کاسۂ شام

کاسۂ شام0%

کاسۂ شام مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 61

کاسۂ شام

مؤلف: افتخار عارف
زمرہ جات:

صفحے: 61
مشاہدے: 32982
ڈاؤنلوڈ: 1979

تبصرے:

کاسۂ شام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32982 / ڈاؤنلوڈ: 1979
سائز سائز سائز
کاسۂ شام

کاسۂ شام

مؤلف:
اردو

استغاثہ

تو کیا کوئی معجزہ نہ ہوگا

ہمارے سب خواب وقت کی بے لائظ آندھی میں جل بجھیں گے

دو نیم دریا و چاہِ تاریک و آتش َ سرد و جاں نوازی کے سلسے ختم ہو گئے کیا

تو کیا کوئی معجزہ نہ ہوگا؟

خدائے زندہ! یہ تیری سجدہ گزار بستی کے سب مکینوں کی التجا ہے

کوئی ایسی سبیل نکلے کے تجھ سے منسوب گل زمینوں کی عظمتیں پھر سے لوٹ آئیں

وہ عفو کی، درگزر کی، مہر و وفا کی روایتیں پھر سے لوٹ آئیں

وہ چاہتیں وہ رفاقتیں وہ محبتیں پھر سے لوٹ آئیں

٭٭٭

۲۱

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں

*

وہ جس کے نام کی نسبت سے روشن تھا وجود

کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں

*

جنھیں متاع ِ دل و جان سمجھ رہے تھے ہم

وہ آئیے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں

*

عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے

وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں

*

مرے غزال تری وحشتوں کی خیر کہ ہے

بہت دنوں سے بہت اضطراب آنکھوں میں

*

نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے

یہ الجھنیں تری بے انتساب آنکھوں میں

*

جواز کیا ہے مرے کم سخن بتا تو سہی

بنام خوش نگہی ہر جواب آنکھوں میں

٭٭٭

۲۲

ان وعدہ اللہ حق

سچے لوگ ہمشہ سے کہتے آئے ہیں

سب تعریفیں اس کے لیے ہیں جو فساخ عزائم ہے

اور جو کشاف ارادہ ہے

مرے حضور سے مرے خدا کا وعدہ ہے

خیر کے گھر میں جتنے دروازے کھلتے ہیں

ان میں ایک توبہ کا دروازہ ہے

اشک ندامت اپنی جگہ پر آپ بڑا

خمیازہ ہے

مرے حضور سے میرے خدا کا وعدہ ہے

٭٭٭

۲۳

صحرا میں ایک شام

دشت ِ بے نخیل میں

باد بے لانظ نے

ایسی خاک اڑائی ہے

کچھ بھی سوجھتا نہیں

*

حوصلوں کا سائبان

راستوں کے درمیان

کس طرح اجڑ گیا

کون کب بچھڑ گیا

کوئی پوچھتا نہیں

*

فصل اعتبار میں

آتش غبار سے

خیمہ دعا جلا

دامن وفا جلا

کس بری طرح جلا

پھر بھی زندگی کا ساتھ ہے کہ چھوٹتا نہیں

کچھ بھی سوجھتا نہیں

کوئی پوچھتا نہیں

اور زندگی کا ساتھ ہے کہ چھوٹتا نہیں

٭٭٭

۲۴

ھل من ناصراً ینصرنا

یہ زمینوں آسمانوں کے عذاب اور میں اکیلا آدمی

میں اکیلا آدمی کب تک لڑوں

سارے دشمن در پئے آزار، لشکر صف بہ صف

لشکروں کے سب کمانداروں کے رخ میری طرف

اور میں نہتا آدمی

میں نہتا آدمی کب تک لڑوں

میں اکیلا آدمی کیسے لڑوں

٭٭٭

۲۵

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

*

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

*

ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشاں ت ک نہ بتائے

ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

*

کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ جائے

ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

*

وہی پیماں جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت

اُسی پیماں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے

٭٭٭

۲۶

اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر

اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر

ڈوب چلا ہے آفتاب، شام بخیر، شب بخیر

*

ایسا نہ ہو کہ دن ڈھلے روح کا زخم کھل اٹھے

کیسے کہوں مرے گلاب، شام بخیر شب بخیر

*

تیرہ شبی کی وحشتیں اب کوئی دن کی بات ہے

خلوت جاں کے ماہتاب شام بخیر شب بخیر

*

میں بھی وفا سرشت ہوں پاس وفا تجھے بھی ہے

دونوں کھلی ہوئی کتاب ، شام بخیر شب بخیر

*

موسم ابر و باد سے اب جو ڈریں تو کس لیے

کھل کے برس چکا سحاب، شام بخیر شب بخیر

*

میری نظر ، میرا شعور، میری غزل میرا جنوں

سب کا تجھی سے انتساب، شام بخیر، شب بخیر

٭٭٭

۲۷

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے

آنکھ جھپکی تھی کہ وہ عشز نشیں خاک میں تھے

*

جس پہ اب تہمت ِ شب رنگ کے آوازے ہیں

کتنے سورج تھے کہ دامنِ صد چاک میں تھے

*

جانے کس وادی بے ابر کی قمست ٹھہرے

ہائے وہ لوگ جو اس موسم سفاک میں تھے

*

جن سے دلداری جاناں کے قرینے یاد آئیں

ایسے تیور بھی مرے لہجہ بے باک میں تھے

*

زرد پتوں کی طرح خواب اڑتے پھرتے تھے

پھر بھی کچھ رنگ میرے دیدہ نمناک میں تھے

*

شہر ِ بے رنگ ترے لوگ گواہی دے گے

ہم سے خوش رنگ بھی تیرے خس و خاشاک میں تھے

٭٭٭

۲۸

ایک پل کا فاصلہ

ایک پل کا فاصلہ ہے

عشق اور آوارگی کے درمیاں بس ایک پل کا فاصلہ ہے

ایک پل کا فاصلہ ہے

شاخ گل پر شبنم وارفتہ کا پیہم نزول

حرف پیماں درمیان ِ جسم و جاں

منزل ِ دست ِ دعا بابِ قبول

ایک پل کا فاصلہ ہے

عشق اور آوارگی کے درمیاں بس ایک پل کا فاصلہ ہے

٭٭٭

۲۹

التجا

مرے شکاریو! امان چاہتا ہوں

بس اب سلامتی جاں کی حد تلک اڑان چاہتا ہوں

مرے شکاریو ! امان چاہتا ہوں

میں ایک بار پہلے بھی ہرے بھرے دنوں کی آرزو میں زیر دام آ چکا ہوں

مجھ کو بخش دو

میں اس سے پہلے بھی تو سایہ شجر کی جستجو میں اتنے زخم کھا چکا ہوں

مجھ کو بخش دو

مرے شکاریو۔۔۔۔ امان چاہتا ہوں میں

بس اب سلامتی جاں کی حد تلک اڑان چاہتا ہوں میں

بس ایک گھر زمین و آسمان کے درمیان چاہتا ہوں میں

مرے شکاریو امان چاہتا ہوں میں

٭٭٭

۳۰

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی

اور دامن قاتل کی ہوا اور طرح کی

*

دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر ہے کچھ اور

دیتی ہے خبر خلق ِ خدا اور طرح کی

*

کس دام اٹھائیں گے خریدار کہ اس بار

بازار میں ہے جنس ِ وفا اور طرح کی

*

بس اور کوئی دن کہ ذرا وقت ٹھہر جائے

صحراؤں سے آئے گی صدا اور طرح کی

*

ہم کوئے ملامت سے نکل آئے تو ہم کو

راس آئی نہ پھر آب و ہوا اور طرح کی

*

تعظیم کر اے جان معانی کے ترے پاس

ہم لائے ہیں سوغات ذرا اور طرح کی

٭٭٭

۳۱

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

میں جس میں رہ رہا تھا وہی گھر مرا نہ تھا

*

میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا

مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا

*

موج ہوائے شہر ِ مقدر جواب دے

دریا مرے نہ تھے کہ سمندر مرا نہ تھا

*

پھر بھی تو سنگسار کیا جا رہا ہوں میں

کہتے ہیں نام تک سر محضر مرا نہ تھا

*

سب لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ تھے

اک میں ہی تھا کہ کوئی بھی لشکر مرا نہ تھا

٭٭٭

۳۲

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے

یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

*

یہ تیرے میرے چراغوں کی ضد جہاں سے چلی

وہیں کہیں سے علاقہ ہوا کا لگتا ہے

*

دل ان کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ

یہ سلسہی بھی کچھ اہل ریا کا لگتا ہے

*

نئی گرہ نئے ناخن نئے مزاج کے قرض

مگر پیچ بہت ابتدا کا لگتا ہے

*

کہاں میں اور کہاں فیض نغمہ و آہنگ

کرشمہ سب در و بست ِ نوا کا لگتا ہے

٭٭٭

۳۳

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

*

بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا

اب اپنے حجرہ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں

*

تمام خانہ بدوشوں مین مشترک ہے یہ بات

سب اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

*

پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سر دست

بساط َ عافیت ِ جاں الٹ کے دیکھتے ہیں

*

وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا

اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں

*

سنا ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمت حرف

سو ہم بھی اب قد و قامت میں گھٹ کے دیکھتے ہیں

٭٭٭

۳۴

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں

تم نے پوچھا ہوتا تو بتلا سکتا تھا میں

*

آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ

آگے اور بہت آگے تک جا سکتا تھا میں

*

چھوٹی موٹی ایک لہر ہی تھی میرے اندر

ایک لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں

*

کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل

اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں

*

جیسے سب لکھتے رہتے ہیں غزلیں، نظمیں گیت

ویسے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا میں

٭٭٭

۳۵

میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو

میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو

اسی شکستہ و بستہ زباں میں ظاہر ہو

*

زمانہ دیکھے مرے حرف ِ باریاب کے رنگ

گل ِ مراد ِ ہنر دشت ِ جاں میں ظاہر ہو

*

میں سرخرو نظر آؤں ، کلام ہو کہ سکوت

تری عطا مرے نام و نشاں میں ظاہر ہو

*

مزہ تو جب ہے کہ اہل یقیں کا سر کمال

ملامت ِ سخنِ گمرہاں میں ظاہر ہو

*

گزشتگانِ محبت کا خواب گم گشتہ

عجب نہیں شب آئیندگاں میں ظاہر ہو

*

پس ِ حجاب ہے اک شہسوار ِ وادی نور

کسے خبر اسی عہد زیاں میں ظاہر ہو

٭٭٭

۳۶

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے

یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے

*

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھروں میں رہتے

*

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے

پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے

*

بس اک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں

وگرنہ صورت خاشاک دربدر رہتے

*

مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار

برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے

٭٭٭

۳۷

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

کہاں تک دل کی چنگاری ترے شعلے گئے تھے

*

فصیل شہر لب بستہ، گواہی دے کچھ لوگ

دہان ِ حلقہ زنجیر سے بولے گئے تھے

*

تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں گے

فضاؤں میں کچھ ایسے زہر بھی گھولے گئے تھے

*

فساد ِ خوں سے سارا بدن تھا زخم زخم

سو نشتر سے نہیں شمشیر سے کھولے گئے تھے

*

وہ خاک پاک ہم اہل محبت کو ہے اکسیر

سر مقتل جہاں نیزوں پہ سر تولے گئے تھے

٭٭٭

۳۸

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

وہ اہل ہجر کے آسیب اعتبار میں ہیں

*

زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج

نہ جانے کون سے موبر پہ کس مدار میں ہیں

*

پرانے درد ، پرانی محبتوں کے گلاب

جہاں بھی ہیں خس و خاشاک کے حصار میں ہیں

*

اڑائی تھی جو گروہ ِ ہوس نہاد نے دھول

تمام منزلیں اب تک اُسی غبار میں ہیں

*

نہ جانے کون سی آنکھیں وہ‌خواب دیکھیں گی

وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں

*

چراغ کون سے بجھنے ہیں کن کو رہنا ہے

یہ فیصلے ابھی اوروں کے اختیار میں ہیں

٭٭٭

۳۹

جہاں بھی رہنا ہمیں یہی اک خیال رکھنا

زمین فردا پہ سنگ ِ بنیاد ِ حال رکھنا

*

حضور ِ اہل کمال ِ فن سجدہ ریز رہنا

نگاہ میں طرہ کلاہ ِ کمال رکھنا

*

وہ جس نے بخشی ہے بے نواؤں کو نعمت حرف

وہی سکھا دے گا حرف کو بے مثال رکھنا

*

اندھیری راتوں میں گریہ بے سبب کی توفیق

میسر آئے تو غم کی دولت سنبھال رکھنا

٭٭٭

سورج تھے چراغ ِ کف جادہ میں نرن آئے

سورج تھے چراغ ِ کف جادہ میں نرن آئے

ہم آیسے سمندر تھے کہ دریا میں نظر آئے

*

دنیا تھی رگ و پے میں سمائی ہوئی ایسی

ضد تھی کہ سبھی کچھ اسی دنیا میں نظر آئے

*

سرمایہ جاں لوگ۔ متاع دو جہاں لوگ

دیکھا تو سبھی ایل تماشہ میں نظر آئے

*

خود دامن یوسف کی تمنا تھی کہ ہو چاک

اب کے وہ ہنر دست زلیخا میں نظر آئے

٭٭٭

۴۰