معراج خطابت

معراج خطابت5%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69303 / ڈاؤنلوڈ: 7057
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نام کتاب: مجالس خطیب اعظم(حصہ اول)۔
مؤلف :  مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ خطیب۔
موضوع: مجالس،
مجموعہ مجالس خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری (طاب ثراہ خطیب)
کے کتاب کی مکمل تفصیل کے علاوہ مجالس عزاء کے مختلف کتب کی مکمل سیٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔


http://alhassanain.org/urdu/?com=book&view=category&id=۸۴

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

معراج خطابت

مصنف: مولانا عابد عسکری

رضائے الٰہی

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ اِبْتِغَاء مَرْضَاة اللّٰهِ وَاللّٰهُ رَ ءُ وْفٌ بِالْعِبَادْ ) ۔

ارشادِ حضرتِ احدیت ہے کہ دیکھو! انسانوں میں ایک ایسا بھی ہے جو اپنی جان کو رضائے پروردگار کی خاطر فروخت کردیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

یہ آیت جس موقع سے تعلق رکھتی ہے، وہ تمام شرکائے مجلس کے ذہن میں ہوگا۔ اب یہ بیع یعنی فروخت کرنا کیا کسی لفظی معاہدہ کے ساتھ ہوا؟ کیا کسی موقعِ خاص پر انہوں نے یہ کہا کہ میں نے بیچا؟ اور اللہ نے پھر کہا کہ میں نے خریدا۔ کبھی اس طرح کی بات چیت نہیں ہوئی۔ تو آخر یہ جو خالق ارشاد فرمارہا ہے کہ انسانوں میں ایک ایسا ہے جو اپنے نفس کو بیچ دیتا ہے۔ تو یہ بیچنا کیا چیز ہے؟ یہ درحقیقت ان کے ایک عمل کی تعبیر ہے کہ انہوں نے جو ایک عمل انجام دیا، اُسے خالق نے نفس کا بیچنا کہا۔یعنی وہ عملی بیع تھی، کوئی لفظی بیع و شرا نہیں تھی۔ اس عملی بیع و شرا کی ابتداء اُس وقت ہوئی کہ جب مشرکین نے یہ فیصلہ کیا کہ اس رات کو پیغمبر خدا کی زندگی کا خاتمہ کردیں۔

اس کے بعد خالق کا یہ حکم ہوا کہ پیغمبر خدا شہر چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں۔ اسی کو ہجرت کہتے ہیں جو تاریخ اسلامی میں اتنی اہم بات سمجھی جاتی ہے کہ سال کا آغاز اسی نسبت سے ہوتا ہے۔ جب یہ واقعہ اتنا اہم ہے تو اس واقعہ میں جن شخصیات کا نمایاں کردار ہوا، اُسے بھی فطرتاً نہیں بھولنا چاہئے۔ یہ اور بات ہے کہ مصلحتاً بھول جائیں۔ ہجرت سے متعلق ایک غلط فہمی ہے اور وہ یہ ہے کہ رسولِ خدا کی جان لینے کا منصوبہ بنا تو حکمِ الٰہی یہ ہوا کہ آپ ہجرت کیجئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خطرئہ جان کی بناء پر رسولِ خدا کو چلے جانے کا حکم ہوگیا۔ یعنی ہجرت بربنائے خطرئہ جان ہوئی ہے۔ لہٰذا جو بھی کسی خطرہ سے اپنے مرکز سے ہٹے،وہ مہاجر ہوگیا۔ مگر اب اس کا ایک نتیجہ جو ہوتا ہے، اس پر بھی غور کرلیجئے کہ اگر کوئی خطرئہ جان کی بناء پر میدانِ جنگ سے ہٹے تو اس کو بھی مہاجر کہہ دیجئے۔

لیکن نہیں، ہر خطرئہ جان سے جگہ چھوڑنے والے کو مہاجر نہیں کہنا چاہئے۔ حقیقت میں نوعیت ہجرت کے سمجھنے میں غلطی ہے۔ صورتِ واقعہ یہ تھی کہ پیغامِ اسلام پھیلا تو یہ چرچا مدینہ تک پہنچا۔ مدینہ کے اصل باشندے تو اہلِ مکہ کے ہم مسلک تھے یعنی بت پرست تھے۔ وہاں آکر یہودی پناہ گزیں کی حیثیت سے مقیم ہوئے تھے اور سودکے کاروبار کے نتیجہ میں انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں جائیدادیں خرید لیں اور بڑی طاقت کے مالک بن گئے۔کبھی کبھی ان دونوں میں جھگڑا بھی ہوتا تھا۔ یہودی چونکہ ایک حد تک آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، اس لئے آخری رسول کے آنے کی خبریں دے کر دھمکایا کرتے تھے کہ تم اب تو چاہے جتنا ہمیں ستا لو، لیکن جب آخری رسول آئے گا تو پھر وہ ساری دنیا سے بت پرستی کا خاتمہ کردے گا اور تم یہاں سے نکلنے پر مجبور ہوجاؤ گے۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ہے۔

یہ یہود کے کردار کا تذکرہ ہے کہ پہلے یہ آئندہ فتح کی خوشخبری دیا کرتے تھے، اُن کافروں پر جو وہاں تھے لیکن جب وہ رسول آیا تو کافر مسلمان ہوگئے اور یہ سختی کے ساتھ کافر ہوگئے۔ تو یہودیوں کی زبان سے آخری رسول کی اطلاع اہلِ مدینہ تک پہنچتی رہتی تھی۔ باشندگانِ مدینہ کے دو قبیلوں اوس اور خزرج میں نزاع رہا کرتی تھی۔ جنگ ہونے والی تھی۔ ان میں سے ایک قبیلہ کے آدمی مکہ والوں سے مدد حاصل کرنے کیلئے مکہ آئے اور وہاں کے ایک بہت بڑے سردار کے پاس پہنچے۔ اُس نے یہ کہا کہ آجکل میں خود ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہوں، اس لئے تمہاری مدد سے مجبور ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مصیبت کیا ہے؟

اُس نے کہا کہ یہاں ایک آدمی نے رسالت کا دعویٰ کیا ہے اور وہ ہمارے خداؤں کو بُرا کہتا ہے۔ یہ بات سن کر وہ لوگ نا اُمید ہوئے۔ سوچا کہ اب مکہ آگئے ہیں تو کعبہ جاکر طواف کرلیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ تم کعبہ جاؤ۔کہنے لگے کہ اتنی دور سے آئے ہیں، جو اصل مقصد تھا، وہ بھی پورا نہیں ہوا اور ہم بغیر کعبہ کی زیارت کے چلے جائیں؟آخر کیوں منع کرتے ہو؟

انہوں نے کہا کہ کعبے کے پاس وہ آدمی ہوتا ہے ، وہاں وہ جو کہتا ہے کہ میرے اوپر اُترا ہے، اُسے پڑھا کرتا ہے۔ اُسے سننا خطرناک ہے ، لہٰذا ہماری رائے نہیں ہے کہ تم وہاں جاؤ۔ یعنی حق کی بات سننا ہمیشہ اہلِ باطل کو خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ جنہیں اپنے حق پر اعتماد ہوگا، وہ کبھی نہیں روکیں گے کہ وہاں نہ جاؤ۔ جنہیں احساس ہوگا اپنے عقائد کے کارخانہ شیشہ گری کا، وہ سنگ تحقیق سے ڈریں گے۔اس لئے انہیں اندیشہ ہوگا کہ کہیں اس میں ذوقِ تحقیق نہ پیدا ہو جائے۔

اُنہوں نے کہا:نہیں! ہم ضرور جائیں گے۔ وہ جو کچھ پڑھتا ہے، پڑھتا رہے، ہمیں کیا مطلب؟ جب یہ نہیں مانے تو انہوں نے کہا کہ جاؤ گے تو ہم ذرا انتظام کردیں۔ تو وہ روئی لائے اور بڑی کوشش کے بعد روئی اُن کے کانوں میں ٹھونسی۔ دبا دبا کر کانوں کو بند کیا اور کہا کہ اب جاؤ۔

اب میں کہتا ہوں کہ توفیقِ الٰہی ان کے شاملِ حال تھی اور پہلے سے کچھ نہ کچھ ذوقِ تحقیق ان کے ضمیر میں موجود تھا کہ یہاں سے تو وہ اس اہتمام کے ساتھ گئے لیکن راستے میں آپس میں ہر ایک نے کہا کہ یہ بہت بے عقلی کی بات ہے۔ یہ اس شہر کا نیا واقعہ ہے، اب اپنے شہر میں جائیں اور اس واقعہ کو نہ سنائیں۔ لہٰذا راستے میں انہوں نے وہ روئی کانوں سے نکالی۔ اب جو وہ کعبہ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت کلامِ الٰہی پڑھ رہے ہیں۔ اُسی وقت ایسا اثر ہوا کہ جو خطرہ ان کے ناصحین کو تھا، وہی ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اب یہ دو آدمی جب واپس ہوئے تو مبلّغِ اسلام ہوکر۔

ان کے اثر سے دوسرے لوگ متاثر ہوئے۔ کچھ نے قبول کیا، کچھ مشتاقِ تحقیق ہوئے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دوسری مرتبہ وہاں سے سات آدمی آئے۔ یہ سات آدمی پیغمبر اسلام کی خدمت میں شرفیاب ہو کر گئے تو یہ ساتوں مبلغ ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ کے ہر گھر میں اسلام داخل ہوگیا۔یعنی ہر گھر کے ایک دو آدمی مسلمان ہوگئے۔ اتنی کثرت سے وہاں مسلمان ہوگئے کہ تیسری دفعہ وہاں سے ستّر آدمیوں کا وفد حضرتِ پیغمبر خدا کی خدمت میں آیا اور ان ستّر آدمیوں نے اسلام قبول کرلیااور اسی وقت حضور کو مدینہ کی دعوت دی کہ آپ مدینہ تشریف لائیے، ہم آپ کی مدد کیلئے ہر طرح تیار ہیں۔

یہ دور وہ تھا کہ جنابِ ابو طالب (ع)کاسایہ سر سے اُٹھ چکا تھااور یہی وقت پیغمبر خدا پر کٹھن تھا۔ متفقہ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابو طالب (ع) کی حیثیت آپ کے لئے قلعہ کی سی تھی۔ وہ قلعہ نہ رہا تو پھر ہر طرح کی اذیتیں اور تکالیف آپ کو پہنچائی جارہی تھیں۔

ان لوگوں کی پیشکش کا تذکرہ آپ نے اپنے خاندان کے افراد سے کیا کیونکہ جنابِ ابو طالب (ع) کے اثر کی وجہ سے جو لوگ بظاہر اسلام میں داخل نہیں بھی ہوئے تھے، وہ بھی پیغمبر خدا کے حامی و مدد گار تھے۔ عباس نے، جو حضرت کے چچا تھے، کہا کہ وہ لوگ آئیں تو مجھے بلا لینا، میں بھی اس گفتگو میں شریک ہوں گا۔

چنانچہ جب وہ لوگ دوبارہ آئے ، جواب لینے کیلئے، تو جنابِ عباس بھی موجود تھے۔ جنابِ عباس نے اپنی خاندانی فصاحت سے کام لیتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر دعوت دے رہے ہو تو پورے طور پر سمجھ لو ، میں تمہیں یہ بات سمجھا دوں کہ پورے عرب سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔ تمام عرب تمہارے دشمن ہوجائیں گے۔اگر پورے طور سے حمایت کرسکو تو لے جاؤ ورنہ جس طرح اب تک ہم نے حفاظت کی ہے، (انہوں نے ہم میں ابو طالب (ع)کو بھی داخل کرلیا کیونکہ کردار ایک شخص کا ہوتا اور وہ پورے قبیلہ کیلئے باعث فخر ہوجاتا ہے)۔

تو ہم نے جس طرح اب تک ساتھ دیا ہے، اسی طرح آئندہ بھی مقابلہ کرتے رہیں گے۔ مدینہ کے وفد میں اس بیان سے جوش و جذبہ کا اضافہ ہوا، انہوں نے کہا کہ ہم آخری قطرئہ خون تک بہانے کیلئے تیار ہیں ۔

اسی وقت ہجرت کا منصوبہ بن گیا مگر پیغمبر خدا(معاذاللہ) لیڈر نہیں تھے کہ قوم کو خطرہ میں چھوڑ جائیں اور خود نکل کر چلے جائیں۔اس لئے آپ نے اصحاب کو بھیجنا شروع کردیا۔ دس دس بیس بیس اصحاب کے قافلے جانے لگے۔ صورتِ واقعہ تاریخ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہجرت کے موقع تک چند آدمی رہ گئے تھے جو نہیں گئے تھے یا وہ جو بالکل مجبور تھے مثلاً کسی کے دائرئہ غلامی میں تھے اور ظلم کا شکنجہ اتنا سخت تھا کہ وہ جاہی نہیں سکتے تھے، جیسا کہ جنابِ بلال  وغیرہ۔تو یہ رہ گئے اور باقی تمام اصحاب جا چکے تھے۔

اب مشرکین نے دیکھا کہ یہ سب تو وہاں چلے جارہے ہیں اور عنقریب یہ بھی چلے جائیں گے۔ اگر انہیں ذات سے عداوت ہوتی تو اطمینان کا سانس لیتے کہ جسے ہم پسند نہیں کرتے، وہ ہمارے درمیان سے جارہا ہے مگر انہیں ذات سے عداوت نہ تھی، پیغام سے عداوت تھی۔ لہٰذا انہوں نے طے کرلیا کہ انہیں ہم وہاں تک نہ پہنچنے دیں گے۔ ان کے پیغام کیلئے جو زمین ہموار ہے، وہاں تک یہ نہ پہنچنے پائیں۔ تو بس ایک جملہ اس غلط فہمی کے دُور کرنے کیلئے کافی ہے کہ منصوبہ ہجرت خطرئہ جان سے نہیں پیدا ہوا بلکہ خطرئہ جان منصوبہ ہجرت سے پیدا ہوا ۔

اب ہجرت کرکے جو جارہا ہے، وہ اپنی جان بچانے کیلئے نہیں جارہا ہے بلکہ خالق کے منصوبہ کو بچانے کیلئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال رہا ہے اور جو ان کے بستر پر سوئے گا، وہ اپنے چچا زاد بھائی کی جان بچانے کیلئے نہیں سویا ہے بلکہ مقصد خالق کی حفاظت کیلئے سویا ہے۔

انہوں نے منصوبہ بنایا، رات مقرر کردی گئی۔ اس کیلئے دارالندوة میں اجتماع ہوا۔ ہر شخص نے اپنی رائے پیش کی۔ کسی نے کہا کہ ایک آدمی کا قتل کردینا کونسا مشکل ہے، کوئی جاکر قتل کر دے۔ کسی نے کہا کہ نہیں! بنی ہاشم پھر انتقام لئے بغیر نہیں رہیں گے اور ایک مدت تک جنگ و جدل کا سلسلہ جاری رہے گا۔کسی نے کہاکہ قید کردو۔انہوں نے کہا کہ بنی ہاشم چھڑوا کر لے جائیں گے۔ آخر میں ایک جہاندیدہ، بظاہر بہت ہی سن رسیدہ تجربہ کار آدمی نے یہ بات کہی کہ کوئی ایک آدمی نہیں ، ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی چن لو، وہ سب جاکر اجتماعی طور پر اس کام کو انجام دیں تاکہ تمام قبیلوں پر خون تقسیم ہوجائے۔ پھر بنی ہاشم کس کس کا مقابلہ کریں گے۔ یعنی یہ چیز کہ نمائندے مل کر جمع ہوں تو جو کام کیا جائے، اُس کی ذمہ داری تقسیم ہوجائے۔ یہ شروع اُس وقت سے ہوا۔

رات معین ہوگئی۔ ان کے مقابلہ میں خالق نے منصوبہ بنایا اور میں نے جیسے یکساں الفاظ صرف کئے ہیں، بالکل وہی قرآن نے صرف کئے ہیں۔ انہوں نے ایک ترکیب کی اور ہم نے بھی ایک ترکیب کی۔ یعنی لطافت تو جبھی ہوتی ہے کہ اس طرح کام انجام دیا جائے کہ دوسرا سمجھے نہیں۔

تو خالق نے جو ترکیب کی، اس میں گویا انہیں بیوقوف بنانے کا پورا اہتمام کیا۔ خالق کی طرف کا پورا منصوبہ یہ کہ رسولِ خدا کو حکم ہوا کہ آپ تو چلے جائیے اور ایک خاص نام بتا دیا کہ اس شخص کو ، جس پر آپ کا گمان ہو سکے، بستر پر لٹا جائیے۔اور ہم ترکیب یہ بتارہے ہیں تو یہ بھی بتادیں کہ یہ آپ کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے۔ جو ہمارا مقصد ہے کہ آپ مدینہ پہنچ سکیں، وہ پورا ہوگا۔

یہ کام آپ انجام دیجئے۔ اب رسول نے بلایا اُسے، جس کیلئے کہا گیا تھا اور ارشاد فرمایا کہ حکمِ الٰہی یہ ہوا ہے کہ میں چلا جاؤں اور اس رات تم کو اپنے بستر پر لٹا جاؤں۔ تو انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ میرا کیا ہوگا؟ یہ پوچھا کہ حضور کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟

میں کہتا ہوں کہ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں کہ حضور کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟ اس لئے کہ اپنی جان کی قیمت پوچھنا ہے۔

نہ انہوں نے پوچھا کہ میرا کیا ہوگااور نہ رسول نے یہ بتایا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا! انہوں نے پوچھا کہ حضور کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟ جو پوچھا تھا، اُس کا جوا ب دے دیا کہ مجھ سے حفاظت کا وعدہ ہوا ہے یعنی خالق نے ذمہ داری لے لی ہے۔

بس اب یہ سننا تھا، دیکھئے علم نبوت اور علم امامت کو درمیان میں لائیں گے تو تاریخ کا کوئی واقعہ سمجھ میں نہیں آئے گا۔بس یہ سننا تھا کہ انہوں نے اپنا سر سجدئہ شکر میں رکھ دیا کہ خدا کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اپنے حبیب کا فدیہ بنایا۔

اسے جناب شاہ عبدالحق محدث دہلوی ”مدارج النبوة“ میں، جو فارسی زبان میں ہے، تحریر فرماتے ہیں کہ یہ پہلا سجدئہ شکر ہے جو روئے زمین پر ہوا۔ سجدئہ شکر جزوِ سنت ہے یعنی اب شریعت میں سجدئہ شکر کا وجود ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ قرآن کی آیت سے سجدئہ شکر نہیں بنا ہے، قرآنِ ناطق کے عمل سے بنا ہے۔

شکر کا سجدہ کیا کہ اللہ نے مجھے فدیہ قرار دیا۔ میں کہتا ہوں کہ یہی سجدئہ شکر جان کا بیچ دینا تھا۔ ان کا آج کا کردار شروع یہاں سے ہوا کہ جب سجدئہ شکر کیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اپنی جان بیچ دی۔ چنانچہ انہوں نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ عمل میں لاکر دکھایا۔

چاروں طرف سے محاصرہ کرلیا گیا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس محاصرہ سے پہلے پیغمبر خدا کو اپنے گھر سے برآمد ہونے پر مامور کردیتا۔جب محاصرہ مکمل ہو گیا تو حکم ہوا کہ اب آپ اس محاصرہ کے اندر سے چلے جائیے۔ یعنی رسول ان کے درمیان سے تشریف لے گئے تو اب دنیا دیکھے کہ خدا کو جب کسی کی حفاظت کرنا ہوتی ہے تو غیبت ہی سے کام لیتا ہے۔

ہر صاحب عقل سمجھ سکتا ہے کہ خدا کی قدرت کیلئے ایک گھڑی کی غیبت اور ایک ہزار برس کی غیبت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پیغمبر خدا ان کے محاصرہ کے مکمل ہونے کے بعد ان کے درمیان سے تشریف لے گئے اور انہوں نے نہیں دیکھا۔حضرت علی (ع)اسی وقت رسول کے بستر پر چادرِ رسول اوڑھ کر لیٹ گئے۔ عرب کے مکانوں کی نیچی نیچی دیواریں،وہ دیکھ رہے تھے کہ رسول ہیں اور نظر آتا تھا کہ واقعی ہیں۔

لہٰذا اطمینان سے گھیرے رہے۔اطمینان سے محاصرہ کئے رکھا۔اب ایک پہلو پر غور کیجئے کہ حکم ہوا تھا بستر پر لیٹنے کا۔ سونے کا حکم نہیں تھا اور عقلی طور پر حکم لیٹنے کا ہی ہوسکتا ہے، سونے کا نہیں ہوسکتا۔کام افعالِ اختیاری سے وابستہ ہوتے ہیں۔ لیٹ رہنا انسان کا ارادی فعل ہے۔ سو جانا انسان کا ارادہ فعل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ حکم ہوہی نہیں سکتا تھا کہ سوجاؤ۔یہی حکم ہوسکتا تھا کہ لیٹ رہو۔ارادی کام یہی تھا، اس کے بعد جاگنا اور سونا، یہ نفس کی کیفیت سے متعلق ہے۔ اگر نفس مضطرب ہے تو جاگتا رہے گا، اگر نفس مطمئن ہے تو سو جائے گا۔

ہر صاحب فہم غورکرے کہ علی (ع)،علی ہوتے ہوئے تو اتنے خطرہ میں نہ تھے جتنے رسول بن کر لیٹنے میں خطرہ تھا۔ہم نے دنیا میں بھیس بدلے ہوئے دیکھے ہیں، عموماً بھیس وہ بدلتے ہیں جو خطرہ سے دور ہوں، مثلاً مرد عورتوں کا لباس پہن کر خطرہ سے نکلا کرتے ہیں ۔ مگر یہ نیا بھیس بدلنا دیکھا کہ جس کے قتل کا منصوبہ ہو، اُس کے بستر پر لیٹا جائے اور اس کی چادر اوڑھی جائے۔

اب ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاؤں کہ خطرہ میں جو ذرا کمی تھی، اُس کو اللہ نے اپنی قدرت سے پورا کردیا۔ یعنی خطرہ کو بڑھا دیا کیونکہ متفق علیہ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں حلیے بھی لکھے ہوئے ہیں کہ پیغمبر خدا کا قدوقامت اور طرح کا تھا اور حضرت علی علیہ السلام کا قدوقامت اور طرح کا تھا۔ مگر عجیب بات ہے کہ وہ جو گھیرے ہوئے تھے، وہ کوئی اغیار تو نہیں تھے،اسی قبیلہ کے لوگ جن کے درمیان تریپن( ۵۳) برس وہ رہ چکا جو گیا ہے اور تئیس( ۲۳) برس یہ رہ چکا جو لیٹا ہے۔

شاعر کی زبان میں یوں کہوں کہ جو گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، وہ خوب اندازِ قد سے واقف ہیں مگر بیوقوف رات بھر سمجھتے رہے کہ رسول بستر پر ہیں اور اگر نہ سمجھتے تو اسی وقت تعاقب میں چلے کیوں نہ جاتے؟اسی وقت سمجھ لیتے تو خدا کا منصوبہ شکست کھاجاتا۔ مگر واقعہ یہی ہے کہ رات بھر نہیں سمجھے۔

اب کیوں نہیں سمجھے؟آجکل تو سائنس کی دنیا ہے، کسی بات کو بے سمجھے نہیں مانا جاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ رات بھر ڈھونڈنے نہیں گئے، صبح کو گئے ۔ جب چادر ہٹائی تب سمجھے کہ رسول نہیں ہیں، علی (ع) ہیں۔ تو آخر یہ رات بھر کیوں نہیں سمجھے؟ سائنس کی دنیا غور کرے یا جو میں کہوں، اُسے قبول کرے۔ میں کہتا ہوں کہ یا تو یہ بات ہے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ بستر پر لیٹو ۔ تو لیٹنا اُن(ع) کا کام تھا اور اللہ نے رات بھر کیلئے رسول بھی بنا دیا۔

قرآن مجید کہہ رہا ہے:

( قُلْنَا یَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاهِیْم ) ۔

”ہما را قول ہوا کہ اے آگ! سرد ہوجا اور سلامتی رہے ابراہم (ع) پر“۔

کیا جتنی دیر میں مَیں نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا، اتنی دیر میں اُس نے یہ آیات پڑھیں؟ یہ تو جب ہوتا جب متکلم زبان و دہن سے بات کرتا ہوتا اور جب وہاں زبان و دہن سے کلام نہیں ہے، وہ جسم و جسمانیات سے بری ہے، یہ قول بھی لفظی نہیں ہے کہ یہ الفاظ اُس نے کہے جس میں اتنی دیر لگے، بلکہ یہ ایک اشارئہ قدرت اور اس کی لفظی تعبیر ہے۔

تو کیا اسی طرح کے ایک اشارہ میں وہ رات بھر کیلئے علی (ع)کو رسول نہیں بنا سکتا؟اور پھر قرآن کے ماننے والے کو میری اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے، نہ انکار کرنا چاہئے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کیلئے ایک دشمن کو عیسیٰ(ع) کی شکل دے دی جائے تو اپنے آخری رسول کی حفاظت کیلئے اگر ان کے نفس کو وہی صورت دے دی جائے تو اس میں حیرت کی کونسی بات ہے؟

یہ کوئی ایسی قابل انکار بات نہیں یا پھر میرے ذہن میں ایک بات آتی ہے ، سائنس والوں کی سمجھ میں آنے کی یہ بات بھی نہیں ہے، اگر یہ بات بھی نہیں ہے اور وہ بات بھی نہیں ہے تو پھر کیا بات ہے؟سب اندھے ہوگئے تھے؟ کیا کوئی پہچان نہیں رہا تھا جبکہ دونوں کے

قدو قامت سے خوب واقف!

تو یا تو وہ بات ہے جو میں نے کہی یا پھر رسول کی چادر کی کرامت ہے کہ جب رسول اوڑھیں تو ان کے جسم پر راست اور جب علی (ع) اوڑھیں تو اُن(ع) کے جسم پر راست او رجب پانچوں آجائیں تو وہ پانچوں کیلئے کافی۔میرا تصور یہ ہے کہ یہ چادر قدوقامت پر نہیں ناپی گئی تھی، یہ نورِ واحد پر بیونتی گئی تھی۔

بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جیسی گہری نیند ہجرت کی رات سویا، ویسی گہری نیند کبھی نہیں سویا۔ ہمارے لئے تو ان کا ارشاد آمنّاوصدّقنا کہنے کیلئے کافی ہے لیکن دنیا بر بنائے واقعہ اس پر غور کرے کہ عرب کے نیچے نیچے مکان، وہ دیکھ رہے تھے کہ سامنے ہیں اور آپس میں باتیں ہورہی تھیں۔ یہ بھی تاریخ میں ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ابھی حملہ کردو، داخل ہوجاؤ۔ کوئی کہتا ہے کہ نہیں، صبح تک انتظار کرو، جلدی کیا ہے؟ اب کوئی بھاگ کر تو نہیں جائیں گے؟ یہ سب چرچے آپس میں ہورہے ہیں، نیزے بھی لٹک رہے ہیں، تلواریں بھی چمک رہی ہیں اور یہ سب آپس میں باتیں بھی کررہے ہیں۔

میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی نفس غیر مطمئن ہوتا تو رات بھر یہ راز راز رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ بار بار چادر اُلٹ کر دیکھتا کہ آتو نہیں رہے! یہ رات بھر راز رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تو سو رہے تھے، انہیں تو مطلب ہی نہیں تھا کہ آرہے ہیں یا نہیں آرہے اور گہری نیند سو رہے تھے۔وہ سب آپس میں باتیں کیا کریں، یقینا ہمارے لئے خلافِ فطرت ہے یہ گہری نیند۔ ہمارے ہاں تو محلہ میں کھٹکا ہوجائے تو نیند اُڑ جائے، چہ جائیکہ اپنے گرد کھنچا ہوا تلواروں اور نیزوں کا حصار ہو اور اس میں گہری نیند آئے۔

دوسری بات یہ کہ جسے رات کو سونے کی عادت نہ ہو، اُسے کیونکر نیند آئے گی۔ ان(ع) کی رات تو محرابِ عبادت میں جاگ کر گزرتی تھی، تو یہ کبھی سوتے نہیں تھے۔آج کیونکر نیند آگئی۔اس لئے بھی خلافِ فطرت۔ اس کے علاوہ نفسیاتی طور پر جو کسی عبادت کا ذوق رکھتا ہو اور اُسے کسی وجہ سے بجا نہ لا سکے تو اسے قلق ہوجاتا ہے، اسے صدمہ ہوتا ہے، بے چینی ہوتی ہے۔ تو پھر ان کو کیوں ایسا اطمینان ہے؟

میں کہتا ہوں کہ یہ بے چینی اُسے ہوتی جس کی عبادت بر بنائے عادت ہوتی لیکن جس کی عادت بر بنائے احساسِ فرض ہو ؟ تو میں کہتا ہوں کہ گہری نیند سونے کا راز ہی یہی ہے یعنی یہ احساس کہ جس کی خاطر روز جاگتا تھا، اُسی کی خاطر آج سو رہا ہوں۔

تو حضورِ والا! یہی راز ہے ان کے گہری نیند سونے کا اور دوسرا راز میرے موضوعِ بیان سے متعلق ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نیند اُس کی اُڑے جو جان کو اپنی جان سمجھتا ہو اور جو جان کو فروخت کر چکا ہو، اُسے کیوں فکر ہو؟ میں کہتا ہوں کہ یہ ایک بہت ہی عام محاورہ ہے۔ جو شخص بہت ہی غافل نیند سوئے، اُسے کہتے ہیں گھوڑے بیچ کر سو رہا ہے۔تو جو گھوڑے بیچ کر سوئے، وہ تو گہری نیند سوئے گا اور جو جان بیچ کر سوئے___؟

دیکھئے اس وقت سجدئہ شکر کیا جب کہا گیا کہ بستر پر سوؤ۔ اب اللہ نے حفاظت کی اور ایک روایت کے مطابق جبرئیل (ع) و میکائیل (ع)بھیجے گئے کہ دیکھو، اس کی حفاظت کرو۔میں کہتا ہوں کہ کیا یہ فرشتے جو بھیجے ہیں، وہ اس لئے کہ ان کی جان کو گزند نہ پہنچے؟ انہوں نے تو جان دے دی۔ اب یہ جو اس نے فرشتوں کو بھیجا ہے، یہ اپنے کام سے بھیجا ہے کہ ابھی اس جان سے اُسے کچھ کام لینے ہیں تو اپنے مقصد کیلئے ان کی حفاظت کا بھی سامان کیا۔ لیکن وہ ہم ہیں جنہیں جان کے بچنے کی خوشی ہو۔ یہ تو شاید جب زندہ و سلامت بستر سے اٹھتے تو کچھ ملول ہوتے، صدمہ ہوتا کہ میں نے جان دی تھی اور وہ جیسے قبول نہیں ہوئی۔ میرا مقصد پورا نہ ہوا۔ذہنیتوں کے اختلاف سے اثر بدلتا ہے، کوئی اور ہوتا تو خوش ہوتا۔انہیں ممکن ہے کہ صدمہ ہوتا تو خالق نے یہ آیت اُتاری کہ:”( مِنَ النَّاسِ )

میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک یہ آیت اُتری ہو، ہو سکتا ہے کہ صدمہ رہا ہو۔ اس عالم الغیب نے ان(ع) کے نفس کی کیفیت دیکھ کر یہ آیت اُتاری:

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَه ابْتِغَامَرْضَاتِ اللّٰهِ )

”دیکھو! انسانوں میں ایک یہ بھی ہے جو ہماری مرضی کی خاطر اپنی جان کو فروخت کر دیتا ہے“۔

اس وقت یہ کہتا ہوں کہ قرآن کی یہ آیت دراصل جان کی رسید ہے کیونکہ بظاہر تو جان انہی کے جسم میں رہی۔ تو خالق نے یہ رسید قرآن میں اُتار دی کہ تم نے جان دی اور ہم نے پائی۔ اب ہمارے ہو کر زندہ رہو۔

اب اُن (ع)کی پوری زندگی آیت کی تفسیر ہے۔اب انہیں دوسروں کے عمل کو نہیں دیکھنا ہے۔ اُحد کا میدان ہے، ہوا کرے۔ جس کی جان اپنی ہو، وہ بچانے کی فکر کرے۔ جب یہ جانتے ہیں کہ میری جان میری نہیں ہے، کسی اور کی ہے ، خدا کی ملکیت اب ان کی امانت ہے اور امین افراد کیلئے امانت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب یہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا امانت دار سمجھ رہے ہیں کہ یہ میرے جسم میں میری جان اللہ کی امانت ہے۔تو جب تک امانت رہے، انسان کو فکر ہوتی ہے۔ کسی کو شب ہجرت کی فکر ہوتی، انہیں عمر بھر فکر ہے۔اس لئے بس ایک سجدئہ شکر مجھے صفحہ تاریخ پر ملا۔عمر بھر مجھے سجدئہ شکر نہیں ملا۔ یہ بڑا اہم دعویٰ میں نے کیا ہے کیونکہ روایات میں ڈھونڈنے سے غلط سے غلط بات مل جاتی ہے مگر بعض اوقات سچائی اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ جھوٹ کو قدم رکھنے کا موقع نہیں ملتا۔جس جس موقع پر دنیا سجدئہ شکر کرتی، ان کے ہاں مجھے نہیں ملتا۔

شب ہجرت حصار سے جب نکلے، تب سجدئہ شکر کرتے۔ کوئی ضعیف سے ضعیف روایت نہیں کہ سجدئہ شکر کیا ہو۔ بدر میں کیسا خطرناک موقع، ہزاروں کے مقابلہ میں تین سو تیرہ آدمی، بے سروسامانی ایسی کہ صرف تیرہ تلواریں۔ وہاں سے فاتحانہ شان سے واپس ہوئے تو گھر آکر سجدئہ شکر کیا ہوتا کہ ایسے خطرناک موقع سے زندہ واپس ہوا۔ مگر بدر کے اختتام پر سجدئہ شکر نہیں کیا۔

اُحد میں تنہا رہ گئے، سترزخم جسم پر آئے مگر زندہ و سلامت واپس آئے، پھر سجدئہ شکر کیا ہوتا۔ اتنا خطرناک موقع اور پھر بھی زندہ واپس ہوا، اس وقت سجدئہ شکر کرتے۔ارے! خود سجدئہ شکر نہ کرتے، سیدہ (ع) عالم سے کہتے کہ شکر کریں۔ مگر کوئی جھوٹی روایت بھی نہیں ملتی۔ نہ خود شکر کرتے ہیں نہ کسی اپنے سے کہتے ہیں کہ شکر کرو۔

خندق کا خطرناک موقع جہاں ایک سورما ایسا آیا جو ہزار کے مقابلے میں ایک تھا اور جنگ شروع ہونے سے پہلے لوگ سوچ میں پڑے ہوئے تھے کہ اس سے کون مقابلہ کر سکتا ہے؟ یہ اس کے مقابلے میں باوجودیکہ زخمی ہوئے، اس کی تلوار سر مبارک پر پڑی۔

ایک یہ سورما ہے جس کا وار علی علیہ السلام پر چل گیا اور اس نے زخمی کیا، اس سے ایک بڑی حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ علی (ع) جنگ میں کبھی قوتِ امامت سے نہیں لڑے، ورنہ کبھی زخمی ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ ہمیشہ انسانی قوت اور انسانی فن سے لڑے۔ کبھی قوتِ امامت سے نہیں لڑے اور وہ جو ہزار کے مقابلے میں ہو، جتنا کسی کا ہاتھ طاقتور ہوگا، اُتنی ہی اُس کی ضرب بھی طاقتور ہوگی۔ پھر بھی وہ تلوار جیسی بھی تھی، آپ(ع) فتح کرکے اور دشمن کو تہہ تیغ کرکے واپس ہوئے تو اب موقع تھا کہ سجدئہ شکر کرتے کہ اتنے بڑے غنیم کے مقابلہ میں فتح پائی ۔ لیکن کسی تاریخ میں، کسی موقعہ پر مجھ کو نظر نہیںآ تا کہ سجدئہ شکر کیا ہو۔ اگر کسی کی نظر سے گزرے تو مجھے بتا دے تاکہ میری معلومات میں اضافہ ہو اور میں اتنی قوت کے ساتھ پھر انکار نہ کروں۔

تو جناب! عمر بھی میں نہیں دیکھتا کہ کبھی سجدئہ شکر کیا ہو۔ خیبر سے واپس آکر، حنین سے واپس آکر، اور پھر پیرانہ سالی میں جمل سے واپس آکر، صفین سے واپس آکر، نہروان سے واپس آکر، کبھی نہیں کیا ، عمر بھر نہیں کیا سجدئہ شکر، بلکہ احساس ہے ایک بارِ امامت کا۔ جب فتح کرکے واپس آتے ہیں ، سجدئہ شکر نہیں کرتے کہ ابھی راستے میں ہوں، منزل ابھی دور ہے، لیکن ایک حملہ ہے جس میں روح سجدئہ شکر کرتی ہے، وہ کونسا؟ جب تلوار سر پر پڑی، تو اب کہا:

فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَةِ “۔ ”خدا ک ی قسم! میں کامیاب ہوگیا“۔

بخدا! اس جملہ میں وہی ہے جو الحمدللہ میں ہے۔ اس جملہ میں وہی ہے جو سجدئہ شکر میں ہے۔ اب سمجھے کہ وقت آگیا امانت کو مالک تک پہنچانے کا۔ اس کا سامان ہوگیا۔ سجدئہ شکر ان الفاظ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کیسی ضربت تھی یہ؟ اس محل پر ہزار کے مقابل کا جو سورما تھا، اس کی تلوار پڑی تھی، اسی محل پر یہ تلوار پڑی ہے، یہ تلوار کیسی قیامت خیز تھی کہ فاتح خیبر کا یہ عالم ہوگیا کہ بیٹوں سے کہتے ہیں کہ گھر لے کر چلو، مجھے گھر لے کر چلو۔ ان الفاظ میں کتنی بے بسی ہے۔

اربابِ عزا! لے چلنے کا ایک تصور تو یہ ہوتا ہے کہ سہارہ دے کر لے چلے،اس کے بعد یہ کہ بغلوں میں ہاتھ دے کر لے چلے لیکن صورت لے چلنے کی یہ بتائی ہے کہ ایک چادر لائی جاتی ہے، اس میں لٹایا جاتا ہے یعنی کسی کا جنازہ ایک دفعہ اُٹھا ہوگا، ان(ع) کا جنازہ دو دفعہ اُٹھا۔

اس چادر میں گھر لائے جاتے ہیں۔ خود محسوس کرلیا تھا کہ اب میں جانبر نہیں ہوسکتا، اسی لئے اپنے الفاظ میں سجدئہ شکر کیا تھا۔ جبھی تو شکرانہ ادا کیا کہ الحمدللہ ، میں کامیاب ہوا۔یہ علی علیہ السلام کا انتہائے سفر زندگی پر سجدئہ شکر ہے۔

جو اُسوہِ رسول ہے

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةحَسَنَة ) ۔

ارشاد ہورہا ہے تمام فرزندانِ اسلام کو مخاطب کرکے کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول میں عمل کا بہترین نمونہ ہے۔ ہم اطاعت کے بھی معنی کہہ دیتے ہیں پیروی اور اتباع کے بھی معنی کہہ دیتے ہیں پیروی۔ لیکن پیروی کے معنی درحقیقت نقش قدم پر چلنا اور افعال و اعمال کو نمونہ بنا کر عمل کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کی اطاعت کا حکم ہے لیکن پیروی کا حکم ، نقش قدم پر چلنے کا حکم، پیغمبر خدا کے سلسلہ میں ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جارہا کہ تمہارے لئے خدا اور رسول میں پیروی کا موقعہ ہے بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ:

( لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰه ) ۔

”تمہارے لئے اس کے رسول میں“۔

ہمارے کانوں کو سننے کی عادت ہے خدا ورسول، ہمیں ایک دھماکہ سے محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا نام نہیں آیا اور بس رسول کا ہی نام آیا۔ تمہارے لئے خدا کے رسول میں۔یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ اور اُس کے رسول میں۔ بس اللہ کے رسول میں۔

بات یہ ہے کہ بندے اللہ کی پیروی کیونکر کرسکتے ہیں، اس کیلئے ضرورت ہے کہ شاہراہِ عمل میں کسی انسان کے قدم ہوں مگر انسان ایسا ہو کہ اس کے قدموں سے جو نشان بنیں، وہ راہِ رضائے پروردگار ہوں۔

پیغمبر خدا کی اطاعت کا بھی حکم اور ان کی پیروی کا بھی حکم۔ اطاعت کا حکم کہاں، جہاں اللہ کی اطاعت کا حکم ہے، وہاں وہاں پیغمبر خدا کیا طاعت کا حکم ہے۔ ہر جگہ :

( اَطِیْعُوااللّٰهَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ )

اور پیروی کے حکم میں اللہ کا نام ہے ہی نہیں۔بس رسولِ خدا کو مرکز قرار دیا ہے۔ اس بناء پر مسلم نقطہ نظر مشترک طور پر یہ ہوگیا کہ میعارِ سنت یہ ہے کہ قولِ رسول ہو یا عملِ رسول ہو یا تقریر رسول ہو۔

قول و عمل اُردو میں اتنے استعمال ہوتے ہیں کہ ہر اُردو دان آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ قول کلام اور عمل کام لیکن تقریر مختلف ہے۔ تقریر ہم اُسے سمجھتے ہیں جو سٹیج پر ہوتی ہے یا منبر پر ہوتی ہے۔ تقریر جو لیکچر کے معنی میں ہے، وہ قول میں داخل ہے۔ یہ الگ سے کیونکر ہوئی کہ قولِ رسول عملِ رسول اور تقریر رسول! تقریر کے معنی یہ ہیں کہ کسی مسلمان نے رسول کے سامنے کوئی کام کیا یا کوئی بات کہی اور پیغمبر خدا نے اس سے منع نہیں فرمایایا اس کی رَد نہیں کی۔

اگر کوئی عمل کسی نے غلط کیا تھا تو حضرت کو بحیثیت رہنما یہ فرمانا چاہئے تھا کہ تم یہ کیوں کررہے ہو؟ اور اگر اُس نے کوئی بات غلط کہی آپ کے سامنے تو آپ کو رَد فرمانا چاہئے تھا کہ یہ بات غلط ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ رسول نے اگر خاموشی اختیار فرمائی اور اس عمل سے منع نہیں کیا اور اس قول کی رَد نہیں فرمائی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اس عمل سے راضی ہیں۔

جس طرح قولِ رسول کا معیار سنت ہے، جس طرح عملِ رسول کا معیار سنت ہے، اسی طرح تقریر رسول بھی معیارِ سنت ہے۔ اب سنت کا مطلب یہ ہے کہ ناجائز نہیں ہے، اس کی قسمیں ہو سکتی ہیں۔ جو بات رسول نے کہی، وہ واجب بھی ہوسکتی ہے اور مستحب بھی ہوسکتی ہے، مثلاً وضو میں ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے یا کُلّی کرنا سنت ہے۔ یہ سنت واجب کے مقابلے میں ہے۔ مستحب کومسنون کہتے ہیں تو وہ بات جو رسول نے ارشاد فرمائی یا عمل کیا، وہ عمل واجب بھی ہوسکتا ہے، مستحب بھی ہوسکتا ہے اور کم از کم جائز ہوسکتا ہے، مباح ہوسکتا ہے۔

یعنی جائز کام ہیں ۔جو واجب یا مستحب نہ ہوں، وہ بھی حضرت عمل میں لاتے تھے۔ پیاس لگی ہے تو پانی پئیں گے، بھوک لگی ہے تو کھانا کھائیں گے۔ قولِ رسول، اگر حکم دیا ہے تو واجب ہوگا یا مستحب ہوگا اور اگر عمل ہے تو وہ عمل واجب بھی ہوسکتا ہے اور مستحب بھی ہوسکتا ہے، مباح یعنی جائز بھی ہوسکتا ہے، ناجائز نہیں ہوسکتا۔

عملِ رسول سے جواز یقینا ثابت ہوگا اور جواز ہی کی اقسام ہیں واجب، مستحب اور مباح۔ اسی طرح سے رسول کی تقریر یعنی کسی نے کوئی کام کیا اور رسول نے منع نہیں فرمایا، اس میں بھی یہی تینوں اقسام آئیں گی کہ بہرحال اس نے جو کیا، وہ غلط نہیں تھا۔ جو اُس نے کیا، وہ ناجائز نہیں تھا، ورنہ رسول کا فرض تھا کہ وہ اس کو منع فرماتے اور فرماتے کہ یہ ناجائز ہے۔ جب حضرت نے اُس کو منع نہیں فرمایا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کم از کم مباح تو ہے ہی۔ ہو سکتا ہے کہ مستحب ہو، واجب ہو یا جائز ہو۔

اسی طرح اس نے کوئی بات کہی اور حضرت نے اس کی رَد نہیں فرمائی تو ا س کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ ناجائز نہیں ہے، غلط نہیں ہے۔ اگر وہ بات غلط ہوتی اور باطل ہوتی تو پیغمبر خدا منع فرماتے۔ تو یہ چیزیں معیارِ سنت ہیں: قولِ رسول، عملِ رسول اور تقریر رسول۔جو چیزان میں داخل نہ ہو، اس کی بھی اقسام ہیں۔ سنت کے مقابلہ میں ہے بدعت۔ جو چیز سنت نہیں ہے، وہ بدعت ہے یعنی جو بدعت ہو وہ سنت نہیں ہوسکتی۔ لیکن سنت اگر نہیں ہے تو بدعت ضرور ہے۔

اس کو میں نے بلا جھجک نہیں کہا۔اس میں ذرا نقطہ نظر کا فرق ہے۔ اس میں ہمارا محاورہ یہ ہے کہ جو بات سنت میں داخل نہ ہو، یعنی نئی ہو، وہ اگر آدمی جزوِ دین سمجھ کر کرے تو وہ بدعت ہوگی۔بدعت کی تعریف ہمارے نقظہ نظر سے یہ ہے :

اِدْخَالُ مَالَیْسَ فِی الدِّیْن وَاِخْرَاجُ مَاهُوَفِی الدِّیْن مِنَ الدِّیْن “۔

”جو چیز دین میں داخل ہے، اُسے خارج کرنا اور جو چیز دین میں داخل نہیں ہے، اُس کو دین میں داخل کرنا، یہ معیارِ بدعت ہے“۔

تو دین کا جزو قرار دے کر اگر کوئی نئی بات کرے تو وہ بدعت ہوگی۔ لیکن اگر یونہی کیا تفریحاً یا عادتاً ،جزوِ دین سمجھ کر نہیں کیا ۔تو بس اس کویہ دیکھنا ہے کہ ممانعت تو نہیں ہے۔ اگر ممانعت ہے تو ناجائزاور اگر ممانعت نہیں ہے اور جزوِ دین سمجھ کر نہیں کیا، یونہی تفریحاً کیا ہے تو پھر جائز ہے۔ اگر کوئی فائدہ سمجھ میں نہیں آتا تو مہمل بات ہے مگر اُسے بدعت کہنا درست نہیں ہے، جبکہ دین کا جزو سمجھ کر نہیں کیا جارہا۔

فرض کیجئے کہ ذرا اونچی جگہ سے چھلانگ لگائی تو اگر اُسے جزوِ دین سمجھ کر کرے تو بدعت ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہے تو زیادہ سے زیادہ فضول کام ہوگا، خلافِ عقل ہوگا، مہمل کام ہوگا۔ مگر اُسے بدعت نہیں کہہ سکتے۔ بدعت اس وقت ہے جب جزوِ دین سمجھ کر کیا جائے یعنی جو چیز دین میں شامل نہیں ہے، اُسے دین میں شامل کیا جائے اور جو داخل ہے، اُسے خارج کیا جائے۔ جیسے صبح کی نماز میں اضافہ کرے اور دو کی بجائے تین رکعت پڑھے۔ دل میں ذوقِ عبادت ہو، میں انگریزی الفاظ نہیں بولتا مگر یہاں کہتا ہوں کہ اس دن نماز کا موڈہو، دو رکعت کی بجائے تین رکعت نماز پڑھ دے، تو چونکہ عبادت ہمیشہ وہ ہوتی ہے جو رضائے الٰہی کیلئے ، قصد قربت کے ساتھ ہو، جب قصد قربت کے ساتھ اُس نے یہ کام کیا، یعنی اُس نے جزوِ دین بنایا تو صبح کی سہ رکعتی نمازبدعت ہو جائے گی ۔

اب کوئی صاحب تھکے ہوئے ہوں تو کہیں کہ آج ایک ہی رکعت پڑھوں گا، اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک رکعت کو انہوں نے خارج کردیا، یہ بدعت ہے۔لیکن نماز تو انہوں نے دو رکعت ہی پڑھی ہے، صبح کی نماز کی نیت سے ، لیکن دل چاہا اور انہوں نے اس کے بعد دوچار دفعہ کھڑے ہوکر، بیٹھ کر رکوع و سجود کی مشق کرلی،یہ کیا؟

کہا کہ اس وقت دل چاہتا ہے کہ نماز کے اجزاء کو مزید ادا کروں، اس وقت کچھ جسم کا تقاضا بھی ایسا ہے کہ اس قسم کا کام کروں۔ یہ رکو ع و سجود نما عمل انہوں نے کر دیا۔ لیکن بہ نیت جزوِ نماز نہیں کیا تو یہ فضول بات ہوگی یا ورزش ہوجائے گی۔ چونکہ عبادت کی نیت سے یہ عمل نہیں کیا ہے، تو بدعت نہیں ہوگی۔ ہاں! اگر جزوِ نماز سمجھ کر کرے تو بدعت ہوگی۔ غالباً اکثریت کا معیار یہ ہے کہ اگر کوئی نئی بات ہے یعنی نہ قولِ رسول میں ہے اور نہ عملِ رسول میں ہے، نہ تقریر رسول میں ہے، تو وہ بدعت ہوگئی ۔ میں اس وقت اسی نقطہ نظر کے ماتحت یعنی قولِ رسول، عملِ رسول اور تقریر رسول کو بنیاد بنا کر معیارِ سنت و بدعت کو موضوعِ گفتگو بناؤں گا۔

ایک بڑے حلقے کی طرف سے شرک شرک کی آوازیں بہت بلند ہوتی ہیں۔ بدعت کی آوازیں بھی بہت بلند کی جاتی ہیں۔ اس بناء پر جو معیار ہے، بدعت اور سنت کا، اس پر چند ایسی باتوں کو جانچوں گا جن میں اکثر بدعت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ان کو جانچوں گا کہ وہ سنت میں داخل ہیں یا بدعت میں۔

بدعت اور سنت کا معیار یہ ہوا کہ جو چیز قولِ رسول، عملِ رسول یا تقریر رسول میں ہو، وہ سنت اور جو اس میں داخل نہ ہو، وہ بدعت۔اس جگہ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جو چیز قولِ رسول، عملِ رسول یا تقریر رسول میں ہو تو سنت ہے ، ورنہ بدعت۔تو میں کہتا ہوں کہ ہم سب کے لباس بھی بدعت اور ہماری غذائیں بھی بدعت اور ہمارے سفر سب بدعت۔ اس لئے کہ جو غذائیں اس وقت ہم کھاتے ہیں، یہ رسول نے کبھی نہیں نوش فرمائیں، نہ انہوں نے ان کے کھانے کا حکم دیا، نہ کسی نے ان کے سامنے ان غذاؤں کو کھایا تھا کہ وہ خاموش رہتے اور تائید ثابت ہوتی۔ تو ہماری کوئی غذا ایسی نہیں ہے،تقریباً سارے ہندوستان کی۔اگر یہ ہے تو ہماری غذائیں سب بدعت۔

جس طرح کے لباس ہم پہنتے ہیں،یہ لباس رسول کے زمانہ میں کسی نے نہیں پہنے کہ تقریر رسول ہوتی، خود رسول نے یہ لباس نہیں پہنا کہ عملِ رسول ہوتا۔ آپ نے ان کے پہننے کا حکم بھی نہیں دیا۔ یہ چیزیں اس زمانہ میں ہوتی ہی نہیں تھیں تو ان کا حکم کیا دیتے! لہٰذا یہ قولِ رسول نہ عملِ رسول۔تو ہمارے لباس سب بدعت ۔

اور جناب! کسی او ر سفر کا کیا ذکر، حج کا سفر جو فریضہ ادا ہوتا ہے، وہ اس وقت اونٹ کی پشت پر ہوتا تھا، گھوڑے پر ہوتا تھا، اب موٹروں پر، ہوائی جہازوں پر اور بحری جہازوں پر ہوتا ہے۔اس وقت تک تو مرکب یا سواری بدعت تھی اور اب تو راہ بھی بدعت ہوگی کہ سفر ہوتا تھا زمین کے اوپر یا دور دراز کا ہو تو سمندر میں یا دریا میں یہی چیزیں اس وقت ہیں بحروبر۔خشکی یا تری، یہی دو سفر ہوتے تھے۔ ہوا کا سفر اس وقت کہاں ہوتا تھا؟ اب جو سفر کرتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ اب حاجی صاحبان زمین پر پیر ہی نہیں رکھتے، پرواز کرکرکے پہنچتے ہیں۔ وہ حج جو عبادت ہے، کیا وہ بھی بدعت ہوجائے گا؟

وہاں جاکر دیکھئے تو صفا او رمروہ کے درمیان چھت ہوگئی ، وہ کیا بدعت نہیں ہوئی؟ پہاڑیوں کو اُڑا کر زینے بنا دئیے تو وہ بدعت نہیں ہوئی؟ اور جس جس طرح سے وہاں سعی ہوتی ہے، اظہارِ تشخص کیلئے سعی بجائے پیروں کے موٹروں پر ہوتی ہے، یہ بدعت نہیں ہوئی؟ تو اگر ہر نئی چیز بدعت ہے تو کونسی چیز بدعت نہیں ہے؟

اسی بناء پر جب اینڈرسن صاحب نے فوٹو کھینچنے کے موقع پر مجھ سے کہا کہ یہ بدعت تو نہیں ہے؟ تو میں نے کہا کہ میں خود ہی بدعت ہوں۔ معلوم ہوا کہ اس معیار پر اگر دیکھئے کہ نئی بات یعنی جو اس وقت نہیں تھی، جو فعلِ رسول ، قولِ رسول یا تقریر رسول میں نہیں ہے تو زمین آسمان ہمارا بدعت ہوگا۔ پوری زندگی ہماری بدعت میں گھری ہوئی ہوگی او رکوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔

یہ نہیں ہے کہ یہ شکل ہو تو پھر کیا ہے، میں جو معیارِ سنت عرض کررہا ہوں، اس پر ہر صاحب عقل مسلمان غور کرے کہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کام جو ہم کررہے ہیں، اس شکل سے اس کام کیلئے قولِ رسول ہے، فعلِ رسول ہے یا تقریر رسول ہے یا نہیں ہے؟ اگر اس کام کا رسول نے حکم دیا ہے تو پھر اس شکل میں ہوتا تو سنت ہوتا۔ اس شکل میں ہے او رکام وہی ہے تو سنت ہے۔

عملِ رسول: جو کام کیا تھا رسول نے، اگر کام ہم وہی انجام دے رہے ہیں مگر پیغمبر خدا نے جس صورت سے انجام دیا تھا، ہم اس کام کو اس صورت سے انجام نہیں دے رہے ہیں تویہ پھر بھی سنت ہوگا، اس لئے کہ کام وہی ہے۔ چاہے اس شکل میں ہوتا، چاہے اُس شکل میں ہے۔ اسی طرح تقریر رسول: کسی دوسرے نے کام یہ انجام دیا اور رسول اللہ نے منع نہیں فرمایا تو اب وہی کام اگر ہم کررہے ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ رسول ہوتے تو ہمیں منع نہ کرتے۔ انہوں نے کام اُس وقت کے رواج کی صورت سے کیا تھا، ہم اِس وقت کے رواج کی صورت سے کر رہے ہیں، مگر کام نہیں بدلا ہے، کام وہی ہے جو ہوا تھا۔

تو اگر صورت اور شکل بدل گئی ہے تو وہ سنت ہوگا۔ مثلاً تحصیلِ علم۔یہ دیکھنا ہے کہ تحصیلِ علم خدا و رسولِ خدا کو مطلوب ہے یا نہیں۔ ہم نے دیکھ لیا کہ تحصیلِ علم قرآن اور حدیث دونوں کی رو سے ہر ایک کا کسی حد تک فریضہ ہے اور جو فریضہ نہیں بھی ہے، تو امر مستحسن ہے اور ترغیب دی گئی ہے اور تحریص کی گئی ہے۔تو تحصیلِ علم خواہ تعلیم علم ہو، یہ بہرحال مطلوبِ خدا و رسول ہے۔

اب اُس وقت میں تعلیم چٹائی پر ہوتی تھی، اب وہ تعلیم میز اور کرسی پر ہوتی ہے۔ تو میز اور کرسی نہ ڈھونڈئیے بلکہ یہ دیکھئے کہ تعلیم ہے یا نہیں۔اگر تعلیم دینی فریضہ ہے یا کم از کم مستحسن ہے تو وہ چٹائی پر ہوتی تو مستحسن او رکرسی میز پر ہو تو مستحسن۔ یہ نہیں ہے کہ میز کرسی پر تعلیم ہورہی ہے تو نئی چیز ہوگی، لہٰذا یہ بدعت ہوگئی۔نہیں! اگر وہ تعلیم فرشِ خاک پر بیٹھ کر عبادت تھی تو یہ تعلیم جو کرسی اور میز پر بیٹھ کردیں، یہ بھی عبادت ہوگی۔ ورنہ تو جناب ہمارا دنیا بھر میں کوئی دارالعلوم بدعت سے خالی نہ ہوگا۔یہ امتحانات، سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ کب ہوتے تھے؟ پیغمبر خدا کی جو درس کی مجلس تھی، اس میں کیا امتحانات ہوتے تھے؟ امتحانات ہونے کے بعد نمبر دئیے جاتے تھے؟ کیا رسول کے زمانہ میں فیصدی نمبر، ڈویژن اور درجے ہوتے تھے؟ کونساہمار ادارالعلوم ہے جو کتنا ہی سنت کا درس دیتا ہو ، جو ان طریقوں سے خالی ہو؟

معلوم ہوا کہ طریقے بہ اعتبارِ رواج بدلتے ہیں اور کام وہی ہے جو اس وقت ہوتا تھا۔ اگر وہ عبادت ہے تو یہ بھی عبادت ہے۔ یہ دیکھئے کہ جامع مسجد میں اب کام ہورہا ہے ، یہ نماز ہی ہے یا کچھ اور ہے؟جامع مسجد میں جمعہ یا عید یا روز کی نمازہو تو کیا اتنا بڑا مجمع کبھی رسول کے زمانہ میں نمازِ جماعت میں ہوا تھا؟تو صرف اس لئے کہ تعداد بدل گئی تو بدعت ہوجائے گا؟

حضور! اب دو آدمی ہوں اور نمازِ جماعت ہو تو جماعت ہے اور دو لاکھ آدمی ہوں، تب بھی جماعت ہے۔ مجمع کی تعداد سے سنت بدعت میں نہیں بدلتی ۔ کم سے کم جس فقہ سے میں واقف ہوں، اس میں تو ایک امام اور ایک ماموم سے جماعت ہو سکتی ہے۔ اس میں جمع ہونے کی ضرورت نہیں ہے، صرف ایک عدد ماموم ہو تو بھی اقتداء کرسکتا ہے اور وہ نمازِ جماعت ہوجائے گی۔ تعداد کے بدلنے سے عمل اگر نہیں بدلا ، کام وہی ہے تو اگر دو آدمی کررہے تھے تو عبادت اور اگر دس آدمی کررہے ہوں ، تب بھی عبادت بلکہ انہی حضرات نے ارشاد فرمایا کہ جتناجماعت کا مجمع بڑھے، اتنا ہی فرد کی نماز کے ثواب میں اضافہ ہوگا۔ حالانکہ دوسرے جو آئے ہیں، وہ اُن کا عمل ہے لیکن اُن کی وجہ سے وہ ایک آدمی جو شروع میں آیا ہے، اس کے بھی ثواب میں اضافہ ہوگا۔

میں کہتا ہوں کہ یہ ذرا ذرا سے جو احکام ہیں، ان میں بھی کتنی حکمتیں مضمر ہیں کہ جب یہ مسئلہ معلوم ہو گیا تو ہر آدمی اپنی خود غرضی کیلئے کوشش کرے گا کہ زیادہ لوگوں کو آمادہ کرے کہ وہ جماعت میں شریک ہوں۔ ان کی خیر خواہی میں نہیں بلکہ اپنی خود غرضی کیلئے کہ میرے ثواب میں اضافہ ہوجائے۔

اسی طرح میں ریل سے بمبئی گیا، وہاں سے میں جہاز میں بیٹھا اور جدہ اُترا۔وہاں سے موٹر میں بیٹھا اور اس کے بعد مکہ گیا۔ تو اس طرح جو کام ہوا، وہ بھی حج تھا۔ حج کیلئے میں گیا تھا۔ نیت میری موٹر پر بیٹھنے کی نہیں تھی، نیت تو میری حج کی تھی اور وہ جو ہوا ، اُس کا نام حج ہی ہے۔

اس طرح سے اس نے بھی حج کیا، جو ہوائی جہاز سے اُڑ کر پہنچا ہے۔وہ بھی کس لئے پہنچا ہے؟ حج کیلئے گیا ہے۔ ہوائی جہاز کی خاطر حج نہیں کیا ہے، حج کی خاطر سے ہوائی جہاز میں بیٹھا ہے۔ جس وقت اصل مقصد وہی رہا، کام وہی رہا، وہ چاہے بحری جہاز سے ہو، تو فریضہ ادا ہوا اور ہوائی جہاز سے گئے تو وہ فریضہ ادا ہوا۔

معلوم ہوا کہ وحدتِ عمل معتبر ہے، شکلِ خاص تو رواجوں سے بدلتی ہے، دَور کے بدلنے سے بدلتی ہے۔ بس اب جن جن چیزوں کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے،ان کو اس معیار پر پرکھ لینا چاہئے۔ فرض کیجئے کہ سیرت کا جلسہ ہے، نام بدلتا رہتا ہے، ایک وقت میں محفلِ میلاد کہلاتا تھا، اب سیرت کا جلسہ ہوتا ہے۔نام کے بدلنے سے بھی بدعت نہیں ہوتی۔ کام وہی ہونا چاہئے ، چاہے اُس نام سے ہو، چاہے اِس نام سے ہو۔ مجھے دوسرا نام زیادہ پسند ہے یعنی میلادِ اقدس۔ اس میں صرف ہماری خوشی کا پہلو ہے لیکن ہمارے لئے درس کا پہلو نہیں ہے ۔ ہماری زندگی سے اس کا تعلق نہیں ہے لیکن یہ جو جلسہ سیرت نام ہوگیا، یہ کردار سازی کا ایک رُخ رکھتا ہے، خواہ میلادِ مقدس ہو یا سیرت کا جلسہ ہو، روشنی کا اہتمام زیادہ ہوگیا تو یہ تصو رہوگیا کہ یہ بدعت ہے۔ اتنی روشنی؟

میں کہتا ہوں کہ ایک بلب ہوتا تو کیا سنت تھا؟ اور یہ دس ہوگئے ہیں،اس لئے بدعت ہوگیا؟ تو وہ ایک عدد بھی رسول کے زمانہ میں دکھادیجئے کہ کب تھا؟ تو روشنی کے کم ہونے یا زیادہ ہونے سے یا قمقمے لگ جانے سے یا جھنڈیاں لگ جانے سے یا سامانِ آرائش زیادہ استعمال کرنے سے اس سب کو آپ انوکھے پن کی وجہ سے کہیں کہ یہ بدعت ہے، یہ سب بدعت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس سب کے بعد کام اس محفل کا کیا ہوگا؟ ذکر رسول ہی تو ہوگا۔

اب یہ دیکھ لیجئے کہ ذکر رسول خدا کو پسند ہے یا نہیں؟ اگر پتہ چل جائے کہ ذکر رسول خدا کو پسند ہے تو ذکر رسول اندھیرے میں ہوتا تو خدا کو پسند ہوتا اور روشنی میں ہوگیا تو پسند ہوگا۔اگر وہ فرشِ خاک پر ہوتا تو خدا کو پسند ہوتا اور قالینوں کے فرش پر ہورہا ہے تو پسند ہوگا۔

تو پسند ہے جب چیز وہی جو خدا اور رسول کو پسند ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید میں دیکھئے کہ ان کے ذکر کیلئے خدا کو کیا منظو رہے، ارشاد ہوتا ہے:

( رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ ) ۔

”ہم نے آپ کے ذکر کو اُونچا کیا“۔

ایک پہلو پر توجہ دلادوں کہ بہت جگہ قرآن مجید میں آتا ہے ، میں نے یہ کیا، میں نے یہ کیا اور بہت جگہ آتا ہے کہ ہم نے یہ کیا۔ حالانکہ ہمیں شانِ وحدت” مَیں“ میں زیادہ نظر آتی ہے۔ ”ہم“ میں سے تو جیسے بوئے شرکت غیر آتی ہے۔یعنی میں ایسی بات اللہ کیلئے کہوں تو شرک کا پہلو پیدا ہوگا تو اللہ کیوں ہم کہہ رہا ہے؟کیا کوئی اور اس کے ساتھ شریک ہے؟ میں نے جو غور کیا تو ”میں“ اور” ہم“ میں مَیں نے یہ فرق محسوس کیا کہ جہاں اظہارِ انفرادیت مطلوب ہوا، وہاں ”مَیں“ کہا ہے:

( اِنَّمَااَنَااِلٰهٌ وَاحِدْ )

”میں ایک خدا ہوں“۔

یہاں ”ہم“ کا محل نہیں تھا۔

( اِنَّمَااَنَااِلٰهٌ وَاحِدْ ) “۔

”بے شک میں ایک خدا ہوں“۔

( اَنَارَبُّکَ ) “۔

”میں تمہارا پروردگار ہوں“۔

جہاں اظہارِ انفرادیت منظور ہوا ہے، وہاں”مَیں“ کہا ہے او رجہاں قوتِ عمل دکھانا ہے، وہاں ہم کہا ہے:

( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَ وَاِنَّالَهُ لَحَافِظُوْنَ ) ۔

”ہم نے یہ قرآن اُتارا ہے اور ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں“۔

( اِنَّااَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ) ۔

”ہم نے اس کو شب قدر میں اُتارا ہے“۔

یہ جو ہم ہم ہوتا ہے، اس میں مخالف قوتوں کو چیلنج ہوتا ہے کہ ہم نے یہ کیا ہے، ہم نے یہ قرآن اُتارا ہے اور ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اب کوئی دنیا میں قرآن کو مٹا تو دے۔ ویسے ہی جہاں جہاں یہ ”ہم“ ہے:

( اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ ) ۔

”ہم نے آپ کو کثرتِ نسل عطا کی ہے“۔

بنی اُمیہ اور بنی عباس کی طاقتیں اس نسل کو ختم تو کردیں! اسی طرح یہ:

( رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ ) “۔

”ہم نے آپ کے ذکر کو اونچا کیا ہے“۔

اب لاکھ بدعت کے فتوے لگیں، کوئی نیچا تو کردے۔

ذکر کی بلندی کیا ہے؟ جتنے نمایاں ہونے کے اسباب زیادہ ہوں، سب خالق کا مقصود ہیں۔ اب جولوگ کہ روشنی کررہے ہیں، آرائش کررہے ہیں، جو لوگ بڑے سے بڑا پنڈال بنا رہے ہیں، ان سب کو سمجھئے کہ وہ خالق کے مقصد کے آلہ کار ہیں۔

جناب! یہ ہماری جماعت میں رواج ہے بھی نہیں بلکہ کسی اور کا رواج ہوگا ۔ کوئی اعتراض کررہا ہے،میں تو عقلی جائزہ لئے بغیر بدعت نہ کہوں گا۔ مثلاً میلاد شریف میں ایک محل پر ہوگیا کہ وہاں جب رسول کا ذکر آئے گا تو مجمع کھڑا ہوجائے گا:

قِیَامُ عِنْدَذِکْرِنَبِیْ “۔

یہاں بڑے زور سے آواز آئے گی کہ بدعت ہے، بدعت ہے۔ میں نے دیکھا کہ سب کھڑے ہوئے۔ تو بعض حضرات نہیں کھڑے ہوئے۔ میں نے کہا کہ میرے ہاں رواج نہیں ہے مگر میں کھڑا ہوجاتا ہوں۔ کچھ حضرات تو اس معاملہ میں بڑے سخت ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ قیام کیا ہے؟ یہ تعظیم کی نیت سے ہے۔ یہ جو کھڑا ہوا تھا، اس نے کیا کام کیا؟ مظاہرئہ تعظیم کیا۔ کام یہ کیا اور طریقہ اس کا یہ اختیار کیا کہ نام سن کر کھڑا ہوگیا۔تو کام اُس نے جو کیا، وہ رسولِ خدا کی تعظیم ہے۔ قرآن میں یہ دیکھ لیجئے کہ تعظیم رسول اللہ کو پسند ہے یا نہیں؟ اللہ نے رسول کی تعظیم کا حکم دیا ہے یا نہیں، اگر رسول کی تعظیم کا حکم دیا ہے تو جو شکل اختیار کی جائے ، وہ تعظیم ہے۔

تو وہ واجب تو نہیں ہے لیکن جو اُس نے عمل کیا، اس کو بدعت نہ کہئے، اُسے غلط نہ کہئے۔ اُس نے وہی کام کیا جو اللہ کو مد نظر ہے۔

میں کہتا ہوں کہ رسول کی تعظیم دیکھئے کہ اللہ کو مد نظر ہے یا نہیں؟تعظیم نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو سب کے ساتھ برتاؤ ، وہی رسول کے ساتھ۔ اب قرآن میں دیکھئے کہ کیا وہ چاہتا ہے کہ اس طرح ہورسول کے ساتھ جو دوسروں کے ساتھ ارشاد ہورہا ہے:

( لَا تَجْعَلُوْادُعَاالرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاءِ بَعْضِکُمْ )

”دیکھو خبردار! ہمارے رسول کو اس طرح نہ پکارا کرو جیسا آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو“۔

آپ کہتے تھے کہ جو سب کے ساتھ برتاؤ، وہی رسول کے ساتھ اور قرآن کہہ رہا ہے کہ ہرگز وہ برتاؤ نہ کرو رسول کے ساتھ جو دوسروں کے ساتھ کرتے ہو۔ اس طرح نہ پکارو جس طرح دوسروں کو پکارتے ہو۔

میں کہتا ہوں کہ ہم کو حکم دیا تو خود اُس نے بھی رسول کو اس طرح نہیں پکارا جس طرح دوسروں کو پکارا۔ ارے! ہر کس و ناکس کو وہ پکارنے ہی کیوں لگا؟ وہ پکارتا ہے انبیاء کو، مرسلین کو۔ ان کو پکارتا ہے۔ مگر جس رسول کو بھی پکارا ہے، ہمارے پیغمبر کے علاوہ، بلا استثنیٰ نام

لے کر پکارا:

( یَااٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّة ) ۔

”اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ جنت میں رہو“۔

”اے نوح!اُترو سلامتی کے ساتھ“

نام لے کر پکارا۔

( یَااِبْرَاهِیْمُ قَدْصَدَّقْتَ الرُّوْیَا ) ۔

”اے ابراہیم ! تم نے خواب سچ کردکھایا“۔

نام لے کر پکارا۔ اب اور آیات کیوں پڑھوں؟ میں نے کہا کہ بلا استثنیٰ ہر نبی و رسول کا نام لے کر پکار لیا۔ جب میں نے بلا استثنیٰ کہہ دیا تو اگر کسی کے پاس اس کے خلاف سند ہو تو وہ کوئی آیت پڑھے۔ مجھے سب آیات پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس نبی و رسول کو پکارا، نام لے کر پکارا اور ہمارے رسول کو بلا استثنیٰ کبھی نام لے کر نہیں پکارا، کبھی عہدہ کو سرنامہ خطاب بنایا:

”یَااَیُّهَاالنَّبِیّ ُ“۔یَااَیُّهَاالرَّسُوْلُ “ ۔

جو عہدہ تھا، اُس کو سرنامہ خطاب بنا لیا۔ کبھی اوصافِ کمال کو، طٰحٰہ ہے، طیّب و طاہر ہے، یٰسین ہے، سیّد و سردار ، کبھی بتقاضائے محبوبیت جس وقت جو لباس ہوا، اس کو سرنامہ خطاب بنا لیا:

یَااَیُّهَاالْمُزَمِّلُ “ ۔

”اے چادر اوڑھے ہوئے“۔

یَااَیُّهَاالْمُدَثِّر ُ“ ۔

”اے کملی میں لپٹے ہوئے“۔

معلوم ہوتا ہے کہ ذات اتنی محبوب ہے کہ محب کی نظر ان کے لباس پر بھی پڑ گئی۔

اس نے خود ان کی تعظیم کیلئے یہ انداز اختیار کیا تو کوئی دوسرا تعظیم کرے گا تو اُسے ناپسند کیونکر ہوسکتا ہے؟ قیام اگر کوئی کرتا ہے تو وہ وہی کام انجام دے رہا ہے جو اللہ کا پسند ہے۔ ہاں! یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ جگہ کی کیا خصوصیت ہے، جب بھی رسول کا ذکر آئے تو کھڑے ہوں۔ یہ چند جگہ کیوں؟ اس کیلئے بعض چیزیں ہیں جو پرانے زمانہ میں نظر سے نہیں گزری تھیں۔ ذہن میں مثال نہیں آتی تھی۔

بینک میں ایک دن گئے، دیکھا کہ بینک کھلا ہوا ہے، سب لوگ ہیں مگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں، کام کچھ نہیں کررہے ۔ہم نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ بینک تو کھلا ہوا ہے مگر کام نہیں ہو رہا؟ انہوں نے کہا کہ آج ہڑتا ل ہے۔ دوسرے دن گئے، دیکھا کام ہو رہا ہے، ہم نے کہا کہ ہڑتال ختم ہوگئی؟انہوں نے کہا: جی! وہ بس کل کی علامتی ہڑتال تھی، اصل ہڑتال کل ہوگی۔

آج کہتے ہیں کہ آپ کو رسول کی تعظیم کا حکم ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہر دفعہ کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟ میں کہتا ہوں کہ یہ ہمارا قیام اصل تعظیم نہیں بلکہ علامتی ہے، اپنے جذبہ کا اظہار ہے، وہ ہماری عملی کوتاہی ہے یا مجبوری ہے کہ ہر دفعہ نہیں کھڑے ہوسکتے۔

تو اب ایک دفعہ ہم نے جو عمل کیا ہے، اس سے آپ کو خوش ہونا چاہئے، نہ یہ کہ آپ بدعت بدعت کی آوازیں بلند کردیتے ہیں۔جب اصل عمل تعظیم رسول خدا کو پسند ہے تو وہ جس شکل میں ہو، جس صورت میں ہو، وہ قابلِ تائید سمجھا جائے گا ، نہ کہ قابلِ مخالفت۔ اس کو سنت ہی سمجھنا پڑے گا ، نہ کہ بدعت۔

اس کے بعد میلادوں سے بڑھ کر سوال پہنچتا ہے ہماری مجالس تک۔یہ عجیب بات ہے کہ کسی سلسلہ میں کوئی اجتماع ہو، وہاں چاہے جو ہو، اس پر کبھی سنت بدعت کی بحثیں نہیں ہوتیں۔ جب یہ رسول اور آلِ رسول ہی کے بارے میں ہو تو یہ مباحث ہوتی ہیں۔لغت کے اعتبار سے تو محفل، مجلس سب کے معنی اجتماع کے ہیں۔ اس لئے ریڈیو پر بھی مجلس ہی ہوتی ہے، محفل سماع بھی ہوتی ہے مگر ہمارے محاورے کے مطابق ذکر فضائل جب ہو تو اُسے محفل کہتے ہیں اور جب آخر میں ذکر مصائب ہو تو اسے مجلس کہتے ہیں، ورنہ لغت کے اعتبار سے ہر محفل مجلس ہے اور ہر مجلس محفل ہے۔ مگر طریقہ استعمالِ الفاظ میں یہ امتیاز ہوگیا ہے۔ محفل اور مجلس جو ہوتی ہے، اس میں کیا ہوتا ہے؟ کام دیکھئے کہ کیا ہورہا ہے؟

ہم دیکھتے ہیں کہ محفل میں بھی کچھ خاص ہستیوں کا ذکر ہوتا ہے، حالانکہ اب جو معیار ہے محفل یا مجلس کا، وہ کچھ خاص ہستیوں ہی سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ خدا سے لے کر قیامت تک ہر چیز کا بیان ہوتا ہے۔اس ذکر کی بدولت ہوجاتا ہے۔یہ دینیات کا بڑا مدرسہ بن گیا ہے ، یہ محفلیں یا مجالس ایک مدرسہ ہیں۔ یہاں بہرحال سب کا ذکر ہوتا ہے لیکن کوئی شبہ نہیں کہ نقطہ مرکزی کچھ ہستیاں ہیں آلِ رسول کی۔ محفلوں میں بھی رسول تا آلِ رسول۔

کون کہتا ہے کہ ہم رسول کی مجلس نہیں کرتے؟ تو رسول اور آلِ رسول کے بیانِ فضائل اور بیانِ مصائب سے زیادہ تر مجلس تشکیل پاتی ہے۔اب بس یہ دیکھ لیجئے کہ ان ہستیوں کا ذکر خدا و رسول کو مطلوب ہے یا نہیں۔ ذکر ان کا جس شکل میں اس وقت ہوتا تھا اور اس وقت ہوتا ہے، یہ نہ دیکھئے بلکہ یہ دیکھئے کہ ذکر ہے یا نہیں کیونکہ کونسا ہمارا کام ہے جو بالکل اسی شکل سے ہوتا ہو؟یہ دیکھئے کہ ذکر فضائل و مصائب جو معیارِ محفل و مجلس ہے، وہ مطلوبِ خدا و رسول ہے یا نہیں؟

ذکر رسول کے لئے تو میں نے کہہ دیا ، قرآن مجید کی آیت پیش کردی۔ اب ذکر آلِ رسول؟آلِ رسول جو ہستیاں ہیں، انہیں دیکھ لیجئے کہ رسول نے ان کا ذکر کیا یا نہیں کیا؟ پیغمبر خدا نے طرح طرح سے ان کا تذکرہ فرمایا یا نہیں؟ احادیث متفق علیہ ہیں۔ ذکر رسول ان حضرات کیلئے متفق علیہ ہے۔ بس نگاہ کا پھیر ہے۔ بعض ان کو یہ کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کیلئے یہ فرمایا، اپنی بیٹی کیلئے یہ فرمایا، اپنے نواسوں کیلئے یوں اظہارِ محبت فرمایا۔

میں کہتا ہوں کہ باتیں تو بڑی معصوم ہیں، بالکل سچی ہیں۔ جو بیٹی ہے، وہ غیر تو نہیں ہوسکتی، جو بھائی ہے یا داماد ہے، وہ غیر تو نہیں ہوسکتا۔ جو نواسے ہیں، وہ ہیں تو نواسے ہی۔ مگر بس یہ ذرا نگاہ کاپھیر ہے کہ رسول جو فضائل بیان فرماتے تھے، وہ کیا اس لئے کہ یہ بیٹی یا داماد یا نواسے ہیں ؟ یا رسول اس لئے بیان فرماتے تھے کہ وہ ہستیاں ایسی ہیں کہ جن کے فضائل کوبیان کرنا چاہئے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ یہ تقاضائے بشریت تھا یا تقاضائے رسالت تھا؟

ظاہر ہے احادیث تو بے شمار ہیں ان حضرات کے تذکرے میں، ان سب کو کہاں بیان کرسکتا ہوں۔ چند چیزوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں ہر صاحب کی کہ ذرا غور کریں کہ بحیثیت اپنے رشتے کے حضرت یہ باتیں فرمابھی سکتے تھے یا نہیں؟ مسلمان تو رسول کو اس درجہ پر جانتا ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی، قصہ مختصر۔مگر میں تو بہت ہی گھٹا کر لفظ پیش کرتا ہوں کہ ہمارے رسول ذمہ دار فرد تو تھے، دیکھئے! اپنے چھوٹے بھائی کو یا جسے گود میں پالا ہو، بنظر محبت جان و روح کہہ سکتے ہیں، بنظر محبت لخت جگر کہہ سکتے ہیں،بنظر محبت میوئہ دل کہہ سکتے ہیں مگر اپنے چچازاد بھائی کو شہر علم کا در کہتے ہیں۔

رسول کی شان کو محفوظ رکھتے ہوئے بتائیے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ چھوٹے بھائی کو اپنے گھر کی رونق کہہ دیں، وہ بالکل صحیح ہے مگر جنت کا سردار کہہ دیں اپنے بچوں کو یا انہیں کہہ دیں کہ یہ جنت و نار کے تقسیم کرنے والے ہیں یا بیٹی کو کہہ دیں کہ یہ جنت کی خاتون ہے!

صحیح بخاری میں نہایت اختصار کے ساتھ تین احادیث ہیں، ان میں سے ایک ہے:

سَیَّدَة نِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّة “۔

کہ یہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ اس سے تمام مسلمانوں میں بلا تفریق محاورہ ہو گیا، خاتونِ جنت۔ یہ پیغمبر خدا کی حدیث کا مفہوم ہے۔

سَیَّدَة نِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّة “۔

اب ہر صاحب عقل مسلمان جو بشریت اور رسالت میں حد فاصل بھی قائم رکھتا ہو، مجھے اس سے سوال یہ کرنا ہے کہ جنت کے بارے میں جو کہا جائے گا، وہ بشر کے اعتبار سے کہا جائے گا یا رسول کے اعتبار سے؟

یعنی ان ہستیوں کے بارے میں کوئی بات جنت سے ادھر ٹھہرتی ہی نہیں۔ بیٹی ہے تو وہ سردارِ زنانِ جنت ہے، نواسے ہیں تو وہ سردارِ جوانانِ جنت ہیں اور جو داماد ہے، وہ:

قَسِیْمُ النَّارِوَالْجَنَّة

ہے۔ کوئی بات جنت سے اِدھر نہیں رُکتی۔اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی بات رسول بحیثیت بشر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ بحیثیت رسول کہہ رہے ہیں۔

سَیَّدَاشَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّة “۔

بلاغت رسول کو مد نظر رکھتے ہوئے کہئے کہ یہ حالیہ عمر کے اعتبار سے کہہ رہے ہیں۔ تو کیا جنت کے بچوں کا سردار کہنا چاہئے؟ بچوں کو جوانانِ جنت کا سردار کہہ رہے ہیں رسول، ان کا سن دیکھ رہے ہیں کہ یہ بچے ہیں اور رسول فرمارہے ہیں کہ جوانانِ جنت کا سردار۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں والی جوانی پیش نظر نہیں ہے ، وہاں والی جوانی پیش نظر ہے۔

جناب! یہاں والی عمریں نہ دیکھئے کہ کون بچہ ہے ، کون جوان ہے، کون بوڑھا ہے! وہاں رسول نے کہہ دیا کہ سب جوان ہوں گے، بوڑھوں کا بوڑھے ہوتے ہوئے گزر ہی نہیں ہے۔اب جناب جو جنّتی ہے، اس کے سردار ہیں، چاہے اس وقت بچہ ہو ، چاہے جوان ہو، چاہے بوڑھا ہو۔

اب جب ان کا ذکر پیغمبر خدا برابر فرمارہے ہیں تو وہ ذکر جس طرح سے بھی ہو، عبادت ہی ہوگا، سنت ہوگا، بدعت نہیں ہوسکتا۔یہ نہ دیکھئے کہ اُس وقت دس آدمیوں کے سامنے رسول فرما رہے تھے۔اب فرض کیجئے کہ ایک ہزار آدمیوں کے سامنے ذکر ہو رہا ہے تو جب نمازِ جماعت میں شرکاء کی تعداد اسے بدعت نہیں بناتی تو محفل ذکر میں شرکت کرنے والوں کی کثرت اِس ذکر کو کیونکر بدعت بنا دے گی؟

یہ تو ذکر فضائل تھا اور اب ذکر مصائب کے بارے میں یہ سوال ہے کہ ذکر مصائب رسول نے فرمایا یا نہیں؟ جس وقت سے بچہ گود میں لاکر دیا گیا، اُسی وقت پیغمبر خدا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ کسی نے کہا: یا رسول اللہ! یہ تو خوش ہونے کا موقعہ ہے،آپ رو رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تمہیں معلوم نہیں کہ اس پر کیا مصائب گزریں گے؟

مجھے معلوم ہے کہ گریہ کے مقابلہ میں کیا کیا سوال ہوتے ہیں۔ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ زندئہ جاویدکو کیوں روتے ہو؟ میں کہتا ہوں کہ اس وقت دنیا رسول سے پوچھے کہ زندہ کو کیوں رو رہے ہو؟ ارے! وہ شہداء کی زندگی تو عالمِ معنی کی زندگی ہے۔اس وقت تو حسین جیتی جاگتی زندگی کے ساتھ ، سانس لیتی ہوئی زندگی کے ساتھ پیغمبر خدا کی گود میں موجود تھے اور پھر رسول گریہ فرما رہے تھے۔

اب تو دنیا کو سمجھنا چاہئے کہ فقط موت پر گریہ نہیں ہوتا ہے ، مصائب پر بھی گریہ ہوتا ہے۔ اگر رسول کو اُس زندگی میں رونے کا حق تھا تو ہمیں اِس زندگی میں رونے کا حق ہے۔

یہ تو ایک مرتبہ ہے ولادت کے بعد۔ اس کے بعد بار بار مختلف مواقع پر اس کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ ایک دفعہ ذکر ہوجاتا تو معلوم ہوجاتا۔ یہ بار بار کیا ہے؟ یہی کہی ہوئی باتوں کو دُہرانا ، یہی مجالس کا موقف ہے، یہاں تک کہ اُمِ سلمہ سے روایت ہے اوروہ صحاحِ ستّہ میں ہے۔صحیح ترمذی میں روایت ہے جنابِ اُمِ سلمہ کی۔ یہ روایت اتنی مقبول ہے کہ شاہ عبدالعزیز دہلوی، جو تحفہ اثناء عشریہ کے مصنف ہیں، ان سے پوچھا کہ روزِ عاشور آپ کا عمل کیا ہوتا ہے؟

فتاویٰ عزیزیہ میں مطبوعہ شکل میں موجود ہے، انہوں نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میرا عمل یہ ہے کہ عصر کے وقت میرے احباب اور معتقدین میرے ہاں جمع ہوتے ہیں اور الفاظ یہ ہیں کہ فقیر منبر پر جاتا ہے۔ یعنی میں منبر پر جاتا ہوں اور وہ احادیث جو فضائل حسنین میں ہیں، وہ بیان کرتا ہوں جیسے خبر اُمِ سلمہ، اُسے بیان کرتا ہوں اور پھر حالاتِ شہادت بیان کرتا ہوں۔ پھر کچھ مرثیے جو جنات کے تھے، کچھ مرثیے جن کے پڑھنے والے نظر نہیں آتے تھے، اور خواتین بنی ہاشم نے سنے ہیں، وہ مرثیے ان کتابوں میں درج ہیں، وہ مرثیے بھی پڑھتا ہوں۔ اس وقت لازماً فقیر پر بھی گریہ طاری ہوتا ہے۔جوحاضرین ہیں، وہ سب بھی گریہ کرتے ہیں۔

یہ ہے خبر روایت اُمِ سلمہ کہ حضرت پیغمبر خدا آئے اور ایک حجرے کی طرف تشریف لے جانے لگے اور یہ فرمایا: اُمِ سلمہ! وحی نازل ہونے والی ہے، میں جارہا ہوں۔ کوئی میرے پاس نہ آئے۔ آپ تشریف لے گئے اور دروازہ بند کرلیا۔ جنابِ اُمِ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ تھوڑی دیر میں حسین آئے، چاروں طرف دیکھا اور پوچھاکہ جد بزرگوار کہاں ہیں؟

جنابِ اُمِ سلمہ نے جو واقعہ تھا، وہ بیان کیا کہ حجرہ میں تشریف لے گئے ہیں اور فرما گئے ہیں کہ کوئی میرے پاس نہ آئے۔ اس کے بعد جو الفاظ میری سمجھ میں آتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ انہوں نے یہ کہا۔ تو حسین نے یہ کہا کہ ہمیں منع فرمایا ہے؟

بہرحال کچھ ایسا کہا کہ پیغمبر نے آواز سن لی ، ارشاد فرمایا کہ حسین کو آنے دو۔حجرے میں داخل ہوئے، دروازہ بند کرلیا گیا۔ کچھ دیر میں جنابِ اُمِ سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ رسول گریہ فرمارہے ہیں۔ہر صاحب عقل غور کرے کہ رسول حجرے کے اندر ہیں، اُمِ سلمہ حجرہ کے باہر ہیں۔ جو کمرہ سے باہر ہو، وہ صرف آنسوؤں کا گریہ محسوس نہیں کرسکتا۔ ماننا پڑے گا کہ صدائے گریہ تھی۔ اب جیسے انہیں تاب نہ رہی ، وہ دروازے پر آئیں اور کہا: کیا میں حاضر ہوسکتی ہوں؟

حضرت نے فرمایا:اب آسکتی ہو، وحی اُتر چکی ہے۔

اُمِ سلمہ آئیں۔ یہ سب صحیح ترمذی میں ہے کہ دیکھا کہ شہزادہ پیغمبر کے سینہ مبارک پر ہے اور ہاتھ میں رسول کے کوئی چیز ہے اور آپ زاروقطار گریہ فرمارہے ہیں۔ انہوں نے سبب پوچھا تو ارشاد فرمایا کہ میرا بچہ جو آیا اور میرے سینے سے لگا ، میرے دل کو بڑا سکون ملا تو ایک مَلک آیا۔(اب یہ بعد میں پتہ چلے گا کہ مَلک کیوں آیا)۔

تو مَلک آیا اور کہا کہ کیا آپ اس بچے کو جانتے ہیں؟ میں اب بتاؤں کہ مَلک کیوں آیا؟ میں کہتا ہوں کہ وقت ولادتِ حسین سے ذکر ہوچکا تھا ، اطلاع دینے تو نہیں آیا، بس اگر پہلے ذکر نہ ہوا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ مَلک آیا ہے واقعہ کربلا کی اطلاع دینے ۔ مگر جب وقت ولادت حسین پر پیغمبر خدا خود اس کی خبر دے چکے ہوں تو اب یہ مَلک اطلاع دینے تو آیا نہیں۔

تو اب میری سمجھ میں آتا ہے ، وہ یہی ہے کہ یہ مَلک مجلس حسین برپا کرنے آیا ہے کیونکہ مجلس کی حقیقت یہی ہے کہ بیان کئے ہوئے واقعات دُہرائے جاتے ہیں، اُس واقعہ کی یاد تازہ کرنے کیلئے۔یہ مجلس حسین برپا کرنے آیا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ یہ حقیقت میں نہیں ہے بلکہ مجلس کی تمہید ہے۔ جیسے ہمارے ہاں ذکر فضائل ہوتا ہے، پھر ربط مصائب ہوتاہے۔ ویسے ہی یہ تمہید مجلس ہے۔

آپ اس بچے کو بہت چاہتے ہیں؟ پیغمبر خدا فرماتے ہیں: خدا گواہ ہے کہ کتنا چاہتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر نانا نواسے کو چاہتے ہیں تو اس میں خدا کو گواہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی فریضہ رسالت ہے کہ پیغمبر اللہ کو گواہ کرکے کہہ رہے ہیں کہ اللہ جانتا ہے کہ میں کتنا چاہتا ہوں۔

اب تمہید ختم ہوئی، ربط مصائب۔مَلک کہتا ہے کہ یہی بیٹا جو ہے، یہی آپ کا فرزند۔ یہ آپ کے دین کی خاطر قربان ہوگا۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40