دستور المرکبات (اصول و قوانین ترکیب ادویہ)

دستور المرکبات (اصول و قوانین ترکیب ادویہ)0%

دستور المرکبات (اصول و قوانین ترکیب ادویہ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دستور المرکبات (اصول و قوانین ترکیب ادویہ)

مؤلف: اقبال احمد قاسمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 69670
ڈاؤنلوڈ: 4998

تبصرے:

دستور المرکبات (اصول و قوانین ترکیب ادویہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 120 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69670 / ڈاؤنلوڈ: 4998
سائز سائز سائز
دستور المرکبات (اصول و قوانین ترکیب ادویہ)

دستور المرکبات (اصول و قوانین ترکیب ادویہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

FORMULARY OF

UNANI MEDICINE

دستور المرکبات

(اصول و قوانین ترکیب ادویہ)

اقبال احمد قاسمی

(ایم۔ڈی۔ علم الادویہ، ایم۔ڈی۔ معالجات)

اجمل خان طِبِّیہ کالج، اے۔ایم۔یو۔ علی گڑھ

ماخذ:اردو کی برقی کتاب

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

انتساب

عالی جناب حکیم عبدالجلیل صاحب بجنوری

(فاضل طِب و جراحت)

قرول باغ، طِبِّیہ کالج، نئی دہلی

کے نام

جن کی طِبّی و معالجاتی خدمات نصف صدی پر محیط ہیں

تمہید

ابو الفضائل داؤد ابن البیان الاسرائیلی، متوفیٰ ۱۱۶۱ ھ، اپنے زمانے کا ایک مشہور اور ماہر طبیب و معالج تھا جو قاہرہ کے مشہورِ زمانہ اسپتال ’’شفا خانہ الناّصریہ‘‘ میں ۶ طبابت کرتا تھا۔ اُس نے اپنے معمولاتِ مطب کو’’ الدستور البیمارستانی فی الادویہ المرکبہ‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا تھا جسے قبولِ عام حاصل ہوا اورجوبرسہا برس تک اطِبّاء کا معمول رہا اور اس کے دور کے شفا خانوں میں اس کوسند کا درجہ ملا، اِسی مناسبت سے میں نے اپنی اِس تالیف کو ’’دستور المرکبات‘‘ کا عنوان دیا ہے۔

زیرِ نظر کتاب ’’دستور المرکبات‘‘ یونانی طِب کے انڈر گریجوئٹ اور پوسٹ گریجوئٹ کورسوں کے اُن طلباء کی فرمائش اور نصابی ضرورت کے پیشِ نظر مرتب کی گئی ہے جو ادویہ مرکّبہ کے تفصیلی مطالعہ اور قرابادینی مرکبات پرمبسوط معلومات حاصل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں ۔ علم الادویہ کے باب میں گو کہ مرکبات و قرابادین کا ایک وقیع ذخیرہ کتب خانوں میں موجود ہے لیکن اکثر کتبِ مراجع عربی و فارسی زبانوں میں ہونے کی وجہ سے براہِ راست طلباء کے مطالعہ میں نہیں آ پاتیں ۔ایک عرصہ سے اِس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ ادویہ مرکبّہ کے موضوع پر ایک مبسوط کتاب ترتیب دی جائے جو جدید تقاضوں کے مطابق طلباء کے ساتھ ساتھ یونانی ادویہ سے علاج و معالجہ کرنے والے افراد کے لئے بھی مفید ثابت ہو۔قابلِ ذِکر ہے کہ اجمل خان طبیہ کالج میں ۱۹۴۰ ء تک طِب کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد کافی کم تھی۔ بعض جماعتوں میں دس۔پندرہ سے زائد طلباء ہوتے تھے ۔ البتہ ۱۹۴۰ ء کے بعد طِبیّ تعلیم کا رجحان رفتہ رفتہ بڑھنے لگا اور اساتذہ و طلباء کے اشتراک سے یہاں ایک علمی فضا قائم ہونے لگی۔ اُس دور میں یونانی طِبی مضامین کی تعلیم و تدریس عربی و فارسی کتابوں سے براہِ راست ہوا کرتی تھی ۔ علاوہ ازیں بعض مضامین کو اساتذہ بطورِ امالی طلباء کو لکھوا دیا کرتے تھے ؛علم المرکبات میں امراض کی مناسبت سے نسخوں کی ترتیب و تدوین اور مناسبِ مرض ادویاتی نسخوں کا انضباط قانونِ شیخ، شرح اسباب اور نفیسی وغیرہ کتب کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا تھا۔ ۴۹ ۔ ۱۹۴۸ ء کے دوران حکیم صوفی احمد علی قادیانی عربی و فارسی طِبّی کتب کی وساطت سے مرکبات کا درس دیتے تھے ۔ شفا الملک حکیم عبد اللّطیف فلیفص علم المرکبات کی تدریس کے دوران اپنے معمولاتِ مطب کے ساتھ ساتھ قرابادینِ قانون، قرابادینِ اعظم ، علاج الامراض اور شرح اسباب وغیرہ کتب کی روشنی میں بھی طلباء کو مستفید کیا کرتے تھے۔راقم الحروف کے اساتذہ میں سے حکیم عبد القوی صاحب اور حکیم محمد رفیق الدین صاحب کا بھی درس بطور امالی ہی ہوا کرتا تھا۔

بی۔یو۔ایم۔ایس۔ اور ایم۔ڈی۔ (یونانی) کورسوں میں مرکبات کا نصاب جن ادویہ پر محیط ہے،اِس کتاب میں اُنہی ابواب و موضوعات کو ترتیب کے دوران ملحوظ رکھا گیا ہے ۔نیز علمِ مرکبات کے مطالعہ میں معاون ہونے والے دواسازی کے اہم نکات کو بھی حسبِ ضرورت ابواب کتاب میں شامل کر کے طلباء کی معلومات کو وسیع تر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔امید ہے کہ’’ دستورالمرکبات‘‘ ادویۂ مرکبہ کے نصابی اور خارجی مطالعہ میں کافی معاون ثابت ہوگی اور طلباء و معلِّمین کواِس موضوع سے متعلق وافر مواد فراہم کرے گی۔ اِس کتاب کو مزید مفید بنانے کے لئے اہلِ فن کی وقیع رائے اور بر محل مشوروں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔

عرصۂ دراز سے امراض نسواں کے تعلق سے دو قرابادینی مرکبات طلباء کے زیرِ درس چلے آرہے تھے جن میں ایک کا نام ’’دوا جھاڑ‘‘ اور دوسرے کا نام ’’دواء سمیٹ‘‘تھا۔ راقم الحروف نے اِن دونوں ہندی ناموں کو نیا مترادف عربی نام’ حَمول منقّی رحم‘ (دواء جھاڑ) اور’ حَمول مضیقِّ رحم/مکیّف رحم ‘(دواء سمیٹ) تجویز کرنے کی جسارت کی ہے، اِس یقین پر کہ یہ دونوں نام بہتر فنّی مفہوم ادا کر سکں گے۔

ترکیب ادویہ کی ضرورت اور اُس کے اصول و قوانین

ادویۂ مفردہ کو مرکب کرنے کی ضرورت بالفعل تین اسباب کی بناء پر پیش آتی ہے:

( ۱) کسی دوائے مفرد میں ایسی تمام قوتیں ’ نہ پائی جاتی ہوں جن سے مرض کا معالجہ ہو سکے۔

( ۲) دوسری صورت میں ترکیبِ ادویہ کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب کہ مطلوبہ قوتیں دوائے مفرد میں موجود تو ہیں لیکن اُن سے کم یا زیادہ مقدارِ قوت کی ضرورت ہو۔

( ۳) دوائے مفرد میں ایسی قوتیں موجود ہوں جن سے استفادہ مقصود نہیں ہے یا ایسی قوتیں ق بھی پائی جاتی ہیں جن کی ضرورت بالکل نہیں ہے۔

اِسی طرح مختلف اسباب کے اجتماع کے نتیجہ میں بھی ادویہ کو مرکب کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، جس کی مثال وہ امراض ہیں ہ جن کا سبب ایک سے زیادہ اخلاط ہوتے ہیں ۔ اِس بناء پر ضرورت اِس بات کی متقاضی و داعی ہوتی ہے کہ ایسی دواؤں کا مرکب تیار کرایا جائے جو ایک سے زائد اخلاط کا استفراغ کر سکے اور اِزالۂ مرض ممکن و آسان ہو سکے۔

اِسی طرح عضو کی وضع کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی ترکیب ادویہ کی ضرورت پیش آتی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ جب یہ اِرادہ ہو کہ جوہرِ قابض کو جسم کی گہرائی تک پہنچایا جائے تو مقامِ مرض کے دور ہونے کی وجہ سے اُس کے ساتھ ایسی دواء ملائی جاتی ہے جو مزاجاً و عملاً لطیف ہوتی ہے تاکہ جوہرِ قابض معاون ہو جائے ، چنانچہ ادویۂ مثانہ میں ذراریح اور ادویۂ قلبیہ میں بقدرے زعفران ملانا اِس قسم کی مثال ہے ۔ نیز مرہموں میں موم وغیرہ ملانے کا فلسفہ بھی یہی ہے۔

( کتاب الکلیات ابو الولید محمد بن رُشد)

قرابادین ( PHARMACOPOEIA )

تعارف

ترکیب ادویہ اور علم المرکبات کے حوالہ سے یونانیوں نے کئی اہم پیش رفت کیں اور اِس موضوع پر ریسرچ و تحقیق کی ایک اساس فراہم ہوگی۔ اِس نقطۂ نگاہ سے ’’قرابادین‘‘ ’’ Grabadiun ‘‘ کی ترتیب و تدوین اُن کا اہم علمی و فنّی کارنامہ ہے۔ اقربادین/قرابادین کا فنّی مفہوم ہے۔ ’’ایک ایسی جامع دستوری کتاب یا دستور جس میں ادویہ مفردہ کو مرکب کرنے کے مختلف اصول و ضوابط سے بحث کی گئی ہو اور اُس کے لئے واضح اصول و قوانین طے کئے گئے ہوں ۔‘‘

یونانیوں نے دواسازی کے تعلق سے اگرچہ بہت سی اشکال ادویہ کی ایجاد کی اور ایک زمانہ تک لوگ اُس سے فیض یاب ہوتے رہے لیکن عرب اطِبّاء نے فنِّ دواسازی اور ترکیب ادویہ کو مزید مستحکم بنایا اور قرابادینوں کی تشکیلِ جدید کی، چنانچہ عربی عہد میں بعض قرابادینوں کو سرکاری حیثیت حاصل ہوئی اور اُس دور کے تمام بیمارستانوں اور سرکاری شفا خانوں میں کسی نہ کسی ’’سرکاری طور پر‘‘ تسلیم شدہ قرابادین کی ہدایات اور اصول کے مطابق ہی مرکبات تیار کئے جاتے رہے۔ قرابادینوں کے ارتقائی مراحل کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اِس سلسلہ کی مستند ترین قرابادین یوحنّا بن ماسویہ الماردینی متوفی ۸۵۷ ء کی ہے جو نویں صدی عیسوی میں تحریر کی گئی۔ مرکبات کے حوالہ سے تصنیف کئے گئے مختلف قرابادینی ذخیروں اور قرابادینی تالیفات و تصنیفات میں چند وقیع قرابادینیں یہ ہیں : شاپور بن سہل (متوفیٰ ۸۶۹ ء) کی ’’کتاب الاقرباذین ‘‘،اسحق بن حنین (متوفیٰ ۹۱۱ ء) کی’’ کتاب الاقرباذین‘‘ ابو النّصر عطار اسرائیلی کی تصنیف ، منہاج الدکّان فی ترکیب الاعیان، سہلان ابن کیسان (متوفیٰ ۹۹۰ ء) کی’’ کتاب المختصر فی الادویۃ المرکبۃ فی اکثر الامراض‘‘، اِس سلسلہ میں اہم مصادر کی حیثیت رکھتی ہیں ۔اِس موضوع پر تصنیف کی جانے والی کتب میں ترتیب نُسُنح کو کئی اعتبار سے ملحوظ رکھا گیا ہے۔مثلاً امراض و علل کے ناموں اور اُن کے عنوانات کے لحاظ سے، اشکال ادویہ کے لحاظ سے، اعضاء انسانی کے مطابق امراض کی تقسیم کے لحاظ سے وغیرہ۔

چنانچہ مختلف عنوانات کے لحاظ سے جو قرابادینات و مصنَّفات ترتیب دئیے گئے ، اُن میں شامل بعض اہم عربی، فارسی و اُردو قرابادینیں درجِ ذیل ہیں ی :

عربی کتب :

( ۱) ابو بکر محمد بن زکریا رازی کی ’’الحاوی فی الطب‘‘ کی ایک جلد قرابادین پر مشتمل ہے۔

( ۲) نجیب الدین سمر قندی (متوفیٰ ۱۲۲۲ ئ) کی’’ کتاب الاقرباذین علی ترتیب العِلل‘‘۔

( ۳) قرابادین قانون: بیاض کبیر، انڈین فارماکوپیاجیسی اہم کتب شامل ہیں ح اور اِن کو سرکاری درجہ بھی حاصل ہے۔

فارسی کتب:

قرابادین کبیر محمد حسین خان

قرابادین بقائی حکیم بقا خان

قرابادین ذکائی حکیم ذکا اللہ خاں

قرابادین شفائی حکیم شفا خاں

قرابادین اکبری حکیم اکبر ارزانی

قرابادین اعظم حکیم محمد اعظم خاں

قرابادین قادری حکیم محمد اکبر ارزانی

قرابادین احسانی حکیم احسان اللہ خاں

اُردو کتب:

قرابادین نجم الغنی حکیم نجم الغنی

بیاض کبیر

انڈین فارماکوبیا

نیشنل فارمولری CCRUM

قرابادین حاذق حکیم محمد حسن میرٹھی

قرابادین کوکبی حکیم نیاز محمد خاں کوکب

قرابادینِ لُطفی حکیم عبد اللطیف

دواؤں کا قوام اور قوامی ادویہ

قوامی ادویہ سے مراد وہ دوائیں ہیں جو شکر، شہد، نبات سفید (مصری) قند سیاہ، راب، شکّر سرخ اور کھانڈ وغیرہ کے قوام میں شامل کر کے تیار کی جاتی ہیں ، مثلاً اطریفلات، جوارِشات، معاجین، لعوقات خمیرہ جات اور مربہ جات وغیرہ۔

معیاری قوام

معیاری قوام کی پہچان کا دار و مدار مشاہدہ اور تجربہ پر منحصر ہے۔ بعض دواؤں کا قوام نسبتاً گاڑھا /غلیظ اور بعض کا پتلا /رقیق تیار کیا جاتا ہے۔ مختلف ادویہ کے قوام کی خوبی و خامی کا انحصار اُس کی اپنی طبیعت، طریقۂ تیاری اور کس چیز سے قوام تیار کیا گیا ہے ، اُس پر ہوتا ہے، چنانچہ قوام کی غلظت و رِقّت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اُس کو کئی درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔

( ۱) اگر کوئی شربت بنانا ہو تو اُس کا قوام پہلے درجے کا یعنی نسبتاً رقیق تیار کیا جاتا ہے، شربت کے قوام کے پختہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے ایک یا دو قطرے علاحدہ کر کے انگلی سے اُٹھائے جائیں ۔ اگر اُس میں تار بن جائے تو یہ صحیح قوام ہے ۔ اِس کے علاوہ اِس کا ایک دو قطرہ زمین پر گرانے سے پھیلتا نہیں ہے بلکہ گولائی لئے ہوئے اُبھرا ہوا نظر آتا ہے، اِس صورتِ حال سے سمجھ لینا چاہیے کہ شربت کا قوام تیار ہو گیا ہے۔ اِس کے بعد برتن کو آگ سے اُتار لینا چاہیے ورنہ آناً فاناً قوام غلیظ ہو سکتا ہے۔

( ۲) معجون کا قوام ایسا ہونا چاہیے جو خشک ادویہ کے ملانے کے بعد نرم حلوے کی مانند ہو جائے۔

قوام کی تیاری میں ’’تار‘‘ کا مفہوم

قوام تیار کرتے وقت بالخصوص شکر یا قند سیاہ اور کھانڈ وغیرہ سے قوام تیار کرتے وقت ’’تار‘‘ کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔ تار کے عنوان سے قوام کی رِقّت و غِلظَت کا تعیّن کیا جاتا ہے چنانچہ ایک تار ، دو تار اور تین تار وغیرہ کی اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ ایک تار کا قوام نسبتاً نرم ہوگا ، دو تار کا قوام اُس سے زیادہ گاڑھا ہوگا اور تین تار کا قوام مزید گاڑھا اور سختی کا حامل ہوگا۔ اِس سلسلہ میں دوا ساز کے ہاتھ جس قدر مشّاق ہوں گے ۔ قوام اُسی قدر حسب منشاء تیار ہوگا۔

قوام کی تیاری میں درجۂ حرارت (آنچ) کی اہمیت

قوام کی تیاری کے مرحلہ میں آگ معتدل رکھنی چاہیے، خصوصاً ایسے وقت میں آگ کی آنچ کو مزید اعتدال پر لے ائیں ، جب قوام تیاری کے بالکل قریب ہو ، کیونکہ تیز آنچ سے قوام کے جل جانے اور خلاف منشا سخت اور غلیظ ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ جس وقت قوام تیار ہو جائے اُس وقت خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ اُس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ اِس سے قوام کے بگڑ جانے (فاسد ہو جانے) کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

قوام میں لعابیات کی شمولیت

اگر قوام میں بہہ دانہ ، عنّاب اور سپستاں جسی لعاب دار یا لیس دار ادویہ شامل کرنی ہوں جیسا کہ اکثر لعوقات یا بعض اشربہ میں بھی لیس دار ادویہ شامل ہوتی ہیں تو اُس سے قوام کی تیاری میں مشکل آتی ہے ۔ ایسی صورت میں قوام میں تار بننے کا عمل خاص طور پر دیکھا جاتا ہے اور قوام میں تار بننے کے بعد مزید کچھ دیر تک اُسے پکنے دیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اُس میں چپک پیدا ہو جائے۔ اِس کے برعکس اگر قوام میں شکر یا شہد شامل کرنا ہو تو اِس صورت میں حسبِ ضرورت پانی بھی ملایا جا سکتا ہے۔

قوامی مرکبات

وہ مرکبات جن کو قوام میں شامل کر کے محفوظ کیا جاتا ہے ، اُن میں خاص خاص مرکبات درج ذیل ہیں ۔ شربت، سکنجبین، لعوق، خمیرہ، معجون ، انوشدارو، جوارِش، اطریفل، لبوب، مربیّٰ، گلقند وغیرہ۔

میٹھی اجناس جن سے قوام تیار کیا جاتا ہے

ذیل میں اُن اشیاء و شیرینیوں کا بیان کیا جاتا ہے جن سے مختلف قوام تیار ہوتے ہیں ۔ اِس میں عام طور پر شہد، قند سیاہ، قند سفید، نبات سفید، بورہ، کھانڈ شکرِ سُرخ اور ترنجبین شامل ہیں ۔ قوام کی تیاری میں ایک کلو شکر یا نبات سفید کے قوام میں ایک تا ڈیڑھ گرام ۱-۱.۵ gm سوڈیم بینزویٹ ( Sodium Benzoate ) شامل کر دیا جائے تو اُس سے قوام کی افادیت اور مدت بقاء مزید بڑھ جاتی ہے۔

مختلف قواموں کی تیاری

( ۱) شہد کا قوام

شہد کا قوام بنانا ہو تو اُسے چھان لیں تاکہ وہ مکھیوں ، تنکوں اور دیگر آلائشوں سے پاک ہو جائے ۔ اس کے بعد عمل ارغاء کے ذریعہ اِس کا تصفیہ کر لیں یعنی کسی قلعی دار برتن میں ڈال کر آگ پر جوش دیں جب میلے کف (جھاگ) آنے لگیں تو کف گرفتہ کر لیں یعنی جھاگ کو کسی کرچھے کی مدد سے علاحدہ کر لیں اور اُس کے بعد آگ سے اُتار کر دیگر ادویہ شامل کر یں ۔

( ۲) قند سیاہ (گڑ) کا قوام

گڑ کے ٹکڑے کر کے بقدر ضرورت پانی میں ڈال کر آگ پر رکھیں جب وہ اچھی طرح حل ہو جائے تو اُس کو آگ سے اُتار کر چھان لیں اور کچھ دیر کے لئے رکھ چھوڑیں ۔ بعد ازاں اُس کو نتھار لیں ۔ یہاں تک کہ وہ خوب صاف ہو جائے ۔ اگر قند سیاہ کو مزید صاف کرنا مقصود ہو تو اثنائے جوش ، دودھ کا چھینٹا دیتے ر ہیں ۔ اِس کے بعد اِس کا قوام تیار کریں ۔

( ۳) شکر سُرخ کا قوام

شکر سُرخ کا قوام بھی قندسیاہ کی طرح تیار کیا جاتا ہے۔

( ۴) قند سفید کا قوام/شکر یا چینی کا قوام

اگر دانہ دار شکر کا قوام بنانا ہو تو اُس کو بقدرِ ضرورت لے کر پانی کے ہمراہ آگ پر رکھیں اور قوام تیار کریں ۔ قند سفید کو چھاننے کی ضرورت نہیں ۔ اِلّا ماشا اللّٰہ ۔

( ۵) مصری (نبات سفید) کا قوام

نبات سفید کو پانی میں حل کر لیں ، اُس کو بھی چھاننے کی ضرورت نہیں ، پھر کسی قلعی دار برتن میں پکائیں جو جھاگ نمودار ہوتا جائے اُس کو کف گرفتہ کرتے ر ہیں ، ۔ اگر شربت کا قوام ہے تو کسی قدر رقیق رکھیں اور اگر معجون کا ہے تو نسبتاً غلیظ کر لیں ۔

( ۶) کھانڈ کا قوام

کھانڈ سے مراد دیسی شکر ہے جو زیادہ صاف اور دانہ دار نہیں ں ہوتی، اِس کی رنگت سُرخ زردی مائل ہوتی ہے ، اُس کو پانی میں خوب اچھی طرح حل کر لیں تاکہ تنکوں وغیرہ سے اچھی طرح صاف ہو جائے ، پھر چند منٹ کے لئے اس محلول کو چھوڑ دیں تاکہ اُس کی اندرونی کثافتیں یعنی مِٹی و ریت وغیرہ تہہ نشین ہو جائیں ۔ اِس کے بعد اوپر سے نتھار کر کسی قلعی دار دیگچی میں پکائیں ، اُس میں سے اُٹھنے والے جھاگ کو کف گیر سے علاحدہ کرتے جائیں اور پھر قوام تیار کریں ۔

( ۷) بورہ کا قوام

کھانڈ کی مصفّٰی قسم کو بورہ کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی رنگت سفید ہوتی ہے۔ بورہ کو پانی میں حل کر کے چھاننے کی ضرورت نہیں بلکہ قلعی دار برتن میں آگ پر رکھ کر بدستور قوام تیار کریں ۔

( ۸) ترنجبین (شیر خشت) کا قوام

ترنجبین کا قوام بالعموم علاحدہ سے کم ہی تیار کیا جاتا ہے، بیشتر اِسے شکر یا شہد کے ساتھ ملا کر تیار کرتے ہیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ ترنجبین کو پہلے پانی میں حل کریں تاکہ تنکہ مٹی و آلائش صاف و تہہ نشین ہو جائے اِس کے بعد نتھرا ہوا محلول لے کر شہد یا شکر اِس میں شامل کر کے قوام تیار کریں اور مرکب میں ملائیں ۔