معراج خطابت

معراج خطابت5%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69380 / ڈاؤنلوڈ: 7086
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نام کتاب: مجالس خطیب اعظم(حصہ اول)۔
مؤلف :  مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ خطیب۔
موضوع: مجالس،
مجموعہ مجالس خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری (طاب ثراہ خطیب)
کے کتاب کی مکمل تفصیل کے علاوہ مجالس عزاء کے مختلف کتب کی مکمل سیٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔


http://alhassanain.org/urdu/?com=book&view=category&id=۸۴


1

2

3

4

5

6

7

8

وسیلہ اور شفاعت

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

(( وَابْتَغُوْااِلَیْهِ الْوَسِیْلَة ) ) ۔

اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ تلاش کرو۔ کل اس پہلو کو عرض کیا کہ اس کی بارگاہ میں وسیلہ ایمان اور عملِ صالح ہے۔ اس وسیلہ کے بارے میں جو اکثریت ہے یا جو اقلیت ہے، مسلمانوں کا کوئی بھی مکتب خیال ہے، اسے اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اس وسیلہ کے لفظ سے ایک چیز ہے جس کا نام ہے توسّل۔ اس توسّل کے معنی ہوتے ہیں، مثلاً پیغمبر خدا بلاتفریق فرقہ تمام مسلمانوں کیلئے متبرک ہیں اور پھر آلِ طاہرین ہمارے لئے۔ ایک طبقہ مسلمانوں ہی کا جو پیغمبر خدا سے توسّل کا قائل ہے، وہ خصوصیت کے ساتھ اس تصور کو نہ رکھتا ہو جو ہمارے آئمہ طاہرین کے بارے میں ہے مگر وہ دوسرے الفاظ میں اولیاء اور مقربین بارگاہِ الٰہی سے توسل کا قائل ہے۔ اس عنوان کے تحت وہ ہمارے ساتھ آئمہ طاہرین کے بارے میں بھی توسّل کا قائل ہوجائے گا۔ اس منصب کے لحاظ سے نہیں جس کے ہم قائل ہیں لیکن اس عام عنوان کے تحت کہ مقربین بارگاہِ الٰہی ایسی ہستیاں ہیں کہ اصطلاحی حیثیت سے کوئی اس عہدہ کا قائل ہو یا نہ ہو لیکن مقربِ الٰہی ہونے میں کسی کو شک نہیں۔

اس لئے جو پیغمبر خدا سے توسّل کا قائل ہوگا، وہ لازماً اس نقطہ پر بھی ہمارے ساتھ شریک ہوگا کہ ایک طبقہ جس کا اصل مرکز نجد میں تھا اور اس کے بعد اس کی حدود بڑھ کو پورے حجاز پر چھائیں اور بالواسطہ تمام دنیا پر دولت کی بنیاد پر اس کے اثرات پہنچ رہے ہیں، وہ اس کا مخالف ہے۔ اس کا مسلک یہ ہے کہ توسّل کرنا ان معنی سے کہ دعا میں رسول کو واسطہ قرار دینا اور طلب حاجت میں ان کی بارگاہ میں جاکر یہ سمجھنا کہ(روضہ پر) پہنچنے سے اور دعا کرنے سے ہماری حاجت پوری ہوگی، یہ سب وہ کہتے ہیں کہ شرک ہے اور وہ ایسا شرک نہیں جو خفی ہو۔ ایک بلند معنی کے لحاظ سے ریاکاری بھی شرک کہلاتی ہے۔ مگر وہ شرکِ خفی ہے۔ یہ شرک ان کے نزدیک ایسا شرکِ جلی ہے کہ اپنی جماعت کے سوا تمام دنیا کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔چاہے بتقاضائے سیاست ان کی آواز میں دھیما پن پیدا ہواہو لیکن اصل مسلک ان کا یہی ہے کہ ان کی جان بھی مباح یعنی جان کا بھی احترام کوئی نہیں اور تمام مسلمانانِ عالم کا جان و مال محترم نہیں ہے۔

ان کا قتل کرنا بھی جائز، مال لوٹنا بھی جائز۔ یہاں تک کہ ان کی عورتوں کو کنیز بنانا بھی جائز۔ یعنی جو مشرکین کے احکام ہیںِ وہی تمام دنیا کے مسلمانوں کے احکام ان کے نزدیک ہیں۔ اس بناء پر کہ وہ توسّل کے قائل اور اس پر عامل ہیں۔ توسّل ان کے نزدیک ویسا ہی شرک ہے جیسا مشرکین مکہ لات و منات کی پرستش کرتے تھے۔ چونکہ ان حضرات کے روضے توسل کا مرکز ہیں، اس لئے سب روضوں کو وہ اصنام سمجھتے ہیں، بت سمجھتے ہیں اور ان کی زبان میں روضہ رسول سب سے بڑا بت ہے۔صنمِ اکبر۔ مگر اتنے طویل عرصہ میں تقیہ سے کام لے کر اس کو باقی رکھا ہے۔ آج اس چیز کا بیان ہے جسے وہ شرک قرار دیتے ہیں اور اسے ہم عبادتِ الٰہی سمجھتے ہیں۔ اسی توسّل کے تحت حقیقت میں مسئلہ شفاعت بھی ہے۔ بلاواسطہ اللہ سب کام کردیتا ہے تو آخر کسی کو اُسے شفیع قرار دینے کی ضرورت کیا ہے؟

چنانچہ ایک رحجان یہ ہے کہ شفاعت کا تصور غلط ہے۔ اس کیلئے قرآن مجید کی آیتیں پیش کی جاتی ہیں کہ:

( لَیْسَ لَهُمْ وَلِیٌ وَلَا شَفِیْع ) ۔

ان کیلئے نہ کوئی ولی ہے نہ کوئی شفیع ہے۔

اور پھر روزِ قیامت کے ذکر میں قرآن مجید میں ہے کہ اس دن نہ تو فدیہ ہوگا، نہ شفاعت ہوگی۔ ایک وقت میں ایک صاحب نے کتاب لکھی تھی ، ان کا نقطہ نظر انکارِ شفاعت تھا۔ انہوں نے پورے قرآن سے چودہ آیتیں لکھی تھیں ، نفی شفاعت میں ایسی:

( وَا تَّقُوْایَوْمًالَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًاوَلَا یُقْبَلُ مِنْهَا شِفَاعَة ) ۔

کہیں پر

( لَا تَنْفَعُهَاشَفَاعَة ) ۔

ہے۔اس طرح چودہ آیتیں انہوں نے مسلسل لکھی تھیں۔ اس کی رد میں امامیہ مشن لکھنو سے رسالہ شائع ہوا تو اس میں مَیں نے بالکل صحیح حساب کے ساتھ ۲۸ آیتیں ثبوتِ شفاعت میں پیش کیں۔ علم غیب کے بارے میں ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر دس جگہ ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ایک جگہ قرآن نے کہہ دیا کہ ایسا نہیں ہے سوا۔ تو ادھر ایک عدد سواآیا، ایک آیت میں ادھر ، یہ سوا ان سب آیتوں میں لگ جائے گاکیونکہ اس نے بتادیا کہ وہ حکمِ عام نہیں ہے۔ اس میں خصوصیت ہے۔ تو جب یہ خصوصیت ہے تو جہاں جہاں وہ عام حکم ہے، وہ اس خاص پر محمول ہوگا کیونکہ خاص صریح ہوتا ہے اپنے مفہوم میں اور عام تو ایک اپنے الفاظ کی لپیٹ میں لیتا ہے ۔ خاص جب حکم آجائے خصوصیت کے ساتھ تو وہ ہر عام میں تخصیص پیدا کردے گا۔ جہاں جہاں شفاعت کی نفی ہے، (اُن چودہ آیتوں کا انکار نہیں) مگر اٹھائیس آیتوں میں ”اِلَّا “ موجود ہے۔ کوئی قید موجود ہے تو وہ ”اِلَّا “ اور وہ قید جاکران سب آیتوں کو مقید بنا دے گی ۔ تو وہ اٹھائیس آیتیں ثبوتِ شفاعت کی دلیل بن جائیں گی۔

اب قرآن مجید میں دیکھ لیجئے کہ کس کس طرح شفاعت کا اثبات ہوا ہے۔ کہیں ایک جماعت کے بارے میں کہا گیا:

( لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی ) ۔

وہ لوگ شفاعت نہیں کریں گے ۔ وہ سے مراد بعض فرشتوں کو قرار دیتے ہیں۔ بعض ان افرادِ انسانی کو شفیع قرار دیتے ہیں جو پیش خدا شفاعت کا حق رکھتے ہیں۔ تو وہاں یہ جملہ ہے:

( لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی ) ۔

وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر اس کی جو اللہ کو پسند ہو ۔ تو اب شفاعت نہ کرنے کے ساتھ ”اِلَّا “ آگیا تو معلوم ہوا کہ کچھ ایسے ہیں جن کی شفاعت اللہ کو پسند ہوگی۔

ایک جگہ قرآن مجید میں ہے، میں قسمیں بیان کررہا ہوں ، نمونہ کے طور پر ایک ایک آیت ایسی جس میں قید ہے ، پیش کرتا ہوں ۔ یہاں دیکھئے کہ یہاں آیا:

( لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی ) ۔

( اِلَّا ) “ آیا تو اس نے نفی میں انقلاب پیدا کرکے اس کو ثبوت بنایا۔اس کے علاوہ آپ دوسری جگہ دیکھئے کہ وہاں کوئی شفیع نہیں ۔

( مَامِنْ شَفِیْعٍ ) “۔

کوئی شفیع نہیں ہے۔ابھی تک نفی ہے۔

( اِلَّا بِاِذْنِه ) “۔

مگر اس کی اجازت سے ۔ تو اب جب”( اِلَّابِاِذْنِه ) “ آگ یا توکلی نفی شفاعت کہاں ہوا؟ ”( اِلَّابِاِذْنِه ) “ ثبوت شفاعت ک ی دلیل بن گیا۔ایک جگہ ہے کہ”( مَامِنْ حَمِیْمٍ وَلَا شَفِیْعٍ یُطَاعُ ) “، اس کے ہاں کوئی مدد گار نہیں ہے اور کوئی شفاعت کرنے والا ایسا نہیں ہے جس کی وہ اطاعت کرے۔ یعنی کوئی حکم شفاعت کرے، ایسی کوئی بالا دست طاقت نہیں ہے جو اس کو گویا مجبو رکرسکے ، ایسا کوئی شفیع نہیں ہے۔

اس کو ایک مفسر نے بڑے بلیغ انداز میں دو الفاظ میں کہا ہے کہ ایسے شفیع نہیں ہیں جن کی وہ اطاعت کرے، ایسے شفیع ہیں جن کی دعا کو وہ قبول کرے۔ کہیں یہ کہہ دیا کہ شفاعت وہاں فائدہ نہیں دے گی مگر یہ کہ ”( اِلَّالِمَنْ اَذِنَ لَه ) “ جس ک یلئے اس کا اذن ہو۔

تو اب جب اٹھائیس آیتیں اس قسم کی آگئیں کہ جس میں کہیں ”( اِلَّا ) “ کہہ کراستثنیٰ کیا گیا ہے اور کہیں شفیع میں قید لگا کر اس کے دائرے کو محدود بنایا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن نفی شفاعت کو نہیں، ثبوتِ شفاعت کو بتا تا ہے۔

اب جو تصورات نفی شفاعت میں ہیں، ہوتا یہ ہے کہ آدمی اپنے ذہن میں ایک بات طے کرتا ہے کہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے۔ پھر وہ آیتیں تلاش کرتا ہے کہ اس کی تائید میں آیتیں کونسی ہیں۔ اس لئے ایسے شخص کو چودہ آیتیں نظر آئیں، اٹھائیس آیتیں نظر نہیں آئیں کیونکہ اس نے تو اپنی جگہ یہ طے کیا تھا کہ ہمیں نفی شفاعت کرنی ہے۔ اس لئے وہ آیتیں مطلب کی نہ تھیں جن میں ثبوتِ شفاعت کا پتہ چلتا تھا۔ یہ آیتیں مطلب کی تھیں۔ یہ دلیل ہے اس کی کہ ایسے لوگوں کو قرآن کا تابع نہیں ہوناہے بلکہ قرآن کو اپنا تابع بنانا ہے۔ کسی غرض کے تحت مطالعہ قرآن ہے، اس لئے نہیں ہے کہ قرآن سے حقیقت سمجھیں۔ یہی عموماً ہوا کرتا ہے کہ ہر ایک مناظر اپنے مطلب کی آیتیں سوچ کر پیش کرتا ہے، اس لئے کہ مطلب تو اس کے ذہن میں قرآن کو دیکھے بغیر طے شدہ ہے۔ہمیں ایک جماعت کو عادل سمجھنا ہے تو اب اس کیلئے تلاش ہے دلائل کی۔بات تو ہم اپنی جگہ طے کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے کسی کی فضیلت کا انکار کرنا ہے تو وہ انکار تو جذباتی طور پر ہے لیکن قرآن سے سند کوئی پیش کرنا ہے۔یا یہ کہ طے تو یہ ہے کہ ہم کسی خاص حقدار کو وراثت نہیں دیں گے، اب اس کیلئے تلاش سے بھی آیت نہیں ملتی تو حدیث کا سہارا لیا جاتا ہے، چاہے خلافِ قرآن ہو۔

تو اب اصل دلائل نفی شفاعت کے قرآن میں نہیں ہیں بلکہ ذہن میں ان کے پاس کچھ باتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ شفاعت کا انکار کررہے ہیں۔ تو دیکھا جائے کہ اصل باتیں کیا ہیں تو یہ کہہ کر اگر وہ قابل معافی ہے تو خدا معاف کر ہی دے گا۔ بے معنی چیز ہے ، ایک صورت میں بے ضرورت ہے، ایک صورت میں بیکار ہے۔ اگر وہ قابل مغفرت ہے تو وہ بے ضرورت ہے اور اگر قابل مغفرت نہیں ہے ہے تو بیکار ہے۔ لہٰذا شفاعت کیوں ہے؟ یہ دلیل بظاہر تو عقلی حیثیت سے بہت مضبوط نظر آتی ہے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ شفاعت سے کہاں مخصوص ہے؟ یہ تو ہر دعا کی قبولیت میں ہے کیونکہ وہ کام ہونا ہے تو دعا بے ضرورت ہے ،اگر نہیں ہونا ہے تو دعا بیکار ہے۔لہٰذا دعا کیوں؟ مگر دعا کا منکر کوئی نہیں ، اس لئے کہ قرآن حکم دے رہا ہے کہ:

( فَادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) ۔

مجھ سے دعا مانگو۔ تو میں کہتا ہوں کہ شفاعت در حقیقت ایک قسم کی دعا ہے ۔ جب وہ اصل دعا کے منکر نہیں ہیں تو شفاعت کے کیونکر منکر ہوتے ہیں؟ جو مطلق دعا کی صحت کاپہلو ہوسکتا ہے، وہی شفاعت کا پہلوہوسکتا ہے۔ مگر کوئی کہے کہ یہ تو ہم پر مسلمے کا دباؤ ڈال کر منوالیا۔ اچھا! ہم کہتے ہیں کہ وہ دعا ہی کیوں؟ مطلق دعا کیوں؟ قرآن میں کیوں ہے؟ تو یہ حقیقت میں مسئلہ تقدیر سے متعلق چیز ہے اور تقدیر بڑی گہری بات ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر مطلق فیصلہ ہو ہونے کا تو بے شک دعا بیکار اور بے ضرورت اور اگر مطلق فیصلہ ہو، نہ ہونے کا تو دعا بیکار۔ وہی بات اس صورت میں بے ضرورت اور اِس صورت میں بیکار۔وہاں طے شدہ ہے کہ یہ بات ہوگی ، دعا کریں یا نہ کریں تو دعا بے ضرورت اور یہاں طے شدہ ہے کہ نہیں ہوگا تو دعا بیکار۔لیکن جب اس فاعل حکیم نے دعا کا حکم دیا ہے تو یہ کیوں نہ سمجھئے کہ کچھ مقدرات کو اس نے مشروط کیا ہے ہماری دعا سے۔ یعنی فیصلہ از اوّل یہ ہے کہ اگر دعا کرے گا تو اس طرح ہوگا اور اگر دعا نہیں کرے گا تو یہ کام نہیں ہوگا۔ اب اگر ہم نے دعا نہ کی تو اس محرومی کے ذمہ دار ہم ہوئے اور پھر غور کیجئے تو وہ دعا سے مخصوص نہیں، وہ تصور جو ہے کہ ایک صورت میں بے ضرورت اور ایک صورت میں بیکار، وہ جتنی تدابیر آپ کرتے ہیں، ان سب میں ہے۔ہر شخص اپنے مقصد کیلئے تدابیر کرتا ہے ۔تو اگر وہ ہونے والی بات ہے تو آپ کی تدابیر بے ضرورت اور اگر ہونے والی با ت نہیں ہے تو آپ کی تدبیر بیکار۔

جو بات دعا کی تھی، وہ آپ کی تدبیر میں بھی ہے اورپھر علاج ،ڈاکٹروں کو، حکیموں کوسب کو نظر اندا زکردیجئے، اس لئے کہ اچھا ہونے والا ہے تودوا بے ضرورت، اچھا ہونے والا نہیں ہے تو دوا بیکار۔ اب بحمدللہ وہ چیز ہمارے ہندوستان میں ختم ہوگئی، جب سے میں عراق سے آیا ہوں تو اس وقت پورے جاہ و جلال کے ساتھ ہمارے ملک میں اور خصوصاً یوپی میں بہت زیادہ تھا کہ لوگ کسب معاش میں یعنی تجارت وغیرہ کو ذلت سمجھتے تھے۔شرفاء فاقے کرتے تھے مگر یہ کہ محنت مزدوری یا تجارت نہیں کرتے تھے۔ بھلا میر صاحب ہوکر دوکان کریں؟یہ بہت شدت کے ساتھ تھا۔

چنانچہ وہاں سے آکر میرے جو بیانات ہوئے، وہ تین دن مدرسہ الواعظین میں تجارت اور اسلام کے موضوع پر ہوئے تھے اور وہ امامیہ مشن سے چھپے بھی تھے۔”تجارت اور اسلام“۔ تو وہ گویا افرادِ ملت میں ایک نئی چیز سمجھی گئی۔تواس میں مَیں نے عرض کیا تھا،اس میں دلائل جو تھے، ترکِ تجارت اور ترکِ ذرائعِ معاش کے، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ کسی سے کہا ارے بھئی! اس عالم میں ہو تو کچھ کرو؟ انہوں نے کہا: ہمارے مقدر میں فاقے لکھے ہیں تو پھر کیا کریں؟ مقدر میں فاقے ہیں، پھر کیا کریں؟ اور ایک مسئلہ تھاکہ اللہ رزق کا ضامن ہے تو بہرحال وہ رزق تو ہمیں ملے گا۔ پھر محنت مزدوری کرکے کیاکریں؟ایک تصور یہ اللہ کی رزاقیت کا تھا۔ ایک تصور وہی عزت و شرافت کا تھا کہ ابھی میر صاحب کہلاتے ہیں، اگر تجارت شروع کردی تو اس چیز کا نام لے کر کہا جائے گا کہ پان والے،بسکٹ والے اور مختلف چیزوں والے۔ تو گویا عزتِ خاندانی ختم ہوجائے گی۔ غرض یہ سب تصورات تھے جن کی بناء پر شرفاء بھوکے مرتے تھے اور تجارت نہیں کرتے تھے۔

میرے جو بیانا ت ہوئے، تو جناب! اب ایک لہر جیسے دوڑی کہ نئی ایک بات سامنے آئی۔لوگوں نے دوکانیں کھولنا شروع کیں ، تجارت شروع کی اور اس کے اشتہار میں لکھا کہ انہوں نے یعنی میں نے ایسے بیانات دئیے تھے، لہٰذا اس پر عمل کرنے کیلئے ہم نے یہ کاروبار شروع کیا ہے۔ تب میں نے ایک بیان میں کہا کہ اگر آپ کو تجارت کرنے کا ذوق ہوا ہے ، توفیق ملی ہے تو اُسے آپ ایک مصلحانہ شان سے کیوں کرتے ہیں؟ آپ کہئے کہ ہماری قومی ضرورت ہے۔ میرے بیان کا حوالہ دے کر گویا ایک خدمت قومی کے طور پر اُسے کرنا، اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی جگہ اُسے ذلیل کام سمجھ رہے ہیں۔

اب اس تقدیر والی بات کو اس بیان میں مَیں نے کہا کہ جناب اگر آپ اس اصول کے زندگی کے تمام شعبوں میں قائل ہوں، تو میں چاہے اس اصول کو غلط سمجھتا ہوں، لیکن آپ کو بے اصول نہیں سمجھوں گا۔ یعنی وہی کہ بیمار ہو بچہ لیکن آپ نہ جائیں ڈاکٹر کے ہاں، اس لئے کہ مقدرات میں اگر ہے اچھا ہونا تو ہوجائے گا اور اس سے آگے یہ ہے کہ مقدمہ عدالت میں ہو لیکن پیروی نہ کیجئے۔ کہئے کہ جائیداد اگر ملنی ہے تو مل ہی جائے گی۔پیروی سے کیا فائدہ؟

ایک معمولی سی بات یہ ہے کہ میرا یہ بیان آپ کو سننا تھا تو آپ اپنے گھر میں بیٹھے رہتے کہ مقدر میں سننا ہے تو سن ہی لیں گے مگر آپ نے کب سے اپنے پروگراموں کو تبدیل کیا ا س مجلس کی خاطر؟ اور کس طرح سے وقت مقررہ پر تیا رہوئے اور پھر ایک ایک قدم کی صورت میں کتنے مراحل طے کرکے اس بیان میں شرکت کی؟ تو اگر یہ سب باتیں آپ نے خلافِ عقل نہیں کیں تو طلب رزق کی کوشش کیلئے تقدیر کی سپر استعمال کرنا کہاں تک معقولیت ہے؟معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر کے آپ قائل نہیں ہیں بلکہ تقدیر کو اپنے بے عملی کا بہانہ بنا رہے ہیں۔ وہی صورت یہاں ہے کہ جناب دوا کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ یہ بیکار ہے تو دعا کرتے وقت کیوں سوچتے ہیں کہ یہ بیکار ہے؟ہونے والا ہے تو ہوگا ۔

اب میں مختصر الفاظ میں عرض کردوں کہ فلسفہ دعا کیا ہے؟ فلسفہ اس کا یہ ہے کہ خالق کی مشیت صرف ایک حاکم کی تو ہے نہیں کہ اس کو غرض تعلیم احکام سے ہو ، اس لئے وہ ایک فہرست احکام سنا دے اور اس کے بعد مخالفت کرو گے تو سزا دی جائے گی۔ اس کی حیثیت وہ بھی ہے جو ناقص درجہ پر ایک باپ کی اپنی اولاد کے ساتھ ہوتی ہے۔ تو باپ کی یہ شان نہیں ہوگی کہ وہ بس آرڈر دے دے اور پھر بے فکر ہوجائے کہ اگر خلاف کرے گا تو سزا دیں گے۔ جی نہیں! وہ حکم بھی دیتا ہے اور جیسے اس کے دل کو لگی ہوتی ہے کہ یہ اس پر عمل کرے۔ لہٰذا وہ محرکاتِ عمل مہیا کرتا ہے اپنی طرف سے۔ ورنہ اگر یہ نہ ہوتا تو ثواب اور عذاب کے اعلانات بھی نہ ہوتے۔ خصوصاً ثواب کے اعلانات تو ہوتے ہی نہیں۔ لیکن وہ تو چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے یہ اطاعت گزار ہیں کیونکہ اولاد میں بھی طبیعت الگ الگ ہوتی ہے۔ کوئی بچہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر اس کو کہا جائے کہ یہ چیز تم کو دیں گے تو ہو چڑ جائے گا، اُس کی خودداری کے خلاف ہوگا۔ کوئی ایسا ہوگا کہ اس سے سزا کا ذکر کیجئے تو وہ بُرا مانے گا۔ اُسے کد ہوجائے گی۔ تو باپ اگر دانش مند ہے تو بچوں کی طبیعت کے لحاظ سے جسے دیکھے گا کہ کڑے تیوروں سے متاثر ہوگا، اُس کیلئے سزا کا

اعلان کرے گاکہ اگر تم نے یہ کیا تو مار کھاؤ گے۔ جسے بلند نظر پائے گا، اس کیلئے نہ ثواب کہے گا ، نہ عذاب کہے گا۔ کہے گا کہ ہم تم سے خوش ہوں گے ۔ تو وہ محرکاتِ عمل بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ یادِ الٰہی اس کی اپنی غرض کیلئے تو ہے نہیں۔ ہم یاد کریں گے تو اس کا کیا فائدہ؟ اگر ہم بھولے رہیں گے تو اس کا کیا نقصان؟ یہ یادِ الٰہی ہماری تعمیر حال و مستقبل کیلئے اکسیر ہے کہ اس کی وجہ سے ہم ہیں۔احساسِ فرض پیدا ہوتا ہے ۔اس کی وجہ سے ہم برائیوں سے بچتے ہیں۔ تو یادِ الٰہی کا اس نے حکم اپنے فائدہ کیلئے نہیں دیا ہے، ہماری تعمیر حیات کیلئے دیا ہے۔

تو اب اس نے محرکاتِ عمل پیدا کئے ہیں خدا کو یاد کرنے کے۔ لہٰذا ا سکی ایک تجویز یہ تھی ، ایک صورت یہ تھی ، ایک ترکیب یہ تھی کہ دنیاوی ضرورتوں کو ہم اس کی دعا کے ساتھ وابستہ کردیں تاکہ اپنی دنیا کی تعمیر کیلئے بھی ہمیں نہ بھولے۔

کسی شاعر نے طنزیہ طور پر یہ کہا ہے۔ جناب اُمید لکھنوی کا شعر ہے ، ایک طنز ہے عبادت گزاروں پر، اپنے اوپر رکھ کر کہا ہے:

گر پڑھی بھی کبھی ہم نے تو نمازِ حاجت اپنے مطلب کیلئے یادِ خدا بھی آئی

ایک اور شعر یاد آگیا:

گلشن دہر کی ہر شے سببِ حسرت ہے

ہاتھ ملوانے کو دنیا میں حنا بھی آئی

دردِ عصیاں جو تھا عارض تو دوا بھی آئی

قبر میں ساتھ میرے خاکِ شفا بھی آئی

انہوں نے تو طنزیہ طور پر یہ تحریر فرماے مگر میں کہتا ہوں کہ درحقیقت اسی لئے تو دعا کاحکم دیا گیا ہے کہ اپنے مطلب کیلئے ہی سہی، ہماری یاد تو آئے۔ وہ تو ہمارے آئمہ نے تمثیلی طور پر اس کیلئے ایک واقعہ بھی نقل فرمایا ہے کہ ایک بندہ کبھی سجدہ ہی نہیں کرتا تھا۔ ملائکہ اس کی بداعمالی پر گویا بارگاہِ الٰہی میں فریادی ہوئے کہ خداوندا! یہ تیرا بندہ، تیری طرف سے برابر اس کو رزق مل رہا ہے اور یہ کبھی تجھے یاد نہیں کرتا تو ارشادِ قدرت ہوا کہ ہاں ٹھیک ہے، مگر ایک جزو ذرا ا س کے نظامِ حیات کا بدل دو، ایک رگ کا نظام بدل دو۔ اب جو تکلیف ہوئی تو سر سجدہ میں رکھ کر اس نے کہا یارب!تو صدائے قدرت آئی کہ ارے میں تو مدت سے منتظر تھا کہ تو مجھے پکارے۔

تو دعا کا فلسفہ یہ ہے اور مقصد دعا ایسا عظیم ہے کہ جس میں ذرا سا بھی کلام ،دو حرفی کلام بھی ہوتو وہ مبطل نماز ہوجائے اور دعا ہر محل پر ہوسکتی ہے۔ ایک تو جگہ مقرر کردی گئی قنوت میں جو جمہورِ اُمت کے ہاں نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ہے تو وہ قنوت دعا کا محل خاص ہے اور اس کے بعد کلیةً کسی مقام پر بھی کلام کرنا ناجائز مگر یہ کہ دعا ہر محل پر جائز ہے۔ ہر جگہ پر دعا صحیح ہے اور دعا نہ کرنے والوں کی مذمت میں قرآن میں کہا گیا:

( اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ ) ۔

جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیںِ گھمنڈ سے کام لیتے ہیں ، میری عبادت کے مقابلہ میں، تو معصومین نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں عبادت سے مراد وہ دعا ہے کہ جیسے اپنی کسر شان سمجھتے ہیں، اللہ کی بارگاہ میں التجاکرنے کو، تو ان کیلئے کہا گیا کہ ان کیلئے جہنم ہے جو تکبر کرتے ہیں میری عبادت سے۔معصوم نے فرمایا ہے:

اَلدُّعَااَفْضَلُ الْعِبَادَة “۔

دعا عبادات میں سب سے افضل ہے۔ اور ایک حاضر نے معصوم سے سوال کیا کہ دو شخص مسجد میں داخل ہوئے، ایک شخص نے کثرت کے ساتھ نمازیں پڑھیں ، ایک نے کثرت کے ساتھ دعائیں مانگیں تواس میں سے کس کا عمل افضل ہے؟ حضرت نے پہلے مجملاً فرمایا کہ اس کا عمل بھی ٹھیک ہے ، اُس کا عمل بھی ٹھیک ہے۔ اُس نے کہا کہ ٹھیک ہونے کو میں پہچانتا ہوں، میں تو افضل کو پوچھ رہا ہوں کہ ان میں افض کون ہے؟ تو حضرت نے فرمایا کہ وہ جس نے دعائیں زیادہ مانگیں، وہ خدا کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ نماز بقدرِ ضرورت پڑھ لی، واجب ادا کرنا تھا، کرلیا، پھر دعائیں مانگیں۔تو اس کی فضیلت زیادہ ہے۔

تو اب جب دعا کرنا ہی ہے بارگاہِ الٰہی میں تو اگر وہ ہستیاں کسی دوسرے کی مغفرت کیلئے دعا مانگیں تو اسی کا نام شفاعت ہے۔

تو آپ کسی دعا میں نہیں سوچتے کہ دعا میں کیا فائدہ اور وہاں شفاعت میں سوچ رہے ہیں کہ شفاعت کرنے سے کیا فائدہ؟ایک صورت میں ضرورت کیا اور ایک صورت میں حاجت کیا؟ وہ جو ایک تصو رتھا جس کو عرض کیا، دوسری بات یہ کہ ایک تصور ہے کہ شفیع کے معنی ہیں فرد ایک اور شفیع دو۔ اسی وجہ سے نمازِ شب میں آٹھ رکعات تو نمازِ شب کہلاتی ہے او ردو رکعات جو ہوتی ہیں، وہ شفعِ نماز کہلاتی ہیںَ تو شفع کے معنی دو۔ جیسے طاق اور جفت اور ایک وتر ہے یعنی اکیلی نماز ۔اس کے بعد قرآن مجید میں”وَالشَّفِعْ وَالْوِتْرِ “م یں قسم دو کی اور ایک کی۔ اب ایسی ہی چیزیں ہیں جہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کافی ہے قرآن ، تو سمجھئے کہ دو کون ہے اور ایک کون ہے؟

غرض اب تصور یہ ہے کہ اسے آپ کہہ رہے ہیں شفیع، اور شفع کے معنی وہ جو دوسرا ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خد اکے مقابلہ میں وہ گویا مد مقابل ہے، اس لئے شرک ہے۔ اس میں تصورِ شرک یوں پیدا ہوا کہ یہ خدا کا دوسرا ہے۔ تو جو اصل بنیاد ہے، لغوی مفہوم کی، وہ مسلّم۔ بے شک شفع کے معنی دو ہوے ہیں اور شفیع یعنی دوسریا۔ مگر ذرا عقل سے کام لیجئے ، کس کا دوسرا ہے، حقیقت میں اس صاحب حاجت کا دوسرا ہے کہ ابھی تک وہ ایک کی حاجت تھی ، اب دو کی ہوگئی۔ اس لئے شفاعت شرک نہیں بلکہ شرک شکن ہے۔

ان وجوہ کی بناء پر شفاعت کا انکار غلط۔ قرآن میں صراحتاً شفاعت کاثبوت ہے اور”شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْنَ “آپ کا ایک لقب ہے مستند احادیث کی رو سے۔لہٰذا کسی کے بارے میں وہ شفاعت کاانکار کریں مگر بربنائے حدیث صحاح پیغمبر کو شفیع مانیں۔پھر یہ بھی ایک صورت ہے کہ وہ شفاعت کو شرک قرار نہیں دیتے بلکہ توسّل کو شرک قرار دیتے ہیں۔ وہاں بھی ذرا لفظی بحث کرتے ہیں کہ ان سے نہ کہو کہ آپ ہماری شفاعت کیجئے بلکہ اللہ سے کہو کہ ان کو ہمارا شفیع بنا دے۔ یعنی یوں ناک نہ پکڑو، یوں پکڑو۔ ان سے نہ کہو کہ آپ شفاعت کیجئے ، اللہ سے کہو کہ ان کو ہمارا شفیع بنا دے۔تو اگر شفاعت کرنا ان کا شرک ہے تو خدا سے کہنا کہ اپنا تو شریک قرار دے۔ یعنی اگر وہ غلط ہے تو یہ تمنا بھی غلط ہے۔غرض یہ کہ شفاعت کے متعلق وہ منکر نہیں ہوسکتے۔ مجبوری ہے ،قرآن میں ہے۔ احادیث صحاح میں بھی ہے۔قرآن میں کچھ

ترکیب ہوجاتی ہے لیکن صحاح کو کیا کیا جائے کہ بخاری اور مسلم میں شفاعت کاذکر موجود ہے۔

اُوْتِیْتُ الشَّفَاعَة “۔

مجھ کو شفاعت کا درجہ حاصل ہوا ہے۔

قرآن مجید کی آیت ہے ،اس کی بھی تفسیر شفاعت کے ساتھ ہے کہ وہ مقامِ محمود جس پر اللہ نے کہا ہے کہ ہم نے آپ کو فائز کیاہے، وہ شفاعت کا درجہ ہے۔ تو اب یہ تو مجبوری ہے ، شفاعت کا انکار نہیں ہوسکتا۔لیکن توسّل کا انکار ہے یعنی ان کے ذریعہ سے دعا مانگنا اور ان کو واسطہ قرار دینا کہ تجھے واسطہ ہے محمد و آلِ محمد کا۔اس طرح سے توسّل کرنا یا ان کے روضوں پر جاکر دعا مانگنا۔یہ سب جو ہے، وہ شرک ہے۔

تمام دنیا کے مسلمان واجب القتل ہیں ان باتوں کی وجہ سے۔ لیکن اب میں کہتا ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ رسول کے پاس جاکر یا کسی روضہ پر جاکر دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ دعا مانگنی ہے تو اللہ سے مانگ لو۔ تو اب قرآن مجید کی آیت پڑھتا ہوں۔ قرآن مجید کی آیت ہے جس میں راوی کا کوئی سوال نہیں ہے، قرآن کہہ رہا ہے کہ ایسا کیوں نہ ہواکہ:

( اِذْظَلَمُوْااَنْفُسَهُمْ ) ۔

جبکہ انہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا۔

اصطلاحِ قرآنی میں اپنے نفس پر ظلم کرنا گناہوں کا ارتکاب کرنا ہے۔ یعنی گناہ کرکے وہ کسی اور کا نقصان نہیں کرتا، اپنا نقصا ن کرتا ہے تو( اِذْظَلَمُوْااَنْفُسَهُمْ ) ، یعنی جنہوں نے گناہ کئے تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ:

( جَاوکَ فَسْتَغْفَرُوااللّٰهَ وَاسْتَغْفِرْلَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوااللّٰهَ تَوَّابَارَّحِیْمًا ) ۔

اگر ایسا ہوتا کہ جب انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا یعنی گناہوں کے مرتکب ہوئے تو آپ کے پاس آتے۔

قرآن کہہ رہا ہے، میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ ”جَاوُکَ“،آپ کے پاس آتے۔ فَ۔ف ہوتا ہے ترتیب کیلئے۔ پرانے زمانہ میں اس ”ف“ کا ترجمہ پس ہوتا تھا۔ آپ کے پاس آتے، پس اللہ سے مغفرت کے طلبگار ہوتے۔ اب ہماری اُردو پس والی نہیں رہی۔اب ہم ترجمے میں اس کا مفہوم یوں ادا کرتے ہیں کہ آپ کے پاس آکر اللہ سے مغفرت کے طلبگا رہوتے یعنی اپنی جگہ پر مغفرت کے طلبگار ہونے سے کام نہیں چلے گا۔آپ کے پاس آتے، آکر اللہ سے طالب مغفرت ہوتے، پھر پیغمبر ان کیلئے استغفا رکرتے’ل( َ وَجَدُوااللّٰهَ تَوَّابًارَّحِیْمًا ) ‘،

تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحیم پاتے۔

یعنی بجائے خود تو ہے ہی توّاب۔ بجائے خود تو ہے ہی رحیم۔ مگر ان کیلئے اُس صفت توابیت و رحیمیت کا مظاہرہ موقوف ہے کہ وہ پیغمبر خدا کی خدمت میں آکر ان سے توسّل کریں۔ صرف اللہ کی طرف رجوع کرکے آپ کے سامنے کہنا کافی نہیں ہوگا بلکہ خود رسول سے بھی کہیں کہ آپ ہمارے واسطے استغفار کیجئے۔ تو اللہ کو( تَوَّاب وَرَحِیْم ) پائیں گے۔ہے تو وہ مگر یہ اس وقت پائیں گے تواب بھی اور رحیم بھی۔ تو اگر توسّل کوئی چیز نہ ہوتا تو رسول کے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی ؟ یہ توسّل کوئی نئی چیز نہ تھا جو قرآن نے کہا ہو۔ اس توسّل کا انبیائے سلف کے دَور میں بھی تصو رموجود تھا۔ قرآن کو دیکھئے ، سورئہ یوسف میں کہ فرزندانِ یعقوب کیوں ان سے آکر کہتے:

( یَاَبَانَااَسْتَغْفِرْلَنَاذَنُوْبَنَا ) ۔

اے ہمارے باپ! ہمارے گناہوں کیلئے،جرائم کیلئے استغفار کر دیجئے۔ اور وہ اس پر بجائے اس کے کہ تنبیہہ کریں کہ استغفار کرنا ہے تو خود کرو۔ میں کیوں کروں؟ وہ وعدہ کئے لیتے ہیں کہ :

( سَوْفَ اَسْتَغْفِرْلَکُمْ رَبِّی ) ۔

میں اپنے پروردگار سے عنقریب تمہارے لئے استغفار کروں گا۔

معلوم ہوتا ہے کہ توسّل پر انبیائے سلف کا اجماع قائم تھا۔

قرآن کہہ رہا ہے کہ آپ کے پاس جاتے اور آپ ان کیلئے طالب مغفرت ہوتے ، تب وہ اللہ کو تواب اور رحیم پاتے۔ یعنی رحمت الٰہی کی توجہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ آپ ان کیلئے استغفا رکریں۔ اب جو توسّل کے شواہد ہیں، وہ انشاء اللہ کل عرض کروں گا۔

پس ایک آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بعد اس کے معیار پر حدیثیں منتخب کرکے، حاکم ایک اپنے وقت کے امام فن حدیث تھے۔انہوں نے مستدرک لکھی۔ وہ مستدرک حاکم کہلاتی ہے۔اس میں ایک حدیث ہے کہ جب جنابِ آدم سے ترکِ اولیٰ ہوا، کوئی مجرم کیا روئے گا اپنے جرم پر جیسے انبیاء ترکِ اولیٰ پر روتے تھے اور گڑگڑاتے تھے اور بارگاہِ الٰہی میں مثل بید کانپتے تھے۔

تو وہ گناہ ہوتا تو نظر رحمت پھر جاتی مگر وہ گناہ تو ہوتا نہیں، وہ ان کی بلندی منزل کے لحاظ سے ہوتا تھا جس پر خدا تنبیہہ کرتا تھا کہ تم نے بہت براکیا اور اس پر یہ ایسے لرزتے تھے جیسے کوئی ملزم بھی نہ لرزے گا۔ تو نظر توجہ سلب نہیں ہوتی ہے۔اب اس کیلئے میں نے کہا کہ دلیل اس کی کہ وہ گناہ نہیں تھا۔ جو بھی ہوا، آدم سے، نوح سے، ابراہیم سے، کسی سے بھی، کوئی اس قسم کا فعل جس کو ہم ترکِ اولیٰ کہتے ہیں اور دنیا اس کو خلافِ عصمت کہتی ہے، ہم عجیب ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف سے صفائی پیش کرنا ہے اور انبیاء کی طرف سے، آدم سے لے کر خاتم تک سب کی وکالت بھی ہمیں کرناہے۔

تو جناب! اب ہم کہتے ہیں کہ ترکِ اولیٰ گناہ نہیں ہے۔ میں بس ایک مختصر سا معیار پیش کرتا ہوں کہ اگر اس عمل پر جس پر سخت سے سخت تنبیہہ ہوئی ہے، عہدہ سلب ہوگیا ہوتو گناہ ہے اور اگر عہدہ برقرار رہا تو سمجھئے کہ یہ سب ان کے مزید کمالِ نفس کیلئے محرک کے طور پر تھا۔یہ سب عتاب جو تھا، وہ محرک کے طور پر تھا ورنہ سزایافتہ کو پھر عہدہ نہیں دیا جاتا۔ اسی معیار پر آدم کو دیکھئے کہ ترکِ اولیٰ تھا یا نہیں، انہیں پھر زمین پر بھیجا گیا۔ آپ اسے کہتے ہیں کہ جنت سے نکالا جانا سزا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ سزا اس وقت مانوں گا کہ جب زمین پر بھیجے گئے تو وہ منصب سلب کرلیا جاتا۔ زمین پر آئے تو اُسی منصب پر آئے ۔ تو اس لئے اسے سزا تو کہا نہیں جاسکتا۔خاصیت اُس عمل کی کہاجاسکتا ہے کہ مزید شاید جنت میں رہتے ، اس عمل کی وجہ سے ، جلدی جانا پڑا۔ مگر آئے وہ جہاں کیلئے تھے، جہاں کے صاحب منصب تھے۔ اعلان یہی ہوا تھا کہ:

( اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَ رْضِ خَلِیْفَة ) ۔

جنت کیلئے پیدا ہوئے ہی نہیں تھے، زمین کیلئے پیدا ہوئے تھے۔

اب حدیث جو پڑھوں گا، وہ درحقیقت تفسیر قرآن ہے کہ اب اس منزل پر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر گناہ ہوتا اور یہ سب بطورِ سزا ہورہا ہوتا تو خالق کو کیا ضرورت کہ ترکیب بتائے معافی کی۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ نظر رحمت مڑی نہیں ہے۔یہ تڑپ رہے ہیں، اس تنبیہ کی بناء پر رو رہے ہیں کہ میری خطا معا ف کردے۔ قرآن کہہ رہا ہے:

( فَتَلَّقٰی آدَمُ مِنْ رَبِّه کَلِمَات فَتَابَ عَلَیْهِ ) ۔

آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے یعنی خدا نے سکھایا کہ یوں کہو تو تمہاری توبہ قبول ہوگی۔ ارے تم بے چین ہو کہ تم مجرم ہو تو میں تمہیں ترکیب بتائے دیتا ہوں تاکہ تمہاری خطا معاف ہوجائے۔ میں تمہیں سکھاتا ہوں۔ ارے معاف کرنا تھا تو یونہی معاف کردیتا۔مگر نہیں۔ ان کے دل کے زخم پر مرہم رکھنے کیلئے خود ترکیب بتاتا ہے ۔ ارشاد ہوا کہ کچھ کلمات اللہ نے سکھائے، جب ہی تو انہوں نے سیکھے۔ وہ نہ سکھاتا تو کیونکر سیکھتے؟ ”( تَلَّقٰی آدَمَ ) “آدم نے سیکھے۔”( مِنْ رَبِّه ) “، اپنے رب سے کچھ کلمات یعنی اُستاد نے ابھی نظر توجہ ہٹائی نہیں ہے۔ انہوں نے سیکھے اپنے اللہ سے ، اپنے معلم سے، اپنے مرکز فیض سے کچھ کلمات۔”( فَتَابَ عَلَیْهِ ) “، وہ کلمات سیکھے تو اللہ نے توبہ قبول کی۔

یعنی کلمات اپنی زبان پر جاری نہ رکتے تو وہ نتیجہ مرتب نہ ہوتا۔ یہ کلمات اُسی نے سکھائے، پھر یہ کلمات زبان پر جاری ہوئے تو اس نے توبہ قبول کی۔

( اِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم ) “۔

”وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے“۔

ہے توبہ قبو ل کرنے والا تو اس نے بتائی یہ ترکیب۔ خود ہی ترکیب بتائی۔ اب وہ ترکیب کیا تھی؟ قرآن کو کافی کہنے والے وہ ترکیب بتائیں کہ کیا تھی؟

اور جب نہیں بتاسکے تو کہیں کہ نہیں بتاسکتے۔ پھر ہم بتائیں گے کہ وہ کلمات کیا تھے۔ تو اس مستدرک حاکم کی حدیث میں ہے جو معیارِ صحیحین پر پوری اترتی ہے کہ جناب وہ کلمات جو تھے، وہ یہ تھے کہ بارگاہِ الٰہی میں انہوں نے عرض کیا:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍاَنْ تَغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ “۔

”اے میرے پروردگار! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں محمد کے حق کا واسطہ ، میری توبہ قبول فرما“۔

یہ الفاظ تھے جو جاری کئے۔ میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ کو توبہ کا ذریعہ قبول کیوں قرار دیا؟ میں کہتا ہوں کہ جس کا واسطہ دلوانا تھا، اس کے درجہ کو نمایاں کرنے کیلئے۔ تو آدم ابوالبشر کے وقت سے سنت توسّل قائم ہوئی او رانہوں نے ان کے وسیلہ سے دعا کی۔

اب ایک بہت ہی نازک بات عرض کررہا ہوں جسے کوئی بہت ہی حد سے بڑھا ہوا سمجھ سکتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ براہِ راست خداہدایت نہیں کرسکتا، اپنے کمالِ ذات کی وجہ سے۔ لہٰذا رسول کی ضرورت ہوئی۔ حضور! کوئی کام براہِ راست ہم نہ کرسکیں، اس میں کسی سے ذریعہ طلب کرنا ہوتا ہے۔ ذریعہ کے معنی وسیلہ کے ہیں۔خالق نے ان کو اپنے اور ہمارے درمیان واسطہ بنایا۔ بغیر اس کے کام نہیں چلتاتھا۔ بس میں ایک دم کہہ دوں جو کہنا ہے کہ جب اللہ نے ان کو اپنے مطلب کا وسیلہ بنایاتوہم انہیں اپنے مطلب کا وسیلہ کیوں نہ بنائیں؟

بس ایک جملہ کہہ دوں کہ وہ اپنے کمال کی وجہ سے ہم تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ہم اپنے نقص کی وجہ سے اُس تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ لہٰذا اُسے بتقاضائے کمال وسیلہ کی ضرورت ہوئی اور ہمیں بتقاضائے نقص وسیلہ کی ضرورت ہے۔ اور پھر انہوں نے ہمیں دوسرے وسیلے بتائے۔ اگر دوسرے وسیلے نہ بتانا ہوتے تو کیوں کہتے :

اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ “۔

میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑتا ہوں، ایک کتاب اللہ اور ایک میری عترت جو میرے اہلِ بیت ہیں۔

مَااِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَالَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِیْ “۔

جب تک تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے، کبھی گمراہ نہ ہوگے۔

وَاِنَّهُمَا لَنْ یَفْتَرِقَاحَتّٰی یَرِدَاعَلَیَّ الْحَوْض “۔

یہ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔

میں کہتا ہوں کہ دنیا کے سامنے دو چیزیں رکھیں کہ یہ دو چیزیں چھوڑتا ہوں اور ان کیلئے کہاکہ ان سے تمسک رکھو۔ مگر اب میں کیا کہوں اُمت مسلمہ کے کردار کو کہ مقامِ ہدایت میں جیسے ایک دوسرے سے جدا نہ تھے ، اسی طرح مقامِ مظالم میں بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں رہے اور یہ مظالم کرنے کیلئے دنیا کی کوئی غیر قوم نہیں آئی۔ میں نے کہا تھا کہ انہی کے ہاتھوں قرآن بھی موردِ مظالم بنا اور اہل بیت بھی موردِ مظالم بنے۔ایک ظلم تو واقعی حقیقتاً دونوں پر ہے کہ جس میں پناہِ بخدا ہم بھی داخل ہیں۔ ایک تو قرآن پر ظلم یہ ہے کہ اس کو اپنی کتاب کہنے والے اس پر عمل نہ کریں تو اس ظلم میں کہیں ہم نہ شریک ہوں کہ ان کو اپنا امام کہنے والے ان کی تعلیمات پر عمل نہ کریں ۔ تو وہ اگر قرآن پر ظلم ہے تو یہ اہل بیت پر ظلم ہے۔ اس کے بعد جو ظاہری مظالم ہوتے ہیں، ان میں بھی قرآن اہل بیت کے ساتھ ہے اور اہل بیت قرآن کے ساتھ شریک ہیں۔

اب دو تین باتیں مسلّماتِ تاریخی ہیں کہ قرآن جلایا بھی گیا، نیت سے بحث نہیں۔ یہ بات مسلّم ہے کہ قرآن جلایا گیا۔ تو اب جو قرآن کے ساتھ تھے، اس میں خانہ سیدہ پر جمع شدہ لکڑیاں دیکھئے ، خواہ کربلا میں بلند ہوتے ہوئے شعلے دیکھئے ۔ ہاں اربابِ عزا! قرآن پر بھی تیر برسائے گئے ہیں۔ سلسلہ بنی اُمیہ کا ایک حکمران ولید ابن عبدالمالک۔ اس نے قرآن سے فال دیکھی اور فال میں یہ آیت نکلی:

( وَیْلٌ لِّکُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ) ۔

”وائے ہو ہر جبار سرکش کیلئے“۔

توبس قرآن پر غصہ آگیا۔ قرآن کو سامنے رکھ کر اپنے ہاتھ میں تیر کمان لے کر تیر چلائے گئے جس سے اوراقِ قرآن پارہ پارہ ہوکر منتشر ہوگئے۔ اس کے بعد کچھ اشعار کہے۔ یہ مسلمان صاحب اقتدار ہے جو ایک مقدس نام کے ساتھ حکومت کررہا ہے۔ پیغمبر خدا کی طرف نسبت دے کر حکومت کررہا ہے اور وہ یہ اشعار پڑھتا ہے جس میں خدا پر بھی طنز ہے اور قیامت پر بھی طنز ہے۔ سب کا انکار ان میں مضمر ہے۔ وہ قرآن سے مخاطب ہوکرکہتا ہے:

( اَتُوْعِدُ کُلَّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ فَهَا اَنَا ذَاکَ جَبَّارٌ عَنِیْدُ اِذَامَاجِئْتَ رَبَّکَ یَوْمَ حَشْرٍفَقُلْ یَارَبِّ مَزَّقَنِیْ الْوَلِیْدُ ) )

نام بھی اپنا درج ہے کہ سندرہے۔ تو دھمکایا کرتا ہے ہر جبار و سرکش کوتو لے یہ میں جبار وسرکش ہوں۔ جب اپنے پروردگار کے پاس حشر کے دن آنا تو کہہ دینا کہ مجھے ولید نے پارہ پارہ کیا تھا۔

دیدہ دلیری دیکھ رہیں مسلمان مجرم کی۔ تو معلوم ہوا کہ تیرباراں ہوا قرآن پر۔ اب میں کہتا ہوں کہ جو قرآن کے ساتھی تھے، ان کیلئے تیروں کو تلاش کرنا ہے۔ چاہے جنازئہ حسن پر تیروں کی بارش دیکھ لیجئے اور چاہے کربلا میں تیروں کو دیکھ لیجئے۔ مجھے مصائب میں آگے بڑھنا ہے ورنہ وہ تیر یاد دلاتا جو عاشور کے دن کے تھے۔ وہ سب آپ کے پیش نظر ہیں۔

اب تیسرا پہلو پیش کرتا ہوں کہ قرآن نیزوں پر بھی بلند کیا گیا اور ہر غیر جانبدار صاحب نظرمنصف مورخ سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا یہ ہنگامی ایک ترکیب تھی؟ وقتی جو اس وقت سوجھ گئی؟

جناب! پہلے سے منصوبہ بناہوا تھا ورنہ مسجد جامع دمشق کا وہ قرآن جس کو ایک آدمی اکیلا اٹھا نہیں سکتا تھا، اس کو میدانِ جنگ میں ساتھ لانے کی ضرورت کیا تھی؟ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سے یہ روزِبد پیش نظر تھا کہ جب ہماری جنگ کی تمام ترکیبیں ختم ہوجائیں گی تو آخر میں قرآن سے کام لیں گے ور نہ اس کو ساتھ لینا خلافِ فطرت ہے۔کہاں شام اور کہاں میدانِ صفین جو عراق کی حدود میں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔ اس کے لئے بڑا قرآن ساتھ لایا گیا تھا۔ تو اب میدانِ صفین کا ایک منظر ہے اور شایدمستقبل کا ایک منظر بھی بغیر میرے بیان کئے ہوئے آپ کے ذہن میں آجائے ۔ دھندلکا تھا ، اس وقت پوری روشنی نہیں ہوئی تھی۔ اس دن یقین تھا کہ آج میدان میں ہماری فوج نہیں رک سکتی ، شکست ہوگی۔ ایسا وقت کہ ابھی چیزیں صاف طور پر نظر بھی نہیں آرہی تھیں۔ پوری طرح صبح نہیں ہوئی تھی۔ اندھیرا تھا کہ اس اندھیرے میں یہ منظر نظر آیا کہ بہت سے قرآن مختلف قدوقامت کے نیزوں پر بلند ہیں اور سب سے آگے ایک قرآنِ اعظم جس کو ایک آدمی اٹھانہیں سکتا تھا، وہ جامع دمشق کا قرآن تھا۔ اُسے کئی آدمی مل کر اٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ سب سے آگے ہے۔

میں کہتا ہوں کوئی منظر آپ کے سامنے آیا کہ کوفہ و دمشق کا راستہ ہے اور مختلف نیزوں پر ، میں تو یہی محسوس کرتا ہوں کہ مختلف قدو قامت کے قرآن ہیں۔ کوئی جوان کا سر ہے، کوئی نوجوان کا سر ہے اور کوئی بچے کا سر ہے۔مختلف قدوقامت کے قرآن نیزوں پر بلند ہیں ایک ایک طویل نیزہ پر قرآنِ اعظم وہ ہے جس کو سب سے آگے رکھا ہے۔ بالکل صفین کا مرقع ہے جو آج کھنچا ہوا ہے۔

اربابِ عزا!انہوں نے کوفہ کے بازاروں میں نیزے پر بھی ثابت کردیا اپنے نانا کے ارشاد کی سچائی کو کہ دیکھو ہم سے قرآن کبھی جدا نہیں ہوتا۔ سر اور گردن الگ الگ ہوگئے لیکن ہم سے قرآن الگ نہیں ہوا۔ اس کے گواہ ہیں صحابیِ رسول زید بن ارقم جنہوں نے اپنے بالا خانے پر سے جو سرِ راہ تھا، یہ سنا کہ قرآن مجید کی آواز آرہی ہے اور یہ آیت ہے:

( اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّ اَصْحَابَ الْکَهْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْامِنْ اٰیٰتِنا عَجَبًا ) ۔

تم سمجھتے ہو کہ اصحابِ کہف کا واقعہ کوئی عجیب ہے تو فوراً ان کی زبان پر آیا کہ نہیں، آپ کا واقعہ اس سے زیادہ عجیب ہے۔ تو یہ نیزہ پر سر ہے اور زبان پر تلاوتِ قرآن ہے۔ دیکھے دنیا کہ قرآن جدا نہیں ہوا۔ سروگردن علیحدہ علیحدہ ہوگئے ۔

اب میں کہتا ہوں کہ وہ سجدئہ آخر تھا جو عصر کو ہوا تھا اور یہ اس کے تعقیبات ہیں جو نیزے پر ادا ہورہے ہیں۔ بہرحال انہوں نے ثابت کردیا کہ قرآن ہم سے جدا نہیں ہوتا۔

حقوق العباد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِلِمْ یَکُنْ شَيْئًامَذْکُوْرًا ) ۔

اس آیت کے پہلے الفاظ کی مناسب سے اس کا نامهَلْ اَتٰی ہوگیا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اس سورة کا پس منظر یہ ہے کہ شہزادے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین بیمار ہوئے۔ میرا ایمان ہے کہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ہستی ایسی تھی کہ اگر صرف وہ بارگاہِ الٰہی میں دعا کردیتی تو خداوند عالم ان کی دعا کو قبول فرماتا اور حصولِ مقصد کیلئے ان کی دعا کافی ہوتی۔مگر ہمیں ایک اجازت کا ذریعہ سکھانے کیلئے یہ سب کچھ ہے۔ پیغمبر خدا کے ارشاد کے مطابق بعض روایات میں یہی ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ تم تین روز ے نذر کرو۔اس کو عرفِ عام میں منت ماننا کہتے ہیں۔ یہ نذر کرو کہ خداوند عالم حسنین کوصحت عطا فرمائے گا تو ہم تین روزے رکھیں گے۔

خداوند عالم نے صحت عطا فرمائی۔ ہم اکثر منتیں مان لیتے ہیں اور نذریں کرلیتے ہیں لیکن اس وقت نذر کرلینے میں تو اپنی ضرورت ہوتی ہے۔ وفائے نذر میں پھر تاخیر سے کام لیتے ہیں۔ طرح طرح کے حیلے حوالوں سے یہ یہ بات ہوجائے تو اس نذر کو پورا کریں گے اور وہ بات ہوجائے تو اس نذر کو پورا کریں گے۔ لیکن یہ آلِ رسول ہیں۔ بالکل نمایاں چیز جو ہمارے ذہنوں میں تاخیر کی متقاضی ہے، وہ یہ کہ ابھی تو صحت ہوئی ہے، صحت کے بعد ایک قوت آنے کی منزل ہوتی ہے کہ مریض میں طاقت آجائے۔ مگر وہاں چونکہ نذر صحت کی تھی، طاقت آنے کی تو شرط نہیں تھی۔ لہٰذا ابھی میں عرض کروں گا کہ بچے کتنے ناتوان ہیں، کمزور ہیں لیکن وفائے نذر کی فکر ہوگئی۔

اب ایک پہلو پر اہل نظر غور کریں کہ شہزادوں کی صحت کیلئے نذر کی تھی ماں باپ نے۔ خود شہزادوں نے تو نذرنہیں کی تھی مگر یہ ان کا ذوقِ عبادت ہے کہ نذر کرنے والی صرف دو ہستیاں تھیں اور وفائے نذر میں خود وہ شہزادے بھی شریک ہوگئے جن کی صحت کیلئے نذر مانی گئی تھی۔اب اس گھر میں رہنے کا صدقہ ہے کہ وفائے نذر میں گھر کی کنیز بھی شریک ہوگئی یعنی جنابِ فضہ جو اس گھر کی کنیز خاص ہیں۔

اس زمانہ میں اس قسم کے رشتہ کا نام کنیز ہی ہوتا تھا ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی بہت سی ملکاؤں کے نام ہمیں یاد نہیں ہیں مگر خانہ سیدہ کی اس کنیز کا نام لوحِ دل پر نقش ہے اور اگر خود فضہ سے پوچھا جاتا کہ تمہیں تاجدار ہونا پسند ہے یا یہاں کی کنیز ہونا تو وہ بھی اس کنیزی کو ترجیح دیتیں۔

تو اب تین روزے رکھنے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے وفائے نذر کیلئے گویا بس اتنی آسانی اختیار فرمائی کہ معلوم تھا کہ تین روزے رکھنے ہیں اور تین دن افطار ہوگا۔ لہٰذا اب روز کہاں انتظام کرتا پھروں گا۔ ایک دم سے تین روزوں کے افطار کا سامان پانچ آدمیوں کا کرلیاجائے۔ اب اس کیلئے آلِ رسول کی وہ زندگی کہ جس طرح سے یہاں انتظام ہوتا تھا، اسی طرح امیرالمومنین نے انتظام فرمایا۔ ایک یہودی کے ہاں تشریف لے گئے اور وہاں سے صوف بہ اُجرت حاصل فرمایا کہ اس کو درست کیا جائے گا اور اس کے معاوضہ میں اتنا اناج جو تین دن تک پانچ روزہ داروں کیلئے کافی ہو، وہ حاصل کیا گیا ۔ وہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سپرد ہوگیا۔ وہ اناج بھی اور وہ صوف بھی۔

میں کہتا ہوں کہ ان ہستیوں کے جو روزمرہ کے کام ہیں، انہی سے ہمارے لئے وہ نظامِ حیات مرتب ہوتا ہے جو درحقیقت نظامِ اسلام کا جزو ہے۔ دنیا کہتی ہے کہ اسلام نے پردہ میں رکھ کر ایک طبقہ کو بیکار بنا دیا۔ میں کہتا ہوں کہ دنیا دیکھے کہ بیکار کوئی طبقہ نہیں ہوتا، صرف نظامِ عمل میں تقسیم عمل ہے اور وہ یہاں بھی نمایاں ہے کہ گھر کے باہر کا جتنا کام تھا، وہ حضرت علی علیہ السلام نے کیا اور گھر کے اندر کا جتنا کام تھا، وہ حضرت فاطمہ زہرا کریں گی۔کون کہہ سکتا ہے کہ وہ غذا جو دہن تک پہنچے گی، اس میں فقط امیرالمومنین علیہ السلام کی کارگزاری شریک ہے اور اس میں حضرتِ خاتونِ جنت کی کارگزاری شریک نہیں ہے۔یہی نظامِ عمل ہے کہ مرد مرد رہتے ہوئے کارآمد ہو اور عورت عورت رہتے ہوئے کارآمد ہو۔

حضورِ والا! یہ تو ہر ایک کی سمجھ میں آئے گا اور وہ تائید کرے گا کہ مرد کیلئے یہ کمال نہیں ہے کہ اس میں مردانگی پیدا ہوجائے بلکہ مرد مرد رہتے ہوئے ترقی کرے اور عورت عورت رہتے ہوئے ترقی کرے۔ اس کے لحاظ سے جو مناسب ہو، وہ کام کرے اور جو اس کے مناسب حال ہو، یہ وہ کام انجام دے۔ اناج اور صوف یہ دونوں چیزیں رکھ لی گئیں۔ حضرت فاطمہ نے صوف کے تین حصے کئے اور اناج کے بھی تین حصے کئے۔ ایک حصہ صوف کا دن بھر میں درست فرمایا اور ایک حصہ اناج کا درست کیا اور غذا بننے کی حد تک جو منزلیں ہیںِ وہ سب سیدہ نے طے فرمائیں۔ اس کے بعد افطار ،وہی روٹیاں جو اس اناج کی تھیں اور اس کے ساتھ کوئی چیز رکھ دی گئی سامنے۔ اب افطار کرنا چاہتے ہیں کہ دروازے پر سے آواز آئی:

اَنَا مِسْکِیْنٌ مِنْ مَسَاکِینِ الْمَدِیْنَه “۔

”میں ایک مسکین ہوں مدینہ کے مساکین میں سے“۔

بس یہ آواز آنا تھی کہ روزہ داروں نے ہاتھ روکے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی روٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا، سید ئہ عالم نے اپنی روٹی اٹھائی، حسنین نے اپنی روٹیاں بڑھائیں اور فضة جب روزہ کی منزل میں مالکوں سے پیچھے نہیں رہی تھیں تو اِنفاق کی منزل میں کیوں پیچھے رہتیں۔ لہٰذا فضہ نے بھی اپنی روٹی بڑھائی۔

کوئی ضروری نہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے ہر ایک سے کہا ہو کہ تم بھی اپنی روٹی دے دو۔اس لئے کہ سائل ایک تھا۔ اس کے سوال کو پورا کرنے کیلئے ایک آدمی کی غذا کافی تھی مگر یہ تو ماشاء اللہ علمی درسگاہ ہے۔ شعراء بھی ممکن ہے کہیں بیٹھے ہوں۔ شاعری میں جناب ایک ہوتا ہے ”توارد“ یعنی وہی مصرع کسی ایک نے کہا اور وہی کسی دوسرے شاعر کے ہاں بھی آگیا۔ اگر واقعی یہی ہو کہ اس کو اس کا علم نہیں تھا تو کہتے ہیں یہ” توارد“ ہوگیا۔یعنی ایک ہی مصرع اتفاق سے دونوں کے ذہن میں آیا۔ اس نے بھی وہی کہا، اُس نے بھی وہی کہا۔ تو وہ تو ہوتا ہے شاعری میں توارد۔ میں کہتا ہوں چونکہ ان سب کی نیتیں یکساں تھیں ، ان سب کی فطرت ایک ہی تھی، ان سب کا ذوقِ عبادت ایک ہی تھا تو یہ

”تواردِ“ عمل ہے۔ یہاں ضرورت ایک کو دوسرے کے تحریک کرنے کی نہیں ہے کہ یہ ان سے کہیں کہ تم اپنی روٹی انہیں دے دو اور وہ ان سے کہیں کہ تم اپنی روٹی اسے دے دو۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اس کی ضرورت تو ایک ہی روٹی سے پوری ہوجاتی مگر ایک ساتھ ہر ایک انفاق پر تیار ہے۔

تو اب سوال یہ کہنے کا نہیں ہے کہ ایسا کرو، اب تو مانع خِیر ہونے کا سوال ہے کہ کوئی دوسرے کو روکے کہ نہیں تم نہ دو، ضرورت کیا ہے؟ تو ان میں سے کوئی مانع خِیر ہونے والا بھی نہیں تھا۔ لہٰذا ایک روٹی کے سائل کو پانچ روٹیاں چلی گئیں۔ پانچ آدمیوں کی غذا چلی گئی۔ روزہ پانی سے افطارکرلیا گیا۔

اب دوسرا دن ہوا۔ یہاں ایک پہلو پر توجہ فرمائیے کہ ابھی اناج رکھا ہوا ہے۔ کیا سیدہ عالم اپنے بچوں کی بھوک کو دیکھتے ہوئے (معاذاللہ) محنت سے جی چراتیں اس وقت؟ ظاہر ہے کہ رات اتنی طولانی ہوتی ہے کہ سحر کے وقت تک دوسرا حصہ غذا کاتیار ہوسکتا تھا لیکن یاد رکھئے کہ یہ حقوق الناس کی اہمیت ہے۔ چونکہ وہ اُجرت عمل میں نہیں لائے ہیں، یعنی جتنا عمل ہوا ہے، اتنے ہی ملکیت میں آئے ہیں۔ باقی اناج گھر میں رکھا ہوا ہے۔ مگر اپنی مِلک نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس کو اس وقت اپنے پیٹ بھرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ لہٰذا روزے پر روزہ ہوگیا۔ اب دوسرا روز جب ہوا تو وہی منزلیں عمل کی طے ہوئیں اور پھر افطار کے وقت سامان آیا اور عین افطار کے وقت دروازے پر سے آواز آئی :

( اَنَا یَتِیْمٌ مِنْ یَتَامٰی الْمَدِیْنَه ) “۔

”میں مدینہ کے یتیموں میں سے ایک یتیم ہوں“۔

اندازہ فرمائیے کہ آلِ محمد یتیم کی آواز سنیں اور انہیں قرارآئے! لہٰذا جو پہلے دن ہواتھا، وہی آج دوسرے دن ہوا اور وہ روٹیاں اس یتیم کو دے دی گئیں۔پھر پانی سے افطار ہوا۔اب تیسرا دن ہوا ۔ یہاں اندازہ فرمالیجئے کہ ہر دن جو دوسرا آیا ہے، اس میں بھوک کا ایک درجہ اونچا ہورہا ہے۔ یعنی پہلے دن جتنی غذا کی خواہش تھی، اس سے دوسرے دن زیادہ خواہش غذا ہے اور اب یہ جو تیسرا دن ہے تو اس سے بھی زیادہ خواہش غذا ہے جو انتہائی نقطہ ہے غذا کی خواہش کا۔مگر آج جب افطار کا وقت آتا ہے تو دروازہ پر سے آواز آتی ہے:

( اَنَااَسِیْرٌمِنْ اُسَارٰی الْمَدِیْنَه ) “۔

”میں مدینہ کے اسیروں میں سے ایک اسیر ہوں“۔

قرآن مجید نے اسی ترتیب کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے:

( یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّه مِسْکِیْنًاوَیَتِیْمًاوَاَسِیْرًا ) ۔

”کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت میں“۔

اب مفسرین میں اختلاف ہے کہ اللہ کی محبت میں یا طعام کی محبت میں۔ یعنی یہ ضمیر طعام کی طرف راجع ہے کہ باوجود خواہش طعام کے ، باوجودیکہ بھوکے ہیں، پھر بھی کھلاتے ہیں۔ کس کو؟ پہلے دن چونکہ مسکین آیا تھا، تو پہلے لفظ مسکین ، دوسرے دن یتیم آیا تھاتو دوسرے نمبر پر لفظ یتیم اور تیسرے دن اسیر آیا تھا تو تیسرے نمبر پر اسیر۔

یہاں ایک پہلو پر غور کرلیجئے۔ ادب کی ایک اصطلاح ہے اور معنی و بیان ہمارے طلبہ کو بھی پڑھایا جاتا ہے ۔ اس میں ایک صفت ہے لف و نشر مرتب یعنی چند چیزیں ایک ساتھ بیان ہوں اور اس کے بعد اس کے متعلق جو چیزیں ہوں، دوسری جگہ وہ اسی ترتیب سے بیان ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ ان معصومین کے عمل اور قرآن مجید کے الفاظ میں لف و نشر مرتب ہے۔لف ہے ان کے عمل میں ، نشر ہے قرآن کے الفاظ میں۔

ماننا پڑے گا کہ خدا نے یا تو اپنے علم وجوبی کے آئینہ میں ان کے کردار کی تصویر دیکھتے ہوئے قرآن کے الفاظ رکھے یا ماننا پڑے گا کہ تنزیل سے پہلے یہ الفاظِ قرآن کو دیکھ رہے تھے۔

مگر زیادہ صحیح یہی پہلی توجیہہ ہے کہ آنا تو دوسروں کا کام ہے۔ پہلے دن مسکین آیا، دوسرے دن یتیم آیا اور تیسرے دن اسیر آیا۔تو اس لئے یہی صحیح ہے کہ اللہ اپنے علم غیب سے ان کے عمل کی ترتیب کو دیکھ رہا تھا، لہٰذا اُس نے لوحِ محفوظ میں جو ان کا عمل ہوگا، اسی ترتیب سے الفاظ درج فرمادئیے۔

اب ایک خاص پہلو کی طرف توجہ دلانا ہے کہ مسکین کے معنی تو معلوم ہیں، عرفی معنی تو مطلق غریب ہونے کے ہیں۔ ایک فقہی اصطلاح ہے مسکین اور فقیر کی۔ اس میں کیا فرق ہے؟ یہ سب فقہ کی باتیں ہیں جو ہمارے طلبہ پڑھتے ہوں گے۔ تو اُسے اس وقت پیش کرنا نہیں ہے لیکن عام طور پر غریب آدمی کو مسکین کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ وہ جس معنی سے بھی مسکین ہو، پہلے دن مسکین تھا، دوسرے یتیم۔ یتیم کے معنی بھی سب عام طور پر جانتے ہیں۔ تیسرے دن کون ہے؟ اسیرہے۔اسیر کسے کہتے ہیں؟ عام تصور یہ ہے کہ قیدی۔ لیکن کسی جرم کی سزا میں قید کیاجائے تو اسے اصطلاحِ قرآن میں اور عربی میں اسیر نہیں کہتے۔ اسیر کہتے ہیں جنگ کے قیدی کو۔جنگ میں جو قید ہو، اُس کو اسیر کہا جاتا ہے۔

اب ایک او رپہلو کی طرف توجہ فرمائیے۔ ایک تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیغمبر خدا کے زمانہ میں جیل خانہ نہیں تھا ورنہ جو جیل خانے میں ہو، وہ کہاں آئے گا۔ تو اس زمانہ میں جیل خانہ نہیں تھا۔ قیدی کے معنی تھے بس کچھ حدود میں جسے نظر بند کہتے ہیں کہ اس سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔اس کے بعد وہ عام قیدی نہیں ہے۔ اسیر ہے یعنی جنگی قیدی ہے۔ اسیر جنگ جو ہوتا تھا، اس کو بھی بند کرکے نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ وہ کچھ حدود کے اندر مقید ہوتا تھا۔ اب ان حدود کے اندر چاہے تو محنت مزدوری کرکے کسب معاش کرے،چاہے تو کسی سے سوال کرکے پیٹ بھرے۔ بہرحال اگر وہ بند کرکے رکھاجاتا تو غذا کی ذمہ داری اس بند کرنے والے پر تھی۔ چونکہ وہ آزاد رکھاجاتا تھا، حدودِ خاص کے اندر۔ تو ہ اپنا اپنا ذوق تھا۔ آج بھی ہے۔کچھ محنت کرکے کھاتے ہیں، کچھ سوال کرکے کھاتے ہیں۔ تو ایسا ہی اس وقت بھی تھا۔

اب جو خاص پہلو ہے توجہ دلانے کا، وہ یہ کہ زمانہ رسول میں جنگ کا قیدی کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب اسیر ہے تو کوئی غیر مسلم ہے۔ تو جناب! وہاں تو میں اتقادکھاسکا یتیم کے معاملہ میں، لب و لہجہ سے میں نے اتقاد کھایا کہ آلِ محمد یتیم کی آواز سنیں اور انہیں قرارآئے۔ مگر آج تیسرا روزہ ہے اور معراج ہے خواہش غذا کی۔ دو دن تھا امتحان حقِ ایمانی کا اور آج ہے امتحان حقِ انسانی کا۔ یہ چیزیں غیر مسلم دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ہیں کہ یہ ہے اسلام کی فراخ حوصلگی اور یہ ہے رہنمایانِ دین کی فیاضی۔ جس طرح خالق کی عطا مومن و کافر نہیں دیکھتی، اسی طرح یہ اس کے نمائندے ہیں جن کی عطا مومن و کافر نہیں دیکھتی۔

اب ایک چیز پر غور، الفاظِ قرآنی پر غور کرنے سے جو چیز سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ اصل نذر تھی روزہ رکھنے کی۔ کھانا کھلانے کی نذر نہ تھی۔ا س کے معنی ہیں وفائے نذر تو ہوگئی روزوں سے۔ یہ فاضل عمل ہے جو اس صورت سے ہورہا ہے۔ ماشاء اللہ آپ حضرات صاحبانِ عمل ہیں اور یہ مرکز تدریس ہے۔ یہاں ان باتوں کی طرف زیادہ توجہ کیوں نہ ہو! ارشاد ہوتا ہے:

( یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِوَیَخَافُوْنَ یَوْمًاکَانَ شَرُّه مُسْتَطِیْرًا ) ۔

”یہ لوگ نذر پوری کرتے ہیں اور اندیشہ آخرت رکھتے ہیں“۔

اگر کھاناکھلانا متعلق نذر ہوتا تو پھر بیچ میں واؤ نہ آتا۔ یوں کہا جاتا کہ:

( یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِوَیَخَافُوْنَ یَوْمًاکَانَ شَرُّه مُسْتَطِیْرًایُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ ) ۔

تب یہ اطعام یہاں ہوتا اسی وفائے نذر کا کہ وہ نذر پوری کرتے ہیں اور کس طرح کہ وہ کھانا کھلاتے ہیں۔ مگر چونکہ نذر کے پورا کرنے میں تو روزے ہوگئے۔ اب یہ مزید اطاعت تھی خالق کی۔ لہٰذا بیچ میں واؤ آئی یعنی وفائے نذر ایک عمل ہے اور اطعامِ طعام ، یہ دوسرا عمل ہے۔ اب اس کے بعد ایک نتیجہ نکلے گا تھوڑی دیر کے بعد اور تھوڑی دور پر۔ اس کو ابھی سے ذہن نشین رکھئے گا کہ وفائے نذر روزوں کے ساتھ ہے اور یہ کھانا کھلانا جو ہے، یہ بغیر نذر ہے۔یہ مزید طاعت و عبادت ہے جو اس صورت سے انجام پائی۔

اب اس کے بعد خالق نے جزائیں بیان کرنا شروع کیں اور جتنی نعماتِ جنت ہیں، سب کو سمیٹ کر۔ قرآن مجید میں یہ سب نعمتیں متفرق طور پر مذکور ہیں ۔ کہیں حوریں ہیں، کہیں قصور ہیں، کہیں چشمے ہیں۔ لیکن یہاں سب ایک جگہ جمع ہوگئی ہیں جتنی نعماتِ جنت ہیں، سب اکٹھی کردی گئی ہیں۔ لیکن باریک بین نگاہوں نے جو دیکھا تو اس سورة میں سب نعمتیں جمع ہیں مگر حور کا ذکر نہیں ہے۔ تو اب فکر ہوئی کہ یہ کیا بات ہے کہ جنت کی تمام نعمتوں کا ذکر ہے مگر یہاں اس سورة میں حور کا ذکر نہیں ہے۔ تو سمجھ میں یہ آیا کہ چونکہ صاحبانِ کردار میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی تھیں ، اس لئے حور کا تذکرہ خلافِ بلاغت تھا۔

جہاں سے جزائیں شروع ہوئیں، وہاں سے ایک نقطہ ہے:

( جَزَاهُمْ بِمَاصَبَرُوْا ) ۔

”اللہ نے انہیں جزامیں عطا کیا اس کی کہ انہوں نے صبر کیا“۔

اب اس کے بعد سب نعماتِ جنت کی فہرست ہے۔ایسے چشمے، ایسے قصر، ایسے لباس ، ایسے زیور۔ سب تفصیلات ہیں۔ کس چیز کی یہ جزا ہے؟ ”بِمَاصَبَرُوْا “۔اب اصطلاحِ قرآن د یکھی تو پتہ چلا کہ صبر روزہ کا نام ہے۔

( یَااَیُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااسْتَعِیْنُوْابِالصَّبْرِوَالصَّلوٰةِ ) ۔

”اے صاحبانِ ایمان! صبر و صلوٰة سے سہارا حاصل کرو“۔

تو صلوٰة کے تناسب سے وہ صبر جو میدانِ جنگ کا ہے، وہ تو کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا تھا ۔ پتہ چلا کہ صبر صوم کا نام ہے۔تو اب جو ارشاد ہوا کہ:

( جَزَاءً بِمَاصَبَرُوْا ) “۔

”اللہ نے یہ سب جزا ان کے صبر کے بدلہ میں دی“۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ جنت کی سب نعمتیں تو روزوں کی جزا میں صر ف ہوگئیں، وہ تمام نعمتیں ختم ہوگئیں صرف روزہ کی جزا میں مگر کردار تو ابھی ان کا فاضل ہے۔اس کے بعد بھی سب نعمتیں بیان کرکے یہ مناسبت ہے ابتدائے خطاب میں”جزاءً بما صبروا“۔ جزا سے جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ پورا ہوا۔

اب اس سلسلہ کے بعد کیا کہاجارہا ہے:

( اِنَّ هٰذَاکَانَ لَکُمْ جَزَاءً ) “۔

ابھی تک تو غائب کے انداز میں بات ہورہی تھی، یہ وہ انداز ہے جو سورئہ الحمد میں ہے کہ پہلے اللہ کا ذکر بطور غیبت:

( اَلْحَمْدُلِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَاَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْممَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ) ۔

معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اللہ کی بارگاہ سے بندہ غیر حاضر ہے۔ اس کی تعریف کررہا ہے، اس کے اوصاف بیان کررہا ہے لیکن اوصاف بیان کرتے کرتے گویا اس کے تقرب کا درجہ اتنا اونچا ہوگیا، گویا معبود کا جلوہ بالکل سامنے نظر آرہا ہے اور یہ بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوگیا۔ تو کہتا ہے:

( اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن ) ۔

”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں“۔

اب اس غیبت نے حضور کی شکل اختیار کرلی۔ بالکل اسی طرح یہاں یہ اُدھر سے ہے کہ ابھی تک تو ان بندوں کا بطورِ غیبت ذکر ہورہا تھا، سب الفاظ غائب کے تھے۔

( یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ ) “۔

جمع مذکر غائب کا صیغہ اور ”( جَزَاهُمْ بِمَاصَبَرُوْا ) “جمع مذکر غائب کا ص یغہ۔ اب تذکرئہ جزا میں بندہ کا تقرب نظر قدرت میں ایسا سمایا کہ آپ اسے مخاطب بنالیا۔

( اِنْ هَذَاکَانَ لَکُمْ ) “۔

ابھی تک تو ان کا ذکر ایسے ہورہا تھا جیسے کسی اور سے کیا جارہا ہے۔ مگر اب خود انہیں مخاطب کرکے کہاجارہا ہے”( اِنْ هَذَاکَانَ لَکُمْ“،”لَهُمْ“ ) نہ یں ہے۔ ان کیلئے نہیں، اے آلِ رسول۔ یہاں مخاطب فقط رسول نہیں ہیں بلکہ سب ہیں ۔ تو اب جو وحی آئی ہے ، یہ ایک ذات پر نہیں ہے۔

اب خالق خود ان سے مخاطب ہوکر کہہ رہا ہے :

( اِنْ هَذَاکَانَ لَکُمْ جَزَاءٌ ) “۔

اے آلِ محمد! یہ تمہارے لئے۔ یاد رکھئے کہ آیہ تطہیر میں منزلِ آیہ تطہیر جو ہستیاں ہیں، ان میں پیغمبرخدا بھی شامل ہیں۔ لیکن( هَلْ اَتٰی ) کی منزل میں پیغمبر خدا شامل نہیں ہیں۔

ماشاء اللہ عربی دان حضرات کیلئے تو کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ آپ حضرات کیلئے توضیح کی ضرورت ہے کہ اس جملے کے دو انداز ہوسکتے تھے: ایک یہ کہ ”( اِنْ هَذَاجَزَائٌکُمْ ) “،” یہ تمہاری جزا ہے“۔ان الفاظ کے معنی یہ ہوتے کہ جزا پوری مل گئی۔ ارے تم نے یہ کیا تھا ، لو یہ تمہاری جزا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جزا کا حق ادا ہوگیا۔ لیکن متکلم قرآنی الفاظ کا اضافہ بلاوجہ نہیں کرسکتا۔ یہ نہیں کہاجارہا ہے کہ یہ تمہاری جزا ہے۔ عربی میں تنوین ہوتی ہے تقلیل کیلئے۔”( رِضْوَانٌ مِنَ اللّٰهِ ) “، یعنی اللہ کی ذرا سی مرضی بڑی سے بڑی چیز ہے۔ یہ ذرا سی کس چیز کے معنی ہوئے؟ یہ ”رضوانٌ“ میں جو دو پیش ہیں، اس تنوین سے یہ صورت پیدا ہوئی کہ تھوڑی سی مرضی بھی۔

اب ذرا دیکھئے کہ وہی تنوین ہے”( اِنْ هَذَاکَانَ لَکُمْ جَزَاءٌ ) “۔ اے آلِ رسول! یہ تو تمہاری تھوڑی سی جزا ہوئی۔

کیا عادل خالق بندہ کے پلّے کو گراں رہنے دے اور اس کے عوض میں کچھ عطا نہ کرے۔ مگر سرمایہ جزا تو ختم ہوگیا۔ اب اور کچھ کہاں سے آئے؟ تو عادل نے توازن قائم کیا:

( کَانَ سَعْیُکُمْ مَشْکُوْرًا ) “۔

تمہاری کوشش قابل شکرگزاری ہے۔

بابِ فضائل میں یہ تین دن( هَلْ اَتٰی ) والے اور بابِ مصائب میں تین دن کربلا والے۔ وہ بھی بس تین دن ہی تھے کیونکہ تین روزے ختم ہوگئے۔ اب چوتھا دن ہوا تو اب روزہ تو نہیں ہے لیکن غذا بھی تو ابھی نہیں ہے۔ پھر امیرالمومنین علیہ السلام انتظام فرمائیں گے۔ تب غذا ہوگی۔ تو یہ چوتھا دن بھی شامل ہے۔ یہ روایت بین الفریقین مسلّم ہے۔ یہاں تکہ امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں بھی یہ پورا واقعہ درج کیا ہے۔ تفسیر میں درج تو کردیا ہے لیکن لوگوں نے اس کو اصل منزل سے ہٹانے کیلئے اوپر مکیہ لکھ دیا ہے۔اٹھا کر دیکھئے قرآن مجید، کہیں کے بھی چھپے ہوئے ہوں، تو ا س کی پیشانی پرسورئہ دھر کے نیچے مکیہ لکھا ہوا ہے تاکہ جو اصل منزل ہے، اُس سے دور ہوجائے۔ تلاش کرنے سے مل جاتے ہیں ایسے قرآن جن میں مدنیہ لکھا ہوا ہے۔ مگر عام طور پر مکیہ لکھ دیا گیا ہے تاکہ ذہن شانِ نزول کی طرف جائے ہی نہیں۔مفسرین مجبور ہیں کہ اس کے ضمن میں شانِ نزول کا تذکرہ کریں۔

بہرحال اب چوتھا دن ہے۔ روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ باوجودیکہ پیغمبر خدا روز بیت الشرف میں تشریف لاتے تھے، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ، مگرجیسے یہ بھی قدرت کا انتظام ہے کہ اس تین دن میں، میں کہتا ہوں کہ جب یہ حضرات راہِ عمل میں تھے، پیغمبر خدا تشریف نہیں لائے۔ چوتھے روز حضور تشریف فرما ہوئے۔ اب حفظ آداب ہے اس گھرانے کا کہ جونہی رسول اللہ تشریف لائے تو سب تعظیم کیلئے کھڑے ہوئے۔ تو یہاں میں نے حوالہ دیا تھا کہ بچے کتنے ناتواں ہیں، یہ بعد میں پتہ چلے گا۔ تو اب سب کھڑے ہوئے ہیں تعظیم کو۔ حسن اور حسین بھی کھڑے ہوئے ہیں۔ یہاں راوی نے ان کی کیفیت بیان کی ہے کہ حسن اور حسین جو کھڑے ہوئے تو ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، تھرتھرا رہے تھے۔

پیغمبر خدا نے بچوں کی جو یہ کیفیت دیکھی ، میں کہتا ہوں کہ راوی کی نظر جو پہلے پیروں پر پڑی تو پیغمبر خدا کی نظر بھی پہلے پیروں ہی پر پڑی ہوگی۔ اس کے بعد سب کے چہرے دیکھے ہوں گے تو اس کے بعد خاص تغیر محسوس ہوا ہوگا۔ فرمایا: یہ کیا عالم ہے؟ امیرالمومنین نے عرض کیاکہ خدا و رسول زیادہ واقف ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ وہ اپنی رودادِ عمل خود سناتے؟ کہا کہ خدا و رسول زیادہ واقف ہیں۔ اتنی دیر میں جبرئیل امین بسم اللہ سمیت ۳۱ آیاتِ مدحیہ لئے ہوئے اُترے اور وہ سورة پڑھ کر پیغمبر خدا نے تمام اہل بیت کو سنایاکہ تم لوگ بیان کرو یا نہ کرو، خالق نے تمہاری ساری روداد سنا دی ہے۔

اب بتائیے جن کا ذکر خدا رسول سے کرے، ان کا ذکر اگر ہم کریں تو عبادت نہ ہوگی؟


11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40