کاسۂ شام
0%
مؤلف: افتخار عارف
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 61
مؤلف: افتخار عارف
زمرہ جات:
مشاہدے: 32936
ڈاؤنلوڈ: 1964
تبصرے:
- وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
- آخری آدمی کا رجز
- ایک رخ
- خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم
- بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے
- پتہ نہیں کیوں
- دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے
- سرگوشی
- سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
- رنگ تھا روشنی تھا قامت تھا
- ہوائیں ان پڑھ ہیں
- دعا
- کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے
- پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے
- ابو الہول کے بیٹے
- جھوٹ
- استغاثہ
- ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
- ان وعدہ اللہ حق
- صحرا میں ایک شام
- ھل من ناصراً ینصرنا
- خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
- اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر
- جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے
- ایک پل کا فاصلہ
- التجا
- دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی
- یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا
- یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے
- امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
- جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں
- میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو
- انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے
- قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے
- فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں
- جہاں بھی رہنا ہمیں یہی اک خیال رکھنا
- اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے
- کھوئے ہوئے ایک موسم کی یاد میں
- اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا
- کوچ
- ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا
- ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں
- یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں
- دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
- مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا
- ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا
- روش میں گردش ساارگاں سے اچھی ہے
- شہر بے مہر سے پما ن وفا کا باندھیں
- محبت کی ایک نظم
- جو فضل سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہںا
- تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
- سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
- ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف
- شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے