دینِ اسلام ۳
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰهِ الْاِسْلَامْ
)
۔
دین کے بارے میں جو طرح طرح کے عذر کئے جاتے ہیں، ان کی پہلی بات کل عرض ہوئی کہ اگر ایک دین ہوتا تو مان بھی لیتے۔ جب بہت سے دین ہیں تو اس جھگڑے میں کون پڑے۔ اس کے بارے میں مَیں نے عرض کیا کہ زندگی کہ ہر شعبہ میں بہت سی شکلیں ہوتی ہیں تو یہ تو نہیں انسان کرتا کہ چونکہ شکلیں بہت ہیں، لہٰذا اس چیز ہی کو چھوڑ دیں بلکہ کبھی اپنے ذوق کی مناسبت کو دیکھتا ہے، کبھی جوواقف کار ہیں، ان سے دریافت کرتا ہے، ان سے پتہ لگاتا ہے کہ کونسا راستہ ہے جو منزل تک جائے گا۔ سٹیشن پر پوچھتا ہے کہ کونسی گاڑی ہے جو اُس جگہ جارہی ہے جہاں مجھے جانا ہے۔ تو جب ہر شعبہ حیات میں انسان ایسا ہی کرتا ہے تو دین کے بہت ہونے سے اصل دین کو چھوڑنا، یہ کہاں کی معقولیت ہے؟ بلکہ انسان تحقیق کرے، غور کرے اور سمجھنے کی کوشش کرے کہ کونسا دین درست ہے۔
اب اس بات کا دوسرا پہلو پیش کرتے ہوئے یوں کہاجاتا ہے کہ دینوں کی وجہ سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ جب بہت دین ہوئے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی کسی دین کا پیرو ہے ، کوئی کسی دین کا۔ لہٰذا ایسی چیز سے کیا فائدہ جو لوگوں میں تفرقہ پیدا کرے۔ تو اس کے جواب میں مَیں یہ کہوں گا کہ اس کا حل آپ نے جو تجویز کیا ہے کہ لادینیت اختیار کریں تو اس لادینیت سے تفرقہ کیونکر ختم ہوگا؟ بلکہ آپ کی لادینیت نے ایک فرقہ کا اضافہ کردیا ہے۔آپ کے ابھی تک دین کی وجہ سے فرقہ تھے۔ ایک ایک دین کا ایک دوسرے دین کا۔ اب وہ فرض کیجئے پچاس تھے، اکیاونواں گروہ پیدا ہوگیا لادینیت کا۔ تو اس سے تفرقہ میں کمی تو نہیں ہوئی اور زیادتی ہوگئی۔ جب سب بے دین ہوجائیں گے تو تفرقہ مٹ جائے گا۔
تو میں کہتا ہوں کہ یہ خواب جو آپ دیکھ رہے ہیں، اگر شرمندئہ تعبیر بھی ہوا اور اس ترکیب سے آپ تفرقہ مٹائیں کہ سب بے دین ہوجائیں تو میں یہ کہتا ہوں کہ ہر دین تفرقہ مٹا سکتا ہے، اس طرح کہ سب اُس دین کو اختیار کرلیں۔اس لئے تفرقہ ہوتا ہے تو اب آپ کا نسخہ ہے ، وہ بھی مرض کو بڑھانے والا ہے۔ اس میں تفرقہ میں اور اضافہ ہوگا، کمی تو نہیں ہوگی۔ اب اسی کا اور جدید تر پہلو یہ ہے کہ دین دنیا میں جنگیں کرواتا ہے، لڑائیاں کرواتا ہے اور دین کی وجہ سے کتنے خون گزشتہ دَور میں بہہ چکے ہیں اور اب بھی کبھی کبھی بہتے ہیں۔تو ایسی چیزسے کیا فائدہ جو خونریزی کروائے، جنگیں کروائے۔ تو میں کہتا ہوں کہ وہ دین تو کوئی سا بھی نہیں ہے جنگ کی دعوت دے خود سے۔ یہ جنگیں جو ہوتی ہیں، یہ اس لئے کہ دین کے نام پر تحریکیں اٹھائی جاتی ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ شاطر سیاست دان جانتا ہے کہ دین میں جتنی جاذبیت ہے، اتنی کسی اور چیز میں نہیں ہے۔ تو اس بناء پر اپنی تحریکوں پر دین کا غلاف چڑھایا جاتا ہے اور جھنڈے پر دین کا نام لکھ دیا جاتا ہے اور دین کا نعرہ لگایا جاتاہے۔ با ت کیا ہے؟
بات یہ ہے کہ ملمّع اس چیز کا کیا جاتا ہے جو قیمتی ہو، لوہے کا ملمّع نہیں کیا جاتا۔ چونکہ سونے چاندی کی قیمت ہے، اس لئے اس کا ملمّع چڑھائیں گے۔شیشے کا مصنوعی تیار نہیں کریں گے، لعل و یاقوت چونکہ قیمت رکھتے ہیں، لہٰذا اُن کا مصنوعی تیار کیا جاتا ہے۔ تو اب جو عرض کرتا ہوں ، اس کو عقل کی بارگاہ میں پیش کرکے دیکھئے کہ چونکہ سونے چاندی کا ملمّع چڑھا کر بہت سے لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے، لہٰذا دنیا سے سونے چاندی کو ختم کردیا جائے۔ چونکہ لعل و یاقوت کا مصنوعی تیار کیا جاتا ہے، بہت سے لوگوں کو ٹھگ لیا جاتا ہے، لہٰذا لعل و یاقوت کو دنیا سے نابود کردیا جائے تاکہ لوگوں کو دھوکا نہ ہو۔ چونکہ اصلی گھی کے نام پر لوگوں کے ہاتھ بناسپتی گھی فروخت کیاجاتا ہے، لہٰذا یہ ہے کہ اصلی گھی کو دنیا سے ختم ہی کردیا جائے۔ تو یاد رکھئے کہ ان ملمّعوں کی وجہ سے جو کسی کا نقصان ہوتا ہے، تو اس میں قصور اُس اصل چیز کا نہیں ہے۔ ریگستانوں میں بالو پانی کی طرح چمکتی ہے، اُسے سراب کہتے ہیں۔ بہت سے پیاسے دھوکہ کھاکر دوڑتے ہیں تو پیاس میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ قریب پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پانی تھا ہی نہیں۔ تو کیا دنیا سے پانی فنا کردینے کے قابل ہے؟ اس لئے کہ سراب بہت سوں کو دھوکہ دیتا ہے؟
اب میں ایک عام بات کہوں، یاد رکھئے کہ جھوٹ جھوٹ ہے ہی نہیں جب تک سچ کا لباس نہ پہنے۔ اگر جھوٹ کہہ کر بولا جائے تو جھوٹ ہوگاہی کہاں؟تو جھوٹ اس وقت تک جھوٹ ہے جب تک سچ کا لباس نہ پہنے۔ تو کیا دنیا سے سچائی ختم کردینے کے قابل ہے؟ اس لئے کہ جھوٹ بہت سوں کو دھوکہ دیتا ہے۔ تو اگر یہ سب باتیں غیر معقول ہیں تو اسی طرح اگر مذہب کے نام پر بہت سے لوگ دھوکہ کھاتے ہیں تو اس میں اصل دین کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ اب ان سب کا کیا علاج ہے؟ان سب کا علاج یہ ہے کہ نگاہِ امتیاز پیدا کیجئے جو اصل اور نقل کا فرق محسوس کرسکے۔علامتوں پر نظر کیجئے جوسراب اور آب میں فرق محسوس کرسکے۔عقل و شعور سے کام لیجئے کہ سچ اور جھوٹ کا امتیاز کرسکے۔ تو اسی طرح اگر دنیا میں بنامِ مذہب فساد ہوتے ہیں تو اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ دین کو فنا کردیجئے بلکہ اس کا علاج یہ ہے کہ قوتِ امتیاز پیدا کیجئے۔ دین کی معرفت زیادہ حاصل کیجئے تاکہ کسی غلط نعرے سے دھوکہ میں نہ آجائیں اور یوں تو انسان کا یہ ذوقِ خوں آشامی۔
جب تک دنیا مذہب کے نام پر قبضے میں آتی تھی، تب تک مذہب کے نام پر تحریکیں چلیں، لڑائیاں ہوئیں لیکن جب سے گویا دین کا تصور فیشن کے خلاف ہوگیا، جب سے موجودہ دَور کی ہوا چلی کہ لوگوں کی نگاہ میں دین کی وہ جاذبیت باقی نہ رہی، تو اب دین نہ رہے ”ازم“ ہو گئے ۔ مختلف نظام ہائے حیات ہوگئے۔ اب جو لوگ زیادہ معلومات رکھتے ہیں، وہ اعدادوشمار سے ثابت کرسکتے ہیں جو عرض کررہا ہوں ، میری عمر کے آدمیوں کے سامنے تو دو عظیم جنگیں ہوئیں جس کو ہم لوگ جنگ ہفتِ اقلیم کہتے تھے۔ ایک ۱۴ ء کی جنگ جس میں ایک طرف حریف قیصر ولیم تھا۔ اس وقت تک ہٹلر کا وجود نہیں تھا۔ ایک جنگ وہ۔ ایک جنگ جو بہت سے مجھ سے کم عمر والوں کے سامنے کی بات ہے، ہٹلر جس میں فریق تھا۔ ہٹلر کا نام جس میں آیا تویہ جنگ عظیم۔تو اب اعدادو شمار دیکھئے کہ شروع سے بنامِ مذہب جو جو لڑائیاں ہوئی ہیںِ ان سب کو ملا کر مقتولین زیادہ ہیں یا ان عظیم جنگوں میں؟ طرفین کے جتنے مقتول ہوگئے، تو یہ خونریزی مذہب کے نام پر ہورہی ہے؟ دونوں طرف ایک ہی مذہب کے لوگ اور ان میں جنگ ہورہی ہے۔
تو یہ معلوم ہوا کہ مذہب بہانہ ہوتا ہے اور جب مذہب نہیں ہوتا تو دوسرے بہانوں سے آدمی لڑتا ہے اور یہ ذوقِ جنگ آزمائی تو ایسا تھا جو فرشتوں نے اس وقت پیش کیا تھا جب انسان کے عالم وجود میں آنے کا اعلان ہوا تھا اور عطائے منصب کا سوال تھا۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ہے کہ ارشاد ہورہا ہے:
(
اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَة اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَة
)
۔
جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک جانشین مقرر کرنا چاہتا ہوں۔
اب مستقل طور پر تو یہ آیت موضوعِ بیان نہیں ہے مگر جتنا سمجھنے کیلئے ضروری ہے، اتنا تو کہنا ضروری ہے کہ ہمارے مفسرین پہلے تو اس میں الجھ گئے کہ جانشین کس کا؟ کیونکہ قرآن کے الفاظ میں فقط اتنا ہے کہ میں جانشین مقرر کرنا چاہتا ہوں۔اب یہ کس کا جانشین؟ یہ لفظوں کے اندر نہیں ہے۔ تو اب مفسرین اُلجھے ہوئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ارے بھئی ! کیوں اُلجھے ہوئے ہو، قرآن تو موجود ہے، کافی ہے، تو کس کا جانشین؟ تو اب قرآن کے حل کرنے کیلئے تاریخ عالم دیکھئے جو حدیثوں سے ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کے آنے سے پہلے شیطان اور جنات زمین میں بستے تھے۔ انہی میں سے تو یہ ابلیس تھا۔ اس قوم کو جنات و نسناس کہا جاتاہے۔ کتابوں میں تو جب ان جنات و نسناس پر عذاب نازل ہوا ، میں اپنی زبان میں کہہ رہا ہوں، وہ بے دخل کئے گئے تو اب زمین خالی ہوگئی۔ تو یہ ارشاد ہورہاہے ، گویا اب یہ مطلب نکلا ہے کہ خالق ارشاد فرمارہا ہے کہ ان شیاطین و جنات کی بجائے ، جو یہاں بستے تھے، اب میں ایک دوسرے کو پیدا کرنا چاہتا ہوں۔
واہ! فکرہرکس بقدر ہمت اوست۔ میں کہتا ہوں سبحان اللہ! قرآن کی آیت کا مضمون آگے بھی تو پڑھئے۔ جنات و شیاطین کی جانشینی اور ملائکہ کا رشک کرنا کہ ہم ہی کو کیوں نہیں مقرر کردیاجاتا؟ یہ تو ملائکہ کا سوال بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت اونچا منصب ہے۔ اور اب میرے اوپر ذمہ داری ہے کہ میں مفہوم اس کا بیان کروں۔ میں کہتا ہوں کہ اس کیلئے کوئی اِدھر اُدھر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے محاورات پر غور کیجئے۔ کسی دن آپ دھوپ میں آئے ہوں، کسی اپنے دوست کے ہاں اور کہیں کہ بھئی بڑی پیاس لگی ہے۔ وہ پوچھے گا کس کو؟کوئی صاحب ملے، آپ نے کہا، مثلاًبھائی صاحب ملتان سے آگئے۔ وہ پوچھے گا کس کے؟ کوئی صاحبزادے ہیں، انہوں نے کہا والد ماجد نے یہ فرمایا ہے۔ آپ پوچھیں گے کس کے؟ معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی اور کا ذکر ہو تو متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ کس کا اور جب اپنے متعلق بات ہو تو متعلق نہیں بیان کیا جاتا کہ کس کا۔
تو کسی نے کہا کہ پیاس لگی تو آپ نہیں پوچھتے کہ کس کو، کسی نے کہا کہ بھوک لگی ہے تو آپ نہیں پوچھتے کس کو۔کسی نے کہا بھائی آگئے تو آپ نے پوچھتے کس کے۔ کسی نے کہا کہ والد فرماتے ہیں، آپ نہیں پوچھتے کہ کس کے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں جانشین مقرر کرنا چاہتا ہوں تو آپ کہتے ہیں کس کا؟ میں کہتا ہوں کہ اگر کسی اور کا ہوتا تو اس کا نام لیا جاتا تاکہ کس کا جانشین ؟ جب یہ نہیں کہا گیا کہ کس کا تو سمجھئے کہ جو اعلان کررہا ہے، وہ اپنی طرف نسبت دے رہا ہے کہ میں اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتا ہوں ۔ مگر مجھ سے اب اس عقلی سوال کا ہر ایک کو حق ہے کہ اللہ کے جانشین کے کیا معنی ہیں؟ جانشین وہ بنائے جس سے جگہ خالی ہو یا زمانہ خالی ہو اور وہ ذات جس کا نقل و انتقال ممکن نہیں، جو جسم و جسمانیات سے بری، تو وہاں جانشینی کے کیا معنی؟ تو میں تو پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اصل میں اس آیت کو تو بیان نہیں کررہا ہوں لیکن مجمل طور پر اس کے دو پہلو عرض کروں گا۔
ایک بات خفی ہے جسے ہر ایک آدمی بہت زیادہ غور کے بغیر سمجھ سکتا ہے ۔ دوسرا نکتہ گہرا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ بے شک اللہ لامکان ہے لیکن عالم اعلیٰ کا جو اس کی ذات کے ساتھ تعلق مانا جاتا ہے، وہ عالم ادنیٰ یعنی زمین کا نہیں مانا جاتا۔ اسی لئے دعا میں ہاتھ اٹھاتے ہیں، جھکاتے نہیں ہیں۔ موسیٰ بھی کلام کیلئے طور کی بلندی ڈھونڈتے تھے اور قرآن مجید کے محاوروں پر نظر کر لیجئے ، وہ آیتیں نہیں پڑھوں گا کیونکہ موضوع مستقل نہیں ہے کہ جو جو چیزیں اُدھر کی ہیں، ان کیلئے آتا ہے اُتارنا۔ بارش اُتاری، لوہا اُتارا۔ تو جو چیز اُدھر سے آتی ہے، اس کیلئے آتا ہے اُتارنا۔ جو اِدھر سے چیز جاتی ہے، اس کیلئے ہے چڑھنا۔ عملِ صالح بلند ہوتا ہے ، دعائے مومن بلند ہوتی ہے۔ نمازی کی پُرخلوص نماز بلند ہوتی ہے۔
تو معلوم ہوتا ہے کہ بلند حصہ کو جو تعلق مقامِ نسبت میں ہے، یعنی عرش جو پایہ تخت ہے، اس کو(
اَسْفَلُ السَّافِلِیْن
)
میں نہیں مانا گیا ہے۔ اعلیٰ علیین میں مانا گیا ہے حالانکہ میں نہیں مانتا کہ وہاں اللہ سبحانہ بیٹھتا ہے۔ یہ تو اس وقت ہو کہ جب مکان کا محتاج ہو اور اس کو ایک روزمرہ کی مثال میں کہ یہاں بھی تو بیت اللہ ہے، خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے جس کے حج کیلئے جاتے ہیں۔ تو اس کا گھر ہے مگر کیا وہ کبھی رہا ہے؟ تو جس کو رہنے کیلئے جگہ کی ضرورت نہیں، اس کو بیٹھنے کیلئے بھی جگہ کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی مقامِ شرف میں ایک نسبت ہے، وہ بھی مقامِ اعزاز میں ایک نسبت ہے۔ مگرجیسی نسبت ہوتی ہے، اس کو اپنے عمل سے نبھایا جاتا ہے۔ وہ ہے اللہ کا تخت سلطنت، گھر کی نسبت کسی شخص کی طرف انفرادی و ذاتی یعنی نجی ہے اور تخت سلطنت کی حیثیت منصبی ہوتی ہے۔ تو جب گھریلو کام لینا ہو، زچہ خانہ بنانا تو اُسے منتخب کیا ، کسی کو سرکاری مہمان بنانا ہو تو وہاں بلایا گیا۔ وہ کیوں؟ کہ جس حیثیت سے عرش اس کا پایہ تخت ہے، اس حیثیت سے زمین اس شرف سے محروم ہے۔ اسی وجہ سے قرآن میں”(
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ
)
“ہے۔ اب اس کو م یں اپنے الفاظ میں کہتا ہوں ، گویا خالق فرشتوں سے کہہ رہا ہے کہ اے فرشتو! یہاں تو میں ہوں،مگر جس حیثیت سے عرش میر اپایہ تخت ہے، زمین اس شرف سے محروم ہے۔ لہٰذا ایک ایسے کو میں پیدا کرتا ہوں کہ زمین سے اس کو وہی نسبت ہو جو عرش کو مجھ سے ہے۔ جیسے یہ میرا پایہ تخت ہے، ویسے زمین اس کا پایہ تخت ہو ۔
اب جو دوسرا پہلوجسے میں نے کہا تھا کہ ذرا تھوڑے سے غور کی بات ہے، تو میں کہتا ہوں کہ یہ بات ہی غلط ہے کہ جانشین وہ مقرر ہوتا ہے جس سے جگہ خالی ہو یا زمانہ۔ نہیں! ایک اور صورت ہے جانشین مقرر کرنے کی ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی معزز مہمان کسی جگہ جاتا ہے تو اس کے اعزاز میں جلسہ ہوتا ہے۔اس میں سپاسنامہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس مہمان کیلئے اخلاقی طور پر اور آئینی حیثیت سے اس سپاسنامہ کا جواب دینا خود اسی کا کام ہے۔ کوئی خود سے کھڑا ہوجائے جواب دینے تو اس کا فریضہ نہیں پورا ہوگا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کی زبان اور ہے اور یہ جو مہمان آیا ہے، اس کی زبان دوسری ہے۔اگر یہ اپنی زبان میں پڑھے تو وہ نہیں سمجھیں گے ۔ ان کی زبان سے یہ واقف نہیں ہے۔ ان کی زبان میں یہ پیش نہیں کرسکتا۔ لہٰذا جواب باوجودیکہ جلسہ میں وہ موجود ہے، اپنی جانب سے کسی کو اپنا نائب مقرر کرے گا۔ لیکن وہ بیچ والا ایسا ہو جو اُس کی زبان سے بھی واقف ہو اور ان کی زبان سے بھی۔ان کی زبان میں ان تک پہنچائے ۔ تو بس یہاں جانشین کی ضرورت ہے کہ اس کا کمال براہِ راست ہم تک پہنچنے میں سد راہ ہے، ہمارا نقص اس تک پہنچے سے مانع ہے۔ لہٰذاضرورت ہے کہ کوئی بیچ والا جو کچھ اس سے ملتا ہو اور کچھ ان سے ملتا ہو۔
تو جنابِ والا! اب یہ ہے اتنا بڑا منصب کہ ملک کی نگاہِ طلب جاتی ہے کہ منصب سے محروم رہ کر پاس رہنا وہ بلندی نہیں رکھتا جو منصب پاکر دور چلاجانا بلندی رکھتا ہے۔ تو کیا کہتے ہیں:
(
اَتَجْعَلْ فِیْهَا مَنْ یُفْسِدُفِیْهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ
)
۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے اعتراض کیا۔ مگر یہ بے سمجھی ہوا لفظ ہے۔ یاد رکھئے کہ فرشتہ ہے جس کیلئے خالق نے کہہ دیا ہے:
(
لَایَسْبِقُوْنَه بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِه یَعْمَلُوْنَ
)
۔
وہ اللہ پر بات کرنے میں سبقت نہیں کرتے۔ وہ اس کے حکم پر عامل ہیں۔ عصمت فطری کی منزل پر فائز ۔
تو یہ جو کہہ دیا کہ اعتراض کیا، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ملک نے سوال کیا ہے اور ملائکہ بارگاہِ قدس کے طالب علم ہیں اور طالب علم کو اپنی تسلی کیلئے سوال کا حق ہے اور میرے نزدیک تو سوالِ ملک کسی مقصد الٰہی کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔اسی لئے ان کے دل میں یہ تصور پید اکیا کہ ہمیں سوال کرنا چاہئے۔ کوئی اللہ کا مطلب ان کے سوال میں مضمر ہے تو ابھی تو یہی سمجھ لیجئے جو میں نے عرض کیا کہ منصب کی بلندی کا اظہار ہے کہ دیکھو! منصب اتنا بلند ہے کہ فرشتے کے بھی دل میں اس کی آرزو ہوتی ہے۔ اب اسے کبھی ارزاں نہ بنالینا اور اب فرشتہ کیا کرتا ہے؟ انسان کی زندگی کا ایک تاریک پہلو جو ہے، وہ بھی اُسے اللہ کے دئیے ہوئے علم سے معلوم ہے۔ وہ خود کیا جانے ، اللہ جو بتاتا رہاہے انہیں ،وہ ان کو معلوم ہے۔ تو وہ کہہ رہا ہے کہ اُسے پیدا کیا جائے گا جو خونریزی کرے اور فساد کرے ۔ تو اسی لئے میں نے اس موضوع میں سے عرض کیا کہ یہ خونریزی تو گویا فطرتِ انسانی کا ایک تقاضا تھا جسے فرشتے نے اس وقت محسوس کیا اور اس کو پیش کیا سوال کے محل پر۔
تو انسان کی زندگی کا یہ پہلو لیا اور اپنی زندگی کا روشن پہلو کہ:
(
نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ
)
۔
ہم تیری بارگاہ میں تسبیح و تقدیس کرتے ہیں۔
اس میں کونسا جزو غلط ہے؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انسان خونریزی نہیں کرتا؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ملک تسبیح و تقدیس نہیں کرتے؟ کونسا جزو غلط ہے؟بس ملا کے پوچھ لیا کہ ہمیں نہیں مقرر کیا جاتا اور اس نوع میں سے مقرر کیاجاتا ہے؟ تو ارشاد ہوتا ہے جواب میں:
(
نِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ
)
۔
”میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے“۔
مجمع میں طالب علم بھی ہیں، اُستا دبھی ہیں، کوئی طالب علم اُستادسے کچھ پوچھے ، وہ کہے جو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔ تو یہ کوئی جواب ہوا؟ حالانکہ خود قرآن سے ثابت ہے کہ بعد میں جواب کا انتظام کیا جائے گا۔ وہ تعلیم اسماء ، وہ سب اس وقت تو عرض نہیں کرنا ہے۔ کبھی انشاء اللہ مستقل طور پر اُسے عرض کیا جائے گا تو جواب دیا جائے گا اس کا۔ مگر ابھی جواب نہیں دیا جاتا۔ اس کو جواب تو نہیں کہتے، سوال کا ٹھکرا دیاجانا کہتے ہیں۔
تو میں کہتا ہوں : بارِالٰہا! جب جواب آپ کو دینا ہی ہے تو اسی وقت فرشتے کے سوال کا جواب کیوں نہیں دے دیا؟ مگر جو میری سمجھ میں آیا، وہ عرض کرتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ ابھی خالق سمجھانے لگتا کہ یہ مصلحت ہے ، یہ مصلحت ہے ، یہ مصلحت ہے تو ایک صورتِ شوریٰ قائم ہوجاتی۔ سوال کے جواب میں یہ کہا کہ جو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔ اب اس کا مطلب میرے الفاظ میں یہ ہے کہ منصب میرا، مقرر کرنا میرا کام، تم کون؟تواب سوالِ ملک میں ایک دوسرا راز سمجھ میں آیا کہ خالق نے دکھا دیا کہ دیکھو! یہ منصب وہ ہے جس میں ملک کے معصوم مشورہ کا بھی کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جو اصول اس وقت واضح ہوگیا، تو اب طالب علموں کی تسلی کیلئے جو فریضہ تعلیمی ہے، اُسے بعد میں انجام دے دیا جائے گا۔ جلدی اسے ہوتی ہے جسے وقت کے نکلنے کا اندیشہ ہو۔ لہٰذا وہ تعلیم اسماء ، وہ سب امتحان ہوا اور ملک نے کہا کہ ہمیں تو اتنا معلوم ہے جتنا تو نے بتادیا ہے۔ اس کے آگے نہیں معلوم۔
اب اس سے جو نتائج نکلتے ہیں، وہ پھر انشاء اللہ جب اس کا بیان ہوگا۔ اب خالق نے اس دن کے سوال کا حوالہ دے کر گویا اپنی فتح کا اعلان کردیا کہ”(
اَلَمْ اَقُلْ لَکُمْ
)
“، کہ اب سمجھے م یں نے نہیں کہا تھا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟ مگر ظاہر ہے کہ وہ خود اس نے کہا کہ جتنا تو نے ہمیں علم عطا کیا، اتنا ہمیں حاصل ہے۔ جتنے جتنے اس کے سامنے نمونے زیادہ آتے گئے اور اللہ علم دیتا گیا، اتنا اتنا اس کے علم میں اضافہ ہوتا گیا۔اب کہاں تو خونریزی کو کہا تھا ، ایسے کو جو خونریزی کرے گا، کہاں ایک ایسی منزل آگئی کہ بدر میں خود سپاہی بن کر آگیا۔
اب کہاں وہ ملائکہ کہ معترض ہوئے تھے عرش پر ، کہاں میدان میں ملائکہ کی فوجیں تھیں(قرآن)۔فوجیں ان کی مدد کیلئے آئیں بدر میں اور فقط نمائشی طور پر نہیں آئے تھے۔ قرآن مجید میں ہے کہ انہیں اصولِ جنگ بتائے گئے۔ ارے وہ اسی مدرسہ کے طالب علم ہیں تو انہوں نے سپہ گری کہاں سیکھی تھی؟ لہٰذا خالق نے انہیں اصول بتائے(آیت) دیکھو! ہم بتاتے ہیں کہ گردنوں پر تلوار لگانا۔ قرآن مجید کی آیت ہے کہ انگلیوں پر ضرب لگانا۔ فنونِ جنگ سکھائے جارہے ہیں۔
ماشاء اللہ یہاں ایسے افرا دہوں گے جو فن سپہ گری کے قدیم طور پر یا جدید طور پر واقف ہوں گے۔ تو میں کہتا ہوں کہ سر کے وار سکھائے گئے ہیں اور انگلیوں کو کاٹنا سکھایا گیا ہے۔اب یہ جنگ کررہے ہیں۔ممکن ہے کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ سب آئے تھے، بھیجے گئے تھے او رجنگ بھی انہوں نے کی، کمزور دل والے مسلمانوں کی ڈھارس کیلئے۔ قرآن کہہ رہاہے کہ دیکھو! کبھی اپنی قلت تعداد سے نہ گھبرانا۔کبھی ہماری مصلحت ہوگی تو ہم فرشتے بھی بھیج سکتے ہیں۔ یہ نمونہ پیش کرکے دلوں کو ڈھارس دی گئی ۔ میں کہتا ہوں کہ دوسروں کے دلوں کو تو ڈھارس ہوئی اور جو حقیقی مجاہد تھا، اس کے ذوقِ شجاعت پر بار ہوگیا کہ میرے ہوتے ہوئے فرشتے آئے۔ میری موجودگی میں فرشتے آئے؟اس کی طبیعت پر جیسے بار سا ہوگیا۔ میں کہتا ہوں کہ اب یہ آیتیں جو آئی ہیں کہ ہم نے یہ بھیجے ہیں، ایسے لوگوں کی وجہ سے جو کمزور دل والے ہیں۔ سب تو تمہارے جیسے نہیں ہیں۔ ان کے دلوں کی تسلی کیلئے ہم نے بھیجے ورنہ ضرورت نہیں تھی۔ اس میں یہ مضمر ہے کہ ضرورت تھی
نہیں ، ہم نے ان کے دل کی تسلی کیلئے ، ڈھارس دینے کیلئے بھیج دئیے ہیں۔لیکن اچھا! تمہاری طبیعت پر بار ہے تو اب اس کے بعد جو جنگ ہوگی، تو چاہے جو ہوجائے، اب نہیں بھیجیں گے اور اُس نے جس نے بار محسوس کیا تھا، اُس نے جنگ سر کرکے دکھا دی۔ بگڑی ہوئی جنگ بنا کر دکھا دی اور اب اس وقت تو ملک نہیں آیا۔
اب جب ، اپنی زبان میں کہتا ہوں ،محا ورہ ہے یوپی کا، وارے نیارے ہوگئے تو اب جنابِ جبرئیل امین تشریف لائے ہیں۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے مدارج النبوة میں تحریر فرمایا ہے، فارسی زبان کی کتاب ہے، بڑے جلیل القدر عالم ہیں اہل سنت والجماعت کے، محدث محقق انہوں نے مدارج النبوة میں لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس فوج کو بھگایا اور آپ نے آکر رسول کے زخموں کو دھلوایا اور آپ کو کھڑا کیا۔ اتنی دیر میں اِدھر اُدھر سے فوج آنا شروع ہوگئی۔ مختلف دستوں کی شکل میں، گروہ در گروہ، اِدھر سے ، اُدھر سے۔ پیغمبر اشارہ فرمارہے ہیں کہ دیکھو! یہ آرہے ہیں۔ دیکھو یہ آرہے ہیں۔ دیکھو یہ آرہے ہیں اور علی ابن ابی طالب چاروں طرف گھوم کر اُن کو دفع کررہے ہیں۔ تو اب جنابِ جبرئیل تعریف کررہے ہیں :
”اِنَّ ذِیْ لَهِیَ الْمُوَاسَاتُ
“۔
یہی جملہ ہے تاریخ کا، یا رسول اللہ! ہمدردی تو اسے کہتے ہیں، غمخواری تو اسے کہتے ہیں اور رسول کہتے ہیں:
”کَیْفَ لَاهُوَمِنِّیْ وَاَنَا مِنْهُ
“۔
”کیونکر نہ ہو کہ وہ مجھ سے ہے اور میں اُس سے ہوں“۔
حضرتِ جبرئیل تو عجب دلچسپ ہیں، وہ کہہ دیتے ہیں”اَنَا مِنْکُمَا
“م یں آپ دونوں سے ہوں۔
ایک دن راولپنڈی میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے فرشتوں سے باتیں کرنا تو آتی نہیں، وہ الفاظ بھی نہیں آتے لیکن اپنی زبان میں جنابِ جبرئیل سے یہ کہوں گا کہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ جب دو کی بات ہورہی ہو تو آپ کہیں میں دونوں سے ہوں اور جب پانچوں آجائیں تو آپ کہیں کہ میں چھٹا کیوں نہ ہو جاؤں!
مگر اس میں ایک بڑی حقیقت مضمر ہے کہ یہ انسان وہ ہیں کہ انہوں نے فرشتہ ہونے کی کبھی تمنا نہیں کی ہے مگر یہ اتنے اونچے ہیں کہ فرشتے ان میں شامل ہونے کی تمنا کرتے ہیں۔ اور یہ تو بدر کی باتیں ہیں، آپس کی گفتگو تھی۔یہی جبرئیل امین یا کوئی اور فرشتہ ، وہ ایک دفعہ میں کہتا ہوں کہ منبر ہواپر مابین زمین وآسمان بلندی پر جاکر اُس نے قصیدئہ منقبت پڑھا اور کہا:
”لَافَتٰی اِلَّا عَلِیْ لَا سَیْفَ اِلَّاذُوالْفِقَار
“۔
”کوئی جوان نہیں سوائے علی اور کوئی تلوار نہیں سوائے ذوالفقا رکے“۔
میں کہتا ہوں کہ اب وہاں کی بات مجھے یاد آئی کہ حضرت! آپ کو تو خونریزی سے نفرت ہے۔ انیس اعلی اللہ مقامہ تلوار کی تعریف کریں تو ٹھیک ، ہمارے مرزا دبیر صاحب مرحوم تلوار کی تعریف کریں تو ٹھیک، لیکن یہ آپ اور تلوار کی تعریف؟ ارے سپر کی تعریف کرتے کہ اس کا کام روکنا ہوتا ہے، تلوار کا تو کام ہی خون بہانا ہے۔ یہ آپ تلوار کی تعریف کررہے ہیں؟ تو شاید جبرئیل امین یا جو فرشتہ یہ صدا بلند کررہا ہو، وہ مجھ سے کہے کہ خاموش ، ناسمجھی کا سوال نہیں۔ تلوار خطاکاروں کے ہاتھ میں آکر خطاکار ہوتی ہے، معصوم کے ہاتھ میں آکر معصوم ہوتی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ آنکھ بندکرکے نہ خونریزی کو اچھا سمجھا جاسکتا ہے، نہ خونریزی کو برا سمجھا جاسکتاہے۔
چند مہینے پہلے کی بات ہے، الٰہ آبا دگیا۔ اکثر لوگ موضوع کا اعلان میرے پہنچنے سے پہلے کردیتے ہیں جیسے آپ کے ہاں اعلان ہوگیا تھا۔جب آیا تو پتہ چلا کہ پہلی مجلس کا اعلان تھا” اسلام خونریزی کا حامی نہیں ہے“۔میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ یہ موضوع رکھا کیوں گیا ہے؟ پہلے تو میں نے ان سے جنہوں نے موضوع رکھا تھا، کہا کہ یہ موضوع غلط عنوان سے ہے۔ ماشاء اللہ یہاں تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ ایک ہوتا ہے ڈیبیٹ( debate )۔ مکالمہ، اس میں اس طرح کا موضوع ہوتا ہے۔ ایک رُخ اس میں ہوتا ہے اور پھر کوئی موافق تقریر ہوتی ہے ، کوئی مخالف تقریر ہوتی ہے۔ لیکن کسی جلسہ میں کسی مقرر کو جو موضوع دیاجائے، وہ جملہ ناتمام ہونا چاہئے، مثلاً اسلام اور خونریزی۔ اب یہ اس کا کام ہے کہ وہ کہے کہ اسلام حامی ہے یا مخالف ہے۔
میں نے کہا کہ جن صاحب نے یہ موضوع رکھا ہے، وہ خود ہی تقریر بھی کرلیں۔ بہرحال وہ پورا بیان میں نے کیا۔ اس میں مَیں نے یہ کہا کہ اگر ذرا سی اصلاح اس موضوع میں دی جائے تو وہ صحیح ہوجائے کہ اسلام ناحق خونریری کا حامی نہیں ہے۔ تو یہ انسان کا ذوقِ خوں آشامی ہے۔ کبھی غلط راستوں سے خونریزی ہوتی ہے، کبھی حق کی حفاظت کیلئے خونریزی ہوتی ہے۔ وہ وہاں اس موضوع میں جہاد پیش کرچکا، قتال کیلئے شرائط کیا ہیں؟ ابتدائے جنگ ہے۔ اُس کے بعد اجازت دی گئی ہے قتال کرنے کی۔ تو اب دوسرا خونریزی کیلئے جاتا ہے تو اب ادھر والا خونریزی نہ کرے تو کیا کرے؟ یا یہ فرض کیجئے کہ کوئی ہزاروں کی جانیں لے چکا ہے، اب اس کی جان چلی جائے اور آپ کو رحم آئے تو ان ہزاروں پر رحم نہ آیا ۔اس ایک پر رحم آرہا ہے۔ اس میں کوئی معقولیت نہیں ہے، کلیہ کوئی نہیں ہوسکتاخونریزی کے بارے میں۔
تو یہ انسان مذہب کے نام کو لے کر اگر خونریزی کرے تو اصل دین پر اس سے کوئی حرف نہیں آتا اور کتنی چیزیں ہیں جن کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ کتنے مقدس نعرے ہیں جو آپ لوگ لگاتے ہیں لیکن یہ نعرے کیا ہمیشہ مقدس رہتے ہیں؟ ۲۵ برس قبل کی بات ہے جب وہ کلوکیم ہوا تھا۔ لاہور میں ، دنیا بھر کے پروفیسر آئے تھے تو اس میں مَیں بحیثیت شرکاء کے مدعو تھا۔ تقریر میری نہیں تھی اس میں۔ وہاں کا ایک موضوع تھا ”تمدنِ اسلام“۔
ماشاء اللہ بڑے بڑے پروفیسر وہاں موجود تھے۔ انہوں نے جو جو کہا کہ وہ محرابیں جو ہیں، وہ اسلامک کلچر ہیں اور یہ گنبد جو ہیں، یہ اسلامی کلچر ہیں۔وہاں کی چیزیں سن کر میرا دل پک گیا تھا۔ یہاں ایک تقریر برکت علی ہال میں ہوئی تو میں نے اسی موضوع پر وہاں تقریر کی۔ وہ تقریر امامیہ مشن پاکستان سے چھپ بھی گئی ہے۔ تو ایک جزو اس کا میں کہتا ہوں کہ یاد رکھئے کہ اسلامی کلچر شکل و صورت سے نہیں ہوتا۔ اصل اسلامی کلچر اہلیت سے ہوتا ہے۔ گنبد لے جا کر آپ بت کدے میں بنادیجئے تو ہو گنبد بھی اسلامی کلچر ہے؟ نہیں، جو مسجد کا گنبد ہو، وہ ہوگا اسلامک کلچر۔اس کے محل استعمال سے ہوتا ہے۔ یہ اللہ اکبر کا نعرہ بھی صحیح محل پر لگے تو اسلامی کلچر ہوگا۔ اگر بے گناہوں کے گھر جلانے میں اللہ اکبر کے نعرے لگیں تو وہ اللہ اکبر کا نعرہ بھی اسلامی کلچر نہیں ہوگا۔ تو مقصد کا صحیح ہونا شرط ہے۔ ظاہری شکل سے نہیں ہوتا۔ بس اب بابِ مصائب ہے کہ کہاں کہاں ہم نے اللہ اکبر کے نعرے سنے ہیں۔ بس ایک عرب شاعر کا شعر پڑھتا ہوں۔ حضرت امام حسین علیہ السلا م کو
مخاطب کرکے اُس نے شعر کہا ہے:
وَیُکَبِّرُوْنَ بِاَنْ قُتِلْتَ وَاِنَّمَا
قَتَلُوْابِکَ التَکْبِیْرَا وَتَهْلِیْلَا
ارے یہ آپ کو شہید کرکے تکبیر کے نعرے لگارہے ہیں، حالانکہ آپ کے ساتھ انہوں نے تکبیر و تحلیل کے گلے پر چھری چلائی ہے۔
اور یاد رکھئے کہ یہی کام امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے جہاد میں سب سے بڑا کیا اور اس کو مختصر طور پر یوں عرض کروں گا کہ بد نصیبی سے ادھر کی جماعت بھی اپنے کو مسلمان کہتی تھی اور جس جس چیز کو سمجھ لیجئے اسلامک کلچر۔ ظاہری طور پر اس سب کو وہ اختیار کئے ہوئے تھی۔اتنی بڑی جماعت جہاں کی نمائندہ تھی، وہاں اونچے اونچے محل تھے۔ اونچے اونچے عالیشان مینارے تھے۔ قصر ابیض و قصر حمر ا و قصر خضرا، وہ سب وہاں تھے۔ مجھے بہت باتیں ڈاکٹر اقبال کی پسند ہیں مگر جہاں انہوں نے ان قصروں کو یاد کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہاں وہ جاہ و جلالِ دنیا سے مرعوب ہیں۔
ارے مسجد مدینہ کو نہیں یاد رکھتے اور قصر حمرا و قصر خضرا پر فخر کرتے ہو۔ مگر جو عرض کررہا ہوں ا س پر غور کیجئے کہ اگر کوئی غیر مسلم واقعی تحقیق کی غرض سے بھی تاریخ کی دوربین لگا کر اسلامی تہذیب کا پتا لگانا چاہتا تو ہو قصر خضراء جاتا، قصر حمرا جاتا ، دمشق کے عالیشان محل میں جاتا اور جب وہاں جاتا تو حریروزیبا کے پردے نظر آتے۔ سونے چاندی کے برتن کھنکتے ہوئے نظر آتے۔ غلام سنہری ڈابیں ، طلائی پٹکے کمر پر باندھے ہوئے نظر آتے او رپھر اور آگے بڑھتا تو شراب کے جام کھنکتے ہوئے نظر آتے۔ تو وہ اسلامک کلچر اسی کو سمجھتا۔
وہ کہاں جاتا محلہ بنی ہاشم میں اُس نیچی دیواروں والے مکان میں جس کے دروازے پر ثابت پردہ بھی نہیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں یہ کہا کہ میں ان کے اسلام کے مقابلہ میں ایک اسلام کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کردوں اور آفتاب کی روشنی میں ان کو سچے مسلمانوں کا ایک گروہ دکھا دوں اور اپنے کردار کو اتنا اونچا لے جاؤں کہ دمشق کے مینارے دب جائیں اور میرے اللہ اکبر کی صدا دنیا کے دل میں گھر کرے۔ اس کیلئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسلحہ جنگ لئے۔اگر فوجی عسکری فتح حاصل کرنا ہوتی تو قدآور جوان ساتھ لیتے، بلند وبالا قامت والے سورما ساتھ لیتے۔ مگر ان کو اس طرح کی جنگ نہیں لڑنا تھی۔
جنگ کے کتنے نمونے آپ کے سامنے ہوں گے۔فوج میں عمر کی حدیں مقر رہیں، اس سے کم عمر کا نہیں لیا جائے گا۔ اس سے زیادہ عمر کا نہیں لیا جائے گا۔ قد ناپا جاتا ہے، سینہ ناپا جاتا ہے۔ تب فوج میں لیا جاتا ہے۔ مگر امام حسین کے سپاہیوں میں نہ کم عمر کی قید نہ زیادہ عمر کی قید۔ یہاں ۷۰ برس کے حبیب ابن مظاہر بھی فوج کے سپاہی ہیں اور نابالغ بچہ قاسم بھی فوج کا سپاہی ہے۔
اور کہنے دیجئے کہ ۶ مہینے کا بچہ بھی ان کے مقصد کا بہت بڑا سپاہی ہے۔ تو اسی سے سمجھ میں آتا ہے کہ وہ جنگ انہیں نہیں لڑنا ہے۔اب ان کی فتح و شکست کو اس پیمانہ پر نہ ناپئے، انہوں نے بھی انتخاب کیا سپاہیوں کا۔ اب زیادہ تفصیل سے نہیں عرض کرنا ہے کہ سپاہی وہ لئے جو انسانیت اور اسلام کی کسوٹی بن سکیں۔ انہیں قدآور سپاہی نہیں چاہئیں۔انہیں ایسے سپاہی چاہئیں کہ کوئی حافظ قرآن ہے، کوئی عابد شب زندہ دا رہے، حبیب ابن مظاہر وہ ہیں کہ جن کے بارے میں روایت ہے کہ ایک سجدہ میں قرآن ختم کرتے تھے۔ بریر ہمدانی وہ ہیں جو
کوفے کے بچوں کو حفظ قرآن کرواتے تھے۔سیدالقراء ان کا خطاب تھا۔ ایسے ایسے سپاہی لائے ہیں۔ کیوں؟ تاکہ مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں کہ اسلام پر کے وقت پڑ گیا ہے کہ ایسے لوگ تلواریں لے کر میدان میں آگئے ہیں۔
اس کے بعد اربابِ عزا!خاندانِ رسالت کا پورا سرمایہ ہے۔ میں نے دو الفاظ کہے تھے، انسانیت اور اسلام کی کسوٹی۔ میں کہتا ہوں کہ انسان مختلف ہیں، کسی کو جوان پر رحم آتا ہے، کسی کو بچے پر رحم آتا ہے، کسی کو کسی خاتون پر رحم آجاتا ہے۔ امام اپنے ساتھ ہر نمونہ لائے تھے کہ اگر ان میں انسانیت کا کوئی شائبہ ہوگا تو کبھی جوان کے مقابلہ میں ہاتھ رُکے گا، کبھی بچے کے مقابلہ میں ہاتھ رُکے گا، کبھی کسی خاتون پر رحم آئے گا ۔ جب یہ نہیں ہوا تو دنیا سمجھ لے کہ اس اسلام کے برقع کے پیچھے کیسے لوگ چھپے ہوئے ہیں؟ اس اسلام کی نقاب کے پیچھے کون سے مسلمان ہیں؟ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کربلا کے جہاد کی نوعیت بالکل مختلف ہوگئی ۔