معراج خطابت

معراج خطابت5%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69392 / ڈاؤنلوڈ: 7095
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نام کتاب: مجالس خطیب اعظم(حصہ اول)۔
مؤلف :  مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ خطیب۔
موضوع: مجالس،
مجموعہ مجالس خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری (طاب ثراہ خطیب)
کے کتاب کی مکمل تفصیل کے علاوہ مجالس عزاء کے مختلف کتب کی مکمل سیٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔


http://alhassanain.org/urdu/?com=book&view=category&id=۸۴


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

شہید کی جو موت ہے ۲

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًابَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْن ) ۔

”جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے ہاں رزق حاصل کرتے ہیں“۔

انسان اگر پست مقاصد کیلئے جان دے گا تو یہ سنت کائنات کی مخالفت ہوگی۔ لہٰذا اس کا نام ہلاکت ہوگا۔ اُسے شہادت نہیں کہیں گے۔ شہادت اسی وقت ہے جب بلند تر مقاصد کیلئے جان دی جائے اور انسان سے بلند عالم کائنات میں کوئی نہیں ہے۔مگر یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ دنیا انسان کو نہیں سمجھی کہ انسان کیا ہے حق یقت میں شرک کی جتنی اقسام ہیں، سب انسان کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوئی ہیں۔یعنی دنیا کی باتیں انسان نے سمجھ لیں لیکن اپنے آپ کو نہ سمجھ سکا۔ اگر یہ سمجھتا کہ انسان کیا ہے تو پتھروں کے سامنے کیوں جھکتا؟ اگر یہ سمجھتا کہ انسان کیا ہے تو نباتات کے سامنے کیوں جھکتا؟اگر یہ سمجھتا کہ انسان کیا ہے تو حیوانات کے سامنے نہ جھکتا۔اور حقیقت میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے سامنے جھکنے کا مطلب انسان کے سامنے جھکنا نہیں ہے، یہ نام کو انسان کے سامنے جھکتا ہے لیکن یہ دراصل اُس دولت کے سامنے جھکتا ہے جو دوسرے انسان کے پاس ہے۔ اس شہرت کے سامنے جھکتا ہے جو دوسرے انسان کو حاصل ہے۔ اس عہدہ و منصب کے سامنے جھکتا ہے جو دوسرے انسان کے پاس ہے۔ یہ سب چیزیں انسان سے پست ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان چیزوں کی وجہ سے کسی کی عزت کی تو یہ دولت کو اپنے سے زیادہ معزز سمجھا۔ یعنی پتھروں سے خود کو نیچا سمجھا۔ اُس نے سلطنت کو اپنے سے اونچا سمجھا۔ تو حقیقت میں یہ جو شرک کی سب اقسام ہیں، وہ انسان ناشناسی کی وجہ سے ہیں۔ اگر انسان اپنے آپ کو سمجھتا تو اپنے سے بالاتر کے آگے جھکتا اور اپنے سے بالا اس کو خالق کے سوا کوئی اور نہ ملتا۔تو چاہے نام نہ لے سکتا مگر مانتا اسی کو۔ کہتا کہ میں بس اسی کو مانتا ہوں جو سب سے اونچا ہے، اسی کو مانتا ہوں جو سب کا پید اکرنے والا ہے۔ جتنا سمجھتا، اپنے الفاظ میں کہہ دیتا۔

یاد رکھئے کہ حقیقت الفاظ سے وابستہ نہیں ہے تو نجات بھی الفاظ سے وابستہ نہیں ہے۔مگر اس نے سمجھا ہی نہیں کہ میں کیا ہوں؟ تو نتیجہ یہ ہے کہ ہر چیز کے سامنے جھکنے لگا۔اسی لئے ارشاد ہوا:

مَنْ عَرِفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرِفَ رَبَّه “۔

”جس نے اپنے آپ کو پہچانا، وہ اپنے پروردگار کو بھی پہچان لے گا“۔

اس کے بہت سے رُخ ہیں، بہت سے پہلو ہیں۔کلامِ رسول کی جامعیت یہ تھی کہ الفاظ مختصر ہوتے تھے لیکن ان کے دامن میں معنی کا سمندر ہوتا تھا۔کوزہ میں سمندر سمایا ہواہوتا تھا۔ اس وقت جو مفہوم میرے بیان سے مطابقت رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر سمجھ لے کہ میں کون ہوں تو یہ سمجھ لے گا کہ میرا مالک کون ہونا چاہئے۔ میرا پروردگار کون ہوناچاہئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خود شناسی خداشناسی کا ذریعہ ہے۔اسی طرح قرآن مجید میں دیکھئے کہ اس نے جو اپنے وجود کی نشانیوں کا پتہ دیا تو ارشاد کیا کہ:

( سَنَرِیْهِمْ اٰیَاتِنَافِی الْاَ فَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِهِمْ ) ۔

”ہم اپنی نشانیاں آفاق میں اور ان کے نفوس میں دکھاتے ہیں“۔

یعنی ایک پلڑے میں تمام آفاق جس میں آسمان ، زمین ، چاند، سورج، ستارے، ثوابت و سیار سب شامل ہیں اور ایک پلڑے میں انسان۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ جو مقصد پوری کائنات سے پورا ہوتا ہے، وہ انسان کیلئے (خدا شناسی کی منزل میں) انسان سے پورا ہوتا ہے۔

دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، وہ حواس سے متعلق ہیں، مثلاً سورج چمک رہا ہے ، اس کا تعلق آنکھ سے ہے۔ نغمے خوش آئندہیں، اس کا تعلق کان سے ہے۔ پھول کی خوشبو بھینی بھینی ہے، اس کا تعلق مشام سے ہے۔ غرض جتنی آیاتِ الٰہی آفاق میں ہیں،ان سب کا تعلق احساسات سے ہے۔فرض کیجئے کہ کوئی شخص کال کوٹھڑی میں پیدا ہوا اور اسی میں عمر بھر رہاتو اگر اللہ کی نشانیاں آفاق ہی میں مضمر ہوتیں تو اس پر حجت خدا تمام نہ ہوتی۔سورج اور چاند اگر خدا کی نشانیاں ہیں تو اسے تو دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اگر پھولوں کی خوشبو میں اس کی قدرت کے نمونے ہیں تو نہ پھول اس کو نظر آئے نہ ان کی خوشبو سونگھنے کا موقع ملا۔اس طرح اس کے تمام حواس میں سے کسی کو کام کرنے کا موقع ملا ہی نہیں۔ لہٰذا حجت خدا اس پرتمام نہیں ہوتی، اس لئے ضرورت تھی کہ خدا کی ایک ایسی دلیل ہو جس کیلئے نہ دیکھنے کی ضرورت، نہ کانوں سے سننے کی ضرورت، نہ ہاتھ سے چھونے کی ضرورت۔ اور وہ انسان کا خود اپنا وجود ہے۔ آپ نے اپنے آپ کو کیا آئینے میں دیکھ کر جانا کہ میں ہوں؟ کیا اپنی آواز سن کر سمجھا کہ میں ہوں؟ کیا اپنے آپ کو چھو کرسمجھا کہ میں ہوں؟ آپ نے اپنے کو احساسات سے نہیں سمجھا ہے بلکہ وجود نے اپنی پہچان کروائی ہے۔اس کیلئے الگ سے کسی احساس کی ضرورت نہیں تھی۔

اب جس وقت نہ آنکھوں کو دیکھنے کا موقع ملے، نہ کانوں کو سننے کا موقع ملے، تمام آیاتِ الٰہی اس سے پردے میں ہیں لیکن سب سے بڑی آیت جو خود اس کا نفس ہے، وہ تو اس کے پاس موجود ہے۔ لہٰذا اس کیلئے بھی حجت خدا تمام ہوئی۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری ہدایت نہیں ہوئی۔مگر یاد رکھئے کہ اس اندر والی رہنمائی کا تعارف صرف اُدھر والے رہنماؤں نے کروایا ہے ور نہ دنیا ،جس نے عقل اور ضمی کو سمجھا ہی نہیں، جس نے دین سے عقل کو بے دخل کردیا، وہ اس باطنی رہنما کی قدر کیا جانیں؟ یہ اُدھر والے رہنما ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ:

اَلرَّسُوْلُ عَقْلٌ مِنْ ظَاهِرٍوَالْعَقْلُ مِنْ بَاطِنٍ “۔

”رسول جو ہوتا ہے، وہ عقل ہے جو سامنے دکھائی دیتا ہے اور عقل وہ رسول ہے جو اندر سے رہنمائی کرتی ہے“۔

میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کا خلاصہ میں اپنے الفاظ میں یوں کرتا ہوں کہ رہنما اگر سامنے آجائے تو رسول یا امام ہے اور پردہ میں چلا جائے تو عقل ہے۔

اسی لئے جو ہماری سب سے بڑی کتاب ہے، اس کا نام کافی ہے۔ اس کا پہلا باب عقل و علم ہے۔ اس لئے کہ جو دین کی پہلی منزل ہے یعنی اللہ ، اسکو اس وقت تک نہیں پہچانا جاسکتا جب تک عقل کو بروئے کار نہ لایا جائے، اس لئے کہ آنکھوں سے نہیں دکھائی دیتا، غیب الغیوب ہستی۔ اور یہی بات ہے جو دین سے عقل کو بے دخل کردیں گے، وہ کبھی غیب پر ایمان نہیں لائیں گے۔اس لئے کہ غیب کا تعلق مشاہدات سے ہے اور غیب پر وہی ایمان لائیں گے جو عقل کی رہنمائی کے قائل ہوں گے اور اللہ کی معرفت انہی کو ہوسکتی ہے جو غیب پر ایمان لانے کیلئے تیار ہوں کیونکہ اگر کوئی غیب پر ایمان نہیں لائے تو وہ اس ذات کو کیا سمجھے گا جو مکمل غیب ہے۔ یعنی کوئی غیب وہ ہوگا جس کو ہماری آنکھوں نے نہ دیکھا ہو لیکن ہمارے بزرگوں نے دیکھنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ آدم سے لے کر خاتم تک کسی نے نہیں کہا کہ میں نے اُسے دیکھا ہے۔ کسی کو آنکھ سے نہ دیکھیں ، خواب میں دیکھیں۔ لیکن یہ وہ ذات ہے جو خواب میں بھی کبھی نہیں دکھائی تیی۔

میں کہتا ہوں کہ خواب میں دکھائی بھی نہیں دے سکتا۔ ایک اصولِ عقلی یہ ہے کہ خواب میں وہی چیز دیکھی جاسکتی ہے جو بیداری میں دیکھی جاسکے۔ خوشبو خواب میں بھی سونگھی جائے گی، دیکھی نہیں جائے گی۔نغمہ خواب میں بھی سنا جائے گا، دیکھا نہیں جائے گا۔ جو چیز چھونے سے متعلق ہے، وہ خواب میں بھی چھونے سے سمجھ میں آئے گی۔ تو نوعیت احساس خواب میں نہیں بدلتی۔خواب میں بھی دیکھنے کی چیز دیکھی جاتی ہے، سننے کی چیز سنی جاتی ہے۔ جو ذات بیداری میں نہ دیکھنے کے قابل ہو، نہ سننے کے وابل ہو، نہ چکھنے کے قابل ہو، نہ چھونے کے قابل ہو، وہ خواب میں احساسات کی اسیر کیونکر ہوگی؟ اگر خواب میں کسی نے دیکھا ہے تو وہ نہیں ہوگا۔ مجھے معلوم ہے کہ ہمارے علاقہ میں پیدا ہونے والے نبی کی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا۔ فرماتے ہیں کہ جب میں نے خواب میں دیکھا تو قلم بڑھا دیا کہ سند دے دیجئے، ثبوت کا پروانہ دے دیجئے۔ خیر اس وقت قلم دوات دے دیا اپنے مطلب کیلئے۔ اُس کا کوئی مطلب ہوتا تو نہ دیتے۔

خیر! قلم دوات دے دئیے۔ اس نے شکریہ ادا کیا۔ اس زمانہ میں فاؤنٹین پین تو ہوتا نہیں تھا، قلم سیاہی میں ڈبویا۔ روشنائی نب میں زیادہ آگئی ،ا سے قلم کی زبان کہا کرتے تھے تو زبانِ قلم میں سیاہی زیادہ ہوگئی۔ انہوں نے قلم کو جھٹک دیا تو اتنی تمیز داری سے جھٹکا کہ چھینٹے اُن کے کرتہ پر آکر گرے۔ الفاظ میرے ہیں، مطلب ان کا ہے۔ تو چھینٹے ان کے دامن پر پڑے۔ان کی قمیص پر پڑے۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔پروانہ تو کوئی نہ تھا ، دامن پر داغ موجود تھا۔ہرسال ایک دن مقرر تھا جب اس کی زیارت کروائی جاتی تھی۔ بعض صوفیاء اور مشائخ کے ہاں بھی یہ موجود ہے کہ میں نے ستّر مرتبہ خدا کی زیارت کی لیکن میں کسی طرح بھی اس کو ممکن نہیں سمجھتا۔ وہ ذات ایسی غیب الغیوب لیکن اس کو جب تک نہ مانیں، اس وقت تک دین کی ابتدائی سطر بھی طے نہیں ہوتی۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَوَّلُ الدِّیْنِ مَعْرِفَتُه “۔

”دین کی پہلی منزل اس کو سمجھنا ہے“۔

غیب کا اگر کوئی منکر ہوتو اس کو نہ مانے گا۔ جتنی منزلیں اس کے بعد دین کی ہیں، چلئے جو سب کے نزدیک مسلّم ہیں، توحید کے بعد رسالت۔ میں کہتا ہوں کہ نبوت کو کیا آنکھوں سے دیکھ کر مانا ہے؟ کوئی کہے گا کہ ہم نے نہ سہی، جو حضرات تھے اس وقت موجود، انہوں نے دیکھ کر مانا ہے؟ میں نے کہا جوحضرات اس وقت تھے اور جنہوں نے مانا، کیاانہوں نے بھی نبوت کو دیکھا ؟روئے مبارک سامنے تھا، زلف مبارک سامنے تھی، دندان مبارک سامنے تھے۔ یہ سب چیزیں سامنے تھیں مگر رسالت سامنے نہیں تھی۔ نبوت سامنے نہ تھی۔

اور یاد رکھئے ذکر رسول یوں تو ہر طرح عبادت ہے مگر ایمان جو لانا ہے، وہ گیسوئے مبارک پر نہیں ہے، روئے مبارک پر نہیں ہے، دندان مبارک پر نہیں ہے، ایمان لانا ہے رسالت پر اور رسالت کے معنی بھیجا ہوا ہونا۔

تو جب بھیجنے والے کو نہیں دیکھا تو بھیجنا کہاں دیکھا؟ پھر جبرئیل امین کو نہیں دیکھا جو وحی لائے۔ ان کو قرآن سناتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ سب باتیں رسول کی زبان کے اعتبار پر مانیں۔انہوں نے کہا کہ جبرئیل آتے ہیں،اس لئے مانا۔ انہوں نے کہا کہ وحی اُترتی ہے، اس لئے مانا۔ آنکھوں سے دیکھ کر منوانا ہوتا تو چالیس برس کے انتظار کی ضرورت نہ تھی۔ یہ چالیس برس کے انتظار کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ پہلے زبان کا اعتبار قائم کردیا جائے تاکہ پھر جب غیب کی خبریں دوں تو دنیا ماننے کیلئے تیار ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ رسالت جس کا نام ہے، وہ بھی بغیر دیکھے مانی۔

اس کے بعد مسلمانوں سے پوچھتا ہوں کہ تیسری چیز قیامت ہے۔ تو قیامت کو کیا آنکھوں سے دیکھ کر مانا؟ اگر آنکھوں سے دیکھ لیتے تو قیامت ہو ہی نہ جاتی۔ قیامت کو بھی بغیر دیکھے مانا اور قیامت کو ماننے کے ساتھ کیا کیا مانا؟ ایک پورے کارخانہ قدرت کو مانا۔ صراط مانا، میزان مانا، نامہ اعمال کو مانا اور سب سے زیادہ دل پسند چیز بہشت کو مانا اور سب سے زیادہ خوفناک چیز دوزخ کو مانا۔یہ سب بغیر دیکھے ہوئے مانا۔ تو میں تو بڑے دردمندانہ طور پر مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ اتنی باتیں جس کے کہنے سے مان کر مسلمان ہوئے، اب ایک کو نہ مان کر اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالتے ہو؟ غیب کے ماننے کا ذریعہ صرف عقل ہے اور عقل کو اگر کوئی نہ مانے تو غیب کو ماننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ دین میں اگر عقل کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو جس کو اس نے عقل نہیں دی، ا س کو تکلیف شرعی سے بری کیوں کردیتا؟دیوانے پر حرام فعل کا گناہ، نہ اس کیلئے آخرت کی سزائیں۔ بتائیے کیوں بری کردیا ، اس لئے کہ عقل نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ دین کیلئے عقل کی ضرورت ہے۔

اس لئے جو باہر سے حقیقت میں عقل تھے، اس لئے انہوں نے ارشاد فرمایا:

لَادِیْنَ لِمَنْ لَا عَقْلَ لَه “۔

”اس کیلئے دین نہیں ہے جس کے پاس عقل نہیں ہے“۔

کافی میں ایک حدیث ہے، بطورِ تمثیل بیان کیا ہے کہ ایک عابدایک جزیرہ میں رہتا تھا۔ جزیرہ بہت سرسبزوشاداب تھا۔ دن رات عبادت کرتا تھا۔ ایک فرشتے کا اُدھر سے گزر ہوا۔ فرشتے نے جب اس کی عبادت کو دیکھا تو اس کو بہت بڑی چیز سمجھا کہ دن رات عبادت کرتا ہے۔اسے اشتیاق ہوا کہ اس کے ثواب کو میں دیکھوں کہ اسے کتنا ثواب ملے گا۔ خالق سے دعا کی، دعا مستجاب ہوئی اور اس عابد کا ثواب فرشتے کی نظروں کے سامنے آگیا۔ فرشتے نے اس کے عمل کی کثرت کا توازن کیا اور اس ثواب کو اُس کیلئے کم سمجھا۔یہ اتنی عبادت کرتا ہے اور اسے اتنا ثواب ملے گا؟ اس نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: پروردگار! (ملائکہ عالم قدس کے طالب علم ہیں، طالب علم کی سمجھ میں جو کچھ نہ آئے، اُسے اُستاد سے پوچھنے کا حق ہے) تو اُس نے عرض کی کہ پروردگار! اس کی عبادت تو اتنی عظیم ہے اور اس کا ثواب اتنا کم؟ آخر یہ کیا راز ہے؟

تو ارشادِ قدرت ہوا کہ تھوڑے دن اس کے پاس رہو، تمہیں اس کا راز معلوم ہوجائے گا۔وہ فرشتہ بصورتِ انسان اس کے پاس گیا اور اس کے برابر مصلیٰ بچھادیا۔ اس عابد کو برا معلوم ہوا کہ میری عبادت میں خلل اندازی ہوگی۔ اُس نے جب ان کی شانِ عبادت دیکھی، جب استغراق دیکھا تو جانا کہ یہ مجھ سے بالا تر عبادت کرتے ہیں۔ انہیں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اپنا رفیق سمجھنے لگے کہ یہ عبادتِ خدا میں میرا معاون ہے، مددگار ہے۔ مجھے اپنے عمل سے شوق دلاتا ہے۔جب مانوس ہوگیا تو گفتگو شروع کی کہ تمہارے لئے یہ عبادت کا کتنا موزوں مقام ہے۔ اس کی سرسبزی و شادابی کی انہوں نے تعریف کی۔

ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ بعض جانوروں کے نام کو ہم غیر شائستہ سمجھتے ہیں حالانکہ جانور سب مخلوقِ الٰہی ہیں۔ انہوں نے کہا: بے شک، بہت اچھا مقام ہے مگر یہاں ایک خرابی ہے کہ اتنی گھاس اور سبزہ بے وجہ برباد ہورہا ہے۔ ہمارے خدا کے پاس اتنے درخت ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جانور ایسا نہیں ہے جو اس سب کو چر جائے۔انہوں نے یہ سن لیا۔ وہاں تو لاسلکی ہے۔بات چیت کیلئے توقف کی ضرورت نہیں۔ اُدھر سے خطاب ہوا کہ اب کچھ سمجھ میں آیا کہ اس عبادت کا ثواب کیوں کم ہے؟

اب جس اصول کیلئے یہ واقعہ پیش کیاگیا کہ میں بقدرِ عقل ثواب دیتا ہوں۔ بس ایک اصول قائم ہوگیا۔ یہ بقدرِ عقل کیا؟عقل اصل میں سرمایہ معرفت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت بے معرفت کتنی زیادہ ہو لیکن اس میں وہ قدروقیمت نہیں جتنی عبادتِ بہ معرفت میں ہے۔یعنی مقدارِ عبادت دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، مقدارِ عبادت معیار نہیں ہے بلکہ وہ محرکاتِ عبادت جو ذہن میں پس منظر ہے عبادت کا، وہ عبادت میں وزن پیدا کرتا ہے۔ اب کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے اگر رسول ایک پلڑے میں تول کر عبادتِ ثقلین کو رکھ دیں اور ایک پلڑے میں ایک ضربت کو۔

تو جو سلسلہ کلام تھا کہ ایک پلڑے میں تمام آفاق اور ایک پلڑے میں صرف انسان کا نفس، اسی طرح ایک پلڑے میں ان کی ضربت اور ایک پلڑے میں ثقلین کی عبادت۔ ویسے ہی ایک پلڑے میں تمام کائنات اور ایک پلڑے میں انسان کا نفس۔ یعنی جس کیلئے تمام کائنات دلیلِ معرفت بننے سے قاصر ہو، اس کیلئے یہ نفس انسانی دلیلِ معرفت بنتا ہے۔ وہ ان سب کی جانشینی کرتا ہے، ان سب کی قائم مقامی کرتا ہے۔

اب ایک دوسرا پہلو عرض کرتاہوں اور وہ پہلو یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے جاننا اور ایک ہوتا ہے پہچاننا۔میری کتابیں آپ نے دیکھی ہیں، مگر اتفاق سے آپ نے کبھی میری تصویر نہیں دیکھی، نہ مجھے دیکھا تو اگر کوئی شخص آپ سے پوچھے کہ فلاں شخص کو آپ جانتے ہیں؟ آپ کہیں گے کہ جی ہاں، جانتا ہوں۔ میں نے یہ کتاب پڑھی ہے، یہ کتاب پڑھی ہے۔اگر پوچھا جائے کہ آپ پہچانتے ہیں تو فرمائیں گے کہ نہیں، مجھے کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہوا اور نہ میں نے کبھی کوئی تصویر دیکھی ہے۔لیکن اگر مجھے دیکھا ہے یا میری کوئی تصویر کبھی دیکھی ہے، اب پوچھا جائے کہ جانتے ہیں؟ جی ہاں۔ پھر تصانیف کا نام لیں گے۔ پہچانتے بھی ہیں؟ ہاں ہاں، میں نے ٹی وی پر تصویر دیکھی تھی۔فلاں جگہ مجلس پڑھتے دیکھا تھا۔

آپ نے دیکھا کہ جاننا اور ہوتا ہے جبکہ پہچاننا اور ہوتا ہے۔کائنات میں نفس انسانی کے علاوہ جتنی بھی چیزیں ہیں، وہ جاننے کا ذریعہ ہیں۔ جس طرح نقش نقاش کو بتاتا ہے ، جس طرح تصویر مصور کو بتاتی ہے، جس طرح تصنیف مصنف کو بتاتی ہے، اسی طرح کائنات کی ہر چیز خدا کو جاننے کا ذریعہ ہے۔ لیکن انسان اپنے جسم کے ساتھ تو جاننے کا ذریعہ ہے مگر اپنے نفس کے ساتھ یہ اس کے پہچاننے کا بھی ذریعہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُس نے عالم امکان میں اپنی بہت سی صفات کی اس کو جلوہ گاہ بنایا ہے۔مثلاً آپ سے میں پوچھوں کہ آپ کے اس جسم میں نفس ہے؟ آپ کہیں گے ، یقینا۔میں آپ کا ہاتھ اٹھاکر کہوں کہ اس میں ہے؟ آپ کہیں گے، نہیں۔یعنی خالی ہاتھ ہیں۔آپ سے کہوں پیر میں ہے؟ آپ کہیں گے، نہیں۔ اور اسی طرح جتنے اجزائے جسم ہیں، ایک ایک حصہ پر ہاتھ رکھ کر میں کہوں، یہاں ہے؟ آپ کہیں گے نہیں۔ اچھا تو وہ پورے جسم میں تقسیم ہے یعنی تھوڑا ہاتھ میں ہے، تھوڑا پیر میں ہے، تھوڑا آنکھوں میں ہے، تھوڑا سر میں ہے، پورے جسم میں تقسیم ہے یعنی ہاتھ کٹ گیا تو اتنا حصہ اس کا کم ہوگیا۔اگر پیٹ کٹ گیا تو ایک حصہ اس کا کم ہوگیا۔ کہیں گے، نہیں۔ تقسیم بھی نہیں۔ تو اسی جسم میں ہے اور آپ نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں ہے، نہ پورے جسم میں بتاسکتے ہیں کہ تقسیم ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ امکانی دائرہ میں لامکان ہونے کا نقشہ ہے۔

یونہی آپ اس ممکن نمونہ سے واجب نمونہ کو سمجھ لیجئے کہ وہ حجاز میں ہے، عراق میں نہیں ہے۔ مشرق میں ہے، مغرب میں نہیں ہے۔ وہ دائیں طرف ہے، بائیں طرف نہیں ہے۔ تو وہ غلط۔ یہ کہئے کہ وہ سب میں تقسیم ہے، کچھ وہاں ہے، کچھ وہاں ہے، کچھ وہاں ہے، وہ بھی غلط۔تو آپ نے دیکھا کہ یہ عالم امکان میں وجوبِ لامکانی کا نقشہ کھنچ گیا۔ راستہ چلتے میں سر میں ٹکر لگی۔ دروازہ نیچا تھا، فوراً آپ کو خبر ہوئی۔ سیتے ہوئے سوئی انگلی میں چبھی، اُسے خبر ہوئی۔ پیر میں ٹھوکر لگی یا کانٹا چبھا ، فوراً اُسے خبر ملی۔کیا کوئی مخبر گیا جس نے اطلاع دی ہو؟ اچھا کہیں جلدی خبر ہوئی ہو، کہیں دیر میں ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ عالم امکان میں یہ حاضر وناظر ہونے کا نقشہ ہے۔

جس طرح تمہارے نفس کو تعلق ہے، تمہارے چھوٹے سے جسم سے، ویسے ہی خالق کا تعلق تمام کائنات سے ہے۔ لہٰذا اُسے مغرب کی بھی خبر، مشرق کی بھی خبر۔ تہہ زمین کی بھی خبر، بالائے آسمان کی بھی خبر۔ کائنات میں جتنے اجزاء ہیںِ انہیں جاکر خبر کرنے کی ضرورت نہیں۔ رپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمام کائنات پر اس کا علم محیط ہے۔

( وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ) ۔

”ہر شے پر اس کا علم محیط ہے“۔

آپ کے جسم کے اندر اس کا نمونہ پیش کردیا۔ اِسے دنیا سمجھ لیتی ہے، اُسے نہیں سمجھتی۔ یہ دنیا کی ستم ظریفی ہے کیونکہ نفس انسانی کو امکانی حد تک اپنی صفات کی جلوہ گاہ بنایا ، اس لئے کائنات جاننے کا ذریعہ اور نفس پہچاننے کا ذریعہ۔ فرق کو محسوس کیجئے ۔ وہ عطا کرنے والا ہے، اس سے فیض حاصل کرنا پڑتا ہے۔ وہ بذاتِ خود کامل ہے، یہ اس کے کامل بنائے ہوئے ہیں۔

کوئی درجہ ہوگا کہ نفس بس آپ کا نفس رہے اور کوئی مرتبہ کمال اسی نفس انسانی اور انسان کا ہوگا کہ وہ اپنا نفس کہہ دے۔

انسان اگر انسان کی منزل کو سمجھ لے تو پھر خدا کو سمجھ لے گا۔ اور اس کو یوں کہا جائے کہ جتنا اپنے کو سمجھے گا، اُتناخدا کوسمجھے گا اور جتنا اپنے نفس کو سمجھے گا، اُتنا خدا کو سمجھے گا۔ تو وہ بلند تر نفوس جن کو اس نے اپنا نفس قرار دیا ہے،اس کی معرفت ان کی معرفت کے بغیر کیونکر ہوگی؟

اسی لئے انداز مختلف ہے، الفاظ مختلف ہیں۔ کسی اعتبار سے نفس کہہ دیا، کسی اعتبار سے وجہہ یعنی چہرہ کہہ دیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ چہرہ پہچاننے کا ذریعہ ہوتا ہے ، کوئی چادر اوڑھے ہوئے ہوں، صرف ہاتھ باہر ہوں تو شاید نہ پہچان سکیں۔ پیر باہر ہوں تو شاید نہ پہچانیں۔لیکن اگر چہرہ باہر ہے تو فوراً پہچانیں گے کہ کون ہے؟ تو چہرہ پہچاننے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ تو اس لئے ان حضرات کو کبھی وجہہ اللہ کہہ دیا گیاکہ یہ اللہ کا چہرہ ہیں اور ارشاد ہوا:

( کُلُّ شَیْ ءٍ هَالِکٌ اِلَّاوَجْهُه ) ۔

”ہر شے ہلاک ہونی ہے، فانی ہے سوائے اُس کے چہرہ کے“۔

تو اب دنیا والوں نے چہرہ کے معنی وہی سمجھے۔ جب قرآن کو لغت سے حل کیا جائے تو یہی ہوگا۔ لغت میں دیکھ کر جو معنی سمجھے تو سمجھ لیا کہ یہ چہرہ ہے۔ اور جب چہرہ ہے تو ہاتھ بھی ہیں، پیر بھی ہیں، سب کچھ ہے۔اب کیا ہوا؟ زیر سایہ اسلام جو تصور آیا ہے، قرآن کو کافی سمجھنے کا نتیجہ، قرنِ اوّل کا تصور، کسی امام کے سامنے، معصوم کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی کہ سوائے اس کے چہرے کے ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ امام سے معنی پوچھے۔ امام نے فرمایا:لوگ کیا معنی سمجھتے ہیں؟

لوگ سے مراد اس زمانہ کے علماء تھے۔ سوال کرنے والے نے کہا کہ وہ تو ایسی باتیں کرتے ہیں ، میری ہمت نہیں ہوتی کہ آپ کے سامنے نقل کرسکوں۔ آپ نے جب کہا کہ بتاؤ۔ اس پر صحابی یہ کہنے لگے کہ وہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ قیامت مدتِ دراز کے بعد آئے گی اور اتنا زمانہ گزر جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ازلی سرمدی، جس کی ابتداء کو ہم نہیں جانتے ، جان ہی نہیں کستے۔ تو امتدادِ زمانہ سے بس اللہ کا چہرہ ہی رہ جائے گا۔

اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک دفعہ ایک صاحب اپنے مقتداء کی فضیلت میں بیان کررہے تھے کہ کھڑے ہوکر جو عبادت شروع کی تو دن رات میں کبھی بھی نقل و حرکت نہیں کرتے تھے۔ برسوں گزر گئے، یہاں تک کہ سینے سے اوپرتک دیمک نے کھالیا۔ جب فضیلتیں بنائی جاتی ہیں تو ان میں ایسی ہی بد سلیقگی ہوتی ہے۔ یہ میں نے خود ایک عقیدت مند کی زبان سے سنا۔ اس بزرگ کا نام تو یاد نہیں رہا جو دیمک کے کھائے ہوئے تھے۔ یہ مشرکانہ تصور تھا۔ آپ نے ابھی دیکھا کہ قرآن کو کافی سمجھنے کا نتیجہ۔ دیمک نہ سہی، کسی طرح گھس کر سب ختم ہوجائے گا اور صرف چہرہ باقی رہ جائے گا۔ بالکل لفظی معنی کے مطابق ہے:

( کُلُّ شَیْ ءٍ هَالِکٌ اِلَّاوَجْهُه ) ۔

”ہر شے فنا ہونے والی،سوائے اس کے چہرہ کے“۔

سب ختم ہوجائے گا سوائے چہرہ کے۔ اور چہرہ ٹھہرا ہوا کس پر ہے؟ اس کا تعلق عقل سے ہے اور عقل سے کام لینا نہیں ہے۔ یعنی سوائے قرآن کے سب چیزوں کے چھوڑنے کا جو شوق ہوا ، اس میں بیچاری عقل بھی گئی۔ قرآن کافی ہے، لہٰذا عقل کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن نے ہر جگہ اپنا مفہوم سمجھنے کیلئے کہا کہ صاحبانِ عقل سمجھیں گے۔ تو جب عقل سے کام نہ لیا جائے گا تو جس کا دامن تھاما تھا، وہی دامن چھڑواکر چلا جائے گا کیونکہ خود کہہ چکا کہ یہ قرآن ان کیلئے ہے جو عقل سے کام لیں۔ اس کو شکایت یہی ہے کہ:

( اَفَلا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَفْقَالُهَا ) ۔

جیسے غصہ میں کوئی کہتا ہے، اس طرح ارشاد ہورہا ہے، جھلائے ہوئے اندا زمیں۔”یہ قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے، کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں؟“

تالے پڑے ہوئے ہیں۔ اسے شکایت یہ نہیں ہے کہ حفظ کیوں نہیں کرتے، شکایت یہ ہے کہ عقلوں سے کام کیوں نہیں لیتے؟ غور کیوں نہیں کرتے؟

حضورِ والا!امام کو اس سے اتنی تکلیف ہوئی کہ جہاں لگے ہوئے بیٹھے تھے، تشریف فرما تھے، سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ اللہ بالاتر ہے، اس سے جو یہ ظالم لوگ کہتے ہیں، بہت اونچا ہے ، برترہے اور اس کے بعد ارشادفرمایا جواصل حقیقت تھی، سننے والال اس لائق تھا کہ اسے بتایا جائے:

(نَحْنُ وَجْهُ اللّٰهِ الْبَاقِیَه

”ہم وہ چہرے ہیں جو باقی رہنے والے ہیں“۔

اب یہ ذکر آگیا ہے تو قرآن مجید کی دو آیتیں یاد آتی ہیں، دو جگہ صور پھونکنے کا ذکر ہے۔ ایک جگہ ہے:

یَوْمَ یُنْفَخُ “ ۔

صور پھونکا جائے گازمین و آسمان میں جتنے ہیںِ سب گھبرا جائیں گے۔ خوف و دہشت طاری ہوجائے گا۔ اس صور سے جو آدمیوں کے دھماکے سے خوف و دہشت طاری ہوتا ہے۔ یہ خوف اس سے مختلف ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا دھماکہ ہوگا۔خوف و دہشت طاری ہوجائے گا۔

اِلَّا مَنْ شَاءَ اللّٰهُ “۔

”سوائے ان کے جن کو اللہ چاہے“۔

معلوم ہوا کہ عام طور پر گھبراہٹ مگر اس میں استثنیٰ ہے کہ سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے۔ دوسرے صور کا ذکر وہ ہے ،سورئہ فنا جسے کہنا چاہئے۔صور پھونکا جائے گا تو جتنے آسمان اور زمین میں ہیں، سب بے حس و حرکت ہوکر گرجائیں گے۔ یہ معنی صور کے سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن وہاں بھی موجود”اِلَّا مَنْ شَاءَ اللّٰهُ “۔سوا ان کے جنہ یں اللہ چاہے۔ پہلا صور وہ تھا جس سے عالم گھبراہٹ طاری ہوجائے گی مگر نفوسِ مطمئنہ ہیں کہ ان پر اس صور کا اثر نہیں۔ دوسرا صور وہ ہے جس سے سب ختم ہوجائیں گے مگر کچھ نفوسِ باقیہ ہیں، ان پر اس صور کا بھی اثر نہیں ہوگا۔اب وہی ہستیاں ہیں جو وجہہ اللہ کی مصداق ہیں۔ وہی ”اِلَّا مَنْ شَاءَ اللّٰهُ “کے استثن یٰ کا مصداق ہیں جو ہر صور کے اثر سے مستثنیٰ ہیں۔

اب اس کے سوا تیسرے صور کا مجھے پتہ نہیں۔ تیسرا صور وہ ہے کہ جو مرگئے تھے، اُس سے وہ جی اٹھیں گے۔ تو جی کر اٹھیں گے وہی جو مرے ہوں گے۔یہی نفس ہیں بلند انسان کے جن کو اُس نے اپنی دلیل قرار دیا۔اس میں جتنا درجہ بلند ہے، جتنا نفس کامل تر ہے، اتنا ہی اس کو اپنا نفس کہہ دیا کہ یہ ہمارا نفس ہے۔ اس کے ذریعہ ہمیں پہچانا جاسکتا ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ شہداء کیلئے جو زندگانیِ جاوید کی بشارت دی گئی ہے، اس کا انحصار صرف تلوار سے شہید ہونے والوں پر نہیں ہے، اس کیلئے ایک لفظی دلیل کہ دوآیتیں ہیں حیاتِ شہداء کی”لَا تَقُوْلُوْا

اور ایک”لَا تَحْسَبَنَّ “جو م یں پیش کرچکا ہوں۔ دونوں جگہ کلمہ حصر یعنی”اِنَّمَا “نہیں ہے۔”اِنَّمَا “کلمہ حصرہوتا ہے جو قرآن مجید میں ہے:

( اَنَّمَایُرِیْدُاللّٰهُ عَنْکُمُ الرِّجْسَ ) ۔

”اِنَّمَا“سے انحصار ہوتا ہے کہ ان کے سوا اور کوئی نہیں۔ لیکن یہاں بس یہ کہا گیا کہ ان کو مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں۔ مگر یہ نہیں کہا گیا کہ بس یہی زندہ ہیں۔ کلمہ حصر”اِنَّمَا“ان میں کہیں نہیں ہیں۔ دنیا حیاتِ نبی میں اُلجھ رہی ہے کہ زندہ ہیں یا نہیں۔ قرآن مجید سے ان تمام نفوس کا زندہ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ رسول سے کیا مخصوص ہے؟ وہ تمام افراد زندہ ہیں۔ ان میں تلوار والی شہادت ایک ہی ذات کیلئے ہے۔ مگر ذاتِ جاودانی میں کم سے کم میرا ایما ن یہی ہے کہ سب شریک ہیں۔کوئی ایک نہیں جو اس حیاتِ جاودانی سے محروم ہو۔ رسول کے بارے میں دنیا بحث کرتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ شہادت ہے کیا چیز؟ شہادت پیغمبر اسلام کی ایک تعلیم پر عمل کرنے کا نام ہے۔ تو جس کی ایک تعلیم سے حیاتِ جاودانی ملتی ہو، تو جو خود مرکز فیض ہو، اُس کیلئے فنا ہوگی؟

میں کہتا ہوں کہ بے شک شہادت بہت بڑا مرتبہ سہی مگر جب رسول کی ایک تعلیم پر عمل کرنے کا نام ہے تو میں یوں کہوں گا، یہ کوئی نہ کہے کہ شہیدوں کی شان کے خلاف، ان کی شان رسول کی شان کے سامنے نہیں آسکتی۔ میں کہتا ہوں کہ جس کے دروازہ سے زندگانیِ جاوید کی بھیک تقسیم ہورہی ہو، وہ خود محرومِ زندگیِ جاوید کس طرح ہوسکتا ہے؟

میں تصور نہیں کرسکتا کہ پیغمبر اسلام اس حیات سے محروم ہوں جو شہداء کیلئے بنص قرآن ثابت ہے اور جس کے وہ بھی قائل ہیں جو حضور کی حیات کے قائل نہیں ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ حضور کی حیات معرضِ بحث میں لیکن شہیدوں کی حیات کے سب قائل۔

ایک سوال جو خواہ مخواہ کیا جاتا ہے ، وہ بھی غلط کہ جو زندئہ جاوید ہو، اس کا ماتم نہیں کرنا چاہئے۔مجھ جیسا جاہل آدمی رسول کو زندہ سمجھ رہا ہے تو کیا رسول کی بیٹی اس حقیقت سے واقف نہیں تھیں کہ میرے بابا زندئہ جاوید ہیں؟ لیکن واقعہ ہے کہ دنیا میں کوئی بیٹی باپ کواتنا نہیں روئی ہوگی جتنا سیدہ عالم اپنے باباکو روئی ہیں۔اور عالم یہ کہ نہ دن کو چین ، نہ رات کو آرام۔ گریہ سے روکنے کی ابتداء اسی وقت ہوگئی تھی مگر ذرا تمیز و بدتمیزی کا فرق تھا۔ لیکن ابتداء اسی وقت ہوگئی تھی۔ اگر محلہ کے کسی گھر میں کوئی مصیبت ہوجائے تو کہرام سے نیند تو بے چین ہوگی۔ کھانا تو خوشگوار نہیں ہوگا۔ چاہے شناسائی نہ ہو،غم وہ ہے جوغیر متعلق کو متعلق بنا دیتاہے۔خوشی میں وہی شرکت کرتا ہے جو پہلے سے شناسائی رکھتا ہو لیکن غم میں فطری طور پر وہ بھی شریک ہوجاتا ہے جس کی شناسائی نہ ہو۔

تو اگر کسی غیر کے ہاں بھی گریہ ہورہا ہو تو آپ کو ہنسنے میں دلچسپی نہیں ہوگی، قہقہے لگانے کو دل نہیں کرے گا۔باوجود اجنبی ہونے کے ایک ملال کی فضا تو آپ کے گھر میں بھی ہوجائے گی۔نہ کھانے میں مزا ہوگا ، نہ سونے میں ۔لیکن چودہ سو برس کے اخلاق کی پستی کے باوجود آج کسی کی انسانیت یہ اجازت نہیں دے گی کہ وہ گھر پر جائے اور جاکر یہ کہلوائے کہ تم لوگوں کے رونے سے ہماری نیند بے چین ہوتی ہے۔ تمہارے رونے سے ہمیں کھانے میں مزا نہیں آتا۔ آج اخلاق کی انتہائی پستی کے باوجود انسانیت ہرگز اجازت نہیں دیتی۔

لیکن میں کیا کروں کہ اس خلق عظیم اور انسانیت کے معلم کے دنیا سے اٹھنے کے ساتھ ہی آس پاس والوں نے ، جو فاطمہ زہرا کے ہمسائے تھے تو کیا وہ رسول کے ہمسائے نہیں تھے؟اس کے معنی یہ ہیں کہ پاس رہنے سے کوئی اثر نہیں ہوتا جب تک صلاحیت ظرف نہ ہو۔ اس وقت یہ مثال سامنے آتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس پورا وفد آتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سے کہئے کہ دن رات وہ گریہ کرتی ہیں تو نہ ہمیں رات کو نیند آتی ہے، نہ ہمیں کھانے پینے میں مزا ملتا ہے۔ ہماری طرف سے یہ کہئے کہ یا دن کو روئیں یا رات کو۔ یعنی ابھی تک کم از کم گریہ کے بدعت ہونے کا تصور نہیں ہوا تھا ورنہ یہی کہہ دینا کافی تھا ۔ مگریہ اپنی زحمتوں کا ذکرکر رہے ہیں کہ یا دن کو گریہ کریں، رات کو خاموش رہیں یا رات کو گریہ کریں، دن کو خاموش رہیں۔ مجھے اور آپ میں سے ہر ایک کو اس فرمائش کے سننے سے تکلیف ہوئی تو علی کے دل پر کیا گزری ہوگی؟

مگر وہ اُس امین کے جانشین تھے کہ انہوں نے اس پیغام کو پہنچانا بھی ضروری سمجھا۔ گئے اور بتقاضائے احتیاط کتنا ہی ہلکا کرکے ارشادفرمایا ہو لیکن جو اصل بات تھی ، وہ تو کہنی ہی تھی۔ پہلے تو سیدہ عالم نے یہ جواب دیا کہ ان سے کہہ دیجئے کہ تمہاری زحمتوں کی عمر طولانی نہیں ہے، مجھے میرے بابا خبر دے چکے ہیں کہ میں بہت جلد اُن کے پاس چلی جاؤں گی۔ جواب تو یہ دے دیا اور کہا کہ میں کوشش بھی کروں گی ان کی شکایت کو دور کرنے کی۔

گریہ پر بس تو نہ تھا کہ اس کیلئے اوقات کا تعین کرسکتیں مگر صبح ہوئی تو حسنین کا ہاتھ پکڑ کر جنت البقیع میں چلی جاتی تھیں۔ جنت البقیع زیادہ دور نہیں ہے۔ صرف درمیان میں بنی ہاشم کا محلہ ہے۔ حسنین کا ہاتھ پکڑ لیتی تھیں او رجنت البقیع میں چلی جاتی تھیں۔ ہوتا یہ تھا کہ ادھر فاطمہ زہرا نے رونا شروع کیا، اُدھر بچے شریک گریہ ہوگئے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر وقت مسلسل مجلس برپا رہتی تھی۔تو اس لئے سیدہ عالم نے چاہا کہ جب میں جاؤں تو میرے ساتھ جو شریک غم ہیں، جو ہم نوائے نالہ و فریاد ہیں،انہیں بھی اپنے اتھ لے جاؤں۔ اس لئے حسنین کو اپنے ساتھ لے کر جاتی تھیں اور دن بھر روتی رہتی تھیں۔شروع میں کوئی سایہ نہ تھا، زیر سایہ آفتاب بیٹھی رہتی تھیں۔ تو امیرالمومنین علیہ السلام نے ایک حجرہ بنادیا جس کا نام بیت الحزن تھا۔ جب تمام روضے جنت البقیع کے برباد ہوئے تو سیدہ عالم کی وہ یادگار بھی مسمار کردی گئی۔

شعائرِ الٰہیہ ۴

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

(”( وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَاللّٰهِ فَاِنَّهَامِنْ تَقْوَی الْقُلُوْب ) “) ۔

دو دن بغیر شعائر کے لفظ کے معنی سمجھا ئے ہوئے اور بتائے ہوئے اصولاً عبادت اور تعظیم کے فرق کا بیان ہوا۔ کل تیسرے دن شعائر کے لغوی مفہوم پر تبصرہ ہوا۔ اب آج یہ دیکھنا ہے کہ قرآن مجید نے جو حکم دیا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کرو تو خود قرآن مجید سے بھی کچھ رہنمائی ہوتی ہے کہ آخر شعائر اللہ ہوتے کیا ہیں؟ تو یہاں یہ پہلے سے پیش نظر رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید نے کہیں کوئی جامع فہرست شعائر اللہ کی بیان نہیں کی ہے۔ اگر کوئی فہرست شعائر اللہ کی بیان کردی جاتی تو پھر کوئی بھی کسی چیز کو شعائر اللہ میں سے کہتا یا بتاتا تو اُس سے اس مطالبے کا حق ہوتا ہر ایک کو کہ قرآن نے تو اس فہرست میں اس چیز کو بیان نہیں کیا ہے، یہ تم اسے کیونکر شعائر اللہ میں قرار دے رہے ہو؟ لیکن اگر قرآن مجید کے اندازِ بیان سے یہ ظاہر ہو کہ اسے شعائر اللہ کی کوئی فہرست پیش کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ انسانی ذہن کی رہنمائی کیلئے بطور مثال کچھ شعائراللہ کا تذکرہ کرنا ہے جس سے تمہیں یہ مددملے، یہ سمجھنے میں کہ کس قسم کی چیزیں شعائر اللہ ہواکرتی ہیں۔ تواس کیلئے مجھے قرآن مجید میں دو آیتیں ملتی ہیں۔ دونوں جگہ ایک ہی جیسے الفاظ ہیں جن سے ہر ایک، اس کیلئے عربی دانی کی ضرورت نہیں۔جب اس کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو اسے ہر غیر عربی دان بھی اسی طرح سمجھ سکتا ہے جس طرح کہ میں نے عرض کیا۔تو ایک آیت یہ ہے :

)( اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَة مِنْ شَعَائِرِاللّٰهِ ) ( ۔

”یقینا صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں“۔

یہ ”مِنْ “نہ ہوتا تو یہ معنی ہوتے کہ یہ دونوں شعائر اللہ ہیں۔مگر جیسے اُستاد شاگرد کو سمجھانے کیلئے دو ایک مثالیں دے دیتا ہے۔ تو ارشاد ہوتا ہے کہ صفا او رمروہ شعائر اللہ میں سے ہیں اور یہ جن جمادات میں سے ایک چیز منتخب کی، جیسے حجر اسود کے بیان میں ایک دن کہہ چکا ہوں کہ یہ بت پرستی سے بہت مشابہ تھا۔ وہ بھی پتھروں کو پوجتے تھے اور یہ بھی پتھر تھا۔مگر شباہتوں سے حقیقت کا تعلق نہیں ہوتا۔ یہ پہاڑ کیا ہوتا ہے؟ پتھروں کا مجموعہ، تو انہی جمادات میں سے ایک چیز منتخب کی اور اُسے بیان فرمایا کہ صفا او رمروہ یہ دو پہاڑیاں شعائر اللہ میں سے ہیں۔

اب دونوں آیتیں ایک ساتھ پیش کئے دیتا ہوں ۔ مگر تبصرہ الگ الگ ہوگا۔ یہ جمادات میں سے ایک قسم ، نام دو لے دئیے۔ اس کے بعد نباتات کی صنف کو چھوڑ دیا۔ نباتات کی نوع میں سے کوئی چیز مجھے نہیں ملتی جسے کہا گیا ہو۔ اب حیوانات کو لیا تو حیوانات کیلئے کہا:

)( وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهاَلَکُمْ مِنْ شَعَائِرِاللّٰهِ ) ( ۔

جو الفاظ وہاں ، وہی الفاظ یہاں۔ ”دیکھو! یہ قربانی کے جانور، یہ شعائر اللہ میں سے ہیں“۔

تو یہاں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ قربانی کے جانور شعائر اللہ ہیں بلکہ وہی الفاظ استعمال کئے گئے کہ قربانی کے جانور شعائر اللہ میں سے ہیں۔ اب ہمارے لئے دعوتِ فکر ہوگئی کہ ہم غور کریں کہ آخر صفاو مروہ میں کیا بات ہے کہ یہ دونوں شعائر اللہ میں سے ہوگئے اور یہ جانور، ان میں کیا بات ہوگئی کہ یہ شعائر اللہ میں سے ہوگئے اور ان کی تعظیم کو کہا گیا کہ تقویٰ کا جزو ہے جیسے کہا گیا کہ:

)( اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰهِ اَ تْقٰکُمْ ) ( ۔

”تم میں سب سے زیادہ عزت اُس کی ہے پیش خدا جو سب سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہو“۔

تو میں کہتا ہوں کہ دونوں کو ملائیے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ پیش خدا اس کی عزت زیادہ ہے جوشعائر اللہ کی زیادہ تعظیم کرتاہے۔

اب جناب! یہ صفا اور مروہ میں کیا خصوصیت ہے۔ابتداء سے سنتے رہے کہ کوہِ صفا اور کوہِ مروہ،کوہ کے معنی پہاڑ۔ عربی میں جبل، فارسی میں کوہ، اُردو میں پہاڑ۔ پہاڑوں سے ہمارے ذہن میں تصور عظمت جسمانی کا آیا۔پہاڑ تو پہاڑ ہی ہے۔ تو ہم سمجھے کہ کوئی اتنے اونچے پہاڑ ہوں گے کہ ان کی جسامت کے لحاظ سے اللہ نے ان کو شعائر اللہ میں سے قرار دیا۔ لیکن مجمع میں ماشاء اللہ بہت افراد ہوں گے جو فریضہ حج سے سبکدوش ہوئے ہوں یا جو عمرے کو گئے ہوں اور پھر سب نے برابر سنا ہے کہ یہ پہاڑیاں ہیں۔تو پہاڑ ہیں۔ ورنہ ہم نے جیسے جیسے پہاڑ دیکھے ہیں، اس کے لحاظ سے وہ کیا ہیں؟ ہمارے ہاں تو بعض ٹیلے اس سے زیادہ اونچے ہیں،جتنے زیادہ اونچے وہ پہاڑ ہیں۔لہٰذا اگر عظمت جسمانی کا معیار ہوتا شعائر اللہ میں سے ہونے کا تو میں تو ہندوستانی ہوں، ہمارا ہمالیہ زیادہ حقدار تھا جس کی بلندی حد معلوم کرنے کیلئے یا اس کی بلند چوٹی پر پہنچنے کیلئے آجکل دنیائے متمدن مشغول ہے اور اس کو معیار ارتقائے انسانی سمجھتی ہے ۔

تو جناب! اب وہ پہاڑیاں کیاہیں؟ جب گیا ہوں حج کیلئے تو اسی سال ڈائنامائٹ سے وہ پہاڑیاں اڑائی گئی تھیں کیونکہ میں پہلے بھی ہوائی جہاز سے گیا تو اتفاق سے سب سے پہلا جہاز جوجارہا تھا، اسی سے میں گیا تو ڈیڑھ مہینہ پہلے پہنچ گیا۔ تو جب میں گیا ہوں تو اڑائی جارہی تھیں۔ ایک طرف سے ایک حصہ باقی تھا ۔ تو شاید میں یا میرے ساتھ کے چند آدمی آخری فرد ہوں گے جو پہاڑی کی شکل میں اس پر چڑھے ہوں گے اور ان کے بعد پھر میرے ہی سامنے پھر سیڑھیاں بن گئیں۔ اب سنا ہے کہ ڈھلان ہوگئی ہے۔ وہ سیڑھیاں بھی ختم ہوگئی ہیں۔ ایسی باتوں کو کوئی نہیں سوچتا کہ یہ بدعت ہے۔ وہ تو پہاڑ پر چڑھنے کا حکم تھا، اب وہ پہاڑ رہا ہی نہیں۔ اب ان سیڑھیوں پر چڑھ کر وہ چوٹی تصور کرلی کہ آگئی۔ اونچے زینے پر چڑھ کر۔وہاں سے اس ڈھلان پر چڑھ کر وہ ہوگیا کہ جناب یہ بلندی ہے اس کی۔ ہمارے ہاں کا بڑا منبر سات زینوں کا ہوتا ہے۔ تو بس اتنی بلندی کوہِ صفا کی ہے اور اسی کیلئے کبھی ممکن ہے ، کہہ چکا ہوں کہ جب تبلیغِ عام کیلئے رسول کوہِ صفا پر تشریف لے گئے تو یہ کوہِ صفا پر جانا نہ تھا تبلیغِ رسالت کیلئے ایک منبر کی تلاش تھی۔جہاں صفا موجود تھا، وہاں اُسے منبر بنا لیا۔جہاں صفا نہ تھا، وہاں پالانِ شتر کو منبر بنالیا۔

تو اب جسامت کے لحاظ سے تو یہ ہے کہ وہ پہاڑ مجھے تو معلوم نہ ہوتا کہ پہاڑ ہے۔پہلے سے معلوم تھا کہ پہاڑ ہے تو سمجھا کہ پہاڑ ہے۔ اس کے بعد پھر وہ کیوں ہے شعائر اللہ میں سے؟ کیا(معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کے جلوہ کا ظہور کبھی اس پر ہوا ہے؟

تو حضورِ والا! ہم اُسے لامکان سمجھتے ہیں، جسم و جسمانیت سے بَری۔ کسی کو اوتار ماننا بھی شرک سمجھتے ہیں ، کسی جگہ اس کے جلوئہ ذات کا ظہور بھی ناممکن سمجھتے ہیں۔ تو یہ بات نہیں ہوسکتی کہ وہاں کبھی اس کا جلوہ نمودار ہوا ہو۔ تو پھر آخر کیا بات ہے کہ یہ پہاڑیاں شعائر اللہ میں سے ہوگئیں۔ اس کا جواب مجھے مذہب کی تاریخ سے ملا اور وہ تاریخ مذہب جو حدیث سے مرتب ہوئی کیونکہ اس دور کی باتیں تاریخ نویسوں کے حدودِ علم سے باہر ہوتی ہیں۔ ماوراء التاریخ کا دَور ہے تو اس لئے دنیا کو جو حدیثوں سے ثابت ہوتا ہو، اسی کو تاریخ ماننا پڑے گا۔

تو جناب! تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ پر توکل کرنے والی ایک بی بی ، وہ کون؟ جنابِ ہاجرہ، خلیل اللہ کی شریک حیات،جنابِ اسماعیل ان کے فرزند۔ ابھی صغر سنی کی منزل میں، دودھ پیتا ہوا بچہ اور اب یہاں دنیا کے عام الفاظ یا عام تصور یہ کہ پہلی بیوی جو تھیں، جنابِ سارہ، انہوں نے کہا کہ میں یہاں ان کا رہنا گوارہ نہیں کرتی، ان کو لے جائیے۔تو گویا بیوی کی فرمائش سے مجبور ہو کر دوسری بیوی کو لے کر نکل آئے اور ہوسکتا ہے کہ اس بیوی کی فرمائش بہانہ بن گئی ہو کسی مقصد الٰہی کی تکمیل کا کیونکہ وہ بیوی کوئی معمولی بیوی نہیں تھی۔خاندانِ رسالت سے تھی وہ بیوی اور ایسی بیوی تھی ، قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ فرشتوں نے اُسے اہل البیت کہہ کر خطاب کیا۔ بیوی اہل البیت میں داخل ہونے کے قابل نہیں ہوتی۔ اُمِ سلمہ جیسی بیوی اہل البیت میں داخل نہیں کی جاتی مگر اُسے ملائکہ نے اہل البیت کہہ کر خطاب کیا تو وہ اس لئے نہیں کہ رسول کی بیوی ہے بلکہ اس لئے کہ وہ بیت رسالت سے ہے اور کچھ خاص صفات کی حامل ہے۔ میرے پاس ان کی جلالت قدر کے شواہد احادیث سے موجود ہیں کہ جس منزل پر مثلاً جنابِ سیدہ عالم کی ولادت میں روایت ہے کہ جنابِ خدیجہ سے پیغمبر اسلام کی شریک حیات ہونے کی وجہ سے تمام خواتین مکہ نے قطع تعلق کرلیا تھا۔ تو اب ان کے ہاں ولادت ہونے والی تھی تو کوئی مکہ کی عور ت تیار نہیں تھی کہ وہ مدد کو آئے۔

تو قدرت کی طرف سے کچھ خواتین بھیجی گئیں۔ ان خواتین میں سارہ کا بھی نام ہے اور اسی طرح سے اور مواقع پر خاندانِ رسالت کے، مثلاً حورانِ جناں آئی ہیں۔ یاوہاں حوا ہیں اور ان کے ساتھ سارہ کا نام بھی ہے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ سارہ کوئی معمولی عورت نہیں تھیں۔ بلند مرتبہ خاتون تھیں۔ اسی طرح اس بلند مرتبہ فہرست میں کلثوم، خواہر موسیٰ کا نام آیا۔ یہ بھی عام طور پر معلوم نہیں عام لوگوں کو کہ کلثوم نام تھا جنابِ موسیٰ کی بہن کاتو وہ بھی ایسی ہی خواتین میں سے ہیں جوایسے محل پر آئیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ خواتین بھی وہ ہیں جو ایک طرح کی زندگی کی مالک ہیں۔ زندہ نہیں ہیں تو وہ کیونکر آئیں مدد کو۔ وہ آرہی ہیں ، مدد کررہی ہیں خالق کے حکم سے۔

تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین بھی بلند پایہ خواتین ہیں۔ ان میں سے ہیں جنابِ سارہ۔ تو بہرحال انہوں نے کہا ہو یا نہ کہا ہو، بہرحال ہے یہی کہ ان کے کہنے سے یہ گئے۔ اب یہ لے جاتے کسی شہر میں، لے جاکر پہنچاتے، مگر یہ انہیں ایک بے آب و گیاہ میدان میں لے آئے، وہ کونسا؟ جہاں کعبہ ہے اور وہاں لاکر انہیں رکھ دیا۔ ایک خاتونِ محترمہ اور ان کا ایک بچہ صغیر، ایک کوزئہ آب اور دو تین روٹیاں پاس رکھ گئے۔ وہ کہاں تک فاقہ کرتیں؟ اب یہاں ایک جملہ جو عرض کروں گا، اُس سے پتہ چلے گا کہ کیا بیوی کے کہنے سے لائے؟ جب چلنے لگے، ہاجرہ نے پوچھا: یا خلیل اللہ! کس پر چھوڑا؟ کہا: جس کے حکم سے لایا ہوں۔

چلے گئے، اب وہ روٹی ختم ہوگئی، پانی ختم ہوگیا۔ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ پہلے ماں پر پیاس کا غلبہ ہوا، بھوک او رپیاس کا اور وہ غلبہ اتنا ہوا کہ بچے کا جو فطری ذخیرئہ غذا ہے، وہ ختم ہوگیا۔ شرو ع میں بچے کی غذا روٹی نہیں ہوتی۔ تو اب جب یہ منزل پہنچی تو بچے پر پیاس کا غلبہ ہوا، بھوک کا غلبہ ہوا۔ جب تک اپنی بھوک اور پیاس رہی، برداشت کیا لیکن جب بچہ تڑپنے لگا تو اب اپنی جگہ سے اٹھیں، ممکن ذریعہ کیا تھا؟ چاروں طرف دیکھا تو کہیں پانی کا نشان نہیں۔ ایک طرف کوہِ صفا نظر آیا اور دوسری طرف کوہِ مروہ نظر آیا۔ چونکہ بلندی پر جانے سے حد نظر میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے، لہٰذا پہاڑ پر گئیں کہ کہیں تو چشمہ ہوگا اُدھر تو نظر آئے گا۔ اُدھر گئیں کہ کہیں اِدھر ہوگا تو نظر آئے گا۔ مگر وہاں ہوتا تو نظر آتا ۔کہیں دور دور تک پانی نہیں۔ اب صورتِ واقعہ یہ بتاتی ہے کہ پانی تلاش کرنے کیلئے جاتی ہیں۔ مگر پھر تصور یہ ہوتا ہے کہ بچہ اکیلا ہے تو اُتر کر آجاتی ہیں بچے کے پاس۔ پھر اس کی تڑپ دیکھی نہیں جاتی۔ تو گویا اپنی نگاہ کو جھٹلاتی ہیں کہ پھر جاؤں ، پھر دیکھوں تو چشمہ نظر آئے یا کوئی قافلہ آتا ہوا نظر آئے اتفاق سے تواس سے پانی دستیاب ہو۔

غرض سات مرتبہ گئیں صفا سے مروہ تک اور مروہ سے صفا تک۔ تو جناب! وہ عمل ان کا اللہ کو اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کیلئے جزوِ حج بنادیا۔ وہی سعی، سعی کے معنی ہیں دوڑنا۔ ظاہر ہے کہ صورتِ حال یہ ہے کہ اپنی ممکن تیز رفتاری سے چل رہی ہوں گی۔ تو وہ جزوِ حج بنادیا۔ سعی کے نام سے۔ ہر حاجی کسی بھی نقطہ نظر کا ہو لیکن حج اگر کرے گا تو وہ سعی بھی کرے گا۔ تو اب ان حاجی صاحب سے پوچھئے کہ کیا یہ بھی پیاسے ہیں؟ ان سے پوچھئے کہ کیا یہ بھی تلاشِ آب کررہے ہیں؟ تو نہ یہ پیاسے ہیں، نہ یہ تلاشِ آب کررہے ہیں۔اس کے معنی ہیں کہ اصل مقصد کا تعلق پہلے صاحب عمل سے ہوتا ہے۔ دوسرے احکام جو ہیںِ وہ اس کی یاد کو قائم رکھتے ہیں اور اگر شعوری طور پر ذہن میں اس کی یاد رہے گی تو پھر اس مقصد کی اہمیت بھی ذہن میں ضرور رہے گی جس کیلئے اس نے وہ کارنامہ انجام دیا۔تو اس کو جزوِ حج بنادیا۔

اب ایک اور پہلو کی طرف بافہم مجمع کو مخاطب کروں ، متوجہ کروں کہ وہ قادرِ مطلق جس نے بعد میں انتظام کیا، جو ابھی عرض کروں گا، وہ کیا اس پر قادر نہیں تھا کہ پہلے ہی وہ انتظام کردیتا سیرابیِ اسماعیل کا؟ کیا اسے اچھا معلوم ہوتا تھا کہ ایک فاقہ زدہ خاتون اتنی تگ و دو کرے، اتنی جدوجہد کرے مگر اسے تو قیامت تک کے افراد کو یہ سبق دینا تھا کہ جب تک سعی نہیں کرو گے، نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔ اگر دنیا چاہتے ہو تو بغیر سعی کے نہیں ملے گی اور اگر آخرت چاہتے ہو تو بغیر سعی کے نہیں ملے گی۔ صرف نعرے لگادینے سے ، صرف کچھ نام لے لینے سے یہ اُمید نہ کرو کہ بہتر سے بہتر نتیجہ مل جائے گا۔اس کی راہ میں جدوجہدبھی کرنا ہوگی۔

صورتِ واقعہ یہ بتاتی ہے کہ یہ ہم تروتازہ جاتے ہیں، سات دفعہ چکر لگاتے ہیں۔ تھوڑا سا تھک جاتے ہیں۔چہ جائیکہ وہ بی بی جو نہ جانے کتنے دن سے بھوکی تھی اور کتنے دن سے پیاسی تھی۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ امکانی طاقت اتنی ہی تھی۔ اب جیسے تھکن سے چور ہوگئی تھیں اور اب جیسے کچھ نااُمید سی ہوگئی تھیں۔ تو بس جہاں انسانی طاقت ختم ہوئی، وہاں سے خدا کی قدرت شروع ہوئی۔ بس اب ساتویں دفعہ کے بعد جو پلٹیں تو دیکھا کہ جہاں بچہ ریت پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے، وہیں سے پانی اُبل رہا ہے۔ اب یہ تفصیل توقرآن مجید میں نہیں ہے، روایتوں میں ہے۔ اب خلافِ توقع، خلافِ اُمید ایسی مایوسی کے عالم میں پانی نظر آرہا ہے تواب یہ انسانی تصور کی کمزوری ہے۔ اضطراب ہے کہ پانی چلا نہ جائے تو اپنی زبان سے کہا کہ ”زم زم“، یعنی تھم تھم۔ روایت بتاتی ہے کہ اگر زم زم نہ کہا ہوتا تو نہ جانے کہاں تک نہر بن کر جاتا کیونکہ اللہ کی خاص خاتون جو اس کے ہاں مقبول تھی، اس نے زم زم کہہ دیا تو گویا پانی اس کی اطاعت کررہا ہے۔ اب وہ وہیں رُک گیا۔ کنواں کہا جانے لگا۔ چاہِ زمزم ہوگیا ورنہ وہ چشمہ زمزم ہوتایا نہر زم زم ہوتی۔ خصوصیت زمزم کی کیا ہے؟ ماشاء اللہ حجاج کرام اندازہ کرسکتے ہیں، جو نہیں گئے ہیں، انہوں نے سنا ہوگا۔ اب تو سنا ہے کہ کچھ ایسا کردیا ہے کہ بند ہوگیا ہے، وہاں تک رسائی ہی نہیں ہے۔ لیکن جب تک رسائی تھی، اس وقت تک وہ لاکھوں آدمی، لاکھوں سے کم تو بحمدللہ مردم شماری ہوتی ہی نہیں حاجیوں کی۔ تو وہ لاکھوں آدمی پیتے ہیں ہر وقت، سقّے مشکیں بھرے ہوئے زمزم کا پانی پلاتے پھرتے ہیں جس کے پیسے وہ وصول کرتے ہیں اور لوگ اس زمانہ میں اب نہیں کرسکتے ہوں گے۔ اپنے کپڑے دھوتے ہیں، چادریں دھودھو کر لے جاتے ہیں اس سے۔ کفن اس سے دھوتے ہیں۔ دنیا والی چادریں بھی اور عقبیٰ والی چادریں بھی اور ڈبوں میں ، مشکوں میں جتنا ظرف ہو جس کے پاس، اتنا پانی ہر ایک بھر لیتا ہے۔ لیکن کبھی سننے میں نہیں آیا کہ زمزم نے بخل کیا ہو۔ کسی وقت سنا ہو کہ زمزم خشک ہوگیا۔

اب وہ پانی اس میں سے نہیں نکل رہا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ عالم امکان میں اللہ تعالیٰ نے نقشہ پیش کردیا ہے اپنے خزانہ عطا کا کہ یہ میرا مخلوق ایک چشمہ فیض ہے کہ اس میں سے جتنا لو گے، وہ دے گا۔ اس میں کمی نہیں ہوگی۔ تو میرا خزانہ عطا کہاں ختم ہوتا ہے۔ تو یہ ہے بس جو تاریخ مذہب سے ہمیں ملی۔

اب ہر صاحب فہم غور کرے کہ کوئی روایت نہیں بتاتی کہ جنابِ ہاجرہ کے پیر سے خون کا کوئی قطرہ اس زمین پر گر گیا ہومگر اللہ کی راہ میں جو چلی بھی تو اس بی بی کے قدم سے تھوڑی دیر کیلئے جو پہاڑیاں مس ہوگئیں ، وہ شعائر اللہ میں داخل ہوگئیں بنص قرآن۔ تو برائے خدا بتائیے کہ وہ زمین جہاں شہیدوں کا خون جذب ہوجائے، ہم اگر اُسے خاکِ پاک کہیں اور اس کا احترام کریں تو اُسے شرک کہا جائے؟ اگر وہ پہاڑیاں شعائر اللہ میں ہوسکتی ہیں تو پھر کربلا کی زمین بھی شعائر اللہ میں سے ہم کہیں تو اُسے قبول کیجئے۔

اس کے بعد وہ دوسری آیت میں نے پڑھی تھی:

)( وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهاَلَکُمْ مِنْ شَعَائِرِاللّٰهِ ) ( ۔

”وہ جانور کون جو قربانی کیلئے رکھے گئے ہیں، وہ شعائر اللہ میں سے ہیں“۔

اب اسی ترجمہ سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ابھی وہ قربان ہوئے نہیں ہیں مگر چونکہ قربانی کی نیت سے وہ رکھے گئے ہیں، اسی غرض سے وہ ساتھ رکھے گئے ہیں، لہٰذا بحالت حیات بھی وہ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ بس اب عقل سے کام لیجئے اور یاد رکھئے کہ دین انہی کے لئے ہے جن کے پاس عقل ہو۔ وہ کوئی اور مذاہب ہوں گے جو عقل کے اوپر پہرے لگاتے ہیں۔ قرآن تو ہر جگہ صاحب عقل کو پکارتا ہے۔ارے بے عقلوں کو تو اس نے تکلیف شرعی سے ہی بری کردیا ہے۔مگر فطری طور پر بے عقل ہو، جان بوجھ کر بے عقل نہ ہو۔ ان کے خلاف وہ عقل ہی حجت ہوگی۔ عقل رکھتے تھے مگر تم نے عقل سے کام نہ لیا۔ تو اب دیکھئے کہ حیوان جو راہِ خدا میں خدا کے حکم سے یعنی حج کی راہ میں ہیں، لہٰذا راہِ خدا ہی کہہ سکتے ہیں۔اس کا قربانی کا حکم ہے، لہٰذا حکمِ خدا ہی ہوا۔حکمِ خدا سے قربان کرنے کیلئے ساتھ رکھے گئے ہوں تو وہ اپنی حیات میں بھی شعائر اللہ ہیں اور اسی سے سمجھ میں آئے گا کہ جب قربانی ہوجائے ، تب بھی وہ قابل احترام ہیں، شعائر اللہ ہیں۔

تو بتائیے حیوان راہِ خدا میں بحالت حیات شعائر اللہ ہوں تو وہ انسان جو راہِ خدا میں قربان ہوجائیں، وہ انسان شعائر اللہ میں نہ ہوں گے؟ ان کی تعظیم کیجئے تو شرک ہوجائے ، جانوروں کی تعظیم خدا کا حکم ہے اور انسانوں کی تعظیم شرک قرار پائے، جنہوں نے اپنی پوری زندگیاں راہِ خدا میں قربان کردی ہوں ۔

ماشاء اللہ صاحبانِ فہم ہیں، ذرا غور کیجئے جو میں عرض کررہا ہوں کہ شہید ہونا اپنے اختیار کی بات نہیں ہے ۔شہید ہونا قسمت سے وابستہ ہے۔ اپنے اختیار کی بات تو میدانِ جنگ میں جمے رہنا ہے۔ تو حضور! وہ جانور شعائر اللہ ہوں اور انسان شعائر اللہ نہ ہوں۔ میں نے کہا کہ وہ جانور ابھی ذبح نہ ہوئے ہوں، بحالت حیات شعائر اللہ ، تو اب نتیجہ نکالئے ، اگر عقل ہو تو پھر وہ انسان جو راہِ خدا میں قربان ہونے والے ہوں، وہ بعد شہادت ہی شعائر اللہ نہیں ہیں بلکہ وقت ولادت ہی سے شعائر اللہ ہیں اور اس کے بعد آپ کے جانے پہچانے ہوئے واقعات سب کے ہاں ہیں کہ رسول اللہ بچوں کے بوسے لیتے تھے۔

بلاشبہ ہے، روایت، وہ میں اب نہیں سمجھ سکتا اور فیصلہ نہیں کرسکتا کہ یہ بچوں سے محبت تھی یا شعائر اللہ کا احترام تھا۔ فیصلہ یہ نہیں کرسکتا، اس لئے کہ دین اسلام دین فطرت ہے۔ لہٰذا بچوں سے محبت بھی کوئی خلافِ شان با ت نہیں ہے۔بچوں سے محبت کرنا بھی منظورِ قدرت ہے۔ ہمیں بھی اپنے بچوں سے محبت ہونی چاہئے ۔ تو خلافِ شان ہوتا تو میں شک کا اظہار نہ کرتا، یقین کے ساتھ تو میں فیصلہ نہیں کرسکتا کہ یہ بچوں کی محبت ہے یا شعائر اللہ کا احترام ، مگر اب جو روایتیں گوشِ زد ہیں اور آپ کے بھی گوش زد ہیں او رمیری نظر سے بھی کتابوں میں گزری ہیں، ان کے پیش نظر ابھی تک تو میں شک کا اظہار کررہا تھا لیکن اب میں اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ نہیں، بچوں کی محبت محرکِ بوسہ نہ تھی بلکہ شعائراللہ کا احترام ہی مد نظر تھا۔

اس کا ثبوت کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اگر بچوں کی محبت ہو تو پیشانی بھی اپنے بچے کی ہے، رخسارے بھی اپنے بچے کے ہیں، ہاتھ بھی اپنے بچے کے ہیں، سینہ بھی اپنے بچے کا ہے۔ مگر کیا بات ہے کہ جب بوسے لیتے ہیں تو ایک کے دہن کے بوسے لیتے ہیں اور ایک کے گلے کے بوسے لیتے ہیں؟ میں پوری ضمانت کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ سند کیسی ہے ، کس درجہ کی روایت ہے مگر بہرحال یہ روایت آپ نے سنی ہوگی کہ بعض وقت بچے کو ذرا یہ بات محسوس ہوئی۔ یہ آپ نے سنا ہوگا۔ ایک دفعہ سیدہ عالم کے پاس گئے اور یہ کہا کہ مادرِ گرامی ! ذرا دیکھئے ہمارے منہ سے کیا بدبو آتی ہے؟

سیدہ عالم نے کہا کہ تمہیں یہ تصور کیوں ہوا؟ تمہارے دہن سے تو مشک و عنبر سے بہتر خوشبو آتی ہے۔ یہ تم پوچھ ہی کیوں رہے ہو؟ تو کہا: بس اس لئے پوچھ رہے ہیں کہ ہم بھی نانا کی گود میں ہوتے ہیں اور جب ہماری باری آتی ہے تو ہم اپنا دہن بڑھاتے بھی ہیں تو نانا ہمارے منہ کو ہٹا کر گلے کے بوسے لے لیتے ہیں۔

سیدہ عالم حقیقت سے تو واقف تھیں مگر فرمایا کہ چلو، تمہیں تمہارے نانا جان سے ابھی پوچھ دیتی ہوں۔حسین کو ساتھ لیا اورآئیں بابا کی خدمت میں اور ممکن ہے بالکل الفاظ نہ ہوں۔اُس دن نقل بالمعنی کے متعلق عرض کرچکا ہوں۔ حقیقت حال وہی ہواور ممکن ہے کہ الفاظ ہمارے ہوں کہ وہ سیدہ عالم نے جیسے فرمایا کہ بابا جان! آپ ہی تو کہتے ہیں کہ حسین کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے ، مگر کیا بات ہے کہ آپ ہی کے عمل سے کوئی بات ایسی ہوجائے کہ اس کی آنکھیں اشک آلود ہوجائیں؟

فرمایا: کیوں، کیا ہوا؟ کہا: اس نے ابھی جاکر مجھ سے یہ کہا ہے۔

تو میں تو محسوس کرتا ہوں کہ رسول نے فرمایا ہو کہ ارے فاطمہ ! جانے دو، سن کر کیا کرو گی؟ انہوں نے کہا ہو کہ نہیں، میں تو چاہتی ہوں اس کو اطمینان دلانا۔ فرمایا: تو پھر سنو کہ حسن کے لب کے بوسے لیتا ہوں، اس لئے کہ زہردغا متصل ہے اس کے لبوں سے۔ اس کے گلے کے بوسے لیتا ہوں، اس لئے کہ خنجر جفا متصل ہے اس کے گلے سے۔

بس! اس روایت سے سمجھ میں یہی آتا ہے کہ وہی قربانی پیش نظر ہے جس کی بناء پر بوسے لے رہے ہیں۔ اور اب یہ سلسلہ برابر قائم ہے۔ یہ بھی روایت میں ہے کہ حسین آتے ہیں اور رسول فرماتے ہیں کہ یا علی ! ذرا پیرہن اٹھاؤ، حسین کے جسم سے۔

جناب شیخ جعفر شستری  نے لکھا ہے ”خصائص حسینیہ“ میں، پیرہن اٹھاتے ہیں، اب جابجا رسول بوسے لیتے ہیں اور علی بھی کہتے ہیں: یا رسول اللہ! یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ فرماتے ہیں:

اُقَبِّلُ مَوَاضِعَ السُّیُوْفِ وَاَبْکِیْ “۔

”جہاں جہاں تلواریں پڑیں گی، وہاں وہاں بوسے لے رہا ہوں“۔

اب وہ تو ہر دن کچھ نہ کچھ اس سلسلہ میں عرض کرنا ہے کہ ہمارے گروہ پر مختلف سوالات ہوتے رہتے ہیں تو ان میں سے ایک یہ سوال بہت بڑا ہے جسے ایک شاعر نے کہا کہ زندہ کو رویا جاتا ہے۔

روئیں وہ جو قائل ہوں مماتِ شہداء کے

ہم زندئہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے

یہ گویا بہت مشہور شعر ہے ۔ تو میں کہتا ہوں کہ ہم سے تو بعد میں پوچھنا چاہئے۔ وہ بچہ جب پیدا ہوا اور رسول کی گود میں لاکر دیا گیا ، اسی وقت پیغمبر اسلام کی آنکھوں میں آنسوآگئے اور گریہ فرمانے لگے۔ تو کسی نے کہا کہ رسول اللہ! یہ تو خوش ہونے کا موقع ہے، آپ رو کیوں رہے ہیں؟ آپ فرماتے ہیں: تمہیں نہیں معلوم اس پر مصائب کیا پڑیں گے؟ تو میں کہتا ہوں کہ ہم سے آپ پوچھ رہے ہیں کہ زندہ کو کیوں روتے ہو؟ اسی وقت رسول اللہ سے یہ پوچھتے کہ زندہ کو کیوں رو رہے ہیں؟ ارے یہ زندگی تو عالمِ معنی کی ہے، آنکھوں کے سامنے والی زندگی نہیں ہے اور وہ تو اس وقت حیاتِ عنصری کے ساتھ ،سانس لیتی ہوئی زندگی کے ساتھ رسول کی گود میں تھے اور اس کے باوجود رسول گریہ فرما رہے تھے۔

تو اب تو سمجھے کہ گریہ موت پر نہیں ہوتا، مصائب پر ہوتا ہے۔اگر پیغمبر خدا کو اس کی زندگی میں رونے کا حق تھا تو ہمیں اس

نوعِ زندگی میں رونے کا حق ہے۔ یہ کیا کہ زندہ کاماتم نہیں ہوتا، زندہ کو رویا نہیں جاتا۔ میں کہتا ہوں کہ جنابِ یوسف بھی تو زندہ تھے اور روایت کی بات نہیں ہے، نص قرآن کی بات ہے۔ قرآن سے ثابت ہے کہ انہیں اطلاع مل گئی تھی کہ زندہ ہیں، بعد میں کہا کہ جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ تو بتایا جاچکا تھا انہیں کہ زندہ ہیں اور اس کے بعد کتنا روئے ہیں۔

)( اَبْیَضَّتْ عَیْنَاهُ ) ( ۔

”آنکھیں سفید ہوگئیں روتے روتے“۔

اب وہ ہر وقت رنج و غم سے خامو ش رہتے تھے۔ معلوم ہے کہ زندہ ہیں۔ تو یہ نہیں کہ مرنے کا غم ہوتا، جدائی کا بھی غم ہوتا ہے۔ مصائب پر بھی رونا ہوتا ہے۔ مختلف صورتیں ہیں گریہ کی۔ اب جو چیز عرض کررہا ہوں، وہ چاہے مختصر ہو مگر آپ کیلئے بڑے مرثیے کے برابر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ عقلی اصول کے لحاظ سے(میں کہیں عقل کا دامن نہیں چھوڑتا)، کہ اگر ایک بھائی کے لب شعائر اللہ ہیں ، ایک بھائی کی گردن شعائر اللہ میں داخل ہے تو ماننا پڑے گا کہ ایک بہن کے بازو بھی شعائر اللہ میں سے ہیں اور وہ بھی بابِ مصائب میں جو روایات بیان ہوتی ہیں، اس میں ضمانت نہیں ہوتی صحت سند کی۔ بس کتاب میں ہوں۔ہاں! وہ چیز روا نہیں ہے کہ منبر پر جاکر بروقت تصنیف ہو۔

گویا ایک چیز جس کا کہیں وجود نہ ہو اور میں نے تو دیکھا کہ زیادہ تر یہی ہوتا ہے ، اس کیلئے کوئی وجہ جواز نہیں بلکہ وہ”( اِفْتَرَاعَلَی اللّٰهَ وَالرَّسُوْل ) “م یں داخل ہے، جو اگر حالت روزہ ہو تو روزے کو باطل کردیتی ہے۔ تو وہ حدیث کربلا میں بیان ہوئی ہے اور بڑے سخت وقت میں بیان ہوئی ہے۔


24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40