کاسۂ شام

کاسۂ شام0%

کاسۂ شام مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 61

کاسۂ شام

مؤلف: افتخار عارف
زمرہ جات:

صفحے: 61
مشاہدے: 32986
ڈاؤنلوڈ: 1979

تبصرے:

کاسۂ شام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32986 / ڈاؤنلوڈ: 1979
سائز سائز سائز
کاسۂ شام

کاسۂ شام

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

کاسۂ شام

افتخار عارف

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ماخذ: اردو کی برقی کتاب

***

۳

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

*

صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن

راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے

*

ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ

اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے

*

دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب

جس کی ڈھالیں چمک رہیں تھیں وہی نشانہ ہے

*

کاسہ شام میں سورج کا سر اور آواز ِ اذان

اور آواز اذان کہتی ہے فرض نبھانا ہے

*

سب کہتے ہیں اور کوئی دن یہ ہنگامہ دہر

دل کہتا ہے ایک مسافر اور بھی آنا ہے

*

ایک جزیرہ اس کے آگے پیچھے سات سمندر

سات سمندر پار سنا ہے ایک خزانہ ہے

٭٭٭

۴

آخری آدمی کا رجز

مصاحبین شاہ مطنہی ہوئے کہ سرفراز سربریدہ بازوؤں سمیت شہر کی فصیل

*

پر لٹک رہے ہیں

اور ہر طرف سکون ہے

سکون ہی سکون ہے

*

فغان ِ خلق اہل طائفہ کی نذر ہو گئی

متاع صبر وحشت دعا کی نذر ہو گئی

امید اجر بے یقینی جزا کی نذر ہو گئی

*

نہ اعتبار ِ حرف ہے نہ آبروئے خون ہے

سکون ہی سکون ہے

*

مصاحبین شاہ مطمئن ہوئے کے سرفراز سر بریدہ بازوؤں

سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں اور ہر طرف سکون ہے

سکون ہی سکون ہے

*

خلیج اقتدار سرکشوں سے پاٹ دی گئی

جو ہاتھ آئی دولت ِ غنیم بانٹ دے گئی

طناب ِ خیمہ لسان و لفظ کاٹ دی گئی

*

۵

فضا وہ ہے کہ آرزوئے خیر تک جنوں ہے

سکون ہی سکون ہے

*

مصاحبین شاہ مطمئن ہوئے کے سرفراز سربریدہ بازوؤں سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں

اور ہر طرف سکون ہے

سکون ہی سکون ہے

٭٭٭

۶

ایک رخ

وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر

سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں

سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں

*

گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی

دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی

جلے ہوئے خیموں میں سہمی ہوئی روشنی

سارے منرے ایک طرح کے ہوتے ہیں

*

ایسے منرے کے بعد ایک سناٹا چھا جاتا ہے

یہ سناٹا طبل و علم کی دہشت کو کھا جاتا ہے

سناٹا فریاد کی لے ہے احتجاج کا لہجہ ہے

یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بہت پرانا قصہ ہے

ہر قصے میں صبر کے تیور ایک طرح کے ہوتے ہیں

*

وہ فرات کے ساحل پر ہوں ہا کسی اور کنارے پر

سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں

٭٭٭

۷

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم

وہ طائر جو کبھی اپنے بال و پر آزمانا چاہتے تھے

ہواؤں کے خد و خال آزمانا چاہتے تھے

آشیانوں کی طرف جاتے ہوئے ڈرنے لگے

*

کون جانے کون سا صیاد کسی وضع کے جال آزمانا چاہتا ہو

کون سی شاخوں ہی کیسے گل کھلانا چاہتا ہو

شکاری اپنے باطن کی طرح اندھے شکاری

حرمتوں کے موسموں سے نابلد ہیں

اور نشانے مستند ہیں

*

جگمگاتی شاخوں کو بے آواز رکھنا چاہتے ہیں

ستم گاری کے سب در باز رکھنا چاہتے ہیں

خداوند تجھے سہمے ہوئے باغوں کی سوگند

صداؤں کے ثمر کی منتظر شاخوں کی قسم

*

اُڑانوں کے لئے پر تولنے والوں پر ایک سایہ تحفظ کی ضمانت دینے والے

کوئی موسم بشارت دینے والا

٭٭٭

۸

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے

آنکھیں بھی مری خواب ِ پریشاں بھی مرا ہے

*

جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری

جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی مرا ہے

*

جو ہاتھ اٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے

جو چاک ہوا ہے وہ گریباں بھی مرا ہے

*

جس کی کوئی آواز نہ پہچان نہ منزل

وہ قافلہ بے سر و ساماں بھی مرا ہے

*

ویرانہ مقتل پہ حجاب آیا تو اس بار

خود چیخ پڑا میں کہ عنواں بھی مرا ہے

*

وارفتگی صبح بشارت کو خبر کیا

اندیشہ صد شام ِ غریباں بھی مرا ہے=

*

میں وارث گل ہوں کہ نہیں ہوں مگر اے جان

خمیازہ توہین ِ بہاراں بھی مرا ہے

*

مٹی کی گواہی سے بڑی دل کی گواہی

یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی مرا ہے

٭٭٭

۹

پتہ نہیں کیوں

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں کہ جب کبھی کوئی خواب دیکھوں

تو رات میری امانتیں مہرباں سورج کو سونپ جائے

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں

*

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں کہ جب دعاؤں کو ہاتھ اٹھیں تو

کوئی میرے بلند ہاتھوں میں پھول رکھ دے

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں

*

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں کہ اب مرے عہد کے مقدر میں جتنے آنسو ہیں

میری آنکھوں میں جذب ہو جائیں اور تکش کے جتنے تیر ہیں

میرے سینے میں ٹوٹ جائیں

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں

٭٭٭

۱۰

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے

شام ہوئی اور بام و در خاموش ہوئے

*

شام ہوئی اور سورج رستہ بھول گیا

کیسے ہنستے بستے گھر خاموش ہوئے

*

بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں

شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے

*

کیسی کیسی تصویروں کے رنگ اڑے

کیسے کیسے صورت گر خاموش ہوئے

*

کھیل تماشہ بربادی پر ختم ہوا

ہنسی اڑا کر بازی گر خاموش ہوئے

*

کچی دیواریں بارش میں بیٹھ گئیں

بیتی رت کے سب منظر خاموش ہوئے

*

ابھی گیا ہے کوئی مگر لگتا ہے

جیسے صدیاں بںتش گھر خاموش ہوئے

٭٭٭

۱۱

سرگوشی

تمہیں کیا ہو گیا ہے

بتاؤ تو سہی اے جان جاں ! جانانِ جاں! آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے

اپنی ہی آواز سے ڈرنے لگے ہو اپنے ہی سائے سے گھبرانے لگے ہو

اپنے ہی چہرے سے شرمانے لگے ہو

بتاؤ تو سہی ۔۔

آ کر تمہیں کیا ہو گیا ہے

چلو ہم نے یہ مانا یہ زمانہ اب تمہارے بس سے

باہر ہو گیا ہے

ان دنوں میں بے حسی کے موسموں میں دل کا خوں ہونا

مقدر ہو گیا ہے

مگر اس قہرمان بستی میں دو آنکھیں تو ایسی ہیں کہ جن میں

کوئی اندیشہ نہیں ہے اور جن کے خواب یکساں ہیں

بہت ہی مبہم سی تعبیر کا امکان تو ہے

یہ شب گزرے نہ گزرے صبح پر ایمان تو ہے

تو پھر اے جان ِ جاں ویراں کیوں ہو

اس قدر شاداب آنکھیں جب دعا گو ہیں تو اتنے بے سر و ساماں

کیوں ہو

بتاؤ تو سہی اے جان ِ جاں آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے

اپنی ہی آواز سے ڈرنے لگے ہو

اپنے ہی چہرے سے شرمانے لگے ہو

اپنے ہی سائے سے گھبرانے لگے ہو

۱۲

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

*

ابھی سے برف بالوں میں الجھنے لگی ہے بالوں سے

ابھی تو قرض مہ و سال بھی اتارا نہیں

*

بس ایک شام اُسے آواز دی تھی ہجر کی شام

پھر اس کے بعد تو ہم نے اسے پکارا نہیں

*

ہوا کچھ ایسی چلی ہے کہ تیرے وحشی کو

مزاج پرسی باد صبا گوارا نہیں

*

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کے ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں

*

وہ ہم نہیں تھے پھر کون تھا سر بازار

جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارہ نہیں

*

ہم اہل دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امین

ہمارے پاس زمینوں کا کوئی گوشوارہ نہیں

٭٭٭

۱۳

رنگ تھا روشنی تھا قامت تھا

جس پہ ہم مر مٹے قیامت تھا

*

خوش جمالوں میں دھوم تھی اپنی

نام اس کا بھی وجہ شہرت تھا

*

پاس آوارگی ہمیں بھی بہت

اس کو بھی اعتراف وحشت تھا

*

ہم بھی تکرار کے نہ تھے خوگر

وہ بھی ناآشنائے حجت تھا

*

خواب تعبیر بن کے آتے تھے

کیا عجب موسم رفاقت تھا

*

اپنے لہجے کا بانکپن سارا

اس کے پندار کی امانت تھا

*

اس کے کندن بدن کا روپ سروپ

حسن احساس کی بدولت تھا

*

ایک اک سانس قربتوں کا گواہ

ہر نفس لمحہ غنیمت تھا

*

اور پھر یوں ہوا کہ ٹوٹ گیا

وہ جو اک رشتۂ محبت تھا

۱۴

ہوائیں ان پڑھ ہیں

اب کے بار پھر

موج ِ بہار نے

فرش سبز پر

ساعتِ مہر میں

ہار سنگھار سے

ہم دونوں کے نام لکھے ہیں

اور دعا مانگی ہے کہ ’’ اے راتوں کو جگنو دینے والے

سوکھی ہوئی مٹی کی خوشبو دینے والے

شکر گزار آنکھوں کو آنسو دینے والے

ان دونوں کا ساتھ نہ چھوٹے‘‘

اور سنا یہ ہے کہ ہوائیں اب کے بار بھی تیز بہت ہیں

شہر وصال سے آنے والے موسم ہجر انگیز بہت ہیں

٭٭٭

۱۵

دعا

مالک میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا مجھ کو ڈر لگتا ہے

کچے رنگ تو بارش کی ہلکی سی پھوار میں بہہ جاتے ہیں

اک ذرا سی دھوپ پڑے تو اڑ جاتے ہیں

مالک میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا مجھ کو ڈر لگتا ہے

٭٭٭

۱۶

کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے

کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے

مسافر لوٹ کر اب اپنے گھر شاید نہ آئے

*

قفس میں آب و دانے کی فراوانی بہت ہے

اسیروں کو خیال ِ بال و پر شاید نہ آئے

*

کسے معلوم اہل ہجر پر ایسے بھی دن آئیں

قیامت سر سے گزرے اور خبر شاید نہ آئے

*

جہاں راتوں کو پڑ رہتے ہیں آنکھیں موند کر لوگ

وہاں مہتاب میں چہرہ نظر شاید نہ آئے

*

کبھی ایسا بھی دن نکلے کہ جب سورج کے ہمراہ

کوئی صاحب نظر آئے مگر شاید نہ آئے

*

سبھی کو سہل نگاری ہنر لگنے لگی ہے

سروں پر اب غبار ِ راہگزر شاید نہ آئے

٭٭٭

۱۷

پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے

پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے

تو جو آئے تو مرے گھر میں خدا بھی آئے

*

اس قدر زخم لگائے ہیں زمانے نے کہ بس

اب کے شائد ترے کوچے کی ہوا بھی آئے

*

یہ بھی ہے کوچہ جاناں کی روایت کہ یہاں

لب پہ شکوہ اگر آئے تو دعا بھی آئے

*

میں نے سو طرح جسے دل میں چھپائے رکھا

لوگ وہ زخم زمانے کو دکھا بھی آئے

*

کیا قیامت ہے جو سورج اتر آیا ہے

میری آنکھوں میں در آئے تو مزہ بھی آئے

*

پچھلے موسم تو بڑا قحط رہا خوابوں کا

اب کے شائد کوئی احساس نیا بھی آئے

٭٭٭

۱۸

ابو الہول کے بیٹے

چھوٹے چھوٹے فرعونوں کا ایک لشکر اور ایک اکیلا میں

مرے ہاتھ عصا سے خالی

ہاتھ عصا سے خالی ہوں تو ہستی دوبھر ہو جاتی ہے

ہوا مخالف ہو جائے تو لہر سمندر ہو جاتی ہے

موت مقدر ہو جاتی ہے

چھوٹے چھوٹے فرعونوں کا اک لشکر اور اکیلا میں

مرے ہاتھ عصا سے خالی

٭٭٭

۱۹

جھوٹ

ہمارے اس جہان میں

سنا ہے ایسے لوگ ہیں کہ جن کی زندگی کے دن

کھلے ہوئے گلاب ہیں

سجے ہوئے چراغ ہیں

گلاب جن کی نکہتوں کے قافلے رواں دواں

چراغ ! چار سو بکھیرتے ہوئے تجلیاں

سنا ہے ایسے لوگ ہیں ہمارے اس جہان میں

خدا کرے کہ ہوں مگر

نہ جانے کیوں مجھے یہ لگ رہا ہے جیسے جھوٹ ہے

٭٭٭

۲۰