رضائے الٰہی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ اِبْتِغَاء مَرْضَاة اللّٰهِ وَاللّٰهُ رَ ءُ وْفٌ بِالْعِبَادْ
)
۔
ارشادِ حضرتِ احدیت ہے کہ دیکھو! انسانوں میں ایک ایسا بھی ہے جو اپنی جان کو رضائے پروردگار کی خاطر فروخت کردیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔
یہ آیت جس موقع سے تعلق رکھتی ہے، وہ تمام شرکائے مجلس کے ذہن میں ہوگا۔ اب یہ بیع یعنی فروخت کرنا کیا کسی لفظی معاہدہ کے ساتھ ہوا؟ کیا کسی موقعِ خاص پر انہوں نے یہ کہا کہ میں نے بیچا؟ اور اللہ نے پھر کہا کہ میں نے خریدا۔ کبھی اس طرح کی بات چیت نہیں ہوئی۔ تو آخر یہ جو خالق ارشاد فرمارہا ہے کہ انسانوں میں ایک ایسا ہے جو اپنے نفس کو بیچ دیتا ہے۔ تو یہ بیچنا کیا چیز ہے؟ یہ درحقیقت ان کے ایک عمل کی تعبیر ہے کہ انہوں نے جو ایک عمل انجام دیا، اُسے خالق نے نفس کا بیچنا کہا۔یعنی وہ عملی بیع تھی، کوئی لفظی بیع و شرا نہیں تھی۔ اس عملی بیع و شرا کی ابتداء اُس وقت ہوئی کہ جب مشرکین نے یہ فیصلہ کیا کہ اس رات کو پیغمبر خدا کی زندگی کا خاتمہ کردیں۔
اس کے بعد خالق کا یہ حکم ہوا کہ پیغمبر خدا شہر چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں۔ اسی کو ہجرت کہتے ہیں جو تاریخ اسلامی میں اتنی اہم بات سمجھی جاتی ہے کہ سال کا آغاز اسی نسبت سے ہوتا ہے۔ جب یہ واقعہ اتنا اہم ہے تو اس واقعہ میں جن شخصیات کا نمایاں کردار ہوا، اُسے بھی فطرتاً نہیں بھولنا چاہئے۔ یہ اور بات ہے کہ مصلحتاً بھول جائیں۔ ہجرت سے متعلق ایک غلط فہمی ہے اور وہ یہ ہے کہ رسولِ خدا کی جان لینے کا منصوبہ بنا تو حکمِ الٰہی یہ ہوا کہ آپ ہجرت کیجئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خطرئہ جان کی بناء پر رسولِ خدا کو چلے جانے کا حکم ہوگیا۔ یعنی ہجرت بربنائے خطرئہ جان ہوئی ہے۔ لہٰذا جو بھی کسی خطرہ سے اپنے مرکز سے ہٹے،وہ مہاجر ہوگیا۔ مگر اب اس کا ایک نتیجہ جو ہوتا ہے، اس پر بھی غور کرلیجئے کہ اگر کوئی خطرئہ جان کی بناء پر میدانِ جنگ سے ہٹے تو اس کو بھی مہاجر کہہ دیجئے۔
لیکن نہیں، ہر خطرئہ جان سے جگہ چھوڑنے والے کو مہاجر نہیں کہنا چاہئے۔ حقیقت میں نوعیت ہجرت کے سمجھنے میں غلطی ہے۔ صورتِ واقعہ یہ تھی کہ پیغامِ اسلام پھیلا تو یہ چرچا مدینہ تک پہنچا۔ مدینہ کے اصل باشندے تو اہلِ مکہ کے ہم مسلک تھے یعنی بت پرست تھے۔ وہاں آکر یہودی پناہ گزیں کی حیثیت سے مقیم ہوئے تھے اور سودکے کاروبار کے نتیجہ میں انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں جائیدادیں خرید لیں اور بڑی طاقت کے مالک بن گئے۔کبھی کبھی ان دونوں میں جھگڑا بھی ہوتا تھا۔ یہودی چونکہ ایک حد تک آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، اس لئے آخری رسول کے آنے کی خبریں دے کر دھمکایا کرتے تھے کہ تم اب تو چاہے جتنا ہمیں ستا لو، لیکن جب آخری رسول آئے گا تو پھر وہ ساری دنیا سے بت پرستی کا خاتمہ کردے گا اور تم یہاں سے نکلنے پر مجبور ہوجاؤ گے۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ہے۔
یہ یہود کے کردار کا تذکرہ ہے کہ پہلے یہ آئندہ فتح کی خوشخبری دیا کرتے تھے، اُن کافروں پر جو وہاں تھے لیکن جب وہ رسول آیا تو کافر مسلمان ہوگئے اور یہ سختی کے ساتھ کافر ہوگئے۔ تو یہودیوں کی زبان سے آخری رسول کی اطلاع اہلِ مدینہ تک پہنچتی رہتی تھی۔ باشندگانِ مدینہ کے دو قبیلوں اوس اور خزرج میں نزاع رہا کرتی تھی۔ جنگ ہونے والی تھی۔ ان میں سے ایک قبیلہ کے آدمی مکہ والوں سے مدد حاصل کرنے کیلئے مکہ آئے اور وہاں کے ایک بہت بڑے سردار کے پاس پہنچے۔ اُس نے یہ کہا کہ آجکل میں خود ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہوں، اس لئے تمہاری مدد سے مجبور ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مصیبت کیا ہے؟
اُس نے کہا کہ یہاں ایک آدمی نے رسالت کا دعویٰ کیا ہے اور وہ ہمارے خداؤں کو بُرا کہتا ہے۔ یہ بات سن کر وہ لوگ نا اُمید ہوئے۔ سوچا کہ اب مکہ آگئے ہیں تو کعبہ جاکر طواف کرلیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ تم کعبہ جاؤ۔کہنے لگے کہ اتنی دور سے آئے ہیں، جو اصل مقصد تھا، وہ بھی پورا نہیں ہوا اور ہم بغیر کعبہ کی زیارت کے چلے جائیں؟آخر کیوں منع کرتے ہو؟
انہوں نے کہا کہ کعبے کے پاس وہ آدمی ہوتا ہے ، وہاں وہ جو کہتا ہے کہ میرے اوپر اُترا ہے، اُسے پڑھا کرتا ہے۔ اُسے سننا خطرناک ہے ، لہٰذا ہماری رائے نہیں ہے کہ تم وہاں جاؤ۔ یعنی حق کی بات سننا ہمیشہ اہلِ باطل کو خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ جنہیں اپنے حق پر اعتماد ہوگا، وہ کبھی نہیں روکیں گے کہ وہاں نہ جاؤ۔ جنہیں احساس ہوگا اپنے عقائد کے کارخانہ شیشہ گری کا، وہ سنگ تحقیق سے ڈریں گے۔اس لئے انہیں اندیشہ ہوگا کہ کہیں اس میں ذوقِ تحقیق نہ پیدا ہو جائے۔
اُنہوں نے کہا:نہیں! ہم ضرور جائیں گے۔ وہ جو کچھ پڑھتا ہے، پڑھتا رہے، ہمیں کیا مطلب؟ جب یہ نہیں مانے تو انہوں نے کہا کہ جاؤ گے تو ہم ذرا انتظام کردیں۔ تو وہ روئی لائے اور بڑی کوشش کے بعد روئی اُن کے کانوں میں ٹھونسی۔ دبا دبا کر کانوں کو بند کیا اور کہا کہ اب جاؤ۔
اب میں کہتا ہوں کہ توفیقِ الٰہی ان کے شاملِ حال تھی اور پہلے سے کچھ نہ کچھ ذوقِ تحقیق ان کے ضمیر میں موجود تھا کہ یہاں سے تو وہ اس اہتمام کے ساتھ گئے لیکن راستے میں آپس میں ہر ایک نے کہا کہ یہ بہت بے عقلی کی بات ہے۔ یہ اس شہر کا نیا واقعہ ہے، اب اپنے شہر میں جائیں اور اس واقعہ کو نہ سنائیں۔ لہٰذا راستے میں انہوں نے وہ روئی کانوں سے نکالی۔ اب جو وہ کعبہ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت کلامِ الٰہی پڑھ رہے ہیں۔ اُسی وقت ایسا اثر ہوا کہ جو خطرہ ان کے ناصحین کو تھا، وہی ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اب یہ دو آدمی جب واپس ہوئے تو مبلّغِ اسلام ہوکر۔
ان کے اثر سے دوسرے لوگ متاثر ہوئے۔ کچھ نے قبول کیا، کچھ مشتاقِ تحقیق ہوئے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دوسری مرتبہ وہاں سے سات آدمی آئے۔ یہ سات آدمی پیغمبر اسلام کی خدمت میں شرفیاب ہو کر گئے تو یہ ساتوں مبلغ ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ کے ہر گھر میں اسلام داخل ہوگیا۔یعنی ہر گھر کے ایک دو آدمی مسلمان ہوگئے۔ اتنی کثرت سے وہاں مسلمان ہوگئے کہ تیسری دفعہ وہاں سے ستّر آدمیوں کا وفد حضرتِ پیغمبر خدا کی خدمت میں آیا اور ان ستّر آدمیوں نے اسلام قبول کرلیااور اسی وقت حضور کو مدینہ کی دعوت دی کہ آپ مدینہ تشریف لائیے، ہم آپ کی مدد کیلئے ہر طرح تیار ہیں۔
یہ دور وہ تھا کہ جنابِ ابو طالب (ع)کاسایہ سر سے اُٹھ چکا تھااور یہی وقت پیغمبر خدا پر کٹھن تھا۔ متفقہ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابو طالب (ع) کی حیثیت آپ کے لئے قلعہ کی سی تھی۔ وہ قلعہ نہ رہا تو پھر ہر طرح کی اذیتیں اور تکالیف آپ کو پہنچائی جارہی تھیں۔
ان لوگوں کی پیشکش کا تذکرہ آپ نے اپنے خاندان کے افراد سے کیا کیونکہ جنابِ ابو طالب (ع) کے اثر کی وجہ سے جو لوگ بظاہر اسلام میں داخل نہیں بھی ہوئے تھے، وہ بھی پیغمبر خدا کے حامی و مدد گار تھے۔ عباس نے، جو حضرت کے چچا تھے، کہا کہ وہ لوگ آئیں تو مجھے بلا لینا، میں بھی اس گفتگو میں شریک ہوں گا۔
چنانچہ جب وہ لوگ دوبارہ آئے ، جواب لینے کیلئے، تو جنابِ عباس بھی موجود تھے۔ جنابِ عباس نے اپنی خاندانی فصاحت سے کام لیتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر دعوت دے رہے ہو تو پورے طور پر سمجھ لو ، میں تمہیں یہ بات سمجھا دوں کہ پورے عرب سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔ تمام عرب تمہارے دشمن ہوجائیں گے۔اگر پورے طور سے حمایت کرسکو تو لے جاؤ ورنہ جس طرح اب تک ہم نے حفاظت کی ہے، (انہوں نے ہم میں ابو طالب (ع)کو بھی داخل کرلیا کیونکہ کردار ایک شخص کا ہوتا اور وہ پورے قبیلہ کیلئے باعث فخر ہوجاتا ہے)۔
تو ہم نے جس طرح اب تک ساتھ دیا ہے، اسی طرح آئندہ بھی مقابلہ کرتے رہیں گے۔ مدینہ کے وفد میں اس بیان سے جوش و جذبہ کا اضافہ ہوا، انہوں نے کہا کہ ہم آخری قطرئہ خون تک بہانے کیلئے تیار ہیں ۔
اسی وقت ہجرت کا منصوبہ بن گیا مگر پیغمبر خدا(معاذاللہ) لیڈر نہیں تھے کہ قوم کو خطرہ میں چھوڑ جائیں اور خود نکل کر چلے جائیں۔اس لئے آپ نے اصحاب کو بھیجنا شروع کردیا۔ دس دس بیس بیس اصحاب کے قافلے جانے لگے۔ صورتِ واقعہ تاریخ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہجرت کے موقع تک چند آدمی رہ گئے تھے جو نہیں گئے تھے یا وہ جو بالکل مجبور تھے مثلاً کسی کے دائرئہ غلامی میں تھے اور ظلم کا شکنجہ اتنا سخت تھا کہ وہ جاہی نہیں سکتے تھے، جیسا کہ جنابِ بلال وغیرہ۔تو یہ رہ گئے اور باقی تمام اصحاب جا چکے تھے۔
اب مشرکین نے دیکھا کہ یہ سب تو وہاں چلے جارہے ہیں اور عنقریب یہ بھی چلے جائیں گے۔ اگر انہیں ذات سے عداوت ہوتی تو اطمینان کا سانس لیتے کہ جسے ہم پسند نہیں کرتے، وہ ہمارے درمیان سے جارہا ہے مگر انہیں ذات سے عداوت نہ تھی، پیغام سے عداوت تھی۔ لہٰذا انہوں نے طے کرلیا کہ انہیں ہم وہاں تک نہ پہنچنے دیں گے۔ ان کے پیغام کیلئے جو زمین ہموار ہے، وہاں تک یہ نہ پہنچنے پائیں۔ تو بس ایک جملہ اس غلط فہمی کے دُور کرنے کیلئے کافی ہے کہ منصوبہ ہجرت خطرئہ جان سے نہیں پیدا ہوا بلکہ خطرئہ جان منصوبہ ہجرت سے پیدا ہوا ۔
اب ہجرت کرکے جو جارہا ہے، وہ اپنی جان بچانے کیلئے نہیں جارہا ہے بلکہ خالق کے منصوبہ کو بچانے کیلئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال رہا ہے اور جو ان کے بستر پر سوئے گا، وہ اپنے چچا زاد بھائی کی جان بچانے کیلئے نہیں سویا ہے بلکہ مقصد خالق کی حفاظت کیلئے سویا ہے۔
انہوں نے منصوبہ بنایا، رات مقرر کردی گئی۔ اس کیلئے دارالندوة میں اجتماع ہوا۔ ہر شخص نے اپنی رائے پیش کی۔ کسی نے کہا کہ ایک آدمی کا قتل کردینا کونسا مشکل ہے، کوئی جاکر قتل کر دے۔ کسی نے کہا کہ نہیں! بنی ہاشم پھر انتقام لئے بغیر نہیں رہیں گے اور ایک مدت تک جنگ و جدل کا سلسلہ جاری رہے گا۔کسی نے کہاکہ قید کردو۔انہوں نے کہا کہ بنی ہاشم چھڑوا کر لے جائیں گے۔ آخر میں ایک جہاندیدہ، بظاہر بہت ہی سن رسیدہ تجربہ کار آدمی نے یہ بات کہی کہ کوئی ایک آدمی نہیں ، ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی چن لو، وہ سب جاکر اجتماعی طور پر اس کام کو انجام دیں تاکہ تمام قبیلوں پر خون تقسیم ہوجائے۔ پھر بنی ہاشم کس کس کا مقابلہ کریں گے۔ یعنی یہ چیز کہ نمائندے مل کر جمع ہوں تو جو کام کیا جائے، اُس کی ذمہ داری تقسیم ہوجائے۔ یہ شروع اُس وقت سے ہوا۔
رات معین ہوگئی۔ ان کے مقابلہ میں خالق نے منصوبہ بنایا اور میں نے جیسے یکساں الفاظ صرف کئے ہیں، بالکل وہی قرآن نے صرف کئے ہیں۔ انہوں نے ایک ترکیب کی اور ہم نے بھی ایک ترکیب کی۔ یعنی لطافت تو جبھی ہوتی ہے کہ اس طرح کام انجام دیا جائے کہ دوسرا سمجھے نہیں۔
تو خالق نے جو ترکیب کی، اس میں گویا انہیں بیوقوف بنانے کا پورا اہتمام کیا۔ خالق کی طرف کا پورا منصوبہ یہ کہ رسولِ خدا کو حکم ہوا کہ آپ تو چلے جائیے اور ایک خاص نام بتا دیا کہ اس شخص کو ، جس پر آپ کا گمان ہو سکے، بستر پر لٹا جائیے۔اور ہم ترکیب یہ بتارہے ہیں تو یہ بھی بتادیں کہ یہ آپ کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے۔ جو ہمارا مقصد ہے کہ آپ مدینہ پہنچ سکیں، وہ پورا ہوگا۔
یہ کام آپ انجام دیجئے۔ اب رسول نے بلایا اُسے، جس کیلئے کہا گیا تھا اور ارشاد فرمایا کہ حکمِ الٰہی یہ ہوا ہے کہ میں چلا جاؤں اور اس رات تم کو اپنے بستر پر لٹا جاؤں۔ تو انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ میرا کیا ہوگا؟ یہ پوچھا کہ حضور کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟
میں کہتا ہوں کہ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں کہ حضور کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟ اس لئے کہ اپنی جان کی قیمت پوچھنا ہے۔
نہ انہوں نے پوچھا کہ میرا کیا ہوگااور نہ رسول نے یہ بتایا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا! انہوں نے پوچھا کہ حضور کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟ جو پوچھا تھا، اُس کا جوا ب دے دیا کہ مجھ سے حفاظت کا وعدہ ہوا ہے یعنی خالق نے ذمہ داری لے لی ہے۔
بس اب یہ سننا تھا، دیکھئے علم نبوت اور علم امامت کو درمیان میں لائیں گے تو تاریخ کا کوئی واقعہ سمجھ میں نہیں آئے گا۔بس یہ سننا تھا کہ انہوں نے اپنا سر سجدئہ شکر میں رکھ دیا کہ خدا کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اپنے حبیب کا فدیہ بنایا۔
اسے جناب شاہ عبدالحق محدث دہلوی ”مدارج النبوة“ میں، جو فارسی زبان میں ہے، تحریر فرماتے ہیں کہ یہ پہلا سجدئہ شکر ہے جو روئے زمین پر ہوا۔ سجدئہ شکر جزوِ سنت ہے یعنی اب شریعت میں سجدئہ شکر کا وجود ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ قرآن کی آیت سے سجدئہ شکر نہیں بنا ہے، قرآنِ ناطق کے عمل سے بنا ہے۔
شکر کا سجدہ کیا کہ اللہ نے مجھے فدیہ قرار دیا۔ میں کہتا ہوں کہ یہی سجدئہ شکر جان کا بیچ دینا تھا۔ ان کا آج کا کردار شروع یہاں سے ہوا کہ جب سجدئہ شکر کیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اپنی جان بیچ دی۔ چنانچہ انہوں نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ عمل میں لاکر دکھایا۔
چاروں طرف سے محاصرہ کرلیا گیا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس محاصرہ سے پہلے پیغمبر خدا کو اپنے گھر سے برآمد ہونے پر مامور کردیتا۔جب محاصرہ مکمل ہو گیا تو حکم ہوا کہ اب آپ اس محاصرہ کے اندر سے چلے جائیے۔ یعنی رسول ان کے درمیان سے تشریف لے گئے تو اب دنیا دیکھے کہ خدا کو جب کسی کی حفاظت کرنا ہوتی ہے تو غیبت ہی سے کام لیتا ہے۔
ہر صاحب عقل سمجھ سکتا ہے کہ خدا کی قدرت کیلئے ایک گھڑی کی غیبت اور ایک ہزار برس کی غیبت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پیغمبر خدا ان کے محاصرہ کے مکمل ہونے کے بعد ان کے درمیان سے تشریف لے گئے اور انہوں نے نہیں دیکھا۔حضرت علی (ع)اسی وقت رسول کے بستر پر چادرِ رسول اوڑھ کر لیٹ گئے۔ عرب کے مکانوں کی نیچی نیچی دیواریں،وہ دیکھ رہے تھے کہ رسول ہیں اور نظر آتا تھا کہ واقعی ہیں۔
لہٰذا اطمینان سے گھیرے رہے۔اطمینان سے محاصرہ کئے رکھا۔اب ایک پہلو پر غور کیجئے کہ حکم ہوا تھا بستر پر لیٹنے کا۔ سونے کا حکم نہیں تھا اور عقلی طور پر حکم لیٹنے کا ہی ہوسکتا ہے، سونے کا نہیں ہوسکتا۔کام افعالِ اختیاری سے وابستہ ہوتے ہیں۔ لیٹ رہنا انسان کا ارادی فعل ہے۔ سو جانا انسان کا ارادہ فعل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ حکم ہوہی نہیں سکتا تھا کہ سوجاؤ۔یہی حکم ہوسکتا تھا کہ لیٹ رہو۔ارادی کام یہی تھا، اس کے بعد جاگنا اور سونا، یہ نفس کی کیفیت سے متعلق ہے۔ اگر نفس مضطرب ہے تو جاگتا رہے گا، اگر نفس مطمئن ہے تو سو جائے گا۔
ہر صاحب فہم غورکرے کہ علی (ع)،علی ہوتے ہوئے تو اتنے خطرہ میں نہ تھے جتنے رسول بن کر لیٹنے میں خطرہ تھا۔ہم نے دنیا میں بھیس بدلے ہوئے دیکھے ہیں، عموماً بھیس وہ بدلتے ہیں جو خطرہ سے دور ہوں، مثلاً مرد عورتوں کا لباس پہن کر خطرہ سے نکلا کرتے ہیں ۔ مگر یہ نیا بھیس بدلنا دیکھا کہ جس کے قتل کا منصوبہ ہو، اُس کے بستر پر لیٹا جائے اور اس کی چادر اوڑھی جائے۔
اب ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاؤں کہ خطرہ میں جو ذرا کمی تھی، اُس کو اللہ نے اپنی قدرت سے پورا کردیا۔ یعنی خطرہ کو بڑھا دیا کیونکہ متفق علیہ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں حلیے بھی لکھے ہوئے ہیں کہ پیغمبر خدا کا قدوقامت اور طرح کا تھا اور حضرت علی علیہ السلام کا قدوقامت اور طرح کا تھا۔ مگر عجیب بات ہے کہ وہ جو گھیرے ہوئے تھے، وہ کوئی اغیار تو نہیں تھے،اسی قبیلہ کے لوگ جن کے درمیان تریپن( ۵۳) برس وہ رہ چکا جو گیا ہے اور تئیس( ۲۳) برس یہ رہ چکا جو لیٹا ہے۔
شاعر کی زبان میں یوں کہوں کہ جو گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، وہ خوب اندازِ قد سے واقف ہیں مگر بیوقوف رات بھر سمجھتے رہے کہ رسول بستر پر ہیں اور اگر نہ سمجھتے تو اسی وقت تعاقب میں چلے کیوں نہ جاتے؟اسی وقت سمجھ لیتے تو خدا کا منصوبہ شکست کھاجاتا۔ مگر واقعہ یہی ہے کہ رات بھر نہیں سمجھے۔
اب کیوں نہیں سمجھے؟آجکل تو سائنس کی دنیا ہے، کسی بات کو بے سمجھے نہیں مانا جاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ رات بھر ڈھونڈنے نہیں گئے، صبح کو گئے ۔ جب چادر ہٹائی تب سمجھے کہ رسول نہیں ہیں، علی (ع) ہیں۔ تو آخر یہ رات بھر کیوں نہیں سمجھے؟ سائنس کی دنیا غور کرے یا جو میں کہوں، اُسے قبول کرے۔ میں کہتا ہوں کہ یا تو یہ بات ہے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ بستر پر لیٹو ۔ تو لیٹنا اُن(ع) کا کام تھا اور اللہ نے رات بھر کیلئے رسول بھی بنا دیا۔
قرآن مجید کہہ رہا ہے:
(
قُلْنَا یَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاهِیْم
)
۔
”ہما را قول ہوا کہ اے آگ! سرد ہوجا اور سلامتی رہے ابراہم (ع) پر“۔
کیا جتنی دیر میں مَیں نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا، اتنی دیر میں اُس نے یہ آیات پڑھیں؟ یہ تو جب ہوتا جب متکلم زبان و دہن سے بات کرتا ہوتا اور جب وہاں زبان و دہن سے کلام نہیں ہے، وہ جسم و جسمانیات سے بری ہے، یہ قول بھی لفظی نہیں ہے کہ یہ الفاظ اُس نے کہے جس میں اتنی دیر لگے، بلکہ یہ ایک اشارئہ قدرت اور اس کی لفظی تعبیر ہے۔
تو کیا اسی طرح کے ایک اشارہ میں وہ رات بھر کیلئے علی (ع)کو رسول نہیں بنا سکتا؟اور پھر قرآن کے ماننے والے کو میری اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے، نہ انکار کرنا چاہئے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کیلئے ایک دشمن کو عیسیٰ(ع) کی شکل دے دی جائے تو اپنے آخری رسول کی حفاظت کیلئے اگر ان کے نفس کو وہی صورت دے دی جائے تو اس میں حیرت کی کونسی بات ہے؟
یہ کوئی ایسی قابل انکار بات نہیں یا پھر میرے ذہن میں ایک بات آتی ہے ، سائنس والوں کی سمجھ میں آنے کی یہ بات بھی نہیں ہے، اگر یہ بات بھی نہیں ہے اور وہ بات بھی نہیں ہے تو پھر کیا بات ہے؟سب اندھے ہوگئے تھے؟ کیا کوئی پہچان نہیں رہا تھا جبکہ دونوں کے
قدو قامت سے خوب واقف!
تو یا تو وہ بات ہے جو میں نے کہی یا پھر رسول کی چادر کی کرامت ہے کہ جب رسول اوڑھیں تو ان کے جسم پر راست اور جب علی (ع) اوڑھیں تو اُن(ع) کے جسم پر راست او رجب پانچوں آجائیں تو وہ پانچوں کیلئے کافی۔میرا تصور یہ ہے کہ یہ چادر قدوقامت پر نہیں ناپی گئی تھی، یہ نورِ واحد پر بیونتی گئی تھی۔
بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جیسی گہری نیند ہجرت کی رات سویا، ویسی گہری نیند کبھی نہیں سویا۔ ہمارے لئے تو ان کا ارشاد آمنّاوصدّقنا کہنے کیلئے کافی ہے لیکن دنیا بر بنائے واقعہ اس پر غور کرے کہ عرب کے نیچے نیچے مکان، وہ دیکھ رہے تھے کہ سامنے ہیں اور آپس میں باتیں ہورہی تھیں۔ یہ بھی تاریخ میں ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ابھی حملہ کردو، داخل ہوجاؤ۔ کوئی کہتا ہے کہ نہیں، صبح تک انتظار کرو، جلدی کیا ہے؟ اب کوئی بھاگ کر تو نہیں جائیں گے؟ یہ سب چرچے آپس میں ہورہے ہیں، نیزے بھی لٹک رہے ہیں، تلواریں بھی چمک رہی ہیں اور یہ سب آپس میں باتیں بھی کررہے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی نفس غیر مطمئن ہوتا تو رات بھر یہ راز راز رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ بار بار چادر اُلٹ کر دیکھتا کہ آتو نہیں رہے! یہ رات بھر راز رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تو سو رہے تھے، انہیں تو مطلب ہی نہیں تھا کہ آرہے ہیں یا نہیں آرہے اور گہری نیند سو رہے تھے۔وہ سب آپس میں باتیں کیا کریں، یقینا ہمارے لئے خلافِ فطرت ہے یہ گہری نیند۔ ہمارے ہاں تو محلہ میں کھٹکا ہوجائے تو نیند اُڑ جائے، چہ جائیکہ اپنے گرد کھنچا ہوا تلواروں اور نیزوں کا حصار ہو اور اس میں گہری نیند آئے۔
دوسری بات یہ کہ جسے رات کو سونے کی عادت نہ ہو، اُسے کیونکر نیند آئے گی۔ ان(ع) کی رات تو محرابِ عبادت میں جاگ کر گزرتی تھی، تو یہ کبھی سوتے نہیں تھے۔آج کیونکر نیند آگئی۔اس لئے بھی خلافِ فطرت۔ اس کے علاوہ نفسیاتی طور پر جو کسی عبادت کا ذوق رکھتا ہو اور اُسے کسی وجہ سے بجا نہ لا سکے تو اسے قلق ہوجاتا ہے، اسے صدمہ ہوتا ہے، بے چینی ہوتی ہے۔ تو پھر ان کو کیوں ایسا اطمینان ہے؟
میں کہتا ہوں کہ یہ بے چینی اُسے ہوتی جس کی عبادت بر بنائے عادت ہوتی لیکن جس کی عادت بر بنائے احساسِ فرض ہو ؟ تو میں کہتا ہوں کہ گہری نیند سونے کا راز ہی یہی ہے یعنی یہ احساس کہ جس کی خاطر روز جاگتا تھا، اُسی کی خاطر آج سو رہا ہوں۔
تو حضورِ والا! یہی راز ہے ان کے گہری نیند سونے کا اور دوسرا راز میرے موضوعِ بیان سے متعلق ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نیند اُس کی اُڑے جو جان کو اپنی جان سمجھتا ہو اور جو جان کو فروخت کر چکا ہو، اُسے کیوں فکر ہو؟ میں کہتا ہوں کہ یہ ایک بہت ہی عام محاورہ ہے۔ جو شخص بہت ہی غافل نیند سوئے، اُسے کہتے ہیں گھوڑے بیچ کر سو رہا ہے۔تو جو گھوڑے بیچ کر سوئے، وہ تو گہری نیند سوئے گا اور جو جان بیچ کر سوئے___؟
دیکھئے اس وقت سجدئہ شکر کیا جب کہا گیا کہ بستر پر سوؤ۔ اب اللہ نے حفاظت کی اور ایک روایت کے مطابق جبرئیل (ع) و میکائیل (ع)بھیجے گئے کہ دیکھو، اس کی حفاظت کرو۔میں کہتا ہوں کہ کیا یہ فرشتے جو بھیجے ہیں، وہ اس لئے کہ ان کی جان کو گزند نہ پہنچے؟ انہوں نے تو جان دے دی۔ اب یہ جو اس نے فرشتوں کو بھیجا ہے، یہ اپنے کام سے بھیجا ہے کہ ابھی اس جان سے اُسے کچھ کام لینے ہیں تو اپنے مقصد کیلئے ان کی حفاظت کا بھی سامان کیا۔ لیکن وہ ہم ہیں جنہیں جان کے بچنے کی خوشی ہو۔ یہ تو شاید جب زندہ و سلامت بستر سے اٹھتے تو کچھ ملول ہوتے، صدمہ ہوتا کہ میں نے جان دی تھی اور وہ جیسے قبول نہیں ہوئی۔ میرا مقصد پورا نہ ہوا۔ذہنیتوں کے اختلاف سے اثر بدلتا ہے، کوئی اور ہوتا تو خوش ہوتا۔انہیں ممکن ہے کہ صدمہ ہوتا تو خالق نے یہ آیت اُتاری کہ:”(
مِنَ النَّاسِ
)
“
میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک یہ آیت اُتری ہو، ہو سکتا ہے کہ صدمہ رہا ہو۔ اس عالم الغیب نے ان(ع) کے نفس کی کیفیت دیکھ کر یہ آیت اُتاری:
(
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَه
ابْتِغَامَرْضَاتِ اللّٰهِ
)
”دیکھو! انسانوں میں ایک یہ بھی ہے جو ہماری مرضی کی خاطر اپنی جان کو فروخت کر دیتا ہے“۔
اس وقت یہ کہتا ہوں کہ قرآن کی یہ آیت دراصل جان کی رسید ہے کیونکہ بظاہر تو جان انہی کے جسم میں رہی۔ تو خالق نے یہ رسید قرآن میں اُتار دی کہ تم نے جان دی اور ہم نے پائی۔ اب ہمارے ہو کر زندہ رہو۔
اب اُن (ع)کی پوری زندگی آیت کی تفسیر ہے۔اب انہیں دوسروں کے عمل کو نہیں دیکھنا ہے۔ اُحد کا میدان ہے، ہوا کرے۔ جس کی جان اپنی ہو، وہ بچانے کی فکر کرے۔ جب یہ جانتے ہیں کہ میری جان میری نہیں ہے، کسی اور کی ہے ، خدا کی ملکیت اب ان کی امانت ہے اور امین افراد کیلئے امانت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب یہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا امانت دار سمجھ رہے ہیں کہ یہ میرے جسم میں میری جان اللہ کی امانت ہے۔تو جب تک امانت رہے، انسان کو فکر ہوتی ہے۔ کسی کو شب ہجرت کی فکر ہوتی، انہیں عمر بھر فکر ہے۔اس لئے بس ایک سجدئہ شکر مجھے صفحہ تاریخ پر ملا۔عمر بھر مجھے سجدئہ شکر نہیں ملا۔ یہ بڑا اہم دعویٰ میں نے کیا ہے کیونکہ روایات میں ڈھونڈنے سے غلط سے غلط بات مل جاتی ہے مگر بعض اوقات سچائی اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ جھوٹ کو قدم رکھنے کا موقع نہیں ملتا۔جس جس موقع پر دنیا سجدئہ شکر کرتی، ان کے ہاں مجھے نہیں ملتا۔
شب ہجرت حصار سے جب نکلے، تب سجدئہ شکر کرتے۔ کوئی ضعیف سے ضعیف روایت نہیں کہ سجدئہ شکر کیا ہو۔ بدر میں کیسا خطرناک موقع، ہزاروں کے مقابلہ میں تین سو تیرہ آدمی، بے سروسامانی ایسی کہ صرف تیرہ تلواریں۔ وہاں سے فاتحانہ شان سے واپس ہوئے تو گھر آکر سجدئہ شکر کیا ہوتا کہ ایسے خطرناک موقع سے زندہ واپس ہوا۔ مگر بدر کے اختتام پر سجدئہ شکر نہیں کیا۔
اُحد میں تنہا رہ گئے، سترزخم جسم پر آئے مگر زندہ و سلامت واپس آئے، پھر سجدئہ شکر کیا ہوتا۔ اتنا خطرناک موقع اور پھر بھی زندہ واپس ہوا، اس وقت سجدئہ شکر کرتے۔ارے! خود سجدئہ شکر نہ کرتے، سیدہ (ع) عالم سے کہتے کہ شکر کریں۔ مگر کوئی جھوٹی روایت بھی نہیں ملتی۔ نہ خود شکر کرتے ہیں نہ کسی اپنے سے کہتے ہیں کہ شکر کرو۔
خندق کا خطرناک موقع جہاں ایک سورما ایسا آیا جو ہزار کے مقابلے میں ایک تھا اور جنگ شروع ہونے سے پہلے لوگ سوچ میں پڑے ہوئے تھے کہ اس سے کون مقابلہ کر سکتا ہے؟ یہ اس کے مقابلے میں باوجودیکہ زخمی ہوئے، اس کی تلوار سر مبارک پر پڑی۔
ایک یہ سورما ہے جس کا وار علی علیہ السلام پر چل گیا اور اس نے زخمی کیا، اس سے ایک بڑی حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ علی (ع) جنگ میں کبھی قوتِ امامت سے نہیں لڑے، ورنہ کبھی زخمی ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ ہمیشہ انسانی قوت اور انسانی فن سے لڑے۔ کبھی قوتِ امامت سے نہیں لڑے اور وہ جو ہزار کے مقابلے میں ہو، جتنا کسی کا ہاتھ طاقتور ہوگا، اُتنی ہی اُس کی ضرب بھی طاقتور ہوگی۔ پھر بھی وہ تلوار جیسی بھی تھی، آپ(ع) فتح کرکے اور دشمن کو تہہ تیغ کرکے واپس ہوئے تو اب موقع تھا کہ سجدئہ شکر کرتے کہ اتنے بڑے غنیم کے مقابلہ میں فتح پائی ۔ لیکن کسی تاریخ میں، کسی موقعہ پر مجھ کو نظر نہیںآ تا کہ سجدئہ شکر کیا ہو۔ اگر کسی کی نظر سے گزرے تو مجھے بتا دے تاکہ میری معلومات میں اضافہ ہو اور میں اتنی قوت کے ساتھ پھر انکار نہ کروں۔
تو جناب! عمر بھی میں نہیں دیکھتا کہ کبھی سجدئہ شکر کیا ہو۔ خیبر سے واپس آکر، حنین سے واپس آکر، اور پھر پیرانہ سالی میں جمل سے واپس آکر، صفین سے واپس آکر، نہروان سے واپس آکر، کبھی نہیں کیا ، عمر بھر نہیں کیا سجدئہ شکر، بلکہ احساس ہے ایک بارِ امامت کا۔ جب فتح کرکے واپس آتے ہیں ، سجدئہ شکر نہیں کرتے کہ ابھی راستے میں ہوں، منزل ابھی دور ہے، لیکن ایک حملہ ہے جس میں روح سجدئہ شکر کرتی ہے، وہ کونسا؟ جب تلوار سر پر پڑی، تو اب کہا:
”فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَةِ
“۔ ”خدا ک ی قسم! میں کامیاب ہوگیا“۔
بخدا! اس جملہ میں وہی ہے جو الحمدللہ میں ہے۔ اس جملہ میں وہی ہے جو سجدئہ شکر میں ہے۔ اب سمجھے کہ وقت آگیا امانت کو مالک تک پہنچانے کا۔ اس کا سامان ہوگیا۔ سجدئہ شکر ان الفاظ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کیسی ضربت تھی یہ؟ اس محل پر ہزار کے مقابل کا جو سورما تھا، اس کی تلوار پڑی تھی، اسی محل پر یہ تلوار پڑی ہے، یہ تلوار کیسی قیامت خیز تھی کہ فاتح خیبر کا یہ عالم ہوگیا کہ بیٹوں سے کہتے ہیں کہ گھر لے کر چلو، مجھے گھر لے کر چلو۔ ان الفاظ میں کتنی بے بسی ہے۔
اربابِ عزا! لے چلنے کا ایک تصور تو یہ ہوتا ہے کہ سہارہ دے کر لے چلے،اس کے بعد یہ کہ بغلوں میں ہاتھ دے کر لے چلے لیکن صورت لے چلنے کی یہ بتائی ہے کہ ایک چادر لائی جاتی ہے، اس میں لٹایا جاتا ہے یعنی کسی کا جنازہ ایک دفعہ اُٹھا ہوگا، ان(ع) کا جنازہ دو دفعہ اُٹھا۔
اس چادر میں گھر لائے جاتے ہیں۔ خود محسوس کرلیا تھا کہ اب میں جانبر نہیں ہوسکتا، اسی لئے اپنے الفاظ میں سجدئہ شکر کیا تھا۔ جبھی تو شکرانہ ادا کیا کہ الحمدللہ ، میں کامیاب ہوا۔یہ علی علیہ السلام کا انتہائے سفر زندگی پر سجدئہ شکر ہے۔