دینِ اسلام ۷
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰهِ الْاِسْلَامْ
)
۔
حقیقی دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔ میں نے کہا اسلام کا مطلب ہے اللہ کی مرکزیت اور اسی مرکزیت کے ماتحت توحید ہے۔”لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰه
“کی آواز اس توحید کی مظہر ہے۔صحیح طور پر ایک مسلمان کا نظامِ تمدن بھی اسی”لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰه
“کے تحت ہے اور نظامِ سیاست بھی۔ جو صحیح نظامِ سیاست ہے، وہ اسی”لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰ
ہ“ کے ماتحت ہے۔ اب ظاہر ہے کہ صرف آج کی ایک مجلس باقی ہے اس سلسلہ بیان کی اور یہ باتیں میں نے جو پیش کیں، اُن کیلئے ہر ایک کے واسطے ایک مجلس درکار تھی۔ مگر اس کی تو گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا مختصر طور پر
نظامِ تمدن۔ تمدن کے معنی ہیں آپس میں مل جل کر رہنا اور تعلقاتِ انسانی کو نبھانا۔ عقلی طور پر انسان سے سب سے زیادہ نزدیک اس کی ذات ہے۔ لہٰذا اصل مرکز محبت تو خود اپنی ہی ذات ہوگی۔ پھر اپنی ذات سے رشتے چلیں گے تو قریب کے جو رشتے قائم ہوئے، وہ یہ کہ یہ ہماری ماں، یہ ہمارا باپ۔اس میں بیچ میں کوئی فاصلہ نہیںآ یا۔ بس اپنی ذات سے جوخط کھنچا تو دوسری ذات تک جو پہنچا، وہ باپ ہے اور ماں ہے۔ اس لئے سب سے زیادہ مرکز اُلفت وہ دونوں ہستیاں ہوئیں ابتدائے عمر سے۔
اب اس کے بعد مثلاً چچا، پھوپھی، ماموں ، خالہ۔ یہاں دو واسطے بیچ میں ہوگئے یعنی میرا باپ ، میری ماں اور پھر میرے باپ کا بھائی تو وہ چچا ہوا۔ میری ماں کا بھائی تو وہ ماموں ہوا۔ میرے باپ کی بہن، وہ پھوپھی ہوئی۔ میری ماں کی بہن، وہ خالہ ہوئی۔ تو اس کا قرابت میں رشتہ ذرا سا دور ہوا۔ تو اتنا ہی فرق محبت و اُلفت میں پیدا ہوگیا۔ جتنا انسان ماں باپ سے محبت کرے گا، اُتنا تو چچا اور پھوپھی اور ماموں اور خالہ سے محبت نہیں کرے گا۔ انہی ماں باپ سے یہ خط جو پہلو میں کھنچا تھا،اس سے چچا اور پھوپھی وغیرہ ہوئے اور اسی سے جو خط اوپر گیا، اس سے دادا ہوا، باپ کا باپ۔ تو وہ ادھر جو کھنچا تو چچا ہوا، اُدھر جو کھنچا تو دادا ہوا۔ اب اس کے بعد وہ دادا کا باپ ، وہ پردادا ہوگیا۔ اب واسطے بڑھتے جارہے ہیں۔ اب سکڑ دادا تک تو کوئی عام نظام جو ہے، یعنی عمر کا معیار اس کے لحاظ سے، وہ جزوِ تاریخ بن جاتا ہے، سابقہ نہیں پڑتا سکڑ دادے سے۔
پردادا تک تو واسط پڑ جاتا ہے لیکن سکڑ دادا سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ اب جتنا جتنا خط بڑھ رہا ہے، اتنی محبت کی لہریں کمزور پڑرہی ہیں باپ کا ذکر آئے گا تو بہت سے سعادت مند بیٹوں کی آنکھوں میںآ نسو آجائیں گے۔ مگر دادا کاذکر ہوگا تو اتنی بات نہیں پید اہوگی۔ پھر پر دادا کا ذکر ہوگا تو جیسے پہلے ہنس رہے تھے، ویسے ہی اس کے بعد بھی ہنستے رہیں گے۔ کوئی فرق ہی نہیں پیداہوگا۔جتنا دور ہورہے ہیں، محبت کی لہریں گھٹ رہی ہیں۔ اب اس کے بعد جناب آٹھ پشتوں پر جاکر کوئی ہیں سلسلہ اجداد میں، وہ بھی۔ لیکن پوچھا آپ کے دادا ؟کہ جی نہیں، وہ دادا نہیں تھے، وہ ہم سب کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ لیجئے! اب وہ دادا ہونے کا بھی انکار ہوگیا۔ اب وہ مورثِ اعلیٰ باپ کے باپ کے باپ کے باپ کے، جتنے واسطے درمیان ہیں آئے، لہریں ایسی کمزور ہوئیں کہ احساسِ قرابت ہی نہ رہا۔ تو معلوم ہوا کہ اپنے سے خط کھنچا تو جتنا قریب تھا، اُتنا طاقتور ہوا، جتنا دور ہوا، اُتنا کمزور ہوا۔ اسی طرح سے جب ادھر ادھر خط کھنچے تو یہ تو احساس ہوا کہ یہ ہمارے چچا ہیں، یہ ہمارے باپ کے بھائی ۔ جب ادھر خط آیا تو ہوا کہ بھائی ہیں یعنی باپ کا بیٹا۔ وہ بھی ایک واسطے سے ہے قرابت بھائی سے کہ باپ کا بیٹا یا ماں کا بیٹا۔ تو وہ ہوگیا بھائی۔ اب اس کے بعد وہ کہے گا بھائی کا بھتیجا۔ پھر دور ہوتا چلا گیا۔تو اب کچھ نہیں ، چچا کا بھائی۔ دادا کا بھائی۔ سکڑ دادا کا بھائی۔
اب وہاں پوچھا کہ ان کی آپ کے ساتھ کیا قرابت داری تھی؟ کہا: کچھ نہیں، میرے سکڑ دادا کے بھائی ہوتے تھے۔ ان کی قرابت ہوگئی۔ یہ ہوا اپنی ذات کو بیچ میں رکھ کر جو خطوط کھینچے۔ اب اسی کی بناء پر حقوق کی تقسیم ہونے لگی۔ جب خود کسی فوائد کا مرکز بن گئے تو باپ کو زیادہ فوائد پہنچے۔ بیٹے کو فائدہ زیادہ پہنچے۔ بھائی کو فائدہ زیادہ پہنچے۔ اب اور جتنی اپنے ساتھ شراکت زیادہ ہو، پڑوسی کو فائدہ پہنچے۔ ہم قبیلہ کو فائدہ زیادہ پہنچے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نظامِ تمدن ایسا بنا جس میں کچھ کے حقوق رہ گئے ، کچھ کے حقوق ختم ہوگئے۔ اسلام بھی اس فطرت کے تقاضے کو الگ نہیں کرتا۔ اپنے سے ذات کو نہیں الگ کرسکتا۔ وہ عقلاً قریب ہے اپنے سے۔ تواسلام خلافِ عقل کوئی عمل نہیں کرتا۔مگر اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ جب تم اپنے سے خط آگے بڑھاتے ہو تو نیچی سطح پر اِدھر اُدھر کیوں لے جاتے ہو؟ یہ خط جو تمہاری ذات سے نکلے ، اس کو ایک دفعہ اوپر کی طرف لے جاؤ۔ تو اب میں ہوں اور اب تصور جب عالمِ بالا کی طرف گیا تو وہاں تھا میرا باپ، وہاں تھی میری ماں، وہاں تھا میرا بھائی۔ اب ہوگیا میں اور مَیں سے تصور آگے بڑھا تو میرا خدا، میر اپیدا کرنے والا کیونکہ باپ خود محدود شخصیت تھی، اس لئے باپ کا خط گیا تو قرابت محدود ہوئی اور یہ نقطہ جب پہنچ گیا عالمِ بالا میں تو اب لامحدودذات بیچ میں آگئی۔
لہٰذا اب جومحبت کا مرکز تقسیم کرے گا، اپنے حقوق کو تو اس میں نہ نسل کی تفریق ہوگی، نہ رنگ کی تفریق ہوگی، نہ ملک کی تفریق ہو گی۔ تو دیکھئے نظامِ تمدن میں کتنا فرق پید اہوگیا۔ اب اس کی ذات کو درمیان میں لاکررشتہ لگائے جارہے ہیں۔ تو اُس کی سب مخلوق ہیں اور اب جب اس کی سب مخلوق ہیں تو اس کے سائے میں جو تمدن پرورش پائے گا، اس میں پھر اپنی بیٹی اور کنیز میں فرق نہیں ہوگا۔
جب اپنی ذات سے خط کھینچ کر اس ذات کی طرف چلا گیا تو اب رشتے سب اُس کے لحاظ سے قائم ہورہے ہیں۔ تو اب اپنے دوست اور دشمن کی بھی کوئی تفریق نہ ہوگی، حقوقِ انسانی میں، کیونکہ وہ میرا دشمن سہی مگر میرے خدا کی مخلوق ہے۔ لہٰذا انسان حقوقِ عامہ میں دوست اور دشمن کی تفریق نہ کرے گا اور ابھی تو ابتدائے بیان ہے۔ مصائب نہیں پڑھنا ہیں۔ مگر یہ کہ یاد دلاؤں آپ کو کہ دشمن کہنا ہوتو یہی کہیں گے کہ ارے وہ تو میرا قاتل ہے۔ اب جہاں یہ مجاز حقیقت بنا ہو اہو، واقعی قاتل ہے مگر فوراً اس کا دل اپنے قاتل کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ جیسا دودھ میرے لئے لائے ہو، ویسا ہی میرے قاتل کیلئے لاؤ۔
بس اب اس سے زیادہ نہیں، امامیہ مشن لکھنو سے ایک رسالہ چھپ گیا ہے اسلامی نظامِ تمدن ،تو اس میں تفصیل سے اس کو درج کیا گیا ہے ۔اب آگے میں نے کہا کہ اسی”لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰه
“، اسی اللہ کی مرکزیت نے۔اور میں کہتا ہوں کہ اسلام کے جو لفظی مفہوم ہیں، اس کے تحت میں اسلامی صحیح سیاست ہے۔میں نے کہا تھا اسلام کے دو معنی ہیں: ایک سرنہادن بطاعت، اطاعت کے لئے سرجھکا دینا اور دوسرے
اسی کا کامل درجہ ہے، اپنے کو بالکل سپرد کردینا۔اب انسان اگر واقعی مسلم ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ سرجھکائے ہوئے ہے اللہ کے سامنے اور دوسرے معنی سے اپنے کو سپرد کئے ہوئے ہے اللہ کے۔
تو اب اللہ کے مقابلہ میں نہ اُس کی انفرادی رائے کچھ ہوگی نہ اجتماعی۔جب یہ اس بالا دست طاقت کے سامنے سرجھکائے ہوئے ہے تو اب اُس کے احکام کے مقابلہ میں یہ اپنی رائے سے کام نہیں لے گا کہ میری رائے تو یہ ہے، اس کے معنی ہیں کہ اس نے اپنے کو سپرد نہیں کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنی اطاعت کیلئے سرنہیں جھکایا۔اب اگر ایک فرد ایسا کرے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایک فرد حقیقت اسلام سے دور ہے اور پوری جماعت مل کے شوریٰ کرے اس کے خلاف تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پوری جماعت اس حقیقت اسلام سے دور ہے یعنی ”لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰ
ہ“کا لفظ زبان پر ہے مگر ذہن کے اندر نہیں ہے۔ اب پیغمبر خدا نے جو کہا تھا”لَااِلٰہَاِلَّا
اللّٰہ“کہو، اس کے معنی یہ نہیں تھے کہ تم کسی وقت کھڑے ہوکر یہ نعرہ لگالیا کرو۔تم کسی خاص وقت کے ورد کرلیا کرو”لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰ
ہ“ کا۔نماز کی تعقیبات نہیں سکھائے جارہے تھے کہ تم ہر نماز کے بعد”لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰه
“کا وظیفہ پڑھو۔ نہیں ، یہ جو کہاجارہا تھا : کہو”لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰه
“، یہ” کہو“ نہیں تھا۔یہ ویسے ہے جیسے آپ کہتے ہیں ”میراتو قول یہ ہے یعنی یہ نصب العین ہے۔ یہ لائحہ عمل ہے۔ یہ ہدفِ نگاہ ہے کہ کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے۔
تو جب کوئی خدا نہیں ہے سوائے اللہ کے تو اس کے احکام کے سوا کوئی حکم نہیں اور قرآن مجید نے صاف اعلان کردیا کہ :
”کسی صاحب ایمان مرد اور کسی صاحب ایمان عورت کو یہ حق نہیں ہے ، جب اللہ اور اُس کا رسول کوئی فیصلہ کردے تو خود اس کو اپنے معاملہ میں کوئی اختیار رہے“۔
معاملہ اپنا ہے مگر یہ کہ اختیار ان کو نہیں ہے۔ جب اللہ و رسول کا فیصلہ ہوگیا تو اب اس کے بعد ان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ اب اکیلے اکیلے بھی اختیار نہیں ، مل جل کے بھی اختیار نہیں۔ اس کو ابتدائی حساب کے طالب علموں کی زبان میں کہہ سکتا ہوں کہ میں کہتا ہوں یہ نفی ہے، اپنا ختیار کچھ نہیں۔ اختیار کچھ نہیں تو میں کہتا ہوں کہ جتنے ہزار جمع ہوجائیں، جتنے لاکھ جمع ہوجائیں،صفر جتنے بھی جمع ہوں، اس سے کوئی عدد نہیں بنتا ۔ تو مجمع کی کثرت دیکھناکیا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ جو جمع ہوئے ہیں، چاہے کتنے لاکھ ہوں، ان میں سے ہر ایک صاحب اختیار ہے کہ نہیں۔اگر ہر ایک غیر صاحب اختیارہے تو بے اختیار آدمیوں کے جمع سے اختیار کہاں سے بنے گا؟ اور اس کی بناء پر چونکہ اللہ کے احکام رسول کی زبانی دنیا تک پہنچے ہیں، اس لئے قرآن مجید نے اعلان کیا:
(
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمومنین مِنْ اَنْفُسِهِمْ
)
۔
”نبی کو مومنین پر خود ان کے نفوس سے زیادہ اختیار حاصل ہے“۔
یہ اعلانِ عام کردیا اور اسی سے رسول نے شروع ہی سے کام لینا بھی شروع کردیا۔ ارے ابھی تو بعثت ہوئی ہے۔ اعلانِ عام ہوا بھی نہیں ہے۔ حکم آیا:
(
اَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَ قَرْبِیْنَ
)
۔
اب اپنے قریبی رشتہ داروں کو پیغامِ حق پہنچائیے۔
ا س کیلئے وہ دعوتِ عشیرہ ہوئی، جمع کئے گئے۔ کہتے کہ اعلانِ رسالت کیلئے میں تمہیں بلاتا ہوں تو کون آتا؟ نہیں ، کھانے کیلئے بلایا۔ اب دنیا کو اختیار ہے ، تقیہ کہہ لے۔ کارڈ میں یہی ہے کہ مثلاً عشائیہ ہے، تشریف لائیے۔ اب جتنے ہیں، سب کھانے کی دعوت پر آگئے۔ مگر کسی دعوت میں یہ شرط نہیں ہوتی کہ سوائے کھانے کے کوئی اور بات نہیں ہوگی۔ ارے کھانا نہ کھلاتے تو وعدہ خلافی تھی۔ لیکن جب کھانا کھلا دیا تو اب بلانے والا جو اُسے کہتا ہے، اگر کچھ تو وہ کہتا بھی ہے، گفتگو بھی کرتا ہے وہ تو انگریزی میں بھی میزپر کی گفتگو۔ اس کا ایک نام ہے تو وہ جناب! اب جب کھانا کھا چکے تو اب ان کو جس مقصد کیلئے واقعی آپ نے بلایا تھا، وہ پیغام پہنچایا ۔ مگر اس وقت پوری بات نہیں سنی، کھانا تو کھا ہی چکے تھے، مطلب نکل گیا تھا۔ لہٰذا بغیر پوری بات سنے ہوئے اٹھ کر چلے گئے۔
دوسرے دن پھر آپ نے دعوت کی ، مقصد تو آج پورا نہیں ہوا تھا مگر معلوم تھا کہ کھانے کا ذوق ایسا تھا کہ پھر بھی آئے اور اب تو تجربہ کرکے آئے تھے، لہٰذا اپنے دل کو تول کر آئے تھے کہ بھئی! آج سننا بھی ہے۔ اب تو دو دفعہ کا حقِ نمک ہے۔ لہٰذا سنیں گے آج کہ پوری بات کیا کہتے ہیں؟ لہٰذا آج منتشر نہیں ہوئے، بیٹھے رہے۔ اب وہی کھانا ہوچکاجب تو پھر وہی بات شروع کی گئی:
” مجھے اللہ نے رسول بنایا ہے اور تمہاری ہدایت کیلئے بھیجا ہے۔ میرے پیش نظر ایک مہم ہے، اُس کی طرف سے“۔
اب یہاں کیونکریہ واقعاتِ اسلامی کا ایک جزو ہے، لہٰذا جزوِ تاریخ ہے۔ چونکہ ایک ارشادِ رسول اس کے تحت میں آیا ہے، لہٰذا جزوِ حدیث ہے ۔ چونکہ ایک آیت قرآن کی تعمیل میں ہوا ہے، لہٰذا جزوِ تفسیر ہے۔مفسر بھی لکھتے ہیں ، محدث بھی لکھتے ہیں،مورخ بھی لکھتے ہیں اور اب جو لفظ کہوں گا، وہ پورے مطالعہ کی ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہر جگہ وہی الفاظ ہوں گے،نہ اس میں ایک لفظ کی کمی ہوگی نہ ایک لفظ کی زیادتی ہوتی۔ وہ کیا؟ کہ آپ نے فرمایا ،جب اپنے عہدے کا اعلان فرماچکے اور جو اصل پیغام تھا، وہ پہنچا چکے اور اب یہ دیکھ لیا کہ وہاں مجمع میں اتنا سہارا ہوگیا کہ وہ بہرحال اتنا اُس نے صبرکیا۔ تو اب یہ سوال کہ:
”اَیُّکُمْ یُوَازِرُنِیْ هَذَاالْاَمْر
“۔
”تم میں سے کون اس مہم میں میرا ساتھ دیتا ہے؟“
سوال اتنے پر ختم نہیں ہوا۔ نتیجہ اس کے ساتھ ساتھ موجود ہے۔ تم میں سے کون اس مہم میں میرا ساتھ دیتا ہے؟
”حَتّٰی یَکُوْنَ وَصِیْ وَوَزِیْرِیْ وَخَلِیْفَتِیْ
“۔
”تاکہ میرا وصی ہو، میرا وزیر ہو، میرا خلیفہ ہو“۔
تابڑ توڑ تین الفاظ ہیں مسلسل۔ اب آج کے ہر روشن خیال، ہر قانون دان، کسی بھی مکتب فکر کامسلمان ہو، اُ س سے میں پوچھوں کہ جس بات کا حق جمہور کو ہو، اُس کے متعلق رسول کو معاہدے کا حق کیا ہے؟ پیغمبر خدااعلان فرمارہے ہیں اور مجمع میں سے ایک بھی بیوقوف سیاست دان نہیں ہے جو یہ کہے کہ جنابِ والا! یہ آپ کے بعد کی بات ہے۔ اِ س وقت کیوں؟ جب وہ منزل آئے گی تو پنچایت کریں گے۔ جو پنچ تجویز کردیں تو وہ ہوجائے گا۔ یہ آپ اس وقت یہ معاہدہ کیوں کررہے ہیں؟
مگر نہیں،کوئی نہیں بولتا۔ اس کے معنی ہیں کہ کافر ہیں مگر نبوت کا نام تو سنتے رہے ہیں۔ یہ جانتے ہیں ، مانتے نہ ہوں چاہے مگر جانتے ہیں کہ نبی کا وصی بھی ہمیشہ وہی مقرر کرتا ہے جو نبی کو مقرر کرے۔
تو حضورِ والا! فرمارہے ہیں کہ کون میرا ساتھ دے گا؟ اب یہاں ماشاء اللہ انگریزی دان طالب علم تو خود ان کتابوں کو براہِ راست دیکھے ہوئے ہوں گے۔ انگریز مورخین نے یہ موقعہ درج کیاہے ، بڑی مصوری کے ساتھ اپنے اندازِ تحریر میں کہ وہ ایک تیرہ برس کا بچہ کھڑا ہوگیا اور اُس نے کہا : اگرچہ میری عمر کم ہے ، میرا قد چھوٹا ہے، اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا۔
اب ماشاء اللہ قانون دان حضرات ایک پہلو پر غور کریں اور غیر قانون دان بھی اپنی عقل سے کہ رسول نتیجہ کا اعلان تو پہلے فرماچکے کہ کون میرا ساتھ دے گا۔ اب ایک نے کھڑے ہوکر کہہ دیا کہ میں ساتھ دوں گا۔ تو اگر رسول خاموش بھی رہیں تو معاہدہ مکمل۔ دھندلی نگاہوں والوں کیلئے ذرا صاف کرنا ہوتا ہے۔ خاموش بھی رہتے تو کام چل جاتا مگر نہیں، اب کہاں تو کلیہ تھا کہ جو میرا ساتھ دے، اب انہوں نے کھڑے ہوکر کہا: میں۔ تو اب کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا:
”هَذَاوَصِیُّ وَوَزِیْرِیْ وَخَلِیْفَتِیْ
“۔
اچھا! اب تم سب کو معلوم ہو کہ یہ میرا وصی ہے، یہ میرا وزیر ہے ، یہ میرا خلیفہ ہے۔
سب وہی الفاظ یہاں طے کردئیے۔ میں کہتا ہوں کہ رسول سب الفاظ کہہ چکے ہیں۔ اب کوئی الیکشن کروانا ہو تو کوئی نئے الفاظ تلاش کیجئے گا ورنہ جتنے عہدے تھے، وہ سب تو ایک کو مل گئے، جگہ ہی خالی نہیں ہے تو الیکشن کس چیز کا ہوگا؟خدا اور رسول نے اپنا اختیار صرف کردیا۔ اب قرآن کہتا ہے: جب اللہ اور رسول صرف اختیار صرف کردیں تو پھر نہ کسی مومن کو حق رہ جاتا ہے ، نہ کسی مومنہ کو۔اب ایسی کانفرنس کیجئے جس میں نہ کوئی مومن ہو، نہ کوئی مومنہ۔
میں کہتا ہوں مجمع میں سے سب ہیں، جتنےعَشِیْرَة الْاَقْرَبِیْن
ہیں، سب ہیں۔ رسول یہ اعلان فرماتے ہیں اور یہ ہوتا ہے معاملہ۔ علی اقرار کرتے ہیں اور رسول اعلان کردیتے ہیں کہ علی میرا وصی، میرا وزیر ، میرا خلیفہ۔ یہ ہوگئی بات۔اب ایک جزو تاریخ میں اور ملتا ہے اور وہ یہ کہ مجمع اب اٹھا، ہنستا ہوا اورجنابِ ابو طالب سے مذاق کرنے کی گنجائش پیدا کی ۔کہنے لگے کہ لیجئے! اپنے صاحبزادے کی اطاعت کیجئے۔
میں کہتا ہوں کافر سہی مگر یہ سمجھتے ہیں ، نکتہ رس ہیں کہ یہ آج کے اعلان میںمُفْتَرضُ الْاَطَاعة
ہونا مضمر ہے کہ یہ اطاعت واجب ہو جاتی ہے۔ اب اس کے بعد ایک تاریخی اور حدیثی، تاریخ زیادہ تر توحدیث کے اوپر بنیاد قائم کرتے ہیں کہ حضورِ والا! میں کہتا ہوں کہ آخر مجمع میں تو ابولہب بھی تھا۔ اب عباس بھی تھا۔ تھے، اب وہ بعد میں ”تھے“ ہوگئے ہیں۔ تو ابو لہب بھی تھا، عباس بھی تھے اور جتنے رشتہ دار ہیں، سب تھے۔ یہ آخر جنابِ ابو طالب ہی سے کیوں مذاق کیا اور جنابِ ابو طالب نے بھی مذاق کو سہہ لیا۔بگڑ کے یہ نہیں بولے کہ مجھ سے کیوں کہتے ہو؟ یہ نہیں کہا کہ مجھ سے کیوں کہتے ہو؟ معلوم ہوتا ہے کہ کافر سہی مگر ان سے مذاق نہیں کرتے کہ وہ تو ہم ہی میں سے ہیں۔مذاق ان سے کرتے ہیں، جانتے ہیں کہ یہ تو شامل ہوچکے ہیں اس جماعت میں۔
اب جناب! یہ اعلان ہوا محدود مجمع میں۔ عشیرة الاقربین تھے۔ بعد میں کچھ ان میں سے مرگئے، کچھ سن رسیدہ لوگ جو تھے، وہ بعد میں نہیں رہے۔دوسرے لوگ، وہ کسی کو یاد رہا ہو یا نہ یاد رہا ہو۔اب بار بار پیغمبر اسلام مختلف انداز میں اسی کی تجدیدکرتے ہیں۔
فرماتے رہے کبھی یہ ، کہ دیکھو رکوع میں کس نے انگوٹھی دی ہے؟ مگر وہ بھی ایک محدود افراد نے دیکھا جا کے کہ کس نے انگوٹھی دی ہے؟ انہوں نے کچھ دوسرے لوگوں سے بیان کردیا لیکن اب وہ وقت آیا کہ جب رسول حج آخر کر کے مدینہ جارہے ہیں اور علم الٰہی میں یہ ہے کہ اب پیغمبر دنیا میں دو تین مہینے سے زیادہ تشریف فرما نہیں رہیں گے اور یہ تو علم الٰہی میں ہے اور یہ حقیقت تاریخی ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ اتنا بڑا مجمع رسول کو نہ اس سے پہلے کبھی ملا ہے ، نہ اس کے بعد کبھی مل سکتا ہے۔ کئی لاکھ مسلمانوں کا مجمع جو اس حج میں شریک ہوا تھا، حضرت کے ساتھ، اب وہ نکل کے آرہے ہیں۔ باہر خالق بھی انتظار کررہا ہے کہ حج کے تمام مناسک ختم ہوجائیں ۔ اگر ابھی تبلیغ کا حکم آئے تو لوگوں کے اشغال الگ الگ ہیں، کوئی کہے گا ہم منیٰ میں تھے، کوئی کہے گا کہ ہم مقامِ ابراہیم میں تھے۔ غرض بہانے بہت ہیں بھولنے کے۔ لہٰذا خالق نے انتظارکیا کہ حج تمام کرکے فرصت کے ساتھ نکل آؤ۔
اب گھروں تک پہنچنے کی جلدی ہو، اب جس مقصد کیلئے سفر کھوٹا کیا جائے اورلوگوں کو روکا جائے، وہ بھول نہیں سکتے۔اب جلدی ایسی ہے کہ قافلے کے کچھ لوگ آگے جاچکے ہیں، کچھ پیچھے ہیں اور اب حکمِ الٰہی آتا ہے کہ ذرا ٹھہرئیے اور جو حکم ہورہا ہے، پہلے سے آیا ہے ، اس کی تبلیغ فرمادیجئے۔اب اگر ایسا نہ کیا تو کچھ کیا ہی نہیں۔اس کو تفصیل سے نہیں عرض کرنا ہے ورنہ جو مستقل بیان ہے ، کبھی انشاء اللہ عید غدیر قریب ہوئی اور اُس زمانے میں آنا ہوا تو تفصیل سے عرض کیا جائے گا۔
تو جو حضورِ والا!اب اعلان ہوتا ہے، رسول اتر پڑتے ہیں، اعلان ہوتا ہے کہ جو آگے بڑھ گئے ہیں، وہ پیچھے آئیں۔ جو پیچھے رہ گئے ہیں، وہ آگے بڑھیں۔ یہ ضرورت کے تحت اکٹھے کئے جارہے ہیں۔ مگر اس اعلان میں بڑی حقیقت مضمر ہے کہ یہ وہ نقطہ حق ہے جس سے آگے بڑھ کر بھی گمراہ ہوتا ہے ، پیچھے رہ کر بھی گمراہ۔ اب جناب سب رک گئے۔ سب اکٹھے ہوگئے۔ گرمی کا وقت، دوپہر۔
تاریخ طبری میں ہے کہ زمین اتنی گرم کہ عبائیں لپیٹ لپیٹ کر پیروں میں لوگ بیٹھے ، اوپر سے عرب کا سورج، وہ تپارہا ہے اور یہاں، اب وہاں کوہِ صفا تھا۔ یہاں صفا تو ہے نہیں ۔ لہٰذاپالانِ شتر کا منبر بنایا جاتا ہے اور اب خطبے کیلئے جاتے ہیں۔ وہ چند الفاظ نہیں ہیں، وہ بڑا بسیط خطبہ تھا مگر لوگوں نے اُس کے کچھ اجزاء نقل کئے، کچھ اجزاء درج کئے ۔تو بس اصل جملہ جو ہے، وہ تو متفق علیہ ہے۔ لیکن اور باقی اجزاء ، کیا کیا فرمایا؟ آپ نے خدمات بیان کیں اور بہت طولانی بسیط خطبہ تھا مگر وہ خطبہ جو پڑھ رہے ہیں،آج ایک نئی بات کی کہ ایک ہستی کو اپنے منبر پر بٹھالیا ہے۔اب آپ تو خطبہ پڑھ رہے ہیں اورلوگ باربار اس صورت کو دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیا بات ہے ، یہ کیا بات ہے اور دل میں آرہا ہے کہ ہو نہ ہو، آخر میں کچھ اُن کی نسبت۔ اب سب اجزائے خطبہ چاہے نہ سنے ہوں ، یہ جملہ تو ضرور سنیں گے۔
صورت خود بتارہی ہے، بار بار ادھر دیکھ رہے ہیں۔ یہ آج ان کو کیوں لاکے بٹھایا ہے منبر کے نیچے؟ بارباراُدھر دیکھ رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ بڑے خلوصِ دل سے آج یہ عبادت ہورہی ہے۔ اب وہ محل آیا جو اصل میں رسول کو کہنا تھا۔ تو ابھی کچھ کہتے نہیں۔ جیسے جب اعلانِ عام رسالت کا کیا تو پہلے کچھ نہیں کہا، پہلے سوال کیا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے لشکر آرہا ہے تو مانو گے یا نہیں؟انداز بتارہا ہے کہ اگر مجمع کہہ دے کہ نہیں مانیں گے تو آگے کچھ نہیں کہا جائے گا۔مگرمجمع نے جب اقرار کرلیا کہ ہم ضرور مانیں گے ، تب جو کہنا تھا، کہا۔ویسے ہی آج ابھی کچھ نہیں کہتے۔ بس یہ پوچھتے ہیں:
”اَلَسْتُ اَوْلٰی بِکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ
“۔
”کیا میں تم سب سے تمہارے نفوس پر زیادہ حقوق نہیں رکھتا؟“
تم سب سے زیادہ اختیا رکے میں تمہارے نفوس پر نہیں رکھتا ہوں؟ دیکھئے! رسالت نے سیاست کو کیسے شکنجہ پر کسا ہے۔ قرآن نے پہلے ہی صاف کہہ دیا کہ نبی مومنین پر اُن کے نفوس سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔ اب اس اصول کو تو طے کروانا نہیں ہے۔ کام بس یہ کیا کہ رسول کی جگہ مَیں کہہ دیا ہے اورمومنین کی جگہ تم کہہ دیا۔قرآن نے کہا: رسول مومنین پر اُن کے نفوس سے زیادہ حق رکھتا ہے۔
پیغمبر پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں تم پر تمہارے نفوس سے زیادہ حق رکھتا ہوں یا نہیں؟ مطلب کیا ہوا؟ مطلب ہ ہوا کہ بتاؤ میں رسول اور تم مومن ہو یا نہیں؟
اب بڑے سے بڑے دین میں جمہوریت کو صرف کرنے والے افراد مگر کریں کیا ، کیا کہیں کہ آپ رسول نہیں،تو اسلام جائے، کہیں کہ ہم مومن نہیں تو اقرارِ کفر ہو۔ لہٰذا پورا مجمع چیخ اٹھا”بلٰی“، کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ یعنی یقینا آپ کو ہم پر ، ہمارے نفوس سے زیادہ اختیار ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس پورے مجمع نے بالا جماع طے کردیا کہ رسول کو اختیار ہے ، ہمیں نہیں ہے۔اب اصولی جمہوریت کے مطابق بھی جب تک اتنا ہی بڑا مجمع کیوں نہ ہو، وہ آج کا فیصلہ مسترد نہیں کرسکتا۔
بس ماشاء اللہ اب تو آپ کے دل ایسے لگے ہوئے ہیں کہ رات گزر جائے، حالانکہ دن بھر کے آج آپ تھکے ہوئے تھے مگر یہ آپ کا ذوقِ ایمانی ہے کہ بحمدللہ، تو ایک پہلو کی طرف اور ایک جزو اور آپ کے سامنے پیش کروں گا، اس کے بعد آگے بڑھوں گا کہ حضورِ والا! بس جب اصل جملہ آیا جو کہنا ہے، مجمع نے کہہ دیا کہ ضرور آپ کو ہم پر ہم سے زیادہ اختیا رہے۔ اب جب یہ اقرار لے لیا تو وہ جس لئے بٹھایا تھا پہلو میں، اس کو دونوں ہاتھوں میں لے کر اب اونچا کیا۔ بحمدللہ فرزندانِ اسلام ہیں، مَیں کہتا ہوں کہ یہ پیغمبر اسلام کی طاقت ہے کہ جس نے خیبر کو ہاتھ پر اٹھایا، یہ اُسے اٹھائے ہوئے ہیں۔
اب میں کہتا ہوں کہ ذرا چشم تصور سے دیکھئے اور عقل سے تصور کیجئے کہ ایک بچے کو آدمی اپنے سامنے لے تو بچے کا قد چھوٹا، انسان کا جسم بڑا، لہٰذا بس تھوڑا سا جسم چھپے گا۔ لیکن ایک پورا انسان ، پورے انسان کو اپنے سامنے ہاتھوں پر لے لے تو کیا اب وہ ذات جس نے اٹھایا ہے، وہ نظر آئے گی؟ میں کہتاہوں رسول الفاظ الگ کہیں گے، اپنے عمل سے الگ ثابت کررہے ہیں کہ جب میں چھپ جاؤں تو یہ ہیں۔
بظاہر تو میں فضائل کی اس منزل پر ہوں جہاں مصائب بہت دور ہیں مگر اُن کے فضائل و مصائب ایسے دست و گریباں ہیں کہ مجھے کبھی فاصلہ نظر نہیں آتا کہ آج بابِ فضائل میں رسول نے ایک علی کو ہاتھوں پر بلند کیااورکربلا میں حسین نے ایک علی کوہاتھوں پر بلند کیا۔اب عشرئہ محرم کی مجلس ہوتی تو میں مصائب عرض کردیتا مگر یہ کہ ابھی تو آخری تاریخ ہے چہلم کی تو اس لئے میں کہتا ہوں کہ ایک علی غدیر میں رسول کے ہاتھوں کے اوپر، ایک علی کربلا میں حسین کے ہاتھوں کے اوپراور ایک علی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ، پیروں میں بیڑیاں، گلے میں طوقِ خاردار اس عالم میں جارہا ہے اور اہل عزا! عطش میں ایک بیان کرچکا کہ جو ساتویں سے پیاس شروع ہوئی تھی، وہ ختم نہیں ہوئی۔
بہ اطمینان آیا ہی نہیں پانی جو پیاس بجھے۔ ملتا رہا پانی مگر پیاس جاتی نہیں اور میرے سامنے اب ایک منزل ہے کہ زندانِ شام میں ایک دن حضرت سید الساجدین نے حضرت زینب کبریٰ کو دیکھا کہ بیٹھ کر نمازِ شب پڑھ رہی ہیں تو پوچھا کہ پھوپھی! یہ آج آپ نمازِ شب بیٹھ کر کیوں پڑھ رہی ہیں؟ فرمایا: جانے دو، کیا کرو گے پوچھ کر۔عرض کیا: نہیں، میں سمجھنا چاہتا ہوں ، جاننا چاہتا ہوں۔ ویسے وہ علم امامت الگ ہوتا ہے مگر ہمیشہ سوالات ہوتے ہیں ،دریافت کیا جاتا ہے، بتائیے ۔
کہتی ہیں: پوچھتے ہو تو سنو کہ یزید کے ہاں سے کھانا پانی اتنا کم آتا ہے کہ وہ میرے بھائی کے بچوں کیلئے کافی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اکثر میں اپنے حصے کا بھی بچوں کو کھلا دیتی ہوں تو اب اتنی طاقت نہیں رہی کہ ہر نماز کھڑے ہوکر ادا کروں۔