں پر ڈھائے جائیں گے، معاویہ جیسے اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن اور آپ سے اور آپ کے شیعو سے دل میں بغض اور کینہ رکھنے والے دشمن سے صلح کی جائے۔ اگرچہ بنی ہاشم اور آپ کے عقیدت مندوں کی تلواریں نیام سے باہر آچکی تھیں اور حق کے بچاؤ اور حصول کے بغیر نیام میں واپس جانے کو تیار نہیں تھیں لیکن امام حسن ؑ کی نظر میں اسلام کے اعلیٰ فوائد اور مقاصد کی پاسداری ان تمام معاملات پر فوقیت رکھتی تھی۔
لیکن جب اسلام کے یہی اعلیٰ مقاصد معرض خطر میں پڑگئے تو امام حسین ؑ نے اپنے بھائی امام حسن ؑ کے طرز عمل سے جداگانہ رویہ اختیار کیا(نوٹ، تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے مکتب اسلام مولفہ علامہ محمد حسین طباطبائی مطبوعہ جامعہ تعلیمات اسلامی) اور امام حسین ؑ باطل کے خلاف ڈٹ گئے، کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ بنی امیہ کی حکومت اس راستے پر چل رہی ہے کہ اگر اسی طرح چلتی رہی اور کوئی اس کی برائیاں کھول کر سامنے نہیں لایا تو حکمران اسلام کی بنیادیں ڈھادیں گے اور اسلام کی عظمت ختم ہوجائے گی، آپ نے چاہا ہے کہ اگر اسی طرح چلتی رہی اور کوئی اس کی برائیاں کھول کر سامنے نہیں لایا تو حکمران اسلام کی بنیادیں ڈھادیں گے اور اسلام کی عظمت ختم ہوجائے گی۔ آپ نے چاہا کہ اسلام اور شریعت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے ان کی دشمنی تاریخ میں محفوظ کر دیں اور ان کو ان برائیوں سمیت رسوا کریں چنانچہ امام حسین ؑ نے جس طرح چاہا تھا اسی طرح ہوا۔
اگر آپ کھڑے نہ ہوتے تو اسلام اس طرح فنا ہو جاتا کہ صرف تاریخ اسے ایک غلط مذہب کے نام سے یاد کرتی۔
شیعیان اہل بیت ؑ جو طرح طرح سے سیدالشہداء امام حسین ؑ کی یاد تازہ رکھنے سے شدید دلچسپی رکھتے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ ان کی تحریک کی تبلیغ مکمل کریں جو ظلم وستم کو کچلنے کے لیے وجود میں آئی تھی اور ان کا مقصد (جو عدالت کا قیام تھا) حاصل کریں تاکہ امام حسین ؑ کے بعد ائمہ اطہار ؑ کی رسم کے مطابق عاشورہ محرم کی یاد تازہ کرنے کے معاملے میں ان کی پیروی اور اتباع کرنے والے بن جائیں، یہی وجہ ہے کہ ""عاشورہ "" ہمارا شعار بن گیا۔(نوٹ، تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمایئے فلسفہ شہادت مولفہ مرتضیٰ مطہری، مطبوعہ جامعہ تعلیمات اسلامی)
اسلام کی عظمت کو قائم رکھنے سے اہل بیت ؑ کی انتہائی دلچسپی (نوٹ عظمت اسلام ان باتوں سے عبارت ہے خدائے واحد کی عبادت اور حکومت ، دین، رہبران دین اور بنی نوع انسان کے حقوق کا پاس، معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی عدالت کا اجراء، انسانوں کے مابین اسلامی اخوت اور مساوات اور فکر و عمل کی آزادی، اسلام یعنی کتاب و سنت کے انہی آفاقی اصولوں کی حفاظت اور بقا کے لیے ائمہ اہل بیت ؑ نے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔ انہوں نے ایسے افراد کی تربیت کی جو ا سنہرے اصولوں کی پاسداری کرسکیں۔ اگر کوئی شخص یا گروہ ان اصولوں کے حصار کو توڑ کر کسی کا حق غصب کرے، عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیرے ، طبقاتی نظام قائم کرے، انسانوں کی آزادی سلب کرے یا فرعونیت کا اظہار کرے تو وہ قرآ کی اصطلاح میں طاغوت ہے اور وہ بندگان خدا جن پر ایسی افتاد نازل کی جائے اور انہیں خدائے منعم کی دی ہوئی نعمتوں سے محروم کردیا جائے وہ مستضعف ہیں۔ شیعیان اہل بیت ؑ خدائے عزوجل کے سوا کسی کو سپر پاور تسلیم نہیں کرتے اور اپنے اپنے زمانے کے طاغوتوں سے ٹکر لینے اور کلمہ لا الہ الا اللہ کو بلند کرنے اور مظلوموں کی حمایت کرنے کو اپنا اشعار قرار دیتے ہیں جب وہ کلمہ طیبہ اپنی زبان پر جاری کرتے ہیں، تو وہ انہیں اصولوں پر اپنے ایمان اور ان سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں) اگرچہ ان کے دشمن حالات پر حاوی تھے۔۔امام علی زین العابدین ؑ کی زندگی سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ اگرچہ آپ سلاطین بنی امیہ کے مد مقابل تھے اور بنی امیہ نے آپ کے رشتہ داروں کا خون بھی بہایا تھا اور آپ کے خاندا ن کی بے ادبی اور توہین کرنے میں حد سے گزر چکے تھےاور آپ کربلا کے دل ہلادینے والے حادثے کے باعث جس میں بنی امیہ نے آپ کے پدر بزگوار اور ان کے حرم پر بے حد و حساب ظلم توڑے تھے سخت دلگیر اور غمگین تھے پھر بھی آپ تنہائی میں مسلمانوں کی فوج کے لیے دعا کیا کرتے تھے اور خدا سے ان کی فتح ، اسلام کی عزت اور مسلمانوں کی امنیت اور سلامتی چاہتے تھے۔
اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے امام زین العابدین ؑ کا واحد ہتھیار آپ کی دعا تھی آپ نے اپنے عقیدت مندوں کو یہ سکھایا کہ اسلامی فوج اور مسلمانوں کے لیے کس طرح دعا کریں۔
امام زین العابدین ؑ اس دعا میں جو ""دعائے اہل ثغور"" کے نام سے مشہور ہے یوں فرماتے ہیں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهِ وَ حَصِّن ثُغُورَ المُسلِمِینَ بِعِزَّتِکَ وَ اَیِّدحُمَاتِهَا بَقُوَّتِکَ وَ اَسبِغ عَطَایَاهُم مِن جِدَتِکَ اَللّٰهُمَّ صَلِ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهِ وَکَثِّر عَدَّتَهُم وَاشحَذ اَسلِحَتَهُم وَاحرُس حَوزَتَهُم وَامنَع حَومَتَهُم وَ اَلِّف جَمعَهُم وَدَبِّر اَمرَهُم وَ وَاتِر بَینَ مِیَرِهِم وَتَوّحَّد بِکِفَایَةِ مُؤنِهِم وَاعضُدهُم بِالنَّصرِ وَاَعِنهُم بِالصّبرِ وَالطُف لَهُم فِی المَکرِ
:۔ اے خدا محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور آل محمد ؑ پر درود بھیج، مسلمانوں کی جماعت بڑھا، ان کے ہتھیار تیز کر، ان کے علاقے کی حفاظت کر، ان کی صف کی قابل توجہ حد مضبوط بنا، ان کی جماعت میں یک جہتی برقرار رکھ، ان کے کام پورے کر، ان کو روزی ان کے پیچھے پیچھے (ساتھ ساتھ ۹ پہنچا، ان کے اخراجات پورے کر، ان کو اپنی مدد سے طاقتور بنا صبر اور ثابت قدمی سے ان کی امداد کر اور ان کو اپنے دشمنوں کے مقابلے میں اپنا راستا پالینے کی خفیہ حکمت عملی عطا فرما۔ (صحیفہ ، ستاءیسویں دعا)
پھر کافروں پر لعنت بھیجنے کے بعد فرماتے ہیں:
اَللّٰهُمَّ وَقَوِّ بَذٰلِکَ مِحَالَ اَهلِ الاَسلاَمِ وَحَصِّن بِهِ دِیَارَهُم وَثَمِّر بِهِ اَموَالَهُم وَفَرِّغهُم عَن مُحَارَبَتِهِم لِعِبَادَتِکَ وَعَن مُنَابَذَتِهِم لِلخَلوَةِ بِکَ حَتّٰی لا یُعبَدَ فِی بَقَاعِ الاَرضِ غَیرُکَ وَلاَ تُعَفَّرَ لاَحَدٍ مِّنهُم جَبهَةٌ دُونَکَ
:۔ (نوٹ، یہ دعا واقعی کتنی اچھی اور جامع ہے، اس دور میں مسلمانوں کو چاہیے کہ یہ دعا دن رات پڑھا کریں اور اس کے معافی سے سبق لیں اور خدا سے چاہیں کہ وہ انہیں میل جول ، اتحاد، صفوں کا گٹھاؤ اور عقل کی روشنی عطا فرمائے)۔
اے خدا! اس دور اندیش وسیلے سے مسلمانوں (یا ان کے مقامات) کو طاقت عطا کر، ان کے شہر مستحکم اور ان کی دولت زیادہ کر، ان کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے اور اپنے ساتھ تنہائی اختیار کرنے کے لیے دشمنوں کی جنگ اور رگڑے جھگڑے سے فرصت اورسکون عطا فرماتا کہ روئے زمین پر تیرے سوا دوسرے کی عبادت نہ ہو اور تیرے سوا ان کی پیشانی کسی کے آگے نہ جھکے۔
امام زین العابدین ؑ اس بلیغ اور پر تاثیر دعا میں (جو ان دعاؤں میں سب سے لمبی ہے) لشکر اسلام کو اس کام کے لیے جو اس کے شایان شان ہے اس طرح آمادہ کرتے ہیں کہ وہ عسکری اور اخلاقی خوبیوں کے مالک بنیں اور دشمنوں کی صفوں کے مقابلے میں پوری طرح مل کر کھڑے ہوجائیں۔
آپ اس دعا کے پردے میں اسلامی جہاد کی فوجی تعلیم، نتیجہ ، مقصد اور اس کے فائدے بیان کرتےہیں اور دشمن سے تصادم اور جھڑپوں میں جنگی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہیں، اور ساتھ ساتھ یہ بھی آجاتا ہے کہ لڑائی کے بیچ میں خدا کی محبت، اس پر بھروسا ، گناہوں سے پرہیز اور خدا کی خاطر جہاد کرنا دھیان سے نہ اترے۔
اپنے زمانے کے حاکموں کے مقابلے میں باقی اماموں کا بھی یہی رویہ رہا۔ یہ بزرگ اگرچہ دشمنوں کی قسم قسم کی دھکمیوں اور دھوکے بازیوں، سنگدلیوں اور بے باکیوں کا مقابلہ کرتے رہے لیکن جب انہوں نے سمجھ لیا کہ حق حکومت ان کی طرف نہیں پلٹے گا تو بھی وہ اپنے اصل مقصد سے نہیں ہٹے اور لوگوں کی دینی اور اخلاقی تعلیم اور اپنے پیروکاروں کو مذہب کی بلند مرتبہ تعلیمات کی طرف متوجہ اور راغب کرنے میں مصروف رہے۔
یہ ہے اہل بیت رسول ؑ اور ان کے پیروکاروں کا طریقہ لیکن کتنا بڑا جرم ہے آج کل کے مصنفین کا جو چند ڈالروں اور ریالوں کی خاطر شیعوں کو ایک خفیہ، تخریب کار اور بنیاد اکھیڑ دینے والی جماعت کا نام دیتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ہر وہ مسلمان جو اہل بیت ؑ کے تعلیمی مکتب کا ماننے والا ہے وہ ظلم اور ظالموں کا دشمن ہوتا ہے ، ظالموں اور بدکاروں سے تعلق نہیں رکھتا اور ان لوگوں کو جو ظالموں کی مدد کرتے ہیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے چنانچہ یہ نیک عادت اور صحیح دستور ایک نسل سے دوسری نسل تک چلتا رہتا ہے لیکن اس کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ ہم شیعوں کو بہانہ ، دھوکا اور مکر وغیرہ کے عنوان سے پہچانیں۔
شیعہ مسلمان دوسرے مسلمانوں کو دھوکا دینا اپنے لیے جائز نہیں سمجھتے ۔ یہ وہ طریقہ ہے جو انہوں نے اپنے اماموں سے لیا ہے شیعوں کے عقیدے کی رو سے ہر اس مسلمان کا مال ، جان اور عزت محفوظ ہے جو خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رسالت کی گواہی دیتا ہے یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہے کسی مسلمان کی اجازت کے بغیر اس کا مال کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھاءی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے ان حقوق کا خیال رکھے ج کی طرف ہم آگے کی بحث میں اشارہ کریں گے۔
مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق :
مختلف طبقوں، درجوں اور مقاموں سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم کرنے کی ترغیب مذہب اسلام کی سب سے بڑی اور سب سے اچھی ترغیبوں میں سے ہے چنانچہ آج کے اور پچھلے مسلمانوں کا سب سے زیادہ بے وقعت اور ذلیل کام یہ ہے کہ انہوں نے اس اسلامی بھائی چارے کے تقاضوں کی طرف دھیان نہیں دیا اور اس بارے میں لاپروائی اور غفلت برتی۔
وجہ یہ ہے کہ اس بھائی چارے کا (جیسا کہ امام جعفر صادق کؑ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے اور جسے ہم بیان کریں گے) کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہ پسند کرے اور عزیز رکھے جسے اپنے لیے اس نے پسند کیا ہے اور عزیز رکھا ہے اور جسے اپنے لیے پسند نہیں کرتا اسے دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی پسند نہ کرے۔
اس چھوٹے اور سیدھے سادے سے قاعدے کے بارے میں جو اہلبیت ؑ کے پسندیدہ دستوروں میں سے ہے سوچنا چاہیے اور اس خیال سے سوچنا چاہیے کہ اس قاعدے پر صحیح صحیح عمل کرنا آج کے مسلمانوں کے لیے کتنا مشکل ہے ۔ آج کے مسلمان واقعی اس قاعدے سے کتنے دور ہیں اور اگر واقعی یہ لوگ انصاف سے کام لیتے اور اپنے مذہب کو ٹھیک ٹھیک پہچان لیتے اور صرف اسی قاعدے پر عمل کرتے تو کبھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرتے اور ان میں زیادتی، چوری، جھوٹ، بدگوئی ، چغلی ، الزام ، گستاخی ، تہمت لگانا، توہین کرنا اور خود غرضی وغیرہ کے عیوب ہرگز نہ ہوتے۔
بے شک اگر مسلمان آپس میں بھائی چارے کی کم سے کم خوبی کو سمجھ کر ہی عمل کرتے تو ان میں ظلم اور دشمنی باقی نہ رہتی اور انسان حد درجہ خوشی اور اجتماعی خوش بختی کے اونچے اونچے مرحلوں کی فتح کے ساتھ ساتھ بھائیوں کی طرح اپنی زندگی گزارتے۔
انسانیت کی دنیا میں وہ ""مثالی بعاشرہ"" جس کا قیام پچھلے فلسفیوں سے رہ گیا تھا یقینی طور پر وجود میں آجاتا، اس صورت میں لوگوں میں دوستی اور محبت کی حکمرانی ہوتی حکومتوں ، عدالتوں ، پولیس ، جیل تعزیری قوانین اور سزا اور قصاص کے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی، اگر وہ سامراجیوں اور جابر حکمرانوں کے سامنے سر نہ جھکاتے اور باغی خود سروں کے دھوکے میں نہ آتے تو آخر کار پوری زمین بہشت کا بدل ہوجاتی اور خوش بختی کے گھر کی طرح بن جاتی۔
میں اس جگہ یہ مزید کہتا ہوں : اگر محبت اور بھائی چارے کا قانون جیسا کہ اسلام نے چاہا ہے انسانوں میں حکمرانی کرتا تو ہمارے مکتب کی لغت سے عدالت کا لفظ ہی نکل جاتا۔ یعنی ایسی صورت میں ہمیں عدل کی ضرورت ہی نہ پڑتی جو ہم لفظ عدل سے کام لینے کی حاجت رکھتے بلکہ محبت اور بھائی چارے کا قانون ہی نیکیاں پھیلانے ، امن ، خوش بختی اور کامیابی قائم رکھنے کو ہمارے لیے کافی ہوتا ۔
وجہ یہ ہے کہ انسان قانون عدل کی طرف اس وقت جاتا ہے جب سماج میں محبت نہیں ہوتی لیکن جہاں لوگوں میں باپ بیٹے اور بھائی بھائی کی سی محبت راج کرتی ہے، وہاں انسان اپنی خواہشات اور ضروریات چھوڑ بیٹھتا ہے اور محبت کے مقدس حدود کی خود خوشی خوشی حفاظت کرتا ہے آخر کار تمام مشکلیں محبت کے سائے تلے دور ہوجاتی ہیں اور پھر عدالت اور سیاست کی ضرورت نہیں رہتی ۔
اس کا راز اور سبب یہ ہے کہ ہر انسان صرف اپنے آپ سے اور اس چیز سے محبت کرتا ہے جو اسے اچھی لگتی ہے وہ کبھی ایسی چیز سے جو اس کی ہستی سے باہر ہو اس وقت تک محبت نہیں کرتا جب تک وہ اس سے تعلق پیدا نہ کرے ، وہ اسے بھلی نہ لگنے لگے، اسے اس کی ضرورت نہ پڑجائے اور اس سے رغبت نہ ہوجائے۔
اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کی خاطر جسے وہ پسند نہیں کرتا اور جس کی طرف وہ مائل نہیں ہے اپنے ارادے اور اختیار سے جان دے دے اور قربانی ہوجائے اور اس کے لیے اپنی خواہشات اور مرغوبات چھوڑ بیٹھے بجز اس صورت کے وہ ایک ایسا عقیدہ رکھتا ہو جس کی طاقت اس کی خواہشات اور مرغوبات سے زیادہ ہو ، جیسے عدالت اور احسان کا عقیدہ اس صوت میں زیادہ طاقتور میدان (مثلاً عدالت اور احسان چاہنے کا عقیدہ) کمزور رجحانات کو دبا دیتا ہے۔ یہ زیادہ پکا اور مضبوط عقیدہ انسان میں اس وقت جنم لیتا ہے جب کہ وہ بلند روح کا مالک ہو، ایسی روح جو اس سے زیادہ بلند ہو کہ خیالی اور مادی معاملات کی خاطر مادے سے ماورا (یعنی حقیقی، معنوی اور روحانی ) معاملات کو نظر انداز نہ کرے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ کسی غیر کے ساتھ احسان اور انصاف کیے جانے کے مرحلے کو اعلیٰ سمجھے گا۔
انسان اس صورت میں اس روحانی پروگرام کا محتاج ہوتا ہے جب وہ اپنے اور تمام انسانوں کے بھائی چارے کے جذبے اور سچی محبت کے قائم رکھنے سے عاجزہ جائے۔ ورنہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ محبت، عدالت کی جگہ لے لیتی ہے اور محبت کی حکومت میں عدالت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان پر بھائی چارے کی صفت سے آراستہ ہونا واجب ہے۔ اسے سب سے پہلے یہ چاہیے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھائی چارے کا جذبہ رکھے اور جب اپنے نفس کی خواہشات غالب آجانے کے باعث اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے سے عاجز رہ جائے (جیسا کہ اکثر ہوتا ہے) تو اسلامی مواعظ اور رہبریو کی پیروی کرکے اپنے نفس میں عدالت اور احسان طلبی کا عقیدہ مضبوط کرے اور اس کی بدولت اسلامی مقاصد حاصل کرے اور اگر اسے مرحلے سے بھی مجبور ہوگیا تو پھر وہ صرف نام کا مسلمان ہے (کیونکہ محبت کے درجو کی کوئی انتہا نہیں ہے اور عدل ، اسلام کی آخری حد ہے جس کے بعد کفر و ضلالت ہے) اور وہ اللہ کی سرپرستی اور حزب اللہ سے باہر نکل گیا ہے اور امام ؑ کی تشریح کے مطابق جو بیان کی جارہی ہے خدا اس پر مہربانی اور عنایت نہیں کرتے گا۔
اکثر نفس کی سرکش خواہشیں اور تقاضے انسان پر غالب آجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے لیے انصاف چاہنے کی ضرورت محسوس کرے تو پھر اس بات کا توخیر خیال ہی چھوڑ دیجیے کہ وہ انسانی انصاف کی اتنی طاقت اپنے اندر اکٹھی اور تیار کرلے کہ اپنے نفس کی سرکش خواہشوں اور تقاضوں پر غالب آجائے۔
یہی وجہ ہے کہ بھائی چارے کے حقوق کا لحاظ اس حالت میں جب کہ انسان میں بھائی چارے کا سچا جذبہ نہ ہو سب سے مشکل مذہبی تعلیم اور سبق ہے ، چنانچہ امام جعفر صادق ؑ نے اپنے ایک صحابی معلیٰ بن خنیس کے جواب میں جس نے بھائی چارے کے حقوق پوچھے تھے اس کی حالت کا خیال کیا اور اس ڈر سے کہ معلیٰ بن خنیس ان حقوق کو جانتا ہے لیکن ان پر عمل نہیں کرسکتا اس کی قوت برداشت سے زیادہ وضاحت نہیں کی۔
معلیٰ بن خنیس کہتے ہیں ، میں نے امام جعفر صادق ؑ سے عرض کیا :
مَا حَقُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ
:۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر کیا حق ہے ؟
آپ نے فرمایا :
لَهُ سَبعُ حُقُوقٍ وَاجِبَاتٍ ، مَامِنهُنَّ حَقٌّ اِلاَّ وَهُوَ عَلَیهِ وَاجِبٌ ، اِن ضَیَّعَ مِنهَا شَیئاً خَرَجَ مِن وِلاَیَةِ اللهِ وَطَاعَتِهِ ، وَلَم یَکُن لِلّٰهِ فِیهِ نَصِیبٌ
:۔ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر سات حق واجب ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک خود اس پر بھی واجب ہے اگر وہ ان میں سے ہر حق ضائع کردے گا تو خدا کی بندگی، حکومت اور سرپرستی سے باہر نکل جائے گا اور پھر خدا کی طرف سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
میں نے کہا : میں آپ پر فدا ہوجاؤں، وہ حقوق کیا ہیں؟
آپ نے فرمایا:۔ اے معلیٰ ! میں تجھ پر شفقت کرتا ہوں، مجھے ڈر ہے کہ تو کہی یہ حقوق تلف نہ کرے، ان کی حفاظت نہ کرسکے اور انہیں سمجھتے ہوئے بھی ان پر عمل نہ کرسکے۔
میں نے کہا : خدا کے سوا کسی میں طاقت نہیں ہے مجھے خدا کی مدد سے امید ہے کہ میں کامیاب ہوجاؤں گا۔
اس وقت امام نے ساتوں حقوق بیان کیے، اس کے بعد فرمایا کہ جو ان میں سب سے ادنی ہیے وہی سب سے سادہ بھی ہے اور وہ یہ ہے:
اَن تُحِبَّ لَهُ کَمَا تُحِبُّ لِنَفسِکَ وَتَکرَهَ لَه مَاتکرَرهُ لِنَفسِکَ
:۔ دوسروں کے لیے بھی وہ چیز پسند کر جو تو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی وہ ناپسند کر جو تو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے۔
کس قدر عجیب ہے ! سبحان اللہ ! کیا سچ مچ یہ سب سے ادنیٰ اور سب سے سادہ حق ہوسکتا ہے؟
آج ہم مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ کیا اس حق کا ادا کرنا ہمارے لیے سادہ اور سہل ہے؟ ان کے مہ کو لوکا لگے جو مسلمان ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن اسلام کے سب سے سادہ قاعدے پر بھی عمل نہیں کرتے ۔ اس سے بھی زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ اسلام کے پچھڑ جانے اور زوال پذیر ہونے کی بات کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کا عمل اس زوال کا سبب بنا ہے۔ اسلام می خود کوئی برائی نہیں ہے جو برائی ہے وہ ہمارے مسلمان ہونے کے دعوے میں ہے۔ ہاں تمام گناہ ان کے ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے مذہب کے سب سے آسان اور سادہ قاعدے پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
صرف تاریخ میں لکھے جانے کے لیے اور اس لیے کہ ہم خود کو اور اپنی کوتاہیوں کو پہچان لیں، یہ ساتوں حقوق جن کی امام جعفر صادق ؑ نے معلیٰ بن خنیس کی خاطر تشریح کی ہے ہم اس مقام پر پیش کرتے ہیں :
۱ ۔آن تحِبَّ لاَخِیکَ المُسلِمِ مَاتُحِبُّ لِنَفسِکَ وَتَکرَهَ لَهُ مَا تَکرَهُ لِنَفسِکَ
:۔ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہ چیز پسند کو جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور جو اپنے لیے پسند نہیں کرتا اس کے لیے بھی پسند نہ کر۔
۲ ۔آن تَجتَنِبَ سَخَطَهُ وَتَتَّبِعَ مَرضَاتَهُ وَتُطِیعَ اَمرَهُ
:۔ اپنے مسلمان بھائی کو ناراض کرنے سے (یا اس کے غصے سے) بچتا رہ جو اس کی مرضی کے مطابق ہو وہ کر اور اس کا حکم مان۔
۳ ۔اَن تُعِینَهُ بِنَفِسکَ وَمَالِکَ وَلِسَانِکَ وَیَدِکَ وَرِجلِکَ
:۔ اپنی جان ، مال ، زبان اور ہاتھ پاؤں سے اس کا ساتھ دے۔
۴ ۔آن تَکُونَ عَینَهُ وَدَلِیلَهُ وَمِراٰتَهُ
:۔ اس کی آنکھ، رہنما اور آئینہ بن کر رہ۔
۵ ۔اَن لاَّ تَشبَعَ وَیَجُوعَ وَلاَ تَروٰی وَیَظمَاَ وَلاَ تَلبَسَ وَیَعرٰی
:۔ تو اس وقت تک پیٹ نہ بھر جب تک وہ بھوکا ہے۔ اس وقت تک سیراب نہ ہو جب تک وہ پیاسا ہے اور اس وقت تک کپڑے نہ پہن جب تک وہ ننگا ہے۔
۶ ۔اَن یَّکُونَ لَکَ خَادِمٌ وَلَیسَ لاَخِتکَ خَادِمٌ فَوَاجِبٌ اَن تَبعَثَ خَادِمَکَ فَیُغَسِّلَ ثِیَابَهُ وَیَصنَعَ طَعَامَهُ وَ یُمَهِّدَ فِرَاشَهُ
:۔ اگر تیرے پاس ملازم ہے اور تیرے بھائی کے پاس نہیں ہے تو تجھے لازم ہے کہ اپنا ملازم اس کے پاس بھیج دے تاکہ وہ اس کا لباس دھودے ، کھانے کا انتظام کردے اور بستر لگا دے۔
۷ ۔اَن تُبِرَّ قَسَمهُ وَتُجِیبَ دَعوَتَهُ وَ تَعُودَ مَرِیضَهُ وَتَشهَدَ جَنَازَتَهُ وَاِذَا عَلِمتَ اَنَّ لَهُ حَاجَةً تُبادِرُهُ اِلیٰ قَضَآئِهَا وَلاَ تُلجِئُهُ اِلٰی اَن یَّساَلَکَهَا وَلٰکِن تُبَادِرهُ مُبَادَرَةً
:۔ اسے اس کے معاہدوں کی ذمے داری سے آزاد کر، اس کی دعوت قبول کر، اس کی بیماری میں مزاج پرسی کر، اس کے جنازے میں شریک ہو، اگر تو جانتا ہے کہ اسے کوئی ضرورت ہے تو فوراً اس کی ضرورت پوری کر۔ اس کی ضرورت پوری کرنے میں اس انتظار میں دیرنہ کر کہ وہ خود ضرورت ظاہر کرے بلکہ جلد سے جلد اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جا۔
پھر امام صادق ؑ نے اپنی گفتگو ان جملوں پر ختم کی:
فَاِذَا فَعَلتَ ذٰلِکَ وَصَلتَ وِلاَیَتَکَ بِوِلاَیَتِهِ وَ وَلاَیَتَهُ بِوِلاَیَتِکَ
:۔ جب تو نے یہ حقوق ادا کر دیے تو اپنی محبت کا رشتہ اس کی محبت سے اور اس کی محبت کا رشتہ اپنی محبت سے جوڑ لیا۔
(نوٹ، وسائل الشعیہ ، کتاب الجج ابواب احکام احکام العشرۃ باب ۱۲۲ حدیث ۷)
اس مضمون کی بہت سی روایتیں ائمہ اطہار ؑ سے منقول ہیں اور ان کا بیشتر حصہ کتاب وسائل الشیعہ کے مختلف ابواب میں درج ہے۔
ایک شک کا ازالہ :۔
بعض اوقات کچھ لوگ یہ شک کرتے ہیں کہ اس برادری سے جس کا ذکر اہل بیت ؑ کی حدیثوں میں آیا ہے مسلمانوں کے تمام فرقوں کی نہیں بلکہ شیعوں کی برادری مراد ہے لیکن ان تمام حدیثوں کو دیکھ کر جن میں یہ موضوع بیان ہوا ہے یہ شک دور ہو جاتا ہے، درآنحالیکہ ائمہ اطہار ؑ دوسری وجوہ سے مخالفین کے طور طریقوں کے خلاف تھے اور ان کےعقیدے کو درست نہیں سمجھتے تھے۔
اس مقام پر یہی کافی ہے کہ ہم پڑھنے والے سامنے ""معاویہ بن وہب"" کی حدیث پیش کریں، وہ کہتے ہیں:
میں نے امام جعفرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے عرض کیا کہ ہم تمام مسلمانوں سے جو ہمارے یہاں آمدورفت رکھتے ہیں لیکن شیعہ نہیں ہیں کس طرح پیش آئیں؟ آپ نے فرمایا:
اپنے اماموں کو دیکھو اور انہیں کی طرح مخالفوں سے پیش آؤ ۔ خدا کی قسم ! تمہارے امام ان کے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں ، ان کی موافقت یا مخالفت میں قاضی کے سامنے گواہی دیتے ہیں اور ان کی امانتوں میں خیانت نہیں کرتے۔
(نوٹ ، اصول کافی کتاب العشرۃ باب اول)
وہ بھائی چارہ جو ائمہ اطہار ؑ نے اپنے شیعوں سے چاہا ہے وہ اس اسلامی بھائی چارے سے بھی بڑھ کر ہے جس باب میں شیعوں کی تعریف کی گئی ہے اس میں بہت سی حدیثیں اس بات کی گواہ ہیں اس سلسلے میں وہ گفتگو کافی ہے جو امام صادق ؑ اور ان کے ایک صحابی ابان بن تغلب کے درمیان ہوئی ہے ہم اسے یہاں درج کرتے ہیں۔
ابان کہتے ہیں : ہم لوگ امام جعفر صادق ؑ کے ساتھ خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھے کہ اس بیچ میں ایک شیعہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ ایک کام کے لیے میرے ساتھ چلے چلو، اسی وقت امام جعفر صادق ؑ نے ہم دونوں کو دیکھ لیا تو مجھ سے فرمایا :
کیا اس شخص کو تم سے کام ہے؟
آپ نے فرمایا : کیا وہ تمہاری طرح ہی شیعہ ہے ؟
میں نے کہا : جی ہاں
آپ نے فرمایا : طواف چھوڑ دو اور اس کے ساتھ اس کے کام سے چلے جاؤ۔
میں نے کہا : چاہے طواف، طواف واجب ہو اسے چھوڑ دوں ۔
آپ نے فرمایا : ہاں
میں اس کے ساتھ چلاگیا اور اس کا کام کرنے کے بعد امام جعفر صادق ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے مومن کا حق دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا:
یہ سوال چھوڑ دو اور نہ ہراؤ ۔
لیکن میں نے سوال دہرایا تو آپ نے فرمایا :
اے ابان ! کیا تم اپنی دولت اس مومن کے ساتھ بانٹ لو گے؟
اس کے بعد امام نے میری طرف دیکھا اور جوکچھ امام کی بات سن کر میں نے سمجھا تھا وہ انہوں نے میرے چہرے سے بھی پڑھ لیا تو فرمایا :
اے ابان ! کیا تم جانتے ہو کہ خدا ایثار کرنے والوں کو یاد کرتا ہے
(نوٹ،(
وَ یُؤثِرُونَ عَلٰی اَنفُسُهِم وَلَو کَانَ بِهِم خَصَاصَةٌ ، وَمَن یُّوقَ شُحَّ نَفِسِهِ فَاُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ
)
(سورہ حشر۔ آیت ۹)
میں نے جواب دیا: جی ہاں میں جانتا ہوں۔
آپ نے فرمایا :
تم اپنا مال اس کو بانٹ دو گے تب بھی ""صاحب ایثار"" نہیں ہوسکو گے البتہ تم اس وقت ایثار کے درجے پر پہنچو گے جب اپنا آدھا مال اس کو دے دو گے اور جو دوسرا آدھا مال تمہارے لیے رہ گیا ہے وہ بھی اس کو دے ڈالو گے۔
(وسائل الشیعہ کتاب العج ابواب العشرہ باب ۱۲۲ حدیث ۱۶)
میں کہتا ہو کہ واقعی ہماری زندگی کی حقیقت کتنی شرم دلانے والی ہے واقعی ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اپنے آپ کو مومن کہیں، ہم ایک وادی میں اور ایک طرف ہیں، ہمارے امام دوسری وادی میں اور دوسری طرف ہیں، وہی حالت اور رنگ بدلنے کی کیفیت جو امام کے فرمانے پر (مال بانٹنے کے سلسلے میں) ان کی ہوئی ان لوگوں کی بھی ہوگی جو یہ حدیث پڑھیں گے۔
ہم نے اپنے آپ کو اتنا بھلا دیا ہے اور حدیث سے منہ موڑ بیٹھے ہیں جیسے یہ حدیث ہمارے لیے نہیں ہے اور ہم ایک ذمے دار انسان کی طرح کبھی اپنے نفس کو نہیں جانچتے۔